حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْعِطَافِ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ"تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ وَهُوَ يُنْسَى وَهُوَ أَوَّلُ شَيْءٍ يُنْتَزَعُ مِنْ أُمَّتِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوہریرہ! علم فرائض سیکھو اور سکھاؤ، اس لیے کہ وہ علم کا آدھا حصہ ہے، وہ بھلا دیا جائے گا، اور سب سے پہلے یہی علم میری امت سے اٹھایا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۶۵۸، ومصباح الزجاجة:۹۶۴)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفرائض ۲ (۲۰۹۱)(ضعیف) (حفص بن عمر ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء:۱۴۵۶)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْ سَعْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدٍ قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ جَمِيعَ مَا تَرَكَ أَبُوهُمَا، وَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَا تُنْكَحُ إِلَّا عَلَى مَالِهَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ فَقَالَ: "أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ ثُلُثَيْ مَالِهِ وَأَعْطِ امْرَأَتَهُ الثُّمُنَ وَخُذْ أَنْتَ مَا بَقِيَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں تھے اور شہید ہو گئے، ان کے چچا نے ان کی ساری میراث پر قبضہ کر لیا (اب ان بچیوں کی شادی کا معاملہ ہے) اور عورت سے مال کے بغیر کوئی شادی نہیں کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ میراث والی آیت نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بھائی کو طلب کیا اور فرمایا: "سعد کی دونوں بیٹیوں کو ان کے مال کا دو تہائی حصہ اور ان کی بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو، پھر جو بچے وہ تم لے لو"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۴ (۲۸۹۱،۲۸۹۲)، سنن الترمذی/الفرائض ۳ (۲۰۹۲)،(تحفة الأشراف:۲۳۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد۳/۳۵۲)(حسن) (سند میں عبد اللہ بن محمد عقیل منکر الحدیث راوی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود:۲۵۷۳- ۲۵۷۴)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الْأَوْدِيِّ، عَنِ الْهُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ الْبَاهِلِيِّ فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ لِأَبٍ، وَأُمٍّ، فَقَالَا: لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ، وَائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنَا فَأَتَى الرَّجُلُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلَهُ وَأَخْبَرَهُ بِمَا، قَالَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا وَلَكِنِّي سَأَقْضِي بِمَا قَضَى بِهِ مِنَ الْمُهْتَدِينَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ".
ہذیل بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کر لو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں ایسا حکم دوں تو گمراہ ہو گیا، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا، لیکن میں وہ فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، بیٹی کے لیے آدھا، اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس طرح دو تہائی پورے ہو جائیں، اور جو ایک تہائی بچا وہ بہن کے لیے ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفرائض ۸ (۶۷۳۶)، سنن ابی داود/الفرائض ۴ (۲۸۹۰)، سنن الترمذی/الفرائض ۴ (۲۰۹۳)،(تحفة الأشراف:۹۵۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۹،۴۲۸،۴۴۰،۴۶۳)، سنن الدارمی/الفرائض ۷ (۲۹۳۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ترکہ کے مال کو چھ حصوں میں بانٹ دیا جائے، تین حصہ بیٹی کو، ایک پوتی کو اور دو حصے بہن کو ملیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرنے والے کی ایک لڑکی کے ساتھ اس کی پوتیاں بھی ہوں یا ایک ہی پوتی ہو تو آدھا حصہ بیٹی کو ملے گا اور دو تہائی ۲-۳ پوتیوں پر برابر تقسیم ہو جائے گا، اور بہنیں بیٹی کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہیں یعنی بیٹیوں کے حصہ سے جو بچ رہے وہ بہنوں کو مل جاتا ہے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنا تو کہا کہ مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے، اور جمہور علماء اس فتوی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں، لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے بہن میراث سے محروم ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاہے:«يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة إن امرؤ هلك ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترك وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد فإن كانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترك وإن كانوا إخوة رجالا ونساء فللذكر مثل حظ الأنثيين» (سورة النساء: 176) " اے رسول! لوگ آپ سے (کلالہ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے،اگر کوئی آدمی مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ اس بہن کو (حقیقی ہو یا علاتی) ترکہ ملے گا، اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا، اگر اولاد نہ ہو پس اگر دو بہنیں ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا، اور اگر کئی شخص اس رشتہ کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے عورتوں کے دوگنا حصہ ہے) اور ولد کا لفظ عام ہے، بیٹا اور بیٹی دونوں کو شامل ہے، تو معلوم ہوا کہ بہن دونوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ ولد سے یہاں بیٹا مراد ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے یوں فرمایا: «وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد» (سورة النساء: 176) " ... اور اگر وہ بہن مر جائے تو یہ بھائی اس کا وارث ہو گا، بشرطیکہ اس مرنے والی بہن کی اولاد نہ ہو (اور نہ ہی باپ) ... " اور یہاں بالاجماع ولد سے بیٹا مراد ہے، اس لئے کہ اجماعاً مرنے والی کی لڑکی بھائی کو محروم نہیں کر سکتی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُتِيَ بِفَرِيضَةٍ فِيهَا جَدٌّ فَأَعْطَاهُ ثُلُثًا أَوْ سُدُسًا".
معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ کے پاس ترکے کا ایک ایسا مقدمہ لایا گیا جس میں دادا بھی (وراثت کا حقدار) تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک تہائی یا چھٹا حصہ دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأ شراف:۱۱۴۷۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفرائض ۶ (۲۸۹۷)، مسند احمد (۵/۲۷)(صحیح)(یونس اور ان کے د ادا میں بعض کلام ہے، لیکن ا گلی سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: احمد، ابوداود اور ترمذی نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے یوں روایت کی کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا پوتا مر گیا ہے تو مجھ کو اس کے ترکہ میں سے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چھٹا حصہ، جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو اس کو بلا کر فرمایا: ایک چھٹا حصہ سلوک کے طور پر (یعنی اصل میراث تیری صرف سدس (چھٹا حصہ) ہے اور ایک سدس اس صورت خاص کی وجہ سے تجھ کو ملا ہے) بخاری ومسلم نے حسن کی روایت مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور دادا کے باب میں صحابہ اور بعد کے علماء کے درمیان اختلاف ہے، بعضوں نے دادا کو باپ کے مثل رکھا ہے اور کبھی اس کوثلث (ایک تہائی) دلایا ہے کبھی سدس (چھٹا حصہ) کبھی عصبہ بھی کہا ہے، بعضوں نے ہمیشہ اس کے لئے سدس رکھا ہے، اسی طرح اختلاف ہے کہ دادا کے ہوتے ہوئے بہن بھائی کو ترکہ ملے گا یا نہیں تو صحابہ کی ایک جماعت جیسے علی، ابن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کا یہ قول ہے کہ دادا بھائیوں کے ساتھ وراثت میں حصہ دار ہو گا اور بعضوں نے کہا: بھائی بہن دادا کی وجہ سے محروم ہوں گے جیسے باپ کی وجہ سے محروم ہوتے ہیں، ان مسائل کی تفصیل فرائض اورمواریث کی کتابوں میں ملے گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الطَّبَّاعِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَدٍّ كَانَ فِينَا بِالسُّدُسِ.
معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے خاندان کے ایک دادا کے لیے چھٹے حصہ کا فیصلہ فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۶ (۲۸۹۷)،(تحفة الأشراف:۱۱۳۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷)(صحیح)(ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود:۲۵۷۶)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَهُ، عَنْقَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، ح وَحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ خَرَشَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، قَالَ: جَاءَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ شَيْءٌ، وَمَا عَلِمْتُ لَكِ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ، فَسَأَلَ النَّاسَ، فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهَا السُّدُسَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ مَعَكَ غَيْرُكَ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: مِثْلَ مَا قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَأَنْفَذَهُ لَهَا أَبُو بَكْرٍ. (حديث موقوف) (حديث موقوف) ثُمَّ جَاءَتِ الْجَدَّةُ الْأُخْرَى مِنْ قِبَلِ الْأَبِ إِلَى عُمَرَ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: "مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ شَيْءٌ وَمَا كَانَ الْقَضَاءُ الَّذِي قُضِيَ بِهِ إِلَّا لِغَيْرِكِ وَمَا أَنَا بِزَائِدٍ فِي الْفَرَائِضِ شَيْئًا وَلَكِنْ هُوَ ذَاكِ السُّدُسُ فَإِنِ اجْتَمَعْتُمَا فِيهِ فَهُوَ بَيْنَكُمَا وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا".
قبیصہ بن ذویب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک نانی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا حصہ مانگنے آئی، تو آپ نے اس سے کہا: کتاب اللہ (قرآن) میں تمہارے حصے کا کوئی ذکر نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی مجھے تمہارا کوئی حصہ معلوم نہیں، تم لوٹ جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کر لوں، آپ نے لوگوں سے پوچھا، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چھٹا حصہ دلایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ تو محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اور وہی بات بتائی جو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بتائی تھی، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو نافذ کر دیا۔ پھر دوسری عورت جو دادی تھی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا حصہ مانگنے آئی، تو آپ نے کہا: کتاب اللہ (قرآن) میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اور جو فیصلہ پیشتر ہو چکا ہے وہ تمہارے لیے نہیں، بلکہ نانی کے لیے ہوا، اور میں از خود فرائض میں کچھ بڑھا بھی نہیں سکتا، وہی چھٹا حصہ ہے اگر دادی اور نانی دونوں ہوں تو دونوں اس چھٹے حصے کو آدھا آدھا تقسیم کر لیں، اور دونوں میں سے ایک ہو تو وہ چھٹا حصہ پورا لے لے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۵ (۲۸۹۴)، سنن الترمذی/الفرائض ۱۰ (۲۱۰۰،۲۱۰۱)،(تحفة الأشراف:۱۱۲۳۲،۱۱۵۲۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الفرائض ۸ (۴)مسند احمد (۴/ ۲۲۵)(ضعیف) (قبیصہ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مابین سند میں انقطاع ہے، نیز سند میں بھی اختلاف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء:۱۴۲۶)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَرَّثَ جَدَّةً سُدُسًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی و نانی کو چھٹے حصے کا وارث بنایا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۷۴۶، ومصباح الزجاجة:۹۶۵)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الفرائض ۱۸ (۲۹۷۵)(ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن أبی سلیم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور شریک القاضی میں بھی ضعف ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْمَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمُرِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ خَطِيبًا يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ خَطَبَهُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ: "إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا هُوَ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَمْرِ الْكَلَالَةِ وَقَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهَا حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي جَنْبِي أَوْ فِي صَدْرِي ثُمَّ قَالَ: "يَا عُمَرُ تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي نَزَلَتْ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ".
معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، یا خطبہ دیا، تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے بعد کلالہ (ایسا مرنے والا جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا) کے معاملے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں چھوڑ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر سختی سے جواب دیا کہ ویسی سختی آپ نے مجھ سے کبھی نہیں کی یہاں تک کہ اپنی انگلی سے میری پسلی یا سینہ میں ٹھوکا مارا پھر فرمایا: "اے عمر! تمہارے لیے آیت صیف «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» "آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں: آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ(خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے" (سورۃ النساء: ۱۷۶) جو کہ سورۃ نساء کے آخر میں نازل ہوئی، وہی کافی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفرائض ۲ (۱۶۱۷)،(تحفة الأشراف:۱۰۶۴۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الفرائض ۹ (۷)، مسند احمد (۱/۱۵،۲۶،۲۷،۴۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْمُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: "ثَلَاثٌ لَأَنْ يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيَّنَهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا الْكَلَالَةُ وَالرِّبَا وَالْخِلَافَةُ".
مرہ بن شراحیل کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بیان فرما دیتے تو میرے لیے یہ دنیا و مافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہوتا، یعنی کللہ، سود اور خلافت۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۶۴۰، ومصباح الزجاجة:۹۶۷)(ضعیف) (سند میں مرہ بن شراحیل اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: "مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ وَهُمَا مَاشِيَانِ وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَصْنَعُ؟ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ فِي آخِرِ النِّسَاءِ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً سورة النساء آية 12 وَ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176 الْآيَةَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کرنے آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے، دونوں پیدل آئے، مجھ پر بیہوشی طاری تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا (مجھے ہوش آ گیا) تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کیا کروں؟ اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں؟ یہاں تک کہ سورۃ نساء کے اخیر میں میراث کی یہ آیت نازل ہوئی «وإن كان رجل يورث كلالة» "اور جن کی میراث لی جاتی ہے، وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو" (سورۃ النساء: 12) اور «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» "آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں: آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے" (سورۃ النساء: ۱۷۶)۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفرائض ۱۳ (۶۷۴۳)، صحیح مسلم/الفرائض ۲ (۱۶۱۶)، سنن ابی داود/الفرائض ۲ (۲۸۸۶)، سنن الترمذی/الفرائض ۷ (۲۰۹۷)،(تحفة الأشراف:۳۰۲۸)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطہارة ۵۵ (۷۳۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا، اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحج ۴۴ (۱۵۸۸)، المغازي ۴۸ (۴۲۸۳)، الفرائض ۲۶ (۶۷۶۴)، صحیح مسلم/الفرائض ۱ (۱۶۱۴)، سنن ابی داود/الفرائض ۱۰ (۲۹۰۹)، سنن الترمذی/الفرائض ۱۵ (۲۱۰۷)،(تحفة الأشراف:۱۱۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الفرائض۱۳ (۱۰)، مسند احمد (۵/۲۰۰،۲۰۱،۲۰۸،۲۰۹)، سنن الدارمی/الفرائض ۲۹ (۳۰۴۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِأَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ قَالَ: "وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ"، وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ، فَكَانَ عُمَرُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ يَقُولُ: لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ، قَالَ أُسَامَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مکہ میں اپنے گھر میں ٹھہریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"عقیل نے ہمارے لیے گھر یا زمین چھوڑی ہی کہاں ہے"؟ عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے اور جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو کچھ بھی ترکہ نہیں ملا اس لیے کہ یہ دونوں مسلمان تھے، اور عقیل و طالب دونوں (ابوطالب کے انتقال کے وقت) کافر تھے، اسی بناء پر عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مومن کافر کا وارث نہیں ہو گا۔ اور اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ مسلمان کافر کا وارث ہو گا، اور نہ ہی کافر مسلمان کا"۔
تخریج دارالدعوہ: حدیث '' لایرث المسلم الکافر '' تقدم تخریجہ بالحدیث السابق (۲۷۲۹)، وحدیث '' وہل ترک لنا عقیل '' أخرجہ: صحیح البخاری/الحج ۴۴ (۱۵۸۸)، الجہاد ۱۸۰ (۳۰۵۸)، المغازي ۴۸ (۴۲۸۲)، صحیح مسلم/الحج ۸۰ (۱۳۵۱)، سنن ابی داود/المناسک (۲۰۱۰)،(تحفة الأشراف:۱۱۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الفرائض ۱۳ (۱۰)، مسند احمد (۲/۲۳۷، سنن الدارمی/الفرائض ۲۹ (۳۰۳۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ، أَخْبَرَهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو مذہب والے (جیسے کافر اور مسلمان) ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفردبہ ابن ماجہ:(تحفة الأشراف:۸۷۸۰)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفرائض ۱۰ (۲۹۱۱)، سنن الترمذی/الفرائض ۱۶ (۲۱۰۹)، مسند احمد (۲/۱۷۸،۱۹۵)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، قَالَ: تَزَوَّجَ رِئَابُ بْنُ حُذَيْفَةَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ سَهْمٍ أُمَّ وَائِلٍ بِنْتَ مَعْمَرٍ الْجُمَحِيَّةَ فَوَلَدَتْ لَهُ ثَلَاثَةً فَتُوُفِّيَتْ أُمُّهُمْ فَوَرِثَهَا بَنُوهَا رِبَاعًا وَوَلَاءَ مَوَالِيهَا. فَخَرَجَ بِهِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى الشَّامِ فَمَاتُوا فِي طَاعُونِ عَمْوَاسٍ فَوَرِثَهُمْ عَمْرُو وَكَانَ عَصَبَتَهُمْ فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ جَاءَ بَنُو مَعْمَرٍ يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلَاءِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ عُمَرُ: أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: "مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ وَالْوَالِدُ فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ"، قَالَ: فَقَضَى لَنَا بِهِ، وَكَتَبَ لَنَا بِهِ كِتَابًا فِيهِ شَهَادَةُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَآخَرَ حَتَّى إِذَا اسْتُخْلِفَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ تُوُفِّيَ مَوْلًى لَهَا، وَتَرَكَ أَلْفَيْ دِينَارٍ فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ الْقَضَاءَ قَدْ غُيِّرَ فَخَاصَمُوهُ إِلَى هِشَامِ بْنِ إِسْمَاعِيل، فَرَفَعَنَا إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ فَأَتَيْنَاهُ بِكِتَابِ عُمَرَ فَقَالَ: "إِنْ كُنْتُ لَأَرَى أَنَّ هَذَا مِنَ الْقَضَاءِ الَّذِي لَا يُشَكُّ فِيهِ وَمَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَمْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَلَغَ هَذَا أَنْ يَشُكُّوا فِي هَذَا الْقَضَاءِ فَقَضَى لَنَا فِيهِ فَلَمْ نَزَلْ بِهِ بَعْدُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمحیہ سے نکاح کیا، اور ان کے تین بچے ہوئے، پھر ان کی ماں کا انتقال ہوا، تو اس کے بیٹے زمین جائیداد اور ان کے غلاموں کی ولاء کے وارث ہوئے، ان سب کو لے کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام گئے، وہ سب طاعون عمواس میں مر گئے تو ان کے وارث عمرو رضی اللہ عنہ ہوئے، جو ان کے عصبہ تھے، اس کے بعد جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام سے لوٹے تو معمر کے بیٹے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی بہن کے ولاء (حق میراث) کا مقدمہ لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسی کے مطابق تمہارا فیصلہ کروں گا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس ولاء کو لڑکا اور والد حاصل کریں وہ ان کے عصبہ کو ملے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو"، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے ہمارے حق میں فیصلہ کر دیا، اور ہمارے لیے ایک دستاویز لکھ دی، جس میں عبدالرحمٰن بن عوف، زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک تیسرے شخص کی گواہی درج تھی، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو ام وائل کا ایک غلام مر گیا، جس نے دو ہزار دینار میراث میں چھوڑے تھے، مجھے پتہ چلا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا کیا ہوا فیصلہ بدل دیا گیا ہے، اور اس کا مقدمہ ہشام بن اسماعیل کے پاس گیا ہے، تو ہم نے معاملہ عبدالملک کے سامنے اٹھایا، اور ان کے سامنے عمر رضی اللہ عنہ کی دستاویز پیش کی جس پر عبدالملک نے کہا: میرے خیال سے تو یہ ایسا فیصلہ ہے جس میں کسی کو بھی شک نہیں کرنا چاہیئے، اور میں یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ مدینہ والوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ اس جیسے (واضح) فیصلے میں شک کر رہے ہیں، آخر کار عبدالملک نے ہماری موافقت میں فیصلہ کیا، اور ہم برابر اس میراث پر قابض رہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۷)،(تحفة الأشراف:۱۰۵۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۷)(حسن)
وضاحت: ۱؎: ولاء کا قاعدہ یہ ہے کہ اس غلام یا لونڈی کے ذوی الفروض سے جو بچ رہے گا وہ آزاد کرنے والے کو ملے گا، اگر ذوی الفروض میں سے کوئی نہ ہو اور نہ قریبی عصبات میں سے تو کل مال آزاد کرنے والے کو مل جائے گا، اور جب ایک مرتبہ ام وائل کے غلاموں کی ولاء اس کے بیٹوں کی وجہ سے سسرال والوں میں آ گئی تو وہ اب کبھی پھر ام وائل کے خاندان میں جانے والی نہیں تھی جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ مَوْلًى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَعَ مِنْ نَخْلَةٍ فَمَاتَ وَتَرَكَ مَالًا وَلَمْ يَتْرُكْ وَلَدًا وَلَا حَمِيمًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَعْطُوا مِيرَاثَهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ قَرْيَتِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام کھجور کے درخت پر سے گر کر مر گیا، اور کچھ مال چھوڑ گیا، اس نے کوئی اولاد یا رشتہ دار نہیں چھوڑا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی میراث اس کے گاؤں میں سے کسی کو دے دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۸ (۲۹۰۲)، سنن الترمذی/الفرائض ۱۳ (۲۱۰۵)،(تحفة الأشراف:۱۶۳۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۳۷،۱۷۴،۱۸۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ میراث رسول اکرم ﷺ کی تھی مگر انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے اس لیے آپ نے میراث نہیں لی، بیت المال میں ایسی میراث رکھنے کا امام کو اختیار ہے، آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کی بستی والے اس کے مال سے فائدہ اٹھائیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْالْحَكَمِ، عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ بِنْتِ حَمْزَةَ، قَالَ مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي لَيْلَى وَهِيَ أُخْتُ ابْنِ شَدَّادٍ لِأُمِّهِ، قَالَتْ: "مَاتَ مَوْلَايَ وَتَرَكَ ابْنَةً فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالَهُ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنَتِهِ فَجَعَلَ لِي النِّصْفَ وَلَهَا النِّصْفَ".
عبداللہ بن شداد کی اخیافی بہن بنت حمزہ کہتی ہیں کہ میرا ایک غلام فوت ہو گیا، اس نے ایک بیٹی چھوڑی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم کیا، اور مجھے اور اس کی بیٹی کو آدھا آدھا دیا، (بیٹی کو بطور فرض اور بہن کو بطور عصبہ)۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۸۳۷۲، ومصباح الزجاجة:۹۶۶)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الفرائض ۳۱ (۳۰۵۶)(حسن) (سند میں ابن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء:۱۶۹۶)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "الْقَاتِلُ لَا يَرِثُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قاتل وارث نہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفرائض ۱۷ (۲۱۰۹)،(تحفة الأ شراف:۱۲۲۸۶)وقد مضی برقم:(۲۶۴۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَقَالَ: "الْمَرْأَةُ تَرِثُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا وَمَالِهِ وَهُوَ يَرِثُ مِنْ دِيَتِهَا، وَمَالِهَا مَا لَمْ يَقْتُلْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ عَمْدًا لَمْ يَرِثْ مِنْ دِيَتِهِ وَمَالِهِ شَيْئًا، وَإِنْ قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ خَطَأً وَرِثَ مِنْ مَالِهِ وَلَمْ يَرِثْ مِنْ دِيَتِهِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے، اور فرمایا: "عورت اپنے شوہر کی دیت اور مال دونوں میں وارث ہو گی، اور شوہر بیوی کی دیت اور مال میں وارث ہو گا، جب کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل نہ کیا ہو، لیکن جب ایک نے دوسرے کو جان بوجھ کر قتل کر دیا ہو تو اس دیت اور مال سے کسی بھی چیز کا وارث نہیں ہو گا، اور اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو اس کے مال سے تو وارث ہو گا، لیکن دیت سے وارث نہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۶۶، ومصباح الزجاجة:۹۶۸)(موضوع)(سند میں محمد بن سعید ابو سعید مصلوب فی الزند قہ ہے، جو حدیثیں وضع کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۴۶۷۴)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الزُّرَقِيِّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا رَمَى رَجُلًا بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ إِلَّا خَالٌ فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ إِلَى عُمَرَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ".
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو تیر مارا، جس سے وہ مر گیا، اور اس کا ماموں کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں تھا تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو سارا قصہ لکھ بھیجا، جس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا کوئی مولیٰ نہیں اس کا مولیٰ اللہ اور اس کے رسول ہیں، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث اس کا ماموں ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفرائض ۱۲ (۲۱۰۳)،(تحفة الأشراف:۱۰۳۸۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۸،۴۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اللہ تعالی نے فرمایا: «وأولوا الأرحام بعضهم أولى ببعض» (سورة الأنفال: 75) یعنی " رشتے ناتے والے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، اور یہ شامل ہے ذوی الارحام کو بھی اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہوں گے، اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ عصبات اور ذوی الفروض نہ ہوں تو ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہیں۔ (الروضۃ الندیۃ)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَاشُعْبَةُ، حَدَّثَنِي بُدَيْلُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنِالْمِقْدَامِ أَبِي كَرِيمَةَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ وَمَنْ تَرَكَ كَلًّا فَإِلَيْنَا"، وَرُبَّمَا قَالَ: "فَإِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ أَعْقِلُ عَنْهُ وَأَرِثُهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ يَعْقِلُ عَنْهُ وَيَرِثُهُ".
مقدام ابوکریمہ رضی اللہ عنہ (جو اہل شام میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو شخص بوجھ (قرض یا محتاج اہل و عیال) چھوڑ جائے تو وہ ہمارے ذمہ ہے"، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہے، جس کا کوئی وارث نہ ہو، اس کا وارث میں ہوں، میں ہی اس کی دیت دوں گا، اور میں ہی میراث لوں گا، اور ماموں اس شخص کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہی اس کی طرف سے دیت دے گا، اور وہی اس کا وارث بھی ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۸ (۲۸۹۹،۲۹۰۰)،(تحفة الأشراف:۱۱۵۶۹)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ الْبَكْرَاوِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ يَرِثُ الرَّجُلُ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ دُونَ إِخْوَتِهِ لِأَبِيهِ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سگے بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، علاتی کے نہیں، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہو گا علاتی بھائیوں کا نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفرائض ۵ (۲۰۹۴،۲۰۹۵)،(تحفة الأشراف:۱۰۰۴۳)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الفرائض ۲۸ (۳۰۲۷)، وقد مضی برقم:۲۷۱۵ (حسن)(سند میں ابو بحرالبکراوی اور الحارث الاعور دونوں ضعیف ہیں، لیکن سعد بن الاطول رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
وضاحت: حقیقی (سگے) بھائی یعنی وہ جن کے ماں اور باپ دونوں ایک ہوں، اور علاتی سے مراد وہ بھائی ہیں جن کے باپ ایک ہو، اور ماں الگ الگ ہو، اور جن کی ماں ایک ہو باپ الگ الگ ہوں، انہیں اخیافی بھائی کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مال کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق ذوی الفروض (میراث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کا زیادہ قریبی ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفرائض ۵ (۶۷۳۲)، صحیح مسلم/الفرائض ۱ (۱۶۱۵)، سنن ابی داود/الفرائض ۷ (۲۸۹۸)، سنن الترمذی/الفرائض ۸ (۲۰۹۸)،(تحفة الأشراف:۵۷۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۹۲،۳۱۳،۳۲۵)، سنن الدارمی/الفرائض ۲۸ (۳۰۳۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جیسے بھائی چچا کے بہ نسبت اور چچا زاد بھائی کی بہ نسبت اور بیٹا پوتے کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَوْسَجَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "مَاتَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَدَعْ لَهُ وَارِثًا إِلَّا عَبْدًا هُوَ أَعْتَقَهُ فَدَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِيرَاثَهُ إِلَيْهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص مر گیا، اور اس نے کوئی وارث نہیں چھوڑا سوائے ایک غلام کے، جس کو اس نے آزاد کر دیا تھا تو آپ نے اس کی میراث اسی غلام کو دلا دی۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۸ (۲۹۰۵)، سنن الترمذی/الفرائض ۱۴ (۲۱۰۶)،(تحفة الأشراف:۶۳۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۱،۳۵۸)(ضعیف) (سند میں عوسجہ کی وجہ سے ضعف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء:۱۶۶۹)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّصْرِيِّ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْمَرْأَةُ تَحُوزُ ثَلَاثَ مَوَارِيثَ عَتِيقِهَا وَلَقِيطِهَا وَوَلَدِهَا الَّذِي لَاعَنَتْ عَلَيْهِ"قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ: مَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ هِشَامٍ.
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت تین میراث حاصل کرتی ہے، ایک تو اپنے اس غلام یا لونڈی کی میراث جس کو وہ آزاد کرے، دوسرے اس بچے کی میراث جس کو راستہ میں لاوارث پا کر پرورش کرے، تیسرے اس بچے کی میراث جس پر اپنے شوہر سے لعان کرے"۔ محمد بن یزید کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہشام کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۹ (۲۹۰۶)، سنن الترمذی/الفرائض ۲۳ (۲۱۱۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۷۴۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۹۰،۴/۱۰۶،۱۰۷)(ضعیف) (سند میں عمر بن رؤبہ التغلبی کی وجہ سے ضعف ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَاب، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَلْحَقَتْ بِقَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَلَنْ يُدْخِلَهَا جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ أَنْكَرَ وَلَدَهُ وَقَدْ عَرَفَهُ احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب لعان کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت نے کسی قوم میں ایسے (بچہ) کو ملا دیا جو ان میں سے نہیں تھا، تو اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ اس کی جنت میں ہرگز داخل نہ ہو گی، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کو پہچان لینے کے باوجود انکار کر دیا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے پردہ کرے گا، اور سب کے سامنے اس کو ذلیل و رسوا کرے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۰۷۵، ومصباح الزجاجة:۹۶۹)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق ۲۹ (۲۲۶۳)، سنن النسائی/الطلاق ۴۷ (۳۵۱۱)، سنن الدارمی/النکاح ۴۲ (۲۲۸۴)(ضعیف) (سند میں یحییٰ بن حرب مجہول، اور موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كُفْرٌ بِامْرِئٍ ادِّعَاءُ نَسَبٍ لَا يَعْرِفُهُ أَوْ جَحْدُهُ وَإِنْ دَقَّ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی شخص کا ایسے نسب کا دعویٰ کرنا جس کو وہ پہچانتا نہیں کفر ہے یا اپنے نسب کا انکار کر دینا گرچہ اس کا سبب باریک (دقیق) ہو یہ بھی کفر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأ شراف:۸۸۱۷ ألف، ومصباح الزجاجة:۹۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۱۵)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہاں پر کفر سے مراد نسب کی ناشکری ہے، کیونکہ وہ اپنے باپ کو چھوڑ کر جو کہ اس کے وجود کا سبب ہے، دوسرے کا بیٹا بنا چاہتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ عَاهَرَ أَمَةً أَوْ حُرَّةً فَوَلَدُهُ وَلَدُ زِنًا، لَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے کسی لونڈی یا آزاد عورت سے زنا کیا، پھر اس سے بچہ پیدا ہوا تو وہ ولدالزنا ہے، نہ وہ مرد اس بچے کا وارث ہو گا، نہ وہ بچہ اس مرد کا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۷۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفرائض ۲۱ (۲۱۱۳)(حسن) (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد سے تقو یت پاکر یہ حسن ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ الدِّمَشْقِيُّ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كُلُّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ مِنْ بَعْدِهِ، فَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنِ اسْتَلْحَقَهُ وَلَيْسَ لَهُ فِيمَا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَا يَمْلِكُهَا أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ وَلَا يُورَثُ وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنًا لِأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا حُرَّةً أَوْ أَمَةً". قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: يَعْنِي بِذَلِكَ مَا قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس بچے کا نسب اس کے والد کے مرنے کے بعد اس سے ملایا جائے مثلاً اس کے بعد اس کے وارث دعویٰ کریں (کہ یہ ہمارے مورث کا بچہ ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ فیصلہ فرمایا: "اگر وہ بچہ لونڈی کے پیٹ سے ہو لیکن وہ لونڈی اس کے والد کی ملکیت رہی ہو جس دن اس نے اس سے جماع کیا تھا تو ایسا بچہ یقیناً اپنے والد سے مل جائے گا، لیکن اس کو اس میراث میں سے حصہ نہ ملے گا جو اسلام کے زمانے سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں اس کے والد کے دوسرے وارثوں نے تقسیم کر لی ہو، البتہ اگر ایسی میراث ہو جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو تو اس میں سے وہ بھی حصہ پائے گا، لیکن اگر اس کے والد نے جس سے وہ اب ملایا جاتا ہے، اپنی زندگی میں اس سے انکار کیا ہو یعنی یوں کہا ہو کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے، تو وارثوں کے ملانے سے وہ اب اس کا بچہ نہ ہو گا، اگر وہ بچہ ایسی لونڈی سے ہو جو اس مرد کی ملکیت نہ تھی، یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کیا تھا تو اس کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہو گا، گو اس مرد کے وارث اس بچے کو اس مرد سے ملا دیں، اور وہ بچہ اس مرد کا وارث بھی نہ ہو گا، (اس لیے کہ وہ ولدالزنا ہے) گو کہ اس مرد نے خود اپنی زندگی میں بھی یہ کہا ہو کہ یہ میرا بچہ ہے، جب بھی وہ ولدالزنا ہی ہو گا، اور عورت کے کنبے والوں کے پاس رہے گا، خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی"۔ محمد بن راشد کہتے ہیں: اس سے مراد وہ میراث ہے جو اسلام سے پہلے جاہلیت میں تقسیم کر دی گئی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۱۲ألف، ومصباح الزجاجة:۹۷۱)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق ۳۰ (۲۲۶۵)، مسند احمد (۲/۱۸۱،۲۱۹)، سنن الدارمی/الفرائض ۴۵ (۳۱۵۴)(حسن) (بوصیری نے کہا کہ ابوداود اور ترمذی نے بعض حدیث ذکر کی ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَعَنْ هِبَتِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق ولاء (میراث) کو بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العتق ۱۰ (۲۵۳۵)، الفرائض ۲۱ (۶۷۵۶)، صحیح مسلم/العتق ۳ (۱۵۰۶)، سنن ابی داود/الفرائض ۱۴ (۲۹۱۹)، سنن الترمذی/البیوع ۲۰،(۱۲۳۶)، سنن النسائی/البیوع ۸۵ (۴۶۶۳)،(تحفة الأشراف:۷۱۵،۷۱۸۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العتق والولاء ۱۰ (۲۰)، مسند احمد (۳/۹،۷۹،۱۰۷)، سنن الدارمی/البیوع ۳۶ (۲۶۱۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ ولاء (میراث) ایک طرح کی رشتہ داری ہے اس کا بیچنا اور ہبہ کرنا کیونکر جائز ہو گا، جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَعَنْ هِبَتِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق ولاء (میراث) کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ:(تحفة الأ شراف:۸۲۲۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع ۲۰ (۱۲۳۶)،۵۴ (۱۲۸۷)،(صحیح) (سند میں محمد بن عبدالملک صدوق ہیں، اس لئے یہ اسناد حسن ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُقَيْلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ نَافِعًا يُخْبِرُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا كَانَ مِنْ مِيرَاثٍ قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ عَلَى قِسْمَةِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَا كَانَ مِنْ مِيرَاثٍ أَدْرَكَهُ الْإِسْلَامُ فَهُوَ عَلَى قِسْمَةِ الْإِسْلَامِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو میراث زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہو چکی، وہ بدستور اس تقسیم پر رہے گی، اور جو میراث زمانہ اسلام آنے تک تقسیم نہیں ہوئی اسے اسلامی دستور کے مطابق تقسیم کیا جائے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۲۳۲، ومصباح الزجاجة:۹۷۲)(صحیح)(سند میں ابن لہیعہ ضعیف الحفظ راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء:۱۷۱۷، تراجع الألبانی: رقم:۴۸۶)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کیسا عمدہ مسئلہ حل ہوا کہ ہر قانون کا عمل اس کے نفاذ کے بعد سے جو مقدمات پیدا ہوں ان پر ہوتا ہے اور جن مقدمات کے فیصلے قانون کے نفاذ سے پہلے ہو چکے ہوں ان میں اس قانون کے نفاذ سے کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوَرِثَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچہ پیدائش کے وقت رو دے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۷۰۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز ۴۳ (۱۰۳۲)، سنن الدارمی/الفرائض ۴۷ (۳۱۶۸)، وقد مضی برقم:(۱۵۰۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَرِثُ الصَّبِيُّ حَتَّى يَسْتَهِلَّ صَارِخًا"، قَالَ: وَاسْتِهْلَالُهُ أَنْ يَبْكِيَ وَيَصِيحَ أَوْ يَعْطِسَ.
جابر بن عبداللہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(ولادت کے وقت) بچہ وارث نہیں ہو گا جب تک کہ وہ زور سے استہلال نہ کرے" ۱؎۔ راوی کہتے ہیں: بچے کے استہلال کا مطلب یہ ہے کہ وہ روے یا چیخے یا چھینکے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۲۵۷،(الف)۱۲۶۶ (الف)(صحیح)(تراجع الألبانی: رقم:۵۸۴)
وضاحت: ۱؎: غرض کوئی کام ایسا کرے جس سے اس کی زندگی ثابت ہو تو وہ وارث ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالَ: سَمِعْتُتَمِيمًا الدَّارِيَّ، يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا السُّنَّةُ فِي الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ يُسْلِمُ عَلَى يَدَيِ الرَّجُلِ، قَالَ: "هُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِمَحْيَاهُ وَمَمَاتِهِ".
عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ میں نے تمیم داری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اہل کتاب کا کوئی آدمی اگر کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہوتا ہے تو اس میں شرعی حکم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زندگی اور موت دونوں حالتوں میں وہ اس کا زیادہ قریبی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض ۱۳ (۲۹۱۸)، سنن الترمذی/الفرائض۲۰ (۲۱۱۲)،(تحفة الأشراف:۲۰۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۰۴،۱۰۳)، سنن الدارمی/الفرائض ۳۴ (۳۰۷۶)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر نو مسلم کا کوئی وارث نہ تو اس کی میراث کا حق دار وہ شخص ہے جس نے اس کو مسلمان کیا۔