حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ وَأَكْثَرُ مَا كَانَ يَقُولُ: وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے، اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے (تو بھی اسی طرح کرتے)، اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد بھی۔ سفیان نے ("اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد بھی" کے بجائے) ایک مرتبہ یوں نقل کیا: "اور جب آپ اپنا سر اٹھاتے"، اور زیادہ تر سفیان نے: "رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد" کے الفاظ ہی کی روایت کی ہے، اور آپ دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۳ (۷۳۵)، ۸۴ (۷۳۶)، ۸۵ (۷۳۸)، ۸۶ (۷۳۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۹ (۳۹۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۷۶ (۲۵۵، ۲۵۶)، سنن النسائی/الافتتاح ۱ (۸۷۵)، ۸۶ (۱۰۲۶)، والتطبیق ۱۹ (۱۰۵۸)، ۲۱ (۱۰۶۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵ (۸۵۸)، موطا امام مالک/الصلاة ۴(۱۶)، مسند احمد (۲ /۸، ۱۸، ۴۴، ۴۵، ۴۷، ۶۲، ۱۰۰، ۱۴۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۴۱ (۱۲۸۵)، ۷۱ (۱۳۴۷)، (تحفة الأشراف: ۶۸۱۶، ۶۸۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ، وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى تَكُونَ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، یہاں تک کہ وہ آپ کے دونوں کندھوں کے مقابل ہو جاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم «الله أكبر» کہتے، اور وہ دونوں ہاتھ اسی طرح ہوتے، پھر رکوع کرتے، پھر جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھانے کا ارادہ کرتے تو بھی ان دونوں کو اٹھاتے (رفع یدین کرتے)یہاں تک کہ وہ آپ کے کندھوں کے بالمقابل ہو جاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم «سمع الله لمن حمده» کہتے، اور سجدے میں اپنے دونوں ہاتھ نہ اٹھاتے، اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہو جاتی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۶۸۱۶، ۶۹۲۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، حَدَّثَنِيعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا لَا أَعْقِلُ صَلَاةَ أَبِي، قَالَ: فَحَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ حُجْر، قَالَ: "صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ، قَالَ: ثُمَّ الْتَحَفَ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ وَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي ثَوْبِهِ، قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ سَجَدَ وَوَضَعَ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ أَيْضًا رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ"، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، فَقَالَ: هِيَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلَهُ مَنْ فَعَلَهُ وَتَرَكَهُ مَنْ تَرَكَهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هَمَّامٌ، عَنْ ابْنِ جُحَادَةَ، لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ مَعَ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُودِ.
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے تکبیر (تحریمہ) کہی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا، اور انہیں اپنے کپڑے میں داخل کر لیا، جب آپ نے رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ (چادر سے) نکالے پھر رفع یدین کیا، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھانے کا ارادہ کیا تو رفع یدین کیا، پھر سجدہ کیا اور اپنی پیشانی کو دونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں رکھا، اور جب سجدے سے اپنا سر اٹھایا تو رفع یدین ۱؎ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے۔ محمد کہتے ہیں: میں نے حسن بصری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، کرنے والوں نے ایسا ہی کیا اور چھوڑنے والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ أبوداود کہتے ہیں: اس حدیث کو ہمام نے بھی ابن جحادہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۵ (۴۰۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۷۴، ۱۱۷۸۸)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح ۱۱ (۸۹۰)، الافتتاح ۱۳۹ (۱۱۰۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۳ (۸۱۰)، مسند احمد (۴/۳۱۷، ۳۱۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۵ (۱۲۱۷)، ۹۲ (۱۳۹۷) (ولیس عند أحد ذکر رفع الیدین مع الرفع من السجود) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مؤلف کے سوا کسی کے یہاں بھی سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں ہے، اکثر علماء کے نزدیک مؤلف کی یہ روایت منسوخ ہے۔
حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، "أَنَّهُ أَبْصَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى كَانَتَا بِحِيَالِ مَنْكِبَيْهِ وَحَاذَى بِإِبْهَامَيْهِ أُذُنَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ دونوں مونڈھوں کے بالمقابل ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے بالمقابل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۱) (ضعیف) (عبدالجبار کی اپنے والد سے روایت ثابت نہیں ہے، نیز«کبر» کا لفظ منکر ہے، کیونکہ تکبیر رفع الیدین کے پہلے ہوگی یا ساتھ میں، رفع الیدین کے بعد نہیں جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ، حَدَّثَنِي أَهْلُ بَيْتِي، عَنْأَبِي، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، أَنَّهُ"رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ التَّكْبِيرَةِ".
عبدالجبار بن وائل کہتے ہیں: مجھ سے میرے گھر والوں نے بیان کیا کہ میرے والد نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکبیر کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، قَالَ: "فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَكَبَّرَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا سَجَدَ وَضَعَ رَأْسَهُ بِذَلِكَ الْمَنْزِلِ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً، وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا: وَحَلَّقَ بِشْرٌ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز ادا کرتے ہیں؟ (میں نے دیکھا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور آپ نے "اللہ اکبر" کہا، پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ وہ دونوں کانوں کے بالمقابل ہو گئے، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کا ارادہ کیا تو بھی اسی طرح ہاتھوں کو اٹھایا، پھر دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے، پھر رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی انہیں اسی طرح اٹھایا، پھر جب سجدہ کیا تو اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ اس جگہ پہ رکھا، پھر بیٹھے تو اپنا بایاں پیر بچھایا، اور بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کو داہنی ران سے جدا رکھا اور دونوں انگلیوں (خنصر، بنصر) کو بند کر لیا اور دائرہ بنا لیا (یعنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) ۔ بشر بن مفضل بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے شیخ عاصم بن کلیب کو دیکھا وہ اسی طرح کرتے تھے، اور بشر نے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا دائرہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/ الافتتاح ۱۱ (۸۹۰)، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ۳ (۸۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۶، ۳۱۷، ۳۱۸، ۳۱۹) (صحیح) ویأتی ہذا الحدیث عند المؤلف برقم (۹۵۷)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ: وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَاب
عاصم بن کلیب نے اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت پہنچے اور کلائی پر رکھا، اس میں یہ بھی ہے کہ پھر میں سخت سردی کے زمانہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو بہت زیادہ کپڑے پہنے ہوئے دیکھا، ان کے ہاتھ کپڑوں کے اندر ہلتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِيَالَ أُذُنَيْهِ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُهُمْ فَرَأَيْتُهُمْ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَى صُدُورِهِمْ فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ وَعَلَيْهِمْ بَرَانِسُ وَأَكْسِيَةٌ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے بالمقابل اٹھایا، پھر میں (ایک زمانہ کے بعد) لوگوں کے پاس آیا تو میں نے انہیں دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ اپنے سینوں تک اٹھاتے اور حال یہ ہوتا کہ ان پر جبے اور چادریں ہوتیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/ السہو ۳۱ (۱۲۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: "أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّتَاءِ، فَرَأَيْتُ أَصْحَابَهُ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي ثِيَابِهِمْ فِي الصَّلَاةِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں سردی کے موسم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ نماز میں (سردی کی وجہ سے) اپنے کپڑوں کے اندر ہی رفع یدین کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ فَوَاللَّهِ ؟ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ"، قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبدالحمید بن جعفر کہتے ہیں کہ مجھے محمد بن عمرو بن عطاء نے خبر دی ہے کہ میں نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کرام کے درمیان جن میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے کہتے سنا: میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: وہ کیسے؟ اللہ کی قسم آپ ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے، نہ ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے) اس پر لوگوں نے کہا: (اگر آپ زیادہ جانتے ہیں) تو پیش کیجئیے۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر سیدھی ہو جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآت کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کر لیتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور رکوع میں پیٹھ اور سر سیدھا رکھتے، سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ ہی پیٹھ سے بلند رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور «سمع الله لمن حمده» کہتے، پھر اپنا دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ سیدھا ہو کر انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کرتے پھر «الله أكبر» کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور اپنے بائیں پیر کو موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں پیر کی انگلیوں کو نرم رکھتے اور (دوسرا) سجدہ کرتے پھر «الله أكبر» کہتے اور (دوسرے سجدہ سے) اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر واپس آ جاتی، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو «الله أكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے جس طرح کہ نماز شروع کرنے کے وقت «الله أكبر» کہا تھا، پھر اپنی بقیہ نماز میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب اس سجدہ سے فارغ ہوتے جس میں سلام پھیرنا ہوتا، تو اپنے بائیں پیر کو اپنے داہنے پیر کے نیچے سے نکال کر اپنی بائیں سرین پر بیٹھتے (پھر سلام پھیرتے) ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: آپ نے سچ کہا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۴۵ (۸۲۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۷۸ (۳۰۴)، سنن النسائی/التطبیق ۶ (۱۰۴۰)، والسہو ۲ (۱۱۸۲)، ۲۹ (۱۲۳۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵ (۱۰۶۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۲۴) سنن الدارمی/الصلاة ۷۰ (۱۳۴۶) (كلهم مختصرًا من سياق المؤلف، وليس عند البخاري ذكر رفع اليدين ما سوى عند التحريمة) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الْعَامِرِيّ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَذَاكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ: فَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ كَفَّيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ غَيْرَ مُقْنِعٍ رَأْسَهُ وَلَا صَافِحٍ بِخَدِّهِ، وَقَالَ: فَإِذَا قَعَدَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَعَدَ عَلَى بَطْنِ قَدَمِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى، فَإِذَا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ أَفْضَى بِوَرِكِهِ الْيُسْرَى إِلَى الْأَرْضِ وَأَخْرَجَ قَدَمَيْهِ مِنْ نَاحِيَةٍ وَاحِدَةٍ.
محمد بن عمرو (بن عطاء) عامری کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مجلس میں تھا، ان لوگوں نے آپس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا، تو ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا ...، پھر راوی نے اسی حدیث کا بعض حصہ ذکر کیا، اور کہا: "جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر جماتے اور اپنی انگلیوں کے درمیان کشادگی رکھتے، پھر نہ اپنی پیٹھ کو خم کرتے، نہ سر کو اونچا کرتے، نہ منہ کو دائیں یا بائیں جانب موڑتے (بلکہ سیدھا قبلہ کی جانب رکھتے)، پھر جب دو رکعت کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور داہنا پاؤں کھڑا رکھتے، پھر جب آپ چوتھی رکعت میں ہوتے، تو اپنی بائیں سرین زمین پر لگاتے اور دونوں پاؤں ایک جانب (یعنی داہنی جانب) نکالتے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح) ( «ولا صافح بخدہ» کا جملہ صحیح نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی تورک کرتے۔
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيِّ، وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، نَحْوَ هَذَا، قَالَ: فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ الْقِبْلَةَ.
اس سند سے بھی محمد بن عمرو بن عطاء سے اسی طرح مروی ہے، اس میں ہے "جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتے، نہ ہی انہیں بچھاتے اور نہ ہی انہیں سمیٹے رکھتے، اور اپنی انگلیوں کے کناروں سے قبلہ کا استقبال کرتے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، حَدَّثَنِي زُهَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَحَدِ بَنِي مَالِكٍ، عَنْ عَبَّاسٍ، أَوْ عَيَّاشِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّهُ كَانَ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَبُوهُ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْمَجْلِسِ أَبُو هُرَيْرَةَ، وَأَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، وَأَبُو أُسَيْدٍ، بِهَذَا الْخَبَرِ يَزِيدُ أَوْ يَنْقُصُ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ يَعْنِي مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ فَسَجَدَ فَانْتَصَبَ عَلَى كَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَصُدُورِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، ثُمَّ كَبَّرَ فَجَلَسَ فَتَوَرَّكَ وَنَصَبَ قَدَمَهُ الْأُخْرَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ وَلَمْ يَتَوَرَّكْ، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ حَتَّى إِذَا هُوَ أَرَادَ أَنْ يَنْهَضَ لِلْقِيَامِ قَامَ بِتَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ رَكَعَ الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ، وَلَمْ يَذْكُرِ التَّوَرُّكَ فِي التَّشَهُّدِ.
عباس بن سہل ساعدی یا عیاش بن سہل ساعدی کہتے ہیں کہ وہ ایک مجلس میں تھے، جس میں ان کے والد بھی تھے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے، مجلس میں ابوہریرہ، ابو حمید ساعدی، اور ابواسید رضی اللہ عنہم بھی تھے، پھر انہوں نے یہی حدیث کچھ کمی و زیادتی کے ساتھ روایت کی، اس میں ہے: "پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور «سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد» کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدے میں گئے اور سجدے کی حالت میں اپنی دونوں ہتھیلیوں، گھٹنوں اور اپنے دونوں قدموں کے اگلے حصہ پر جمے رہے، پھر «الله اكبر» کہہ کر بیٹھے تو تورک کیا (یعنی سرین پر بیٹھے) اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدہ کیا، پھر «الله اكبر» کہا اور (سجدہ سے اٹھ کر) کھڑے ہو گئے، اور سرین پر نہیں بیٹھے"۔ پھر راوی عباس رضی اللہ عنہ نے (آخر تک) حدیث بیان کی اور کہا: پھر آپ دونوں رکعتوں کے بعد بیٹھے، یہاں تک کہ جب(تیسری رکعت کے لیے) اٹھنے کا قصد کیا تو «الله اكبر» کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے، پھر بعد والی دونوں رکعتیں ادا کیں۔ اور راوی (عیسیٰ بن عبداللہ) نے تشہد میں تورک کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۷۸ (۲۶۰)، ۸۶ (۲۷۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵ (۸۶۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۲) (ضعیف) (اس کے راوی عیسیٰ بن عبداللہ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، أَخْبَرَنِي فُلَيْحٌ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ، وَأَبُو أُسَيْدٍ، وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَأَنَّهُ قَابِضٌ عَلَيْهِمَا وَوَتَّرَ يَدَيْهِ فَتَجَافَى عَنْ جَنْبَيْهِ، قَالَ: ثُمَّ سَجَدَ فَأَمْكَنَ أَنْفَهُ وَجَبْهَتَهُ وَنَحَّى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى رَجَعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى وَكَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، لَمْ يَذْكُرِ التَّوَرُّكَ، وَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ فُلَيْحٍ، وَذَكَرَ الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ نَحْوَ جِلْسَةِ حَدِيثِ فُلَيْحٍ، وَعُتْبَةَ.
عباس بن سہل بیان کرتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور آپس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا تو ابوحمید نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، پھر انہوں نے اس کے بعض حصے کا ذکر کیا اور کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے پر رکھا گویا آپ ان کو پکڑے ہوئے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کمان کی تانت کی طرح کیا اور انہیں اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اپنی ناک اور پیشانی زمین پر جمائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی دونوں بغلوں سے جدا رکھا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل رکھیں، پھر اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی (آپ نے ایسے ہی کیا) یہاں تک کہ دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو گئے پھر بیٹھے تو اپنا بایاں پیر بچھا لیا اور داہنے پیر کی انگلیاں قبلہ رخ کیں اور دائیں گھٹنے پر داہنی اور بائیں گھٹنے پر بائیں ہتھیلی رکھی اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عتبہ بن ابوحکیم نے عبداللہ بن عیسٰی سے انہوں نے عباس بن سہل سے روایت کیا ہے، اور اس میں تورک کا ذکر نہیں کیا ہے، اور اسے فلیح کی حدیث کی طرح (بغیر تورک کے) ذکر کیا ہے، اور حسن بن حر نے فلیح بن سلیمان اور عتبہ کی حدیث میں مذکور بیٹھک کی طرح ذکر کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي عُتْبَةُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَإِذَا سَجَدَ فَرَّجَ بَيْنَ فَخِذَيْهِ غَيْرَ حَامِلٍ بَطْنَهُ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَخِذَيْهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، سَمِعْتُ عَبَّاسَ بْنَ سَهْلٍ يُحَدِّثُ فَلَمْ أَحْفَظْهُ، فَحَدَّثَنِيهِ أُرَاهُ ذَكَرَ عِيسَى بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، قَالَ: حَضَرْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
اس طریق سے بھی ابوحمید رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے "جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں کے کسی حصہ پر اٹھائے بغیر اپنی دونوں رانوں کے درمیان کشادگی رکھی"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن مبارک نے روایت کیا ہے، ابن مبارک سے فلیح نے بیان کیا ہے، فلیح کہتے ہیں: میں نے عباس بن سہل کو بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں رکھ سکا۔ ابن مبارک کہتے ہیں: فلیح نے مجھ سے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ فلیح نے عیسیٰ بن عبداللہ کا ذکر کیا کہ انہوں نے اسے عباس بن سہل سے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے یہی حدیث روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۲) (ضعیف) (عبد اللہ بن عیسیٰ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَلَمَّا سَجَدَ وَقَعَتَا رُكْبَتَاهُ إِلَى الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ كَفَّاهُ، قَالَ: فَلَمَّا سَجَدَ وَضَعَ جَبْهَتَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ وَجَافَى عَنْ إِبِطَيْهِ، قَالَ حَجَّاجٌ، وَقَالَ هَمَّامٌ وحَدَّثَنَا شَقِيقٌ، حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ هَذَا، وَفِي حَدِيثِ أَحَدِهِمَا وَأَكْبَرُ عِلْمِي أَنَّهُ حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، وَإِذَا نَهَضَ نَهَضَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَاعْتَمَدَ عَلَى فَخِذِيهِ.
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے "جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو آپ کے دونوں گھٹنے آپ کی ہتھیلیوں سے پہلے زمین پر پڑے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے تو اپنی پیشانی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھا، اور اپنی دونوں بغلوں سے علیحدہ رکھا"۔ حجاج کہتے ہیں: ہمام نے کہا: مجھ سے شقیق نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مجھ سے عاصم بن کلیب نے بیان کیا، عاصم نے اپنے والد کلیب سے، کلیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی حدیث میں، اور غالب گمان یہی ہے کہ محمد بن حجادہ کی حدیث میں یوں ہے:"جب آپ سجدے سے اٹھے تو اپنے دونوں گھٹنوں پر اٹھے اور اپنی ران پر ٹیک لگایا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۲) (ضعیف) (عبدالجبار کا اپنے والد وائل سے سماع نہیں ہے)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فِطْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ إِبْهَامَيْهِ فِي الصَّلَاةِ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں انگوٹھے اپنے دونوں کانوں کی لو تک اٹھاتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۵(۸۸۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۵۹) (ضعیف) (ملاحظہ ہو حدیث نمبر: ۷۲۴)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ جَعَلَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ لِلسُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سجدے میں جانے کے لیے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب دو رکعت پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو بھی اسی طرح کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۱۷ (۷۸۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۰ (۳۹۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۶۳ (۲۳۹)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۸۰ (۱۱۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۷۰، ۴۵۴) (ضعیف) (ابن جریج مدلس ہیں اور یہاں عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي هُبَيْرَةَ، عَنْ مَيْمُونٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَصَلَّى بِهِمْ، يُشِيرُ بِكَفَّيْهِ حِينَ يَقُومُ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ وَحِينَ يَنْهَضُ لِلْقِيَامِ فَيَقُومُ فَيُشِيرُ بِيَدَيْهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ: إِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ صَلَّى صَلَاةً لَمْ أَرَ أَحَدًا يُصَلِّيهَا، فَوَصَفْتُ لَهُ هَذِهِ الْإِشَارَةَ، فَقَالَ: "إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْتَدِ بِصَلَاةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ".
میمون مکی سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت اور رکوع کرنے کے وقت اور سجدہ اور قیام کے لیے اٹھتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور جا کر میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابن زبیر کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا کہ کسی اور کو اس طرح پڑھتے نہیں دیکھا، پھر میں نے ان سے اس اشارہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھنا چاہتے ہو تو عبداللہ بن زبیر کی نماز کی پیروی کرو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۵۰۹) (صحیح) (اس کے راوی ابن لھیعہ ضعیف اور میمون مکی مجہول ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۳/۳۲۶)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ كَثِيرٍ يَعْنِي السَّعْدِيَّ، قَالَ: "صَلَّى إِلَى جَنْبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ فَكَانَ إِذَا سَجَدَ السَّجْدَةَ الْأُولَى فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنْهَا رَفَعَ يَدَيْهِ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِوُهَيْبِ بْنِ خَالِدٍ، فَقَالَ لَهُ وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ: تَصْنَعُ شَيْئًا لَمْ أَرَ أَحَدًا يَصْنَعُهُ، فَقَالَ ابْنُ طَاوُسٍ: رَأَيْتُ أَبِي يَصْنَعُهُ، وَقَالَ أَبِي: رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَصْنَعُهُ، وَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ".
نضر بن کثیر بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن طاؤس نے مسجد خیف میں میرے بغل میں نماز پڑھی، جب آپ نے پہلا سجدہ کیا، اور اس سے اپنا سر اٹھایا تو اپنے چہرے کے بالمقابل انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے تو مجھے یہ عجیب سا لگا، چنانچہ میں نے وہیب بن خالد سے اس کا تذکرہ کیا تو وہیب نے عبداللہ بن طاؤس سے کہا: آپ ایک ایسا کام کر رہے ہیں جسے میں نے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ ! تو عبداللہ بن طاؤس نے کہا: میں نے اپنے والد کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ایسا کرتے دیکھا، اور ان کے متعلق بھی مجھے یہی معلوم ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۱۷۷ (۱۱۴۷)، (تحفة الأشراف: ۵۷۱۹) (صحیح) (اس کے راوی نضر بن کثیر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث نیز دوسرے شواہد کی بناء پر یہ حدیث بھی صحیح ہے )
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، "أَنَّهُ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ"، وَيَرْفَعُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: الصَّحِيحُ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ لَيْسَ بِمَرْفُوعٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى بَقِيَّةُ أَوَّلَهُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأَسْنَدَهُ وَرَوَاهُ الثَّقَفِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَوْقَفَهُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ، قَالَ فِيهِ: وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ يَرْفَعُهُمَا إِلَى ثَدْيَيْهِ، وَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَمَالِكٌ، وَأَيُّوبُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ مَوْقُوفًا، وَأَسْنَدَهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَحْدَهُ، عَنْ أَيُّوبَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَيُّوبُ، وَمَالِكٌ الرَّفْعَ: إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَذَكَرَهُ اللَّيْثُ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ فِيهِ: قُلْتُ لِنَافِعٍ: أَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَجْعَلُ الْأُولَى أَرْفَعَهُنَّ ؟ قَالَ: لَا سَوَاءً، قُلْتُ: أَشِرْ لِي ؟ فَأَشَارَ إِلَى الثَّدْيَيْنِ أَوْ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ جب نماز میں داخل ہوتے تو «الله اكبر» کہتے، اور جب رکوع کرتے اور «سمع الله لمن حمده» کہتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب دونوں رکعتوں سے اٹھتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: صحیح یہی ہے کہ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے، مرفوع نہیں ہے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بقیہ نے اس حدیث کا ابتدائی حصہ عبیداللہ سے روایت کیا ہے، اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور ثقفی نے بھی اسے عبیداللہ سے روایت کیا ہے مگر ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف ٹھہرایا ہے، اس میں یوں ہے: "جب آپ دونوں رکعت پوری کر کے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ دونوں چھاتیوں تک اٹھاتے"، اور یہی صحیح ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے لیث بن سعد، مالک، ایوب اور ابن جریج نے موقوفاً روایت کیا ہے، صرف حماد بن سلمہ نے اسے ایوب کے واسطے سے مرفوعاً روایت کیا ہے، ایوب اور مالک نے اپنی روایت میں دونوں سجدوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت رفع یدین کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے، البتہ لیث نے اپنی روایت میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ابن جریج نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا ہے کہ میں نے نافع سے پوچھا: کیا ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلی بار میں ہاتھ زیادہ اونچا اٹھاتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ ہر مرتبہ برابر اٹھاتے تھے۔ میں نے کہا: اشارہ کر کے مجھے بتاؤ تو انہوں نے دونوں چھاتیوں تک یا اس سے بھی نیچے تک اشارہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۳ (۷۳۹)، (تحفة الأشراف: ۸۰۱۷، ۸۳۹۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ان سندوں سے یہ حدیث موقوف ہے، لیکن حدیث نمبر (۷۲۱) میں اس کے مرفوع ہونے کی صراحت ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا ابْتَدَأَ الصَّلَاةَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا دُونَ ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرْ رَفَعَهُمَا دُونَ ذَلِكَ أَحَدٌ غَيْرُ مَالِكٍ فِيمَا أَعْلَمُ.
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اس سے کم اٹھاتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جہاں تک مجھے معلوم ہے مالک کے علاوہ کسی نے «رفعهما دون ذلك» (انہیں یعنی ہاتھوں کو اس سے کم یعنی مونڈھے سے نیچے اٹھاتے) کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۷۲۱)، (تحفة الأشراف: ۸۰۱۷، ۸۳۹۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْمُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتیں پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے، تو«الله اكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۴۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۴۵)، البخاري في رفع الیدین (۲۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ قَاعِدٌ وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ وَكَبَّرَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد فِي حَدِيثِ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ حِينَ وَصَفَ صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے اور جب اپنی قرآت پوری کر چکتے اور رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور جب رکوع سے اٹھتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے کی حالت میں کبھی بھی نماز میں اپنے دونوں ہاتھ نہیں اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر (تیسری) کے لیے اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور «الله اكبر» کہتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جس وقت انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی تو کہا: "جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو «الله اكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کر لیتے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت «الله اكبر» کہتے وقت کرتے تھے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۶ (۷۷۱)، سنن الترمذی/الدعوات ۳۲ (۳۴۲۱، ۳۴۲۲، ۳۴۲۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۷(۸۹۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵(۸۶۴)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۲۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۴(۱۶)، مسند احمد (۱/۹۳) سنن الدارمی/الصلاة ۳۳ (۱۲۷۴) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، قَالَ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ حَتَّى يَبْلُغَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ".
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے جب آپ تکبیر(تکبیر تحریمہ) کہتے جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کانوں کی لو تک لے جاتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۹ (۳۹۱)، سنن النسائی/الافتتاح ۴ (۸۸۱)، ۸۵ (۱۰۲۵)، التطبیق ۱۸(۱۰۵۷)، ۳۶ (۱۰۸۶)، ۸۴ (۱۱۴۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵ (۸۵۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۸۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۴ (۷۳۷)، مسند احمد (۳/۴۳۶، ۴۳۷، ۵/۵۳)، سنن الدارمی/الصلاة ۴۱ (۱۲۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ الْمَعْنَى، عَنْ عِمْرَانَ، عَنْ لَاحِقٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ"لَوْ كُنْتُ قُدَّامَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَأَيْتُ إِبِطَيْهِ"، زَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: يَقُولُ لَاحِقٌ: أَلَا تَرَى أَنَّهُ فِي الصَّلَاةِ، وَلَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَكُونَ قُدَّامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ وَزَادَ مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ يَعْنِي: إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ.
بشیر بن نہیک کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوتا تو (رفع یدین کرتے وقت)آپ کی بغل دیکھ لیتا۔ عبیداللہ بن معاذ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ لاحق (ابومجلز) کہتے ہیں: کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ نماز میں تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہیں ہو سکتے تھے، ابوداؤد کے شیخ موسیٰ بن مروان رقی نے یہ اضافہ کیا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے تو رفع یدین کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/التطبیق ۵۱ (۱۱۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۱۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: "عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ"، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ سَعْدًا، فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي، قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ هَذَا ثُمَّ أُمِرْنَا بِهَذَا، يَعْنِي الْإِمْسَاكَ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھائی تو آپ نے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی اور رفع یدین کیا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے تو دونوں ہاتھ ملا کر آپ نے انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ میں رکھ لیا، جب یہ خبر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: سچ کہا میرے بھائی (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے، پہلے ہم ایسا ہی کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کا یعنی دونوں ہاتھوں سے دونوں گھٹنوں کے پکڑنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/التطبیق ۱ (۱۰۳۲)، (تحفة الأشراف: ۳۹۰۷، ۹۴۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: "أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ.
علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ علقمہ کہتے ہیں: پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۷۹ (۲۵۷)، سنن النسائی/الافتتاح ۸۷ (۱۰۲۷)، التطبیق ۲۰ (۱۰۵۹)، (تحفة الأشراف: ۹۴۶۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۸، ۴۴۱)، وقد أخرجہ البخاري في رفع الیدین (۳۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ائمہ حدیث : احمد، ابن مبارک، بخاری، رازی ابوحاتم، دارقطنی اور ابن حبان نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، لیکن ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور ابن حزم نے صحیح کہا ہے، نیز یہ حدیث ان احادیث صحیحہ کثیرہ کے معارض نہیں ہے جن سے رکوع وغیرہ میں رفع یدین ثابت ہے اس لئے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں ہے، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے یاد نہ رکھنے سے یہ لازم نہیں کہ دوسرے صحابہ کرام کی روایات غلط ہوں، کیونکہ کبار صحابہ نے رفع یدین نقل کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بعض مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہو سکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا تطبیق (یعنی رکوع میں دونوں ہاتھ کو گھٹنے پر نہ رکھ کر دونوں کے بیچ میں رکھنا ) کے منسوخ ہونے کا معاملہ۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو، وَأَبُو حُذَيْفَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ: فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَرَّةً وَاحِدَةً.
براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے قریب تک اٹھاتے تھے پھر دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۸۲، ۳۰۱، ۳۰۲، ۳۰۳) (ضعیف)(اس کے راوی یزید ضعیف ہیں آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا، کبھی «لایعود» کے ساتھ روایت کرتے تھے اور کبھی بغیر اس کے، اس لئے ان کی روایت کا اعتبار نہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ، "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُودُ".
اس طریق سے بھی یزید سے شریک ہی کی حدیث کی طرح حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے «ثم لا يعود» (پھر ایسا نہیں کرتے تھے) کا لفظ نہیں کہا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: اس کے بعد ہم سے یزید نے کوفہ میں «ثم لا يعود» کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو ہشیم، خالد اور ابن ادریس نے یزید سے روایت کیا ہے، ان لوگوں نے «ثم لا يعود» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۵) (ضعیف) (گذشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ، نَحْوَ حَدِيثِ شَرِيكٍ، لَمْ يَقُلْ: ثُمَّ لَا يَعُودُ، قَالَ سُفْيَانُ، قَالَ لَنَا بِالْكُوفَةِ بَعْدُ: ثُمَّ لَا يَعُودُ، قَالَ أَبُو دَاوُد، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ، وَخَالِدٌ، وَابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ لَمْ يَذْكُرُوا: ثُمَّ لَا يَعُودُ.
اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ "آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا"، اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ "ایک بار اٹھایا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۷۴۸)، (تحفة الأشراف: ۹۴۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا حَتَّى انْصَرَفَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِصَحِيحٍ.
براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہو گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۶) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ابی لیلی ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَمْعَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ لمبے کر کے اٹھاتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۶۳ (۲۴۰)، سنن النسائی/الافتتاح ۶ (۸۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۳۰۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۷۵، ۴۳۴، ۵۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۲ (۱۲۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَيْر، يَقُولُ: "صَفُّ الْقَدَمَيْنِ وَوَضْعُ الْيَدِ عَلَى الْيَدِ مِنَ السُّنَّةِ".
زرعہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: دونوں قدموں کو برابر رکھنا، اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۲۶۰) (ضعیف) (اس کے راوی زرعہ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، عَنْ هُشَيْمِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْابْنِ مَسْعُودٍ، "أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى الْيُمْنَى، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اس کیفیت میں) دیکھا تو آپ نے ان کا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھ دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۱۰ (۸۸۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۳ (۸۱۱)، (تحفة الأشراف: ۹۳۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۴۷) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ".
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۱۰) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن اسحاق واسطی متروک ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ يَعْنِي ابْنَ أَعْيَنَ، عَنْ أَبِي بَدْرٍ، عَنْ أَبِي طَالُوتَ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ ابْنِ جَرِيرٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُمْسِكُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ عَلَى الرُّسْغِ فَوْقَ السُّرَّةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ فَوْقَ السُّرَّةِ، قَالَ أَبُو مِجْلَزٍ: تَحْتَ السُّرَّةِ، وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ.
جریر ضبیی کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا پہنچا (گٹا) پکڑے ہوئے ناف کے اوپر رکھے ہوئے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سعید بن جبیر سے «فوق السرة» (ناف کے اوپر) مروی ہے اور ابومجلز نے «تحت السرة» (ناف کے نیچے) کہا ہے اور یہ بات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے لیکن یہ قوی نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۳۰) (ضعیف) (اس کے راوی جریر ضبّی لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِيِّ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: "أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُضَعِّفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ إِسْحَاقَ الْكُوفِيَّ.
ابووائل کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا (سنت ہے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو سنا، وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق کوفی کو ضعیف قرار دے رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۹۴) (ضعیف) (اس سند میں بھی عبدالرحمن بن اسحاق ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ".
طاؤس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے، اور آپ نماز میں ہوتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۸۲۹) (صحیح) (دو صحابہ وائل اور ہلب رضی اللہ عنہما کی صحیح مرفوع روایات سے تقویت پاکر یہ مرسل حدیث بھی صحیح ہے)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَمِّهِ الْمَاجِشُونِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ،عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ كَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ لِي إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ، وَإِذَا رَكَعَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي، وَإِذَا رَفَعَ، قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ وَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ، وَإِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَالْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «الله اكبر» کہتے پھر یہ دعا پڑھتے: «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا مسلما وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين اللهم أنت الملك لا إله لي إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بك وإليك تباركت وتعاليت أستغفرك وأتوب إليك» "میں نے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں تمام ادیان سے کٹ کر سچے دین کا تابع دار اور مسلمان ہوں، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہاں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا تابعدار ہوں، اے اللہ! تو بادشاہ ہے، تیرے سوا میرا کوئی اور معبود برحق نہیں، تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مجھے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا اعتراف ہے، تو میرے تمام گناہوں کی مغفرت فرما، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کرنے والا کوئی نہیں، مجھے حسن اخلاق کی ہدایت فرما، ان اخلاق حسنہ کی جانب صرف تو ہی رہنمائی کرنے والا ہے، بری عادتوں اور بدخلقی کو مجھ سے دور کر دے، صرف تو ہی ان بری عادتوں کو دور کرنے والا ہے، میں حاضر ہوں، تیرے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، تیری طرف برائی کی نسبت نہیں کی جا سکتی، میں تیرا ہوں، اور میرا ٹھکانا تیری ہی طرف ہے، تو بڑی برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں"، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے تو یہ دعا پڑ ھتے: «اللهم لك ركعت وبك آمنت ولك أسلمت خشع لك سمعي وبصري ومخي وعظامي وعصبي» "اے اللہ! میں نے تیرے لیے رکوع کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا تابعدار ہوا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ، میری ہڈی اور میرے پٹھے تیرے لیے جھک گئے)، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے: «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شىء بعد»"اللہ نے اس شخص کی سن لی (قبول کر لیا) جس نے اس کی تعریف کی، اے ہمارے رب! تیرے لیے حمد و ثنا ہے آسمانوں اور زمین کے برابر، اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کے برابر، اور اس کے بعد جو کچھ تو چاہے اس کے برابر"۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو کہتے: «اللهم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت سجد وجهي للذي خلقه وصوره فأحسن صورته وشق سمعه وبصره وتبارك الله أحسن الخالقين» "اے اللہ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا فرماں بردار و تابعدار ہوا، میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کا جس نے اسے پیدا کیا اور پھر اس کی صورت بنائی تو اچھی صورت بنائی، اس کے کان اور آنکھ پھاڑے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے وہ بہترین تخلیق فرمانے والا ہے"۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو کہتے: «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم والمؤخر لا إله إلا أنت»"اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے گناہوں کی مغفرت فرما، اور مجھ سے جو زیادتی ہوئی ہو ان سے اور ان سب باتوں سے درگزر فرما جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی برحق معبود نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۶ (۷۷۱)، سنن الترمذی/ الدعوات ۳۲ (۳۴۲۱، ۳۴۲۲)، سنن النسائی/ الافتتاح ۱۷ (۸۹۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵، (۸۶۴)،۷۰ (۱۰۵۴)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۳، ۹۵، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۱۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۳ (۱۲۷۴)، ویأتي ہذا الحدیث برقم: (۱۵۰۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ وَكَبَّرَ، وَدَعَا نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي الدُّعَاءِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ الشَّيْءَ وَلَمْ يَذْكُرْ: وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، وَزَادَ فِيهِ: وَيَقُولُ عِنْدَ انْصِرَافِهِ مِنَ الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلَهِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو«الله اكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، اور جب اپنی قرأت پوری کر چکتے اور رکوع کا ارادہ کرتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے (رفع یدین کرتے)، اور نماز میں بیٹھنے کی حالت میں کسی بھی جگہ رفع یدین نہیں کرتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور«الله اكبر» کہتے، اور عبدالعزیز کی سابقہ حدیث میں گزری ہوئی دعا کی طرح کچھ کمی و زیادتی کے ساتھ دعا کرتے، البتہ اس روایت میں:«والخير كله في يديك والشر ليس إليك» کا ذکر نہیں ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے: نماز سے فارغ ہوتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑ ھتے: «اللهم اغفر لي ما قدمت وأخرت وما أسررت وأعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» "اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے سارے گناہوں کی مغفرت فرما، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۷۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۲۸) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، وَابْنُ أَبِي فَرْوَةَ وغيرهما من فقهاء أهل المدينة فإذا قُلْتَ أَنْتَ ذَاكَ، فَقُلْ: وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَعْنِي قَوْلَهُ: وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ.
شعیب بن ابی حمزہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن منکدر، ابن ابی فروہ، اور دیگر فقہائے اہل مدینہ نے کہا: جب تم اس مذکورہ دعا کو پڑھو تو «وأنا أول المسلمين» کے جگہ «وأنا من المسلمين» کہا کرو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۴۲۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، وَثَابِتٍ، وَحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، "أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِالْكَلِمَاتِ فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بَأْسًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ وَقَدْ حَفَزَنِيَ النَّفَسُ فَقُلْتُهَا، فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا"، وَزَادَ حُمَيْدٌ فِيهِ: وَإِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ فَلْيَمْشِ نَحْوَ مَا كَانَ يَمْشِي فَلْيُصَلِّ مَا أَدْرَكَهُ وَلْيَقْضِ مَا سَبَقَهُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نماز کے لیے آیا، اس کی سانس پھول رہی تھی، تو اس نے یہ دعا پڑھی: «الله أكبر الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» "اللہ سب سے بڑا ہے، تمام تعریفیں اسی کو سزاوار ہیں، اور ہم خوب خوب اس کی پاکیزہ و بابرکت تعریفیں بیان کرتے ہیں" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے ہیں؟ اس نے کوئی قابل حرج بات نہیں کہی"، تب اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے (کہا ہے)، جب میں جماعت میں حاضر ہوا تو میرے سانس پھول گئے تھے، اس حالت میں میں نے یہ کلمات کہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے سبھی جلدی کر رہے تھے کہ ان کلمات کو کون پہلے اٹھا لے جائے"۔ حمید نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: "جب تم میں سے کوئی آئے تو (اطمینان و سکون سے) اس طرح چل کر آئے جیسے وہ عام چال چلتا ہے پھر جتنی رکعتیں ملیں انہیں پڑھ لے اور جو چھوٹ جائیں انہیں پورا کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۲۷ (۶۰۰)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۹ (۹۰۲)، (تحفة الأشراف: ۳۱۳، ۱۱۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۶۷، ۱۶۸، ۱۸۸، ۲۵۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ ابْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةً، قَالَ عَمْرٌو: لَا أَدْرِي أَيَّ صَلَاةٍ هِيَ، فَقَالَ: "اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ثَلَاثًا، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وَهَمْزِهِ، قَالَ: نَفْثُهُ الشِّعْرُ، وَنَفْخُهُ الْكِبْرُ، وَهَمْزُهُ الْمُوتَةُ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا (عمرو کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی نماز تھی؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار فرمایا: «الله أكبر كبيرا الله أكبر كبيرا الله أكبر كبيرا والحمد لله كثيرا والحمد لله كثيرا والحمد لله كثيرا وسبحان الله بكرة وأصيلا» "اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں اور میں صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں"، اور فرمایا: «أعوذ بالله من الشيطان من نفخه ونفثه وهمزه» "میں شیطان کے کبر و غرور، اس کے اشعار و جادو بیانی اور اس کے وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں"۔ عمرو بن مرہ کہتے ہیں: اس کا «نفث» شعر ہے، اس کا«نفخ» کبر ہے اور اس کا «همز» جنون یا موت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲ (۸۰۷)، (تحفة الأشراف: ۳۱۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۸۰، ۸۳، ۸۵، ۴/۸۰، ۸۲، ۸۵) (ضعیف) (اس کے ایک راوی عاصم کے نام میں بہت اختلاف ہے، تو گویا وہ مجہول ہوئے، ابن حجر نے ان کو لین الحدیث کہا ہے)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي التَّطَوُّعِ ذَكَرَ نَحْوَهُ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نفل نماز میں کہتے سنا، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۳۱۹۹) (ضعیف) (اس کے ایک راوی رجل مبہم ہیں، یہ وہی عاصم ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، أَخْبَرَنِي أَزْهَرُ بْنُ سَعِيدٍ الْحَرَازِيُّ، عَنْعَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَائِشَةَ: بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يَفْتَتِحُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيَامَ اللَّيْلِ ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ، "كَانَ إِذَا قَامَ كَبَّرَ عَشْرًا وَحَمِدَ اللَّهَ عَشْرًا وَسَبَّحَ عَشْرًا وَهَلَّلَ عَشْرًا وَاسْتَغْفَرَ عَشْرًا، وَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي، وَيَتَعَوَّذُ مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، نَحْوَهُ.
عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل (تہجد) کو کس دعا سے شروع کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: تم نے مجھ سے ایک ایسی چیز کے متعلق پوچھا ہے کہ تم سے پہلے کسی نے بھی اس کے متعلق مجھ سے نہیں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دس بار «الله اكبر» ، دس بار «الحمد الله» ، دس بار«سبحان الله» ، دس بار «لا إله إلا الله» ، اور دس بار «استغفر الله» کہتے اور یہ دعا کرتے: «اللهم اغفر لي واهدني وارزقني وعافني» "اللہ! میری مغفرت فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق عطا کر، اور مجھے عافیت سے رکھ"، پھر قیامت کے دن (سوال کے لیے)کھڑے ہونے کی پریشانی سے پناہ مانگتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے خالد بن معدان نے ربیعہ جرشی سے ربیعہ نے ام المؤمنین عائشہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/قیام اللیل ۹ (۱۶۱۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۸۰ (۱۳۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۸۲، ۱۶۱۶۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۴۳)، ویأتي عند المؤلف برقم: (۵۰۸۵) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَائِشَةَ: بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ ؟ قَالَتْ: "كَانَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ: اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ أَنْتَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ".
یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے مجھ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتے تو اپنی نماز کس دعا سے شروع کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کرتے تو اپنی نماز اس دعا سے شروع کرتے تھے: «اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنك أنت تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم» "اے اللہ! جبرائیل و میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے! غیب اور ظاہر کے جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، فیصلہ فرمائے گا، جن چیزوں میں اختلاف کیا گیا ہے، ان میں اپنی مرضی سے حق کی طرف میری رہنمائی کر، بیشک تو جسے چاہتا ہے اسے سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/صلاة المسافرین ۲۶ (۷۷۰)، سنن الترمذی/الدعوات ۳۱ (۳۴۲۰)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۱ (۱۶۲۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۸۰ (۱۳۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۷۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۵۶) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، بِإِسْنَادِهِ بِلَا إِخْبَارٍ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: كَانَ إِذَا قَامَ بِاللَّيْلِ كَبَّرَ، وَيَقُولُ:
اس طریق سے بھی عکرمہ سے اسی سند سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے جب آپ رات میں (نماز کے لیے) کھڑے ہوتے تو «الله اكبر» کہتے اور یہ دعا پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۷۹) (حسن)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: لَا بَأْسَ بِالدُّعَاءِ فِي الصَّلَاةِ فِي أَوَّلِهِ وَأَوْسَطِهِ وَفِي آخِرِهِ فِي الْفَرِيضَةِ وَغَيْرِهَا.
مالک کہتے ہیں نماز کے شروع، بیچ اور اخیر میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، فرض نماز ہو یا نفل۔
تخریج دارالدعوہ: موطا امام مالک/کتاب القرآن ۹، عقیب حدیث (۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ: "كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ بِهَا آنِفًا ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلَاثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ".
رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر «سمع الله لمن حمده» کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک آدمی نے «اللهم ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "ابھی ابھی یہ کلمات کس شخص نے کہے ہیں؟"، اس آدمی نے کہا: میں نے، اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا جو ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کون پہلے ان کلمات کو لکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۲۶ (۷۹۹)، سنن النسائی/الافتتاح ۳۶ (۹۳۲)، التطبیق ۲۲ (۱۰۶۳)، (تحفة الأشراف: ۳۶۰۵)، موطا امام مالک/القرآن ۷ (۲۵)، مسند احمد (۴/۳۴۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۸۴ (۴۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، أَنْتَ الْحَقُّ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَأَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلَهِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:«اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ولك الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق وقولك الحق ووعدك الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفر لي ما قدمت وأخرت وأسررت وأعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» "اے اللہ! تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، سب کا رب ہے، تو حق ہے، تیرا قول حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تجھ سے ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے، اے اللہ! میں تیرا فرماں بردار ہوا، تجھ پر ایمان لایا، صرف تجھ پر بھروسہ کیا، تیری ہی طرف توبہ کی، تیرے ہی لیے جھگڑا کیا، اور تیری ہی طرف فیصلہ کے لیے آیا، تو میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے سارے گناہ معاف فرما، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۶ (۷۶۹)، سنن الترمذی/الدعوات ۲۹ (۳۴۱۸)، سنن النسائی/قیام اللیل ۹ (۱۶۲۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۸۰ (۱۳۵۵)، (تحفة الأشراف: ۵۷۵۱)، موطا امام مالک/القرآن ۸ (۳۴)، مسند احمد (۱/۲۹۸، ۳۵۸، ۳۶۶)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۶۹ (۱۵۲۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التھجد ۱ (۱۱۲۰)، والدعوات ۱۰ (۶۳۱۷)، والتوحید ۸ (۷۳۸۵)، ۲۴ (۷۴۴۲)، ۳۵ (۷۴۹۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ،حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَنَّ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَاطَاوُسٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي التَّهَجُّدِ يَقُولُ بَعْدَ مَا يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ ذَكَرَ مَعْنَاهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں «الله اكبر» کہنے کے بعد دعا فرماتے تھے پھر انہوں نے اسی معنی کی حدیث ذکر کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۵۷۰۲، ۵۷۴۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، نحوه، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَمِّ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسَ رِفَاعَةُ لَمْ يَقُلْ قُتَيْبَةُ رِفَاعَةُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَقَالَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ ؟"ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ وَأَتَمَّ مِنْهُ.
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، مجھ کو (رفاعہ) کو چھینک آئی۔ اور قتیبہ نے اپنی روایت میں «رفاعة» کا لفظ ذکر نہیں کیا - تو میں نے یہ دعا پڑھی: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» "اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، ایسی تعریف جو پاکیزہ، بابرکت اور پائیدار ہو، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے"، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مڑے اور پوچھا: "نماز میں کون بول رہا تھا؟"، پھر راوی نے مالک کی حدیث کے ہم مثل اور اس سے زیادہ کامل روایت ذکر کی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۸۰ (۴۰۴)، سنن النسائی/الافتتاح ۳۶ (۹۳۲)، (تحفة الأشراف: ۹۸۰، ۳۶۰۶) (حسن)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "عَطَسَ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ حَتَّى يَرْضَى رَبُّنَا وَبَعْدَ مَا يَرْضَى مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنِ الْقَائِلُ الْكَلِمَةَ ؟ قَالَ: فَسَكَتَ الشَّابُّ، ثُمَّ قَالَ: مَنِ الْقَائِلُ الْكَلِمَةَ ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بَأْسًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا قُلْتُهَا لَمْ أُرِدْ بِهَا إِلَّا خَيْرًا، قَالَ: مَا تَنَاهَتْ دُونَ عَرْشِ الرَّحْمَنِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى".
عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے حالت نماز میں ایک انصاری نوجوان کو چھینک آ گئی، تو اس نے کہا: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه حتى يرضى ربنا وبعد ما يرضى من أمر الدنيا والآخرة» "اللہ کے لیے بہت بہت تعریف ہے، ایسی تعریف جو پاکیزہ اور بابرکت ہو، یہاں تک کہ ہمارا رب خوش و راضی ہو جائے اور دنیا اور آخرت کے معاملہ میں اس کے خوش ہو جانے کے بعد بھی یہ حمد و ثنا برقرار رہے"، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "یہ کلمات کس نے کہے؟"، عامر بن ربیعہ کہتے ہیں: نوجوان انصاری خاموش رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: "یہ کلمات کس نے کہے؟ جس نے بھی کہا ہے اس نے برا نہیں کہا"، تب اس نوجوان نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کلمات میں نے کہے ہیں، میری نیت خیر ہی کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کلمات عرش الٰہی کے نیچے نہیں رکے (بلکہ رحمن کے پاس پہنچ گئے)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۰۳۸) (ضعیف) (اس کے دو راوی شریک اور عاصم ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ مُطَهَّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ كَبَّرَ، ثُمَّ يَقُولُ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ، ثُمَّ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثَلَاثًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، ثَلَاثًا، أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ، ثُمَّ يَقْرَأُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا الْحَدِيثُ يَقُولُونَ هُوَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ الْحَسَنِ، مُرْسَلًا الْوَهْمُ مِنْ جَعْفَرٍ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو (نماز کے لیے) کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے پھر یہ دعا پڑھتے: «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» "یعنی اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہم تیری حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، تیرا نام بابرکت اور تیری ذات بلند و بالا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں" پھر تین بار «لا إله إلا الله» کہتے، پھر تین بار «الله أكبر كبيرا» کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» پھر قرآن کی تلاوت کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حدیث علی بن علی سے بواسطہ حسن مرسلاً مروی ہے اور یہ وہم جعفر کا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۶۵ (۲۴۲)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۸ (۹۰۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱ (۸۰۴)، (تحفة الأشراف: ۴۲۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۵۰، ۶۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۳ (۱۲۷۵) (صحیح) (یہ حدیث اور اگلی حدیث متابعات وشواہد سے تقویت پاکر صحیح ہیں، ورنہ خود ان کی سندوں میں کچھ کلام ہے جسے مؤلف نے بیان کر دیا ہے)
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلَائِيُّ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْأَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ، قَالَ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِالْمَشْهُورِ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، لَمْ يَرْوِهِ إِلَّا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، وَقَدْ رَوَى قِصَّةَ الصَّلَاةِ عَنْ بُدَيْلٍ جَمَاعَةٌ لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبدالسلام بن حرب سے مروی یہ حدیث مشہور نہیں ہے کیونکہ اسے عبدالسلام سے طلق بن غنام کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے اور نماز کا قصہ بدیل سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے اس میں سے کچھ بھی ذکر نہیں کیا (یعنی: افتتاح کے وقت اس دعا کے پڑھنے کی بابت) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۶۷ (۲۶۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱ (۸۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ"حَفِظْتُ سَكْتَتَيْنِ فِي الصَّلَاةِ: سَكْتَةً إِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ حَتَّى يَقْرَأَ، وَسَكْتَةً إِذَا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ عِنْدَ الرُّكُوعِ"، قَالَ: فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، قَالَ: فَكَتَبُوا فِي ذَلِكَ إِلَى الْمَدِينَةِ إِلَى أُبَيٍّ، فَصَدَّقَ سَمُرَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَذَا قَالَ حُمَيْدٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: وَسَكْتَةً إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ.
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں: ایک امام کے تکبیر تحریمہ کہنے سے، قرأت شروع کرنے اور دوسرا جب فاتحہ اور سورت کی قرأت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے کے قریب ہوا، اس پر عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے اس کا انکار کیا، تو لوگوں نے اس سلسلے میں مدینہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، تو انہوں نے سمرہ کی تصدیق کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حمید نے بھی اس حدیث میں اسی طرح کہا ہے کہ دوسرا سکتہ اس وقت کرتے جب آپ قرآت سے فارغ ہوتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۷۴ (۲۵۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۲ (۸۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۶۰۹)، مسند احمد (۵/۱۱، ۲۱، ۲۳) (ضعیف) (حسن بصری نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے عقیقہ کی حدیث کے سوا اور کوئی حدیث نہیں سنی ہے، نیز وہ مدلس ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ،عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَسْكُتُ سَكْتَتَيْنِ إِذَا اسْتَفْتَحَ وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كُلِّهَا، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ.
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو سکتے کرتے: ایک جب نماز شروع کرتے اور دوسرا جب قرآت سے پورے طور سے فارغ ہو جاتے، پھر راوی نے یونس کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۴۵۷۶)، مسند احمد (۵/۱۵، ۲۰، ۲۱، ۲۲) (ضعیف) (گذشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، أَنَّ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ، وَعِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ تَذَاكَرَا، فَحَدَّثَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ"أَنَّهُ حَفِظَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَكْتَتَيْنِ: سَكْتَةً إِذَا كَبَّرَ وَسَكْتَةً إِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7"، فَحَفِظَ ذَلِكَ سَمُرَةُ وَأَنْكَرَ عَلَيْهِ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَكَتَبَا فِي ذَلِكَ إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَانَ فِي كِتَابِهِ إِلَيْهِمَا أَوْ فِي رَدِّهِ عَلَيْهِمَا: أَنَّ سَمُرَةَ قَدْ حَفِظَ.
حسن سے روایت ہے کہ سمرہ بن جندب اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے آپس میں (سکتہ کا) ذکر کیا تو سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد رکھے ہیں: ایک سکتہ اس وقت جب آپ تکبیر تحریمہ کہتے اور دوسرا سکتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» ۱؎ کی قرآت سے فارغ ہوتے، ان دونوں سکتوں کو سمرہ نے یاد رکھا، لیکن عمران بن حصین نے اس کا انکار کیا تو دونوں نے اس کے متعلق ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تو انہوں نے ان دونوں کے خط کے جواب میں لکھا کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے (ٹھیک) یاد رکھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۷۷۷)، (تحفة الأشراف: ۴۵۸۹، ۴۶۰۹) (ضعیف)
وضاحت: ۱؎ : سورة الفاتحة: (۷)
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ بِهَذَا، قَالَ: عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: "سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِيهِ: قَالَ سَعِيدٌ: قُلْنَا لِقَتَادَةَ: مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ ؟ قَالَ: إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ: وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، سعید کہتے ہیں: ہم نے قتادہ سے پوچھا: یہ دو سکتے کون کون سے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں داخل ہوتے اور جب آپ قرات سے فارغ ہوتے، پھر اس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہہ لیتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۷۷۷)، (تحفة الأشراف: ۴۵۸۹، ۴۶۰۹) (ضعیف) (گذشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْعُمَارَةَ، الْمَعْنَى عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ فِي الصَّلَاةِ سَكَتَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، أَخْبِرْنِي مَا تَقُولُ، قَالَ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ أَنْقِنِي مِنْ خَطَايَايَ كَالثَّوْبِ الْأَبْيَضِ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے تو تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان (تھوڑی دیر) خاموش رہتے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان آپ جو سکتہ کرتے ہیں، مجھے بتائیے آپ اس میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم أنقني من خطاياى كالثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني بالثلج والماء والبرد» "اے اللہ! جس طرح تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے اسی طرح میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری فرما دے، اے اللہ! تو مجھے گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف کر دے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک کیا جاتا ہے، اے اللہ! تو میرے گناہوں کو برف پانی اور اولوں سے دھو دے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۹ (۷۴۴)، صحیح مسلم/المساجد ۲۷ (۵۹۸)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۵ (۸۹۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱ (۸۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۹۶)، مسند احمد (۲/۲۳۱، ۴۴۸، ۴۹۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۶ (۱۲۸۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۹ (۷۴۳)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۳ (۳۹۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۶۸ (۲۴۶)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۰ (۹۰۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۴ (۸۱۳)، موطا امام مالک/الصلاة ۶ (۳۰)، مسند احمد (۳/۱۰۱، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۸۳، ۲۷۳)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۴ (۱۲۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْعَائِشَة، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر تحریمہ «الله اكبر» اور «الحمد لله رب العالمين»کی قرآت سے شروع کرتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے، اور ہر دو رکعت کے بعد «التحيات» پڑھتے، اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے ۱؎ سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے ۲؎ سے منع کرتے اور نماز سلام سے ختم کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۶ (۴۹۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۴ (۸۱۲)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۱، ۱۱۰، ۱۷۱، ۱۹۴، ۲۸۱)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۱ (۱۲۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد شیطان کی مانند دونوں قدموں کا گاڑ کر ایڑیوں پر بیٹھنا ہے تشہد میں یہ بیٹھک حرام ہے جبکہ دونوں سجدوں کے درمیان اس طرح کی بیٹھک مسنون و مشروع ہے۔ ۲؎ : اس سے مراد سجدہ میں دونوں ہاتھوں کو زمین پر بچھانا ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آنِفًا سُورَةٌ، فَقَرَأَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ سورة الكوثر آية 1 حَتَّى خَتَمَهَا، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْكَوْثَرُ ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ نَهْرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي فِي الْجَنَّةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابھی ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «بسم الله الرحمن الرحيم * إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ آپ نے پوری سورۃ ختم فرما دی، پھر پوچھا: "تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟"، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوثر ایک نہر کا نام ہے، جسے میرے رب نے مجھے جنت میں دینے کا وعدہ کیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۴ (۴۰۰)، الفضائل ۹ (۲۳۰۴)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۱ (۹۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۵)، مسند احمد (۳/۱۰۲، ۲۸۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر الکوثر (۳۳۵۹)، ویأتي عند المؤلف في السنة برقم: (۴۷۴۷) (حسن)
حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ الْمَكِّيُّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَذَكَرَ الْإِفْكَ، قَالَتْ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: "أَعُوذُ بِالسَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11 الْآيَةَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ جَمَاعَةٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، لَمْ يَذْكُرُوا هَذَا الْكَلَامَ عَلَى هَذَا الشَّرْحِ، وَأَخَافُ أَنْ يَكُونَ أَمْرُ الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ كَلَامِ حُمَيْدٍ.
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۹۷) (ضعیف شاذ) (یہ حدیث شاذ اس لئے ہے کہ حمید اگرچہ ثقہ ہیں مگر انہوں نے ثقہ جماعت کی مخالفت کی ہے)
وضاحت: ۱؎ : ’’ یعنی بے شک جو لوگ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم ہی میں سے ایک گروہ ہے ‘‘ (سورہ نور : ۱۱)۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى بَرَاءَةَ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ وَإِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، فَجَعَلْتُمُوهُمَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ؟ قَالَ عُثْمَانُ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا تَنَزَّلُ عَلَيْهِ الْآيَاتُ فَيَدْعُو بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ لَهُ، وَيَقُولُ لَهُ: ضَعْ هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، وَتَنْزِلُ عَلَيْهِ الْآيَةُ وَالْآيَتَانِ، فَيَقُولُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَّلِ مَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ بَرَاءَةُ مِنْ آخِرِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، وَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهَةً بِقِصَّتِهَا فَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، فَمِنْ هُنَاكَ وَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کو کس چیز نے ابھارا کہ آپ سورۃ برات کا جو کہ «مئین» ۱؎ میں سے ہے، اور سورۃ الانفال کا جو کہ «مثانی» ۲؎ میں سے ہے قصد کریں تو انہیں سات لمبی سورتوں میں کر دیں اور ان دونوں (یعنی انفال اور برات) کے درمیان میں «بسم الله الرحمن الرحيم» نہ لکھیں؟ عثمان نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ کاتب کو بلاتے اور ان سے فرماتے: "اس آیت کو اس سورۃ میں رکھو، جس میں ایسا ایسا (قصہ) مذکور ہے"، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ایک دو دو آیتیں اترا کرتیں تو آپ ایسا ہی فرمایا کرتے، اور سورۃ الانفال ان سورتوں میں ہے جو پہلے پہل مدینہ میں آپ پر اتری ہیں، اور برات ان سورتوں میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخر میں اتری ہیں اور سورۃ برات کا مضمون سورۃ الانفال کے مضمون سے ملتا جلتا ہے، اس وجہ سے مجھے گمان ہوا کہ شاید برات (توبہ) انفال میں داخل ہے، اسی لیے میں نے دونوں کو «سبع طوال» ۳؎ میں رکھا اور دونوں کے بیچ میں «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۱۰ (۳۰۸۶)، (تحفة الأشراف: ۹۸۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۵۷، ۶۹) (ضعیف) (یزید الفارسی لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : «مئین» ان سورتوں کو کہتے ہیں جو سو (۱۰۰) سے زیادہ آیتوں پر مشتمل ہوں۔ ۲؎ : «مثانی» وہ سورتیں ہیں جو «مئین»سے چھوٹی ہیں۔ ۳؎ : «سبع طوال» سے مراد بقرہ ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، انعام اور اعراف ہیں اور ساتویں کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ وہ انفال اور براہ (دونوں ایک ساتھ ) ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ سورہ یونس ہے۔
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُعَاوِيَةَ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ الْأَعْرَابِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ: فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ الشَّعْبِيُّ، وَأَبُو مَالِكٍ، وَقَتَادَةُ، وَثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَتَّى نَزَلَتْ سُورَةُ النَّمْلِ هَذَا مَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی روایت آئی ہے، اس میں ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، اور آپ نے ہم سے بیان نہیں کیا کہ سورۃ برات انفال میں سے ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعبی، ابو مالک، قتادہ اور ثابت بن عمارہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا یہاں تک کہ سورۃ النمل نازل ہوئی، یہی اس کا مفہوم ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۹۸۱۹) (ضعیف)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ قُتَيْبَةُ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَعْرِفُ فَصْلَ السُّورَةِ حَتَّى تَنَزَّلَ عَلَيْهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ"، وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ السَّرْحِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ کی حد و انتہا کو نہیں جان پاتے تھے، جب تک کہ «بسم الله الرحمن الرحيم» آپ پر نہ اتر جاتی، یہ ابن سرح کی روایت کے الفاظ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۵۸۴، ۱۸۶۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، وَبِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے لمبی کروں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو اسے مختصر کر دیتا ہوں، اس اندیشہ سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۶۵ (۷۰۷)، ۱۶۳ (۸۶۸)، سنن النسائی/الإمامة ۳۵ (۸۲۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۴۹ (۹۹۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۱۰)، وقد أخرجہ: (حم ۵/۳۰۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، وَسَمِعَهُ مِنْ جَابِرٍ، قَالَ: "كَانَ مُعَاذٌ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ فَيَؤُمُّنَا، قَالَ مَرَّةً: ثُمَّ يَرْجِعُ فَيُصَلِّي بِقَوْمِهِ، فَأَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً الصَّلَاةَ، وَقَالَ مَرَّةً: الْعِشَاءَ، فَصَلَّى مُعَاذٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ فَقَرَأَ الْبَقَرَةَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَصَلَّى، فَقِيلَ: نَافَقْتَ يَا فُلَانُ، فَقَالَ: مَا نَافَقْتُ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ مُعَاذًا يُصَلِّي مَعَكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ فَيَؤُمُّنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنَّمَا نَحْنُ أَصْحَابُ نَوَاضِحَ وَنَعْمَلُ بِأَيْدِينَا، وَإِنَّهُ جَاءَ يَؤُمُّنَا فَقَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، فَقَالَ: يَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ، اقْرَأْ بِكَذَا، اقْرَأْ بِكَذَا، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى". فَذَكَرْنَا لِعَمْرٍو، فَقَالَ: أُرَاهُ قَدْ ذَكَرَهُ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹتے تو ہماری امامت کرتے تھے - ایک روایت میں ہے: پھر وہ لوٹتے تو اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز دیر سے پڑھائی اور ایک روایت میں ہے: عشاء دیر سے پڑھائی، چنانچہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی تو ان کی قوم میں سے ایک شخص نے جماعت سے الگ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی، لوگ کہنے لگے: اے فلاں! تم نے منافقت کی ہے؟ اس نے کہا: میں نے منافقت نہیں کی ہے، پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرتے ہیں، ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) معاذ نے آ کر ہماری امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے؟ فلاں اور فلاں سورۃ پڑھا کرو"۔ ابوزبیر نے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) : "تم «سبح اسم ربك الأعلى» ، «والليل إذا يغشى» پڑھا کرو"، ہم نے عمرو بن دینار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میرا بھی خیال ہے کہ آپ نے اسی کا ذکر کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۶۰۰)، (تحفة الأشراف: ۲۵۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا طَالِبُ بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ حَزْمِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّهُ أَتَى مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَهُوَ يُصَلِّي بِقَوْمٍ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مُعَاذُ"لَا تَكُنْ فَتَّانًا، فَإِنَّهُ يُصَلِّي وَرَاءَكَ الْكَبِيرُ وَالضَّعِيفُ وَذُو الْحَاجَةِ وَالْمُسَافِرُ".
حزم بن ابی بن کعب سے اس واقعہ کے سلسلہ میں روایت ہے کہ وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ لوگوں کو مغرب پڑھا رہے تھے، اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے معاذ! لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالنے والے نہ بنو، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور، حاجت مند اور مسافر نماز پڑھتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۳۹۹) (منکر) (اس حدیث میں مسافر کا تذکرہ منکر ہے)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ: "كَيْفَ تَقُولُ فِي الصَّلَاةِ ؟ قَالَ: أَتَشَهَّدُ، وَأَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، أَمَا إِنِّي لَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَكَ وَلَا دَنْدَنَةَ مُعَاذٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَوْلَهَا نُدَنْدِنُ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پوچھا: "تم نماز میں کون سی دعا پڑھتے ہو؟"، اس نے کہا: میں تشہد پڑھتا ہوں اور کہتا ہوں: «اللهم إني أسألك الجنة وأعوذ بك من النار» "اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتا ہوں"، البتہ آپ اور معاذ کیا گنگناتے ۱؎ ہیں اس کا مجھے صحیح ادراک نہیں ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم بھی اسی ۲؎ (جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ) کے اردگرد پھرتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، مسند احمد ۳/۴۷۴، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۶۵)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۶ (۹۱۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث میں «دندنہ» کا لفظ آیا ہے، یعنی انسان کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دے لیکن اس کے معنی و مطلب سمجھ میں نہ آئیں۔ وضاحت : «حولها» میں «ها» کی ضمیر اس آدمی کے قول کی طرف لوٹتی ہے، یعنی ہمارا اور معاذ کا کلام بھی تمہارے ہی کلام جیسا ہے، ان کا ماحصل بھی جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ مانگنا ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ، ذَكَرَ قِصَّةَ مُعَاذٍ، قَالَ: وَقَالَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْفَتَى: "كَيْفَ تَصْنَعُ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا صَلَّيْتَ ؟ قَالَ: أَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَأَسْأَلُ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَأَعُوذُ بِهِ مِنَ النَّارِ، وَإِنِّي لَا أَدْرِي مَا دَنْدَنَتُكَ وَلَا دَنْدَنَةُ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي وَمُعَاذٌ حَوْلَ هَاتَيْنِ، أَوْ نَحْوَ هَذَا".
جابر رضی اللہ عنہ معاذ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے پوچھا:"میرے بھتیجے! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اس میں کیا پڑھتے ہو؟"، اس نے کہا: میں (نماز میں) سورۃ فاتحہ پڑھتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں، لیکن مجھے آپ کی اور معاذ کی گنگناہٹ سمجھ میں نہیں آتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اور معاذ بھی انہی دونوں کے اردگرد ہوتے ہیں"، یا اسی طرح کی کوئی بات کہی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۲۳۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۰۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ جماعت میں کمزور، بیمار اور بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، البتہ جب تنہا نماز پڑھے تو اسے جتنی چاہے لمبی کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۶۲ (۷۰۳)، سنن النسائی/الإمامة ۳۵ (۸۲۴)، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۱۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۳۷ (۴۶۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۶۳ (۲۳۶)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ۴ (۱۳)، مسند احمد (۲ /۲۵۶، ۲۷۱، ۳۱۷، ۳۹۳، ۴۸۶، ۵۰۲، ۵۳۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ السَّقِيمَ وَالشَّيْخَ الْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں بیمار، بڑے بوڑھے، اور حاجت مند لوگ (بھی) ہوتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۰۴، ۱۵۲۸۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَنَمَةَ الْمُزَنِيِّ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ الرَّجُلَ لَيَنْصَرِفُ وَمَا كُتِبَ لَهُ إِلَّا عُشْرُ صَلَاتِهِ تُسْعُهَا ثُمْنُهَا سُبْعُهَا سُدْسُهَا خُمْسُهَا رُبْعُهَا ثُلُثُهَا نِصْفُهَا".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "آدمی (نماز پڑھ کر) لوٹتا ہے تو اسے اپنی نماز کے ثواب کا صرف دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا اور آدھا ہی حصہ ملتا ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الکبری: کتاب السہو ۱۳۰ (۶۱۲)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۲۱) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : جب نماز کے شرائط ، ارکان یا خشوع و خضوع میں کسی طرح کی کمی ہوتی ہے تو پوری نماز کا ثواب نہیں لکھا جاتا بلکہ ثواب کم ہو جاتا ہے، بلکہ کبھی وہ نماز الٹ کر پڑھنے والے کے منھ پر مار دی جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، وَعُمَارَةَ بْنِ مَيْمُونٍ، وَحَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: "فِي كُلِّ صَلَاةٍ يُقْرَأُ، فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَعْنَاكُمْ، وَمَا أَخْفَى عَلَيْنَا أَخْفَيْنَا عَلَيْكُمْ".
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "ہر نماز میں قرآت کی جاتی ہے تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بالجہر سنایا ہم نے بھی تمہیں (جہراً) سنا دیا اور جسے آپ نے چھپایا ہم نے بھی اسے تم سے چھپایا ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۱ (۳۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۷۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۰۴ (۷۷۲)، سنن النسائی/الافتتاح ۵۴ (۹۷۰)، مسند احمد (۲/ ۲۵۸، ۲۷۳، ۲۸۵، ۳۰۱، ۳۴۳، ۳۴۸، ۴۱۱، ۴۱۶، ۴۳۵، ۴۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس میں جہر نہیں کیا اسے آہستہ سے پڑھا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْالْحَجَّاجِ، وَهَذَا لَفْظُهُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى وَأَبِي سَلَمَةَ: ثُمَّ اتَّفَقَا عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي بِنَا، فَيَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَتَيْنِ، وَيُسْمِعُنَا الْآيَةَ أَحْيَانًا، وَكَانَ يُطَوِّلُ الرَّكْعَةَ الْأُولَى مِنَ الظُّهْرِ، وَيُقَصِّرُ الثَّانِيَةَ، وَكَذَلِكَ فِي الصُّبْحِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرْ مُسَدَّدٌ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی ہمیں (ایک آدھ) آیت سنا دیتے تھے، اور آپ ظہر کی پہلی رکعت لمبی اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح صبح کی نماز میں کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مسدد نے «فاتحة الكتاب» اور «سورة» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۶ (۷۵۹)، ۹۷ (۷۶۲)، ۱۰۷ (۷۷۶)، ۱۰۹ (۸۸۷)، ۱۱۰ (۷۷۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۴ (۴۵۱)، سنن النسائی/الافتتاح ۵۶(۹۷۵)، ۵۷(۹۷۶)، ۵۸ (۹۷۷)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۸ (۸۲۹)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۸۳، ۵/۲۹۵، ۲۹۷، ۳۰۰، ۳۰۱، ۳۰۵، ۳۰۷، ۳۰۸، ۳۱۰، ۳۱۱، ۳۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، وَأَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، بِبَعْضِ هَذَا، وَزَادَ فِي الْأُخْرَيَيْنِ: بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَزَادَ. عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ: "وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مَا لَا يُطَوِّلُ فِي الثَّانِيَةِ، وَهَكَذَا فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ، وَهَكَذَا فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ".
اس سند سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے گزشتہ حدیث کے بعض حصے مروی ہیں، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ پچھلی دونوں رکعتوں میں (صرف) سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور حسن بن علی نے بواسطہ «يزيد بن هارون عن همام» اتنی زیادتی اور کی ہے کہ آپ پہلی رکعت اتنی لمبی کرتے جتنی دوسری نہیں کرتے تھے اور اسی طرح عصر میں اور اسی طرح فجر میں (بھی کرتے تھے) ۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يُدْرِكَ النَّاسُ الرَّكْعَةَ الْأُولَى.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا اس لیے کرتے تھے کہ لوگ پہلی رکعت پا جائیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۷۹۸، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: قُلْنَالِخَبَّابٍ"هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْنَا: بِمَ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ ذَاكَ ؟ قَالَ: بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ".
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر میں قرآت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں (قرآت کرتے تھے)، ہم نے کہا: آپ لوگوں کو یہ بات کیسے معلوم ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: آپ کی داڑھی کے ہلنے سے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۱ (۷۴۶)، ۹۶ (۷۶۰)، ۹۷، ۱۰۸ (۷۷۷)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷ (۸۲۶)، (تحفة الأشراف: ۳۵۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۰۹،۱۱۰، ۱۱۲، ۶/۳۹۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : امام بیہقی نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ سری قرات میں یہ ضروری ہے کہ آدمی خود کو سنا سکے کیونکہ «اضطراب لحية» زبان اور دونوں ہونٹ ہلے بغیر ممکن نہیں اگر آدمی اپنے دونوں ہونٹ بند رکھے اور صرف زبان ہلائے تو داڑھی نہیں ہل سکتی اور قرات خود کو نہیں سنا سکتا (فتح الباری، حدیث: ۷۶۰)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يَقُومُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ حَتَّى لَا يُسْمَعَ وَقْعُ قَدَمٍ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں اتنی دیر تک قیام کرتے تھے کسی قدم کی آہٹ نہیں سنی جاتی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداو، (تحفة الأشراف: ۵۱۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۵۶) (ضعیف) (اس کی سند میں رجل مبہم راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جماعت میں آنے والے سب آ چکے ہوتے کوئی باقی نہیں رہتا۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِسَعْدٍ: قَدْ شَكَاكَ النَّاسُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: "أَمَّا أَنَا فَأَمُدُّ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، وَلَا آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے آپ کی ہر چیز میں شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کے بارے میں بھی، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں مختصر پڑھتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے طریقہ نماز کی) پیروی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۵ (۷۵۵)، ۱۰۳ (۷۷۰)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۴ (۴۵۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۷۴ (۱۰۰۳)، (تحفة الأشراف: ۳۸۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷۵، ۱۷۶، ۱۷۹، ۱۸۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ يَعْنِي النُّفَيْلِيَّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "حَزَرْنَا قِيَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ قَدْرَ ثَلَاثِينَ آيَةً قَدْرَ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ، وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ، وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الْأُولَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَى قَدْرِ الْأُخْرَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ، وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ظہر اور عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگایا تو ہم نے اندازہ لگایا کہ آپ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں تیس آیات کے بقدر یعنی سورۃ الم تنزیل السجدہ کے بقدر قیام فرماتے ہیں، اور پچھلی دونوں رکعتوں میں اس کے آدھے کا اندازہ لگایا، اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں ہم نے اندازہ کیا تو ان میں آپ کی قرآت ظہر کی آخری دونوں رکعتوں کے بقدر ہوتی اور آخری دونوں رکعتوں میں ہم نے اس کے آدھے کا اندازہ لگایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۳۴ (۴۵۲)، سنن النسائی/الصلاة ۱۶ (۴۱۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷ (۸۲۸)، (تحفة الأشراف: ۳۹۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۲ (۱۳۲۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ، وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَنَحْوِهِمَا مِنَ السُّوَرِ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں «والسماء والطارق» ، «والسماء ذات البروج»اور ان دونوں جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۷ (۳۰۷)، سنن النسائی/الافتتاح ۶۰ (۹۸۰)، (تحفة الأشراف: ۲۱۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۰۱، ۱۰۳، ۱۰۶، ۱۰۸) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا دَحَضَتِ الشَّمْسُ صَلَّى الظُّهْرَ، وَقَرَأَ بِنَحْوٍ مِنْ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَالْعَصْرِ كَذَلِكَ، وَالصَّلَوَاتِ كَذَلِكَ إِلَّا الصُّبْحَ فَإِنَّهُ كَانَ يُطِيلُهَا".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھتے اور اس میں «والليل إذا يغشى»جیسی سورت پڑھتے تھے، اسی طرح عصر میں اور اسی طرح بقیہ نمازوں میں پڑھتے سوائے فجر کے کہ اسے لمبی کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۳۳ (۶۱۸)، سنن النسائی/الإفتتاح ۶۰ (۹۸۱)، سنن ابن ماجہ/الصلاة ۳(۶۷۳)، (تحفة الأشراف: ۲۱۷۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۸۶، ۸۸، ۱۰۱، ۱۰۶، ۱۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَهُشَيْمٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"سَجَدَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ، فَرَأَيْنَا أَنَّهُ قَرَأَ تَنْزِيلَ السَّجْدَةِ". قَالَ ابْنُ عِيسَى: لَمْ يَذْكُرْ أُمَيَّةَ أَحَدٌ إِلَّا مُعْتَمِرٌ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر میں سجدہ کیا پھر کھڑے ہوئے اور رکوع کیا تو ہم نے جانا کہ آپ نے الم تنزیل السجدہ پڑھی ہے۔ ابن عیسیٰ کہتے ہیں: معتمر کے علاوہ کسی نے بھی (سند میں) امیہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۸۵۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۸۳) (ضعیف) (اس کے راوی أمیہ مجہول ہیں، نیز سند میں ان کا ہونا نہ ہونا مختلف فیہ ہے)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فِي شَبَابٍ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، فَقُلْنَا لِشَابٍّ مِنَّا: سَلْ ابْنَ عَبَّاسٍ"أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ؟ فَقَالَ: لَا، لَا. فَقِيلَ لَهُ: فَلَعَلَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: خَمْشًا هَذِهِ شَرٌّ مِنَ الْأُولَى كَانَ عَبْدًا مَأْمُورًا، بَلَّغَ مَا أُرْسِلَ بِهِ، وَمَا اخْتَصَّنَا دُونَ النَّاسِ بِشَيْءٍ إِلَّا بِثَلَاثِ خِصَالٍ: "أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوءَ، وَأَنْ لَا نَأْكُلَ الصَّدَقَةَ، وَأَنْ لَا نُنْزِيَ الْحِمَارَ عَلَى الْفَرَسِ".
عبداللہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں بنی ہاشم کے کچھ نوجوانوں کے ہمراہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے اپنے میں سے ایک نوجوان سے کہا: تم ابن عباس سے پوچھو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے؟ ابن عباس نے کہا: نہیں، نہیں، تو ان سے کہا گیا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جی میں قرآت کرتے رہے ہوں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ تمہارے چہرے یا چمڑے میں خراش کرے! یہ پہلی سے بھی بری ہے ۱؎، آپ ایک مامور (حکم کے پابند) بندے تھے، آپ کو جو حکم ملتا وہی لوگوں کو پہنچاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (بنی ہاشم) کو کوئی مخصوص حکم نہیں دیا سوائے تین باتوں کے: ایک یہ کہ ہم کامل وضو کریں دوسرے یہ کہ صدقہ نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ گدھے کو گھوڑی پر نہ چڑھائیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجہاد ۲۳ (۱۷۰۱)، سنن النسائی/الطھارة ۱۰۶ (۱۴۱)، والخیل ۹ (۳۶۱۱)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۴۹ (۴۲۶)، (تحفة الأشراف: ۵۷۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۲، ۲۳۵، ۲۴۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا وہم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کا پڑھنا ثابت ہے، اوپر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور خباب رضی اللہ عنہ کی روایتیں گزر چکی ہیں جو صریح طور سے اس پر دلالت کرتی ہیں۔
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "لَا أَدْرِي أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ أَمْ لَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے یا نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۶۰۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴۹، ۲۵۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ"أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ سَمِعَتْهُ وَهُوَ يَقْرَأُ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا، فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ، لَقَدْ ذَكَّرْتَنِي بِقِرَاءَتِكَ هَذِهِ السُّورَةِ، إِنَّهَا لَآخِرُ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فِي الْمَغْرِبِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے انہیں «والمرسلات عرفا» پڑھتے ہوئے سنا تو کہنے لگیں: میرے بیٹے! تم نے اس سورۃ کو پڑھ کر مجھے یاد دلا دیا، یہی آخری سورت ہے جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں پڑھتے ہوئے سنا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۸ (۷۶۳)، والمغازي ۸۳ (۴۴۲۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۵ (۴۶۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۸ (۳۰۸)، سنن النسائی/الافتتاح ۶۴ (۹۸۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۹ (۸۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۵۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۵ (۲۴)، مسند احمد (۶/۳۳۸، ۳۴۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۴ (۱۳۳۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَقْرَأُ بِالطُّورِ فِي الْمَغْرِبِ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں سورۃ الطور پڑھتے ہوئے سنا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۹ (۷۶۵)، والجھاد ۱۷۲ (۳۰۵۰)، والمغازي ۱۲ (۴۰۲۳)، وتفسیر الطور ۱ (۴۸۵۴)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۵ (۴۶۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۶۵ (۹۸۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۹ (۸۳۲)، (تحفة الأشراف: ۳۱۸۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۵(۲۳)، مسند احمد (۴/۸۰، ۸۳، ۸۴، ۸۵)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۴ (۱۳۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: مَا لَكَ تَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِطُولَى الطُّولَيَيْنِ ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا طُولَى الطُّولَيَيْنِ ؟ قَالَ: الْأَعْرَافُ، وَالْأُخْرَى الْأَنْعَامُ". قَالَ: وَسَأَلْتُ أَنَا ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، فَقَالَ لِي مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ: الْمَائِدَةُ، وَالْأَعْرَافُ.
مروان بن حکم کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا وجہ ہے کہ تم مغرب میں قصار مفصل پڑھا کرتے ہو؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، مروان کہتے ہیں: میں نے (ان سے) پوچھا: وہ دو لمبی لمبی سورتیں کون سی ہیں؟ انہوں نے کہا سورۃ الاعراف اور دوسری سورۃ الانعام ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں نے ابن ابی ملیکہ سے پوچھا: تو انہوں نے مجھ سے خود اپنی طرف سے کہا: وہ سورۃ المائدہ اور اعراف ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۸ (۷۶۴)، سنن النسائی/الافتتاح ۶۷ (۹۹۰)، (تحفة الأشراف: ۳۷۳۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۸۵، ۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ"يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ بِنَحْوِ مَا تَقْرَءُونَ وَالْعَادِيَاتِ وَنَحْوِهَا مِنَ السُّوَرِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ ذَاكَ مَنْسُوخٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ.
حماد کہتے ہیں کہ ہشام بن عروہ نے ہمیں خبر دی ہے کہ ان کے والد مغرب میں ایسی ہی سورۃ پڑھتے تھے جیسے تم پڑھتے ہو مثلاً سورۃ العادیات اور اسی جیسی سورتیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ۱؎ حدیث منسوخ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۰۳۴أ) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی سورہ مائدہ ، انعام اور اعراف پڑھنے والی حدیث، اگر منسوخ کے بجائے یہ کہا جائے کہ ’’وہ بیان جواز کے لئے ہے‘‘ تو زیادہ بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ السَّرْخَسِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ، يُحَدِّثُ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ قَالَ: "مَا مِنْ الْمُفَصَّلِ سُورَةٌ صَغِيرَةٌ وَلَا كَبِيرَةٌ إِلَّا وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّ النَّاسَ بِهَا فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مفصل ۱؎ کی چھوٹی بڑی کوئی سورت ایسی نہیں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز میں لوگوں کی امامت کرتے ہوئے نہ سنا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۷۸۸) (ضعیف) (ابن اسحاق مدلس ہیں اور یہاں انہوں نے عنعنہ سے روایت کیا ہے)
وضاحت: ۱؎ : صحیح قول کی رو سے سورۃ ’’ق‘‘ سے اخیر قرآن تک کی سورتیں ’’مفصل‘‘ کہلاتی ہیں۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، عَنْ النَّزَّالِ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، أَنَّهُ"صَلَّى خَلْفَ ابْنِ مَسْعُودٍ الْمَغْرِبَ، فَقَرَأَ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے مغرب پڑھی تو انہوں نے «قل هو الله أحد» پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۳۸۰) (ضعیف) (اس کے راوی النزال لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، أَنَّرَجُلًا مِنْ جُهَيْنَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ: إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا". فَلَا أَدْرِي أَنَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ قَرَأَ ذَلِكَ عَمْدًا.
معاذ بن عبداللہ جہنی کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی دونوں رکعتوں میں «إذا زلزلت الأرض» پڑھتے ہوئے سنا، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے تھے یا آپ نے عمداً اسے پڑھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۷۳) (حسن)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَصْبَغَ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: كَأَنِّي أَسْمَعُ صَوْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ: فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ 15 الْجَوَارِ الْكُنَّسِ 16 سورة التكوير آية 15-16".
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں گویا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن رہا ہوں، آپ فجر میں «فلا أقسم بالخنس * الجوار الكنس» پڑھ رہے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ۵ (۸۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۷۱۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۳۵ (۴۵۶)، مسند احمد (۴/۳۰۶، ۳۰۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۶ (۱۳۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: "أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا تَيَسَّرَ".
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں نماز میں سورۃ فاتحہ اور جو سورۃ آسان ہو اسے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۴۳۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۵،۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ الْبَصْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اخْرُجْ فَنَادِ فِي الْمَدِينَةِ أَنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقُرْآنٍ وَلَوْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "تم جاؤ اور مدینہ میں اعلان کر دو کہ نماز بغیر قرآن کے نہیں ہوتی، اگرچہ سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور ہی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۲۸) (منکر) ( جعفر بن میمون ضعیف راوی ہیں، نیز ثقات کی مخالفت کی ہے)
حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ اعلان کر دوں کہ سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھے بغیر نماز نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۱۹) (صحیح) (صحیح مسلم میں مروی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بھی جعفر بن میمون ہیں)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُأَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ، فَهِيَ خِدَاجٌ، فَهِيَ خِدَاجٌ، غَيْرُ تَمَامٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں"۔ راوی ابوسائب کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا: ابوہریرہ! کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں!) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دی ہے، اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ بھی ہے جو وہ مانگے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پڑھو: بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی، بندہ«الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری توصیف کی، بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی، بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر بندہ «اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ سب میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۲؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۱ (۳۹۵)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ۲ (۲۹۵۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۳ (۹۱۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱ (۸۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۳۵، ۱۴۰۴۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۹ (۳۹)، مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۵۰، ۲۸۵، ۲۹۰، ۴۵۷، ۴۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نماز سے مراد سورہ فاتحہ ہے ، تعظیماً کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ۲؎ : جو لوگ بسم اللہ کو سورۃ فاتحہ کا جزء نہیں مانتے ہیں اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بسم اللہ کے سورۃ فاتحہ کے جزء ہونے کی صورت میں اس حدیث میں اس کا بھی ذکر ہونا چاہئے جیسے اور ساری آیتوں کا ذکر ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا". قَالَ سُفْيَانُ: لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی ۱؎"۔ سفیان کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۱ (۳۹۴)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۴ (۹۱۱) (وقد ورد بدون قولہ :’’فصاعداً‘‘ عند : صحیح البخاری/الأذان ۹۵ (۷۵۶)، سنن الترمذی/ الصلاة ۶۹ (۲۴۷)، ۱۱۶ (۳۱۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱ (۸۳۷)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۱۴، ۳۲۱، ۳۲۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۶ (۱۲۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ سورہ فاتحہ سے کم پر نماز جائز نہیں ہو گی، سورہ فاتحہ سے زائد قرات کے وجوب کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ ۲؎ : خطابی کا کہنا ہے کہ یہ عام ہے بغیر کسی دلیل کے اس کی تخصیص جائز نہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: "لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ، قُلْنَا: نَعَمْ، هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: "شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟"، ہم نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی الصلاة ۱۱۵ (۳۱۱)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲)، (حسن) (ابن خزیمة نے اسے صحیح کہا ہے (۳؍۳۶- ۳۷) ترمذی ، دارقطنی اور بیہقی نے بھی حسن کہا ہے (۲؍۱۶۴) ابن حجر نے نتائج الافکار میں حسن کہا ہے )، ملاحظہ ہو: امام الکلام تالیف مولانا عبدالحی لکھنوی (۲۷۷- ۲۷۸)
وضاحت: ۱؎ : جب اسے «هَذَّ يَهُذُّ» کا مصدر «هَذًّا» مانا جائے تو اس کے معنی پڑھنے والے کا ساتھ پکڑنے کے لئے جلدی جلدی پڑھنے کے ہوں گے، اور اگر «هذا» کو اسم اشارہ مانا جائے تو ترجمہ یوں کریں گے ’’ایسا ہی ہے‘‘۔
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْمَكْحُولٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ نَافِعٌ: أَبْطَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، فَأَقَامَ أَبُو نُعَيْمٍ الْمُؤَذِّنُ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى أَبُو نُعَيْمٍ بِالنَّاسِ، وَأَقْبَلَ عُبَادَةُ وَأَنَا مَعَهُ حَتَّى صَفَفْنَا خَلْفَ أَبِي نُعَيْمٍ، وَأَبُو نُعَيْمٍ يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ، فَجَعَلَ عُبَادَةُ يَقْرَأُ أُمَّ الْقُرْآنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ لِعُبَادَةَ: سَمِعْتُكَ تَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَأَبُو نُعَيْمٍ يَجْهَرُ، قَالَ: أَجَلْ، صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يَجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، قَالَ: فَالْتَبَسَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، وَقَالَ: "هَلْ تَقْرَءُونَ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ ؟ فَقَالَ بَعْضُنَا: إِنَّا نَصْنَعُ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَا، وَأَنَا أَقُولُ مَا لِي يُنَازِعُنِي الْقُرْآنُ، فَلَا تَقْرَءُوا بِشَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ".
نافع بن محمود بن ربیع انصاری کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فجر میں تاخیر کی تو ابونعیم مؤذن نے تکبیر کہہ کر خود لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اتنے میں عبادہ آئے ان کے ساتھ میں بھی تھا، ہم لوگوں نے بھی ابونعیم کے پیچھے صف باندھ لی، ابونعیم بلند آواز سے قرآت کر رہے تھے، عبادہ سورۃ فاتحہ پڑھنے لگے، جب ابونعیم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے آپ کو (نماز میں) سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا، حالانکہ ابونعیم بلند آواز سے قرآت کر رہے تھے، انہوں نے کہا: ہاں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک جہری نماز پڑھائی جس میں آپ زور سے قرآت کر رہے تھے، آپ کو قرآت میں التباس ہو گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: "جب میں بلند آواز سے قرآت کرتا ہوں تو کیا تم لوگ بھی قرآت کرتے ہو؟"، تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہاں، ہم ایسا کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اب ایسا مت کرنا، جبھی میں کہتا تھا کہ کیا بات ہے کہ قرآن مجھ سے کوئی چھینے لیتا ہے تو جب میں بلند آواز سے قرآت کروں تو تم سوائے سورۃ فاتحہ کے قرآن میں سے کچھ نہ پڑھو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۲۹ (۹۲۱)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۶) (صحیح) (اہل علم نے اس حدیث کے بارے میں لمبی چوڑی بحثیں کی ہیں، ملاحظہ ہو: تحقيق الكلام في وجوب القرائة خلف الإمام للعلامة عبدالرحمن المباركفوري، وإمام الكلام للشيخ عبدالحي اللكهنوي، و ضعيف أبي داود (9/ 318)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ ابْنِ جَابِرٍ، وَسَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَلَاءِ، عَنْمَكْحُولٍ، عَنْ عُبَادَةَ، نَحْوَ حَدِيثِ الرَّبِيعِ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالُوا: فَكَانَ مَكْحُولٌ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَالصُّبْحِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ سِرًّا. قَالَ مَكْحُولٌ: اقْرَأْ بِهَا فِيمَا جَهَرَ بِهِ الْإِمَامُ إِذَا قَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسَكَتَ سِرًّا، فَإِنْ لَمْ يَسْكُتِ اقْرَأْ بِهَا قَبْلَهُ وَمَعَهُ وَبَعْدَهُ لَا تَتْرُكْهَا عَلَى كُلِّ حَالٍ.
اس طریق سے بھی عبادہ رضی اللہ عنہ سے ربیع بن سلیمان کی حدیث کی طرح روایت مروی ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ مکحول مغرب، عشاء اور فجر میں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ آہستہ سے پڑھتے تھے، مکحول کا بیان ہے: جب امام جہری نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سکتہ کرے، اس وقت آہستہ سے سورۃ فاتحہ پڑھ لیا کرو اور اگر سکتہ نہ کرے تو اس سے پہلے یا اس کے ساتھ یا اس کے بعد پڑھ لیا کرو، کسی حال میں بھی ترک نہ کرو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۴) (ضعیف) (مکحول نے عبادہ رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، فَقَالَ: "هَلْ قَرَأَ مَعِيَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ مِنَ الصَّلَوَاتِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى حَدِيثَ ابْنِ أُكَيْمَةَ هَذَا مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ. عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَلَى مَعْنَى مَالِكٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے جس میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی تھی پلٹے تو فرمایا:"کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی ابھی قرآت کی ہے؟"، تو ایک آدمی نے عرض کیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:"تبھی تو میں (دل میں) کہہ رہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ کشمکش کی جا رہی ہے"۔ زہری کہتے ہیں: جس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تو جس نماز میں آپ جہری قرآت کرتے تھے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآت کرنے سے رک گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن اکیمہ کی اس حدیث کو معمر، یونس اور اسامہ بن زید نے زہری سے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۷ (۳۱۲)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۸ (۹۲۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳ (۸۴۸، ۸۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۶۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۰(۴۴)، مسند احمد (۲/۲۴۰، ۲۸۴، ۲۸۵، ۳۰۲، ۴۸۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، وَابْنِ السَّرْحِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيِّ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،سَمِعْتُ ابْنَ أُكَيْمَةَ، يُحَدِّثُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً نَظُنُّ أَنَّهَا الصُّبْحُ بِمَعْنَاهُ إِلَى قَوْلِهِ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ. قَالَ أَبُو دَاوُدُ: قَالَ مُسَدَّدٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ مَعْمَرٌ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ فِيمَا جَهَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقَالَ ابْنُ السَّرْحِ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَانْتَهَى النَّاسُ، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ مِنْ بَيْنِهِمْ: قَالَ سُفْيَانُ: وَتَكَلَّمَ الزُّهْرِيُّ بِكَلِمَةٍ لَمْ أَسْمَعْهَا، فَقَالَ مَعْمَرٌ: إِنَّهُ قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَانْتَهَى حَدِيثُهُ إِلَى قَوْلِهِ: مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ، وَرَوَاهُ الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ فِيهِ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَاتَّعَظَ الْمُسْلِمُونَ بِذَلِكَ فَلَمْ يَكُونُوا يَقْرَءُونَ مَعَهُ فِيمَا يَجْهَرُ بِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالَ قَوْلُهُ: فَانْتَهَى النَّاسُ مِنْ كَلَامِ الزُّهْرِيِّ.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، ہمارا گمان ہے کہ وہ نماز فجر تھی، پھر اسی مفہوم کی حدیث «ما لي أنازع القرآن» تک بیان کی۔ مسدد کی روایت میں ہے کہ معمر نے کہا: تو لوگ اس نماز میں قرآت سے رک گئے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہری قرآت کرتے تھے، اور ابن سرح کی روایت میں ہے کہ معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: «فانتهى الناس» یعنی لوگ (قرآت سے) رک گئے، عبداللہ بن محمد زہری کہتے ہیں کہ سفیان نے کہا کہ زہری نے کوئی بات کہی، جسے میں سن نہ سکا تو معمر نے کہا وہ یہی «فانتهى الناس» کا کلمہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان کی روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «ما لي أنازع القرآن» پر ختم ہے اور اسے اوزاعی نے بھی زہری سے روایت کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ زہری نے کہا: اس سے مسلمانوں نے نصیحت حاصل کی، چنانچہ جس نماز میں آپ جہری قرآت کرتے، آپ کے ساتھ قرآت نہیں کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے محمد بن یحییٰ بن فارس کو کہتے ہو ے سنا ہے کہ «فانتهى الناس» زہری کا کلام ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۶۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مؤلف کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ «فانتهى الناس» کے جملہ کو معمر کبھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کلام قرار دیتے ہیں، اور کبھی زہری کا، لیکن زہری کے دوسرے تلامذہ سفیان ، عبدالرحمن بن اسحاق، اوزاعی اور محمد بن یحییٰ بن فارس نے اسے زہری کا کلام قرار دیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح. وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ الْمَعْنَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْزُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى الظُّهْرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَرَأَ خَلْفَهُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: أَيُّكُمْ قَرَأَ ؟ قَالُوا: رَجُلٌ، قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا". قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ أَبُو الْوَلِيدُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ: أَلَيْسَ قَوْلُ سَعِيدٍ أَنْصِتْ لِلْقُرْآنِ ؟ قَالَ: ذَاكَ إِذَا جَهَرَ بِهِ. قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: قُلْتُ لِقَتَادَةَ: كَأَنَّهُ كَرِهَهُ، قَالَ: لَوْ كَرِهَهُ نَهَى عَنْهُ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی تو ایک شخص آیا اور اس نے آپ کے پیچھے «سبح اسم ربك الأعلى» کی قرآت کی، جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے پوچھا: "تم میں کس نے قرآت کی ہے؟"، لوگوں نے کہا: ایک شخص نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے ایسا محسوس ہوا کہ تم میں سے کسی نے مجھے اشتباہ میں ڈال دیا ہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوالولید نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ شعبہ نے کہا تو میں نے قتادہ سے پوچھا: کیا سعید کا یہ کہنا نہیں ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم خاموش رہو؟ انہوں نے کہا: یہ حکم اس وقت ہے، جب قرآت جہر سے ہو۔ ابن کثیر نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ سے کہا: گویا آپ نے اسے ناپسند کیا تو انہوں نے کہا: اگر آپ کو یہ ناپسند ہوتا، تو آپ اس سے منع فرما دیتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۲ (۴۹۸)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۷ (۹۱۶،۹۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۲۶، ۴۳۱، ۴۳۳، ۵۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف (زور سے پڑھنے) کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلجان قلب کو ناپسند کیا، سورہ کی قرأت پر صاد کیا، تو سورہ فاتحہ کی قرأت پر بدرجہ اولیٰ پسندیدگی پائی گئی۔
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى بِهِمُ الظُّهْرَ فَلَمَّا انْفَتَلَ، قَالَ: أَيُّكُمْ قَرَأَ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، فَقَالَ: عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہر پڑھائی، تو جب آپ پلٹے تو فرمایا: "تم میں سے کس نے (ہمارے پیچھے) سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی ہے؟"، تو ایک آدمی نے کہا: میں نے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے محسوس ہوا کہ تم میں سے کسی نے میرے دل میں خلجان ڈال دیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۲۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَفِينَا الْأَعْرَابِيُّ وَالْأَعْجَمِيُّ، فَقَالَ: "اقْرَءُوا فَكُلٌّ حَسَنٌ، وَسَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يُقِيمُونَهُ كَمَا يُقَامُ الْقِدْحُ يَتَعَجَّلُونَهُ وَلَا يَتَأَجَّلُونَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم میں بدوی بھی تھے اور عجمی بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پڑھو سب ٹھیک ہے عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو اسے(یعنی قرآن کے الفاظ و کلمات کو) اسی طرح درست کریں گے جیسے تیر درست کیا جاتا ہے (یعنی تجوید و قرآت میں مبالغہ کریں گے) اور اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کے بجائے جلدی جلدی پڑھیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۳۰۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۵۷، ۳۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، وَابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ وَفَاءِ بْنِ شُرَيْحٍ الصَّدَفِيِّ،عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَنَحْنُ نَقْتَرِئُ، فَقَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ، كِتَابُ اللَّهِ وَاحِدٌ، وَفِيكُمُ الْأَحْمَرُ وَفِيكُمُ الْأَبْيَضُ وَفِيكُمُ الْأَسْوَدُ، اقْرَءُوهُ قَبْلَ أَنْ يَقْرَأَهُ أَقْوَامٌ يُقِيمُونَهُ كَمَا يُقَوَّمُ السَّهْمُ يُتَعَجَّلُ أَجْرُهُ وَلَا يُتَأَجَّلُهُ".
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الحمداللہ! اللہ کی کتاب ایک ہے اور تم لوگوں میں اس کی تلاوت کرنے والے سرخ، سفید، سیاہ سب طرح کے لوگ ہیں، تم اسے پڑھو قبل اس کے کہ ایسے لوگ آ کر اسے پڑھیں، جو اسے اسی طرح درست کریں گے، جس طرح تیر کو درست کیا جاتا ہے، اس کا بدلہ (ثواب) دنیا ہی میں لے لیا جائے گا اور اسے آخرت کے لیے نہیں رکھا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود : ۵(۳۳۸)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۷) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالَانِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا، فَعَلِّمْنِي مَا يُجْزِئُنِي مِنْهُ ؟ قَالَ: قُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمَا لِي ؟ قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي، وَاهْدِنِي، فَلَمَّا قَامَ، قَالَ هَكَذَا بِيَدِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ مَلَأَ يَدَهُ مِنَ الْخَيْرِ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھ سکتا، اس لیے آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئیے جو اس کے بدلے مجھے کفایت کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو"، اس نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو اللہ کی تعریف ہوئی، میرے لیے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم کہا کرو «اللهم ارحمني وارزقني وعافني واهدني» "اے پروردگار! مجھ پر رحم فرما، مجھے روزی دے، مجھے عافیت دے اور مجھ کو ہدایت دے"، جب وہ شخص کھڑا ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا ۱؎ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نے تو اپنا ہاتھ خیر سے بھر لیا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/ افتتاح ۳۲ (۹۲۵) (تحفة الأشراف: ۵۱۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۵۳، ۳۵۶، ۳۸۲) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی دونوں ہاتھوں کو سمیٹا جس سے اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس نے ان باتوں کو محفوظ کر لیا ہے جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا ہے جس طرح کوئی عمدہ چیز سمیٹ کر آدمی اسے محفوظ کرتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ يَعْنِي الْفَزَارِيَّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "كُنَّا نُصَلِّي التَّطَوُّعَ نَدْعُو قِيَامًا وَقُعُودًا، وَنُسَبِّحُ رُكُوعًا وَسُجُودًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نفل نماز پڑھتے تو قیام و قعود کی حالت میں دعا کرتے اور رکوع و سجود کی حالت میں تسبیح پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۲۲۰) (ضعیف) (حسن بصری نے جابر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، مِثْلَهُ لَمْ يَذْكُرِ التَّطَوُّعَ. قَالَ: كَانَ الْحَسَنُ"يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ إِمَامًا أَوْ خَلْفَ إِمَامٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَيُسَبِّحُ وَيُكَبِّرُ وَيُهَلِّلُ قَدْرَ ق، وَالذَّارِيَاتِ".
حمید سے اسی کے مثل مروی ہے، اس میں راوی نے نفل کا ذکر نہیں کیا ہے، اس میں ہے کہ حسن بصری ظہر اور عصر میں خواہ وہ امام ہوں یا امام کے پیچھے ہوں، سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور سورۃ "ق" اور سورۃ "ذاریات" پڑھنے کے بقدر (وقت میں) تسبیح و تکبیر اور تہلیل کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۲۲۰، ۱۸۵۱۳) (ضعیف مقطوع ولکن فعلہ صحیح وثابت) (جابر رضی اللہ عنہ کا اثر ضعیف ہے، اور حسن بصری کا فعل صحیح ہے، قرأت پر قادر آدمی کے لئے قرأت فرض ہے)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ أَنَا، وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍخَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَكَانَ"إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ، وَإِذَا رَكَعَ كَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا أَخَذَ عِمْرَانُ بِيَدِي، وَقَالَ: لَقَدْ صَلَّى هَذَا قَبْلُ، أَوْ قَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا هَذَا قَبْلَ صَلَاةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مطرف کہتے ہیں میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو جب وہ سجدہ کرتے تو «الله اكبر» کہتے، جب رکوع کرتے تو «الله اكبر» کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر تیسری کے لیے اٹھتے تو «الله اكبر» کہتے، جب ہم فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: ابھی انہوں نے ایسی نماز پڑھی ہے (راوی کو شک ہے) یا ابھی ہمیں ایسی نماز پڑھائی ہے، جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہوتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۱۶ (۷۸۶)، ۱۴۴ (۸۲۶)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۰ (۳۹۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۲۴ (۱۰۸۳)، والسھو ۱ (۱۱۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/ ۴۲۹، ۴۳۲،۴۰۰، ۴۴۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أُبَيٌّ، وَبَقِيَّةُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَبُو سَلَمَةَ، أن أبا هريرة كان"يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلَاةٍ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ وَغَيْرِهَا، يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الْجُلُوسِ فِي اثْنَتَيْنِ، فَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلَاتُهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا". قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا الْكَلَامُ الْأَخِيرُ يَجْعَلُهُ مَالِكٌ، وَالزُّبَيْدِيُّ، وَغَيْرِهِمَا. عَنْ الزُّهْرِيِّ،عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، وَوَافَقَ عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ شُعَيْبَ بْنَ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
زہری کہتے ہیں: مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ نے خبر دی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرض ہو یا نفل ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے خواہ فرض ہو یا نفل، نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت تکبیر «الله اكبر» (تکبیر تحریمہ) کہتے، پھر رکوع کرتے وقت تکبیر «الله اكبر» کہتے، پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے، اس کے بعد سجدہ کرنے سے پہلے «ربنا ولك الحمد» کہتے، پھر جب سجدے میں جانے لگتے تو «الله اكبر» کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو «الله اكبر» کہتے، پھر جب (دوسرے) سجدے میں جاتے تو «الله اكبر»کہتے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو «الله اكبر» کہتے، پھر جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو «الله اكبر» کہتے، ایسے ہی ہر رکعت میں نماز سے فارغ ہونے تک (تکبیر) کہتے ۱؎، پھر جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو کہتے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم میں سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے، اسی طرح آپ کی نماز تھی یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس کے آخری ٹکڑے یعنی «إن كانت هذه لصلاته حتى فارق الدنيا» کو مالک اور زبیدی وغیرہ زہری کے واسطہ سے علی بن حسین سے مرسلاً نقل کرتے ہیں اور عبدالاعلی نے بواسطہ معمر زہری کے دونوں شیوخ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے ذکر کرنے میں شعیب بن ابی حمزہ کی موافقت کی ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۱۵ (۷۸۵)، ۱۲۸ (۸۰۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۸۴ (۱۰۲۴)، والتطبیق ۹۴ (۱۱۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۶۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۴ (۱۹)، مسند احمد (۲/۲۳۶، ۲۷۰، ۳۰۰، ۳۱۹، ۴۵۲، ۴۹۷، ۵۰۲، ۵۲۷، ۵۳۳)، سنن الدارمی/الصلاة ۴۰ (۱۲۸۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس طرح دو رکعت والی نماز میں کل گیارہ تکبیریں اور چار رکعت کی نماز میں ۲۲ تکبیریں ہوئیں اور پانچوں فرض نماز میں کل (۹۴) تکبیریں ہوئیں جس میں سے صرف تکبیر تحریمہ فرض ہے اور باقی سبھی سنت ہیں اگر وہ کسی سے چھوٹ جائیں تو نماز ہو جائے گی البتہ فضیلت اور سنت کی موافقت اس سے فوت ہو جائے گی۔ ۲؎ : جب کہ عقیل نے ابن شہاب سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے صرف «أخبرني أبو بكر بن عبدالرحمن» کہا ہے ابوسلمہ کا ذکر نہیں کیا ہے اور مالک نے ابن شہاب سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے صرف «عن أبي سلمة بن عبدالرحمن» کہا ہے ابوبکر بن عبدالرحمن کا ذکر نہیں کیا ہے اس کے برخلاف ابن شہاب کے تلامذہ میں سے شعیب بن ابی حمزہ نے ابن شہاب کے دونوں شیوخ کا ذکر کیا ہے اسی طرح عبدالاعلیٰ نے بواسطہ معمر عن زہری دونوں کا ذکر کیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ الشَّامِيِّ، وقَالَ أَبُو دَاوُدَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْقَلَانِيُّ، عَنْ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"وَكَانَ لَا يُتِمُّ التَّكْبِيرَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: مَعْنَاهُ: إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَأَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ لَمْ يُكَبِّرْ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يُكَبِّرْ.
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ تکبیر مکمل نہیں کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے اور جب سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے اور جب سجدے سے کھڑے ہوتے تو تکبیر نہیں کہتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۶۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۰۷) (ضعیف) (اس کے راوی حسن بن عمران لین الحدیث ہیں، نیز حدیث میں اضطراب ہے)
وضاحت: ۱؎ :صحیح روایتوں سے سوائے رکوع سے سر اٹھانے کے باقی سبھی حرکات میں اللہ اکبر کہنا ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے ۱؎ اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ الصلاة ۸۴ (۲۶۸)، سنن النسائی/الإفتتاح ۱۲۸ (۱۰۹۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹(۸۸۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۰) (ضعیف) (شریک جب متفرد ہوں تو ان کی روایت مقبول نہیں)
وضاحت: ۱؎ : امام دارقطنی کہتے ہیں: اس حدیث کو عاصم سے شریک کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے اور شریک تفرد کی صورت میں قوی نہیں ہیں، علامہ البانی کہتے ہیں: اس حدیث کے متن کو عاصم بن کلیب سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ شریک کی نسبت زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کے باوجود ان لوگوں نے سجدہ میں جانے اور اٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث میں شریک کو وہم ہوا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ حَدِيثَ الصَّلَاةِ، قَالَ: "فَلَمَّا سَجَدَ وَقَعَتَا رُكْبَتَاهُ إِلَى الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ كَفَّاهُ". قَالَ هَمَّامٌ: وَحَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ هَذَا، وَفِي حَدِيثِ أَحَدِهِمَا، وَأَكْبَرُ عِلْمِي أَنَّهُ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، "وَإِذَا نَهَضَ نَهَضَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَاعْتَمَدَ عَلَى فَخِذِهِ".
اس سند سے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت مروی ہے، اس میں ہے کہ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے ہتھیلیوں سے پہلے زمین پر پڑتے۔ ہمام کہتے ہیں: مجھ سے شقیق نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے عاصم بن کلیب نے اور عاصم نے اپنے والد سے کلیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے اور ان دونوں میں سے کسی کی حدیث میں اور میرا غالب گمان یہی ہے کہ محمد بن جحادہ کی حدیث میں یہ ہے: "جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو اپنی ران پر ٹیک لگا کر اپنے دونوں گھٹنوں کے بل اٹھتے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۲) (ضعیف) قد تقدم ہذا الحدیث برقم (۷۳۶) (عبدالجبار کا اپنے والد وائل سے سماع ثابت نہیں ہے)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِالْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے بلکہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۸۸ (۲۶۹)، سنن النسائی/التطبیق ۳۸ (۱۰۹۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۶۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۸۱)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۴ (۱۳۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : علامہ ابن القیم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو مقلوب کہا ہے اور کہا ہے کہ اصل حدیث یوں ہے «وليضع ركبتيه قبل يديه» (یعنی وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھے) لیکن محدث عبدالرحمن مبارک پوری ، علامہ احمد شاکر، شیخ البانی وغیرہ نے ابن القیم کے اس خیال کی تردید کی ہے اور ابن خزیمہ کا کہنا ہے کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایت کو منسوخ کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت «كنا نضع اليدين قبل الركبتين فأمرنا بالركبتين قبل اليدين» (پہلے ہم گھٹنوں سے قبل ہاتھ رکھتے تھے پھر ہمیں ہاتھوں سے قبل گھٹنے رکھنے کا حکم دیا گیا) انتہائی ضعیف ہے قطعاً قابل استدلال نہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَيَبْرُكُ كَمَا يَبْرُكُ الْجَمَلُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا ۱؎ تم میں سے ایک شخص اپنی نماز میں بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس طرح بیٹھتا ہے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے؟"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث میں لفظ «یعمد» سے پہلے ہمزۂ استفہام مقدر ہے اسی وجہ سے ترجمہ میں ’’کیا‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ اس طرح نہ بیٹھا کرو۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: جَاءَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ إِلَى مَسْجِدِنَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ، وَمَا أُرِيدُ الصَّلَاةَ، وَلَكِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي قِلَابَةَ: كَيْفَ صَلَّى ؟ قَالَ: مِثْلَ صَلَاةِ شَيْخِنَا هَذَا، يَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلَمَةَ إِمَامَهُمْ، وَذَكَرَ أَنَّهُ كَانَ"إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الْآخِرَةِ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى قَعَدَ، ثُمَّ قَامَ".
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا، میرے پیش نظر نماز پڑھانا نہیں بلکہ میں تم لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی؟ تو ابوقلابہ نے کہا: ہمارے اس شیخ- یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، جو ان کے امام تھے اور ابوقلابہ نے ذکر کیا کہ ابوقلابہ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو (تھوڑی دیر) بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۲۷ (۸۰۲)، ۱۴۲ (۸۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۸۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۰۱ (۲۸۷)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۸۱ (۱۱۵۲)، مسند احمد (۳/۴۳۶، ۵/۵۳) (صحیح)
وضاحت: وضاحت : اس بیٹھنے کو جلسہ استراحت کہتے ہیں، جو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اس حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ موٹاپے اور کبر سنی کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا، لیکن یہ تاویل بلا دلیل ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جلسہ استراحت کو اس امر پر محمول کرنا کہ یہ حاجت کی بنا پر تھا عبادت کی غرض سے نہیں ؛ لہٰذا یہ مشروع نہیں ہے- جیسا کہ احناف وغیرہ کا قول ہے- باطل ہے اور اس کے بطلان کے لئے یہی کافی ہے کہ دس صحابہ رضی اللہ عنھم نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز میں داخل کرنے کو تسلیم کیا ہے، اگر انہیں یہ علم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضرورت کی بنا پر کیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز میں اسے داخل کرنے پر خاموشی اختیار نہ کرتے۔
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: جَاءَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ إِلَى مَسْجِدِنَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُصَلِّي، وَمَا أُرِيدُ الصَّلَاةَ، وَلَكِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، قَالَ: "فَقَعَدَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى حِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الْآخِرَةِ".
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابو سلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے، انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! میں نماز پڑھوں گا مگر میرے پیش نظر نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں دکھاؤں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ ابوقلابہ کہتے ہیں: پھر وہ پہلی رکعت میں بیٹھے جس وقت انہوں نے اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھایا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۸۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا كَانَ فِي وِتْرٍ مِنْ صَلَاتِهِ لَمْ يَنْهَضْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا".
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اپنی نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوتے جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۸۴۲، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا، يَقُولُ: قُلْنَالِابْنِ عَبَّاسٍ فِي"الْإِقْعَاءِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ فِي السُّجُودِ، فَقَالَ: هِيَ السُّنَّةُ، قَالَ: قُلْنَا: إِنَّا لَنَرَاهُ جُفَاءً بِالرَّجُلِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هِيَ سُنَّةُ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: دونوں سجدوں کے بیچ میں دونوں قدموں پر اقعاء ۱؎ (سرین کو ایڑیوں پر رکھ کر پنجے کو کھڑا کر کے بیٹھنا) کیسا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔ طاؤس کہتے ہیں: ہم نے کہا: ہم تو اسے آدمی کے ساتھ زیادتی سمجھتے تھے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۶ (۵۳۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۹۸ (۲۸۳)، (تحفة الأشراف: ۵۷۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۱۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ اقعاء کی مسنون صورت ہے جو دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک کے ساتھ مخصوص ہے، رہی اقعاء کی ممنوع صورت جس سے حدیث میں روکا گیا ہے، تو وہ کتے کی طرح چوتڑ اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں پنڈلیوں اور رانوں کو کھڑا کرکے بیٹھنا ہے یا تشہد کی حالت میں دونوں قدموں کو گاڑ کر ایڑیوں پر بیٹھنا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَة، وَوَكِيعٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، كُلُّهُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْعُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ فِيهِ بَعْدَ الرُّكُوعِ، قَالَ سُفْيَانُ: لَقِينَا الشَّيْخَ عُبَيْدًا أَبَا الْحَسَنِ بَعْدُ فَلَمْ يَقُلْ فِيهِ بَعْدَ الرُّكُوعِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْأَبِي عِصْمَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُبَيْدٍ، قَالَ: بَعْدَ الرُّكُوعِ.
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تھے تو «سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد» کہتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان ثوری اور شعبہ بن حجاج نے اس حدیث کو عبید بن لحسن ابوالحسن سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں «بعد الركوع» نہیں ہے، سفیان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کے بعد شیخ عبید ابوالحسن سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی اس حدیث میں «بعد الركوع» کے الفاظ نہیں کہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے شعبہ نے ابوعصمہ سے، ابوعصمہ نے اعمش سے اور اعمش نے عبید سے روایت کیا ہے، اس میں «بعد الركوع» کے الفاظ موجود ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۰ (۴۷۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۸ (۸۷۸)، (تحفة الأشراف: ۵۱۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۵۳، ۳۵۴، ۳۵۶، ۳۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ. ح وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، كُلُّهُمْ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَزَعَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَقُولُ حِينَ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاءِ، قَالَ مُؤَمَّلٌ: مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ". زَادَ مَحْمُودٌ: وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، ثُمَّ اتَّفَقُوا، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ. وَقَالَ بِشْرٌ: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ. لَمْ يَقُلْ: اللَّهُمَّ، لَمْ يَقُلْ مَحْمُودٌ: اللَّهُمَّ، قَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم ربنا لك الحمد ملء السماء» اور مومل کے الفاظ «ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد لا مانع لما أعطيت» ، محمود نے اپنی روایت میں: «ولا معطي لما منعت» کا اضافہ کیا ہے، پھر:«ولا ينفع ذا الجد منك الجد» میں سب متفق ہیں، بشر نے اپنی روایت میں: «ربنا لك الحمد» کہا «اللهم» نہیں کہا، اور محمود نے«اللهم» نہیں کہا، اور «ربنا لك الحمد» کہا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۰ (۴۷۷)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۱۵ (۱۰۶۹)، (تحفة الأشراف: ۴۲۸۱)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۸ (۸۷۷)، مسند احمد (۳/۸۷)، سنن الدارمی/ الصلاة ۷۱ (۱۳۵۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا لك الحمد» کہو، کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہو جائے گا اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۲۴ (۷۹۵)، ۱۲۵ (۷۹۶)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۸ (۴۰۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۸۶ (۲۶۷)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۶۸)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح ۱۱۳ (۱۰۶۴)،سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۸ (۸۷۶)، مسند احمد (۲/۲۳۶، ۲۷۰، ۳۰۰، ۳۱۹، ۴۵۲، ۴۹۷، ۵۰۲، ۵۲۷، ۵۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: "لَا يَقُولُ الْقَوْمُ خَلْفَ الْإِمَامِ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَلَكِنْ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ".
عامر شعبی کہتے ہیں : لوگ امام کے پیچھے: «سمع الله لمن حمده» نہ کہیں، بلکہ «ربنا لك الحمد» کہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۶۸) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : نماز کی تعلیم سے متعلق «مسئ صلاۃ» کی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پیٹھ اوپر کرتے ہوئے:«سمع الله لمن حمده» پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کسی آدمی کی نماز پوری نہیں ہوتی حتی کہ وہ یہ اور یہ کرے، اس حدیث میں کہ پھر رکوع کرے پھر : «سمع الله لمن حمده» کہے حتی کہ اچھی طرح کھڑا ہو جائے (ابوداود)۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت قیام میں «ربنا ولك الحمد» پڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم امام اور مقتدی سب کو یہ فرما کر دیا کہ : «صلوا كما رأيتموني أصلي» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: امام کو اس کی اقتداء ہی کے لئے بنایا گیا ہے، فرمایا : اور جب امام«سمع الله لمن حمده» کہے تو «اللہم ربنا ولک الحمد» کہو، اور اس کی تعلیل ایک دوسری حدیث میں یوں کی ہے کہ جس آدمی کا قول ملائکہ کے قول کے موافق ہو گیا تو اس کے ماضی کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ اس تفصیل کے مطابق امام اور مقتدی سب کو دونوں دعا پڑھنی چاہئے، بعض ائمہ جیسے شعبی کا مذہب ہے کہ مقتدی «سمع الله لمن حمده» نہ کہیں صرف «ربنا ولك الحمد» پر اکتفا کریں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا كَامِلٌ أَبُو الْعَلَاءِ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان «اللهم اغفر لي وارحمني وعافني واهدني وارزقني» "یعنی اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق دے" کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۹۵ (۲۸۴، ۲۸۵)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۴ (۸۹۸)، (تحفة الأشراف: ۵۴۷۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۱۵، ۳۷۱) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْمَوْلًى لِأَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ كَانَ مِنْكُنَّ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى يَرْفَعَ الرِّجَالُ رُءُوسَهُمْ كَرَاهَةَ أَنْ يَرَيْنَ مِنْ عَوْرَاتِ الرِّجَالِ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تم میں سے جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، وہ اپنا سر (سجدے سے) اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک کہ مرد نہ اٹھا لیں، اس اندیشہ سے کہ ان کی نظر کہیں مردوں کے ستر پر نہ پڑے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۳۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۴۸، ۳۴۹) (صحیح) (عروہ نے اسماء کے مولی کی متابعت کی ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : ابتداء اسلام میں لوگ بڑی تنگدستی اور محتاجی میں تھے، اکثر کو ایک تہبند یا چادر کے علاوہ دوسرا کپڑا میسر نہ ہوتا تھا، جسے وہ اپنی گردن پر باندھ لیتے تھے، جو بیک وقت کرتے اور تہبند کا کام دیتا تھا، کپڑوں کی تنگی کے باعث سجدہ میں ستر کے کھل جانے کا اندیشہ رہتا تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مردوں کے بعد سر اٹھانے کا حکم دیا۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ سُجُودُهُ، وَرُكُوعُهُ، وَقُعُودُهُ، وَمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا سب قریب قریب برابر ہوتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۲۱ (۷۹۲)، ۱۲۷ (۸۰۱)، ۱۴۰ (۸۲۰)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۸ (۴۷۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۹۲ (۲۷۹)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۱۴ (۱۰۶۶)، ۴۹ (۱۱۴۹)، والسھو ۷۷ (۱۳۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۸۰، ۲۸۵، ۲۸۸، سنن الدارمی/الصلاة ۸۰ (۱۳۷۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، وَحُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "مَا صَلَّيْتُ خَلْفَ رَجُلٍ أَوْجَزَ صَلَاةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَمَامٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَامَ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَوْهَمَ، ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَسْجُدُ، وَكَانَ يَقْعُدُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَوْهَمَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مختصر اور مکمل نماز کسی کے پیچھے نہیں پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم لوگ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہم ہو گیا ہے، پھر آپ «اللہ اکبر» کہتے اور سجدہ کرتے اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہم ہو گیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۳۷ (۴۷۳)، (تحفة الأشراف: ۳۲۲، ۶۲۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۶۴ (۷۰۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۴۸ (۹۸۵)، مسند احمد (۳/۲۰۳، ۲۴۷)، سنن الدارمی/ الصلاة ۴۶ (۱۲۹۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَأَبُو كَامِلٍ، دخل حديث أحدهما في الآخر، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: رَمَقْتُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَبُو كَامِلٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ فَوَجَدْتُ"قِيَامَهُ كَرَكْعَتِهِ، وَسَجْدَتِهِ، وَاعْتِدَالَهُ فِي الرَّكْعَةِ كَسَجْدَتِهِ، وَجِلْسَتَهُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَسَجْدَتَهُ مَا بَيْنَ التَّسْلِيمِ وَالِانْصِرَافِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ مُسَدَّدٌ: "فَرَكْعَتُهُ وَاعْتِدَالُهُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ، فَسَجْدَتُهُ فَجِلْسَتُهُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، فَسَجْدَتُهُ فَجِلْسَتَهُ بَيْنَ التَّسْلِيمِ وَالِانْصِرَافِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ.
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (اور ابوکامل کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) حالت نماز میں بغور دیکھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کو آپ کے رکوع اور سجدے کی طرح، اور رکوع سے آپ کے سیدھے ہونے کو آپ کے سجدے کی طرح، اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ کے بیٹھنے کو، اور سلام پھیرنے اور نمازیوں کی طرف پلٹنے کے درمیان بیٹھنے کو، پھر دوسرے سجدہ سے قریب قریب برابر پایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور مسدد کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع اور دونوں رکعتوں کے درمیان آپ کا اعتدال پھر آپ کا سجدہ پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور پھر دوسرا سجدہ پھر آپ کا سلام پھیرنے اور لوگوں کی طرف چہرہ کرنے کے درمیان بیٹھنا، یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۸۵۲، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُجْزِئُ صَلَاةُ الرَّجُلِ حَتَّى يُقِيمَ ظَهْرَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ".
ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کی نماز درست نہیں، جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۸۴ (۲۶۵)، سنن النسائی/الافتتاح ۸۸ (۱۰۲۸) والتطبیق ۱۴۴ (۱۱۱۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۶ (۸۷۰)، (تحفة الأشراف: ۹۹۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۱۹، ۱۲۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۸ (۱۳۶۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاضٍ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْمُثَنَّى،حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ السَّلَامَ، وَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَرَجَعَ الرَّجُلُ فَصَلَّى كَمَا كَانَ صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ، ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أُحْسِنُ غَيْرَ هَذَا فَعَلِّمْنِي، قَالَ: "إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ اجْلِسْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا". قَالَ الْقَعْنَبِيُّ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَالَ فِي آخِرِهِ: "فَإِذَا فَعَلْتَ هَذَا، فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُكَ وَمَا انْتَقَصْتَ مِنْ هَذَا شَيْئًا، فَإِنَّمَا انْتَقَصْتَهُ مِنْ صَلَاتِكَ، وَقَالَ فِيهِ: إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شخص اس نے نماز پڑھی پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: "واپس جاؤ، پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی"، وہ شخص واپس گیا اور پھر سے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، پھر آ کر سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور تم پر بھی سلامتی ہو، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے"، یہاں تک کہ تین بار ایسا ہوا، پھر اس شخص نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز پڑھنا نہیں جانتا تو آپ مجھے سکھا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو (پہلے) تکبیر کہو، پھر جتنا قرآن بآسانی پڑھ سکتے ہو پڑھو، اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، اس کے بعد اطمینان سے سجدہ کرو، پھر اطمینان سے قعدہ میں بیٹھو، اسی طرح اپنی پوری نماز میں کرو"۔ قعنبی نے «عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة» کہا ہے اور اس کے اخیر میں یوں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نے ایسا کر لیا تو تمہاری نماز مکمل ہو گئی، اور اگر تم نے اس میں کچھ کم کیا تو اپنی نماز میں کم کیا"، اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو کامل وضو کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۵ (۷۵۷)، ۱۲۲ (۷۹۳)، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۲۵۱)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۱ (۳۹۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۴ (۳۰۲)، سنن النسائی/الافتتاح ۷ (۸۸۵)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷۲ (۱۰۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۸۳، ۱۴۳۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے تعدیل ارکان کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ، عَنْعَمِّهِ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ فِيهِ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَرْكَعُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيُكَبِّرُ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ".
علی بن یحییٰ بن خلاد اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، پھر راوی نے گذشتہ حدیث کے مانند روایت ذکر کی، اس میں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی شخص کی نماز مکمل نہیں ہوتی، جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کرے، پھر«الله أكبر» کہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور قرآن سے جتنا آسان ہو پڑھے پھر «الله أكبر» کہے پھر اطمینان و سکون کے ساتھ اس طرح رکوع کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں، پھر «سمع الله لمن حمده» کہے اور سیدھا کھڑا ہو جائے، پھر «الله أكبر»کہے، پھر اطمینان سے اس طرح سجدہ کرے کہ اس کے جسم کے سارے جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں، پھر «الله أكبر» کہے اور اپنا سر سجدے سے اٹھائے یہاں تک کہ سیدھا بیٹھ جائے پھر «الله أكبر» کہے پھر (دوسرا) سجدہ اطمینان سے اس طرح کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور «الله أكبر» کہے، جب اس نے ایسا کر لیا تو اس کی نماز پوری ہو گئی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۴ (۳۰۲)، سنن النسائی/الأذان ۲۸ (۶۶۸)، الافتتاح ۱۶۷ (۱۱۳۷)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۵۷ (۴۶۰)، (تحفة الأشراف: ۳۶۰۴ مسند رفاعة بن رافع الأنصاري)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/ ۱۰۰، ۱۰۲، ۴/۳۴۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۸ (۱۳۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهَا لَا تَتِمُّ صَلَاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَغْسِلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، وَيَمْسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُكَبِّرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَحْمَدَهُ، ثُمَّ يَقْرَأَ مِنَ الْقُرْآنِ مَا أَذِنَ لَهُ فِيهِ وَتَيَسَّرَ. فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ حَمَّادٍ، قَالَ: ثُمَّ يُكَبِّرَ فَيَسْجُدَ فَيُمَكِّنَ وَجْهَهُ، قَالَ هَمَّامٌ: وَرُبَّمَا، قَالَ: جَبْهَتَهُ مِنَ الْأَرْضِ، حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ وَتَسْتَرْخِيَ، ثُمَّ يُكَبِّرَ فَيَسْتَوِيَ قَاعِدًا عَلَى مَقْعَدِهِ وَيُقِيمَ صُلْبَهُ". فَوَصَفَ الصَّلَاةَ هَكَذَا أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ حَتَّى فَرَغَ، لَا تَتِمُّ صَلَاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يَفْعَلَ ذَلِكَ.
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی کی نماز پوری (مکمل) نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اچھی طرح وضو کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے، (یعنی) وہ اپنا منہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر «الله اكبر» کہے، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر قرآن میں سے جو آسان ہو اسے پڑھے"، پھر راوی نے حماد کی حدیث کے مانند ذکر کیا اور کہا: "پھر وہ «الله اكبر»کہے اور سجدہ کرے تو اپنا چہرہ زمین پر ٹکا دے"۔ ہمام کہتے ہیں: اسحاق بن عبداللہ نے کبھی یوں کہا: اپنی پیشانی زمین پر ٹکا دے یہاں تک کہ اس کے جوڑ آرام پا لیں اور ڈھیلے ہو جائیں، پھر «الله اكبر» کہے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر سیدھا بیٹھ جائے اور اپنی پیٹھ سیدھی کر لے پھر نماز کی چاروں رکعتوں کی کیفیت فارغ ہونے تک اسی طرح بیان کی (پھر فرمایا) : "تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ایسا نہ کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۳۶۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: "إِذَا قُمْتَ فَتَوَجَّهْتَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَبِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَقْرَأَ، وَإِذَا رَكَعْتَ فَضَعْ رَاحَتَيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ وَامْدُدْ ظَهْرَكَ، وَقَالَ: إِذَا سَجَدْتَ فَمَكِّنْ لِسُجُودِكَ، فَإِذَا رَفَعْتَ فَاقْعُدْ عَلَى فَخِذِكَ الْيُسْرَى".
اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو اور اپنا رخ (چہرہ) قبلہ کی طرف کر لو تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہو، پھر سورۃ فاتحہ پڑھو اور قرآن مجید میں سے جس کی اللہ توفیق دے پڑھو، پھر جب رکوع میں جاؤ تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھو اور اپنی پیٹھ برابر رکھو"، اور فرمایا: "جب تم سجدہ میں جاؤ تو اپنے سجدوں میں (پیشانی کو) ٹکائے رکھو اور جب سجدے سے سر اٹھاؤ تو اپنی بائیں ران پر بیٹھو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۸۵۷، (تحفة الأشراف: ۳۶۰۴) (حسن)
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَحْيَى بْنِ خَلَّادِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: "إِذَا أَنْتَ قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ فَكَبِّرِ اللَّهَ تَعَالَى ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ عَلَيْكَ مِنَ الْقُرْآنِ، وَقَالَ فِيهِ: فَإِذَا جَلَسْتَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ فَاطْمَئِنَّ وَافْتَرِشْ فَخِذَكَ الْيُسْرَى ثُمَّ تَشَهَّدْ، ثُمَّ إِذَا قُمْتَ فَمِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى تَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِكَ".
اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی قصہ روایت کرتے ہیں، اس میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو (پہلے) «الله اكبر» کہو، پھر قرآن مجید میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو پڑھو"، اور اس میں ہے: "جب تم نماز کے بیچ میں بیٹھو تو اطمینان و سکون سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران کو بچھا لو، پھر تشہد پڑھو، پھر جب کھڑے ہو تو ایسا ہی کرو یہاں تک کہ تم اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۸۵۷، (تحفة الأشراف: ۳۶۰۴) (حسن)
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى الْخُتَّلِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادِ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَصَّ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ فِيهِ: "فَتَوَضَّأْ كَمَا أَمَرَكَ اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ، ثُمَّ تَشَهَّدْ فَأَقِمْ، ثُمَّ كَبِّرْ، فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهِ، وَإِلَّا فَاحْمَدِ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ، وَقَالَ فِيهِ: وَإِنِ انْتَقَصْتَ مِنْهُ شَيْئًا انْتَقَصْتَ مِنْ صَلَاتِكَ".
اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرمایا)، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی اس میں ہے: "پھر وضو کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے، پھر تشہد پڑھو ۱؎، پھر اقامت کہو، پھر «الله اكبر» کہو، پھر اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو، ورنہ «الحمد لله، الله أكبر، لا إله إلا الله» کہو"، اور اس میں ہے کہ: "اگر تم نے اس میں سے کچھ کم کیا تو اپنی نماز میں سے کم کیا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۸۵۷، (تحفة الأشراف: ۳۶۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : تشہد سے مراد وضو کے بعد کی دعا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ الْحَكَمِ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ مَحْمُودٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَقْرَةِ الْغُرَابِ، وَافْتِرَاشِ السَّبْعِ، وَأَنْ يُوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَكَانَ فِي الْمَسْجِدِ كَمَا يُوَطِّنُ الْبَعِيرُ". هَذَا لَفْظُ قُتَيْبَةَ.
عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوے کی طرح چونچ مارنے ۱؎، درندے کی طرح بازو بچھانے ۲؎، اور اونٹ کے مانند آدمی کے مسجد میں اپنے لیے ایک جگہ متعین کر لینے سے (جیسے اونٹ متعین کر لیتا ہے) منع فرمایا ہے (یہ قتیبہ کے الفاظ ہیں) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۱۴۵ (۱۱۱۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰۴ (۱۴۲۹)، (تحفة الأشراف: ۹۷۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۲۸، ۴۴۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۵ (۱۳۶۲) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : کوے کی طرح چونچ مارنے سے مراد ارکان نماز کی ادائیگی جلدی جلدی کرنا ہے۔ ۲؎ : درندے کی طرح بازو بچھانے سے مراد سجدے میں دونوں ہاتھ کو زمین سے لگانا اور پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھنا ہے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَالِمٍ الْبَرَّادِ، قَالَ: أَتَيْنَا عُقْبَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيَّ أَبَا مَسْعُود، فَقُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ بَيْنَ أَيْدِينَا فِي الْمَسْجِدِ"فَكَبَّرَ، فَلَمَّا رَكَعَ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَجَعَلَ أَصَابِعَهُ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ وَجَافَى بَيْنَ مِرْفَقَيْهِ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقَامَ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ جَافَى بَيْنَ مِرْفَقَيْهِ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَجَلَسَ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ، فَفَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ أَيْضًا، ثُمَّ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ مِثْلَ هَذِهِ الرَّكْعَةِ فَصَلَّى صَلَاتَهُ". ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي.
سالم براد کہتے ہیں کہ ہم ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بتائیے تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے «الله اكبر» کہا، پھر جب وہ رکوع میں گئے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے اور اپنی انگلیاں اس سے نیچے رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر ایک عضو اپنے اپنے مقام پر جم گیا، پھر انہوں نے «سمع الله لمن حمده» کہا اور کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر آ کر ٹھہر گیا، پھر «الله اكبر» کہہ کر سجدہ کیا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور بیٹھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر دوبارہ ایسا ہی کیا، پھر چاروں رکعتیں اسی کی طرح پڑھیں (اس طرح) انہوں نے اپنی نماز پوری کی پھر کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۹۳ (۱۰۳۷)، (تحفة الأشراف: ۹۹۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۱۹، ۱۲۰، ۵/۲۴۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۸(۱۳۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ الضَّبِّيِّ، قَالَ: خَافَ مِنْ زِيَادٍ، أَوْ ابْنِ زِيَادٍ، فَأَتَى الْمَدِينَةَ فَلَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: فَنَسَبَنِي، فَانْتَسَبْتُ لَهُ، فَقَالَ: يَا فَتَى، أَلَا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى رَحِمَكَ اللَّهُ، قَالَ يُونُسُ: وَأَحْسَبُهُ ذَكَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ النَّاسُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَعْمَالِهِمُ الصَّلَاةُ، قَالَ: يَقُولُ رَبُّنَا جَلَّ وَعَزَّ لِمَلَائِكَتِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ: انْظُرُوا فِي صَلَاةِ عَبْدِي أَتَمَّهَا أَمْ نَقَصَهَا، فَإِنْ كَانَتْ تَامَّةً كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ، فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ، قَالَ: أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَاكُمْ".
انس بن حکیم ضبی کہتے ہیں کہ وہ زیاد یا ابن زیاد سے ڈر کر مدینہ آئے تو ان کی ملاقات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انس کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا نسب مجھ سے جوڑا تو میں ان سے جڑ گیا، پھر وہ کہنے لگے: اے نوجوان! کیا میں تم سے ایک حدیث نہ بیان کروں؟ انس کہتے ہیں: میں نے کہا: کیوں نہیں! ضرور بیان کیجئے، اللہ آپ پر رحم فرمائے، یونس کہتے ہیں: میں یہی سمجھتا ہوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے پوچھ تاچھ کی جائے گی وہ نماز ہو گی، ہمارا رب اپنے فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے میرے بندے کی نماز کو دیکھو وہ پوری ہے یا اس میں کوئی کمی ہے؟ اگر پوری ہو گی تو پورا ثواب لکھا جائے گا اور اگر کمی ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا: دیکھو، میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر نفل ہو گی تو فرمائے گا: میرے بندے کے فرض کو اس کی نفلوں سے پورا کرو، پھر تمام اعمال کا یہی حال ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰۲ (۱۴۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۰۰،۱۵۵۰۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۸۹ (۴۱۳)، سنن النسائی/الصلاة ۹ (۴۶۴)، مسند احمد (۲/۴۲۵، ۲/۹۰، ۴/۱۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَلِيطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گذشتہ حدیث کے ہم معنی حدیث مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۰۰) (صحیح) (پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم راوی رجل من بنی سلیط ہے)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْمَعْنَى، قَالَ: "ثُمَّ الزَّكَاةُ مِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ".
تمیم داری رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً روایت کی ہے اس میں ہے: "پھر زکاۃ کا یہی حال ہو گا، پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح سے ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰۲ (۱۴۲۶)، (تحفة الأشراف: ۲۰۵۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ قَال أَبُو دَاوُد وَاسْمُهُ وَقْدَان، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: "صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي فَجَعَلْتُ يَدَيَّ بَيْنَ رُكْبَتَيَّ، فَنَهَانِي عَنْ ذَلِكَ فَعُدْتُ، فَقَالَ: لَا تَصْنَعْ هَذَا، فَإِنَّا كُنَّا نَفْعَلُهُ فَنُهِينَا عَنْ ذَلِكَ، وَأُمِرْنَا أَنْ نَضَعَ أَيْدِيَنَا عَلَى الرُّكَبِ".
مصعب بن سعد کہتے ہیں میں نے اپنے والد کے بغل میں نماز پڑھی تو میں نے (رکوع میں) اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ میں کر لیے تو انہوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا، پھر میں نے دوبارہ ایسے ہی کیا تو انہوں نے کہا: تم ایسا نہ کیا کرو کیونکہ پہلے ہم بھی ایسا ہی کرتے تھے، پھر ہم کو ایسا کرنے سے روک دیا گیا اور ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۱۸ (۷۹۰)، صحیح مسلم/المساجد ۵ (۵۳۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۸۰ (۲۵۹)، سنن النسائی/الافتتاح ۹۱(۱۰۳۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۷ (۸۷۳)، تحفة الأشراف (۳۹۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/ ۱۸۱، ۱۸۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۸ (۱۳۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَلْيَفْرِشْ ذِرَاعَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَلْيُطَبِّقْ بَيْنَ كَفَّيْهِ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى اخْتِلَافِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے دونوں بازؤوں کو اپنی رانوں پر بچھا لے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تطبیق کرے ۱؎، گویا میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے اختلاف کو دیکھ رہا ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۵ (۵۳۴)، سنن النسائی/المساجد ۲۷ ( ۷۲۰)، والإمامة ۱۸ (۸۰۰)، والتطبیق ۱ (۱۰۳۰، ۱۰۳۱)، (تحفة الأشراف: ۹۱۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر انہیں دونوں رانوں کے بیچ میں رکھنے کو تطبیق کہتے ہیں ، یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا، ممکن ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہوا ہو۔
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُوسَى، قَالَ أَبُو سَلَمَة مُوسَى بْنِ أَيُّوبَ: عَنْ عَمِّهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: "لَمَّا نَزَلَتْ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ سورة الواقعة آية 74، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلُوهَا فِي رُكُوعِكُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى آية 1، قَالَ: اجْعَلُوهَا فِي سُجُودِكُمْ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب آیت کریمہ: «فسبح باسم ربك العظيم» "اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو"(سورۃ الواقعۃ: ۷۴) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے اپنے رکوع میں کر لو"، پھر جب «سبح اسم ربك الأعلى» "اپنے بہت ہی بلند رب کے نام پاکیزگی بیان کرو" (سورۃ الاعلی: ۱) اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے اپنے سجدے میں کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰ (۸۸۷)، (تحفة الأشراف: ۹۹۰۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۵۵)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۹ (۱۳۴۴) (ضعیف) ( عمّہ سے مراد ایاس بن عامر ہیں جو غیر معروف ہیں، اور جن کی توثیق صرف عجلی اور ابن حبان نے کی ہے، اور یہ دونوں متساہل ہیں، ابن حجر نے ان کو صدوق لکھا ہے، حالانکہ موسی کے علاوہ ان سے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے، امام ذھبی کہتے ہیں کہ (ليس بالقوي) یہ قوی نہیں ہیں ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ( ۹؍۳۳۷)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى أَوْ مُوسَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، بِمَعْنَاهُ زَادَ، قَالَ: "فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَكَعَ، قَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ، ثَلَاثًا وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى وَبِحَمْدِهِ، ثَلَاثًا". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ نَخَافُ أَنْ لَا تَكُونَ مَحْفُوظَةً، قَالَ أَبُو دَاوُد: انْفَرَدَ أَهْلُ مِصْرَ بِإِسْنَادِ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ: حَدِيثِ الرَّبِيعِ وَحَدِيثِ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ.
اس طریق سے بھی عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں راوی نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو تین بار «سبحان ربي العظيم وبحمده» کہتے، اور جب سجدہ کرتے تو تین بار «سبحان ربي الأعلى وبحمده» کہتے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ «وبحمده» کا یہ اضافہ محفوظ نہ ہو ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ربیع اور احمد بن یونس کی ان دونوں حدیثوں کی اسناد کے سلسلے میں اہل مصر منفرد ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۹۹۰۹) (ضعیف) (اس کی سند میں رجل من قومه مبہم راوی ایاس ابن عامر ہیں، جو مجہول ہیں، صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں«سبحانك اللهم ربنا وبحمدك» پڑھا کرتے تھے)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں تسبیح تین بار پڑہنے کی بات ہے، مسند احمد، ابن ماجہ، دارقطنی، طحاوی، بزار، ابن خزیمہ ، (۶۰۴)، طبرانی (کبیر) میں سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تین تسبیح وارد ہے (ملاحظہ ہو: صفة صلاة النبي للألباني: 132) وضاحت: مسند احمد، طبرانی ، دارقطنی، بیہقی میں «سبحان ربي العظيم وبحمده» تین بار وارد ہے (ملاحظہ ہو: صفة صلاة النبي للألباني: 133)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِسُلَيْمَانَ: أَدْعُو فِي الصَّلَاةِ إِذَا مَرَرْتُ بِآيَةِ تَخَوُّفٍ، فَحَدَّثَنِي عَنْسَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُسْتَوْرِدٍ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، وَفِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، وَمَا مَرَّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ عِنْدَهَا فَسَأَلَ، وَلَا بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ عِنْدَهَا فَتَعَوَّذَ".
شعبہ کہتے ہیں: میں نے سلیمان سے کہا کہ جب میں نماز میں خوف دلانے والی آیت سے گزروں تو کیا میں دعا مانگوں؟ تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، جسے انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، سعید نے مستورد سے، مستورد نے صلہ بن زفر سے اور صلہ بن زفر نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہتے تھے، اور اپنے سجدوں میں «سبحان ربي الأعلى» کہتے تھے، اور رحمت کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں، اور اللہ سے سوال نہ کیا ہو، اور عذاب کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں اور عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۷ (۷۷۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۸۲ (۲۶۲)، سنن النسائی/الافتتاح ۷۷ (۱۰۰۷)، والتطبیق ۷۴ (۱۱۳۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰ (۸۹۷)، ۱۷۹(۱۳۵۱)، (تحفة الأشراف: ۳۳۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۲، ۳۸۴، ۳۹۴، ۳۹۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۹(۱۳۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں «سبوح قدوس رب الملائكة والروح» کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۲ (۴۸۷)، سنن النسائی/التطبیق ۱۱ (۱۰۴۹)، ۷۵ (۱۱۳۵)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶ /۳۵، ۹۴، ۱۱۵، ۱۴۸، ۱۴۹، ۱۷۶، ۱۹۲، ۲۰۰، ۲۴۴، ۲۶۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: قُمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً"فَقَامَ فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ لَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ بِقَدْرِ قِيَامِهِ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ فِي سُجُودِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ بِآلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَرَأَ سُورَةً سُورَةً".
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی رحمت والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اور سوال کرتے، اور کسی عذاب والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اور اس سے پناہ مانگتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قیام کے بقدر لمبا رکوع کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع میں: «سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة» پڑھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قیام کے بقدر لمبا سجدہ کیا، سجدے میں بھی آپ نے وہی دعا پڑھی، جو رکوع میں پڑھی تھی پھر اس کے بعد کھڑے ہوئے اور سورۃ آل عمران پڑھی، پھر (بقیہ رکعتوں میں) ایک ایک سورۃ پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/التطبیق ۷۳ (۱۱۳۸)، سنن الترمذی/الشمائل (۳۱۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَبْسٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَكَانَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ فَقَرَأَ الْبَقَرَةَ، ثُمَّ رَكَعَ فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، وَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَكَانَ قِيَامُهُ نَحْوًا مِنْ رُكُوعِهِ، يَقُولُ: لِرَبِّيَ الْحَمْدُ، ثُمَّ سَجَدَ فَكَانَ سُجُودُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، فَكَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، وَكَانَ يَقْعُدُ فِيمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ، وَكَانَ يَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَقَرَأَ فِيهِنَّ الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ، وَالنِّسَاءَ، وَالْمَائِدَةَ، أَوْ الْأَنْعَامَ"، شَكَّ شُعْبَةُ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ تین بار «الله اكبر» ، اور (ایک بار) «ذو الملكوت والجبروت والكبرياء والعظمة» کہہ رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآت شروع کی تو سورۃ البقرہ کی قرآت کی، پھر رکوع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع قریب قریب آپ کے قیام کے برابر رہا اور آپ اپنے رکوع میں«سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم» کہہ رہے تھے، پھر رکوع سے سر اٹھایا (اور کھڑے رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام آپ کے رکوع کے قریب قریب رہا اور آپ اس درمیان «لربي الحمد» کہہ رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ کا سجدہ آپ کے قیام کے برابر رہا، اور آپ سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» کہہ رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے اپنا سر اٹھایا اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھے رہے جتنی دیر تک سجدے میں رہے تھے، اور اس درمیان «رب اغفر لي رب اغفر لي» کہہ رہے تھے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعتیں ادا کیں اور ان میں بقرہ، آل عمران، نساء اور مائدہ یا انعام پڑھی۔ یہ شک شعبہ کو ہوا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی /الشمائل ۳۹ (۲۷۵)، سنن النسائی/التطبیق ۲۵ (۱۰۷۰)، ۸۶ (۱۱۴۶)، (تحفة الأشراف: ۳۳۹۵) (صحیح) (حدیث نمبر ( ۸۷۱) سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے ، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم راوی رجل بن بنی عبس ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ،عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، تو (سجدے میں) تم بکثرت دعائیں کیا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۲ (۴۸۲)، سنن النسائی/التطبیق ۷۸ (۱۱۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُحَيْمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَشَفَ السِّتَارَةَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ، وَإِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا الرَّبَّ فِيهِ، وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں اپنے کمرہ کا) پردہ اٹھایا، (دیکھا کہ) لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صف باندھے ہوئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگو! نبوت کی بشارتوں (خوشخبری دینے والی چیزوں) میں سے اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے سچے خواب کے جسے مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے سلسلہ میں کوئی دوسرا دیکھتا ہے، مجھے رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کر دیا گیا ہے، رہا رکوع تو اس میں تم اپنے رب کی بڑائی بیان کیا کرو، اور رہا سجدہ تو اس میں تم دعا میں کوشاں رہو کیونکہ یہ تمہاری دعا کی مقبولیت کے لیے زیادہ موزوں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۱ (۴۷۹)، سنن النسائی/التطبیق ۸ (۱۰۴۶)، ۶۲ (۱۱۲۱)، سنن ابن ماجہ/تعبیر الرؤیا ۱ (۳۸۹۹)، (تحفة الأشراف: ۵۸۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۱۹)، (۱۹۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۷ (۱۳۶۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدوں میں کثرت سے «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» کہتے تھے اور قرآن کی آیت «فسبح بحمد ربك واستغفره» (سورة النصر: ۳) کی عملی تفسیر کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۲۳ (۷۹۴)، ۱۳۹ (۸۱۷) والمغازي ۵۱ (۴۲۹۳)، وتفسیر سورة النصر ۱ (۴۹۶۷)، ۲ (۴۹۶۸)، صحیح مسلم/الصلاة ۴۲ (۴۸۴)، سنن النسائی/التطبیق ۱۰ (۱۰۴۸)، ۶۴ (۱۱۲۳)، ۶۵ (۱۱۲۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰ (۸۸۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۳، ۴۹، ۱۹۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ دِقَّهُ وَجِلَّهُ وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ". زَادَ ابْنُ السَّرْحِ: "عَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سجدوں میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم اغفر لي ذنبي كله دقه وجله وأوله وآخره» یعنی "اے اللہ! تو میرے تمام چھوٹے بڑے اور اگلے پچھلے گناہ بخش دے"۔ ابن السرح نے اپنی روایت میں «علانيته وسره» کی زیادتی کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۲ (۴۸۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۶۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَلَمَسْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ"سَاجِدٌ وَقَدَمَاهُ مَنْصُوبَتَانِ، وَهُوَ يَقُولُ: أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات (اپنے پاس بستر پر) نہیں پایا تو میں نے آپ کو نماز پڑھنے کی جگہ میں ٹٹولا تو کیا دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں اور آپ کے دونوں پاؤں کھڑے ہیں اور آپ یہ دعا کر رہے ہیں: «أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» یعنی "اے اللہ! میں تیرے غصے سے تیری رضا مندی کی پناہ مانگتا ہوں اور تیرے عذاب سے تیری بخشش کی پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۲ (۴۸۶)، سنن النسائی/الطھارة ۱۱۹، باب ۱۲۰(۱۶۹)، والتطبیق ۴۷ (۱۱۰۱)، ۷۱ (۱۱۳۱)، والاستعاذة ۶۲ (۵۵۳۶)، سنن ابن ماجہ/الدعاء ۳ (۳۸۴۱)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۰۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ القرآن ۸ (۳۱)، مسند احمد (۶/۵۸، ۲۰۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ"فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ مِنَ الْمَغْرَمِ، فَقَالَ: "إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَكَذَبَ وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم»یعنی "اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح (کانے) دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور قرض سے" تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا:(اللہ کے رسول!) آپ قرض سے کس قدر پناہ مانگتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی جب قرض دار ہوتا ہے، بات کرتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے، تو اس کے خلاف کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۴۹ (۸۳۲)، الاستقراض ۱۰ (۲۳۹۷)، صحیح مسلم/المساجد ۲۵ (۵۸۹)، سنن النسائی/السہو ۶۴ (۱۳۱۰)، الاستعاذة ۹ (۵۴۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۶۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات ۷۷ (۳۴۹۵)، مسند احمد (۶/۸۸، ۸۹، ۲۴۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ تَطَوُّعٍ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، وَيْلٌ لِأَهْلِ النَّارِ".
ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغل میں ایک نفل نماز پڑھی تو میں نے آپ کو «أعوذ بالله من النار ويل لأهل النار» "میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور جہنم والوں کے لیے خرابی ہے" کہتے سنا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة ۱۷۹(۱۳۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۴۷) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن أبی لیلی ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقُمْنَا مَعَهُ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ فِي الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي، وَمُحَمَّدًا، وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ: "لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا يُرِيدُ رَحْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے، ایک دیہاتی نے نماز میں کہا: «اللهم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا» "اے اللہ! تو مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس دیہاتی سے فرمایا: "تم نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا"، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رحمت مراد لے رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم (۳۸۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى آية 1، قَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى". قَالَ أَبُو دَاوُد: خُولِفَ وَكِيعٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَاهُ أَبُو وَكِيعٍ، وَشُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھتے تو «سبحان ربي الأعلى»کہتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث میں وکیع کی مخالفت کی گئی اور اسے ابو وکیع اور شعبہ نے ابواسحاق سے ابوسحاق نے سعید بن جبیر سے اور سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۶۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۲، ۳۷۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: كَانَ رَجُل يُصَلِّي فَوْقَ بَيْتِهِ، وَكَانَ إِذَا قَرَأَ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى سورة القيامة آية 40 قَالَ: "سُبْحَانَكَ فَبَلَى". فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ أَحْمَدُ: يُعْجِبُنِي فِي الْفَرِيضَةِ أَنْ يَدْعُوَ بِمَا فِي الْقُرْآنِ.
موسی بن ابی عائشہ کہتے ہیں ایک صاحب اپنی چھت پر نماز پڑھا کرتے تھے، جب وہ آیت کریمہ «أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى» (سورة القيامة: ۴۰) پر پہنچتے تو «سبحانك» کہتے پھر روتے، لوگوں نے اس سے ان کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد نے کہا: مجھے بھلا لگتا ہے کہ آدمی فرض نماز میں وہ دعا کرے جو قرآن میں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۸۰) (صحیح)
وضاحت: وضاحت : سورة القيامة : (۴۰)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: رَمَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاتِهِ"فَكَانَ يَتَمَكَّنُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ قَدْرَ مَا يَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ ثَلَاثًا".
سعدی کے والد یا چچا کہتے ہیں کہ میں نے نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ رکوع اور سجدہ میں اتنی دیر تک رہتے جتنی دیر میں تین بار: «سبحان الله وبحمده» کہہ سکیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۸، ۱۶۱، ۱۷۶، ۲۵۳، ۲۷۱، ۵/۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ الْأَهْوَازِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، وَأَبُو دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَزِيدَ الْهُذَلِيِّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ وَذَلِكَ أَدْنَاهُ، وَإِذَا سَجَدَ فَلْيَقُلْ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى ثَلَاثًا وَذَلِكَ أَدْنَاهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا مُرْسَلٌ، عَوْنٌ لَمْ يُدْرِكْ عَبْدَ اللَّهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اسے چاہیئے کہ تین بار: «سبحان ربي العظيم» کہے، اور یہ کم سے کم مقدار ہے، اور جب سجدہ کرے تو کم سے کم تین بار: «سبحان ربي الأعلى»کہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مرسل ہے، عون نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۸۲ (۲۶۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰ (۸۹۰)، (تحفة الأشراف: ۹۵۳۰) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کر دیا ہے، یعنی عون کی ملاقات عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی )
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، سَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَرَأَ مِنْكُمْ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ فَانْتَهَى إِلَى آخِرِهَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ سورة التين آية 8 فَلْيَقُلْ: بَلَى، وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ، وَمَنْ قَرَأَ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَانْتَهَى إِلَى أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى سورة القيامة آية 40 فَلْيَقُلْ: بَلَى، وَمَنْ قَرَأَ وَالْمُرْسَلاتِ فَبَلَغَ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ سورة المرسلات آية 50 فَلْيَقُلْ: آمَنَّا بِاللَّهِ". قَالَ إِسْمَاعِيلُ: ذَهَبْتُ أُعِيدُ عَلَى الرَّجُلِ الْأَعْرَابِيِّ وَأَنْظُرُ لَعَلَّهُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَتَظُنُّ أَنِّي لَمْ أَحْفَظْهُ، لَقَدْ حَجَجْتُ سِتِّينَ حَجَّةً مَا مِنْهَا حَجَّةٌ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُ الْبَعِيرَ الَّذِي حَجَجْتُ عَلَيْهِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جو شخص سورۃ «والتين والزيتون» پڑھے اسے چاہیئے کہ جب اس کی آخری آیت «والتين والزيتون» پر پہنچے تو: «بلى وأنا على ذلك من الشاهدين» کہے، اور جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة» پڑھے اور «أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى» پر پہنچے تو «بلى» کہے، اور جو سورۃ «والمرسلات» پڑھے اور آیت«فبأى حديث بعده يؤمنون» پر پہنچے تو «آمنا بالله» کہے۔ اسماعیل کہتے ہیں: (میں نے یہ حدیث ایک اعرابی سے سنی)، پھر دوبارہ اس کے پاس گیا تاکہ یہ حدیث پھر سے سنوں اور دیکھوں شاید؟ (وہ نہ سنا سکے) تو اس اعرابی نے کہا: میرے بھتیجے! تم سمجھتے ہو کہ مجھے یہ یاد نہیں؟ میں نے ساٹھ حج کئے ہیں اور ہر حج میں جس اونٹ پر میں چڑھا تھا اسے پہچانتا ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/التفسیر ۸۳ (۳۳۴۷)، مسند احمد ۲/۲۴۹، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۰) (ضعیف) (اس کا راوی اعرابی مبہم شخص ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَابْنُ رَافِعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ بْنِ كَيْسَانَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ وَهْبِ بْنِ مَانُوسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْبَهَ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْفَتَى، يَعْنِي عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: "فَحَزَرْنَا فِي رُكُوعِهِ عَشْرَ تَسْبِيحَاتٍ، وَفِي سُجُودِهِ عَشْرَ تَسْبِيحَاتٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ: قُلْتُ لَهُ: مَانُوسٌ أَوْ مَابُوسٌ، قَالَ: أَمَّا عَبْدُ الرَّزَّاقِ فَيَقُولُ: مَابُوسٌ، وَأَمَّا حِفْظِي: فَمَانُوسٌ، وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ رَافِعٍ. قَالَ أَحْمَدُ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو اس نوجوان یعنی عمر بن عبدالعزیز کی نماز سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہو سعید بن جبیر کہتے ہیں: تو ہم نے ان کے رکوع اور سجدہ میں دس دس مرتبہ تسبیح کہنے کا اندازہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد بن صالح کا بیان ہے: میں نے عبداللہ بن ابراہیم بن عمر بن کیسان سے پوچھا: (وہب کے والد کا نام) مانوس ہے یا مابوس؟ تو انہوں نے کہا: عبدالرزاق تو مابوس کہتے تھے لیکن مجھے مانوس یاد ہے، یہ ابن رافع کے الفاظ ہیں اور احمد نے (اسے «سمعت» کے بجائے «عن» سے یعنی: «عن سعيد بن جبير عن أنس بن مالك» روایت کی ہے) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/التطبیق ۷۶ (۱۱۳۶)، (تحفة الأشراف: ۸۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۶۲-۱۶۳) (ضعیف) (اس کی سند میں وہب بن مانوس مجہول الحال راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أُمِرْتُ". قَالَ حَمَّادٌ: أُمِرَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةٍ، وَلَا يَكُفَّ شَعْرًا وَلَا ثَوْبًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے - حماد بن زید کی روایت میں ہے: تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے - اور یہ کہ آپ نہ بال سمیٹیں اور نہ کپڑا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۳۳ (۸۰۹)، ۱۳۴ (۸۱۰)، ۱۳۷ (۸۱۶)، ۱۳۸ (۸۱۶)، صحیح مسلم/الصلاة ۴۴ (۴۹۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۹۱ (۲۷۳)، سنن النسائی/التطبیق ۴۰ (۱۰۹۴)، ۴۳ (۱۰۹۷)، ۴۵ (۱۰۹۹)، ۵۶ (۱۱۱۶)، ۵۸ (۱۱۱۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹ (۸۸۳)، (تحفة الأشراف: ۵۷۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۱، ۲۲۲، ۲۵۵، ۲۷۰، ۲۷۹، ۲۸۰، ۲۸۵، ۲۸۶، ۲۹۰، ۳۰۵، ۳۲۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۳ (۱۳۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نماز میں بالوں کو پگڑی وغیرہ میں سمیٹنا یا جوڑا باندھنا مکروہ ہے اسی طرح مٹی وغیرہ سے بچانے کے لئے کپڑوں کا سمیٹنا بھی درست نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أُمِرْتُ"وَرُبَّمَا قَالَ: "أُمِرَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ آرَابٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے"، اور کبھی راوی نے کہا: "تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۵۷۳۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ، عَنْ ابْنِ الْهَادِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ آرَابٍ: وَجْهُهُ وَكَفَّاهُ وَرُكْبَتَاهُ وَقَدَمَاهُ".
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء: چہرہ ۱؎، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدم سجدہ کرتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۴ (۴۹۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۹۱ (۲۷۲)، سنن النسائی/التطبیق ۴۱ (۱۰۹۵)، ۴۶ (۱۱۰۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹ (۸۸۵)، (تحفة الأشراف: ۵۱۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : چہرہ میں پیشانی اور ناک دونوں داخل ہیں سجدے میں پیشانی کا زمین پر لگنا ضروری ہے اس کے بغیر سجدے کا مفہوم پورے طور سے ادا نہیں ہوتا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَفَعَهُ، قَالَ: "إِنَّ الْيَدَيْنِ تَسْجُدَانِ كَمَا يَسْجُدُ الْوَجْهُ، فَإِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ فَلْيَضَعْ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ فَلْيَرْفَعْهُمَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک دونوں ہاتھ سجدہ کرتے ہیں جیسے چہرہ سجدہ کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی اپنا چہرہ زمین پر رکھے تو چاہیئے کہ دونوں ہاتھ بھی رکھے اور جب چہرہ اٹھائے تو چاہیئے کہ انہیں بھی اٹھائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/التطبیق ۳۹ (۱۰۹۳)، (تحفة الأشراف: ۷۵۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ، أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ، وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا، وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نماز میں آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں چلے جاؤ اور تم اسے کچھ شمار نہ کرو، اور جس نے رکعت پالی تو اس نے نماز پالی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو اود، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۰۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت ۲۹ (۵۸۰)، صحیح مسلم/المساجد ۳۰ (۶۰۷)، سنن النسائی/المواقیت ۲۹ (۵۵۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۹۱ (۱۱۲۳)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ۳(۱۵)، مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۶۵، ۲۷۱، ۲۸۰، ۳۷۵، ۳۷۶)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۲ (۱۲۵۶) (حسن) ( اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۶۲۲) نے اپنی صحیح میں تخریج کیا ہے، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، ان کی موافقت ذھبی نے کی ہے (۱؍ ۲۱۶) لیکن اس کے راوی یحییٰ بن ابی سلیمان لیَّن الحدیث ہیں، ابن حبان اور حاکم کی توثیق کافی نہیں ہے، لیکن حدیث مرفوع اور موقوف شواہد کی بناء پر حسن ہے ، ملاحظہ ہو: (صحیح ابی داود ۴؍ ۴۷۔ ۴۸)، نیز حدیث کا دوسرا ٹکڑا ومن ادرك الخ صحیح ومتفق علیہ ہے)
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"رُئِيَ عَلَى جَبْهَتِهِ وَعَلَى أَرْنَبَتِهِ أَثَرُ طِينٍ مِنْ صَلَاةٍ صَلَّاهَا بِالنَّاسِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر (شب قدر میں) اس نماز کی وجہ سے جو آپ نے لوگوں کو پڑھائی، مٹی کا اثر دیکھا گیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۴۱ (۶۶۹)، ۱۳۵ (۸۱۳)، ۱۵۱ (۸۳۶)، ولیلة القدر ۲ (۲۰۱۶)، ۳ (۲۰۱۸)، والاعتکاف ۱ (۲۰۲۷)، ۹ (۲۰۳۶)، ۱۳ (۲۰۴)، صحیح مسلم/الصوم ۴۰ (۱۱۶۷)، سنن النسائی/التطبیق ۴۲ (۱۰۹۶)، والسھو ۹۸ (۱۳۵۷)، (تحفة الأشراف: ۴۴۱۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاعتکاف ۶ (۹)، مسند احمد (۳/۹۴)، ویأتي برقم : (۱۳۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی معمر سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۴۴۱۹)
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: وَصَفَ لَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ"فَوَضَعَ يَدَيْهِ، وَاعْتَمَدَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَرَفَعَ عَجِيزَتَهُ، وَقَالَ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ".
ابواسحاق کہتے ہیں کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں سجدہ کرنے کا طریقہ بتایا تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور اپنے دونوں گھٹنوں پر ٹیک لگائی اور اپنی سرین کو بلند کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح سجدہ کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/التطبیق ۵۱ (۱۱۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۰۳) (ضعیف)(اس کے راوی شریک ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَفْتَرِشْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سجدے میں اعتدال کرو ۱؎ اور تم میں سے کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت ۸ (۵۳۲)، والأذان ۱۴۱ (۸۲۲)، صحیح مسلم/الصلاة ۴۵ (۴۹۳)، سنن الترمذی/الصلاة ۹۳ (۲۷۶)، سنن النسائی/الافتتاح ۸۹ (۱۰۲۹)، والتطبیق ۵۰ (۱۱۰۴)، ۵۳ (۱۱۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۳۷)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۱ (۸۹۲)، مسند احمد (۳/۱۰۹، ۱۱۵، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۹۱، ۲۰۲، ۲۱۴، ۲۳۱، ۲۷۴، ۲۷۹، ۲۹۱)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۵ (۱۳۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اپنی ہیئت درمیانی رکھو اس طرح کہ پیٹ ہموار ہو اور دونوں کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی اور پہلووں سے جدا ہوں اور پیٹ ران سے جدا ہو۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا سَجَدَ جَافَى بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى لَوْ أَنَّ بَهْمَةً أَرَادَتْ أَنْ تَمُرَّ تَحْتَ يَدَيْهِ مَرَّتْ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ (بغل سے) جدا رکھتے یہاں تک کہ اگر کوئی بکری کا بچہ آپ کے دونوں ہاتھوں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر جاتا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۶ (۲۳۸)، سنن النسائی/التطبیق ۵۲ (۱۱۱۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹ (۸۸۰)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۳۱، ۳۳۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۹ (۱۳۷۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ التَّمِيمِيِّ الَّذِي يُحَدِّثُ بِالتَّفْسِيرِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَلْفِهِ فَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ وَهُوَ مُجَخٍّ قَدْ فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے پیچھے سے آیا (اور آپ سجدے میں تھے)تو میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سجدہ کئے ہوئے تھے کہ اپنے دونوں بازو پسلیوں سے جدا کئے ہوئے تھے اور اپنا پیٹ زمین سے اٹھائے ہوئے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۳۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد ۱/۲۹۲، ۳۰۲، ۳۰۵، ۳۱۶، ۳۱۷، ۳۳۹، ۳۴۳، ۳۵۴، ۳۶۲، ۳۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا أَحْمَرُ بْنُ جَزْءٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا سَجَدَ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ حَتَّى نَأْوِيَ لَهُ".
احمر بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں بازو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھتے یہاں تک کہ ہمیں (آپ کی تکلیف و مشقت پر) رحم آ جاتا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹ (۸۸۰)، (تحفة الأشراف: ۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۰، ۴/۳۴۲، ۵/۳۱) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَفْتَرِشْ يَدَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ وَلْيَضُمَّ فَخْذَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے اور چاہیئے کہ اپنی دونوں رانوں کو ملا کر رکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۹۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۸۵ (۲۶۹)، سنن النسائی/التطبیق ۳۸ (۱۰۹۲)، مسند احمد (۲/۳۸۱) (حسن) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۸۳۷/۲)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: اشْتَكَى أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَشَقَّةَ السُّجُودِ عَلَيْهِمْ إِذَا انْفَرَجُوا، فَقَالَ: "اسْتَعِينُوا بِالرُّكَبِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے شکایت کی کہ جب لوگ پھیل کر سجدہ کرتے ہیں تو سجدے میں ہمیں تکلیف ہوتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زانو (گھٹنے) سے مدد لے لیا کرو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۰۰ (۲۸۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۳۹، ۴۱۷) (ضعیف) ( محمد بن عجلان کی اس حدیث کو سمی سے ان سے زیادہ ثقہ، اور معتبر رواة نے مرسلا ذکر کیا ہے، اور ابوہریرہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: ۹؍ ۸۳۲)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کہنیوں کو گھٹنوں پر ٹیک دیا کرو۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ صَبِيحٍ الْحَنَفِيِّ، قَالَ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ"فَوَضَعْتُ يَدَيَّ عَلَى خَاصِرَتَيَّ، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ: هَذَا الصَّلْبُ فِي الصَّلَاةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُ".
زیاد بن صبیح حنفی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بغل میں نماز پڑھی، اور اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ لیے، جب آپ نماز پڑھ چکے تو کہا: یہ (کمر پر ہاتھ رکھنا) نماز میں صلیب (سولی) کی شکل ہے ۱؎، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرماتے تھے۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۱۲ (۸۹۰)، (تحفة الأشراف: ۶۷۲۴)، وقد أخرجہ: حم(۲/۳۰، ۱۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ جسے سولی دی جاتی ہے اس کے ہاتھ سولی دیتے وقت اسی طرح رکھے جاتے ہیں۔ ۲؎ : مؤلف نے ترجمۃ الباب میں الاقعاء کا ذکر کیا ہے لیکن اس سے متعلق کوئی روایت یہاں درج نہیں کی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی «إقعاء» والی روایت اس سے پہلے «الإقعاء بين السجدتين» باب (۱۴۳) کے تحت گزری۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيزٌ كَأَزِيزِ الرَّحَى مِنَ الْبُكَاءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے چکی کی آواز کے مانند آواز آتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الشمائل ۴۴ (۳۰۵)، سنن النسائی/السھو ۱۸ (۱۲۱۵)، (تحفة الأشراف: ۵۳۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵، ۲۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يَسْهُو فِيهِمَا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے ان میں وہ بھولے نہیں ۱؎ تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۷۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۱۷) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے دنیاوی خیالات اور نماز سے غیر متعلق امور ذہن میں نہیں لاتا۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ يُقْبِلُ بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ عَلَيْهِمَا إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ".
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے اور اپنے دل اور چہرے کو پوری طرح سے متوجہ کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطھارة ۶ (۲۳۴)، سنن النسائی/الطھارة ۱۱۱ (۱۵۱)، (تحفة الأشراف: ۹۹۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۴۶، ۱۵۱، ۱۵۳)، سنن الدارمی/الطھارة ۴۳ (۷۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ يَحْيَى الْكَاهِلِيِّ، عَنْ الْمُسَوَّرِ بْنِ يَزِيدَ الْأَسَدِيِّ الْمَالِكِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَحْيَى، وَرُبَّمَا قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَرَكَ شَيْئًا لَمْ يَقْرَأْهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَرَكْتَ آيَةَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلَّا أَذْكَرْتَنِيهَا". قَالَ سُلَيْمَانُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: كُنْتُ أُرَاهَا نُسِخَتْ. وقَالَسُلَيْمَانُ: قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُسَوَّرُ بْنُ يَزِيدَ الْأَسَدِيُّ الْمَالِكِيُّ.
مسور بن یزید مالکی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قرآت کر رہے تھے، (یحییٰ کی روایت میں ہے کبھی مسور نے یوں کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں قرآت کر رہے تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آیتیں چھوڑ دیں، انہیں نہیں پڑھا (نماز کے بعد) ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں آیتیں چھوڑ دی ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے مجھے یاد کیوں نہیں دلایا؟"۔ سلیمان نے اپنی روایت میں کہا کہ: میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ منسوخ ہو گئی ہیں -سلیمان کی روایت میں ہے کہ مجھ سے یحییٰ بن کثیر ازدی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے مسور بن یزید اسدی مالکی نے بیان کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، اس میں قرآت کی تو آپ کو شبہ ہو گیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟"، ابی نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں (لقمہ دینے سے) کس چیز نے روک دیا؟"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۷۶۶، ۱۱۲۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۷۴) (حسن)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْالْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا عَلِيُّ، لَا تَفْتَحْ عَلَى الْإِمَامِ فِي الصَّلَاةِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو إِسْحَاقَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ الْحَارِثِ إِلَّا أَرْبَعَةَ أَحَادِيثَ لَيْسَ هَذَا مِنْهَا.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "علی! تم نماز میں امام کو لقمہ مت دیا کرو"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابواسحاق نے حارث سے صرف چار حدیثیں سنی ہیں اور حدیث ان میں سے نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۴۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۴۶) (ضعیف) (اس کی سند میں حارث اعور نہایت ضعیف راوی ہے ، نیز یہ حدیث ابواسحاق نے حارث سے نہیں سنی )
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ يُحَدِّثُنَا فِي مَجْلِسِ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُقْبِلًا عَلَى الْعَبْدِ وَهُوَ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ، فَإِذَا الْتَفَتَ انْصَرَفَ عَنْهُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "اللہ تعالیٰ حالت نماز میں بندے پر اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جب تک کہ وہ ادھر ادھر نہیں دیکھتا ہے، پھر جب وہ ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے منہ پھیر لیتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السھو ۱۰ (۱۱۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۷۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۳۴ (۱۴۶۳) (حسن) (اس کے راوی ابو الأحوص لین الحدیث ہیں ، بعض لوگوں کے نزدیک مجہول ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۸۴۳/م، وصحیح الترغیب: ۵۵۲-۵۵۴)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَشْعَثِ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْتِفَاتِ الرَّجُلِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: "إِنَّمَا هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آدمی کے نماز کے ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ بندے کی نماز سے شیطان کا اچک لینا ہے (یعنی اس کے ثواب میں سے ایک حصہ اڑا لیتا ہے)"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۳ (۷۵۱)، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۹۱)، سنن النسائی/السھو ۱۰ (۱۱۹۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۶۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۶۱ (۵۹۰)، مسند احمد (۶/۷، ۱۰۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"رُئِيَ عَلَى جَبْهَتِهِ وَعَلَى أَرْنَبَتِهِ أَثَرُ طِينٍ مِنْ صَلَاةٍ صَلَّاهَا بِالنَّاسِ". قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: هَذَا الْحَدِيثُ لَمْ يَقْرَأْهُ أَبُو دَاوُدَ فِي الْعَرْضَةِ الرَّابِعَةِ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جس سے آپ کی پیشانی اور ناک پر مٹی کے نشانات دیکھے گئے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۸۹۴، (تحفة الأشراف: ۴۴۱۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَهَذَا حَدِيثُهُ، وَهُوَ أَتَمُّ، عَنْالْأَعْمَشِ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ الطَّائِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ عُثْمَانُ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ فَرَأَى فِيهِ نَاسًا يُصَلُّونَ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ اتَّفَقَا، فَقَالَ: "لَيَنْتَهِيَنَّ رِجَالٌ يَشْخَصُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ". قَالَ مُسَدَّدٌ فِي الصَّلَاةِ: "أَوْلَا تَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبْصَارُهُمْ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ نماز میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ اس سے باز آ جائیں ورنہ (ہو سکتا ہے کہ) ان کی نگاہیں ان کی طرف واپس نہ لوٹیں یعنی بینائی جاتی رہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۲۶ (۴۳۰)، سنن النسائی/ السہو ۵ (۱۱۸۵)، (تحفة الأشراف: ۲۱۲۸)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۶۸ (۱۰۴۵)، مسند احمد (۵/۱۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ فِي صَلَاتِهِمْ"فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: "لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟"، پھر اس سلسلہ میں آپ نے بڑی سخت بات کہی، اور فرمایا: "لوگ اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۹۲ (۷۵۰)، سنن النسائی/السھو ۹ (۱۱۹۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۶۸ (۱۰۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۰۹، ۱۱۲، ۱۱۵، ۱۱۶، ۱۴۰، ۲۵۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۶۷ (۱۳۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَقَالَ: "شَغَلَتْنِي أَعْلَامُ هَذِهِ اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اس چادر کے نقش و نگار نے نماز سے غافل کر دیا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ (ابوجہم ہی نے وہ چادر آپ کو تحفہ میں دی تھی) اور ان سے میرے لیے ان کی انبجانی چادر لے آؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۴ (۳۷۳)، والأذان ۹۳ (۷۵۲)، واللباس ۱۹ (۵۸۱۷)، صحیح مسلم/المساجد ۱۵ (۵۵۶)، سنن النسائی/القبلة ۲۰ (۷۷۲)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۱ (۳۵۵۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۸(۶۷)، مسند احمد (۶/۳۷، ۴۶، ۱۷۷، ۱۹۹، ۲۰۸)، ویأتي ہذا الحدیث فی اللباس (۴۰۵۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامًا يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: وَأَخَذَ كُرْدِيًّا كَانَ لِأَبِي جَهْمٍ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْخَمِيصَةُ كَانَتْ خَيْرًا مِنَ الْكُرْدِيِّ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم کی کر دی چادر لے لی، تو آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! وہ (باریک نقش و نگار والی) چادر اس (کر دی چادر) سے اچھی تھی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۰۳، ۱۷۰۲۳)، ویاٹی ہذا الحدیث في اللباس (۴۰۵۲)، (حسن)
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي السَّلُولِيُّ هُوَ أَبُو كَبْشَةَ، عَنْ سَهْلِ ابْنِ الْحَنْظَلِيَّةِ، قَالَ: ثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ، يَعْنِي صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي وَهُوَ يَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَانَ أَرْسَلَ فَارِسًا إِلَى الشِّعْبِ مِنَ اللَّيْلِ يَحْرُسُ.
سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نماز یعنی فجر کے لیے تکبیر کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے اور آپ گھاٹی کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے جاتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: آپ نے رات میں نگرانی کے لیے ایک گھڑ سوار گھاٹی کی طرف بھیج رکھا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود،(تحفة الأشراف: ۴۶۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے تو انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۰۶ (۵۱۶)، والأدب ۱۸ (۵۹۹۶)، صحیح مسلم/المساجد ۹ (۵۴۳)، سنن النسائی/المساجد ۱۹ (۷۱۲)، والإمامة ۳۷ (۸۲۸)، والسھو ۱۳ (۱۲۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۲۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة ۲۴(۸۱)، مسند احمد (۵/۲۹۵، ۲۹۶، ۳۰۳، ۳۰۴، ۳۱۰، ۳۱۱) ، سنن الدارمی/الصلاة ۹۳ (۱۳۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر لڑکا یا لڑکی تنگ کرے اور نماز نہ پڑھنے دے تو اس کو گود میں اٹھا کر یا کندھے پر بٹھا کر نماز پڑھنی درست ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا قَتَادَةَ، يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ جُلُوسٌ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ أُمَامَةَ بِنْتَ أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ وَأُمُّهَا زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ صَبِيَّةٌ يَحْمِلُهَا عَلَى عَاتِقِهِ، "فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عَلَى عَاتِقِهِ يَضَعُهَا إِذَا رَكَعَ، وَيُعِيدُهَا إِذَا قَامَ حَتَّى قَضَى صَلَاتَهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ بِهَا".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ امامہ بنت ابوالعاص بن ربیع کو اپنے کندھے اٹھائے ہوئے تھے، امامہ کی والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا تھیں، امامہ ابھی چھوٹی بچی تھیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر تھیں، جب آپ رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے پھر جب کھڑے ہوتے تو انہیں دوبارہ اٹھا لیتے، اسی طرح کرتے ہوئے آپ نے اپنی پوری نماز ادا کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُأَبَا قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي لِلنَّاسِ، وَأُمَامَةُ بِنْتُ أَبِي الْعَاصِ عَلَى عُنُقِهِ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَمْ يَسْمَعْ مَخْرَمَةُ مِنْ أَبِيهِ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا.
ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا اور آپ کی نواسی امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا آپ کی گردن پر سوار تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو انہیں اتار دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْعَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ فِي الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ وَقَدْ دَعَاهُ بِلَالٌ لِلصَّلَاةِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا وَأُمَامَةُ بِنْتُ أَبِي الْعَاصِ بِنْتُ ابْنَتِهِ عَلَى عُنُقِهِ، "فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مُصَلَّاهُ وَقُمْنَا خَلْفَهُ وَهِيَ فِي مَكَانِهَا الَّذِي هِيَ فِيهِ، قَالَ: فَكَبَّرَ، فَكَبَّرْنَا، قَالَ: حَتَّى إِذَا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْكَعَ أَخَذَهَا فَوَضَعَهَا، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ سُجُودِهِ، ثُمَّ قَامَ أَخَذَهَا فَرَدَّهَا فِي مَكَانِهَا، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
صحابی رسول ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ ظہر یا عصر میں نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلا چکے تھے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف لائے اور اس حال میں کہ(آپ کی نواسی) امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہما جو آپ کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں آپ کی گردن پر سوار تھیں تو آپ اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور ہم لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور وہ اپنی جگہ پر اسی طرح بیٹھی رہیں، جیسے بیٹھی تھیں، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا تو ہم لوگوں نے بھی «الله أكبر» کہا یہاں تک کہ جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں اتار کر نیچے بٹھا دیا، پھر رکوع اور سجدہ کیا، یہاں تک کہ جب آپ سجدے سے فارغ ہوئے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے تو انہیں اٹھا کر (اپنی گردن پر) اسی جگہ بٹھا لیا، جہاں وہ پہلے بیٹھی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہوئے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد أبو داود بھذا السیاق، وانظر أصلہ في رقم (۹۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۲۴) (ضعیف) (اس حدیث میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور انہوں نے روایت عنعنہ سے کی ہے، حدیث میں ظہر یا عصر کی تعیین ہے، نیز بلال رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے ان کے بغیر اصل حدیث صحیح ہے، جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْتُلُوا الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ: الْحَيَّةَ وَالْعَقْرَبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز میں دونوں کالوں (یعنی) سانپ اور بچھو کو (اگر دیکھو تو)قتل کر ڈالو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۰ (۳۹۰)، سنن النسائی/السھو ۱۲ (۱۲۰۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۴۶ (۱۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۳، ۲۵۵، ۲۷۳، ۲۷۵، ۲۸۴، ۴۹۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۸ (۱۵۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَحْمَدُ: يُصَلِّي وَالْبَابُ عَلَيْهِ مُغْلَقٌ فَجِئْتُ فَاسْتَفْتَحْتُ، قَالَ أَحْمَدُ: فَمَشَى، فَفَتَحَ لِي، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُصَلَّاهُ". وَذَكَرَ أَنَّ الْبَابَ كَانَ فِي الْقِبْلَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ بند تھا تو میں آئی اور دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے (حالت نماز میں) چل کر میرے لیے دروازہ کھولا اور مصلی (نماز کی جگہ) پر واپس لوٹ گئے ۱؎۔ اور عروہ نے ذکر کیا کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۳۰۴ (الجمعة ۶۸)، (۶۰۱) سنن النسائی/السھو ۱۴ (۱۲۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۱، ۱۸۳، ۲۳۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : ان حدیثوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے واسطے چلنا یا دروازہ کھولنا یا لاٹھی اٹھا کر سانپ بچھو مارنا، یا بچے کو گود میں اٹھا لینا پھر بٹھا دینا، ان سب اعمال سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ"فَيَرُدُّ عَلَيْنَا"، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اس حال میں کہ آپ نماز میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا: "نماز (خود) ایک شغل ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة ۳ (۱۲۰۱)، ۱۵ (۱۲۱۶)، مناقب الأنصار ۳۷ (۳۸۷۵)، صحیح مسلم/المساجد ۷ (۵۳۸)، ن الکبری / السھو ۹۹ (۵۴۰)، (تحفة الأشراف: ۹۴۱۸)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۵۹ (۱۰۱۹)، مسند احمد (۱/ ۱۷۶، ۱۷۷، ۴۰۹، ۴۱۵، ۴۳۵، ۴۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ، وَنَأْمُرُ بِحَاجَتِنَا، فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ". فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (پہلے) ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور کام کاج کی باتیں کر لیتے تھے، تو (ایک بار) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا تو مجھے پرانی اور نئی باتوں کی فکر دامن گیر ہو گئی ۱؎، جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، نیا حکم نازل کرتا ہے، اب اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ نماز میں باتیں نہ کرو"، پھر آپ نے میرے سلام کا جواب دیا۔
تخریج دارالدعوہ: ن / الکبری/ السہو ۱۱۳ (۵۵۹)، (تحفة الأشراف: ۹۲۷۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۷)، ۴۳۵، ۴۶۳) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی میں سوچنے لگا کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہوئی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے ہوں۔
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنْابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ"فَرَدَّ إِشَارَةً"، قَالَ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: إِشَارَةً بِأُصْبُعِهِ. وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ.
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے«إشارة بأصبعه» کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۹ (۳۶۷)، سنن النسائی/السھو ۶ (۱۱۸۷)، (تحفة الأشراف: ۴۹۶۶)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۵۹ (۱۰۱۹)، مسند احمد (۴/۳۳۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۹۴ (۱۴۰۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِى الْمُصْطَلَقِ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ"يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ، فَكَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا، وَأَنَا أَسْمَعُهُ يَقْرَأُ وَيُومِئُ بِرَأْسِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: مَا فَعَلْتَ فِي الَّذِي أَرْسَلْتُكَ ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنی مصطلق کے پاس بھیجا، میں (وہاں سے) لوٹ کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح سے اشارہ کیا، میں نے پھر آپ سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا یعنی خاموش رہنے کا حکم دیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآت کرتے سن رہا تھا اور آپ اپنے سر سے اشارہ فرما رہے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: "میں نے تم کو جس کام کے لیے بھیجا تھا اس سلسلے میں تم نے کیا کیا؟، میں نے تم سے بات اس لیے نہیں کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۷ (۵۴۷)، (تحفة الأشراف: ۲۷۱۸)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/السھو ۶ (۱۱۹۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۵۹ (۱۰۱۸)، مسند احمد (۳/۳۱۲، ۳۳۴، ۳۳۸، ۳۸۰، ۲۹۶)، ویأتي برقم : (۱۲۲۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ، قَالَ: فَجَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي ؟ قَالَ: "يَقُولُ هَكَذَا: وَبَسَطَ كَفَّهُ، وَبَسَطَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كَفَّهُ، وَجَعَلَ بَطْنَهُ أَسْفَلَ، وَجَعَلَ ظَهْرَهُ إِلَى فَوْقٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کر رہے تھے، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ الصلاة ۱۵۵ (۳۶۸)، (تحفة الأشراف: ۲۰۳۸، ۸۵۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا غِرَارَ فِي صَلَاةٍ وَلَا تَسْلِيمٍ". قَالَ أَحْمَدُ: يَعْنِي فِيمَا أَرَى أَنْ لَا تُسَلِّمَ وَلَا يُسَلَّمَ عَلَيْكَ، وَيُغَرِّرُ الرَّجُلُ بِصَلَاتِهِ فَيَنْصَرِفُ وَهُوَ فِيهَا شَاكٌّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز میں نقصان اور کمی نہیں ہے اور نہ سلام میں ہے ۱؎"، احمد کہتے ہیں: جہاں تک میں سمجھتا ہوں مطلب یہ ہے کہ (نماز میں) نہ تو تم کسی کو سلام کرو اور نہ تمہیں کوئی سلام کرے اور نماز میں نقصان یہ ہے کہ آدمی نماز سے اس حال میں پلٹے کہ وہ اس میں شک کرنے والا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سلام میں نقص نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ تم سلام کا مکمل جواب دو اس میں کوئی کمی نہ کرو یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ہی پر اکتفا نہ کرو بلکہ ’’وبرکاتہ‘‘ بھی کہو، ایسے ہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ہی نہ کہو بلکہ ورحمۃ اللہ بھی کہو، اور نماز میں نقص کا ایک مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدے پورے طور سے ادا نہ کئے جائیں، دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز میں اگر شک ہو جائے کہ تین رکعت ہوئی یا چار تو تین کو جو یقین ہے چھوڑ کر چار کو اختیار نہ کیا جائے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُرَاهُ رَفَعَهُ، قَالَ: "لَا غِرَارَ فِي تَسْلِيمٍ وَلَا صَلَاةٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ عَلَى لَفْظِ ابْنِ مَهْدِيٍّ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ سلام میں نقص ہے اور نہ نماز میں"۔ معاویہ بن ہشام کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ سفیان نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ابن فضیل نے ابن مہدی کی طرح «لا غرار في تسليم ولا صلاة» کے لفظ کے ساتھ روایت کی ہے اور اس کو مرفوع نہیں کہا ہے (بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول بتایا ہے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَى، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهُ، مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ ؟ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ يُصَمِّتُونِي، فَقَالَ عُثْمَانُ: فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَكِّتُونِي لَكِنِّي سَكَتُّ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي وَأُمِّي مَا ضَرَبَنِي وَلَا كَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَحِلُّ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ هَذَا إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ"، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَنَا اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ، وَمِنَّا رِجَالٌ يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ: "فَلَا تَأْتِهِمْ"، قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ: "ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدُّهُمْ"، قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: "كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ"، قَالَ: قُلْتُ جَارِيَةٌ لِي كَانَتْ تَرْعَى غُنَيْمَاتٍ قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ: إِذْ اطَّلَعْتُ عَلَيْهَا اطِّلَاعَةً فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْهَا، وَأَنَا مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَعَظُمَ ذَاكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَفَلَا أُعْتِقُهَا ؟ قَالَ: "ائْتِنِي بِهَا"، قَالَ: فَجِئْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: "أَيْنَ اللَّهُ ؟"قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: "مَنْ أَنَا ؟"قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: "أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ".
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، قوم میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے (حالت نماز میں) «يرحمك الله» کہا، اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے (اپنے دل میں) کہا: تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں، تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے رانوں کو تھپتھپانا شروع کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، میرے ماں باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا فرمایا: "نماز میں اس طرح بات چیت درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے"، یا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں (ابھی) نیا نیا مسلمان ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہم کو (جاہلیت اور کفر سے نجات دے کر) دین اسلام سے مشرف فرمایا ہے، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان کے پاس مت جاؤ"۔ میں نے کہا: ہم میں سے بعض لوگ بد شگونی لیتے ہیں؟ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ ان کے دلوں کا وہم ہے، یہ انہیں ان کے کاموں سے نہ روکے"۔ پھر میں نے کہا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیر (خط) کھینچتے ہیں؟ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نبیوں میں سے ایک نبی خط (لکیریں) کھینچا کرتے تھے، اب جس کسی کا خط ان کے خط کے موافق ہوا، وہ صحیح ہے"۔ میں نے کہا: میرے پاس ایک لونڈی ہے، جو احد اور جوانیہ کے پاس بکریاں چراتی تھی، ایک بار میں (اچانک)پہنچا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے کر چلا گیا ہے، میں بھی انسان ہوں، مجھے افسوس ہوا جیسے اور لوگوں کو افسوس ہوتا ہے تو میں نے اسے ایک زور کا طمانچہ رسید کر دیا تو یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزری، میں نے عرض کیا: کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے میرے پاس لے کر آؤ"، میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس لونڈی سے) پوچھا: "اللہ کہاں ہے؟"، اس نے کہا: آسمان کے اوپر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "میں کون ہوں؟"، اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۷ (۵۳۷)، والسلام ۳۵ (۵۳۷)، سنن النسائی/السھو ۲۰ (۱۲۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۷۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العتق ۶ (۸) مسند احمد (۵/۴۴۷، ۴۴۸، ۴۴۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۷ (۱۵۴۳) ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (۳۲۸۲)، وفی الطب (۳۹۰۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: لَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِمْتُ أُمُورًا مِنْ أُمُورِ الْإِسْلَامِ، فَكَانَ فِيمَا عَلِمْتُ أَنْ قَالَ لِي: "إِذَا عَطَسْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ، وَإِذَا عَطَسَ الْعَاطِسُ فَحَمِدَ اللَّهَ فَقُلْ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ"، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا قَائِمٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ فَحَمِدَ اللَّهَ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ رَافِعًا بِهَا صَوْتِي، فَرَمَانِي النَّاسُ بِأَبْصَارِهِمْ حَتَّى احْتَمَلَنِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ: مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ بِأَعْيُنٍ شُزْرٍ ؟ قَالَ: فَسَبَّحُوا، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنِ الْمُتَكَلِّمُ ؟، "قِيلَ: هَذَا الْأَعْرَابِيُّ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: "إِنَّمَا الصَّلَاةُ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، فَإِذَا كُنْتَ فِيهَا فَلْيَكُنْ ذَلِكَ شَأْنُكَ". فَمَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَطُّ أَرْفَقَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے اسلام کی کچھ باتیں معلوم ہوئیں چنانچہ جو باتیں مجھے معلوم ہوئیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جب تمہیں چھینک آئے تو «الحمد الله» کہو اور کوئی دوسرا چھینکے اور«الحمد الله» کہے تو تم «يرحمك الله» کہو۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نماز میں کھڑا تھا کہ اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی اس نے «الحمد الله» کہا تو میں نے «يرحمك الله» بلند آواز سے کہا تو لوگوں نے مجھے ترچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو میں اس پر غصہ میں آ گیا، میں نے کہا: تم لوگ میری طرف کنکھیوں سے کیوں دیکھتے ہو؟ تو ان لوگوں نے «سبحان الله» کہا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "(دوران نماز) کس نے بات کی تھی؟"، لوگوں نے کہا: اس اعرابی نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلایا اور مجھ سے فرمایا: "نماز تو بس قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے، تو جب تم نماز میں رہو تو تمہارا یہی کام ہونا چاہیئے"۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر شفیق اور مہربان کبھی کسی معلم کو نہیں دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۷۹) (ضعیف) (فلیح بن سلیمان میں سوء حفظ ہے، انہوں نے اس حدیث میں آدمی کے چھینکنے کے بعد الحمد للہ کہنے کا تذکرہ کیا ہے، معاویہ سلمی کا قول: «فكان فيما علمت ... فقل: يرحمك الله» نیز یحییٰ بن ابی کثیر کی سابقہ حدیث یہ دونوں باتیں مذکور نہیں ہیں، اور اس کا سیاق فلیح کے سیاق سے زیادہ کامل ہے، فی الجملہ فلیح کی روایت اوپر کی روایت کے ہم معنی ہے، لیکن زائد اقوال میں فلیح قابل استناد نہیں ہیں، خود ابوداود نے ان کے بارے میں کہا ہے:«صدوق لا يحتج به» واضح رہے کہ فلیح بخاری و مسلم کے روای ہیں ( ھدی الساری: ۴۳۵) ابن معین، ابو حاتم اور نسائی نے ان کی تضعیف کی ہے، اور ابن حجر نے «صدوق كثير الخطا» کہا ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: ۹؍ ۳۵۳- ۳۵۴)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ: وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، قَالَ: آمِينَ وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «ولا الضالين» پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۷۲ (۲۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۵۸)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۴ (۸۵۵)، مسند احمد (۴/۳۱۶)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۹ (۱۲۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ، عَنْوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَجَهَرَ بِآمِينَ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ خَدِّهِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی اور اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال کی سفیدی دیکھ لی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۵۸) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَلَا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، قَالَ: آمِينَ، حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کی تلاوت فرماتے تو آمین کہتے یہاں تک کہ پہلی صف میں سے جو لوگ آپ سے نزدیک ہوتے اسے سن لیتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۴ (۸۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۴۴) (ضعیف) (اس کے راوی ابن عم ابوہریرة لین الحدیث ہیں )
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب امام «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو جائے گا اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۱۱ (۷۸۰)، ۱۱۳ (۷۸۲)، وتفسیر الفاتحة ۳ (۴۴۷۵)، والدعوات ۶۳ (۶۴۰۲)، سنن النسائی/الافتتاح ۳۴ (۹۳۰)، موطا امام مالک/الصلاة ۱۱(۴۵)، مسند احمد (۲/۲۳۸، ۴۵۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۳۸ (۱۲۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۷۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۸ (۴۱۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۷۳ (۲۵۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۴ (۸۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُمَا أَخْبَرَاهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "آمِينَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گی اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے"۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۳۰، ۱۵۴۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ بِلَالٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، "لَا تَسْبِقْنِي بِآمِينَ".
بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۰۴۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲) (ضعیف) (ابوعثمان نہدی کی ملاقات بلال رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اتنی مہلت دیا کیجئے کہ میں سورۃ فاتحہ سے فارغ ہو جاؤں تاکہ آپ کی اور میری آمین ساتھ ہوا کرے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بات مروان سے کہا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ الدِّمَشْقِيُّ، وَمَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ صُبَيْحِ بْنِ مُحْرِزٍ الْحِمْصِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو مُصَبِّحٍ الْمَقْرَائِيُّ، قَالَ: كُنَّا نَجْلِسُ إِلَى أَبِي زُهَيْرٍ النُّمَيْرِيِّ، وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ، فَيَتَحَدَّثُ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ، فَإِذَا دَعَا الرَّجُلُ مِنَّا بِدُعَاءٍ، قَالَ: اخْتِمْهُ بِآمِينَ، فَإِنَّ آمِينَ مِثْلُ الطَّابَعِ عَلَى الصَّحِيفَةِ. قَالَ أَبُو زُهَيْرٍ: أُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَلَحَّ فِي الْمَسْأَلَةِ، فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ مِنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوْجَبَ إِنْ خَتَمَ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: بِأَيِّ شَيْءٍ يَخْتِمُ ؟ قَالَ: "بِآمِينَ، فَإِنَّهُ إِنْ خَتَمَ بِآمِينَ فَقَدْ أَوْجَبَ"، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ الَّذِي سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى الرَّجُلَ، فَقَالَ: اخْتِمْ يَا فُلَانُ بِآمِينَ وَأَبْشِرْ. وَهَذَا لَفْظٌ مَحْمُودٌ. قَالَ أَبُو دَاوُد: الْمَقْرَاءُ: قَبِيلٌ مِنْ حِمْيَرَ.
ابومصبح مقرائی کہتے ہیں کہ ہم ابوزہیر نمیری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا کرتے تھے، وہ صحابی رسول تھے، وہ (ہم سے) ا چھی اچھی حدیثیں بیان کرتے تھے، جب ہم میں سے کوئی دعا کرتا تو وہ کہتے: اسے آمین پر ختم کرو، کیونکہ آمین کتاب پر لگی ہوئی مہر کی طرح ہے۔ ابوزہیر نے کہا: میں تمہیں اس کے بارے میں بتاؤں؟ ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہم لوگ ایک شخص کے پاس پہنچے جو نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر سننے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس نے (اپنی دعا پر) مہر لگا لی تو اس کی دعا قبول ہو گئی"، اس پر ایک شخص نے پوچھا: کس چیز سے وہ مہر لگائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آمین سے، اگر اس نے آمین سے ختم کیا تو اس کی دعا قبول ہو گئی"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر وہ شخص (جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا) اس آدمی کے پاس آیا جو دعا کر رہا تھا اور اس سے کہا: اے فلاں! تم اپنی دعا پر آمین کی مہر لگا لو اور خوش ہو جاؤ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۴۲) (ضعیف) (اس کے راوی صبیح بن محرز لین الحدیث ہیں )
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز میں مردوں کو «سبحان الله» کہنا چاہیئے اور عورتوں کو تالی بجانی چاہیئے ۱؎" ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة ۵ (۱۲۰۳)، صحیح مسلم/الصلاة ۲۳ (۴۲۲)، سنن النسائی/السھو ۱۵ (۱۲۰۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۶۵ (۱۰۳۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۱۴۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۰ (۳۶۹)، مسند احمد (۲/۲۶۱، ۳۱۷، ۳۷۶، ۴۳۲، ۴۴۰، ۴۷۳، ۴۷۹، ۴۹۲، ۵۰۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۹۵ (۱۴۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : دوران نماز امام سے کچھ بھول چوک ہو جائے تو اس کو اس کی غلطی بتانے کے لیے مرد ’’سبحان اللہ‘‘ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، وَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي بِالنَّاسِ ؟ فَأُقِيمَ، قَالَ: نَعَمْ، فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَّلَى، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: "يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ ؟"قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمْ مِنَ التَّصْفِيحِ ؟ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُسَبِّحْ، فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا فِي الْفَرِيضَةِ.
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، اور نماز کا وقت ہو گیا، مؤذن نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر پوچھا: کیا آپ نماز پڑھائیں گے، میں تکبیر کہوں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں (تکبیر کہو میں نماز پڑھاتا ہوں)، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور لوگ نماز میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو چیرتے ہوئے (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے تو لوگ تالی بجانے لگے ۱؎ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ وہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے، لوگوں نے جب زیادہ تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نگاہ پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اشارہ سے فرمایا: "تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو"، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اس بات پر جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا، اللہ کا شکر ادا کیا، پھر پیچھے آ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "جب میں نے تمہیں حکم دے دیا تھا تو اپنی جگہ پر قائم رہنے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا؟"، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابوقحافہ ۲؎ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: "کیا بات تھی؟ تم اتنی زیادہ کیوں تالیاں بجا رہے تھے؟ جب کسی کو نماز میں کوئی معاملہ پیش آ جائے تو وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب وہ "سبحان الله" کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور تالی بجانا صرف عورتوں کے لیے ہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ فرض نماز کا واقعہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة ۵ (۱۲۰۴)، صحیح مسلم/الصلاة ۲۲ (۴۲۱)، (تحفة الأشراف: ۴۷۴۳)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة ۷ (۷۸۵)، ۱۵(۷۹۴)، السہو ۴ (۱۱۸۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۶۵ (۱۰۳۴)، موطا امام مالک/قصة الصلاة ۲۰ (۶۱)، مسند احمد (۵/۳۳۶)، سنن الدارمی/الصلاة ۹۵ (۱۴۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا علم ہو جائے۔ ۲؎ : ابوقحافہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد کی کنیت ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُمْ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَقَالَ لِبِلَالٍ: "إِنْ حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ وَلَمْ آتِكَ، فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، "فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ أَذَّنَ بِلَالٌ، ثُمَّ أَقَامَ، ثُمَّ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ، قَالَ فِي آخِرِهِ: إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ فَلْيُسَبِّحْ الرِّجَالُ، وَلْيُصَفِّحْ النِّسَاءُ".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی آپس میں لڑائی ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی، تو آپ ظہر کے بعد مصالحت کرانے کی غرض سے ان کے پاس آئے اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہہ آئے کہ اگر عصر کا وقت آ جائے اور میں واپس نہ آ سکوں تو تم ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ جب عصر کا وقت ہوا تو بلال نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا تو آپ آگے بڑھ گئے، اس کے اخیر میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تمہیں نماز میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو مرد "سبحان الله" کہیں اور عورتیں دستک دیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأحکام ۳۶ (۷۱۹۰)، سنن النسائی/الإمامة ۱۵ (۷۹۴)، (تحفة الأشراف: ۴۶۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۳۲، ۳۳۶) ، دی/الصلاة ۹۵(۱۴۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ عِيسَى بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: قَوْلُهُ التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ: تَضْرِبُ بِأُصْبُعَيْنِ مِنْ يَمِينِهَا عَلَى كَفِّهَا الْيُسْرَى.
عیسیٰ بن ایوب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد «التصفيح للنساء» سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے داہنے ہاتھ کی دونوں انگلیاں اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر ماریں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۱۸۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَبُّوَيْهِ الْمَرْوَزِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ فِي الصَّلَاةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اشارہ کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے بوقت ضرورت نماز میں اشارے کا جواز ثابت ہوتا ہے جیسے اشارے سے سلام کا جواب دینا وغیرہ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْأَبِي غَطَفَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، يَعْنِي فِي الصَّلَاةِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ، مَنْ أَشَارَ فِي صَلَاتِهِ إِشَارَةً تُفْهَمُ عَنْهُ فَلْيَعُدْ لَهَا، يَعْنِي الصَّلَاةَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا الْحَدِيثُ وَهْمٌ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سبحان الله" کہنا مردوں کے لیے ہے یعنی نماز میں اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہیں، جس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا اشارہ کیا کہ جسے سمجھا جا سکے تو وہ اس کی وجہ سے اسے لوٹائے یعنی اپنی نماز کو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث وہم ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۵۵) (ضعیف) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز یونس سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں تو ہو سکتا ہے کہ یہاں انہیں سے غلطی ہوئی ہو)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت جس میں عصر کے بعد دو رکعتوں کے پڑھنے کا ذکر ہے اور ام المومنین عائشہ و جابر رضی اللہ عنہما کی روایتیں جن میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھائی تو لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں بیٹھ جانے کے لئے کہا دونوں روایتیں اس کے مخالف ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ يَرْوِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ فَلَا يَمْسَحْ الْحَصَى".
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت اس کا سامنا کرتی ہے، لہٰذا وہ کنکریوں پر ہاتھ نہ پھیرے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۳ (۳۷۹)، سنن النسائی/السھو ۷ (۱۱۹۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۶۳ (۱۰۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۵۰، ۱۶۳)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۱۰ (۱۴۲۸) (ضعیف)(ابوالأحوص لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : کنکریوں پر ہاتھ پھیرنے سے مراد انہیں برابر کرنا ہے تاکہ ان پر سجدہ کیا جا سکے۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ مُعَيْقِيبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَمْسَحْ وَأَنْتَ تُصَلِّي، فَإِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَوَاحِدَةٌ تَسْوِيَةَ الْحَصَى".
معیقیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نماز پڑھنے کی حالت میں (کنکریوں پر) ہاتھ نہ پھیرو، یعنی انہیں برابر نہ کرو، اگر کرنا ضروری ہو تو ایک دفعہ برابر کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة ۸ (۱۲۰۷)، صحیح مسلم/المساجد ۱۲ (۵۴۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۷ (۳۸۰)، سنن النسائی/السھو ۸ (۱۱۹۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۶۲ (۱۰۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۲۶، ۵/۴۲۵، ۴۲۶)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۱۰ (۱۴۲۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الِاخْتِصَارِ فِي الصَّلَاةِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: يَعْنِي يَضَعُ يَدَهُ عَلَى خَاصِرَتِهِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں «الاختصار» سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں:«الاختصار» کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ اپنی کمر پر رکھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۵۴۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة ۱۷ (۱۲۲۰)، صحیح مسلم/المساجد ۱۱ (۵۴۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۹ (۳۸۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۱۲ (۸۸۹)، مسند احمد (۲/۲۳۲،۲۹۰، ۲۹۵، ۳۳۱، ۳۹۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۳۸ (۱۴۶۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ یہ یہودیوں کا فعل ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ابلیس کو زمین پر اسی ہیئت میں اتارا گیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْوَابِصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: قَدِمْتُ الرَّقَّةَ، فَقَالَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِي: هَلْ لَكَ فِي رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: قُلْتُ: غَنِيمَةٌ، فَدَفَعْنَا إِلَى وَابِصَةَ، قُلْتُ لِصَاحِبِي: نَبْدَأُ، فَنَنْظُرُ إِلَى دَلِّهِ، فَإِذَا عَلَيْهِ قَلَنْسُوَةٌ لَاطِئَةٌ ذَاتُ أُذُنَيْنِ، وَبُرْنُسُ خَزٍّ أَغْبَرُ، وَإِذَا هُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى عَصًا فِي صَلَاتِهِ، فَقُلْنَا: بَعْدَ أَنْ سَلَّمْنَا ؟: فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ قَيْسٍ بِنْتُ مِحْصَنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"لَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ اتَّخَذَ عَمُودًا فِي مُصَلَّاهُ يَعْتَمِدُ عَلَيْهِ".
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ میں رقہ ۱؎ آیا تو میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا: کیا تمہیں کسی صحابی سے ملنے کی خواہش ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ (ملاقات ہو جائے تو) غنیمت ہے، تو ہم وابصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، میں نے اپنے ساتھی سے کہا: پہلے ہم ان کی وضع دیکھیں، میں نے دیکھا کہ وہ ایک ٹوپی سر سے چپکی ہوئی دو کانوں والی پہنے ہوئے تھے اور خز ریشم کا خاکی رنگ کا برنس ۲؎اوڑھے ہوئے تھے، اور کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نماز میں ایک لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر ہم نے سلام کرنے کے بعد ان سے (نماز میں لکڑی پر ٹیک لگانے کی وجہ) پوچھی تو انہوں نے کہا: مجھ سے ام قیس بنت محصن نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب زیادہ ہو گئی اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون بنا لیا جس پر آپ ٹیک لگاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۴۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایک شہر کا نام ہے جو شام میں دریائے فرات پر واقع ہے۔ ۲؎ : ایک قسم کا لباس جس میں ٹوپی اسی سے بنی ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كَانَ أَحَدُنَا يُكَلِّمُ الرَّجُلَ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ، فَنَزَلَتْ: وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238"فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو چاہتا نماز میں اپنے بغل والے سے باتیں کرتا تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی«وقوموا لله قانتين» "اللہ کے لیے چپ چاپ کھڑے رہو" (سورۃ البقرہ: ۲۳۸) تو ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة ۲ (۱۲۰۰)، وتفسیر البقرة ۴۲ (۴۵۳۴)، صحیح مسلم/المساجد ۷ (۵۳۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۸۵ (۴۰۵)، وتفسیر البقرة (۲۹۸۶)، سنن النسائی/السھو ۲۰ (۱۲۲۰)، (تحفة الأشراف: ۳۶۶۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ يَعْنِي ابْنَ يَسَافٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "صَلَاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاةِ"فَأَتَيْتُهُ فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي جَالِسًا، فَوَضَعْتُ يَدَيَّ عَلَى رَأْسِي، فَقَالَ: "مَا لَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ؟"، قُلْتُ: حُدِّثْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ قُلْتَ: "صَلَاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاةِ"، وَأَنْتَ تُصَلِّي قَاعِدًا، قَالَ: "أَجَلْ وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "بیٹھ کر پڑھنے والے شخص کی نماز آدھی نماز ہے"، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو میں نے (تعجب سے) اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "عبداللہ بن عمرو! کیا بات ہے؟"، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: "بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو نصف ثواب ملتا ہے" اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں سچ ہے، لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۵)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۸ (۱۶۶۰)، (تحفة الأشراف: ۸۹۳۷)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۴۱ (۱۲۲۹)، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ۶ (۱۹)، مسند احمد (۲/۱۶۲، ۱۹۲، ۲۰۱، ۲۰۳)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۰۸ (۱۴۲۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی میرا معاملہ تمہارے جیسا نہیں ہے مجھے بیٹھ کر پڑھنے میں بھی پورا ثواب ملتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ قَاعِدًا، فَقَالَ: "صَلَاتُهُ قَائِمًا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا، وَصَلَاتُهُ قَاعِدًا عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاتِهِ قَائِمًا، وَصَلَاتُهُ نَائِمًا عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "آدمی کا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا بیٹھ کر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور بیٹھ کر نماز پڑھنے میں کھڑے ہو کر پڑھنے کے مقابلہ میں نصف ثواب ہے ۱؎ اور لیٹ کر پڑھنے میں بیٹھ کر پڑھنے کے مقابلہ میں نصف ثواب ملتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱۷ (۱۱۱۵)، ۱۸ (۱۱۱۶)، ۱۹ (۱۱۱۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۲ (۳۷۱)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۹ (۱۶۶۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۴۱ (۱۲۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۳۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۳، ۴۳۵، ۴۴۲، ۴۴۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے تندرست آدمی نہیں بلکہ مریض مراد ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس آئے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے آدھا ہے ‘‘۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَ بِي النَّاصُورُ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے ناسور تھا ۱؎، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: "تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر کھڑے ہو کر پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر بیٹھ کر پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو (لیٹ کر) پہلو کے بل پڑھو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ الصلاة ۱۵۷ (۳۷۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۹ (۱۲۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۳۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : باء اور نون دونوں کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے باسور مقعد کے اندرونی حصہ میں ورم کی بیماری کا نام ہے اور ناسور ایک ایسا خراب زخم ہے کہ جب تک اس میں فاسد مادہ موجود رہے تب تک وہ اچھا نہیں ہوتا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ جَالِسًا قَطُّ حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَكَانَ يَجْلِسُ فِيهَا فَيَقْرَأُ حَتَّى إِذَا بَقِيَ أَرْبَعُونَ أَوْ ثَلَاثُونَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ سَجَدَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ عمر رسیدہ ہو گئے تو اس میں بیٹھ کر قرآت کرتے تھے پھر جب تیس یا چالیس آیتیں رہ جاتیں تو انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر سجدہ کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ۲۰ (۱۱۱۸)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۳ (۳۷۲)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۶ (۱۶۵۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۴۰ (۱۲۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۹۰۳، ۱۶۸۶۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ۷ (۲۳)، مسند احمد (۶/۴۶، ۸۳، ۱۲۷، ۲۳۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ يُصَلِّي جَالِسًا فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، وَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ قَدْرُ مَا يَكُونُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَهَا وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ يَفْعَلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ عَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو بیٹھ کر قرآت کرتے تھے، پھر جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرآت رہ جاتی تو کھڑے ہو جاتے، پھر انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے، پھر رکوع کرتے اور سجدہ کرتے، پھر دوسری رکعت میں (بھی) اسی طرح کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث علقمہ بن وقاص نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ تقصیر الصلاة ۲۰ (۱۱۱۹)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۸ (۳۷۴)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۶ (۱۶۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۰۹، ۱۷۷۳۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة ۷ (۲۳)، مسند احمد (۶/۱۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ بُدَيْلَ بْنَ مَيْسَرَةَ، وَأَيُّوبَ يُحَدِّثَانِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا، وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں کبھی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور کبھی دیر تک بیٹھ کر، جب کھڑے ہو کر پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۶ (۱۶۴۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۰۱،۱۶۲۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۰۰، ۲۲۷، ۲۶۱، ۲۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ"أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السُّورَةَ فِي رَكْعَةٍ ؟ قَالَتْ: الْمُفَصَّلَ، قَالَ: قُلْتُ: فَكَانَ يُصَلِّي قَاعِدًا ؟ قَالَتْ: حِينَ حَطَمَهُ النَّاسُ".
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری سورت ایک رکعت میں پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: (ہاں) مفصل کی، پھر میں نے پوچھا: کیا آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: جس وقت لوگوں(کے کثرت معاملات) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکستہ (یعنی بوڑھا) کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۷۱، ۲۰۴) (صحیح) الشطر الثاني منہ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، "فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَكَبَّرَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا: وَحَلَّقَ بِشْرٌ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے تو قبلہ کا استقبال کیا پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انہیں پھر اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا، پھر جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں پھر اسی طرح اٹھایا، (رفع یدین کیا) وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنی داہنی کہنی کو اپنی داہنی ران سے اٹھائے رکھا اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب کی انگلی) بند کر لی اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنا لیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ اور بشر (راوی) نے بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر اور کلمے کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۷۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے اور اس کے علاوہ جتنی حدیثیں اس سلسلے میں آئی ہیں،ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع ہی سے آپ اسی طرح (انگلی کے) اشارہ کی شکل پر بیٹھتے ہی تھے نہ یہ کہ جب أشہدان لاإلہ إلاللہ پڑھتے تب انگلی سے اشارہ کرتے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: "سُنَّةُ الصَّلَاةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِيَ رِجْلَكَ الْيُسْرَى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نماز کی سنت یہ ہے کہ تم اپنا دایاں پیر کھڑا رکھو اور بایاں پیر موڑ کر رکھو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۴۵ (۸۲۷)، سنن النسائی/التطبیق ۹۶ (۱۱۵۷)، (تحفة الأشراف: ۷۲۶۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۲(۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: "مِنْ سُنَّةِ الصَّلَاةِ أَنْ تُضْجِعَ رِجْلَكَ الْيُسْرَى وَتَنْصِبَ الْيُمْنَى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نماز کی سنت میں سے یہ ہے کہ تم اپنا بایاں پیر بچھائے رکھو اور داہنا پیر کھڑا رکھو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۷۲۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بِإِسْنَادِهِ، مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ: عَنْ يَحْيَى أَيْضًا، مِنَ السُّنَّةِ. كَمَا قَالَ جَرِيرٌ.
اس طریق سے بھی یحییٰ سے اسی سند سے اسی کے مثل مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں: حماد بن زید نے یحییٰ سے «من السنة» کا لفظ روایت کیا ہے جیسے جریر نے کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۹۵۸)، (تحفة الأشراف: ۷۲۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَرَاهُمُ الْجُلُوسَ فِي التَّشَهُّدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد نے (اپنے ساتھیوں کو) تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت دکھائی پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۹۵۸)، (تحفة الأشراف: ۷۲۷۹، ۱۹۱۲۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيم، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى حَتَّى اسْوَدَّ ظَهْرُ قَدَمِهِ".
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لیے) بیٹھتے تو اپنا بایاں پیر بچھاتے یہاں تک کہ آپ کے قدم کی پشت سیاہ ہو گئی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۲۶۹، ۱۸۴۰۴) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے ، ابراہیم نخعی کی اکثر روایتیں تابعین سے ہوتی ہیں )
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ. ح وحَدَّثَنَامُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَحْمَدُ: قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَاعْرِضْ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: "وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: "حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ". زَادَ أَحْمَدُ، قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي، وَلَمْ يَذْكُرَا فِي حَدِيثِهِمَا الْجُلُوسَ فِي الثِّنْتَيْنِ كَيْفَ جَلَسَ.
محمد بن عمرو کہتے کہ میں نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کی موجودگی میں سنا، اور احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کی موجودگی میں، جن میں ابوقتادہ بھی تھے، ابوحمید کو یہ کہتا سنا کہ میں تم لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: تو آپ پیش کیجئے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو پاؤں کی انگلیاں کھلی رکھتے پھر «الله أكبر» کہتے اور سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے اور اس پر بیٹھتے پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کرتے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس (آخری) سجدے سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام پھیرنا رہتا ہے تو بایاں پاؤں ایک طرف نکال لیتے اور بائیں سرین پر ٹیک لگا کر بیٹھتے۔ احمد نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے: پھر لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے سچ کہا، آپ اسی طرح نماز پڑھتے تھے، لیکن ان دونوں نے یہ نہیں ذکر کیا کہ دو رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح بیٹھے تھے؟ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم :۷۳۰، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان دونوں نے پہلے تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ اللَّيْثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيِّ، وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ: "فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الْأَخِيرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَجَلَسَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ".
محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ (ایک مجلس میں) بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے یہی مذکورہ حدیث بیان کی، اور ابوقتادہ کا ذکر نہیں کیا کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت کے بعد(تشہد کے لیے) بیٹھتے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھتے اور جب اخیر رکعت کے بعد بیٹھتے تو اپنا بایاں پیر (دائیں جانب) آگے نکال لیتے اور اپنے سرین پر بیٹھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم :۷۳۰، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الْعَامِرِيِّ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: "فَإِذَا قَعَدَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَعَدَ عَلَى بَطْنِ قَدَمِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى، فَإِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ أَفْضَى بِوَرِكِهِ الْيُسْرَى إِلَى الْأَرْضِ وَأَخْرَجَ قَدَمَيْهِ مِنْ نَاحِيَةٍ وَاحِدَةٍ".
محمد بن عمرو عامری کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں تھا، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی جس میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو اپنے بائیں قدم کے تلوے پر بیٹھتے اور اپنا داہنا پیر کھڑا رکھتے پھر جب چوتھی رکعت ہوتی تو اپنی بائیں سرین کو زمین سے لگاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک طرف نکال لیتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم :۷۳۳، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، حَدَّثَنِي زُهَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَبَّاسٍ أَوْ عَيَّاشِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّهُ كَانَ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَبُوهُ، فَذَكَرَ فِيهِ، قَالَ: "فَسَجَدَ فَانْتَصَبَ عَلَى كَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَصُدُورِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتَوَرَّكَ وَنَصَبَ قَدَمَهُ الْأُخْرَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ وَلَمْ يَتَوَرَّكْ، ثُمَّ عَادَ فَرَكَعَ الرَّكْعَةَ الْأُخْرَى فَكَبَّرَ كَذَلِكَ، ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ حَتَّى إِذَا هُوَ أَرَادَ أَنْ يَنْهَضَ لِلْقِيَامِ قَامَ بِتَكْبِيرٍ، ثُمَّ رَكَعَ الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ فَلَمَّا سَلَّمَ سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِهِ مَا ذَكَرَ عَبْدُ الْحَمِيدِ فِي التَّوَرُّكِ وَالرَّفْعِ إِذَا قَامَ مِنْ ثِنْتَيْنِ.
عباس بن سہل یا عیاش بن سہل ساعدی سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے، جس میں ان کے والد سہل ساعدی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے تو اس مجلس میں انہوں نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں پر اور اپنے دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے سروں پر سہارا کیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سجدے سے سر اٹھا کر) بیٹھے تو تورک کیا یعنی سرین پر بیٹھے اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا پھر «الله أكبر» کہا اور سجدہ کیا، پھر «الله أكبر» کہہ کر کھڑے ہوئے اور تورک نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور دوسری رکعت پڑھی تو اسی طرح «الله أكبر» کہا، پھر دو رکعت کے بعد بیٹھے یہاں تک کہ جب قیام کے لیے اٹھنے کا ارادہ کرنے لگے تو «الله أكبر» کہہ کر اٹھے، پھر آخری دونوں رکعتیں پڑھیں، پھر جب سلام پھیرا تو اپنی دائیں جانب اور بائیں جانب پھیرا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عیسیٰ بن عبداللہ نے اپنی روایت میں تورک اور دو رکعت پڑھ کر اٹھتے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا ہے، جس کا ذکر عبدالحمید نے کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظرحدیث رقم : ۷۳۳، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۲) (ضعیف) (اس کے راوی عیسیٰ لین الحدیث ہیں اور ان کی یہ روایت سابقہ صحیح روایت کے خلاف ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، أَخْبَرَنِي فُلَيْحٌ، أَخْبَرَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ، وَأَبُو أُسَيْدٍ، وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَلَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ إِذَا قَامَ مِنْ ثِنْتَيْنِ وَلَا الْجُلُوسَ، قَالَ: "حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ".
فلیح کہتے ہیں: عباس بن سہل نے مجھے خبر دی ہے کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ اکٹھا ہوئے، پھر انہوں نے یہی حدیث ذکر کی اور دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی بیٹھنے کا، وہ کہتے ہیں: یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو گئے پھر بیٹھے اور اپنا بایاں پیر بچھایا اور اپنے داہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ کی جانب کیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم :۷۳۳، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كُنَّا إِذَا جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَقُولُوا السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، وَلَكِنْ إِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُوَ بِهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں بیٹھتے تو یہ کہتے تھے «السلام على الله قبل عباده السلام على فلان وفلان» یعنی "اللہ پر سلام ہو اس کے بندوں پر سلام سے پہلے یا اس کے بندوں کی طرف سے اور فلاں فلاں شخص پر سلام ہو" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ایسا مت کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود سلام ہے، بلکہ جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو یہ کہے «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين» "آداب، بندگیاں، صلاتیں اور پاکیزہ خیرات اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر" کیونکہ جب تم یہ کہو گے تو ہر نیک بندے کو خواہ آسمان میں ہو یا زمین میں ہو یا دونوں کے بیچ میں ہو اس (دعا کے پڑھنے) کا ثواب پہنچے گا (پھر یہ کہو) : «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں" پھر تم میں سے جس کو جو دعا زیادہ پسند ہو، وہ اس کے ذریعہ دعا کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۴۸ (۸۳۱)، ۱۵۰ (۸۳۵)، والعمل فی الصلاة ۴ (۱۲۰۲)، والاستئذان ۳ (۶۲۳۰)، ۲۸ (۶۲۶۵)، والدعوات ۱۷ (۶۳۲۸) والتوحید ۵ (۷۳۸۱)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۶ (۴۰۲)، سنن النسائی/التطبیق ۱۰۰ (۱۱۶۳، ۱۱۶۱)، والسھو ۴۱ (۱۲۷۸)، ۴۳ (۱۲۸۰)، ۵۶ (۱۲۹۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۴ (۸۹۹)، (تحفة الأشراف: ۹۲۴۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۰۳ (۲۸۹)، والنکاح ۱۷ (۱۱۰۵)، مسند احمد (۱/۳۷۶، ۳۸۲، ۴۰۸، ۴۱۳، ۴۱۴، ۴۲۲، ۴۲۳، ۴۲۸، ۴۳۱، ۴۳۷، ۴۳۹، ۴۴۰، ۴۵۰، ۴۵۹، ۴۶۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۸۴ (۱۳۷۹) (صحیح)
وضاحت: وضاحت : «السلام عليك أيها النبي» بصیغۂ خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کہا جاتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام بصیغۂ غائب کہتے تھے جیسا کہ صحیح سند سے مروی ہے : «أن الصحابة كانوا يقولون والنبي صلی اللہ علیہ وسلم حي: ’’السلام عليك أيها النبي‘‘ فلما مات قالوا: ’’السلام على النبي‘‘» ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب باحیات تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ’’السلام علیک ایہا النبی‘‘ کہتے تھے اورجب آپ کی وفات ہو گئی تو «السلام علی النبی» کہنے لگے، اسی معنی کی ایک اور حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے نیز ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں کو «السلام علی النبی» کہنے کی تعلیم دیتی تھیں (مسندالسراج: ۹/۱-۲، والفوائد: ۱۱/۵۴ بسندین صحیحین عنہا)، (ملاحظہ ہو: صفۃ صلاۃ النبی للألبانی ۱۶۱-۱۶۲)
حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ،عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ إِذَا جَلَسْنَا فِي الصَّلَاةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عُلِّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ شَرِيكٌ: وَحَدَّثَنَا جَامِعٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي شَدَّادٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، بِمِثْلِهِ، قَالَ: "وَكَانَ يُعَلِّمُنَا كَلِمَاتٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُعَلِّمُنَاهُنَّ كَمَا يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ: اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ مُثْنِينَ بِهَا قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ جب ہم نماز میں بیٹھیں تو کیا کہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا، پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ شریک کہتے ہیں: ہم سے جامع یعنی ابن شداد نے بیان کیا کہ انہوں نے ابووائل سے اور ابووائل نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل روایت کی ہے اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چند کلمات سکھاتے تھے اور انہیں اس طرح نہیں سکھاتے تھے جیسے تشہد سکھاتے تھے اور وہ یہ ہیں: «اللهم ألف بين قلوبنا وأصلح ذات بيننا واهدنا سبل السلام ونجنا من الظلمات إلى النور وجنبنا الفواحش ما ظهر منها وما بطن وبارك لنا في أسماعنا وأبصارنا وقلوبنا وأزواجنا وذرياتنا وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم واجعلنا شاكرين لنعمتك مثنين بها قابليها وأتمها علينا» "اے اللہ! تو ہمارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دے، اور ہماری حالتوں کو درست فرما دے، اور راہ سلامتی کی جانب ہماری رہنمائی کر دے اور ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنی عطا کر دے، آنکھوں، دلوں اور ہماری بیوی بچوں میں برکت عطا کر دے، اور ہماری توبہ قبول فرما لے تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے، اور ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار و ثنا خواں اور اسے قبول کرنے والا بنا دے، اور اے اللہ! ان نعمتوں کو ہمارے اوپر کامل کر دے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (ضعیف) (شریک کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَةُبِيَدِي فَحَدَّثَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ"فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ، فَذَكَرَ مِثْلَ دُعَاءِ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، إِذَا قُلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ".
قاسم بن مخیمرہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا (اور انہیں نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ان کو نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے، پھر راوی نے اعمش کی حدیث کی دعا کے مثل ذکر کیا، اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ جب تم نے یہ دعا پڑھ لی یا پوری کر لی تو تمہاری نماز پوری ہو گئی، اگر کھڑے ہونا چاہو تو کھڑے ہو جاؤ اور اگر بیٹھے رہنا چاہو تو بیٹھے رہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۴۷۴)، وانظر رقم (۹۶۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲۲) (شاذ) («إذا قلت...الخ» کا اضافہ شاذ ہے صحیح بات یہ ہے کہ یہ ٹکڑا ابن مسعود کا اپنا قول ہے)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّشَهُّدِ: "التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ". قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: زِدْتَ فِيهَا"وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ". قَالَ ابْنُ عُمَرَ: زِدْتُ فِيهَا"وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تشہد یہ ہے: «التحيات لله الصلوات الطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته» "آداب بندگیاں، اور پاکیزہ صلاتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں" ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس تشہد میں «وبركاته» اور «وحده لا شريك له» کا اضافہ میں نے کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وراجع : موطا امام مالک/الصلاة ۱۳(۵۳)، (تحفة الأشراف: ۷۳۹۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : تشہد میں یہ دونوں اضافے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی طرف سے ان کا اضافہ خود کر دیا ہو بلکہ آپ نے اپنے اس تشہد میں ان کا اضافہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر کیا ہے جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَاهِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، فَلَمَّا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أُقِرَّتِ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ أَبُو مُوسَى أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، قَالَ: فَلَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ أَنْتَ قُلْتَهَا، قَالَ: مَا قُلْتُهَا، وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا قُلْتُهَا، وَمَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَمَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْ ؟ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَعَلَّمَنَا، وَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا، وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا، فَقَالَ: "إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُحِبُّكُمُ اللَّهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ. فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، لَمْ يَقُلْ أَحْمَدُ: وَبَرَكَاتُهُ، وَلَا قَالَ: وَأَشْهَدُ، قَالَ: وَأَنَّ مُحَمَّدًا.
حطان بن عبداللہ رقاشی کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ اخیر نماز میں بیٹھنے لگے تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: نماز نیکی اور پاکی کے ساتھ مقرر کی گئی ہے تو جب ابوموسیٰ اشعری نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا (ابھی) تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: تو لوگ خاموش رہے، پھر انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: لوگ پھر خاموش رہے تو ابوموسیٰ اشعری نے کہا: حطان! شاید تم نے یہ بات کہی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نہیں کہی ہے اور میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ مجھے ہی سزا نہ دے ڈالیں۔ راوی کہتے ہیں: پھر ایک دوسرے شخص نے کہا: میں نے کہی ہے اور میری نیت خیر ہی کی تھی، اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ تم اپنی نماز میں کیا کہو؟ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ہم کو سکھایا اور ہمیں ہمارا طریقہ بتایا اور ہمیں ہماری نماز سکھائی اور فرمایا: "جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو، تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری امامت کرے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم آمین کہو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا ۱؎ اور جب وہ «الله أكبر» کہے اور رکوع کرے تو تم بھی «الله أكبر» کہو اور رکوع کرو کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یہ اس کے برابر ہو گیا ۲؎ اور جب وہ «سمع الله لمن حمده»کہے تو تم «اللهم ربنا لك الحمد» کہو، اللہ تمہاری سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی ارشاد فرمایا ہے «سمع الله لمن حمده»یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اور جب تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یہ اس کے برابر ہو جائے گا، پھر جب تم میں سے کوئی قعدہ میں بیٹھے تو اس کی سب سے پہلی بات یہ کہے: «التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» "آداب، بندگیاں، پاکیزہ خیرات، اور صلاۃ و دعائیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں"۔ احمد نے اپنی روایت میں: «وبركاته» کا لفظ نہیں کہا ہے اور نہ ہی «أشهد» کہا بلکہ «وأن محمدا» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۶ (۴۰۴)، سنن النسائی/الإمامة ۳۸ (۸۳۱)، والتطبیق ۲۳ (۱۰۶۵)، ۱۰۱ (۱۱۷۳)، والسھو ۴۴ (۱۲۸۱)، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة ۲۴ (۹۰۱)، (تحفة الأشراف: ۸۹۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۱، ۴۰۵، ۴۰۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۱ (۱۳۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ :مسلم کی روایت میں «يجبكم» ہے یعنی :اللہ تمہاری دعا قبول کر لے گا۔ ۲؎ : یعنی امام تم سے جتنا پہلے رکوع میں گیا اتنا ہی پہلے وہ رکوع سے اٹھ گیا اس طرح تمہاری اور امام کی نماز برابر ہو گئی۔
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ،حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي غَلَّابٍ يُحَدِّثُهُ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، زَادَ"فَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَقَالَ فِي التَّشَهُّدِ بَعْدَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ زَادَ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَوْلُهُ فَأَنْصِتُوا لَيْسَ بِمَحْفُوظٍ لَمْ يَجِئْ بِهِ إِلَّا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں (سلیمان تیمی) نے یہ اضافہ کیا ہے کہ جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو، اور انہوں نے تشہد میں «أشهد أن لا إله إلا الله» کے بعد «وحده لا شريك له» کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: آپ کا قول: «فأنصتوا» محفوظ نہیں ہے، اس حدیث کے اندر یہ لفظ صرف سلیمان تیمی نے نقل کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۸۹۸۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَطَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ، وَكَانَ يَقُولُ: "التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن سکھاتے تھے، آپ کہا کرتے تھے: «التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله» "آداب، بندگیاں، پاکیزہ صلاۃ و دعائیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۶ (۴۰۳)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۰۴ (۲۹۰)، سنن النسائی/التطبیق ۱۰۳ (۱۱۷۵)، والسھو ۴۲ (۱۲۷۹)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۲۴ (۹۰۰)، (تحفة الأشراف: ۵۷۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ،حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَمَّا بَعْدُ"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ أَوْ حِينَ انْقِضَائِهَا فَابْدَءُوا قَبْلَ التَّسْلِيمِ، فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ وَالْمُلْكُ لِلَّهِ، ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى الْيَمِينِ، ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى قَارِئِكُمْ، وَعَلَى أَنْفُسِكُمْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى كُوفِيُّ الْأَصْلِ كَانَ بِدِمَشْقَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: دَلَّتْ هَذِهِ الصَّحِيفَةُ عَلَى أَنَّ الْحَسَنَ سَمِعَ مِنْ سَمُرَةَ.
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے «اما بعد» کے بعد کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم نماز کے بیچ میں یا اخیر میں بیٹھو تو سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھو: «التحيات الطيبات والصلوات والملك لله» پھر دائیں جانب سلام پھیرو، پھر اپنے قاری پر اور خود اپنے اوپر سلام کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ صحیفہ (جسے سمرہ نے اپنے بیٹے کے پاس لکھ کر بھیجا تھا) یہ بتا رہا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے سنا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۴۶۱۷) (ضعیف) (اس کے راوی سلیمان بن موسی ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : اس جملے کا باب سے تعلق یہ ہے کہ یہ الفاظ جنہیں سلیمان بن سمرہ نے اپنے والد سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس صحیفہ کے الفاظ ہیں جنہیں سمرہ نے املا کرایا تھا اور جنہیں ان سے ان کے بیٹے سلیمان نے روایت کیا ہے، ابوداود کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح سلیمان بن سمرہ کا سماع اپنے والد سمرہ سے ثابت ہے اسی طرح حسن بصری کا سماع بھی ثابت ہے کیونکہ یہ دونوں طبقہ ثالثہ کے راوی ہیں تو جب سلیمان اپنے والد سمرہ سے سن سکتے ہیں تو حسن بصری کے سماع کے لئے بھی کوئی چیز مانع نہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے صرف عقیقہ والی حدیث سنی ہے اور باقی حدیثیں جو سمرہ سے وہ روایت کرتے ہیں وہ اسی صحیفہ میں لکھی ہوئی حدیثیں ہیں سمرہ سے ان کی سنی ہوئی نہیں ہیں ابو داود نے اسی خیال کی تردید کی ہے۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: قُلْنَا: أَوْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَرْتَنَا أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ، وَأَنْ نُسَلِّمَ عَلَيْكَ، فَأَمَّا السَّلَامُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ: "قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یا لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ پر درود و سلام بھیجا کریں، آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے لیکن ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو: «اللهم صل على محمد وآل محمد كما صليت على إبراهيم وبارك على محمد وآل محمد كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد» یعنی "اے اللہ! محمد اور آل محمد پر درود بھیج ۱؎ جس طرح تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے اور محمد اور آل محمد پر اپنی برکت ۲؎ نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہے، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۷۰)، وتفسیر الأحزاب ۱۰ (۴۷۹۷)، والدعوات ۳۲ (۶۳۵۷)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۷ (۴۰۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۴ (۴۸۳)، سنن النسائی/السھو ۵۱ (۱۲۸۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۵ (۹۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۴۱، ۲۴۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۸۵ (۱۳۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کی وضاحت ابوالعالیہ نے اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کا مطلب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ستائش اور تعظیم کرنا اور فرشتوں وغیرہ کے درود بھیجنے کا مطلب اللہ تعالیٰ سے اس مدح و ستائش اور تعظیم میں طلب زیادتی ہے، ابوالعالیہ کے اس قول کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کرنے کے بعد اس مشہور قول کی تردید کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے درود کا معنیٰ رحمت بتایا گیا ہے۔ ۲؎ : برکت کے معنیٰ بالیدگی و بڑھوتری کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ جو بھلائیاں تو نے آل ابراہیم کو عطا کی ہیں وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما اور انہیں قائم و دائم رکھ اور انہیں بڑھا کر کئی گنا کر دے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: "صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ".
اس سند سے بھی شعبہ نے یہی حدیث روایت کی ہے اس میں یوں ہے: «صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم»"اے اللہ! محمد اور آل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۱۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ بِشْرٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ الْحَكَمِ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، كَمَا رَوَاهُ مِسْعَرٌ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: "كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَسَاقَ مِثْلَهُ".
اس طریق سے بھی حکم سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یوں ہے: «اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم إنك حميد مجيد اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد» "اے اللہ! محمد اور آل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائی، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے، اے اللہ! محمد اور آل محمد پر اپنی برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام پر اپنی برکت نازل فرمائی، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے زبیر بن عدی نے ابن ابی لیلیٰ سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مسعر نے کیا ہے، مگر اس میں یہ ہے: «كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد وبارك على محمد» اور آگے انہوں نے اسی کے مثل بیان کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۹۷۶، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۱۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ: "قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
عمرو بن سلیم زرقی انصاری کہتے ہیں کہ مجھے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ کہو: «اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته كما صليت على آل إبراهيم وبارك على محمد وأزواجه وذريته كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد» "اے اللہ! محمد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے اپنی رحمت آل ابراہیم پر نازل فرمائی، اور محمد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر اپنی برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۶۹)، والدعوات ۳۳ (۶۳۶۰)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۷ (۴۰۷)، سنن النسائی/السھو ۵۵ (۱۲۹۵)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۵ (۹۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة ۲۲ (۶۶)، مسند احمد (۵/۴۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ هُوَ الَّذِي أُرِيَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ، أَخْبَرَهُ،عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ: أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قُولُوا"، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ زَادَ فِي آخِرِهِ"فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تشریف لائے تو بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے آرزو کی کہ کاش انہوں نے نہ پوچھا ہوتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ کہو"۔ پھر راوی نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی اور اس کے اخیر میں «في العالمين إنك حميد مجيد» کا اضافہ کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۷ (۴۰۵)، سنن الترمذی/تفسیر الأحزاب (۳۲۲۰)، سنن النسائی/السہو ۴۹ (۱۲۸۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۰۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة ۲۲ (۶۷)، مسند احمد (۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۵/ ۲۷۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۸۵ (۱۳۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: "قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ".
اس سند سے بھی عقبہ بن عمرو (ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہو «اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آل محمد» "اے اللہ! نبی امی محمد اور آپ کی آل پر اپنی رحمت نازل فرما"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۰۷) (حسن)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ يَسَارٍ الْكِلَابِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو مُطَرِّفٍ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَرِيزٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيُّ، عَنْ الْمُجْمِرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكْتَالَ بِالْمِكْيَالِ الْأَوْفَى، إِذَا صَلَّى عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَذُرِّيَّتِهِ، وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے یہ بات خوش کرتی ہو کہ اسے پورا پیمانہ بھر کر دیا جائے تو وہ ہم اہل بیت پر جب درود بھیجے تو کہے: «اللهم صل على محمد النبي وأزواجه أمهات المؤمنين وذريته وأهل بيته كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد» "۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۴۵) (ضعیف) (اس کے راوی حبان الکلابی میں کلام ہے )
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهُّدِ الْآخِرِ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے شر سے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۲۵ (۵۸۸)، سنن النسائی/السھو ۶۴ (۱۳۱۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۶(۹۰۹)، (تحفة الأشراف: ۱۴۵۸۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز ۸۷ (۱۳۷۷)، مسند احمد (۲/۲۳۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۸۶ (۱۳۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے بعد یہ کہتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم وأعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» یعنی "اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے، تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے، تیری پناہ چاہتا ہوں دجال کے فتنہ سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۲۵ (۵۸۸)، سنن الترمذی/الدعوات ۷۷ (۳۴۹۴)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۵ (۲۰۶۵)، سنن ابن ماجہ/الدعاء ۳ (۳۸۴۰)، (تحفة الأشراف: ۵۷۲۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن ۸(۳۳)، مسند احمد (۱/۲۴۲، ۲۵۸، ۲۹۸، ۳۱۱)، ویأتي برقم (۱۵۴۲) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْحَنْظَلَةَ بْنِ عَلِيٍّ، أَنَّ مِحْجَنَ بْنَ الْأَدْرَعِ حَدَّثَهُ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدْ قَضَى صَلَاتَهُ وَهُوَ يَتَشَهَّدُ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ، قَالَ: فَقَالَ: "قَدْ غُفِرَ لَهُ، قَدْ غُفِرَ لَهُ"ثَلَاثًا.
محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص نے اپنی نماز پوری کر لی، اور تشہد میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے: «اللهم إني أسألك يا الله الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد أن تغفر لي ذنوبي إنك أنت الغفور الرحيم» "اے تنہا و اکیلا، باپ بیٹا سے بے نیاز، بے مقابل ولا مثیل اللہ! میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو میری گناہوں کو بخش دے، بیشک تو بہت بخشش کرنے والا مہربان ہے" یہ سن کر آپ نے تین مرتبہ یہ فرمایا: "اسے بخش دیا گیا، اسے بخش دیا گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السھو ۵۸ (۱۳۰۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۱۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "مِنَ السُّنَّةِ أَنْ يُخْفَى التَّشَهُّدُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ تشہد آہستہ پڑھی جائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۰۴ (۲۹۱)، (تحفة الأشراف: ۹۱۷۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُعَاوِيِّ، قَالَ: رَآنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَعْبَثُ بِالْحَصَى فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ نَهَانِي، وَقَالَ: اصْنَعْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ، فَقُلْتُ: وَكَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ؟ قَالَ: "كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَ".
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے اس سے منع کیا اور کہا: تم نماز میں اسی طرح کرو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی تمام انگلیاں سمیٹ لیتے اور شہادت کی انگلی جو انگوٹھے سے متصل ہوتی ہے، اشارہ کرتے ۱؎ اور اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۲۱ (۵۸۰)، سنن النسائی/التطبیق ۹۸ (۱۱۶۱)، والسھو ۳۲ (۱۲۶۷) ۳۳ (۱۲۶۸)، (تحفة الأشراف: ۷۳۵۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۱(۴۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۸۳ (۱۳۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے سلام پھیرنے تک برابر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے، اشارہ کرنے کے بعد انگلی کے گرا لینے یا «لا إله» پر اٹھانے اور «إلا الله» پر گرا لینے کی کوئی دلیل حدیث میں نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَاعَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي الصَّلَاةِ جَعَلَ قَدَمَهُ الْيُسْرَى تَحْتَ فَخْذِهِ الْيُمْنَى وَسَاقِهِ، وَفَرَشَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُمْنَى وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ". وَأَرَانَا عَبْدُ الْوَاحِدِ وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں داہنی ران اور پنڈلی کے نیچے کرتے اور داہنا پاؤں بچھا دیتے اور بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی انگلی سے اشارہ کرتے، عبدالواحد نے ہمیں شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے دکھایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۲۱ (۵۷۹)، سنن النسائی/التطبیق ۹۹ (۱۱۶۲)، والسھو ۳۵ (۱۲۷۱)، ۳۹ (۱۲۷۶)، (تحفة الأشراف: ۵۲۶۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا وَلَا يُحَرِّكُهَا". قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَزَادَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَدْعُو كَذَلِكَ، وَيَتَحَامَلُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَى".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشارے کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے ۱؎۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے یہ اضافہ کیا ہے کہ مجھے عامر نے اپنے والد کے واسطہ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح تشہد پڑھتے دیکھا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السہو ۳۵ (۱۲۷۱)، (تحفة الأشراف: ۵۲۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳) (شاذ) ( «ولا يحركها» کے جملہ کے ساتھ شاذ ہے) قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَزَادَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرٌ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَدْعُو كَذَلِكَ، وَيَتَحَامَلُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَى (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے کا جملہ شاذ ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی کو اٹھانے کے بعد اسے حرکت دے دے کر دعا کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: "لَا يُجَاوِزُ بَصَرُهُ إِشَارَتَهُ". وَحَدِيثُ حَجَّاجٍ أَتَمُّ.
اس طریق سے بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ کی نظر اشارہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی اور حجاج کی حدیث (یعنی پچھلی حدیث) زیادہ مکمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۵۲۶۴) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ نُمَيْرٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"وَاضِعًا ذِرَاعَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، رَافِعًا إِصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ قَدْ حَنَاهَا شَيْئًا".
نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھے ہوئے اور شہادت کی انگلی کو اٹھائے ہوئے دیکھا، آپ نے اسے تھوڑا سا جھکا رکھا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السھو ۳۶ (۱۲۷۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۷ (۹۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۷۱) (ضعیف) (اس کے راوی مالک لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَبُّوَيْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْغَزَّالُ، قَالُوا: حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ". وَقَالَ ابْنُ شَبُّوَيْهِ: "نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدِهِ فِي الصَّلَاةِ". وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: "نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ". وَذَكَرَهُ فِي بَابِ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُودِ، وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ: "نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدَيْهِ إِذَا نَهَضَ فِي الصَّلَاةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے: "آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے"، اور ابن شبویہ کی روایت میں ہے: "آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے"، اور ابن رافع کی روایت میں ہے:"آدمی کو اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے"، اور انہوں نے اسے «باب الرفع من السجود» میں ذکر کیا ہے، اور ابن عبدالملک کی روایت میں ہے کہ آدمی کو نماز میں اٹھتے وقت اپنے دونوں ہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۵۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عبدالرزاق کے تلامذہ نے اسے چار وجوہ پر روایت کیا ہے جس میں دوسری اور تیسری وجہ پہلی وجہ کے مخالف نہیں البتہ چوتھی پہلی کے صریح مخالف ہے اور ترجیح پہلی وجہ کو حاصل ہے کیونکہ اس کے روایت کرنے والے احمد بن حنبل ہیں جو حفظ وضبط اور اتقان میں مشہور ائمہ میں سے ہیں اس کے برخلاف ابن عبدالملک کو اگرچہ نسائی وغیرہ نے ثقہ کہا ہے لیکن مسلم نے انہیں ثقہ کثیر الخطا کہا ہے ایسی صورت میں ثقہ کی مخالفت سے ان کی روایت منکر ہو گی اسی وجہ سے تخریج میں ابن عبدالملک کی روایت کو منکر کہا گیا ہے، رہی وہ حدیث جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیر کی مانند اٹھتے تھے تو وہ من گھڑت اور موضوع ہے، سجدے سے دونوں ہاتھ ٹیک کر اٹھنے کے مسنون ہونے کی دلیل صحیح بخاری میں مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں ہے : «وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية واعتمد على الأرض ثم قام» یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسرے سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، سَأَلْتُ نَافِعًا عَنِ الرَّجُلِ يُصَلِّي وَهُوَ مُشَبِّكٌ يَدَيْهِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: تِلْكَ صَلَاةُ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ.
اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں میں نے نافع سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز پڑھ رہا ہو اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کئے ہوئے ہو، تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ یہ غضب کی شکار «مغضوب عليهم» قوم یہود کی نماز ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۵۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ وَهَذَا لَفْظُهُ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَتَّكِئُ عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى وَهُوَ قَاعِدٌ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ هَارُونُ بْنُ زَيْدٍ: سَاقِطًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ اتَّفَقَا، فَقَالَ لَهُ: "لَا تَجْلِسْ هَكَذَا، فَإِنَّ هَكَذَا يَجْلِسُ الَّذِينَ يُعَذَّبُونَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے نماز میں بیٹھے ہوئے دیکھا (ہارون بن زید نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ بائیں پہلو پر پڑا ہوا دیکھا پھر (آگے) دونوں (الفاظ میں) متفق ہیں تو انہوں نے اس سے کہا: اس طرح نہ بیٹھو کیونکہ اس طرح وہ لوگ بیٹھتے ہیں جو عذاب دیئے جائیں گے۔
تخریج دارالدعوہ: تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۵۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۱۶) (حسن)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ، قَالَ: قُلْتُ: حَتَّى يَقُومَ ؟ قَالَ: حَتَّى يَقُومَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دو رکعتوں میں یعنی پہلے تشہد میں اس طرح ہوتے تھے گویا کہ گرم پتھر پر (بیٹھے) ہیں۔ شعبہ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کھڑے ہونے تک؟ تو سعد بن ابراہیم نے کہا: کھڑے ہونے تک ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۸ (۳۶۶)، سنن النسائی/التطبیق ۱۰۵ (۱۱۷۷)، (تحفة الأشراف: ۹۶۰۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۶، ۴۱۰، ۴۲۸، ۴۳۶، ۴۶۰) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے )
وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ آخری قعدہ کی بہ نسبت پہلے قعدہ میں آپ جلدی کھڑے ہو جاتے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ. ح وحَدَّثَنَاتَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ، عَنْ شَرِيكٍ. ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ إِسْرَائِيلُ: عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ سُفْيَانَ، وَحَدِيثُ إِسْرَائِيلَ لَمْ يُفَسِّرْهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،وَيَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: شُعْبَةُ كَانَ يُنْكِرُ هَذَا الْحَدِيثَ، حَدِيثَ أَبِي إِسْحَاقَ أَنْ يَكُونَ مَرْفُوعًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں "السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله" کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کی گال کی سفیدی دکھائی دیتی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ سفیان کی روایت کے الفاظ ہیں اور اسرائیل کی حدیث سفیان کی حدیث کی مفسر نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے زہیر نے ابواسحاق سے اور یحییٰ بن آدم نے اسرائیل سے، اسرائیل نے ابواسحاق سے، ابواسحاق نے عبدالرحمٰن بن اسود سے، انہوں نے اپنے والد اسود اور علقمہ سے روایت کیا ہے، اور ان دونوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعبہ ابواسحاق کی اس حدیث کے مرفوع ہونے کے منکر تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۰۹ (۲۹۵)، سنن النسائی/السھو ۷۱ (۱۳۲۳، ۱۳۲۴، ۱۳۲۵، ۱۳۲۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۸ (۹۱۴)، (تحفة الأشراف: ۹۱۸۲، ۹۵۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۹۰، ۴۰۶، ۴۰۹، ۴۱۴، ۴۴۴، ۴۴۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۸۷ (۱۳۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ ترجمہ اس صورت میں ہو گا جب علقمہ کا عطف «عن أبيه» پر ہو اور اگر علقمہ کا عطف «عن عبدالرحمن» پر ہو تو ترجمہ یہ ہو گا کہ ابواسحاق نے اسے عبدالرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور اسی طرح ابواسحاق نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ قَيْسٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْعَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَكَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، وَعَنْ شِمَالِهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ اپنے دائیں جانب «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته» اور اپنے بائیں جانب «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته» کہتے ہوئے سلام پھیر رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، وَوَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ أَحَدُنَا أَشَارَ بِيَدِهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِنْ عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ: "مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُرْمِي بِيَدِهِ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ، إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَوْ أَلَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا"، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَمِنْ عَنْ شِمَالِهِ.
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کوئی سلام پھیرتا تو اپنے ہاتھ سے اپنے دائیں اور بائیں اشارے کرتا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "تم لوگوں کا کیا حال ہے کہ تم میں سے کوئی (نماز میں) اپنے ہاتھ سے اشارے کرتا ہے، گویا اس کا ہاتھ شریر گھوڑے کی دم ہے، تم میں سے ہر ایک کو بس اتنا کافی ہے" (یا یہ کہا: کیا تم میں سے ہر ایک کو اس طرح کرنا کافی نہیں؟)، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ دائیں اور بائیں طرف کے اپنے بھائی کو سلام کرے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۲۷ (۴۳۱)، سنن النسائی/السھو ۵ (۱۱۸۶)، ۶۹ (۱۳۱۹)، ۷۲ (۱۳۲۷)، (تحفة الأشراف: ۲۲۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۸۶، ۸۸، ۹۳، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ مِسْعَرٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: "أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَوْ أَحَدَهُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخْذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمَ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِنْ عَنْ شِمَالِهِ".
اس طریق سے بھی مسعر سے اس مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے کسی کو یا ان میں سے کسی کو کافی نہیں ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر اپنے دائیں اور بائیں اپنے بھائی کو سلام کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۲۲۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمٍ الطَّائِيِّ، عَنْجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ رَافِعُوا أَيْدِيهِمْ، قَالَ زُهَيْرٌ: أُرَاهُ قَالَ: فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: "مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ، أُسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ لوگ نماز میں اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: "مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھ رہا ہوں، گویا کہ وہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں؟ نماز میں سکون سے رہا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الصلاة ۲۷ (۴۳۰)، سنن النسائی/السہو ۵ (۱۱۸۵)، (تحفة الأشراف: ۲۱۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۸۶، ۸۸، ۹۳، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ أَبُو الْجَمَاهِرِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: "أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَرُدَّ عَلَى الْإِمَامِ، وَأَنْ نَتَحَابَّ، وَأَنْ يُسَلِّمَ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امام کے سلام کا جواب دینے اور آپس میں دوستی رکھنے اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۳۰ (۹۲۲)، (تحفة الأشراف: ۴۵۹۷) (ضعیف) (اس کے روای سعید شامی ضعیف ہیں اور قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں نیز: حسن بصری کا سمرة سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع ثابت نہیں )
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ يُعْلَمُ انْقِضَاءُ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ختم ہونے کو تکبیر سے جانا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۵۵ (۸۴۲)، صحیح مسلم/المساجد ۲۳ (۵۸۳)، سنن النسائی/السھو ۷۹ (۱۳۳۶)، (تحفة الأشراف: ۶۵۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ أَبَا مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ،أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنّ"رَفْعَ الصَّوْتِ لِلذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ، كَانَ ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَأَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِكَ وَأَسْمَعُهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ذکر کے لیے آواز اس وقت بلند کی جاتی تھی جب لوگ فرض نماز سے سلام پھیر کر پلٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہی دستور تھا، ابن عباس کہتے ہیں: جب لوگ نماز سے پلٹتے تو مجھے اسی سے اس کا علم ہوتا اور میں اسے سنتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۵۵ (۸۴۱)، صحیح مسلم/المساجد ۲۳ (۵۸۳)، (تحفة الأشراف: ۶۵۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۶۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "حَذْفُ السَّلَامِ سُنَّةٌ". قَالَ عِيسَى: نَهَانِي ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ رَفْعِ هَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَبَا عُمَيْرٍ عِيسَى بْنَ يُونُسَ الْفَاخُورِيَّ الرَّمْلِيَّ، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ الْفِرْيَابِيُّ مِنْ مَكَّةَ تَرَكَ رَفْعَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ: نَهَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ رَفْعِهِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سلام کو کھینچ کر لمبا نہ کرنا سنت ہے"۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے مجھے اس حدیث کو مرفوع کرنے سے منع کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے ابوعمیر عیسیٰ بن یونس فاخری رملی سے سنا ہے انہوں نے کہا ہے کہ جب فریابی مکہ مکرمہ سے واپس آئے تو انہوں نے اس حدیث کو مرفوع کہنا ترک کر دیا اور کہا: احمد بن حنبل نے انہیں اس حدیث کو مرفوع روایت کرنے سے منع کر دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۱ (۲۹۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۳۲) (ضعیف) (اس کے راوی ’’قرة‘‘ کی ثقاہت میں کلام ہے )
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِيسَى بْنِ حِطَّانَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَلَّامٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا فَسَا أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَنْصَرِفْ، فَلْيَتَوَضَّأْ وَلْيُعِدْ صَلَاتَهُ".
علی بن طلق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو دوران نماز بغیر آواز کے ہوا خارج ہو تو وہ (نماز) چھوڑ کر چلا جائے اور وضو کرے اور نماز دہرائے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم :۲۰۵، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۴۴) (ضعیف) (اس کے راوی عیسیٰ اور مسلم دونوں لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : علی بن طلق رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحت کے اعتبار سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے زیادہ راجح ہے جو کتاب الطہارۃ میں آئی ہے اور جس میں ہے: «من أصابه قيء في صلواته أو رعاف فإنه ينصرف ويبني على صلاته» کیونکہ اگرچہ علی بن طلق اور عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں کی روایتوں میں کلام ہے لیکن علی بن طلق رضی اللہ عنہ کی روایت کو ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو کسی نے صحیح نہیں کہا ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ ؟"قَالَ: عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ، أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ أَوْ عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، زَادَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ فِي الصَّلَاةِ: يَعْنِي فِي السُّبْحَةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی شخص عاجز ہے"۔ عبدالوارث کی روایت میں ہے: آگے بڑھ جانے سے یا پیچھے ہٹ جانے سے یا دائیں یا بائیں چلے جانے سے۔ حماد کی روایت میں «في الصلاة» کا اضافہ ہے یعنی نفل نماز پڑھنے کے لیے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۵۷ (۸۴۸ تعلیقاً)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۲۰۳ (۱۴۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۷۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۲۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَةَ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا إِمَامٌ لَنَا يُكْنَى أَبَا رِمْثَةَ، فَقَالَ: صَلَّيْتُ هَذِهِ الصَّلَاةَ أَوْ مِثْلَ هَذِهِ الصَّلَاةِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ يَقُومَانِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ عَنْ يَمِينِهِ، وَكَانَ رَجُلٌ قَدْ شَهِدَ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ، فَصَلَّى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى رَأَيْنَا بَيَاضَ خَدَّيْهِ، ثُمَّ انْفَتَلَ كَانْفِتَالِ أَبِي رِمْثَةَ يَعْنِي نَفْسَهُ، فَقَامَ الرَّجُلُ الَّذِي أَدْرَكَ مَعَهُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ يَشْفَعُ، فَوَثَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ فَهَزَّهُ، ثُمَّ قَالَ: اجْلِسْ، فَإِنَّهُ لَمْ يَهْلِكْ أَهْلُ الْكِتَابِ، إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ صَلَوَاتِهِمْ فَصْلٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ، فَقَالَ: "أَصَابَ اللَّهُ بِكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ قِيلَ: أَبُو أُمَيَّةَ مَكَانَ أَبِي رِمْثَةَ.
ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ایک امام نے جن کی کنیت ابورمثہ ہے نماز پڑھائی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے کہا: یہی نماز یا ایسی ہی نماز میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی ہے، وہ کہتے ہیں: اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اگلی صف میں آپ کے دائیں طرف کھڑے ہوتے تھے، اور ایک اور شخص بھی تھا جو تکبیر اولیٰ میں موجود تھا، اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے تو آپ نے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرا، یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گالوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ پلٹے ایسے ہی جیسے ابورمثہ یعنی وہ خود پلٹے، پھر وہ شخص جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکبیر اولیٰ پائی تھی اٹھ کر دو رکعت پڑھنے لگا تو اٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھے اور اس کا کندھا پکڑ کر زور سے جھنجوڑ کر کہا بیٹھ جاؤ، کیونکہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کو صرف اسی چیز نے ہلاک کیا ہے کہ ان کی نمازوں میں فصل نہیں ہوتا تھا، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھائی (اور یہ صورت حال دیکھی) تو فرمایا: "خطاب کے بیٹے! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ٹھیک اور درست بات کہنے کی توفیق دی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۴۱، ۱۲۰۳۷) (حسن لغیرہ) (اس کے راوی اشعث اور منہال دونوں ضعیف ہیں’ لیکن دونوں کی متابعت کے ملنے سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحيحة: 3173، وتراجع الألباني: 9)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعَشِيِّ الظُّهْرَ أَوِ الْعَصْرَ، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى خَشَبَةٍ فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ، فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَيْهِمَا إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْغَضَبُ، ثُمَّ خَرَجَ سَرْعَانُ النَّاسِ وَهُمْ يَقُولُونَ قُصِرَتِ الصَّلَاةُ قُصِرَتِ الصَّلَاةُ وَفِي النَّاسِ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فَهَابَاهُ أَنْ يُكَلِّمَاهُ، فَقَامَ رَجُلٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَمِّيهِ: ذَا الْيَدَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسِيتَ أَمْ قُصُرَتِ الصَّلَاةُ ؟ قَالَ: "لَمْ أَنْسَ، وَلَمْ تُقْصَرِ الصَّلَاةُ"قَالَ: بَلْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْقَوْمِ، فَقَالَ: "أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ ؟"فَأَوْمَئُوا، أَيْ نَعَمْ، "فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَقَامِهِ فَصَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ الْبَاقِيَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ وَكَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ وَكَبَّرَ". قَالَ: فَقِيلَ لِمُحَمَّدٍ: سَلَّمَ فِي السَّهْوِ، فَقَالَ: لَمْ أَحْفَظْهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَكِنْ نُبِّئْتُ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شام کی دونوں یعنی ظہر اور عصر میں سے کوئی نماز پڑھائی مگر صرف دو رکعتیں پڑھا کر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر مسجد کے اگلے حصہ میں لگی ہوئی ایک لکڑی کے پاس اٹھ کر گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر لکڑی پر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ کا اثر ظاہر ہو رہا تھا، پھر جلد باز لوگ یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم کر دی گئی ہے، نماز کم کر دی گئی ہے، لوگوں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے لیکن وہ دونوں آپ سے (اس سلسلہ میں) بات کرنے سے ڈرے، پھر ایک شخص کھڑا ہوا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہا کرتے تھے، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ میں بھولا ہوں، نہ ہی نماز کم کی گئی ہے"، اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں، پھر آپ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا: "کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟"، لوگوں نے اشارہ سے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر واپس آئے اور باقی دونوں رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد «الله أكبر» کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر«الله أكبر» کہہ کر سجدے سے سر اٹھایا پھر «الله أكبر» کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا دوسرا سجدہ کیا پھر «الله أكبر» کہہ کر اٹھے۔ راوی کہتے ہیں: تو محمد سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو کے بعد پھر سلام پھیرا؟ انہوں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مجھے یہ یاد نہیں، لیکن مجھے خبر ملی ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا ہے: آپ نے پھر سلام پھیرا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۴۴۱۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ۸۸ (۴۸۲)، والأذان ۶۹ (۷۱۴)، والسھو ۳ (۱۲۲۷)، ۴ (۱۲۲۸)، ۸۵ (۱۳۶۷)، والأدب ۴۵ (۶۰۵۱)، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۵۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۸۰ (۳۹۹)، سنن النسائی/السھو ۲۲ (۱۲۲۵)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۴ (۱۲۱۴)، مسند احمد (۲/۲۳۷، ۲۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ بِإِسْنَادِهِ، وَحَدِيثُ حَمَّادٍ أَتَمُّ، قَالَ: "صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَقُلْ: بِنَا، وَلَمْ يَقُلْ: فَأَوْمَئُوا، قَالَ: فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ وَلَمْ يَقُلْ: وَكَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ وَتَمَّ حَدِيثُهُ"، لَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فَأَوْمَئُوا إِلَّا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكُلُّ مَنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ لَمْ يَقُلْ: فَكَبَّرَ وَلَا ذَكَرَ رَجَعَ.
اس طریق سے بھی محمد بن سیرین سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اور حماد کی روایت زیادہ کامل ہے مالک نے «صلى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم» کہا ہے «صلى بنا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم» نہیں کہا ہے اور نہ ہی انہوں نے «فأومئوا» کہا ہے(جیسا کہ حماد نے کہا ہے بلکہ اس کی جگہ) انہوں نے «فقال الناس نعم» کہا ہے، اور مالک نے «ثم رفع» کہا ہے، «وكبر» نہیں کہا ہے جیسا کہ حماد نے کہا ہے، یعنی مالک نے «رفع وكبر» کہنے کے بجائے صرف «رفع» پر اکتفا کیا ہے اور مالک نے «ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول ثم رفع» کہا ہے جیسا کہ حماد نے کہا ہے اور مالک کی حدیث یہاں پوری ہو گئی ہے اس کے بعد جو کچھ ہے مالک نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی لوگوں کے اشارے کا انہوں نے ذکر کیا ہے صرف حماد بن زید نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث جتنے لوگوں نے بھی روایت کی ہے کسی نے بھی لفظ «فكبر.» نہیں کہا ہے اور نہ ہی «رجع.» کا ذکر کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۶۹ (۷۱۴)، السہو ۴(۱۲۲۸)، أخبار الآحاد ۱(۷۲۵۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۶ (۳۹۹)، سنن النسائی/السہو ۲۲ (۱۲۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۴۴۴۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۵ (۶۰)، مسند احمد (۲/۲۳۵، ۴۲۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ،حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَلْقَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَمَّادٍ كُلِّهِ إِلَى آخِرِ قَوْلِهِ: نُبِّئْتُ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: فَالتَّشَهُّدُ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ فِي التَّشَهُّدِ، وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَتَشَهَّدَ"، وَلَمْ يَذْكُرْ: كَانَ يُسَمِّيهِ ذَا الْيَدَيْنِ، وَلَا ذَكَرَ: فَأَوْمَئُوا، وَلَا ذَكَرَ: الْغَضَبَ، وَحَدِيثُ حَمَّادٍ، عَنْ أَيُّوبَ، أَتَمُّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر راوی نے پورے طور سے حماد کی روایت کے ہم معنی روایت ان کے قول: «نبئت أن عمران بن حصين قال ثم سلم» تک ذکر کی۔ سلمہ بن علقمہ کہتے ہیں: میں نے ان سے (یعنی محمد بن سیرین سے) پوچھا کہ آپ نے تشہد پڑھا یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے تشہد کے سلسلے میں کچھ نہیں سنا ہے لیکن میرے نزدیک تشہد پڑھنا بہتر ہے، لیکن اس روایت میں "آپ انہیں ذوالیدین کہتے تھے" کا ذکر نہیں ہے اور نہ لوگوں کے اشارہ کرنے کا اور نہ ہی ناراضگی کا ذکر ہے، حماد کی حدیث جو انہوں نے ایوب سے روایت کی ہے زیادہ کامل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/السہو ۴ (۱۲۲۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۴۶۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، وَهِشَامٍ، وَيَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ، وَابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ، "أَنَّهُ كَبَّرَ وَسَجَدَ، وَقَالَ هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ حَسَّانَ كَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ،وَحُمَيْدٌ، وَيُونُسُ، وَعَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، لَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمْ مَا ذَكَرَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، "أَنَّهُ كَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ". وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامٍ، لَمْ يَذْكُرَا عَنْهُ هَذَا الَّذِي ذَكَرَهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ"أَنَّهُ كَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالیدین کے قصہ میں روایت کی ہے کہ آپ نے «الله أكبر» کہا اور سجدہ کیا، ہشام بن حسان کی روایت میں ہے کہ آپ نے «الله أكبر» کہا پھر «الله أكبر» کہا اور سجدہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو حبیب بن شہید، حمید، یونس اور عاصم احول نے بھی محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی اس چیز کا ذکر نہیں کیا ہے جس کا حماد بن زید نے بواسطہ ہشام کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا، پھر«الله أكبر» کہا اور سجدہ کیا، حماد بن سلمہ اور ابوبکر بن عیاش نے بھی اس حدیث کو بواسطہ ہشام روایت کیا ہے مگر ان دونوں نے بھی ان کے واسطہ سے اس کا ذکر نہیں کیا ہے جس کا حماد بن زید نے ذکر کیا ہے کہ آپ نے «الله أكبر» کہا پھر «الله أكبر» کہا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۱۰۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۴۱۵،۱۴۴۶۹) (شاذ) (ہشام بن حسان نے متعدد لوگوں کے برخلاف روایت کی ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: "وَلَمْ يَسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ حَتَّى يَقَّنَهُ اللَّهُ ذَلِكَ".
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی واقعہ مروی ہے اس میں ہے: "اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو نہیں کیا یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اس کا کامل یقین دلا دیا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۹۲، ۱۵۲۰۵، ۱۴۱۱۵) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن کثیر مصیصی کثیر الغلط ہیں)
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: "وَلَمْ يَسْجُدِ السَّجْدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تُسْجَدَانِ إِذَا شَكَّ حَتَّى لَقَاهُ النَّاسُ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي بِهَذَا الْخَبَرِ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، وَعِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،وَالْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَن أَبِيه جَمِيعًا، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، وَلَمْ يَذْكُرْ"أَنَّهُ سَجَدَ السَّجْدَتَيْنِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِيهِ: "وَلَمْ يَسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ".
ابن شہاب سے روایت ہے کہ ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ نے انہیں خبر دی کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سجدوں کو جو شک کی وجہ سے کئے جاتے ہیں نہیں کیا یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو ان کی یاددہانی کرائی۔ ابن شہاب کہتے ہیں: اس حدیث کی خبر مجھے سعید بن مسیب نے ابوہریرہ کے واسطے سے دی ہے، نیز مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن، ابوبکر بن حارث بن ہشام اور عبیداللہ بن عبداللہ نے بھی خبر دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے یحییٰ بن ابوکثیر اور عمران بن ابوانس نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے اور علاء بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد سے روایت کیا ہے اور ان سبھوں نے اس واقعہ کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس میں انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آپ نے دو سجدے کئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے زبیدی نے زہری سے، زہری نے ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے اور ابوبکر بن سلیمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ نے سہو کے دونوں سجدے نہیں کئے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السہو ۲۲ (۱۲۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۸۰، ۱۵۱۹۲) (صحیح) (صحیح مرفوع احادیث سے تقویت پاکر یہ مرسل حدیث بھی صحیح ہے )
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى الظُّهْرَ فَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، فَقِيلَ لَهُ: نَقَصْتَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی تو دو ہی رکعت پڑھنے کے بعد سلام پھیر دیا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے نماز کم کر دی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں اور پڑھیں پھر (سہو کے) دو سجدے کئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۶۹ (۷۱۵)، السہو ۳ (۱۲۲۷)، سنن النسائی/ السہو (۲۲ (۱۲۲۸) (تحفة الأشراف: ۱۴۹۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۸۶، ۴۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَسَدٍ، أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ، فَقَالَ لَه رَجُلٌ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ نَسِيتَ ؟ قَالَ: "كُلَّ ذَلِكَ لَمْ أَفْعَلْ"، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ فَعَلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، "فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَلَمْ يَسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: "ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ التَّسْلِيمِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کی دو ہی رکعتیں پڑھ کر پلٹ گئے تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان میں سے کوئی بات میں نے نہیں کی ہے"، تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد والی دونوں رکعتیں پڑھیں، پھر پلٹے اور سہو کے دونوں سجدے نہیں کئے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے داود بن حصین نے ابوسفیان مولی بن ابی احمد سے، ابوسفیان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی قصہ کے ساتھ روایت کیا ہے، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو سجدے کئے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۱۰۰۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «ثم انصرف ولم يسجد سجدتي السهو» ( پھر آپ پلٹے اور سہو کے دونوں سجدے نہیں کئے ) کا ٹکڑا ’’شاذ‘‘ ہے۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ الْهِفَّانِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: "ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ".
ضمضم بن جوس ہفانی کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی ہے اس میں ہے: "پھر آپ نے سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کئے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السہو ۲۲ (۱۲۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۱۴)، وقد أخرجہ مسند احمد (۲/۴۲۳) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ سِيرِينَ"، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو دو ہی رکعت میں آپ نے سلام پھیر دیا، پھر انہوں نے محمد بن سیرین کی حدیث کی طرح جسے انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ذکر کیا، اس میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور سہو کے دو سجدے کئے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۴ (۱۲۱۳)، (تحفة الأشراف: ۷۸۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، حَدَّثَنَاأَبُو قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثِ رَكَعَاتٍ مِنَ الْعَصْرِ، ثُمَّ دَخَلَ، قَالَ: عَنْ مَسْلَمَةَ الْحُجَرَ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: الْخِرْبَاقُ، كَانَ طَوِيلَ الْيَدَيْنِ، فَقَالَ لَهُ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَخَرَجَ مُغْضَبًا يَجُرُّ رِدَاءَهُ، فَقَالَ: "أَصَدَقَ ؟"قَالُوا: نَعَمْ، فَصَلَّى تِلْكَ الرَّكْعَةَ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْهَا، ثُمَّ سَلَّمَ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا، پھر اندر چلے گئے۔ مسدد نے مسلمہ سے نقل کیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں چلے گئے تو ایک شخص جس کا نام خرباق تھا اور جس کے دونوں ہاتھ لمبے تھے اٹھ کر آپ کے پاس گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کھینچتے ہوئے غصے کی حالت میں باہر نکلے اور لوگوں سے پوچھا: "کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟"، لوگوں نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرا، پھر سہو کے دونوں سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۴)، سنن النسائی/السھو ۲۳ (۱۲۳۷، ۱۲۳۸)، ۷۵ (۱۳۳۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۴ (۱۲۱۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۲۷، ۴۲۹، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۴۰، ۴۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَى، قَالَ حَفْصٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: "وَمَا ذَاكَ ؟"قَالَ: صَلَّيْتَ خَمْسًا، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھیں تو آپ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز بڑھا دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟"، تو لوگوں نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، (یہ سن کر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے اس کے بعد کہ آپ سلام پھیر چکے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۳۱ (۴۰۱)، ۳۲ (۴۰۴)، والسھو ۲ (۱۲۲۶)، والأیمان ۱۵ (۶۶۷۱)، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۴۹)، صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۷ (۳۹۲)، سنن النسائی/السھو ۲۶ (۱۲۵۵، ۱۲۵۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۲۹ (۱۲۰۳)، ۱۳۰ (۱۲۰۵)، ۱۳۳ (۱۲۱۱)، (تحفة الأشراف: ۹۴۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۶، ۳۷۹، ۴۲۹، ۴۴۳، ۴۳۸، ۴۵۵، ۴۶۵) سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۵(۱۵۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: فَلَا أَدْرِي زَادَ أَمْ نَقَصَ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ ؟ قَالَ: "وَمَا ذَاكَ ؟"قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا وَكَذَا، فَثَنَى رِجْلَهُ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَسَجَدَ بِهِمْ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا انْفَتَلَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ أَنْبَأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي"وَقَالَ: "إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ لِيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ".
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (ابراہیم کی روایت میں ہے: تو میں نہیں جان سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں زیادتی کی یا کمی)، پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نئی چیز ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا؟"، لوگوں نے کہا: آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیر موڑا اور قبلہ رخ ہوئے، پھر لوگوں کے ساتھ دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: "اگر نماز میں کوئی نئی بات ہوئی ہوتی تو میں تم کو اس سے باخبر کرتا، لیکن انسان ہی تو ہوں، میں بھی بھول جاتا ہوں جیسے تم لوگ بھول جاتے ہو، لہٰذا جب میں بھول جایا کروں تو تم لوگ مجھے یاد دلا دیا کرو"، اور فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پیدا ہو جائے تو سوچے کہ ٹھیک کیا ہے، پھر اسی حساب سے نماز پوری کرے، اس کے بعد سلام پھیرے پھر (سہو کے) دو سجدے کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۳۱ (۴۰۱)، الإیمان ۱۵ (۶۶۷۱)، صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۲)، سنن النسائی/السہو ۲۵ (۱۲۴۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۳ (۱۲۱۲)، (تحفة الأشراف: ۹۴۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۹، ۴۱۹، ۴۳۸، ۴۵۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، بِهَذَا، قَالَ: "فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ"ثُمَّ تَحَوَّلَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حُصَيْنٌ نَحْوَ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص (نماز میں) بھول جائے تو دو سجدے کرے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے اور سہو کے دو سجدے کئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حصین نے اعمش کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۱۹(۵۷۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۲۹۵ (۱۲۰۳)، (تحفة الأشراف: ۹۴۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ. ح وحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَهَذَا حَدِيثُ يُوسُفَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسًا، فَلَمَّا انْفَتَلَ تَوَشْوَشَ الْقَوْمُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ: "مَا شَأْنُكُمْ ؟"قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ زِيدَ فِي الصَّلَاةِ ؟ قَالَ: "لَا"قَالُوا: فَإِنَّكَ قَدْ صَلَّيْتَ خَمْسًا، فَانْفَتَلَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ رکعتیں پڑھائیں، پھر جب آپ مڑے تو لوگوں نے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا بات ہے؟"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز زیادہ ہو گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں"، لوگوں نے کہا: آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مڑے اور سہو کے دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا اور فرمایا: "میں انسان ہی تو ہوں، جیسے تم لوگ بھولتے ہو ویسے میں بھی بھولتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ المساجد ۱۹ (۵۷۲)، سنن النسائی/السہو ۲۶ (۱۲۵۷، ۱۲۵۸)، (تحفة الأشراف: ۹۴۰۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۳۸، ۴۴۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ قَيْسٍ أَخْبَرَهُ، عَنْمُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى يَوْمًا فَسَلَّمَ، وَقَدْ بَقِيَتْ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةٌ"فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: نَسِيتَ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةً، "فَرَجَعَ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَأَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى لِلنَّاسِ رَكْعَةً"فَأَخْبَرْتُ بِذَلِكَ النَّاسَ، فَقَالُوا لِي: أَتَعْرِفُ الرَّجُلَ ؟ قُلْتُ: لَا، إِلَّا أَنْ أَرَاهُ، فَمَرَّ بِي، فَقُلْتُ: هَذَا هُوَ، فَقَالُوا: هَذَا طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ.
معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی تو سلام پھیر دیا حالانکہ ایک رکعت نماز باقی رہ گئی تھی، ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: آپ نماز میں ایک رکعت بھول گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے، مسجد کے اندر آئے اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے پوچھا: کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، البتہ اگر میں دیکھوں (تو پہچان لوں گا)، پھر وہی شخص میرے سامنے سے گزرا تو میں نے کہا: یہی وہ شخص تھا، لوگوں نے کہا: یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الأذان ۲۴ (۶۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۷۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۰۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُّ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُلْقِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى الْيَقِينِ، فَإِذَا اسْتَيْقَنَ التَّمَامَ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، فَإِنْ كَانَتْ صَلَاتُهُ تَامَّةً كَانَتِ الرَّكْعَةُ نَافِلَةً وَالسَّجْدَتَانِ، وَإِنْ كَانَتْ نَاقِصَةً كَانَتِ الرَّكْعَةُ تَمَامًا لِصَلَاتِهِ وَكَانَتِ السَّجْدَتَانِ مُرْغِمَتَيِ الشَّيْطَانِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ أَبِي خَالِدٍ أَشْبَعُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے(کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) تو شک دور کرے اور یقین کو بنیاد بنائے، پھر جب اسے نماز پوری ہو جانے کا یقین ہو جائے تو دو سجدے کرے، اگر اس کی نماز (درحقیقت) پوری ہو چکی تھی تو یہ رکعت اور دونوں سجدے نفل ہو جائیں گے، اور اگر پوری نہیں ہوئی تھی تو اس رکعت سے پوری ہو جائے گی اور یہ دونوں سجدے شیطان کو ذلیل و خوار کرنے والے ہوں گے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشام بن سعد اور محمد بن مطرف نے زید سے، زید نے عطاء بن یسار سے، عطاء نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، اور ابوسعید نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوخالد کی حدیث زیادہ مکمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۱)، سنن النسائی/السھو ۲۴ (۱۲۳۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۲ (۱۲۱۰)، (تحفة الأشراف: ۴۱۶۳، ۱۹۰۹۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۶(۶۲مرسلاً)، مسند احمد (۳/۳۷، ۵۱، ۵۳)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۴ (۱۵۳۶) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"سَمَّى سَجْدَتَيِ السَّهْوِ الْمُرْغِمَتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو کا نام «مرغمتين» (شیطان کو ذلیل و خوار کرنے والی دو چیزیں) رکھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۱۴۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَا يَدْرِي كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ، فَإِنْ كَانَتِ الرَّكْعَةُ الَّتِي صَلَّى خَامِسَةً شَفَعَهَا بِهَاتَيْنِ، وَإِنْ كَانَتْ رَابِعَةً فَالسَّجْدَتَانِ تَرْغِيمٌ لِلشَّيْطَانِ".
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے، پھر اسے یاد نہ رہے کہ میں نے تین پڑھی ہے یا چار تو ایک رکعت اور پڑھ لے اور سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے، اب اگر جو رکعت اس نے پڑھی ہے وہ پانچویں تھی تو ان دونوں (سجدوں) کے ذریعہ اسے جفت کرے گا یعنی وہ چھ رکعتیں ہو جائیں گی اور اگر چوتھی تھی تو یہ دونوں سجدے شیطان کے لیے ذلت و خواری کا ذریعہ ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۱۰۲۴)، (تحفة الأشراف: ۴۱۶۳، ۱۹۰۹۱) (صحیح) (یہ حدیث بھی حدیث نمبر: (۱۰۲۴) کی طرح مرفوع اور متصل ہے، اس میں امام مالک نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو جان بوجھ کر حذف کر دیا ہے جیسا کہ ان کا طریقہ ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ بِإِسْنَادِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَإِنِ اسْتَيْقَنَ أَنْ قَدْ صَلَّى ثَلَاثًا فَلْيَقُمْ فَلْيُتِمَّ رَكْعَةً بِسُجُودِهَا، ثُمَّ يَجْلِسْ فَيَتَشَهَّدْ، فَإِذَا فَرَغَ فَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَنْ يُسَلِّمَ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ". ثُمَّ ذَكَرَ مَعْنَى مَالِكٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكٍ، وَحَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَدَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَهِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، إِلا أَنَّ هِشَامًا بَلَغَ بِهِ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ.
اس طریق سے بھی زید بن اسلم سے مالک ہی کی سند سے مروی ہے، زید کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اگر اسے یقین ہو کہ میں نے تین ہی رکعت پڑھی ہے تو کھڑا ہو اور ایک رکعت اس کے سجدوں کے ساتھ پڑھ کر اسے پوری کرے پھر بیٹھے اور تشہد پڑھے، پھر جب ان سب کاموں سے فارغ ہو جائے اور صرف سلام پھیرنا باقی رہے تو سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے"۔ پھر راوی نے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ابن وہب نے مالک، حفص بن میسرہ، داود بن قیس اور ہشام بن سعد سے روایت کیا ہے، مگر ہشام نے اسے ابو سعید خدری تک پہنچایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۱۰۲۴، ۱۰۲۶)، (تحفة الأشراف: ۴۱۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا كُنْتَ فِي صَلَاةٍ فَشَكَكْتَ فِي ثَلَاثٍ أَوْ أَرْبَعٍ وَأَكْبَرُ ظَنِّكَ عَلَى أَرْبَعٍ تَشَهَّدْتَ، ثُمَّ سَجَدْتَ سَجْدَتَيْنِ وَأَنْتَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ تُسَلِّمَ، ثُمَّ تَشَهَّدْتَ أَيْضًا، ثُمَّ تُسَلِّمُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ خُصَيْفٍ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَوَافَقَ عَبْدَ الْوَاحِدِ أَيْضًا سُفْيَانُ، وَشَرِيكٌ، وَإِسْرَائِيلُ وَاخْتَلَفُوا فِي الْكَلَامِ فِي مَتْنِ الْحَدِيثِ وَلَمْ يُسْنِدُوهُ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب تم نماز میں رہو اور تمہیں تین یا چار میں شک ہو جائے اور تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ چار رکعت ہی پڑھی ہے تو تشہد پڑھو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرو، پھر تشہد پڑھو اور پھر سلام پھیر دو"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالواحد نے خصیف سے روایت کیا ہے اور مرفوع نہیں کیا ہے۔ نیز سفیان، شریک اور اسرائیل نے عبدالواحد کی موافقت کی ہے اور ان لوگوں نے متن حدیث میں اختلاف کیا ہے اور اسے مسند نہیں کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: ن الکبری / السہو ۱۲۶ (۶۰۵)، وانظر رقم : (۱۰۱۹)، (تحفة الأشراف: ۹۶۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲۸، ۴۲۹ موقوفاً) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ ابوعبیدہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَاعِيَاضٌ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِلَالِ بْنِ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلَمْ يَدْرِ زَادَ أَمْ نَقَصَ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَإِذَا أَتَاهُ الشَّيْطَانُ، فَقَالَ: إِنَّكَ قَدْ أَحْدَثْتَ، فَلْيَقُلْ: كَذَبْتَ إِلَّا مَا وَجَدَ رِيحًا بِأَنْفِهِ أَوْ صَوْتًا بِأُذُنِهِ". وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أَبَانَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وقَالَ مَعْمَرٌ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، وعِيَاضُ بْنُ هِلَالٍ: وقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: عِيَاضُ بْنُ أَبِي زُهَيْرٍ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ زیادہ پڑھی ہے یا کم تو بیٹھ کر دو سجدے کر لے ۱؎ پھر اگر اس کے پاس شیطان آئے اور اس سے کہے (یعنی دل میں وسوسہ ڈالے) کہ تو نے حدث کر لیا ہے تو اس سے کہے: تو جھوٹا ہے مگر یہ کہ وہ اپنی ناک سے بو سونگھ لے یا اپنے کان سے آواز سن لے۲؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۹ (۳۹۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۲۹ (۱۲۰۴)، (تحفة الأشراف: ۴۳۹۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۱)، سنن النسائی/السہو ۲۴ (۱۲۴۰)، موطا امام مالک/الصلاة ۱۶ (۶۲)، مسند احمد (۳/۱۲، ۳۷،۵۰، ۵۱، ۵۳، ۵۴)، دی/الصلاة ۱۷۴ (۱۵۳۶) (ضعیف) (ہلال بن عیاض مجہول راوی ہیں، مگر ابوہریرہ کی حدیث (۱۰۳۰) نیز دیگر صحیح احادیث سے اسے تقویت ہو رہی ہے )
وضاحت: ۱؎ : ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث دونوں مجمل ہیں، انہیں کی دیگر روایات سے یہ ثابت ہے کہ تلاش و تحری کر کے یقینی پہلو پر بنا کرے، یا ہر حال میں کم پر ہی بنا کرے باقی رکعت پوری کر کے سجدہ سہو کرے ، خالی سجدہ سہو کافی نہیں ہے ، بعض سلف نے کہا ہے : یہ اس کے لئے ہے جس کو ہمیشہ شک ہو جاتا ہے۔ ۲؎ : یعنی اسے یقین ہو جائے کہ حدث ہو گیا ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ يُصَلِّي جَاءَهُ الشَّيْطَانُ فَلَبَّسَ عَلَيْهِ حَتَّى لَا يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى، فَإِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَمَعْمَرٌ، وَاللَّيْثُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اسے شبہے میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو ایسا محسوس ہو تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ابن عیینہ، معمر اور لیث نے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۴ (۶۰۸)، والعمل فی الصلاة ۱۸ (۱۲۲۲)، والسھو ۶ (۱۲۳۱)، ۷ (۱۲۳۲)، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۵)، صحیح مسلم/الصلاة ۸ (۳۸۹)، والمساجد ۱۹ (۵۷۰)، سنن النسائی/الأذان ۳۰ (۶۷۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۴۴)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۹ (۳۹۷)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۵ (۱۲۱۶)، موطا امام مالک/السہو ۱(۱)، مسند احمد (۲/۳۱۳، ۳۹۸، ۴۱۱، ۴۶۰، ۵۰۳، ۵۲۲، ۵۳۱) وتقدم برقم (۵۱۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، زَادَ"وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ".
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ سلام سے پہلے بیٹھے (دو سجدے کرے) ۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: ۱۵۲۵۶) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيُّ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: "فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ".
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ پھر وہ سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۵ (۱۲۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۵۲) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسَافِعٍ، أَنَّ مُصْعَبَ بْنَ شَيْبَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ شَكَّ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ".
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السہو ۲۵ (۱۲۴۹، ۱۴۵۰)، (تحفة الأشراف: ۵۲۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۴، ۲۰۵، ۲۰۶) (حسن لغیرہ) (اس کے راوی مصعب‘‘ اور عتبہ ضعیف ہیں، لیکن دوسری حدیث کی تقویت سے حسن ہے ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود۴/۱۹۰)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، أَنَّهُ قَالَ: "صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَلَمْ يَجْلِسْ فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْتَظَرْنَا التَّسْلِيمَ كَبَّرَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ، ثُمَّ سَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو دو رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور قعدہ(تشھد) نہیں کیا تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی اور ہم سلام پھیرنے کے انتظار میں رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے "الله أكبر" کہہ کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۴۶ (۸۲۹)، ۱۴۷ (۸۳۰)، والسھو ۱ (۱۲۲۴)، ۵ (۱۲۳۰)، والأیمان ۱۵ (۶۶۷۰)، صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۲ (۳۹۱)، سنن النسائی/التطبیق ۱۰۶ (۱۱۷۸، ۱۱۷۹)، والسھو ۲۸ (۱۲۶۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۱ (۱۲۰۶)، (تحفة الأشراف: ۹۱۵۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۷(۶۵)، مسند احمد (۵/۳۴۵، ۳۴۶)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۶ (۱۵۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَبَقِيَّةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِمَعْنَى إِسْنَادِهِ وَحَدِيثِهِ، زَادَ"وَكَانَ مِنَّا الْمُتَشَهِّدُ فِي قِيَامِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ سَجَدَهُمَا ابْنُ الزُّبَيْرِ، قَامَ مِنْ ثِنْتَيْنِ قَبْلَ التَّسْلِيمِ، وَهُوَ قَوْلُ الزُّهْرِيِّ.
اس طریق سے بھی زہری سے اسی سند سے اسی کے ہم معنی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ہم میں سے بعض نے کھڑے کھڑے تشہد پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بھی جب وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے تھے، سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے اور یہی زہری کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۹۱۵۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ يَعْنِي الْجُعْفِيَّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُبَيْلٍ الْأَحْمَسِيُّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا قَامَ الْإِمَامُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَإِنْ ذَكَرَ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوِيَ قَائِمًا فَلْيَجْلِسْ، فَإِنِ اسْتَوَى قَائِمًا فَلَا يَجْلِسْ وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَيْسَ فِي كِتَابِي عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثُ.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب امام دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے پھر اگر اس کو سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو بیٹھ جائے، اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو نہ بیٹھے اور سہو کے دو سجدے کرے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میری کتاب میں جابر جعفی سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۷ (۳۶۵)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۱ (۱۲۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵۳، ۲۵۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۶(۱۵۴۲) (صحیح) (جابر جعفی کی کئی ایک متابعت کرنے والے پائے جاتے ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ جابر ضعیف راوی ہیں، دیکھئے : ارواء الغلیل: ۳۸۸ و صحیح سنن أبی داود ۹۴۹ )
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَاالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَنَهَضَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، قُلْنَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَضَى، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ"سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ"فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ كَمَا صَنَعْتُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَرَفَعَهُ، وَرَوَاهُ أَبُو عُمَيْسٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَاالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، مِثْلَ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو عُمَيْسٍ أَخُو الْمَسْعُودِيِّ، وَفَعَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ مِثْلَ مَا فَعَلَ الْمُغِيرَةُ، وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وَالضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ أَفْتَى بِذَلِكَ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا فِيمَنْ قَامَ مِنْ ثِنْتَيْنِ، ثُمَّ سَجَدُوا بَعْدَ مَا سَلَّمُوا.
زیاد بن علاقہ کہتے ہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی، وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے، ہم نے "سبحان الله" کہا، انہوں نے بھی "سبحان الله" کہا اور (واپس نہیں ہوئے) نماز پڑھتے رہے، پھر جب انہوں نے اپنی نماز پوری کر لی اور سلام پھیر دیا تو سہو کے دو سجدے کئے، پھر جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹے تو کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے، جیسے میں نے کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ابن ابی لیلیٰ نے شعبی سے، شعبی نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع قرار دیا ہے، نیز اسے ابو عمیس نے ثابت بن عبید سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر راوی نے زیاد بن علاقہ کی حدیث کے مثل روایت ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابو عمیس مسعودی کے بھائی ہیں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ویسے ہی کیا جیسے مغیرہ، عمران بن حصین، ضحاک بن قیس اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے کیا، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عمر بن عبدالعزیز نے اسی کا فتوی دیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو دو رکعتیں پڑھ کر بغیر قعدہ اور تشہد کے اٹھ کھڑے ہوں، انہیں چاہیئے کہ سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کریں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۲ (۳۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۰۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۴۷، ۲۵۳، ۲۵۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۶(۱۵۴۲) (صحیح) (مسعودی مختلط راوی ہیں، لیکن ان کے کئی متابعت کرنے والے پائے جاتے ہیں)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَالرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ بِمَعْنَى الإِسْنَادِ، أَنَّ ابْنَ عَيَّاشٍحَدَّثَهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ الْكَلَاعِيِّ، عَنْ زُهَيْرٍ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْعَنْسِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، قَالَ عَمْرٌو: وَحْدَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لِكُلِّ سَهْوٍ سَجْدَتَانِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ". وَلَمْ يَذْكُرْ عَنْ أَبِيهِ غَيْرُ عَمْرٍو.
ثوبان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: "ہر سہو کے لیے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں"، عمرو کے سوا کسی نے بھی (اس سند میں) «عن أبيه» کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۳۶ (۱۲۱۹)، (تحفة الأشراف: ۲۰۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸۰) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي أَشْعَثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْخَالِدٍ يَعْنِي الْحَذَّاءَ،عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى بِهِمْ فَسَهَا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ تَشَهَّدَ، ثُمَّ سَلَّمَ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ بھول گئے تو آپ نے دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا پھر سلام پھیرا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۸ (۳۹۵)، سنن النسائی/السہو ۲۳ (۱۲۳۷)، والکبری/ صفة الصلاة ۵۸ (۱۱۵۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۸۵) (شاذ) (اشعث حمرانی کے سوا کسی کی روایت میں «تشھد» کا تذکرہ نہیں ہے )
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ هِنْدِ بِنْتِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ مَكَثَ قَلِيلًا"وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ كَيْمَا يَنْفُذُ النِّسَاءُ قَبْلَ الرِّجَالِ.
ام المؤمنین ام سلمی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (نماز سے) سلام پھیرتے تو تھوڑی دیر ٹھہر جاتے، لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اس وجہ سے ہے تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے چلی جائیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۵۲ (۸۳۷)، ۱۵۷ (۸۴۹)، ۱۶۳ (۸۶۶)، ۱۶۷ (۸۷۰)، سنن النسائی/السھو۷۷ (۱۳۳۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۳۳ (۹۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۹۶، ۳۱۰، ۳۱۶) (صحیح) ( «وکانوا یرون أن ذلک...» مدرج اور زہری کا قول ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ رَجُلٍ مِن طَيِِّئٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"وَكَانَ يَنْصَرِفُ عَنْ شِقَّيْهِ".
ہلب طائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے فارغ ہو کر) اپنے دونوں جانب سے پلٹتے تھے (کبھی دائیں طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۳ (۳۰۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۳۳ (۹۲۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۲۶) (حسن صحیح) (اگلی حدیث نمبر: (۱۰۴۲) سے تقویت پا کر یہ حسن صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ نَصِيبًا لِلشَّيْطَانِ مِنْ صَلَاتِهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَكْثَرُ مَا يَنْصَرِفُ عَنْ شِمَالِهِ". قَالَ عُمَارَةُ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ بَعْدُ، فَرَأَيْتُ مَنَازِلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَسَارِهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے لیے نہ بنائے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی سے پلٹے، حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اکثر بائیں طرف سے پلٹتے تھے، عمارہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں مدینہ آیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو (بحالت نماز) آپ کے بائیں جانب دیکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۵۹ (۸۵۲)، صحیح مسلم/المسافرین ۷ (۷۰۷)، سنن النسائی/السھو ۱۰۰ (۱۳۶۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۳۳ (۹۳۰)، (تحفة الأشراف: ۹۱۷۷)، و قد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۳، ۴۲۹، ۴۶۴)، سنن الدارمی/الصلاة ۸۹ (۱۳۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے آپ کے مصلیٰ سے (بحالت نماز ) بائیں جانب پڑتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بائیں جانب مڑتے اور اٹھ کر اپنے حجروں میں تشریف لے جاتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ اپنی بعض نمازیں اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۵۲ (۴۳۲)، والتھجد ۳۷ (۱۱۸۷)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۹ (۷۷۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۴ (۴۵۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۸۶ (۱۳۷۷)، (تحفة الأشراف: ۸۱۴۲)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/قیام اللیل ۱ (۱۵۹۹)، مسند احمد (۲/۶، ۱۶، ۱۲۳) ویأتي برقم: (۱۴۴۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ فِي مَسْجِدِي هَذَا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کی نماز اس کے اپنے گھر میں اس کی میری اس مسجد میں نماز سے افضل ہے سوائے فرض نماز کے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۱ (۷۳۱)، والأدب ۷۵ (۶۱۱۳)، والاعتصام ۳ (۷۲۹۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۹ (۷۸۱)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱ (۱۶۰۰)، (تحفة الأشراف: ۳۶۹۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۹ (۴۵۰)، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ۱ (۴)، مسند احمد (۵/ ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۶، ۱۸۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۹۶ (۱۴۰۶) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۱۴۴۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، وَحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ"كَانُوا يُصَلُّونَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ سورة البقرة آية 144 فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ فَنَادَاهُمْ وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ: أَلَا إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ حُوِّلَتْ إِلَى الْكَعْبَةِ مَرَّتَيْنِ، فَمَالُوا كَمَا هُمْ رُكُوعٌ إِلَى الْكَعْبَةِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، جب آیت کریمہ: «فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره» "یعنی اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں" (سورۃ البقرہ: ۱۵۰) نازل ہوئی تو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص لوگوں کے پاس سے ہو کر گزرا اس حال میں کہ وہ لوگ نماز فجر میں رکوع میں تھے اور بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے تھے تو اس نے انہیں دو بار آواز دی: لوگو! آگاہ ہو جاؤ، قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا ہے (یہ حکم سنتے ہی) لوگ حالت رکوع ہی میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۲ (۵۲۷)، (تحفة الأشراف: ۳۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۸۴) (صحیح)