مشکوٰة شر یف

نماز کا بیان

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ام فردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ (ثواب کی زیادتی کے اعتبار سے) کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صرف حضرت عبداللہ ابن عمر عمری سے روایت کی جاتی ہے۔ اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد افضل ترین عمل یہی ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھا جائے۔ کتاب الصلوٰۃ کی حدیث نمبر پانچ کے فائدہ کے ضمن میں بتایا جا چکا ہے کہ افضل اعمال کے سلسلے میں بہت زیادہ حدیثیں وارد ہیں۔ جن میں مختلف اعمال کو افضل کہا گیا ہے۔ وہاں اس کی بھی وضاحت کر دی گئی تھی کہ جن جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہ اپنے اپنے موقع و مناسبت کی بناء پر یقیناً افضل ہیں۔

چنانچہ یہاں پھر سمجھ لیجئے کہ دوسری احادیث میں جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہاں افضلیت اضافی مراد ہے یعنی بعض اعمال بعض حیثیت سے افضل ہیں اور بعض اعمال کو دوسری وجوہ اور حیثیت سے دوسرے اعمال پر فضیلت حاصل ہے لیکن نماز علی الا طلاق یعنی بہمہ وجوہ ایمان کے بعد اعمال سے افضل و اشرف ہے۔

ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے راوی صرف ایک یعنی عبد اللہ ابن عمر عمری ہیں اور وہ بھی محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ عبداللہ ابن عمر عمری کے بارے میں غالباً پہلے بھی کسی حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے ہیں اس لیے انہیں عمری کہا جاتا ہے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عبداللہ ابن عمر ابن حفص ابن عاصم ابن عمر فاروق۔

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

بہر حال ترمذی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو نہیں پہنچتی حالانکہ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی نماز آخر وقت میں دو دفعہ بھی نہیں پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وفات دے دی۔  (جامع ترمذی)

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

 

تشریح

 

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نمازوں کو ان کے مختار اوقات میں پڑھا کرتے تھے۔ مکروہ اوقات میں نہیں پڑھتے تھے۔ صرف ایک مرتبہ بیان جواز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز آخر وقت میں پڑھی تھی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز کا آخری وقت یہ ہے اور وقت کے اس حصے تک نماز جائز ہو سکتی ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس نماز کو شمار نہیں کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ آخر وقت میں پڑھی تھی کیونکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے وقت معلوم کرنے کے لیے آخر وقت نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک سائل کو ایک دن اول وقت میں اور ایک دن آخر وقت میں پڑھ کر دکھائی تھی اسے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شمار نہیں کیا ہے اس لیے کہ تعلیم پر محمول ہے۔

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میری امت کے لوگ اگر مغرب کی نماز کو (اس قدر) دیر کر کے نہ پڑھا کریں کہ ستارے جگمگانے لگیں تو ہمیشہ بھلائی، یا فرمایا کہ، فطرت (یعنی اسلام کے طریقے) پر رہیں گے ، (سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو دارمی نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مغرب کے وقت فقط ستارے نظر آ جانے سے کراہیت نہیں آتی البتہ ستارے گنجان ہو کر جگمگانے لگتے ہیں تو جب وقت مکروہ ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ مغرب کی نماز تاخیر سے پڑھی تھی اور وہ بھی بیان جواز کے لیے ورنہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ اول وقت ہی مغرب کی نماز ادا فرماتے تھے۔

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت کے لوگوں کی تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو انہیں (وجوب کے طریقہ پر) یہ حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو تہائی رات تک یا آدھی رات تک مؤخر کر کے پڑھیں۔  (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تم اس نماز (یعنی عشاء کی نماز) کو دیر کر کے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں دوسری امتوں پر اس نماز کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ (ابوداؤد)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 اس سے پہلے باب المواقیت کی حدیث نمبر تین میں گزر چکا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پانچوں وقت کی نماز پڑھائی اور کہا کہ (ھذا وقت الانبیاء من قبلک) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز پڑھتے تھے مگر جو حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشاء کی نماز صرف اسی امت پر فرض ہے پہلی امتوں پر فرض نہیں تھی۔ لہٰذا محدثین نے ان دونوں حدیثوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ پہلی امتوں میں عشاء کی نماز صرف پیغمبر و رسول ہی پڑھتے تھے۔ کیونکہ یہ نماز ان کی امتوں پر واجب نہیں تھی بلکہ انہیں پر واجب تھی جیسا کہ بعض علماء کے قول کے مطابق تہجد کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پر واجب نہیں ہے اس لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ارشاد ھذا وقت الانبیاء سے پہلی امتوں پر عشاء کا وجوب ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ یہ نماز انبیاء علیہ السلام ہی پڑھتے تھے اور اس کو حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز پہلی امتوں کے لوگ نہیں پڑھتے تھے اور یہ نماز اسی امت کے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسطرح ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔

آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ ھذا وقت الا نبیاء من قبلک میں لفظ ھذا سے فجر کے وقت اسفار کی طرف اشارہ ہے کہ بخلاف دوسرے اوقات کے اس میں تمام انبیاء شریک ہیں۔

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس نماز یعنی دوسری عشاء کے وقت کو خوب جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس نماز کو تیسری تاریخ کے چاند چھپنے کے وقت پڑھا کرتے تھے۔  (ابوداؤد،دارمی)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 تیسری تاریخ کی شب میں چاند رات کے تقریباً پانچویں حصہ میں غروب ہوتا ہے ، اس طرح یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر ہی سے پڑھنا مستحب ہے۔ عشاء کی نماز کو دوسری عشاء اس لیے کہا گیا ہے کہ بسا اوقات مغرب کو بھی عشاء کہا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ دوسری عشاء ہوئی۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

 ٭٭ اور حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، فجر کی نماز اجالے میں پڑھو کیونکہ اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے اور سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ (فانہ اعظم للاجر) (یعنی اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے)۔ نہیں ہیں۔  (جامع ترمذی ، ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں شروع کرنی چاہئے چنانچہ حنفیہ کا ظاہری مسلک یہی ہے کہ فجر کی نماز کی ابتداء و اختتام دونوں ہی اسفار میں ہوں۔

مگر حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو حنفی مسلک کے ایک جلیل القدر امام ہیں، فرماتے ہیں کہ ابتداء تو غلس (اندھیرے) میں ہونی چاہئے اور اختتام اسفار میں، اور اس کا طریقہ یہ ہو کہ قرأت اتنی طویل کی جائے کہ پڑھتے پڑھتے اجالا پھیل جائے۔ چنانچہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ تاویل اولیٰ اور احسن ہے کیونکہ اس طرح ان تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جن میں سے بعض تو غلس میں نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسفار میں نماز پڑھنا افضل ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔

ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق کی وجہ خود ایک حدیث بھی ہے جو شرح السنہ میں منقول ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں موسم کا اعتبار ہو گا یعنی جاڑے کے موسم میں تو غلس میں نماز پڑھنا بہتر ہو گا اور گرمی کے موسم میں اسفار کرنا بہتر ہو گا۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں

الحدیث (قَالَ مُعَاذٌ بَعْثَنِیْ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اِذَا کَانَ فِی الشِّتَاءِ فَغَلِّسْ بِالفَجْرِ وَاطِلٍ القِرَآءَ ۃُ قَدْرَ مَا یُطِیْقُ النَّاسُ وَلَا تُمِلَّھُمْ وَاِذَا کَانَ فِی الصَّیْفِ فَاسْفِرْ بِالفَجْرِ فَاِنَ اللَّیْلِ قَصِیْرٌ وَالنَّاسُ نِیَامٌ فَاَ مْھِلْھُمْ حَتّٰی اَدْرَکُوْا یَعْنِی الصَّلٰوۃَ۔)

 حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا تو یہ (بھی) فرمایا کہ جب سردی کا موسم ہو تو فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھنا اور قرأت طویل کرنا (مگر اتنی کہ) لوگوں پر بھاری نہ ہو کہ وہ تنگ ہو جائیں اور جب گرمی کا موسم ہو تو فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں پڑھنا کیونکہ (گرمی) میں رات چھوٹی ہونے کی وجہ سے لوگ سوئے رہتے ہیں اس لیے انہیں اتنا موقع دو کہ وہ نماز میں شریک ہو سکیں۔

بہر حال علماء حنفیہ کے نزدیک اسفار کی حد یہ ہے کہ طلوع آفتاب میں اتنا وقت رہے کہ اس میں قرأت مسنون (جو چالیس سے ساٹھ یا سو آیتوں تک ہے) ترتیل کے ساتھ پڑھی جا سکے۔ اور نماز کے بعد اگر طہارت میں کوئی خلل معلوم ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے پہلے وضو اور مذکورہ بالا طریقہ پر نماز کا اعادہ ممکن ہو سکے۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور پھر وہ دس حصوں پر تقسیم کیا جاتا، اس کے بعد اسے پکایا جاتا اور پھر ہم سورج چھپنے سے پہلے اس پکے ہوئے گوشت کو کھا کر فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

بظاہر اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر کی نماز جلدی یعنی ایک مثل سایہ ہونے کے وقت یا اس سے تھوڑی دیر کے بعد پڑھی جاتی ہو گی جیسا کہ ائمہ ثلثہ اور صاحبین کا مسلک ہے اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے اور بعض حضرات نے فتوی بھی اسی روایت پر دیا ہے مگر حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور مسلک یہ ہے کہ عصر کا وقت دو مثل سائے کے بعد ہوتا ہے چنانچہ ان کی طرف سے اس حدیث کی یہ تاویل کی جائے گی کہ ہو سکتا ہے کہ گرمیوں میں ایسا ہوتا ہو کیونکہ اس وقت دن بڑا ہوتا ہے۔ نیز حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہدایہ کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر عصر کی نماز سورج کے متغیر ہونے سے پہلے پڑھی جائے تو غروب آفتاب تک بقیہ وقت میں حدیث میں مذکورہ عمل جیسا عمل بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے چنانچہ جن لوگوں نے امراء و حکام کے ہمراہ کھانا پکانے والے ماہرین کو سفر میں کھانا پکاتے ہوئے دیکھا ہو گا وہ اسے بعید نہیں جانیں گے۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لیے بہت دیر تک بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتظار کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تہائی یا اس سے بھی زیادہ رات جانے کے بعد تشریف لائے اور ہمیں معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر کے کام میں مشغول رہے تھے (کہ عادت کے مطابق سویرے نماز پڑھنے تشریف نہیں لائے) یا اس کے علاوہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کو کوئی عذر پیش آگیا تھا) آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آکر فرمایا، تم لوگ نماز کا انتظار کر رہے تھے (اور تمہارے لیے یہ مناسب بھی تھا کیونکہ) نماز کا انتظار تو تم ہی لوگ کیا کرتے ہو۔ تمہارے سوا کسی اور دین والوں نے نماز کا انتظار نہیں کیا۔ اور اگر مجھے اپنی امت پر گراں گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس نماز کو ہمیشہ اسی وقت پڑھا کرتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (تکبیر کا) حکم دیا اس نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھائی۔ (صحیح مسلم)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ تمہارے سوا کسی بھی دین کے لوگ (یعنی یہود و نصاریٰ) عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ نماز تو صرف اسی امت کے ساتھ مخصوص فرمائی گئی ہے اور کسی امت کو نصیب نہیں ہوئی ہے لہٰذا تم اس وقت جب کہ آرام کرنے کا وقت ہے اپنے نفس پر قابو پا کر اور مشقت اٹھا کر نماز کا جتنا زیادہ انتظار کرو گے اتنا ہی زیادہ ثواب پاؤ گے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عشاء کی نماز تہائی رات کے وقت پڑھنا افضل ہے جیسا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے مگر جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کا تعلق ہے تو یہ بھی ثابت ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا اکثر حصہ اول وقت جمع ہو جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اول وقت ہی نماز پڑھ لیتے تھے اور جو حضرات تاخیر سے جمع ہوتے تھے وہ دیر سے پڑھتے تھے چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ جو نمازی اوّل وقت جمع ہو جائیں اول وقت نماز پڑھ لیں اور جو نمازی تاخیر سے جمع ہوں وہ دیر کر کے پڑھیں۔

 

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری نمازوں کے قریب قریب (اوقات میں) نماز پڑھا کرتے تھے مگر عشاء کی نماز تمہاری نماز سے کچھ دیر کر کے پڑھتے تھے اور ہلکی نماز پڑھتے تھے۔  (صحیح مسلم)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 نہی کے باوجود حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشاء کو عتمہ اس لیے کہا ہے کہ شاید اس وقت تک ان کو نہی کا حکم معلوم نہیں ہوا ہو گا یا پھر یہ نام چونکہ اہل عرب میں پہلے سے جانا پہچانا جاتا تھا اس لیے انہوں نے یہ سوچ کر کہ اس نام سے لوگ اس نماز کو اچھی طرح پہچان لیں گے عتمہ ہی کہا۔

بہر حال یہ حدیث بھی اس بات پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا ہی افضل و مستحب ہے۔  ہلکی نماز پڑھنے  کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے مگر علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں چھوٹی چھوٹی سورتیں اس وقت پڑھتے تھے جب کہ امامت فرماتے اور ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت مد نظر ہوتی۔ اور ویسے بھی یہ بات باعتبار اکثر کے فرمائی گئی ہے کیونکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں سورہ اعراف بھی پڑھی ہے۔ اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اتنی بڑی بڑی سورتیں پڑھنا بھی لوگوں پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسا کیف و سرور محسوس ہوتا تھا کہ طویل قرأت بھی انہیں ہلکی ہی معلوم ہوتی تھی اور از راہ شوق طویل قرأت میں زیادتی کے طالب رہتے تھے اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کی امامت میں یہ بات حاصل ہونا مشکل ہے۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جماعت کے ساتھ (با جماعت) نماز پڑھنے گئے۔ (اتفاق سے اس روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آدھی رات کے قریب تک تشریف نہ لائے (بعد ازاں آ کر ہم سے) ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا، چنانچہ ہم اپنی جگہوں (سے اٹھے نہیں بلکہ وہیں) پر بیٹھے رہے (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لیے ہیں اور (تمہیں معلوم ہو نا چاہئے کہ) جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمہارا یہ سارا وقت نماز ہی میں شمار کیا جائے گا (یعنی تمہیں اس انتظار کی وجہ سے برابر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہے گا) اور اگر مجھے ضعیفوں کی کمزوری اور بیماروں کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں ہمیشہ یہ نماز آدھی رات تک دیر کر کے پڑھا کرتا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 جیسا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرز چکا ہے کہ (مسلمانوں کے علاوہ) کسی بھی دوسرے دین کے لوگ عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے ، لہٰذا اس ارشاد کی روشنی میں حدیث کے الفاظ دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لیے ہیں، کی تشریح یہ کی جائے گی کہ دوسرے دین کے لوگ (مثلاً یہود و نصاریٰ) تو شام کی نماز پڑھ کر یا اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر کے اپنے اپنے بستروں پر جا کر نیند کی آغوش میں پہنچ گئے مگر چونکہ تمہارے نصیب میں اس نماز کی سعادت و فضیلت لکھی ہوئی ہے۔ اس لیے تم اب اس سعادت و فضیلت کی تکمیل کی خاطر نماز کی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہو۔ اور چونکہ تم اپنا آرام اپنی نیند اور اپنا چین سب اپنے پروردگار کی عبادت کے انتظار میں لٹا چکے ہو اس لیے تمہارا پروردگار بھی اس محنت و مشقت کا صلہ اس طرح تمہیں دے گا کہ تمہارے اس انتظار کے ایک ایک لمحے کو سراپا عبادت و باعث سعادت بنا دے گا بایں طور پر کہ تمہارا یہ جتنا وقت انتظار میں گزرا ہے یا جتنا وقت گزرے گا تو سمجھو کہ وہ نماز ہی میں گزرا ہے یا گزرے گا یعنی جتنا ثواب نماز پڑھنے کا ملتا ہے اتنا ہی ثواب اس انتظار کا بھی ملے گا۔

یا پھر اس جملے کا مطلب یہ ہو گا کہ دوسرے محلوں کے مسلمان جو اس مسجد میں حاضر نہیں ہیں عشاء کی نماز پڑھ کر سو رہے ہیں اور تم لوگ اب تک نماز عشاء کے انتظار میں یہاں بیٹھے ہو اس طرح ان مسلمانوں کے مقابلے میں تم زیادہ ثواب و فضیلت کے حقدار بنو گے ، یہی معنی ما بعد کے الفاظ  (وانکم لن ترالو الخ) کے زیادہ قریب اور مناسب ہیں۔

بہر حال۔ یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز میں آدھی رات تک تاخیر جائز ہے بلکہ عبادت کے سلسلے میں زیادہ محنت و مشقت اٹھانے کی وجہ سے مستحب اور افضل ہے۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز (گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں میں) تم سے بہت زیادہ جلدی پڑھتے تھے اور تم عصر کی نماز پڑھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ جلدی کرتے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد اتباع سنت پر لوگوں کو رغبت دلانا اور متوجہ کرنا ہے کہ ہر جگہ اور ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کر نے میں ہی بھلائی و سعادت ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عصر کی نماز میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (ظہر کی) گرمی کے موسم میں ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھ لیتے تھے۔ (سنن نسائی)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

 ظہر کے وقت کے سلسلے میں احادیث میں جو تعارض ہے کہ بعض حدیثوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز دیر (لیٹ) کر کے پڑھتے تھے اور بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جلدی پڑھ لیتے تھے۔ اس حدیث سے یہ تعارض ختم ہو جاتا ہے بایں طور کہ گرمی کے موسم میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھا کرتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھتے تھے۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭ اور حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد عنقریب تم پر ایسے (لوگ) حاکم ہوں گے جنہیں دنیا کے چیزیں (یعنی خواہشات نفسانی) وقت (مستحب) پر نماز پڑھنے سے باز رکھیں گی، یہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے گا (یعنی وقت کراہت آ جائے گا) لہٰذا تم اپنی نمازیں وقت پر پڑھتے رہنا (خواہ تنہا ہی کیوں نہ پڑھنی پڑے) ایک آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا پھر (دوبارہ) ان کے ساتھ بھی نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں! (ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرنا تاکہ ثواب بھی زیادہ ملے اور حکام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے فتنہ و فساد بھی پیدا نہ ہو)۔ (سنن ابوداؤد)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت قبیصہ ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میرے بعد تم پر ایسے حاکم ہوں گے جو نماز (وقت مستحب سے) تاخیر کر کے پڑھیں گے اور وہ نماز تمہارے لیے تو مفید ہو گی اور ان کے لیے وبال ہو گی لہٰذا جب تک وہ قبلہ (یعنی کعبۃ اللہ) کی طرف نماز پڑھتے ہیں تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہنا۔ (ابوداؤد)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

  فائدہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وقت مستحب کی فضیلت حاصل کرنے کی خاطر ان کی نماز سے پہلے نماز پڑھ لی۔ اور پھر اس کے بعد ان کے ساتھ بھی پڑھی تو یہ دوسری نماز تمہارے لیے نفل ہو جائے گی جس کی وجہ سے تمہیں بہت زیادہ ثواب ملے گا اور اگر ان کی نماز سے پہلے نماز نہ پڑھی بلکہ ان کے ہمراہ پڑھی تو اس کے لیے تم پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا کیونکہ ان کے ساتھ وقت مکروہ میں تمہارا نماز پڑھنا فتنے کے خوف اور فساد کے دفعیہ کی غرض سے ہو گا۔

اسی طرح  وبال کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز ان کے لیے مواخذہ کا باعث ہو گی کہ جب وہ وقت مختار میں نماز ادا کرنے پر قادر تھے تو وقت سے تاخیر کر کے غیر مطلوب وقت میں نماز کیوں پڑھی اور پھر یہ کہ امور دنیا نے انہیں امور عقبی کی انجام دہی سے باز رکھا جو یقیناً کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں۔

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

٭٭اور حضرت عبید اللہ ابن عدی ابن خیار کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ وہ (اپنی شہادت سے پہلے بغاوت کے ایام میں اپنے مکان کے اندر) محصور تھے چنانچہ (عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) میں نے عرض کیا کہ آپ ہم سب کے امام (اور امیر) ہیں اور آپ پر جو کچھ مصائب و پریشانیاں) نازل ہوئی ہیں وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور (ہمارا حال یہ ہے کہ) ہمیں فتنے و فساد کا ایک امام نماز پڑھاتا ہے (جس کے پیچھے نماز پڑھنا) گناہ سمجھتے ہیں، (یہ سن کر) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نماز پڑھنا لوگوں کے تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے۔ لہٰذا جب لوگ نیکی و بھلائی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی و بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔ (صحیح البخاری)

 

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

تشریح

 

  فتنہ و فساد کے امام سے مراد باغیوں کا سردار ہے جس کا نام کنانۃ ابن بشیر تھا۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی نیکیوں میں تو شریک رہو یعنی اگر وہ نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ مل کر وہی نیک کام کرو البتہ ان کی بدی میں شریک نہ رہو۔ اور نماز کا پڑھنا نیک ہی عمل ہے اس لیے باغیوں کے سردار کے پیچھے تمام پڑھ سکتے ہو اسے گناہ کی بات نہ سمجھو۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے ان کے عدل و انصاف اور ان کے حلم و بردباری کے عظیم وصف پر روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے سخت موقعہ پر جب کہ باغیوں نے اپنے ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے انہیں مکان میں محصور کر رکھا تھا اور ان کے اوپر تکالیف و پریشانیوں کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی ان کی نیکی اور بھلائی کو از راہ بغض و انتقام برائی سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے اچھا ہی کہا۔ یہ ارشاد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر نیک و بد آدمی کے پیچھے نماز جائز ہو جاتی ہے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔

نماز کے فضائل کا بیان

حضرت عمارہ ابن رویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عمیرہ رویبہ کے صاحبزادے اور قبیلہ بنی جثم بن ثقیف سے ہیں اور کوفی ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے سورج نکلنے اور چھپنے سے پہلے (دو نمازیں) یعنی فجر اور عصر کی پڑھیں تو وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔  (رواہ صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں کو پابندی سے پڑھتا رہے تو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا۔ بظاہر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں پر مداومت کرے گا، وہ دوسری نمازوں کو چھوڑنے یا دوسرے گناہوں کے صدور کے سبب دوزخ میں داخل نہیں کیا جائے گا حالانکہ جمہور علماء کرام کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ نمازیں صغیرہ گناہوں کا کفارہ تو ہو جاتی ہیں۔ کبیرہ گناہوں کا نہیں ہوتیں۔ چنانچہ علامہ طیبی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ صبح کا وقت عام طور پر آرام کا ہوتا ہے اسی طرح شام کا تجار وغیرہ کی مشغولیت کا ہوتا ہے لہٰذا جو آدمی ان دونوں موانع کے باوجود ان دونوں نمازوں کی محافظت کرتا ہے تو وہ بزبان حال اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دوسرے اعمال میں بھی کمی زیادتی کرنے والا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ) 29۔ العنکبوت:45) (بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے) لہٰذا اس بناء پر وہ بخشش کی سعادت سے نوازا جائے گا اور دوزخ میں داخل نہیں کیا جائے گا۔

اور ظاہر یہ ہے کہ اس حدیث سے ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت کے بیان میں مبالغہ مراد ہے کہ ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی محافظت کرنے والا آدمی دوزخ میں داخل نہ کیا جائے گا اور باوجودیکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ہر عمل پر جزاء و سزا کا ترتب کرتا ہے مگر وہ چا ہے تو ان دونوں نمازوں کے ادا کرنے کے سبب وہ گناہ جو اس کے بندوں سے سرزد ہوئے ہوں بخش سکتا ہے

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی ٹھنڈے وقت کی دونوں نمازیں (یعنی فجر و عشاء) پڑھتا رہا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے پاس (آسمان سے) فرشتے رات دن آتے رہتے ہیں (جو تمہارے اعمال لکھتے ہیں اور انہیں بارگاہ الوہیت میں پہنچاتے ہیں) اور فجر و عصر کی نماز میں سب جمع ہوتے ہیں اور جو فرشتے تمہارے پاس رہتے ہیں وہ (جس وقت) آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال جاننے کے باوجود ان سے (بندوں کے احوال و اعمال) پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ پروردگار! ہم نے تیرے بندوں کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے اعمال کو لکھنے اور انہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے لیے (فرشتوں کی دو جماعتیں بندوں کے ہمراہ رہتی ہیں۔ ایک جماعت تو دن کے اعمال لکھتی ہے اور پھر عصر کے بعد واپس جا کر بارگاہ الوہیت میں اپنی رپورٹ پیش کر دیتی ہے۔ دوسری جماعت رات کے اعمال لکھتی ہے۔ یہ فجر کی نماز کے بعد واپس جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بندوں کے رات کے اعمال کی رپورٹ دیتی ہے چنانچہ دن اور رات میں دو وقت ایسے ہوتے ہیں جب کہ یہ دونوں جماعتیں جمع ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ تو فجر کے وقت جب کہ رات کے فرشتے واپس جاتے ہیں اور دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پر آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مرتبہ ان دونوں جماعتوں کا اجتماع عصر کے وقت ہوتا ہے جب کہ دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس جاتے ہیں اور رات کے فرشتے اپنے کام پر حاضر ہوتے ہیں۔

حالانکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور اس کا علم زمین و آسمان کے ذرے ذرے کو محیط ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کے رہنے والوں کے ایک ایک عمل کو جانتا ہے مگر جب فرشتے بندوں کے اعمال کی رپورٹ لے کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو ان سے پوچھتا ہے کہ جب تم اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس لوٹ رہے تھے تو بتاؤ کہ اس وقت میرے بندے کیا کر رہے تھے؟ اور اس کا یہ پوچھنا (نعوذ با اللہ) علم حاصل کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سوال سے اس کا مقصد فرشتوں کے سامنے اپنی بندوں کی فضیلت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو بھیجنا چاہا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ پروردگار کیا تو ایسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہے جو دنیا میں فساد اور خون ریزی و غارت گری کا بازار گرم کرے گی۔ اور پھر انہوں نے اپنی برتری و بڑائی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیری عبادت کے لیے تو ہم ہی کافی ہیں اور ہم ہی تیری عبادت و پرستش کر بھی سکتے ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ ان سے یہ سوال کر کے ان پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دیکھو! جس مخلوق کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ دہ دنیا میں سوائے فتنہ و فساد پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں کرے گی اب تم خود یکھ آئے ہو کہ وہ میری عبادت اور میری پر ستش کس پابندی اور کس ذوق و شوق سے کرتی ہے۔

بہر حال! اس حدیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو رغبت دلا رہے ہیں کہ ان دونوں اوقات میں ہمیشہ پابندی سے نماز پڑھتے رہو تاکہ وہ فرشتے اللہ کے سامنے تمہارے اچھے اور بہتر اعمال ہی پیش کرتے رہیں اور رب قدوس تمہاری فضیلت و بڑائی اسی طرح فرشتوں کے سامنے ظاہر کرتا رہے۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت جندب قسری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ (دنیا و آخرت میں) اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے عہد میں کچھ مواخذہ کرے کیونکہ جس سے اس نے عہد و امان میں مواخذہ کیا تو (اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ) کہ اسے پکڑ کر دوزخ کی آگ میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قسری کے بجائے قشیری ہے۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس آدمی سے بدسلوکی نہ کریں، اس کو قتل نہ کریں۔ اس کا مال نہ چھینیں، اس کی غیبت نہ کریں اور اس کو بے آبروئی نہ کریں۔ اگر کسی آدمی نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی یا اس کے ساتھ کوئی ایسا رویہ اختیار کیا جو اس کی جان و مال اور اس کی آبرو کے لیے نقصان دہ ہو تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں خلل ڈالا لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے آدمی سے سخت مواخذہ کرے گا اور جس بد نصیب سے اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کیا اس کے لیے نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہو گا۔

یا پھر  عہد و امان سے مراد نماز ہے کہ صبح کی نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں امن دینے کا وعدہ کر لیا ہے ، لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صبح کی نماز ہر گز قضا نہ کریں ورنہ ان کے اور پروردگار کے درمیان جو عہد ہے وہ ٹوٹ جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کرے گا اور اس کے مواخذے سے بچانے کی کوئی ہمت بھی نہیں کر سکتا۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر لوگوں کو اذان کہنے اور (نماز میں) پہلی صف میں کھڑے ہونے کا ثواب معلوم ہو جائے اور بغیر قرعہ ڈالے انہیں یہ حاصل نہ ہو سکے تو وہ ضرور قرعہ ہی ڈالیں (یعنی اگر لوگ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کے لیے آپس میں نزاع کریں اور قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ کس کا نام نکلتا ہے تو یہ مناسب ہے) اور اگر ظہر کی نماز کے لیے جلدی آنے کا ثواب جان لیں تو اس نماز میں دوڑتے ہوئے آیا کریں اور اگر عشاء و صبح کی نماز کی فضیلت معلوم ہو جائے (تو فوت نہ ہونے کی حالت میں بھی ان نمازوں کے لیے) سرین کے بل چل کر آئیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

اگر تھجیر کے معنی وہی لیے جائیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی ظہر کی نماز کے لیے جلدی آنا، تو اس فضیلت کا تعلق گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں کی ظہر کی نماز سے ہو گا کیونکہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھنا مستحب ہے۔ یا پھر  تہجیر کے معنی طاعت کی طرف جلدی کرنا، ہوں گے اور بعض حضرات نے اس کے معنی نماز جمعہ کے لیے دوپہر کو جانا بھی لکھے ہیں۔ وا اللہ اعلم۔

سرین کے بل چل کر آنے ، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پاؤں سے چلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اس طرح گھسٹتا ہوا آئے جس طرح ضعیف و معذور چل کر آتے ہیں۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، منافقین پر عشاء اور فجر سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں۔ اگر دونوں کے ثواب وہ جان لیں تو سرین کے بل چلتے ہوئے آیا کریں۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

 منافقین کے مزاج میں عبادت کے سلسلے میں کسل و سستی بہت ہوتی ہے پھر جو نمازیں وہ پڑھتے ہیں وہ بھی محض اپنی جان بچانے اور مسلمانوں کو دکھانے سنانے کے لیے پڑھتے ہیں۔ فجر اور عشاء یہ دو وقت ایسے ہیں جو اول تو آرام و استراحت اور نیند کی لذت حاصل کرنے کے ہیں۔ نیز جاڑوں کے موسم میں سردی کے ہیں دوسرے یہ کہ ان اوقات میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے کوئی کسی کو کم ہی پہچانتا ہے اس لیے یہ دونوں نمازیں ان بدبختوں پر بہت گراں ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مخلص و صادق مومنین کو چاہئے کہ وہ اس خصلت سے بچیں تاکہ منافقین کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے نصف رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور جس آدمی نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے تمام رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

 اگر حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صبح کی نماز کا ثواب عشاء کی نماز کے ثواب سے زیادہ ہے کہ جب ہی تو کہا گیا ہے کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے والا ، نصف رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے والا پوری رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے۔

یا پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی تو اسے آدھی رات تک نماز پڑھنے کا ثواب ملا پھر فجر کی نماز بھی جماعت سے ادا کر لی تو بقیہ نصف رات تک کا ثواب مل گیا اس طرح دونوں نمازوں کے پڑھنے سے پوری رات تک عبادت کرنے والے کے ثواب کا وہ حقدار ہو گیا۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، دیہاتی لوگ نماز مغرب کے نام لینے میں تم پر غالب نہ آ جائیں راوی فرماتے ہیں کہ دیہاتی لوگ(مغرب کو) عشاء کہتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، نماز عشاء کے نام لینے میں بھی دیہاتی لوگ تم پر غالب نہ آ جائیں۔ اس نماز کا نام کتاب اللہ میں عشاء ہے (چنانچہ ارشاد ربانی ہے آیت ( وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ) 24۔ النور:58)  اور وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے اس نماز میں تاخیر کر دیتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

  دیہاتی لوگوں سے مراد ایام جاہلیت کے دیہاتی لوگ ہیں جو مغرب کو تو عشاء کہتے تھے اور عشاء کو عتمہ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منع فرما دیا کہ یہ نام نہ لیے جائیں کیونکہ اس میں ان کا غالب ہونا لازم آتا ہے اس لیے کہ جب ان لوگوں کا رکھا نام استعمال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے ان کی زبان کو اپنایا جس کی بناء پر وہ تم پر غالب رہے لہٰذا تم وہی نام استعمال کر و جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں یعنی مغرب اور عشاء۔

لہٰذا۔ بظاہر تو اس نہی کا تعلق دیہاتی لوگوں سے ہے کہ وہ غالب نہ ہوں لیکن حقیقت میں اس نہی کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے کہ وہ ان نمازوں کے ناموں کے سلسلے میں دیہاتی لوگوں کی موافقت نہ کریں تاکہ مسلمانوں پر ان کا غالب ہونا لازم نہ آئے۔

اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان اور اپنا کلام اصطلاح شریعت کے مطابق درست کریں اور جو باتیں کفار و فجار کی زبان زد ہوں ان سے پرہیز کریں۔

نہی اور علت نہی بیان فرمانے کے بعد فَاِنَّھَا بِحَلَابِ الْاِبِلِ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کو عتمہ کہنے کی وجہ کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔  تعتم صحیح روایت میں صیغہ معروف کے ساتھ ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ عتمہ تاریکی کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کو تاریکی میں پڑھتے تھے بایں طور پر کہ وہ شفق غائب ہونے کے بعد دودھ شروع کرتے تھے پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے۔ ایک دوسری روایت میں یہ لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ مذکور ہے جس کے معنی یہ ہوں گے۔ اونٹنیوں کا دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کی نماز تاریکی میں پڑھی جاتی تھی۔

بہر حال ایام جاہلیت میں عرب کے لوگ عتمہ تاریکی کو کہتے تھے۔ جب اسلام کی مقدس روشنی نے عرب کی سر زمین کو کفر و شرک کے اندھیروں سے صاف کیا اور نمازیں مشروع ہوئیں تو عشاء کی نماز کو دیہاتی لوگ صلوۃ العتمہ کہنے لگے چنانچہ اس نام سے مسلمانوں کو روکا گیا اور اہل جاہلیت سے مشابہت کی بناء پر اس نام کو مکروہ قرار دے دیا گیا۔

یہ پہلے بھی کئی جگہ بتایا جا چکا ہے کہ جن روایتوں میں بجائے عشاء کی عتمہ کا لفظ آیا ہے وہ روایتیں اس نہی سے قبل کی ہوں گی۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ خندق کے روز فرماتے تھے کہ (کافروں نے) ہمیں درمیانی نماز یعنی عصر کے پڑھنے سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں میں آگ بھرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

 غزوہ خندق کو غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں جو ٤ھ  یا  ٥ھ میں ہوا تھا۔ اس جنگ کو غزوہ خندق اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی غزوہ کے موقعہ پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے دشمنوں سے بچاؤ کی خاطر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی۔ خندق کھود نے میں تمام مسلمانوں کے ہمراہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ ابی وامی) بھی بنفس نفیس شریک تھے۔ جس طرح دیگر مخلص مومنین دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اللہ کے دین کی حفاظت اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کی کامیابی کے لیے اس محنت و مشقت میں مصروف رہتے تھے اسی طرح آقائے نامدار سرور کائنات فخر دو عالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی بڑی بڑی تکالیف برداشت فرما کر مصائب و رنج اٹھا کر بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ کر سردی کی شدید پریشانی اور زمین کو کھودنے پتھر اکھاڑنے کی سخت محنت جھیل کر اپنے جانثار رفقاء کے ہمراہ خندق کھودتے تھے۔

اسی جنگ میں بسبب تردد اور تیر اندازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چار نمازیں قضا گئی تھیں انہیں میں عصر کی نماز بھی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی نماز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے یہ بد دعا فرمائی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان کفار و مشرکین نے ہماری نمازیں قضا کرا کر ہمیں سخت روحانی تکلیف و اذیت میں مبتلا کیا ہے ، اللہ کرے وہ بھی دنیا و آخرت کے شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں۔

ایک معمولی سا خلجان یہاں واقع ہو سکتا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کو جبکہ کفار کی جانب سے بے انتہا تکلیف پہنچائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں بددعا نہیں کی اور یہاں بد دعا فرمائی اس کی وجہ کیا ہے؟۔

اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا معاملہ تھا وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ اپنے نفس کے معاملہ میں کسی کے لیے بددعا نہ کریں مگر یہاں نماز کا سوال تھا جس کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے نہ تھا بلکہ حقوق اللہ سے تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بد دعا فرمائی۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ  صلوٰۃ وسطی عصر کی نماز ہے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم میں سے اکثر جلیل القدر حضرات، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم وغیرہ کا قول یہی ہے لہٰذا قرآن شریف کی آیت کریمہ آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ:238) (یعنی محافظت کرو تم سب نمازوں کی اور درمیانی نماز کی) میں وسطی سے عصر کی نماز ہی مراد لی جائے گی۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کے تعین میں اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اختلاف رہا ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت تک ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث (جو آئندہ فصل میں آ رہی ہے) نہیں پہنچی ہو گی جس سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ  صلوٰۃ وسطیٰ سے عصر کی نماز مراد ہے۔ اس لیے وہ حضرات اپنے اجتہاد اور رائے کی بناء پر اس کے تعین میں اختلاف کرتے ہوں گے چنانچہ اس حدیث کے صحت کے بعد یہ متعین ہو گیا کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ وا اللہ اعلم۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، درمیانی نماز (یعنی قرآن مجید میں جو والصلوٰۃ الوسطی مذکور ہے وہ) عصر کی نماز ہے۔ (جامع ترمذی)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

صلوٰۃ وسطیٰ(یعنی درمیانی نماز) سے عصر کی نماز اس لیے مراد لی جاتی ہے کہ یہی نماز دن کی دونوں نمازوں (یعنی فجر اور ظہر) اور رات کی دونوں نمازوں) یعنی مغرب و عشاء کے درمیان آتی ہے)۔

 

نماز کے فضائل کا بیان

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے قول آیت ( اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہوْداً) 17۔ الاسراء:78)  (یعنی فجر کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے) کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ صبح کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے حاضر (یعنی جمع) ہوتے ہیں۔ (جامع ترمذی)

 

نماز کے فضائل کا بیان

تشریح

 

آیت (اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہوْداً) 17۔ الاسراء:78) کے معنی قرأت قرآن فجر ہیں اور اس سے مراد فجر کی نماز ہے۔ اسے قرآن اس لیے کہا ہے کہ قرأت نماز کا ایک رکن ہے جیسے کہ بعض مقامات پر نماز کو سجدہ یا رکوع کہا گیا ہے۔

بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں  مشہود سے مراد یہ ہے کہ بندوں کے دن اور رات کے اعمال لکھنے والے فرشتے اس نماز میں جمع ہوتے ہیں جیسا کہ اسی باب کی حدیث نمبر تین میں اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔