مشکوٰة شر یف

نماز قصر سے متعلقہ احادیث

نماز سفر کا بیان

مسافر جب اپنے گاؤں یا شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تو اس پر قصر واجب ہے، پوری چار رکعت والی فرض نماز کی دو رکعتیں ہی پڑھنا واجب ہے اگر کوئی آدمی سفر کی حالت میں جب کہ اس پر قصر واجب ہے، پوری چار رکعتیں پڑھے گا تو گنہگار ہو گا اور دو واجب کو چھوڑنے والا ہو گا یعنی ایک واجب تو قصر کا ترک ہو گا اور دوسرے قعدہ اخیرہ کے بعد فوراً سلام پھیرنا، کیونکہ مسافر کے حق میں پہلا قعدہ ہی قعدہ اخیرہ ہوتا ہے اس کے بعد اسے فوراً سلام پھیر دینا چاہیے اگر اس نے نہیں پھیرا بلکہ کھڑا ہو گیا اس طرح اس نے دوسرے واجب کو ترک کیا۔

اس موقع پر اتنی بات بھی جانتے چلئے کہ مسافر کے لیے قصر کے جواز میں کسی بھی عالم اور کسی بھی امام کا اختلاف نہیں ہے صرف اتنی بات ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تو قصر واجب ہے لیکن امام شافعی کے ہاں قصر اولیٰ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر قصر نہیں کرے گا تو وہ امام صاحب کے مسلک کی رو سے گنہگار ہو گا، مگر حضرت شافعی کا مسلک اسے گنہگار نہیں قرار دے گا۔ بلکہ اولیٰ و افضل چیز کو ترک کرنے والا کہلائے گا۔ 

 

نماز سفر کا بیان

مسافت قصر

قصر اتنی مسافت کے لیے واجب ہوتا ہے جو متوسط چال سے تین دن سے کم میں طے نہیں ہو سکتی۔ متوسط چال سے مراد آدمی یا اونٹ کی متوسط رفتار ہے تین دن کی مسافت ہے یہ مراد ہے کہ صبح سے دوپہر تک چلے نہ یہ کہ صبح سے شام تک، اسی لیے فقہاء نے موجودہ زمانے میں اس مسافت کا اندازہ اڑتالیس میل کیا ہے گویا اگر کوئی آدمی اڑتالیس میل (تقریباً ٧٨ کلومیٹر) کی مسافت کے لیے اپنے گھر سے سفر پر نکلے تو جیسا کہ او پر ذکر کیا گیا اپنے گاؤں یا شہر کی آبادی سے باہر نکلتے ہی اس پر قصر واجب ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی مسافت قصر (یعنی ٤٨ میل یا ٧٨ کلو میٹر) کو کسی تیز سواری مثلاً گھوڑے یا ریل وغیرہ کے ذریعے تین دن سے کم میں طے کرے تب بھی وہ مسافر سمجھا جائے گا اسے بھی قصر نماز پڑھنی چاہیے۔ 

 

نماز سفر کا بیان

مدت قصر

مسافر کو اس وقت تک قصر کرنا چاہیے۔ جب تک کہ اپنے وطن اصلی نہ پہنچ جائے یا کسی مقام پر کم سے کم پندرہ دن ٹھہرنے کا قصد نہ کرے بشرطیکہ وہ مقام ٹھہرنے کے لائق ہو اگر کوئی آدمی دریا میں ٹھہرنے کی نیت کرے یا دار الحرب میں یا اسی طرح جنگل میں تو اس نیت کا کچھ اعتبار نہ ہو گا۔ ہاں خانہ بدوش لوگ اگر جنگل میں بھی پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کریں تو یہ نیت صحیح ہو جائے گی اس لیے کہ وہ جنگلوں میں ہی رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔

اگر کوئی آدمی اس مقدار مسافت کو قطع کرنے سے قبل کہ جس کا سفر میں اعتبار کیا گیا ہے کسی مقام پر ٹھہرنے کی یا اپنے وطن لوٹ جانے کی نیت کرے تو وہ مقیم ہو جائے گا۔ اگرچہ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو اب یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے سفر کے ارادے کو ختم کر دیا ہے۔ 

 

نماز سفر کا بیان

قصر کے کچھ مسائل

(١) مندرجہ ذیل صورتوں میں اگر کوئی مسافر مسافت سفرپوری کرنے کے بعد پندرہ دن سے بھی زیادہ ٹھہر جائے تو وہ مقیم نہ ہو گا اور اس پر قصر کرنا واجب رہے گا۔

(الف)۔ پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو مگر کسی وجہ سے بلا قصد وارادہ زیادہ ٹھہرنے کا اتفاق ہو جائے۔

(ب)۔ کچھ نیت ہی نہ کی ہو، بلکہ امروز، فردا میں اس کا ارادہ وہاں سے چلے جانے کا ہو مگر وہ اسی پس و پیش میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہر جائے۔

(ج)۔ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے مگر وہ مقام قابل سکونت نہ ہو۔ (د) پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے مگر دو مقام پر، بشرطیکہ ان دونوں مقامات میں اس قدر فاصلہ ہو کہ ایک مقام کی اذان کی آواز دوسرے مقام میں نہ جا سکتی ہوں، مثلاً دس روز مکہ معظمہ میں رہنے کا ارادہ کرے اور پانچ روزمنی میں مکہ سے منی تین میل کے فاصلے پر ہے اور اگر رات کو تو ایک مقام میں رہنے کی نیت کرے اور دن کو دوسرے مقام پر تو جس موضع میں رات کو ٹھہرنے کی نیت کر لی ہے وہ اس کا وطن اقامت ہو جائے گا وہاں اس کو قصر کی اجازت نہ ہو گی اب دوسرا مقام جہاں وہ دن کو رہتا ہے اگر اس پہلے مقام سے سفر کی مسافت پر ہے تو وہاں جانے سے مسافر ہو جائے گا ورنہ مقیم رہے گا اور اگر ایک مقام دوسرے مقام سے اس قدر قریب ہو کہ ایک جگہ کی اذان کی آواز دوسری جگہ جا سکتی ہے۔ تو وہ دونوں مقام ایک ہی سمجھے جائیں گے اور دونوں جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کے ارادے سے مقیم ہو جائے گا۔

(٢) مقیم کی اقتداء مسافر کے پیچھے ہر حال میں درست ہے خواہ اداء نماز ہو یا قضا، مسافر امام جب دو رکعتیں پڑھ کے سلام پھیر دے تو مقیم مقتدی کو چاہیے کہ اٹھ کر اپنی نماز پوری کر لے اور اس میں قرأت نہ کرے بلکہ چپ کھڑا رہے اس لیے کہ وہ لاحق ہے اور قعدہ اولیٰ اس مقتدی پر بھی فرض ہو گا مسافر امام کے لئے مستحب ہے کہ سلام پھیرنے کے فوراً بعد مقتدیوں کو اپنے مسافر ہونے کی اطلاع یہ کہہ کر دے دے کہ  میں مسافر ہوں، مقتدی اپنی نماز پوری کر لیں۔

مسافر بھی مقیم کی اقتداء کر سکتا ہے مگر وقت کے اندر، وقت کے بعد نہیں۔ اس لیے کہ مسافر جب مقیم کی اقتداء کرے گا تو امام کی اتباع میں چار رکعت یہ بھی پڑھے گا اور امام کا قعدہ اولیٰ نفل ہو گا اور اس کا فرض، امام کی تحریمہ قعدہ اولیٰ کے نفل ہونے کے ساتھ ہو گی اور مسافر مقتدی کی اس کی فرضیت کے ساتھ پس فرض نماز پڑھنے والے کی اقتداء نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے ہوئی اور یہ درست نہیں۔

مسافر فجر کی سنتوں کو ترک نہ کرے اور مغرب کی سنت کو بھی ترک کرنا بہتر نہیں ہے اور باقی اور سنتوں کے ترک کا اختیار ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اگر چل رہا ہو اور اطمینان نہ ہو تو نہ پڑھے ورنہ پڑھ لے۔ (علم الفقہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قصر نماز

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی اور ذی الحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سفر کا حال بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حج کے لیے مکہ کے سفر کا ارادہ فرمایا تو مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی پھر جب مدینہ سے نکلے اور ذوالحلیفہ پہنچے۔ تو وہاں قصر فرمایا اور عصر کی نماز دو رکعت پڑھی ذوالحلیفہ ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے کہ جب مسافر شرعی اپنے شہر یا گاؤں کے مکانات سے باہر نکل جائے تو قصر نماز پڑھنے لگے۔ 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قصر نماز

٭٭ اور حضرت حارثہ ابن وہب خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں منی میں دو رکعتیں پڑھائیں اور اس موقعہ پر ہم اتنی تعداد میں تھے کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھے اور امن کی حالت میں تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 یہ حجۃ الوداع کا ذکر ہے اس موقع پر چونکہ اسلام کی حقانیت و صداقت اکثر دلوں میں اپنا گھر کر چکی تھی اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام اتنی زیادہ تعداد میں تھے اس سے پہلے کسی موقع پر نہ تھے۔

 امن کی حالت میں تھے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے کسی حملے اور ان سے کسی جنگ وغیرہ کا کوئی خوف نہیں تھا۔ بلکہ بہت اطمینان اور سکون کی حالت میں تھے اس کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ قصر کی مشروعیت کفار کے فتنوں کے خوف پر موقوف نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سے ظاہری پر معلوم ہوتا ہے بلکہ سفر پر بہر صورت قصر کرنا چاہیے چنانچہ اگلی حدیث میں اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ 

آیت قصر میں خوف کی قید اور اس کی وضاحت

اور حضرت یعلی ابن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد یہ ہے کہ  کم نماز پڑھو (یعنی قصر کرو) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔ تو اب جب کہ لوگ امن میں ہیں (اور کافروں کے ستانے کا خوف جاتا رہا ہے تو قصر کی کیا ضرورت ہے ؟حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ جس پر تمہیں تعجب ہے اسی پر مجھے بھی تعجب ہوا تھا چنانچہ میں نے سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (نماز میں قصر) اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ہے جو تم پر کیا گیا ہے لہٰذا تم اس کا صدقہ (یعنی احسان) قبول کرو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مسافر کے لیے نماز میں قصر کی اجازت کے بارے میں جو آیت نازل ہوئی تھی اور جس کا ایک جز یہاں حدیث میں نقل کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے۔

آیت ( وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیسَ عَلَیكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ  ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یفْتِنَكُمُ الَّذِینَ كَفَرُوْا) 4۔ النساء:101)

 اور (مسلمانو!) جب تم کہیں سفر کرو، تم تمہارے لیے یہ گناہ نہیں ہے کہ کم (یعنی قصر) نماز پڑھو اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔

اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر کی اجازت اسی وقت ہو گی جب کافروں کے ستانے اور ان کے پریشان کرنے کا خطرہ ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آیت میں خوف کی قید عادت اور اغلب کی اعتبار سے لگائی گئی ہے کہ اکثر مسافروں کو خوف ہوتا ہے خصوصاً اس زمانے میں جب کہ کافر ہر وقت اور ہر موقع پر درپے آزاد ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فاقبلوا صدقتہ فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ حالت سفر میں قصر نماز پڑھنے کا حکم صرف کافروں کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ بلکہ یہ آسانی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان تمام بندوں پر جو حالت سفر میں ہوتے ہیں۔ ایک احسان ہے جس سے ہر مسافر فیضیاب ہو سکتا ہے خواہ کسی بھی قسم کا کوئی خوف ہو یا نہ ہو۔

 فاقبلوا  میں حکم وجوب کے لیے ہے یعنی ہر شرعی مسافر کے لیے قصر کرنا واجب ہے اور ضروری ہے چنانچہ اس سے حنیفہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب ہے اور قصر نہ کرنا یعنی پوری نماز پڑھنا غیر پسندیدہ ہے۔ 

مدت اقامت

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ سے مکہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (چار رکعتوں والی نماز کی) دو دو رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ حضرت انس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ لوگ مکہ میں کچھ دن ٹھہرے تھے؟ حضرت انس نے فرمایا کہ (ہاں) ہم لوگ مکہ میں دس دن ٹھہرے تھے۔ (بخاری وصحیح مسلم)

 

تشریح

 

 حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے رفقاء صحابہ کا قیام مکہ میں دس دن اس طرح رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں ذی الحجہ کی چار تاریخ کو پہنچے تھے اور ارکان حج وغیرہ سے فراغت کے بعد چودہویں ذی الحجہ کی صبح کو وہاں سے مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت سفر میں کسی جگہ دس دن ٹھہرنے سے کوئی آدمی مقیم نہیں ہوتا اس کے لیے قصر نماز پڑھنی جائز ہے جب کہ یہ حدیث بظاہر حضرت امام شافعی کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگر کوئی آدمی کہیں چار دن سے زیادہ ٹھہرے گا تو پھر اس کے لئے قصر جائز نہیں اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہو گی اس کی پوری تفصیل اگلی حدیث میں آ رہی ہے۔ 

 

مدت اقامت

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (کہیں) سفر پر تشریف لے گئے اور وہاں انیس دن قیام فرمایا (دوران قیام) آپ صلی اللہ علیہ و سلم دو دو رکعتیں نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ بھی جب مکہ اور اپنے (یعنی مدینہ) کے درمیان کہیں انیس دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعتیں نماز پڑھتے ہیں اور جب اس سے زیادہ ٹھہرتے ہیں تو چار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 فاقام تسعۃ عشر یوما کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انیس دن بغیر اقامت کے اس طرح ٹھہرے کہ امروز فردا میں وہاں سے روانہ ہو جانے کا ارادہ فرماتے رہے مگر بلا قصد و ارادہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قیام وہاں انیس دن ہو گیا۔ مگر اس سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کہیں انیس دن ٹھہر جائے تو وہ قصر نماز پڑھ سکتا ہے۔ ہاں انیس دن بعد اس کے لیے قصر جائز نہیں ہو گا اس مسئلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس منفرد ہیں اور کسی کا بھی یہ مسلک نہیں ہے۔

مدت اقامت کے سلسلے میں ابتداء باب میں تفصیل کے ساتھ مسئلہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اس موقع پر پھر جان لیجئے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کسی جگہ پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تو اس کے لیے قصر جائز نہیں ہے بلکہ وہ پوری نماز پڑھے اور اگر کوئی آدمی پندرہ دن یا پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قصر نماز پڑھے بلکہ اگر وہ اقامت کی نیت نہ کرے اور آج کل میں وہاں سے روانہ ہونے کا ارادہ کرتا رہے اور اس طرح بلا قصد ارادہ اس کے قیام کا سلسلہ برسوں تک بھی دراز ہو جائے تب بھی وہ قصر نماز پڑھتا رہے امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہی مسئلہ جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت عبداللہ ابن عمر وغیرہ سے نقل کیا ہے۔

حضرت امام محمد نے کتاب الآثار میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر آزربائیجان میں چھ مہینے اس طرح ٹھہرے رہے کہ آج کل میں وہاں سے چلنے کا ارادہ کرتے رہے مگر بلا قصد و ارادہ ان کا قیام اس قدر طویل ہو گیا چنانچہ وہ اس مدت میں برابر قصر نماز پڑھتے رہے اس موقع پر دیگر صحابہ بھی ان کے ہمراہ تھے اسی طرح حضرت انس بھی مروان کے بیٹے عبدالملک کے ہمراہ شام میں دو مہینے تک بلا قصد ارادہ ٹھہرے رہے اور وہاں دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔

اس مسئلے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی جگہ علاوہ دو دن آنے اور جانے کے چار روز سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ مقیم ہو جاتا ہے اس کے لیے قصر جائز نہیں ہے وہ پوری نماز پڑھے اسی طرح اقامت کی نیت کے بغیر امروز و فردا میں چلنے کا ارادہ کرتے کرتے بلا قصد وارادہ اٹھارہ دن سے زیادہ ٹھہر جائے تو تب بھی اس کے لیے قصر جائز نہیں ہو گا وہ پوری نماز پڑھے امام شافعی کی فقہ میں یہی معتمد اور صحیح قول ہے۔ 

مسافر حالت سفر میں اگر نفل نہ پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں

اور حضرت حفص ابن عاصم فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) مکہ اور مدینہ کے درمیان راستے میں مجھے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا (جب وقت ہو گیا تو) انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعت پڑھائیں اور اس کے بعد جب وہ اپنے خیمے میں واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ کھڑے ہوئے ہیں انہوں نے پوچھا کہ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ نفل پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر مجھے نفل نماز پڑھنی ہوتی تو میں اپنی فرض نماز پوری نہ پڑھتا (یعنی اگر یہ موقع نفل نماز پڑھنے کا ہوتا تو فرض نمازیں پوری پڑھنی زیادہ اہم ہوتیں مگر جب آسانی کے پیش نظر فرض نماز کو قصر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے تو نفل نماز کو ترک کرنا ہی اولیٰ ہو گا کیونکہ فرض کو اداء کرنا نفل پڑھنے سے اولیٰ ہے) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سفر کی حالت میں دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، نیز مجھے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رفاقت کا شرف بھی حاصل ہے ان حضرات میں بھی یہی معمول ہوتا ہے (کہ سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔

 

تشریح

 

 حضرت ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ حالت سفر میں نفل نہ پڑھے جائیں۔ سنت راتبہ نمازوں کا حکم دوسری فصل میں انشاء اللہ مذکور ہو گا۔ 

جمع بین الصلوٰتین

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر میں ہوتے تو ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھتے تھے اور (اسی طرح) مغرب و عشاء کی نماز (بھی) ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 حضرات شوافع نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم کو اپنا مستدل بناتے ہوئے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ سفر کی حالت میں جمع بین الصلوٰتین یعنی ظہر و عصر کی نماز ایک ہی وقت میں ایک ساتھ پڑھ لینا جائز ہے خواہ عصر کی نماز ظہر کے وقت پڑھ لی جائے خواہ ظہر کی عصر کے وقت اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کو بھی ایک ساتھ پڑھ لینا جائز ہے چاہے مغرب کے وقت عشاء کی نماز پڑھ لی جائے اور چاہے عشاء کی نماز مغرب کے وقت۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چونکہ جمع بین الصلوٰتین جائز نہیں ہے اس لیے ان کی طرف سے اس حدیث کی جو شوافع کی سب سے بڑی مستدل ہے یہ تاویل کی ہے کہ یہ حدیث جمع صوری پر محمول ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ اس طرح پڑھتے تھے کہ ظہر کو تو اس کے بالکل آخری وقت پڑھتے اور عصر کی نماز اس کے بالکل ابتدائی وقت میں ادا فرماتے۔ لہٰذا ظاہری صورت کے اعتبار سے تو یہ جمع بین الصلوٰتین ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھیں لیکن حقیقت میں دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں پڑھی جاتی تھیں اسی طرح مغرب کی نماز تاخیر سے بالکل آخری وقت میں پڑھتے اور عشاء کی نماز ابتدائی وقت میں ادا فرماتے۔ 

 

جمع بین الصلوٰتین

٭٭ اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک میں (اسی طرح عمل فرماتے تھے) کہ جب کوچ کرنے سے پہلے دوپہر ڈھل جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھ لیتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہی کوچ فرماتے تو ظہر کی نماز میں تاخیر فرماتے اور عصر کے لیے اترتے (یعنی ظہر و عصر دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھتے) مغرب کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتے اور اگر آفتاب غروب ہونے سے پہلے ہی کوچ فرماتے تو نماز مغرب میں تاخیر فرماتے یہاں تک کہ عشاء کی نماز کے لیے اترتے اور (اس وقت) دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے شوافع نے جمع بین الصلوٰتین کے سلسلے میں جمع تقدیم و جمع تاخیر ثابت کی ہے اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ ان کے نزدیک سفر میں دو نمازوں کو ایک ایک ساتھ پڑھ لینا جائز ہے اور ان دونوں نمازوں کو ان میں سے کسی ایک وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

حنفیہ کے ہاں چونکہ جمع بین الصلوٰتین جائز نہیں ہے اس لیے وہ اس سلسلے میں ابوداؤد کا قول نقل کرتے ہیں کہ  وقت سے پہلے ہی نماز پڑھ لینے کے سلسلے میں کوئی بھی حدیث قوی ثابت نہیں ہے۔

گویا ابوداؤد کا یہ قول اس حدیث کے ضعیف ہونے پر دلیل ہے پھر یہ کہ حنفیہ کی دلیل صحیح البخاری و صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو حضرات عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی بھی نماز غیر مقرر وقت میں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں کے تعارض کی شکل میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہی راحج ہو گی۔ کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے تفقہ اور علم کی زیادتی اور روایت حدیث کے سلسلے میں احتیاط پسندی میں سب سے ممتاز ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی روایت کردہ حدیث سب سے زیادہ صحیح اور معتمد ہو گی۔ 

سواری پر نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر میں ہوتے تو رات کی نماز علاوہ فرض نماز کے اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے اور سواری کا منہ جس سمت ہوتا اسی سمت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی منہ ہوتا نیز نماز وتر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سواری ہی پر پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

 حَیْثُ تَوَجَّھْتُ بِہٖ کا مطلب یہ ہے کہ کہ جدھر سواری کا منہ ہوتا (ادھر ہی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی منہ کئے ہوئے نماز پڑھتے رہتے تھے لیکن تکبیر تحریمہ کے وقت اپنا روئے مبارک بہر صورت قبلے ہی کی طرف رکھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معلوم ہو گا اشارے سے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرتے تھے نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کا جو اشارہ کرتے وہ رکوع کے اشارے سے پست ہوتا تھا۔

اس حدیث سے دو مسئلے مستنبط ہوتے ہیں اول تو یہ کہ سواری پر نفل نماز پڑھنی جائز ہے لیکن فرض نہیں اس حدیث میں اگرچہ رات کی نماز کا ذکر کیا گیا ہے لیکن دوسری روایتوں میں عام نفل نمازوں کا ذکر موجود ہے لہٰذا یہ حکم سنت موکدہ اور اس کے علاوہ دیگر سنن و نوافل نمازوں کو بھی شامل ہے مگر حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک روایت میں ثابت ہے کہ فجر کی سنتوں کے لیے سواری سے اتر جانا مستحب ہے بلکہ ایک دوسری روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی سنتوں کو سواری سے اتر کر پڑھنا واجب ہے۔ اسی لیے اس نماز کو بغیر کسی عذر کے بیٹھے بیٹھے پڑھنا جائز نہیں ہے فرض نماز سواری پر پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن مندرجہ ذیل اعذار کی صورت میں فرض نماز بھی سواری پر پڑھ لینا جائز ہے۔

(١) کوئی آدمی جنگل میں ہو اور اپنے مال یا اپنی جان کی ہلاکت کا خوف غالب ہو مثلاً یہ ڈر ہو کہ اگر سواری سے اتر کر نماز پڑھنے لگوں گا تو کوئی چور یا راہزن مال و اسباب لے کر چلتا بنے گا یا کوئی درندہ نقصان پہنچائے گا یا قافلے سے بچھڑ جاؤں گا یا راستہ بھول جاؤں (٢) سواری میں کوئی ایسا سرکش جانور ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس پر اترنے کے بعد پھر چڑھنا ممکن نہ ہو۔ (٣) نماز پڑھنے والا اتنا ضعیف اور بوڑھا ہو کہ خود نہ تو سواری سے اتر سکتا ہو اور سواری پر چڑھنے پر قادر ہو اور نہ کوئی ایسا آدمی پاس موجود ہو جو سواری سے اتار سکے اور اس پر چڑھا سکے۔ (٤) زمین پر اتنا کیچڑ ہو کہ اس پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہے۔ (٥) یا بارش کا عذر ہو۔

بہر حال ان صورتوں میں فرض نماز بھی سواری پر پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ اعذار اور ضرورتیں شرعی و قواعد و قوانین سے مستثنیٰ ہوتی ہیں۔

جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس عمل کا تعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی نماز بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے تو اس کے بارے میں امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پہلے نماز وتر کے حکم کی تاکید کے پیش نظر اور اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے سواری پر وتر کی نماز پڑھ لیتے تھے مگر جب لوگوں کے ذہن میں اس نماز کی تاکید و اہمیت بیٹھ گئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اتنی تاکید فرما دی کہ اس کے چھوڑنے کو روا نہیں رکھا تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی نماز بھی سواری سے اتر کر زمین پر پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح کرتے تھے حضرت امام محمد نے اپنی کتاب  مؤطا  میں صحابہ و تابعین کے ایسے بہت آثار نقل کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرات وتر کی نماز پڑھنے کے لیے اپنی سواریوں سے اتر جاتے تھے۔

علامہ شمنی فرماتے ہیں کہ  نماز فرض کی طرح جنازہ کی نماز، منت مانی ہوئی نماز نذر اور وہ سجدہ تلاوت کہ جس کی آیت سجدہ کی تلاوت زمین پر کی گئی سواری پر جائز نہیں ہے۔

حدیث سے دوسرا مسئلہ یہ مستنبط ہوتا ہے کہ سواری پر نماز پڑھنا سفر کے ساتھ مشروط ہے چنانچہ ائمہ جمہور کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ و حضرت امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا محقق اور صحیح مسلک یہ ہے کہ  سواری پر نماز کا جواز نمازی کے شہر سے باہر ہونے کے ساتھ مشروط ہے خواہ مسافر ہو یا نہ ہو، چنانچہ اگر کوئی مسافر بھی شہر کے اندر ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے لیے سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک جائز ہے اگرچہ مکروہ ان کے نزدیک بھی ہے حضرت امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ مسافر شہر کے اندر بھی سواری پر نفل پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اب اس کے بعد اس میں اختلاف ہے کہ شہر سے کتنے فاصلے پر ہونے کی صورت میں سواری پر نماز پڑھنا جائز ہے چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک کم سے کم دو فرسخ (چھ میل) شہر سے باہر ہونا ضروری ہے بعض حضرات نے تین فرسخ اور بعض حضرات نے ایک کوس متعین کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ شہر و آبادی کے مکانات سے باہر ہوتے ہی سواری پر نماز نفل پڑھنا جائز ہے جیسا کہ قصر نماز کے جواز کے سلسلے میں قاعدہ ہے۔ 

سواری پر نماز پڑھنا

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر کرتے (یعنی شہر سے باہر نکلتے خواہ مسافر ہوتے یا مقیم) اور نماز نفل پڑھتے کا ارادہ فرماتے تو اپنی اونٹنی کا منہ قبلے کی طرف کرتے اور تکبیر تحریمہ کہتے، پھر جس طرف سواری منہ کرتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرف نماز پڑھتے رہتے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مذکورہ شکل میں قبلے کی طرف منہ کرنا شرط ہے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک فرض نماز میں تو شرط ہے مگر نفل نماز میں شرط نہیں ہے یعنی جو عذر (حدیث نمبر ٨ میں) ذکر کئے جا چکے ہیں ان کی وجہ سے اگر سواری پر فرض نماز پڑھی جائے تو قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہنی ضروری ہے۔ 

 

سواری پر نماز پڑھنا

٭٭ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے کسی کام سے (کہیں) بھیجا۔ جب میں واپس آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی سواری پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور سجدہ رکوع سے پست تر کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ رکوع و سجدہ دونوں اشارہ سے کرتے تھے، چنانچہ سجدے کے لیے تو زیادہ اور رکوع کے لیے کم جھکتے تھے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نماز قصر نہ پڑھنا

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کچھ کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (سفر کی حالت میں) کم رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور پوری بھی پڑھی ہیں۔ (شرح النسۃ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حالت سفر میں دونوں طریقوں پر عمل فرماتے تھے یعنی چار رکعت والی نماز کی دو رکعتیں بھی پڑھتے تھے اور پوری چار رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا عمل اسی حدیث پر ہے وہ فرماتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا بھی جائز ہے اور پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جب کہ حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نماز پڑھے گا تو وہ گنہگار ہو گا۔

یہ حدیث اگرچہ امام شافعی کی دلیل ہے لیکن اہل نظر کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے سلسلہ روایت میں ابراہیم بن یحییٰ کا نام بھی آتا ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف قرار دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے اور سفر کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوری نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے اور دارقطنی اور بیہقی وغیرہ نے جو روایت نقل کی ہے جس سے حالت سفر میں اتمام اور قصر دونوں کا جواز ثابت ہوتا ہے بلکہ دار قطنی نے اس کی صراحت بھی کی ہے کہ اس کی سند صحیح ہے تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا تعلق حکم اول سے ہو گا یعنی ابتداء میں تو اتمام اور قصر دونوں جائز تھے۔ مگر بعد میں قصر ہی کو ضروری قرار دیدیا گیا۔

یہاں حضرت عائشہ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ حدیث کے پہلے جزء کا تعلق تو ان نمازوں سے ہے جن میں قصر کیا جاتا ہے مثلاً چار رکعتوں والی نماز اور دوسرے جز کا تعلق ان نمازوں سے ہے جن میں قصر ہوتا ہی نہیں جیسے تین یا دو رکعتوں والی نماز یعنی چار رکعتوں والی نماز میں تو قصر کرتے تھے اور تین و دو رکعتوں والی نماز کو پورا کر کے پڑھتے تھے اسی مفہوم کو مراد لینے سے ظاہری معنی و مفہوم سے زیادہ دور جانا نہیں پڑتا کیونکہ قصر و اتمام دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مفہوم ہو جاتے ہیں اور یہ تو جیہ بہت مناسب اور قریب از حقیقت ہے۔

بلا قصد و ارادہ پندرہ دن سے زیادہ قیام کی صورت میں قصر جائز ہے

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نماز قصر نہ پڑھنا

٭٭ اور حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ غزوات میں شامل ہوا ہوں چنانچہ فتح مکہ میں (بھی) میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اس موقع پر) مکہ میں اٹھارہ راتیں مقیم رہے اور (چار رکعتوں کی نماز) دو رکعت پڑھتے رہے اور یہ فرما دیا کرتے تھے کہ اے اہل شہر تم لوگ چار رکعت نماز پڑھو میں مسافر ہوں۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 پہلے بتایا جا چکا ہے کہ کسی جگہ بلا قصد و ارادہ پندرہ روز سے زیادہ بھی قیام کی صورت میں مسافر نماز قصر پڑھ سکتا ہے چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قیام اٹھارہ راتیں رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آج کل میں وہاں سے روانگی کا پروگرام بناتے رہے مگر قیام بغیر قصد و ارادہ کے اتنا طویل ہو گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قصر نماز پڑھتے رہے چونکہ مکہ کے قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی امامت فرماتے تھے۔ اس لیے آپ اپنی دو رکعتیں پوری کر کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کو فرما دیا کرتے تھے کہ اہل شہر چار رکعت نماز پوری کرو میں مسافر ہوں چنانچہ مسافر امام کے لیے مقیم مقتدیوں کو اس طرح مطلع کر دینا مستحب ہے۔

اسی حدیث سے معلوم ہو گیا کہ اگر مقیم مسافر کی اقتداء کرے تو اس کے لیے چار رکعت نماز پوری پڑھنی ضروری ہے امام کی متابعت میں دو رکعتیں ہی پڑھنی جائز نہیں ہے ہاں اگر مسافر مقیم کی اقتداء کرے تو اس کو متابعت کے پیش نظر چار رکعتیں ہی پڑھنی چاہیے۔ 

قصر صرف چار رکعتوں والی نمازوں ہی میں جائز ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سفر کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ظہر کی دو رکعتیں اور اس کے بعد (یعنی سنت کی) دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں بھی نماز پڑھی ہے اور شہر (یعنی حضر) میں بھی، چنانچہ میں نے شہر میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ظہر کی چار رکعتیں اور اس کے بعد (سنت کی) دو رکعتیں پڑھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس نماز میں سفر و شہر میں کوئی (زیادتی) نہیں کرتے تھے اور مغرب ہی کی نماز دن کے وتر (کہلاتے) ہیں اور اس کے بعد (سنت کی) دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوئی کہ سفر کی حالت میں قصر ان ہی نمازوں میں جائز ہے جو چار رکعتوں والی ہیں جیسے ظہر، عصر اور عشاء جو نماز چار رکعت والی نہیں ہیں جیسے مغرب اور فجر ان میں قصر جائز نہیں ہے۔ یہ نمازیں جس طرح حضر میں پڑھی جاتی ہیں اسی طرح انہیں سفر میں پڑھنا چاہیے۔

وھی وتر النھار کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح نماز وتر رات کے وتر ہیں اسی طرح مغرب کی نماز دن کے وتر ہیں گویا اس قول سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ وتر کی نماز ایک سلام کے ساتھ تین رکعتیں ہیں۔

ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ  یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سنت مؤکدہ حضر کی طرح سفر میں پڑھنی چاہیے۔ مگر حنفیہ کے ہاں معتمد اور صحیح قول یہ ہے کہ جب مسافر کسی جگہ منزل کرے تو وہاں سنتیں پڑھ لے مگر راستے میں چھوڑ دے نہ پڑھے۔ 

حضرت عثمان کا منیٰ میں قصر نہ کرنا

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منیٰ میں (چار رکعتوں والی نماز کی) دو رکعت نماز پڑھی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے بھی دو رکعت نماز پڑھی ہے ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دو رکعت پڑھی ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ابتدائے خلافت میں تو دو ہی رکعت پڑھی ہے لیکن بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب امام (یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ) نماز پڑھتے تھے تو چار رکعتیں پڑھتے تھے اور جب اکیلے (یعنی سفر میں) نماز پڑھتے تو دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اپنے زمانہ خلافت میں حضرت ابوبکر و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج کے لیے سفر کرتے اور منیٰ میں پہنچتے تو وہاں بھی مسافرانہ نماز (یعنی قصر نماز) پڑھتے تھے۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے ابتدائی زمانے میں تو دو ہی رکعت نماز پڑھی ہے مگر بعد میں وہ چار رکعت نماز پڑھنے لگے تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کے بارے میں کئی سبب نقل کئے جاتے ہیں چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ وہ مکہ میں متاہل تھے اس کی تائید امام احمد کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ  حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا، انہوں نے فرمایا کہ لوگو! میں مکہ میں متاہل یعنی قبیلہ دار ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جو آدمی کسی شہر میں متاہل ہو تو وہ مقیم کی طرح نماز پڑھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل پر لوگوں کی حیرت اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر میں پوری نماز نہیں پڑھتے تھے اور یہ کہ حالت سفر میں قصر لازم ہے ورنہ لوگ حیرت کا اظہار کیوں کرتے۔

حضرت عثمان کے اس عمل کی ایک دوسری توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موسم حج میں بہت زیادہ مسلمان منیٰ میں جمع ہوتے تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو نو مسلم تھے اور دین کے احکام پوری طرح نہیں جانتے تھے اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو دکھانے کے لیے چار رکعتیں پڑھتے تھے تاکہ ناواقف مسلمان جان لیں کہ نماز کی چار رکعتیں ہیں اگر قصر کرتے اور دو رکعت پڑھتے تو وہ لوگ یہ جانتے کہ دو ہی رکعتیں فرض ہیں۔

یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آخر میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رائے کے مطابق ہو گیا تھا کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نزدیک سفر میں قصر اور اتمام دونوں ہی جائز تھے۔ 

قصر رخصت سے زیادہ عزیمت ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا (ابتداء سفر و حضر میں) نماز کی دو ہی رکعتیں فرض ہوئی تھیں پھر سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت فرمائی تو (مقیم کے لیے) چار رکعتیں فرض قرار دیدی گئیں اور حالت سفر میں پہلی ہی دو رکعتیں فرض رہیں۔ زہری فرماتے ہیں کہ میں نے عروہ سے عرض کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیا ہوا کہ وہ سفر میں پوری (چار رکعتیں) نماز پڑھتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا وہ بھی ایسی تاویل کرتی ہیں جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاویل کی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں نماز کی دو دو رکعتیں فرض کی گئی تھیں لیکن بعد میں ظہر، عصر و عشاء کی چار چار رکعتیں فرض قرار دیدی گئیں۔ البتہ مغرب کی نماز کو پہلے ہی حکم پر قائم رکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سفر کی حالت میں چار رکعتیں والی نماز کی دو رکعتیں پڑھنا چار رکعتیں مشروع ہونے کے بعد رخصت نہیں ہے بلکہ اصل میں مشروع ہی چونکہ دو رکعتیں ہیں اس لیے قصر عزیمت یعنی لازم ہے نہ کہ رخصت جس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کا جی چاہے قصر کرے اور جس کا جی چاہے پوری نماز پڑھے۔ چنانچہ اس سے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے لہٰذا اگر کوئی حالت سفر میں جب کہ اس پر قصر لازم ہو۔ پوری چار رکعتیں اس طرح پڑھے گا کہ پہلے قعدے میں نہ بیٹھے گا کہ حکما وہی قعدہ اخیر ہے تو اس کی فرض نماز باطل ہو جائے گی۔

حدیث کے آخر الفاظ تاولت کما تاول عثمان کا مطلب یہ ہے جس طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفر کی حالت میں چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور اپنے اس عمل کی تاویل کرتے تھے اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سفر میں چار رکعت نماز پڑھتی تھیں اور اپنے اس عمل کی تاویل کرتی تھیں اب سوال یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی اور رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں کی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تاویل کیا تھی؟

تو علماء لکھتے ہیں کہ اس تاویل کے بارے میں صحیح قول یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت عثمان و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں ہی سفر کی حالت میں قصر و اتمام دونوں طرح جائز سمجھتے تھے۔ 

قصر اللہ کا حکم ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ، نے تمہارے نبی سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی حضر میں چار رکعتیں فرض کی ہیں۔ اور سفر میں دو رکعتیں اور خوف کی حالت میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 وفی السفر رکعتین حنفیہ کی مسلک کی صریح دلیل ہے کہ سفر کی حالت میں دو ہی رکعتیں پڑھی جائیں پوری نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔

وفی الخوف رکعۃ (خوف کی حالت میں ایک رکعت فرض ہے) اس کے ظاہری مفہوم پر علماء سلف میں سے ایک جماعت نے عمل کیا ہے جس میں حسن بصری اور اسحٰق بھی شامل ہیں لیکن جمہور علماء فرماتے ہیں کہ نماز کی رکعتوں کے اعتبار سے امن اور خوف کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے جتنی رکعتیں حالت امن میں پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی رکعتیں خوف کی حالت میں بھی پڑھنی چاہئیں ان کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دو گانہ حقیقی یا حکمی امام کے ساتھ پڑھنے کے سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ ایک رکعت تو امام کے ساتھ پڑھی جائے اور ایک رکعت تنہا پڑھی جائے جیسا کہ خوف کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام سے نماز پڑھنے کا طریقہ احادیث صحیحہ میں ثابت ہے۔ اور شہر میں مطلقاً خوف کی حالت میں چار رکعتیں اور تین رکعتیں اس طرح پڑھی جائیں کہ امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی جائیں اور بقیہ تنہا پڑھی جائیں۔ اس کی تفصیل صلوٰۃ الخوف کے باب میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ 

قصر قرآن و سنت سے ثابت ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس و حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سفر کی نماز کے لیے دو رکعتیں مقرر کی ہیں اور وہ ناقص نہیں ہیں پوری ہیں اور سفر میں وتر سنت ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 سفر کی حالت میں قصر نماز پڑھنا تو قرآن کریم سے ثابت ہے لہٰذا حدیث کے الفاظ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اپنے قول و فعل سے واضح کیا ہے۔

وھما تمام غیر قصر (اور وہ ناقص نہیں ہیں پوری ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ سفر کی نماز کے لیے مشروع ہی دو رکعتیں ہیں نہ یہ کہ پہلے چار رکعتیں مشروع تھیں پھر بعد میں دو رکعتیں کم کر دی گئی ہیں۔

اور وتر سفر میں سنت ہے۔ یعنی سفر میں نماز وتر پڑھنا سنت سے ثابت ہے یا یہ کہ سفر کی حالت میں نماز وتر پڑھنا اسلام کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے یہ مفہوم و جوب وتر کے منافی نہیں ہو گا۔ کیونکہ نماز وتر جس طرح حضر میں واجب ہے اسی طرح سفر میں بھی واجب ہے۔ 

مسافت قصر کی حد

اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ راوی ہیں کہ ان کو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں خبر پہنچی ہے کہ وہ (یعنی حضرت عبداللہ ابن عباس) اس مسافت کے دوران جو مکہ اور طائف مکہ اور عسفان مکہ اور جدہ کے درمیان ہے قصر نماز پڑھتے تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مسافت چار برید ہے۔ (مؤطا)

 

تشریح

 

 چار برید سولہ فرسخ کے برابر ہیں، ایک فرسخ تین میل کو کہتے ہیں ایک میل (محد ثین کے ہاں) چار ہزار ہاتھ کی مسافت کو کہتے ہیں۔ اس طرح چار برید اڑتالیس میل کی مسافت ہوئی۔ اگر ایک منزل کو بارے میل کی مسافت مانی جائے تو چار برید کی چار منزلیں ہوئیں۔

بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جن تین مسافتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یکساں ہوں یعنی جتنی مسافت مکہ اور طائف کے درمیان ہو اتنی ہی مسافت مکہ اور عسفان کے درمیان ہو اسی طرح جتنی مسافتیں ان دونوں کی الگ الگ ہو اتنی ہی مسافت مکہ اور جدہ کے درمیان ہو۔ حالانکہ حقیقت میں یہ تینوں مسافت برابر نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ حضرت امام مالک کے قول ذلک اربعۃ برید (یہ مسافت چار برید ہے) کا تعلق آخری مسافت یعنی مکہ اور جدہ کے درمیان کی مسافت ہے کہ مکہ اور جدہ کا درمیانی فاصلہ چار برید ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عباس کے مذکورہ بالا فعل کے بارے علماء لکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں مسافت قصر کی کوئی حد بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ مطلقاً سفر ذکر کیا گیا ہے قصر نماز کے باب کی احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں جہاں بھی قصر نماز کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قصر نماز پڑھنے کو بیان کیا گیا ہے ان تمام مواقع کی مسافت میں فرق ہے بعض زیادہ کم ہیں اور بعض مسافتیں زیادہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابہ، تابعین اور آئمہ و علماء امت کی آسانی کے لیے اپنے اپنے اجتہاد کے ذریعے اور غور و فکر کے ساتھ مسافت قصر کی حد مقرر کی ہے کہ اس حد سے کم مسافت میں نماز قصر نہیں ہو گی بلکہ پوری ہی پڑھی جائے گی اور اس مسافت یا اس سے زائد مسافت کی صورت میں قصر واجب ہو گا۔

چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک روایت کے مطابق ایک روز کی مسافت اور دوسری روایت کے مطابق دو روز کی مسافت کو مقرر کیا ہے لیکن ان کے مسلک کی کتاب  حاوی میں سولہ فرسخ کا تعین کیا گیا ہے اور یہی مسلک حضرت امام مالک و حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا ہے۔

حضرت امام ابو حنیفہ نے مسافت قصر کے سلسلے میں تین منزلیں کی حد مقرر کی ہیں اور ایک منزل اتنی مسافت پر ہو کہ چھوٹے دنوں میں قافلہ صبح کو چل کر دو پہر کے بعد منزل پر پہنچ جائے۔

حضرت امام ابو یوسف دو روز اور تیسرے روز کے اکثر حصہ کی مسافت کو مسافت قصر قرار دیا ہے۔

اصحاب ظواہر (وہ جماعت جو صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل پیرا ہوتی ہے) نے مطلقاً سفر کا اعتبار کیا ہے یعنی ان کے نزدیک مسافت قصر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے خواہ سفر لمبا ہو یا چھوٹا ہو ہر صورت میں نماز قصر ادا کی جائے گی۔

اس سلسلے میں اگر چاروں ائمہ کے مسلک کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حقیقت اور نتیجے کے اعتبار سے سب کا یکساں ہی مسلک ہے کیونکہ حنفیہ کے نزدیک مشہور مسلک کے مطابق مسافت قصر (٤٨) میل مقرر ہے، حاوی قول کے مطابق شوافع کے ہاں سولہ فرسخ مقرر ہے اور سولہ فرسخ حساب کے اعتبار سے (٤٧) میل کے برابر ہے اسی طرح حضرت امام مالک و حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لہٰذا چاروں مسلک میں مسافت قصر (٤٨) میل ہوئی۔ وا اللہ اعلم

سفر میں نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ اٹھارہ دن سفر کا شرف حاصل رہا ہے میں نے اس دوران میں یہ کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زوال آفتاب کے بعد نماز ظہر سے پہلے دو رکعتیں چھوڑی ہوں۔ (ابوداؤد، ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے)

 

تشریح

 

 بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم زوال آفتاب کے بعد اور نماز ظہر سے پہلے دو رکعتیں فرض سے پہلے کی سنتیں پڑھتے ہوں گے اور سفر کی وجہ سے چار رکعتوں پر اکتفا کرتے ہوں گے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو رکعتیں تحیۃ الوضو کی ہوں۔ 

 

سفر میں نماز پڑھنے کا بیان

٭٭ اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے صاحبزادے حضرت عبید اللہ کو سفر کی حالت میں نفل پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے اور منع نہیں کرتے تھے۔ (مالک)

 

فائدہ

ہو سکتا ہے کہ حضرت عبید اللہ سنت مؤکدہ پڑھتے ہوں گے۔ یا یہ کہ وہ اس اعتقاد کے باوجود کہ سفر کی حالت میں نفل نماز کو چھوڑ دینا جائز ہے۔ اگر وقت میں وسعت دیکھتے ہوں گے، تو دوسرے نوافل پڑھنے لگتے ہوں گے۔ لہٰذا اس مفہوم کی صورت میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس روایت کو جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے قافلے کے لوگوں کو سفر میں نفل نماز پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔ (دیکھئے حدیث نمبر ٦٠) اس بات پر محمول کیا جائے کہ انہوں نے یہ گمان کیا ہو گا، کہ وظائف مثلاً نوافل وغیرہ اس قدر لازم ہیں کہ انہیں سفر کی حالت میں بھی نہ چھوڑنا چاہیے۔ حالانکہ ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ اس لیے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو نوافل پڑھنے سے روک کر ان کے اس گمان و خیال کی تردید فرمائی۔ کیونکہ اللہ جل شانہ تو اپنے فضل و کرم سے مسافر بندہ کے نامہ اعمال میں اس عمل کا ثواب بھی لکھتا ہے جو وہ از قسم عبادت حضر ہو یعنی اپنے گھر میں کرتا تھا۔ ورنہ تو جہاں تک نفس نماز کا تعلق ہے اس سے بہتر کون سی مشغولیت ہو سکتی ہے اور بغیر کسی وجہ کے اس کے پڑھنے سے کون روک سکتا ہے۔ جب کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود جانتے تھے کہ نماز سے روکنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

آیت (اَرَءَیتَ الَّذِی ینْهٰى   9  عَبْداً اِذَا صَلّٰى   10) 96۔ العلق:9)

 بھلا تم نے اس آدمی کو دیکھا جو منع کرتا ہے (یعنی) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے؟