مشکوٰة شر یف

نکاح کے اعلان اور نکاح کے خطبہ و شرط کا بیان

نکاح کے اعلان اور نکاح کے خطبہ و شرط کا بیان

اعلان نکاح

نکاح کا اعلان کرنا مستحب ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ نکاح کا اعلان کرو اگرچہ دف بجا کر ہی کیوں نہ اعلان کرنا پڑے، دف بجانے کے سلسلہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ دف بجانا تو حرام ہے یا مطلقاً مکروہ ہے اور بعض علماء نے اس کو مطلقاً مباح کہا ہے زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ بعض مواقع پر جیسے عید کے دن کسی معزز مسافر و مہمان کے آنے کے وقت اور نکاح کے موقع پر دف بجانا مباح ہے ان کے علاوہ اور کسی بھی وقت اور کسی بھی موقعہ پر دف بجانا حرام ہے۔

خطبہ علماء نے اسے خ کے پیش کے ساتھ یعنی خطبہ بھی صحیح کہا ہے اور خ کے زیر کے ساتھ یعنی خطبہ کو بھی صحیح قرار دیا ہے دونوں میں فرق یہ ہے خطبہ سے مراد نکاح کا پیغام بھیجنا اور خطبہ اس خطبے کو کہتے ہیں جو نکاح میں پڑھایا جاتا ہے چنانچہ یہاں عنوان میں خطبہ سے مراد نکاح کا پیغام بھیجنا (کہ جسے منگنی کہتے ہیں) بھی ہو سکتا ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ یہاں خطبہ سے وہی مراد ہے جو نکاح کے وقت پڑھا جاتا ہے۔

حنفیہ کے نزدیک عقد نکاح کے وقت خطبہ پڑھنا مسنون ہے شوافع کے نزدیک بھی مسنون ہے لیکن ان کے ہاں عقد نکاح ہی نہیں بلکہ ہر عقد مثلاً بیع و شراء وغیرہ کے وقت بھی خطبہ پڑھنا مسنون ہے۔

 

شادی بیاہ کی رسوم و بدعات

شرط سے مراد وہ شرطیں ہیں جو نکاح میں ذکر کی جائیں خواہ وہ فاسد ہوں یا صحیح ہوں۔

یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ نکاح جیسا پاکیزہ معاملہ بھی غیر مسلموں کی ناپاک رسموں اور ملکی رواجوں سے محفوظ نہیں رہا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کی غیر شرعی رسمیں جس کثرت اور شدت کے ساتھ مسلمانوں کے شادی بیاہ کے معاملات میں داخل ہو گئی ہیں اس نے نکاح کے اسلامی اور مسنون طریقے کو بالکل ہی اوجھل کر دیا ہے اور اب تو جس قدر رسمیں رائج ہیں یا پہلے رائج تھیں ان سب کا احاطہ کرنا بھی ناممکن ہو گیا ہے تاہم اس موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کچھ رسموں اور بدعتوں کا ذکر کر دیا جائے تاکہ ان سے بچنے کی کوشش کی جائے۔

حرام باجوں اور مزامیر کا استعمال کرنا، ناچ گانے اور قوالی کا انتظام کرنا، سہرا باندھنا، کٹھ پتلیوں کے کھیل جیسی لغویات کرانا، گھر بار کی غیر معمولی اور اسراف کی حد تک زیبائش و آرائش کرنا جیسے دیواروں کو کپڑے سے ڈھانکنا گھوڑے پر سواری کرنا بارات لیکر بلا ضرورت شہر میں پھرنا دولہا کا شہر و آبادی کے مزارات پر جانا اور وہاں کچھ نقد چڑھا کر پھر برات میں شامل ہو جانا، بارات کے ساتھ ڈھول باجا ہونا، یا گانے والوں کا اور گانے والیوں کو بارات میں شامل کرنا، آتش بازی کے ذریعہ اپنا مال ضائع کرنا اور بارات میں مردوں کے سامنے عورتوں کا جلوہ آرائی کرنا یہ سب چیزیں بہت سی برائی کی ہیں اور حرام ہیں۔

اسی طرح یہ چیزیں بھی حرام ہیں مثلاً نکاح کی مجلس میں مستور چیزوں کو ظاہر کرنا دولہا کو ریشمی مسند پر بٹھانا، دولہا کی پگڑی کو ڈوری سے ناپنا اور پھر اس ڈوری کو ٹوٹکا کرنے والے یا ساحر کو دے دینا تا کہ وہ اس کے ذریعہ دولہا دولہن کے درمیان محبت کے لیے کوئی ٹوٹکا کر دے سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا باراتیوں اور دولہا کے قرابت داروں کی حد سے زیادہ تعریف و توصیف کرنا اور ان کی بے جا خوشامد و چاپلوسی میں ایسی باتیں کرنا جو بالکل جھوٹی ہوں۔

ایسے ہی یہ چیزیں بھی حرام ہیں : دولہا کا حریر یا زعفرانی رنگ کا یا  کسبنا اور یا ریشمی کپڑا پہننا (مردوں کے لئے ایسے کپڑے شادی کے علاوہ بھی پہننے حرام ہیں) دولہا کے سر سے پگڑی اتار کر دولہن کے سر پر رکھ دینا، دولہا کا دولہن کے گرد سات بار چکر لگانا اجنبی عورتوں کا دولہا کے پاس آنا اور اسے ہاتھ لگانا یا اس کے ناک کان پکڑنا اور اس کے ساتھ بے حیائی کی باتیں کرنا دولہا کا انگوٹھا دودھ کے ذریعہ عورت سے دھلوانا عورتوں کا دولہا کو شکر کھلانا اور دودھ پلانا مصری کی ڈلی دولہن کے بدن پر رکھ کر دولہا سے کہنا اسے اپنے منہ سے اٹھا لو اور خلوت میں جب دولہا دولہن جمع ہوں تو عورتوں کا انہیں گھیرے رہنا۔ یہ سب چیزیں بدعت اور حرام ہیں جن کا شریعت و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے ان سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے۔

نکاح کے وقت دف بجانا جائز ہے

حضرت ربیع بن معوذ بن عفرا کہتی ہیں کہ جب میں نکاح کے بعد اپنے شوہر کے گھر رخصت ہو کر آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح تم میرے بستر پر بیٹھے ہو (ربیع نے یہ بات حضرت خالد بن ذکوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہی جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے) اور ہمارے خاندان کی بچیوں نے جو اس وقت ہمارے گھر میں موجود تھیں دف بجانا شروع کیا اور ہمارے آباء میں سے جو لوگ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ان کی خوبیوں اور شجاعت پر مشتمل اشعار پڑھنے لگیں اسی دوران ان میں سے ایک بچی نے یہ کہا کہ  اور ہمارے درمیان وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو کل ہونے والی بات کو جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اس بات کو چھوڑ دو (یعنی اس قسم کی باتیں نہ کہو) بلکہ وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 عفراء حضرت معوذ کی والدہ کا نام ہے حضرت معوذ ایک عظیم المرتبت صحابی ہیں جنہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر حق کا پرچم سر بلند کرتے ہوئے میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا اور تاریخ اسلام کی یہی وہ عظیم ہستی ہے جس نے اپنے بھائی معاذ کی معیت میں اس غزوہ بدر میں ابو جہل لعین کو قتل کیا۔

بچیوں سے انصار کی وہ چھوٹی بچیاں مراد ہیں جو ابھی بچپن کے دور سے گزر رہی تھیں اور حد بلوغ کو نہیں پہنچی تھیں۔ اکمل الدین نے کہا کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وقت نکاح اور زفاف کے اعلان کے لئے دف بجانا جائز ہے پھر بعض علماء نے اس جواز میں ختنہ، عیدین، مسافر کی آمد، اور تقریب میں مسرت میں احباب و اعزہ کے اجتماع کو بھی شامل کر دیا ہے یعنی نکاح کی طرح ان مواقع پر بھی دف بجانا جائز ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ دف سے مراد وہ دف ہے جس میں جھانج نہ ہو کیونکہ جھانج دار دف بجانا متفقہ طور پر مکروہ ہے۔

حدیث کے آخری جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ اس وقت جب کہ وہ بچیاں اپنے آباء و اجداد کے بہادرانہ کارناموں اور حق کی راہ میں ان کے قربان ہو جانے کی پُر شجاعت داستانوں کے گیت گانے لگیں تو اسی دوران ایک بچی نے جو ابھی عقائد کے نازک گوشوں سے ناواقف تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی توصیف میں یہ کہا کہ ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ آنے والی کل میں کیا وقوع پذیر ہو گا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنتے ہی اسے روک دیا کیونکہ اس نے علم غیب کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کی تھی جو ظاہر ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کیسے گوارا ہو سکتی تھی اس لیے کہ عقائد کا یہ کھلا ہوا مسئلہ ہے کہ غیب کی باتوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ہاں یہ اور بات ہے کہ غیب کی جن باتوں کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اپنے رسولوں پر منکشف فرما دیتا ہے۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جن اشعار میں شریعت کے خلاف اور عقائد کے منافی کوئی بات نہ ہو اور فحش کذب شامل نہ ہو انہیں پڑھنا اور سننا جائز ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نکاح کے بعد رخصت کرا کر انصار کے ایک شخص کے ہاں لائی گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص سے فرمایا کہ کیا تمہارے ساتھ کھیل یعنی دف اور گانا نہیں ہے (یعنی شریعت نے شادی بیاہ میں جس دف کے بجانے کی اجازت دی ہے اور جس قسم کے گیت جائز قرار دیئے ہیں تمہاری شادی ان چیزوں سے خالی کیوں ہے؟ کیونکہ انصار تو ان چیزوں کو بہت پسند کرتے ہیں (بخاری)

شوال کے مہینے میں نکاح کرنا مستحب ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں نکاح کیا اور پھر تین سال کے بعد شوال ہی کے مہینے میں مجھے رخصت کرا کر اپنے گھر لائے اب تم ہی بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں کون سی زوجہ مطہرہ مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض جاہل لوگ شوال کے ماہ میں شادی بیاہ کرنے کو جو منحوس سمجھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے بلکہ اس مہینہ میں شادی بیاہ کرنا یا دولہن کو رخصت کرا کر اپنے گھر لانا مستحب ہے۔ چنانچہ عرب میں بھی زمانہ جاہلیت کے لوگ یہی عقیدہ رکھتے تھے اور شوال میں نکاح کرنے اور دولہن کو گھر میں لانے کو برا سمجھتے تھے۔ اسی غلط عقیدہ کی تردید میں حضرت عائشہ نے یہ بات فرمائی کہ اگر شوال کے مہینہ میں شادی بیاہ کرنا اپنے اندر کوئی نحوست رکھتا ہے تو پھر آخر میں شادی میرے حق میں منحوس کیوں نہیں رہی جب کہ شوال ہی میں میرا نکاح ہوا اور شوال ہی کے مہینہ میں رخصت کرا کر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر آئی اور اس بات کو دنیا جانتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں جو خوش نصیبی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت مجھے نصیب ہوئی وہ کسی بھی زوجہ کو حاصل نہیں ہوئی۔

مہر ادا کرنے کی تاکید

اور حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جن شرطوں کا پورا کیا جانا تمہارے لئے ضروری ہے ان میں سب سے اہم شرط وہ ہے جس کے ذریعہ تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 سب سے اہم شرط سے مراد بیوی کا مہر ہے یا پھر بیوی کے وہ تمام حقوق مراد ہیں جو شوہر کے ذمہ ہوتے ہیں لہذا حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تم اپنی بیوی کے مہر ادا کرو ان کے کھانے پینے کا خرچ ان کو دو، انہیں رہنے کے لئے مکان دو اور ان کی دیگر ضروریات زندگی اپنی استطاعت کے مطابق پوری کرو اور صرف یہ نہیں بلکہ ان کے ساتھ اپنی زندگی اس حسن سلوک میل جول اور پر محبت انداز سے گزارو جو ایک با وقار اور شریف انسان کی شان کے عین مطابق ہے۔

اب رہی یہ بات کہ ان چیزوں کو شرط کیوں کہا گیا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اس کے ذہن میں تصور کے ہر گوشہ میں یہی عزم ہوتا ہے کہ وہ جس عورت کو اپنی بیوی بنا کر اپنے گھر لا رہا ہے اس کے تمام حقوق کی ادائے گی پورے طور پر کرے گا اور پھر وہ ان حقوق کی ادائے گی کا التزام بھی کرتا ہے لہذا اس کا یہ عزم اور پھر یہ التزام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ گویا اس نے حقوق کی ادائے گی کی شرط کی ہے۔

کسی دوسرے کی منسوبہ کو اپنے نکاح کا پیغام نہ دو

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کئی مرد اپنے نکاح کا پیغام اپنے کسی مسلمان بھائی کے پیغام پر نہ بھیجے تاآنکہ وہ اس سے نکاح کر لے یا اس کو ترک کر دے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 کسی شخص کی منسوبہ سے نکاح کا پیغام بھیجنے کی یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ ان دونوں کی شادی کا معاملہ تقریباً طے ہو چکا ہے یعنی لڑکی اور لڑکا دونوں راضی ہو گئے ہوں اور مہر متعین ہو چکا ہو، لہذا اس صورت میں اب کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہو گا کہ وہ اپنے نکاح کا پیغام بھیجے اگر کوئی دوسرا شخص اس ممانعت کے باوجود کسی کی منسوبہ کے پاس نکاح کا پیغام بھیج دے اور اس پہلے شخص کی اجازت کے بغیر نکاح بھی کر لے تو یہ نکاح تو صحیح ہو جائے گا لیکن یہ دوسرا شخص جس نے پہلے شخص کی منسوبہ سے نکاح کیا ہے) گناہگار ہو گا۔

عورت اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے دوسری عورت کو طلاق نہ دلوائے

اور حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورت کسی شخص سے اپنی کسی دینی بہن کے بارے میں یہ نہ کہے کہ اس کو طلاق دے دو اور اس عورت کو طلاق دلوانے کا مقصد یہ ہو کہ وہ اس کے پیالہ کو خالی کر دے (یعنی اس کو طلاق دلوا کر اس کے سارے حقوق خود سمیٹ لے) اور اس کے خاوند سے خود نکاح کر لے کیونکہ اس کے لئے وہی ہے جو اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 فرض کیا جائے کہ زید شادی شدہ ہے اور خالدہ اس کی بیوی کا نام ہے۔ اب زید کسی دوسری عورت مثلاً زہرہ سے بھی شادی کرنا چاہتا ہے لیکن زہرہ کہتی ہے کہ میں تم سے شادی تو کر لوں گی مگر تم نے اپنی پہلی بیوی خالدہ کو طلاق دے دو یا یہ صورت ہے کہ مثلاً زید نے دو شادیاں کر رکھی ہیں ایک بیوی کا نام خالدہ ہے اور دوسری کا نام زہرہ ہے۔ اب زہرہ اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ اپنی دوسری بیوی خالدہ کو طلاق دے دو اسی بات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کو طلاق دلوانے کے لئے نہ کہے کیونکہ اپنی اپنی تقدیر اپنے ساتھ ہے کسی دوسرے کا برا چاہنے سے کیا فائدہ؟

حدیث کی وضاحت کے سلسلہ میں اگر پہلی صورت کا اعتبار کیا جائے تو (لتنکح) کا ترجمہ وہی ہو گا جو اوپر نقل کیا گیا ہے جب کہ دوسری صورت مراد لی جانے کی صورت میں اس جملہ کا ترجمہ یہ ہو گا کہ اور اس عورت کا طلاق دلوانے سے یہ مقصد ہو کہ اس کی سوکن کسی اور مرد سے نکاح کر لے۔

شغار کی ممانعت

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شغار سے منع کیا ہے اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے آدمی سے اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کر دے کہ اس دوسرے شخص کو اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرنا ہو گا اور دونوں میں مہر کچھ نہ ہو (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اسلام میں شغار جائز نہیں ہے۔

 

تشریح

 

 شغار دو آدمیوں کے درمیان ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کرنے کی ایک خاص صورت کا نام ہے جیسے کہ زید بکر سے اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح زید سے کر دے گا۔ اور ان دونوں کے نکاح میں مہر کچھ بھی متعین نہ ہو بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی بیٹی کا تبادلہ ہی گویا مہر ہو اس طرح کا نکاح زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے مگر اسلام نے اس سے منع کر دیا ہے۔

اس بارے میں فقہی اختلاف یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے ہاں تو اس طرح کا نکاح سرے سے صحیح ہی نہیں ہوتا جبکہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح سے نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو جائے گا اور مہر مثل دینا لازم ہو گا لیکن حکم یہ ہے کہ اس طرح کے نکاح سے اجتناب کرنا چاہئے۔

متعہ کی ممانعت

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرمایا ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھروں میں رہنے والے گدھوں کا گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا ہے گھروں میں رہنے والے گدھوں سے مراد وہ گدھے ہیں جو لوگوں کے پاس رہتے ہیں اور بار برداری وغیرہ کے کام آتے ہیں جنگلی گدھا کہ جس کو گورخر کہتے ہیں حلال ہے اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 کسی متعینہ مدت کے لیے ایک متعینہ رقم کے عوض نکاح کرنے کو متعہ کہتے ہیں جیسے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ یہ کہہ کر نکاح کرے کہ فلاں مدت مثلاً دو سال تک اتنے روپے مثلاً ایک ہزار روپے) کے عوض تم سے فائدہ اٹھاؤں گا نکاح کا یہ خاص طریقہ یعنی متعہ اسلام کے ابتداء زمانہ میں تو جائز تھا مگر بعد میں حرام قرار دے دیا گیا۔

علماء لکھتے ہیں کہ متعہ کے سلسلے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ متعہ دو مرتبہ تو حلال قرار دیا گیا اور دو مرتبہ حرام ہوا، چنانچہ پہلی مرتبہ تو جنگ خیبر سے پہلے کسی جہاد میں جب صحابہ تجرد کی وجہ سے سخت پریشان ہوئے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے خصی کرانے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں متعہ کرنے کی اجازت دے دی۔ پھر جنگ خیبر کے دن جو ٧ھ کا واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ کے لئے متعہ کو حرام قرار دیا چنانچہ جواز متعہ کا فسخ ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

اسی سلسلہ میں حضرت ابن عمر نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ جس طرح حالت اضطرار میں بھوکے کو مردار کھانے کی اجازت ہے اسی طرح اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس شخص کے لئے جو بسبب تجرد جنسی ہیجان کی وجہ سے حالت اضطرار کو پہنچ گیا ہو یہ اجازت تھی کہ وہ متعہ کر لے مگر جب بعد میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ حرام قرار دیا گیا تو) پھر صحابہ نے اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ متعہ کے طور پر جو بھی نکاح ہوا اسے باطل قرار دیا جائے۔

اس لئے ہر دور میں تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع و اتفاق رہا ہے کہ متعہ حرام ہے کیا صحابہ کیا فقہاء اور کیا محدثین سبھی کے نزدیک اس کا حرام ہونا ایک متفقہ مسئلہ ہے صحابہ میں صرف ابن عباس پہلے اضطرار کی حالت میں متعہ کو مباح سمجھتے تھے مگر جب حضرت علی المرتضی نے ان کو سخت تہدید کی اور متعہ کی قطعی و ابدی حرمت سے ان کو واقف کیا تو حضرت ابن عباس نے اپنے قول سے رجوع کر لیا اور وہ بھی اس کی حرمت کے قائل ہو گئے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس کا اپنے اباحت کے قول سے رجوع کرنا حدیث و فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔

ہدایہ فقہ حنفی کی ایک مشہور ترین اور اونچے درجہ کی کتاب ہے، اس کے مصنف اپنے عمل و فضل اور فقہی بصیرت و نکتہ رسی کے اعتبار سے فقہاء کی جماعت میں سب سے بلند مرتبہ حیثیت کے حامل ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ متعہ کے سلسلہ میں انہوں نے حضرت امام مالک کی طرف قول جواز کی جو نسبت کی ہے وہ ان کی سخت علمی چوک ہے نہ معلوم انہوں نے یہ بات کہاں سے لکھ دی کہ امام مالک متعہ کے جائز ہونے کے قائل تھے۔ امام مالک بھی متعہ کو اسی طرح حرام کہتے ہیں جس طرح تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔ چنانچہ نہ صرف ابن ہمام نے ہدایہ میں مذکورہ امام مالک کی طرف قول جواز کی نسبت کو غلط کہا ہے بلکہ ہدایہ کے بعد فقہ کی جتنی بڑی کتابیں تالیف ہوئیں تقریباً سب ہی میں ہدایہ کی اس غلطی کو بیان کرنا لازم سمجھا گیا ہے۔

 

متعہ کے بارے میں شیعوں کا مسلک

جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ متعہ حرام ہے، لیکن نہ معلوم شیعہ کیوں اب بھی اسے جائز کہتے ہیں۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ شیعوں کی کتابوں میں تو انہی کی صحیح احادیث میں ائمہ سے متعہ کی حرمت منقول ہے مگر شیعوں کا عمل یہ ہے کہ وہ نہ صرف متعہ کے حلال ہونے پر اصرار کرتے ہیں بلکہ اس کے فضائل بھی بیان کرتے ہیں اور پھر مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ شیعہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ متعہ کو دراصل حضرت عمر نے حرام کیا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے حضرت عمر کو حرام کرنے کا کیا اختیار تھا ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ انہوں نے جس طرح دوسرے اسلامی احکام کی تبلیغ میں بڑی شدت کے ساتھ حصہ لیا ہے اسی طرح انہوں نے متعہ کی حرمت کے اعلان میں بھی بڑی شدومد کے ساتھ کوشش کی ہے۔ چنانچہ ان کا آخری اعلان یہ تھا کہ اگر میں نے سنا کہ کسی نے متعہ کیا ہے تو میں اس کو زنا کی سزا دوں گا ان کے اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ اس وقت کی متعہ کی حرمت سے ناواقف تھے وہ بھی واقف ہو گئے لہذا حضرت عمر نے تو صرف اتنا کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک حکم کی تبلیغ کر دی اب اگر شیعہ یہ کہیں کہ متعہ کو حضرت عمر نے حرام کیا ہے تو اس کی ایک مضحکہ خیز الزام سے زیادہ کوئی اور اہمیت نہیں ہو گی۔

 

 

٭٭ اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ اوطاس کے تین یوم کے لئے متعہ کی اجازت دی تھی پھر اس سے ہمیشہ کے لئے منع کر دیا (مسلم)

 

تشریح

 

 اوطاس ایک وادی کا نام ہے جو مکہ مکرمہ کے قریب طائف جانے والے راستہ میں واقع ہے اور جس کے گرد وپیش قبیلہ ہوازن کی شاخیں آباد تھیں اس کو وادی حنین بھی کہتے ہیں جب رمضان المبارک ٨ھ میں مکہ فتح ہو گیا اور اسلام کی طاقت نے گویا پورے عرب کے باطل عناصر کو حق کے سامنے سرنگوں کر دیا تو اوطاس میں بسنے والے ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کو بڑی غیرت آئی اور انہوں نے پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ایک مرتبہ اسلام کے مقابلہ کی ٹھانی چنانچہ شوال ٨ھ میں ان قبیلوں کے لوگوں کے ساتھ اوطاس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں وہ جنگ ہوئی جسے غزوہ حنین کہا جاتا ہے اور غزوہ اوطاس اور غزوہ ہوازن کے نام سے بھی اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو سر بلند کیا اور اسلامی لشکر کو فتح عطاء فرمائی اس غزوہ میں غنیمت کے طور پر مسلمانوں کو بہت زیادہ مال و اسباب ہاتھ لگا چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور تقریباً چالیس ہزار روپیہ کی مالیت کی چاندی پر مسلمانوں نے قبضہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سارا مال غنیمت وہیں اوطاس میں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔

بہرحال متعہ کی تحلیل و تحریم دوسری مرتبہ اسی جنگ اوطاس کے موقع پر ہوئی ہے اور یہ جنگ چونکہ فتح مکہ کے فوراً بعد ہوئی ہے اس لئے اس موقع پر متعہ کی ہونے والی تحلیل و تحریم کی نسبت کو فتح مکہ کے دن کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ گویا اس سے پہلے کی حدیث کی تشریح میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ متہ کی تحلیل و تحریم دوسری مرتبہ فتح مکہ کے دن ہوئی ہے تو وہاں فتح مکہ کے دن سے مراد فتح مکہ کے سال ہے، لہذا اب بات یوں ہو گی کہ دوسری مرتبہ متعہ کی تحلیل و تحریم فتح مکہ کے سال یعنی ٨ھ میں جنگ اوطاس کے موقع پر ہوئی ہے۔

نکاح کا خطبہ

حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نماز میں پڑھا جانے والا تشہد بھی سکھایا اور کسی حاجت و ضرورت کے وقت جو تشہد پڑھا جائے اس کی تعلیم بھی دی۔ چنانچہ نماز کا تشہد تو یوں ہے۔

زبان کی عبادتیں، بدنی عبادتیں اور مالی عبادتیں سب اللہ کے لئے ہیں اے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ہو اور ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور کسی حاجت و ضرورت کے وقت پڑھا جانے والا تشہد یہ ہے:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ہم اس سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے بخشش کے طلبگار ہیں اور ہم اپنے نفس کی ہر برائی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جس کو اللہ ہدایت کی توفیق دے دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں یعنی نہ شیطان بہکا سکتا ہے اور نہ نفس گمراہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی اور گمراہی میں مبتلا کر سکتا ہے) اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

پھر اس تشہد کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم کی تین آیتیں پڑھتے ایک آیت یہ ہے

اے ایمان والو خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا،

دوسری آیت یہ ہے

اے ایمان والو! خدا سے ڈرو جس کے نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو اور قطع مودت ارحام سے بچو بیشک خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔

تیسری آیت یہ ہے

اے ایمان والو! خدا سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو وہ تمہارے سب اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک بڑی مراد پائے گا۔

 اور جامع ترمذی میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ان تینوں آیتوں کو سفیان ثوری نے بیان کیا ہے۔

ابن ماجہ نے ان الحمد للہ کے بعد نحمدہ اور من شرور انفسنا کے بعد ومن سیأت اعمالنا کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے اور دارمی نے اپنی روایت میں عظیما کے بعد یہ اضافہ کیا ہے کہ یہ تشہد اور آیتیں پڑنے کے بعد اپنی حاجت یعنی عقد کے الفاظ بیان کرے۔

 

 

٭٭ اور شرح السنۃ میں اب مسعود کی اس روایت کو نقل کیا ہے اس میں خطبہ حاجت کی وضاحت نکاح وغیرہ سے کی گئی ہے یعنی شرح السنۃ نے لفظ حاجت کی توضیح میں من النکاح وغیرہ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے (احمد ترمذی ابو داؤد)

 

تشریح

 

 تشہد کے معنی ایمان کی گواہی کا اظہار کرنا اور زین العرب نے کہا ہے کہ یہاں تشہد سے مراد وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور دونوں کلمہ شہادت کا ذکر ہو۔

حاجت و ضرورت سے مراد نکاح وغیرہ ہے اور حاجت و ضرورت کے وقت پڑھے جانے والے تشہد سے مراد وہ خطبہ ہے جو نکاح وغیرہ کے وقت پڑھا جاتا ہے یہ بات پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک صرف نکاح ہی میں نہیں بلکہ تمام عقود کے وقت خطبہ پڑھنا مسنون ہے

روایت میں جو دوسری آیت نقل کی گئی ہے۔ اس میں (یا ایہا الذین آمنوا) کے الفاظ بھی ہیں اور یہ آیت مشکوٰۃ کے تمام نسخوں میں اسی طرح نقل ہوئی ہے حالانکہ قرآن کریم میں یہ آیت یوں نہیں ہے بلکہ دراصل سورۃ نساء کی پہلی آیت کا ٹکڑا ہے جو (یا ایہا الذین امنوا) کے بغیر اس طرح ہے آیت (وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِی تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیكُمْ رَقِیباً) 4۔ النساء:1) لہذا ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کا جو مصحف حضرت ابن مسعود کے پاس تھا اس میں یہ آیت اسی طرح ہو۔

حصن حصین سے مفہوم ہوتا ہے کہ ابو داؤد نے مذکورہ خطبہ میں لفظ ورسولہ کے بعد یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں آیت (ارسلہ باالحق بشیرا ونذیرا بین یدی الساعۃ من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما فلا یضر الا نفسہٖ ولا یضر اللہ شیأ)

جو شخص عقد کرانے بیٹھے وہ پہلے یہ خطبہ پڑھے اور پھر اس کے بعد ایجاب و قبول کرائے اور ایجاب و قبول میں ان باتوں کا لحاظ رکھے جو ضروری ہیں اور جن کا ذکر کتاب النکاح کی ابتداء میں ہو چکا ہے۔

خطبہ کے بغیر نکاح بے برکت رہتا ہے

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس خطبہ میں تشہد یعنی خدا کی حمد وثناء نہ ہو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کی طرح ہے (ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس طرح کٹا ہوا ہاتھ بے فائدہ ہوتا ہے کہ ہاتھ والا اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اسی طرح خطبہ کے بغیر نکاح بھی بے فائدہ ہے کہ وہ خیر و برکت سے خالی رہتا ہے۔

ملا علی قاری نے اپنی شرح میں لفظ خطبہ کو خ کے زیر کے ساتھ لکھا ہے اور اس کے معنی تزویج یعنی نکاح کرنا بیان کئے ہیں جب کہ حضرت مولانا شاہ اسحٰق دہلوی نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے اساتذہ سے اس لفظ کو خ کے پیش کے ساتھ خطبہ سنا ہے اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی کے کلام سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے۔

 اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس اہم اور عظیم الشان کام کو خدا کی حمد وثناء کے بغیر شروع کیا جائے وہ بے برکت ہو جاتا ہے (ابن ماجہ)

نکاح کا اعلان کرنا مستحب ہے

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نکاح کا اعلان کیا کرو نکاح مسجد کے اندر کیا کرو اور نکاح کے وقت دف بجایا کرو ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 اعلان سے مراد اگر گواہوں کی موجودگی ہو کہ نکاح گواہوں کے سامنے کیا جائے تو یہ حکم بطریق وجوب ہو گا اور اگر اعلان سے مراد تشہیر ہو کہ نکاح کی مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کرو تو پھر یہ حکم بطریق استحباب ہو گا۔

مسجد میں نکاح کرنا مستحب ہے اسی طرح جمعہ کے دن نکاح کرنا مستحب ہے کیونکہ مسجد میں اور جمعہ کے دن نکاح کرنے سے برکت حاصل ہوتی ہے۔

 اور حضرت محمد بن حاطب جمحی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حلال اور حرام کے درمیان فرق نکاح میں آواز اور دف بجانا ہے (احمد ترمذی نسائی ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 آواز سے مراد تو گانا ہے یا لوگوں کے درمیان نکاح کا ذکر و اعلان کرنا ہے حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر آواز اور دف کے نکاح ہوتا ہی نہیں کیونکہ نکاح دو گواہوں کے سامنے بھی ہو جاتا ہے بلکہ اس حدیث کا مقصد لوگوں کو اس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ نکاح کی مجلس علانیہ طور پر منعقد کی جائے اور لوگوں میں اس کی تشہیر کی جائے اب رہی یہ بات کہ تشہیر کی حد کیا ہے؟ تو وہ یہ ہے کہ اگر ایک مکان میں نکاح ہو تو دوسرے مکان میں یا پڑوس میں اس کا علم ہو جائے اور یہ چیز دف بجانے یا آواز کے ذریعہ یعنی گوئی نظم و گیت پڑھنے گانے سے) حاصل ہوتی ہے تشہیر کا مطلب قطعاً نہیں ہے کہ محلوں اور شہروں میں شہنائی نوبت اور باجوں کے شور و شغب کے ذریعہ نکاح کا اعلان کیا جائے۔

شادی میں گانے کی اجازت

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک انصاری لڑکی تھی جب میں نے اس کا نکاح کسی سے کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عائشہ! کیا تم گانے کے لئے کسی سے نہیں کہہ رہی ہو؟ کیونکہ یہ انصار کی قوم گانے کو بہت پسند کرتی ہے؟ (اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے)

 

تشریح

 

 یہ لڑکی جو حضرت عائشہ کے پاس رہا کرتی تھی اور جس کا نکاح انہوں نے کیا تھا تو ان کے قرابت داروں میں سے کسی کی تھی جیسا کہ آگے آنے والی حدیث وضاحت کر رہی ہے یا پھر کوئی یتیمہ رہی ہو گی جسے انہوں نے اپنے یہاں رکھ کر پالا پوسا تھا۔

مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد کوئی عبارت نہیں لکھی ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ کو اس روایت کے اصل مآخذ کا علم نہیں ہو سکا تھا پھر بعد میں دوسرے علماء نے حاشیہ پر یہ عبارت ابن حبان فی صحیحہ (یعنی اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے (لکھ دی ہے)

 اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ نے ایک لڑکی کا نکاح کیا جو انصاری تھی اور ان کے قرابتداروں میں سے تھی چنانچہ جب نکاح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا تم نے اس لڑکی کو کہ جس کا نکاح کیا گیا ہے۔ اس کے خاوند کے گھر بھیج دیا ؟ گھر والوں نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ کسی گانے والے کو بھی بھیجا ہے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انصار ایک ایسی قوم ہے جس میں گانے کا شوق ہے کاش! تم اس کے ساتھ کسی ایسے شخص کو بھیج دیتیں جو یہ گاتا ہوا جاتا (اتیناکم اتیناکم فحیانا وحیاکم) (یعنی ہم تمہارے پاس آئے ہم تمہارے پاس آئے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور تمہیں بھی سلامتی کے ساتھ رکھے (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 شادی بیاہ کے موقع پر طربیہ اشعار کے ذریعہ خوشی و مسرت کا اظہار ایک قدیم روایت ہے چنانچہ انصار میں بھی یہ روایت جاری تھی اور وہ اسے پسند بہت کرتے تھے اسی وجہ سے جب حضرت عائشہ نے اس انصار کی لڑکی کا نکاح کیا اور اس کے ساتھ کسی گانے والے کو نہیں بھیجا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر اس لڑ کی کے ساتھ کوئی گانے والا بھی جاتا تو اس موقع پر اس کے طربیہ اشعار لڑکی کے سسرال والوں کے جذبات مسرت و خوشی میں یقیناً اضافہ کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طربیہ گیت کا ایک مصرعہ بھی پڑھ کر سنایا جو عرب میں شادی بیاہ کے موقع پر گایا جاتا تھا، چنانچہ وہ پورا شعر یوں ہے۔

(اتیناکم اتیناکم فحیانا وحیاکم

ولا الحنطۃ السمراء لم تسمن عذاراکم)

ہم تمہارے پاس آئے خداوند تعالیٰ تمہیں بھی اور ہمیں بھی سلامتی کے ساتھ رکھے۔ اگر سرخ گیہوں نہ ہوتے تو تمہاری کنواریاں گداز بدن والی نہ ہوتیں۔

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ دوسرا مصرعہ ولا الحنطۃ کے بجائے یہ ہے

(ولولا العجوۃ السوداء ماکنا بواواکم)

اگر سیاہ کھجوریں نہ ہوتیں تو ہم تمہارے مکانوں میں نہ رہتے (بلکہ بھوک کے مارے کہیں نکل جاتے)

دو نکاحوں میں پہلا نکاح درست ہے

اور حضرت سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس عورت کے دو ولی اس کا نکاح کر دیں تو وہ عورت ان دونوں میں سے اس کے لئے ہے جس کے ساتھ نکاح پہلے ہوا ہے اور جو شخص کسی ایک چیز کو) دو آدمیوں کے ہاتھ بیچے تو وہ چیز ان دونوں میں سے اس کے لئے ہے جسے پہلے بیچی گئی ہے (ترمذی ابو داؤد نسائی دارمی)

 

تشریح

 

 کسی عورت کے دو ولی ہوں اور دونوں ولی اس عورت کا نکاح الگ الگ وقتوں میں دو مردوں سے کر دیں بایں طور کہ پہلے ایک ولی نے کسی شخص سے نکاح کر دیا پھر دوسرے ولی نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر دیا تو دوسرے ولی کا کیا ہوا نکاح باطل ہو گا اور وہ عورت اسی شخص کی بیوی ہو گی جس سے پہلے نکاح ہوا ہے لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ دونوں ولی ایک ہی درجہ کے ہوں یعنی دونوں یکساں قرابت رکھتے ہوں اگر دونوں ولی ایک درجے کے نہ ہوں تو پھر وہ ولی مقدم ہو گا جو اقرب ہو یعنی قریبی قرابت رکھتا ہو لہذا اس صورت میں وہ عورت اس شخص کی بیوی ہو گی جس سے اس کے قریبی قرابت والے ولی نے نکاح کیا ہے چاہے اس نے پہلے نکاح کیا ہو اور چاہے بعد میں کیا ہو۔ اور اگر عورت کے یکساں درجہ والے دو ولی اس کا نکاح ایک وقت میں دو الگ الگ مردوں سے کر دیں مثلاً ایک ولی نے زید سے نکاح کیا اور ٹھیک اسی وقت دوسرے ولی نے بکر سے اس کا نکاح کیا تو اس صورت میں متفقہ طور پر تمام علماء کا مسلک یہ ہے کہ دونوں ہی نکاح باطل ہو گئے۔

متعہ ابتداء اسلام میں جائز تھا

حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ ایک غزوہ کے موقع پر ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ شریک جہاد تھے اور اس وقت ہمارے ساتھ ہماری عورتیں یعنی بیویاں اور لونڈیاں نہیں تھیں چنانچہ جب عورتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم جنسی ہیجان سے پریشان ہوئے تو (ہم نے کہا کہ کیا ہم خصی نہ ہو جائیں تا کہ جنسی ہیجان اور شیطان کے وسوسوں سے ہمیں نجات مل جائے) لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو اس سے تو منع فرما دیا البتہ ہمیں متعہ کرنے کی اجازت دے دی چنانچہ ہم میں سے بعض لوگ کپڑے کے معاوضہ پر ایک معینہ مدت کے لئے عورت سے نکاح (متعہ) کر لیتے تھے۔ اس کے بعد ابن مسعود نے یہ آیت پڑھی (یٰٓاَیھَاالَّذِینَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ) 5۔ المائدہ:87) (اے ایمان والو! جن پاک چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے ان کو حرام نہ سمجھو) بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یہ حدیث متعہ کی اجازت پر دلالت کرتی ہے چنانچہ ابتداء اسلام میں متعہ کی اجازت تھی مگر بعد میں یہ اجازت منسوخ ہو گئی اور اب متعہ کرنا حرام ہے جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے بھی معلوم ہو گا اور پہلے بھی وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے متعہ کی اجازت کا منسوخ ہونا ثابت ہو چکا ہے۔

حضرت ابن مسعود کا مذکورہ بالا آیت پڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت ابن مسعود بھی حضرت ابن عباس کی طرح متعہ کی مباح ہونے کے قائل تھے، لیکن حضرت ابن عباس کے بارے میں تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا اور وہ بھی متعہ کے حرام ہونے کے قائل ہو گئے تھے جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے معلوم ہو گا اب رہی حضرت ابن مسعود کی بات تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے بھی اس کے بعد اس سے رجوع کر لیا ہو اور وہ بھی متعہ کے حرام ہونے کے قائل ہو گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں جواز متعہ کے منسوخ ہونے کا صریح حکم معلوم ہی نہ ہوا ہو اور اس وجہ سے وہ آخر تک جواز متعہ کے قائل رہے ہوں۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ متعہ کا جواز صرف ابتداء اسلام میں تھا اور اس وقت متعہ کی ایک صورت یہ ہوتی تھی کہ) جب کوئی مرد کسی شہر میں جاتا اور وہاں لوگوں سے اس کی کوئی شناسائی نہ ہوتی کہ جن کے ہاں وہ اپنے قیام و طعام کا بندوبست کرتا تو وہاں کسی عورت سے اتنی مدت کے لیے نکاح کر لیتا جتنی مدت اس کو ٹھہرنا ہوتا چنانچہ وہ عورت اس کے سامان کی دیکھ بھال کرتی اور اس کا کھانا پکاتی یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (الا علی ازواجہم او ما ملکت ایمانہم) (حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ان دونوں یعنی بیوی اور لونڈی کی شرمگاہ کے علاوہ ہر شرمگاہ حرام ہے (ترمذی)

 

تشریح

 

 آیت کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے محفوظ رکھتے ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے لیکن جو لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں پر قناعت نہیں کرتے یا جو لوگ نکاح کے ذریعہ اپنی شرعی طور پر اپنی جنسی خواہش کی تسکین کا سامان نہیں کرتے بلکہ غیر عورتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں وہ دراصل حلال سے گزر کر حرام کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں جن کے لیے سخت ملامت ہے۔

علامہ طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے حضرت ابن عباس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ پرہیزگار بندوں کی تعریف بیان کی ہے کہ وہ عورتوں سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اپنی بیویوں اور اپنی لونڈیوں سے اجتناب نہیں کرتے بلکہ ان کے ذریعہ اپنے جنسی جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ متعہ کی صورت میں جو اس عورت پر تسلط حاصل ہوتا ہے وہ نہ تو بیوی ہوتی ہے اور نہ مملوکہ لونڈی ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ بیوی ہوتی تو اس کے اور اس کے مرد کے درمیان میراث کا سلسلہ ضرور ہوتا اور یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ متعہ کی عورت کے ساتھ میراث کا کوئی سلسلہ قائم نہیں ہوتا چونکہ وہ عورت محض چند روز یعنی ایک متعین مدت کے لیے اجرت پر اپنے نفس کو اس مرد کے حوالہ کرتی ہے۔ اس لئے وہ مملوکہ بھی نہیں ہو سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص متعہ کے طور پر کسی عورت سے جنسی تسکین حاصل کرتا ہے تو وہ ان لوگوں کے زمرہ میں نہیں ہے جن کی توصیف مذکورہ آیت بیان کر رہی ہے۔

امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے متعہ کرتا ہے تو وہ عورت اس کی بیوی نہیں بنتی اور جب وہ بیوی نہیں بنتی تو پھر لامحالہ یہ واجب ہو گا کہ وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو۔

شیعوں کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان کے نزدیک متعہ جائز ہے چنانچہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ حضرت ابن عباس کے قول پر تو عمل کرتے ہوئے متعہ کو جائز کہتے ہیں۔ باوجودیکہ جواز متعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس کا اپنے قول سے رجوع کرنا ثابت ہو چکا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے مسلک و عقیدہ کو ترک کرتے ہیں اور انکے خلاف عمل کرتے ہیں جب کہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ جب حضرت علی نے یہ سنا کہ حضرت ابن عباس متعہ کو جائز کہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ابن عباس ایسا نہ کہو کیونکہ میں نے خود سنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے دن متعہ اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔

شادی بیاہ کے موقع پر گانے کی اجازت

اور حضرت عامر بن سعد تابعی کہتے ہیں کہ جب ایک شادی میں شرکت کے لئے پہنچا جہاں دو صحابی حضرت قرظہ بن کعب اور حضرت ابو مسعود انصاری بھی موجود تھے تو دیکھا کہ چند بچیاں گا رہی ہیں میں نے کہا کہ اے رسول کریم (صلی اللہ علیہ و سلم) کے صحابیو اور جنگ بدر میں شریک رہنے والو! کیا تمہارے سامنے بھی یہ گانا ہو رہا ہے؟ یہ سن کر ان دونوں صحابیوں نے کہا کہ بیٹھ جاؤ! اگر تمہارا جی چاہے تو تم بھی ہمارے ساتھ سنو اور چاہے چلے جاؤ، کیونکہ شادی بیاہ کے موقع پر ہمیں گیت گانے سننے کی اجازت دی گئی ہے (نسائی)

 

تشریح

 

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بھی گانے کی حرمت و کراہت ہی مشہور تھی عیدیں اور نکاح وغیرہ کی تخصیص بعض لوگوں کو تو معلوم تھی اور بعض لوگوں کو معلوم نہیں تھی، چنانچہ حضرت عامر بن سعد انہیں لوگوں میں سے تھے جنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ عیدیں اور شادی بیاہ وغیرہ میں گانا جائز ہے۔