صحیح مسلم

وصیت کے احکام و مسائل

وصیت کے لکھے ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 4204

حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، واللفظ لابن المثنى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُرِيدُ أَنْ يُوصِيَ فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "،

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو لائق نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جس کے لئے وہ وصیت کرنا چاہے اور دو راتیں گزارے بغیر وصیت لکھی ہوئی کے۔“

وصیت کے لکھے ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 4205

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُمَا، قَالَا: وَلَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، وَلَمْ يَقُولَا يُرِيدُ أَنْ يُوصِيَ فِيهِ،

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں عبید اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس کوئی قابل وصیت چیز ہو اور یہ نہیں کہا کہ وہ اس میں وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

وصیت کے لکھے ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 4206

وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ كِلَاهُمَا، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَقَالُوا جَمِيعًا: لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ إِلَّا فِي حَدِيثِ أَيُّوبَ، فَإِنَّهُ قَالَ: يُرِيدُ أَنْ يُوصِيَ فِيهِ كَرِوَايَةِ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ.

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

وصیت کے لکھے ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 4207

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ ثَلَاثَ لَيَالٍ، إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ مَكْتُوبَةٌ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: مَا مَرَّتْ عَلَيَّ لَيْلَةٌ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ذَلِكَ إِلَّا وَعِنْدِي وَصِيَّتِي،

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو لائق نہیں ہے جس کے پاس کوئی شئے ہو وصیت کرنے کے قابل وہ تین راتیں گزارے۔ مگر اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہونی چاہیے۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے جب سے یہ حدیث سنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس روز سے ایک رات بھی میرے اوپر ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت نہ ہو۔

وصیت کے لکھے ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 4208

وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِيأَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كُلُّهُمْ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ.

اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4209

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، مِنْ وَجَعٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَنِي مَا تَرَى مِنَ الْوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي، قَالَ: لَا، قَالَ: قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ، قَالَ: لَا الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ، فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يُنْفَعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ " لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، قَالَ: رَثَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ،

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی حجتہ الوداع میں اور میں ایسے درد میں مبتلا تھا کہ موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے جیسا درد ہے آپ جانتے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرا وارث سوا ایک بیٹی کے اور کوئی نہیں ہے , کیا میں دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھا مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ایک تہائی خیرات کر اور ایک تہائی بھی بہت ہے اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ تو ان کو محتاج چھوڑ جائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھریں اور تو جو خرچ کرے گا اللہ کی رضامندی کے لیے اس کا ثواب تجھے ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے کا بھی جو تو اپنی جورو کے منہ میں ڈالے۔“ میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا میں پیچھے رہ جاؤں گا اپنے اصحاب کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو پیچھے رہے گا (یعنی زندہ رہے گا) پھر ایسا عمل کرے گا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشی منظور ہو تو تیرا درجہ بڑھے گا اور بلند ہو گا اور شاید تو زندہ رہے یہاں تک کہ فائدہ ہو تجھ سے بعض لوگوں کو اور نقصان ہو بعض لوگوں کو یااللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کر دے اور مت پھیر ان کو ان کی ایڑیوں پر لیکن تباہ بیچارہ سعد بن خولہ (رضی اللہ عنہ) ہے۔“ اس کے لئے رنج کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے کہ وہ فوت ہوا مکہ میں۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4210

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنَاإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كُلُّهُمْ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ،

مذکورہ بالا حدیث بھی اسی سند سے مروی ہے۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4211

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ يَعُودُنِي، فَذَكَرَ بِمَعْنَى حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ غَيْرَ، أَنَّهُ قَالَ: وَكَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا.

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے۔ یہ ہے کہ انہوں نے برا جانا مرنا اس زمین میں جہاں سے ہجرت کی ہے۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4212

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرِضْتُ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: " دَعْنِي أَقْسِمْ مَالِي حَيْثُ شِئْتُ، فَأَبَى، قُلْتُ: فَالنِّصْفُ، فَأَبَى، قُلْتُ: فَالثُّلُثُ، قَالَ: فَسَكَتَ بَعْدَ الثُّلُثِ، قَالَ: فَكَانَ بَعْدُ الثُّلُثُ جَائِزًا "،

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا مجھے اجازت دیجئیے اپنا مال بانٹنے کی جس کو چاہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا۔ میں نے کہا: آدھا مال بانٹنے کی اجازت دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا۔ میں نے کہا: تہائی مال کی اجازت دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے پھر اس کے بعد تہائی مال بانٹنا جائز ہوا۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4213

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ، فَكَانَ بَعْدُ الثُّلُثُ جَائِزًا.

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ نہیں ہے کہ پھر اس کے بعد تہائی بانٹنا جائز ہوا۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4214

وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " عَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالنِّصْفُ، قَالَ: لَا، فَقُلْتُ: أَبِالثُّلُثِ، فَقَالَ: نَعَمْ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ ".

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میری عیادت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ میں نے عرض کیا: کیا میں وصیت کروں اپنے سارے مال کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ پھر میں نے عرض کیا: کیا وصیت کروں آدھے مال کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: کیا تہائی کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور تہائی بھی بہت ہے۔“

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4215

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، عَنْ ثَلَاثَةٍ مِنْ وَلَدِ سَعْدٍ كُلُّهُمْ يُحَدِّثُهُ، عَنْ أَبِيهِ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى سَعْدٍ يَعُودُهُ بِمَكَّةَ، فَبَكَى، قَالَ: مَا يُبْكِيكَ، فَقَالَ: قَدْ خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَإِنَّمَا يَرِثُنِي ابْنَتِي أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَبِالثُّلُثَيْنِ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَالنِّصْفُ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَالثُّلُثُ، قَالَ: الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّ صَدَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ مَا تَأْكُلُ امْرَأَتُكَ مِنْ مَالِكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّكَ أَنْ تَدَعَ أَهْلَكَ بِخَيْرٍ، أَوَ قَالَ: بِعَيْشٍ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَقَالَ: بِيَدِهِ "،

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹوں نے کہا اپنے باپ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں مکہ شریف میں بیمار پرسی کے لئے وہ رونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو کیوں روتا ہے؟“ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ڈر ہے کہیں مر جاؤں اس زمین میں جس سے ہجرت کی تھی میں نے جیسے سعد بن خولہ مر گیا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! اچھا کر دے سعد کو۔“ تین بار پھر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت مال ہے اور میری ایک بیٹی ہے کیا میں سارے مال کی وصیت کر دوں؟ (فقرا اور مساکین کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: اچھا دو تہائی مال کی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: اچھا نصف کی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: تہائی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تہائی اور تہائی بہت ہے اور تو جو صدقہ دے اپنے مال میں سے وہ تو صدقہ ہے اور جو خرچ کرتا ہے اپنے بال بچوں پر وہ بھی صدقہ ہے اور جو تیری بی بی کھاتی ہے تیرے مال میں سے وہ بھی صدقہ ہے اور جو تو اپنے لوگوں کو بھلائی سے اور عیش سے چھوڑ جائے (یعنی مالدار اور غنی) تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو چھوڑ جائے ان کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے۔“ اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4216

وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، عَنْ ثَلَاثَةٍ مِنْ وَلَدِ سَعْدٍ ، قَالُوا: مَرِضَ سَعْدٌ بِمَكَّةَ، فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ بِنَحْوِ حَدِيثِ الثَّقَفِيِّ،

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹوں سے روایت ہے، کہ انہوں نے فرمایا: کہ سعد رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ باقی وہی ترجمہ ہے جو اوپر گزرا۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4217

وحَدَّثَنِيمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي ثَلَاثَةٌ مِنْ وَلَدِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ كُلُّهُمْ يُحَدِّثُنِيهِ بِمِثْلِ حَدِيثِ صَاحِبِهِ، فَقَالَ: مَرِضَ سَعْدٌ بِمَكَّةَ، النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ الْحِمْيَرِيِّ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث منقول ہے۔

ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 4218

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَوْ أَنَّ النَّاسَ غَضُّوا مِنَ الثُّلُثِ إِلَى الرُّبُعِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ " وَفِي حَدِيثِ وَكِيعٍ كَبِيرٌ أَوْ كَثِيرٌ.

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کاش لوگ ثلث سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثلث بہت ہے۔“

صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے

حد یث نمبر - 4219

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ " أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا وَلَمْ يُوصِ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟، قَالَ: نَعَمْ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرا باپ مر گیا اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی کیا اس کے گناہ بخشے جائیں گے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“

صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے

حد یث نمبر - 4220

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَإِنِّي أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَلِي أَجْرٌ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ ".

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میری ماں ناگہانی مر گئی اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ بات کر سکتی تو ضرور صدقہ دیتی تو مجھے ثواب ملے گا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔

صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے

حد یث نمبر - 4221

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَلَمْ تُوصِ وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ "،

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میری ماں یکایک مر گئی اور وصیت نہیں کی اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ بات کرتی تو ضرور صدقہ دیتی کیا اس کو ثواب ملے گا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ملے گا۔“

صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے

حد یث نمبر - 4222

وَحَدَّثَنَاهُ أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وَحَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ . ح وحَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ هُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ ح، وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ أَمَّا أَبُو أُسَامَةَ، وَرَوْحٌ، فَفِي حَدِيثِهِمَا: فَهَلْ لِي أَجْرٌ، كَمَا قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَأَمَّا شُعَيْبٌ، وَجَعْفَرٌ، فَفِي حَدِيثِهِمَا: أَفَلَهَا أَجْرٌ كَرِوَايَةِ ابْنِ بِشْرٍ.

مذکورہ بالا حدیث کئی اسناد سے مروی ہے چند الفاظ کے فرق کے ساتھ۔

مرنے کے بعد انسان کو جس چیز کا ثواب پہنچتا ہے

حد یث نمبر - 4223

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ  وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ، إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مر جاتا ہے آدمی تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے۔“

وقف کا بیان

حد یث نمبر - 4224

حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْمِرُهُ فِيهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ هُوَ أَنْفَسُ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ؟، قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُبْتَاعُ، وَلَا يُورَثُ، وَلَا يُوهَبُ، قَالَ: فَتَصَدَّقَ عُمَرُ فِي الْفُقَرَاءِ، وَفِي الْقُرْبَى، وَفِي الرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّيْفِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا، أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ، قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ مُحَمَّدًا، فَلَمَّا بَلَغْتُ هَذَا الْمَكَانَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَأَنْبَأَنِي مَنْ قَرَأَ هَذَا الْكِتَابَ أَنَّ فِيهِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا "،

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک زمین ملی خیبر میں تو وہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کرنے اس باب میں۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں ایک زمین ملی ہے۔ ایسا عمدہ مال مجھ کو کبھی نہیں ملا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم کرتے ہیں اس کے باب میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”اگر تو چاہے تو زمین کی ملکیت کو روک رکھے (یعنی اصل زمین کو) اور صدقہ دے اس کو۔“ ”(یعنی اس کی منفعت کو) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو صدقہ کر دیا اس شرط پر کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ خریدی جائے، نہ وہ کسی کی میراث میں آئے، نہ ہبہ کی جائے اور صدقہ کر دیا اس کو فقیروں اور رشتہ داروں میں اور غلاموں میں (یعنی ان کی آزادی میں مدد دینے کے لئے)اور مسافروں میں اور ناتواں لوگوں میں (یا مہمان کی مہمانی میں) اور جو کوئی اس کا انتظام کرے وہ اس میں سے کھائے دستور کے موافق یا کسی دوست کو کھلائے لیکن مال اکٹھا نہ کرے (یعنی روپیہ جوڑنے کی نیت سے اس میں تصرف نہ کرے)۔

وقف کا بیان

حد یث نمبر - 4225

وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ السَّمَّانُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ غَيْرَ أَنَّ حَدِيثَ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَأَزْهَرَ انْتَهَى عِنْدَ قَوْلِهِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ، وَلَمْ يُذْكَرْ مَا بَعْدَهُ، وَحَدِيثُ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ فِيهِ مَا ذَكَرَ سُلَيْمٌ قَوْلُهُ، فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ مُحَمَّدًا إِلَى آخِرِهِ.

ان اسناد سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

وقف کا بیان

حد یث نمبر - 4226

وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: أَصَبْتُ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا أَحَبَّ إِلَيَّ وَلَا أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهَا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ، وَلَمْ يَذْكُرْ فَحَدَّثْتُ مُحَمَّدًا وَمَا بَعْدَهُ.

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خیبر کی جگہ سے زمین ملی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے محبوب ترین اور عمدہ ترین مال ملا ہے۔ باقی حدیث وہی ہے۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4227

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ: " سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: لَا، قُلْتُ: فَلِمَ كُتِبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةُ أَوْ فَلِمَ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟، قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "،

طلحہ بن مصرف سے روایت ہے، میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی؟ (مال وغیرہ کے لیے)انہوں نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: پھر مسلمانوں پر کیوں فرض ہوئی یا ان کو کیوں وصیت کا حکم ہوا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے کی۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4228

وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ، قُلْتُ: فَكَيْفَ أُمِرَ النَّاسُ بِالْوَصِيَّةِ؟، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، قُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةُ؟.

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4229

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ . ح، وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا شَاةً وَلَا بَعِيرًا وَلَا أَوْصَى بِشَيْءٍ "،

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نہیں چھوڑا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے دینار اور نہ درہم اور نہ بکری اور نہ اونٹ اور نہ وصیت کی (کسی مال کے لیے)۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4230

وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كُلُّهُمْ، عَنْ جَرِيرٍ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ جَمِيعًا، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4231

وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: " ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ وَصِيًّا، فَقَالَتْ: مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ فَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي، أَوْ قَالَتْ حَجْرِي؟، فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ؟ ".

اسود بن یزید سے روایت ہے، لوگوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ذکر کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کب وصی بنایا؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تھے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طشت منگایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے میری گود میں اور مجھے خبر نہیں ہوئی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کیا پھر علی رضی اللہ عنہ کو کیونکر وصیت کی۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4232

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَاللَّفْظُ لِسَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟، قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي، فَتَنَازَعُوا وَمَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، وَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ؟، قَالَ: دَعُونِي، فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ أُوصِيكُمْ بِثَلَاثٍ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، قَالَ: وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَهَا فَأُنْسِيتُهَا "، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.

سعید بن جبیر سے روایت ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جمعرات کا دن، کیا ہے جمعرات کا دن؟ پھر روئے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہو گئیں۔ میں نے کہا: اے ابن عباس! جمعرات کے دن سے کیا غرض ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہوئی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”میرے پاس لاؤ (دوات اور تختی) میں ایک کتاب لکھ دوں تم کو تاکہ تم گمراہ نہ ہو میرے بعد۔“ ”یہ سن کر لوگ جھگڑنے لگے اور پیغمبر کے پاس جھگڑا نہیں چاہیے اور کہنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لغو صادر ہو سکتا ہے، پھر سمجھ لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”ہٹ جاؤ میرے پاس سے میں جس کام میں مصروف ہوں وہ بہتر ہے (اس سے جس میں تم مشغول ہو جھگڑے اور تکرار میں) میں تم کو تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں ایک تو یہ کہ مشرکوں کو نکال دینا جزیرہ عرب سے۔ دوسرے جو سفارتیں آئیں ان کی خاطر اسی طرح کرنا جیسے میں کیا کرتا تھا (تاکہ اور قومیں خوش ہوں اور ان کو اسلام کی طرف رغبت ہو) اور تیسری بات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نہیں کہی یا سعید نے کہا: میں بھول گیا۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4233

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ جَعَلَ تَسِيلُ دُمُوعُهُ حَتَّى رَأَيْتُ عَلَى خَدَّيْهِ كَأَنَّهَا نِظَامُ اللُّؤْلُؤِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ، أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهْجُرُ ".

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: پنجشنبہ کا دن اور کیا ہے پنجشنبہ کا دن پھر ان کے آنسو بہنے لگے۔ دونوں گالوں پر جیسے موتی کی لڑی۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”میرے پاس ہڈی اور دوات لاؤ یا تختی اور دوات لاؤ میں ایک کتاب لکھوا دوں کہ تم گمراہ نہ ہو۔“ لوگ کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی شدت میں بے اختیار کچھ کہہ رہے ہیں۔

جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 4234

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّونَ بَعْدَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ، فَاخْتَصَمُوا، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا "، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو اس وقت حجرے کے اندر کئی آدمی تھے ان میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آؤ تم کو میں ایک کتاب لکھ دیتا ہوں تم گمراہ نہ ہو گے اس کے بعد۔“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے بس کافی ہے ہم کو اللہ کی کتاب۔ اور گھر میں جو لوگ تھے انہوں نے اختلاف کیا کسی نے کہا: دوات وغیرہ لاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب لکھوا دیں گے اس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے اور بعض نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق کہا، جب ان کی تکرار زیادہ ہوئی اور اختلاف بہت ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے سامنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اٹھو جاؤ۔“ عبیداللہ نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے: بڑی مصیبت ہوئی، بڑی مصیبت ہوئی یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے اختلاف اور غل کی وجہ سے کتاب نہ لکھوا سکے۔