حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا، وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: " لَا "، قُلْتُ: فَثُلُثَيْ مَالِي، قَالَ: " لَا "، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ: " لَا "، قُلْتُ: فَالثُّلُثُ، قَالَ: " الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَدَعْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ فِيهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي، قَالَ: " إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَيْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ يُوصِيَ بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَنْقُصَ مِنَ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمار پڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا:"نہیں"، میں نے عرض کیا: دو تہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: "نہیں"، میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "نہیں"، میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: "ایک تہائی کی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎، تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج و غریب چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں، تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس پر تم کو ضرور اجر ملتا ہے، یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جس کو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: "تم میرے بعد زندہ رہ کر اللہ کی رضا مندی کی خاطر جو بھی عمل کرو گے اس کی وجہ سے تمہارے درجات میں بلندی اور اضافہ ہوتا جائے گا، شاید کہ تم میرے بعد زندہ رہو یہاں تک کہ تم سے کچھ قومیں نفع اٹھائیں گی اور دوسری نقصان اٹھائیں گی" ۲؎، (پھر آپ نے دعا کی) "اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت برقرار رکھ اور ایڑیوں کے بل انہیں نہ لوٹا دنیا" لیکن بیچارے سعد بن خولہ جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افسوس کرتے تھے، (ہجرت کے بعد) مکہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعد بن ابی وقاص سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنا آدمی کے لیے جائز نہیں ہے، ۴- بعض اہل علم ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک تہائی بھی زیادہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۹۷۵ (تحفة الأشراف : ۳۸۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے ، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے ، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا ہے ، البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہتر ہے۔ ۲؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق جس امید کا اظہار کیا تھا وہ پوری ہوئی ، چنانچہ سعد اس مرض سے شفاء یاب ہوئے اور آپ کے بعد کافی لمبی عمر پائی ، ان سے ایک طرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچا تو دوسری جانب کفار کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ، ان کا انتقال مشہور قول کے مطابق ۵۰ ھ میں ہوا تھا۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَهُوَ جَدُّ هَذَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً، ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ "، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيَّ أَبُو هُرَيْرَةَ: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ سورة النساء آية 12 ـ 13، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الَّذِي رَوَى عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ جَابِرٍ هُوَ جَدُّ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں ۱؎، جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے"، پھر ابوہریرہ نے «من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار وصية من الله» سے «ذلك الفوز العظيم» ۲؎ تک آیت پڑھی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- نصر بن علی جنہوں نے اشعث بن جابر سے روایت کی ہے وہ نصر بن علی جہضمی کے دادا ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الوصایا ۳ (۲۸۶۷) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ۳ (۲۷۳۴) (تحفة الأشراف : ۱۳۴۹۵) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : نقصان پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر دی یا ورثاء میں سے کسی ایک کو سارا مال ہبہ کر دیا یا وصیت سے پہلے وہ جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے اوپر دوسروں کا قرض ثابت کرے ، ظاہر ہے ان تمام صورتوں میں ورثاء نقصان سے دوچار ہوں گے ، اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہے۔ ۲؎ : اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار ہے ، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے (النساء : ۱۲-۱۳)۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ مَا يُوصِي فِيهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی مسلمان کو یہ اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی حالت میں گزارے کہ وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو اور اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث «عن الزهري عن سالم عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی طرح مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۹۷۴ (تحفة الأشراف : ۷۵۴۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا لازمی اور ضروری تھا ، لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ورثاء کے حصے متعین ہو گئے اس لیے ورثاء سے متعلق وصیت کا سلسلہ بند ہو گیا ، البتہ ان کے علاوہ کے لیے تہائی مال میں وصیت کی جا سکتی ہے ، اور یہ وصیت اس حدیث کی روشنی میں تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَى: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَتِ الْوَصِيَّةُ وَكَيْفَ أَمَرَ النَّاسَ ؟ قَالَ: " أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ.
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں ۱؎ میں نے پوچھا: پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کو کس چیز کا حکم دیا؟ ابن ابی اوفی نے کہا: آپ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا ہونے کی وصیت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف مالک بن مغول کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۱ (۲۷۱۰) ، والمغازي ۸۳ (۴۴۶۰) ، وفضائل القرآن ۱۸ (۵۰۲۲) ، صحیح مسلم/الوصایا ۵ (۱۶۳۴) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ۲ (۳۶۵۰) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ۱ (۲۶۹۶) ، (تحفة الأشراف : ۵۱۷۰) ، و مسند احمد (۴/۳۵۴، ۳۵۵، ۳۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ابن ابی اوفی رضی الله عنہ نے یہ سمجھا کہ یہ سوال کسی خاص وصیت کے تعلق سے ہے اسی لیے نفی میں جواب دیا ، اس سے مطلق وصیت کی نفی مقصود نہیں ہے ، بلکہ اس نفی کا تعلق مالی وصیت یا علی رضی الله عنہ سے متعلق کسی مخصوص وصیت سے ہے ، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی جیسا کہ خود ابن ابی اوفی نے بیان کیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى لِكُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ التَّابِعَةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا تُنْفِقُ امْرَأَةٌ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا "، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: وَلَا الطَّعَامَ، قَالَ: " ذَلِكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا ". ثُمَّ قَالَ: " الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَرِوَايَةُ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، وَأَهْلِ الْحِجَازِ لَيْسَ بِذَلِكَ فِيمَا تَفَرَّدَ بِهِ، لِأَنَّهُ رَوَى عَنْهُمْ مَنَاكِيرَ وَرِوَايَتُهُ، عَنْ أَهْلِ الشَّامِ أَصَحُّ، هَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَال: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ حَدِيثًا مِنْ بَقِيَّةَ، وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنِ الثِّقَاتِ، وَسَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ: خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَ عَنِ الثِّقَاتِ، وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَ عَنِ الثِّقَاتِ، وَلَا عَنْ غَيْرِ الثِّقَاتِ.
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا (ولدالزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہو گا (نہ کہ زانی کی طرف)، اور زانی رجم کا مستحق ہے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسری طرف نسبت کی یا اپنے موالی کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا اس پر قیامت کے دن تک جاری رہنے والی لعنت ہو، کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے"، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: "یہ ہمارے مالوں میں سب سے بہتر ہے"۔ (یعنی اس کی زیادہ حفاظت ہونی چاہیئے) پھر آپ نے فرمایا: " «عارية» (منگنی) لی ہوئی چیز واپس لوٹائی جائے گی،«منحة» ۱؎ واپس کی جائے گی، قرض ادا کیا جائے گا، اور ضامن ذمہ دار ہے" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوامامہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے، ۳- اسماعیل بن عیاش کی وہ روایت جسے وہ اہل عراق اور اہل شام سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، قوی نہیں ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے ان سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں، اہل شام سے ان کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا: ۴- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اسماعیل بن عیاش حدیث روایت کرنے کے اعتبار سے بقیہ سے زیادہ صحیح ہیں، بقیہ نے ثقہ راویوں سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی ہیں، ۵- ابواسحاق فزاری کہتے ہیں: ثقہ راویوں کے سے بقیہ جو حدیثیں بیان کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی حدیثیں مت لو، خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے، ۶- اس باب میں عمرو بن خارجہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الوصایا ۶ (۲۸۷۰) ، والبیوع ۹۰ (۳۵۶۵) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ۶ (۲۷۱۳) (تحفة الأشراف : ۴۸۸۲) ، و مسند احمد (۵/۲۶۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : وہ دودھ والا جانور جو کسی کو صرف دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ۲؎ : یعنی ضامن نے جس چیز کی ذمہ داری لی ہے ، اس کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ عَلَى نَاقَتِهِ، وَأَنَا تَحْتَ جِرَانِهَا، وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا، وَإِنَّ لُعَابَهَا يَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، وَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ رَغْبَةً عَنْهُمْ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا "، قَالَ: وَسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لَا أُبَالِي بِحَدِيثِ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، فَوَثَّقَهُ، وَقَالَ: إِنَّمَا يَتَكَلَّمُ فِيهِ ابْنُ عَوْنٍ، ثُمَّ رَوَى ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر خطبہ دے رہے تھے، اس وقت میں اس کی گردن کے نیچے تھا، وہ جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب میرے کندھوں کے درمیان بہہ رہا تھا، آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کا حق دے دیا ہے، کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا(ولد الزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہو گا، اور زانی رجم کا مستحق ہے، جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرے یا (غلام) اپنے مالکوں کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے انہیں ناپسند کرتے ہوئے اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ ایسے شخص کا نہ نفلی عبادت قبول کرے گا نہ فریضہ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: میں شہر بن حوشب کی حدیث کی پرواہ نہیں کرتا ہوں، ۳-
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل سے شہر بن حوشب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے توثیق کی اور کہا: ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیا ہے، پھر ابن عون نے خود ہلال بن ابوزینب کے واسطہ سے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الوصایا ۵ (۳۶۷۱) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ۶ (۲۷۱۲) (تحفة الأشراف : ۱۰۷۳۱) ، و مسند احمد (۴/۱۸۶) ، ۱۸۷، ۲۳۸، ۲۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ "، وَأَنْتُمْ تُقِرُّونَ الْوَصِيَّةَ قَبْلَ الدَّيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يُبْدَأُ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت (کے نفاذ) سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا، جب کہ تم (قرآن میں) قرض سے پہلے وصیت پڑھتے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عام اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۰۹۴ (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت «من بعد وصية يوصى بها أو دين» (النساء : ۱۲)کی طرف ہے۔
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ الطَّائِيِّ، قَالَ: أَوْصَى إِلَيَّ أَخِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَخِي أَوْصَى إِلَيَّ بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ فَأَيْنَ تَرَى لِي وَضْعَهُ فِي الْفُقَرَاءِ أَوِ الْمَسَاكِينِ أَوِ الْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ: أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ لَمْ أَعْدِلْ بِالْمُجَاهِدِينَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَثَلُ الَّذِي يَعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ، كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي إِذَا شَبِعَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی، میں نے ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ملاقات کی اور کہا: میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟ میں اسے کہاں خرچ کروں، فقراء میں، مسکینوں میں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں؟ انہوں نے کہا: میری بات یہ ہے کہ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو مجاہدین کے برابر کسی کو نہ سمجھتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "جو شخص مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو آسودہ ہونے کے بعد ہدیہ کرتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العتق ۱۵ (۳۹۶۸) ، سنن النسائی/الوصایا ۱ (۳۶۱۶) (تحفة الأشراف : ۱۰۹۷۰) ، و مسند احمد (۵/۱۹۷) ، (۶/۴۴۷) (ضعیف) (سند میں ابو حبیبہ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ تَسْتَعِينُ عَائِشَةَ فِي كِتَابَتِهَا، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ، وَيَكُونَ لِي وَلَاؤُكِ فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ، وَيَكُونَ لَنَا وَلَاؤُكِ فَلْتَفْعَلْ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ "، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ اپنے زر کتابت کے بارے میں ان سے تعاون مانگنے آئیں اور زر کتابت میں سے کچھ نہیں ادا کیا تھا۔ ام المؤمنین عائشہ نے ان سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری زر کتابت ادا کر دوں اور تمہاری ولاء (میراث) کا حق مجھے حاصل ہو، تو میں ادا کر دوں گی۔ بریرہ نے اپنے گھر والوں سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا: اگر وہ چاہتی ہوں کہ تمہیں آزاد کر کے ثواب حاصل کریں اور تمہارا حق ولاء (میراث) ہمارے لیے ہو تو وہ تمہیں آزاد کر دیں، ام المؤمنین عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:"اسے خریدو اور آزاد کر دو اس لیے کہ حق ولاء (میراث) اسی کو حاصل ہے جو آزاد کرے" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں موجود نہیں؟ جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہیں تو وہ اس کا مستحق نہیں ہو گا، اگرچہ وہ سو بار شرط لگائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- عائشہ رضی الله عنہا سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔ ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آزاد کرنے والے ہی کو حق ولاء (میراث) حاصل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۷۰ (۴۵۶) ، والزکاة ۶۱ (۱۴۹۳) ، والبیوع ۶۷ (۹۲۱۵۵، ۷۳ (۲۱۶۸) ، والعتق ۱۰ (۲۵۳۶) ، والمکاتب ۱ (۲۵۶۰) ، و ۲ (۲۵۶۱) ، و ۳ (۲۵۶۳) ، و۴ (۲۵۶۴) ، و ۵ (۲۵۶۵) ، والھبة ۷ (۲۵۷۸) ، والشروط ۷ (۲۷۱۷) ، و۱۰ (۲۷۲۶) ، و۱۳ (۲۷۲۹) ، و ۱۷ (۲۷۳۵) ، والطلاق ۱۷ (۵۲۸۴) ، والأطعمة: ۳۱ (۵۴۳۰) ، والکفارات ۸ (۶۷۱۷) ، والفرائض ۲۰ (۶۷۵۴) ، و ۲۲ (۶۷۵۸) ، صحیح مسلم/العتق ۲ (۱۵۰۴) ، سنن ابی داود/ الفرائض ۱۲ (۲۹۱۵، ۲۹۱۶) ، والعتق ۲ (۳۹۲۹) ، سنن النسائی/الزکاة ۹۹ (۲۶۱۵) ، والطلاق ۲۹ (۳۴۷۸) ، و۳۰ (۳۴۷۹، ۳۴۸۰) ، و۳۱ (۳۴۸۱، ۳۴۸۴) ، والبیوع ۷۸ (۴۶۴۶-۴۶۴۸) (تحفة الأشراف : ۱۶۵۸۰) ، و مسند احمد (۶/۴۲، ۴۶، ۱۷۰، ۱۷۲، ۱۷۵) (صحیح)