حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبَرُّ ؟ قَالَ: " أُمَّكَ "، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ: " أُمَّكَ "، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ: " أُمَّكَ "، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ: " ثُمَّ أَبَاكَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ، فَالْأَقْرَبَ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَبَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ هُوَ أَبْنُ مُعَاوِيَةَ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَرَوَى عَنْهُ مَعْمَرٌ، وَالثَّوْرِيُّ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میں کس کے ساتھ نیک سلوک اور صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: "اپنی ماں کے ساتھ"، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: "اپنی ماں کے ساتھ"، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: "اپنی ماں کے ساتھ"، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: "پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر رشتہ داروں کے ساتھ پھر سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار پھر اس کے بعد کا، درجہ بدرجہ" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، شعبہ نے بہز بن حکیم کے بارے میں کلام کیا ہے، محدثین کے نزدیک وہ ثقہ ہیں، ان سے معمر، ثوری، حماد بن سلمہ اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، عائشہ اور ابو الدرداء رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۲۹ (۵۱۳۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۸۸۳) ، و مسند احمد (۵/۳، ۵) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : ماں کو تین مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے : ایک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب نو ماہ تک بچہ کو پیٹ میں رکھ کر مشقت و تکلیف برداشت کرتی ہے ، دوسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب بچہ جننے کا وقت آتا ہے ، وضع حمل کے وقت کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ماں ہی کو معلوم ہے ، تیسرا مرحلہ دودھ پلانے کا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ماں کو قرابت داروں میں نیکی اور صلہ رحمی کے لیے سب سے افضل اور سب سے مستحق قرار دیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، عَنِ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: " الصَّلَاةُ لِمِيقَاتِهَا "، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " بِرُّ الْوَالِدَيْنِ "، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، ثُمَّ سَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُ الشَّيْبَانِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وأَبُو عَمْروٍ الشَّيْبَانِيَّ اسْمُهُ سَعْدُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:"وقت پر نماز ادا کرنا"، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: "ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا"، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، حالانکہ اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ زیادہ بتاتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ابوعمرو شیبانی، شعبہ اور کئی لوگوں نے ولید بن عیزار سے روایت کی ہے، ۳- یہ حدیث ابوعمرو شیبانی کے واسطہ سے ابن مسعود سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۷۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد سب سے افضل و بہتر عمل ہے ، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا یہ سب سے اچھا کام ہے ، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ سب سے اچھا کام ہے ، جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز سب سے افضل عمل ہے ، اسی لیے اس کی توجیہ میں مختلف اقوال وارد ہیں ، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ " افضل اعمال " سے پہلے حرف «مِن» محذوف مان لیا جائے ، گویا مفہوم یہ ہو گا کہ یہ سب افضل اعمال میں سے ہیں ، دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس کا تعلق سائل کے احوال اور وقت کے اختلاف سے ہے ، یعنی سائل اور وقت کے تقاضے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مناسب جواب دیا گیا۔ اور اپنی جگہ پر یہ سب اچھے کام ہیں۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنّ لِيَ امْرَأَةً، وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ "، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: إِنَّ أُمِّي، وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے، (میں کیا کروں؟)ابوالدرداء رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو" ۱؎۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی» (میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی» (میرا باپ) کہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۶ (۲۹۸۹) ، والأدب ۱ (۳۶۶۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۹۴۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھا جائے ، اگر والد کو جنس مان لیا جائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے ، یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ "،
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۸۸۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍونَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ثقة مأمون، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِالْبَصْرَةِ مِثْلَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَا بِالْكُوفَةِ مِثْلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
اس سند سے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے (موقوفاً) اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ شعبہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ کے شاگردوں نے اسی طرح «عن شعبة عن يعلى بن عطاء عن أبيه عن عبد الله بن عمرو» کی سند سے موقوفا روایت کی ہے، ہم خالد بن حارث کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں، جس نے شعبہ سے اس حدیث کو مرفوعاً روایت کی ہو، ۲- خالد بن حارث ثقہ ہیں، مامون ہیں، کہتے ہیں: میں نے بصرہ میں خالد بن حارث جیسا اور کوفہ میں عبداللہ بن ادریس جیسا کسی کو نہیں دیکھا، ۳- اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ "، قَالَ: وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: " وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ "، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بَكْرَةَ اسْمُهُ نُفَيْعُ بْنُ الْحَارِثِ.
ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتا دوں؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: "اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا"، راوی کہتے ہیں: آپ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: "اور جھوٹی گواہی دینا"، یا جھوٹی بات کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: "کاش آپ خاموش ہو جاتے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشھادات ۱۰ (۲۶۵۴) ، والأدب ۶ (۵۹۷۶) ، والاستئذان ۳۵ (۶۲۷۳) ، والمرتدین ۱ (۶۹۱۹) ، صحیح مسلم/الإیمان ۳۸ (۸۷) ، والمؤلف في الشھادات (۲۳۰۱) ، وتفسیر النساء (۳۰۱۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۶۷۹) ، و مسند احمد (۵/۳۶، ۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ يَشْتُمَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ يَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ ؟ قَالَ: " نَعَمْ، يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَشْتُمُ أَبَاهُ وَيَشْتُمُ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
۲- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے"، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا، اور وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۴ (۵۹۷۳) ، صحیح مسلم/الإیمان ۳۸ (۹۰) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۲۹ (۵۱۴۱) ، (تحفة الأشراف : ۸۶۱۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أَسِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "سب سے بہتر سلوک اور سب سے اچھا برتاؤ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ سند صحیح ہے، یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما سے کئی سندوں سے آئی ہے، ۲- اس باب میں ابواسید رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۴ (۲۵۵۲) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۲۹ (۵۱۴۳) ، (تحفة الأشراف : ۷۲۵۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ إِسْرَائِيلَ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ وَهُوَ ابْنُ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خالہ ماں کے درجہ میں ہے"، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلح ۶ (۲۶۹۹) ، والمغازي ۴۳ (۴۲۴۱) (في کلا الوضعین في سیاق طویل) (تحفة الأشراف : ۱۸۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِيمًا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٌ ؟ قَالَ: " هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ خَالَةٍ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِرَّهَا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ آپ نے پوچھا: "کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "اس کے ساتھ حسن سلوک کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۵۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ بْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ هُوَ ابْنُ عُمَرَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ.
اس سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں ابن عمر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۹۵۶۳) (صحیح الاسناد مرسل)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ: دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، نَحْوَ حَدِيثِ هِشَامٍ وَأَبُو جَعْفَرٍ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يُقَالُ لَهُ: أَبُو جَعْفَرٍ الْمُؤَذِّنُ، وَلَا نَعْرِفُ اسْمَهُ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ غَيْرَ حَدِيثٍ.
۲- اس سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں ابن عمر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۶ (۱۵۳۶) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ۱۱ (۳۸۶۲) ، ویأتي عند المؤلف في الدعوات ۴۸ (۳۴۴۸) (تحفة الأشراف : ۱۱۸۷۳) ، و مسند احمد (۲/۲۵۸، ۴۷۸، ۵۲۳) (حسن)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدًا إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں ان میں کوئی شک نہیں ہے: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور بیٹے کے اوپر باپ کی بد دعا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حجاج صواف نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے، ابو جعفر جنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے انہیں ابو جعفر مؤذن کہا جاتا ہے، ہم ان کا نام نہیں جانتے ہیں، ۲- ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/العتق ۶ (۱۵۱۰) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ۱۱ (۳۶۵۹) (تحفة الأشراف : ۱۲۵۹۵) ، و مسند احمد (۲/۲۳۰، ۲۶۳، ۲۷۶، ۴۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْأَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: اشْتَكَى أَبُو الرَّدَّادِ اللَّيْثِيُّ، فَعَادَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَقَالَ: خَيْرُهُمْ وَأَوْصَلُهُمْ مَا عَلِمْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ: " أَنَا اللَّهُ، وَأَنَا الرَّحْمَنُ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَشَقَقْتُ لَهَا مِنَ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ رَدَّادٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَمَعْمَرٍ كَذَا يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدٌ، وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ خَطَأٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے (یعنی باپ کو) غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ہم اسے صرف سہیل بن ابی صالح کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- سفیان ثوری اور کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث سہیل بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الزکاة ۴۶ (۱۶۹۴) (تحفة الأشراف : ۹۷۲۸) ، و مسند احمد (۱/۱۹۱، ۱۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ باپ کے احسان کا بدلہ اس لیے ہے کہ غلامی کی زندگی سے کسی کو آزاد کرانا اس سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں ہے ، جس کے ذریعہ کوئی کسی دوسرے پر احسان کرے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا بَشِيرٌ أَبُو إِسْمَاعِيل، وَفِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ سَلْمَانَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوالرداد لیثی بیمار ہو گئے، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ ان کی عیادت کو گئے، ابوالرداء نے کہا: میرے علم کے مطابق ابو محمد (عبدالرحمٰن بن عوف) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے «رحم» (یعنی رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے (مشتق کر کے) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن ابی اوفی، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ اور جبیر بن مطعم رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲- زہری سے مروی سفیان کی حدیث صحیح ہے، معمر نے زہری سے یہ حدیث «عن أبي سلمة عن رداد الليثي عن عبدالرحمٰن بن عوف و معمر» کی سند سے روایت کی ہے، معمر نے (سند بیان کرتے ہوئے) ایسا ہی کہا ہے، محمد (بخاری) کہتے ہیں: معمر کی حدیث میں خطا ہے، (دونوں سندوں میں فرق واضح ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۵ (۵۹۹۱) ، سنن ابی داود/ الزکاة ۴۵ (۱۶۹۷) (تحفة الأشراف : ۸۹۱۵) ، و مسند احمد (۲/۱۶۳، ۱۹۰، ۱۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سند میں ابوالرداد ہے ، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے "رداد" آیا ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ "رداد" کو بعض لوگوں نے "ابوالرداد" کہا ہے ، اور یہ زیادہ صحیح ہے ، (تقریب التہذیب)۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ "، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي قَاطِعَ رَحِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے ۱؎، بلکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو رشتہ ناتا توڑنے پر بھی صلہ رحمی کرے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سلمان، عائشہ اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۱ (۵۹۸۴) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۶ (۲۵۵۶) ، سنن ابی داود/ الزکاة ۴۵ (۱۶۹۶) (تحفة الأشراف : ۳۱۹۰) ، و مسند احمد (۴/۸۰، ۸۳، ۸۴، ۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی صلہ رحمی کی جائے تو صلہ رحمی کرے اور قطع رحمی کیا جائے تو قطع رحمی کرے ، یہ کوئی صلہ رحمی نہیں۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي سُوَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَقُولُ: زَعَمَتِ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ، قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ مُحْتَضِنٌ أَحَدَ ابْنَيِ ابْنَتِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: " إِنَّكُمْ لَتُبَخِّلُونَ، وَتُجَبِّنُونَ، وَتُجَهِّلُونَ، وَإِنَّكُمْ لَمِنْ رَيْحَانِ اللَّهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَلَا نَعْرِفُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ سَمَاعًا مِنْ خَوْلَةَ.
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رشتہ ناتا توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا"۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان نے کہا: «قاطع» سے مراد «قاطع رحم» (یعنی رشتہ ناتا توڑنے والا) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۸۲۸) ، و مسند احمد (۶/۴۰۹) (ضعیف) (سند میں ابن ابی سوید مجہول راوی ہیں، اور سند میں انقطاع بھی ہے، اس لیے کہ عمر بن عبدالعزیز کا سماع خولہ سے معروف نہیں ہے، اس لیے وإنكم لمن ريحان الله کا فقرہ ضعیف ہے، لیکن پہلا فقرہ شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: تخریج کتاب الزہد لوکیع بن الجراح بتحقیق، عبدالرحمن الفریوائی، حدیث نمبر ۱۷۸، والضعیفة ۳۲۱۴، والصحیحة ۴۷۶۴)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَبْصَرَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُقَبِّلُ الْحَسَنَ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: الْحُسَيْنَ أَوْ الْحَسَنَ، فَقَالَ: إِنَّ لِي مِنَ الْوَلَدِ عَشَرَةً، مَا قَبَّلْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
خولہ بنت حکیم رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گود میں اپنی بیٹی (فاطمہ) کے دو لڑکوں (حسن، حسین) میں سے کسی کو لیے ہوئے باہر نکلے اور آپ (اس لڑکے کی طرف متوجہ ہو کر) فرما رہے تھے: "تم لوگ بخیل بنا دیتے ہو، تم لوگ بزدل بنا دیتے ہو، اور تم لوگ جاہل بنا دیتے ہو، یقیناً تم لوگ اللہ کے عطا کئے ہوئے پھولوں میں سے ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابراہیم بن میسرہ سے مروی ابن عیینہ کی حدیث کو ہم صرف انہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ہم نہیں جانتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کا سماع خولہ سے ثابت ہے، ۳- اس باب میں ابن عمر اور اشعث بن قیس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۷ (۵۹۹۳) ، صحیح مسلم/الفضائل ۱۵ (۲۳۱۸) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۵۶ (۵۲۱۸) (تحفة الأشراف : ۱۵۴۶) ، و مسند احمد (۲/۲۲۸، ۲۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَكُونُ لِأَحَدِكُمْ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ فَيُحْسِنُ إِلَيْهِنَّ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ هُوَ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ وُهَيْبٍ، وَقَدْ زَادُوا فِي هَذَا الْإِسْنَادِ رَجُلًا.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو سعید خدری کا نام سعد بن مالک بن سنان ہے، اور سعد بن ابی وقاص کا نام سعد بن مالک بن وہیب ہے، ۲- اس حدیث کی دوسری سند میں راویوں نے (سعید بن عبدالرحمٰن اور ابوسعید کے درمیان) ایک اور راوی (ایوب بن بشیر) کا اضافہ کیا ہے، ۳- اس باب میں عائشہ، عقبہ بن عامر، انس، جابر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۰ (۵۱۴۷) (تحفة الأشراف : ۴۰۴۱) ، و یأتي برقم ۱۹۱۶ (صحیح) (اس کے راوی سعید بن عبدالرحمن الأعشی مقبول راوی ہیں، اور اس باب میں وارد احادیث کی بنا پر یہ صحیح ہے، جس کی طرف امام ترمذی نے اشارہ کر دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب ۱۹۷۳، و الادب المفرد باب من أعلى جاريتين أو واحدة والباب الذي بعده، وتراجع الالبانی ۴۰۹، والسراج المنیر ۲/۱۰۴۹)
حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ ابْتُلِيَ بِشَيْءٍ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱۰ (۱۴۱۸) ، والأدب ۱۸ (۵۹۹۵) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۴۶ (۲۶۲۹) ، کلاہما مع ذکر القصة المشھورة في رقم ۱۹۱۵، و مسند احمد (۶/۳۳، ۸۸، ۱۶۶، ۲۴۳) ، ویأتي عند المؤلف برقم ۱۹۱۵ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ هُوَ الطَّنَافِسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الرَّاسِبِيُّ، عَنْأَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ دَخَلْتُ أَنَا وَهُوَ الْجَنَّةَ كَهَاتَيْنِ " وَأَشَارَ بِأُصْبُعَيْهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ غَيْرَ حَدِيثٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَقَالَ: عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، وَالصَّحِيحُ: هُوَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے"، اور آپ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں (شہادت اور درمیانی) سے اشارہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- محمد بن عبید نے محمد بن عبدالعزیز کے واسطہ سے اسی سند سے کئی حدیثیں روایت کی ہے اور سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے: «عن أبي بكر بن عبيد الله بن أنس» حالانکہ صحیح یوں ہے «عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس»۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۴۶ (۲۶۳۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۱۳) (صحیح) (مسلم کی سند میں ’’ عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس، عن أنس بن مالك ‘‘ ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا فَسَأَلَتْ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ، فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا، وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ ابْتُلِيَ بِشَيْءٍ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، اس نے (کھانے کے لیے) کوئی چیز مانگی مگر میرے پاس سے ایک کھجور کے سوا اسے کچھ نہیں ملا، چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا، اس عورت نے کھجور کو خود نہ کھا کر اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیا اور اٹھ کر چلی گئی، پھر میرے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا: "جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دو چار ہو اس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: أنظر حدیث رقم ۱۹۱۳ (تحفة الأشراف : ۱۶۳۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے اسے تین کھجوریں دی تھیں ، دو کھجوریں اس نے ان دونوں بچیوں کو دے دیں اور ایک کھجور خود کھانا چاہتی تھی ، لیکن بچیوں کی خواہش پر آدھا آدھا کر کے اسے بھی ان کو دے دیا ، جس پر عائشہ رضی الله عنہا کو بڑا تعجب ہوا ، ان دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے انہیں ایک کھجور دی ، پھر بعد میں جب دو کھجوریں اور مل گئیں تو انہیں بھی اس کے حوالہ کر دیا ، یا یہ کہا جائے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْأَعْشَى، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ، أَوِ ابْنَتَانِ، أَوْ أُخْتَانِ، فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ، وَاتَّقَى اللَّهَ فِيهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس تین لڑکیاں، یا تین بہنیں، یا دو لڑکیاں، یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۹۱۲ (تحفة الأشراف : ۱۰۸۴) (صحیح) (ملاحظہ ہو: حدیث رقم: ۱۹۱۲، وصحیح الترغیب ۱۹۷۳)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : ضعیف ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَبَضَ يَتِيمًا بَيْنِ الْمُسْلِمِينَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ الْبَتَّةَ إِلَّا أَنْ يَعْمَلَ ذَنْبًا لَا يُغْفَرُ لَهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ مُرَّةَ الْفِهْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَنَشٌ هُوَ حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ وَهُوَ أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ، وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، يَقُولُ: حَنَشٌ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی مسلمان یتیم کو اپنے ساتھ رکھ کر انہیں کھلائے پلائے، تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، سوائے اس کے کہ وہ ایسا گناہ (شرک) کرے جو مغفرت کے قابل نہ ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- راوی حنش کا نام حسین بن قیس ہے، کنیت ابوعلی رحبی ہے، سلیمان تیمی کہتے ہیں: یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ۲- اس باب میں مرہ فہری، ابوہریرہ، ابوامامہ اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۰۲۷) (ضعیف) (سند میں ’’ حنش ‘‘ یعنی حسین بن قیس ‘‘ متروک الحدیث ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ أَبُو الْقَاسِمِ الْمَكِّيُّ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ " وَأَشَارَ بِأُصْبُعَيْهِ، يَعْنِي: السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں کی طرح ہوں گے ۱؎ اور آپ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۲۵ (۵۳۰۳) ، والأدب ۲۴ (۶۰۰۵) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۱ (۵۱۵۰) (تحفة الأشراف : ۴۷۱۰) ، و مسند احمد (۵/۳۳۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے اشارہ ہے یتیموں کے سرپرستوں کے درجات کی بلندی کی طرف یعنی یتیموں کی کفالت کرنے والے جنت میں اونچے درجات پر فائز ہوں گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ زَرْبِيٍّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: جَاءَ شَيْخٌ يُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبْطَأَ الْقَوْمُ عَنْهُ أَنْ يُوَسِّعُوا لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَزَرْبِيٌّ لَهُ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک بوڑھا آیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا تھا، لوگوں نے اسے راستہ دینے میں دیر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے، جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- راوی زربی نے انس بن مالک اور دوسرے لوگوں سے کئی منکر حدیثیں روایت کی ہیں، ۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۳۸) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ زربی ‘‘ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الصحیحہ رقم: ۲۱۹۶)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۶۶ (۴۹۴۳) (تحفة الأشراف : ۸۷۸۹) ، و مسند احمد (۲/۱۸۵، ۲۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا ".
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، مگر اس میں «ويعرف شرف كبيرنا» کی بجائے «ويعرف حق كبيرنا»ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا، وَيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا، يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ سُنَّتِنَا، لَيْسَ مِنْ أَدَبِنَا، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُنْكِرُ هَذَا التَّفْسِيرَ: لَيْسَ مِنَّا، يَقُولُ: لَيْسَ مِلَّتِنَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، معروف (بھلی باتوں) کا حکم نہ دے اور منکر (بری باتوں) سے منع نہ کرے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- محمد بن اسحاق کی عمرو بن شعیب کے واسطہ سے مروی حدیث صحیح ہے، ۳- عبداللہ بن عمرو سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول «ليس منا» کا مفہوم یہ ہے «ليس من سنتنا ليس من أدبنا» یعنی وہ ہمارے طور طریقہ پر نہیں ہے، ۵- علی بن مدینی کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید نے کہا: سفیان ثوری اس تفسیر کی تردید کرتے تھے اور اس کا مفہوم یہ بیان کرتے تھے کہ «ليس منا» سے مراد «ليس من ملتنا» ہے، یعنی وہ ہماری ملت کا نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۲۰۷) ، و مسند احمد (۱/۲۵۷) (ضعیف) (سند میں لیث بن أبي سلیم اور شریک القاضي دونوں ضعیف ہیں، مگر پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے پچھلی دونوں حدیثیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنَاجَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ لَا يَرْحَمُهُ اللَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص لوگوں پر مہربانی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی نہیں کرے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابو سعید خدری، ابن عمر، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التوحید ۲ (۷۳۷۶) (وانظر أیضا: الأدب ۲۷ (۶۰۱۳) ، صحیح مسلم/الفضائل ۱۵ (۲۳۱۹) (تحفة الأشراف : ۳۲۲۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: كَتَبَ بِهِ إِلَيَّ مَنْصُورٌ وَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ، سَمِعَ أَبَا عُثْمَانَمَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تُنْزَعُ الرَّحْمَةُ إِلَّا مِنْ شَقِيٍّ "، قَالَ: وَأَبُو عُثْمَانَ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يُعْرَفُ اسْمُهُ، وَيُقَالُ: هُوَ وَالِدُ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ أَبُو الزِّنَادِ، وَقَدْ رَوَى أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ حَدِيثٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "صرف بدبخت ہی (کے دل) سے رحم ختم کیا جاتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعثمان جنہوں نے ابوہریرہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ان کا نام نہیں معلوم ہے، کہا جاتا ہے، وہ اس موسیٰ بن ابوعثمان کے والد ہیں جن سے ابوالزناد نے روایت کی ہے، ابوالزناد نے «عن موسى بن أبي عثمان عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۶۶ (۴۹۴۲) (تحفة الأشراف : ۱۳۳۹۱) (حسن)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي قَابُوسَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ، الرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعَهُ اللَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا، رحم رحمن سے مشتق (نکلا) ہے، جس نے اس کو جوڑا اللہ اس کو (اپنی رحمت سے) جوڑے گا اور جس نے اس کو توڑا اللہ اس کو اپنی رحمت سے کاٹ دے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۶۶ (۴۹۴۱) (تحفة الأشراف : ۸۹۶۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ "، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۴۲ (۵۷) ، والمواقیت ۳ (۵۲۴) ، والزکاة ۲ (۱۴۰۱) ، والبیوع ۵۸ (۲۱۵۷) ، والشروط ۱ (۲۷۱۴، ۲۷۱۵) ، والأحکام ۴۳ (۷۲۰۴) ، صحیح مسلم/الإیمان ۲۳ (۵۶) ، سنن النسائی/البیعة ۶ (۴۱۶۱) ، و۱۶ (۴۱۷۹) ، و ۱۷ (۴۱۸۲) ، و ۲۴ (۴۱۹۴) (تحفة الأشراف : ۳۲۲۶) ، و مسند احمد (۴/۳۵۸، ۳۶۱، ۳۶۴، ۳۶۵) ، وسنن الدارمی/البیوع ۹ (۲۵۸۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مالی اور بدنی عبادتوں میں نماز اور زکاۃ سب سے اصل ہیں ، نیز «لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ» کی شہادت و اعتراف کے بعد ارکان اسلام میں یہ دونوں (زکاۃ و صلاۃ) سب سے اہم ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خیر خواہی عام وخاص سب کے لیے ہے ، طبرانی میں ہے کہ جریر رضی الله عنہ نے اپنے غلام کو تین سو درہم کا ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا ، غلام گھوڑے کے ساتھ گھوڑے کے مالک کو بھی لے آیا ، جریر رضی الله عنہ نے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سو درہم سے زیادہ قیمت کا ہے ، کیا اسے چار سو میں بیچو گے ؟ وہ راضی ہو گیا ، پھر آپ نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے کیا پانچ سو درہم میں فروخت کرو گے ، چنانچہ وہ راضی ہو گیا ، پھر اسی طرح اس کی قیمت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسے آٹھ سو درہم میں خریدا ، اس سلسلہ میں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدِّينُ النَّصِيحَةُ " ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَنْ ؟ قَالَ: " لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَجَرِيرٍ، وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، وَثَوْبَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: "دین سراپا خیر خواہی ہے"، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: "اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، تمیم داری، جریر، «حكيم بن أبي يزيد عن أبيه» اور ثوبان رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۸۶۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی ذات پر صحیح طور پر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیر خواہی ہے ، جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے ، ورنہ اللہ عزوجل کی خیر خواہی کون کر سکتا ہے ، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیر خواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے ، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے ، اس میں غور و فکر اور تدبر کرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا ، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا پابند ہونا ، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے ، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے ، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیا جائے ، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہو تو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے ، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا و آخرت سے متعلق جو بھی خیر اور بھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے ، اور شر و فساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے ، اور برائی سے روکا جائے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَخُونُهُ وَلَا يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ، التَّقْوَى هَا هُنَا، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس سے جھوٹ نہ بولے، اور اس کو بےیار و مددگار نہ چھوڑے، ہر مسلمان کی عزت، دولت اور خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، تقویٰ یہاں (دل میں) ہے، ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں علی اور ابوایوب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۱۰ (۲۵۶۴) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۳ (۴۲۱۳) (تحفة الأشراف : ۱۲۳۱۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں مسلمانوں کی عزت آبرو اور جان و مال کی حفاظت کرنے کی تاکید کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بتائی گئی ہے کہ تقویٰ کا معاملہ انسان کا اندرونی معاملہ ہے ، اس کا تعلق دل سے ہے ، اس کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا ، اس لیے دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھتے ہوئے اپنے بارے میں قطعا یہ گمان نہیں کرنا چاہیئے کہ میں زہد و تقویٰ کے اونچے مقام پر فائز ہوں ، کیونکہ اس کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرَ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِأَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۸۸ (۴۸۱) ، والمظالم ۵ (۲۴۴۶) ، والأدب ۲۶ (۶۰۲۶) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۱۷ (۲۵۸۵) ، سنن النسائی/الزکاة ۶۷ (۲۵۶۱) (تحفة الأشراف : ۹۰۴۰) ، و مسند احمد (۴/۳۹۴) (صحیح)
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ مِرْآةُ أَخِيهِ، فَإِنْ رَأَى بِهِ أَذًى فَلْيُمِطْهُ عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ضَعَّفَهُ شُعْبَةُ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے ہر آدمی اپنے بھائی کے لیے آئینہ ہے، اگر وہ اپنے بھائی کے اندر کوئی عیب دیکھے تو اسے (اطلاع کے ذریعہ) دور کر دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ نے یحییٰ بن عبیداللہ کو ضعیف کہا ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۱۲۱) (ضعیف جداً) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ فِي الدُّنْيَا يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ فِي الدُّنْيَا سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى أَبُو عَوَانَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس نے دنیا میں کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں آسانی کرے گا، اور جس نے دنیا میں کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے عیب کی پردہ پوشی کرے گا، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو ابو عوانہ اور کئی لوگوں نے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اس میں «حدثت عن أبي صالح» کے الفاظ نہیں بیان کیے ہیں، ۳- اس باب میں ابن عمر اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۴۲۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا کی خاطر دنیاوی مفاد کے بغیر جو کوئی مسلمانوں کی حاجات و ضروریات کا خاص خیال رکھے اور انہیں پوری کرے تو اس کا یہ عمل نہایت فضیلت والا ہے ، ایسے شخص کی حاجات خود رب العالمین پوری کرتا ہے ، مزید اسے آخرت میں اجر عظیم سے بھی نوازے گا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ مَرْزُوقٍ أَبِي بَكْرٍ التَّيْمِيِّ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ، رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجودگی میں) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں اسماء بنت یزید رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۹۹۵) (وانظر حم: ۶/۴۴۹، ۴۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض احادیث میں «عن عرض أخيه» کے بعد «بالغيب» کا اضافہ ہے ، مفہوم یہ ہے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا دفاع کرے اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اس کی بڑی فضیلت ہے ، اور اس کا بڑا مقام ہے ، اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب العالمین اسے جہنم کی آگ سے قیامت کے دن محفوظ رکھے گا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِالزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيَصُدُّ هَذَا وَيَصُدُّ هَذَا وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو وہ اس سے منہ پھیر لے اور یہ اس سے منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، انس، ابوہریرہ، ہشام بن عامر اور ابوہند داری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۶۲ (۶۰۷۷) ، والإستئذان ۹ (۶۲۳۷) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۸ (۲۵۶۰) (تحفة الأشراف : ۳۴۷۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں ، اور اگر اس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہو تو علماء کا کہنا ہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہو جائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ، آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَقَالَ لَهُ: هَلُمَّ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ، وَلِيَ امْرَأَتَانِ، فَأُطَلِّقُ إِحْدَاهُمَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ فَدَلُّوهُ عَلَى السُّوقِ فَمَا رَجَعَ يَوْمَئِذٍ إِلَّا وَمَعَهُ شَيْءٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ قَدِ اسْتَفْضَلَهُ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: " مَهْيَمْ "، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: " فَمَا أَصْدَقْتَهَا ؟ " قَالَ: نَوَاةً، قَالَ حُمَيْدٌ: أَوْ قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: " أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ؟ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَزْنُ ثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ، وَقَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، سَمِعْتُ إِسْحَاق بْنَ مَنْصُورٍ يَذْكُرُ عَنْهُمَا هَذَا.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ (ہجرت کر کے) مدینہ آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، سعد بن ربیع نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے کہا: آؤ تمہارے لیے اپنا آدھا مال بانٹ دوں، اور میرے پاس دو بیویاں ہیں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں، جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے شادی کر لو، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور تمہاری اولاد میں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ بتاؤ، انہوں نے ان کو بازار کا راستہ بتا دیا، اس دن وہ (بازار سے) کچھ پنیر اور گھی لے کر ہی لوٹے جو نفع میں انہیں حاصل ہوا تھا، اس کے (کچھ دنوں) بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اوپر زردی کا اثر دیکھا تو پوچھا: کیا بات ہے؟" (یہ زردی کیسی) کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا: "اس کو مہر میں تم نے کیا دیا؟" کہا: ایک (سونے کی) گٹھلی، (یا گٹھلی کے برابر سونا) آپ نے فرمایا: "ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- احمد کہتے ہیں: گٹھلی کے برابر سونا سوا تین درہم کے برابر ہوتا ہے، ۳- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: گٹھلی کے برابر سونا، پانچ درہم کے برابر ہوتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱ (۲۰۴۹) ، والکفالة ۲ (۲۲۹۳) ، مناقب الأنصار ۳ (۳۷۸۱) ، و ۵۰ (۳۹۳۷) ، والنکاح ۶۸ (۵۱۶۷) ، والأدب ۶۷ (۶۰۸۲) (تحفة الأشراف : ۵۷۱) ، و مسند احمد (۳/۱۹۰، ۲۰۴، ۲۷۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْغِيبَةُ ؟ قَالَ: " ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ "، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ ؟ قَالَ: " إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَتَّهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے کہا: اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اس انداز سے اپنے بھائی کا تمہارا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے"، اس نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جسے میں بیان کر رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: "جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی، اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۲۰ (۲۵۸۹) ، سنن ابی داود/ الأدب ۴۰ (۴۸۷۴) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۵۴) ، و مسند احمد (۲/۲۳۰، ۴۵۸) ، سنن الدارمی/الرقاق ۶ (۲۷۵۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : غیبت (چغلی) حرام اور کبیرہ گناہ ہے ، قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے ، اس حدیث میں بھی اس کی قباحت بیان ہوئی ، اور قباحت کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے ، اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے ، غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس طور پر کیا جائے کہ جو اسے ناپسند ہو ، یہ تذکرہ الفاظ میں ہو ، یا اشارہ و کنایہ میں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ الْعَطَّارُ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَاطَعُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آپس میں قطع تعلق نہ کرو، ایک دوسرے سے بےرخی نہ اختیار کرو، باہم دشمنی و بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے سلام کلام بند رکھے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، زبیر بن عوام، ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۵۷ (۶۰۶۵) ، ۶۲ (۶۰۷۶) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۷ (۲۵۵۹) ، سنن ابی داود/ الأدب ۵۵ (۴۹۱۰) (تحفة الأشراف : ۱۴۸۸) ، و مسند احمد (۳/۱۹۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اسلام نے مسلم معاشرہ کی اصلاح اور اس کی بہتری کا خاص خیال رکھا ہے ، اس حدیث میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا تعلق بھی اصلاح معاشرہ اور سماج کی سدھار سے ہے ، صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے ، ہاہمی بغض و عناد اور دشمنی سے باز رہنے کو کہا گیا ہے ، حسد جو معاشرہ کے لیے ایسی مہلک بیماری ہے جس سے نیکیاں جل کر راکھ ہو جاتی ہیں ، اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیئے، ایک اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس میں سے رات دن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے، دوسرا اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن دیا اور وہ رات دن اس کا حق ادا کرتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہما کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التوحید ۴۵ (۷۵۲۹) ، صحیح مسلم/ صلاة المسافرین ۴۷ (۸۱۵) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۲ (۴۲۰۹) (تحفة الأشراف : ۶۸۱۵) ، و مسند احمد (۲/۹، ۳۶، ۸۸، ۱۳۳، ۱۵۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حسد کی دو قسمیں ہیں : حقیقی اور مجازی ، حقیقی حسد یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پاس موجود نعمت کے ختم ہو جانے کی تمنا و خواہش کرے ، حسد کی یہ قسم بالاتفاق حرام ہے ، اس کی حرمت سے متعلق صحیح نصوص وارد ہیں ، اسی لیے اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے ، حسد کی دوسری قسم رشک ہے ، یعنی دوسرے کی نعمت کے خاتمہ کی تمنا کیے بغیر اس نعمت کے مثل نعمت کے حصول کی تمنا کرنا ، اس حدیث میں حسد کی یہی دوسری قسم مراد ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَئِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ مصلی اس کی عبادت کریں گے، لیکن وہ ان کے درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش میں رہتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں انس اور «سليمان بن عمرو بن الأحوص عن أبيه» سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المنافقین ۱۶ (۲۸۱۲) (تحفة الأشراف : ۲۳۰۲) ، و مسند احمد (۳/۳۱۳، ۳۵۴، ۳۶۶، ۳۸۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ مسلمان مرتد ہو کر بت پرستی کریں گے ، اور شیطان کو پوجیں گے ، اس مایوسی کے بعد وہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے ، ان کے اندر بزدلی پیدا کرنے ، جنگ وجدال اور فتنوں میں انہیں مشغول رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِأُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَى خَيْرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام کلثوم بنت عقبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ (خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کر بیان کرے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلح ۲ (۲۶۹۲) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۳۷ (۲۶۰۵) ، سنن ابی داود/ الأدب ۵۸ (۴۹۲۰) (تحفة الأشراف : ۱۸۳۵۳) ، و مسند احمد (۶/۴۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے ، یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے ، مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ ، اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا ، ایسا شخص جھوٹا نہیں ہے ، بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے ، اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، وَأَبُو أَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ: يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا، وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ، وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ "، وَقَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِهِ: لَا يَصْلُحُ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَسْمَاءَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ خُثَيْمٍ، وَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ،
اسماء بنت یزید رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صرف تین جگہ پر جھوٹ جائز اور حلال ہے، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو راضی کر لے، دوسرا جنگ میں جھوٹ بولنا اور تیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۷۷۰) ، وانظر مسند احمد (۶/۴۵۴، ۴۵۹، ۴۶۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ.
داود بن ابی ہند نے یہ حدیث شہر بن حوشب کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن اس میں "اسماء رضی الله عنہا" کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسماء کی حدیث کو ہم صرف ابن خیثم کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۳- اس باب میں ابوبکر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۱۸۸۱۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ لُؤْلُؤَةَ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ.
ابوصرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ تعالیٰ اسے تکلیف دے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأقضیة ۳۱ (۳۶۳۵) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۱۷ (۲۳۴۰) (تحفة الأشراف : ۱۲۰۶۶۳) ، و مسند احمد (۳/۴۵۳) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جس نے کسی مسلمان کو مالی و جانی نقصان اور عزت و آبرو میں ناحق تکلیف دی ، اللہ تعالیٰ اس پر اسی جیسی تکلیف ڈال دے گا ، اسی طرح جس نے کسی مسلمان سے ناحق جھگڑا کیا اللہ اس پر مشقت نازل کرے گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا فَرْقَدُ السَّبَخِيُّ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ الْهَمْدَانِيِّ وَهُوَ الطَّيِّبُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَلْعُونٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًا أَوْ مَكَرَ بِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص ملعون (یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یا اس کو دھوکہ دیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۶۱۹) (ضعیف) (سند میں فرقد سبخی ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ وصیت(تاکید) کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وراثت میں (بھی) شریک ٹھہرا دیں گے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۲۸ (۶۰۱۴) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۴۲ (۲۶۲۴) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۱) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۴ (۲۶۷۳) (تحفة الأشراف : ۱۷۹۴۷) ، و مسند احمد (۶/۹۱، ۱۲۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کے حقوق کا خیال رکھنے کی اسلام میں کتنی اہمیت اور تاکید ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ، وَبَشِيرٍ أبي إسماعيل، عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ذُبِحَتْ لَهُ شَاةٌ فِي أَهْلِهِ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ ؟ أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَالْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي شُرَيْحٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا.
مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کے لیے ان کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی، جب وہ آئے تو پوچھا: کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر (گوشت کا) ہدیہ بھیجا؟ کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر ہدیہ بھیجا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: مجھے جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وارث بنا دیں گے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث مجاہد سے عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہما کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، ۳- اس باب میں عائشہ، ابن عباس، ابوہریرہ، انس، مقداد بن اسود، عقبہ بن عامر، ابوشریح اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۲) (تحفة الأشراف : ۸۹۱۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پڑوسی تین قسم کے ہیں : ایک پڑوسی وہ ہے جو غیر مسلم ہے یعنی کافر و مشرک اور یہودی ، نصرانی ، مجوسی وغیرہ ، اسے صرف پڑوس میں رہنے کا حق حاصل ہے ، دوسرا وہ پڑوسی ہے جو مسلم ہے ، اسے اسلام اور پڑوس میں رہنے کے سبب ان دونوں کا حق حاصل ہے ، ایک تیسرا پڑوسی وہ ہے جو مسلم بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رشتہ ناتے والا بھی ہے ، ایسے پڑوسی کو اسلام ، رشتہ داری اور پڑوس میں رہنے کے سبب تینوں حقوق حاصل ہیں ، ایسے ہی مسافر بھی پڑوسی ہے اس کے ساتھ اس تعلق سے بھی حقوق ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ الْأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو لوگوں میں اپنے دوست کے لیے بہتر ہے، اور اللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۸۶۵) ، وانظر مسند احمد (۲/۱۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ فِتْيَةً تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِنْ طَعَامِهِ، وَلْيُلْبِسْهُ مِنْ لِبَاسِهِ، وَلَا يُكَلِّفْهُ مَا يَغْلِبُهُ، فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کر دیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم) ہو، وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے، اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بناتا ہے، جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ام سلمہ، ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۲۲ (۳۰) ، والتعق ۱۵ (۲۵۴۵) ، والأدب ۴۴ (۶۰۵۰) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ۱۰ (۱۶۶۱) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۱۰ (۳۶۹۰) (تحفة الأشراف : ۱۱۹۸۰) ، و مسند احمد (۵/۱۵۸، ۱۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ يَحْيَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ابوبکر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جو خادموں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ایوب سختیانی اور کئی لوگوں نے راوی فرقد سبخی کے بارے میں ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأدب ۱۰ (۳۶۹۱) (تحفة الأشراف : ۶۶۱۸) (ضعیف) (سند میں فرقد سبخی ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيُّ التَّوْبَةِ: " مَنْ قَذَفَ مَمْلُوكَهُ بَرِيئًا مِمَّا قَالَ لَهُ أَقَامَ عَلَيْهِ الْحَدَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ كَمَا قَالَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَابْنُ أَبِي نُعْمٍ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْبَجَلِيُّ، يُكْنَى أَبَا الْحَكَمِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی التوبہ ۱؎ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائے حالانکہ وہ اس کی تہمت سے بری ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر حد قائم کرے گا، إلا یہ کہ وہ ویسا ہی ثابت ہو جیسا اس نے کہا تھا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سوید بن مقرن اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۴۵ (۶۸۵۸) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ۹ (۱۶۶۰) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۳ (۵۱۶۵) (تحفة الأشراف : ۱۳۶۲۴) ، و مسند احمد (۲/۴۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ستر مرتبہ اور بعض روایات سے ثابت ہے کہ سو مرتبہ استغفار کرتے تھے ، اسی لحاظ سے آپ کو «نبي التوبة» کہا گیا۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ مَمْلُوكًا لِي، فَسَمِعْتُ قَائِلًا مِنْ خَلْفِي، يَقُولُ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، فَالْتَفَتُّ: فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ "، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: فَمَا ضَرَبْتُ مَمْلُوكًا لِي بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ: إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کہنے والے کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا: ابومسعود جان لو، ابومسعود جان لو (یعنی خبردار)، جب میں نے مڑ کر دیکھا تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تم پر اس سے کہیں زیادہ قادر ہے جتنا کہ تم اس غلام پر قادر ہو"۔ ابومسعود کہتے ہیں: اس کے بعد میں نے اپنے کسی غلام کو نہیں مارا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الأیمان والنذور ۸ (۱۶۵۹) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۳ (۵۱۵۹) (تحفة الأشراف : ۱۰۰۰۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ ـ : غلاموںاورنوکروںچاکروںپرسختیبرتنامناسبنہیں،بلکہبعضروایاتمیںانپربےجاسختیکرنےیاجرمسےزیادہسزادینےپروعیدآئیہے،نبیاکرمصلیاللہعلیہوسلماللہکیجانبسےجلالتوہیبتکےجسمقامپرفائزتھےاسحدیثمیںاسکیبھیایکجھلکدیکھی جا سکتی ہے ، چنانچہ آپ کے خبردار کہنے پر ابومسعود اس غلام کو نہ صرف یہ کہ مارنے سے رک گئے بلکہ آئندہ کسی غلام کو نہ مارنے کا عہد بھی کر بیٹھے اور زندگی اس پر قائم رہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ عَبَّاسٍ الْحَجْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمْ أَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ ؟ فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمْ أَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ ؟ فَقَالَ: " كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ نَحْوًا مِنْ هَذَا، وَالْعَبَّاسُ هُوَ ابْنُ جُلَيْدٍ الْحَجْرِيُّ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے اس سوال پر خاموش رہے، اس نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ نے فرمایا: "ہر دن ۷۰ (ستر) بار معاف کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اسے عبداللہ بن وہب نے بھی ابوہانی خولانی سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۳ (۵۱۶۴) (تحفة الأشراف : ۷۱۱۷، ۸۸۳۶) ، و مسند احمد (۲/۹۰، ۱۱۱) (صحیح) (اس حدیث کے ’’ عبد اللہ بن عمر بن خطاب ‘‘ یا ’’ عبد اللہ بن عمرو بن العاص ‘‘ کی روایت سے ہونے میں اختلاف ہے جس کی طرف مؤلف نے اشارہ کر دیا، مزی نے ابوداود کی طرف عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت، اور ترمذی کی طرف عبد اللہ بن عمر ابن خطاب کی روایت کی نسبت کی ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلاَنِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ وَهْبٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور بعض لوگوں نے یہ حدیث عبداللہ بن وہب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن سند میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے بجائے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کا نام بیان کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ خَادِمَهُ فَذَكَرَ اللَّهَ فَارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ اسْمُهُ عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ، قَالَ لعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: ضَعَّفَ شُعْبَةُ أَبَا هَارُونَ الْعَبْدِيَّ، قَالَ يَحْيَى: وَمَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي عَنْ أَبِي هَارُونَ حَتَّى مَاتَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے اور وہ (خادم) اللہ کا نام لے لے تو تم اپنے ہاتھوں کو روک لو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: راوی ابوہارون عبدی کا نام عمارہ بن جوین ہے، ابوبکر عطار نے یحییٰ بن سعید کا یہ قول نقل کیا کہ شعبہ نے ابوہارون عبدی کی تضعیف کی ہے، یحییٰ کہتے ہیں: ابن عون ہمیشہ ابوہارون سے روایت کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۲۶۳) (ضعیف) (سند میں ’’ ابو ہارون عمارة بن جوین عبدی ‘‘ متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى، عَنْ نَاصِحٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ يُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَنَاصِحٌ هُوَ ابْنُ الْعَلَاءِ كُوفِيٌّ لَيْسَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ بِالْقَوِيِّ، وَلَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَنَاصِحٌ شَيْخٌ آخَرُ بَصْرِيٌّ، يَرْوِي عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، وَغَيْرِهِ، هُوَ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے لڑکے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ دینے سے بہتر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- راوی ناصح کی کنیت ابوالعلا ہے، اور یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں، محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، یہ حدیث صرف اسی سند سے معروف ہے، ۳- ناصح ایک دوسرے شیخ بھی ہیں جو بصرہ کے رہنے والے ہیں، عمار بن ابوعمار وغیرہ سے حدیث روایت کرتے ہیں، اور یہ ان سے زیادہ قوی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۱۹۵) (ضعیف) (سند میں ’’ ناصح ‘‘ ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَامِرِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازِ وَهُوَ عَامِرُ بْنُ صَالِحِ بْنِ رُسْتُمَ الْخَزَّازُ، وَأَيُّوبُ بْنُ مُوسَى هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِي، وَهَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُرْسَلٌ.
عمرو بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حسن ادب سے بہتر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عامر بن ابوعامر خزاز کی روایت سے جانتے ہیں، اور عامر صالح بن رستم خزاز کے بیٹے ہیں، ۲- راوی ایوب بن موسیٰ سے مراد ایوب بن موسیٰ بن عمرو بن سعید بن عاص ہیں، ۳- یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۴۷۳) (ضعیف) (سند میں ’’ عامر بن صالح ‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں، اور ’’ موسی بن عمرو ‘‘ مجہول الحال)
وضاحت: ۱؎ : اگر «جدہ» کی ضمیر کا مرجع «ایوب» ہیں تو ان کے دادا «عمرو بن سعید الأشرق» صحابی نہیں ہیں ، اور اگر «جدہ» کی ضمیر کا مرجع«موسیٰ» ہیں تو ان کے دادا «سعید بن العاص» بہت چھوٹے صحابی ہیں ، ان کا سماع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ، تب یہ روایت مرسل صحابی ہوئی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ، وَيُثِيبُ عَلَيْهَا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلہ دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے، ۲- ہم اسے صرف عیسیٰ بن یونس کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ہشام سے روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، انس، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۱۱ (۲۵۸۵) ، سنن ابی داود/ البیوع ۸۲ (۳۵۳۷) (تحفة الأشراف : ۱۷۱۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللَّهَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۲ (۴۸۱۱) (تحفة الأشراف : ۱۴۳۶۸) ، و مسند احمد (۲/۲۹۵، ۳۰۳، ۴۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جو اللہ کے بندوں کا ان کے توسط سے ملنے والی کسی نعمت پر شکر گزار نہ ہو حالانکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے تو ایسے شخص سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ کا شکر گزار بندہ ہو گا ؟ یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کا شکر اس احسان پر جو اللہ نے اس پر کیا ہے نہیں قبول کرے گا ، جب تک کہ بندہ لوگوں کے احسان کا شکر ادا نہ کرے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى. ح وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ، لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، اشعث بن قیس اور نعمان بن بشیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۲۳۵) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے دو راوی ’’ محمد بن ابی لیلی ‘‘ اور ’’ عطیہ عوفی ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُرَشِيُّ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَاأَبُو زُمَيْلٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَحُذَيْفَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُهُ سِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيُّ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر، حذیفہ، عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۹۷۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ اس حدیث میں مذکور سارے کام ایسے ہیں جن کی انجام دہی پر ثواب اسی طرح ملتا ہے جس طرح کسی صدقہ کرنے والے کو ملتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ مَنَحَ مَنِيحَةَ لَبَنٍ أَوْ وَرِقٍ أَوْ هَدَى زُقَاقًا كَانَ لَهُ مِثْلَ عِتْقِ رَقَبَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رَوَى مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، وَشُعْبَةُ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، هَذَا الْحَدِيثَ، وَفِي الْبَابِ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " مَنْ مَنَحَ مَنِيحَةَ وَرِقٍ " إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ: قَرْضَ الدَّرَاهِمِ، قَوْلُهُ: " أَوْ هَدَى زُقَاقًا " يَعْنِي بِهِ: هِدَايَةَ الطَّرِيقِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جس شخص نے دودھ کا عطیہ دیا ۱؎، یا چاندی قرض دی، یا کسی کو راستہ بتایا، اسے غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابواسحاق کی روایت سے جسے وہ طلحہ بن مصرف سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- منصور بن معتمر اور شعبہ نے بھی اس حدیث کی روایت طلحہ بن مصرف سے کیا ہے، ۳- اس باب میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۴-«من منح منيحة ورق» کا مطلب ہے بطور قرض دینا «هدى زقاقا» کا مطلب ہے راستہ دکھانا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۸۸۷) ، وانظر مسند احمد (۴/۲۹۶، ۳۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کسی کو اونٹ ، گائے یا بکری دیا تاکہ وہ دودھ سے فائدہ اٹھائے اور پھر جانور واپس کر دے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي طَرِيقٍ إِذْ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ فَأَخَّرَهُ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے ایک کانٹے دار ڈالی ملی، اس نے اسے راستے سے ہٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام سے خوش ہو کر اس کو بدلہ دیا یعنی اس کی مغفرت فرما دی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ، ابن عباس اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۳۲ (۶۵۲) والمظالم ۲۸ (۲۴۷۲) ، صحیح مسلم/الإمارة ۵۱ (۱۹۱۴/۱۶۴) ، والبر والصلة (۱۹۱۴/۱۲۷) (تحفة الأشراف : ۱۲۵۷۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ہم اسے صرف ابن ابی ذئب کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۳۷ (۴۸۶۸) (تحفة الأشراف : ۲۳۸۴) ، و مسند احمد (۳/۳۸۰) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص تم سے کوئی بات کہے اور کہتے ہوئے مڑ کر دائیں بائیں دیکھے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ راز کی بات ہے جو صرف تم سے ہو رہی ہے کسی دوسرے کو اس کی خبر نہ ہو لہٰذا سننے والے کی امانت داری میں سے ہے کہ وہ اسے راز رکھے کیونکہ یہ مجلس کے آداب میں سے ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ بَيْتِي إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ، أَفَأُعْطِي ؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَلَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ " يَقُولُ: " لَا تُحْصِي فَيُحْصَى عَلَيْكِ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا، عَنْ أَيُّوبَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے، کیا میں اس میں سے صدقہ و خیرات کروں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگا دی جائے گی" ۱؎۔ «لا توكي فيوكى عليك» کا مطلب یہ ہے کہ شمار کر کے صدقہ نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اور برکت ختم کر دے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو «عن ابن أبي مليكة عن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما» کی سند سے روایت کی ہے ۳؎، کئی لوگوں نے اس حدیث کی روایت ایوب سے کی ہے اور اس میں عباد بن عبیداللہ بن زبیر کا ذکر نہیں کیا، ۳- اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۲۱ (۱۴۳۳) ، و۲۲ (۱۴۳۴) ، والہبة ۱۵ (۲۵۹۰) ، صحیح مسلم/الزکاة ۲۸ (۱۰۲۹) ، سنن ابی داود/ الزکاة ۴۶ (۱۶۹۹) ، سنن النسائی/الزکاة ۶۲ (۲۵۵۲) (تحفة الأشراف : ۱۵۷۱۸) ، و مسند احمد (۶/۳۴۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بخل نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ برکت ختم کر دے گا۔ ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال کے ختم ہو جانے کے ڈر سے صدقہ خیرات نہ کرنا منع ہے ، کیونکہ صدقہ و خیرات نہ کرنا ایک اہم سبب ہے جس سے برکت کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے ، اس لیے کہ رب العالمین خرچ کرنے اور صدقہ دینے پر بےشمار ثواب اور برکت سے نوازتا ہے ، مگر شوہر کی کمائی میں سے صدقہ اس کی اجازت ہی سے کی جا سکتی ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔ ۳؎ : یعنی ابن ابی ملیکہ اور اسماء بنت ابی بکر کے درمیان عباد بن عبداللہ بن زبیر کا اضافہ ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ، قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ، قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ، بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ، بَعِيدٌ مِنَ الْجَنَّةِ، بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ، قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ، وَلَجَاهِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَالِمٍ بَخِيلٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَقَدْ خُولِفَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَائِشَةَ شَيْءٌ مُرْسَلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے، بخیل آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابد سے کہیں زیادہ محبوب ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے «يحيى بن سعيد عن الأعرج عن أبي هريرة» کی سند سے صرف سعد بن محمد کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن سعید سے اس حدیث کی روایت کرنے میں سعید بن محمد کی مخالفت کی گئی ہے، (سعید بن محمد نے تو اس سند سے روایت کی ہے جو اوپر مذکور ہے) جب کہ یہ «عن يحيى بن سعيد عن عائشة» کی سند سے بھی مرسلاً مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۳۹۷۳) (ضعیف جداً) (سند میں ’’ سعید بن محمد الوراق ‘‘ سخت ضعیف ہے، بلکہ بعض کے نزدیک متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَالِبٍ الْحُدَّانِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ: الْبُخْلُ، وَسُوءُ الْخُلُقِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ صَدَقَةَ بْنِ مُوسَى، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن کے اندر دو خصلتیں بخل اور بداخلاقی جمع نہیں ہو سکتیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف صدقہ بن موسیٰ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۱۱۰) (ضعیف) (سند میں ’’ صدقہ بن موسیٰ ‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ حسن خلق اور خیر خواہی کا نام ایمان ہے ، اس لیے جس شخص میں یہ دونوں خوبیاں پائی جائے گی وہ مومن کامل ہو گا ، اور ایسا مومن کامل بخیل اور بداخلاقی جیسی بری اور قابل مذمت صفات سے دور ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دھوکہ باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں نہیں داخل ہوں گے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۶۲۰) (ضعیف) (سند میں صدقہ بن موسیٰ، اور فرقد سبخی دونوں ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ، وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے، اور فاجر دھوکہ باز اور کمینہ خصلت ہوتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۶ (۴۷۹۰) (تحفة الأشراف : ۱۵۳۶۲) ، و مسند احمد (۲/۳۹۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی مومن اپنی شرافت اور سادگی کی وجہ سے دنیاوی منفعت کو منفعت سمجھتے ہوئے اس کا حریص نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات دھوکہ کھا کر اسے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے ، اس کے برعکس ایک فاجر شخص دوسروں کو دھوکہ دے کر انہیں نقصان پہنچاتا ہے جو اس کے کمینہ خصلت ہونے کی دلیل ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ صَدَقَةٌ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عمرو بن امیہ ضمری اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۴۲ (۵۵) ، والمغازي ۱۲ (۴۰۰۶) ، والنفقات ۱ (۵۳۵۱) ، صحیح مسلم/الزکاة ۱۴ (۱۰۰۲) ، سنن النسائی/الزکاة ۶۰ (۲۵۴۶) (تحفة الأشراف : ۹۹۹۶) ، و مسند احمد (۴/۱۲۰، ۱۲۲) ، و (۵/۲۷۳) ، سنن الدارمی/الاستئذان ۳۵ (۲۶۶۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَفْضَلُ الدِّينَارِ دِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى عِيَالِهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: بَدَأَ بِالْعِيَالِ، ثُمَّ قَالَ: " فَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ لَهُ صِغَارٍ يُعِفُّهُمُ اللَّهُ بِهِ وَيُغْنِيهِمُ اللَّهُ بِهِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہتر دینار وہ دینار ہے، جسے آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار ہے جسے آدمی اپنے جہاد کی سواری پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار ہے جسے آدمی اپنے مجاہد ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے"، ابوقلابہ کہتے ہیں: آپ نے بال بچوں کے نفقہ(اخراجات) سے شروعات کی پھر فرمایا: "اس آدمی سے بڑا اجر و ثواب والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں حرام چیزوں سے بچاتا ہے اور انہیں مالدار بناتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۱۲ (۹۹۴) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ۴ (۲۷۶۰) (تحفة الأشراف : ۲۱۰۱) ، و مسند احمد (۵/۲۷۷، ۲۷۹، ۲۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ "، قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ ؟ قَالَ: " يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اور کانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے"، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت و تکریم اور آؤ بھگت کیا ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: "ایک دن اور ایک رات، اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ صدقہ ہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹) و ۸۵ (۶۱۳۵) ، والرقاق ۲۳ (۶۴۷۶) ، صحیح مسلم/الإیمان ۱۹ (۴۸) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ۵ (۳۷۴۸) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۵ (۳۶۷۵) (تحفة الأشراف : ۱۲۰۵۶) ، وط/صفة النبي ﷺ ۱۰ (۲۲) ، و مسند احمد (۴/۳۱) ، و (۶/۳۸۴) ، وسنن الدارمی/الأطعمة ۱۱ (۲۰۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانا بنایا جائے۔ ۲؎ : اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں ، مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیا جائے ، اس کی مہمان نوازی کی جائے ، پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کیا جائے ، مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے ، اپنی زبان ذکر الٰہی ، توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بےفائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَمَا أُنْفِقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ هُوَ الْكَعْبِيُّ، وَهُوَ الْعَدَوِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " لَا يَثْوِي عِنْدَهُ " يَعْنِي: الضَّيْفَ، لَا يُقِيمُ عِنْدَهُ حَتَّى يَشْتَدَّ عَلَى صَاحِبِ الْمَنْزِلِ، وَالْحَرَجُ: هُوَ الضِّيقُ، إِنَّمَا قَوْلُهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ يَقُولُ حَتَّى يُضَيِّقَ عَلَيْهِ.
ابوشریح کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ضیافت (مہمان نوازی) تین دین تک ہے، اور مہمان کا عطیہ (یعنی اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کرنا) ایک دن اور ایک رات تک ہے، اس کے بعد جو کچھ اس پر خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے، مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے پاس (تین دن کے بعد بھی) ٹھہرا رہے جس سے اپنے میزبان کو پریشانی و مشقت میں ڈال دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک بن انس اور لیث بن سعد نے اس حدیث کی روایت سعید مقبری سے کی ہے، ۳- ابوشریح خزاعی کی نسبت الکعبی اور العدوی ہے، اور ان کا نام خویلد بن عمرو ہے، ۴- اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- «لا يثوي عنده» کا مطلب یہ ہے کہ مہمان گھر والے کے پاس ٹھہرا نہ رہے تاکہ اس پر گراں گزرے، ۶- «الحرج» کا معنی «الضيق» (تنگی ہے) اور «حتى يحرجه» کا مطلب ہے «يضيق عليه» یہاں تک کہ وہ اسے پریشانی و مشقت میں ڈال دے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹) ، و ۸۵ (۶۱۳۵) ، والرقاق ۲۳ (۶۴۷۶) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ۵ (۳۷۴۸) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۵ (۳۶۷۵) (تحفة الأشراف : ۲۰۵۶) و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ ۱۰ (۲۲) ، و مسند احمد (۴/۳۱) ، و (۶/۳۸۴) ، و سنن الدارمی/الأطعمة ۱۱ (۲۰۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ كَالَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ ".
صفوان بن سلیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "بیوہ اور مسکین پر خرچ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، یا اس آدمی کی طرح ہے جو دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۲۵ (۶۰۰۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۸۱۸) (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، صفوان تابعی ہیں، اگلی روایت کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، مالک کے طرق کے لیے دیکھئے: فتح الباری ۹/۴۹۹)
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُهُ سَالِمٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ، وَثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَدَنِيٌّ، وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ شَامِيٌّ.
اس سند سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النفقات ۱ (۵۳۵۳) ، والأدب ۲۶ (۶۰۰۷) ، صحیح مسلم/الزہد ۲ (۲۹۸۲) ، سنن النسائی/الزکاة ۷۸ (۲۵۷۸) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱ (۲۱۴۰) (تحفة الأشراف : ۱۲۹۱۴) ، و مسند احمد (۲/۳۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُنْكَدِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ، وَأَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ أَخِيكَ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بھلائی صدقہ ہے، اور بھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملو اور اپنے ڈول سے اس کے ڈول میں پانی ڈال دو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۰۸۵) (وانظر: مسند احمد (۳/۳۴۴، ۳۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف مال ہی خرچ کرنا صدقہ نہیں ہے ، بلکہ ہر نیکی صدقہ ہے ، چنانچہ اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں کچھ پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے ، اور دوسرے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَمَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَعُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سچ بولو، اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، عمر، عبداللہ بن شخیر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۶۹ (۶۰۹۴) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۲۹ (۲۶۰۷) ، والقدر ۱ (۲۶۴۳) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۷ (۴۶) (تحفة الأشراف : ۹۲۶۱) ، و مسند احمد (۱/۳۸۴، ۴۰۵) ، و سنن الدارمی/الرقاق ۷ (۲۷۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ ہمیشہ جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو اختیار کرنا چاہیئے ، کیونکہ جھوٹ کا نتیجہ جہنم اور سچائی کا نتیجہ جنت ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ هَارُونَ الْغَسَّانِيِّ: حَدَّثَكُمْ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ "، قَالَ يَحْيَى: فَأَقَرَّ بِهِ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ هَارُونَ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ هَارُونَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور بھاگتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن جید غریب ہے ۲- یحییٰ بن موسیٰ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحیم بن ہارون سے پوچھا: کیا آپ سے عبدالعزیز بن ابی داود نے یہ حدیث بیان کی؟ کہا: ہاں، ۳- ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اس کی روایت کرنے میں عبدالرحیم بن ہارون منفرد ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۷۶۷) (ضعیف جداً) (سند میں ’’ عبد الرحیم بن ہارون ‘‘ سخت ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْكَذِبِ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُحَدِّثُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْكِذْبَةِ فَمَا يَزَالُ فِي نَفْسِهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْهَا تَوْبَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی اور عادت نفرت کے قابل ناپسندیدہ نہیں تھی، اور جب کوئی آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹ بولتا تو وہ ہمیشہ آپ کی نظر میں قابل نفرت رہتا یہاں تک کہ آپ جان لیتے کہ اس نے جھوٹ سے توبہ کر لی ہے،
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولا یوجد ھو في أکثر النسخ) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ، وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس چیز میں بھی بےحیائی آتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۷ (۴۱۸۵) (تحفة الأشراف : ۴۷۲) ، و مسند احمد (۳/۱۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْمَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا "، وَلَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں بہتر ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بےحیاء اور بدزبان نہیں تھے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۵۹) ، وفضائل الصحابة ۲۷ (۳۷۵۹) ، صحیح مسلم/الفضائل ۱۶ (۲۳۲۱) (تحفة الأشراف : ۸۹۳۳) ، و مسند احمد (۲/۱۶۱، ۱۸۹، ۱۹۳، ۲۱۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَلَاعَنُوا بِلَعْنَةِ اللَّهِ، وَلَا بِغَضَبِهِ، وَلَا بِالنَّارِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ (کسی پر) اللہ کی لعنت نہ بھیجو، نہ اس کے غضب کی لعنت بھیجو اور نہ جہنم کی لعنت بھیجو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، ابن عمر اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۵۳ (۴۹۰۶) (تحفة الأشراف : ۴۵۹۴) ، وانظر مسند احمد (۵/۱۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے وقت یہ مت کہو کہ تم پر اللہ کی لعنت ، اس کے غضب کی لعنت اور جہنم کی لعنت ہو ، کیونکہ یہ ساری لعنتیں کفار و مشرکین اور یہود و نصاری کے لیے ہیں ، نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیاء اور بدزبان نہیں ہوتا ہے"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث عبداللہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۴۳۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں مومن کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ مومن کامل نہ تو کسی کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے ، نہ ہی کسی کی لعنت و ملامت کرتا ہے ، اور نہ ہی کسی کو گالی گلوج دیتا ہے ، اسی طرح چرب زبانی ، زبان درازی اور بےحیائی جیسی مذموم صفات سے بھی وہ خالی ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ الرِّيحَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا تَلْعَنِ الرِّيحَ، فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ بِشْرِ بْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے ہوا پر لعنت بھیجی تو آپ نے فرمایا: "ہوا پر لعنت نہ بھیجو اس لیے کہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابند ہے، اور جس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بشر بن عمر کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۵۳ (۴۹۰۸) (تحفة الأشراف : ۵۴۲۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عِيسَى الثَّقَفِيِّ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ، مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ، مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ يَعْنِي: زِيَادَةً فِي الْعُمُرِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس قدر اپنا نسب جانو جس سے تم اپنے رشتے جوڑ سکو، اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے، مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے، اور آدمی کی عمر بڑھا دی جاتی ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- «منسأة في الأثر» کا مطلب ہے «الزيادة في العمر» یعنی عمر کے لمبی ہونے کا سبب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۶ (۱۵۳۵) (تحفة الأشراف : ۱۴۸۵۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عمر بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نیک عمل کی توفیق ملتی ہے ، اور مرنے کے بعد لوگوں میں اس کا ذکر جمیل باقی رہتا ہے ، اور اس کی نسل سے صالح اولاد پیدا ہوتی ہیں۔ اگر حقیقی طور پر عمر ان نیک اعمال سے ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بعید بات نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا دَعْوَةٌ أَسْرَعَ إِجَابَةً مِنْ دَعْوَةِ غَائِبٍ لِغَائِبٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ هُوَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی دعا اتنی جلد قبول نہیں ہوتی ہے جتنی جلد غائب آدمی کے حق میں غائب آدمی کی دعا قبول ہوتی ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- راوی افریقی حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، ان کا نام عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۶ (۱۵۳۵) (تحفة الأشراف : ۸۸۵۲) (ضعیف) (سند میں ’’ عبدالرحمن بن أبی نعم ‘‘ ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ ایسی دعا ریا کاری اور دکھاوے سے خالی ہوتی ہے ، صدق دلی اور خلوص نیت سے نکلی ہوئی یہ دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِي مِنْهُمَا مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعْدٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گالی گلوچ کرنے والے دو آدمیوں میں سے گالی کا گناہ ان میں سے شروع کرنے والے پر ہو گا، جب تک مظلوم حد سے آگے نہ بڑھ جائے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، ابن مسعود اور عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہم سے بھی حدیثیں مروی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۱۸ (۲۵۸۷) ، سنن ابی داود/ الأدب ۴۷ (۴۸۹۴) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۵۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اگر مظلوم بدلہ لینے میں ظالم سے تجاوز کر جائے تو ایسی صورت میں دونوں کے گالی گلوج کا وبال اسی مظلوم کے سر ہو گا نہ کہ ظالم کے سر۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَال: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَتُؤْذُوا الْأَحْيَاءَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ سُفْيَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى بَعْضُهُمْ مِثْلَ رِوَايَةِ الْحَفَرِيِّ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَال: سَمِعْتُ رَجُلًا يُحَدِّثُ عِنْدَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مردوں کو گالی دے کر زندوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی روایت کرنے میں سفیان کے شاگرد مختلف ہیں، بعض نے حفری کی حدیث کے مثل روایت کی ہے (یعنی: «عن زياد بن علاقة، عن المغيرة» کے طریق سے) اور بعض نے اسے «عن سفيان عن زياد بن علاقة قال سمعت رجلا يحدث عند المغيرة بن شعبة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۵۰۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زُبَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "، قَالَ زُبَيْدٌ: قُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑا کرنا کفر ہے" ۱؎۔ راوی زبید بن حارث کہتے ہیں: میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے سنی ہے؟ کہا: ہاں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۳۶ (۴۸) ، والأدب ۴۴ (۶۰۴۴) ، والفتن ۸ (۷۰۷۶) ، صحیح مسلم/الإیمان ۲۸ (۶۴) ، سنن النسائی/المحاربة ۲۷ (۴۱۱۳-۴۱۱۶) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۹ (۶۹) ، والفتن ۴ (۳۹۳۹) (تحفة الأشراف : ۹۲۴۳) ، و مسند احمد (۱/۳۸۵، ۴۱۱، ۴۱۷، ۴۳۳، ۴۳۹، ۴۴۶، ۴۵۴، ۴۶۰) ، ویأتي في الإیمان برقم ۲۶۳۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت و احترام کا خاص خیال رکھے کیونکہ ناحق کسی کو گالی دینا باعث فسق ہے ، اور ناحق جھگڑا کرنا کفار کا عمل ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا "، فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَهُوَ كُوفِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق الْقُرَشِيُّ مَدَنِيُّ، وَهُوَ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا، وَكِلَاهُمَا كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا"،(یہ سن کر) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اسحاق بن عبدالرحمٰن کے حافظے کے تعلق سے بعض محدثین نے کلام کیا ہے، یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں، ۳- عبدالرحمٰن بن اسحاق نام کے ایک دوسرے راوی ہیں، وہ قرشی اور مدینہ کے رہنے والے ہیں، یہ ان سے اثبت ہیں، اور دونوں کے دونوں ہم عصر ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤالف وأعادہ في صفة الجنة ۳ (۲۵۲۷) (تحفة الأشراف : ۱۰۲۹۶) و مسند احمد (۱/۱۵۶) (حسن) (سند میں عبد الرحمن بن اسحاق واسطی سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : خوش کلامی ، کثرت سے روزے رکھنا ، اور رات میں جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں اللہ کے لیے نماز پڑھنی یہ ایسے اعمال ہیں جو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والے ہیں ، شرط یہ ہے کہ یہ سب اعمال ریاکاری اور دکھاوے سے خالی ہوں۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " نِعِمَّا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يُطِيعَ رَبَّهُ وَيُؤَدِّيَ حَقَّ سَيِّدِهِ "، يَعْنِي: الْمَمْلُوكَ، وَقَالَ كَعْبٌ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي مُوسَى، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کے لیے کیا ہی اچھا ہے کہ اپنے رب کی اطاعت کریں اور اپنے مالک کا حق ادا کریں"، آپ کے اس فرمان کا مطلب لونڈی و غلام سے تھا ۱؎۔ کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوموسیٰ اشعری اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۳۸۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : گویا وہ غلام اور لونڈی جو رب العالمین کی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کے جملہ حقوق کو اچھی طرح سے ادا کریں ان کے لیے دو گنا ثواب ہے ، ایک رب کی عبادت کا دوسرا مالک کا حق ادا کرنے کا۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ عَلَى كُثْبَانِ الْمِسْكِ، أُرَاهُ قَالَ: يَوْمَ الْقِيَامَةِ: عَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ بِهِ رَاضُونَ، وَرَجُلٌ يُنَادِي بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ إِلا مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ، وَأَبُو الْيَقْظَانِ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ قَيْسٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ عُمَيْرٍ وَهُوَ أَشْهَرُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین آدمی مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، قیامت کے دن، پہلا وہ غلام جو اللہ کا اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے، دوسرا وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے راضی ہوں، اور تیسرا وہ آدمی جو رات اور دن میں نماز کے لیے پانچ بار بلاتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے سفیان ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ۲- ابوالیقظان کا نام عثمان بن قیس ہے، انہیں عثمان بن عمیر بھی کہا جاتا ہے اور یہی مشہور ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وأعادہ في صفة الجنة ۲۵ (۲۵۶۶) (تحفة الأشراف : ۶۷۱۸) ، وانظر مسند احمد (۲/۲۶) (ضعیف) (سند میں أبوالیقظان ضعیف، مختلط اور مدلس راوی ہے، اور تشیع میں بھی غالی ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اذان دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جو تم سے ہو جائے) بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے۱؎ اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۹۸۹) ، وانظر مسند احمد (۵/۱۵۳، ۱۵۸، ۱۷۷، ۲۲۸، ۲۳۶) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۷۴ (حسن)
وضاحت: ۱؎ : مثلاً نماز پڑھو ، صدقہ و خیرات کرو اور کثرت سے توبہ و استغفار کرو۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی ابوذر رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (حسن)
قَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، قَالَ مَحْمُودٌ: وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ.
اس سند سے معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ محمود بن غیلان کہتے ہیں: صحیح ابوذر کی حدیث ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۳۶۶) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : مثلاً نماز پڑھو ، صدقہ و خیرات کرو اور کثرت سے توبہ و استغفار کرو۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: و سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَذْكُرُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ سُفْيَانَ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ: الظَّنُّ ظَنَّانِ: فَظَنٌّ إِثْمٌ، وَظَنٌّ لَيْسَ بِإِثْمٍ، فَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي هُوَ إِثْمٌ فَالَّذِي يَظُنُّ ظَنًّا وَيَتَكَلَّمُ بِهِ، وَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي لَيْسَ بِإِثْمٍ فَالَّذِي يَظُنُّ وَلاَيَتَكَلَّمُ بِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سفیان کہتے ہیں کہ ظن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب ہے اور ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب نہیں ہے، جو ظن گناہ کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر لائے، اور جو ظن گناہ کا سبب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر نہ لائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۵ (۵۱۴۳) ، والأدب ۵۷ (۶۰۶۴) ، و۵۸ (۶۰۶۶) ، والفرائض ۲ (۶۷۲۴) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۹ (۲۵۶۳) ، سنن ابی داود/ الأدب ۵۶ (۴۹۱۷) (تحفة الأشراف : ۱۳۷۲۰) ، و مسند احمد (۲/۲۴۵، ۳۱۲، ۳۴۲، ۴۶۵، ۴۷۰، ۴۸۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے ، کیونکہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہر مسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَضَّاحِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَنْ كَانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ لَيَقُولُ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: " يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر والوں کے ساتھ اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے فرماتے: ابوعمیر! نغیر کا کیا ہوا؟ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۳۳۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نغیر گوریا کی مانند ایک چڑیا ہے جس کی چونچ لال ہوتی ہے ، ابوعمیر نے اس چڑیا کو پال رکھا تھا اور اس سے بہت پیار کرتے تھے ، جب وہ مر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تسلی مزاح کے طور پر ان سے پوچھتے تھے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَهُ، وَأَبُو التَّيَّاحِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ الضُّبَعِيُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوالتیاح کا نام یزید بن حمید ضبعی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ: " إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ مَعْنَى قَوْلِهِ: إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا: إِنَّمَا يَعْنُونَ إِنَّكَ تُمَازِحُنَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "میں (خوش طبعی اور مزاح میں بھی)حق کے سوا کچھ نہیں کہتا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۹۴۹) ، وانظر: مسند احمد (۲/۳۴۰، ۳۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : لوگوں کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے ہمیں مزاح (ہنسی مذاق) اور خوش طبعی کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ خود خوش طبعی کرتے ہیں ، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مزاح اور خوش طبعی کے وقت بھی میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ، جب کہ ایسے موقع پر دوسرے لوگ غیر مناسب اور ناحق باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا اسْتَحْمَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ النَّاقَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کی درخواست کی، آپ نے فرمایا: "میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا"، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سوا کوئی اور بھی جنتی ہے؟" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۹۲ (۴۹۹۸) (تحفة الأشراف : ۶۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے ، ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا : «لا تدخل الجنة عجوز» یعنی " بوڑھیا جنت میں نہیں جائیں گی " ، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں داخل ہوتے وقت ہر عورت نوجوان ہو گی ، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان : «إني حاملك على ولد الناقة» کا بھی حال ہے ، مفہوم یہ ہے کہ اگر کہنے والے کی بات پر غور کر لیا جائے تو پھر سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: " يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ "، قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: يَعْنِي مَازَحَهُ، وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے دو کان والے!" محمود بن غیلان کہتے ہیں: ابواسامہ نے کہا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مزاح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۹۲ (۵۰۰۲) ، ویأتي في المناقب ۵۶ (برقم: ۳۸۲۸) (تحفة الأشراف : ۹۳۴) ، و مسند احمد (۳/۱۱۷، ۱۲۷، ۲۴۲، ۲۶۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكَرِّمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا، وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا "، وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق پر ہے، اس کے لیے اطراف جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا، جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا اور جو شخص اپنے اخلاق اچھے بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة ۷ (۵۱) (تحفة الأشراف : ۸۶۸) (ضعیف) سند میں سلمہ بن وردان لیثی مدنی ضعیف راوی ہیں، صحیح الفاظ ابو امامہ رضی الله عنہ کی حدیث سے اس طرح ہیں: ’’ أنا زعیم ببیت في ربض الجنة لمن ترک المزاح و إن کان محقا، و بیت في وسط الجنة لمن ترک الکذب و إن کان مازحا، و بیت في اعلی الجنة لمن حسن خلقہ ‘‘ (أبو داود رقم ۴۸۰۰) تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة ۲۷۳)
حَدَّثَنَا فَضَالَةُ بْنُ الْفَضْلِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُخَاصِمًا "، وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑتے رہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۵۴۰) (ضعیف) (سند میں ’’ ادریس بن بنت وہب بن منبہ ‘‘ مجہول راوی ہے)
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ اللَّيْثِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تُمَارِ أَخَاكَ وَلَا تُمَازِحْهُ وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدَةً فَتُخْلِفَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ عِنْدِي هُوَ ابْنُ أَبِي بَشِيرٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے بھائی سے مت جھگڑو، نہ اس سے ہنسی مذاق کرو، اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی تم خلاف ورزی کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۱۵۱) (ضعیف) (سند میں ’’ لیث بن أبی سلیم ‘‘ ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ أَوْ أَخُو الْعَشِيرَةِ، ثُمَّ أَذِنَ لَهُ فَأَلَانَ لَهُ الْقَوْلَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، " إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس وقت میں آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: "یہ قوم کا برا بیٹا ہے، یا قوم کا بھائی برا ہے"، پھر آپ نے اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور اس سے نرم گفتگو کی، جب وہ نکل گیا تو میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو اس کو برا کہا تھا، پھر آپ نے اس سے نرم گفتگو کی ۱؎، آپ نے فرمایا: "عائشہ! لوگوں میں سب سے برا وہ ہے جس کی بد زبانی سے بچنے کے لیے لوگ اسے چھوڑ دیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۸ (۶۰۳۲) ، و۴۸ (۶۰۵۴) ، و ۸۲ (۶۱۳۱) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۲۲ (۲۵۹۱) ، سنن ابی داود/ الأدب ۶ (۴۷۹۱) (تحفة الأشراف : ۱۶۷۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس کے برا ہوتے ہوئے بھی اس کے مہمان ہونے پر اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا ، یہی باب سے مطابقت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أُرَاهُ رَفَعَهُ، قَالَ: " أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا، وَأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْنًا مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْمًا مَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيث عَنْ أَيُّوبَ بِإِسْنَادٍ غَيْرِ هَذَا، رَوَاهُ الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ أَيْضًا، بِإِسْنَادٍ لَهُ عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالصَّحِيحُ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفٌ قَوْلُهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے دوست سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دوستی رکھو شاید وہ کسی دن تمہارا دشمن ہو جائے اور اپنے دشمن سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دشمنی کرو شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- یہ حدیث ایوب کے واسطہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے، حسن بن ابی جعفر نے اپنی سند سے اس کی روایت کی ہے، جو علی کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے، یہ روایت بھی ضعیف ہے، اس روایت کے سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ علی سے موقوفا مروی ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۴۳۲) (صحیح) (انظر غایة المرام رقم: ۴۷۲)
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو گا ۱؎ اور جہنم میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، سلمہ بن الاکوع اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ۳۹ (۱۴۸) ، سنن ابی داود/ اللباس ۲۹ (۴۰۹۱) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة (۵۹) (تحفة الأشراف : ۹۴۲۱) ، و مسند احمد (۱/۳۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مراد جنت میں پہلے پہل جانے کا ہے ، ورنہ ہر موحد سزا بھگتنے بعد «إن شاء اللہ» جنت میں جائے گا۔ ۲؎ : مراد کفار کی طرح جہنم میں داخل ہونے کا ہے ، یعنی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں نہیں داخل ہو گا ، بلکہ اخیر میں سزا کاٹ کر جنت میں چلا جائے گا ، «إن شاء اللہ»۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ يَعْنِي مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ "، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ ثَوْبِي حَسَنًا وَنَعْلِي حَسَنًا، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْجَمَالَ وَلَكِنَّ الْكِبْرَ مَنْ بَطَرَ الْحَقَّ وَغَمَصَ النَّاسَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ: لَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِنَّمَا مَعْنَاهُ: لَا يُخَلَّدُ فِي النَّارِ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ " وَقَدْ فَسَّرَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ هَذِهِ الْآيَةَ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ سورة آل عمران آية 192 فَقَالَ: مَنْ تُخَلِّدُ فِي النَّارِ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو، اور جہنم میں داخل نہیں ہو گا یعنی وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو" ۱؎۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں؟ آپ نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالیٰ جمال (خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے، لیکن تکبر اس شخص کے اندر ہے جو حق کونہ مانے اور لوگوں کو حقیر اور کم تر سمجھے"۔ بعض اہل علم اس حدیث: «ولا يدخل النار يعني من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان» کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا، ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ جہنم سے بالآخر ضرور نکلے گا"، کئی تابعین نے اس آیت «ربنا إنك من تدخل النار فقد أخزيته» (سورۃ آل عمران: ۱۹۲) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے: اے میرے رب! تو نے جس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیا اس کو ذلیل و رسوا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۹۴۴۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کبر و غرور اللہ کو قطعا پسند نہیں ہے ، اس کا انجام بےحد خطرناک اور نہایت برا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَذْهَبُ بِنَفْسِهِ حَتَّى يُكْتَبَ فِي الْجَبَّارِينَ فَيُصِيبُهُ مَا أَصَابَهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انسان ہمیشہ اپنے آپ کو تکبر (گھمنڈ) کی طرف لے جاتا ہے، یہاں تک کہ ظالموں کی فہرست میں اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اور اس لیے اسے وہی عذاب لاحق ہوتا ہے جو ظالموں کو لاحق ہوا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۵۲۸) (ضعیف) (سند میں عمر بن راشد ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَى الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: تَقُولُونَ فِيَّ التِّيهُ وَقَدْ رَكِبْتُ الْحِمَارَ وَلَبِسْتُ الشَّمْلَةَ وَقَدْ حَلَبْتُ الشَّاةَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ فَعَلَ هَذَا فَلَيْسَ فِيهِ مِنَ الْكِبْرِ شَيْءٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ میرے اندر تکبر ہے، حالانکہ میں نے گدھے کی سواری کی ہے، موٹی چادر پہنی ہے اور بکری کا دودھ دوہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے یہ کام کیے اس کے اندر بالکل تکبر نہیں ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۲۰۰) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ بےحیاء، بدزبان سے نفرت کرتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، انس اور اسامہ بن شریک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۸ (۴۷۹۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۰۰۲) ، و مسند احمد (۶/۴۴۲، ۴۴۶، ۴۴۸، ۴۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ اللَّيْثِ الْكُوفِيُّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ شَيْءٍ يُوضَعُ فِي الْمِيزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِهِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے اخلاق حسنہ (اچھے اخلاق)سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے، اور اخلاق حسنہ کا حامل اس کی بدولت روزہ دار اور نمازی کے درجہ تک پہنچ جائے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۱۰۹۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّةَ، فَقَالَ: " تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ "، وَسُئِلَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ، فَقَالَ: " الْفَمُ وَالْفَرْجُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَوْدِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو بکثرت جنت میں داخل کرے گی تو آپ نے فرمایا:"اللہ کا ڈر اور اچھے اخلاق پھر آپ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو بکثرت جہنم میں داخل کرے گی تو آپ نے فرمایا: "منہ اور شرمگاہ" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۹ (۴۲۴۶) (تحفة الأشراف : ۱۴۸۴۷) ، و مسند احمد (۲/۲۹۱، ۳۹۲، ۴۴۲) (حسن الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : اللہ کا خوف اور اچھے اخلاق جس کے اندر پائے جائیں اس سے بہتر شخص کوئی نہیں ہے ، اسی طرح جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت نہ کر سکے اس سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں ہے ، کیونکہ دین کا سارا دارومدار اسی پر ہے ، ہر طرح کی برائی کا صدور انہیں سے ہوتا ہے ، اس لیے جس نے ان دونوں کی حفاظت کی وہ خوش نصیب ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ وَصَفَ حُسْنَ الْخُلُقِ، فَقَالَ: " هُوَ بَسْطُ الْوَجْهِ، وَبَذْلُ الْمَعْرُوفِ، وَكَفُّ الْأَذَى ".
عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ انہوں نے اخلاق حسنہ کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا: اخلاق حسنہ لوگوں سے مسکرا کر ملنا ہے، بھلائی کرنا ہے اور دوسروں کو تکلیف نہ دینا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۸۹۳۶) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ أَمُرُّ بِهِ فَلَا يَقْرِينِي وَلَا يُضَيِّفُنِي، فَيَمُرُّ بِي أَفَأُجْزِيهِ، قَالَ: " لَا، اقْرِهِ "، قَالَ: وَرَآَّنِي رَثَّ الثِّيَابِ، فَقَالَ: " هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ ؟ " قُلْتُ: مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ أَعْطَانِيَ اللَّهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ، قَالَ: " فَلْيُرَ عَلَيْكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ اسْمُهُ عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ الْجُشَمِيُّ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: اقْرِهِ: أَضِفْهُ، وَالْقِرَى هُوَ الضِّيَافَةُ.
مالک بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک ایسا آدمی ہے جس کے پاس سے میں گزرتا ہوں تو میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھی میرے پاس سے گزرتا ہے، کیا میں اس سے بدلہ لوں؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: "نہیں، (بلکہ) اس کی ضیافت کرو"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن پر پرانے کپڑے دیکھے تو پوچھا، تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال اونٹ اور بکری عطاء کی ہے، آپ نے فرمایا: "تمہارے اوپر اس مال کا اثر نظر آنا چاہیئے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «اقْرِهِ» کا معنی ہے تم اس کی ضیافت کرو «قری» ضیافت کو کہتے ہیں، ۳- اس باب میں عائشہ، جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ابوالاحوص کا نام عوف بن مالک نضلہ جشمی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن ابی داود/ اللباس ۱۷ (۴۰۶۳) ، سنن النسائی/الزینة ۵۴ (۵۲۳۹) ، و ۸۲ (۵۳۰۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۲۰۶) ، و مسند احمد (۳/۴۷۳-۴۷۴) و (۴/۱۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی بدلہ کے طور پر میں بھی اس کی میزبانی اور ضیافت نہ کروں۔
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَكُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ ہر ایک کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو، اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۳۶۱) (ضعیف) (سند میں ’’ ولید بن عبد اللہ بن جمیع زہری ‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي كَبْشَةَ الْبَصْرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ السَّدُوسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الْقَسْمَلِيُّ هُوَ الشَّامِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ عَادَ مَرِيضًا، أَوْ زَارَ أَخًا لَهُ فِي اللَّهِ، نَادَاهُ مُنَادٍ أَنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو سِنَانٍ اسْمُهُ عِيسَى بْنُ سِنَانٍ، وَقَدْ رَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کی تو اس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے: تمہاری دنیاوی و اخروی زندگی مبارک ہو، تمہارا چلنا مبارک ہو، تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کر لیا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- حماد بن سلمہ نے «عن ثابت عن أبي رافع عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲ (۱۴۴۳) (تحفة الأشراف : ۱۴۱۳۳) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حصول ثواب کی خاطر اپنے کسی دینی بھائی کی جو مریض ہو عیادت کرے یا کسی بھی دینی بھائی سے ملاقات کرے تو ایسا شخص اس ثواب کا مستحق ہو گا جو اس حدیث میں مذکور ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَعَبْدُ الرَّحِيمِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ، وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ، وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حیاء ایمان کا ایک جزء ہے اور ایمان والے جنت میں جائیں گے اور بےحیائی کا تعلق ظلم سے ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابوبکرہ، ابوامامہ اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۰۴۰، و ۱۵۰۵۳، و۱۵۰۸۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جس طرح ایمان صاحب ایمان کو گناہوں سے روکنے کا سبب ہے ، اسی طرح حیاء انسان کو معصیت اور گناہوں سے بچاتا ہے ، بلکہ اس کے لیے ایک طرح کی ڈھال ہے ، اسی وجہ سے حیاء کو ایمان کا جزء کہا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ الْمُزَنِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّمْتُ الْحَسَنُ وَالتُّؤَدَةُ وَالِاقْتِصَادُ جُزْءٌ مِنْ أَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن سرجس مزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھی خصلت، غور و خوص کرنا اور میانہ روی نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۳۲۳) (حسن)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَاصِمٍ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن سرجس رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں "عاصم" کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، نصر بن علی کی روایت ہی صحیح ہے (جو اوپر مذکور ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ: " إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ: الْحِلْمُ وَالْأَنَاةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنِ الْأَشَجِّ الْعَصَرِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منذر بن عائذ اشج عبدالقیس سے فرمایا: "تمہارے اندر دو خصلتیں (خوبیاں) ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں: بردباری اور غور و فکر کی عادت ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں اشج عصری سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۸ (۴۱۸۸) (تحفة الأشراف : ۶۵۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ انسان کو کوئی بھی کام سوچ سمجھ کرنا چاہیئے ، جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے اور آدمی کو بردباری اور حلیم و صابر ہونا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُهَيْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَنَاةُ مِنَ اللَّهِ، وَالْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي عَبْدِ الْمُهَيْمِنِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ وَضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَالْأَشَجُّ بْنُ عَبْدِ الْقَيْسِ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ عَائِذٍ.
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سوچ سمجھ کر کام کرنا اور جلد بازی نہ کرنا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- بعض محدثین نے عبدالمہیمن بن عباس بن سہل کے بارے میں کلام کیا ہے، اور حافظے کے تعلق سے انہیں ضعیف کہا ہے، ۳- اشج بن عبدالقیس کا نام منذر بن عائذ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۷۹۷) (ضعیف) (سند میں ’’ عبد المھیمن بن عباس ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْأُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أُعْطِيَ حَظَّهُ مِنَ الرِّفْقِ فَقَدْ أُعْطِيَ حَظَّهُ مِنَ الْخَيْرِ، وَمَنْ حُرِمَ حَظَّهُ مِنَ الرِّفْقِ فَقَدْ حُرِمَ حَظَّهُ مِنَ الْخَيْرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کو نرم برتاؤ کا حصہ مل گیا، اسے اس کی بھلائی کا حصہ بھی مل گیا اور جو شخص نرم برتاؤ کے حصہ سے محروم رہا وہ بھلائی سے بھی محروم رہا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، جریر بن عبداللہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۰۰۳) ، وانظر: مسند احمد (۶/۴۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ نرم برتاؤ ، مہربانی اور رفق دنیا اور آخرت کی ہر اچھائی کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہے ، چنانچہ انسان میں خیر کا پہلو اتنا ہی غالب ہو گا جتنا اس میں رفق اور نرم روی کا پہلو غالب ہو گا ، اور جو اس صفت سے محروم ہو گا وہ خیر سے خالی ہو گا
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: " اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَعْبَدٍ اسْمُهُ نَافِذٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو (حاکم بنا کر) یمن روانہ کرتے وقت فرمایا: "مظلوم کی دعا سے ڈرو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ آڑے نہیں آتا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۳ (۱۴۹۶) ، والمظالم ۹ (۲۴۴۸) ، والمغازي ۶۰ (۴۳۴۷) ، سنن ابی داود/ الزکاة ۵ (۱۵۸۴) ، سنن النسائی/الزکاة ۴۶ (۲۵۲۳) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۱ (۱۷۸۳) (تحفة الأشراف : ۶۵۱۱) ، و مسند احمد (۱/۲۳۳) ، وسنن الدارمی/الزکاة ۱ (۱۶۵۵) (وانظر أیضا ماتقدم عند المؤلف برقم ۶۲۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ مظلوم کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ، اس لیے ظلم و تعدی سے ہمیشہ دور رہو ، ورنہ مظلوم کی آہ کا شکار ہو جاؤ گے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَهُ وَلَا لِشَيْءٍ تَرَكْتُهُ لِمَ تَرَكْتَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْأَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، وَلَا مَسَسْتُ خَزًّا قَطُّ وَلَا حَرِيرًا وَلَا شَيْئًا كَانَ أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا شَمَمْتُ مِسْكًا قَطُّ وَلَا عِطْرًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرَقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَالْبَرَاءِ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، آپ نے کبھی مجھے اف تک نہ کہا، اور نہ ہی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو تم نے ایسا کیوں نہیں کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق کے آدمی تھے، میں نے کبھی کوئی ریشم، حریر یا کوئی چیز آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم اور ملائم نہیں دیکھی اور نہ کبھی میں نے کوئی مشک یا عطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے زیادہ خوشبودار دیکھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ اور براء رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۲۵ (۲۷۲۸) ، والمناقب ۲۳ (۳۵۶۱) ، والأدب ۳۹ (۶۰۳۸) ، والدیات ۲۷ (۶۹۱۱) (في جمیع المواضع بالشطر الأول فحسب) ، صحیح مسلم/الفضائل ۱۳ (۲۳۱۰) (بالشطر الأول فحسب) و۲۱ (۲۳۳۰) (بالشطر الأخیر) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱ (۴۷۷۷۳) (في سیاق طویل بالشطر الأول فحسب) (تحفة الأشراف : ۲۶۴) ، و مسند احمد (۳/۱۰۱، ۱۲۴، ۱۷۴، ۲۰۰، ۲۲۷، ۲۲۱، ۲۵۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيَّ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا، وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ، وَيُقَالُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدٍ.
ابوعبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گو، بدکلامی کرنے والے اور بازار میں چیخنے والے نہیں تھے، آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ عفو و درگزر فرما دیتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوعبداللہ جدلی کا نام عبد بن عبد ہے، اور عبدالرحمٰن بن عبد بھی بیان کیا گیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۷۹۴) ، وانظر: مسند احمد (۶/۱۷۴، ۲۳۶، ۲۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور کمال شرافت کا بیان ہے ، اور اس بات کی صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برائی اور تکلیف پہنچانے والے سے عفو و درگذر سے کام لیتے تھے نہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ وَمَا بِي أَنْ أَكُونَ أَدْرَكْتُهَا، وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيَتَتَبَّعُ بِهَا صَدَائِقَ خَدِيجَةَ فَيُهْدِيهَا لَهُنَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر میں اس طرح غیرت نہیں کھاتی تھی جس طرح خدیجہ پر غیرت کھاتی تھی جب کہ میں نے ان کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا، اس غیرت کی کوئی وجہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ آپ ان کو بہت یاد کرتے تھے، اور اگر آپ بکری ذبح کرتے تو ان کی سہیلیوں کو ڈھونڈتے اور گوشت ہدیہ بھیجتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/مناقب الأنصار ۲۰ (۳۸۱۶، ۳۸۱۷) ، والنکاح ۱۰۸ (۵۲۲۹) ، والأدب ۲۳ (۶۰۰۴) ، والتوحید ۳۲ (۷۴۸۴) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۱۲ (۲۴۳۵) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۶ (۱۹۹۷) (تحفة الأشراف : ۱۶۸۷) ، و مسند احمد (۶/۵۸، ۲۰۲، ۲۷۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جب سہیلیوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ اتنا اچھا تھا تو خود خدیجہ رضی الله عنہا کے ساتھ کیسا ہو گا ؟ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا چاہیئے ، جیسے کہ باپ کے بارے میں حکم آیا ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ آدمی اچھا برتاؤ کرے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا، وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ، وَالْمُتَشَدِّقُونَ، فَمَا الْمُتَفَيْهِقُونَ ؟ قَالَ: " الْمُتَكَبِّرُونَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، وَهَذَا أَصَحُّ وَالثَّرْثَارُ، هُوَ الْكَثِيرُ الْكَلَامِ، وَالْمُتَشَدِّقُ الَّذِي يَتَطَاوَلُ عَلَى النَّاسِ فِي الْكَلَامِ وَيَبْذُو عَلَيْهِمْ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے نزدیک تم میں سے (دنیا میں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں، اور میرے نزدیک تم میں (دنیا میں) سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی، بلااحتیاط بولنے والے، زبان دراز اور تکبر کرنے والے «متفيهقون» ہیں"، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے «ثرثارون» (باتونی) اور «متشدقون» (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: "تکبر کرنے والے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۳- بعض لوگوں نے یہ حدیث «عن المبارك بن فضالة عن محمد بن المنكدر عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم ولم» کی سند سے روایت کی ہے اور اس میں «عن عبد ربه بن سعيد» کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، اور یہ زیادہ صحیح ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۴- «ثرثار» باتونی کو کہتے ہیں: اور «متشدق» اس آدمی کو کہتے ہیں: جو لوگوں کے ساتھ گفتگو میں بڑائی جتاتے اور فحش کلامی کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۰۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں کم بولنے اور سادگی سے گفتگو کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ، اور تصنع و بناوٹ اور تکبر سے منع کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لَعَّانًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا " وَهَذَا الْحَدِيثُ مُفَسِّرٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن لعن و طعن کرنے والا نہیں ہوتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- بعض لوگوں نے اسی سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: "مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لعن وطعن کرنے والا ہو"، یہ حدیث پہلی حدیث کی وضاحت کر رہی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۷۹۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَلِّمْنِي شَيْئًا وَلَا تُكْثِرْ عَلَيَّ لَعَلِّي أَعِيهِ، قَالَ: " لَا تَغْضَبْ " فَرَدَّدَ ذَلِكَ مِرَارًا، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: " لَا تَغْضَبْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں، آپ نے فرمایا: "غصہ مت کرو"، وہ کئی بار یہی سوال دہراتا رہا اور آپ ہر بار کہتے رہے "غصہ مت کرو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوسعید اور سلیمان بن صرد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۷۶ (۶۱۱۶) (تحفة الأشراف : ۱۲۸۴۶) ، و مسند احمد (۲/۳۶۲، ۴۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : غصہ کی صفت سے کوئی انسان خالی نہیں ہے ، لیکن غصہ پر قابو پا لینا سب سے بڑی نیکی اور انسان کی سب سے کامل عادت ہے ، نصیحت مخاطب کے مزاج و طبیعت کا خیال کرتے ہوئے اس کے حالات کے مطابق ہونی چاہیئے ، چنانچہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے متعدد بار سوال کرنے کے باوجود اس کے حالات کے مطابق ایک ہی جواب دیا یعنی غصہ مت کرو۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ الدُّورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِيأَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنَفِّذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص غصہ ضبط کر لے حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کر لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۳ (۴۷۷۷) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۸ (۴۱۸۶) ، یأتي في القیامة ۲۴۹۳ (تحفة الأشراف : ۱۱۲۹۸) ، و مسند احمد (۳/۴۳۸، ۴۴۰) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ بَيَانٍ الْعُقَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الرَّحَّالِ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ يَزِيدَ بْنِ بَيَانٍ، وَأَبُو الرِّجَالِ الْأَنْصَارِيُّ آخَرُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقرر فرما دے گا جو اس عمر میں (یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی شیخ یعنی یزید بن بیان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ابوالرجال انصاری ایک دوسرے راوی ہیں(اور جو راوی اس حدیث میں ہیں وہ ابوالرحال ہیں)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۱۶) (ضعیف) (سند میں یزید بن بیان، اور أبوالرحال دونوں ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تُفَتَّحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ فِيهِمَا لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا الْمُهْتَجِرَيْنِ، يُقَالُ: رُدُّوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ: " ذَرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ الْمُهْتَجِرَيْنِ: يَعْنِي الْمُتَصَارِمَيْنِ، وَهَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے والوں کی اس دن مغفرت کی جاتی ہے، سوائے ان کے جنہوں نے باہم قطع تعلق کیا ہے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے، ان دونوں کو لوٹا دو یہاں تک کہ آپس میں صلح کر لیں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض روایتوں میں «ردوا هذين حتى يصطلحا» "ان دونوں کو اپنے حال پر چھوڑ دو جب تک صلح نہ کر لیں" کے الفاظ مروی ہیں، ۳- «مهتجرين» کے معنی «متصارمين» "قطع تعلق کرنے والے" ہیں، ۴- یہ حدیث اسی روایت کے مثل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۱۱ (۲۵۶۵) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ۴۲ (۱۷۳۹) (تحفة الأشراف : ۱۲۷۰۲) ، و مسند احمد (۲/۳۲۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پیر اور جمعرات یہ ایسے دو دن ہیں جن کے بارے میں بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان دو دنوں میں (اللہ کے یہاں) بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو دنوں میں اہتمام سے روزہ رکھتے تھے ، اور مسلم کی روایت ہے کہ پیر کے دن آپ کی پیدائش ہوئی اور اسی دن آپ کی بعثت بھی ہوئی۔
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ قَالَ: " مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ شَيْئًا هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ أَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ هَذَا الْحَدِيثُ، فَلَنْ أَذْخَرَهُ عَنْكُمْ وَالْمَعْنَى فِيهِ وَاحِدٌ، يَقُولُ: لَنْ أَحْبِسَهُ عَنْكُمْ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ چند انصاریوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا: "جو مال بھی میرے پاس ہو گا میں اس کو تم سے چھپا کر ہرگز جمع نہیں رکھوں گا، لیکن جو استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا ۱؎، جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا، اور جو صبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا کرے گا، کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث امام مالک سے (دوسری سند سے) «فلن أذخره عنكم» کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے، ان دونوں عبارتوں کا ایک ہی معنی ہے، یعنی تم لوگوں سے میں اسے ہرگز نہیں روک رکھوں گا، ۳- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۰ (۱۳۶۹) ، والرقاق ۲۰ (۶۴۷۰) ، صحیح مسلم/الزکاة ۴۲ (۱۰۵۳) ، سنن النسائی/الزکاة ۸۵ (۲۵۸۹) (تحفة الأشراف : ۴۱۵۲) ، وط/الصدقہ ۲ (۷) ، و مسند احمد (۳/۱۲، ۱۴، ۴۷، ۹۳) ، و سنن الدارمی/الزکاة ۱۸ (۱۶۸۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بے نیاز کر دے گا۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ذَا الْوَجْهَيْنِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَعَمَّارٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ کی نظر میں دو رخے شخص سے بدتر کوئی نہیں ہو گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور عمار رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۱ (۳۴۹۴) ، والأدب ۵۲ (۶۰۵۸) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۴۸ (۲۵۲۶) ، سنن ابی داود/ الأدب ۳۹ (۴۸۷۲) (تحفة الأشراف : ۱۲۵۳۸) ، و مسند احمد (۲/۴۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : دو رخے شخص سے مراد ایسا آدمی ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے تو اسے یہ یقین دلائے کہ تمہارا خیرخواہ اور ساتھی ہوں اور دوسرے کا مخالف ہوں ، لیکن جب دوسرے گروہ کے پاس جائے تو اسے بھی اسی طرح کا تاثر دے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَذَا يُبَلِّغُ الْأُمَرَاءَ الْحَدِيثَ عَنِ النَّاسِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ "، قَالَ سُفْيَانُ: وَالْقَتَّاتُ: النَّمَّامُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کے پاس سے ایک آدمی گزرا، ان سے کہا گیا کہ یہ شخص حکام کے پاس لوگوں کی باتیں پہنچاتا ہے، تو حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "چغل خور جنت میں نہیں داخل ہو گا" ۱؎۔ سفیان کہتے ہیں: «قتات» ، «نمام»"چغل خور" کو کہتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۵۰ (۶۰۵۶) ، صحیح مسلم/الإیمان ۴۵ (۱۵۰) ، سنن ابی داود/ الأدب ۳۸ (۴۸۷۱) (تحفة الأشراف : ۳۳۸۶) ، و مسند احمد (۵/۳۸۲، ۳۸۹، ۳۹۷، ۴۰۳، ۴۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حاکموں اور حکومتی عہدہ داروں کے پاس اہل ایمان اور صالح لوگوں کی چغلی کرنے والوں ، ان کی رپورٹیں بنا بنا کر پیش کرنے والوں اور جھوٹ سچ ملا کر اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کو اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے ، دنیاوی مفادات چار دن کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اخروی حیات کا آخری کوئی سرا نہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الْإِيمَانِ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ، قَالَ: وَالْعِيُّ: قِلَّةُ الْكَلَامِ، وَالْبَذَاءُ: هُوَ الْفُحْشُ فِي الْكَلَامِ، وَالْبَيَانُ: هُوَ كَثْرَةُ الْكَلَامِ مِثْلُ هَؤُلَاءِ الْخُطَبَاءِ الَّذِينَ يَخْطُبُونَ فَيُوَسِّعُونَ فِي الْكَلَامِ وَيَتَفَصَّحُونَ فِيهِ مِنْ مَدْحِ النَّاسِ فِيمَا لَا يُرْضِي اللَّهَ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب، ہم اسے صرف ابوغسان محمد بن مطرف ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- «عي» کا معنی "کم گوئی" اور «بذاء» کا معنی "فحش گوئی" ہے، «بيان» کا معنی "کثرت کلام" ہے، مثلا وہ مقررین جو لمبی تقریریں کرتے ہیں اور لوگوں کی تعریف میں ایسی فصاحت بگھاڑتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (۴۸۵۵) ، وانظر: مسند احمد (۵/۲۶۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : حیاء اور کم گوئی کے سبب انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے ، یہ دونوں خصلتیں انسان کو بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے روک دیتی ہیں ، جب کہ بک بک کرتے رہنے سے انسان جھوٹ گوئی کا بھی ارتکاب کر بیٹھتا ہے ، اور جو دل میں ہو اس کے خلاف بھی بول پڑتا ہے ، یہی نفاق ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلَيْنِ قَدِمَا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَا، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِهِمَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا "، أَوْ " إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ سِحْرٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَمَّارٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو آدمی آئے ۱؎ اور انہوں نے تقریر کی، لوگ ان کی تقریر سن کر تعجب کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: "کچھ باتیں جادو ہوتی ہیں" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمار، ابن مسعود اور عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۷ (۵۱۴۶) ، والطب ۵۱ (۵۷۶۷) ، سنن ابی داود/ الأدب ۹۴ (۵۰۰۷) (تحفة الأشراف : ۶۷۲۷) ، و مسند احمد (۴/۲۶۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ۹ ھ میں بنو تمیم کے وفد میں یہ دونوں شامل تھے ، ان میں سے ایک کا نام زبرقان اور دوسرے کا نام عمرو بن اہیم تھا۔ ۲؎ : اگر حق کی دفاع اور اخروی زندگی کی کامیابی سے متعلق اسی طرح کی خوبی کسی میں ہے تو قابل تعریف ہے ، اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لیے ہے تو لائق مذمت ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ رَجُلًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي كَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيِّ وَاسْمُهُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور عفو و درگزر کرنے سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع و انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرما دیتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابن عباس اور ابوکبشہ انماری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲-ابوکبشہ انماری کا نام عمر بن سعد ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۱۹ (۲۵۸۸) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۷۲) ، و مسند احمد (۲/۳۸۶) ، و سنن الدارمی/الزکاة ۳۵ (۱۷۱۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث میں تواضع اور خاکساری کا مذکور مرتبہ تو دنیا میں دیکھی حقیقت ہے ، اے کاش لوگ نصیحت پکڑتے۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ظلم کرنا قیامت کے دن تاریکیوں کا سبب ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عمر کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابوموسیٰ، ابوہریرہ، اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ۸ (۲۴۴۷) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۱۵ (۲۵۷۹) (تحفة الأشراف : ۷۲۰۹) ، و مسند احمد (۲/۹۲، ۱۰۶، ۱۳۶، ۱۳۷، ۱۵۶، ۱۵۹، ۱۹۱، ۱۹۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ظلم کرنے والا اپنے ظلم کے سبب قیامت کے دن مختلف قسم کے مصائب سے دوچار ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ كَانَ إِذَا اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ وَإِلَّا تَرَكَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَازِمٍ هُوَ الْأَشْجَعِيُّ الْكُوفِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، جب آپ کو پسند آتا تو کھا لیتے نہیں تو چھوڑ دیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۶۳) ، صحیح مسلم/الأشربة ۳۵ (۲۰۶۴) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۴ (۳۲۵۹) (تحفة الأشراف : ۱۳۴۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، وَالْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ أَوْفَى بْنِ دَلْهَمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعٍ، فَقَالَ: " يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ، وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ، لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ، وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ "، قَالَ: وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، وَرَوَى إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، نَحْوَهُ، وَرُوِي عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا: "اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو"۔ راوی(نافع) کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر رضی الله عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا: کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو! اور تمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظر میں مومن (کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-اسحاق بن ابراہیم سمر قندی نے بھی حسین بن واقد سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- ابوبرزہ اسلمی رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۵۰۹) (حسن)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَلِيمَ إِلَّا ذُو عَثْرَةٍ، وَلَا حَكِيمَ إِلَّا ذُو تَجْرِبَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غلطی کرنے والے ہی بردبار ہوتے ہیں اور تجربہ والے ہی دانا ہوتے ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۰۵۵) ، وانظر: مسند احمد (۳/۶۹) (ضعیف) (سند میں ’’ دراج أبوالسمح ‘‘ أبوالھیثم سے روایت میں ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ، فَإِنَّ مَنْ أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَ، وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَهُ كَانَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ " يَقُولُ: قَدْ كَفَرَ تِلْكَ النِّعْمَةَ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے کوئی تحفہ دیا جائے پھر اگر اسے میسر ہو تو اس کا بدلہ دے اور جسے میسر نہ ہو تو وہ(تحفہ دینے والے کی) تعریف کرے، اس لیے کہ جس نے تعریف کی اس نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جس نے نعمت کو چھپا لیا اس نے کفران نعمت کیا، اور جس نے اپنے آپ کو اس چیز سے سنوارا جو وہ نہیں دیا گیا ہے، تو وہ جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں اسماء بنت ابوبکر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- «ومن كتم فقد كفر» کا معنی یہ ہے: اس نے اس نعمت کی ناشکری کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۸۹۲) (حسن)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ، عَنْسُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا فَلَمْ يَعْرِفْهُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ حَازِمٍ الْبَلْخِيُّ، قَال: سَمِعْتُ الْمَكِّيَّ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَكِّيِّ، فَجَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ: أَعْطِهِ دِينَارًا، فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلَّا دِينَارٌ إِنْ أَعْطَيْتُهُ لَجُعْتَ وَعِيَالُكَ، قَالَ: فَغَضِبَ وَقَالَ: أَعْطِهِ، قَالَ الْمَكِّيُّ: فَنَحْنُ عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ بِكِتَابٍ وَصُرَّةٍ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْهِ بَعْضُ إِخْوَانِهِ، وَفِي الْكِتَابِ إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ خَمْسِينَ دِينَارًا، قَالَ: فَحَلَّ ابْنُ جُرَيْجٍ الصُّرَّةَ: فَعَدَّهَا فَإِذَا هِيَ أَحَدٌ وَخَمْسُونَ دِينَارًا، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ: قَدْ أَعْطَيْتَ وَاحِدًا فَرَدَّهُ اللَّهُ عَلَيْكَ وَزَادَكَ خَمْسِينَ دِينَارًا.
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے سے «جزاك الله خيراً» "اللہ تعالیٰ تم کو بہتر بدلا دے" کہا، اس نے اس کی پوری پوری تعریف کر دی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن جید غریب ہے، ہم اسے اسامہ بن زید رضی الله عنہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، ۳- مکی بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن جریج مکی کے پاس تھے، ایک مانگنے والا آیا اور ان سے کچھ مانگا، ابن جریج نے اپنے خزانچی سے کہا: اسے ایک دینار دے دو، خازن نے کہا: میرے پاس صرف ایک دینار ہے اگر میں اسے دے دوں تو آپ اور آپ کے اہل و عیال بھوکے رہ جائیں گے، یہ سن کر ابن جریج غصہ ہو گئے اور فرمایا: اسے دینار دے دو، ہم ابن جریج کے پاس ہی تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس ایک خط اور تھیلی لے کر آیا جسے ان کے بعض دوستوں نے بھیجا تھا، خط میں لکھا تھا: میں نے پچاس دینار بھیجے ہیں، ابن جریج نے تھیلی کھولی اور شمار کیا تو اس میں اکاون دینار تھے، ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا: تم نے ایک دینار دیا تو اللہ تعالیٰ نے تم کو اسے مزید پچاس دینار کے ساتھ لوٹا دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۷۱ (۱۸۰) (تحفة الأشراف : ۱۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کسی پر احسان کیا گیا ہو ، اس نے اپنے محسن کے لیے «جزاك الله خيرا» کہا تو اس احسان کا اس نے پورا پورا شکر یہ ادا کر دیا۔