وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، جميعا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: شَهِدْتُ صَلَاةَ الْفِطْرِ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَكُلُّهُمْ يُصَلِّيهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ يَخْطُبُ، قَالَ: فَنَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حِينَ يُجَلِّسُ الرِّجَالَ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ يَشُقُّهُمْ حَتَّى جَاءَ النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا سورة الممتحنة آية 12، فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ حِينَ فَرَغَ مِنْهَا: " أَنْتُنَّ عَلَى ذَلِكِ "، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ لَمْ يُجِبْهُ غَيْرُهَا مِنْهُنَّ: نَعَمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَا يُدْرَى حِينَئِذٍ مَنْ هِيَ، قَالَ: " فَتَصَدَّقْنَ "، فَبَسَطَ بِلَالٌ ثَوْبَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَلُمَّ فِدًى لَكُنَّ أَبِي وَأُمِّي، فَجَعَلْنَ يُلْقِينَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِمَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں گیا نماز فطر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، اور سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سب کے ساتھ، تو ان سب بزرگوں کا قاعدہ تھا کہ نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے اور اس کے بعد خطبہ پڑھتے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اترے یعنی خطبہ پڑھ کر گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں، جب انہوں نے لوگوں کو ہاتھ سے اشارہ کر کے بٹھانا شروع کیا۔ پھر ان کی صفیں چیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلمعورتوں کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لاَ يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا» (60-الممتحنة:12) یہاں تک کہ فارغ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اور پھر فرمایا: ”تم نے اس سب کا اقرار کیا۔“ اس میں سے ایک عورت نے کہا کہ ہاں اے نبی اللہ تعالیٰ کے۔ راوی نے کہا: معلوم نہیں وہ کون تھی۔ پھر انہوں نے صدقہ دینا شروع کیا۔ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلایا اور کہا: لاؤ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں، اور وہ سب چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: " أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ "، قَالَ: " ثُمَّ خَطَبَ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، وَبِلَالٌ قَائِلٌ بِثَوْبِهِ فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْخَاتَمَ وَالْخُرْصَ وَالشَّيْءَ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی خطبہ سے پہلے اور خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ عورتوں نے نہیں سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور ان کو نصیحت کی اور صدقہ کا حکم دیا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے۔ اور عورتوں میں سے کوئی انگوٹھی ڈالتی اور کوئی چھلا اور کوئی اور کچھ۔
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ . ح وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ أَيُّوبَبِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
اسماعیل بن ابراہیم نے روایت کی ایوب سے اسی اسناد سے مثل اس کے۔
وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ابْنُ رافع ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَامَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ فَلَمَّا فَرَغَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ وَأَتَى النِّسَاءَ، فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ، وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِينَ النِّسَاءُ صَدَقَةً، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: " زَكَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ؟ " قَالَ: " لَا وَلَكِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ بِهَا حِينَئِذٍ، تُلْقِي الْمَرْأَةُ فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ وَيُلْقِينَ "، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: " أَحَقًّا عَلَى الْإِمَامِ الْآنَ أَنْ يَأْتِيَ النِّسَاءَ حِينَ يَفْرُغُ فَيُذَكِّرَهُنَّ؟ " قَالَ: " إِي لَعَمْرِي إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ، وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَ ذَلِكَ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے پہلے نماز پڑھی۔ پھر لوگوں پر خطبہ پڑھا اور جب فارغ ہوئے اترے اور عورتوں میں تشریف لائے اور ان کو نصیحت کی اور وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ تکیہ لگائے ہوئے تھے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے۔ اور عورتیں صدقہ ڈالتی جاتی تھیں راوی نے کہا: میں نے عطاء سے پوچھا کہ یہ صدقہ فطر تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ اور صدقہ تھا کہ دہ دیتی تھیں۔ غرض ہر عورت چھلے ڈالتی تھی اور پھر دوسری اور پھر تیسری۔ میں نے عطاء سے کہا کہ اب بھی امام کو واجب ہے کہ عورتوں کے پاس جائے۔ جب خطبہ سے فارغ ہو اور ان کو نصیحت کرے تو انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ قسم ہے مجھے اپنی جان کی بے شک اماموں کا حق ہے کہ ان کے پاس جائیں۔ اور اللہ جانے انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اب اس پر عمل نہیں کرتے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ فَأَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَحَثَّ عَلَى طَاعَتِهِ وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ، فَقَالَ: " تَصَدَّقْنَ فَإِنَّ أَكْثَرَكُنَّ حَطَبُ جَهَنَّمَ "، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ سِطَةِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ، فَقَالَتْ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ الشَّكَاةَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ "، قَالَ: فَجَعَلْنَ يَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِيِّهِنَّ، يُلْقِينَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ مِنْ أَقْرِطَتِهِنَّ وَخَوَاتِمِهِنَّ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نماز عید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی بغیر اذان اور تکبیر کے پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پر تکیہ لگا کر کھڑے ہوئے اور حکم کیا اللہ سے ڈرنے کا اور ترغیب دی اس کی فرمانبرداری کی اور لوگوں کو سمجھایا اور نصیحت کی۔ پھر عورتوں کے پاس گئے اور ان کو سمجھایا بجھایا اور فرمایا: ”خیرات کرو کہ اکثر تم میں سے جہنم کا ایندھن ہیں۔“ سو ایک عورت ان کے بیچ سے کھڑی ہو گئی پچکے رخساروں والی اور اس نے عرض کی کہ کیوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس لئے کہ شکایت بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری۔“ راوی نے کہا: پھر خیرات کرنے لگیں اپنے زیوروں میں سے اور ڈالتی تھیں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں اپنے کانوں کی بالیں اور ہاتھوں کے چھلے۔
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَا: لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحَى، ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ حِينٍ عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرَنِي، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، " أَنْ لَا أَذَانَ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ حِينَ يَخْرُجُ الْإِمَامُ، وَلَا بَعْدَ مَا يَخْرُجُ، وَلَا إِقَامَةَ وَلَا نِدَاءَ وَلَا شَيْءَ لَا نِدَاءَ يَوْمَئِذٍ وَلَا إِقَامَةَ ".
سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اذان نہ عیدالفطر میں ہوتی تھی اور نہ عید الاضحیٰ میں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا تھوڑی دیر کے بعد اسی بات کو، (یہ قول ہے ابن جریج راوی کا) تو انہوں نے کہا (یعنی ان کے شیخ عطاء نے) کہ خبر دی مجھے سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ نہ اذان ہوتی تھی عیدالفطر میں جب نکلتا تھا اور نہ بعد اس کے نکلنے کے اور نہ تکبیر ہوتی، نہ اذان اور نہ اور کچھ وہ دن ایسا ہے کہ اس دن نہ اذان ہے نہ تکبیر۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ أَوَّلَ مَا بُويِعَ لَهُ، " أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ فَلَا تُؤَذِّنْ لَهَا، قَالَ: فَلَمْ يُؤَذِّنْ لَهَا ابْنُ الزُّبَيْرِ يَوْمَهُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مَعَ ذَلِكَ إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ، وَإِنَّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يُفْعَلُ، قَالَ: فَصَلَّى ابْنُ الزُّبَيْرِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ".
عطاء نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پیغام بھیجا سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف جب ان سے اول اول لوگوں نے بیعت کی تھی کہ نماز فطر میں اذان نہیں دی جاتی، سو تم آج اذان نہ دلوانا، تو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اذان نہیں دلوائی اور یہ بھی کہلا بھیجا کہ خطبہ، نماز کے بعد ہونا چاہیئے اور وہ یہی کرتے تھے، سو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی نماز خطبہ سے پہلے پڑھی۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں عیدوں کی کئی بار بغیر اذان کے اور اقامت کے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا يُصَلُّونَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما یہ سب عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ، فَيَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا صَلَّى صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ قَامَ، فَأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِي مُصَلَّاهُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ حَاجَةٌ بِبَعْثٍ ذَكَرَهُ لِلنَّاسِ، أَوْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ أَمَرَهُمْ بِهَا، وَكَانَ، يَقُولُ: " تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا "، وَكَانَ أَكْثَرَ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَاءُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، فَخَرَجْتُ مُخَاصِرًا مَرْوَانَ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُصَلَّى، فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ قَدْ بَنَى مِنْبَرًا مِنْ طِينٍ وَلَبِنٍ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُنَازِعُنِي يَدَهُ كَأَنَّهُ يَجُرُّنِي نَحْوَ الْمِنْبَرِ، وَأَنَا أَجُرُّهُ نَحْوَ الصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْهُ، قُلْتُ: أَيْنَ الِابْتِدَاءُ بِالصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: لَا يَا أَبَا سَعِيدٍ قَدْ تُرِكَ مَا تَعْلَمُ، قُلْتُ: كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَأْتُونَ بِخَيْرٍ مِمَّا أَعْلَمُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید قربان اور عید الفطر میں جب نکلتے تو پہلے نماز پڑھتے۔ پھر جب نماز کا سلام پھیرتے تو لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے اور لوگ سب بیٹھے رہتے اپنی نماز کی جگہ پر۔ پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی لشکر روانہ کرنے کی ضرورت ہوتی تو لوگوں سے بیان کرتے یا اور کوئی کام ہوتا تو اس کا حکم دیتے اور فرماتے: ”صدقہ دو، صدقہ دو، صدقہ دو۔“ اور اکثر عورتیں اس دن صدقہ دیتیں پھر گھر کو لوٹتے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی عادت رہی یہاں تک کہ مروان بن حکم حاکم ہوا اور میں اس کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ دے کر نکلا یہاں تک کہ عید گاہ میں آئے اور وہاں کثیر بن حلت نے ایک منبر بنا رکھا تھا گارے اور اینٹوں سے۔ مروان نے مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگا گویا وہ مجھے منبر کی طرف کھینچتا تھا اور میں اس کو نماز کی طرف پھر جب میں نے یہ دیکھا تو اس سے کہا: نماز کا پہلے پڑھنا کہاں گیا؟ اس نے کہا: اے ابوسعید! چھٹ گئ وہ سنت جو تم جانتے ہو۔ میں نے کہا: ہرگز نہیں ہو سکتا۔ قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے تم بہتر کام کر سکو اس سے جو میں چاہتا ہوں، (یعنی بدعت سنت کے برابر نہیں ہو سکتی، بہتر ہونا تو کجا)غرض یہ بات میں نے اس سے تین بار کہی پھر لوٹ گیا۔
حَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: " أَمَرَنَا تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَ فِي الْعِيدَيْنِ: الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، وَأَمَرَ الْحُيَّضَ أَنْ يَعْتَزِلْنَ مُصَلَّى الْمُسْلِمِينَ ".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم کو حکم دیا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہم عیدین میں لے جائیں جوان کنواری لڑکیوں اور پردہ نشین عورتوں کو اور حکم دیا کہ حیض والیاں مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے ذرا دور رہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: " كُنَّا نُؤْمَرُ بِالْخُرُوجِ فِي الْعِيدَيْنِ وَالْمُخَبَّأَةُ وَالْبِكْرُ، قَالَتْ: الْحُيَّضُ يَخْرُجْنَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ يُكَبِّرْنَ مَعَ النَّاسِ ".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، ہمیں حکم دیا گیا دونوں عیدوں میں نکلنے کا کنواری اور جوان لڑکیوں کو اور کہتی ہیں کہ حیض والیاں بھی نکلتیں اور وہ لوگوں سے الگ پیچھے رہتی تھیں اور وہ لوگوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں۔
وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى: الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: " لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا ".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حکم دیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ لے جائیں ہم عیدالفطر اور عید قربان میں کنواری جوان لڑکیوں کو اور حیض والیوں کو اور پردہ والیوں کو۔ سو حیض والیاں جدا رہیں نماز کی جگہ سے اور حاضر ہوں اس کار خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں۔ میں نھے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اڑھائے بہن اس کی اپنی چادر۔“
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرَجَ يَوْمَ أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي خُرْصَهَا وَتُلْقِي سِخَابَهَا ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید قربان یا عید الفطر میں نکلے اور دو رکعت پڑھی کہ نہ اس سے پہلے نماز پڑھی، نہ بعد میں، پھر عورتوں کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے، پھر حکم کیا عورتوں کو صدقہ کا، پھر کوئی تو اپنے چھلے نکالنے لگی اور کوئی لونگوں کے ہار جو ان کے گلوں میں تھے۔
وحَدَّثَنِيهِ عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، جميعا، عَنْ غُنْدَرٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
اور روایت کی ابوبکر بن نافع نے، اور محمد بن بشار نے، دونوں نے کہا: روایت کی ہم سے غندر نے، ان سے شعبہ نے اسی اسناد سے مانند اسی روایت کے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْمَازِنِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ ، " مَا كَانَ يَقْرَأُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ؟ " فَقَالَ: " كَانَ يَقْرَأُ فِيهِمَا بِ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ".
عبیداللہ نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اضحیٰ اور فطر میں کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں «ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ» اور «اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» پڑھتے تھے۔
وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ ، قَالَ: " سَأَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَمَّا قَرَأَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ الْعِيدِ، فَقُلْتُ: بِ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ".
سیدنا واقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن کیا پڑھا کرتے تھے میں نے کہا: «اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ» اور «ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ» ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَار، تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِهِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقَالَ أَبُو بَكْر: أَبِمَزْمُورِ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے گھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں تھی کہ وہ بعاث کا قصہ جو انصار نے نظم کیا تھا، گا رہی تھیں (بعاث وہ لڑائی تھی جو اوس اور خزرج انصار کے دو قبیلوں میں کفر کی حالت میں ہوئی تھی اور اس میں اوس جیتے تھے) اور وہ لڑکیاں گانے کا پیشہ نہیں کرتی تھیں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ شیطان کی تان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں؟ اور یہ عید کے دن میں تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! سب کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے“ (یعنی ان کو دل خوش کرنے دو)۔
وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ: " وَفِيهِ جَارِيَتَانِ تَلْعَبَانِ بِدُفٍّ ".
مسلم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ بیان کی ہم سے یہی روایت یحییٰ نے اور ابوکریب نے، دونوں نے ابومعاویہ سے، اس نے ہشام سے اسی اسناد سے اور اس میں یہ ہے کہ وہ دو لڑکیاں تھیں کہ دف سے کھیلتی تھیں۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ ، حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَّامِ مِنًى تُغَنِّيَانِ وَتَضْرِبَانِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَجًّى بِثَوْبِهِ، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ، فَكَشَف رَسُولُ اللَّهِ عَنْهُ، وَقَالَ: " دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ ". وَقَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ وَأَنَا جَارِيَةٌ، فَاقْدِرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْعَرِبَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے گھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور میرے پاس دو لڑکیاں تھیں منیٰ کے دنوں میں (یعنی ذی الحجہ کی گیارھویں بارھویں وغیرہ میں) گا رہی تھیں اور دف بجاتی تھیں اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کو چادر سے لپیٹے ہوئے تھے، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو جھڑک دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا اٹھایا اور فرمایا: ”اے ابوبکر! ان لڑکیوں کو چھوڑ دو، اس لئے کہ یہ عید کے دن ہیں۔“ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی چادر سے چھپائے ہوئے تھے اور میں ان حبشیوں کا تماشا دیکھتی تھی جو کھیل رہے تھے اور میں لڑکی تھی تو خیال کرو کہ جو لڑکی کم سن اور کھیل کود کی طالب ہو گی وہ کتنی دیر تک تماشا دیکھے گی۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ " وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُومُ عَلَى بَابِ حُجْرَتِي، وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ بِحِرَابِهِمْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ لِكَيْ أَنْظُرَ إِلَى لَعِبِهِمْ، ثُمَّ يَقُومُ مِنْ أَجْلِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ، فَاقْدِرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ حَرِيصَةً عَلَى اللَّهْوِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ میرے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر اپنی چادر سے مجھے چھپائے ہوئے تھے اور حبشی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد مبارک میں اپنے ہتھیاروں سے کھیلتے تھے تاکہ میں ان کے کھیل کو دیکھوں۔ پھر کھڑے رہتے تھے میرے لئے یہاں تک کہ میں ہی (سیر ہو کر) لوٹ جاتی تھی تو خیال کرو جو لڑکی کم سن اور کھیل کی شوقین ہو گی، وہ کتنی دیر تماشہ دیکھے گی (یعنی جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہتے تھے اور بیزار نہ ہوتے تھے یہ کمال خلق تھا)۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، وَاللَّفْظُ لِهَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَهُ عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ: مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " دَعْهُمَا "، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا، وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِمَّا قَالَ: " تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي عَلَى خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُولُ: " دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ "، حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ، قَالَ: " حَسْبُكِ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَاذْهَبِي ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممیرے گھر آئے اور میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں بعاث کی لڑائی کو۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم بچھونے پر لیٹ گئے اور اپنا منہ ان کی طرف سے پھیر لیا اور پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے جھڑکا کہ یہ شیطان کی تان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”ان کو چھوڑ دو (یعنی گانے دو) پھر جب وہ غافل ہو گئے، میں نے ان دونوں کے چٹکی لی کہ وہ نکل گئیں اور وہ عید کا دن تھا۔ اور سوڈانی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے، سو مجھے یاد نہیں کہ میں نے نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش ظاہر کی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ” تم اسے دیکھنا چاہتی ہو“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ” اے اولاد ارفعہ کی! تم اپنے کھیل میں مشغول رہو۔“ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بس“ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جاؤ۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " جَاءَ حَبَشٌ يَزْفِنُونَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعْتُ رَأْسِي عَلَى مَنْكِبِهِ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى لَعِبِهِمْ، حَتَّى كُنْتُ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ عَنِ النَّظَرِ إِلَيْهِمْ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں: کہ ایک بار عید کے دن حبشی آ کر مسجد میں کھیلنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے شانے پر سر رکھا اور ان کے کھیل کو دیکھنے لگی۔ یہاں تک کہ میں ہی ان کے دیکھنے سے بیزار ہو جاتی تھی۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرَا فِي الْمَسْجِدِ.
روایت ہے ہشام سے اسی اسناد سے اور انہوں نے مسجد کا ذکر نہیں کیا۔
وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد كلهم، وَعُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِعُقْبَةَ، قَال: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ ، أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " لِلَعَّابِينَ وَدِدْتُ أَنِّي أَرَاهُمْ، قَالَتْ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقُمْتُ عَلَى الْبَابِ أَنْظُرُ بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَعَاتِقِهِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ "، قَالَ عَطَاءٌ: " فُرْسٌ أَوْ حَبَشٌ؟ " قَالَ: وَقَالَ لِي ابْنُ عَتِيقٍ: " بَلْ حَبَشٌ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کھیلنے والوں سے کہلا بھیجا کہ میں چاہتی ہوں ان کو دیکھوں اور کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں بھی دروازہ میں کھڑی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن اور کانوں کے بیچ سے دیکھتی تھی اور وہ مسجد میں کھیلتے تھے۔ عطاء نے کہا: وہ فارس کے لوگ تھے یا حبشی۔ ابن عتیق نے کہا: حبشی تھے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " بَيْنَمَا الْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِرَابِهِمْ، إِذْ دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَهْوَى إِلَى الْحَصْبَاءِ يَحْصِبُهُمْ بِهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُمْ يَا عُمَرُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حبشی کھیلتے تھے اپنے تیروں سے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کنکریوں کی طرف جھکے کہ ان کو ماریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے عمر! ان کو کھیلنے دو۔“