حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسَدِيِّ حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
عبداللہ ابن بحینہ اسدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں کھڑے ہو گئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا، چنانچہ جب نماز پوری کر چکے تو سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری رضی الله عنہما دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے، ۴- اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ان کی رائے ہے کہ سجدہ سہو ہر صورت میں سلام سے پہلے ہے، اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آخر میں اسی پر رہا ہے، ۵- اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو وہ ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے، ۶- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں، ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں، ۷- سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، ۸- اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے، مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ وغیرہ کا اور یہی قول شافعی کا بھی ہے، ۹- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہی قول مالک بن انس کا ہے، ۱۰- اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر اور عصر میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے، اس پر اسی طرح عمل کرے، اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ ۱۱- اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔ مگر فرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل موجود نہ ہو تو اس میں اگر نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے کرے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۴۶ (۸۲۹) ، و۱۴۷ (۸۳۰) ، والسہو۱ (۱۲۲۵) ، و۵ (۱۲۳۰) ، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۷۰) ، صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۰) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۰۰ (۱۰۳۴) ، سنن النسائی/التطبیق ۱۰۶ (۱۱۷۸) ، والسہو ۲۸ (۱۲۶۲) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۳۱ (۱۲۰۶، ۱۲۰۷) ، (تحفة الأشراف : ۹۱۵۴) ، موطا امام مالک/الصلاة ۱۷ (۶۵) ، مسند احمد (۳۴۵۵، ۳۴۶) سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۶ (۱۵۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا "، فَقِيلَ لَهُ أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ، " فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پانچ رکعت پڑھی تو آپ سے پوچھا گیا: کیا نماز بڑھا دی گئی ہے؟ (یعنی چار کے بجائے پانچ رکعت کر دی گئی ہے) تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۳۱ (۴۰۱) ، و۳۲ (۴۰۴) ، والسہو ۲ (۱۲۲۶) ، والأیمان ۱۵ (۶۶۷۱) ، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۴۹) ، صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۲) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۹۶ (۱۰۱۹) ، سنن النسائی/السہو ۲۵ (۱۲۴۲) ، و۲۶ (۱۲۵۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۹ (۱۲۰۳) ، و۳۰ (۱۲۰۵) ، و۱۳۳ (۱۲۱۱) ، و۱۳۶ (۱۲۱۸) ، (تحفة الأشراف : ۹۴۱۱) ، مسند احمد (۱/۳۷۹، ۴۲۹، ۴۳۸، ۴۵۵) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۵ (۱۵۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَ الْكَلَامِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دونوں سجدے بات کرنے کے بعد کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۱؎، ۲- اس باب میں معاویہ، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۹۴۲۴) (صحیح)
وضاحت: ا؎ : یہ حکم نیچے والی حدیث میں موجود ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَجَدَهُمَا بَعْدَ السَّلَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ أَيُّوبُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ الظُّهْرَ خَمْسًا فَصَلَاتُهُ جَائِزَةٌ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ وَإِنْ لَمْ يَجْلِسْ فِي الرَّابِعَةِ، وَهُوَ قَوْلُ الشافعي، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا وَلَمْ يَقْعُدْ فِي الرَّابِعَةِ مِقْدَارَ التَّشَهُّدِ فَسَدَتْ صَلَاتُهُ، وَهُوَ قَوْلُ: سفيان الثوري وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دونوں سجدے سلام کے بعد کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- (ابوہریرہ رضی الله عنہ کی) یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ایوب اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابن سیرین سے روایت کیا ہے، ۳- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ظہر بھول کر پانچ رکعت پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہے وہ سہو کے دو سجدے کر لے اگرچہ وہ چوتھی (رکعت) میں نہ بیٹھا ہو، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۵- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے اور چوتھی رکعت میں نہ بیٹھا ہو تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ یہ قول سفیان ثوری اور بعض کوفیوں کا ہے ا؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم: ۳۹۹ (تحفة الأشراف : ۱۵۴۸) (صحیح)
وضاحت: ا؎ : سفیان ثوری ، اہل کوفہ اور ابوحنیفہ کا قول محض رائے پر مبنی ہے ، جب کہ ائمہ کرام مالک بن انس ، شافعی ، احمد بن حنبل اور بقول امام نووی سلف وخلف کے تمام جمہور علماء مذکور بالا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ والی صحیح حدیث کی بنیاد پر یہی فتویٰ دیتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں ، کہ اگر کوئی بھول کر اپنی نماز میں ایک رکعت اضافہ کر بیٹھے تو اس کی نماز نہ باطل ہو گی اور نہ ہی فاسد ، بلکہ سلام سے پہلے اگر یاد آ جائے تو سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کر لے اور اگر سلام کے بعد یاد آئے تو بھی سہو کے دو سجدے کر لے ، یہی اس کے لیے کافی ہے ، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا اور آپ نے کوئی اور رکعت پڑھ کر اس نماز کو جفت نہیں بنایا تھا۔ (دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی : ۱/۳۰۴طبع ملتا)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَشْعَثُ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى بِهِمْ فَسَهَا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ تَشَهَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ وَهُوَ عَمُّ أَبِي قِلَابَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍوَ، وَيُقَالُ أَيْضًا: مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍوَ، وَقَدْ رَوَىعَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَهُشَيْمٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ بِطُولِهِ، وَهُوَ حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَلَّمَ فِي ثَلَاثِ رَكَعَاتٍ مِنَ الْعَصْرِ، فَقَامَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْخِرْبَاقُ " وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي التَّشَهُّدِ فِي سَجْدَتَيِ السَّهْوِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَتَشَهَّدُ فِيهِمَا وَيُسَلِّمُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ فِيهِمَا تَشَهُّدٌ وَتَسْلِيمٌ وَإِذَا سَجَدَهُمَا قَبْلَ السَّلَامِ لَمْ يَتَشَهَّدْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَا: إِذَا سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ قَبْلَ السَّلَامِ لَمْ يَتَشَهَّدْ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی آپ سے سہو ہو گیا، تو آپ نے دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- عبد الوھاب ثقفی، ھشیم اور ان کے علاوہ کئی اور لوگوں نے بطریق: «خالد الحذاء عن أبي قلابة»یہ حدیث ذرا لمبے سیاق کے ساتھ روایت کی ہے، اور وہ یہی عمران بن حصین رضی الله عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر میں صرف تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ایک آدمی اٹھا جسے «خرباق» کہا جاتا تھا (اور اس نے پوچھا: کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے، یا آپ بھول گئے ہیں) ۳- سجدہ سہو کے تشہد کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھے گا اور سلام پھیرے گا۔ اور بعض کہتے کہ سجدہ سہو میں تشہد اور سلام نہیں ہے اور جب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے(اختلاف تو سلام کے بعد میں ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۰۲ (۱۰۳۹) ، سنن النسائی/السہو ۲۳ (۱۲۳۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۸۸۵) (شاذ) (حدیث میں تشہد کا تذکرہ شاذ ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِيَاضٍ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ أَحَدُنَا يُصَلِّي فَلَا يَدْرِي كَيْفَ صَلَّى، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلَمْ يَدْرِ كَيْفَ صَلَّى فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الْوَاحِدَةِ وَالثِّنْتَيْنِ فَلْيَجْعَلْهُمَا وَاحِدَةً وَإِذَا شَكَّ فِي الثِّنْتَيْنِ وَالثَّلَاثِ فَلْيَجْعَلْهُمَا ثِنْتَيْنِ وَيَسْجُدْ فِي ذَلِكَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ " وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا شَكَّ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى فَلْيُعِدْ.
عیاض یعنی ابن ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے کہا: ہم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں (یا وہ کیا کرے؟) تو ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی پڑھی ہے؟ تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے"۔ (یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد)
امام ترمذی کہتے ہیں: ا- ابوسعید رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عثمان، ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ وغیرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- یہ حدیث ابوسعید سے دیگر کئی سندوں سے بھی مروی ہے، ۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "جب تم سے کسی کو ایک اور دو میں شک ہو جائے تو اسے ایک ہی مانے اور جب دو اور تین میں شک ہو تو اسے دو مانے اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے"۔ اسی پر ہمارے اصحاب(محدثین) کا عمل ہے ۱؎ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب کسی کو اپنی نماز میں شبہ ہو جائے اور وہ نہ جان سکے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ تو وہ پھر سے لوٹائے۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۱۹۸ (۱۰۲۹) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۹ (۱۲۰۴) ، (تحفة الأشراف : ۴۳۹۶) ، مسند احمد (۳/۱۲، ۳۷، ۵۰، ۵۱، ۵۴) (صحیح) (ہلال بن عیاض یا عیاض بن ہلال مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : اور یہی راجح مسئلہ ہے۔ ۲؎ : یہ مرجوح قول ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْتِي أَحَدَكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَيَلْبِسُ عَلَيْهِ حَتَّى لَا يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ "قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کے پاس شیطان اس کی نماز میں آتا ہے اور اسے شبہ میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک آدمی نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ چنانچہ تم میں سے کسی کو اگر اس قسم کا شبہ محسوس ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۴ (۶۰۸) ، والعمل في الصلاة ۱۸ (۱۲۲۲) ، والسہو ۶ (۱۲۳۱) ، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۵) ، صحیح مسلم/الصلاة ۸ (۳۹) ، والمساجد ۱۹ (۵۷۰) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۹۸ (۱۰۳۰) ، سنن النسائی/الأذان ۳۰ (۶۷۱) ، والسہو ۲۵ (۱۲۵۳) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۳۵ (۱۲۱۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۲۳۹) ، مسند احمد (۲/۳۱۳، ۳۵۸، ۴۱۱، ۴۶۰، ۵۰۳، ۵۲۲، ۵۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا سَهَا أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ وَاحِدَةً صَلَّى أَوْ ثِنْتَيْنِ فَلْيَبْنِ عَلَى وَاحِدَةٍ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّى أَوْ ثَلَاثًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثِنْتَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثَلَاثًا صَلَّى أَوْ أَرْبَعًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثَلَاثٍ وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جب کوئی شخص نماز بھول جائے اور یہ نہ جان سکے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو؟ تو ایسی صورت میں اسے ایک مانے، اور اگر وہ یہ نہ جا سکے کہ اس نے دو پڑھی ہے یا تین تو ایسی صورت میں دو پر بنا کرے، اور اگر وہ یہ نہ جان سکے کہ اس نے تین پڑھی ہے یا چار تو تین پر بنا کرے، اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۳۲ (۱۲۰۹) ، (تحفة الأشراف : ۹۷۲۲) ، مسند احمد (۱/۱۹۰، ۱۹۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ وَهُوَ: أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ، فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَذِي الْيَدَيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ: إِذَا تَكَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلًا أَوْ مَا كَانَ فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلَاةَ، وَاعْتَلُّوا بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَرَأَى هَذَا حَدِيثًا صَحِيحًا، فَقَالَ بِهِ، وقَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي " الصَّائِمِ إِذَا أَكَلَ نَاسِيًا فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي وَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ "، قَالَ الشافعي: وَفَرَّقَ هَؤُلَاءِ بَيْنَ الْعَمْدِ وَالنِّسْيَانِ فِي أَكْلِ الصَّائِمِ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ: إِنْ تَكَلَّمَ الْإِمَامُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ قَدْ أَكْمَلَهَا ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يُكْمِلْهَا يُتِمُّ صَلَاتَهُ، وَمَنْ تَكَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنَ الصَّلَاةِ، فَعَلَيْهِ أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْفَرَائِضَ كَانَتْ تُزَادُ وَتُنْقَصُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ وَهُوَ عَلَى يَقِينٍ مِنْ صَلَاتِهِ أَنَّهَا تَمَّتْ، وَلَيْسَ هَكَذَا الْيَوْمَ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتَكَلَّمَ عَلَى مَعْنَى مَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ، لِأَنَّ الْفَرَائِضَ الْيَوْمَ لَا يُزَادُ فِيهَا وَلَا يُنْقَصُ، قَالَ أَحْمَدُ نَحْوًا مِنْ هَذَا الْكَلَامِ، وقَالَ إِسْحَاق نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي هَذَا الْبَابِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر یا عصر کی) دو رکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟" لوگوں نے عرض کیا: ہاں (آپ نے دو ہی رکعت پڑھی ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا، پھر اپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور سر اٹھایا، پھر اپنے اسی سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ (یعنی سجدہ سہو کیا)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمران بن حصین، ابن عمر، ذوالیدین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی نماز میں بھول کر یا لاعلمی میں یا کسی بھی وجہ سے بات کر بیٹھے تو اسے نئے سرے سے نماز دہرانی ہو گی۔ وہ اس حدیث میں مذکور واقعہ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے ۱؎، ۴-رہے امام شافعی تو انہوں نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے فتویٰ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اُس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو روزہ دار کے سلسلے میں مروی ہے کہ جب وہ بھول کر کھا لے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں، کیونکہ وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے روزہ دار کے قصداً اور بھول کر کھانے میں جو تفریق کی ہے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کی وجہ سے ہے، ۵- امام احمد ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر امام یہ سمجھ کر کہ اس کی نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کر لے پھر اسے معلوم ہو کہ اس کی نماز پوری نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنی نماز پوری کر لے، اور جو امام کے پیچھے مقتدی ہو اور بات کر لے اور یہ جانتا ہو کہ ابھی کچھ نماز اس کے ذمہ باقی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے دوبارہ پڑھے، انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرائض کم یا زیادہ کئے جا سکتے تھے۔ اور ذوالیدین رضی الله عنہ نے جو بات کی تھی تو وہ محض اس وجہ سے کہ انہیں یقین تھا کہ نماز کامل ہو چکی ہے اور اب کسی کے لیے اس طرح بات کرنا جائز نہیں جو ذوالیدین کے لیے جائز ہو گیا تھا، کیونکہ اب فرائض میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۱؎، ۶- احمد کا قول بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس باب میں احمد جیسی بات کہی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۸ (۴۸۲) ، والأذان ۶۹ (۷۱۴) ، والسہو ۳ (۱۲۲۷) ، و۴ (۱۲۲۸) ، و۸۵ (۱۳۶۷) ، والأدب ۴۵ (۶۰۵۱) ، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۵۰) ، صحیح مسلم/المساجد ۱۹ (۵۷۳) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۹۵ (۱۰۰۸) ، سنن النسائی/السہو ۲۲ (۱۲۲۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۳۴ (۱۲۱۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۴۴۹) ، مسند احمد (۲/۲۳۵، ۴۳۳، ۴۶۰) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۵ (۱۵۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس پر ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ، صرف یہ کمزور دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے سے پہلے کا ہے ، کیونکہ ذوالیدین رضی اللہ کا انتقال غزوہ بدر میں ہو گیا تھا ، اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا ، حالانکہ بدر میں ذوالشمالین رضی الله عنہ کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی ، نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ نے صاف صاف بیان کیا ہے کہ میں اس واقعہ میں تھا (جیسا کہ مسلم اور احمد کی روایت میں ہے) پس یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے کے بعد کا ہے۔ ۲؎ : یہ بات مبنی بر دلیل نہیں ہے اگر بات ایسی ہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرما دی ، اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع علیہ السلام (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہو اور آپ نہ بتائیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ ؟ قَالَ: نَعَمْ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، وَعَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَطَاءٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِي شَيْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
سعید بن یزید (ابو مسلمہ) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن ابی حبیبۃ، عبداللہ بن عمرو، عمرو بن حریث، شداد بن اوسثقفی، ابوہریرہ رضی الله عنہم اور عطاء سے بھی جو بنی شیبہ کے ایک فرد تھے احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۲۴ (۳۸۶) ، واللباس ۳۷ (۵۸۵۰) ، صحیح مسلم/المساجد ۱۴ (۵۵۵) ، سنن النسائی/القبلة ۲۴ (۷۷۶) ، (تحفة الأشراف : ۸۶۶) ، مسند احمد (۳/۱۰۰، ۱۶۶، ۱۸۹) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۰۳ (۱۴۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے ، علماء کہتے ہیں کہ اگر جوتوں میں نجاست نہ لگی ہو تو ان میں نماز یہودیوں کی مخالفت کے پیش نظر مستحب ہو گی ورنہ اسے رخصت پر محمول کیا جائے گا ، مساجد کی تحسین و طہارت کے پیش نظر جہاں دریاں ، قالین وغیرہ بچھے ہوں وہاں جوتے اُتار کر نماز پڑھنی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَقْنُتُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ وَالْمَغْرِبِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَخُفَافِ بْنِ أَيْمَاءَ بْنِ رَحْضَةَ الْغِفَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْقُنُوتَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: لَا يُقْنَتُ فِي الْفَجْرِ إِلَّا عِنْدَ نَازِلَةٍ تَنْزِلُ بِالْمُسْلِمِينَ، فَإِذَا نَزَلَتْ نَازِلَةٌ فَلِلْإِمَامِ أَنْ يَدْعُوَ لِجُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فجر اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- براء کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، انس، ابوہریرہ، ابن عباس، اور خفاف بن ایماء بن رحضہ غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- فجر میں قنوت پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے فجر میں قنوت پڑھنے کی ہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے، ۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ فجر میں قنوت نہ پڑھے، الا یہ کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوئی ہو تو ایسی صورت میں امام کو چاہیئے کہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے دعا کرے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۵۴ (۶۷۸) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۴۵ (۱۴۴۱) ، سنن النسائی/التطبیق ۲۹ (۱۰۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۸۲) ، مسند احمد (۴/۲۹۹) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۶ (۱۶۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے شوافع نے فجر میں قنوت پڑھنا ثابت کیا ہے اور برابر پڑھتے ہیں ، لیکن اس میں تو "مغرب" کا تذکرہ بھی ہے ، اس میں کیوں نہیں پڑھتے ؟ دراصل یہاں قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے جو بوقت مصیبت پڑھی جاتی ہے (اس سے مراد وتر والی قنوت نہیں ہے) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم بوقت مصیبت خاص طور پر فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے تھے ، بلکہ بقیہ نمازوں میں بھی پڑھتے تھے ، اور جب ضرورت ختم ہو جاتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي: يَا أَبَةِ إِنَّكَ قَدْ " صَلَّيْتَ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ هَا هُنَا بِالْكُوفَةِ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ سِنِينَ، أَكَانُوا يَقْنُتُونَ ؟ قَالَ: أَيْ بُنَيَّ مُحْدَثٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ سفيان الثوري: إِنْ قَنَتَ فِي الْفَجْرِ فَحَسَنٌ وَإِنْ لَمْ يَقْنُتْ فَحَسَنٌ، وَاخْتَارَ أَنْ لَا يَقْنُتَ، وَلَمْ يَرَ ابْنُ الْمُبَارَكِ الْقُنُوتَ فِي الْفَجْرِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُهُ: سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْيَمَ،
ابو مالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (طارق بن اشیم رضی الله عنہ) سے عرض کیا: ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور علی رضی الله عنہ کے پیچھے بھی یہاں کوفہ میں تقریباً پانچ برس تک پڑھی ہے، کیا یہ لوگ (برابر) قنوت (قنوت نازلہ) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے! یہ بدعت ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر فجر میں قنوت پڑھے تو بھی اچھا ہے اور اگر نہ پڑھے تو بھی اچھا ہے، ویسے انہوں نے پسند اسی بات کو کیا ہے کہ نہ پڑھے اور ابن مبارک فجر میں قنوت پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/التطبیق ۳۲ (۱۰۸۱) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۴ (۱۲۴۱) ، (تحفة الأشراف : ۴۹۷۶) ، مسند احمد (۳/۴۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : اس میں برابر پڑھنا مراد ہے نہ کہ مطلق پڑھنا بدعت مقصود ہے ، کیونکہ بوقت ضرورت قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ گزرا۔
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
ابوعوانہ نے ابو مالک اشجعی سے اسی سند سے اسی مفہوم کی اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ عَمِّ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسْتُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَقَالَ: " مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ ؟ " فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ: " مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ ؟ " فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ: " مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ " فَقَالَ رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ ابْنُ عَفْرَاءَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " كَيْفَ قُلْتَ ؟ " قَالَ: قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدِ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رِفَاعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ فِي التَّطَوُّعِ، لِأَنَّ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: إِذَا عَطَسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ إِنَّمَا يَحْمَدُ اللَّهَ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُوَسِّعُوا فِي أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، مجھے چھینک آئی تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» کہا جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھ کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: "نماز میں کون بول رہا تھا؟" تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ "نماز میں کون بول رہا تھا؟" اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ "نماز میں کون بول رہا تھا؟" رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول! آپ نے پوچھا: "تم نے کیا کہا تھا؟" انہوں نے کہا: یوں کہا تھا «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے کون لے کر آسمان پر چڑھے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رفاعہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں انس، وائل بن حجر اور عامر بن ربیعہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کے نزدیک یہ واقعہ نفل کا ہے ۱؎ اس لیے کہ تابعین میں سے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی فرض نماز میں چھینکے تو الحمدللہ اپنے جی میں کہے اس سے زیادہ کی ان لوگوں نے اجازت نہیں دی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۱۲۱ (۷۷۳) ، سنن النسائی/الافتتاح ۳۶ (۹۳۲) ، (تحفة الأشراف : ۳۶۰۶) ، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الأذان ۱۲۶ (۷۹۹) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ۱۲۱ (۷۷۰) ، وسنن النسائی/التطبیق ۲۲ (۱۰۶۳) ، وما/القرآن ۷ (۲۵) ، و مسند احمد (۴/۳۴۰) (صحیح) (سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں : «وأفاد بشر بن عمر الزهراي في روايته عن رفاعة بن يحيى أن تلك الصلاة كانت المغرب» (یہ مغرب تھی) یہ روایت ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جنہوں نے اسے نفل پر محمول کیا ہے۔ مگر دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی نے یہ الفاظ رکوع سے اٹھتے وقت کہے تھے اور اسی دوران انہیں چھینک بھی آئی تھی ، تمام روایات صحیحہ اور اس ضمن میں علماء کے اقوال کی جمع و تطبیق یہ ہے کہ اگر نماز میں چھینک آئے تو اونچی آواز سے "الحمد للہ" کہنے کی بجائے جی میں کہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: " كُنَّا نَتَكَلَّمُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، يُكَلِّمُ الرَّجُلُ مِنَّا صَاحِبَهُ إِلَى جَنْبِهِ حَتَّى نَزَلَتْوَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238 فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَمُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا تَكَلَّمَ الرَّجُلُ عَامِدًا فِي الصَّلَاةِ أَوْ نَاسِيًا أَعَادَ الصَّلَاةَ، وَهُوَ قَوْلُ: سفيان الثوري، وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا تَكَلَّمَ عَامِدًا فِي الصَّلَاةِ أَعَادَ الصَّلَاةَ وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلًا أَجْزَأَهُ، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «وقوموا لله قانتين» "اللہ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو" نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود اور معاویہ بن حکم رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں قصداً یا بھول کر گفتگو کر لے تو نماز دہرائے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ جب نماز میں قصداً گفتگو کرے تو نماز دہرائے اور اگر بھول سے یا لاعلمی میں گفتگو ہو جائے تو نماز کافی ہو گی، ۴- شافعی اسی کے قائل ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ۲ (۱۲۰۰) ، وتفسیر البقرة ۴۲ (۴۵۳۴) ، صحیح مسلم/المساجد ۷ (۵۳۹) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۷۸ (۹۴۹) ، سنن النسائی/السہو۲۰ (۱۲۲۰) ، (تحفة الأشراف : ۳۶۶۱) ، مسند احمد (۴/۳۶۸) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة برقم: ۲۹۸۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے ، بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ " بشرطیکہ تھوڑی ہو " ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کر پاتا ہے کہ اسے یاد آ جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللَّهُ مِنْهُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ، وَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍوَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ سورة آل عمران آية 135 "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَمُعَاذٍ، ووَاثِلَةَ، وَأَبِي الْيَسَرِ وَاسْمُهُ: كَعْبُ بْنُ عَمْرٍ وَقَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، وَرَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، فَرَفَعُوهُ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ، وَرَوَاهُ سفيان الثوري، وَمِسْعَرٌ فَأَوْقَفَاهُ وَلَمْ يَرْفَعَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مِسْعَرٍ هَذَا الْحَدِيثُ مَرْفُوعًا أَيْضًا، وَلَا نَعْرِفُ لِأَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ حَدِيثًا مَرْفُوعًا إِلَّا هَذَا.
اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے سنا: میں جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ اس سے مجھے نفع پہنچاتا، جتنا وہ پہنچانا چاہتا۔ اور جب آپ کے اصحاب میں سے کوئی آدمی مجھ سے بیان کرتا تو میں اس سے قسم لیتا۔ (کیا واقعی تم نے یہ حدیث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے خود سنی ہے؟) جب وہ میرے سامنے قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا، مجھ سے ابوبکر رضی الله عنہ نے بیان کیا اور ابوبکر رضی الله عنہ نے سچ بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "جو شخص گناہ کرتا ہے، پھر جا کر وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے، پھر اللہ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله فاستغفروا لذنوبهم ومن يغفر الذنوب إلا الله ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون» "اور جب ان سے کوئی ناشائستہ حرکت یا کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کو یاد کر کے فوراً استغفار کرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کون گناہ بخش سکتا ہے، اور وہ جان بوجھ کر کسی گناہ پر اڑے نہیں رہتے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے یعنی عثمان بن مغیرہ ہی کی سند سے جانتے ہیں، ۲- اور ان سے شعبہ اور دوسرے اور لوگوں نے بھی روایت کی ہے ان لوگوں نے اسے ابوعوانہ کی حدیث کی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اسے سفیان ثوری اور مسعر نے بھی روایت کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت موقوف ہے مرفوع نہیں اور مسعر سے یہ حدیث مرفوعاً بھی مروی ہے اور سوائے اس حدیث کے اسماء بن حکم کی کسی اور مرفوع حدیث کا ہمیں علم نہیں، ۳- اس باب میں ابن مسعود، ابو الدردائ، انس، ابوامامہ، معاذ، واثلہ، اور ابوالیسر کعب بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۶۱ (۱۵۲۱) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۹۳ (۱۳۹۵) ، (تحفة الأشراف : ۶۶۱۰) ، مسند احمد (۱/۲ویأتي عند المؤلف في تفسیر آل عمران برقم: ۳۰۰۶) (حسن)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيُّ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلَاةَ ابْنَ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا ابْنَ عَشْرٍ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَالَا: مَا تَرَكَ الْغُلَامُ بَعْدَ الْعَشْرِ مِنَ الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ يُعِيدُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَبْرَةُ هُوَ ابْنُ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيُّ، وَيُقَالُ هُوَ: ابْنُ عَوْسَجَةَ.
سبرہ بن معبد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "سات برس کے بچے کو نماز سکھاؤ، اور دس برس کے بچے کو نماز نہ پڑھنے پر مارو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سبرہ بن معبد جہنی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ "جو لڑکا دس برس کے ہو جانے کے بعد نماز چھوڑے وہ اس کی قضاء کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۶ (۴۹۴) ، (تحفة الأشراف : ۳۸۱۰) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴۱ (۱۴۷۱) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْمُلَقَّبُ مَرْدُوَيْهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ رَافِعٍ، وَبَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ أَخْبَرَاهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَحْدَثَ يَعْنِي الرَّجُلَ وَقَدْ جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَقَدْ جَازَتْ صَلَاتُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَقَدِ اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَادِهِ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، قَالُوا: إِذَا جَلَسَ مِقْدَارَ التَّشَهُّدِ وَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يَتَشَهَّدَ وَقَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ أَعَادَ الصَّلَاةَ، وَهُوَ قَوْلُ الشافعي، وقَالَ أَحْمَدُ: إِذَا لَمْ يَتَشَهَّدْ وَسَلَّمَ أَجْزَأَهُ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ وَالتَّشَهُّدُ أَهْوَنُ، قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَتَيْنِ فَمَضَى فِي صَلَاتِهِ وَلَمْ يَتَشَهَّدْ " وقَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ: إِذَا تَشَهَّدَ وَلَمْ يُسَلِّمْ أَجْزَأَهُ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ حِينَ عَلَّمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ، فَقَالَ: " إِذَا فَرَغْتَ مِنْ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ هُوَ الْأَفْرِيقِيُّ، وَقَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب آدمی کو سلام پھیرنے سے پہلے «حدث» لاحق ہو جائے اور وہ اپنی نماز کے بالکل آخر میں یعنی قعدہ اخیرہ میں بیٹھ چکا ہو تو اس کی نماز درست ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں، اس کی سند میں اضطراب ہے، ۲- عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم، جو افریقی ہیں کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں یحییٰ بن سعید قطان اور احمد بن حنبل بھی شامل ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی تشہد کی مقدار کے برابر بیٹھ چکا ہو اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے «حدث» لاحق ہو جائے تو پھر اس کی نماز پوری ہو گئی، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب «حدث» تشہد پڑھنے سے یا سلام پھیرنے سے پہلے لاحق ہو جائے تو نماز دہرائے۔ شافعی کا یہی قول ہے، ۵- اور احمد کہتے ہیں: جب وہ تشہد نہ پڑھے اور سلام پھیر دے تو اس کی نماز اسے کافی ہو جائے گی، اس لیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «وتحليلها التسليم» یعنی نماز میں جو چیزیں حرام ہوئی تھیں سلام پھیرنے ہی سے حلال ہوتی ہیں، بغیر سلام کے نماز سے نہیں نکلا جا سکتا اور تشہد اتنا اہم نہیں جتنا سلام ہے کہ اس کے ترک سے نماز درست نہ ہو گی، ایک بار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم دو رکعت کے بعد کھڑے ہو گئے اپنی نماز جاری رکھی اور تشہد نہیں کیا، ۶- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: جب تشہد کر لے اور سلام نہ پھیرا ہو تو نماز ہو گئی، انہوں نے ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں تشہد سکھایا تو فرمایا: جب تم اس سے فارغ ہو گئے تو تم نے اپنا فریضہ پورا کر لیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۷۴ (۶۱۷) ، (تحفة الأشراف : ۸۶۱۰، و۸۸۷۵) (ضعیف) (سند میں ’’ عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں، نیز یہ حدیث علی رضی الله عنہ کی صحیح حدیث ’’ تحريمها التكبير وتحليلها التسليم ‘‘ کے خلاف ہے)
وضاحت: ۱؎ : امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے کہ آدمی جب تشہد کے بعد بیٹھ چکا ہو اور اسے نماز کے آخر میں «حدث» ہو گیا یعنی اس کا وضو ٹوٹ گیا تو اس کی نماز ہو جائے گی ، لیکن یہ روایت ضعیف ہے استدلال کے قابل نہیں اور اگر صحیح ہو تو اسے سلام کی فرضیت سے پہلے پر محمول کیا جائے گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْجَابِرٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَصَابَنَا مَطَرٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَاءَ فَلْيُصَلِّ فِي رَحْلِهِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قال أبو عيسى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُعُودِ عَنِ الْجَمَاعَةِ وَالْجُمُعَةِ فِي الْمَطَرِ وَالطِّينِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ يَقُولُ: رَوَى عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا وقَالَ أَبُو زُرْعَةَ: لَمْ نَرَ بِالْبَصْرَةِ أَحْفَظَ مِنْ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، وَابْنِ الشَّاذَكُونِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ، وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُهُ: عَامِرٌ، وَيُقَالُ: زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بارش ہونے لگی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو چاہے اپنے ڈیرے میں ہی نماز پڑھ لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، سمرہ، ابولملیح عامر (جنہوں نے اپنے باپ اسامہ بن عمر ہذل سے روایت کی ہے) اور عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم نے بارش اور کیچڑ میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۳ (۶۹۸) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۱۴ (۱۰۶۵) ، (تحفة الأشراف : ۲۷۱۶) ، مسند احمد (۳/۳۱۲، ۳۲۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْخُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ الْفُقَرَاءُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْأَغْنِيَاءَ يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ وَلَهُمْ أَمْوَالٌ يُعْتِقُونَ وَيَتَصَدَّقُونَ، قَالَ: " فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَقُولُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً، وَاللَّهُ أَكْبَرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَشْرَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّكُمْ تُدْرِكُونَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَا يَسْبِقُكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي ذَرٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب أَيْضًا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْمُغِيرَةِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " خَصْلَتَانِ لَا يُحْصِيهِمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ: يُسَبِّحُ اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا، وَيَحْمَدُهُ عَشْرًا، وَيُكَبِّرُهُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ اللَّهَ عِنْدَ مَنَامِهِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَيَحْمَدُهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَيُكَبِّرُهُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کچھ فقیر و محتاج لوگ آئے اور کہا: اللہ کے رسول! مالدار نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں وہ روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں۔ ان کے پاس مال بھی ہے، اس سے وہ غلام آزاد کرتے اور صدقہ دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "جب تم نماز پڑھ چکو تو تینتیس مرتبہ "سبحان اللہ"، تینتیس مرتبہ "الحمد لله" اور تینتیس مرتبہ "الله أكبر" اور دس مرتبہ "لا إله إلا الله" کہہ لیا کرو، تو تم ان لوگوں کو پا لو گے جو تم پر سبقت لے گئے ہیں، اور جو تم سے پیچھے ہیں وہ تم پر سبقت نہ لے جا سکیں گے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں کعب بن عجرہ، انس، عبداللہ بن عمرو، زید بن ثابت، ابو الدرداء، ابن عمر اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، نیز اس باب میں ابوہریرہ اور مغیرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "دو عادتیں ہیں جنہیں جو بھی مسلمان آدمی بجا لائے گا جنت میں داخل ہو گا۔ ایک یہ کہ وہ ہر نماز کے بعد دس بار "سبحان الله"، دس بار "الحمد لله"، دس بار "الله أكبر" کہے، دوسرے یہ کہ وہ اپنے سوتے وقت تینتیس مرتبہ "سبحان الله"، تینتیس مرتبہ "الحمد لله" اور چونتیس مرتبہ "الله أكبر" کہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السہو ۹۵ (۱۳۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۶۰۶۸ و ۶۳۹۳) (ضعیف منکر) (دس بار ’’ لا إله إلا الله ‘‘ کا ذکر منکر ہے، منکر ہو نے کا سبب خصیف ہیں جو حافظے کے کمزور اور مختلط راوی ہیں، آخر میں ایک بار ’’ لا إله إلا الله ‘‘ کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت سے صحیح بخاری میں مروی ہے)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ، فَانْتَهَوْا إِلَى مَضِيقٍ وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَمُطِرُوا السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ " فَأَذَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَقَامَ أَوْ أَقَامَ فَتَقَدَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، تَفَرَّدَ بِهِ عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ، لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ صَلَّى فِي مَاءٍ وَطِينٍ عَلَى دَابَّتِهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
یعلیٰ بن مرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے، وہ ایک تنگ جگہ پہنچے تھے کہ نماز کا وقت آ گیا، اوپر سے بارش ہونے لگی، اور نیچے کیچڑ ہو گئی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی سواری ہی پر اذان دی اور اقامت کہی اور سواری ہی پر آگے بڑھے اور انہیں نماز پڑھائی، آپ اشارہ سے نماز پڑھتے تھے، سجدہ میں رکوع سے قدرے زیادہ جھکتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، عمر بن رماح بلخی اس کے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ یہ صرف انہیں کی سند سے جانی جاتی ہے۔ اور ان سے یہ حدیث اہل علم میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے، ۲- انس بن مالک سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے پانی اور کیچڑ میں اپنی سواری پر نماز پڑھی، ۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۸۵۱) (ضعیف الإسناد) (سند میں ’’ عمروبن عثمان ‘‘ مجہول الحال اور عثمان بن یعلی ‘‘ مجہول العین ہیں)
وضاحت: ۱؎ : جب ایسی صورت حال پیش آ جائے اور دوسری جگہ وقت کے اندر ملنے کا امکان نہ ہو تو نماز کا قضاء کرنے سے بہتر اس طرح سے نماز ادا کر لینا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَفَخَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ لَهُ: أَتَتَكَلَّفُ هَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: " أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیر سوج گئے تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۶، وتفسیر الفتح ۲ (۴۸۳۶) ، والرقاق ۲۰ (۶۴۷۱) ، صحیح مسلم/المنافقین ۱۸ (۲۸۲۰) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۷ (۱۶۴۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۲۰۰ (۱۴۱۹، ۱۴۲۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۴۹۸) ، مسند احمد (۴/۲۵۱، ۲۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھنے کا بیان۔ ۲؎ : تو جب بخشے بخشائے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بطور شکرانے کے زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھا کرتے تھے یعنی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاتے تھے تو ہم گنہگار امتیوں کو تو اپنے کو بخشوانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف مسنون اعمال کے ذریعے اور زیادہ دھیان دینا چاہیئے۔ البتہ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْحُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يَرْزُقَنِي جَلِيسًا صَالِحًا فَحَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَسَنِ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ حُرَيْثٍ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَالْمَشْهُورُ هُوَ قَبِيصَةُ بْنُ حُرَيْثٍ، وَرُوِي عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.
حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا: میں نے کہا: اے اللہ مجھے نیک اور صالح ساتھی نصیب فرما، چنانچہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس بیٹھنا میسر ہو گیا، میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے نیک ساتھی عطا فرما، تو آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جسے آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو، شاید اللہ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا، اور اگر اس کی فرض نمازوں میں کوئی کمی ۱؎ ہو گی تو رب تعالیٰ (فرشتوں سے) فرمائے گا: دیکھو، میرے اس بندے کے پاس کوئی نفل نماز ہے؟ چنانچہ فرض نماز کی کمی کی تلافی اس نفل سے کر دی جائے گی، پھر اسی انداز سے سارے اعمال کا محاسبہ ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث دیگر اور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے، ۳- حسن کے بعض تلامذہ نے حسن سے اور انہوں نے قبیصہ بن حریث سے اس حدیث کے علاوہ دوسری اور حدیثیں بھی روایت کی ہیں اور مشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے ۲؎، یہ حدیث بطریق: «أنس بن حكيم عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی روایت کی گئی ہے، ۴- اس باب میں تمیم داری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الصلاة ۹ (۴۶۶) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۲۰۲ (۱۴۲۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۳۹۳) ، مسند احمد (۲/۴۲۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ کمی خشوع خضوع اور اعتدال کی کمی بھی ہو سکتی ہے ، اور تعداد کی کمی بھی ہو سکتی ہے ، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے " دیگر سارے اعمال کا معاملہ بھی یہی ہو گا " تو زکاۃ میں کہاں خشوع خضوع کا معاملہ ہے ؟ وہاں تعداد ہی میں کمی ہو سکتی ہے ، اللہ کا فضل بڑا وسیع ہے ، عام طور پر نماز پڑھتے رہنے والے سے اگر کوئی نماز رہ گئی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ معاملہ فرما دے گا ، ان شاءاللہ۔ ۲؎ : یعنی : ان کے نام میں اختلاف ہے ، "قبیصہ بن حریث" بھی کہا گیا ہے ، اور "حریث بن قبیصہ " بھی کہا گیا ہے ، تو زیادہ مشہور "قبیصہ بن حریث" ہی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى 12: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بارہ رکعت سنت ۱؎ پر مداومت کرے گا اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے ۲؎، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سند میں مغیرہ بن زیاد پر بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے،۳- اس باب میں ام حبیبہ، ابوہریرہ، ابوموسیٰ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/قیام اللیل ۶۶ (۱۷۹۵، ۱۷۹۶) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۰ (۱۱۴۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۳۹۳) (صحیح) (تراجع الألبانی ۶۲۱)
وضاحت: ۱؎ : فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز کے ساتھ اس سے پہلے یا بعد میں جو سنت پڑھی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم وہ ہے جس پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مداومت فرمائی ہے ، انہیں سنت موکدہ یا سنن رواتب کہا جاتا ہے ، دوسری قسم وہ ہے جس پر آپ نے مداومت نہیں فرمائی ہے انہیں سنن غیر موکدہ کہا جاتا ہے ، سنن موکدہ کل ۱۲ رکعتیں ہیں ، جس کی تفصیل اس روایت میں ہے ، ان سنتوں کو گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ لیکن اگر گھر میں پڑھنا مشکل ہو جائے ، جیسے گھر کے لیے اٹھا رکھنے میں سرے سے بھول جانے کا خطرہ ہو تو مسجد ہی ادا کر لینی چاہیئے۔ ۲؎ : اس حدیث میں ظہر کے فرض سے پہلے چار رکعت کا ذکر ہے اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی روایت میں دو رکعت کا ذکر ہے ، تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ دونوں طرح سے جائز ہے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا عمل دونوں طرح سے تھا کبھی ایسا کرتے اور کبھی ویسا ، یا یہ بھی ممکن ہے کہ گھر میں دو رکعتیں پڑھ کر نکلتے اور مسجد میں پھر دو پڑھتے ، یا یہ بھی ہوتا ہو گا کہ گھر میں چار پڑھتے اور مسجد جا کر تحیۃ المسجد کے طور پر دو پڑھتے تو ابن عمر نے اس کو سنت مؤکدہ والی دو سمجھا ، ایک تطبیق یہ بھی ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کا بیان کردہ واقعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا اپنا فعل ہے (جو کبھی چار کا بھی ہوتا تھا) مگر عائشہ رضی الله عنہا اورام حبیبہ رضی الله عنہما کی یہ حدیث قولی ہے جو امت کے لیے ہے ، اور بہرحال چار میں ثواب زیادہ ہی ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص رات اور دن میں بارہ رکعت سنت پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عنبسہ کی حدیث جو ام حبیبہ رضی الله عنہا سے مروی ہے اس باب میں حسن صحیح ہے۔ اور وہ عنبسہ سے دیگر اور سندوں سے بھی مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۴ (۷۲۹) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۰ (۱۲۵۰) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۶۶ (۱۷۹۷، ۱۷۹۸) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۰ (۱۱۴۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۸۶۲) ، مسند احمد (۶/۳۲۶، ۳۲۷، ۴۲۶) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴۴ (۱۴۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ التِّرْمِذِيِّ حَدِيثَ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "فجر کی دونوں رکعتیں دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابن عمر، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان میں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۴ (۷۲۵) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۵۶ (۱۷۶۰، ۲۶۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۱۰۶) ، مسند احمد (۶/۱۴۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " رَمَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا فَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ بِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَفْصَةَ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ، وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ النَّاسِ حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَقَدْ رَوَى عَنْ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ثِقَةٌ. حَافِظٌ، قَالَ: سَمِعْت بُنْدَارًا، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ حِفْظًا مِنْ أَبِي أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيِّ، وَأَبُو أَحْمَدَ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْكُوفِيُّ الْأَسَدِيُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ایک مہینے تک دیکھتا رہا، فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں آپ «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اور ہم ثوری کی روایت کو جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے صرف ابواحمد زبیری ہی کے طریق سے جانتے ہیں، (جب کہ) لوگوں (محدثین) کے نزدیک معروف «عن إسرائيل عن أبي إسحاق» ہے بجائے «سفیان ابی اسحاق»کے، ۳- اور ابواحمد زبیری کے واسطہ سے بھی اسرائیل سے روایت کی گئی ہے، ۴- ابواحمد زبیری ثقہ اور حافظ ہیں، میں نے بندار کو کہتے سنا ہے کہ میں نے ابواحمد زبیری سے زیادہ اچھے حافظے والا نہیں دیکھا، ابواحمد کا نام محمد بن عبداللہ بن زبیر کوفی اسدی ہے، ۵- اس باب میں ابن مسعود، انس، ابوہریرہ، ابن عباس، حفصہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الافتتاح ۶۸ (۹۹۳) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۲ (۱۱۴۹) ، (تحفة الأشراف : ۷۳۸۸) ، مسند احمد (۲/۹۴، ۹۵، ۹۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَال: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَإِنْ كَانَتْ لَهُ إِلَيَّ حَاجَةٌ كَلَّمَنِي وَإِلَّا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْكَلَامَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ أَوْ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو (اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرما لیتے، ورنہ نماز کے لیے نکل جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے فجر کے طلوع ہونے بعد سے لے کر فجر پڑھنے تک گفتگو کرنا مکروہ قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ گفتگو ذکر الٰہی سے متعلق ہو یا بہت ضروری ہو، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۲۴ (۱۱۶۱) ، و۲۵ (۱۱۶۲) ، صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۷۳) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۳ (۱۲۶۲، ۱۲۶۳) ، (کلہم بذکر الاضطجاع علی الشق الأیمن) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۷۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت ؟ ہاں ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا ؟ تو یہ لایعنی گفتگو کا معاملہ ہو گا ، بہرحال اجتماعی طور پر لایعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر ، نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ يَسَارٍ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ "وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ: لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، وَحَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَى، وَرَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، وَهُوَ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَهْلُ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی نماز نہیں"۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی نماز نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف قدامہ بن موسیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں اور ان سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور حفصہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں، ۳- اور یہی قول ہے جس پر اہل علم کا اجماع ہے: انہوں نے طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے فجر کی دونوں سنتوں کے کوئی اور نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۹ (۱۲۷۸) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۸ (۲۳۴) ، (تحفة الأشراف : ۸۵۷۰) ، مسند احمد (۲/۲۳، ۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : مستقل طور پر کوئی سنت نفل اس درمیان ثابت نہیں ، ہاں اگر کوئی گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر مسجد آتا ہے ، اور جماعت میں ابھی وقت باقی ہے تو دو رکعت بطور تحیۃ المسجد کے پڑھ سکتا ہے ، بلکہ پڑھنا ہی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيَضْطَجِعْ عَلَى يَمِينِهِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فِي بَيْتِهِ اضْطَجَعَ عَلَى يَمِينِهِ " وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُفْعَلَ هَذَا اسْتِحْبَابًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی فجر کی دو رکعت (سنت) پڑھے تو دائیں کروٹ پر لیٹے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- عائشہ رضی الله عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دونوں رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹتے، ۴- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ایسا استحباباً کیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۳ (۱۲۶۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۴۳۵) ، مسند احمد (۲/۴۱۵) (صحیح) (بعض اہل علم کی تحقیق میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے لیٹنے کی بات صحیح ہے، اور قول نبوی والی حدیث معلول ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: إعلام أہل العصر بأحکام رکعتی الفجر: تالیف: محدث شمس الحق عظیم آبادی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ، تالیف: عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے فجر کی سنت کے بعد تھوڑی دیر دائیں پہلو پر لیٹنا مسنون ہے ، بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے ، لیکن یہ رائے صحیح نہیں ، قولی اور فعلی دونوں قسم کی حدیثوں سے اس کی مشروعیت ثابت ہے ، بعض لوگوں نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اعمش مدلس راوی ہیں انہوں نے ابوصالح سے عن کے ذریعہ روایت کی ہے اور مدلس کا عنعنہ مقبول نہیں ہوتا ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ابوصالح سے اعمش کا عنعنہ اتصال پر محمول ہوتا ہے ، حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں «ھو مدلس ربما دلّس عن ضعیف ولا یدری بہ فمتی قال نا فلان فلا کلام ، ومتی قال عن تطرق إلیہ احتمال التدلیس إلافی شیوخ لہ أکثر عنہم کا براہیم وأبي وائل وابی صالح السمّان ، فإن روایتہ عن ہذا الصنف محمولۃ علی الاتصال» ہاں ، یہ لیٹنا محض خانہ پری کے لیے نہ ہو ، جیسا کہ بعض علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ صرف پہلو زمین سے لگا کر فوراً اٹھ بیٹھتے ہیں ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس وقت تک لیٹے رہتے تھے جب تک کہ بلال رضی الله عنہ آ کر اقامت کے وقت کی خبر نہیں دیتے تھے۔ مگر خیال ہے کہ اس دوران اگر نیند آنے لگے تو اٹھ جانا چاہیئے ، اور واقعتاً نیند آ جانے کی صورت میں جا کر وضو کرنا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَال: سَمِعْتُعَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَكَذَا رَوَى أَيُّوبُ، وَوَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ، وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ عِنْدَنَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ أَنْ لَا يُصَلِّيَ الرَّجُلُ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ الْمِصْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جماعت کھڑی ہو جائے ۱؎ تو فرض نماز ۲؎ کے سوا کوئی نماز (جائز) نہیں" ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اسی طرح ایک دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابن بحینہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن سرجس، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ نے بھی عمرو بن دینار سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور مرفوع حدیث ہی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۵- سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۶- اس کے علاوہ اور (ایک تیسری) سند سے بھی یہ حدیث بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے - (جیسے) عیاش بن عباس قتبانی مصری ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۹ (۷۲۰) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۴ (۱۲۶۶) ، سنن النسائی/الإمامة ۶۰ (۸۶۶) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۳ (۱۱۵۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۲۲۸) ، مسند احمد (۲/۳۵۲، ۴۵۵) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴۹ (۱۱۸۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اقامت شروع ہو جائے۔ ۲؎ : یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔ ۳؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کے لیے تکبیر ہو جائے تو نفل پڑھنا جائز نہیں ، خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں ، بعض لوگوں نے فجر کی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے ، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں ، اس لیے کہ مسلم بن خالد کی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے مزید وارد ہے ، «قيل يا رسول الله ولا ركعتي الفجر قال ولا ركعتي الفجر» اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصر بن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے ، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے ، اور ابوہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں «إلا ركعتي الصبح» کا اضافہ ہے : کا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خود فرماتے ہیں «هذه الزيادة لا أصل لها» یعنی یہ اضافہ بےبنیاد ہے اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں ، اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، فَقَالَ: " مَهْلًا يَا قَيْسُ أَصَلَاتَانِ مَعًا "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، قَالَ: " فَلَا إِذًا " قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، وقَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: سَمِعَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، مِنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلًا، وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ: لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: وَقَيْسٌ هُوَ جَدُّ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَيُقَالُ: هُوَ قَيْسُ بْنُ عَمْرٍ، وَيُقَالُ: هوَ قَيْسُ بْنُ قَهْدٍ، وَإِسْنَادُ هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ قَيْسٍ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فَرَأَى قَيْسًا، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ.
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: "قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟)" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: "تب کوئی حرج نہیں" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کو اس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے، ۳- یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے، ۴- اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہا ہے کہ آدمی کے فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ۵- سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، اور قیس یحییٰ بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔ انہیں قیس بن عمرو بھی کہا جاتا ہے اور قیس بن قہد بھی، ۶- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سنا ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اور سعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو قیس کو دیکھا"، اور یہ عبدالعزیز کی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعید سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۵ (۱۲۶۷) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۴ (۱۱۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۱۰۲) ، مسند احمد (۵/۴۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ : فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں ، تو یہی سمجھا جائے گا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔۲؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے ، اور امام ترمذی نے جو اس روایت کو مرسل اور منقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں ، کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے ، جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے ، نیز انہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ فَعَلَهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَ: وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هَمَّامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا إِلَّا عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ الْكِلَابِيَّ، وَالْمَعْرُوفُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے تو انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ابن عمر سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے ایسا کیا ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ۴- ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے ھمام سے یہ حدیث اس سند سے اس طرح روایت کی ہو سوائے عمرو بن عاصم کلابی کے۔ اور بطریق: «قتادة عن النضر بن أنس عن بشير بن نهيك عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مشہور یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: "جس نے فجر کی ایک رکعت بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے پالی تو اس نے فجر پالی۔"
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۲۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث کی سند میں ایک راوی قتادہ ہیں جو مدلس ہیں ، انہوں نے نصر بن انس سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے ، نیز یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ غیر محفوظ ہے ، عمرو بن عاصم جو ہمام سے روایت کر رہے ہیں ، ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں ، ہمام کے دیگر تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے ان لفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں «من أدرك ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبحَ» " جس آدمی نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے صبح کی نماز پا لی (یعنی صبح کے وقت اور اس کے ثواب کو) نیز یہ حدیث اس بات پر بصراحت دلالت نہیں کرتی ہے کہ جو اسے صبح کی نماز سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد ہی لازماً پڑھے ، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ جو اسے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اسے وقت ادا میں نہ پڑھ سکا ہو یعنی سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تو وہ اسے وقت قضاء میں یعنی سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے ، اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے صبح کی نماز کے بعد ان دو رکعت کو پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اس کی تائید دارقطنی ، حاکم اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «من لم يصل ركعتي الفجرحتى تطلع الشمس فليصلهما» " جو آدمی سورج طلوع ہونے تک فجر کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکے وہ ان کو (سورج نکلنے کے بعد) پڑھ لے "۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: كُنَّا نَعْرِفُ فَضْلَ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَلَى حَدِيثِ الْحَارِثِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَخْتَارُونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ سفيان الثوري، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى يَرَوْنَ الْفَصْلَ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَبِهِ يَقُولُ: الشافعي، وَأَحْمَدُ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہما اور ام حبیبہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ہم سے ابوبکر عطار نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ نے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ نے سفیان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہم جانتے تھے کہ عاصم بن ضمرہ کی حدیث حارث (اعور) کی حدیث سے افضل ہے، ۴- صحابہ کرام اور بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل کا عمل اسی پر ہے۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ آدمی ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، اسحاق بن راہویہ اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ دن اور رات (دونوں) کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں، وہ ہر دو رکعت کے بعد فصل کرنے کے قائل ہیں شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وأخرجہ في الشمائل (۴۲) أیضا، وانظر ما یأتي برقم: ۴۲۹ و۵۹۸ (تحفة الأشراف : ۱۰۱۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث اور اس قول میں کوئی فرق نہیں ، مطلب یہ ہے کہ چار رکعتیں بھی دو دو سلاموں سے پڑھے ، اور یہی زیادہ بہتر ہے ، ایک سلام سے بھی جائز ہے۔ مگر دو سلاموں کے ساتھ سنت پر عمل ، درود اور دعاؤں کی مزید فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعتیں ۱؎ اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی رضی الله عنہ اور عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ویأتي برقم: ۴۳۲ (تحفة الأشراف : ۷۵۹۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے پہلے والی روایت میں ظہر سے پہلے چار رکعتوں کا ذکر ہے اور اس میں دو ہی رکعت کا ذکر ہے دونوں صحیح ہیں ، حالات و ظروف کے لحاظ سے ان دونوں میں سے کسی پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ دونوں پر عمل زیادہ افضل ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَتَكِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا لَمْ يُصَلِّ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ صَلَّاهُنَّ بَعْدَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الْمُبَارَكِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ نَحْوَ هَذَا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ، عَنْ شُعْبَةَ غَيْرَ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھ پاتے تو انہیں آپ اس کے بعد پڑھتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے ابن مبارک کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اور اسے قیس بن ربیع نے شعبہ سے اور شعبہ نے خالد الحذاء سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور ہم قیس بن ربیع کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے جس نے شعبہ سے روایت کی ہو، ۳- بطریق: «عبدالرحمٰن بن أبي ليلى عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی اسی طرح (مرسلاً) مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۶ (۱۱۵۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۲۰۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سنتوں کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے ، اس لیے ہمیں بھی ان سنتوں کے ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیئے ، اگر ہم پہلے ادا نہ کر سکیں تو فرض نماز کے بعد انہیں ادا کر لیا کریں ، لیکن یہ قضاء فرض نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الشُّعَيْثِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا أَرْبَعًا، حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اللہ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور یہ اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۶ (۱۲۶۹) ، سنن النسائی/قیام اللیل (۱۸۱۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۸ (۱۱۶۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۸۵۸) ، مسند احمد (۶/۳۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس قسم کی احادیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کی موت اسلام پر آئے گی اور وہ کافروں کی طرح جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ اس پر جہنم میں ہمیشہ رہنے کو حرام فرما دے گا ، اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہمیشگی کی آگ نہیں چھوئے گی ، مسلمان اگر گناہ گار اور سزا کا مستحق ہو تو بقدر جرم جہنم میں اس کا جانا ان احادیث کے منافی نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ التِّنِّيسِيُّ الشَّأْمِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ هُوَ: ابْنُ الْحَارِثِ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، قَال: سَمِعْتُ أُخْتِي أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْقَاسِمُ هُوَ: ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَهُوَ ثِقَةٌ شَأْمِيٌّ، وَهُوَ صَاحِبُ أَبِي أُمَامَةَ.
عنبسہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں اور اس کے بعد کی چار رکعتوں پر محافظت کی تو اللہ اس کو جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- قاسم دراصل عبدالرحمٰن کے بیٹے ہیں۔ ان کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے، وہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے مولیٰ اور ثقہ ہیں، شام کے رہنے والے اور ابوامامہ کے شاگرد ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۵۸۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ هُوَ: الْعَقَدِيُّ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُؤْمِنِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَاخْتَارَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَنْ لَا يُفْصَلَ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وقَالَ إِسْحَاق: وَمَعْنَى قَوْلِهِ أَنَّهُ يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِالتَّسْلِيمِ يَعْنِي التَّشَهُّدَ، وَرَأَى الشافعي، وَأَحْمَدُ صَلَاةَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى يَخْتَارَانِ الْفَصْلَ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے، اور ان کے درمیان: مقرب فرشتوں اور ان مسلمانوں اور مومنوں پر کہ جنہوں نے ان کی تابعداری کی ان پر سلام کے ذریعہ فصل کرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے۔ ۲- اس باب میں ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) نے عصر سے پہلے کی چار رکعتوں میں فصل نہ کرنے کو ترجیح دی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اسحاق کہتے ہیں: ان کے(علی کے) قول "سلام کے ذریعے ان کے درمیان فصل کرنے" کے معنی یہ ہیں کہ آپ دو رکعت کے بعد تشہد پڑھتے تھے، اور شافعی اور احمد کی رائے ہے کہ رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے اور وہ دونوں عصر سے پہلے کی چار رکعتوں میں سلام کے ذریعہ فصل کرنے کو پسند کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر ما تقدم برقم۴۲۴، وما یأتی برقم ۵۹۸ (تحفة الأشراف : ۱۰۱۴۲) (حسن) (سند میں ابواسحاق سبیعی مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : سلام کے ذریعہ فصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ چاروں رکعتیں دو دو رکعت کر کے ادا کرتے تھے ، اہل ایمان کو ملائکہ مقربین کا تابعدار اس لیے کہا گیا ہے کہ اہل ایمان بھی فرشتوں کی طرح اللہ کی توحید اور اس کی عظمت پر ایمان رکھتے ہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ مِهْرَانَ، سَمِعَ جَدَّهُ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً صَلَّى قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۷ (۱۲۷۱) ، (تحفة الأشراف : ۷۴۵۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : نماز عصر سے پہلے یہ چار رکعتیں سنن رواتب (سنن موکدہ) میں سے نہیں ہیں ، بلکہ سنن غیر موکدہ میں سے ہیں ، تاہم ان کے پڑھنے والے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت کی دعا کرنے سے ان کی اہمیت واضح ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَعْدَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: " مَا أُحْصِي مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ بِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَاصِمٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد کی دونوں رکعتوں میں اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھتے سنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف «عبدالله بن معدان عن عاصم» ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة۱۱۲ (۱۱۶۶) (تحفة الأشراف : ۹۲۷۸) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کی دونوں سنتوں میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي بَيْتِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے مغرب کے بعد دونوں رکعتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے گھر میں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں رافع بن خدیج اور کعب بن عجرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم۴۲۵ (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " حَفِظْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ رَكَعَاتٍ كَانَ يُصَلِّيهَا بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ ". قَالَ: وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْفَجْرِ رَكْعَتَيْنِ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس رکعتیں یاد ہیں جنہیں آپ رات اور دن میں پڑھا کرتے تھے: دو رکعتیں ظہر سے پہلے ۱؎، دو اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، اور دو رکعتیں عشاء کے بعد، اور مجھ سے حفصہ رضی الله عنہا نے بیان کیا ہے کہ آپ فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۳۴ (۱۱۸۰) ، (تحفة الأشراف : ۷۵۳۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر کے فرضوں سے پہلے چار رکعت پڑھنا ثابت ہے ، مگر یہاں دو کا ذکر ہے ، حافظ ابن حجر نے دونوں میں تطبیق یوں دی ہے کہ آپ کبھی ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور کبھی چار۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے اسی کے مثل روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۶۹۵۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيَّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَثْعَمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَكَعَاتٍ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيمَا بَيْنَهُنَّ بِسُوءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ عِشْرِينَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَضَعَّفَهُ جِدًّا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی، تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جس نے مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھیں اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا"، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف «زيد بن حباب عن عمر بن أبي خثعم» کی سند سے جانتے ہیں، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکرالحدیث ہیں۔ اور انہوں نے انہیں سخت ضعیف کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۳ (۱۱۶۷) (تحفة الأشراف : ۱۵۴۱۲) (ضعیف جداً) (سند میں عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم نہایت ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُعَائِشَةَ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ ثِنْتَيْنِ وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ وَقَبْلَ الْفَجْرِ ثِنْتَيْنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور اس کے بعد دو رکعتیں، مغرب کے بعد دو رکعتیں، عشاء کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- عبداللہ بن شقیق کی حدیث جسے وہ عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ المسافرین ۱۶ (۷۳۰) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۰ (۱۲۵۱) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۸ (۱۶۴۷، ۱۶۴۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۲۰۷) ، مسند احمد (۶/۳۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ وَاجْعَلْ آخِرَ صَلَاتِكَ وِتْرًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَهُوَ قَوْلُ: سفيان الثوري، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۸۴ (۴۷۲، ۴۷۳) ، والوتر ۱ (۹۹۰، ۹۹۱، ۹۹۳) ، والتہجد ۱۰ (۱۱۳۷) ، صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۴۹) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۱۴ (۱۳۲۶) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۲۶ (۱۶۶۸-۱۶۷۵) ، و۳۵ (۱۶۹۳) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۱ (۱۳۲۰) ، (تحفة الأشراف : ۸۲۸۸) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۳ (۱۳) ، مسند احمد (۲/۵، ۹، ۱۰، ۴۹، ۵۴، ۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو ، جبکہ ایک حدیث میں " رات اور دن کی نماز دو دو رکعت " بھی آیا ہے ، دراصل سوال کے جواب میں کہ " رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے " ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے " نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ، اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طور سے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَبِلَالٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو بِشْرٍ اسْمُهُ: جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ وَاسْمُ أَبِي وَحْشِيَّةَ: إِيَاسٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۳۸ (۱۱۶۳) ، سنن ابی داود/ الصوم ۵۵ (۲۴۲۹) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۶ (۱۶۱۴) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ۴۳ (۱۷۴۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۲۹۲) ، مسند احمد (۳۴۲، ۳۴۴، ۵۳۵) ، (ویأتي عند المؤلف في الصوم۴۰ برقم۷۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَأَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا " فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کیسی ہوتی تھی؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎، آپ (دو دو کر کے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کو نہ پوچھو، پھر مزید چار رکعتیں (دو، دو کر کے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کو بھی نہ پوچھو ۲؎، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ فرمایا: "عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، دل نہیں سوتا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۳؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۶ (۱۱۴۷) ، والتراویح ۱ (۲۰۱۳) ، والمناقب ۲۴ (۳۵۶۹) ، صحیح مسلم/المسافر ۱۷ (۷۳۸) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۱۶ (۱۳۴۱) ، سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۹ (۴۳۹) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۳۶ (۱۶۹۸) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۲ (۹) ، مسند احمد (۶/۳۶، ۷۳، ۱۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہے ، اور تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی چیز ہے۔ ۲؎ : یہاں «نہی» " ممانعت " مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔ ۳؎ : " دل نہیں سوتا " کا مطلب ہے کہ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا ، کیونکہ دل بیدار رہتا تھا ، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں اپنے اٹھ جانے کا یقین ہو اسے چاہیئے کہ وتر عشاء کے ساتھ نہ پڑھے ، تہجد کے آخر میں پڑھے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ "
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر ہوتی۔ تو جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۶) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۱۶ (۱۳۳۵) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۳۵ (۱۶۹۷) ، و۴۴ (۱۷۲۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۵۹۳) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۲ (۸) ، مسند احمد (۶/۳۵، ۸۲) (صحیح) (اضطجاع کا ذکر صحیح نہیں ہے، صحیحین میں آیا ہے کہ اضطجاع فجر کی سنت کے بعد ہے)
وضاحت: ۱؎ : "اضطجاع" کے ثبوت کی صورت میں تہجد سے فراغت کے بعد داہنے کروٹ لیٹنے کی جو بات اس روایت میں ہے یہ کبھی کبھار کی بات ہے ، ورنہ آپ کی زیادہ تر عادت مبارکہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کی تھی ، اسی معنی میں ایک قولی روایت بھی ہے جو اس کی تائید کرتی ہے (دیکھئیے حدیث رقم ۴۲۰)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی ابن شہاب سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ اسْمُهُ: نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ الضُّبَعِيُّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوحمزہ ضبعی کا نام نصر بن عمران ضبعی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۱۰ (۱۱۳۸) ، صحیح مسلم/المسافرین ۲۶ (۷۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۶۵۲۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پیچھے حدیث رقم ۴۳۹ میں گزرا کہ آپ رمضان یا غیر رمضان میں تہجد گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ، اور اس حدیث میں تیرہ پڑھنے کا تذکرہ ہے ، تو کسی نے ان تیرہ میں عشاء کی دو سنتوں کو شمار کیا ہے کہ کبھی تاخیر کر کے ان کو تہجد کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے ، اور کسی نے یہ کہا ہے کہ اس میں فجر کی دو سنتیں شامل ہیں ، کسی کسی روایت میں ایسا تذکرہ بھی ہے ، یا ممکن ہے کہ کبھی گیارہ پڑھتے ہوں اور کبھی تیرہ بھی ، جس نے جیسا دیکھا بیان کر دیا ، لیکن تیرہ سے زیادہ کی کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ،
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، زید بن خالد اور فضل بن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۱ (۱۳۶۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۹۵۱) ، مسند احمد (۶/۳۰، ۱۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایسا کبھی کبھی کرتے تھے ، یہ سب نشاط اور چستی پر منحصر تھا ، اس بابت یہ نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں میں تعارض ہے۔
وَرَوَاهُ سفيان الثوري، عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَكْثَرُ مَا رُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي " صَلَاةِ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، وَأَقَلُّ مَا وُصِفَ مِنْ صَلَاتِهِ بِاللَّيْلِ تِسْعُ رَكَعَاتٍ ".
سفیان ثوری نے بھی یہ حدیث اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے، ہم سے اسے محمود بن غیلان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا اور انہوں نے سفیان سے اور سفیان نے اعمش سے روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: رات کی نماز کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سے زیادہ وتر کے ساتھ تیرہ رکعتیں مروی ہیں، اور کم سے کم نو رکعتیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَمْ يُصَلِّ مِنَ اللَّيْلِ مَنَعَهُ مِنْ ذَلِكَ النَّوْمُ أَوْ غَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَعْدُ بْنُ هِشَامٍ هُوَ: ابْنُ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَهِشَامُ بْنُ عَامِرٍ هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: كَانَ زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى قَاضِيَ الْبَصْرَةِ، وَكَانَ يَؤُمُّ فِي بَنِي قُشَيْرٍ، فَقَرَأَ يَوْمًا فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، " فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ خَرَّ مَيِّتًا، فَكُنْتُ فِيمَنِ احْتَمَلَهُ إِلَى دَارِهِ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد نہیں پڑھ پاتے تھے اور نیند اس میں رکاوٹ بن جاتی یا آپ پر نیند کا غلبہ ہو جاتا تو دن میں (اس کے بدلہ میں) بارہ رکعتیں پڑھتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعد بن ہشام ہی ابن عامر انصاری ہیں اور ہشام بن عامر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں۔ بہز بن حکیم سے روایت ہے کہ زرارہ بن اوفی بصرہ کے قاضی تھے۔ وہ بنی قشیر کی امامت کرتے تھے، انہوں نے ایک دن فجر میں آیت کریمہ «فإذا نقر في الناقور * فذلك يومئذ يوم عسير» "جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن سخت دن ہو گا" پڑھی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑے اور مر گئے۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو انہیں اٹھا کر ان کے گھر لے گئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۷۱ (۷۴۶) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۱۶ (۱۳۴۲) ، (فی سیاق طویل) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۲ (۱۶۰۲) ، (في سیاق طویل) ، و۶۴ (۱۷۹۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۱۰۵) ، مسند احمد (۶/۵۴) في سیاق طویل) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : صحیح مسلم میں ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : جس کی رات کی نفل (نماز تہجد) قضاء ہو جائے ، اور وہ انہیں طلوع فجر اور ظہر کے بیچ پڑھ لے تو غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا ، شاید بارہ کبھی اس لیے پڑھی ہو گی کہ وتر اس رات عشاء کے بعد ہی پڑھ چکے ہوں گے ، اور وتر دو بار نہیں پڑھی جاتی ، یا جس رات میں یہ اندازہ ہوتا کہ پوری گیارہ رکعتیں آج نہیں پڑھ پاؤں گا اس رات وتر رات ہی پڑھ لیتے ہوں گے یا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دن کے وقت بارہ رکعت پڑھتے تھے تو وتر کو جُفت کر لیتے ہوں گے ، واللہ اعلم۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَنْزِلُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ حِينَ يَمْضِي ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ فَيَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ فَلَا يَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يُضِيءَ الْفَجْرُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَرِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أَوْجُهٍ كَثِيرَةٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: " يَنْزِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ " وَهُوَ أَصَحُّ الرِّوَايَاتِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے ۱؎ آسمان دنیا پر اترتا ہے ۲؎ اور کہتا ہے: میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی پکار سنوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ میں اسے معاف کر دوں۔ وہ برابر اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی بن ابی طالب، ابوسعید، رفاعہ جہنی، جبیر بن مطعم، ابن مسعود، ابو درداء اور عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ حدیث کئی سندوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، ۴- نیز آپ سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ جب وقت رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اترتا ہے"، اور یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۱۴ (۱۱۴۵) ، والدعوات ۱۴ (۶۳۲۱) ، والتوحید ۳۵ (۷۴۹۴) ، صحیح مسلم/المسافرین ۲۴ (۷۵۸) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۱۱ (۱۳۱۵) ، والسنة ۲۱ (۴۷۳۳) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۲ (۱۳۶۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۶۷) ، موطا امام مالک/القرآن ۱۸ (۳۰) ، مسند احمد (۲/۲۶۴، ۲۶۷، ۲۸۲، ۴۱۹، ۴۸۷) (عند الأکثر ’’ الآخیر ‘‘) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آگے مولف بیان کر رہے ہیں : صحیح بات یہ ہے کہ " ایک تہائی رات گزرنے پر نہیں ، بلکہ ایک تہائی رات باقی رہ جانے پر اللہ نزول فرماتے ہیں "۔ (مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک «الآخر» ہی ہے) ۲؎ : اس سے اللہ عزوجل کا جیسے اس کی ذات اقدس کو لائق ہے آسمان دنیا پر ہر رات کو نزول فرمانا ثابت ہوتا ہے ، اور حقیقی اہل السنہ والجماعہ ، سلف صالحین اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات میں تاویل نہیں کیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاق هُوَ السَّالَحِينِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: " مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَخْفِضُ مِنْ صَوْتِكَ " فَقَالَ: إِنِّي أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ، قَالَ: " ارْفَعْ قَلِيلًا "، وَقَالَ لِعُمَرَ: " مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَرْفَعُ صَوْتَكَ " قَالَ: إِنِّي أُوقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ، قَالَ: " اخْفِضْ قَلِيلًا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ، وَأَنَسٍ، وأُمِّ سَلَمَةَ، وابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَإِنَّمَا أَسْنَدَهُ يَحْيَى بْنُ إِسْحَاق، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَأَكْثَرُ النَّاسِ إِنَّمَا رَوَوْا هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ مُرْسَلًا.
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ سے فرمایا: "میں (تہجد کے وقت) تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آواز کچھ دھیمی تھی؟" کہا: میں تو صرف اسے سنا رہا تھا جس سے میں مناجات کر رہا تھا۔ (یعنی اللہ کو) آپ نے فرمایا: "اپنی آواز کچھ بلند کر لیا کرو"، اور عمر رضی الله عنہ سے فرمایا: "میں تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آواز بہت اونچی تھی؟"، کہا: میں سوتوں کو جگاتا اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: "تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کر لیا کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ام ہانی، انس، ام سلمہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسے یحییٰ بن اسحاق نے حماد بن سلمہ سے مسند کیا ہے اور زیادہ تر لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور ثابت نے عبداللہ بن رباح سے مرسلاً روایت کی ہے۔ (یعنی: ابوقتادہ رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے)
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۱۵ (۱۳۲۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۰۸۸) ، مسند احمد (۱/۱۰۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِآيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ لَيْلَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات قرآن کی صرف ایک ہی آیت کھڑے پڑھتے رہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۸۰۲) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : تہجد کی ساری رکعتوں میں صرف یہی ایک آیت دھرا دھرا کر پڑھتے رہے۔ اور وہ آیت کریمہ یہ تھی : «إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم» (سورة المائدة :) ، (رواہ النسائی وابن ماجہ) ، " اے رب کریم ! اگر تو ان (میری امت کے اہل ایمان ، مسلمانوں) کو عذاب دے گا تو وہ تیرے بندے ہیں ، (سزا دیتے وقت بھی ان پر رحم فرما دینا) اور اگر تو ان کو بخش دے گا تو بلاشبہ تو نہایت غلبے والا اور دانائی والا ہے "۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ ؟ فَقَالَتْ: " كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ رُبَّمَا أَسَرَّ بِالْقِرَاءَةِ وَرُبَّمَا جَهَرَ "فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی کیا آپ قرآن دھیرے سے پڑھتے تھے یا زور سے؟ کہا: آپ ہر طرح سے پڑھتے تھے، کبھی سری پڑھتے تھے اور کبھی جہری، تو میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے دین کے معاملے میں کشادگی رکھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۷) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۴۳ (۱۴۳۷) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۲۳ (۱۶۶۳) ، (التحفہ: ۱۶۲۹۷) ، مسند احمد (۶/۱۴۹) ، ویاتي عند المؤلف في ثواب القرآن ۲۳ (برقم: ۲۹۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَفْضَلُ صَلَاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَرْفُوعًا وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَأَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری نماز میں سب سے افضل نماز وہ ہے جسے تم اپنے گھر میں پڑھتے ہو، سوائے فرض کے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عمر بن خطاب، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، ابوہریرہ، ابن عمر، عائشہ، عبداللہ بن سعد، اور زید بن خالد جہنی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم میں اس حدیث کی روایت میں اختلاف ہے، موسیٰ بن عقبہ اور ابراہیم بن ابی نضر دونوں نے اسے ابونضر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ نیز اسے مالک بن انس نے بھی ابونضر سے روایت کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اور بعض اہل علم نے اسے موقوف قرار دیا ہے جب کہ حدیث مرفوع زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۱ (۷۳۱) ، والأدب ۷۵ (۶۱۱۳) ، والاعتصام ۳ (۷۲۹۰) ، صحیح مسلم/المسافرین ۲۹ (۷۸۱) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۰۵ (۱۰۴۴) ، و۳۴۶ (۱۴۴۷) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۱ (۱۶۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۳۶۹۸) ، موطا امام مالک/الجماعة ۱ (۴) ، مسند احمد (۵/۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۶، ۱۸۷) ، سنن الدارمی/الصلاة ۹۶ (۱۴۰۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو ۱؎ اور انہیں قبرستان نہ بناؤ" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۵۲ (۴۳۲) ، والتہجد ۳۷ (۱۱۸۷) ، صحیح مسلم/المسافرین ۲۹ (۷۷۷) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۰۵ (۱۰۴۳) ، و۳۴۶ (۴۸ ۱۴) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۱ (۱۵۹۹) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۶ (۱۳۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۸۰۱۰) ، وکذا (۸۱۴۲) ، مسند احمد (۲/۶، ۱۶، ۱۲۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد نوافل اور سنن ہیں۔ ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام ہوتا ہے وہ قبرستان کی طرح نہیں ہیں ، اور جن گھروں میں نوافل وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا وہ قبرستان کے مثل ہیں ، جس طرح قبریں عمل اور عبادت سے خالی ہوتی ہیں ایسے گھر بھی عمل و عبادت سے محروم قبرستان کے ہوتے ہیں۔