اس باب کے ذیل میں وہ احادیث نقل کی جا رہی ہیں جن میں نماز پڑھنے کی ترکیب معلوم ہو گی کہ نماز کس طرح پڑھی جائے؟ اور نماز کے ارکان و اجزاء کیا ہیں؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ (پہلے) اس نے نماز پڑھی، اس طرح کہ تعدیل ارکان اور قومہ و جلسہ کی رعایت نہیں کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا جاؤ اور پھر نماز پڑھو اس لیے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی وہ چلا گیا اور جس طرح پہلے نماز پڑھی تھی اسی طرح پھر نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ کر سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کا جواب دے کر پھر اس سے فرمایا کہ جاؤ نماز پڑھو اس لیے کہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں (اس طرح تین مرتبہ ہوا) تیسری مرتبہ یا چوتھی مرتبہ اس آدمی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! مجھے سکھلا دیجئے (کہ نماز کس طرح پڑھوں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو (پہلے) اچھی طرح وضو کر لو۔ پھر قبلے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو کر تکبیر کہو پھر قرآن کی جو (سورت وغیرہ) تمہیں آسان معلوم ہو اسے پڑھو پھر سکون کے ساتھ رکوع کرو پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ پھر اطمینان کے ساتھ (دوسرا) سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور سکون کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ(اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں) پھر اپنی تمام نماز اسی طرح ادا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
طمانیت کا مطلب یہ ہے کہ رکوع یا سجود وغیرہ میں اس طرح پوری دلجمعی اور سکون خاطر کے ساتھ ٹھہرا جائے کہ بدن کے تمام جوڑ اپنی جگہ اختیار کر لیں اور ان ارکان میں جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں وہ پورے اطمینان کے ساتھ پڑھی جائیں۔
رکوع و سجود وغیرہ میں طمانیت فرض ہے یا واجب؟: حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور حضرت امام ابو یوسف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اس حدیث کے پیش نظر رکوع ، سجود، قومہ اور جلسہ میں طمانیت کی فرضیت کے قائل ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اطمینان کے فقدان کی بناء پر نماز کی نفی فرمائی ہے اور یہ چیز فرضیت کی علامت ہے کہ ایک فعل اس کے نہ ہونے سے منتفی اور باطل ہو جائے لہٰذا یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے ارکان میں آرام و سکون کو اختیار نہ کیا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی جس کا اعادہ ضروری ہو گا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رکوع و سجود میں طمانیت واجب ہے اور قومہ و جلسہ میں سنت ہے یہ حضرات اس حدیث کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ یہاں نماز کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ نماز کے کمال کی نفی مراد ہے کیونکہ اس حدیث کے آخری الفاظ جو ابوداؤد، جامع ترمذی اور سنن نسائی میں منقول ہیں یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے فرمایا کہ اگر تم نے اسے (یعنی طمانیت کو) پورا کیا تو تمہاری نماز مکمل ہوئی اور اس میں سے تم نے جو کچھ کم کیا تو تم نے اپنی نماز ناقص کی۔ لہٰذا اس طرح کا حکم وجوب اور سنت کی علامت ہے کہ اس کے بغیر فعل ناقص و ناتمام ہوتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کو نماز کا اعادہ کرنے کا حکم اس لیے نہیں دیا تھا کہ اس کی نماز سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی بلکہ اس اعادہ کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ نماز پورے کمال اور بغیر کسی کراہیئت و نقصان کے ادا ہونی چاہئے۔ اور اگر طمانیت فرض ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو شروع ہی میں منع کر کے نماز پڑھنے سے روک دیتے اور اس کو بغیر فرائض کے نماز نہ پڑھنے دیتے۔
اس حدیث سے چند باتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے پہلی چیز تو یہ کہ عالم اور ناصح کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ کسی جاہل اور غلط کام کرنے والے کو نہایت نرمی اور اخلاق کے ساتھ سمجھائے اور اس کے ساتھ نصیحت کا ایسا نرم معاملہ کرے کہ وہ آدمی اس کی بات کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے پرخود مجبور ہو جائے کیونکہ بسا اوقات نصیحت کے معاملے میں بد اخلاقی و ترش روئی اصلاح و سدھار پیدا کرنے کی بجائے اور زیادہ ضد و ہٹ دھرمی اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ دوسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ ملاقات اگرچہ مکرر اور تھوڑی دیر کے بعد ہی ہو سلام کرنا مستحب ہے۔ تیسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی نماز کے واجبات میں کچھ خلل و نقصان پیدا کرے تو اس کی نماز صحیح ادا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی معنی میں نمازی نہیں کہلاتا بلکہ اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اس آدمی نے نماز نہیں پڑھی۔ پہلی روایت میں جلسہ استراحت یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے سے اٹھ کر بیٹھنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت نہیں ہے اس کی مفصل تحقیق (انشاء اللہ) آ گے آئے گی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نماز تو تکبیر سے اور قرأت الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے اور آپ جب رکوع کرتے تھے تو اپنا سر مبارک نہ تو (بہت زیادہ) بلند کرتے تھے اور نہ (بہت زیادہ) پست بلکہ درمیان درمیان رکھتے تھے (یعنی پیٹھ اور گردن برابر رکھتے تھے) اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا کھڑے ہوئے سجدے میں نہ جاتے تھے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا بیٹھے ہوئے (دوسرے) سجدہ میں نہ جاتے تھے اور ہر دور رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے اور (اور بیٹھنے کے لیے) اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے اور آپ عقبہ شیطان (یعنی شیطان کی بیٹھک) سے منع فرماتے تھے اور مرد کو دونوں ہاتھ سجدے میں اس طرح بچھانے سے بھی منع کرتے تھے جس طرح درندے بچھا لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو سلام پر ختم فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز تو تکبیر سے شروع فرماتے تھے اور قرأت کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بسم اللہ آہستہ سے پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے۔
وکان یفرش رجلہ ایسر وینصب رجلہ الیمنی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھنے کے لیے اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے) اس عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھتے تھے چنانچہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھنا چاہئے۔
آئندہ آنے والی حدیث جو حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے قعدے میں افتراش (یعنی پاؤں بچھانا ہی اختیار کرتے تھے مگر دوسرے قعدے میں تورک یعنی (کولہوں پر بیٹھنا) اختیار فرماتے تھے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے کہ پہلے قعدے میں تو افتراش ہونا چاہئے اور دوسرے قعدے میں تورک۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں قعدوں میں تورک ہی ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس نماز میں دو تشہد ہوں اس کے آخری تشہد میں تورک ہونا چاہئے اور جس نماز میں ایک ہی تشہد ہے اس میں افتراش ہونا چاہئے۔
امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل
بنیادی طور پر حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے نہ صرف یہی حدیث بلکہ اور بہت سی احادیث وارد ہیں جن میں مطلقاً پاؤں کے بچھانے کا ذکر ہے۔ نیز یہ بھی وارد ہے کہ تشہد میں سنت یہی ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر پہلے اور دوسرے قعدے کی قید کے تشہد میں اسی طرح بیٹھا کرتے تھے۔ پھر دوسری چیز یہ بھی ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کا جو طریقہ امام اعظم نے اختیار کیا ہے وہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں زیادہ بامشقت اور مشکل ہے اور احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اعمال میں زیادہ افضل و اعلیٰ عمل وہی ہے جس کے کرنے میں مشقت اور مشکل ہے۔
جن احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے قعدے میں کولہوں پر بیٹھتے تھے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے وہ اس بات پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حالت ضعف اور کبر سنی میں اس طرح بیٹھتے تھے کیونکہ دوسرے قعدے میں زیادہ دیر تک بیٹھنا ہوتا ہے اور کولہوں پر بیٹھنا زیادہ آسان ہے۔
عقبہ شیطان کا مطلب
عقبہ شیطان دراصل ایک خاص طریقے سے بیٹھنے کا نام ہے جس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ دونوں کولہے زمین پر ٹیک کر دونوں پنڈلیاں کھڑی کر لی جائیں پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر بیٹھا جائے جس طرح کے کتے بیٹھا کرتے ہیں۔قعدے میں بیٹھنے کا یہ طریقہ اختیار کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ عقبہ شیطان کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کو لہے دونوں ایڑیوں پر رکھے جائیں۔ یہ معنی لفظ عقبہ کی رعایت سے زیادہ مناسب ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرد کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ سجدہ کی حالت میں زمین پر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح بچھائے جس طرح درندے یعنی کتے وغیرہ بچھاتے ہیں اس سلسلے میں مرد کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ سجدہ کے وقت عورتوں کو اس طرح ہی دونوں ہاتھ بچھانے چاہیں کیونکہ اس طرح عورت کے جسم کی نمائش نہیں ہوتی۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بالکل صاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کا اختتام سلام پر فرماتے تھے۔ مگر اتنی بات سن لیجئے کہ نماز میں سلام پھیرنا حنفیہ کے نزدیک تو واجب ہے مگر حضرت شوافع کے نزدیک فرض ہے۔
اور حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی ایک جماعت میں فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر کہتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے اور جب رکوع میں جاتے تھے تو اپنے دونوں زانو ہاتھوں سے مضبوط پکڑتے تھے اور اپنی پیٹھ جھکا دیتے تھے (تاکہ گردن کے برابر ہو جائے) اور جب اپنا سر (رکوع سے) اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ سارے جوڑ اپنی اپنی جگہ پر آ جاتے تھے اور جب سجدے میں جاتے تو دونوں ہاتھ زمین پر (منہ کے بل) رکھ دیتے تھے اور انہیں نہ پھیلاتے تھے اور نہ (پہلو کی طرف) بیٹھتے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلے کی طرف سامنے رکھتے تھے اور جب دو رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے اور جب آخری رکعت پڑھ کہ بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں کو آگے نکال دیتے اور دوسرے (یعنی دائیں) پاؤں کو کھڑا کر کے کولھے پر بیٹھ جاتے تھے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب تکبیر کہتے تھے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں کی لو کے مقابل تک اٹھانا چاہئے کیونکہ دیگر احادیث میں اسی طرح مروی ہے اور چونکہ بعض روایات میں ان دونوں سے الگ ایک تیسرا طریقہ یعنی ہاتھوں کو کانوں کی اوپر کی جانب تک اٹھانا بھی آیا ہے۔ اس لیے امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو کانوں کے نیچے یعنی کندھوں تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا اور نہ کانوں کے اوپر کی جانب تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کیا ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان روایات کی تطبیق کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھانا چاہئے کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں تو کاندھوں کے مقابل رہیں انگوٹھے کانوں کی لو کے مقابل اور انگلیوں کے سرے کان کے اوپر کے حصے پر رکھے جائیں تاکہ اس طریقے سے تمام احادیث میں عمل ممکن ہو جائے اور روایتوں میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہ رہ جائے اور ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ احادیث مختلف اوقات سے متعلق ہیں یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح ہاتھ اٹھاتے ہوں گے اور کبھی اس طرح۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رکوع کا طریقہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ہاتھوں سے دونوں زانو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور انگلیوں کو کشادہ رکھتے تھے اور پھر گردن مبارک کو جھکا کر بالکل پیٹھ کر برابر کر دیتے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ رکوع میں تو انگلیاں کشادہ رکھنی چاہئیں اور سجدے میں ملی ہوں نیز تکبیر تحریمہ اور تشہد میں ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہئے۔
سجدے میں زمین پر ہاتھ رکھنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدے کی حالت میں انگلیاں اور ہتھلیاں زمین پر پھیلا دینی چاہئیں اور پہنچے اٹھے ہوئے اور پہلو اس طرح الگ رکھنے چاہئیں کہ اگر بکری کا بچہ چا ہے تو نیچے سے گزر جائے۔
اس حدیث میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ قومہ سے سجدہ میں جانے کے وقت زمیں پر پہلے زانو رکھے جائیں یا ہاتھ تو اس سلسلہ میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ درست تو دونوں طریقے ہیں لیکن اکثر آئمہ کے نزدیک افضل اور مختار یہی ہے کہ زمین پر پہلے زانو رکھے۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز شروع کر تے تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے نیز جب رکوع سے سر ا ٹھاتے تو تب بھی اسی طرح دونوں ہاتھ (کندھوں تک) اٹھاتے اور (رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے) کہتے سمع اللہ لمن حمدہ۔ ربنالک الحمد (ا اللہ نے اس آدمی کو سن لیا (یعنی اس کی تعریف قبول کر لی) جس نے اس کی حمد بیان کی۔ اے ہمارے پروردگار ! تعریف تو تیرے ہی لیے ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کا مطلب یہ کہ اے پروردگار ! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی کسی آدمی کی تعریف کرتا ہے تو وہ درحقیقت تیری ہی تعریف کرتا ہے کیونکہ سب کو پیدا کرنے والا تو ہی تو ہے اس لیے مصنوع کی تعریف دراصل صانع ہی کی تعریف ہوتی ہے۔
حدیث کے اس جزو سے معلوم ہوا کہ ہر نماز پڑھنے والے کو سمع اللہ لم حمدہ اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ دونوں کلمات کہنے چاہئیں۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں مگر جماعت کی صورت میں امام صرف سمع اللہ لم حمدہ کہے اور مقتدی ربنالک الحمد کہیں۔ حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ امام کو دونوں کلمات کہنے چاہئیں اسی قول کو امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ بلکہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی ایک روایت اسی قول کی تائید میں منقول ہے مقتدی کے بارے میں ان کی رائے بھی یہی ہے کہ وہ صرف رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہے۔
وکان لا یفعل ذلک فی السجود (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تکبیر تحریمہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے اس طرح جب سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے چنانچہ حضرات شوافع کا مختار مسلک یہی ہے کہ ان اوقات میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے۔ ان حضرات کے نزدیک رفع یدین کی جو صورت ہے وہ یہی ہے کہ رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ، رکوع میں جانے کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت کرنا چاہئے۔ ان تینوں موقعوں کے علاوہ اور کسی موقعہ پر رفع یدین کو یہ حضرات صحیح نہیں مانتے۔
٭٭اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی ہوئی نقل کرتے تھے (یعنی وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسی طرح کیا ہے۔) (صحیح البخاری)
٭٭ اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ انہیں کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر اسی طرح کرتے تھے (یعنی دونوں ہاتھ کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دونوں کو اپنے کانوں کے اوپر کی جانب لے جاتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین یعنی ہاتھوں کے اٹھانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ تمام علماء و ائمہ اس بات پر متفق ہیں۔ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے۔ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر رفع یدین کا مسئلہ حنفیہ و شوافع کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے اور شوافع کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔
حق تو یہ ہے کہ دونوں طرف دلائل کے انبار ہیں اور احادیث و آثار کے ذخائز ہیں جن کی بنیادوں پر طرفین اپنے اپنے مسلک کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ علمائے حنفیہ نے تمام احادیث میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی تو رفع یدین کرتے ہوں اور کبھی نہ کرتے ہوں، یا یہ کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع کے لیے رفع یدین کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔
حنفیہ کے پاس اپنے مسلک کی تائید میں بہت زیادہ احادیث و آثار ہیں انہیں یہاں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حنفی مسلک پوری طرف واضح ہو جائے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ترمذی میں دو باب قائم کئے ہیں۔ پہلا باب تو رکوع کے وقت رفع یدین کا ہے۔ اس کے ضمن میں امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث نقل کی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ دوسرا باب یہ ہے کہ ہاتھ اٹھانا صرف نماز کی ابتداء کے وقت دیکھا گیا ہے اس باب کے ضمن میں امام جامع ترمذی نے حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ادا کرتا ہوں چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز ادا کی اور انہوں نے صرف پہلی مرتبہ ہی (یعنی تکبر تحریمہ کے وقت) ہاتھ اٹھائے۔ اسی باب میں امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہونا ثابت کیا ہے۔ نیز امام موصوف نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے اور صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم اس کے قائل ہیں اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ و اہل کوفہ کا قول بھی یہی ہے۔
جامع الاصول میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو ابوداؤد و سنن نسائی کے حوالے سے اور براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو بھی ابوداؤد کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز شروع فرماتے تھے تو (تکبیر تحریمہ کے وقت) دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے قریب تک اٹھاتے تھے اور ایسا دوبارہ نہیں کرتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں یوں کہ پھر دوبارہ ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو جاتے تھے۔
اس موقع پر اتنی سی بات اور سنتے چلیے کہ اس حدیث کے بارے میں ابوداؤد نے جو یہ کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ تو ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح ہونے سے مراد یہ ہو کہ اس خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہیں لہٰذا ایک خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہ ہونا اصل حدیث کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ یا پھر یہ احتمال ہے کہ ابوداؤد کا مقصد اس حدیث کو حسن ثابت کرنا ہو جیسا کہ ترمذی نے کہا ہے لہٰذا اس صورت میں کہا جائے گا تمام ائمہ و محدثین کے نزدیک حدیث حسن قابل استدلال ہوتی ہے۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب موطا میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کو جس سے رکوع اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین ثابت ہوتا ہے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔ یہ سنت ہے کہ ہر مرتبہ جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہی جائے لیکن رفع یدین سوائے ایک مرتبہ (یعنی تحریمہ کے وقت) کے دوسرے مواقع پر نہ ہو اور یہ قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے اور اس سلسلے میں بہت زیادہ آثار وارد ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد عاصم ابن کلیب خرمی کی ایک روایت جسے عاصم نے اپنے والد مکرم سے جو حضرت علی المرتضیٰ کے تابعین میں سے ہیں روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سوائے تکبیر اولیٰ کے رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
عبدالعزیز ابن حکم کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے علاوہ اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کر تے تھے۔
مجاہد کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے چنانچہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ اسود سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے موقع پر رفع یدین کرتے تھے۔
لہٰذا۔ جب حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہایت قرب رکھتے تھے ترک رفع یدین پر عمل کرتے تھے تو وہ عمل جو اس کے برخلاف ہے قبول کرنے کے سلسلے میں اولیٰ اور بہتر نہیں ہو گا۔
شرح ابن ہمام میں ایک روایت دار قطنی اور ابن عدی سے نقل کی گئی ہے جسے انہوں نے محمد ابن جابر سے انہوں نے حماد ابن سلیمان سے انہوں نے ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہمراہ نماز پڑھی ہے چنانچہ انہوں نے سوائے تکبیر اولیٰ کے اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کیا۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما مکہ کے دارالخیاطین میں جمع ہوئے۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا کہ آپ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام صاحب نے جواب دیا اس لیے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلہ میں کچھ صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے ! امام اوزاعی نے فرمایا کہ، مجھے زہری نے حضرت سالم کی یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر اولیٰ کے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ اور اسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صرف ابتداء نماز میں دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ یہ روایت سن کر امام اوزاعی نے کہا کہ میں نے تو زہری سے نقل کیا اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے اور آپ اس کے مقابلے میں حماد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے عقلمہ سے نقل کیا ہے یعنی میری بیان کردہ سند آپ کی بیان کردہ سند سے عالی اور افضل ہے۔
حضرت امام اعظم نے فرمایا کہ اگر یہی بات ہے تو پھر سنو کہ حماد، زہری سے زیادہ فقیہ ہیں اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اسی طرح علقمہ بھی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں فقہ میں کم نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت و صحابیت کا شرف حاصل ہے۔ نیز اسود کو بھی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اور عبداللہ تو خود عبداللہ ہیں۔ یعنی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف و توصیف کیا کی جائے کہ علم فقہ میں اپنی عظمت شان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت و صحبت کی سعادت و شرف کی وجہ سے مشہور ہیں۔
گویا امام اوزاعی نے تو اسناد کے عالی ہونے کی حیثیت سے حدیث کو ترجیح دی اور حضرت امام اعظم نے راویان حدیث کے فقیہ ہونے کے اعتبار سے حدیث کو ترجیح دی۔ چنانچہ حضرت امام اعظم کا اصول یہی ہے کہ وہ فقیہ راوی کو غیر راویوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے۔
نہایہ شرح ہدایہ میں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مسجد حرام میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کر رہا تھا، انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے اختیار کیا تھا اور بعد میں اسے ترک کر دیا یعنی ان مواقع پر رفع یدین کا حکم پہلے تھا اب منسوخ ہو گیا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رفع یدین کیا تو ہم نے بھی رفع یدین کیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ترک کر دیا تو ہم نے بھی ترک کر دیا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ (یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی زندگی ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری دی تھی) صرف ابتداء نماز ہی میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔
حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر کا معمول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کے پیچھے سالہا سال نماز ادا کی ہے مگر میں نے اس کو سوائے ابتداء نماز کے اور کسی موقع پر رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت گزر چکی ہے۔ جس سے تینوں مواقع پر رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے اور جو شوافع کی سب سے اہم دلیل ہے۔ لہٰذا اصول حدیث کا چونکہ قاعد ہے کہ راوی کا عمل اگر خود اس کی روایت کے خلاف ہو تو روایت پر عمل نہیں کیا جاتا اس لیے حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت ساقط العمل قرار دی جائے گی۔
بہر حال۔ ان روایات و آثار سے معلوم ہوا کہ رفع یدین دونوں کے اثبات میں احادیث و آثار وارد ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت خصوصاً حضرت عبداللہ مسعود اور ان کے تابعین رفع یدین نہ کرنے ہی کے حق میں ہیں۔ لہٰذا۔ ان تمام موافق و مخالف احادیث کا محمول یہی ہو سکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اوقات مختلفہ میں دونوں طریقے وجود میں آئے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے علم فقہ اور ان کی اسناد کا نقطہ منتہا حضرت عبداللہ ابن مسعود اور ان کے تابعین کی ذات گرامی ہے اور چونکہ ان کا رجحان عدم رفع یدین کی طرف ہے اس لیے امام اعظم ابوحنیفہ کے ترک رفع یدین کے مسلک ہی کو اختیار کیا ہے اور اب تمام حنفیہ اسی مسلک کے حامی اور اس مسلک پر عامل ہیں۔
علمائے حنفیہ صرف اسی قدر نہیں کہتے بلکہ ان حضرات کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کا حکم منسوخ ہے کیونکہ جب حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں یہ ثابت ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ ترک رفع یدین ہی اختیار کرتے تھے باوجود اس کے کہ رفع یدین کی حدیث کے راوی یہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تو رفع یدین کا حکم رہا ہو گا مگر بعد میں یہ حکم با وجود کثرت احادیث و آثار کے منسوخ ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسئلے کی پوری تفصیل اپنی کتاب شرح سفر السعادۃ میں نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک رفع یدین اور عدم رفع یدین دونوں ہی سنت ہیں مگر رفع یدین نہ کرنا ہی اولیٰ اور راجح ہے البتہ دیگر علماء حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رفع یدین کا حکم اور طریقہ منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔
اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار کو نماز پڑھتے دیکھا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنی نماز کی طاق رکعت (یعنی پہلی یا تیسری) میں ہوتے تو جب تک سیدھے بیٹھ نہ لیتے اٹھتے نہ تھے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے اور پہلی یا تیسری رکعت میں دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو پہلے بیٹھتے تھے اس کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھتے تھے اسی کو جلسہ استراحت کہا جاتا ہے۔
جلسہ استراحت سنت ہے یا نہیں؟: حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو پہلے قعدہ میں بیٹھنے کا ہے۔ نیز یہ کہ بیٹھنے کے بعد دونوں ہاتھوں سے زمین کا سہارا لے کر اٹھنا چاہئے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مختار قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جلسہ استراحت کرنا چونکہ کبر سنی اور ضعف کی وجہ سے تھا اس لیے جس آدمی کو جلسہ استراحت کی حاجت نہ ہو اس کے لیے یہ سنت نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مستدل یہی حدیث ہے اور حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جس کو ترمذی نے بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے) پشت قدم پر یعنی بغیر بیٹھے ہوئے اٹھتے تھے اگرچہ اس حدیث کے بعض طرق ضعیف ہیں لیکن حدیث صحیح الاصل ہے۔
حضرت ابن ابی شیبہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنے پشت قدم پر بغیر بیٹھے ہوئے اٹھتے تھے نیز انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابن زیبر رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ اور حضرت نعمان ابن ابی عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے بہت سے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ جب پہلی اور تیسری رکعت میں سجدے سے سر اٹھاتے تھے تو جس حالت میں ہوتے تھے اسی حالت میں بغیر بیٹھے ہوئے اٹھ جاتے تھے۔
بہر حال۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ احادیث و آثار وارد ہیں اور جو احادیث اس کے برعکس وارد ہیں ان کا محمول کبر سنی اور ضعف ہے جیسا کہ اس حدیث کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبر سنی اور ضعف کی وجہ سے جلسہ استراحت اختیار فرماتے تھے۔
اور حضرت وائل ابن حجر (حضرت وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ حضر موت کے شمار کردہ رئیسوں میں سے ہیں۔ جب یہ اپنے قبیلے کی طرف سے ایلچی بن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تو آپ نے اپنی چارد مبارک زمین پر بچھا دی اور ان کو اس پر بٹھایا۔ پھر انہوں نے اسلام قبول کیا۔ علقمہ اور عبدالجبار ان کے صاحبزادے ہیں۔) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہی پھر ہاتھ کپڑے کے اندر کر لیے اور داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔ پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو دونوں ہاتھ کپڑے سے نکال کر ان کو اٹھایا اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے اور جب (رکوع سے اٹھتے وقت) سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو (اس وقت بھی) ہاتھوں کو اٹھایا پھر جب سجدہ کیا تو دونوں ہاتھوں کے درمیان کیا (یعنی اپنا سر مبارک دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیر تحریمہ کے بعد اپنے دونوں دست مبارک چادر میں ڈھانک لیے اور نیت باندھ لی مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چادر میں ہاتھ نہیں ڈھانکے بلکہ اپنی آستینوں میں چھپا لیے۔ بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ کپڑوں میں جو چھپائے تھے تو اس کی وجہ غالباً سردی کی شدت ہو گی۔
تکبیر تحریمہ کے بعد داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا یوں تو تمام ائمہ کے نزدیک ایک مسئلہ ہے لیکن حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چھوڑنے رکھنا اولیٰ ہے اور باندھنا بھی جائز ہے۔
اس بارہ میں آئمہ کے ہاں اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا چاہئے اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ سینے کے قریب یعنی ناف کے اوپر باندھنے چاہئیں۔ دونوں حضرات کے مطابق حدیثیں وارد ہیں چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حکم یہی ہے کہ جہاں چا ہے ہاتھ باندھ لے درست ہو گا لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ اس مسئلے میں کوئی خاص طریقہ چونکہ احادیث کے ذریعے چونکہ مستحسن نہیں تھا یعنی نہ تو ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا طریقہ خاص طور پر ثابت ہے نہ ناف کے نیچے بلکہ دونوں طریقے احادیث کے ذریعہ ثابت ہیں تو حضرت امام اعظم نے ان دونوں صورتوں میں اس صورت کو اختیار کیا جو ادب اور تعظیم کے سلسلہ میں مقرر و متعارف ہے اور وہ ناف کے نیچے باندھنا ہے کیونکہ انتہائی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کے موقع پر ہاتھ ناف کے نیچے ہی باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔
اور حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو حکم کیا جاتا تھا کہ نمازی کو نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو اوپر رکھنا چاہئے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس حدیث سے اس طرح اشارہ مقصود ہے کہ احکم الحاکمین اور پروردگار عالم کے سامنے کھڑے ہونے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ ادب و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے بلکہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ کھڑا رہے جس کا طریقہ یہ ہو کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ناف کے نیچے رکھا رہے اور جیسا کہ بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہونے کے وقت تکبیر کہتے پھر رکوع میں جانے کے وقت تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنی پشت اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے پھر کھڑے ہی کھڑے ربنا لک الحمد کہتے پھر جب (سجدے کے لیے) جھکتے تو تکبیر کہتے اور (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ پھر نماز پوری کرنے تک ساری نماز میں یہی کرتے تھے اور جب دو رکعتیں پڑھنے کے بعد اٹھتے تو تکبر کہتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں تکبیر تحریمہ اور رکوع و سجود کے مواقع پر صرف تکبیرات کا ذکر کیا گیا ہے ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اور حضرت جابر راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سب سے بہتر نماز وہ ہے جس میں قیام طویل (لمبا) ہو۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں طویل قیام کرنا یعنی زیادہ دیر تک کھڑے رہنا اور لمبی سورتیں پڑھنا افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے مشقت و محنت زیادہ ہوتی ہے اور جذبہ خدمت اور اطاعت کا اظہار ہوتا ہے جو عبادت کی روح ہے۔
نماز میں قیام افضل ہے یا سجود؟: علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ نماز میں آیا قیام افضل ہے یاسجود؟ چنانچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ نماز میں سجود افضل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ قیام افضل ہے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قیام میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور سجدے میں تسبیح پڑھی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن تسبیح سے افضل ہے۔ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے۔
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے دس صحابہ کی جماعت سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز(کے طریقے) کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں صحابہ کی جماعت نے کہا کہ اچھا بیان کیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر کندھوں کے برابر لے جاتے اور تکبیر کہتے پھر قرأت کرتے۔ اس کے بعد تکبیر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع میں جا کر دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنے پر رکھتے اور کمر سیدھی کر لیتے اور سر کو نہ نیچا کرتے تھے اور نہ بلند کرتے تھے (یعنی پیٹھ اور سر برابر رکھتے تھے) پھر سر اٹھاتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلوؤں سے الگ رکھتے تھے اور اپنے پاؤں کی انگلیوں کو موڑ کر (ان کے رخ قبلے کی طرف) رکھتے تھے پھر سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں پاؤں موڑ کر (یعنی بچھا کر) اس پر سیدھے بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر برابر آ جاتا تھا۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے (دوسرے) سجدے میں چلے جاتے اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے (سجدے سے) اٹھتے اور بایاں پاؤں موڑ کر اس اطمینان سے بیٹھتے (یعنی جلسہ استراحت کرتے) یہاں تک کہ بدن کا ہر عضو اپنی جگہ پر آ جاتا تھا پھر دوسری رکعت میں بھی (سوائے ابتدائے رکعت میں سبحانک اللھم اور اعوذ باللہ) پڑھنے کے اسی طرح کرتے تھے اور جب وہ دو رکعت پڑھتے (یعنی تشہد) کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے جیسے کہ نماز کو شروع کرنے کے وقت تکبیر کہتے تھے پھر باقی نماز اسی طرح پڑھتے تھے اور جب وہ سجدہ (یعنی آخری رکعت کا دوسرا سجدہ) کر چکتے جس کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے تو اپنا بایاں پاؤں باہر نکالتے اور بائیں طرف کولھے پر بیٹھ جاتے اور پھر (تشہد وغیرہ پڑھنے کے بعد) سلام پھیرتے تھے۔ (یہ سن کر) وہ سب صحابہ بولے کہ بے شک تم نے سچ کہا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے (ابوداؤد و دارمی) ترمذی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں جو ابوحمید سے مروی ہے۔ یہ الفاظ ہیں پھر رکوع میں جا کر دونوں ہاتھ زانو پر اس طرح رکھے جیسے انہیں مضبوطی سے پکڑا ہو اور اپنے ہاتھوں کو (کمان کے) چلے کی طرح رکھا اور کہنیوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے دور رکھا (گویا) کہ کہنیاں چلے کے مشابہ تھیں اور پہلو کمان کے مشابہ اور راوی فرماتے ہیں کہ پھر سجدے میں گئے تو اپنی ناک اور پیشانی کو زمین پر رکھا اور ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھا اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں کی سیدھ میں اور دونوں رانوں کو کشادہ رکھا اور اپنے پیٹ کو دونوں سے الگ رکھا یہاں تک کہ سجدے سے فارغ ہوئے اور پھر اس طرح بیٹھے کہ بایاں پیر تو بچھا لیا اور داہنے پاؤں کی پشت قبلے کی طرف کی اور داہنا ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لیا اور (اشھد ان لا الہ الا اللہ کہنے کے وقت) اپنی انگلی یعنی سبابہ سے اشارہ کیا۔ (اور ابوداؤد ہی کی ایک اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیتے تھے اور جب چوتھی رکعت پڑھ کے بیٹھتے تو بائیں کولھے کو زمیں سے ملاتے اور دونوں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے تھے۔
تشریح
انا اعلمکم بصلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(یعنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کے طریقہ کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں) ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی خاص مصلحت و ضرورت کی بناء پر بغیر کسی غرور و تکبر اور نفسانیت کے اظہار کے طور پر اپنے علم کی زیادتی کا دعوی کرے تو جائز ہے۔
حدیث کے الفاظ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یکبر سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے رفع یدین کرتے اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہتے چنانچہ امام اعظم کا مسلک بھی یہی ہے کہ پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔
فامکن انفہ وجبھتہ الارض سے معلوم ہوا کہ سجدہ پیشانی اور ناک دونوں کو زمین پر رکھ کر کرنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مستقل طور پر سجدہ اسی طرح کرتے تھے اور احادیث بھی اس کے موافق وارد ہیں لہٰذا سجدہ مکمل تو جب ہی ہوتا ہے کہ ناک اور پیشانی دونوں کو زمین پر رکھا جائے۔ اگر کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر سجدے میں ان دونوں میں سے کسی ایک کو زمین پر نہیں رکھا تو مکروہ نہیں ہے۔ اور اگر بغیر کسی عذر اور مجبوری کے ایسا کیا تو اس میں یہ صورت ہو گی کہ اگر زمین پر پیشانی رکھی ہے ناک نہیں رکھی تو یہ متفقہ طور پر جائز ہو گا البتہ سجدہ مکروہ ہو گا اور اگر پیشانی نہیں رکھی بلکہ ناک رکھی تو امام اعظم کے نزدیک یہ بھی بکراہت جائز ہے مگر حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جائز نہیں ہے اور اسی پر فتوی ہے۔
سبابہ کی تحقیق
سبابہ شہادت کی انگلی کو کہتے ہیں۔ سب کے لغوی معنی گالی کے ہیں ایام جاہلیت میں اہل عرب جب کسی کو گالی دیتے تھے اس انگلی کو اٹھاتے تھے اس مناسب سے اس انگلی کا نام اسی وقت سے سبابہ رائج ہو گیا پھر بعد میں اس انگلی کا اسلامی نام مسبحہ اور سباحہ ہو گیا کیونکہ تسبیح و توحید کے وقت اس انگلی کو اٹھاتے ہیں۔
بہر حال۔ حدیث کے الفاط کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت اس انگلی سے اس طرح اشارہ کیا کہ نفی یعنی اشھد ان لا الہ کہتے وقت انگلی اتھائی اور اثبات یعنی الا اللہ کہتے وقت انگلی رکھی دی
اور حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ اتنے اٹھائے کہ کندھوں کے برابر پہنچ گئے اور دونوں انگوٹھوں کو کانوں تک لے گئے پھر تکبیر کہی۔ (سنن ابوداؤد) اور سنن ابوداؤد ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انگوٹھوں کو کانوں تک اٹھاتے تھے۔
تشریح
یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم کے مسلک کی تائید کر رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہاتھ اٹھانے کے بعد تکبیر کہتے تھے اور انگوٹھوں کو کانوں کی لو تک اٹھاتے تھے۔
اور حضرت قبیصہ ابن ہلب اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم ہم لوگوں کو نماز پڑھاتے تو (قیام میں) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
اور حضرت رفاعہ ابن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز پڑھی، پھر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (سلام کا جواب دے کر) فرمایا کہ۔ اپنی نماز دوبارہ پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی اس آدمی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے نماز پڑھنے کا طریقہ بتا دیجئے کہ نماز کس طرح پڑھوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم قبلے کی طرف متوجہ ہو تو اللہ اکبر (یعنی تکبیر تحریمہ) کہو پھر سورہ فاتحہ اور جو کچھ اللہ چا ہے پڑھو (یعنی سورۃ فاتحہ کے ساتھ جو سورت چاہو پڑھو) اور جب تم رکوع میں جاؤ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے زانوؤں پر رکھو رکوع میں (اطمینان سے) قائم رہو اور اپنی پشت کو ہموار رکھو اور جب تم (رکوع سے) سر اٹھاؤ تو اپنی پشت کو سیدھا کرو اور سر اٹھاؤ(یعنی بالکل سیدھ ہو جاؤ) یہاں تک کہ تمام ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آ جائیں اور جب سجدہ کرو تو اچھی طرح سجدہ کرو اور جب تم سجدے سے سر اٹھاؤ تو اپنی بائیں ران پر بیٹھ جاؤ پھر اسی طرح ہر ایک رکوع و سجدے میں کرو، یہاں تک کہ رکوع، سجود، قومہ اور جلسہ) گویا ہر ایک رکن کی صحیح ادائیگی پر تمہیں اطمینان ہو جائے۔ حدیث کے یہ الفاظ مصابیح کے ہیں اور ابوداؤد نے اسے تھوڑے سے تغیر و تبدل کے ساتھ نقل کیا ہے نیز ترمذی اور نسائی نے بھی اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اس طرح وضو کرو جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے پھر کلمہ شہادت پڑھو (جیسا کہ وارد ہے کہ وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا ہی فضیلت کی بات ہے یا یہ کہ کلمہ شہادت سے مراد اذان ہے) پھر اچھی طرح نماز ادا کرو (یا فاقم کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر کہو) اور قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہو اس کو پڑھو اور کچھ یاد نہ تو الحمد اللہ، اللہ اکبر اور لا الہ لا اللہ کہو۔ پھر رکوع کرو۔
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جس آدمی کو قرآن کی کوئی سورۃ و آیت یاد نہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ قرأت کی جگہ سبحان اللہ و الحمد اللہ ولا الہ الا اللہ وا اللہ اکبر پڑھ لیا کرے۔ چنانچہ یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز کا وقت آنے تک قرآن کی کم سے کم اتنی آیتیں جتنی آیات کا پڑھنا نماز میں فرض ہے یاد کر لے۔ اگر اس عرصہ میں اسے کچھ بھی یاد نہ ہو سکے تو وہ قرأت کی جگہ ذکر اور تسبیح و تہلیل کر لیا کرے اس کی نماز ادا ہو جائے گی۔
اور حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (نفل) نماز دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت میں التحیات ہے اور (نماز کی روح) خشوع، عاجزی اور اظہار غریبی ہے پھر (نماز پڑھنے کے بعد) اپنے پروردگار کی طرف دونوں ہاتھ اٹھاؤ، (حضرت فضل فرماتے ہیں کہ ثم تقنع یدیک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد تم) اپنے پروردگار کی طرف اپنے ہاتھوں کو اس طرح اٹھاؤ کہ ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں منہ کی جانب ہوں (جو دعا کا طریقہ ہے) اور یہ کہو کہ اے میرے رب ! اے میرے رب ! اور جو آدمی ایسا نہ کرے (یعنی مذکورہ بالا طریقے پر عمل نہ کرے اور دعا نہ مانگے) تو اس کی نماز ایسی ہے ، ویسی ہے (یعنی ناقص ہے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ، اس کی نماز ناقص ہے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے تین چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ یعنی پہلی چیز تو یہ ہے کہ نفل نماز دو رکعت پڑھی جائے خواہ دن ہو یا رات۔ یعنی ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا جائے چار رکعتوں کے بعد سلام نہ پھیرا جائے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ نفل نماز دو رکعت کر کے ہی پڑھنا افضل ہے۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ چا ہے رات ہو چاہے دن، نفل نماز چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا ہی افضل ہے ، حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رات کو دو دو اور دن کو چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا افضل ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل تو یہی حدیث ہے۔ حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے تراویح پر قیاس کرتے ہوئے یہ حکم دیا ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی دلیل کے طور پر فرماتے ہیں کہ یہ بات صحیح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے ، نیز ظہر کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے چار رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔ پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ چار چار رکعت پڑھنے میں تحریمہ کے اندر زیادہ دیر تک رہنے کی وجہ سے زیادہ مشقت و محنت برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ جس عبادت میں مشقت زیادہ ہوتی ہے وہ افضل ہوتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد (الصلوٰۃ مثنی مثنی) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ نفل نماز طاق نہیں ہے بلکہ اولیٰ درجہ دو رکعتیں ہیں۔
دوسری چیز یہ ہے کہ نماز کی روح اور نماز کی معراج خشوع و خصوع اور اظہار عاجزی ہے ، بندہ نماز کے اندر جس قدر خشوع کرے گا خضوع سے کام لے گا اور پروردگار کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی بڑائی و عظمت اور اپنی انتہائی بے چارگی و محتاجگی کا اظہار کرے گا نماز اسی قدر مقبولیت کے درجات کو پہنچے گی۔ خشوع کا مطلب یہ ہے کہ باطن میں بندہ اپنے عجز کا احساس کرے ، اپنے نفس کو عاجزی و انکساری کے راستے پر لگائے رہے گویا خشوع عجز باطنی کا نام ہے اور خضوع کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ظاہری طور پر اپنے ہر عمل اور ہر زاویے سے اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرے گو یا خضوع عجز ظاہری کا نام ہے۔
تیسری چیز یہ کہ نماز کے بعد دعا مانگنی چاہئے۔ یعنی جب بندہ اللہ کے دربار میں حاضری دے اور نماز پڑھ کر اپنی عبودیت و فرمانبرداری کا اظہار کر دے تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نماز کے بعد اللہ کی درگاہ میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا دے اور اپنی محتاجگی ولا چارگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی دینی دنیوی بھلائی میں اللہ کی مدد و نصرت کا طلب گار ہو۔
اور حضرت سعید ابن حارث ابن معلی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی چنانچہ جب انہوں نے سجدے سے اپنا سر اٹھایا اور جب سجدے میں گئے نیز جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھے تو بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح (بآواز بلند تکبیرات کہتے) دیکھا ہے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ امام کو چاہئے کہ وہ درمیان نماز تمام تکبیرات بآواز بلند کہے۔ یہاں صرف ان تین موقعوں کی تکبیرات کا ذکر یا تو اتفاقا کیا گیا ہے یا پھر کچھ لوگوں نے ان اوقات کی تکبیرات کا انکار کیا ہو گا اس لیے راوی نے صرف انہیں تکبیرات کو ذکر کیا۔ ویسے اسمٰعیل کی روایت میں بقیہ تکبیرات کا ذکر بھی موجود ہے چنانچہ ان کی روایت کے ابتداء میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے تھے یا کہیں چلے گئے تھے تو (ان کی عدم موجودگی میں) حضرت ابو سعید نے نماز پڑھائی چنانچہ انہوں نے نماز شروع ہونے اور رکوع میں جانے کے وقت تکبیرات بآواز بلند کہیں اس کے بعد بقیہ حدیث بیان کی گئی ہے۔
٭٭اور حضرت عکرمہ (آپ عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام تھے نام عکرمہ اور کنیت ابوعبدا اللہ تھی ١٠٥ھ بمعر ٨٠ سال آپ کا انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ایک بوڑھے آدمی (یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پیچھے نماز پڑھی انہوں نے نماز میں بائیس (مرتبہ) تکبیرات کہیں چنانچہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ (معلوم ایسا ہوتا ہے) کہ یہ آدمی احمق ہے (جو اتنی زیادہ تکبیریں کہتا ہے) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تیری ماں تجھے روئے یہ طریقہ تو حضرت ابو القاسم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
چار رکعتوں میں مع تکبیر تحریمہ کے بائیس تکبیرات ہوتی ہیں۔ چونکہ اس زمانہ میں مروان اور بنی امیہ نے نماز میں تکبیریں بآواز بلند کہنی چھوڑ دی تھیں اس لیے جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیرات بآواز بلند کہیں تو حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت تعجب ہوا۔
٭٭اور حضرت علی بن حسین ابن علی بطریق مرسل روایت فرماتے ہیں کہ۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں جب جھکتے (یعنی رکوع و سجود میں جاتے) اور جب (قومہ، جلسہ اور قیام کے وقت) اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے ملاقات فرمائی (یعنی وفات پائی)۔ (مالک)
اور حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی سی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق) نماز پڑھائی اور صرف تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد، سنن نسائی) اور ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث اس طرح صحیح نہیں ہے۔
تشریح
امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب میں رفع یدین کے مسئلہ سے متعلق دو باب قائم کئے ہیں۔ ایک باب تو رفع یدین کے اثبات میں اور دوسرا باب عدم رفع یدین کے اثبات میں۔ اسی دوسرے باب میں امام موصوف نے یہ حدیث نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں براء ابن عازب سے بھی حدیث منقول ہے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے اس کے تابع صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت ہے۔ نیز سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے مطابق ہے۔
البتہ امام موصوف نے پہلے باب میں عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رفع یدین کی حدیث ثابت ہے اور عدم رفع یدین کے سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جو حنفیہ کی مستدل ہے ثابت نہیں ہے۔
بہر حال اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ حنفیہ کے مسلک عدم رفع یدین کے اثبات میں اس حدیث کے علاوہ اور بہت سی احادیث و آثار وارد ہیں جن کو پہلے ذکر بھی کیا جا چکا ہے۔
٭٭اور حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو (پہلے) قبلے کی طرف متوجہ ہوتے (پھر) دونوں ہاتھ اٹھاتے اور (اس کے بعد) اللہ اکبر فرماتے۔ (سنن ابن ماجہ)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک مرتبہ) ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی۔ آخر صف میں ایک آدمی کھڑا تھا جس نے ٹھیک طرح نماز نہیں پڑھی۔ جب اس آدمی نے سلام پھرا (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے آواز دے کر فرمایا کہ اے فلاں ! کیا تم اللہ بزرگ و برتر سے نہیں ڈرتے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے نماز کس طرح پڑھی ہے؟ تم تو یہ جانتے ہو ہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو مجھے معلوم نہیں ہوتا حالانکہ اللہ کی قسم جس طرح میں اپنے سامنے کی چیزیں دیکھتا ہوں اسی طرح اپنے پیچھے کی چیزیں بھی دیکھ لیتا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس دنیا میں شریعت حق دے کر مبعوث فرمایا تو جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت و نبوت کے دلائل و شواہد میں بہت ساری چیزیں دیں وہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ معجزات بھی عنایت فرمائے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کے ذہن و فکر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و برتری اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی و صداقت عیاں ہو سکے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح اپنے سامنے اور آگے چیزوں کو دیکھ لیتے تھے ایسے ہی اپنے پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھنے پر قادر تھے اور یہ دیکھنا خرق عادت یعنی معجزہ کے طور پر ہوتا تھا جس کی راہنمائی الہام کے ذریعے ہوتی تھی۔
مگر اتنی بات یاد رکھ لیجئے کہ اس معجزے سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم غیب حاصل تھا کیونکہ اول تو یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خصوصیت صرف معجزے کے طور پر حاصل تھی۔ نیزیہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وصف پر از خود قادر نہ تھے بلکہ اس سلسلے میں وحی الہام کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی کی جاتی تھی۔ پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ وصف ہمیشہ حاصل نہیں رہتا تھا بلکہ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم غیب حاصل ہوتا تو نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وحی الہام کی راہنمائی کے بغیر از خود اس وصف پر قاد ہوتے بلکہ یہ وصف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہمیشہ ہمیشہ حاصل ہوتا چنانچہ اس کی تائید خود ایک روایت سے ہوتی ہے کہ
غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کہیں غائب ہو گئی، جب بہت زیادہ تلاش کے بعد بھی اس کا کہیں پتہ نہ چلا تو منافقین نے کہنا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تو یہ فرماتے ہیں کہ میں آسمان کی باتیں تم تک پہنچاتا ہوں تو کیا وہ اتنا بھی نہیں جان سکتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں تو صرف انہیں چیزوں کو جان سکتا ہوں جن کے بارے میں میرا اللہ مجھے علم دے ! اور اب میرے اللہ نے مجھے (بتا دیا اور) دکھا دیا ہے کہ میری اونٹنی فلاں جگہ ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں اٹکی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد منقول ہے کہ میں انسان ہوں، میں تو (ا اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر) یہ بھی نہیں جانتا کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے؟
شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حقیقت کی ترجمانی اس طرح کی ہے
گہے برطارم اعلی نشینم
گہے برپشت پائے خود نہ بینم
بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دوسری حالتوں کے مقابلے میں زیادہ افضل و اعلیٰ ہوتی تھی اس لیے دوسرے مواقع کی بہ نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر حالت نماز میں کائنات کی چیزوں کی حقیقت و معرفت کامل طور پر واضح و ظاہر ہوتی تھی۔ پھر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نماز میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور متوجہ الی اللہ ہونے کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کائنات سے بے خبر ہو جاتے تھے بلکہ نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اشیاء کائنات سے پوری پوری طرح باخبر رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا احساس و شعور پوری قوت سے اشیائے عالم کا ادراک کرتا تھا، چنانچہ اللہ کے وہ نیک و فرمانبردار بندے بھی جو ریاضیت و مجاہدہ اور تعلق مع اللہ کی بناء پر کاملین کے درجے میں ہوتے ہیں حالت نماز میں کائنات کی اشیاء سے باخبر رہتے ہیں۔ اگر ایک طرف ان کے قلوب بارگاہ خداوندی میں پوری طرح حاضر رہتے ہیں تو دوسری طرف ان کے احساس و شعور دنیا کی چیزوں سے بھی مطلع رہتے ہیں اسی وجہ سے مشائخ فرماتے ہیں کہ نماز مقام کشف و حضور ہے نہ کہ محل غیبت اور استغراق!۔
بعض حضرات نے ان تمام مباحث سے ہٹ کر یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں کندھوں کے درمیان دو سوراخ تھے جن کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیچھے کی جانب دیکھتے تھے۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی ثبوت ہے بلکہ کسی ذہن کی افتراع محض ہے۔
نماز کے شروع میں جن دعاؤں اور اذکار کا پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً انی وجھت الخ یا سبحانک اللھم الخ یا ان کے علاوہ دیگر دعائیں ان سب کو یا بعض کو فرائض و نوافل میں پڑھنا امام شافعی کے نزدیک مستحب ہے ، امام اعظم، امام مالک، اور امام احمد فرماتے ہیں کہ صرف سبحانک اللہم الح پڑھا جائے اور اس کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں وہ سب نوافل پر محمول ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان دعاؤں کو نفلوں میں پڑھا کرتے تھے۔
حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک سبحانک اللہم الخ اور انی وجہت الخ دونوں دعاؤں کو پڑھنا چاہئے۔ امام طحاوی نے بھی اس کو اختیار کیا ہے ان دونوں دعاؤں کی ترتیب میں نمازی کو اختیار ہے خواہ وہ پہلے سبحانک اللہم پڑھے یا انی وجہت کو پہلے پڑھ لے ویسے مشہور یہی ہے کہ انی وجہت، سبحانک اللہم کے بعد پڑھا جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان مکمل خاموشی اختیار کرتے تھے (یعنی بآواز بلند نہ پڑھتے تھے) چنانچہ میں نے (ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان خاموش ہوئے کیا پڑھا کرتے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا میں یہ (دعا) پڑھا کرتا ہوں۔ اَللّٰھُمَّ بَاعِدْبَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَا یَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَ بْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَآءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ اے اللہ ! مجھ میں اور میرے گناہوں میں اتنا فاصلہ پیدا کر دے جیسا کہ تو نے مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ پیدا کر رکھا ہے (یعنی میرے گناہوں کو کمال بخشش عطا کر) اے اللہ ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر دے جیسے سفید کپڑے سے میل دور کیا جاتا ہے (یعنی مجھے گناہوں سے کمال پاکی عطا کر) اے اللہ ! میرے گناہ پانی ، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
دعا کے آخر جملہ (اے اللہ میرے گناہ پانی، برف اور دلوں سے دھو ڈال) سے یہ مراد ہے کہ الہ العالمین! میرے گناہوں کو اپنے فضل و کرم کے مختلف طریقوں سے بخش دے۔ گویا یہاں بخشش میں مبالغہ مقصود ہے نہ کہ حقیقۃً ان چیزوں سے گناہوں کو دھونا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کس کس موقع پر کون کون سی دعائیں پڑھتے تھے
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز پڑھنے کھڑے ہوتے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ، جب نماز شروع کرتے تو (پہلے) تکبیر (تحریمہ) کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے۔
(انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلا تی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا من المسلمین اللھم انت الملک لا الہ الا انت انت ربی وانا عبدک ظلمت نفسی و اعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا انہ لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی لا حسن الاخلاق لا یھدی لا حسنھا الا انت واصرف عنی سیھا لا یصرف عنی سیھا الا انت لبیک وسعدیک والخیر کلہ فی یدیک و الشر لیس الیک انا بک والیک تبارکت و تعالیبت استغفرک واتوب الیک)
ترجمہ: میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے در حالیکہ میں حق کی طرف متوجہ ہونے والا اور دین باطل سے بیزار ہوں اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو شرک کرتے ہیں، میری نماز، میری عبادت میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم کیا گیا ہے اور میں مسلمانوں (یعنی فرمانبرداروں) میں سے ہوں۔ اے اللہ ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا ہی بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں (چونکہ تو نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اپنے گناہوں کا اعتراف و اقرار کرتا ہوا میری بارگاہ میں آئے میں اسے بخش دوں گا) لہٰذا تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا اور بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ تیرے سوا اور کوئی بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے کیونکہ بجز تیرے اور کوئی بد اخلاقی سے مجھے نہیں بچا سکتا۔ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں اور تیرا حکم بجا لانے پر تیار ہوں۔ تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور برائی تیری جانب منسوب نہیں کی جاتی، میں تیرے ہی سبب سے ہوں اور تیرا حکم ہی کی طرف رجوع کرتا ہوں تو بابرکت ہے اور اس بات سے بلند ہے (کہ تیری ذات و صفات کی حقیقت و کنہ تک کسی عقل کی رسائی ہو سکے) میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے ہی سامنے توبہ کرتا ہوں۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں جاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ (اللھم لک رکعت وبک امنت ولک اسلمت خشع لک سمعی وبصری ومخی وعظمی وعصبی)
ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے ہی لی رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تیرے ہی لیے اسلام لایا اور میری سماعت، میری بینائی ، میرا ذہن میری ہڈی اور میرے پٹھے جھکے ہوئے ہیں۔ اور جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ اللھم ربنا لک الحمد ملا السموت والارض وما بینھما دملا ما شت من شی بعد اے اللہ ! رب ہمارے ! تیرے ہی لیے حمد ہے آسمانوں اور زمینوں کے برابر اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کے برابر اور اس چیز کے برابر جو بعد میں تو پیدا کرے یعنی آسمانوں اور زمین وغیرہ کے بعد اور جو معدوم چیزیں پیدا کرنا چاہئے۔ اور جب سجدہ میں جاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ اللھم لک سجدت وبک امنت ولک اسلمت سجد وجھی للذی خلقہ وصورہ وشق سمعہ وبْصرۃ تبارک اللہ احسن الخالقین اے اللہ ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرے ہی لیے اسلام سے بہرہ ور ہوا، میرے منہ نے اسی ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیا اس کو صورت دی، اس کے کان کھولے اور اس کی آنکھ کھولی۔ اللہ بہت بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ اور پھر سب سے آخری دعا جو التحیات اور سلام پھیرنے کے درمیان ہوتی یہ ہے۔ اللھم اغفرلی ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منیٰ انت المقدم وانت الموخر لا الہ الا انت اے اللہ ! میرے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دے اور ان گناہوں کو بخش دے جو میں نے پوشیدہ اور اعلانیہ کئے ہیں اور (اس) زیادتی کو بخش دے (جو میں نے اعمال اور مال خرچ کرنے میں کی ہے) اور ان گناہوں کو بھی بخش دے جن کا علم مجھ سے زیادہ تجھ کو ہے اور تو اپنے بندوں میں سے جس کو چا ہے عزت و مرتبہ میں آگے کرنے والا اور جس کو چا ہے پیچھے ڈالنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (صحیح مسلم) اور امام شافعی کی روایت میں (پہلی دعا میں یدیک) کے بعد یہ الفاظ ہیں۔ والشر لیس الیک والمہدی من ھدیت انا بک والیک لا منجا منک ولا ملجا الا الیک تبارکت یعنی برائی تیری طرف منسوب نہیں ہے اور ہدایت یافتہ وہی ہے جس کو تو نے ہدایت بخشی اور میں تیری ہی قوت کے ذریعے ہوں اور تیری طرف رجوع کرنے والا ہوں۔ نہیں ہے نجات (اور بے پروائی) تیری ذات سے اور نہیں ہے پناہ مگر تیری طرف اور تو ہی بابرکت ہے۔
تشریح
والشر لیس الیک (یعنی برائی تیری طرف منسوب نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ از راہ ادب و تعظیم برائی کی نسبت تیری طرف نہیں کی جاتی اگرچہ برائی و بھلائی کا خالق تو ہی ہے اگر تو نے ایک طرف بھلائی کو پیدا کیا ہے تو دوسری طرف برائی کی بھی تخلیق کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر حق تعالیٰ نے برائی کو پیدا کیا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ اگر کوئی قباحت و برائی ہے تو وہ بندہ کے ارتکاب میں ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ من شر ماخلق یعنی میں مخلوق کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ والشر لیس الیک کے معنی یہ ہیں کہ برائی وہ چیز ہے جو تیرے تقرب اور تیری خوشنودی کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے یا یہ کہ برائی تیری طرف صعود نہیں کرتی تیری بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ بھلائی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ الیہ یصعد الکلم الطیب یعنی (اس پروردگار) کی طرف نیک و پاکیزہ باتیں صعود کرتی ہیں یعنی مقبولیت کا درجہ پاتی ہیں)۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ایک آدمی آیا اور نماز کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس کا سانس چڑھا ہوا تھا اس نے کہا اللہ اکبر، الحمد اللہ حمد طیبا مبارکا فیہ (یعنی اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ایسی تعریفیں جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو پوچھا کہ تم میں سے یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ سب لوگ (جو نماز میں حاضر تھے اس خوف سے کہ شاید ہم سے کوئی خطا سرزد ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار ہے) خاموش رہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے؟ پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر (تیسری مرتبہ) فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے (اور خوف نہ کرو کیونکہ) جس نے یہ کلمات کہے تھے اس نے کوئی بری بات نہیں کی ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے جلدی کر رہے تھے کہ ان کلموں کو (پروردگار کی بارگاہ میں) پہلے کون لے جائے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے استفسار پر جو یہ کہا کہ جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے تو اس کا یہ کہنا بیان حقیقت اور اظہار واقعہ کے طور پر تھا۔ ان کلمات کے کہنے کے سلسلہ میں کسی عذر کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد) یہ پڑھا کرتے تھے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکْ اللہ تو پاک ہے اور ہم تیری پاکی تیری تعریف کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔تیرا نام بابرکت ہے ، تیری شان بلند و برتر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کی ہے نیز ابن ماجہ نے (بھی) اس روایت کو ابو سعید سے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ہم سوائے (بواسطہ) حارثہ راوی کے نہیں جانتے اور اس میں قوت حافظہ کے فقدان کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے۔
تشریح
علامہ طیبی شافعی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن مشہور ہے اور اس حدیث پر خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمل کیا ہے نیز یہ حدیث مسلم میں بھی منقول ہے۔ اس موقعہ پر علامہ موصوف نے اس حدیث کی تقویت کے بارے میں بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے جسے اہل علم و نظر ان کی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔
٭٭اور حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے چنانچہ آپ (تکبیر تحریمہ کے بعد، کہتے تھے اَﷲ اَکْبَرُ کَبِیْراً اَﷲ اَکْبَرُ کَبِیْراً اللہ اَکْبَرُ کَبِیْراً وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَسُبْحَانَ اﷲ بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا (یعنی اللہ بہت بڑا و برتر ہے اللہ بہت بڑا و برتر ہے ، اللہ بہت بڑا و برتر ہے ، اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے۔ اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے میں اور پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی صبح و شام، تین مرتبہ پہلے کلمات کی طرح وَسُبْحَانَ اﷲ بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا کو بھی تین مرتبہ کہتے تھے اور پھر اس کے بعد یہ کہتے تھے) اَعُوْذُ بِاﷲ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہٖ وَنَفَثِہٖ وَھَمَزِہٖ (یعنی شیطان کے تکبر، اس کے شعروں اور اس کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں، اس حدیث کو ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ نے نقل کیا ہے البتہ ابن ماجہ نے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا ذکر نہیں کیا ہے اور آخر میں مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ذکر کیا ہے۔
نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ شیطان کے نفخ سے تکبر، اس کے نفث سے شعر اور اس کے ہمز سے جنون مراد ہے۔
تشریح
نفح شیطان سے مراد تکبر و خود پسندی ہے جس میں شیطان آدمی کو اس طرح پھنساتا ہے کہ اس کو خود اس کی نظر میں اس حیثیت سے دکھاتا ہے کہ وہ آدمی اپنے آپ کو اچھا اور اعلیٰ سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اس طرح شیطان آدمی سے تکبر کا ارتکاب کراتا ہے۔ گویا نفح شیطان کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان آدمی میں تکبر کی لہر پھونک دیتا ہے۔
نفث سے جس کے معنی دم کرنے یعنی پھونکنے کے ہیں سحر مراد لیا گیا ہے جو شیطان آدمی پر کرتا ہے یا آدمی سے کسی دوسرے پہ کراتا ہے یہ معنی ارشاد ربانی آیت (وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ) سورۃ الناس) کی مناسبت سے زیادہ اولیٰ ہے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نَفّٰثٰتِ سے مراد سحر کرنے والی عورتیں ہیں۔
بعض حضرات نے کہا ہے کہ نفثت سے مراد غیر سنجیدہ اور برے مضمون کے اشعار ہیں جنہیں شیطان آدمی کے تخیل میں ڈالتا ہے اور پھر انہیں اس کی زبان سے صادر کراتا ہے جیسے برے منتر یا وہ غلط اشعار جن میں مسلمانوں کی ہجو اور کفر و فسق کے الفاظ ہوتے ہیں۔ ھمز سے مراد غیبت کرنا اور لعن و طعن کرنا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ہمز شیطان سے اس کا وسوسہ مراد ہے جیسا کہ اس آیت (وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ ہمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ) 23۔ المومنون: 67) میں ہمزات سے مراد شیطان کے وسوسے لیے گئے ہیں۔
بہر حال یہ معانی اسی وقت مراد لیے جائیں گے جب کہ یہ ثابت ہو جائے کہ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان تینوں الفاظ کی جو توضیح نقل کی گئی ہے وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نہیں ہے بلکہ کسی راوی کا ہے۔ اگر یہ توضیح صحیح طور پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہو تو پھر وہی معنی مراد ہوں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے معنی مراد نہیں لیے جائیں گے۔
اور حضرت سمرۃ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم سے دو سکتے (یعنی چپ رہنا) یاد رکھے ہیں۔ ایک سکتہ تو تکبیر تحریمہ کہہ لینے کے بعد اور ایک سکتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کرتے تھے جب آیت (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ) پڑھ کر فارغ ہوتے تھے۔ حضرت ابی ابن کعب نے (بھی سمرہ کے) اس قول کی تصدیق کی ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
تکبیر تحریمہ کے بعد خاموشی اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر دعائے استفتاح (یعنی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ الخ) پڑھنے کے لیے خاموشی اختیار کرنا تمام آئمہ کے نزدیک متفق علیہ مسئلہ ہے۔ دوسری جگہ یعنی سورہ فاتحہ ختم کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرنا حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت ہے تاکہ مقتدی اس عرصے میں سورہ فاتحہ پڑھ لیں اور امام کے ساتھ منازعت لازم نہ آئے جو ممنوع ہے حنفیہ اور مالکیہ مسلک میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموشی اختیار کرنا مکروہ ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب دوسری رکعت پڑھنے کے بعد اٹھتے تو الحمد اللہ رب العالمین شروع کر دیتے تھے اور خاموش نہ رہتے تھے (صحیح مسلم) اس روایت کو حمیدی نے اپنی کتاب افراد میں ذکر کیا ہے۔ نیز صاحب جامع الاصول نے بھی اس روایت کو مسلم سے نقل کیا ہے۔
تشریح
چونکہ یہ وہم ہو سکتا تھا کہ دوسری رکعت کے بعد دوسرا شفعہ شروع ہونے کے وقت شاید سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنے کے لیے خاموشی اختیار کرتے ہوں اس لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وضاحت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسری رکعت کے بعد دوسرے شفعہ کے لیے اٹھتے تھے تو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ نہیں پڑھتے تھے بلکہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ شروع کر دیتے تھے۔ یہ بھی محتمل ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں کہ جب آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ کر دیتے تھے۔ و اللہ اعلم۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو (پہلے) تکبیر تحریمہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے پھر یہ دعا پڑھتے اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ میری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) پروردگار عالم ہی کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان (یعنی فرمانبردار) ہوں۔ اے اللہ ! نیک اعمال اور حسن اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ بہترین اعمال و اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی کر سکتا ہے اور مجھے برے اعمال و بد اخلاقی سے بچا کیونکہ برے اعمال و اخلاق سے تو ہی بچا سکتا ہے۔ (سنن نسائی)
تشریح
اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ (یعنی میں سب سے پہلا مسلمان ہوں) کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ خصوصیت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی حاصل ہے کہ سب سے پہلا اسلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے کیونکہ پیغمبر اپنی امت میں سب سے پہلا مسلمان ہوتا ہے چونکہ قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ اس طرح کہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ بات کہ وہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ کہنا درست نہیں ہے بلکہ ایک قسم کو جھوٹ ہو گا چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز میں اس طرح کہے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ لیکن اس سلسلے میں صحیح یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ان الفاظ کو آیت قرآن کی تلاوت کی نیت سے نہ کہ اپنی حالت کی خبر دینے کی نیت سے ادا کرے تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔
اس مسئلے میں ایک خیال یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اس جملے کو خبر قرار نہ دے بلکہ اس کا مقصد تجدید ایمان و اسلام کی انشاء اور اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جیسا کہ امراء و سلاطین کے تابعدار لوگ کسی حکم کے صادر ہونے کے وقت کہتے ہیں کہ جو بھی حکم ہو اس کی اطاعت پہلے جو کرے گا وہ میں ہوں گا۔ گویا اس طرح اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز نفل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ کہتے اﷲ اَکْبَرُ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ترجمہ: اللہ بہت بڑا ہے۔ میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے در حالیکہ میں توحید کو ماننے والا ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ (اس کے بعد راوی نے) حضرت جابر (کی مذکورہ بالا حدیث) کی مانند حدیث بیان کی ہے لیکن محمد نے (وَ اَنَا اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ کی جگہ) وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْمٰلِکُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ اے اللہ ! تو ہی بادشاہ ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اس کے بعد (تعوذ و بسملہ پڑھ کر) قرأت کرتے تھے۔ (سنن نسائی)