مشکوٰة شر یف

وتر کا بیان

وتر کا بیان

وتر (لفظ وتر میں واؤ کو زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں مگر زیر کے ساتھ پڑھنا زیادہ مشہور ہے۔ (ہر اس نماز کو کہہ سکتے ہیں جس میں طاق رکعتیں ہوں مگر فقہا کے ہاں وتر اسی خاص نماز کو کہتے ہیں جس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد ہے جو عام طور پر عشاء کے فوراً بعد ہی پڑھی جاتی ہے اور اس باب میں اسی نماز وتر کا بیان ہو گا۔ 

نماز وتر واجب ہے یا سنت

نماز وتر کے سلسلہ میں ائمہ کے ہاں دو چیزوں میں اختلاف پایا جاتا ہے پہلی چیز تو یہ کہ آیا نماز وتر واجب ہے یا سنت؟چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ وتر کی نماز واجب ہے حضرت امام شافعی اور حضرت قاضی ابو یوسف فرماتے ہیں کہ سنت ہے۔ 

نماز وتر کی ایک رکعت ہے یا تین رکعتیں

علماء کے نزدیک دوسرا اختلاف یہ ہے کہ نماز وتر کی ایک رکعت ہے یا تین؟ حنفیہ کے ہاں وتر کی تین رکعتیں ہیں جب کہ اکثر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز وتر صرف ایک ہی رکعت ہے تاہم ان حضرات کے نزدیک بھی وتر کے لیے صرف ایک رکعت پڑھنا مکروہ ہے بلکہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرا جائے اس کے بعد ایک وتر پڑھی جائے۔ 

نماز وتر کا طریقہ

وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح (حنفیہ کے مسلک کے مطابق) تین رکعت پڑھی جاتی ہے، اس کے پڑھنے کا وہی طریقہ ہے جو فرض نمازوں کا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ محض دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد دوسری سورت ملائی جاتی ہے جب کہ وتر کی نماز میں تینوں رکعتوں میں دوسری سورت پڑھنے کا حکم ہے اور تیسری رکعت میں دوسری سورت کے بعد دونوں ہاتھ تکبیر کے ساتھ کانوں تک اٹھا کر (جس طرح کہ تکبیر تحریمہ کے وقت اٹھاتے ہیں) پھر باندھے جائیں اور بآواز آہستہ دعا قنوت پڑھی جائے، دعا قنوت یہ ہے۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیْکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنُثْنِی عَلَیْکَ الْخَیْرَوَ نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعَی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقْ۔

 اے اللہ ! تجھی سے مدد مانگتے ہیں تجھی سے ہدایت کے طالب ہیں، تجھی سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں ہم تیرے ہی سامنے توبہ کرتے ہیں، تیرے ہی اوپر ایمان لاتے ہیں تیری ہی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں، ہم تیرا ہی شکر ادا کرتے ہیں نا شکری نہیں کرتے اور جو آدمی تیری نا شکری نافرمانی کرے ہم اس کو چھوڑتے ہیں۔ اے پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تیری ہی نماز پڑھتے ہیں تجھی کو سجدہ کرتے ہیں، تیری ہی طرف دوڑتے آتے ہیں، تیری ہی عبادت میں جلد مستغرق ہو جاتے ہیں، تیری رحمت کے امیدوار ہیں ہم تیرے ہی عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرا عذاب کافروں پر نازل ہونے ولا ہے۔

اگر اس کے بعد یہ دعا بھی پڑھ لی جائے تو بہتر ہے۔

اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَا ِفنِیْ فِیْ مَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِیْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ اِنَّہ لا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّمَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔

 اے اللہ ! ان لوگوں کے ساتھ مجھ کو ہدایت دے جنہیں تو نے ہدایت بخشی، مجھے ان لوگوں کے ساتھ مصبیتوں اور آفتوں سے بچا جنہیں تو نے بچایا ہے، ان لوگوں کے ساتھ مجھ سے محبت کر جن سے تو نے محبت کی اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے ان برائیوں سے بچا جو مقدر ہوں بے شک تو حاکم ہے محکوم نہیں اور جس سے تو محبت کرے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تجھ کو عداوت ہو وہ عزت نہیں پا سکتا، اے اللہ تیری ذات بزرگ و برتر ہے۔

اگر کسی کو دعاء قنوت یاد نہ ہو تو وہ بجائے دعا قنوت کے یہ پڑھ لے۔ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃَ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔  اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آرام دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔

اور اگر کوئی اس کے پڑھنے پر بھی قادر نہ ہو تو پھر اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ یا یَا رَبِّ تین مرتبہ کہہ لے۔ 

نماز وتر کی رکعتوں کا مسئلہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور جب کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ (ایک رکعت) پہلی پڑھی ہوئی نماز کو طاق کر دے گی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ رات کو پڑھی جانے والی نفل نمازیں دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں چنانچہ حضرت امام شافعی، حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد نے اس حدیث کے پیش نظر کہا ہے کہ افضل یہی ہے کہ رات میں نفل نمازیں اس طرح پڑھی جائیں کہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے یعنی دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں۔ حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ رات کو نماز میں مشغول رہنے والا آدمی جب یہ دیکھے کہ رات ختم ہو رہی ہے اور صبح نمودار ہونے والی ہے تو وہ ان نمازوں کے بعد ایک رکعت پڑھ لے تاکہ یہ ایک رکعت پہلی پڑھی ہوئی نمازوں کو طاق کر دے، اس طرح یہ حدیث امام شافعی کی دلیل ہے کیونکہ ان کے نزدیک وتر کی ایک ہی رکعت ہے۔

امام طحاوی حنفی نے صلی رکعۃ واحدۃ الخ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ  ایک رکعت اس طرح پڑھے کہ اس سے پہلے دور رکعتیں پڑھ لے تاکہ یہ رکعت شفع یعنی اس ایک رکعت سے پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں کو طاق کر دے۔ گویا ایک رکعت علیحدہ نہ پڑھی جائے بلکہ دو رکعتوں کے ساتھ ملا کر پڑھی جائے۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تو یہ کہیں ثابت ہی نہیں ہوتا کہ وتر کی ایک رکعت علیحدہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ پڑھی جائے  لہٰذا اس کے ذریعے وتر کی ایک رکعت ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

پھر وتر کی تین ہی رکعتیں ہونے کے سلسلہ میں حنفیہ کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلوۃ بتیرا یعنی تنہا ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

جہاں تک صحابہ اور سلف کے عمل کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اکثر فقہا صحابہ اور سلف کا معمول وتر کی تین رکعتیں ہی پڑھنا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ان کو تو اس سلسلے میں بہت زیادہ اہتمام تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ حضرت سعید بن مسیب کو وتر ایک رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ  کیسی ناقص نماز پڑھتے ہو ؟ دو رکعت اور پڑھو ورنہ تمہیں سزا دوں گا۔ (نہایہ)

جامع ترمذی نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے وتر کی تین رکعتیں نقل کی ہیں اور اسی کو عمران بن حصین، حضرت عائشہ، عبداللہ ابن عباس اور ابو ایوب کی طرف منسوب کیا ہے اور آخر میں انہوں نے صراحت کر دی ہے کہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت اسی طرف ہے۔

حضرت عمر فاروق اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کے بارے میں مؤطا امام محمد میں مذکور ہے کہ ان کے نزدیک بھی وتر کی تین ہی رکعتیں ہیں۔ حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ سلف کا اسی پر معمول تھا۔ (ہدایہ)

تین رکعت کی وتر صحابہ میں مشہور تھی، ایک رکعت کی وتر تو عام طور پر لوگ جانتے بھی نہ تھے چنانچہ حضرت معاویہ کو عبداللہ ابن عباس کے مولی نے ایک رکعت وتر پڑھتے ہوئے دیکھا تو ان کو بہت تعجب ہوا انہوں نے حضرت عباس کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ بیان کیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے ان کی وحشت و حیرت یہ کہہ کر ختم کر دی کہ معاویہ فقیہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت سے مشرف ہو چکے ہیں ان پر اعتراض نہ کرو (صحیح البخاری)

بہر حال ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وتر کی تین ہی رکعتیں ہیں جن احادیث سے وتر کی ایک رکعت ثابت ہوتی ہے وہ سب قابل تاویل ہیں جو انشاء اللہ حسب موقع بیان کی جائیں گی۔

یا یہ کہ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پہلی حالتوں کا ذکر ہے آخر فعل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی تین ہی رکعت پر تھا جو صحابہ میں مشہور ہوا اور ظاہر ہے کہ امت کے لیے آپ کا وہی فعل حجت اور دلیل بن سکتا ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر میں عمل اختیار فرمایا ہو۔ 

 

نماز وتر کی رکعتوں کا مسئلہ

٭٭ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  آخر رات کو وتر (پڑھنا افضل ہے اور اس کی ایک رکعت ہے)۔ صحیح مسلم

 

تشریح

 

الو تر رکعۃ کا مطلب یہ ہے کہ  پہلے پڑھی گئی دو رکعتوں کے ساتھ ملی ہوئی وتر کی ایک رکعت ہے  گویا کہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وتر سے ہٹ کر تاویل کا راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ معنی اس لیے بیان کئے گئے ہیں تاکہ ان حدیث میں جن سے وتر کے لیے تین رکعتیں پڑھنا ثابت ہے اور ان احادیث میں جن سے وتر کی ایک رکعت کا اثبات ہوتا ہے تطبیق پیدا ہو جائے اور احادیث کے حقیقی معنی و مفہوم میں کوئی تعارض پیدا نہ ہو۔

وتر کے پڑھنے کا مختار اور افضل وقت آخری رات ہے جب کہ تہجد وغیرہ کی نماز پڑھ لی جائے لیکن عام طور سے چونکہ لوگ رات کو تہجد کی نماز کے لیے نہیں اٹھتے اس لیے عشاء کی نماز کے فوراً بعد ہی وتر بھی پڑھ لیے جاتے ہیں۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر ایک ہی رکعت ہے۔ جن احادیث سے وتر کی تین رکعتیں پڑھنا ثابت ہے وہ آگے ذکر کر جائیں گی۔ 

ایک تشہد کے ساتھ پانچ رکعت پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم رات کو (تہجد کے وقت) تیرہ رکعت پڑھتے تھے جن میں سے پانچ رکعتوں میں وتر پڑھتے اور ان میں سوائے آخری رکعت کے کسی میں بھی (تشہد کے لیے) نہیں بیٹھتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کئی طریقوں سے ذکر کی گئی ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم آٹھ رکعتیں چار سلام کے ساتھ یعنی دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے اور پھر آخر میں پانچ رکعتیں ایک تشہد اور ایک سلام کے ساتھ اس طرح پڑھتے تھے کہ اسی میں وتر کی نیت بھی کر لیتے تھے یعنی وتر کی نماز بھی انہیں پانچ رکعتوں میں شامل ہوتی تھی اور ان پانچ رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں بھی نہ تو تشہد کے لیے بیٹھتے تھے اور نہ سلام پھیرتے تھے بلکہ آخری رکعت میں تشہد کے لیے بیٹھتے اور سلام پھیرتے۔

لہٰذا یہ حدیث صریح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ پانچ رکعتیں اس طرح ملا کر پڑھنا کہ ان میں سے کسی ایک رکعت میں بھی تشہد کے لیے نہ بیٹھا جائے بلکہ صرف آخری یعنی پانچویں رکعت کے بعد قعدہ کیا جائے جائز ہے لیکن فقہا کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے چنانچہ جن حضرات کے ہاں یہ جائز نہیں ہے وہ عدم جلوس کی تاویل عدم سلام سے کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک لا یجلس فی شی الا فی اخرھا کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پانچ رکعتوں میں سے صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیر تے تھے درمیان میں کسی بھی رکعت کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے چنانچہ بعض روایتوں میں مذکور بھی ہے کہ لم یسلم الا فی آخرین بعض حضرات نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ ان پانچ رکعتوں میں سوائے آخری رکعت کے کسی میں بھی جلوس دراز نہیں کرتے تھے یعنی طویل قعدہ نہیں کرتے تھے صرف آخری رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قعدہ طویل ہوتا تھا۔

بہر حال چار سے زیادہ رکعتوں کو ملا کر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا متفقہ طور پر تمام علماء کے ہاں جائز ہے لیکن حنفیہ کے ہاں اتنا فرق ہے کہ ان کے نزدیک آٹھ رکعت تک ملا کر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا تو بلا کراہت جائز ہے مگر آٹھ رکعتوں کے بعد کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز تہجد و نماز و تر

اور حضرت سعد بن ہشام فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ  ام المومنین ! مجھے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے خلق کے بارے میں بتلائیے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا  کیا تم نے قرآن کریم نہیں پڑھا   َ؟ میں نے عرض کیا  جی ہاں ! پڑھا ہے  ! فرمایا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خلق قرآن ہی تھا (یعنی قرآن کریم میں جتنے بھی اخلاق کریمہ اور صفات حمیدہ مذکور ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سب کو اپنی ذات میں سمو لیا تھا۔ گویا ً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اخلاقی زندگی قرآن حکیم کا عملی نمونہ تھی پھر میں نے عرض کی  ام المؤمنین! اچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وتر کے بارے میں مجھے بتائیے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کس وقت اور کس طرح نیز کتنی رکعت پڑھا کرتے تھے)  حضرت عائشہ نے فرمایا میں (پہلے ہی سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسواک اور وضو کے لیے پانی کا انتظام کئے رہی تھی اور جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کو اٹھانا چاہتا تھا اٹھاتا، چنانچہ (آپ بیدار ہو کر پہلے) مسواک کرتے، پھر وضو کرتے اور نو رکعت نماز پڑھتے اور سوائے آٹھویں رکعت کے اور کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، جب آٹھویں رکعت پڑھ لیتے تو (تشہد میں) بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے، اس کی تعریف بیان کرتے اور دعا مانگتے (یعنی التحیات پڑھتے کہ اس میں اللہ کا ذکر، حمد اور دعا سب ہی کچھ ہے پھر سلام پھیرے بغیر نویں رکعت پڑھے کھڑے ہو جاتے، پھر نویں رکعتی پوری کر کے تشہد میں بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے، اس کی تعریف بیان کرتے اور اس سے دعا مانگتے یعنی التحیات پڑھ کر جو دعا پڑھی جاتی ہے) وہ دعا پڑھتے پھر ہمیں سناتے ہوئے بآواز بلند سلام پھیرتے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے اور اے میرے بچے، یہ کل گیارہ رکعتیں ہو گئیں اور جب آپ کی عمر زیادہ ہو گئی اور بڑھاپے کی وجہ سے بدن پر گوشت چڑھ گیا تو سات رکعتیں مع وتر کے پڑھنے لگے اور دو رکعت پہلے ہی کی طرح (یعنی بیٹھ کر) پڑھتے رہے۔ اے میرے بچے یہ کل نو رکعتیں ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کوئی نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند کرتے کہ اسے ہمیشہ پڑھا جائے اور جب کسی دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نیند زیادہ آ جاتی یا کوئی اور تکلیف پیش آ جاتی جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے رات کو کھڑے ہونا ممکن نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دن کے پہلے حصے میں (یعنی زوال سے پہلے) بارے رکعت پڑھ لیتے اور میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی ایک رات میں پورا قرآن مجید پڑھایا صبح تک (یعنی شروع رات سے آخر رات تک، نماز پڑھی ہو اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی سوائے رمضان کے پورے مہینے روزے رکھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مداومت عمل کو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کوئی نفل نماز پڑھتے یا اسی طرح کوئی بھی نفل عبادت کرتے تو اس پر دوام اختیار فرماتے۔ ہاں اگر کوئی عذر پیش آ جاتا یا بیان جواز کا اظہار مقصود ہوتا تو کبھی ترک بھی فرما دیتے تھے۔

یہاں تو حضرت عائشہ فرما رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینہ میں پورے مہینے روزے نہیں رکھتے تھے جب کہ ان کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شعبان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔ لہٰذا حضرت عائشہ کی ان دونوں روایتوں کے ظاہری تعارض کو خود انہیں کی ایک تیسری روایت نے ختم کر دیا ہے جس میں انہوں نے تصریح کر دی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شعبان (میں پورے مہینے کے نہیں بلکہ) اس کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ 

وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنے کا مسئلہ

وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنے کا اثبات نہ صرف یہ کہ اسی روایت سے ہوتا ہے بلکہ اور بھی بہت سے روایتیں وارد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وتر پڑھنے کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن ابھی اس کے بعد ہی ایک روایت آ رہی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ اجعلو اخر صلاتکم باللیل وتر اپنی رات کی نماز میں آخری نماز وتر کو رکھو لہٰذا بظاہر ان تمام روایتوں میں بڑا سخت تعارض نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس تعارض کو رفع کرنے کے لیے علماء کو بڑی محنت کرنا پڑی ہے۔

حضرت امام احمد نے درمیانی راہ نکالنے کی کوشش کی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ وتر کے بعد دو رکعت نماز نہ تو میں خود پڑھتا ہوں اور نہ کسی دوسرے کو پڑھنے سے منع کرتا ہوں۔

جمہور علماء کا کہنا ہے کہ چونکہ وتر کے بعد دو رکعت نفل کا پڑھنا بہر حال حدیث صحیح سے ثابت ہے اس لیے اس سے بالکل صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا لہٰذا یہ حضرات دونوں رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں جہاں تک احادیث کے باہم تعارض کو رفع کرنے کا سوال ہے تو ان حضرات کی جانب سے ان احادیث میں دو طرح کی تطبیق پیدا کی گئی ہے۔

ایک تو یہ کہ اجعلو اخر صلاتکم باللیل وترا میں صلوٰۃ سے مراد ان دو رکعتوں کے علاوہ دوسرے نوافل ہیں اس طرح اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ رات کو وتر پڑھ لینے کے بعد ان دونوں رکعتوں کے علاوہ دوسرے نوافل نہ پڑھو۔

دوسری تطبیق جمہور علماء کی طرف سے یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کبھی تو وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھ لی جائیں اور کبھی نہ پڑھی جائیں تاکہ دونوں احادیث پر عمل ہوتا رہے۔ گویا یوں کہنا چاہیے کہ حدیث اجعلو ااخر صلو تک الخ استحباب پر محمول ہے نہ کہ وجوب پر یعنی اس میں جو حکم دیا گیا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے وجوب کے طور پر نہیں ہے۔ اس کے بعد یہ بات بھی اختلافی ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعت اس صورت میں پڑھتے تھے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر رات کے ابتدائی حصے میں ہی یعنی عشاء کے بعد ادا کرتے تھے یا اس شکل میں پڑھتے تھے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر آخر رات کو تہجد کے بعد ادا کرتے تھے ؟ چنانچہ اس سلسلے میں ابوامامہ سے جو حدیث منقول ہے وہ تو مطلق ہے اس میں صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ یہ کچھ ذکر نہیں ہے کہ جو حدیث منقول ہے وہ تو مطلق ہے اس میں صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ یہ کچھ ذکر نہیں ہے کہ اول شب میں پڑھتے تھے یا آخر شب میں مگر ثوبان سے جو حدیث منقول ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وتر کے بعد پڑھنا اس صورت میں تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اول شب میں وتر ادا کرتے تھے۔ یہ دونوں حدیثیں اسی باب کے آخر میں آ رہی ہیں

صحیح البخاری و صحیح مسلم اور مؤطا کی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ قیام لیل کی صورت میں تھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو تہجد کی نماز پڑھتے تو وتر کے بعد رکعت بھی پڑھا کرتے تھے اور یہی صحیح بھی ہے۔

بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ دونوں رکعتیں وتر کے ملحق ہیں اور وتر کی سنتوں کے قائم مقام ہیں۔ یعنی جس طرح فرض نماز کی سنتیں ہوتی ہیں کہ وہ فرض نماز سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں اسی طرح یہ دونوں رکعتیں وتر کی سنتوں کے قائم مقام ہیں جو وتر کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ 

وتر رات کی آخری نماز ہونی چاہیے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اپنی رات کی نماز میں آخری نماز وتر کو قرار دو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے بارے میں اوپر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے مگر اس موقع پر بھی ایک مرتبہ پھر جان لیجئے کہ اس حدیث میں جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر نہیں ہے بلکہ استحباب کے طور پر ہے۔ 

 

وتر رات کی آخری نماز ہونی چاہیے

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  صبح (آثار نمایاں ہونے پر) وتر میں جلدی کرو۔ (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ صبح ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو حنفیہ کے نزدیک یہ حکم و جوب کے لیے ہے اگر رات کو وتر کی نماز رہ جائے تو دن کو اس کی قضا دینا واجب ہے۔ 

وتر کے اوقات

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی کو اس بات کا خوف ہو کہ آخر رات کو وتر پڑھنے کے لیے نہ اٹھ سکوں گا تو اسے چاہیے کہ وہ شروع رات ہی میں (یعنی عشاء کے فوراً بعد) وتر پڑھ لے اور جس آدمی کو آخر رات میں اٹھنے کی امید ہو تو وہ آخر رات ہی میں وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز مشہودہ ہے (یعنی) اس وقت رحمت کے فرشتوں اور انوار و برکات کا نزول ہوتا ہے اور یہ (یعنی آخر رات میں و تر پڑھنا) افضل ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

آخر رات کی فضیلت و برکات کے بارے میں آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں کہ رات کے اس حصے میں جو بھی عبادت کی جائے گی وہ ثواب و سعادت کے اعتبار سے بہت زیادہ افضل ہو گی۔ اسی لیے آخر رات میں وتر کی نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اس افضل وقت میں وتر کی ادائیگی ہوتی ہے بلکہ اس وقت رحمت کے فرشتوں اور حق تعالیٰ کے انوار و برکات کے نزول کی وجہ سے ثواب بھی بہت زیادہ ملتا ہے۔ 

 

وتر کے اوقات

٭٭ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے رات کے ہر حصے میں وتر کی نماز پڑھی ہے۔ یعنی ابتدائی رات میں بھی اور عشاء کی نماز کے فوراً بعد رات کے درمیانی حصے میں بھی اور آخر رات میں بھی مگر آخر عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر کے لیے سحر کا وقت یعنی رات کا چھٹا حصہ مقرر کر لیا تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے حضرت ابوہریرہ کو تین باتوں کی وصیت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دوست یعنی سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی ایک تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے کی دوسری دو رکعت ضحیٰ کی نماز پڑھنے کی اور تیسری یہ کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

  ہر مہینے کے تین روزے کے تعین میں مختلف اقوال ہیں چنانچہ بعض علماء نے کہا ہے کہ مہینے کے تین روزوں سے ایام بیض یعنی ہر مہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے روزے مراد ہیں۔ بعض حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ایک روزہ ابتدائی مہینے میں ایک روزہ درمیان میں اور ایک روزہ آخر مہینہ میں رکھا جائے۔

بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ مطلق ہے یعنی اختیار ہے کہ پورے مہینے میں جب چاہے تین روزے رکھے لے۔

 ضحیٰ کی دو رکعتوں سے  نماز اشراق یا نماز چاشت مراد ہے جو آفتاب بلند ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے ان نمازوں کا ادنی درجہ دو رکعت ہے مگر اشراق کی نماز کا اکثر درجہ چھ رکعت اور چاشت کی نماز کا بارے رکعت ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اول شب میں وتر پڑھ لینے کے لیے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ رات کے ابتدائی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو یاد کرنے اور ان کی تکرار میں مشغول رہتے تھے جس کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا تھا اس وجہ سے ان کے لیے آخر رات میں اٹھنا بہت مشکل تھا چنانچہ اسی مشغولیت علم کی وجہ سے انہیں اشراق یا چاشت کی بھی دو ہی رکعتیں پڑھنے کے لیے فرمایا۔ لہٰذا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علم دین کے حصول اور اس کی ترویج و اشاعت میں رہنا نفل عبادت کی مشغولیت سے بہتر ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے شروع بھی وتر پڑھتے تھے

حضرت غضیف ابن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم غسل جنابت شروع رات میں کرتے تھے یا آخر رات میں ؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم جماع سے فارغ ہوتے ہی نہا لیتے تھے یا اس وقت تو سور ہتے اور جب تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے تو نہاتے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ  کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم (جماع سے فارغ ہوتے ہی) شروع رات ہی میں نہا لیتے تھے اور کبھی آخر میں غسل فرماتے  میں نے کہا  اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے زیبا ہیں جس نے دینی امور میں آسانی عطا فرمائی اور پھر پوچھا کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی نماز شروع رات میں (عشاء کے فوراً بعد ہی) پڑھ لیتے تھے یا آخر شب میں پڑھتے تھے  ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا  کبھی تو شروع رات ہی میں پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں پڑھتے تھے  میں نے کہا  اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے زیبا ہیں جس نے دینی امور میں آسانی عطا فرمائی  اور پھر پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم تہجد کی نماز میں یا مطلقاً کسی بھی نماز میں قرأت بآواز بلند فرماتے تھے یا آہستہ آواز سے ؟ انہوں نے فرمایا کبھی تو بآواز بلند قرأت فرماتے تھے اور کبھی آہستہ آواز سے  میں نے کہا بڑا اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے زیبا ہیں جس نے دینی امور میں آسانی عطا فرمائی  ابوداؤد، ابن ماجہ نے اس روایت کا صرف آخری فقرہ (جس میں قرأت کا ذکر ہے) نقل کیا ہے۔ 

نماز تہجد و وتر کی رکعتوں کی تعداد

اور حضرت عبداللہ بن ابی قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کتنی رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی چار اور تین (یعنی سات) کبھی چھ اور تین (یعنی نو) رکعتوں کے ساتھ، کبھی آٹھ اور تین (یعنی گیارہ) رکعتوں کے ساتھ اور کبھی دس اور تین (یعنی تیرہ) رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ رکعتوں کے ساتھ کبھی وتر نہیں پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 چار اور تین رکعتوں کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ چار رکعتیں تو تہجد کی ہوتی تھیں اور تین رکعتیں وتر کی، اس طرح مجموعی طور پر سات رکعتیں ہو گئی۔ گویا پہلی چار رکعتوں کو بھی مجازاً وتر ہی میں شمار کیا اسی طرح چھ رکعتیں تہجد کی اور تین وتر کی ان کی مجموعی تعداد نو رکعتیں ہوئی، آٹھ رکعتیں تہجد کی اور تین رکعتیں وتر کی ان کی مجموعی تعداد گیارہ رکعت ہوئی اور دس نماز تہجد کی اور تین رکعتیں وتر کی، ان کی مجموعی تعداد تیرہ رکعتیں ہوئی۔

بہر حال یہ حدیث صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ وتر کی ایک رکعت نہیں بلکہ تین رکعتیں ہیں۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی وتر کی نماز سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ رکعت کے ساتھ نہیں پڑھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اکثر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سات رکعتیں سے کم کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پانچ رکعتیں بھی ثابت ہیں۔ اسی طرح اکثر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تیرہ رکعتوں سے زیادہ کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے تھے چنانچہ پندرہ رکعتیں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پڑھنی ثابت ہیں۔ 

نماز وتر واجب ہے

اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرو کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وتر کی نماز ہر مسلمان پر حق یعنی لازم ہے لہٰذا جو آدمی وتر پانچ رکعتیں پڑھنا چاہے وہ پانچ رکعتیں پڑھ لے، جو آدمی تین رکعتیں پڑھنا چاہیے وہ تین رکعتیں پڑھ لے اور جو آدمی ایک ہی رکعت پڑھنا چاہے وہ ایک ہی رکعت پڑھ لے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حق کے معنی ہیں واجب اور ثابت، لہٰذا حضرت امام ابو حنیفہ تو حق کے معنی واجب مراد لیتے ہیں، اس لیے وہ فرماتے ہیں کہ وتر کی نماز واجب ہے، حضرت امام شافعی حق کے معنی ثابت مراد لیتے ہیں یعنی وتر کی نماز سنت سے ثابت ہے لہٰذا وہ فرماتے ہیں کہ وتر کی نماز سنت ہے چونکہ اس حدیث میں وتر کی رکعتوں کی تعداد پانچ بھی ثابت ہے اور تین اور ایک بھی، اس لیے حضرت سفیان ثوری اور دیگر ائمہ نے تو پانچ کے عدد کو اختیار کیا ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نے تین کے عدد کو قبول کیا ہے اور حضرت امام شافعی نے ایک کے عدد کو اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وتر کی ایک ہی رکعت ہے۔ 

وتر کی فضیلت

اور حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ  اللہ تعالیٰ وتر ہے، وتر کو دوست رکھا ہے لہٰذا اے اہل قرآن وتر پڑھو۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

  اللہ تعالیٰ وتر ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے، تنہا ہے اس کا کوئی مثل نہیں ہے اسی طرح اپنے افعال میں بھی وہ یکتا ہے کہ کوئی اس کا مددگار اور شریک نہیں ہے۔

 وتر کو دوست رکھتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وتر کی نماز پڑھنے والے کو بہت زیادہ ثواب سے نوازتا ہے اور اس کی اس نماز کو قبول فرماتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ جل شانہ، چونکہ اپنی ذات و صفات اور اپنے افعال میں یکتا و تنہا ہے کہ کوئی اس کا مثل، شریک اور مدد گار نہیں اس لیے وہ طاق عدد کو پسند فرماتا ہے اور چونکہ وتر بھی طاق ہے اس لیے اس کو بھی پسند کرتا ہے اور اس کے پڑھنے والے کو بہت زیادہ ثواب کی سعادت سے نوازتا ہے۔ 

 

وتر کی فضیلت

٭٭ اور حضرت خارجہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ  اللہ جل شانہ، نے ایک ایسی نماز سے تمہاری امداد کی ہے (یعنی نماز پنج گانہ سے ایک اور زیادہ نماز تمہیں دی ہے) جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور وہ وتر کی نماز ہے اور تمہارے لیے یہ نماز عشاء کی نماز کے بعد سے فجر نکلنے تک کے درمیان مقرر کی گئی ہے۔ (یعنی اس وقت ان اوقات کے درمیان درمیان ہے جب چاہو پڑھو)۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 چونکہ عرب میں اونٹ بہت قیمتی ہوتے ہیں اور عرب والوں کے لیے اموال میں یہ سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رغبت دلانے کے لیے فرمایا کہ وتر کی نماز سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے گویا مراد یہ ہے کہ وتر کی نماز دنیا کی تمام متاع سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وتر کی نماز واجب ہے اور اس کو عشاء کی نماز سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے۔ 

 

وتر کی قضا کا حکم

اور حضرت زید بن اسلم راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی وتر سے غافل ہو کر (یعنی وتر پڑھے بغیر) سو جائے تو اسے چاہیے کہ صبح ہو تو پڑھ لے  اس روایت کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 اگر کسی ایسے آدمی کی وتر کی نماز رات کو پڑھنے سے رہ جائے جو صاحب ترتیب ہے تو صبح اٹھ کر اگر اس کے لیے ممکن ہو یعنی اتنا وقت ہو کہ وتر پڑھ سکے تو فجر کی فرض نماز سے پہلے وتر کی قضا پڑھ لے۔ اور اگر فجر کے فرض سے پہلے اس کا پڑھنا ممکن نہ ہو یعنی اتنا وقت نہ ہو تو پھر فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد پڑھے۔

ہاں اگر ایسے آدمی کے وتر رہ گئے ہوں جو صاحب ترتیب نہیں ہے تو اسے اختیار ہے چاہے تو نماز فجر سے پہلے پڑھ لے اور چاہے نماز فرض کے بعد پڑھے۔ 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھتے تھے

اور حضرت عبدالعزیز بن جریج فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ سے پوچھا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم وتر میں کون کون سے سورتیں پڑھا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلی رکعت میں سَبَّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ دوسری رکعت میں قُلْ یٰاَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَ اور تیسری رکعت میں اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھا کرتے تھے (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو امام نسائی نے حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے، امام احمد نے حضرت ابی بن کعب سے اور امام دارمی نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے مگر امام دارمی نے اپنی روایت میں لفظ معوذتین ذکر نہیں کیا یعنی انہوں نے محض یہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی تیسری رکعت میں صرف قل ھو اللہ پڑھتے تھے۔

 

تشریح

 

 محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ  حنفیہ نے آخری روایت یعنی درامی کی نقل کردہ روایت پر عمل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ حنفی حضرات وتر کی تیسری رکعت میں صرف قل ہو اللہ ہی پڑھتے ہیں۔ حنفی حضرات کے پیش نظر صرف یہی روایت نہیں بلکہ حضرت عائشہ ہی کی ایک دوسری روایت بھی ان کے مسلک کی دلیل ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تیسری رکعت میں قل ہو اللہ ہی پڑھتے تھے۔

جہاں تک حضرت عائشہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو یہاں نقل کی گئی ہے اور جس سے وتر کی تیسری رکعت میں قل ہو اللہ کے علاوہ معوذتین (یعنی قل اعوذ برب الفلق و قل اعوذ برب الناس) کا پڑھنا بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس پر حنفیہ اس لیے عمل نہیں کرتے کہ اول تو اس روایت کی سند میں ضعف ہے، نیز یہ کہ اس میں جو طریقہ ذکر کیا گیا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت کے خلاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تو یہ صراحت سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بعد کی رکعت کو پہلی رکعتوں کی بنسبت مختصر کرتے تھے جب کہ اس روایت کے پیش نظر تیسری رکعت میں پہلی دونوں رکعتوں کی بنسبت کہیں زیادہ طویل ہو جاتی ہے ملا علی قاری نے اس سلسلے میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے اور حنفیہ کی طرف سے اور بھی دلائل پیش کئے ہیں جسے اہل علم ان کی کتاب  مرقاۃ میں دیکھ سکتے ہیں۔

یہ حدیث بصراحت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی تینوں رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ 

وتر میں پڑھی جانے والی دعا

اور حضرت حسن بن علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے تاکہ میں انہیں وتر کی دعا قنوت میں پڑھا کروں اور وہ کلمات دیا یہ ہیں اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِی فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِی فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِی فِیْمَآ اَعْطَیْتَ وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَّیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِی وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ اِنَّہ، لَّا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ

اے اللہ ! مجھے ہدایت کر ان لوگوں کے ساتھ (یعنی انبیاء و اولیا کے ساتھ) جن کو تو نے ہدایت کی مجھے دنیا اور آخرت کی مصیبتوں اور آفتوں سے بچا اور لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے بچایا اور مجھ سے محبت کر ان لوگوں کے ساتھ جن سے تو نے محبت کی اور جو کچھ تو نے مجھے عطا کیا ہے (یعنی عمر، مال، علم اور نیک اعمال) ان میں برکت عطا فرما اور مجھے ان برائیوں سے بچا جو مقدر ہوں، بے شک تو جو چاہتا ہے وہ حکم کرتا ہے اور تجھے کوئی حکم نہیں کرتا (یعنی تو حاکم مطلق ہے محکوم نہیں ہے اور جسے تو دوست رکھتا ہے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اے ہمارے رب تو بابرکت ہے (یعنی دارین پر تیرا خیر ہی خیر محیط ہے) اور تیری ذات بلند و برتر ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

 حضرت حسن کے الفاظ اقولھن فی قنوت الوتر (تاکہ میں وتر کی دعا قنوت میں پڑھا کروں) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قنوت الوتر کو مطلقاً ذکر کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دعا تمام سال یعنی تمام دنوں میں پڑھنی مراد ہے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے مگر حضرت شوافع دعائے قنوت کو رمضان کے آخری نصف ایام میں وتر کے ساتھ مقید کرتے ہیں گویا کہ شافعی حضرات کے یہاں تو صرف رمضان کے نصف آخری ایام میں وتر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے جب کہ حنفی حضرات تمام دنوں میں نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ اَھْدِنِی اے اللہ ! مجھے ہدایت کر یعنی ہدایت کے راستے پر مجھے ثابت قدم رکھ۔ یا ہدایت کے اسباب و ذرائع زیادہ سے زیادہ مجھے عطا فرماتا کہ ان کو اختیار کر کے اعلیٰ مرتبے اور علیٰ درجے پر پہنچ سکوں۔

انہ لا یذل من والیت (جسے تو دوست رکھتا وہ ذلیل نہیں ہو سکتا کا مطلب یہ ہے کہ جسے تو نے اپنا دوست بنا لیا بایں طور کہ اسے نیک راستے پر چلنے اور صالح اعمال اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما کر سعادت و خوشی بختی کے مرتبے پر فائز کیا وہ آخرت میں ذلیل و شرمسار نہیں ہو سکتا۔ پھر یہاں مطلقاً ذلت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بندہ جسے وہ محبوب رکھتا ہے، نہ آخرت میں نادم و شرمسار ہو سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں ذلت و رسوائی اس کے پاس پھٹک سکتی ہے۔ اگرچہ بظاہر دنیا کی نظروں میں وہ کسی بلاو مصیبت میں گرفتار ہو یا کوئی آدمی اسے ذلیل و خوار کرے مگر حقیقت میں وہ اللہ کے نزدیک با عظمت و با عزت ہی ہوتا ہے جیسا کہ دنیا کے لوگوں نے اللہ کے پیغمبر اور نبی حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کو ذبح کیا۔ لہٰذا ان جلیل القدر پیغمبروں کو ظلم و ستم کے اس اسٹیج سے اس لیے گزرنا نہیں پڑا کہ معاذ اللہ وہ اللہ کے محبوب اور دوست نہیں تھے بلکہ درحقیقت ان کو امتحان و آزمائش میں ڈالا گیا۔ غرضیکہ دنیا والوں کے ذلیل کرنے سے اللہ کے نیک و محبوب بندے ذلیل نہیں ہوتے اللہ کے نزدیک وہ عزت والے ہی ہوتے ہیں۔

بعض روایتوں میں اِنَّہ لَّا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ کے بعد ولا یعزمن عادیت (اور جس سے تجھ کو عداوت ہو وہ عزت نہیں پا سکتا) کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اسی طرح بعض روایتوں میں وَتَعَالَیْتَ کے بعد نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ الیک (اے اللہ ہم اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور تیرے ہی سامنے توبہ کرتے ہیں) اور بعض روایتوں میں اس کے بعد الفاظ مزید نقل کئے گئے ہیں۔

بہر حال حضرات شوافع کی دعا قنوت یہ ہے کہ وہ حضرات اسی دعا کو وتر اور فجر نماز میں پڑھتے ہیں حنفی حضرات کے ہاں وتر کی نماز میں جو دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے وہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ الخ ہے جو ہم شروع باب میں نقل کر چکے ہیں۔

بعض علماء کی رائے ہے کہ وتر کی نماز میں اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ اور اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ الخ دونوں دعائیں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ شروع باب میں ہم نے دونوں دعائیں نقل کی ہیں۔ 

دعائے قنوت کے سلسلہ میں ائمہ کے ہاں مختلف فیہ چیزیں

محقق علامہ ابن ہمام علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ سلسلے میں ائمہ کے ہاں تین باتیں مختلف فیہ ہیں ایک تو یہ کہ دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟ دوسری بات یہ کہ دعاء قنوت و تر کی نماز میں تمام دنوں میں پڑھی جائے یا صرف رمضان کے آخری نصف حصے میں؟ تیسری چیز یہ کہ دعاء قنوت وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں پڑھی جائے یا نہیں؟ چنانچہ حضرت امام شافعی تو فرماتے ہیں کہ دعائے قنوت رکوع کے بعد پڑھی جائے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کی دلیل بہت زیادہ قوی ہے اس سلسلے میں اہل علم اور محققین حضرات مرقاۃ میں پوری تفصیل دیکھ سکتے ہیں جہاں تک دوسری اور تیسری مختلف باتوں کا تعلق ہے تو ہم انشاء اللہ ان دونوں مسئلوں کو آگے آنے والے باب باب القنوت میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔ 

نماز وتر کے سلام کے بعد تسبیح

اور حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب وتر کی نماز میں سلام پھیرتے تو یہ کہتے سُبْحَانَ الْمَلَکُ الْقُدُّوْسِ (یعنی پاک ہے بادشاہ نہایت) (ابوداؤد و سنن نسائی) نسائی نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ (تسبیح) تین مرتبہ کہتے تھے اور تیسری مرتبہ آواز بلند فرماتے تھے، نیز نسائی نے ایک روایت عبدالرحمن بن ابزی سے نقل کی ہے جس میں وہ (عبدالرحمن) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب سلام پھیر لیتے تو تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلَکُ الْقُدُّوْسِ فرماتے ہیں اور تیسری مرتبہ بآواز بلند فرماتے ہیں۔

 

تشریح

 

 دار قطنی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں رَبُّ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحِ کے الفاظ بھی مذکور ہیں، گویا پوری تسبیح یوں ہے سُبْحَانَ الْمَلَکُ الْقُدُّوْسِ رَبُّ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحِ۔ 

نماز وتر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نماز و تر کے آخر میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرَضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ اَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیَ ثَنَاءُ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ اے اللہ میں پناہ چاہتا ہوں تیری رضا و خوشنودی کے ذریعے تیرے غضب سے اور تیری عافیت کے ذریعے تیرے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعہ تیرے آثار صفات (یعنی غضب و غصہ سے (مجھ میں طاقت نہیں کہ تیری تعریف کر سکوں کیونکہ) تیری تعریف کا شمار نہیں تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی تعریف کی۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا وتر کی تیسری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھا کرتے تھے چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کو اختیار کیا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا سلام کے بعد پڑھتے تھے اور بعض کا قول ہے کہ سلام سے پہلے التحیات میں پڑھتے تھے اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ یہ دعا سجود میں پڑھا کرتے تھے۔

سنن نسائی نے ایک روایت اور نقل کی ہے جس میں صراحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنی نماز سے فارغ ہو جاتے اور بستر پر تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے۔ وا اللہ اعلم

مستقل طور پر کسی خاص دعاء قنوت کو مقرر کر لینے کا مسئلہ

علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ  علماء کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ دعائے قنوت کے سلسلے میں توقیف نہ کی جائے یعنی ایک ہی دعا کو پڑھنے کے لیے بطور خاص مقرر نہ کر لیا جائے کیونکہ کسی دعا کو مقرر کر لینے اور پھر اسی کو مستقل طو پر پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ دعا زبان پر بایں طور جاری ہو جاتی ہے کہ قلب زبان کی ہمنوائی سے محروم ہوتا ہے۔ یعنی اس دعا کے پڑھنے کے وقت عادت کے مطابق صرف زبان ہی کام کرتی ہے دل میں نہ تو دعا کے مقصود کی لگن ہوتی ہے اور نہ اس کی طرف رغبت کا احساس ہوتا ہے لہٰذا دعا کا جو مقصود اور مطلوب ہوتا ہے وہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ دعا تو وہی کام کرتی ہے جو قلب کی گہرائیوں سے نکلتی ہے اور جو احساس و شعور اور دلی رغبت زبان کی ہمنوا ہوتی ہے۔

لیکن بعض دوسرے علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ کے علاوہ دوسری دعاؤں کے بارے میں ہے یعنی اسی دعا کو بطور خاص مستقل طور پر پڑھنے کے لیے مقرر کر لینا منع نہیں ہے البتہ اس کے علاوہ دوسری دعاؤں کو مستقل طور پر اختیار نہ کیا جائے بلکہ کبھی کوئی دعا پڑھ لی جائے اور کبھی کوئی کیونکہ صحابہ کرام نے اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ کے پڑھنے پر اتفاق کیا ہے اور یہی دعا مستقل طور پر پڑھتے تھے اگرچہ اس کے علاوہ دوسری دعائے قنوت بھی جائز ہے۔ اسی طرح محیط میں اَللّٰہُمَّ اھْدِنِیْ کو بھی متسثنیٰ قرار دیا گیا ہے یعنی اس دعا کی توقیف بھی ممنوع نہیں ہے۔ 

حضرت معاویہ کا ایک رکعت وتر پڑھنا

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ  آپ امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو وتر کی ایک رکعت پڑھتے ہیں؟ حضرت عباس نے فرمایا  وہ فقیہ ہیں (جو کچھ کرتے ہیں) اچھا کرتے ہیں  ایک دوسری روایت میں حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشاء کی نماز کے بعد وتر کی ایک رکعت پڑھی، ان کے پاس ہی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام بھی موجود تھے (جب انہوں نے یہ دیکھا تو) وہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بتایا (کہ حضرت معاویہ نے وتر کی ایک رکعت پڑھی ہے) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  ان کے بارے میں کچھ نہ کہو، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے (ہو سکتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ایسا عمل دیکھا ہو جو دوسرے نہ دیکھ سکے ہوں)۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وتر کی ایک ہی رکعت پڑھی ہو گی جس پر دیکھنے والوں کو تعجب ہوا ہو کہ جب دوسرے صحابہ کرام وتر کی تین رکعتیں پڑھتے ہیں تو یہ ایک ہی رکعت کیوں پڑھتے ہیں؟ اور پھر انہوں نے اس کا تذکرہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا لیکن یہ بھی، احتمال ہو سکتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے پڑھی گئی دو رکعت سے ملی ہوئی وتر کی رکعت پڑھی ہو، اس صورت میں دیکھنے والوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف وتر ہی پر اکتفا کیا ہو گا اور عشاء کی نماز یا تہجد کی نماز چھوڑ دی ہو گی۔ 

وتر پڑھنے کی تاکید

اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  وتر حق (یعنی واجب ہے) لہٰذا جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے (یعنی ہمارے تابعداروں میں سے) نہیں ہے، وتر حق ہے لہٰذا جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

وتر کی اہمیت اور اس کی حقیقت کو اس انداز سے بار بار بیان کرنا اور پھر اس کے نہ پڑھنے والے کے بارے میں یہ کہنا کہ جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہمارے تابعداروں میں سے نہیں ہے اس بات پر صریح دلیل ہے کہ وتر کی نماز واجب ہے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔ 

وتر کی قضاء پڑھنی چاہیے

اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی و تر پڑھے بغیر سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب بھی اسے یاد آئے یا نیند سے بیدار ہو تو (اس کی قضاء) پڑھ لے۔ (جامع ترمذی ِ ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

نماز وتر واجب ہے یا سنت

اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ  وتر کی نماز واجب ہے (یا سنت ہے) حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (کوئی صریح جواب دینے کی بجائے) فرمایا کہ  وتر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی پڑھی ہے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی! وہ آدمی بار بار یہی سوال کرتا تھا اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی کہے جاتے تھے کہ  وتر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی پڑھی ہے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی پڑھی ہے۔ مؤطا

 

 

تشریح

 

 کسی سوال کے جواب دینے کا ایک بلیغ طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر مدلو ل(اصل جواب) کا ذکر نہ کیا جائے اور صرف دلیل بیان کر دی جائے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب ایک آدمی نے وتر کی نماز کے وجوب یا سنت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے مدلول کے بجائے صرف دلیل پر اکتفا کیا گو ان کا مطلب یہ تھا کہ وتر کی نماز واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مستقل طور پر بطریق مواظبت وتر کی نماز پڑھنا اور اہل اسلام کا اس پر متفق ہونا اس بات کی دلیل ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ جب سائل حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صریح جواب چاہنے کے لیے ان سے باربار سوال کرتا تھا تو انہوں نے صاف طریقہ سے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ وتر کی نماز واجب ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انداز بیان اور جواب کا یہ طریقہ احتیاط کے پیش نظر اختیار کیا کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی صریح بات نہیں سنی تھی اس لیے انہوں نے بھی صریح جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ 

نماز وتر کی قرأت

اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی تین رکعتیں پڑھا کرتے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مفصل کی نو سورتیں (اس طرح) پڑھا کرتے تھے (کہ) ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے اور آخری سورت قل ہو اللہ ہوا کرتی تھی۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 بعض روایتوں میں اس اجمال کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پہلی رکعت اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ اِنَّا اَنْزَلْنٰہ ُ اور اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ پڑھتے، دوسری رکعت میں وَالْعَصْرِ۔ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اﷲ اور اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ پڑھتے اور تیسری رکعت میں قل یا ایھا الکافرون۔ تبت یدا اور قل ھو اللہ پڑھتے تھے۔ 

حضرت عبداللہ ابن عمر کا واقعہ

اور حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ میں تھا اور اس دن رات کو آسمان ابر آلود تھا، جب حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صبح ہو جانے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے ایک رکعت وتر کی پڑھ لی، پھر ابر صاف ہو گیا اور انہوں دیکھا کہ ابھی رات کافی باقی ہے چنانچہ انہوں نے ایک رکعت اور پڑھ کر (پہلی رکعت کے ساتھ ملا کر اسے) دوگانہ کر دیا اور اس کے بعد دو دو رکعت (نفل کی) پڑھتے رہے، جب پھر صبح ہو جانے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے وتر کی ایک رکعت پڑھ لی۔ (مالک)

بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ایک اور طریقہ

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم (آخر عمر کو دن یا رات میں اس طرح بھی) بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے (طویل قرأت کی وجہ سے) بیٹھے بیٹھے قرأت فرماتے اور جب تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے اور انہیں کھڑے کھڑے پڑھتے پھر رکوع کرتے اور سجدے میں جاتے اسی طرح دوسری رکعت میں بھی پڑھتے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس طرح نماز پڑھنی بالاتفاق جائز ہے لیکن اس کا عکس جائز نہیں چنانچہ اس کی تفصیل  باب السنن  میں بیان کی جا چکی ہے۔

بظاہر اس باب سے اس حدیث کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث میں چونکہ شفع (دوگانہ) کا ذکر ہے جو وتر کا مقدمہ ہے اس لیے اسے اس باب میں نقل کیا گیا ہے۔ 

وتر کے بعد کی دو رکعتیں

اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) ابن ماجہ نے اس روایت میں خَفِیْفَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ 

 

وتر کے بعد کی دو رکعتیں

٭٭ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی ایک رکعت پڑھتے پھر دو رکعتیں (نفل کی) پڑھتے جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھتے بیٹھتے قرأت فرماتے اور جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہوتے اور رکوع کرتے۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پہلی حدیث کے منافی ہے کیونکہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد کی دونوں رکعتیں کھڑے ہوئے بغیر مطلقاً بیٹھے بیٹھے پڑھتے اور کبھی اس طرح بیٹھ کر قرأت کے بعد جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو جاتے اور رکوع کرتے۔ 

وتروں کے بعد دو رکعتوں کی فضیلت

اور حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (تہجد کے لیے) رات کو بیدار ہونا مشکل اور گراں ہوتا ہے اس لیے جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کے آخری حصے میں جاگنے) کا یقین نہ رکھتا ہو اور سونے سے پہلے یعنی عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں پڑھ لے، اگر وہ نماز تہجد کے لیے رات کو اٹھ گیا تو بہتر ہے اور اگر نہ اٹھ سکا تو پھر دو رکعتیں کافی ہوں گی (یعنی ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے کی وجہ سے اسے نماز تہجد کا ثواب مل جائے گا۔ (جامع ترمذی و دارمی)

 

وتروں کے بعد دو رکعتوں کی فضیلت

٭٭ اور حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور ان میں اذا زلزلت الارض اور قل یا ایھا لکافرون پڑھتے تھے۔ (جامع ترمذی و دارمی)

قنوت کا بیان

لغوی طور پر قنوت کے کئی معنی ہیں۔ (١) طاعت کرنا (٢) نماز میں کھڑے ہونا (٣) اللہ تعالیٰ کے سامنے خاکساری کرنا، اسی طرح  دعا  کو بھی قنوت کہتے ہیں، اصطلاحاً دعاء مخصوص کو کہتے ہیں جو یہاں مراد ہے، چنانچہ شوافع کے یہاں دعاء قنوت اَللّٰھُمَّ اھْدِنیٰ الخ ہے۔

حضرات حنفیہ کے نزدیک دعاء قنوت اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ الخ ہے (دونوں دعائیں مکمل طور پر پچھلے باب میں نقل کی جا چکی ہیں) جسے حنفی علماء صحیح سند و طریق کے ساتھ طبرانی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں۔

نیز محقق علامہ حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوداؤد سے نقل کیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (ایک روز) قبیلہ مضر کے لوگوں کے (ظلم و ستم اور ان کی دہشت و بربریت کے پیش نظر ان) کے لیے بد دعا فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاموش ہو جانے کا اشارہ کر کے فرمایا کہ:

یا محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ان اللہ لم یبعثک سبابا الا لعانا انما بعثک رحمۃ۔

 اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اللہ تعالیٰ نے برا کہنے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تو (دونوں جہان کے لیے) رحمت کا باعث بنا کر بھیجا گیا ہے۔

پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی(لَیسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیءٌ) 3۔ ال عمران:128)  (یعنی اس چیز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی دخل نہیں ہے) بعد ازاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ دعا اللھم انا نستعینک الخ سکھائی  شیخ جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب  درمنثور میں اس دعا کو کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ 

رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بد دعا کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی کو بدعا دیتے یا کسی کے لیے دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے، چنانچہ بعض وقت جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سمع اللہ لم حمدہ ربنا لک الحمد کہہ لیتے تو یہ دعا کرتے الِلّٰھُمَّ اَنْجِ الْوَلِیْد ابنَ الَوَلِیْدِ و سلمۃَ بْنَ ھِشَامٍ وَعَیَّاشَ بْنَ اَبِیْ رَبِیْعَۃَ الِلَّھُمَّ اشْدُدْ وَطْاَ تَکَ عَلیٰ مُضَرَ وَ اجْعَلْھَا سِنِیْنَ کَسِنِیْ یُوْسُفَ (اے اللہ ! ولید بن سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے اور اے اللہ !قوم مضر پر تو اپنا سخت عذاب نازل کر اور اس عذاب کو ان پر قحط کی صورت میں مسلط کر، ایسا قحط جو یوسف کے قحط کی مانند ہو (یعنی قوم مضر پر تو اپنا عذاب اس قحط کی شکل میں مسلط کر جو حضرت یوسف کے زمانہ میں قوم پر مسلط گیا تھا) یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بآواز بلند کرتے تھے اور کسی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم عرب کے (ان) قبائل کے لیے جو کافر تھے) اس طرح بددعا فرماتے اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَاناً وَفُلاَناً (اے اللہ ! فلاں فلاں پر لعنت فرما) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی  لیس لک من الامر شییء الایۃ (اس معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کچھ دخل نہیں ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 بعض صحابہ کرام جو کفار کی قید میں تھے اور ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے ان کی رہائی و  نجات کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ سے دعا فرمایا کرتے تھے اور عرب کے وہ قبائل جو مسلمانوں کا قافیہ تنگ کئے رہتے تھے ان کے لیے بد دعا فرماتے تھے، چنانچہ ولید ابن الولید قریشی مخزومی جو اسلام کے مایہ ناز فرزند اور اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف حضرت خالد بن ولید کے بھائی تھے، جنگ بدر کے موقع پر کفار مکہ کی جانب سے حضرت عبداللہ بن جحش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، ان کے بھائی خالد اور ہشام دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیر بھائی کی طرف سے چار ہزار در ہم بطور فدیہ دے کر ان کو رہا کرایا اور مکہ لے گئے۔ ولید جب رہا ہو کر مکہ پہنچے تو وہاں اسلام کی مقدس روشنی نے ان کے قلب و دماغ کو منور کیا اور وہ مسلمان ہو گئے لوگوں نے ان سے کہا کہ جب تم مسلمانوں کے پاس مدینہ میں قید تھے تو اسی وقت فدیہ دینے سے پہلے ہی مسلمان کیوں نہیں ہو گئے کیونکہ وہاں مسلمان ہو جانے کی شکل میں چار ہزار درہم جو فدیے میں دئیے وہ بھی بچ جاتے اور مسلمان بھی ہو جاتے؟

انہوں نے کہاں کہ  مجھے یہ کچھ اچھا نہیں لگا کہ لوگ یہ کہیں کہ قید سے گھبرا کر سلام لے آیا۔

مکہ کے کفار اور قبیلے کے لوگوں کو یہ کیسے گوارا ہوتا کہ ولید اسلام لے آئیں اور اس کی سزا انہیں نہ ملے چنانچہ بھائیوں نے انہیں قید میں ڈال دیا اور جتنا بھی ظلم ان پر ہو سکتا تھا کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب ان کی حالت مظلومیت کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پروردگار کی بارگاہ میں ان کی رہائی اور نجات کے لیے دعا مانگی، اس طرح وہ کفار مکہ کے چنگل سے بچ کر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ گئے۔

سلمہ بن ہشام، ابو جہل کے بھائی تھے اور بالکل ابتدائی دور میں اسلام لے آئے تھے، کفار مکہ نے انہیں بھی قید کر رکھا تھا اور ان پر انتہائی ظلم و جور کرتے تھے، یہ بھی ان کے ہاتھوں سے نکل کر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ گئے۔

عیاش بن ابی ربیعہ بھی ابو جہل کی ماں کی طرف سے اخیافی بھائی تھے، قدیم الاسلام ہیں، ابتدائی دور میں اسلام کی دولت سے مشرف ہو کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ جب مدینہ آئے اور ان سے کہا گیا کہ تمہاری ماں تمہارے لیے سخت بے چین ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تمہیں دیکھ نہیں لے گی، سائے میں نہیں بیٹھ گی۔

عیاش کو ماں کی محبت ابو جہل جیسے ظالم آدمی کے پاس کھینچ لائی۔ مکہ پہنچ کر ابو جہل نے انہیں باندھ کر قید میں ڈال دیا اور ان پر ظلم کر کے اپنے جذبہ وحشت و بربریت کی تسکین حاصل کرتا رہا تاآنکہ یہ بھی اس قید سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں مدینہ آ گئے۔ آخر میں معرکۂ تبوک کے موقع پر کفار سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔

یہ وہ خوش نصیب اصحاب تھے جن کی رہائی و نجات کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لسان مقدس دعا میں مشغول ہوتی تھی، گویا حدیث کی پہلی دعا اللھم انج الخ اس بات کی مثال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قنوت میں مومنین کے لیے دعا فرماتے تھے۔ حدیث کی دوسری دعا اللھم اشددالخ اس بات کی مثال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قنوت میں ظلم و ستم کے پیکر کفار کے لیے بد دعا فرماتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ اہل مکہ سات سال تک مسلسل قحط میں گرفتار رہے یہاں تک کہ انہوں نے مردار کی ہڈیاں کھا کر زندگی کے وہ سخت دن پوری کئے۔

آیت (لَیسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیءٌ) 3۔ آل عمران:128) کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت کے مناسب چونکہ یہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی کے لیے بد دعا فرمائیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے منع فرما دیا گیا کہ کسی آدمی کے لیے اس کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بد دعا نہ فرمائیں چنانچہ شروع باب میں اس کی تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔

کسی آفت و بلا کے وقت دعاء قنوت فرضی نمازوں میں پڑھنی چاہیے : علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آ جائے مثلاً دشمن حملہ آور ہو، قحط اپنی لپیٹ میں لے لے، کوئی وبا پھیل جائے، خشک سالی ہو جائے، یا اس قسم کی کوئی بھی صورت پیش آ جائے جس سے مسلمان مصیبت و تکلیف میں مبتلا ہو جائیں تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ تمام فرض نمازوں میں دعا قنوت پڑھنے کا اہتمام کریں۔

چنانچہ حضرات حنفیہ کے یہاں بھی کسی حادثہ اور وبا کہ وقت فرض نمازوں میں دعاء قنوت پڑھنا جائز ہے۔ 

دعاء قنوت پڑھنے کا وقت

اور حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ (صبح کی نماز میں یا وتر کی یا کسی حادثہ کی یا وبا پھیلنے کے وقت ہر فرض) نماز میں وہ رکوع سے پہلے پڑھی جاتی تھی یا رکوع کے بعد ؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے (اور فرمایا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صبح کی نماز میں یا سب نمازوں میں) رکوع کے بعد دعاء قنوت صرف ایک مرتبہ پڑھی تھی (اور وہ بھی) اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چند صحابہ کو جنہیں قراء کہتے تھے اور تعداد میں ستر تھے (تبلیغ کے لیے کہیں) بھیجا تھا وہاں کے لوگوں نے انہیں شہید کر دیا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھ کر قراء کو شہید کرنے والوں کے لیے بد دعا کی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد دعاء قنوت کا پڑھنا منسوخ ہو گیا ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔

قراء سبعون کی شہادت کا واقعہ: قراء سبعون یعنی ستر قاری اصحاب صفہ میں سے تھے انہیں قراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم بہت زیادہ پڑھتے اور بہت یاد کرتے تھے۔ حالانکہ یہ حضرات بہت زیادہ غریب اور زاہد تھے اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ صفہ میں ہر وقت قرآن اور علم کے سیکھنے میں مشغول رہتے تھے لیکن اس کے باوجود جب بھی مسلمان کسی حادثے میں مبتلا ہوتے تو یہ حضرات پوری شجاعت اور بہادری کے ساتھ حادثے کا مقابلہ کرتے اور مسلمانوں کی مدد کرتے۔

ان میں سے بعض حضرات تو ایسے تھے جو دن بھر جنگل سے لکڑیاں جمع کر کے لاتے اور انہیں بیچ کر اہل صفہ کے لیے کھانا خریدتے تھے اور رات کو قرآن کریم کی تلاوت و درود میں مشغول رہتے تھے۔

ان خوش نصیب صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل نجد کی طرف بھیجا تھا تاکہ یہ وہاں پہنچ کر ان قبائل کو اسلام کی طرف بلائیں اور ان کے سامنے قرآن کریم پڑھیں جو کفر و شرک اور ظلم و جہل میں پھنس کر تباہی و بربادی کے راستے پر لگے ہوئے ہیں جب یہ لوگ بیر معونہ پر جو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک موضع ہے، اترے تو عامر بن طفیل، رعل، ذکوان اور قارہ نے ان قراء صحابہ پر بڑی بے دردی سے حملہ کیا اور پوری جماعت کو شہید کر ڈالا، ان میں سے صرف ایک صحابی حضرت کعب بن زید انصاری بچ گئے وہ بھی اس طرح کہ جب یہ زخمی ہو کر گر گئے اور جسم بالکل نڈھال ہو گیا، تو ان بدبختوں نے یہ سمجھ کر کہ ان کی روح نے بھی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ان سے الگ ہوئے مگر خوش قسمتی سے ابھی ان میں زندگی کے آثار موجود تھے چنانچہ وہ کسی نہ کسی طرح بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور اللہ نے ان کو صحت و تندرستی عطا فرمائی یہاں تک کہ غزوہ خندق میں شہید ہوئے۔

بہر حال جب سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس عظیم حادثے اور ظالم کفار کے ظلم و بربریت کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بے حد غم ہوا، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی کے لیے اتنا غمگین نہیں دیکھا جتنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان مظلوم صحابہ کے لیے غمگین ہوئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلسل ایک مہینہ تک قنوت میں ان بد بخت کفار کے لیے بد دعا کرتے رہے، یہ واقعہ ٤ھ میں پیش آیا۔ 

دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلسل ایک مہینہ تک (یعنی ہر روز) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازوں کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد قنوت پڑھی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنی سلیم کے چند قبیلوں رعل، ذکوان اور عصیہ کے لیے بد دعا کرتے تھے اور پیچھے کے لوگ (یعنی مقتدی) آمین کہتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہمیشہ فرض نمازوں میں دعا قنوت نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ جب مسلمانوں کے لیے کوئی حادثہ پیش آ جائے مثلاً کوئی دشمن حملہ کر دے، قحط پڑ جائے یا کوئی وبا پھیل جائے تو ایسے وقت میں فرض نمازوں میں دعا قنوت پڑھی جائے۔ 

 

دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے

٭٭ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مہینہ تک (رکوع کے بعد) دعاء قنوت پڑھی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (مطلقاً فرض نمازوں میں یا یہ کہ رکوع کے بعد قنوت پڑھنے کو ترک کر دیا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

 اکثر اہل علم یہی فرماتے ہیں کہ دعاء قنوت نہ تو فجر کی نماز میں مشروع ہے اور نہ وتر کے علاوہ کسی دوسری نماز میں، چنانچہ یہ حضرات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث بھی ہیں جو فرض نمازوں میں ترک قنوت پر دلالت کرتی ہیں، اہل علم اور محققین اس کی تفصیل مرقاۃ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ فجر کی نماز میں تو دعاء قوت ہمیشہ پڑھنی چاہیے اور نمازوں میں کسی حادثے اور وبا کے وقت پڑھی جائے۔ 

 

دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے

٭٭ اور حضرت ابو مالک اشجعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم سے دریافت کیا کہ ابا جان ! آپ نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ رضی اللہ عنہم کے پیچھے یہیں کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک نماز پڑھی ہے کیا یہ حضرات دعاء قنوت پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ  میرے بیٹے ! قنوت بدعت ہے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حضرت ابو مالک اپنے والد محترم سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء اربعہ بھی فجر کی نماز میں اور دیگر نمازوں میں قنوت پڑھتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض لوگ ان نمازوں میں قنوت پڑھتے ہیں؟

اس کا جواب ان کے والد نے یہ دیا کہ جو لوگ فجر کی اور دوسری نمازوں میں مستقل طریقے سے یعنی ہمیشہ دعاء قنوت پڑھتے ہیں وہ بدعت میں مبتلا ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو وتر کے علاوہ فجر کی نماز میں صرف ایک مہینہ تک قنوت پڑھی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ترک کر دیا تھا جیسا کہ ابھی پچھلی حدیث میں ذکر کیا گیا، گویا کہ یہ حدیث حضرت امام ابو حنیفہ کی دلیل ہے۔

حضرات شوافع فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں نماز فجر کے اندر قنوت نہ پڑھنا ذکر کیا گیا ہے وہ سب ضعیف ہیں لیکن ملا علی قاری نے اس قول کا جواب بہت معقول اور مدلل طریقے سے دیا ہے نیز انہوں نے خلفاء اربعہ سے بھی اس طرح کی روایتیں نقل کی ہیں اس بحث کی تفصیل ان کی شرح میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 

آخری نصف رمضان میں اور رکوع کے بعد قنوت پڑھنے کا مسئلہ

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو رمضان میں نماز تراویح کے لیے) جمع کیا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام بنایا، حضرت ابی بن کعب نے ان کو بیس راتوں تک نماز پڑھائی اور انہوں نے لوگوں کے ساتھ دعا قنوت سوائے آخری نصف رمضان کے اور دنوں میں نہیں پڑھی اور جب آخر کے دس روزے رہ گئے تو حضرت ابی بن کعب مسجد میں نہ آئے بلکہ (وتر کی) نماز اپنے گھر میں پڑھنے لگے، لوگ کہتے کہ  ابی بھاگ گئے (ابوداؤد) اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ (رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟) تو انہوں نے فرمایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا قنوت رکوع کے بعد پڑھی ہے ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا قنوت کبھی رکوع سے پہلے اور کبھی رکوع کے بعد پڑھی ہے۔

 

تشریح

 

 حضرت ابی بن کعب ایک جلیل القدر اور بڑی عظمت و شان کے مالک صحابی تھے، جہاں ان کی اور بہت سی امتیازی خصوصیات تھیں وہیں آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے ہی میں پورا قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔

نیز یہ کہ صحابہ میں بڑے اونچے درجے کے قاری مانے جاتے تھے، اسی وجہ سے آپ کو  سید القراء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی انہیں خصوصیات کی بنا پر انہیں رمضان میں تراویح کی نماز کے لیے امام مقرر فرمایا تاکہ لوگ ان کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھیں۔

یہ دونوں حدیثیں جو حضرت حسن بصری سے منقول ہیں حضرات شوافع کی مستدل ہیں۔

پہلی حدیث تو اس بات کی دلیل ہے کہ  دعاء قنوت صرف رمضان کے آخری نصف حصے میں پڑھی جائے  علماء احناف فرماتے ہیں کہ اول تو مطلقاً  وتر میں دعا قنوت کا پڑھنا مشروع ہوا ہے اور چونکہ وتر کی نماز ہمیشہ پڑھی جاتی ہے اس لیے دعاء قنوت بھی ہمیشہ پڑھی جائے گی۔

دوسرے یہ کہ زیادہ ایسی ہی احادیث وارد ہیں جن میں بلا تخصیص رمضان، وتر کی نماز میں دعاء قنوت پڑھنا ثابت ہوتا ہے لہٰذا اس اعتبار سے بھی ہمیشہ وتر کی نماز میں دعاء قنوت کا پڑھنا اولیٰ اور ارجح ہو گا۔

دوسری حدیث شوافع کے لیے اس بات کی دلیل ہے کہ  دعاء قنوت رکوع کے بعد پڑھی جائے اس کا جواب حنفی علماء کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے کہ رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھنے کے سلسلے میں احادیث زیادہ تعداد میں منقول ہیں، پھر یہ کہ صحابہ کا عمل بھی انہیں احادیث کے مطابق نقل کیا گیا ہے اس لیے احادیث پر عمل کرنا چاہیے۔

جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن سے رکوع کے بعد دعا قنوت پڑھنا ثابت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ ان احادیث کا تعلق صرف ایک مہینے سے ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی ہے۔ مستقل طریقے سے رکوع کے بعد عاء قنوت پڑھنے سے اس کا تعلق نہیں ہے۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رمضان کے آخری نصف حصے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے باغیوں کے لیے بد دعا کرنے کی وجہ سے دعاء قنوت پڑھتے ہوں گے کیونکہ صحیح سند کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ:

 جب آدھا رمضان گزر جائے تو (رمضان کے آخری نصف حصے میں) وتر میں کفار پر لعنت بھیجنا سنت ہے۔

ابق ابی کے الفاظ کہہ کر لوگوں نے حضرت ابی کو بھاگنے والے غلام کے ساتھ تشبیہ دی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کی نظر میں حضرت ابی کا یہ عمل کہ  آخری دس دنوں میں مسجد میں نہیں آئے مکروہ معلوم ہوا۔ حالانکہ حضرت ابی کسی عذر کی بناء پر ہی رمضان کے آخری عشرے میں مسجد نہیں آئے ہوں گے۔

اور عذر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ ان ایام میں خلوت اختیار کرتے تھے تاکہ عبادت کا وہ کمال خلوت میں حاصل ہو جائے جو جلوت میں حاصل نہیں ہوتا۔

حدیث کے الفاظ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعاء قنوت رکوع کے بعد پڑھی ہے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف ایک مہینے تک (فجر کی نماز میں) رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھی ہے اور اس پر دلیل صحیح البخاری و صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو عاصم احول سے منقول ہے (ملاحظہ فرمائیے اسی باب کی حدیث نمبر ٢)

آخری روایت کا مفہوم یہ ہے کہ  کبھی (یعنی وتر میں) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعاء قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے اور کبھی (یعنی کسی حادثے و وباء کے وقت) رکوع کے بعد پڑھتے تھے

اس مفہوم سے ان تمام احادیث میں تطبیق ہو جائے گی جن میں سے بعض روایات تو رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑتے تھے