سنن نسائی

نکاح :(شادی بیاہ) کے احکام و مسائل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے

حد یث نمبر - 3198

أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَنَازَةَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَرِفَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ "هَذِهِ مَيْمُونَةُ إِذَا رَفَعْتُمْ جَنَازَتَهَا فَلَا تُزَعْزِعُوهَا وَلَا تُزَلْزِلُوهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مَعَهُ تِسْعُ نِسْوَةٍ فَكَانَ يَقْسِمُ لِثَمَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَوَاحِدَةٌ لَمْ يَكُنْ يَقْسِمُ لَهَا".

عطا کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں گئے، تو آپ نے کہا: یہ میمونہ رضی اللہ عنہا ہیں، تم ان کا جنازہ نہایت سہولت کے ساتھ اٹھانا، اسے ہلانا نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو بیویاں تھیں۔ آپ ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر کرتے تھے، اور ایک کے لیے نہیں کرتے تھے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴ (۵۰۶۷)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۴ (۱۴۶۵)، (تحفة الأشراف: ۵۹۱۴)، مسند احمد (۱/۲۳۱، ۳۴۸، ۳۴۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: جن کے لیے باری مقرر نہیں کرتے تھے وہ سودہ رضی الله عنہا ہیں انہوں نے اپنی باری عائشہ رضی الله عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے

حد یث نمبر - 3199

أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ تِسْعُ نِسْوَةٍ يُصِيبُهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا سَوْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس حال میں کہ آپ کے پاس نو بیویاں تھیں، آپ ان کے پاس ان کی باری کے موافق جایا کرتے تھے سوائے سودہ کے کیونکہ انہوں نے اپنا دن اور رات عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے وقف کر دیا تھا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۵۹۵۰) (صحیح الإسناد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے

حد یث نمبر - 3200

أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي اللَّيْلَةِ الْوَاحِدَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعُ نِسْوَةٍ".

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ایک ہی رات میں جایا کرتے تھے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الغسل ۱۲ (۲۶۸)، ۳۴ (۲۸۴)، وانکاح ۴ (۵۰۶۸)، ۱۰۲ (۵۲۱۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۹)، سنن ابی داود/الطہارة ۸۵ (۲۱۸)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۶ (۱۴۰) (کلہم کلہم إلی قولہ: غسل واحد) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۱ (۵۸۹)، مسند احمد ۳/۹۹، ۱۸۵، ۲۲۵، ۲۳۹ (کلہم إلی قولہ: غسل واحد وأحمد فی ۳/۱۶۰، ۱۶۶، ۲۵۲) بلفظ ’’فی یوم واحد‘‘ سنن الدارمی/الطہارة ۷۰ (۷۵۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب تقسیم واجب نہیں ہوئی تھی یا ایسا اس وقت ہوتا تھا جب آپ سفر سے واپس ہوتے، یہ بھی ممکن ہے کہ تقسیم کا دور ختم ہونے کے بعد دوسرا دور شروع ہونے سے قبل ایسا کرتے رہے ہوں یا جن کے یہاں باری رہتی تھی ان کی اجازت سے ایسا ہوتا رہا ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے

حد یث نمبر - 3201

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرَّمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "كُنْتُ أَغَارُ عَلَى اللَّاتِي وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ:‏‏‏‏ أَوَتَهَبَ الْحُرَّةُ نَفْسَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ سورة الأحزاب آية 51،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ لَكَ فِي هَوَاكَ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں سے شرم کرتی تھی ۱؎ جو اپنی جان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں چنانچہ میں کہتی تھی: کیا آزاد عورت اپنی جان (مفت میں) ہبہ کر دیتی ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء‏» "ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے، اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے" (الاحزاب: ۵۱) اس وقت میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کا رب آپ کی خواہش کو جلد پورا کرتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیرسورة الأحزاب۷ (۴۷۸۸)، النکاح۲۹ (۵۱۱۳)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۴ (۱۴۶۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۷۹۹)، مسند احمد (۶/۱۵۸)، ۱۳۴، ۲۶۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی ان کیلئے باعث عیب سمجھتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہبہ کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے

حد یث نمبر - 3202

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا فِي الْقَوْمِ إِذْ قَالَتِ امْرَأَةٌ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَرَأْ فِيَّ رَأْيَكَ فَقَامَ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ زَوِّجْنِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "اذْهَبْ فَاطْلُبْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ"، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ:‏‏‏‏ "أَمَعَكَ مِنْ سُوَرِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ ؟"قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَزَوَّجَهُ بِمَا مَعَهُ مِنْ سُوَرِ الْقُرْآنِ".

سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں قوم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کرتی ہوں، میرے متعلق آپ کی جیسی رائے ہو کریں، تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا (اللہ کے رسول!) اس عورت سے میرا نکاح کرا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: "جاؤ(بطور مہر) کوئی چیز ڈھونڈھ کر لے آؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو"، تو وہ گیا لیکن کوئی چیز نہ پایا حتیٰ کہ (معمولی چیز) لوہے کی انگوٹھی بھی اسے نہ ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "کیا تمہیں قرآن کی سورتوں میں سے کچھ یا دہے؟" اس نے کہا: ہاں، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح اس عورت سے قرآن کی ان سورتوں کے عوض کرا دی جو اسے یاد تھیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوکالة ۹ (۲۳۱۰)، فضائل القرآن ۲۱ (۵۰۲۹)، ۲۲ (۵۰۳۰)، النکاح ۱۴ (۵۰۸۷)، ۳۲ (۵۱۲۱)، ۳۵ (۵۱۲۶)، ۳۷ (۵۱۳۲)، ۴۰ (۵۱۳۵)، ۴۴ (۵۱۴۱)، ۵۰ (۵۱۴۹)، ۵۱ (۵۱۵۰)، اللباس۴۹ (۵۸۷۱)، صحیح مسلم/النکاح ۱۳ (۱۴۲۵)، (تحفة الأشراف: ۴۶۸۹)، سنن ابی داود/النکاح ۳۱ (۲۱۱۱)، سنن الترمذی/النکاح ۲۳ (۱۱۱۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۷ (۱۸۸۹)، موطا امام مالک/النکاح ۳ (۸)، مسند احمد ۵/۳۳۰، ویأتی عند المؤلف برقم: ۳۲۸۲ (صحیح)

اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا

حد یث نمبر - 3203

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهَا حِينَ أَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُخَيِّرَ أَزْوَاجَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَبَدَأَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ سورة الأحزاب آية 28،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ آپ اپنی ازواج کو (دو بات میں سے ایک کو اپنا لینے کا) اختیار دیں۔ اس کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سب سے پہلے) میرے پاس آ کر کی۔ آپ نے فرمایا: "میں تم سے ایک بات کا ذکر کرتا ہوں لیکن جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کر لو جواب دینے میں جلدی نہ کرنا"۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی اختیار کر لینے کا مشورہ اور حکم (کبھی بھی) نہ دیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا: (یعنی یہ آیت پڑھی) «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن» "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی، دنیاوی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں، اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں" (الاحزاب: ۲۸) میں نے کہا: اس سلسلہ میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ (مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) کیونکہ میں اللہ کو، اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر (جنت) کو چاہتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیرالأحزاب ۴ (۴۷۸۵)، ۵ (۴۷۸۶) تعلیقًا، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۵)، سنن الترمذی/تفسیرالأحزاب (۳۲۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۶۷)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۰ (۲۰۵۳)، مسند احمد (۶/۷۸، ۱۰۳، ۱۵۲، ۲۱۱)، سنن الدارمی/الطلاق ۵ (۲۲۷۴)، ویأتی عند المؤلف فی الطلاق ۲۶ (برقم۳۴۶۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مگر کسی نے آپ سے علیحدگی قبول نہ کی۔

اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا

حد یث نمبر - 3204

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ الْعَسْكَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا الضُّحَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْمَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "قَدْ خَيَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ أَوْ كَانَ طَلَاقًا".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا۔ کیا وہ طلاق تھا؟ ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۵ (۵۲۶۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۷)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۲ (۲۲۰۳)، سنن الترمذی/الطلاق ۴ (۱۱۷۹م)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۲ (۲۰۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۳۴)، مسند احمد (۶/۴۵، ۴۷، ۱۷۳، ۲۳۹، ۲۴۰، ۲۶۴، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۴۷۴، ۳۴۷۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: نہیں، طلاق نہیں تھا گویا بیوی جب شوہر کو اختیار کر لے تو تخییر طلاق نہیں ہے۔

اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا

حد یث نمبر - 3205

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَرْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَكُنْ طَلَاقًا".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (انتخاب کا) اختیار دیا، تو ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چن لیا تو یہ (اختیار)طلاق نہیں تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۵ (۵۲۶۳)، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۶)، سنن الترمذی/الطلاق ۴ (۱۱۷۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۱۴)، مسند احمد (۶/۹۷، ۲۰۲، ۲۰۵، سنن الدارمی/الطلاق ۵ (۲۳۱۵)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۴۷۱، ۳۴۷۲، ۳۴۷۳) (صحیح)

اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا

حد یث نمبر - 3206

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَفِظْنَاهُ مِنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ "مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُحِلَّ لَهُ النِّسَاءُ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے عورتیں آپ کے لیے حلال تھیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/تفسیر سورة الأحزاب (۳۲۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۸۹، (حم (۶/۴۱، ۲۰۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: جن سے چاہتے شادی کر سکتے تھے آپ کے لیے تعداد متعین نہیں تھی۔

اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا

حد یث نمبر - 3207

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ وَهُوَ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "مَا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحَلَّ اللَّهُ لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ مِنَ النِّسَاءِ مَا شَاءَ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ آپ کی وفات نہ ہوئی جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال نہ کر دیا کہ آپ جتنی عورتوں سے چاہیں نکاح کر لیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۶۳۲۸)، مسند احمد (۶/۱۸۰، سنن الدارمی/النکاح ۴۴ (۲۲۸۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: پہلے یہ آیت نازل ہوئی «لا يحل لك النسآئ من بعد» مگر یہ حکم بعد میں «انا أحللنا لك أزواجك» والی آیت سے منسوخ ہو گئی۔

نکاح پر رغبت دلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3208

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ وَهُوَ عِنْدَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فِتْيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ فَلَمْ أَفْهَمْ فِتْيَةً كَمَا أَرَدْتُ فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ كَانَ مِنْكُمْ ذَا طَوْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتَزَوَّجْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَالصَّوْمُ لَهُ وِجَاءٌ".

علقمہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں(کی ایک ٹولی) کے پاس پہنچے اور (ان سے) کہا: "جو تم میں مالدار ہو ۱؎ تو اسے چاہیئے کہ وہ شادی کر لے کیونکہ اس سے نگاہ نیچی رکھنے میں زیادہ مدد ملتی ہے ۲؎، اور نکاح کر لینے سے شرمگاہ کی زیادہ حفاظت ہوتی ہے ۳؎، اور جو مالدار نہ ہو بیوی کے کھانے پینے کا خرچہ نہ اٹھا سکتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ اس کے لیے روزہ شہوت کا توڑ ہے ۴؎، (اس حدیث میں «فتیۃ» کا لفظ آیا ہے، اس کے متعلق) ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس کا مفہوم جیسا میں سمجھنا چاہتا تھا سمجھ نہ سکا۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۴۵ (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: یعنی مہر اور نان و نفقہ دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ ۲؎: یعنی پرائی عورت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔ ۳؎: زنا و بدکاری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ ۴؎: اس سے شہوانیت دبتی اور کمزور ہو جاتی ہے۔

نکاح پر رغبت دلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3209

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏ هَلْ لَكَ فِي فَتَاةٍ أُزَوِّجُكَهَا ؟ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ عَلْقَمَةَ فَحَدَّثَ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَصُمْ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ".

علقمہ سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر تمہیں کسی نوجوان عورت سے شادی کی خواہش ہو تو میں تمہاری اس سے شادی کرا دوں؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ کو بلایا (اور ان کی موجودگی میں) حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بیوی کو نان و نفقہ دے سکتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیئے۔ کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے اور جو شخص نان و نفقہ دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیئے کیونکہ وہ اس کا توڑ ہے" (اس سے نفس کمزور ہوتا ہے) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۴۱ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: گویا ابن مسعود رضی الله عنہ نے آپ کی اس پیشکش کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادی پر ابھارا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے مگر وہ نوجوانوں کے لیے ہے، اور مجھے اب شادی کی خواہش نہ رہی۔

نکاح پر رغبت دلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3210

أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْإِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ،‏‏‏‏ وَالْأَسْوَدُ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ الْأَسْوَدُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِمَحْفُوظٍ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (نوجوانوں) سے فرمایا: "جو شخص بیوی کے نان و نفقہ کی طاقت رکھتا ہوا سے شادی کر لینی چاہیئے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیئے، کیونکہ وہ اس کے لیے توڑ ہے، یعنی روزہ آدمی کی شہوت کو دبا اور کچل دیتا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس حدیث میں "اسود" راوی کا ذکر نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۴۲ (صحیح)

نکاح پر رغبت دلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3211

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ الشَّبَاب:‏‏‏‏ "مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَنْكِحْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَا فَلْيَصُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ"،‏‏‏‏

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم نوجوانوں سے کہا: "اے نوجوانو! تم میں سے جو بیوی کے نان و نفقہ کا بار اٹھا سکتا ہو، اسے شادی کر لینی چاہیئے، کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور جو نکاح کی ذمہ داریاں نہ نبھا سکتا ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیئے۔ کیونکہ روزہ اس کے لیے شہوت کا توڑ ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۴۱ (صحیح)

نکاح پر رغبت دلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3212

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ الشَّبَاب:‏‏‏‏ "مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتَزَوَّجْ"،‏‏‏‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم نوجوانوں سے فرمایا: "اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھے اسے شادی کر لینی چاہیئے"، اور (اس سے آگے) اوپر گزری ہوئی حدیث بیان کی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۴۱ (صحیح)

نکاح پر رغبت دلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3213

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بِمِنًى فَلَقِيَهُ عُثْمَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ مَعَهُ يُحَدِّثُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَلَا أُزَوِّجُكَ جَارِيَةً شَابَّةً فَلَعَلَّهَا أَنْ تُذَكِّرَكَ بَعْضَ مَا مَضَى مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ أَمَا لَئِنْ قُلْتَ ذَاكَ لَقَدْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ الشَّبَاب:‏‏‏‏ "مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتَزَوَّجْ".

علقمہ کہتے ہیں کہ میں منی میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان سے عثمان رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہو گئی تو وہ ان سے کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ اور کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا میں آپ کی شادی ایک نوجوان لڑکی سے نہ کرا دوں؟ توقع ہے وہ آپ کو آپ کے ماضی کی بہت سی باتیں یاد دلا دے گی، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ مجھ سے یہ بات آج کہہ رہے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات ہم سے بہت پہلے اس طرح کہہ چکے ہیں: "اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بیوی کے نان و نفقہ ادا کرنے کی طاقت رکھے تو اس کو نکاح کر لینا چاہیئے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۴۲ (صحیح)

مجرد :(عورتوں سے الگ تھلگ ) رہنے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3214

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَقَدْ رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ التَّبَتُّلَ وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لَاخْتَصَيْنَا".

سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا، اور اگر آپ انہیں اس کی اجازت دیتے تو ہم خصی ہو جاتے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۸ (۵۰۷۳)، صحیح مسلم/النکاح ۱ (۱۴۰۲)، سنن الترمذی/النکاح ۲ (۱۰۸۳)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲ (۱۸۴۸)، (تحفة الأشراف: ۳۸۵۶)، مسند احمد (۱/۱۷۵، ۱۷۶، ۱۸۳)، سنن الدارمی/النکاح ۳ (۲۲۱۳، ۵۰۷۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی نکاح و شادی بیاہ کے مراسم سے علاحدہ ہو کر صرف عبادت الٰہی میں مشغول رہتے، اور ہم اپنے آپ کو ایسا کر لیتے کہ ہمیں عورتوں کی خواہش ہی نہ رہ جاتی۔

مجرد :(عورتوں سے الگ تھلگ ) رہنے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3215

أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَشْعَثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۲۱۶، ۱۶۱۰۰)، مسند احمد (۶/۱۲۵، ۱۵۷، ۲۵۳)، سنن الدارمی/النکاح ۳ (۲۲۱۴)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۲۱۸) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

مجرد :(عورتوں سے الگ تھلگ ) رہنے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3216

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ"نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ قَتَادَةُ أَثْبَتُ وَأَحْفَظُ مِنْ أَشْعَثَ،‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَشْعَثَ أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: قتادہ اشعث سے زیادہ ثقہ اور مضبوط حافظہ والے تھے لیکن اشعث کی حدیث صحت سے زیادہ قریب لگتی ہے ۱؎ واللہ أعلم۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/النکاح ۲ (۱۰۸۲)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲ (۱۸۴۹)، (تحفة الأشراف: ۴۵۹۰)، مسند احمد (۵/۱۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: وجہ اس کی یہ ہے کہ اشعث کی روایت میں حسن اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے درمیان ایک واسطہ سعد بن ہشام کا ہے جب کہ قتادہ کی روایت میں حسن اور صحابی رسول سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کے درمیان کوئی دوسرا واسطہ نہیں ہے۔

مجرد :(عورتوں سے الگ تھلگ ) رہنے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3217

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِيَ الْعَنَتَ وَلَا أَجِدُ طَوْلًا أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَخْتَصِي ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَا أَبَا هُرَيْرَةَ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَصِ عَلَى ذَلِكَ أَوْ دَعْ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ الْأَوْزَاعِيُّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ الزُّهْرِيِّ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ قَدْ رَوَاهُ يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں جوان آدمی ہوں اور اپنے بارے میں ہلاکت میں پڑ جانے سے ڈرتا ہوں، اور عورتوں سے شادی کر لینے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا، تو کیا میں خصی ہو جاؤں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے انہوں نے اپنی یہی بات تین بار کہی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوہریرہ! جس سے تم کو دوچار ہونا ہے اس سے تو تم دوچار ہو کر رہو گے اسے لکھ کر قلم (بہت پہلے) خشک ہو چکا ہے، اب چاہو تو تم خصی ہو جاؤ یا نہ ہو" ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اوزاعی نے (ابن شہاب) زہری سے اس حدیث کو نہیں سنا ہے، لیکن یہ حدیث اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ اس حدیث کو یونس نے (ابن شہاب) زہری سے روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۲۰۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی جو کچھ تمہاری قسمت میں لکھا جا چکا ہے اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہونی ہے لہٰذا تمہاری قسمت میں اگر اولاد لکھی جا چکی ہے تو ضرور ہو گی اب سوچ لو کہ خصی ہونے سے کیا فائدہ ہو گا ؟

مجرد :(عورتوں سے الگ تھلگ ) رہنے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3218

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخَلَنْجِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نَافِعٍ الْمَازِنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي الْحَسَنُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكِ عَنِ التَّبَتُّلِ فَمَا تَرَيْنَ فِيهِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ "فَلَا تَفْعَلْ أَمَا سَمِعْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً سورة الرعد آية 38،‏‏‏‏ فَلَا تَتَبَتَّلْ".

سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا: میں مجرد (غیر شادی شدہ) رہنے کے سلسلے میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا: ایسا ہرگز نہ کرنا، کیا تم نے نہیں سنا ہے؟ اللہ عزوجل فرماتا ہے: «ولقد أرسلنا رسلا من قبلك وجعلنا لهم أزواجا وذرية» "ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا" (الرعد: ۳۸) تو (اے سعد!) تم «تبتل» (اور رہبانیت)اختیار نہ کرو۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۱۵ (صحیح) (اگر حسن بصری نے اس کو سعدبن ہشام سے سنا ہے تو یہ صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: آیت میں «أَزْوَاجًا» سے رہبانیت اور «ذُرِّيَّةًً» سے خاندانی منصوبہ بندی کی تر دید ہوتی ہے۔

مجرد :(عورتوں سے الگ تھلگ ) رہنے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3219

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَفَّانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا آكُلُ اللَّحْمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا أَنَامُ عَلَى فِرَاشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ أَصُومُ فَلَا أُفْطِرُ، ‏‏‏‏‏‏فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا ؟ لَكِنِّي أُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصُومُ، ‏‏‏‏‏‏وَأُفْطِرُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ مِنِّي".

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت میں سے بعض نے کہا: میں نکاح (شادی بیاہ) نہیں کروں گا، بعض نے کہا: میں گوشت نہ کھاؤں گا، بعض نے کہا: میں بستر پر نہ سوؤں گا، بعض نے کہا: میں مسلسل روزے رکھوں گا، کھاؤں پیوں گا نہیں، یہ خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے (لوگوں کے سامنے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ (مجھے دیکھو) میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادیاں بھی کرتا ہوں۔ (سن لو) جو شخص میری سنت سے اعراض کرے (میرے طریقے پر نہ چلے) سمجھ لو وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۱ (۵۰۶۳)، صحیح مسلم/النکاح ۱ (۱۴۰۱)، (تحفة الأشراف: ۳۳۴)، مسند احمد (۳/۲۴۱، ۲۵۹، ۲۸۵) (صحیح)

عفت و پاکدامنی کے ارادہ سے شادی کرنے والے کا اللہ تعالیٰ معاون و مددگار ہے

حد یث نمبر - 3220

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَوْنُهُمْ:‏‏‏‏ الْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین (طرح کے لوگ) ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم و ضروری کر لیا ہے: (ایک) وہ مکاتب ۱؎ جو مقررہ رقم ادا کر کے آزادی حاصل کر لینے کے لیے کوشاں ہو۔ (دوسرا) ایسا نکاح کرنے والا جو شادی کر کے عفت و پاکدامنی کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہو (تیسرا) وہ مجاہد جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلا ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۱۲۲ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مکاتب ایسا غلام ہے جو اپنی ذات کی آزادی کی خاطر مالک کیلئے کچھ قیمت متعین کر دے، قیمت کی ادائیگی کے بعد وہ آزاد ہو جائے گا۔

کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3221

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا ؟"فَقُلْتُ:‏‏‏‏ ثَيِّبًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَهَلَّا بِكْرًا، ‏‏‏‏‏‏تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ".

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نکاح کیا، اور (اور بیوی کے ساتھ پہلی رات گزارنے کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے کہا: "جابر! کیا تم نے نکاح کیا ہے؟" میں نے کہا: ہاں! آپ نے کہا: "کنواری سے (شادی کی ہے) یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے"، آپ نے فرمایا: "کنواری سے کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی؟"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۴۳ (۲۰۹۷)، الوکالة ۸ (۲۳۰۹)، الجہاد ۱۱۳ (۲۹۶۷)، المغازي ۱۸ (۴۰۵۲)، النکاح۱۰ (۵۰۷۹)، ۱۲۱ (۵۲۴۵)، ۱۲۲ (۵۲۴۷)، النفقات ۱۲ (۵۳۶۷)، الدعوات ۵۳ (۶۳۸۷)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۶ (۷۱۵)، سنن الترمذی/النکاح ۱۳ (۱۱۰۰)، (تحفة الأشراف: ۲۵۱۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/النکاح ۳ (۲۰۴۸)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۷ (۱۸۶۰)، مسند احمد (۳/۲۹۴، ۳۰۲، ۳۱۴، ۳۶۲، ۳۷۴، ۳۷۶)، سنن الدارمی/النکاح ۳۲ (۲۲۶۲) (صحیح)

کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3222

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَهُوَ ابْنُ حَبِيبٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا جَابِرُ،‏‏‏‏ هَلْ أَصَبْتَ امْرَأَةً بَعْدِي ؟"قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَبِكْرًا أَمْ أَيِّمًا ؟"قُلْتُ:‏‏‏‏ أَيِّمًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُكَ".

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: "جابر! کیا تم مجھ سے اس سے پہلے ملنے کے بعد بیوی والے ہو گئے ہو؟" میں نے کہا: جی ہاں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "کیا کسی کنواری سے یا بیوہ سے؟" میں نے کہا: بیوہ سے، آپ نے فرمایا: "کنواری سے شادی کیوں نہ کہ جو تمہیں کھیل کھلاتی؟"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۴۶۵) (صحیح)

عورت کا ہم عمر مرد سے شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3223

أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَطَبَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا صَغِيرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَزَوَّجَهَا مِنْهُ".

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو) فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے لیے پیغام دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ چھوٹی ہے"، پھر علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لیے نکاح کا پیغام دیا تو آپ نے ان کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۹۷۲) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب العمر تھے جب کہ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما کی عمر فاطمہ رضی الله عنہا کی بنسبت کہیں زیادہ تھی۔

غلام کی آزاد عورت سے شادی کا بیان

حد یث نمبر - 3224

أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ طَلَّقَ وَهُوَ غُلَامٌ شَابٌّ فِي إِمَارَةِ مَرْوَانَ ابْنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأُمُّهَا بِنْتُ قَيْسٍ الْبَتَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهَا خَالَتُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ تَأْمُرُهَا بِالِانْتِقَالِ مِنْ بَيْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَرْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنَةِ سَعِيدٍ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى مَسْكَنِهَا وَسَأَلَهَا مَا حَمَلَهَا عَلَى الِانْتِقَالِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَعْتَدَّ فِي مَسْكَنِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا ؟ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُخْبِرُهُ أَنَّ خَالَتَهَا أَمَرَتْهَا بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَى الْيَمَنِ، ‏‏‏‏‏‏خَرَجَ مَعَهُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ هِيَ بَقِيَّةُ طَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَتْ زَعَمَتْ إِلَى الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَيَّاشٍ تَسْأَلُهُمَا الَّذِي أَمَرَ لَهَا بِهِ زَوْجُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا لَهَا عِنْدَنَا نَفَقَةٌ إِلَّا أَنْ تَكُونَ حَامِلًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَا لَهَا أَنْ تَكُونَ فِي مَسْكَنِنَا إِلَّا بِإِذْنِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَزَعَمَتْ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَصَدَّقَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ فَاطِمَةُ:‏‏‏‏ فَأَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "انْتَقِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى، ‏‏‏‏‏‏الَّذِي سَمَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ فَاطِمَةُ:‏‏‏‏ فَاعْتَدَدْتُ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَجُلًا قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ فَكُنْتُ أَضَعُ ثِيَابِي عِنْدَهُ حَتَّى أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا مَرْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَحَدٍ قَبْلَكِ وَسَآخُذُ بِالْقَضِيَّةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا"،‏‏‏‏ مُخْتَصَرٌ.

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ مروان کے دور حکومت میں ایک نوجوان شخص عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی (جن کی ماں بنت قیس ہیں) کو طلاق بتہ دے دی ۱؎، تو اس کی خالہ فاطمہ بنت قیس نے اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم عبداللہ بن عمرو کے گھر سے منتقل ہو جاؤ، یہ بات مروان نے سنی(کہ سعید کی بیٹی عبداللہ بن عمرو کے گھر سے چلی گئی ہے)۔ تو اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم اپنے اس گھر کو واپس چلی جاؤ (جہاں سے نکل کر آئی ہو) اور اس سے وجہ بھی پوچھی کہ تم اپنے گھر میں عدت کے ایام پورا کئے بغیر وہاں سے نکل کیسے آئی؟ تو اس نے انہیں (یعنی مروان کو) کہلا بھیجا کہ میں اپنی خالہ کے کہنے سے نکل آئی تھی۔ تو (اس کی خالہ) فاطمہ بنت قیس نے (اپنا پیش آمدہ واقعہ) بیان کیا کہ وہ ابوعمرو بن حفص کے نکاح میں تھیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا، تو وہ بھی ان کے ساتھ گئے اور (وہاں سے) انہوں نے ان کو (تین طلاقوں میں سے) باقی بچی ہوئی طلاق دے کر کہلا بھیجا کہ حارث بن ہشام اور عیاش بن ربیعہ سے اپنا نفقہ لے لیں۔ کہتی ہیں: تو انہوں نے حارث اور عیاش سے پچھوا بھیجا کہ ان کے لیے ان کے شوہر نے ان دونوں کو کیا حکم دیا ہے۔ ان دونوں نے کہا: قسم اللہ کی! ان کے لیے ہمارے پاس کوئی نفقہ (خرچ) نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے گھر میں ہماری اجازت کے بغیر ان کا رہنا درست ہے۔ ہاں اگر وہ حاملہ ہوں (تو انہیں وضع حمل تک نفقہ و سکنی ملے گا) وہ (یعنی فاطمہ بنت قیس) کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے ان سب باتوں کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ دونوں سچ کہتے ہیں"، فاطمہ نے کہا: اللہ کے رسول! پھر میں کہاں چلی جاؤں؟ آپ نے فرمایا: "تم ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ جو ایک نابینا شخص ہیں اور جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن پاک) میں کیا ہے"۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو میں نے ان کے یہاں جا کر عدت پوری کی۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کی آنکھیں چلی گئی تھیں، میں ان کے یہاں اپنے کپڑے اتار دیتی تھی، پھر (وہ وقت آیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کرا دی ۲؎، ان کی اس بات کو مروان نے قبول نہیں کیا اور کہا: میں نے تم سے پہلے ایسی بات کسی سے نہیں سنی ہے۔ میں تو وہی فیصلہ نافذ رکھوں گا جس پر لوگوں کو عمل کرتا ہوا پایا ہے۔ (یہ حدیث) مختصر ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن ابی داود/الطلاق ۳۹ (۲۲۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۱)، مسند احمد (۶/۴۱۴- ۴۱۵، سنن الدارمی/النکاح ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۸۲ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: طلاق بتہ ایسی طلاق ہے جس میں عورت کا شوہر سے کوئی علاقہ و تعلق باقی نہ رہ جائے۔ ۲؎: حدیث کا مقصود یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کا نکاح اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے کر دیا، باوجودیکہ وہ غلام زادے تھے۔

غلام کی آزاد عورت سے شادی کا بیان

حد یث نمبر - 3225

أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏تَبَنَّى سَالِمًا وَأَنْكَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ وَهُوَ مَوْلًى لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ ابْنَهُ فَوَرِثَ مِنْ مِيرَاثِهِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ:‏‏‏‏ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورة الأحزاب آية 5،‏‏‏‏ فَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ لَهُ أَبٌ كَانَ مَوْلًى وَأَخًا فِي الدِّينِ"،‏‏‏‏ مُخْتَصَرٌ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ان صحابہ میں سے تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کو اپنا بیٹا بنا لیا، اور ان کی شادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس سے کر دی۔ جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے لیا تھا، اور زمانہ جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ متبنی کرنے والے کو اس لڑکے کا باپ کہا کرتے تھے اور وہ لڑکا اس کی میراث پاتا تھا اور یہ دستور اس وقت تک چلتا رہا جب تک اللہ پاک نے یہ آیت: «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند اللہ فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم‏» "لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے، پھر اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں" (الاحزاب: ۵) نازل نہ کی، پس جس کا باپ معلوم نہ ہو وہ دینی بھائی اور دوست ہے، (یہ حدیث) مختصر ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۱۵ (۵۰۸۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۶۷)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/النکاح ۱۰ (۲۰۶۱)، موطا امام مالک/الرضاع ۲ (۱۲)، مسند احمد (۶/۲۰۱، ۲۷۱)، سنن الدارمی/النکاح ۵۲ (۲۳۰۳) (صحیح)

غلام کی آزاد عورت سے شادی کا بیان

حد یث نمبر - 3226

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بن ربيعة،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏"أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏تَبَنَّى سَالِمًا وَهُوَ مَوْلًى لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَأَنْكَحَ أَبُو حُذَيْفَةَ بْنُ عُتْبَةَ سَالِمًا ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ ابْنَةَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ هِنْدُ بِنْتُ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ يَوْمَئِذٍ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامَى قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ:‏‏‏‏ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5،‏‏‏‏ رُدَّ كُلُّ أَحَدٍ يَنْتَمِي مِنْ أُولَئِكَ إِلَى أَبِيهِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ يُعْلَمُ أَبُوهُ رُدَّ إِلَى مَوَالِيهِ.

امہات المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ان لوگوں میں سے تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، انہوں نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کو اپنا لے پالک بنا لیا تھا۔ جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا لے پالک بنایا تھا۔ ابوحذیفہ بن عتبہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کر دیا تھا اور یہ ہند بنت ولید بن عتبہ شروع شروع کی مہاجرہ عورتوں میں سے تھیں، وہ قریش کی بیوہ عورتوں میں اس وقت سب سے افضل و برتر عورت تھیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے زید بن حارثہ (غلام) کے تعلق سے آیت: «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند اللہ» "لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے" نازل فرمائی تو ہر ایک لے پالک اپنے اصل باپ کے نام سے پکارا جانے لگا، اور جن کے باپ نہ جانے جاتے انہیں ان کے آقاؤں کی طرف منسوب کر کے پکارتے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۶۶۸۶) (صحیح)

حسب :(خاندانی عزت و وجاہت ) کا بیان

حد یث نمبر - 3227

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ أَحْسَابَ أَهْلِ الدُّنْيَا الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ الْمَالُ".

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا داروں کا حسب ۱؎ جس کی طرف وہ دوڑتے (اور لپکتے) ہیں مال ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۹۷۰)، مسند احمد (۵/۳۵۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: حسب ایک خاندانی عزت و وجاہت اور اعلیٰ اخلاق و کردار ہے جو گھر اور خاندان میں نسلا بعد نسل چلا آ رہا ہے۔

کیا چیز دیکھ کر عورت سے نکاح کیا جائے

حد یث نمبر - 3228

أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ"قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلْ ثَيِّبًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُكَ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ:‏‏‏‏ كُنَّ لِي أَخَوَاتٌ فَخَشِيتُ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُنَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فَذَاكَ إِذًا إِنَّ الْمَرْأَةَ تُنْكَحُ عَلَى دِينِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ".

جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی پھر ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہو گئی تو آپ نے پوچھا: "جابر! کیا تم نے شادی کی ہے؟" جابر کہتے ہیں کہ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "کنواری سے یا بیوہ سے؟" ۱؎ میں نے کہا: بیوہ سے، آپ نے فرمایا: "کنواری سے کیوں نہ کی؟ جو تجھے (جوانی کے) کھیل کھلاتی"، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میری چند بہنیں میرے ساتھ ہیں، مجھے (کنواری نکاح کر کے لانے میں) خوف ہوا کہ وہ کہیں میری اور ان کی محبت میں رکاوٹ (اور دوری کا باعث) نہ بن جائے۔ آپ نے فرمایا: "پھر تو تم نے ٹھیک کیا، عورت سے شادی اس کا دین دیکھ کر، اس کا مال دیکھ کر اور اس کی خوبصورتی دیکھ کر کی جاتی ہے۔ تو تم کو دیندار عورت کو ترجیح دینی چاہیئے۔ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں" ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۱۵ (۷۱۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۷ (۱۸۶۰)، (تحفة الأشراف: ۲۴۳۶)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/النکاح ۴ (۱۰۸۶)، مسند احمد (۳/۳۰۲)، سنن الدارمی/النکاح ۳۲ (۲۲۱۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی جس کا نکاح پہلے کسی سے ہو چکا تھا پھر اس کی طلاق ہو گئی یا شوہر کا انتقال ہو گیا ہو۔ ۲؎: یعنی اگر ایسا نہ کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔

بانجھ عورت سے شادی کرنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 3229

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْصِبٍ إِلَّا أَنَّهَا لَا تَلِدُ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَتَزَوَّجُهَا ؟ فَنَهَاهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَاهُ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ، ‏‏‏‏‏‏الْوَدُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ".

معقل بن یسار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ مجھے ایک عورت ملی ہے جو حسب اور مرتبہ والی ہے لیکن اس سے بچے نہیں ہوتے ۱؎، کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ نے اسے (اس سے شادی کرنے سے) منع فرما دیا۔ پھر دوبارہ آپ کے پاس پوچھنے آیا تو آپ نے پھر اسے روکا۔ پھر تیسری مرتبہ پوچھنے آیا، پھر بھی آپ نے منع کیا، پھر آپ نے فرمایا: "زیادہ بچے جننے والی، اور زیادہ محبت کرنے والی عورت سے شادی کرو ۲؎ کیونکہ میں تمہارے ذریعہ کثرت تعداد میں (دیگر اقوام پر) غالب آنا چاہتا ہوں ۳؎"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۴ (۲۰۵۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۷۷) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: انہیں اس کا علم بایں طور ہوا ہو گا کہ اسے یا تو حیض نہیں آتا تھا یا جس شوہر کے پاس تھی وہاں اس سے کوئی بچہ ہی پیدا نہیں ہوا۔ ۲؎: زیادہ بچہ جننے والی اور شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی عورت کا اندازہ اس کی ماں، اور ماں کی ماں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ اور یہ چیز جانوروں میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ ۳؎: یعنی قیامت کے دن تعداد امت میں دیگر انبیاء سے بڑھ جانا چاہتا ہوں۔

زانی اور بدکار عورت سے شادی کا بیان

حد یث نمبر - 3230

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّيْمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ مَرْثَدَ بْنَ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَجُلًا شَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَحْمِلُ الْأُسَارَى مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَوْتُ رَجُلًا لِأَحْمِلَهُ وَكَانَ بِمَكَّةَ بَغِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهَا عَنَاقُ وَكَانَتْ صَدِيقَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏خَرَجَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَتْ سَوَادِي فِي ظِلِّ الْحَائِطِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا مَرْثَدٌ مَرْحَبًا وَأَهْلًا يَا مَرْثَدُ انْطَلِقْ اللَّيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَبِتْ عِنْدَنَا فِي الرَّحْلِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا عَنَاقُ،‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ الزِّنَا"،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا أَهْلَ الْخِيَامِ هَذَا الدُّلْدُلُ هَذَا الَّذِي يَحْمِلُ أُسَرَاءَكُمْ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَكْتُ الْخَنْدَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَطَلَبَنِي ثَمَانِيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءُوا حَتَّى قَامُوا عَلَى رَأْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَبَالُوا، ‏‏‏‏‏‏فَطَارَ بَوْلُهُمْ عَلَيَّ وَأَعْمَاهُمُ اللَّهُ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ إِلَى صَاحِبِي، ‏‏‏‏‏‏فَحَمَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى الْأَرَاكِ فَكَكْتُ عَنْهُ كَبْلَهُ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ:‏‏‏‏ أَنْكِحُ عَنَاقَ فَسَكَتَ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ:‏‏‏‏ وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ سورة النور آية 3، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَانِي فَقَرَأَهَا عَلَيَّ وَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَنْكِحْهَا".

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ ایک سخت اور زور آور آدمی تھے، قیدیوں کو مکہ سے مدینہ منتقل کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو بلایا کہ اسے سواری پر ساتھ لیتا جاؤں، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، وہ (گھر سے باہر) نکلی، دیوار کی پرچھائیوں میں میرے وجود کو (یعنی مجھے) دیکھا، بولی کون ہے؟ مرثد! خوش آمدید اپنوں میں آ گئے، مرثد! آج رات چلو ہمارے ڈیرے پر ہمارے پاس رات کو سوؤ، میں نے کہا: عناق! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے، اس نے کہا: خیمہ والو! یہ دلدل ہے ۱؎ یہ وہ (پرندہ) ہے جو تمہارے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ اٹھا لے جائے گا (یہ سن کر) میں خندمہ (پہاڑ) کی طرف بڑھا (مجھے پکڑنے کے لیے) میری طلب و تلاش میں آٹھ آدمی نکلے اور میرے سر پر آ کھڑے ہوئے، انہوں نے وہاں پیشاب کیا جس کے چھینٹے مجھ پر پڑے (اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ مجھے دیکھ نہ سکے کیونکہ) میرے حق میں اللہ نے انہیں اندھا بنا دیا۔ میں (وہاں سے بچ کر) اپنے (قیدی) ساتھی کے پاس آیا اور اسے سواری پر چڑھا کر چل پڑا۔ پھر جب میں اراک پہنچا تو میں نے اس کی بیڑی کھول دی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کر لوں؟ تو آپ خاموش رہے پھر آیت: «الزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك» "زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی"۔ (النور: ۳) نازل ہوئی، پھر (اس کے نزول کے بعد)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، مذکورہ آیت پڑھی پھر فرمایا: "اس سے شادی نہ کرو" ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح۵ (۲۰۵۱) مختصراً، سنن الترمذی/تفسیرسورة النور (۳۱۷۷)، (تحفة الأشراف: ۸۷۵۳) (حسن الإسناد)

وضاحت: ۱؎: دلدل سے تشبیہ اس لیے دی گئی کیونکہ یہ اکثر رات میں ظاہر ہوتا ہے، اور حتیٰ المقدور سر اپنے جسم میں چھپائے رکھتا ہے۔ ۲؎: زانی عورت سے نکاح اس وقت درست ہے جب وہ عمل زنا سے تائب ہو چکی ہو اور عدت بھی پوری ہو چکی ہو اور اگر وہ زنا سے حاملہ ہو چکی ہے تو اس کی مدت عدت وضع حمل ہے۔

زانی اور بدکار عورت سے شادی کا بیان

حد یث نمبر - 3231

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ وَغَيْرُهُ،‏‏‏‏ عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ الْكَرِيمِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ عَبْدُ الْكَرِيمِ يَرْفَعُهُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَهَارُونُ لَمْ يَرْفَعْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ عِنْدِي امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏هِيَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ لَا تَمْنَعُ يَدَ لَامِسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "طَلِّقْهَا"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا أَصْبِرُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اسْتَمْتِعْ بِهَا"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِثَابِتٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ الْكَرِيمِ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَهَارُونُ بْنُ رِئَابٍ أَثْبَتُ مِنْهُ،‏‏‏‏ وَقَدْ أَرْسَلَ الْحَدِيثَ وَهَارُونُ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُهُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے جو مجھے سبھی لوگوں سے زیادہ محبوب ہے مگر خرابی یہ ہے کہ وہ کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎، آپ نے فرمایا: "اسے طلاق دے دو"، اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہ پاؤں گا۔ تو آپ نے کہا: پھر تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ (اور وہ جو دوسروں کو تیرا مال لے لینے دیتی ہے، اسے نظر انداز کر دے)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث (صحیح) ثابت نہیں ہے، عبدالکریم (راوی) زیادہ قوی نہیں ہے اور ہارون بن رئاب (راوی) عبدالکریم سے زیادہ قوی راوی ہیں۔ انہوں نے اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے ہارون ثقہ راوی ہیں اور ان کی حدیث عبدالکریم کی حدیث کے مقابل میں زیادہ صحیح اور درست لگتی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۸۰۷)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۴۹۵ (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: اس کے دو مفہوم ہیں، ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔

زناکار عورت سے شادی کرنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 3232

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تُنْكَحُ النِّسَاءُ لِأَرْبَعَةٍ:‏‏‏‏ لِمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِحَسَبِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِجَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِدِينِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورتوں سے شادی چار چیزیں دیکھ کر کی جاتی ہے: اس کا مال دیکھ کر، اس کی خاندانی وجاہت(حسب) دیکھ کر، اس کی خوبصورتی دیکھ کر اور اس کا دین دیکھ کر، تو تم دیندار عورت کو پانے کی کوشش کرو ۱؎، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں" ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۱۵ (۵۰۹۰)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۵ (۱۴۶۶)، سنن ابی داود/النکاح ۲ (۲۰۴۷)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۶ (۱۸۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۳۰۵)، مسند احمد (۲/۴۲۸)، سنن الدارمی/النکاح ۴ (۲۲۱۱۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ دیندار عورت مالدار بھی ہو سکتی ہے، حسب والی بھی ہو سکتی ہے اور خوبصورت بھی ہو سکتی ہے لیکن بدکار نہیں ہو سکتی، ورنہ پھر اسے دیندار نہ کہیں گے۔ لیکن دیندار نہیں ہے تو مالدار عورت بھی بدکار ہو سکتی ہے، حسب والی بھی زانیہ ہو سکتی ہے اور جمال والی بھی بدکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے دیندار عورت کے مقابل میں گرچہ ان سے شادی جائز ہے مگر اس جواز کی حیثیت مکروہ کی ہو گی، اسی بنا پر صاحب کتاب نے «کراہیۃ تزویج الزناۃ» کا عنوان قائم کیا ہے۔ ۲؎: یعنی اگر ایسا نہ کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔

زیادہ اچھی اور بہترین عورتیں کون سی ہیں

حد یث نمبر - 3233

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏بِمَا يَكْرَهُ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: عورتوں میں اچھی عورت کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ عورت جو اپنے شوہر کو جب وہ اسے دیکھے خوش کر دے ۱؎، جب وہ کسی کام کا اسے حکم دے تو (خوش اسلوبی سے) اسے بجا لائے، اپنی ذات اور اپنے مال کے سلسلے میں شوہر کی مخالفت نہ کرے کہ اسے برا لگے ۲؎"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۳۰۵۸)، مسند احمد (۲/۲۵۱، ۴۳۲) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: اپنے صاف ستھرے لباس اور خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔ ۲؎: جب شوہر اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے تو فوراً تیار ہو جائے اور اپنے مال میں کھلے دل سے اسے تصرف کی اجازت دے رکھے۔

نیک اور صالح عورت کا بیان

حد یث نمبر - 3234

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ آخَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الدُّنْيَا كُلَّهَا مَتَاعٌ، ‏‏‏‏‏‏وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ".

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا ساری کی ساری پونجی ہے (برتنے کی چیز ہے) ۱؎ لیکن ساری دنیا میں سب سے بہترین (قیمتی) چیز نیک و صالح عورت ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۱۷ (۱۴۶۷)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵ (۱۸۵۵)، (تحفة الأشراف: ۸۸۴۹)، مسند احمد (۲/۱۶۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی دنیا مطلوب بالذات نہیں ہے، صرف فائدہ اٹھانے کی جگہ ہے، اس لیے اس سے صرف حسب ضرورت فائدہ اٹھایا جائے۔

غیرت مند عورت کا بیان

حد یث نمبر - 3235

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا النَّضْرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَتَزَوَّجُ مِنْ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ فِيهِمْ لَغَيْرَةً شَدِيدَةً".

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں (یعنی مہاجرین) نے کہا: اللہ کے رسول! آپ انصار کی عورتوں سے شادی کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: "ان میں غیرت بہت ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۷۱) (صحیح)

نکاح سے پہلے عورت کو دیکھنے کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3236

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَطَبَ رَجُلٌ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "هَلْ نَظَرْتَ إِلَيْهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک انصاری عورت کو شادی کا پیغام دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "اسے دیکھ لو" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۲ (۱۴۲۴)، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۴۶)، مسند احمد (۳/۲۸۶، ۲۹۹) ویأتي عند المؤلف برقم ۳۲۴۸، ۳۲۴۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی بغیر دیکھے نکاح کرنا اچھا نہیں ہے۔

نکاح سے پہلے عورت کو دیکھنے کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3237

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ،‏‏‏‏ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَطَبْتُ امْرَأَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَنَظَرْتَ إِلَيْهَا ؟"قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَانْظُرْ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا".

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت کو شادی کا پیغام دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟" میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "دیکھ لو، کیونکہ دیکھ لینا دونوں میں محبت کے اضافہ کا باعث ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/النکاح ۵ (۱۰۸۷)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۹ (۱۸۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۸۹)، مسند احمد (۴/۲۴۵، ۲۴۶)، سنن الدارمی/النکاح ۵ (۲۲۱۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: گویا بغرض نکاح کسی اجنبیہ عورت کو دیکھنا جائز ہے۔

شوال کے مہینے میں شادی کرنے کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3238

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ فِي شَوَّالٍ"، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ عَائِشَةُ تُحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِي شَوَّالٍ"فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَتْ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي ؟".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے (عید کے مہینے) شوال میں شادی کی، اور میری رخصتی بھی شوال کے مہینے میں ہوئی۔ (عروہ کہتے ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ مسلمان بیویوں کے پاس (عید کے مہینے) شوال میں جایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے مجھ سے زیادہ آپ سے نزدیک اور فائدہ اٹھانے والی کوئی دوسری بیوی کون تھیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۱ (۱۴۲۳)، سنن الترمذی/النکاح ۹ (۱۰۹۳)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۳ (۱۹۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۵۵)، مسند احمد (۶/۵۴، ۶۰۶)، سنن الدارمی/النکاح ۲۸ (۲۲۵۷) ویأتی عند المؤلف برقم: ۳۳۷۹ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اپنے اس قول سے عائشہ رضی الله عنہا ان لوگوں کے قول کی تردید کرنا چاہتی ہیں جو یہ کہتے تھے کہ شوال میں شادی کرنا اور بیوی کے پاس جانا صحیح نہیں ہے جبکہ میری شادی شوال میں ہوئی، اور دوسروں کی دوسرے مہینوں میں، پھر بھی میں اوروں کی بنسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نزدیک اور زیادہ فائدہ اٹھانے والی تھی۔ شوال کے مہینے میں کبھی زبردست طاعون پھیلا تھا اسی لیے لوگ اس مہینے کو خیر و برکت سے خالی سمجھتے تھے۔

شادی میں منگنی کا بیان

حد یث نمبر - 3239

أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاحُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ وَكَانَتْ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ خَطَبَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَوْلَاهُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كُنْتُ حُدِّثْتُ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ"، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَمْرِي بِيَدِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْكِحْنِي مَنْ شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "انْطَلِقِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ"،‏‏‏‏ وَأُمُّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ سَأَفْعَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَفْعَلِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ كَثِيرَةُ الضِّيفَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْكِ خِمَارُكِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَنْكَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْكِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَرَى الْقَوْمُ مِنْكِ بَعْضَ مَا تَكْرَهِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ انْتَقِلِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ"،‏‏‏‏ فَانْتَقَلْتُ إِلَيْهِ"،‏‏‏‏ مُخْتَصَرٌ.

عامر بن شراحیل شعبی کا بیان ہے کہ انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے (جو پہلے پہل ہجرت کرنے والی عورتوں میں سے تھیں) سنا ہے انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ آ کر شادی کا پیام دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھے اپنے غلام اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے شادی کے لیے پیغام دیا، اور میں نے سن رکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جو کوئی مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے اسامہ سے بھی محبت رکھنی چاہیئے"۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے (اس سلسلے میں) گفتگو کی تو میں نے کہا: میں اپنا معاملہ آپ کو سونپتی ہوں، آپ جس سے چاہیں میری شادی کر دیں۔ آپ نے فرمایا: "ام شریک کے پاس چلی جاؤ"۔ (کہتی ہیں:) وہ انصار کی ایک مالدار اور فی سبیل اللہ بہت خرچ کرنے والی عورت تھیں ان کے پاس مہمان بکثرت آتے تھے۔ میں نے کہا: میں ایسا ہی کروں گی پھر آپ نے کہا: نہیں، ایسا مت کرو، کیونکہ ام شریک بہت مہمان نواز عورت ہیں اور مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ تم وہاں رہو، پھر کبھی تمہاری اوڑھنی تمہارے (سر) سے ڈھلک جائے یا تمہاری پنڈلیوں سے کپڑا ہٹ جائے تو تجھے لوگ کسی ایسی حالت میں عریاں دیکھ لیں جو تمہارے لیے ناگواری کا باعث ہو بلکہ (تمہارے لیے مناسب یہ ہے کہ) تم اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے پاس چلی جاؤ، وہ فہر (قبیلے) کی نسل سے ہیں، چنانچہ میں ان کے یہاں چلی گئی۔ یہ حدیث مختصر ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۰۲۸، ۱۸۳۸۴)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفتن ۲۴ (۲۹۴۲)، مسند احمد ۶/۳۷۳، ۴۱۷) (صحیح)

اپنے :(کسی دینی ) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3240

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَخْطُبُ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ بَعْضٍ".

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی کسی دوسرے کے پیغام پر پیغام نہ دے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۶ (۱۴۱۲)، سنن الترمذی/البیوع ۵۷ (۱۲۹۲)، (تحفة الأشراف: ۸۲۸۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۵ (۵۱۴۲)، سنن ابی داود/النکاح ۱۸ (۲۰۸۱)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۰ (۱۸۶۷)، موطا امام مالک/النکاح ۱ (۲)، مسند احمد ۲/۱۲۴)، سنن الدارمی/النکاح ۷ (۲۲۲۲) ویأتي برقم: ۳۲۴۵ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اگر پیغام پر پیغام دینے والے کو پہلے پیغام سے متعلق علم ہے تو اس کا یہ پیغام دینا کسی صورت میں درست نہیں ہو گا، البتہ لاعلمی کی صورت میں معذور سمجھا جائے گا، چونکہ پیغام پر پیغام دینے سے مسلمانوں میں باہمی دشمنی اور عداوت پھیلے گی، اور اسلامی معاشرہ کو اسلام، ان عیوب سے صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے پیغام پر پیغام دینا اسلام کی نظر میں حرام ٹھہرا تاکہ بغض و عداوت سے اسلامی معاشرہ پاک و صاف رہے۔

اپنے :(کسی دینی ) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3241

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُحَمَّدٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَنَاجَشُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ وَلَا يَبِعِ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَخْطُبْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْتَفِئَ مَا فِي إِنَائِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(دھوکہ دینے کیلئے) چیزوں کی قیمت نہ بڑھاؤ ۱؎، کوئی شہری دیہاتی کا مال نہ بیچے ۲؎، اور کوئی اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرے، اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام دے، کوئی عورت اپنی بہن (سوکن) کے طلاق کی طلب گار نہ بنے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے پلٹ کر خود لے لے" ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، الشروط ۸ (۲۷۲۳)، النکاح ۴۵ (۵۱۴۴)، صحیح مسلم/النکاح ۶ (۱۴۱۳)، سنن ابی داود/النکاح ۱۸ (۲۰۸۰) مختصراً، سنن الترمذی/النکاح ۳۸ (۱۱۳۴) مختصراً، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۰ (۱۸۶۷) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۳)، مسند احمد (۲/۲۳۸، ۲۷۴)، سنن الدارمی/النکاح ۷ (۲۲۲۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: «نجش» اس بیع کو کہتے ہیں کہ جس میں سامان کی تشہیر اور قیمت میں اضافہ کی غرض سے سامان کی خوب خوب تعریف کی جائے، یا سامان کا بھاؤ اس کی خریداری کی نیت کئے بغیر بڑھایا جائے۔ ۲؎: یعنی اس کے سامان کی فروخت کے لیے دلالی نہ کرے، کیونکہ دلالی کی صورت میں دیگر شہریوں کو ضرر لاحق ہو گا، جب کہ دیہاتی اگر خود سے بیچے تو سستی قیمت میں بیچے گا۔ ۳؎: یعنی یہ خیال نہ کرے کہ جب سوکن مطلقہ ہو جائے گی، اور شوہر سے محروم ہو جائے گی تو اس کا حصہ خود اسے مل جائے گا، کیونکہ جس کے نصیب میں جو لکھا جا چکا ہے وہی ملے گا، پھر سوکن کے حق میں ناحق طلاق کی درخواست کا کیا فائدہ ہے۔

اپنے :(کسی دینی ) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3242

أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ دے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۳۹۶۸)، موطا امام مالک/النکاح ۱ (۱)، مسند احمد (۲/۴۶۲) (صحیح)

اپنے :(کسی دینی ) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3243

أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ حَتَّى يَنْكِحَ أَوْ يَتْرُكَ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھائی کہیں نکاح کا پیغام دے چکا ہے، تو کوئی دوسرا مسلمان بھائی اس جگہ جب تک کہ نکاح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہ ہو جائے (نیا) پیغام نہ دے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۳۳۷۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی انتظار کرے، اگر وہ نکاح کر لیتا ہے تو یہ پیغام نکاح ترک کر دے، اور اگر وہ ترک کر دیتا ہے تو پیغام بھیجے۔

اپنے :(کسی دینی ) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3244

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر کوئی دوسرا پیغام نکاح نہ دے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۴۵۴۵)، مسند احمد (۲/۴۸۹) (صحیح)

شادی کے لیے پہلے پیغام دینے والے کے دست بردار ہو جانے یا اجازت دینے پر دوسرا شخص پیغام دے

حد یث نمبر - 3245

أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ابْنُ جُرَيْجٍ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ نَافِعًا يُحَدِّثُ،‏‏‏‏ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَقُولُ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ الرَّجُلِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَتْرُكَ الْخَاطِبُ قَبْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَأْذَنَ لَهُ الْخَاطِبُ".

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ تم میں سے بعض بعض کی بیع پر بیع کرے ۱؎ اور نہ ہی کوئی آدمی دوسرے آدمی کے شادی کے پیغام پر اپنا پیغام دے۔ جب تک (پہلا) پیغام دینے والا چھوڑ نہ دے ۲؎ یا وہ دوسرے کو پیغام دینے کی اجازت نہ دیدے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۵ (۵۱۴۲)، (تحفة الأشراف: ۷۷۷۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی کسی دکاندار کا سودا طے ہو رہا ہو تو پڑوسی دکاندار خریدار کو یہ کہہ کر نہ بلائے کہ میں تمہیں اس سے کم قیمت پر سامان دوں گا۔ ۲؎: یعنی دوسری جانب سے انکار ہو گیا یا وہ خود ہی دستبردار ہو گیا ہو۔

شادی کے لیے پہلے پیغام دینے والے کے دست بردار ہو جانے یا اجازت دینے پر دوسرا شخص پیغام دے

حد یث نمبر - 3246

أَخْبَرَنِي حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنِ الْحَارِثِ بن عبد الرحمن،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُمَا سَأَلَا فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَمْرِهَا ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ يَرْزُقُنِي طَعَامًا فِيهِ شَيْءٌ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَئِنْ كَانَتْ لِي النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لَأَطْلُبَنَّهَا وَلَا أَقْبَلُ هَذَا فَقَالَ الْوَكِيلُ:‏‏‏‏ لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَكَانَ يَأْتِيهَا أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَعْمَى، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمَّا حَلَلْتُ آذَنْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَمَنْ خَطَبَكِ ؟"فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مُعَاوِيَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَمَّا مُعَاوِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ غُلَامٌ مِنْ غِلْمَانِ قُرَيْشٍ لَا شَيْءَ لَهُ وَأَمَّا الْآخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ صَاحِبُ شَرٍّ لَا خَيْرَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَكَرِهْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَنَكَحَتْهُ.

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے ان کے معاملہ کے متعلق پوچھا (کہ کیسے کیا ہوا؟) تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں اور کھانے کے لیے مجھے جو خوراک دینے لگے اس میں کچھ خرابی تھی (اچھا نہ تھا) تو میں نے کہا: اگر نفقہ اور سکنی میرا حق ہے تو اسے لے کر رہوں گی لیکن میں یہ (ردی سدی گھٹیا کھانے کی چیز) نہ لوں گی، (میرے شوہر کے) وکیل نے کہا: نفقہ و سکنی کا تمہارا حق نہیں بنتا۔ (یہ سن کر) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اس (بات چیت) کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: "(وہ سچ کہتا ہے) تیرے لیے نفقہ و سکنی (کا حق) نہیں ہے ۱؎، تم فلاں عورت کے پاس جا کر اپنی عدت پوری کر لو" ۲؎ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آتے جاتے رہتے تھے۔(پھر کچھ سوچ کر کہ وہاں رہنے سے بےپردگی اور شرمندگی نہ ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں رہ کر اپنی عدت پوری کر لو کیونکہ وہ نابینا ہیں ۳؎، پھر جب (عدت پوری ہو جائے اور) تو دوسروں کے لیے حلال ہو جاؤ تو مجھے آگاہ کرو"، چنانچہ جب میں حلال ہو گئی (اور کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے قابل ہو گئی) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں کس نے شادی کا پیغام دیا ہے؟" میں نے کہا: معاویہ نے، اور ایک دوسرے قریشی شخص نے ۴؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رہا معاویہ تو وہ قریشی لڑکوں میں سے ایک لڑکا ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، رہا دوسرا شخص تو وہ صاحب شر اور لاخیرا ہے (اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے) ۵؎، ایسا کرو تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو" فاطمہ کہتی ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو لیکن وہ مجھے جچے نہیں) میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن جب آپ نے مجھے اسامہ بن زید سے تین بار شادی کر لینے کے لیے کہا تو میں نے (آپ کی بات رکھ لی اور) ان سے شادی کر لی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن ابی داود/الطلاق ۳۹ (۲۲۸۴، ۲۲۸۵، ۲۲۸۶، ۲۲۸۷، ۲۲۸۹)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۶، ۱۸۰۳۸)، موطا امام مالک/الطلاق ۲۳ (۶۷)، مسند احمد (۶/۴۱۲، ۴۱۳، ۴۱۶)، ویأتي عند المؤلف بأرقام ۳۴۳۴، ۳۵۷۶ (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: نفقہ وسکنی :(اخراجات اور رہائش ) کا حق ان کے لیے ہے جن سے شوہر کو رجوع کا حق و اختیار رہتا ہے، بلکہ شوہر کے گھر میں اس کی رہائش اسی لیے رکھی جاتی ہے تاکہ اس کی مجبوری و بےقراری دیکھ کر اسے رحم آئے، اور رجوع کرے اور دونوں اعتدال و توازن اور اخلاص و محبت کی زندگی گزارنے لگیں۔ ۲؎: فلانہ سے مراد ام شریک رضی الله عنہا ہیں وہ ایک مہمان نواز خاتون تھیں۔ ۳؎: ان کے گھر میں رہتے وقت اگر دوپٹہ سر سے کھسک جائے یا سونے میں جسم کا کوئی حصہ کھل جائے تو رسوائی اور شرمندگی نہ ہو گی۔ ۴؎: اس سے مراد ابوالجہم رضی الله عنہ ہیں۔ ۵؎: یعنی عورتوں کے حقوق کی بابت وہ لاخیرا ہے، ایک روایت میں ان کے متعلق تو «ضرّاب للنّسائ» :(عورتوں کی بڑی پٹائی کرنے والا ) اور «لا يَضَعُ عصاه عن عاتقه» :(اپنے کندھے سے لاٹھی نہ اتارنے والا ) جیسے الفاظ وارد ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے تحت اس طرح کے اوصاف بیان کرنا جائز ہے۔

شادی کا پیغام دینے والے سے متعلق مشورہ طلب کرنے والی عورت کو آدمی جو کچھ جانتا ہے بتا دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3247

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ غَائِبٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَسَخِطَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَاعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبَا جَهْمٍ، ‏‏‏‏‏‏خَطَبَانِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَنَكَحْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ".

فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی اور وہ موجود نہ تھے۔ (شہر سے باہر سفر پر تھے) پھر ان کے پاس اپنے وکیل کو کچھ جو دے کر بھیجا تو وہ ان پر غصہ اور ناراض ہوئیں، تو وکیل نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کا تو ہم پر کوئی حق ہی نہیں بنتا (یوں سمجھئے کہ یہ جو تو تمہاری دلداری کے لیے ہے)۔ تو فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے بھی فرمایا: "تمہارے لیے نفقہ نہیں ہے" اور انہیں حکم دیا کہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہ کر عدت پوری کرو، پھر کہا: ام شریک کو ہمارے صحابہ گھیرے رہتے ہیں (ان کے گھر نہیں بلکہ) ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کے یہاں اپنی عدت کے دن پوری کرو، وہ اندھے آدمی ہیں، تم وہاں اپنے کپڑے بھی اتار سکو گی، پھر جب تم (عدت پوری کر کے)حلال ہو جاؤ تو مجھے خبر دو، فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب میں حلال ہو گئی تو آپ کو اطلاع دی کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم دونوں نے مجھے شادی کا پیغام دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: "ابوجہم تو اپنے کندھے سے اپنی لاٹھی اتار کر نہیں رکھتے ۱؎" اور معاویہ تو مفلس آدمی ہیں، ان کے پاس کچھ بھی مال نہیں ہے، تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو تو میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن آپ نے دوبارہ پھر کہا کہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو تو میں نے ان کے ساتھ شادی کر لی، اور اللہ تعالیٰ نے اس شادی میں ہمیں بڑی برکت دی اور میں ان کے ذریعہ قابل رشک بن گئی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۴۶ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: عورتوں سے ہر وقت مار پیٹ کرتے رہتے ہیں یا اکثر حالت سفر میں رہتے ہیں۔

شادی کی غرض سے مشورہ طلب کرنے والے کو عورت کے متعلق بتا دینا کیسا ہے

حد یث نمبر - 3248

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَلَا نَظَرْتَ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ فِي أَعْيُنِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ،‏‏‏‏ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّوَابُ أَبُو هُرَيْرَةَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تو نے اسے دیکھ لیا ہے؟" (دیکھ لیے ہوتے تو اچھا ہوتا) کیونکہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے (بعد میں اس کی وجہ سے کوئی بدمزگی نہ پیدا ہو) ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہی حدیث مجھے ایک دوسری جگہ «عن یزید بن کیسان عن ابی حازم عن ابی ہریرہ» کے بجائے «عن یزید بن کیسان أن جابر بن عبداللہ حدث» کے ساتھ ملی۔ لیکن صحیح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۳۶ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں انہوں نے اپنی شادی کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ لیکن آپ نے اس عورت کے تعلق سے ایک بات انہیں بے پوچھے بتائی تو جب کسی عورت کے متعلق نکاح کی غرض سے کسی سے مشورہ طلب کیا جائے تو اس شخص کو اس عورت کے متعلق جو کچھ جانے بدرجہ اولیٰ بتا دینا چاہیئے۔

شادی کی غرض سے مشورہ طلب کرنے والے کو عورت کے متعلق بتا دینا کیسا ہے

حد یث نمبر - 3249

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "انْظُرْ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ فِي أَعْيُنِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک (انصاری) عورت سے شادی کا ارادہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(پہلے) اسے دیکھ لو کیونکہ انصاری عورتوں کی آنکھوں میں کچھ (نقص) ہوتا ہے" (شادی بعد تم نے دیکھا اور وہ تیرے لیے قابل قبول نہ ہوئی تو ازدواجی زندگی تباہ ہو جائے گی)۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۳۶ (صحیح)

پسندیدہ شخص سے شادی کے لیے اپنی بیٹی پیش کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3250

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسٍ يَعْنِي ابْنَ حُذَافَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ سَأَنْظُرُ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ فَلَقِيتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أُرِيدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا،‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ فَخَطَبَهَا إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ شَيْئًا إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا نَكَحْتُهَا".

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، وہ خنیس بن حذافہ کے نکاح میں تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ میں سے تھے جو جنگ بدر میں موجود تھے، اور انتقال مدینہ میں فرمایا تھا)۔ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا، میں نے ان کے سامنے حفصہ کا تذکرہ کیا، اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دوں، انہوں نے کہا: میں اس پر غور کروں گا۔ چند راتیں گزرنے کے بعد میں ان سے ملا تو انہوں نے کہا: میں ان دنوں شادی کرنا نہیں چاہتا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے کہا: اگر آپ پسند کریں تو حفصہ کو آپ کے نکاح میں دے دوں تو انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے ان کے اس رویے سے عثمان رضی اللہ عنہ کے جواب سے بھی زیادہ غصہ آیا، پھر چند ہی دن گزرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے میرے پاس اپنا پیغام بھیجا تو میں نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ (اس نکاح کے بعد) ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا: جب آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کا پیغام دیا اور میں نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا، تو اس وقت آپ کو مجھ پر بڑا غصہ آیا ہو گا؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: جب آپ نے مجھ پر حفصہ کا معاملہ پیش کیا تو میں نے آپ کو محض اس وجہ سے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تذکرہ سن چکا تھا اور میں آپ کا راز افشاء کرنا نہیں چاہتا تھا، ہاں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو میں ضرور ان سے شادی کر لیتا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۱۲ (۴۰۰۵)، والنکاح ۳۳ (۵۱۲۲)، ۳۶ (۵۱۲۹) مختصرا، ۴۶ (۵۱۴۵) مختصرا، مسند احمد (۱/۱۲و۲/۲۷) (تحفة الأشراف: ۱۰۵۲۳)، ویأتی عند المؤلف برقم۳۲۶۱ (صحیح)

پسندیدہ شخص سے نکاح کے لیے عورت اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہے

حد یث نمبر - 3251

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كُنْتُ عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَعِنْدَهُ ابْنَةٌ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَرَضَتْ عَلَيْهِ نَفْسَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَكَ فِيَّ حَاجَةٌ ؟".

ثابت بنانی کہتے ہیں کہ میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہاں ان کی ایک بیٹی بھی موجود تھی، انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا، اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو میری ضرورت ہے؟ ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۳۲ (۵۱۲۰) مطولا، والأدب ۷۹ (۶۱۲۳) مطولا، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۷ (۲۰۰۱) (تحفة الأشراف: ۴۶۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اگر آپ مجھے نکاح کے لیے قبول فرمائیں تو میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گی۔

پسندیدہ شخص سے نکاح کے لیے عورت اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہے

حد یث نمبر - 3252

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَرْحُومٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ امْرَأَةً عَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَضَحِكَتْ ابْنَةُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا كَانَ أَقَلَّ حَيَاءَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ هِيَ خَيْرٌ مِنْكِ عَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنے آپ کو (نکاح کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا، تو (یہ سن کر) انس رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہنس پڑیں، اور کہا: کتنی کم حیاء عورت ہے! انس رضی اللہ عنہ نے کہا: (بیٹی!) یہ عورت تجھ سے اچھی ہے (ذرا اس کی طلب تو دیکھ) اس نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا ہے، (اور آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۵۱ (صحیح)

پیغام نکاح ملنے پر عورت کا نماز استخارہ پڑھ کر رب سے بھلائی چاہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3253

أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ:‏‏‏‏ "اذْكُرْهَا عَلَيَّ"،‏‏‏‏ قَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ فَانْطَلَقْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا زَيْنَبُ أَبْشِرِي أَرْسَلَنِي إِلَيْكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُكِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ بِغَيْرِ أَمْرٍ".

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب زینب رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہا کو ان کے پاس بھیجا کہ جا کر انہیں میرے لیے رشتہ کا پیغام دو۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں گیا اور میں نے کہا: زینب خوش ہو جاؤ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارے پاس نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا: میں کچھ نہیں کرنے کی جب تک میں اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں (یہ کہہ کر) وہ اپنے مصلی پر (صلاۃ استخارہ پڑھنے) کھڑی ہو گئیں، (ادھر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ان سے آسمان پر ہی کر دیا)، اور قرآن نازل ہو گیا: «فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها»(اس آیت کے نزول کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کسی حکم و اجازت (یعنی رسمی ایجاب و قبول کے بغیر تشریف لائے، اور) ان سے خلوت میں ملے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۵ (۱۴۲۸)، (تحفة الأشراف: ۴۱۰)، مسند احمد (۳/۱۹۵، ۲۴۶) (صحیح)

پیغام نکاح ملنے پر عورت کا نماز استخارہ پڑھ کر رب سے بھلائی چاہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3254

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ طَهْمَانَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "كَانَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ تَفْخَرُ عَلَى نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْكَحَنِي مِنَ السَّمَاءِ"،‏‏‏‏ وَفِيهَا نَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر اس بات کا فخر کرتی تھیں کہ اللہ عزوجل نے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) میرا نکاح آسمان ہی پر فرما دیا۔ اور انہیں کے سلسلے سے پردے کی آیت نازل ہوئی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التوحید ۲۲ (۷۴۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۴)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر سورة الأحزاب۳۴ (۳۲۱۳)، مسند احمد (۳/۲۲۶) (صحیح)

نماز استخارہ کس طرح پڑھی جائے

حد یث نمبر - 3255

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْمَوَالِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، ‏‏‏‏‏‏كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَسْتَعِينُكَ بِقُدْرَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَعَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي عَاجِلِ أَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏وَآجِلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَاقْدِرْهُ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَيَسِّرْهُ لِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَعَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي عَاجِلِ أَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏وَآجِلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ".

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام امور (و معاملات) میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے، جیسا کہ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی (اچھے) کام کا ارادہ کرے تو فرض (اور اس کے توابع) کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے پھر (دعا کرتے ہوئے)کہے: «اللہم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللہم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري - أو قال في عاجل أمري وآجله - فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري - أو قال في عاجل أمري وآجله - فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني به» "اے اللہ! میں تیرے علم کی برکت سے تجھ سے بھلائی اور خیر کا طالب ہوں اور تیری قدرت کا واسطہ دے کر تیری مدد کا چاہتا ہوں اور تیرے عظیم فضل کا طالب ہوں کیونکہ تو قدرت والا ہے، میں قدرت والا نہیں، تو (اچھا و برا سب) جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو ہی غیب کی باتوں کو جانتا ہے، اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ، (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) میرے لیے میرے دین، دنیا اور کے اعتبار سے، یا یہ کہا: اس دار فانی اور اخروی زندگی کے اعتبار سے بہتر ہے تو اس کام کو میرے لیے مقدر کر دے اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر دے اور مجھے اس میں برکت دے۔ اور اگر تو جانتا اور سمجھتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے، میرے دین، دنیا اور انجام کار کے لحاظ سے یا اس دار فانی اور اخروی زندگی کے لحاظ سے تو اس کام کو مجھ سے دور رکھ اور مجھے اس سے بچا لے۔ اور بھلائی جہاں بھی ہو اسے میرے لیے مقدر فرما دے اور مجھے اس پر راضی و خوش رکھ"۔ آپ نے فرمایا: "(دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا نام لے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۲۵ (۱۱۶۲)، والدعوات ۴۸ (۶۳۸۲)، والتوحید ۱۰ (۷۳۹۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۶۶ (۱۵۳۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۷ (۴۸۰)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۸ (۱۳۸۳)، مسند احمد ۳/۳۴۴ (صحیح)

بیٹے کا اپنی ماں کی شادی کرانے کا بیان

حد یث نمبر - 3256

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا بَعَثَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ تَزَوَّجْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ارْجِعْ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْ لَهَا أَمَّا قَوْلُكِ إِنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَدْعُو اللَّهَ لَكِ فَيُذْهِبُ غَيْرَتَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا قَوْلُكِ إِنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَتُكْفَيْنَ صِبْيَانَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا قَوْلُكِ أَنْ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِكِ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ يَكْرَهُ ذَلِكَ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ لِابْنِهَا:‏‏‏‏ يَا عُمَرُ،‏‏‏‏ قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَوَّجَهُ"،‏‏‏‏ مُخْتَصَرٌ.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب ان کی عدت پوری ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی شادی کا پیغام بھیجا۔ جسے انہوں نے قبول نہ کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اپنی شادی کا پیغام دے کر ان کے پاس بھیجا، انہوں نے (عمر رضی اللہ عنہ سے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچا دو کہ میں ایک غیرت مند عورت ہوں (دوسری بیویوں کے ساتھ رہ نہ پاؤں گی) بچوں والی ہوں (ان کا کیا بنے گا) اور میرا کوئی ولی اور سر پرست بھی موجود نہیں ہے۔ (جب کہ نکاح کرنے کے لیے ولی بھی ہونا چاہیئے) عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کو یہ سب باتیں بتائیں، آپ نے ان سے کہا: (دوبارہ) ان کے پاس (لوٹ) جاؤ اور ان سے کہو: تمہاری یہ بات کہ میں ایک غیرت مند عورت ہوں (اس کا جواب یہ ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے دعا کروں گا، اللہ تمہاری غیرت (اور سوکنوں کی جلن) دور کر دے گا، اور اب رہی تمہاری (دوسری) بات کہ میں بچوں والی عورت ہوں تو تم (شادی کے بعد) اپنے بچوں کی کفایت (و کفالت) کرتی رہو گی اور اب رہی تمہاری (تیسری) بات کہ میرا کوئی ولی موجود نہیں ہے (تو میری شادی کون کرائے گا) تو ایسا ہے کہ تمہارا کوئی ولی موجود ہو یا غیر موجود میرے ساتھ تمہارے رشتہ نکاح کو ناپسند نہ کرے گا (جب عمر رضی اللہ عنہ نے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب ان کے سامنے رکھا) تو انہوں نے اپنے بیٹے عمر بن ابی سلمہ سے کہا: اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (میرا) نکاح کر دو، تو انہوں نے (اپنی ماں کا) نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا، یہ حدیث مختصر ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۲۰۴)، مسند احمد (۶/۲۹۵، ۳۱۳، ۳۱۷، ۳۲۰، ۳۲۱) (ضعیف) یعنی بہذا السند والمتن وقد ورد بعضہ عندم فی الجنائز۲ (۹۱۸)

باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے

حد یث نمبر - 3257

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ بِنْتُ سِتٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَبَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ چھ سال کی بچی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی، اور جب نو برس کی ہوئیں تو آپ نے ان سے خلوت کی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۰ (۱۴۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۲۰۳) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح ۳۸ (۵۱۳۳)، ۳۹ (۵۱۳۴)، ۵۹ (۵۱۵۸)، سنن ابی داود/النکاح ۳۴ (۲۱۲۱)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۳ (۱۸۷۶)، مسند احمد (۶/۱۱۸، ۲۸۰)، سنن الدارمی/النکاح ۵۶ (۲۳۰۷) (صحیح)

باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے

حد یث نمبر - 3258

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ بْنِ مُسَاوِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَبْعِ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَدَخَلَ عَلَيَّ لِتِسْعِ سِنِينَ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں سات سال کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اور جب میں نو برس کی ہوئی تو مجھ سے خلوت فرمائی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۶۷۸۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی شادی قبل بلوغت اور صحبت بعد بلوغت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ باپ اپنی جھوٹی بچی کی شادی کر سکتا ہے۔

باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے

حد یث نمبر - 3259

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُطَرِّفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِتِسْعِ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَحِبْتُهُ تِسْعًا".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اور نو ہی برس میں آپ کی صحبت میں رہی(پھر آپ رحلت فرما گئے)۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۷۷۹۶) (صحیح) (کثرت طرق کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)

باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے

حد یث نمبر - 3260

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏"تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی، اور جب آپ نے انہیں چھوڑ کر انتقال فرمایا تو اس وقت وہ اٹھارہ برس کی ہو چکی تھیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۰ (۱۴۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۵۶)، مسند احمد (۶/۴۲) (صحیح)

باپ کا اپنی بڑی بیٹی کی شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3261

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ،‏‏‏‏ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَنَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَعْنِي:‏‏‏‏ "تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَقِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ زَوَّجْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ شَيْئًا فِيمَا عَرَضْتَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنِّي قَدْ كُنْتُ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبِلْتُهَا".

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابی رسول خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کا مدینہ میں انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا، اور کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دیتا ہوں، انہوں نے کہا: میں اپنے بارے میں غور کر کے بتاؤں گا، میں کئی دن ٹھہرا (انتظار کرتا) رہا، پھر وہ مجھ سے ملے اور کہا: میرے غور و فکر میں یہی آیا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: اگر آپ پسند کریں تو حفصہ سے آپ کی شادی کر دوں، (یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے، اور مجھے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابل میں زیادہ ہی غصہ آیا، پھر چند ہی راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنے لیے نکاح کا پیغام دیا تو میں نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ پھر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: غالباً آپ کو اس وقت بڑا غصہ آیا ہو گا جب آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کی پیشکش کی تھی اور (میری جانب سے) آپ کو کوئی جواب نہ ملا، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: ہاں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ کی پیش کش کا جواب نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ کا ذکر فرما چکے تھے اور میں آپ کا راز فاش کرنے والا نہیں تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو میں انہیں قبول کر لیتا۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۵۰ (صحیح)

کنواری لڑکی کی شادی کے لیے اس سے اجازت لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3262

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ عورت اپنے ولی (سر پرست) کے بالمقابل اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے ۱؎ اور کنواری (لڑکی) سے اس کی شادی کی اجازت لی جائے گی۔ اور اس کی اجازت (اس سے پوچھے جانے پر) اس کا خاموش رہنا ہے"۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۹ (۴۱۲۱)، سنن ابی داود/النکاح ۲۶ (۲۰۹۸، ۲۰۹۹، ۲۱۱۰)، سنن الترمذی/النکاح ۱۸ (۱۱۰۸)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۱ (۱۸۷۰)، (تحفة الأشراف: ۶۵۱۷)، موطا امام مالک/النکاح ۲ (۴)، مسند احمد (۱/۲۴۱، ۲۶۱، ۲۷۴، ۳۳۴، ۳۴۵، ۳۵۵، ۳۶۲)، سنن الدارمی/النکاح ۱۳، (۲۲۳۴، ۲۲۳۵، ۲۲۳۶) وانظرالأرقام التالیة (صحیح)

وضاحت: ۱؎: «أَحَقُّ» کا صیغہ مشارکت کا متقاضی ہے، گویا «ایم» :(بیوہ ) اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدار ہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدار ہے، یہ اور بات ہے کہ ولی کی بنسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا جب کہ اس کی وجہ سے ولی پر جبر کیا جا سکتا ہے چنانچہ ولی اگر شادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکر ہے تو بواسطہ قاضی اس کا نکاح ہو گا، اس توضیح سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ حدیث «لا نكاح إلا بولي» کے منافی نہیں ہے۔ ۲؎: لیکن اگر منظور نہ ہو تو کھل کر بتا دینا چاہیئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ ماں باپ اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔

کنواری لڑکی کی شادی کے لیے اس سے اجازت لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3263

أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ مِنْهُ بَعْدَ مَوْتِ نَافِعٍ بِسَنَةٍ وَلَهُ يَوْمَئِذٍ حَلْقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ اپنے ولی (سر پرست) کے بالمقابل اپنے (رشتہ کے) بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ اور «یتیمہ» یعنی کنواری لڑکی سے (اس کی شادی کے لیے) اس کی منظوری لی جائے گی اور اس کی منظوری (پوچھے جانے پر)اس کی خاموشی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۶۲ (صحیح)

کنواری لڑکی کی شادی کے لیے اس سے اجازت لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3264

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الرِّبَاطِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْأَيِّمُ أَوْلَى بِأَمْرِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ عورت اپنے نفس کی خود مالک ہے۔ (شادی کرے گی) اور«یتیمہ» یعنی کنواری لڑکی سے (اس کی شادی کے لیے) اس کی منظوری لی جائے گی اور اس کی منظوری (پوچھے جانے پر) اس کی خاموشی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۶۲ (صحیح)

کنواری لڑکی کی شادی کے لیے اس سے اجازت لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3265

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَيْسَ لِلْوَلِيِّ مَعَ الثَّيِّبِ أَمْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَصَمْتُهَا إِقْرَارُهَا".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ (غیر کنواری) عورت پر ولی کا کچھ اختیار نہیں ہے، اور «یتیمہ» کنواری لڑکی سے اس کی ذات کے بارے میں مشورہ (و اجازت) لی جائے گی، اور (جواباً) اس کی خاموشی اس کی اجازت مانی جائے گی"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۶۲ (صحیح)

باپ کو اپنی کنواری بیٹی سے اس کا رشتہ کرنے کے لیے پوچھنا چاہیے

حد یث نمبر - 3266

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْبِكْرُ يَسْتَأْمِرُهَا أَبُوهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ (غیر کنواری) عورت اپنے آپ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے (کہ شادی کرے تو کس سے کرے یا نہ کرے) اور کنواری لڑکی کی شادی باپ اس کی اجازت لے کر کرے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۶۲ (صحیح) (لکن قولہ ’’أبوہا‘‘غیر محفوظ وانظر ما قبلہ، والأجل الکلمة غیر المحفوظہ جعلہ فی الضعیف (۲۰۷) أیضا۳۰۶۲)

بیوہ کی شادی کے لیے اس کی اجازت ضروری ہے

حد یث نمبر - 3267

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ إِذْنُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "إِذْنُهَا أَنْ تَسْكُتَ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ عورت کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کنواری کی شادی اس کی مرضی جانے بغیر کی جائے"، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے جانی جائے؟ ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی اجازت یہ ہے کہ وہ چپ رہے" ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۴۳۳)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۱ (۱۸۷۱)، مسند احمد (۲/۲۲۹، ۲۵۰، ۲۷۹، ۴۲۵، ۴۳۴)، سنن الدارمی/النکاح۱۳ (۲۲۳۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: وہ تو ایسے مواقع پر بہت شرماتی ہے بول نہیں پاتی ہے۔ ۲؎: یعنی وہ چپ رہتی ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس رشتہ پر راضی ہے۔

کنواری لڑکی سے اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3268

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْذَكْوَانَ أَبِي عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اسْتَأْمِرُوا النِّسَاءَ فِي أَبْضَاعِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحِي وَتَسْكُتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "هُوَ إِذْنُهَا".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورتوں سے ان کی شادی کے بارے میں مشورہ کیا کرو"، کہا گیا: کنواری لڑکی تو شرم کرتی ہے، اور چپ رہتی ہے (بول نہیں پاتی)؟ آپ نے فرمایا: "اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۱ (۵۱۳۷)، والإکراہ ۳ (۶۹۴۶)، والحیل ۱۱ (۶۹۷۱)، صحیح مسلم/النکاح ۹ (۱۴۲۰)، مسند احمد (۶/۴۵، ۱۶۵، ۲۰۳) (صحیح)

کنواری لڑکی سے اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3269

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ إِذْنُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "أَنْ تَسْكُتَ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ کی شادی نہ کی جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لے لیا جائے اور کنواری لڑکی کی شادی نہ کی جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے"، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے جانی جائے؟ آپ نے فرمایا: "اس کا خاموش رہنا"(ہی اس کی اجازت ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۱ (۵۱۳۶)، الإکراہ ۳ (۶۹۴۶)، الحیل ۱۱ (۶۹۶۸)، صحیح مسلم/النکاح ۹ (۱۴۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۲۵)، مسند احمد (۲/ ۴۳۴)، سنن الدارمی/النکاح ۱۳ (۲۲۳۲) (صحیح)

باپ بیوہ کی شادی اس کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دے تو کیا حکم ہے

حد یث نمبر - 3270

أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمُجَمِّعِ ابني يزيد ابن جارية الأنصاري، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَرَدَّ نِكَاحَهُ".

خنساء بنت خذام رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا اور یہ بیوہ تھیں، یہ شادی انہیں پسند نہ آئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، تو آپ نے ان کا نکاح رد کر دیا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۲ (۵۱۳۸)، الإکراہ (۶۹۴۰)، الحیل ۱۱ (۶۹۶۹)، سنن ابی داود/النکاح ۲۶ (۲۱۰۱)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۲ (۱۸۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۲۴)، موطا امام مالک/النکاح۱۱ (۵۱۳۹)، مسند احمد (۶/۳۲۸)، سنن الدارمی/النکاح ۱۴ (۲۲۳۸) (صحیح)

باپ اپنی کنواری لڑکی کی شادی اس کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دے تو کیا حکم ہے

حد یث نمبر - 3271

أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ فَتَاةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ لِيَرْفَعَ بِي خَسِيسَتَهُ وَأَنَا كَارِهَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اجْلِسِي حَتَّى يَأْتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَعْلَمَ أَلِلنِّسَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ ؟".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی، اور اس نے کہا: میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے اس کی خست اور کمینگی پر پردہ ڈالنے کے لیے کر دی ہے، حالانکہ میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں، انہوں نے اس سے کہا: بیٹھ جاؤ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آ لینے دو (پھر اپنا قضیہ آپ کے سامنے پیش کرو)، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لے آئے تو اس نے آپ کو اپنے معاملے سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کو بلا بھیجا (اور جب وہ آ گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ اس (لڑکی) کے اختیار میں دے دیا اس (لڑکی) نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد نے جو کچھ کر دیا ہے، میں نے اسے قبول کر لیا (ان کے کئے ہوئے نکاح کو رد نہیں کرتی) لیکن میں نے (اس معاملہ کو آپ کے سامنے پیش کر کے) یہ جاننا چاہا ہے کہ کیا عورتوں کو بھی کچھ حق و اختیار حاصل ہے (سو میں نے جان لیا)۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ السنائي (تحفة الأشراف: ۱۶۱۸۶)، وأخرجہ سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۲ (۱۸۷۴) من حدیث عائشة (ضعیف شاذ)

باپ اپنی کنواری لڑکی کی شادی اس کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دے تو کیا حکم ہے

حد یث نمبر - 3272

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "تُسْتَأْمَرُ الْيَتِيمَةُ فِي نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ سَكَتَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ إِذْنُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «یتیمہ» کنواری لڑکی کی شادی کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا اگر وہ چپ رہے تو یہی (اس کا چپ رہنا ہی) اس کی جانب سے اجازت ہے، اور اگر وہ انکار کر دے تو اس پر کوئی زور (زور و دباؤ) نہیں ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۱۱۰)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/النکاح ۲۴ (۲۰۹۳)، سنن الترمذی/النکاح ۱۹ (۱۱۰۹)، مسند احمد (۲/۲۵۹، ۴۷۵) (حسن)

وضاحت: ۱؎: اگر وہ راضی نہیں ہوئی تو کوئی اور رشتہ دیکھو اور اگر وہ اس وقت شادی کرنا نہیں چاہتی تو اس وقت کا انتظار کرو جب وہ اس کے لیے آمادہ ہو جائے۔

حالت احرام میں نکاح کی رخصت و اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3273

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَوَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ وَيَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ وَهُوَ مُحْرِمٌ"،‏‏‏‏ وَفِي حَدِيثِ يَعْلَى بِسَرِفَ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب کہ آپ احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎، اور یعلیٰ (راوی) کی حدیث میں «سرف» کا بھی ذکر ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۲۰۰)، مسند احمد (۱/۳۳۶) (شاذ)

وضاحت: ۱؎: حالت احرام میں نکاح حرام ہے، محرم نہ تو اپنا نکاح کر سکتا ہے، نہ ہی کسی دوسرے کا نکاح کرا سکتا ہے، اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو یہ خبر دی جا رہی ہے کہ آپ نے میمونہ رضی الله عنہا سے حالت احرام میں شادی کی ہے درحقیقت اس سلسلہ میں راوی ابن عباس رضی الله عنہما کو وہم ہو گیا ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میمونہ رضی الله عنہا سے بحالت حلال نکاح کرنے کی روایت متعدد طرق سے مختلف راویوں سے مروی ہے، جب کہ حالت احرام والی روایت تنہا ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے، اور کسی تنہا آدمی کا وہم میں مبتلا ہو جانا پوری ایک جماعت کے بالمقابل زیادہ آسان ہے۔ :(واللہ اعلم )۲؎: «سرف» ایک جگہ کا نام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی الله عنہا سے شادی کی تھی۔

حالت احرام میں نکاح کی رخصت و اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3274

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں شادی کی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۸۴۰ (شاذ)

حالت احرام میں نکاح کی رخصت و اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3275

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكَحَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ جَعَلَتْ أَمْرَهَا إِلَى الْعَبَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَحَهَا إِيَّاهُ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، اور آپ اس وقت احرام میں تھے، میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنا معاملہ عباس رضی اللہ عنہما کے سپرد کر رکھا تھا تو انہوں نے ان کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دی۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۹۲۹) (شاذ)

حالت احرام میں نکاح کی رخصت و اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3276

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (شاذ)

محرم کے نکاح کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3277

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ،‏‏‏‏ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةِ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُنْكِحُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَخْطُبُ".

عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "محرم نہ خود اپنا نکاح کرے نہ کسی اور کا کرائے، اور نہ (ہی) نکاح کا پیغام دے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۸۴۵ (صحیح)

محرم کے نکاح کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3278

حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَطَرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ،‏‏‏‏ عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُنْكِحُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَخْطُبُ".

عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ کسی کا کرائے، اور نہ ہی کہیں نکاح کا پیغام دے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۸۴۵ (صحیح)

نکاح کے وقت کون سا کلام :(خطبہ ) پڑھنا مستحب ہے

حد یث نمبر - 3279

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّشَهُّدَ فِي الْحَاجَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "التَّشَهُّدُ فِي الْحَاجَةِ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، ‏‏‏‏‏‏مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقْرَأُ ثَلَاثَ آيَاتٍ".

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حاجت و ضرورت میں تشہد پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔ اور «تشہد فی الحاجۃ»یہ ہے کہ ہم (پہلے) پڑھیں: «أن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل اللہ فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» (اور پھر) تین آیات پڑھے (اور ایجاب و قبول کرائے)۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۳۳ (۲۱۱۸)، سنن الترمذی/النکاح ۱۷ (۱۱۰۵) مطولا، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۹ (۱۸۹۲)، (تحفة الأشراف: ۹۵۰۶)، مسند احمد (۱/۳۹۳، ۴۳۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: وہ تینوں آیات یہ ہیں: «يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي تسائلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا» " لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کر کے ان دونوں سے مرد اور عورت کثرت سے پھیلا دیے، لوگو ! اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے "۔ :(النساء:۱ ) «يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» " اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مسلمان ہی رہ کر مرو "۔ :(آل عمران:۱۰۲ ) «يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لكم أعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما» " اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور نپی تلی بات کہو اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گااس نے بڑی مراد پالی "۔ :(الاحزاب:۷۰،۷۱ )۔

نکاح کے وقت کون سا کلام :(خطبہ ) پڑھنا مستحب ہے

حد یث نمبر - 3280

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا كَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق کچھ بات چیت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے(یہ خطبہ) ارشاد فرمایا: «إن الحمد لله نحمده ونستعينه من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل اللہ فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أما بعد» ۱؎" (اور بات آگے بڑھائی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعہ ۱۳ (۸۶۸) مطولا، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۹ (۱۸۹۳)، (تحفة الأشراف: ۵۵۸۶)، مسند احمد (۱/۳۰۲، ۳۵۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اسی کے ہم ثناء خواں اور اسی کی مدد کے طلبگار ہیں، جسے اللہ تعالیٰ ہدایت بخشے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تنہا حقیقی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گوائی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

کس طرح کا خطبہ مکروہ ہے

حد یث نمبر - 3281

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَشَهَّدَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَحَدُهُمَا:‏‏‏‏ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشِدَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ".

عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (خطبہ) تشہد پڑھا، ان میں سے ایک نے کہا: «من يطع اللہ ورسوله فقد رشد ومن يعصهما فقد غوى» تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم بہت برے خطیب ہو" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعہ ۱۳ (۸۷۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۲۹ (۱۰۹۹)، والأدب ۸۵ (۴۹۸۱)، مسند احمد (۴/۲۵۶، ۳۷۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ تم نے «من يعصهما» کہہ کر اللہ و رسول کو ایک ہی درجہ میں کر دیا۔ بہتر تھا کہ جس طرح «من يطع الله و رسوله» کہا ایسے ہی«من يعص الله و رسوله» کہتے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت یاب ہوا اور جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا۔ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود «ومن یعصہما» کہا ہے تو اس سلسلہ میں صحیح اور درست بات یہ ہے کہ ایسا کرنا آپ کے علاوہ کے لیے منع ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ و رسول کو ایک ہی ضمیر میں جمع کرنا اس سے دونوں کو برابری کا درجہ دینے کا وہم نہیں ہو سکتا اس لیے کہ آپ جس منصب و مقام پر فائز ہیں وہاں اس طرح کے وہم کی گنجائش ہی نہیں۔ جب کہ دوسرے اس وہم سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

نکاح جن کلمات سے منعقد ہوتا ہے اس کا بیان

حد یث نمبر - 3282

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنِّي لَفِي الْقَوْمِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَتِ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا قَدْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لَكَ فَرَأْ فِيهَا رَأْيَكَ فَسَكَتَ فَلَمْ يُجِبْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالتَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا قَدْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لَكَ فَرَأْ فِيهَا رَأْيَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ:‏‏‏‏ زَوِّجْنِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ مَعَكَ شَيْءٌ ؟"قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اذْهَبْ فَاطْلُبْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ"فَذَهَبَ فَطَلَبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَجِدْ شَيْئًا وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ"قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏مَعِي سُورَةُ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَسُورَةُ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "قَدْ أَنْكَحْتُكَهَا عَلَى مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".

سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! اس(بندی) نے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دیا، آپ جیسا چاہیں کریں۔ آپ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ عورت پھر کھڑی ہوئی اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے اپنے آپ کو آپ کی سپردگی میں دے دیا ہے۔ تو اس کے بارے میں آپ کی جو رائے ہو ویسا کریں۔ (اتنے میں) ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری اس (عورت) سے شادی کرا دیجئیے، آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا نہیں"، آپ نے فرمایا: "جا کچھ ڈھونڈ کر لا اگر لوہے کی انگوٹھی ہی ملے تو وہی لے آؤ"، وہ گیا، اس نے تلاش کیا پھر آ کر کہا: مجھے تو کچھ نہیں ملا، لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی۔ آپ نے فرمایا: "تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟" اس نے کہا: جی ہاں! مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اس قرآن کے عوض جو تمہیں یاد ہے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا" (تم اسے بھی انہیں یاد کرا دو)۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۰۲ (صحیح)

نکاح کی شرطوں کا بیان

حد یث نمبر - 3283

أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوَفَّى بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ".

عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(نکاح کی) شرطوں میں سب سے پہلے پوری کی جانے والی شرط وہ ہے جس کے ذریعہ تم عورتوں کی شرمگاہیں اپنے لیے حلال کرتے ہو (یعنی مہر کی ادائیگی)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشروط ۶ (۲۷۲۱)، النکاح ۵۳ (۵۱۵۱)، صحیح مسلم/النکاح ۸ (۱۴۱۸)، سنن ابی داود/النکاح ۴۰ (۲۱۳۹)، سنن الترمذی/النکاح ۲۲ (۱۱۲۷)، سنن ابن ماجہ/النکاح۴۱ (۱۹۵۴)، (تحفة الأشراف: ۹۹۵۳)، مسند احمد (۴/۱۱۴، ۱۵۰، ۱۵۱، ۱۵۲)، سنن الدارمی/النکاح ۲۱ (۲۲۴۹) (صحیح)

نکاح کی شرطوں کا بیان

حد یث نمبر - 3284

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ حَجَّاجًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْيَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا الْخَيْرِ حَدَّثَهُ،‏‏‏‏ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوَفَّى بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ".

عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(نکاح کی) شرطوں میں سے پہلے پوری کی جانے والی شرط وہ ہے جس کے ذریعہ تم عورتوں کی شرمگاہیں اپنے لیے حلال کرتے ہو" (یعنی مہر کی ادائیگی)۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۸۳ (صحیح)

وہ نکاح جس سے تین طلاق دی ہوئی عورت طلاق دینے والے کے لیے حلال ہوتی ہے

حد یث نمبر - 3285

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي فَأَبَتَّ طَلَاقِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي تَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ وَمَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، ‏‏‏‏‏‏فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ (یعنی بالکل قطع تعلق کر دینے والی آخری طلاق) دے دی ہے، اور میں نے ان کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی جن کے پاس بس کپڑے کی جھالر جیسا ہے، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: "شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ واپس جانا چاہتی ہو (تو سن لو) یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمہارا شہد اور تم اس کا شہد نہ چکھ لو"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۳ (۲۶۳۹)، الطلاق ۴ (۵۲۶۰)، ۷ (۵۲۶۵)، ۳۷ (۵۳۱۷)، اللباس ۶ (۵۷۹۲)، الأدب ۶۸ (۶۰۸۴)، صحیح مسلم/النکاح ۱۷ (۱۴۳۳)، سنن الترمذی/النکاح۲۷ (۱۱۱۸)، سنن ابن ماجہ/النکاح۳۲ (۱۹۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۳۶)، مسند احمد (۶/۳۴، ۳۷، ۱۹۲، ۲۲۶، ۲۲۹)، سنن الدارمی/الطلاق ۴ (۲۳۱۳)، ویأتی عند المؤلف ۳۴۴۰ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مقصد یہ ہے کہ جب عورت اور مرد ہمبستری کر لیں اور پھر شوہر اس عورت کو طلاق دیدے تو یہ مطلقہ عورت اپنے پہلے شوہر کے پاس جس نے اس کو تین طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیا تھا، نئے نکاح سے واپس ہو سکتی ہے، یہاں پر ہمبستری کی لذت کو ایک دوسرے کے شہد چکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

شوہر کی زیر پرورش لڑکی سے شادی کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3286

أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّزَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ وَأُمُّهَا أُمُّ سَلَمَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ،‏‏‏‏ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَأَخْبَرَتْهَا،‏‏‏‏ أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْكِحْ أُخْتِي بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَوَتُحِبِّينَ ذَلِكَ"،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ يُشَارِكُنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ أُخْتَكِ لَا تَحِلُّ لِي"فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَنَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "بِنْتُ أُمِّ سَلَمَةَ"فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّهَا رَبِيبَتِي فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهَا لَابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".

ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میری بہن بنت ابی سفیان سے شادی کر لیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اسے پسند کر لو گی؟" میں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں اور مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ بھلائی اور اچھائی میں میری جو ساجھی دار بنے وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: "تمہاری بہن (تمہاری موجودگی میں) میرے لیے حلال نہیں ہے"، میں نے کہا: اللہ کے رسول، قسم اللہ کی! ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "تم ام سلمہ کی بیٹی کی بات کر رہی ہو؟" میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: "قسم اللہ کی اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی اور میری گود میں نہ پلی ہوتی تو بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی، اس لیے کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (اور رضاعت سے ہر وہ چیز حرام ہو جاتی ہے جو قرابت داری (رحم) سے حرام ہوتی ہے) مجھے اور ابوسلمہ دونوں کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے۔ تو تم (آئندہ)اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو (رشتہ کے لیے) مجھ پر پیش نہ کرنا"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۰ (۵۱۰۱)، ۲۵ (۵۱۰۶)، ۲۶ (۵۱۰۷)، ۳۳ (۵۱۲۳)، النفقات ۱۶ (۵۳۷۲)، صحیح مسلم/الرضاع ۴ (۱۴۴۹)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۴ (۱۹۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۷۵)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/النکاح ۷ (۲۰۵۶)، مسند احمد (۶/۲۹۱، ۳۰۹، ۴۲۸) (صحیح)

ماں اور بیٹی کو نکاح میں اکٹھا کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3287

أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْزَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْكِحْ بِنْتَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏تَعْنِي أُخْتَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَتُحِبِّينَ ذَلِكِ ؟"قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَتْنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ ذَلِكَ لَا يَحِلُّ"،‏‏‏‏ قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ تَنْكِحُ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "بِنْتُ أُمِّ سَلَمَةَ"،‏‏‏‏ قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّهَا لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهَا لَابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".

زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میرے باپ کی بیٹی یعنی میری بہن سے نکاح کر لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم (واقعی) اسے پسند کرتی ہو؟" انہوں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی تنہا بیوی تو ہوں نہیں مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو عورت میری شریک بنے وہ میری بہن ہو، (اس بات چیت کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ حلال نہیں ہے"، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول، قسم اللہ کی! ہم نے تو سنا ہے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں؟ آپ نے (استفہامیہ انداز میں) کہا: "ام سلمہ کی بیٹی؟"ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جی ہاں (ام سلمہ کی بیٹی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم اللہ کی اگر وہ میری آغوش کی پروردہ (ربیبہ) نہ بھی ہوتی، تب بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی، وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو تو ثویبہ (نامی عورت) نے دودھ پلایا ہے۔ تو (سنو! آئندہ) اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو نکاح کے لیے میرے اوپر پیش نہ کرنا"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۸۶ (صحیح)

ماں اور بیٹی کو نکاح میں اکٹھا کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3288

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ،‏‏‏‏ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ نَاكِحٌ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَعَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لَوْ أَنِّي لَمْ أَنْكِحْ أُمَّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏مَا حَلَّتْ لِي إِنَّ أَبَاهَا أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".

زینب بنت ام سلمہ رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ہماری آپس کی بات چیت میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ام سلمہ کے (میرے نکاح میں) ہوتے ہوئے؟ ۱؎ اگر میں نے ام سلمہ سے نکاح نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ (درہ) میرے لیے حلال نہ ہوتی، کیونکہ (وہ میری بھتیجی ہے اور) اس کا باپ میرا رضاعی بھائی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۸۶ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ ایک لڑکی کی ماں اگر کسی کی نکاح میں ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی اس شخص کے نکاح میں نہیں آ سکتی۔

کسی مرد کے نکاح میں دو بہنوں کے ایک ساتھ ہونے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3289

أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِي أُخْتِي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "فَأَصْنَعُ مَاذَا ؟"قَالَتْ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَإِنَّ ذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ يَشْرَكُنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي"،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَخْطُبُ دُرَّةَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بِنْتُ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي مَا حَلَّتْ لِي إِنَّهَا لَابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو میری بہن میں کچھ رغبت (دلچسپی) ہے؟ آپ نے فرمایا: "(اگر دلچسپی ہو) تو میں کیا کروں؟" انہوں نے کہا: آپ اس سے شادی کر لیں، آپ نے کہا: یہ اس لیے کہہ رہی ہو کہ تمہیں یہ زیادہ پسند ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی تنہا بیوی نہیں ہوں اور مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو میری ساجھی دار بنے وہ میری اپنی سگی بہن ہو، آپ نے فرمایا: "وہ میرے لیے حلال نہیں ہے"، انہوں نے کہا: مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ درہ بنت ام سلمہ سے شادی کرنے والے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "(تم) ام سلمہ کی بیٹی سے (کہہ رہی ہو)؟" انہوں نے کہا: ہاں (میں انہی کا نام لے رہی ہوں)، آپ نے فرمایا: "قسم اللہ کی! اگر وہ میری ربیبہ میری گود کی پروردہ نہ ہوتی تب بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی (وہ تو دو حیثیتوں سے میرے لیے حرام ہے ایک تو اس کی حیثیت میری بیٹی کی ہے اور دوسرے) وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (یعنی میری بھتیجی ہے)، تو (آئندہ) اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو میرے اوپر (شادی کے لیے) پیش نہ کرنا"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۸۶ (صحیح)

بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3290

أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا يُجْمَعُ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(نکاح میں) عورت اور اس کی پھوپھی کو نہ جمع کیا جائے گا، اور نہ ہی عورت اور اس کی خالہ کو اکٹھا کیا جائے گا ۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۷ (۵۱۰۹)، صحیح مسلم/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۱۲) موطا امام مالک/النکاح ۸ (۲۰)، مسند احمد (۲/۴۶۵، ۵۱۶، ۵۲۹، ۵۳۲)، سنن الدارمی/النکاح ۸ (۲۲۲۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی کسی شخص کی زوجیت میں بھتیجی اور پھوپھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، اور نہ ہی بھانجی اور اس کی خالہ ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔

بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3291

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ الوَهَّابِ بْنِ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ شِهَابٍ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي قُبَيْصَةُ بْنُ ذُؤَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْيُجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ (کسی کی زوجیت میں) عورت اور اس کی پھوپھی کو، عورت اور اس کی خالہ کو اکٹھا کیا جائے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۷ (۵۱۱۰، ۵۱۱۱)، صحیح مسلم/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، سنن ابی داود/النکاح ۱۳ (۲۰۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۸۸)، مسند احمد (۲/۴۰۱، ۴۵۲، ۵۱۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اگر ایک عورت سے شادی کر چکا ہے تو دوسری شادی وہ اس کی خالہ یا اس کی پھوپھی سے نہیں کر سکتا ہے۔

بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3292

أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ رَبِيعَةَ حَدَّثَهُ،‏‏‏‏ عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ"نَهَى أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ خَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ عورت کو اس کی پھوپھی، یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع کیا جائے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۵۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی کسی عورت کی پھوپھی یا اس کی خالہ نکاح میں ہو تو اُس عورت سے شادی نہ کی جائے۔

بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3293

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنْ أَرْبَعِ:‏‏‏‏ نِسْوَةٍ يُجْمَعُ بَيْنَهُنَّ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عورتوں کو نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے، عورت اور اس کی پھوپھی کو، عورت اور اس کی خالہ کو ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی بھتیجی اور اس کی پھوپھی کو، بھانجی اور اس کی خالہ کو نکاح میں جمع نہیں کیا جا سکتا۔

بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3294

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْبُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَلَى خَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسی عورت سے شادی نہ کی جائے جس کی پھوپھی پہلے سے اس کی نکاح میں موجود ہو ۱؎اور نہ ہی ایسی عورت سے شادی کی جائے جس کی خالہ پہلے سے اس کے نکاح میں ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۴۱۰۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی منکوحہ کی بھتیجی اور بھانجی سے۔

بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3295

أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ عَلَى خَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت سے (نکاح میں) اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی کرنے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۹۰)، مسند احمد (۲/۲۲۹، ۳۹۴) (صحیح)

بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3296

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَلَى خَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں شادی نہ کی جائے، اور نہ ہی اس کی خالہ کی موجودگی میں اس سے شادی کی جائے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۴۳۴) (صحیح)

عورت اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3297

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَلَى خَالَتِهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں اور اسی طرح اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی نہ کی جائے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۴۵۵۲)، مسند احمد (۲/۴۳۲، ۴۷۴) (صحیح)

عورت اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3298

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَّةُ عَلَى بِنْتِ أَخِيهَا".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں، اور پھوپھی سے اس کی بھتیجی کی موجودگی میں شادی کی جائے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۷ (۵۱۰۸) تعلیقًا، سنن ابی داود/النکاح ۱۳ (۲۰۶۵) مطولا، سنن الترمذی/النکاح ۳۱ (۱۱۲۶) مطولا، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۳۹)، مسند احمد (۲/۴۲۶، سنن الدارمی/النکاح ۸ (۲۲۲۴) (صحیح)

عورت اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3299

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَرَأْتُ عَلَى الشَّعْبِيِّكِتَابًا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَلَى خَالَتِهَا"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ جَابِرٍ.

شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے عاصم نے بتایا کہ میں نے شعبی کے سامنے ایک کتاب پڑھی جس میں جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں، اور اسی طرح اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی نہیں کی جا سکتی" تو شعبی نے کہا: میں نے یہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۷ (۵۱۰۸)، (تحفة الأشراف: ۲۳۴۵)، مسند احمد (۳/۳۳۸، ۳۸۲) (صحیح)

عورت اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3300

أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَالَتِهَا".

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے شادی کی جائے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

عورت اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3301

أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ عَلَى خَالَتِهَا".

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی کی جائے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۸۷۱) (صحیح)

رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں

حد یث نمبر - 3302

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَا حَرَّمَتْهُ الْوِلَادَةُ حَرَّمَهُ الرَّضَاعُ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو رشتے (ماں کے پیٹ سے) پیدا ہونے سے حرام ہوتے ہیں وہی رشتے(عورت کا) دودھ پینے سے بھی حرام ہوتے ہیں" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۷ (۲۰۵۵)، سنن الترمذی/الرضاع ۱ (۱۱۴۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۴۴)، موطا امام مالک/الرضاع ۳ (۱۵)، مسند احمد (۶/۴۴، ۵۱، ۶۶، ۶۶، ۷۲، ۱۰۲)، سنن الدارمی/النکاح ۴۸ (۲۲۹۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی نکاح کے حرام ہونے میں رضاعت اور ولادت کا ایک ہی حکم ہے۔

رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں

حد یث نمبر - 3303

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِرَاكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ،‏‏‏‏ أَنَّ عَمَّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ يُسَمَّى أَفْلَحَ اسْتَأْذَنَ عَلَيْهَا فَحَجَبَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَحْتَجِبِي مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا افلح نے ان کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے ان سے پردہ کیا، اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ سے) فرمایا: "ان سے پردہ مت کرو، کیونکہ نسب سے جو رشتے حرام ہوتے ہیں، وہی رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۷ (۲۶۴۴)، تفسیرسورة السجدة ۹ (۴۷۹۶)، النکاح ۲۲ (۵۱۰۳)، ۱۱۷ (۵۲۳۹)، الأدب ۹۳ (۶۱۵۶)، صحیح مسلم/الرضاع ۲ (۱۴۴۵)، موطا امام مالک/الرضاع ۱ (۱)، مسند احمد (۶/۲۱۷)، ویأتي عند المؤلف ۳۳۲۰ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ جب حقیقی چچا سے پردہ نہیں ہے تو رضاعی چچا سے بھی پردہ نہیں ہے۔

رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں

حد یث نمبر - 3304

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۱ (۱۴۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۰۲)، موطا امام مالک/الرضاع ۱ (۱) (صحیح)

رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں

حد یث نمبر - 3305

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۷۹۵۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی نسلی حقیقی رشتے سے جو لوگ حرام ہوتے ہیں وہی لوگ رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں۔

رضاعی بھائی کی بیٹی :(سے شادی ) کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3306

أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ تَنَوَّقُ فِي قُرَيْشٍ وَتَدَعُنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَعِنْدَكَ أَحَدٌ ؟"قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏بِنْتُ حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے آپ کی مہربانیاں و دلچسپیاں قریش میں بڑھ رہی ہیں اور(ہم جو آپ کے خاص الخاص ہیں) آپ ہمیں چھوڑ رہے (اور نظر انداز فرما رہے) ہیں؟ آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس کوئی (شادی کے لائق) ہے؟" میں نے کہا: ہاں! حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تو میرے لیے حلال نہیں ہے، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۳ (۱۴۴۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۷۱)، مسند احمد (۱/۸۲، ۱۱۴، ۱۲۶، ۱۳۲، ۱۵۸) (صحیح)

رضاعی بھائی کی بیٹی :(سے شادی ) کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3307

أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنْتُ حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ"،‏‏‏‏ قَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ هَذَا سَمِعَهُ قَتَادَةُ مِنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی (سے شادی) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے" ۱؎۔ شعبہ کہتے ہیں: اس روایت کو قتادہ نے جابر بن زید سے سنا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۷ (۲۶۴۵)، والنکاح ۳۵ (۵۱۰۰)، صحیح مسلم/الرضاع ۳ (۱۴۴۷)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۴ (۱۹۳۸)، (تحفة الأشراف: ۵۳۷۸)، مسند احمد (۱/۲۲۳، ۲۷۵، ۲۹۰، ۳۲۹، ۳۳۹، ۳۴۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اور دودھ بھائی کی بیٹی سے شادی حرام ہے۔

رضاعی بھائی کی بیٹی :(سے شادی ) کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3308

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدَ عَلَى بِنْتِ حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے شادی کر لینے کی ترغیب دی گئی، تو آپ نے فرمایا: "وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے اور رضاعت (دودھ پینے) سے ہر وہ رشتہ، ناطہٰ حرام ہو جاتا ہے جو رشتہ، ناطہٰ نسب سے حرام ہوتا ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۰۷ (صحیح)

کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے

حد یث نمبر - 3309

أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْحَارِثُ:‏‏‏‏ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں اللہ عزوجل نے جو نازل فرمایا اس میں یہ (حارث کی روایت میں قرآن میں جو نازل ہوا اس میں تھا) «عشر رضعات معلومات يحرمن» (دس (واضح) معلوم گھونٹ نکاح کو حرام کر دیں گے)، پھر یہ دس گھونٹ منسوخ کر کے پانچ معلوم گھونٹ کر دیا گیا (یعنی خمس رضعات معلومات)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، اور یہ آیت قرآن میں پڑھی جاتی رہی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۶ (۱۴۵۲)، سنن ابی داود/النکاح ۱۱ (۲۰۶۲)، سنن الترمذی/الرضاع ۳ (۱۱۵۰)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۵ (۱۹۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۹۷)، موطا امام مالک/الرضاع ۱ (۱)، سنن الدارمی/النکاح ۴۹ (۲۲۹۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: آپ کے انتقال کے قریبی زمانہ میں پانچ گھونٹ کی بھی آیت منسوخ ہو گئی، لیکن جنہیں بروقت اس کے منسوخ ہونے کا پتہ نہ چل سکا، انہوں نے اس کے پڑھے جانے کا ہی ذکر کر دیا ہے۔ پھر جب انہیں منسوخ ہونے کا علم ہو گیا تو انہوں نے بھی اس کا پڑھنا :(و لکھنا ) ترک کر دیا۔

کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے

حد یث نمبر - 3310

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّوبُ،‏‏‏‏ عَنْصَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الرَّضَاعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا الْإِمْلَاجَتَانِ"،‏‏‏‏ وَقَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ "الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ".

ام الفضل رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رضاعت (یعنی دودھ پلانے) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "ایک بار اور دو بار کا پلانا (نکاح کو) حرام نہیں کرتا"۔ قتادہ اپنی روایت میں «الإملاجة ولا الإملاجتان‏» کی جگہ «المصة والمصتان» کہتے ہیں، یعنی "ایک بار یا دو بار چھاتی کا چوسنا نکاح کو حرام نہ کرے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۵ (۱۴۵۱)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۵ (۱۹۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۵۱)، مسند احمد (۶/۳۳۹، ۳۴۰)، سنن الدارمی/النکاح ۴۹ (۲۲۹۸) (صحیح)

کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے

حد یث نمبر - 3311

أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ".

عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک بار اور دو بار چھاتی کا چوسنا حرمت کو ثابت نہیں کرتا"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۲۸۱)، مسند احمد (۴/۴، ۵) (صحیح، انظر ما بعدہ ۳۱۰۲)

کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے

حد یث نمبر - 3312

أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک بار اور دو بار چھاتی کا چوسنا (نکاح کو) حرام نہیں کرتا ۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۵ (۱۴۵۰)، سنن ابی داود/النکاح۱۱ (۲۰۶۳)، سنن الترمذی/الرضاع۳ (۱۱۵۰)، سنن ابن ماجہ/النکاح۳۵ (۱۹۴۱)، (تحفة الأشراف: ۱۷۱۸۹)، مسند احمد ۶/۳۱، ۹۵، ۲۱۶، ۲۴۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی ایک گھونٹ یا دو گھونٹ دودھ پی لینے سے اس سے نکاح کی حرمت کا حکم لاگو نہیں ہوتا۔

کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے

حد یث نمبر - 3313

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَتَبْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏نَسْأَلُهُ عَنِ الرَّضَاعِ ؟ فَكَتَبَ،‏‏‏‏ أَنَّ شُرَيْحًا حَدَّثَنَا،‏‏‏‏ أَنَّ عَلِيًّا،‏‏‏‏ وَابْنَ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏كانا يقولان:‏‏‏‏ يحرم من الرضاع قليله وكثيره، ‏‏‏‏‏‏وكان في كتابه أن أبا الشعثاء المحاربي حَدَّثَنَا،‏‏‏‏ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ،‏‏‏‏ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَا تُحَرِّمُ الْخَطْفَةُ وَالْخَطْفَتَانِ".

قتادہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم بن یزید نخعی کے پاس (خط) لکھ کر رضاعت کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا کہ مجھ سے شریح نے بیان کیا ہے کہ علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ دونوں کہتے تھے کہ دودھ تھوڑا پئے یا زیادہ رضاعت سے حرمت (نکاح) ثابت ہو جائے گی، اور ان کی کتاب (تحریر) میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ ابوالشعثاء محاربی نے مجھ سے بیان کیا کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "ایک بار یا دو بار اچک لینے(یعنی ایک یا دو گھونٹ پی لینے) سے نکاح کی حرمت قائم نہیں ہوتی" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۱۲۴، ۱۶۱۳۳) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: اس لیے یہاں قول صحابہ پر نہیں قول رسول پر عمل ہو گا۔

کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے

حد یث نمبر - 3314

أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ دَخَلَ عَلَيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي رَجُلٌ قَاعِدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "انْظُرْنَ مَا إِخْوَانُكُنَّ وَمَرَّةً أُخْرَى انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ مِنَ الرَّضَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الرَّضَاعَةَ مِنَ الْمَجَاعَةِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے (اس وقت) میرے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا یہ آپ پر بڑا گراں گزرا، میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناراضگی دیکھی تو کہا: اللہ کے رسول! یہ شخص میرا رضاعی بھائی ہے، آپ نے فرمایا: "اچھی طرح دیکھ بھال لیا کرو کہ تمہارے رضاعی بھائی کون ہیں، کیونکہ دودھ پینے کا اعتبار بھوک میں (جبکہ دودھ ہی غذا ہو) ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۷ (۲۶۴۷)، النکاح ۲۲ (۵۱۰۲)، صحیح مسلم/الرضاع ۸ (۱۴۵۵)، سنن ابی داود/النکاح ۹ (۲۰۵۸)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۵ (۱۹۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۸)، مسند احمد (۶/۹۴، ۱۳۸، ۱۷۴، ۲۴۱) (صحیح)

عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے

حد یث نمبر - 3315

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّعَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا،‏‏‏‏ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا وَأَنَّهَا سَمِعَتْ رَجُلًا يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا يُحَرَّمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے تو انہوں نے سنا کہ ایک آدمی حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کر رہا ہے، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ شخص آپ کے گھر میں اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے؟ آپ نے فرمایا: "میں نے اسے پہچان لیا ہے، وہ حفصہ کا رضاعی چچا ہے"، میں نے کہا: اگر فلاں میرے رضاعی چچا زندہ ہوتے تو میرے یہاں بھی آیا کرتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رضاعت (دودھ کا رشتہ) ویسے ہی (نکاح کو) حرام کرتا ہے جیسے ولادت (نسل) میں ہونے سے حرمت ہوتی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۷ (۲۶۴۶)، الخمس ۴ (۳۱۰۵)، النکاح۲۰ (۵۰۹۹)، صحیح مسلم/الرضاع ۱ (۱۴۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۰۰)، موطا امام مالک/الرضاع ۱ (۱)، مسند احمد (۶/۴۴، ۵۱، ۱۷۸، سنن الدارمی/النکاح ۴۹ (۲۲۹۹) (صحیح)

عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے

حد یث نمبر - 3316

أَخْبَرَنِي إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّعَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَ عَمِّي أَبُو الْجَعْدِ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَرَدَدْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ هِشَامٌ:‏‏‏‏ هُوَ أَبُو الْقُعَيْسِ:‏‏‏‏ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ائْذَنِي لَهُ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا ابوالجعد میرے پاس آئے، تو میں نے انہیں واپس لوٹا دیا (ہشام کہتے ہیں کہ وہ ابوالقعیس تھے)، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں (گھر میں) آنے کی اجازت دو"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۲ (۱۴۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۷۵)، مسند احمد (۶/۲۰۱) (صحیح)

عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے

حد یث نمبر - 3317

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ اسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ بَعْدَ آيَةِ الْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَتْ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ائْذَنِي لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ عَمُّكِ"، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ پردہ کی آیت کے نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی نے میرے پاس آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا، اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "انہیں اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں"، میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں۔ آپ نے فرمایا: "وہ تمہارے چچا ہیں وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۷۳۴۸) (صحیح)

عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے

حد یث نمبر - 3318

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ أَفْلَحُ أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ وَهُوَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ائْذَنِي لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ عَمُّكِ"،‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَذَلِكَ بَعْدَ أَنْ نَزَلَ الْحِجَابُ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح جو میرے رضاعی چچا ہوتے تھے میرے پاس آنے کی اجازت مانگ رہے تھے تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم انہیں اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں"۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: یہ واقعہ پردہ کی آیت کے نزول کے بعد کا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۲ (۵۱۰۳)، صحیح مسلم/الرضاع ۲ (۱۴۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۹۷)، موطا امام مالک/الرضاع ۱ (۳)، مسند احمد (۶/۱۷۷) (صحیح)

عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے

حد یث نمبر - 3319

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ عَمِّي أَفْلَحُ بَعْدَمَا نَزَلَ الْحِجَابُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ آذَنْ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ائْذَنِي لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ عَمُّكِ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "ائْذَنِي لَهُ تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَإِنَّهُ عَمُّكِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے چچا افلح نے پردہ کی آیت کے اترنے کے بعد میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی، تو میں نے انہیں اجازت نہیں دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: "انہیں اجازت دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں"، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں پلایا ہے (وہ میرے محرم کیسے ہو گئے)، آپ نے فرمایا: "تم انہیں (اندر) آنے کی اجازت دو، تمہارے ہاتھ میں مٹی لگے (تمہیں نہیں معلوم؟) وہ تمہارے چچا ہیں"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۲ (۱۴۴۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۸ (۱۹۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۴۳، ۱۶۹۲۶) (صحیح)

عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے

حد یث نمبر - 3320

أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق بْنُ بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْجَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَ أَفْلَحُ أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ، ‏‏‏‏‏‏يَسْتَأْذِنُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا آذَنُ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ جَاءَ أَفْلَحُ أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ يَسْتَأْذِنُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ائْذَنِي لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ عَمُّكِ"قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "ائْذَنِي لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ عَمُّكِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح (میرے پاس گھر میں آنے کی) اجازت مانگنے آئے، میں نے کہا: میں جب تک خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں انہیں اجازت نہ دوں گی، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے بتایا کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح آئے تھے اور اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت نہیں دی، آپ نے فرمایا: "(نہیں) انہیں اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں"، میں نے کہا: مجھے تو ابوالقعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں پلایا ہے۔ آپ نے فرمایا: "(بھلے سے مرد نے نہیں پلایا ہے) تم انہیں آنے دو، وہ تمہارے چچا ہیں"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۰۲ (صحیح)

بڑے کو دودھ پلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3321

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ نَافِعٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَرْضِعِيهِ"قُلْتُ:‏‏‏‏ "إِنَّهُ لَذُو لِحْيَةٍ"فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَرْضِعِيهِ يَذْهَبْ مَا فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ"،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا عَرَفْتُهُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ بَعْدُ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! سالم جب میرے پاس آتے ہیں تو میں (اپنے شوہر) ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر (ناگواری) دیکھتی ہوں (اور ان کا آنا ناگزیر ہے) ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم انہیں دودھ پلا دو"، میں نے کہا: وہ تو ڈاڑھی والے ہیں، (بچہ تھوڑے ہیں)، آپ نے فرمایا: "(پھر بھی) دودھ پلا دو، دودھ پلا دو گی تو ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر جو تم (ناگواری) دیکھتی ہو وہ ختم ہو جائے گی"، سہلہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! دودھ پلا دینے کے بعد پھر میں نے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر کبھی کوئی ناگواری نہیں محسوس کی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۷ (۱۴۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۴۱)، مسند احمد (۶/۱۷۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ابوحذیفہ سہلہ رضی الله عنہا کے شوہر تھے، انہوں نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب متبنی کے سلسلہ میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی، پھر جب تبنی حرام قرار پایا تو ابوحذیفہ رضی الله عنہ کو یہ چیز ناپسند آئی کہ سالم ان کے گھر میں پہلے کی طرح آئیں، یہی وہ مشکل تھی جسے حل کرنے کے لیے سہلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں۔

بڑے کو دودھ پلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3322

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْنَاهُ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَأَرْضِعِيهِ"قَالَتْ:‏‏‏‏ وَكَيْفَ أُرْضِعُهُ وَهُوَ رَجُلٌ كَبِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَلَسْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيرٌ"ثُمَّ جَاءَتْ بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا، ‏‏‏‏‏‏مَا رَأَيْتُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ بَعْدُ شَيْئًا أَكْرَهُ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہا: میں سالم کے اپنے پاس آنے جانے سے(اپنے شوہر) ابوحذیفہ کے چہرے میں کچھ (تبدیلی و ناگواری) دیکھتی ہوں، آپ نے فرمایا: "تم انہیں اپنا دودھ پلا دو"، انہوں نے کہا: میں انہیں کیسے دودھ پلا دوں وہ تو بڑے (عمر والے) آدمی ہیں؟ آپ نے فرمایا: "کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ بڑی عمر کے ہیں"، اس کے بعد وہ (دودھ پلا کر پھر ایک دن) آئیں اور کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس کے بعد ابوحذیفہ کے چہرے پر کوئی ناگواری کی چیز نہیں دیکھی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۷ (۱۴۵۳)، سنن النسائی/النکاح ۳۶ (۱۹۴۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۸۴)، مسند احمد (۶/۳۸) (صحیح)

بڑے کو دودھ پلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3323

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْوَزِيرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏وَرَبِيعَةُ،‏‏‏‏ عَنْ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةَ أَبِي حُذَيْفَةَ أَنْ تُرْضِعَ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ حَتَّى تَذْهَبَ غَيْرَةُ أَبِي حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْضَعَتْهُ وَهُوَ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَبِيعَةُ:‏‏‏‏ فَكَانَتْ رُخْصَةً لِسَالِمٍ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوحذیفہ کی بیوی کو حکم دیا کہ تم ابوحذیفہ کے غلام سالم کو دودھ پلا دو تاکہ ابوحذیفہ کی غیرت (ناگواری) ختم ہو جائے۔ تو انہوں نے انہیں دودھ پلا دیا اور وہ (بچے نہیں) پورے مرد تھے۔ ربیعہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں: یہ رخصت صرف سالم کے لیے تھی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۷۴۵۲)، مسند احمد (۶/۲۴۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی کسی دوسرے بڑے شخص کو دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہو گی، جمہور کی رائے یہی ہے کہ یہ سالم کے ساتھ خاص تھا۔

بڑے کو دودھ پلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3324

أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ وَهُوَ ابْنُ حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتْ سَهْلَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ سَالِمًا يَدْخُلُ عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ عَقَلَ مَا يَعْقِلُ الرِّجَالُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِمَ مَا يَعْلَمُ الرِّجَالُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَرْضِعِيهِ تَحْرُمِي عَلَيْهِ بِذَلِكَ"، ‏‏‏‏‏‏فَمَكَثْتُ حَوْلًا لَا أُحَدِّثُ بِهِ وَلَقِيتُ الْقَاسِمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَدِّثْ بِهِ وَلَا تَهَابُهُ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول! سالم ہمارے پاس آتا جاتا ہے (اب وہ بڑا ہو گیا ہے) جو باتیں لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی سمجھتا ہے اور جو باتیں لوگ جانتے ہیں وہ بھی جان گیا ہے (اور اس کا آنا جانا بھی ضروری ہے) آپ نے فرمایا: "تو اسے اپنا دودھ پلا دے تو اپنے اس عمل سے اس کے لیے حرام ہو جائے گی"۔ ابن ابی ملیکہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو سال بھر کسی سے بیان نہیں کیا، پھر میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی (اور اس کا ذکر آیا) تو انہوں نے کہا: اس حدیث کو بیان کرو اور اس کے بیان کرنے میں (شرماؤ) اور ڈرو نہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۷ (۱۴۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۶۴)، مسند احمد (۶/۲۰۱) (صحیح)

بڑے کو دودھ پلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3325

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ كَانَ مَعَ أَبِي حُذَيْفَةَ وَأَهْلِهِ فِي بَيْتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَتْ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّ سَالِمًا قَدْ بَلَغَ مَا يَبْلُغُ الرِّجَالُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَقَلَ مَا عَقَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَظُنُّ فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَرْضِعِيهِ تَحْرُمِي عَلَيْهِ"، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْضَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ الَّذِي فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ الَّذِي فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ابوحذیفہ اور ان کی بیوی (بچوں) کے ساتھ ان کے گھر میں رہتے تھے۔ تو سہیل کی بیٹی(سہلہ ابوحذیفہ کی بیوی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہا کہ سالم لوگوں کی طرح جوان ہو گیا ہے اور اسے لوگوں کی طرح ہر چیز کی سمجھ آ گئی ہے اور وہ ہمارے پاس آتا جاتا ہے اور میں اس کی وجہ سے ابوحذیفہ کے دل میں کچھ (کھٹک) محسوس کرتی ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اسے دودھ پلا دو، تو تم اس پر حرام ہو جاؤ گی" تو انہوں نے اسے دودھ پلا دیا، چنانچہ ابوحذیفہ کے دل میں جو (خدشہ) تھا وہ دور ہو گیا، پھر وہ لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس(دوبارہ) آئیں اور (آپ سے) کہا: میں نے (آپ کے مشورہ کے مطابق) اسے دودھ پلا دیا، اور میرے دودھ پلا دینے سے ابوحذیفہ کے دل میں جو چیز تھی یعنی کبیدگی اور ناگواری وہ ختم ہو گئی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

بڑے کو دودھ پلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3326

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضْعَةِ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يُرِيدُ رَضَاعَةَ الْكَبِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا نُرَى الَّذِي أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْلَةَ بِنْتَ سُهَيْلٍ إِلَّا رُخْصَةً فِي رَضَاعَةِ سَالِمٍ وَحْدَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَا يَدْخُلُ عَلَيْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضْعَةِ وَلَا يَرَانَا".

زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبھی ازواج مطہرات ۱؎ نے اس بات سے انکار کیا کہ کوئی ان کے پاس اس رضاعت کا سہارا لے کر (گھر کے اندر) آئے، مراد اس سے بڑے کی رضاعت ہے اور سب نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: قسم اللہ کی! ہم سمجھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہلہ بنت سہیل کو (سالم کو دودھ پلانے کا) جو حکم دیا ہے وہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے سالم کی رضاعت کے سلسلہ میں خاص تھا۔ قسم اللہ کی! اس رضاعت کے ذریعہ کوئی شخص ہمارے پاس آ نہیں سکتا اور نہ ہمیں دیکھ سکتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: النکاح ۱۰ (۲۰۶۱) مطولا، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۷۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: عائشہ رضی الله عنہا کے علاوہ۔

بڑے کو دودھ پلانے کا بیان

حد یث نمبر - 3327

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أُمَّهُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ،‏‏‏‏ أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَتْ تَقُولُ:‏‏‏‏ "أَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخَلَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا نُرَى هَذِهِ إِلَّا رُخْصَةً رَخَّصَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً لِسَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَدْخُلْ عَلَيْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ وَلَا يَرَانَا".

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی تھیں کہ سبھی ازواج مطہرات نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس رضاعت (یعنی بڑے کی رضاعت) کو دلیل بنا کر ان کے پاس (یعنی کسی بھی عورت کے پاس) جایا جائے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: قسم اللہ کی! ہم اس رخصت کو عام رخصت نہیں سمجھتے، یہ رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص سالم کے لیے دی تھی، اس رضاعت کو دلیل بنا کر ہم عورتوں کے پاس کوئی آ جا نہیں سکتا اور نہ ہی ہم عورتوں کو دیکھ سکتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۷ (۱۴۵۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۷ (۱۹۴۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۷۴)، مسند احمد (۶/۳۱۲) (صحیح)

دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3328

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّجُدَامَةَ بِنْتَ وَهْبٍ حَدَّثَتْهَا،‏‏‏‏ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الْغِيلَةِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى ذَكَرْتُ أَنَّ فَارِسَ،‏‏‏‏ وَالرُّومَ يَصْنَعُهُ"،‏‏‏‏ وَقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ "يَصْنَعُونَهُ فَلَا يَضُرُّ أَوْلَادَهُمْ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جدامہ بنت وہب نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا ارادہ ہوا کہ «غیلہ»سے روک دوں پھر مجھے خیال ہوا کہ روم و فارس کے لوگ بھی «غیلہ» کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا"۔ اسحاق (راوی) کی روایت میں «یصنعہ» کی جگہ «یصنعونہ» ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۲۴ (۱۴۴۲)، سنن ابی داود/الطب ۱۶ (۳۸۸۲)، سنن الترمذی/الطب ۲۷ (۲۰۷۶)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۶ (۲۰۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۸۶)، موطا امام مالک/الرضاع ۳ (۱۶)، مسند احمد (۶/۳۶۱، ۴۳۴)، سنن الدارمی/النکاح ۳۳ (۲۲۶۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: «غیلہ» یعنی دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنا۔

(جماع کے دوران ) شرمگاہ سے باہر منی کے اخراج کا بیان

حد یث نمبر - 3329

أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَدَّ الْحَدِيثَ حتى رده إلى أبي سعيد الخدري،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذُكِرَ ذَلِكَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَمَا ذَاكُمْ"قُلْنَا:‏‏‏‏ الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْمَرْأَةُ فَيُصِيبُهَا وَيَكْرَهُ الْحَمْلَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَكُونُ لَهُ الْأَمَةُ فَيُصِيبُ مِنْهَا وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ".

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا یعنی عزل کا ذکر ہوا، تو آپ نے فرمایا: "یہ کیا ہے؟" (ذرا تفصیل بتاؤ) ہم نے کہا: آدمی کے پاس بیوی ہوتی ہے، اور وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور حمل کو ناپسند کرتا ہے، (ایسے ہی) آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے وہ اس سے صحبت کرتا ہے، اور نہیں چاہتا کہ اس کو اس سے حمل رہ جائے ۲؎، آپ نے فرمایا: "اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہیں نقصان نہیں ہے، یہ تو صرف تقدیر کا معاملہ ہے" ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۲۲ (۱۴۳۸)، (تحفة الأشراف: ۴۱۱۳)، مسند احمد (۳/۱۱)، سنن الدارمی/النکاح ۳۶ (۲۲۷۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: «عزل» جماع کے دوران شرمگاہ سے باہر منی خارج کرنا۔ ۲؎: اس لیے جماع کے دوران جب انزال کا وقت آتا ہے تو وہ شرمگاہ سے باہر انزال کرتا ہے تاکہ اس کی منی بچہ دانی میں داخل نہ ہو سکے کہ جس سے وہ حاملہ ہو جائے یہ کام کیسا ہے ؟۔ ۳؎: بچے کی پیدائش یا عدم پیدائش میں عزل یا غیر عزل کا دخل نہیں بلکہ یہ تقدیر کا معاملہ ہے۔ اگر کسی بچے کی پیدائش لکھی جا چکی ہے تو تم اس کے وجود کے لیے موثر نطفے کو باہر ڈال ہی نہ سکو گے، اس کا انزال شرمگاہ کے اندر ہی ہو گا، اور وہ حمل بن کر ہی رہے گا۔

(جماع کے دوران ) شرمگاہ سے باہر منی کے اخراج کا بیان

حد یث نمبر - 3330

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُرَّةَ الزُّرَقِيَّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي سَعِيدٍ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَزْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ امْرَأَتِي تُرْضِعُ وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مَا قَدْ قُدِّرَ فِي الرَّحِمِ سَيَكُونُ".

ابوسعید زرقی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا: میری بیوی دودھ پلاتی ہے، اور میں ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رحم میں جس کا آنا مقدر ہو چکا ہے وہ ہو کر رہے گا ۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۲۰۴۵)، مسند احمد (۳/۴۵۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: چاہے تم عزل کرو یا نہ کرو اس لیے عزل کر کے بے مزہ ہونا اچھا نہیں۔

رضاعت کے حق و احترام کا بیان

حد یث نمبر - 3331

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "غُرَّةُ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ".

حجاج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: رضاعت کے حق کی ادائیگی کی ذمہ داری سے مجھے کیا چیز عہدہ بر آ کر سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: "شریف غلام یا شریف لونڈی ۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۱۲ (۲۰۶۴)، سنن الترمذی/الرضاع ۶ (۱۱۵۳)، مسند احمد (۳/۴۵۰)، سنن الدارمی/النکاح ۵۰ (۲۳۰۰) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ حجاج بن حجاج ‘‘ لین الحدیث ہیں)

وضاحت: ۱؎: یعنی شریف ولائق غلام یا شریف ولائق لونڈی دے دو تاکہ وہ اس کی خدمت کرے۔

رضاعت کی گواہی کا بیان

حد یث نمبر - 3332

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ عُقْبَةَ وَلَكِنِّي لِحَدِيثِ عُبَيْدٍ أَحْفَظُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي تَزَوَّجْتُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَتْنِي امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْرَضَ عَنِّي فَأَتَيْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّهَا كَاذِبَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَكَيْفَ بِهَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّهَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا دَعْهَا عَنْكَ".

عقبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ہمارے پاس ایک حبشی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا کہ میں نے فلان بنت فلاں سے شادی کی ہے پھر میرے پاس ایک حبشی عورت آئی، اس نے کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، (یہ سن کر) آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا ۱؎ تو میں پھر آپ کے چہرے کی طرف سے سامنے آیا اور میں نے کہا: وہ جھوٹی ہے، آپ نے فرمایا: "تم اسے کیسے جھوٹی کہہ سکتے ہو، جب کہ وہ بیان کرتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو اس کو چھوڑ کر اپنے سے الگ کر دو"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۲۶ (۸۸)، البیوع ۳ (۲۰۵۲)، الشہادات ۴ (۲۶۴۰)، ۱۳ (۲۶۵۹)، ۱۴ (۲۶۶۰)، والنکاح ۲۳ (۵۱۰۴)، سنن ابی داود/الأقضیة ۱۸ (۳۶۰۴)، سنن الترمذی/الرضاع ۴ (۱۱۵۱)، (تحفة الأشراف: ۹۹۰۵)، مسند احمد (۴/۷، ۸، ۳۸۴، سنن الدارمی/النکاح ۵۱ (۲۳۰۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: آپ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ یہ شخص اس بات سے آگاہ ہو جائے کہ ایسی صورت میں کسی عقلمند کے لیے مناسب نہیں کہ اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھے چہ جائیکہ اس کے متعلق کوئی سوال کرے۔

باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3333

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ السُّدِّيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقِيتُ خَالِي وَمَعَهُ الرَّايَةُ، ‏‏‏‏‏‏فقلت أين تريد ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ مِنْ بَعْدِهِ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ أَوْ أَقْتُلَهُ".

براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ماموں سے ملا، تو ان کے پاس جھنڈا تھا۔ تو میں نے اُن سے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ایسے شخص کی گردن اڑا دینے یا اسے قتل کر دینے کے لیے بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۲۷ (۴۴۵۶)، سنن الترمذی/الأحکام ۲۵ (۱۳۶۲)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۳۵ (۲۶۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۴)، مسند احمد (۴/۲۹۲، ۲۹۵، ۲۹۷)، سنن الدارمی/النکاح ۴۳ (۲۲۸۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: راوی :(براء ) کو شک ہو گیا ہے کہ ماموں نے «أن أضرب عنقہ» " میں اس کی گردن مار دوں " کہا یا «أقتلہ» " میں اسے قتل کر دوں " کہا، مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3334

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَصَبْتُ عَمِّي وَمَعَهُ رَايَةٌ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَيْنَ تُرِيدُ ؟"بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةَ أَبِيهِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ وَآخُذَ مَالَهُ".

براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا، ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے کہا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر لی ہے۔ مجھے آپ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں اور اس کا مال اپنے قبضہ میں کر لوں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۳۳ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اگر کسی نے مرتد کو قتل کیا ہے تو اس مرتد کا مال بشکل فئی قاتل کو ملے گا۔

آیت کریمہ: ’’ اور :(حرام کی گئیں ) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں ‘‘ کی تفسیر

حد یث نمبر - 3335

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"بَعَثَ جَيْشًا إِلَى أَوْطَاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقُوا عَدُوًّا فَقَاتَلُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24،‏‏‏‏ أَيْ هَذَا لَكُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر اوطاس کی طرف بھیجا ۱؎ وہاں ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو گئی، اور انہوں نے دشمن کا بڑا خون خرابہ کیا، اور ان پر غالب آ گئے، انہیں ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے، چنانچہ مسلمانوں نے ان قیدی باندیوں سے صحبت کرنا مناسب نہ سمجھا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» "اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں" (النساء: ۲۴) یعنی یہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہو جائے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۹ (۱۴۵۶)، سنن ابی داود/النکاح ۴۵ (۲۱۵۵)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النسائ۵ (۳۰۱۷)، (تحفة الأشراف: ۴۴۳۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: "اوطاس" طائف میں ایک جگہ کا نام ہے۔

نکاحِ شغار :(یعنی بیٹی یا بہن کے مہر کے بدلے دوسرے کی بہن یا بیٹی سے شادی کرنے کی ممانعت ) کا بیان

حد یث نمبر - 3336

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنِ الشِّغَارِ".

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۸ (۵۱۱۲)، الحیل۴ (۶۹۶۰) مطولا، صحیح مسلم/النکاح ۷ (۱۴۱۵)، سنن ابی داود/النکاح ۱۵ (۲۰۷۴)، (تحفة الأشراف: ۸۱۴۱)، مسند احمد (۲/۷، ۱۹، ۶۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: "نکاح شغار" یعنی کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کو دوسرے کی نکاح میں اُس کی بہن یا بیٹی سے اپنے ساتھ نکاح کرنے کے عوض میں بلا مہر دیدے۔

نکاحِ شغار :(یعنی بیٹی یا بہن کے مہر کے بدلے دوسرے کی بہن یا بیٹی سے شادی کرنے کی ممانعت ) کا بیان

حد یث نمبر - 3337

أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بِشْرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا جَلَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا جَنَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ وَمَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا".

عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اسلام میں نہ «جلب» ہے نہ «جنب» ہے اور نہ ہی «شغار»ہے، اور جس کسی نے کسی طرح کا لوٹ کھسوٹ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد ۷۰ (۲۵۸۱)، سنن الترمذی/النکاح ۳۰ (۱۱۲۳)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۳ (۳۹۳۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۷۹۳) مسند احمد (۴/۴۳۸، ۴۳۹، ۴۴۳، ۴۴۵) ویأتي بأرقام ۳۶۲۰ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: «جلب» زکاۃ اور گھوڑ دوڑ دونوں میں ہوتا ہے، «جلب» گھوڑوں میں یہ ہے کہ مقابلہ کے وقت کسی کو اپنے گھوڑے کے پیچھے لگا لے کہ وہ گھوڑے کو ڈانٹتا رہے تاکہ وہ آگے بڑھ جائے، جب کہ زکاۃ میں «جلب» یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا کسی جگہ بیٹھ جائے اور زکاۃ دینے والوں سے کہے کہ مال میرے پاس لاؤ تاکہ زکاۃ لی جا سکے، چونکہ اس میں زکاۃ دینے والوں کو مشقت و پریشانی لاحق ہو گی اس لیے اس سے منع کیا گیا۔ اور «جنب» یہ ہے کہ مقابلہ کے وقت اپنے گھوڑے کے پہلو میں ایک اور گھوڑا رکھے کہ جب سواری کا گھوڑا تھک جائے تو اس گھوڑے پر سوار ہو جائے، جب کہ زکاۃ میں «جنب» یہ ہے کہ صاحب مال اپنا مال لے کر دور چلا جائے تاکہ زکاۃ وصول کرنے والا زکاۃ کی طلب میں تکلیف و مشقت میں پڑ جائے۔ "نکاح شغار" یعنی کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کو دوسرے کی نکاح میں اُس کی بہن یا بیٹی سے اپنے ساتھ نکاح کرنے کے عوض میں بلا مہر دیدے۔۔

نکاحِ شغار :(یعنی بیٹی یا بہن کے مہر کے بدلے دوسرے کی بہن یا بیٹی سے شادی کرنے کی ممانعت ) کا بیان

حد یث نمبر - 3338

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْفَزَارِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا خَطَأٌ فَاحِشٌ وَالصَّوَابُ حَدِيثُ بِشْرٍ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام میں نہ «جلب» ہے، نہ «جنب» ہے، اور نہ «شغار» ہے"۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی فرماتے ہیں: اس روایت میں صریح غلطی موجود ہے اور بشر کی روایت صحیح ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۶۶۰)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۶ (۱۸۸۵)، مسند احمد (۳/۱۶۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس روایت میں حمید راوی انس رضی الله عنہ سے روایت کرتے، اس اعتبار سے حمید تابعی بن جاتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے، بشر کی روایت میں یہی حمید اپنے استاد حسن :(بصریٰ ) سے روایت کرتے ہیں اور وہ :(حسن بصری ) عمران بن حصین صحابی سے۔ اس اعتبار سے حمید تبع تابعی ٹھہرتے ہیں۔ امام نسائی کہتے ہیں: یہی صحیح ہے کیونکہ حمید تابعی نہیں بلکہ تبع تابعی ہیں۔

شغار کی تفسیر

حد یث نمبر - 3339

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ. ح وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مَالِكٌ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنِ الشِّغَارِ"، ‏‏‏‏‏‏وَالشِّغَارُ:‏‏‏‏ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ ابْنَتَهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۲۸ (۵۱۱۲)، صحیح مسلم/النکاح ۷ (۱۴۱۵)، سنن ابی داود/النکاح ۱۵ (۲۰۷۴)، سنن الترمذی/النکاح ۳۰ (۱۱۲۴)، (تحفة الأشراف: ۸۳۲۳۰)، موطا امام مالک/النکاح ۱۱ (۲۴)، مسند احمد (۲/۷، ۶۲)، سنن الدارمی/النکاح ۹ (۲۲۲۶) (صحیح)

شغار کی تفسیر

حد یث نمبر - 3340

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَزْرَقُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ"،‏‏‏‏ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ وَالشِّغَارُ كَانَ الرَّجُلُ يُزَوِّجُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ أُخْتَهُ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے عبیداللہ (جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں: شغار یہ تھا کہ آدمی اپنی بیٹی کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرتا تھا کہ دوسرا اپنی بہن کی شادی اس کے ساتھ کر دے (بغیر کسی مہر کے)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۷ (۱۴۱۶)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۶ (۱۸۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۳۷۹۶)، مسند احمد (۲/۲۸۶، ۴۳۹، ۴۹۶) (صحیح)

قرآن کی کچھ سورتیں سکھا دینے کے عوض شادی کر دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3341

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْتُ لِأَهَبَ نَفْسِي لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَعَّدَ النَّظَرَ إِلَيْهَا وَصَوَّبَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ طَأْطَأَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَتِ الْمَرْأَةُ أَنَّهُ لَمْ يَقْضِ فِيهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏جَلَسَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَزَوِّجْنِيهَا قَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ"؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "انْظُرْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ"فَذَهَبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي،‏‏‏‏ قَالَ سَهْلٌ:‏‏‏‏ مَا لَهُ رِدَاءٌ فَلَهَا نِصْفُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ ؟ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ"فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى طَالَ مَجْلِسُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مُوَلِّيًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَدُعِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏"قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّدَهَا فَقَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبٍ ؟"قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".

سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دوں، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور نیچے سے اوپر تک دھیان سے دیکھا۔ پھر آپ نے اپنا سر جھکا لیا (غور فرمانے لگے کہ کیا کریں)، عورت نے جب دیکھا کہ آپ نے اس کے متعلق (بروقت) کچھ نہیں فیصلہ فرمایا تو وہ (انتظار میں) بیٹھ گئی، اتنے میں آپ کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اپنے لیے اس عورت کی ضرورت نہیں پاتے تو آپ اس عورت سے میری شادی کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس(بطور مہر دینے کے لیے) کوئی چیز ہے؟" اس نے کہا نہیں، قسم اللہ کی! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: "دیکھو (تلاش کرو) لوہے کی انگوٹھی ۱؎ ہی مل جائے تو لے کر آؤ"، تو وہ آدمی (تلاش میں) نکلا، پھر لوٹ کر آیا اور کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! کوئی چیز نہیں ملی حتیٰ کہ لوہے کہ انگوٹھی بھی نہیں ملی، میرے پاس بس میرا یہی تہبند ہے، میں آدھی تہبند اس کو دے سکتا ہوں، سہل (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں: اس کے پاس چادر نہیں تھی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے تہبند سے کیا کر سکتے ہو؟ تم پہنو گے تو وہ نہیں پہن سکتی اور وہ پہنے گی تو تم نہیں پہن سکتے"، وہ آدمی بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا، پھر(مایوس ہو کر) اٹھ کر چلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے ہوئے دیکھا تو اسے حکم دے کر بلا لیا، جب وہ آیا تو آپ نے اس سے پوچھا: "تمہیں قرآن کتنا یاد ہے؟" انہوں نے کہا: فلاں فلاں سورت، اس نے گن کر بتایا۔ آپ نے کہا: "کیا تم اسے زبانی (روانی سے) پڑھ سکتے ہو"، اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "(جاؤ) جو تمہیں قرآن یاد ہے اسے یاد کرا دو اس کے عوض میں نے تمہیں اس کا مالک بنا دیا" (یعنی میں نے اس سے تمہاری شادی کر دی)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/فضائل القرآن ۲۲ (۵۰۳۰)، صحیح مسلم/النکاح ۱۳ (۱۴۲۵)، (تحفة الأشراف: ۴۷۷۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

اسلام قبول کر لینے کی شرط پر شادی کر لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3342

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ صِدَاقُ مَا بَيْنَهُمَا الْإِسْلَامَ أَسْلَمَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ قَبْلَ أَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَطَبَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَسْلَمْتَ نَكَحْتُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْلَمَ فَكَانَ صِدَاقَ مَا بَيْنَهُمَا".

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو ان کے درمیان مہر (ابوطلحہ کا) اسلام قبول کر لینا طے پایا تھا، ام سلیم ابوطلحہ سے پہلے ایمان لائیں، ابوطلحہ نے انہیں شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے کہا: میں اسلام لے آئی ہوں (میں غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی)، آپ اگر اسلام قبول کر لیں تو میں آپ سے شادی کر سکتی ہوں، تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور یہی اسلام ان دونوں کے درمیان مہر قرار پایا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۶۸) (صحیح)

اسلام قبول کر لینے کی شرط پر شادی کر لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3343

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ بْنِ مُسَاوِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "خَطَبَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا مِثْلُكَ يَا أَبَا طَلْحَةَ يُرَدُّ وَلَكِنَّكَ رَجُلٌ كَافِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا امْرَأَةٌ مُسْلِمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَحِلُّ لِي أَنْ أَتَزَوَّجَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ تُسْلِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَذَاكَ مَهْرِي وَمَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْلَمَ فَكَانَ ذَلِكَ مَهْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ثَابِتٌ:‏‏‏‏ فَمَا سَمِعْتُ بِامْرَأَةٍ قَطُّ كَانَتْ أَكْرَمَ مَهْرًا مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ الْإِسْلَامَ فَدَخَلَ بِهَا فَوَلَدَتْ لَهُ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (ان کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دیا تو انہوں نے انہیں جواب دیا: قسم اللہ کی، ابوطلحہ! آپ جیسوں کا پیغام لوٹایا نہیں جا سکتا، لیکن آپ ایک کافر شخص ہیں اور میں ایک مسلمان عورت ہوں، میرے لیے حلال نہیں کہ میں آپ سے شادی کروں، لیکن اگر آپ اسلام قبول کر لیں، تو یہی آپ کا اسلام قبول کر لینا ہی میرا مہر ہو گا اس کے سوا مجھے کچھ اور نہیں چاہیئے ۱؎ تو وہ اسلام لے آئے اور یہی چیز ان کی مہر قرار پائی۔ ثابت کہتے ہیں: میں نے کسی عورت کے متعلق کبھی نہیں سنا جس کی مہر ام سلیم رضی اللہ عنہا کی مہر اسلام سے بڑھ کر اور باعزت رہی ہو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے صحبت و قربت اختیار کی اور انہوں نے ان سے بچے جنے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۷۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اسلام لانے کے بعد مہر معجل کا مطالبہ نہیں کروں گی۔

غلامی سے آزادی کے بدلے شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3344

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الْعَزِيزِ يعني ابن صهيب،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. ح وَأَنْبَأَنَاقُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَشُعَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَجَعَلَهُ صَدَاقَهَا".

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ صلاة الخوف ۶ (۹۴۷) مطولا، المغازي ۳۸ (۴۲۰۰)، النکاح ۱۳ (۵۰۸۶)، ۶۸ (۵۱۶۹)، صحیح مسلم/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، سنن ابی داود/النکاح ۶ (۲۰۵۴)، سنن الترمذی/النکاح ۲۴ (۱۱۱۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۲ (۱۹۵۷)، (تحفة الأشراف: ۲۹۱، ۱۰۶۷)، مسند احمد (۳/۹۹، ۱۳۸، ۱۶۵، ۱۷۰، ۱۸۱، ۱۸۶، ۲۰۳، ۲۳۹، ۲۴۲، ۲۸۰، ۲۸۲، ۲۹۱) (صحیح)

غلامی سے آزادی کے بدلے شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3345

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ. ح وَأَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْحَبْحَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏"أَعْتَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ عِتْقَهَا مَهْرَهَا"،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ.

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوہ خیبر کے موقع پر قید ہو کر آنے والی یہودی سردار حي بن اخطب کی بیٹی) صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا، اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا، حدیث کے الفاظ راوی حدیث محمد کے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۶۸ (۵۱۶۹)، صحیح مسلم/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، (تحفة الأشراف: ۹۱۲)، مسند احمد (۳/۱۸۱، ۲۸۰)، سنن الدارمی/النکاح ۴۵ (۲۲۸۸) (صحیح)

لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3346

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ:‏‏‏‏ رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدَّبَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدٌ يُؤَدِّي حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمُؤْمِنُ أَهْلِ الْكِتَابِ".

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین لوگ ایسے ہیں جنہیں دوہرا اجر و ثواب ملے گا ۱؎، ایک وہ آدمی جس کے پاس لونڈی تھی اس نے اسے ادب و تمیز سکھائی اور بہترین طور و طریقہ بتایا، اسے تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسے آزاد کر دیا، اور اس سے شادی کر لی۔ دوسرا وہ غلام جو اپنے آقاؤں کا صحیح صحیح حق الخدمت ادا کرے، اور تیسرا وہ جو اہل کتاب میں سے ہو اور ایمان لے آئے" (ایسے لوگوں کو دوگنا ثواب ملے گا)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۳۱ (۹۷)، العتق ۱۴ (۲۵۴۴)، ۱۶ (۲۵۴۷)، الجہاد ۱۴۵ (۳۰۱۱)، أحادیث الأنبیاء ۴۷ (۳۴۴۶)، والنکاح ۱۳ (۵۰۸۳)، صحیح مسلم/الإیمان ۷۰ (۱۵۴)، سنن ابی داود/النکاح ۶ (۲۰۵۳)، سنن الترمذی/النکاح ۲۵ (۱۱۱۶)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۲ (۱۹۵۶)، مسند احمد ۴/۳۹۵، ۳۹۸، ۴۰۲، ۴۰۵، ۴۱۴، ۴۱۵)، سنن الدارمی/النکاح ۴۶ (۲۲۹۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی زندگی کے ہر عمل کا انہیں دوہرا اجر ملے گا یا ان حالات میں جو بھی عمل ان سے صادر ہو گا اس کا انہیں دوہرا اجر ملے گا۔

لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3347

أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُبَيْدٍ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُطَرِّفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ أَعْتَقَ جَارِيَتَهُ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَهُ أَجْرَانِ".

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنی باندی کو آزاد کیا اور پھر اس سے شادی کر لی، اسے دوہرا اجر ملے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العتق ۴ (۲۵۴۴)، صحیح مسلم/النکاح ۱۴ (۱۵۴)، سنن ابی داود/النکاح ۶ (۲۰۵۳)، (تحفة الأشراف: ۹۱۰۸) (صحیح)

مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3348

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِيعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "يَا ابْنَ أُخْتِي هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا فَتُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، ‏‏‏‏‏‏فَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ فِيهِنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ سورة النساء آية 127،‏‏‏‏ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127،‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُتْلَى فِي الْكِتَابِ الْآيَةُ الْأُولَى الَّتِي فِيهَا:‏‏‏‏ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3،‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الْآيَةِ الْأُخْرَى:‏‏‏‏ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127،‏‏‏‏ رَغْبَةَ أَحَدِكُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حَجْرِهِ حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ".

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے (ام المؤمنین) عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء» "اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے، تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو (النساء: ۳) کے بارے میں سوال کیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ ساجھی ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو، اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کیے نکاح کرنا چاہتا ہو یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو، چنانچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا۔ اگر وہ انصاف سے کام لیں اور انہیں اونچے سے اونچا مہر ادا کریں تو نکاح کر سکتے ہیں ورنہ فرمان رسول ہے کہ ان کے علاوہ جو عورتیں انہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لیں۔ عروہ کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان یتیم بچیوں کے متعلق مسئلہ پوچھا تو اللہ نے آیت «ويستفتونك في النساء قل اللہ يفتيكم فيهن» سے لے کر «وترغبون أن تنكحوهن»"آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ خود اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے، اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے، اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو (النساء: ۱۲۷) تک نازل فرمائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے «وما يتلى عليك في الكتاب» جو فرمایا ہے اس سے پہلی آیت: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء» مراد ہے۔ اور دوسری آیت میں فرمایا: «وترغبون أن تنكحوهن» تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری نگہداشت و پرورش میں ہوتی ہے اور کم مال والی اور کم خوبصورتی والی ہوتی ہے اسے تو تم نہیں چاہتے تو اس کی بنا پر تمہیں ان یتیم لڑکیوں سے بھی شادی کرنے سے روک دیا گیا ہے جن کا مال پانے کی خاطر تم ان سے شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرکة ۷ (۲۴۹۴)، والوصایا ۲۱ (۲۷۶۳)، وتفسیر سورة النساء ۱ (۴۵۷۶)، والنکاح۱ (۵۰۶۴)، ۱۶ (۵۰۹۲)، ۱۹ (۵۰۹۸)، ۳۶ (۵۱۲۸)، ۳۷ (۵۱۳۱)، ۴۳ (۵۱۴۰)، والحیل ۸ (۶۹۶۵)، صحیح مسلم/التفسیر ۱ (۳۰۱۸)، سنن ابی داود/النکاح ۱۳ (۲۰۶۸) (صحیح)

مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3349

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ "فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشٍّ وَذَلِكَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ".

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس (یعنی مہر) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش ۱؎ کا مہر باندھا جس کے پانچ سو درہم ہوئے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۳ (۱۴۲۶)، سنن ابی داود/النکاح ۲۹ (۲۱۰۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۷ (۱۸۸۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۳۹)، مسند احمد (۶/۹۳، ۹۴)، سنن الدارمی/النکاح ۱۸ (۲۲۴۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ایک نش بیس درہم کا ہوتا ہے، یا اس سے ہر چیز کا نصف مراد ہوتا ہے۔

مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3350

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ الصَّدَاقُ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَةَ أَوَاقٍ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں باحیات تھے اس وقت مہر دس اوقیہ ۱؎ ہوتا تھا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۴۶۳۰)، مسند احمد (۲/۳۶۷) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔

مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3351

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِخِ بْنِ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وسلمة بن علقمة، ‏‏‏‏‏‏وهشام بن حسان، ‏‏‏‏‏‏دخل حديث بعضهم في بعض، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَلَمَةُ:‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ نُبِّئْتُ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْآخَرُونَ:‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ "أَلَا لَا تَغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مَكْرُمَةً وَفِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى يَقُولَ:‏‏‏‏ كُلِّفْتُ لَكُمْ عِلْقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَدْرِ مَا عِلْقُ الْقِرْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأُخْرَى يَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيكُمْ أَوْ مَاتَ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا أَوْ مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا يَطْلُبُ التِّجَارَةَ فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مَاتَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".

ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو سن لو عورتوں کے مہروں میں غلو نہ کرو کیونکہ اگر یہ زیادتی دنیا میں عزت کا باعث اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی کسی بیوی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رکھا اور نہ ہی آپ کی کسی بیٹی کا اس سے زیادہ رکھا گیا، آدمی اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے جس سے اس کے دل میں نفرت و عداوت پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ کہنے لگتا ہے کہ میں تو تمہاری وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں میں خالص عربی النسل لڑکا نہ تھا اس لیے میں «عرق القربہ» کا محاورہ سمجھ نہ سکا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دوسری بات یہ بتائی کہ جب کوئی شخص تمہاری لڑائیوں میں مارا جاتا ہے یا مر جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں: وہ شہید کی حیثیت سے قتل ہوا یا شہادت کی موت مرا، جب کہ اس کا امکان موجود ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پیچھے یا پہلو میں سونا چاندی لاد رکھا ہے اور مجاہدین کے ساتھ نکلنے سے اس کا مقصود تجارت ہو۔ تو تم ایسا نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے: جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے یا مر جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۲۹ (۲۱۰۶) مختصرا، سنن الترمذی/النکاح ۲۳ (۱۱۱۴) مختصراً، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۷ (۱۸۸۷) مختصراً، مسند احمد (۱/۴۰، ۴۱، ۴۸، سنن الدارمی/النکاح ۱۸ (۲۲۴۶) (صحیح)

مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان

حد یث نمبر - 3352

أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْمَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ، ‏‏‏‏‏‏زَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمْهَرَهَا أَرْبَعَةَ آلَافٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَهَّزَهَا مِنْ عِنْدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَعَثَ بِهَا مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ وَلَمْ يَبْعَثْ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ وَكَانَ مَهْرُ نِسَائِهِ أَرْبَعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ".

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ سر زمین حبشہ میں تھیں، ان کی شادی نجاشی بادشاہ نے کرائی اور ان کا مہر چار ہزار (درہم) مقرر کیا۔ اور اپنے پاس سے تیار کر کے انہیں شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس (حبشہ میں) کوئی چیز نہ بھیجی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (دوسری) بیویوں کا مہر چار سو درہم تھا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح۲۰ (۲۰۸۶)، ۲۹ (۲۱۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۵۴)، مسند احمد (۶/۴۲۷) (صحیح)

کھجور کی گٹھلی برابر سونے کے عوض شادی کرانے کا بیان

حد یث نمبر - 3353

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ،‏‏‏‏ عَنْ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ أَثَرُ الصُّفْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا ؟"قَالَ:‏‏‏‏ زِنَةَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان پر زردی کا اثر تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتایا کہ انہوں نے ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنا مہر دیا ہے اسے؟ انہوں نے کہا: ایک «نواۃ» (کھجور کی گٹھلی) برابر سونا ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ولیمہ ۲؎ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱ (۲۰۴۹)، ومناقب الأنصار ۳ (۳۷۸۱)، ۵۰ والنکاح ۷ (۵۰۷۲)، ۴۹ (۵۱۳۸)، ۵۴ (۵۱۵۳)، ۵۶ (۵۱۵۵)، ۶۸ (۵۱۶۷)، الأدب ۶۷ (۶۰۸۲)، الدعوات ۵۳ (۶۳۸۶)، (تحفة الأشراف: ۷۳۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۳ (۱۴۲۷)، سنن ابی داود/النکاح ۳۰ (۲۱۹۰)، سنن الترمذی/النکاح ۱۰ (۱۰۹۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۴ (۱۹۰۷)، مسند احمد (۳/۱۶۵، ۱۹۰، ۱۹۰، ۲۰۵، ۲۷۱)، سنن الدارمی/الأطعمة ۲۸ (۲۱۰۸)، النکاح ۲۲ (۲۲۵۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اہل حساب کی اصطلاح میں «نواۃ» پانچ درہم کے وزن کو کہتے ہیں۔ ۲؎: یہ بات آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی مالی حیثیت دیکھ کر کہی تھی کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ضرور ہو اس سے اس بات پر استدلال درست نہیں کہ ولیمہ میں گوشت ضروری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی الله عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور ہی پر اکتفا کیا تھا۔

کھجور کی گٹھلی برابر سونے کے عوض شادی کرانے کا بیان

حد یث نمبر - 3354

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ:‏‏‏‏ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيَّ بَشَاشَةُ الْعُرْسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ:‏‏‏‏ "كَمْ أَصْدَقْتَهَا ؟"قَالَ:‏‏‏‏ زِنَةَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اس وقت میرے چہرے سے شادی کی بشاشت و خوشی ظاہر تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا: اسے تم نے کتنا مہر دیا ہے؟ میں نے کہا «نواۃ»(کھجور کی گٹھلی) کے وزن برابر سونا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۳ (۱۴۲۷)، (تحفة الأشراف: ۹۷۱۶) (صحیح)

کھجور کی گٹھلی برابر سونے کے عوض شادی کرانے کا بیان

حد یث نمبر - 3355

أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ. ح وأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ حَجَّاجًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ عَلَى صَدَاقٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ حِبَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ عِدَةٍ قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَا كَانَ بَعْدَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لِمَنْ أُعْطَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحَقُّ مَا أُكْرِمَ عَلَيْهِ الرَّجُلُ ابْنَتُهُ أَوْ أُخْتُهُ"،‏‏‏‏ اللَّفْظُ لِعَبْدِ اللَّهِ.

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت سے نکاح مہر پر کیا گیا ہو یا (مہر کے علاوہ) اسے عطیہ دیا گیا ہو یا نکاح سے پہلے عورت کو کسی چیز کے دینے کا وعدہ کیا گیا ہو تو یہ سب چیزیں عورت کا حق ہوں گی (اور وہ پائے گی)۔ اور جو چیزیں نکاح منعقد ہو جانے کے بعد ہوں گی تو وہ جسے دے گا چیز اس کی ہو گی۔ اور آدمی اپنی بیٹی اور بہن کے سبب عزت و اکرام کا مستحق ہے"، (حدیث کے) الفاظ (راوی حدیث) عبداللہ بن محمد بن تمیم کے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۳۶ (۲۱۲۹)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۱ (۱۹۵۵)، (تحفة الأشراف: ۸۷۴۵)، مسند احمد (۲/۱۸۲) حسن) (البانی نے ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، حالاں کہ نسائی کی ایک سند میں ابن جریج کی ’’تحدیث‘‘ موجود ہے)

بغیر مہر کے نکاح کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3356

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَائِدَةَ بْنِ قُدَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَسْوَدِ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ أُتِيَ عَبْدُ اللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَتُوُفِّيَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ سَلُوا هَلْ تَجِدُونَ فِيهَا أَثَرًا،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ مَا نَجِدُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي أَثَرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَقُولُ بِرَأْيِي،‏‏‏‏ فَإِنْ كَانَ صَوَابًا، ‏‏‏‏‏‏فَمِنَ اللَّهِ:‏‏‏‏ لَهَا كَمَهْرِ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌمَنْ أَشْجَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فِي مِثْلِ هَذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا فِي امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ تَزَوَّجَتْ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏"فَقَضَى لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ صَدَاقِ نِسَائِهَا وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ"، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعَ عَبْدُ اللَّهِ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَبَّرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْأَسْوَدُ غَيْرَ زَائِدَةَ.

علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا گیا جس نے ایک عورت سے شادی تو کی لیکن اس کا مہر متعین نہ کیا اور اس سے خلوت سے پہلے مر گیا؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں سے پوچھو کہ کیا تم لوگوں کے سامنے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں) ایسا کوئی معاملہ پیش آیا ہے؟ لوگوں نے کہا: عبداللہ! ہم کوئی ایسی نظیر نہیں پاتے۔ تو انہوں نے کہا: میں اپنی عقل و رائے سے کہتا ہوں اگر درست ہو تو سمجھو کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔ اسے مہر مثل دیا جائے گا ۱؎، نہ کم اور نہ زیادہ، اسے میراث میں اس کا حق و حصہ دیا جائے گا اور اسے عدت بھی گزارنی ہو گی۔ (یہ سن کر)اشجع (قبیلے کا) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ہمارے یہاں کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا، اس عورت نے ایک شخص سے نکاح کیا، وہ شخص اس کے پاس (خلوت میں) جانے سے پہلے مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خاندان کی عورتوں کی مہر کے مطابق اس کی مہر کا فیصلہ کیا اور (بتایا کہ) اسے میراث بھی ملے گی اور عدت بھی گزارے گی۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے (اور خوش ہو کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کا فیصلہ صحیح ہوا) اور اللہ اکبر کہا (یعنی اللہ کی بڑائی بیان کی)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اسود کا ذکر زائدہ کے سوا کسی نے نہیں کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۳۲ (۲۱۱۴، ۲۱۱۵) مختصراً، سنن الترمذی/النکاح ۴۳ (۱۱۴۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۸ (۱۸۹۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۶۱)، مسند احمد (۳/۴۸۰، ۴/۲۸۰، ۴۷۹)، سنن الدارمی/النکاح ۴۷ (۲۲۹۲)، ویأتی عند المؤلف فیما بعد: ۳۳۵۷-۳۳۶۰ و فی الطلاق۵۷ (برقم۳۵۵۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے کنبے اور قبیلے کی عورتوں کا جو مہر ہوتا ہے اسی اعتبار سے اس کا مہر بھی مقرر کر کے دیا جائے گا۔

بغیر مہر کے نکاح کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3357

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أُتِيَ فِي امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَ عَنْهَا وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ قَرِيبًا مِنْ شَهْرٍ لَا يُفْتِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَرَى لَهَا صَدَاقَ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا شَطَطَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، ‏‏‏‏‏‏فَشَهِدَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الْأَشْجَعِيُّ،‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي بَرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ بِمِثْلِ مَا قَضَيْتَ".

علقمہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک ایسی عورت کا معاملہ پیش کیا گیا جس سے ایک شخص نے شادی کی اور اس سے خلوت سے پہلے مر گیا، اور اس کی مہر بھی متعین نہ کی تھی (تو اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہو گا؟) لوگ ان کے پاس اس مسئلہ کو پوچھنے کے لیے تقریباً مہینہ بھر سے آتے جاتے رہے، مگر وہ انہیں فتویٰ نہ دیتے۔ پھر ایک دن فرمایا: میری سمجھ میں آتا ہے کہ اس عورت کا مہر اسی کے گھر و خاندان کی عورتوں جیسا ہو گا، نہ کم ہو گا، اور نہ ہی زیادہ، اسے میراث بھی ملے گی اور اسے عدت میں بھی بیٹھنا ہو گا، (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں ایسا ہی فیصلہ دیا تھا جیسا آپ نے دیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انطر ماقبلہ (صحیح)

بغیر مہر کے نکاح کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3358

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فِرَاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَ وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَهَا الصَّدَاقُ،‏‏‏‏ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ،‏‏‏‏ وَلَهَا الْمِيرَاثُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مَعِقْلُ بْنُ سِنَانٍ:‏‏‏‏ فقد سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"قَضَى بِهِ فِي بَرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ،‏‏‏‏

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے ایک عورت سے شادی کی پھر مر گیا نہ اس سے خلوت کی تھی اور نہ ہی اس کا مہر مقرر کیا تھا۔ تو اس کے بارے میں انہوں نے فرمایا: اس عورت کا مہر (مہر مثل) ہو گا۔ اسے عدت گزارنی ہو گی اور اسے میراث ملے گی۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بروع بنت واشق کے معاملہ میں ایسا ہی فیصلہ کرتے سنا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۵۶ (صحیح)

بغیر مہر کے نکاح کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3359

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ مِثْلَهُ.

علقمہ نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۵۶ (صحیح)

بغیر مہر کے نکاح کے جواز کا بیان

حد یث نمبر - 3360

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَتَاهُ قَوْمٌ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّ رَجُلًا مِنَّا تَزَوَّجَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا وَلَمْ يَجْمَعْهَا إِلَيْهِ حَتَّى مَاتَ:‏‏‏‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَا سُئِلْتُ مُنْذُ فَارَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ هَذِهِ فَأْتُوا غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ فِيهَا شَهْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالُوا لَهُ فِي آخِرِ ذَلِكَ:‏‏‏‏ مَنْ نَسْأَلُ إِنْ لَمْ نَسْأَلْكَ وَأَنْتَ مِنْ جِلَّةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْبَلَدِ وَلَا نَجِدُ غَيْرَكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سَأَقُولُ فِيهَا بِجَهْدِ رَأْيِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كَانَ صَوَابًا، ‏‏‏‏‏‏فَمِنَ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّيْطَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْهُ بُرَآءُ، ‏‏‏‏‏‏"أُرَى أَنْ أَجْعَلَ لَهَا صَدَاقَ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَذَلِكَ بِسَمْعِ أُنَاسٍ مَنْ أَشْجَعَ فَقَامُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَضَيْتَ بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ مِنَّا يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا رُئِيَ عَبْدُ اللَّهِ فَرِحَ فَرْحَةً يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِإِسْلَامِهِ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا: ہم میں سے ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کی، نہ اس کا مہر مقرر کیا، نہ اس سے خلوت کی اور مر گیا (اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟)، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑا ہے (یعنی آپ کے انتقال کے بعد) اس سے زیادہ ٹیڑھا اور مشکل سوال مجھ سے نہیں کیا گیا ہے۔ تو تم لوگ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ (اور اس سے فتویٰ پوچھ لو)، لیکن وہ لوگ اس مسئلہ کے سلسلے میں مہینہ بھر ان کا پیچھا کرتے رہے بالآخر انہوں نے ان سے کہا: اگر آپ سے نہ پوچھیں تو پھر کس سے پوچھیں! آپ اس شہر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے اور جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں، آپ کے سوا ہم کسی اور کو نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا: (جب ایسی بات ہے) تو میں اپنی عقل و رائے سے اس بارے میں بتاتا ہوں، اگر میری بات درست ہو تو سمجھو یہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب سے ہے اور اگر غلط ہو تو سمجھو کہ وہ میری اور شیطان کی جانب سے ہے، اللہ اور اس کے رسول اس سے بری ہیں، میں اس کے لیے مہر مثل کا فتویٰ دیتا ہوں نہ کم اور نہ زیادہ، اسے میراث ملے گی اور وہ چار مہینہ دس دن کی عدت گزارے گی۔ یہ مسئلہ اشجع قبیلہ کے چند لوگوں نے سنا تو کھڑے ہو کر کہنے لگے: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ویسا ہی فیصلہ کیا ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری قوم کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا تھا۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (اپنا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے موافق ہو جانے کے باعث) اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے وقت کی خوشی کے سوا اس سے زیادہ خوش کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۵۶ (صحیح)

عورت کا اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے بغیر مہر کے ہبہ کر دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3361

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ:‏‏‏‏ زَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "هَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ"قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَجِدُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ"، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَمَسَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ"قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قَدْ زَوَّجْتُكَهَا عَلَى مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".

سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہنے لگی: اللہ کے رسول! میں نے اپنی ذات کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے (یہ کہہ کر) وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک شخص اٹھا اور آپ سے عرض کیا (اللہ کے رسول!) اگر آپ کو اسے رکھنے کی ضرورت نہ ہو تو آپ میری شادی اس سے کرا دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تیرے پاس (بطور مہر دینے کے لیے) کچھ ہے؟" اس نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں ہے، آپ نے فرمایا: "جاؤ ڈھونڈو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو (پاؤ تو اسے لے آؤ)، اس نے (جا کر) ڈھونڈا، اسے کچھ بھی نہ ملا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا تمہارے پاس قرآن کا بھی کچھ علم ہے؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، اس نے ان سورتوں کا نام لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(جاؤ) میں نے تمہارا نکاح اس عورت کے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے" (تم اسے قرآن پڑھا دو اور یاد کرا دو)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوکالة ۹ (۲۳۱۰)، النکاح ۴۰ (۵۱۳۵)، سنن ابی داود/النکاح ۳۱ (۲۱۱۱)، سنن الترمذی/النکاح ۲۳ (۱۱۱۴)، (تحفة الأشراف: ۴۷۴۲)، موطا امام مالک/النکاح ۳ (۸)، مسند احمد (۵/۳۳۶) (صحیح)

شرمگاہ کو کسی کے لیے حلال کر دینا :(درست نہیں ہے )۔

حد یث نمبر - 3362

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّجُلِ يَأْتِي جَارِيَةَ امْرَأَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ جَلَدْتُهُ مِائَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَحَلَّتْهَا لَهُ رَجَمْتُهُ".

نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے متعلق جس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا فرمایا: اگر اس کی بیوی نے لونڈی کو اس کے لیے حلال کیا تھا تو میں اسے (آدمی کو) سو کوڑے ماروں گا ۱؎، اور اگر اس (کی بیوی) نے حلال نہیں کیا تھا تو میں اسے سنگسار کر دوں گا ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۲۸ (۴۴۵۸)، سنن الترمذی/الحدود ۲۱ (۱۴۵۲)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۸ (۲۵۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۱۳)، مسند احمد (۴/۲۷۲، ۲۷۳، ۲۷۵، ۲۷۶، ۲۷۷)، سنن الدارمی/الحدود ۲۰ (۲۳۷۵) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ حبیب بن سالم‘‘ میں بہت کلام ہے، نیز خطابی کے بقول: نعمان رضی الله عنہ سے ان کا سماع نہیں ہے)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ بغیر جائز صورت کے کسی کے لیے کسی کی شرمگاہ حلال نہیں ہوتی، اس لیے بطور تأدیب اسے سو کوڑے لگیں گے۔ ۲؎: اس لیے کہ اس نے شادی شدہ ہوتے ہوئے جرم زنا کا ارتکاب کیا۔ اکثر اہل علم کا عمل اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی بیوی کی لونڈی سے اگر جماع کرے تو اس پر حد نہیں پڑے گی۔ ان کا خیال ہے کہ نعمان بن بشیر کو اس مسئلہ میں دھوکا ہو گیا ہے، واللہ اعلم۔

شرمگاہ کو کسی کے لیے حلال کر دینا :(درست نہیں ہے )۔

حد یث نمبر - 3363

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَبَّانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُنَيْنٍ وَيُنْبَزُ قُرْقُورًا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ وَقَعَ بِجَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرُفِعَ إِلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَكَ جَلَدْتُكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَحَلَّتْهَا لَكَ رَجَمْتُكَ بِالْحِجَارَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ فَجُلِدَ مِائَةً"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ فَكَتَبْتُ إِلَى حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَتَبَ إِلَيَّ بِهَذَا.

حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہوا جس کا نام عبدالرحمٰن بن حنین تھا اور لوگ اسے (برے لقب) «قرقور» ۱؎ کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت (زنا) کر بیٹھا، یہ معاملہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: میں اس معاملے میں ویسا ہی فیصلہ دوں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا تھا، اگر بیوی نے اپنی باندی کو تیرے لیے حلال کر دیا تھا تب تو (تعزیراً) تجھے کوڑے ماروں گا اور اگر اس نے اسے تیرے لیے حلال نہیں کیا تھا تو تجھے سنگسار کر دوں گا۔ (پوچھنے پر پتہ لگا کہ) بیوی نے وہ لونڈی اس کے لیے حلال کر دی تھی تو اسے سو کوڑے مارے گئے۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے حبیب بن سالم کو (خط) لکھا تو انہوں نے مجھے یہی حدیث لکھ کر بھیجی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (ضعیف)

وضاحت: ۱؎: «قرقور» لمبی کشتی کو کہتے ہیں۔

شرمگاہ کو کسی کے لیے حلال کر دینا :(درست نہیں ہے )۔

حد یث نمبر - 3364

أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَارِمٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي رَجُلٍ وَقَعَ بِجَارِيَةِ امْرَأَتِهِ:‏‏‏‏ "إِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ فَأَجْلِدْهُ مِائَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَحَلَّتْهَا لَهُ فَأَرْجُمْهُ".

حبیب بن سالم سے روایت ہے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تھا فرمایا: "اگر اس کی بیوی نے اسے اس کی اجازت دے دی تھی تو میں اسے سو کوڑے لگاؤں گا اور اگر اس نے اس کے لیے اسے حلال نہ کیا ہو گا تو میں اسے(یعنی شوہر کو) سنگسار کر دوں گا"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۶۲ (ضعیف)

شرمگاہ کو کسی کے لیے حلال کر دینا :(درست نہیں ہے )۔

حد یث نمبر - 3365

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ حُرَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجُلٍ وَطِئَ جَارِيَةَ امْرَأَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ كَانَ اسْتَكْرَهَهَا فَهِيَ حُرَّةٌ وَعَلَيْهِ لِسَيِّدَتِهَا مِثْلُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ فَهِيَ لَهُ وَعَلَيْهِ لِسَيِّدَتِهَا مِثْلُهَا".

سلمہ بن محبق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا فیصلہ جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تھا (اس طرح) فرمایا: اگر اس نے اس کے ساتھ زبردستی زنا کی ہے تو وہ لونڈی آزاد ہو جائے گی اور اس شخص کو اس لونڈی کی مالکہ کو اس جیسی لونڈی دینی ہو گی اور اگر (مرد نے زبردستی نہیں کی بلکہ)لونڈی کی رضا مندی سے یہ کام ہوا تو یہ لونڈی اس (مرد) کی ہو جائے گی اور اس مرد کو لونڈی کی مالکہ کو اس جیسی لونڈی دینی ہو گی۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۲۸ (۴۴۶۰)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۸ (۲۵۵۲) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۴۵۵۹)، مسند احمد (۳/۴۷۶ و۵/۶) (ضعیف)

شرمگاہ کو کسی کے لیے حلال کر دینا :(درست نہیں ہے )۔

حد یث نمبر - 3366

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ:‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ جَارِيَةً لِامْرَأَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنْ كَانَ اسْتَكْرَهَهَا فَهِيَ حُرَّةٌ مِنْ مَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَيْهِ الشَّرْوَى لِسَيِّدَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ فَهِيَ لِسَيِّدَتِهَا وَمِثْلُهَا مِنْ مَالِهِ".

سلمہ بن محبق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا، یہ قضیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے فرمایا: "اگر اس نے اس لونڈی کے ساتھ زنا بالجبر (زبردستی زنا) کیا ہے تو یہ لونڈی اس کے مال سے آزاد ہو گی اور اسے اس جیسی دوسری لونڈی اس کی مالکہ کو دینی ہو گی اور اگر لونڈی نے اس کام میں مرد کا ساتھ دیا ہے (اور اس کی خوشی و رضا مندی سے یہ کام ہوا ہے) تو یہ لونڈی اپنی مالکہ (یعنی بیوی) ہی کی رہے گی اور اس(شوہر) کے مال سے اس جیسی دوسری لونڈی (خرید کر) اس کی مالکہ کو ملے گی" (گویا یہ پرائی عورت سے جماع کرنے کا جرمانہ ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف)

متعہ کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3367

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِابني محمد، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِمَا:‏‏‏‏ أَنَّ عَلِيًّا بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا لَا يَرَى بِالْمُتْعَةِ بَأْسًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ تَائِهٌ إِنَّهُ"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏يَوْمَ خَيْبَرَ".

علی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کو اطلاع ملی کہ ایک شخص ۱؎ ہے جو متعہ میں کچھ حرج اور قباحت نہیں سمجھتا۔ علی رضی اللہ عنہ نے (اس سے) کہا تم گمراہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۳۸ (۴۲۱۶)، النکاح ۳۱ (۵۱۱۵)، الذبائح ۲۸ (۵۵۲۳)، الحیل ۴ (۶۹۶۱)، صحیح مسلم/النکاح ۳ (۱۴۰۷)، الصید والذبائح ۵ (۱۴۰۷)، سنن الترمذی/النکاح ۲۹ (۱۱۲۱)، الأطعمة ۶ (۱۷۹۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۴ (۱۹۶۱)، موطا امام مالک/النکاح ۱۸ (۴۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۶۳)، مسند احمد (۱/۷۹، ۱۴۲)، سنن الدارمی/النکاح ۱۶ (۲۰۳۳)، ویأتي عند المؤلف في الصید ۳۱ برقم: ۴۳۴۰ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ایک شخص سے مراد ابن عباس رضی الله عنہما ہیں، ممکن ہے متعہ سے متعلق ممانعت کی انہوں نے کوئی تأویل کی ہو یا اس ممانعت سے وہ باخبر نہ رہے ہوں کیونکہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب مغنی :(۷؍۵۷۲ ) میں لکھا ہے: بیان کیا جاتا ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔ :(واللہ اعلم )

متعہ کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3368

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَسَنِ ابني محمد بن علي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ".

علی ابن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے روک دیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۶۷ (صحیح)

متعہ کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3369

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنَ ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَخْبَرَاهُ،‏‏‏‏ أَنَّ أَبَاهُمَامُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُمَا،‏‏‏‏ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى:‏‏‏‏ يَوْمَ حُنَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ مِنْ كِتَابِهِ.

علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے سے روک دیا ہے، ابن المثنی کہتے ہیں: حنین کے دن منع کیا ہے اور کہتے ہیں: عبدالوہاب نے اپنی کتاب سے ایسا ہی مجھ سے بیان کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۶۷ (صحیح)

متعہ کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3370

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَذِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُتْعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ إِلَى امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَعَرَضْنَا عَلَيْهَا أَنْفُسَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا تُعْطِينِي ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ رِدَائِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ صَاحِبِي:‏‏‏‏ رِدَائِي، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رِدَاءُ صَاحِبِي أَجْوَدَ مِنْ رِدَائِي، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أَشَبَّ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نَظَرَتْ إِلَى رِدَاءِ صَاحِبِي أَعْجَبَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَظَرَتْ إِلَيَّ أَعْجَبْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَتْ:‏‏‏‏ أَنْتَ وَرِدَاؤُكَ يَكْفِينِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَكَثْتُ مَعَهَا ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْ هَذِهِ النِّسَاءِ اللَّاتِي يَتَمَتَّعُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهَا".

سبرہ جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کرنے کی اجازت دی تو میں اور ایک اور شخص (دونوں) بنی عامر قبیلے کی ایک عورت کے پاس گئے اور ہم اپنے آپ کو اس پر پیش کیا اس نے کہا: تم مجھے کیا دو گے؟ میں نے کہا: میں تم کو اپنی چادر دے دوں گا، میرے ساتھی نے بھی یہی کہا اور میرے ساتھی کی چادر میری چادر سے اچھی تھی، (لیکن) میں اس سے زیادہ جوان (تگڑا) تھا، وہ جب میرے ساتھی کی چادر دیکھتی تو وہ اسے بڑی اچھی لگتی (اس کی طرف لپکتی)اور جب مجھے دیکھتی تو میں اسے بہت پسند آتا تھا۔ پھر اس نے (مجھ سے) کہا: تم اور تمہاری چادر میرے لیے کافی ہے۔ تو میں اس کے ساتھ تین دن رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس متعہ والی عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے چھوڑ دے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۳ (۱۴۰۶)، سنن ابی داود/النکاح ۱۴ (۲۰۷۲) مختصراً، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۴ (۱۹۶۲) مطولا، (تحفة الأشراف: ۳۸۰۹)، مسند احمد (۳/۴۰۴، ۴۰۵)، سنن الدارمی/النکاح ۱۶ (۲۲۴۲) (صحیح)

دف بجا کر اور بلند آواز سے نکاح کا اعلان

حد یث نمبر - 3371

أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَلْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّوْتُ فِي النِّكَاحِ".

محمد بن حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے اور اس کا اعلان کیا جائے۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/النکاح ۶ (۱۰۸۸)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۰ (۱۸۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۲۱)، مسند احمد (۳/۴۱۸ و۴/۲۵۹) (حسن)

وضاحت: ۱؎: یعنی زنا چوری چھپے ہوتا ہے اور نکاح لوگوں کو بتا کر اور اعلان کر کے کیا جاتا ہے۔

دف بجا کر اور بلند آواز سے نکاح کا اعلان

حد یث نمبر - 3372

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَلْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ حَاطِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ فَصْلَ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الصَّوْتُ".

محمد بن حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حلال و حرام (نکاح) میں تمیز پیدا کرنے والی چیز آواز ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۷۱ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی نکاح لوگوں کو بتا کر اور اعلان کر کے کیا جاتا ہے اور حرام :(زنا ) چھپا کر اور چوری کے ساتھ کیا جاتا ہے تاکہ لوگ جان نہ پائیں۔

جب آدمی نکاح کر لے تو اسے کس طرح کی دعا دی جائے

حد یث نمبر - 3373

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَشْعَثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجَ عَقِيلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ امْرَأَةً مِنْ بَنِي جَثْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُولُوا كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارَكَ لَكُمْ".

حسن رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عقیل بن ابی طالب نے بنو جثم کی ایک عورت سے شادی کی تو انہیں «بالرفاء والبنين» میل ملاپ سے رہنے اور صاحب اولاد ہونے کی دعا دی گئی۔ تو انہوں نے کہا: جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) کہا ہے اسی طرح تم بھی کہو، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) «بارك اللہ فيكم وبارك لكم» "اللہ تعالیٰ تمہاری ہر چیز میں برکت دے اور تمہیں برکت والا کرے"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۳ (۱۹۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۱۴)، مسند احمد (۱/۲۰۱ و۳/۴۵۱)، سنن الدارمی/النکاح ۶ (۲۲۱۹) (صحیح)

شادی کے وقت غیر موجود شخص کی دعا کا بیان

حد یث نمبر - 3374

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَثَرَ صُفْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) کے کپڑے پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: کھجور کی گٹھلی کے وزن برابر سونا دے کر میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: «بارك اللہ لك» "اللہ تمہیں اس نکاح میں برکت دے" ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۵۶ (۵۱۵۵)، الدعوات ۵۳ (۶۳۸۶)، صحیح مسلم/النکاح ۱۳ (۱۴۲۷)، سنن الترمذی/النکاح ۱۰ (۱۰۹۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۴ (۱۹۰۷)، (تحفة الأشراف: ۲۸۸)، مسند احمد (۳/۲۲۶) (صحیح)

شادی میں زرد :(پیلے ) رنگ کے استعمال کی اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3375

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ جَاءَ وَعَلَيْهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَهْيَمْ ؟"قَالَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا أَصْدَقْتَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَوْلِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ بِشَاةٍ".

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور ان پر زعفران کے رنگ کا اثر تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے (یہ اسی کا اثر و نشان ہے)۔ آپ نے پوچھا؟ مہر کتنا دیا؟ کہا: کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر سونا، آپ نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۳۰ (۲۱۰۹)، (تحفة الأشراف: ۳۳۹) (صحیح)

شادی میں زرد :(پیلے ) رنگ کے استعمال کی اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 3376

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْوَزِيرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ عُفَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏كَأَنَّهُ يَعْنِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَهْيَمْ ؟"قَالَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَوْلِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ بِشَاةٍ".

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر زردی کا اثر دیکھا (مجھ سے مراد عبدالرحمٰن بن عوف ہیں) پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے (یہ اسی کا نشان ہے)، آپ نے فرمایا: "ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۷۹۸)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۳۹۰ (صحیح)

پہلی ملاقات میں بیوی کو خلوت کا تحفہ :(عطیہ ) دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3377

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجْتُ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ابْنِ بِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَعْطِهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا عِنْدِي مِنْ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ هِيَ عِنْدِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے ملنے کا موقع عنایت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: "اسے کچھ (تحفہ) دو"، میں نے کہا: میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، آپ نے فرمایا: "تیری حطمی زرہ کہاں ہے؟" میں نے کہا: یہ تو میرے پاس ہے، آپ نے فرمایا: "وہی اسے دے دو"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۱۹۹) (حسن صحیح)

پہلی ملاقات میں بیوی کو خلوت کا تحفہ :(عطیہ ) دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3378

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا تَزَوَّجَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَعْطِهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ ؟".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ "اسے(عطیہ) دو"، انہوں نے کہا: میرے پاس نہیں ہے، آپ نے فرمایا: "تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے (وہی دے دو)"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۳۶ (۲۱۲۵، ۲۱۲۶)، (تحفة الأشراف: ۶۰۰۰) (صحیح)

شوال کے مہینے میں رخصتی کا بیان

حد یث نمبر - 3379

أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں شادی کی اور شوال کے مہینے ہی میں میری رخصتی ہوئی،(لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ کو برا سمجھتے ہیں) لیکن میں پوچھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ کون بیوی آپ کو محبوب اور پسندیدہ تھی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۳۸ (صحیح)

نو برس کی عمر میں بچی کی رخصتی کا بیان

حد یث نمبر - 3380

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَدَخَلَ عَلَيَّ وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی اس وقت میں چھ برس کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو اس وقت میں نو برس کی ہو چکی تھی اور بچیوں (گڑیوں) کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۰ (۱۴۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۰۶۶) (صحیح)

نو برس کی عمر میں بچی کی رخصتی کا بیان

حد یث نمبر - 3381

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعْدِ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ سال کی عمر میں مجھ سے شادی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ان کی رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۷۷۵۱) (صحیح)

دوران سفر کی رخصتی کا بیان

حد یث نمبر - 3382

أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا الْغَدَاةَ بِغَلَسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَرَى بَيَاضَ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ:‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَالْخَمِيسُ وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً، ‏‏‏‏‏‏فَجَمَعَ السَّبْيَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ دِحْيَةُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ، ‏‏‏‏‏‏مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ادْعُوهُ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ بِهَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ:‏‏‏‏ يَا أَبَا حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏مَا أَصْدَقَهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَفْسَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْدَتْهَا إِلَيْهِ مِنَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحَ عَرُوسًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَبَسَطَ نِطَعًا، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالْأَقِطِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَاسُوا حَيْسَةً، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کرنے کے ارادے سے نکلے، ہم نے نماز فجر خیبر کے قریب اندھیرے ہی میں پڑھی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے تنگ راستے سے گزرنے لگے تو میرا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھونے اور ٹکرانے لگا، (اور یہ واقعہ میری نظروں میں اس طرح تازہ ہے گویا کہ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی (و چمک) دیکھ رہا ہوں، جب آپ بستی میں داخل ہوئے تو تین بار کہا: «اللہ أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين» "اللہ بہت بڑا ہے، خیبر کی بربادی آئی، جب ہم کسی قوم کی آبادی (و حدود) میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس پر ڈرائی گئی قوم کی بدبختی کی صبح نمودار ہو جاتی ہے ۱؎۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب ہم خیبر میں داخل ہوئے) لوگ اپنے کاموں پر جانے کے لیے نکل رہے تھے۔ (عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں:) لوگ کہنے لگے: محمد (آ گئے) ہیں (اور بعض کی روایت میں «الخمیس» ۲؎ کا لفظ آیا ہے) یعنی لشکر آ گیا ہے۔ (بہرحال) ہم نے خیبر طاقت کے زور پر فتح کر لیا، قیدی اکٹھا کئے گئے، دحیہ کلبی نے آ کر کہا: اللہ کے نبی! ایک قیدی لونڈی مجھے دے دیجئیے؟ آپ نے فرمایا: جاؤ ایک لونڈی لے لو، تو انہوں نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لے لیا۔ (ان کے لے لینے کے بعد) ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ نے دحیہ کو صفیہ بنت حیی کو دے دیا، وہ بنو قریظہ اور بنو نضیر گھرانے کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لیے موزوں و مناسب ہے۔ آپ نے فرمایا: "اسے (دحیہ کو) بلاؤ، اسے (صفیہ کو) لے کر آئیں"، جب وہ انہیں لے کر آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک نظر دیکھا تو فرمایا: "تم انہیں چھوڑ کر کوئی دوسری باندی لے لو"۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کر لی، ثابت نے ان سے (یعنی انس سے) پوچھا: اے ابوحمزہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کتنا مہر دیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور ان سے شادی کر لی (یہی آزادی ان کا مہر تھا)۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ راستے ہی میں تھے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صفیہ کو آراستہ و پیراستہ کر کے رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا دیا۔ آپ نے صبح ایک دولہے کی حیثیت سے کی اور فرمایا: "جس کے پاس جو کچھ (کھانے کی چیز) ہو وہ لے آئے"، چمڑا (دستر خوان) بچھا یا گیا۔ کوئی پنیر لایا، کوئی کھجور اور کوئی گھی لایا اور لوگوں نے سب کو ملا کر ایک کر دیا (اور سب نے مل کر کھایا) یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۲ ال صلاة ۱۲ (۳۱۷)، صحیح مسلم/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، الجہاد ۴۳ (۱۳۶۵) (مختصر)، سنن ابی داود/الخراج ۲۴ (۳۰۰۹)، (تحفة الأشراف: ۹۹۰)، مسند احمد (۳/۱۰۱، ۱۸۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: وہ اپنی پہلی حالت پر برقرار نہیں رہ سکتی وہاں اسلامی انقلاب آ کر رہے گا اور ہم محمد اور محمد کے شیدائی جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہو گا۔ ۲؎: چونکہ لشکر کے پانچ حصے مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب ہوتے ہیں اس لیے اسے «الخمیس» کہا جاتا ہے۔

دوران سفر کی رخصتی کا بیان

حد یث نمبر - 3383

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ بِطَرِيقِ خَيْبَرَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حِينَ عَرَّسَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ كَانَتْ فِيمَنْ ضُرِبَ عَلَيْهَا الْحِجَابُ".

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے ساتھ خیبر کے راستے میں تین دن گزارے، پھر ان کا شمار ان عورتوں میں ہو گیا جن پر پردہ فرض ہو گیا یعنی صفیہ آپ کی ازواج مطہرات میں ہو گئیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۳۸ (۴۲۱۲)، (تحفة الأشراف: ۷۹۶) (صحیح)

دوران سفر کی رخصتی کا بیان

حد یث نمبر - 3384

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ خَيْبَرَ وَالْمَدِينَةِ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏يَبْنِي بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَوْتُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى وَلِيمَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ خُبْزٍ وَلَا لَحْمٍ أَمَرَ بِالْأَنْطَاعِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَلْقَى عَلَيْهَا مِنَ التَّمْرِ وَالْأَقِطِ وَالسَّمْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتْ وَلِيمَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ:‏‏‏‏ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ ؟ فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنْ حَجَبَهَا فَهِيَ مِنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهِيَ مِمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّأَ لَهَا خَلْفَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَدَّ الْحِجَابَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ".

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اور مدینہ طیبہ کے درمیان صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا کے ساتھ تین (عروسی) دن گزارے، میں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیمے کے لیے بلایا، اس ولیمے میں روٹی گوشت نہیں تھا، آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اس (چمڑے کے)دستر خوان پر کھجوریں، پنیر اور گھی ڈالے گئے (اور انہیں ملا کر پیش کر دیا گیا) یہی آپ کا ولیمہ تھا۔ لوگوں نے کہا: صفیہ امہات المؤمنین میں سے ایک ہو گئیں یا ابھی آپ کی لونڈی ہی رہیں؟ پھر لوگ کہنے لگے: اگر آپ نے انہیں پردے میں رکھا تو سمجھو کہ یہ امہات المؤمنین میں سے ہیں اور اگر آپ نے انہیں پردے میں نہ بٹھایا تو سمجھو کہ یہ آپ کی باندی ہیں۔ پھر جب آپ نے کوچ فرمایا تو ان کے لیے کجاوے پر آپ کے پیچھے بچھونا بچھایا گیا اور ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیا گیا (کہ دوسرے لوگ انہیں نہ دیکھ سکیں)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۱۳ (۵۰۸۵)، ۶۰ (۱۵۵۹)، (تحفة الأشراف: ۵۷۷)، مسند احمد (۳/۲۶۴) (صحیح)

شادی کے موقع پر کھیل کود اور گانے بجانے کا بیان

حد یث نمبر - 3385

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "دَخَلْتُ عَلَى قُرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فِي عُرْسٍ وَإِذَا جَوَارٍ يُغَنِّينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنْتُمَا صَاحِبَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏يُفْعَلُ هَذَا عِنْدَكُمْ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اجْلِسْ إِنْ شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْمَعْ مَعَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ اذْهَبْ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ"رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ".

عامر بن سعد ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں ایک شادی میں قرظہ بن کعب اور ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا، اتفاق سے وہاں لڑکیاں گا رہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا: آپ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور بدری بھی ہیں، آپ کے سامنے یہ سب کیا جا رہا ہے (اور آپ لوگ روکتے نہیں ہیں)؟ انہوں نے (جواب میں) کہا: آپ چاہیں تو بیٹھیں جیسے ہم سن رہے ہیں آپ بھی سنیں اور چاہیں تو یہاں سے ڈول جائیں، شادی کے موقع پر ہمیں گانے بجانے کی اجازت دی گئی ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۹۹۳) (حسن)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ شادی خوشی کا موقع ہے اور گانا اگر حرام چیزوں سے خالی ہو تو منع نہیں ہے۔

بیٹی کو شوہر کے گھر بھیجنے کے لیے جہیز دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3386

أَخْبَرَنَا نَصِيرُ بْنُ الْفَرَجِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "جَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقِرْبَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ".

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں روئیں دار چادر، مشک، اذخر (گھاس) بھری ہوئی تکیہ دیا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۱ (۴۱۵۲) مطولا، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۰۴)، مسند احمد (۱/۷۹، ۸۴، ۹۳، ۱۰۴، ۱۰۶، ۱۰۸) (ضعیف الإسناد)

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ضعیف الاسناد ہے، اس لیے قابل عمل نہیں ہے۔

فرش اور بچھونے کا بیان

حد یث نمبر - 3387

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِرَاشٌ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ".

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک بچھونا مرد کے لیے ہو، ایک بیوی کے لیے ہو اور تیسرا مہمان کے لیے اور (اگر چوتھا ہو گا تو) چوتھا شیطان کے لیے ہو گا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۸ (۲۰۸۴)، سنن ابی داود/اللباس ۴۵ (۴۱۴۲)، (تحفة الأشراف: ۲۳۷۷)، (تحفة الأشراف: ۲۳۷۷)، مسند احمد (۳/۲۹۳، ۳۲۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: گویا ضرورت سے زائد بسترے رکھنا اسراف ہو گا۔

غالیچوں کا بیان

حد یث نمبر - 3388

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "هَلْ تَزَوَّجْتَ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلِ اتَّخَذْتُمْ أَنْمَاطًا ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ وَأَنَّى لَنَا أَنْمَاطٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا سَتَكُونُ".

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "کیا تم نے گدے و غالیچے بھی بنائے ہیں؟" میں نے کہا: ہمیں کہاں یہ گدے اور غالیچے میسر ہیں؟ آپ نے فرمایا: "عنقریب تمہارے پاس یہ ہوں گے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۵ (۳۶۳۱)، النکاح ۶۲ (۵۱۶۱)، صحیح مسلم/اللباس ۷ (۲۰۸۳)، سنن ابی داود/اللباس ۴۵ (۴۱۴۵)، (تحفة الأشراف: ۳۰۲۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأدب ۲۶ (۲۷۷۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی مسلمان مالدار ہو جائیں گے اور عیش و عشرت کی ساری چیزیں انہیں میسر ہوں گی۔

دولہا کو ہدیہ و تحفہ دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3389

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ وَهُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَذَهَبَتْ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَقُولُ لَكَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "ضَعْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ، ‏‏‏‏‏‏فَادْعُ فُلَانًا وَفُلَانًا"، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَقِيتَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمَّى رِجَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَقِيتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِأَنَسٍ:‏‏‏‏ عِدَّةُ كَمْ كَانُوا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَعْنِي زُهَاءَ ثَلَاثَ مِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِي:‏‏‏‏ يَا أَنَسُ، ‏‏‏‏‏‏ارْفَعْ، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ رَفَعْتُ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ وَضَعْتُ".

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی بیوی کے پاس گئے اور میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حیس بنایا، میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ سے عرض کیا: میری والدہ ماجدہ آپ کو سلام پیش کرتی ہیں اور کہتی ہیں: یہ ہماری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا تحفہ ہے، آپ نے فرمایا: "اسے رکھ دو اور جاؤ فلاں فلاں کو بلا لاؤ، آپ نے ان کے نام لیے اور (راستے میں) جو بھی ملے اسے بھی بلا لو"۔ راوی جعد کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: وہ لوگ کتنے رہے ہوں گے؟ کہا: تقریباً تین سو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دس آدمیوں کا حلقہ (دائرہ) بنا کر کھاؤ، اور ہر شخص اپنے قریب (یعنی سامنے) سے کھائے"، تو ان لوگوں نے (ایسے ہی کر کے) کھایا اور سب آسودہ ہو گئے، (دس آدمیوں کی) ایک جماعت کھا کر نکلی تو (دس آدمیوں کی) دوسری جماعت آئی (اور اس نے کھایا اور وہ آسودہ ہوئی، اس طرح لوگ آتے گئے اور پیٹ بھر کر کھاتے اور نکلتے گئے، جب سب کھا چکے تو) مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انس! اٹھا لو (وہ کھانا جو لائے تھے) تو میں نے اٹھا لیا۔ مگر میں کہہ نہیں سکتا کہ جب میں نے لا کر رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب اٹھایا تب (زیادہ تھا)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۶۴ (۵۱۶۳) تعلیقًامطولا، صحیح مسلم/النکاح ۱۵ (۱۴۲۸)، سنن الترمذی/تفسیرسورة الأحزاب ۳۴ (۳۲۱۸)، (تحفة الأشراف: ۵۱۳)، مسند احمد (۳/۱۶۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: "حیس" یعنی مالیدہ، حیس گھی، پنیر اور کھجور سے بنایا جاتا ہے۔

دولہا کو ہدیہ و تحفہ دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3390

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْوَزِيرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ عُفَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ "آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ وَالْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَآخَى بَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ:‏‏‏‏ إِنَّ لِي مَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ شَطْرَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَلِي امْرَأَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْظُرْ أَيُّهُمَا أَحَبُّ إِلَيْكَ فَأَنَا أُطَلِّقُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا حَلَّتْ فَتَزَوَّجْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، ‏‏‏‏‏‏دُلُّونِي أَيْ عَلَى السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْجِعْ حَتَّى رَجَعَ بِسَمْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقِطٍ قَدْ أَفْضَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ أَثَرَ صُفْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَهْيَمْ ؟"فَقُلْتُ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَوْلِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ بِشَاةٍ".

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور انصار کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کر دیا، تو سعد بن ربیع اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ سعد (انصاری) رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میرے پاس مال ہے اس کا آدھا تمہارا ہے اور آدھا میرا اور میری دو بیویاں ہیں تو دیکھو ان میں سے جو تمہیں زیادہ اچھی لگے اسے میں طلاق دے دیتا ہوں، جب وہ عدت گزار کر پاک و صاف ہو جائے تو تم اس سے شادی کر لو۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: اللہ تمہاری بیویوں اور تمہارے مال میں تمہیں برکت عطا کرے۔ مجھے تو تم بازار کی راہ دکھا دو، (پھر وہ بازار گئے) اور گھی اور پنیر نفع میں کما کر لائے بغیر نہ لوٹے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر زردی کا نشان دیکھا تو کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے ایک انصاری لڑکی سے شادی کی ہے تو آپ نے فرمایا: "ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا سہی"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۷۶ (صحیح)