ولی لغوی طور پر کارساز منتظم کو کہتے ہیں یعنی وہ شخص جو کسی کام کا منتظم ہو لیکن یہاں ولی سے مراد وہ شخص ہے جو کسیعورت کے نکاح کا متولی و ذمہ دار ہوتا ہے، بایں طور کہ اس عورت کے نکاح کا اختیار اسے حاصل ہوتا ہے۔
اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے یہ معلوم ہو گا کہ نکاح کے بارے میں ولی کی اجازت کا حاصل ہونا اور عورت کی رضا معلوم کرنا ضروری ہے۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ولایت یعنی کسی کے ولی ہونے کا حق کن کن لوگوں کو حاصل ہے چنانچہ جاننا چاہئے کہ نکاح کے سلسلہ میں ولایت کے اختیار اس کے ان رشتہ دار کو حاصل ہوتے ہیں جو عصبہ بنفسہٖ ٖ ہوں اگر کئی عصبات بنفسہٖ ٖ ہوں تو ان میں مقدم وہ ہو گا جو وراثت میں مقدم ہو گویا اس بارے میں عصبات کی وہ ترتیب رہے گی جو وراثت میں ہوتی ہے اگر عصبات بنفسہٖ ٖ میں کوئی نہ ہو تو ماں کو ولایت حاصل ہو گی پھر دادی کو (قنیہ میں اس کے برعکس ترتیب مذکور ہے) پھر بیٹی کو پھر پوتی کو پھر نواسی کو پھر پوتے کی بیٹی کو اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر نانا کو ولایت حاصل ہو گی پھر حقیقی بہن کو پھر سوتیلی بہن کو پھر ماں کی اولاد کو (خواہ مرد یا عورت ہوں) پھر اسی ترتیب کے مطابق ان کی اولاد کو اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو پھر ذوی الارحام کو حاصل ہو گی ذوی الارحام میں سب سے پہلے پھوپھیاں ولی ہوں گی ان کے بعد ماموں ان کے بعد خالائیں ان کے بعد چچا کی بیٹیاں اور ان کے بعد اسی ترتیب کے مطابق ان کی اولاد اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو حق ولایت مولی الموالات کو حاصل ہو گا مولی الموالات کے معنی باب الفرائض میں بیان ہو چکے ہیں) اگر مولی الموالات بھی نہ ہو تو پھر بادشاہ وقت ولی ہو گا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو اس کے بعد بادشاہ وقت کا کوئی نائب مثلاً قاضی بھی ولی ہو سکتا ہے بشرطیکہ بادشاہ کی طرف سے اس کو یہ اختیار دیا گیا ہو اس کے بعد قاضی کے نائبوں کو حق ولایت حاصل ہو گا بشرطیکہ اپنا نائب بنانے کی اجازت واختیار قاضی کو حاصل ہو اگر قاضی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہو گی تو پھر اس کا کوئی بھی نائب ولی نہیں ہو سکے گا۔
ولایت کا حق حاصل ہونے کے لیے آزاد ہونا عاقل ہونا بالغ ہونا اور مسلمان ہونا شرط ہے لہذا کوئی غلام کسی کا ولی نہیں ہو سکتا کوئی نابالغ کسی کا ولی نہیں ہو سکتا، کوئی دیوانہ کسی کا ولی نہیں ہو سکتا اور پاگل کسی کا ولی نہیں ہو سکتا، اور نہ کوئی کافر کسی مسلمان کا ولی ہو سکتا ہے، اسی طرح کوئی مسلمان بھی کی کافر کا ولی نہیں ہو سکتا الا یہ کہ عام سبب پایا جائے جیسے کوئی مسلمان کسی کافرہ لونڈی کا آقا ہو یا مسلمان بادشاہ یا بادشاہ کا نائب ہو تو اس صورت میں مسلمان کافر کا ولی ہو سکتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایم (یعنی بیوہ بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے اسی طرح کنواری عورت (یعنی کنواری بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس کنواری عورت کی اجازت کیسے حاصل ہو گی (کیونکہ کنواری عورت تو بہت شرم و حیا کرتی ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس طرح کہ وہ چپکی رہے یعنی کوئی کنواری عورت اپنے نکاح کی اجات مانگے جانے پر اگر بسبب شرم و حیا زبان سے ہاں نہ کرے بلکہ خاموش رہے تو اس کی یہ خاموشی بھی اس کی اجازت سمجھی جائے گی (بخاری و مسلم)
تشریح
ایم اس عورت کو کہتے ہیں جس کا خاوند نہ ہو خواہ وہ باکرہ ہو (پہلے کبھی اس کی شادی نہ ہوئی ہو) خواہ ثیب ہو کہ پہلے اس کی شادی ہو چکی ہو اور پھر یا تو اس کا خاوند مر گیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو) لیکن یہاں ایم سے مراد ثیب بالغہ ہے یعنی وہ عورت جو بالغہ ہو اور اس کا پہلا شوہر یا تو مر گیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو۔
عورت سے اس کے نکاح کی اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں حدیث نے باکرہ کنواری اور ثیب بیوہ کا ذکر اس فرق کے ساتھ کیا ہے کہ ثیب کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا کہ جب تک اس کا حکم حاصل نہ کر لیا جائے اور باکرہ کے بارے میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے لہذا حکم اور اجازت کا یہ فرق اس لئے ظاہر کیا گیا ہے کہ ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں زیادہ شرم و حیا نہیں کرتی بلکہ وہ خود کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے یا کم سے کم صریح اشارات کے ذریعہ اپنی خواہش کا از خود اظہار کر دیتی ہے اور اس بارے میں کوئی خاص جھجک نہیں ہوتی اس کے برخلاف باکرہ یعنی کنواری عورت چونکہ بہت زیادہ شرم و حیا کرتی ہے اس لئے وہ نہ تو کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے اور نہ صریح اشارات کے ذریعہ ہی اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے ہاں جب اس کے نکاح کی اجازت اس سے لی جائے تو وہ اپنی رضا مندی و اجازت دیتی ہے بلکہ زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ طلب اجازت کے وقت وہ زبان سے اجازت دینا بھی شرم کے خلاف سمجھتی ہے اور اپنی خاموشی و سکوت کے ذریعہ ہی اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیتی ہے۔
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حکم یا اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہوتا لیکن فقہاء کے یہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ تمام عورتوں کی چار قسمیں ہیں اول ثیب بالغہ یعنی وہ بیوہ عورت جو بالغ ہو ایسی عورت کے بارے متفقہ طور پر تمام علماء کا قول یہ ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ وہ عاقلہ ہو یعنی دیوانی نہ ہو اگر عاقلہ نہ ہو گی تو ولی کی اجازت سے اس کا نکاح ہو جائے گا۔
دوم باکرہ صغیرہ یعنی وہ کنواری لڑکی جو نابالغ ہو، اس کے بارے میں بھی تمام علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ اس کے نکاح کے لئے اس کی اجازت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا ولی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کر سکتا ہے۔
سوم ثیب صغیرہ یعنی وہ بیوہ جو بالغ نہ ہو اس کے بارے میں حنفی علماء کا تو یہ قول ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر ہو سکتا ہے لیکن شافعی علماء کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔
چہارم باکرہ بالغہ یعنی وہ کنواری جو بالغہ ہو، اس کے بارے میں حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں لیکن شافعی علماء کے نزدیک جائز ہے۔
گویا تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ حنفی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار صغر پر ہے یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہو گا جب کہ وہ کمسن یعنی نابالغ ہو خواہ وہ باکرہ کنواری ہو یا ثیب بیوہ ہو جب کہ شافعی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار بکارت پر ہے یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اس صورت میں حاصل ہو گا جب کہ وہ باکرہ ہو خواہ بالغ ہو یا نابالغ ہو۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک بالغہ پر محمول ہے خواہ وہ ثیب ہو یا باکرہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی حدیث (ولا تنکح البکر حتی تستاذن) (کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے) شوافع کے قول کے خلاف ایک واضح دلیل ہے۔
٭٭ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایم یعنی وہ عورت جو بیوہ بالغہ اور عاقلہ ہو اپنے نکاح کے معاملہ میں اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی جو بالغ ہو بھی اس کی حق دار ہے کہ اس کے نکاح کی اس سے اجازت حاصل کی جائے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی زبان سے اجازت دے بلکہ اس کی شرم و حیا کے پیش نظر اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت کے لئے کافی ہے)
٭٭ ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے بارے میں اپنے والی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے بھی اس کے نکاح کی اجازت حاصل کی جائے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے۔
٭٭ اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ثیب اپنے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی بھی اس کا باپ اس کے نکاح کے بارے میں اجازت حاصل کرے اور اس کی اجازت اس کا چپ رہنا ہے (مسلم)
تشریح
اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ عورت اپنے نکاح کی اجازت دینے یا نہ دینے کے معاملے میں بالکل خود مختار ہے اور یہ کہ جب تک وہ خود اپنی زبان سے اجازت نہ دے دے اس کا نکاح نہیں ہو گا بخلاف کنواری عورت کے کہ اس کے لئے زبان سے اجازت دینا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ خاموشی کے ذریعہ بھی اپنی اجازت کا اظہار کر سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں باقی تفصیل و تشریح وہی ہے جو اس سے پہلے ذکر کی گئی ہے۔
یہاں جو کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں ان میں صرف تھوڑا سا اختلاف ہے مفہوم و معنی کے اعتبار سے تمام روایتیں تقریباً یکساں ہیں۔
اور حضرت خنساء بنت خذام سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح ان کی اجازت حاصل کئے بغیر) کر دیا جب کہ وہ بیوہ اور بالغہ تھیں چنانچہ انہوں نے اس عقد کو ناپسند کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اپنا معاملہ لیکر حاضر ہوئیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح یعنی ان کے والد کے نکاح کرنے کو رد کر دیا (بخاری) اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح جو ان کے والد نے کیا تھا رد کر دیا۔
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب کہ ان کی عمر سات سال کی تھی اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر بھیجی گئیں تو ان کی عمر نو سال کی تھی اور ان کے کھیلنے کے لئے) کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت عائشہ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوئے تو اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی (مسلم)
تشریح
یہ حدیث حضرت عائشہ کی ابتدائی زندگی کے تین اہم موڑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان کی رفاقت کی مدت کو ظاہر کرتی ہے۔ چنانچہ سات سال کی عمر میں حضرت عائشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجیت میں آئیں نو سال کی عمر میں رخصت ہو کر آستانہ نبوت میں لائی گئیں اور نو سال کی رفاقت کے بعد جب کہ ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے۔
نو سال کی عمر بچپن کی عمر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں تشریف لائیں تو ان کے ساتھ وہ کھلونے بھی آئے جن سے وہ اپنے گھر کھیلا کرتی تھیں اور یہ کھلونے بھی کیا تھے وہ گڑیاں تھیں جو عام طور پر بچیوں کا سب سے محبوب کھلونا ہوتی ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان گڑیوں کو دیکھا تو ان پر اظہار ناپسندیدگی نہیں کیا لہذا اس سے یہ معلوم ہوا کہ گڑیوں کا بنانا جائز ہے اور بچیوں کو گڑیوں سے کھیلنا مباح ہے، اس کا سبب علماء نے یہ لکھا ہے کہ گڑیوں سے کھیلنا دراصل بچیوں کے لئے ایک سبق بھی ہے جس سے وہ اولاد کی پرورش سینا پرونا اور گھر کی اصلاح و انتظام کی تربیت حاصل کرتی ہیں تاہم اس بارے میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ ہجرت کا ہے اور اس وقت تک تصویر کی حرمت نازل نہیں ہوئی ہو گی۔ جب کہ علماء نے یہ کہا ہے کہ حضرت عائشہ اپنے ساتھ پڑیاں لیکر آئی تھیں ان میں صورتیں بنی ہوئی نہیں تھیں جو تصویروں میں ہوتی ہیں اور حرام ہیں بلکہ کپڑوں اور چیتھڑوں کو لپیٹ کر بغیر صورتوں کے یوں ہی بنائی گئی تھیں۔
حضرت ابو موسیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا (احمد ترمذی)
تشریح
حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق نابالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے یعنی کمسن لڑکی اور دیوانی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا جب کہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد نے حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ نکاح اسی وقت صحیح ہوتا ہے جب کہ ولی عقد کرے اور عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح منعقد نہیں ہوتا عورت خواہ اصیلہ ہو یا وکیلہ ہو۔
علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نابالغہ اور غیر عاقلہ پر محمول نہ ماننے بلکہ رکھنے کی صورت میں) جمہور علماء نے نفی صحت پر اور امام ابو حنیفہ نے نفی کمال پر محمول کیا ہے۔
٭٭ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس عورت نے اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کیا تو اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، پھر اگر شوہر نے اس کے ساتھ مجامعت کی تو وہ مہر کی حق دار ہو گی کیونکہ شوہر نے اس کی شرم گاہ سے فائدہ اٹھایا ہے اور اگر کسی عورت کے ولی باہم اختلاف کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی بادشاہ ہے (احمد ترمذی)
تشریح
اس کا نکاح باطل ہے، یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار ارشاد فرما کر گویا ولی کی اجازت کے بغیر ہونے والے نکاح پر متنبہ کیا اور اس بات کی تاکید فرمائی کہ نکاح کے معاملہ میں ولی کی اجازت و مرضی کو بنیادی درجہ حاصل ہونا چاہئے، اس طرح یہ حدیث اور اسی مضمون کی دوسری حدیثیں ارشاد گرامی (الایم احق بنفسہٖ ا من ولیہا) (ایم کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا حکم حاصل نہ کر لیا جائے) کے معارض و برعکس ہیں اس لئے حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر کفو سے نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے یا یہ کہ جو کمسن لڑکی یا لونڈی اور یا مکاتبہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کا نکاح باطل ہو گا۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث یہ دونوں فنی طور پر اس درجہ کی نہیں ہیں کہ انہیں کسی مسلک کے خلاف بطور دلیل اختیار کیا جا سکے کیونکہ ان دونوں حدیثوں کے صحیح ہونے میں محدثین نے کلام کیا ہے۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی عورت کے ولی آپس میں اختلاف و نزاع کرتے ہیں اور کسی فیصلہ پر متفق نہیں ہو پاتے تو وہ سب کالعدم ہو جاتے ہیں اور اس صورت میں ولایت کا حق بادشاہ وقت کو حاصل ہوتا ہے ورنہ تو یہ معلوم ہی ہے کہ ولی کی موجودگی میں بادشاہ کو ولایت کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ عورتیں زنا میں مبتلا ہوتی ہیں جو بغیر گواہوں کے اپنا نکاح کرتی ہیں اس روایت کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حضرت ابن عباس پر موقوف ہے یعنی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابن عباس کا قول ہے (ترمذی)
تشریح
نکاح کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے منعقد ہو چنانچہ اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا۔ تمام ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے اور صحابہ وتابعین سے بھی یہی منقول ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بالغہ کنواری عورت سے اس کے نکاح کے بارے میں اجازت حاصل کی جائے اور اگر وہ طلب اجازت کے وقت خاموش رہے تو اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو اس پر جبر نہ کیا جائے (ترمذی ابو داؤد، نسائی) دارمی نے اس روایت کو حضرت ابو موسیٰ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
شادی بیاہ کا معاملہ انسانی زندگی کا بڑا اہم موڑ ہوتا ہے اس موڑ پر زوجین کی مرضی و خواہش کے علی الرغم والدین اور ولی و سرپرست کا کوئی بھی فیصلہ اور اس میں ادنی درجہ کی کوتاہی اور غیر دانشمندی زوجین کی پوری زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے۔ اس لئے شریعت نے ہر بالغ مسلمان کو خواہ مرد ہو یا عورت یہ حق دیا ہے کہ وہ اس مرحلہ پر اپنی مرضی و خواہش اور اپنی پسند و ناپسند کا پورا پورا اظہار کرے۔ خاص طور پر عورتوں کے بارے میں ان کے ماں باپ اور ولی سرپرست پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنی ذاتی پسند و ناپسند ہی کو مدار قرار نہ دیں بلکہ عورت کو خود بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دیں اور اس کی اجازت و مرضی ہی کو اصل فیصلہ سمجھیں۔ پھر اس کی اجازت کے بارے میں یہ آسانی بھی دی گئی ہے کہ اگر کوئی عورت شرم و حیا کی وجہ سے اپنی اجازت و مرضی کا زبان سے اظہار نہیں کر سکتی تو اس کی خاموشی ہی کو اس کی اجازت سمجھا جائے۔
لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ عورت کی خاموشی کو اس کی اجازت کا قائم مقام ہونا صرف اس کے ولی کے حق میں ہے یعنی عورت اگر اپنے ولی کی طلب اجازت کے موقع پر خاموش رہے تو اس کی خاموشی اس کی اجازت سمجھی جائے گی اور اگر ولی کے علاوہ کوئی اور اجازت طلب کرے تو اس صورت میں عورت کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ زبان سے اجازت دے۔
اور حضرت جابر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے وہ زانی ہے (ترمذی، ابو داؤد،دارمی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ مملوک کا نکاح مالک کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں ہوتا لہذا اگر کوئی مملوک اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا اور اس نکاح کے بعد منکوحہ سے مجامعت کرے گا تو یہ فعل حرام ہو گا اور وہ زنا کار کہلائے گا چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے کہ غلام کا نکاح اس کے آقا کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہوتا اور نکاح کے بعد اگر آقا اجازت دے دے تب بھی وہ عقد صحیح نہیں ہوتا جبکہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ آقا کی اجازت کے بغیر نکاح تو ہو جاتا ہے مگر اس کا نافذ ہونا یعنی صحیح ہونا آقا کی اجازت پر موقوف رہتا ہے کہ جب آقا اجازت دے دے گا تو صحیح ہو جائے گا جیسا کہ فضولی کے نکاح کا حکم ہے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن ایک کنواری عورت جو بالغ تھی) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے یہ بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اختیار دے دیا کہ چاہے تو وہ نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو فسخ کر دے (ابو داؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نکاح کے معاملہ میں عورت پر جبر کرے اگرچہ وہ باکرہ ہی کیوں نہ ہو اور ولی خواہ باپ دادا ہو یا اور کوئی عزیز چنانچہ حنفیہ کا یہی مسلک ہے۔
اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جو عورت کنواری نہ ہو گو وہ بالغ ہو تو ولی کو اس کا نکاح کرنے کے معاملہ میں اس پر جبر کرنے کا حق نہیں ہے لیکن عورت کنواری ہو اس کی اجازت کے بجز نکاح کر دینے کا اختیار ولی کو حاصل ہے اگرچہ وہ عورت بالغہ ہی کیوں نہ ہو۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے کیونکہ وہ عورت زنا میں مبتلا رہتی ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے (ابن ماجہ)
تشریح
عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے حنفیہ کے نزدیک اس ممانعت کا تعلق یا تو اس عورت سے ہے جس کو ولایت حاصل نہ ہو یا پھر یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے کیونکہ اگرچہ بالغہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر خود کر لے یا کسی کو بھی اپنا وکیل بنا لے۔ لیکن اس کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے نکاح کا معاملہ اپنے ولی ہی کو سپرد کر دے چنانچہ اگر کسی عورت کا ولی موجود ہو تو اس عورت کا نکاح اسی کو کرنا مستحب ہے اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے اگر کسی کا کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو پھر اس کا ولی قاضی ہوتا ہے۔
لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بہتر اور مناسب بات یہ ہے کہ جس عورت کا ولی موجود ہو تو کوئی دوسری عورت اس کا نکاح نہ کرے بلکہ وہ ولی خود کرے اور اگر ولی موجود نہ ہو تو پھر قاضی کو حق ولایت حاصل ہو گا جو اس عورت کا نکاح کرے گا
نہ عورت خود اپنا نکاح کرے حنفیہ کے نزدیک مراد یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح نہ کرے۔ اس طرح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب حنفیہ کی مراد کی روشنی میں تو یہ ہو گا کہ جو عورت اس شوہر سے مجامعت کرے گی جس سے اس نے بغیر گواہوں کے اور اس کے غیر کفو ہونے کے باوجود نکاح کیا ہے تو اس کی مجامعت زنا کے حکم میں ہو گی اور حضرت امام شافعی کی مراد کی روشنی میں یہ مطلب ہو گا کہ جو عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح کرے گی تو وہ جب بھی اپنے اس شوہر سے مجامعت کرے گی گویا زنا کا ارتکاب کرے گی کیونکہ امام شافعی کے نزدیک جس طرح کسی عورت کو کسی دوسری عورت کا عقد کرنے کی ولایت حاصل نہیں ہوتی اسی طرح کوئی عورت خود اپنا عقد نکاح کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتی۔ چنانچہ شوافع کے ہاں عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح صحیح نہیں ہوتا۔
اور حضرت ابو سعید اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو چاہئے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے نیک ادب سکھائے (یعنی اسے شریعت کے احکام و آداب و زندگی کے بہترین طریقے سکھائے تا کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و سربلند ہو) اور پھر جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر لڑکا بالغ ہو اور غیر مستطیع ہو اور اس کا باپ اس اس کا نکاح کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکا برائی میں مبتلا ہو جائے یعنی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جائے) تو اس کا گناہ باپ پر ہو گا۔
تشریح
صالح معاشرہ کی حقیقی بنیاد وہ نوخیز ذہن ہیں جو اپنے والدین اور سرپرست کی آغوش پرورش میں اعمال و کردار کی بنیادی تربیت حاصل کرتے ہیں اگر اس بنیادی تربیت کا فقدان ہوتا ہے تو کائنات انسانی کا ہر طبقہ بھیانک قسم کی برائیوں سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ آگے چل کر یہی نوخیز معاشرہ کا فعال جزء بنتے ہیں اور ان کا ایک ایک فعل و عمل اپنے اثرات پیدا کرتا ہے۔
آج کے دور میں فحاشی و بے حیائی اور جنسی بے راہ روی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ جو بھی نئی نسل سامنے آتی ہے وہ اعمال و کردار اور ذہن و عقیدہ کی اس بنیادی تربیت سے یکسر محروم رہتی ہے جو والدین اور سرپرستوں کے زیر سایہ ملنی چاہئے۔ اسی لئے یہ حدیث اس اہم نکتہ کی طرف متنبہ کر رہی ہے اور والدین کو ان کے اس فریضہ سے آگاہ کر رہی ہے کہ جب ان کے لڑا پیدا ہو تو پہلے وہ اس کا اچھا نام رکھیں کیونکہ اچھا نام پوری زندگی پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے پھر جب وہ ہوش سنبھالے تو اس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں بایں طور کہ اسے دین کی تعلیم دلوائیں اسلامی احکام و آداب سے روشناس کرائیں اور اسے زندگی کے اعلی اصول اور اچھے طریقوں کے سانچے میں ڈھا لیں تا کہ سب سے پہلے تو اس کا قلب و دماغ نیکی و برائی کے امتیاز کو جان لے اور پھر اس کا کردار اس پختگی کے حامل ہو جائے جو زندگی کے ہر راستہ پر اسے نیکی و بھلائی ہی کی طرف لے جائے۔
جب تعلیم و تربیت کا یہ مرحلہ گزر جائے اور وہ لڑکا بالغ ہو جائے تو اس کے بعد والدین کا بڑا فریضہ یہ ہے کہ اس کی شادی کی طرف فوراً متوجہ ہوں تاکہ وہ مرد زندگی کی وجہ سے جنسی جذبات کی مغلوبیت کا شکار ہو کر برائیوں کے راستہ پر نہ لگ جائے چنانچہ اس فریضہ کی اہمیت کو بتانے اور اس بات کو بتانے اور اس بات کی تاکید کے لئے بطور زجر و تہدید یہ فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنے بالغ لڑکے کی شادی نہیں کی اور وہ لڑکا جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر بدکاری میں مبتلا ہو گیا تو اس کا گناہ اور وبال باپ پر ہو گا۔ اس بارے میں غلام اور لونڈی کا بھی وہی حکم ہے جو لڑکے کا ہے۔
اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت انس بن مالک جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تورات میں لکھا ہوا ہے کہ جس شخص کی لڑکی کی عمر بارے سال کی ہو جائے اور وہ کفو پانے کے باوجود اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکی برائی یعنی بدکاری وغیرہ میں مبتلا ہو جائے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہے ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔