وصایا وصیت کی جمع ہے خطایا خطیۃ کی جمع ہے وصیت اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے وارثوں سے یہ کہہ جائے کہ میرے مرنے کے بعد یہ فلاں فلاں کام کرنا مثلاً میری طرف سے مسجد بنوا دینا، کنواں بنوا دینا، یا مدرسہ اور خانقاہ وغیرہ میں اتنا روپیہ دے دینا یا فلاں شخص کو اتنا روپیہ یا مال دے دینا یا فقراء و مساکین کو طعام و غلہ یا کپڑے تقسیم کر دینا وغیرہ وغیرہ اور یا جو فرائض و واجبات مثلاً نماز اور زکوٰۃ وغیرہ اس کی غفلت کی وجہ سے قضاء ہو گئے تھے ان کے بارے میں اپنے ورثاء سے کہے کہ یہ ادا کر دینا یا ان کا کفارہ دے دینا اسی طرح بعض مواقع پر وصیت نصیحت کے معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے۔
علماء ظواہر (یعنی وہ علماء جو بہرصورت قرآن وحدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہیں) کے نزدیک وصیت کرنا واجب ہے جبکہ دوسرے تمام علماء کے ہاں پہلے تو وصیت واجب تھی یعنی اپنے اختیار سے والدین اور رشتہ داروں کے لئے اپنے مال و اسباب میں سے حصے مقرر کرنا جانا ہر مال دار پر واجب تھا لیکن جب آیت میراث نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمام حصے متعین ومقرر فرما دئے تو یہ حکم منسوخ ہو گیا اسی لئے وارث کے لئے وصیت کرنا درست نہیں ہے البتہ آیت میراث کے بعد بھی تہائی مال میں وصیت کرنے کا اختیار باقی رکھا گیا تاکہ اگر کوئی شخص اپنے آخری وقت میں فی سبیل اللہ مال خرچ کر کے اپنی عمر بھی کی تقصیرات مثلاً بخل وغیرہ کا کفارہ اور مکافات کرنا چاہے تو یہ سعادت حاصل کر لے یا اگر اپنے کسی دوست یا دور کے رشتہ دار یا خادم وغیرہ کو کچھ دینا چاہے تو اس تہائی میں سے دیکر اپنا دل خوش کر لے۔
علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص پر کوئی قرض وغیرہ ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی ادائے گی و واپسی کی وصیت کر جائے اور اس بارے میں ایک وصیت نامہ لکھ کر اس پر گواہیاں کرا لے۔
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس مسلمان مرد کے مال یا آپسی تعلقات کے معاملے میں کوئی بات وصیت کے قابل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں بھی وصیت لکھ رکھے بغیر نہ گزارے (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا کوئی حق ہو یا لوگوں کا کوئی معاملہ اس کے سپرد ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں گزرنے سے پہلے وصیت نامہ لکھ کر رکھ لے دو راتوں سے مراد عرصہ قلیل ہے یعنی کم سے کم عرصہ بھی ایسا نہ گزرنا چاہئے کہ جس میں وصیت نامہ لکھا ہوا نہ رکھا ہو کیونکہ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، نہ معلوم کس لمحہ زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور وصیت نامہ کی عدم موجودگی میں ورثاء کے لا علم ہونے کی وجہ سے حق تلفی کا وبال اس دنیا سے اس کے ساتھ جائے۔ علماء ظواہر اسی حدیث کے پیش نظر وصیت کے واجب ہونے کے قائل ہیں حالانکہ یہ حدیث عمومی طور پر وصیت کے واجب ہونے پر دلالت نہیں کرتی البتہ اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص پر کسی کا قرض ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس قرض یا امانت کے بارے میں وصیت کر جائے۔
علماء لکھتے ہیں کہ جس معاملہ میں یعنی قرض اور امانت وغیرہ کے سلسلہ میں وصیت کرنا لازم ہو اس کا وصیت نامہ جلد سے جلد مرتب کر لینا مستحب ہے نیز یہ ضروری ہے کہ وصیت نامہ لکھ کر اس وصیت نامہ پر دو اشخاص کی گواہیاں ثبت کرا دی جائیں۔
اور سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال اتنا سخت بیمار ہوا کہ موت کے کنارہ پر پہنچ گیا چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم میری عیادت کے لئے میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس بہت مال ہے مگر ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے تو کیا میں اپنے سارے مال کے بارے میں وصیت کر جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں پھر میں نے عرض کیا کہ کیا دو تہائی مال کے بارے میں وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا نصف کے لئے فرمایا نہیں، میں نے پوچھا کہ ایک تہائی کے لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں تہائی مال کے بارے میں وصیت کر سکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے اور یاد رکھو اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار و خوش حال چھوڑ جاؤ گے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلس چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں جان لو تم اپنے مال کا جو بھی حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے جذبہ سے خرچ کرو گے تو تمہیں اس کے خرچ کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ تمہیں اس لقمہ کا بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ تک لے جاؤ گے (بخاری و مسلم)
تشریح
میرا کوئی وارث نہیں ہے سے حضرت سعد کی مراد یہ تھی کہ ذوی الفروض سے میرا کوئی وارث نہیں ہے یا یہ کہ ایسے وارثوں میں سے کہ جن کے بارے میں مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میرا مال ضائع کر دیں گے علاوہ ایک بیٹی کے اور کوئی وارث نہیں ہے، حضرت سعد کے اس جملہ کی یہ تاویل اس لئے کی گئی ہے کہ حضرت سعد کے کئی عصبی وارث تھے۔
یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ مال جمع کرنا مباح ہے وہیں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وارثوں کے حق میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس میت کے وارث موجود ہوں تو اس کی وصیت اس کے تہائی مال سے زائد میں جاری نہیں ہوتی، البتہ اگر وہ ورثاء اپنی اجازت و خوشی سے چاہیں تو ایک تہائی سے زائد میں بھی بلکہ سارے ہی مال میں وصیت جاری ہو سکتی ہے بشرطیکہ سب وارث عاقل و بالغ اور موجود ہوں، اور جس میت کا کوئی وارث نہ ہو تو اس صورت میں بھی اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ اس کی وصیت بھی ایک تہائی سے زائد میں جاری نہیں ہو سکتی۔ البتہ حضرت امام اعظم اور ان کے متبعین علماء اس صورت میں ایک تہائی سے زائد میں بھی وصیت جاری کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں نیز حضرت امام احمد اور حضرت اسحٰق کا بھی یہی قول ہے۔
اس حدیث میں اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ان کے حق میں ہمیشہ خیر خواہی کا جذبہ رکھا جائے اور وارثوں کے تئیں شفقت و محبت ہی کے طریقے کو اختیار کیا جائے علاوہ ازیں اس حدیث سے اور بھی کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ اول یہ کہ اپنا مال غیروں کو دینے سے افضل یہ ہے کہ اس کو اپنے قرابتداروں پر خرچ کیا جائے دوم یہ کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی طلب پیش نظر ہو اور سوم یہ کہ اگر کسی مباح کام میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی نیت کر لی جائے تو وہ مباح کام بھی طاعت و عبادت بن جاتا ہے چنانچہ بیوی اگرچہ جسمانی و دنیوی لذت و راحت کا ذریعہ ہے اور خوشی و مسرت کے وقت اس کے منہ میں نوالہ دینا محض ایک خوش طبعی ہے جس کا طاعت و عبادت اور امور آخرت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بتایا کہ اگر بیوی کے منہ میں نوالہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی طلب کی نیت ہو تو اس میں ثواب ملتا ہے لہذا اس کے علاوہ دوسری حالتوں میں تو بطریق اولی ثواب ملے گا۔
٭٭ حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مجھے پوچھنے آئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کتنے مال کی وصیت کا تم نے ارادہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے آپ نے فرمایا اولاد کے لئے کیا چھوڑا میں نے عرض کیا کہ وہ خود مال دار خوشحال ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر وصیت کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے مال کے دسویں حصہ کے بارے میں وصیت کر دو حضرت سعد کہتے ہیں کہ جب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بتائی ہوئی اس مقدار کو بار بار کم کہتا رہا تو میرے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ اچھا تہائی مال کے بارے میں وصیت کر دو اگرچہ یہ تہائی بھی بہت ہے (ترمذی)
اور حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے (ابو داؤد، ابن ماجہ)
اور امام ترمذی نے یہ مزید نقل کیا ہے کہ بچہ صاحب فراش کیلئے ہے اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہے، نیز ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور حضرت ابن عباس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) کہ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے مگر جب کہ وارث چاہیں، یہ حدیث منقطع ہے اور یہ مصابیح کے الفاظ ہیں۔
اور دارقطنی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ) وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہوتی مگر جب کہ وارث چاہیں۔
تشریح
اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے الخ) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ورثاء کے لئے حصے متعین ومقرر فرما دیئے ہیں خواہ وہ کسی وارث کے حق میں یہ وصیت کر بھی جائے کہ اسے دوسرے وارثوں سے اتنا زیادہ حصہ دیا جائے تو شرعی طور پر اس کا کچھ اعتبار نہیں ہاں اگر تمام ورثاء عاقل و بالغ ہوں اور وہ برضا و رغبت کسی وارث کو میت کی وصیت کے مطابق اس کے حصے سے زیادہ دے دیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں آیت میراث نازل ہونے سے پہلے اپنے اقرباء کے حق میں وصیت کر جانا واجب تھا مگر جب آیت میراث نازل ہوئی اور تمام ورثاء کے حصے متعین و مقرر ہو گئے تو وصیت کا واجب ہونا منسوخ ہو گیا۔
فراض ویسے تو عورت کو کہتے ہیں لیکن یہاں (الولد للفراش) میں فراش سے مراد صاحب فراش یعنی عورت کا مالک ہے۔ حدیث گرامی کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور اس کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہو جائے تو اس بچہ کا نسب زنا کرنے والے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ وہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے خواہ وہ صاحب فراش زنا کرانے والی عورت کا خاوند ہو یا لونڈی ہونے کی صورت میں) اس کا آقا ہو اور یا وہ شخص جس نے شبہ میں مبتلا ہو کر اس عورت سے صحبت کر لی تھی۔
اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہے یہ جملہ زنا کرنے والے کی محرومی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جیسا کہ ہماری عام بول چال میں کسی ایسے شخص کے بارے میں کہ جسے کچھ نہیں ملتا کہہ دیا کرتے ہیں کہ اسے خاک پتھر ملے گا، لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچہ کا نسب چونکہ زنا کرنے والے سے قائم نہیں ہوتا اس لئے ولد الزنا کی میراث میں سے اسکو کچھ نہیں ملے گا۔ یا پھر یہ کہ یہاں پتھر سے مراد سنگسار کرنا ہے کہ اس زنا کرنے والے کو اگر وہ شادی شدہ تھا سنگسار کر دیا جائے گا)۔
ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس بدکاری میں مبتلا ہونے والوں کا حساب و کتاب اللہ پر ہے کہ وہ ہر ایک کو ان کے کرتوت کے مطابق بدلہ دے گا۔ ویسے یہ جملہ ایک دوسرے معنی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ جہاں تک دنیا کا تعلق ہے تو یہاں ہم زنا کرنے والوں کو سزا دیتے ہیں بایں طور کہ ان پر حد جاری کرتے ہیں اب رہا وہاں یعنی آخرت کا معاملہ تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء پر موقوف ہے چاہے تو مؤاخذہ کرے اور چاہے تو اپنے بے پایاں رحم و کرم کے صدقہ میں انہیں بخش دے۔
مذکورہ بالا عبارت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص زنا کرے یا کسی اور گناہ میں مبتلا ہو اور اس پر کوئی حد قائم نہ ہو یعنی دنیا میں اسے کوئی سزا نہ دی جائے تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہ چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مرد اور عورت ساٹھ برس تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں مگر جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وصیت کے ذریعہ وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں لہذا ان کے لئے دوزخ ضروری ہو جاتی ہے، اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ نے یہ آیت کریمہ پڑھی (وَصِیةٍ یوْصٰى بِھَآ اَوْ دَینٍ ۙغَیرَ مُضَاۗرٍّ) 4۔ النساء:12) (یعنی ورثاء اپنے حصے کی وصیت پوری کرنے کے بعد جس کی وصیت کی جائے یا دین کے بعد بشرطیکہ وصیت کرنے والا کسی کو ضرر نہ پہنچائے،۔
حضرت ابو ہریرہ نے یہ آیت ارشاد ربانی (ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ) 9۔ التوبہ:89) (اور یہ بڑی کامیابی ہے) تک تلاوت کی ہے (ترمذی ابو داؤد، ابن ماجہ)
تشریح
یہ حدیث حقوق العباد کی اہمیت ظاہر کرتی ہے کہ جو لوگ اپنی ساری زندگی عبادت الہی میں گزار دیتے ہیں مگر حقوق العباد کو نقصان پہنچانے سے اجتناب نہیں کرتے وہ اپنی تمام عبادتوں کے باوجود خدا کی ناراضگی کا مورد بن جاتے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ساٹھ سال تک عبادت کرتے ہیں مگر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ وبال اپنے سر لے لیتے ہیں کہ وہ اپنے مال میں تہائی سے زیادہ کی وصیت کسی غیر شخص کے حق میں کر جاتے ہیں یا اپنا سارا مال کسی ایک وارث کو ہبہ کر دیتے تاکہ دوسرے وارثوں کو کچھ نہ ملے اور اس طرح وہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو وہ اتنے طویل عرصہ کی اپنی عبادتوں کے باوجود اپنے آپ کو دوزخ کے عذاب کا سزا وار بنا لیتے ہیں کیونکہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچانا حقوق العباد کی ادائے گی میں کوتاہی کی وجہ سے غیر مناسب وناجائز ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی اور اس کی مقررہ ہدایات سے تجاوز بھی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد بیان کرنے کے بعد بطور تائید مذکورہ بالا آیت کریمہ پڑھی کیونکہ اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مورث کو چاہئے کہ وہ اپنے مال کے تہائی حصہ سے زائد کے بارے میں وصیت کر کے اپنے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص وصیت کر کے مرا یعنی جس شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے مال کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں مثلاً فقراء کو دینے کی وصیت کی) تو وہ راہ مستقیم اور پسندیدہ طریقہ پر اور تقویٰ و شہادت پر مرا یعنی متقیوں اور شہیدوں میں داخل ہوا اور اس حال میں مرا کہ اس کی مغفرت کی گئی (ابن ماجہ)
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور شعیب اپنے دادا (حضرت عبد اللہ) سے نقل کرتے ہیں کہ عاص بن وائل نے یہ وصیت کی تھی کی میری طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں چنانچہ پچاس غلام تو ان کے بیٹے ہشام نے آزاد کر دیئے پھر جب ان کے دوسرے بیٹے عمرو نے یہ ارادہ کیا کہ باقی پچاس غلام اس وقت تک آزاد نہیں کروں گا جب تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ پوچھ لوں کہ آیا اپنے دل میں سوچا کہ میں یہ پچاس غلام اس وقت تک آزاد کرنا جائز اور مفید بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ عمرو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے باپ عاص نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں لہذا ہشام نے پچاس غلام آزاد کر دئیے ہیں ان پر یعنی ہشام ہی کے ذمہ یا میرے ذمہ پچاس غلام باقی رہ گئے ہیں تو کیا میں اپنے باپ کی طرف سے وہ باقی پچاس غلام آزاد کر دوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ تمہارے باپ عاص) اگر مسلمان ہوتے اور تم ان کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا ان کی طرف سے صدقہ کرتے یا ان کی طرف سے حج کرتے تو ان کو اس کا ثواب پہنچتا (ابو داؤد)
تشریح
عاص بن وائل نے اسلام کا زمانہ پایا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ اسلام کی دولت سے بہرہ ور نہیں ہو سکے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے ان کے دو بیٹے تھے ایک حضرت ہشام بن عاص اور دوسرے حضرت عمرو بن عاص ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے راستہ پر گامزن کیا چنانچہ یہ دونوں مشرف باسلام ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی ہونے کا اعزاز پایا (رضی اللہ عنہما)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تمہارے والد عاص اگر مسلمان ہوتے اور اسلام ہی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوتے تو ان کی طرف سے جو بھی عباد دین کی جاتی اس کا ثواب انہیں پہنچتا لیکن چونکہ وہ مسلمان نہیں ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے تو اب تم ان کی طرف سے کوئی بھی عبادت کرو یا کوئی بھی نیک کام کرو اس کا ثواب انہیں نہیں پہنچے گا۔ لہذا حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ وغیرہ کافر کے لئے فائدہ مند نہیں ہے اور نہ اس کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات ملتی ہے جب کہ یہ مسلمان کے لئے مفید ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا (ابن ماجہ) اور بیہقی نے اس روایت کو حضرت ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو جنت کا وارث بنانے کا وعدہ بایں طور کیا ہے کہ
(یرثون الفردوس)
یعنی وہ مؤمن بہشت کے وارث ہوں گے
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی کے پیش نظر فرمایا کہ جو شخص ناجائز طور پر اپنے وارث کو میراث سے محروم کر دے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت کی وارثت سے محروم رکھے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص ابتداء ہی میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا۔