مشکوٰة شر یف

نکاح کا بیان

نکاح کا بیان

٭٭ نکاح کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا لیکن اس لفظ کا اطلاق مجامعت کرنے اور عقد کے معنی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ مجامعت اور عقد دونوں ہی میں جمع ہونا اور ملنا پایا جاتا ہے لہذا اصول فقہ میں نکاح کے یہی معنی یعنی جمع ہونا بمعنی مجامعت کرنا مراد لینا چاہئے بشرطیکہ ایسا کوئی قرینہ نہ ہو جو اس معنی کے خلاف دلالت کرتا ہو۔

علماء فقہ کی اصطلاح میں نکاح اس خاص عقد و معاہدہ کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان ہوتا ہے اور جس سے دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے

 

نکاح کی اہمیت

نکاح یعنی شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، ایک شخصی ضرورت، ایک طبعی خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ انسانی کے وجود و بقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل بھی ہے۔ نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ و سلم) تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری ہے جو نکاح سے خالی رہی ہو اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی عبادت نہیں ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک مشروع ہو اور جنت میں بھی باقی رہے سوائے نکاح اور ایمان کے چنانچہ ہر شریعت میں مرد و عورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت مشروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدہ کے مرد و عورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت و مذہب نے جائز قرار نہیں دیا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں جو احکام نافذ کئے ہیں اور جو قواعد و ضوابط وضع کئے ہیں اس باب سے ان کی ابتداء ہو رہی ہے۔

 

نکاح کے فوائد و آفات

نکاح کا جہاں سب سے بڑا عمومی فائدہ نسل انسانی کا بقاء اور باہم توالد و تناسل کا جاری رہنا ہے وہیں اس میں کچھ مخصوص فائدے اور بھی ہیں جن کو پانچ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔

-1 نکاح کر لینے سے ہیجان کم ہو جاتا ہے یہ جنسی ہیجان انسان کی اخلاقی زندگی کا ایک ہلاکت خیز مرحلہ ہوتا ہے جو اپنے سکون کی خاطر مذہب و اخلاق ہی کی نہیں شرافت و انسانیت کی بھی ساری پابندیاں توڑ ڈالنے سے گریز نہیں کرتا، مگر جب اس کو جائز ذرائع سے سکون مل جاتا ہے تو پھر یہ پابند اعتدال ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جائز ذریعہ صرف نکاح ہی ہو سکتا ہے۔

-2 نکاح کرنے سے اپنا گھر بستا ہے خانہ داری کا آرام ملتا ہے گھریلو زندگی میں سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور گھریلو زندگی کے اس اطمینان و سکون کے ذریعہ حیات انسانی کو فکر و عمل کے ہر موڑ پر سہارا ملتا ہے۔

-3 نکاح کے ذریعہ سے کنبہ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو مضبوط و زبردست محسوس کرتا ہے اور معاشرہ میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے اپنا رعب داب قائم رکھتا ہے۔

-4 نکاح کرنے سے نفس مجاہدہ کا عادی ہوتا ہے کیونکہ گھر بار اور اہل و عیال کی خبر گیری و نگہداشت اور ان کی پرورش و پرداخت کے سلسلہ میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے اس مسلسل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بے عملی اور لا پرواہی کی زندگی سے دور رہتا ہے جو اس کے لئے دنیاوی طور پر بھی نفع بخش ہے اور اس کی وجہ سے وہ دینی زندگی یعنی عبادات و طاعات میں بھی چاق و چوبند رہتا ہے۔

-5 نکاح ہی کے ذریعہ صالح و نیک بخت اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کی زندگی کا سب سے گراں مایہ سرمایہ اس کی صالح اور نیک اولاد ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا میں سکون و اطمینان اور عزت و نیک نامی کی دولت حاصل کرتا ہے بلکہ اخروی طور پر بھی فلاح و سعادت کا حصہ دار بنتا ہے۔

یہ تو نکاح کے فائدے تھے لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو نکاح کی وجہ سے بعض لوگوں کے لیے نقصان و تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور جنہیں نکاح کی آفات کہا جاتا ہے چنانچہ ان کو بھی چھ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔

-1 طلب حلال سے عاجز ہونا یعنی نکاح کرنے کی وجہ سے چونکہ گھر بار کی ضروریات لاحق ہو جاتی ہیں اور طرح طرح کے فکر دامن گیر رہتے ہیں اس لئے عام طور پر طلب حلال میں وہ ذوق باقی نہیں رہتا جو ایک مجرد و تنہا زندگی میں رہتا ہے۔

-2 حرام امور میں زیادتی ہونا۔ یعنی جب بیوی کے آ جانے اور بال بچوں کے ہو جانے کی وجہ سے ضروریات زندگی بڑھ جاتی ہیں تو بسا اوقات اپنی زندگی کا وجود معیار برقرار رکھنے کے لئے حرام امور کے ارتکاب تک سے گریز نہیں کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ذہن و عمل سے حلال و حرام کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے اور بلا جھجک حرام چیزوں کو اختیار کر لیا جاتا ہے۔

-3 عورتوں کے حقوق کی ادائے گی میں کوتاہی ہونا۔ اسلام نے عورتوں کو جو بلند و بالا حقوق عطا کئے ہیں ان میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک اور حسن معاشرت کا ایک خاص درجہ ہے لیکن ایسے بہت کم لوگ ہیں جو بیوی کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوں بلکہ بدقسمتی سے چونکہ بیوی کو زیردست سمجھ لیا جاتا ہے اس لئے عورتوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ برے سلوک و برتاؤ بھی ایک ذاتی معاملہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حالانکہ یہ چیز ایک انسانی اور معاشرتی بد اخلاقی ہی نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر بھی بڑے گناہ کی حامل ہے اور اس سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔

-4 عورتوں کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنا عام طور پر شوہر چونکہ اپنے آپ کو بیوی سے برتر سمجھتا ہے اس لئے اگر بیوی کی طرف سے ذرا سی بھی بد مزاجی ہوئی تو ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے فوراً چھوٹ جاتا ہے۔

-5 عورت کی ذات سے تکلیف اٹھانا بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی بد مزاجی و  بد اخلاقی کی وجہ سے اپنے شوہروں کے لئے تکلیف و پریشانی کا ایک مستقل سبب بن جاتی ہیں اس کی وجہ سے گھریلو ماحول غیر خوشگوار اور زندگی غیر مطمئن و اضطراب انگیز بن جاتی ہے۔

-6 بیوی بچوں کی وجہ سے حقوق اللہ کی ادائے گی سے باز رہنا یعنی ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گھریلو زندگی کے استحکام اور بیوی بچوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی دینی زندگی کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوں جب کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بیوی بچوں اور گھر بار کے ہنگاموں اور مصروفیتوں میں پڑ کر دینی زندگی مضمحل و بے عمل ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو عبادات وطاعات کا خیال رہتا ہے نہ حقوق اللہ کی ادائے گی پورے طور پر ہو پاتی ہے۔

نکاح کے ان فوائد و آفات کو سامنے رکھ کر اب یہ سمجھئے کہ اگر یہ دونوں مقابل ہوں یعنی فوائد و آفات برابر، برابر ہوں، تو جس چیز سے دین کی باتوں میں زیادتی ہوتی ہو اسے ترجیح دی جائے مثلاً ایک طرف تو نکاح کا یہ فائدہ ہو کہ اس کی وجہ سے جنسی ہیجان کم ہوتا ہے اور دوسری طرف نکاح کرنے سے یہ دینی نقصان سامنے ہو کہ عورت کی بد مزاجی پر صبر نہیں ہو سکے گا تو اس صورت میں نکاح کرنے ہی کو ترجیح دی جائے کیونکہ اگر نکاح نہیں کرے گا تو زنا میں مبتلا ہو جائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ چیز عورت کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنے سے کہیں زیادہ دینی نقصان کا باعث ہے۔

 

نکاح کے احکام

-1 حنفی مسلک کے مطابق نکاح کرنا اس صورت میں فرض ہوتا ہے جب کہ جنسی ہیجان اس درجہ غالب ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہو جانے کا یقین ہو اور بیوی کے مہر پر اور اس کے نفقہ پر قدرت حاصل نہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بجائے اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ ہو گا۔

-2 نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہو جاتا ہے جب کہ جنسی ہیجان کا غلبہ ہو مگر اس درجہ کا غلبہ نہ ہو کہ زنا میں مبتلا ہو جانے کا یقین ہو، نیز مہر و نفقہ کی ادائے گی کی قدرت رکھتا ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کا خوف نہ ہو۔ اگر کسی شخص پر جنسی ہیجان کا غلبہ تو ہو مگر وہ مہر اور بیوی کے اخراجات کی ادائے گی پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ نکاح نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہو گا جب کہ مہر اور نفقہ پر قادر شخص جنسی ہیجان کی صورت میں نکاح نہ کرنے سے گناہ گار ہوتا ہے۔

-3 اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے اعتدال کی حالت سے مراد یہ ہے کہ جنسی ہیجان کا غلبہ تو نہ ہو لیکن بیوی کے ساتھ مباشرت و مجامعت کی قدرت رکھتا ہو اور مہر و نفقہ کی ادائے گی پر بھی قادر ہو۔ لہذا اس صورت میں نکاح نہ کرنے والا گنہگار ہوتا ہے جب کہ زنا سے بچنے اور افزائش نسل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنے والا اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔

-4 نکاح کرنا اس صورت میں مکروہ ہے جب کہ بیوی پر ظلم کرنے کا خوف ہو یعنی اگر کسی شخص کو اس بات کا خوف ہو کہ میرا مزاج چونکہ بہت برا اور سخت ہے اس لئے میں بیوی پر ظلم و زیادتی کروں گا تو ایسی صورت میں نکاح کرنا مکروہ ہے

-5 نکاح کرنا اس صورت میں حرام ہے جبکہ بیوی پر ظلم کرنے کا یقین ہو یعنی اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ میں اپنے مزاج کی سختی و تندی کی وجہ سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک قطعاً نہیں کر سکتا بلکہ اس پر میری طرف سے ظلم ہونا بالکل یقینی چیز ہے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا اس کے لئے حرام ہو گا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت نے نکاح کے بارے میں مختلف حالات کی رعایت رکھی ہے بعض صورتوں میں تو نکاح کرنا فرض ہو جاتا ہے بعض میں واجب اور بعض میں سنت مؤکدہ ہوتا ہے جب کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا مکروہ بھی ہوتا ہے اور بعض میں تو حرام ہو جاتا ہے لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اسی صورت کے مطابق عمل کرے جو اس کی حالت کے مطابق ہو۔

 

نکاح کے مستحبات

جب کوئی شخص نکاح کرنا چاہے خواہ مرد ہو یا عورت تو چاہئے کہ نکاح کا پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے کے حالات کی اور عادات و اطوار کی خوب اچھی طرح جستجو کر لی جائے تا کہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جو طبیعت و مزاج کے خلاف ہونے کی وجہ سے زوجین کے درمیان ناچاقی و کشیدگی کا باعث بن جائے۔

یہ مستحب ہے کہ عمر، عزت، حسب اور مال میں بیوی خاوند سے کم ہو اور اخلاق و عادات خوش سلیقی و آداب حسن و جمال اور تقویٰ میں خاوند سے زیادہ ہو اور مرد کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ وہ جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لے بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میں اگر اس کو پیغام دوں گا تو منظور ہو جائے گا۔

مستحب ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے گا اور نکاح کی مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کی جائے جس میں دونوں طرف سے اعزہ و احباب نیز بعض علماء و صلحا بھی شریک۔ اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ نکاح پڑھانے والا نیک بخت و صالح ہو اور گواہ عادل و پرہیزگار ہوں۔

 

ایجاب و قبول اور ان کے صحیح ہونے کی شرائط

نکاح ایجاب و قبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور ایجاب و قبول دونوں ماضی کے لفظ کے ساتھ ہونے چاہئیں (یعنی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ نکاح ہو چکا ہے) جیسے عورت یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں دیا، یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں عورت کا جس کا نام یہ ہے، تمہارے ساتھ نکاح کیا اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے منظور کیا یا ایجاب میں سے کوئی ایک ماضی کے لفظ کے ساتھ ہو جیسے عورت یہ کہے کہ مجھ سے نکاح کر لو یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ فلاں عورت سے جس کا نام یہ ہے نکاح کر لو اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے نکاح کر لیا۔ یا اس کا برعکس ہو، جیسے مرد یہ کہے کہ میں نے تمہارے ساتھ اپنا نکاح کر لیا اور اس کے جواب میں عورت یہ کہے کہ میں منظور کرتی ہوں اور اگر مرد، عورت سے یوں کہے کہ کیا تم نے اپنے آپ کو میری زوجیت میں دیا؟ یا کہے کہ کیا تم نے مجھے قبول کیا اور اس کے جواب میں عورت (ہاں میں نے دیا یا ہاں میں نے قبول کیا کہنے کی بجائے) صرف یہ کہے کہ ہاں دیا۔ یا ہاں قبول کیا (یعنی لفظ میں نہ کہے) تو اس صورت میں بھی نکاح ہو جاتا ہے۔ البتہ گواہوں کے سامنے صرف یہ کہنے سے کہ ہم بیوی خاوند ہیں، نکاح نہیں ہوتا۔

جس طرح ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ استعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ایجاب و قبول میں خاص کر نکاح اور تزویج کا لفظ استعمال کیا جائے مثلاً یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تمہارے ساتھ تزویج کیا۔ یا نکاح و تزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے مثلاً یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تمہارے ساتھ تزویج کیا یا نکاح و تزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے جو نکاح کا مطلب صراحۃً ادا کرتا ہو جیسے مرد یوں کہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیوی بنا لیا یا یوں کہے کہ میں تمہارا شوہر ہو گیا یا یوں کہے کہ تم میری ہو گئیں۔ اور نکاح و تزویج یا اس کا ہم معنی لفظ صراحۃً استعمال نہ کیا جائے بلکہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے کنیۃً نکاح کا مفہوم سمجھا جاتا ہو تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ لفظ ایسا ہو جس کے ذریعہ سے کسی ذات کامل کی ملکیت فی الحال حاصل کی جاتی ہو جیسے ہبہ کا لفظ یا صدقہ کا لفظ یا تملیک کا لفظ یا بیع و شراء کا لفظ جیسے بیوی یوں کہے کہ میں نے اپنی زوجیت تمہیں ہبہ کر دی، یا میں نے اپنی ذات تمہیں بطور صدقہ دے دی یا میں نے تمہیں اپنی ذات کا مالک بنا دیا یا یوں کہے کہ میں نے تمہیں اس قدر روپیہ کے عوض خرید لیا اور ان سب کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے قبول کیا، لیکن اس کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ متکلم نے اس لفظ سے نکاح مراد لیا ہو اور کوئی قرینہ اس پر دلالت کرتا ہو اور اگر کوئی قرینہ نہ ہو تو قبول کرنے والے نے متکلم کی مراد کی تصدیق کر دی ہو نیز گواہوں نے بھی سمجھ لیا ہو کہ اس لفظ سے مراد نکاح ہے خواہ انہوں نے کسی قرینہ سے سمجھا ہو یا بتا دینے سے سمجھا ہو۔

ایجاب و قبول کے وقت عاقدین(دولہا دولہن) میں سے ہر ایک کے لئے دو سرے کا کلام سننا ضروری ہے خواہ وہ بالاصالۃ(یعنی خود) سنیں خواہ بالوکالۃ(یعنی ان کے وکیل سنیں) اور خواہ بالولایۃ سنیں (یعنی ان کا ولی سنے)

ایجاب و قبول کے وقت دو گواہوں کی موجودگی نکاح صحیح ہونے کی شرط ہے اور یہ گواہ خواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہو، گواہوں کا آزاد ہونا ضروری ہے لونڈی یا غلام گواہوں کی گواہی معتبر نہیں ہو گی، اسی طرح گواہوں کا عاقل اور مسلمان ہونا بھی ضروری ہے مسلمانوں کی گواہی ہر حال میں کافی ہو گی خواہ وہ پرہیزگار ہوں یا فاسق ہوں اور خواہ ان پر حد قذف لگائی جا چکی ہو۔ گواہوں کا بینا ہونا یا زوجین کا رشتہ دار نہ ہونا شرط نہیں ہے، چنانچہ اندھو کی گواہی اور زوجین کے رشتہ داروں کی گواہی معتبر ہو گی خواہ وہ زوجین کے یا ان میں سے کسی ایک کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایجاب و قبول کے الفاظ کو ایک ساتھ سنیں اور سن کر یہ سمجھ لیں کہ نکاح ہو رہا ہے گو ان الفاظ کے معنی نہ سمجھیں (مثلاً ایجاب و قبول کسی ایسی زبان میں ہو جسے وہ نہ جانتے ہوں) اگر دونوں گواہ ایجاب و قبول کے الفاظ ایک ساتھ نہ سنیں بلکہ الگ الگ سنیں تو نکاح صحیح نہیں ہو گا۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میری فلانا بالغ لڑکی کا نکاح فلاں شخص کے ساتھ کر دو اور اس شخص نے اس لڑکی کا نکاح اس باپ اور ایک دوسرے مرد کی موجودگی میں کیا تو یہ جائز ہو گا لیکن اگر باپ موجودہ ہو تو پھر دونوں مردوں یا ایک مرد اور عورتوں کی موجودگی کے بغیر نکاح درست نہیں ہو گا۔

جوانوں کو نکاح کرنے کا حکم

حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص مجامعت کے لوازمات (یعنی بیوی بچوں کا نفقہ اور مہر ادا کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ نکاح کر لے کیونکہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے (یعنی نکاح کر لینے سے اجنبی عورت کی طرف نظر مائل نہیں ہوتی اور انسان حرام کاری سے بچتا ہے) اور جو شخص جماع کے لوازمات کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ رکھنا اس کے لئے خصی کرنے کا فائدہ دے گا (یعنی جس طرح خصی ہو جانے سے جنسی ہیجان ختم ہو جاتا ہے اسی طرح روزہ رکھنے سے بھی جنسی ہیجان ختم ہو جاتا ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس خطاب عام کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جوانوں کو نکاح کی ترغیب دلاتے ہوئے نکاح کے دو بڑے فائدے ظاہر فرمائے ہیں ایک تو یہ کہ انسان نکاح کرنے سے اجنبی عورتوں کی طرف نظر بازی سے بچتا ہے اور دوسری طرف حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے۔

 

 

جوانی کی حد

انسان بالغ ہونے کے بعد جوان کہلاتا ہے لیکن جوانی کی یہ حد کہاں تک ہے؟ اس میں اختلاف ہے چنانچہ امام شافعی کے نزدیک جوانی کی حد تیس برس کی عمر تک ہے جبکہ امام اعظم ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک انسان چالیس برس کی عمر تک جوان کہلانے کا مستحق رہتا ہے۔

تبتل کی ممانعت

اور حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان بن مظعون کو تبتل (یعنی نکاح ترک کرنے) سے منع کر دیا تھا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کو تبتل کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی خصی ہو جاتے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 تبتل کے معنی ہیں عورتوں سے انقطاع اور ترک نکاح، نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین) کے ہاں تبتل ایک اچھا اور پسندیدہ فعل ہے کیونکہ ان کے نزدیک دینداری کی آخری حد یہ ہے کہ انسان عورتوں سے اجتناب کرے اور نکاح وغیرہ سے پرہیز کرے۔ لیکن جس طرح عیسائیت یا بعض دوسرے مذاہب میں نکاح کو ترک کر دینا اور لذائذ زندگی سے کنارہ کش ہو جانا عبادت اور نیکی وتقویٰ کی آخری حد سمجھا جاتا ہے اس طرح کی کوئی بات اسلام میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ نے نکاح کو انسانی زندگی کے لئے ایک ضرورت قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ لذائذ زندگی سے مکمل کنارہ کشی اور خود ساختہ تکالیف برداشت کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ رہبانیت ہے جسے اس دین فطرت میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ ہاں امام شافعی اتنا ضرور کہتے ہیں کہ بغیر نکاح زندگی گزارنا افضل ہے لیکن امام شافعی کا یہ قول بھی نکاح کے بارے میں شریعت اسلامیہ کے بنیادی منشاء کے منافی نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا تعلق صرف افضلیت سے ہے اور دوسرے یہ کہ یہ افضلیت بھی نفس نکاح یعنی کرنے یا نہ کرنے) کے بارے میں نہیں ہے بلکہ صرف تخلی للعبادۃ (یعنی عبادت کے لئے مجرد رہنا) کے نکتہ نظر سے ہے گویا امام شافعی کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ عبادات میں مشغول رہنا نکاح کی مشغولیت سے افضل ہے۔ چنانچہ ملا علی قاری نے مرقات میں امام شافعی کی دلیلیں نقل کرنے کے بعد امام اعظم ابو حنیفہ کی بہت سی دلیلیں نقل کی ہیں جن سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ تجرد بغیر نکاح رہنے کے مقابلہ میں تاہل نکاح کرنا ہی افضل ہے۔

بہرکیف حضرت عثمان بن مظعون نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے تبتل کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اسلام مسلمانوں کے ہاں نکاح کے ذریعہ افزائش نسل کو پسند کرتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ خدا کے حقیقی نام لیوا موجود رہیں اور وہ ہمیشہ کفر و باطل کے خلاف جہاد کرتے رہیں۔ اسی سلسلہ میں حدیث کے راوی حضرت سعد بن ابی وقاص نے یہ کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دے دیتے تو ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے تا کہ ہمیں عورتوں کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہمیں عورتوں سے متعلق کسی برائی میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا۔

طیبی کہتے ہیں کہ اس موقع کے مناسب تو یہ تھا کہ حضرت سعد یہ کہتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی تبتل کرتے۔ مگر حضرت سعد نے یہ کہنے کی بجائے یہ کہا کہ ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے لہذا حضرت سعد نے یہ بات دراصل بطور مبالغہ کہی یعنی اپنی اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عثمان کو اجازت دے دیتے تو ہم بھی تبتل میں اتنا مبالغہ اور اتنی سخت کوشش کرتے کہ آخر کار خصی کی مانند ہو جاتے۔ گویا اس جملہ سے حضرت سعد کی مراد حقیقۃً خصی ہو جانا نہیں تھا کیونکہ یہ فعل یعنی اپنے آپ کو خصی کر ڈالنا جائز نہیں ہے۔

اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ بات اس وجہ سے کی کہ ان کا گمان یہ تھا کہ خصی ہو جانا جائز ہے حالانکہ انکا یہ گمان حقیقت و واقعہ کے خلاف تھا کیونکہ خصی ہو جانا انسان کے لئے حرام ہے خواہ چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا اس موقع پر جانوروں کے بارے میں جان لینا چاہئے کہ ہر اس جانور کو خصی کرنا حرام جو غیر ماکول یعنی کھایا نہ جاتا ہو اور جو جانور کھایا جاتا ہے اس کو خصی کرنا چھوٹی عمر میں تو جائز ہے لیکن بڑی عمر میں حرام ہے۔ جانوروں کو خصی کرنے کے بارے میں مذکورہ بالا تفصل علامہ نووی شافعی نے لکھی ہے جب کہ فقہ حنفی کی کتابوں اور مختار اور ہدایہ میں بڑی عمر اور چھوٹی عمر کی تفصیل کے بغیر صرف یہ لکھا ہے کہ جانوروں کو خصی کرنا جائز ہے۔

دیندار عورت سے نکاح کرنا بہتر ہے

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اول اس کا مالدار ہونا دوم اس کا حسب نسب والی ہونا سوم اس کا حسین و جمیل ہونا اور چہارم اس کا دین دار ہونا لہذا دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ(بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حسب و نسب والی سے مراد وہ عورت ہے جو نہ صرف اپنی ذات میں شرف و بلندی اور وجاہت رکھتی ہو بلکہ وہ جس خاندان و قبیلہ کی فرد ہو وہ خاندان و قبیلہ بھی عزت و وجاہت اور شرف و بلندی کا حامل ہو چنانچہ انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسی عورت سے بیاہ کرے جو با حیثیت و با عزت خاندان و قبیلہ کی فرد ہو تا کہ اس عورت کی وجہ سے اپنی اولاد کے نسب میں شرف و بلندی کا امتیاز حاصل ہو۔

بہرکیف حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ عورت سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں مذکورہ چار چیزوں کو بطور خاص ملحوظ رکھتے ہیں کہ کوئی شخص تو مالدار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ بعض لوگ اچھے حسب و نسب کی عورت کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت ان کی رفیقہ حیات بنے اور کچھ نیک بندے دین دار عورت کو ترجیح دیتے ہیں لہذا دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دین دار عورت ہی کو اپنے نکاح کے لئے پسند کرے کیونکہ اس میں دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی سعادت ہے۔

اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت و خواری اور ہلاکت کی بددعا کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں اس جملہ سے یہ بددعا مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔

قریش کی نیک بخت عورتوں کی فضیلت

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اونٹوں پر سوار ہونے والی بہترین عورتیں قریش کی ہیں جو چھوٹے بچوں پر بہت شفیق ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کے اس مال کی جو ان کے قبضہ میں ہوتا ہے بہت زیادہ حفاظت کرتی ہیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں سے مراد عرب کی عورتیں کیونکہ عرب کی عورتیں عام طور پر اونٹ کی سواری کی عادی ہوتی تھیں لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ عرب کی عورتوں میں بہترین عورتیں قریش کی نیک بخت عورتیں ہیں۔

عورتوں کا فتنہ زیادہ نقصان دہ ہے

٦) اور حضرت حضرت اسامہ ابن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے جو مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنہ سے زیادہ ضرر رساں ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنے کو سب سے زیادہ ضرر رساں اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اول تو مردوں کی طبائع عام طور پر عورتوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں دوسرے یہ کہ مرد عام طور پر عورتوں کی خواہشات کے زیادہ پابند ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حرام امور میں گرفتار ہوتے ہیں اور عورتوں ہی کی وجہ سے آپس کے لڑائی جھگڑے نفرت و عداوت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس کی ادنی مثال یہ ہے کہ عورتیں ہی ہیں جن کی بے جا ناز برداریاں مردوں کو دنیا داری کی طرف راغب کرتی ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ دنیاداری سے زیادہ اور کون سی چیز ضرر رساں ہو سکتی ہے کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں فرمایا کہ

حب الدنیا رأس کل خطیئۃ

دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔

ارشاد گرامی اپنے بعد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عورتوں کے فتنے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں کم تھے اور ان کا زیادہ ظہور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ہوا کیونکہ اس وقت حق کا غلبہ تھا اور نیکی کی طاقت تمام برائیوں کو دبائے ہوئے تھی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آہستہ آہستہ باطل کی قوت بڑھتی گئی اور برائیوں کا غلبہ ہوتا گیا۔

عورت کے فتنہ سے بچو

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دنیا شیریں اور سبز جاذب نظر ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا کا خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہ ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس دنیا میں کس طرح عمل کرتے ہو لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں کے فتنہ سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کی صورت میں تھا (مسلم)

 

تشریح

 

 دنیا شیریں اور سبز ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شیرنی طبیعت کے لئے ایک مرغوب چیز ہوتی ہے اور اس طرح سبز چیز آنکھوں کو بہت بھاتی ہے اسی طرح دنیا بھی دل کو بہت پیاری لگتی ہے اور آنکھوں کو بھی بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا کا خلیفہ بنایا ہے الخ، کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے وہی اس کا حقیقی مالک و حاکم ہے تمہیں اس نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر گویا اس دنیا کے تصرفات میں تمہیں اپنا وکیل بنایا ہے لہذا اللہ تعالیٰ تمہیں ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس زمین پر اس کے بار خلافت کو کس طرح اٹھا رہے ہو اور اپنی عملی زندگی کے ذریعہ تصرفات دنیا میں حق وکالت کس طرح ادا کر رہے ہو؟ یا اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کا خلیفہ وارث بنایا ہے، لہذا ان کے پاس جو کچھ تھا وہ سب تمہیں دے دیا ہے اور اب وہ تمہیں دیکھتا ہے کہ تم اپنے اسلاف کے احوال و کوائف سے کس طرح عبرت پکڑتے ہو اور ان کے اموال و میراث میں کس طرح تصرف و انتظام کرتے ہو۔

دنیا سے بچو الخ، کا مطلب یہ ہے کہ دنیا مکر  و فریب کا بچھا ہوا ایک جال ہے اس جال سے حتی الامکان بچتے رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جال میں پھنس کر دنیا کے ظاہری مال و جاہ پر اپنی دینداری گنوا بیٹھو کیونکہ دنیا کو ثبات نہیں ہے یہ ایک فنا ہو جانے والی چیز ہے پھر اس فناء کے بعد کل جب تم ہمیشہ کی زندگی کے لئے اٹھائے جاؤ گے تو اس کی حلال چیزوں کا حساب دینا ہو گا اور اس کی حرام چیزوں پر عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے۔ اسی طرح عورتوں کے مکر و فریب سے بھی بچتے رہو، کیونکہ ایک مشت خاک کا یہ دل فریب مجسمہ جہاں نیک عورت کی صورت میں خدا کی ایک نعمت ہے وہیں بری عورت کے روپ میں فتنہ عالم بھی ہے ایسا نہ ہو کہ بری عورتوں کی مکاریاں یا اپنی بیویوں کی بے جا ناز برداریاں تمہیں ممنوع و حرام چیزوں کی طرف مائل کر دیں اور ان کی وجہ سے تم تباہی و ہلاکت کی کھائیوں میں دھکیل دئیے جاؤ۔

بنی اسرائیل پر تباہی کے دروازے کھولنے والا پہلا فتنہ عورت تباہیوں کے دروازے کھلنے کا پہلا سبب اور ذریعہ بنا۔ چنانچہ اس کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص جس کا نام بلعم بن باعور تھا۔ بہت مستجاب الدعوات تھا، اسے اسم اعظم یاد تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی ہر دعا مقبول کرا لیتا تھا، چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام جباروں سے لڑنے کے لئے علاقہ شام میں واقع بنی کنعان کے ایک حصہ میں خیمہ زن ہوئے تو بلعم کی قوم کے لوگ بلعم کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے پیروکاروں کا ایک عظیم لشکر لے کر ہمیں قتل کرنے اور اس علاقہ سے نکالنے کے لئے آئے ہیں تم ان کے لئے کوئی ایسی بددعا کرو کہ وہ یہاں سے واپس بھاگ جائیں۔ بلعم نے جواب دیا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم وہ نہیں جانتے بھلا میں خدا کے پیغمبر علیہ السلام اور اس کے ماننے والوں کے حق میں بددعا کیسے کر سکتا ہوں؟ اگر میں ان کے لئے بددعا کرتا ہوں تو میری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہو جائیں گی۔ جب اس قوم کے لوگوں نے بہت منت سماجت کی اور وہ بددعا کرنے پر اصرار کرتے رہے تو بلعم نے کہا کہ اچھا میں استخارہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ کیا حکم ہوتا ہے پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔ بلعم کا یہ معمول تھا کہ وہ بغیر استخارہ کوئی بھی کام نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے جب استخارہ کیا تو خواب میں اسے ہدایت کی گئی کہ پیغمبر اور مؤمنوں کے حق میں ہرگز بددعا مت کرنا ! بلعم نے اس خواب سے اپنی قوم کو مطلع کیا اور بددعا نہ کرنے کے لئے اپنے ارادہ کا پھر اظہار کیا قوم کے لوگوں نے غوروفکر کے بعد ایک طریقہ اختیار کیا کہ اور وہ یہ کہ وہ لوگ اپنے ساتھ بیش قیمت تحفے لے کر بلعم کے پاس آئے اور پھر اس کے سامنے بہت ہی زیادہ منت سماجت کی، روئے گڑگڑائے اور اسے اتنا مجبور کیا کہ آخر کار وہ ان کے جال میں پھنس ہی گیا چنانچہ وہ بددعا کرنے کی غرض سے اپنے گدھے پر سوار ہو کر جستان پہاڑ کی طرف چلا جس کے قریب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لشکر مقیم تھا، راستہ میں کئی مرتبہ گدھا گرا جسے وہ مار مار کر اٹھاتا رہا یہاں تک کہ جب یہ سلسلہ دراز ہوا اور بلعم بھی اپنے گدھے کو مار مار کر اٹھاتا ہوا پریشان ہو گیا تو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے گدھے کو گویائی عطاء کی چنانچہ گدھا بولا کہ نادان بلعم ! تجھ پر افسوس ہے کیا تو یہ نہیں دیکھتا کہ تو کہاں جا رہا ہے تو مجھے آگے چلانے کی کوشش کر رہا ہے اور ملائکہ میرے آگے آ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں بلعم نے جب چشم حیرت سے گدھے کو بولتے دیکھا تو بجائے اس کے کہ اس تنبیہ پر اپنے ارادہ سے باز آ جاتا گدھے کو وہیں چھوڑا پیادہ یا پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں بددعا کرنے لگا مگر یہاں بھی قدرت خداوندی نے اپنا یہ کرشمہ دکھایا کہ بلعم اپنی بددعا میں جب بھی حضرت موسیٰ اور ان کے لشکر کا نام لینا چاہتا اس کی زبان سے بنی اسرائیل کے بجائے بلعم کی قوم کا نام نکلتا۔ یہ سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ بلعم یہ کیا حرکت ہے بنی اسرائیل کی بجائے ہمارے حق میں بددعا کر رہے ہو؟ بلعم نے کہا کہ اب میں کیا کروں یہ حق تعالیٰ میرے قصد وارادہ کے بغیر میری زبان سے تمہارا نام نکلوا رہا ہے۔ لیکن بلعم پھر بھی اپنی بددعا سے باز نہ آیا اور اپنی سی کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ عذاب الہی کی وجہ سے بلعم کی زبان اس کے منہ سے نکل کر سینہ پر آ پڑی پھر تو گویا بلعم کی عقل بالکل ہی ماری گئی اور دیوانہ وار کہنے لگا کہ لو اب تو میری دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہو گئی اس لئے اب ہمیں بنی اسرائیل کی تباہی کے لئے کوئی دوسرا جال تیار کرنا پڑے گا۔ پھر اس نے مشورہ دیا کہ تم لوگ اپنی اپنی عورتوں کو اچھی طرح آراستہ پیراستہ کر کے اور ان کے ہاتھو میں کچھ چیزیں دے کر ان چیزوں کو فروخت کرنے کے بہانہ سے عورتوں کو بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان سے کہہ دو کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کوئی شخص تمہیں اپنے پاس بلائے تو انکار نہ کرنا یاد رکھو اگر بنی اسرائیل میں سے ایک بھی شخص کسی عورت کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہو گیا تو تہاری ساری کوششیں کامیاب ہو جائیں گی۔ چنانچہ بلعم کی قوم نے اس مشورہ پر عمل کیا اور اپنی عورتوں کو بنا سنوار کر بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دیا وہ عورتیں جب لشکر میں پہنچیں اور ان میں سے ایک عورت جسکا نام کسی بنت صور تھا، بنی اسرائیل کے ایک سردار زمزم بن شلوم نامی کے سامنے سے گزری تو وہ اس عورت کے حسن و جمال کا اسیر ہو گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس لے گیا اور ان سے کہنے لگا کہ کیا آپ اس عورت کو میرے لئے حرام قرار دیتے ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں، اس عورت کے پاس ہرگز مت جانا تو زمزم نے کہا کہ میں اس بارے میں آپ کا حکم نہیں مانوں گا چنانچہ وہ اس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ منہ کالا کیا بس پھر کیا تھا حکم الہی نے قہر کی شکل اختیار کر لی اور اس سردار کی شامت عمل سے ایک ایسی وبا پورے لشکر پر نازل ہوئی کہ آن کی آن میں ستر ہزار آدمی ہلاک و تباہ ہو گئے ادھر جب فحاص کو کہ جو حضرت ہارون علیہ السلام کا پوتا اور ایک قوی ہیکل آدمی تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نگہبان تھا یہ معلوم ہوا کہ ہمارے ایک سردار کی شامت عمل نے قہر خداوندی کو دعوتی دے دی ہے تو فوراً اپنا ہتھیار لے کر زمزم کے خیمہ میں داخل ہوا اور پلک جھپکتے ہی زمزم اور اس عورت کا کام تمام کر ڈالا اور پھر بولا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی شخص کی وجہ سے ہم سب کو ہلاک و تباہ کر دیا ہے چنانچہ ان دونوں کے قتل ہوتے ہی وہ وباء جو عذاب خداوندی کی صورت میں نازل ہوئی تھی ختم ہو گئی۔

وہ تین چیزیں جن میں نحوست ہوتی ہے

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورت گھر اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورتوں میں، مکان میں، اور جانور میں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 شوم ضد ہے یمن کی جس کے معنی ہیں بے برکتی اور اسی کو نحوست کہتے ہیں، لہذا حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی تو تفصیل کے ساتھ سمجھ لیجئے کہ نحوست سے کیا مراد ہے۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ گھر کی نحوست سے گھر کی تں گی اور بری ہمسائے گی مراد ہے یعنی جو گھر تنگ و تاریک ہو اور اس کا پڑوس برا ہو تو وہ گھر تکلیف و پریشانی کا باعث ہو جاتا ہے عورت کی نحوست سے مہر کی زیادتی اور اس کی بد مزاجی و زبان درازی اور بانجھ پن مراد ہے یعنی جس عورت کا مہر زیادہ مقرر کیا گیا ہو وہ بد مزاجی و تند خو زبان دراز ہو اور یہ کہ بانجھ ہو تو ایسی عورت راحت و سکون کی بجائے اذیت و کوفت کا ذریعہ بن جاتی ہے اسی طرح گھوڑے کی نحوست سے اس کا شوخ ہونا مٹھا قدم ہونا اور اس پر وار ہو کر جہاد نہ کیا جانا مرا ہے یعنی جو گھوڑا  ایسا ہو کہ اپنی خوشی کی وجہ سے پریشان کرتا ہو، سست رفتار ہوا اور مَٹھا ہو اور اس پر سوار ہو کر جہاد کرنے کی بھی نوبت نہ آئی ہو تو وہ گھوڑا اپنے مالک کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

کچھ علماء یہ کہتے ہیں کہ ان تین چیزوں میں نحوست کے اظہار کرنے کا مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ اگر بالفرض کسی چیز میں نحوس کا ہونا اپنی کوئی حقیقت رکھتا تو ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی گویا اس تشریح سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کسی چیز میں نحوست کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا چنانچہ یہ کہنا کہ فلاں چیز منحوس ہے یا فلاں چیز میں نحوست ہے صرف ایک واہمہ کے درجہ کی چیز ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر واقعۃً نحوست کسی چیز میں ہوا کرتی تو ان تین چیزوں میں ضرور ہوتی کیونکہ یہ تین چیزیں نحوست کے قابل ہو سکتی تھی۔ چنانچہ یہ ارشاد ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ نظر بد تھی یعنی کائنات کی ہر جنبش و حرکت اور یہاں کا ذرہ ذرہ پابند تقدیر ہے اس عالم میں صرف وہی ظہور میں آتا ہے جو پہلے سے مقدر ہو چکا ہو کوئی چیز تقدیر سے باہر نہیں ہے اور اگر بفرض محال کوئی چیز مقدرات کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ نظر بد ہے (کہ جسے عام طور پر نظر لگنا کہتے ہیں) لہذا جس طرح اس ارشاد کا مقصد یہ ظاہر کرنا نہیں ہے کہ نظر بد تقدیر کے دائرہ کار سے باہر ہے اسی طرح مذکورہ بالا تینوں چیزوں کے ساتھ نحوست کا ذکر کرنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ہے۔

اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہنا وہ نا پسند کرتا ہو یا کسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت و مباشرت اسے ناگوار ہو یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہو جائے بیوی والا اس کو طلاق دے دے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ دے۔

حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہو گئی کہ یہ ارشاد گرامی طیرۃ منہی عنہا (بد شگونی لینے کی ممانعت کے منافی نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یا فلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبز قدم ہے تو یہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔

اپنے نکاح کے لئے کنواری عورت کو ترجیح دو

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک جہاد میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے چنانچہ جب ہم (جہاد سے) واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میری نئی شادی ہوئی تھی (کہ میں جہاد میں چلا گیا اب اگر حکم ہو تو میں آگے چلا جاؤں تاکہ اپنے گھر جلد سے جلد پہنچ سکوں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نے نکاح کیا ہے میں نے عرض کیا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا بیوی کنواری تھی یا بیوہ تھی؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تو تم نے کنواری سے کیوں نکاح نہیں کیا؟ تاکہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی پھر جب ہم مدینہ پہنچ گئے اور ہم سب نے اپنے اپنے گھروں میں جانے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ ہم رات میں (یعنی شام کے وقت) گھروں میں داخل ہوں گے تاکہ جس عورت کے بال پراگندہ ہوں وہ کنگھی چوٹی کر لے اور وہ عورت جس کا خاوند موجود نہیں تھا (بلکہ ہمارے ساتھ جہاد میں گیا تھا) اپنے زائد بال صاف کر لے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 تم اس کے ساتھ کھیلتے الخ، سے آپ کی بے تکلفی اور کمال الفت و رغبت مراد ہے مطلب یہ ہے کہ کنواری عورت سے نکاح کرنے میں آپس کی زندگی زیادہ الفت و رغبت کے ساتھ گزرتی ہے اور بے تکلفی اور چاہت زیادہ ہوتی ہے اس کے برخلاف بیوہ عورت جب کسی دوسرے کی زوجیت میں آتی ہے چونکہ اس کا دل پہلے خاوند کی یاد کی کسک محسوس کرتا ہے دوسرے یہ کہ اگر رہن سہن اور میل ملاپ میں اس دوسرے خاوند کو اپنے پہلے خاوند کی طرح نہیں پاتی تو اس کی طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اتنی زیادہ بے تکلف اور خوش مزاج ثابت نہیں ہوتی جتنی ایک کنواری عورت ہوتی ہے۔

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں میں جانے میں جلدی نہ کرو بلکہ کچھ دیر توقف کرو تا کہ تمہاری بیویاں رات سے پہلے اپنا بناؤ سنگھار کر کے تمہاری مجامعت کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیں اور جب تم رات میں ان کے پاس پہنچو تو تمہیں کسی قسم کا کوئی تکدر اور کوئی بے لطفی نہ ہو۔ اس موقع پر یہ خلجان پیدا ہو سکتا ہے کہ دوسری حدیثوں میں تو اپنے گھر واپس آنے والے مسافر کو رات کے وقت گھر میں داخل ہونے سے منع فرمایا گیا ہے جب کہ یہاں رات کے وقت گھروں میں داخل ہونے کو فرمایا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گھر لوٹنے والے مسافر کو رات کے وقت گھر میں داخل ہونے کی جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بغیر اطلاع کے یکایک گھر میں چلا جائے اور اگر گھر والوں کو پہلے سے اطلاع ہو جیسا کہ اس موقع پر ہوا تو اس صورت میں رات کے وقت اپنے گھر میں داخل ہونا ممنوع نہیں ہو گا۔

وہ تین شخص جن کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے

حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایسے تین شخص ہیں جن کی مدد اللہ پر اس کے وعدہ کے مطابق واجب ہے ایک تو وہ مکاتب جو اپنا بدل کتابت ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو دوسرا وہ نکاح کرنے والا شخص جو حرام کاری سے بچنے کی نیت رکھتا ہو اور تیسرا راہ خدا میں جہاد کرنے والا۔

 

تشریح

 

 مکاتب اس غلام کو کہتے تھے جس کا آقا اس سے یہ کہہ دیتا تھا کہ اگر تم مجھے اتنا روپیہ کما کر دے دو گے تو تم آزاد ہو جاؤ گے۔ اسی طرح روپیہ کی وہ مقدار جو اس غلام کا آقا آزادی کے لئے ضروری قرار دیتا تھا بدل کتابت کہلاتی تھی۔

عورت کے ولی کے لئے ایک ضروری ہدایت

اور حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کوئی شخص نکاح کا پیغام بھیجے اور تم اس شخص کی دینداری اور اس کے اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام منظور کر کے اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا (ترمذی)

 

 

تشریح

 

 یہ ارشاد گرامی دراصل عورتوں کے سرپرست اور ولیوں سے ایک خطاب اور ان کے لئے ایک ضروری ہدایت ہے کہ اگر کوئی دیندار اور اچھے اخلاق و اطوار کا حامل شخص تمہاری بیٹی یا تمہاری بہن وغیرہ سے نکاح کا پیغام بھیجے تو منظور کر لو اور اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے بلکہ ایسے شخص کے پیغام کو نظر انداز کر کے کسی مالدار یا ثروت دار شخص کے پیغام کی انتظار میں رہو گے جیسا کہ اکثر دینداروں کی عادت ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اکثر عورتیں بغیر خاوند کے بیٹھی رہ جائیں گی اور اکثر مرد بغیر بیوی کے پڑے رہیں گے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بدکاری اور برائیوں کا عام چلن ہو جائے گا بلکہ ان عورتوں کے سرپرست اور ولی بڑی بری قسم کی عار و غیرت میں مبتلا ہوں گے پھر جو لوگ ان کو عار اور غیرت دلائیں گے وہ ان سے لڑنے جھگڑنے لگیں گے آخرکار اس برائی و فحاشی اور لڑائی جھگڑے سے ایک ہمہ گیر فتنہ و فساد کی شکل پیدا ہو جائے گی۔

طیبی کہتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ حدیث حضرت امام مالک کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کفائت زوجین میں سے ایک دوسرے کا کفو ہونے کا لحاظ صرف دین کے وصف میں کیا جائے گا گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کا کفوء صرف دین میں ہو سکتا ہے جبکہ علماء کی اکثریت کا مسلک یہ ہے کہ ان چاروں اوصاف میں ایک دوسرے کا کفو شریک ہونے کا لحاظ کیا جائے (١) دین حریت نسب پیشہ چنانچہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کافر سے نہ کیا جائے نہ کسی غیر معلوم النسب سے کیا جائے۔ اور کسی سودا گر یا اچھے پیشے والے کی بیٹی کا نکاح کسی حرام یا مکروہ پیشہ والے سے نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر کسی عورت کا ولی اور خود وہ عورت کسی غیر کفو والے سے نکاح کرنے پر راضی ہو جائے تو نکاح صحیح ہو جائے گا۔

محبت کرنے والی عورت سے نکاح کرو

اور حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے محبت کرنے والی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا (ابو داؤد نسائی)

 

تشریح

 

 منکوحہ عورت میں مذکورہ بالا دو صفتوں کو ساتھ ساتھ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں بچے تو بہت پیدا ہوتے ہوں مگر وہ اپنے خاوند سے محبت کم کرتی ہو تو اس صورت میں خاوند کو اس کی طرف رغبت کم ہو گی اور اگر کوئی عورت خاوند سے محبت تو بہت کرے مگر اس کے یہاں بچے زیادہ نہ ہوں تو اس صورت میں مطلوب حاصل نہیں ہو گا، اور مطلوب امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کثرت سے جو ظاہر ہے کہ زیادہ بچے ہونے کی صورت میں ممکن ہے اگر مسلمان عورتوں کے ہاں زیادہ بچے ہوں گے تو امت میں کثرت ہو گی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک پسندیدہ اور مطلوب ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نکاح سے پہلے یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سی عورت اپنی آئندہ زندگی میں ان اوصاف کی حامل ثابت ہو سکتی ہے تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ کسی خاندان و کنبہ کا عام مشاہدہ اس کی کسی عورت کے لیے ان صفتوں کا معیار بن سکتا ہے چنانچہ ان اکثر لڑکیوں میں یہ صفتیں موجود ہو سکتی ہیں جن کے خاندان و قرابت داروں میں ان صفتوں کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے عام طور پر چونکہ اقرباء کے طبعی اوصاف ایک دوسرے میں سرایت کئے ہوتے ہیں اور عادت و مزاج میں کسی خاندان و کنبہ کا ہر فرد ایک دوسرے کے ساتھ یکسانیت رکھتا ہے اس لئے کسی خاندان کی لڑکی کے بارے میں اس کے خاندان کے عام مشاہدہ کے پیش نظر ان اوصاف کا اندازہ لگا لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔

بہرکیف اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بچے پیدا کرنے والی عورت سے نکاح کرنا مستحب ہے نیز یہ کہ زیادہ بچے ہونا بہتر اور پسندیدہ ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد یعنی امت کی زیادتی و کثرت کا فخر حاصل ہوتا ہے ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نکاح کرنے سے مراد یہ تعلیم دینا ہے کہ تمہاری جن بیویوں میں یہ اوصاف موجود ہوں ان کے ساتھ زوجیت کے تعلق کو ہمیشہ قائم رکھو اور اس بات کی کوشش کرو کہ آپس میں کبھی کوئی تفرقہ اور جدائی نہ ہو۔

کنواری سے نکاح کرنا زیادہ بہتر ہے

اور حضرت عبد الرحمن بن سالم بن عتبہ بن عویمر بن ساعدہ انصاری اپنے والد حضرت سالم اور وہ عبد الرحمن کے دادا یعنی حضرت عتبہ تابعی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہیں کنواری عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے کیونکہ وہ شیریں دہن ہوتی ہیں یعنی کنواری عورتیں شیریں زبان و خوش کلام ہوتی ہیں کہ وہ بد زبانی فحش گوئی میں مبتلا نہیں ہوتیں) اور زیاد بچے پیدا کرنے والی ہوتی ہیں نیز وہ تھوڑے پر بھی راضی رہتی ہیں (یعنی تھوڑا مال و اسباب پانے پر بھی راضی رہتی ہیں) اس روایت کو ابن ماجہ نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ ؟

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کے ذریعہ کنواری عورتوں کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بیوہ عورتوں میں نہیں پائی جاتیں مثلاً کنواری عورت زیادہ بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتی ہے کیونکہ اس کے رحم میں حرارت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کا رحم مرد کا مادہ تولید بہت جلد قبول کر لیتا ہے لیکن یہ چیز محض ظاہری اسباب کے درجہ کی ہے جو حکم الہی کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتی، کنواری عورتوں کی ایک نفسیاتی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تھوڑے سے مال و اسباب پر بھی راضی و خوش رہتی ہیں ان کا شوہر انہیں جو کچھ دے دیتا ہے اسی کو برضا و رغبت قبول کر لیتی ہیں اور اس پر قانع رہتی ہیں کیونکہ وہ بیوہ عورت کی طرح پہلے سے کسی خاوند کا کچھ دیکھے ہوئے تو ہوتی نہیں کہ انہیں کمی بیشی کا احساس ہو اور وہ اپنے شوہر سے زیادہ مال و اسباب کا مطالبہ کریں۔

نکاح کی ایک خصوصیت

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے شخص تو نے نکاح کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ہو گی جو دو محبت کرنے والوں کے درمیان محبت کو زیادہ کرے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قراب کے بے پناہ محبت و الفت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہوں اس درجہ کی محبت و الفت پیدا کر دے۔

آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی فضیلت

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس بات کا خواہشمند ہو کہ وہ زنا کی نجاست سے پاکی کی حالت میں اور پاکیزہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہئے کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔

 

تشریح

 

 اس کی وجہ عام طور پر آزاد عورتیں لونڈیوں کی بہ نسبت زیادہ پاک و پاکیزہ ہوتی ہیں اس لئے ان کی پاکیزگی مخالطت و مباشرت کے ذریعہ ان کی شوہروں میں سرایت کرتی ہے پھر یہ کہ آزاد عورتیں اپنی اولاد کو جو ادب و سلیقہ اور تہذیب سکھا سکتی ہیں وہ لونڈیوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ جب وہ خود بھی کمتر و پست حیثیت ہوتی ہیں تو اپنی اولاد کو ادب و تہذیب اور اخلاق سے کیسے مزین کر سکتی ہیں۔

نیک بخت بیوی کی خصوصیت

اور حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مؤمن اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لئے منتخب کرتا ہے وہ نیک بخت و خوب صورت بیوی ایسی بیوی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر شوہر اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے جب وہ اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنے حسن اور پاکیزگی اور اپنی خوشی سلیقگی و پاک سیرتی سے) اس کا دل خوش کرتی ہے جب وہ اس کو قسم دیتا ہے تو اس قسم کو پورا کرتی ہے اور جب اس کا خاوند موجود نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کی بارے میں یہ خیرخواہی کرتی ہے کہ اس کو ضائع و خراب ہونے سے بچاتی ہے اور اس میں کوئی خیانت نہیں کرتی) مذکورہ بالا تینوں حدیثیں ابن ماجہ نے نقل کی ہیں۔

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کو اور ممنوعات سے بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں لہذا ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا نیک و صالح بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور ممنوعات سے اجتناب کے بعد اپنی دینی اور دنیاوی بھلائی کے لئے جو سب سے بہتر چیز پسند کرتا ہے وہ نیک بخت و خوب صورت بیوی ہے۔

وہ اس کی تعمیل کرتی ہے، کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو گناہ و معصیت کا باعث نہیں ہوتیں یعنی وہ اپنے شوہر کی انہیں باتوں اور انہی احکام کی تعمیل کرتی ہے جو شریعت کے خلاف اور خدا کی ناراضگی کا باعث نہیں ہوتے، یہ قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ مخلوق یعنی کسی شخص کا کوئی بھی ایسا حکم تعمیل نہ کرنا چاہئے جو خالق یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق ہو۔ وہ اس کی قسم کو پورا کرتی ہے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش و مرضی پر اپنے شوہر کی خواہش و مرضی کو مقدم رکھتی ہے مثلاً جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اپنی خواہش کو چھوڑ کر وہ اپنے شوہر کی قسم و مرضی کے مطابق وہی کام کرتی ہے یا جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے نہ کرنے کی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے مطابق ہے تو وہ اپنی خواہش کی پرواہ کئے بغیر اپنے شوہر کی قسم و مرضی کی مطابق اس کام کو ترک کر دیتی ہے۔

نکاح آدھا دین ہے

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس بندہ نے نکاح کیا اس نے اپنا آدھا دین پورا کر لیا اب اسے چاہئے کہ باقی آدھے کے بارے میں خدا سے ڈرے۔

 

تشریح

 

 انسان کے جسم میں دو چیزیں ایسی ہیں جو عام طور پر دین میں فساد و نقصان کا سبب بنتی ہی یعنی شرمگاہ اور پیٹ لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی شخص نے نکاح کر کے شرمگاہ کے فتنہ و فساد سے نجات پائی تو اب اسے چاہئے کہ پیٹ کے فتنے و فساد کو دور کرنے کے بارے میں خدا سے ڈرتا رہے یعنی حلال کمائی اور حلال رزق ہی کے ذریعہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرے تا کہ دین کی بھلائی پوری حاصل ہو۔

کون سا نکاح بابرکت ہے؟

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ بہت زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو محنت کے لحاظ سے آسان ہو یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔

 

تشریح

 

 محنت کے لحاظ سے آسان نکاح، سے مراد وہ نکاح ہے جس میں بیوی کا مہر کم ہو اور عورت زیادہ مال و اسباب اور حیثیت سے زیادہ ضروریات زندگی یعنی روٹی کپڑا طلب کر کے مرد کو پریشان نہ کرے بلکہ مشورہ کی طرف سے جو کچھ اور جیسا کیسا مل جائے برضا و رغبت اسی پر قانع رہے۔