مشکوٰة شر یف

وعدہ کا بیان

وعدہ کا بیان

وعد کے معنی ہیں قول و قرار کرنا، وعدہ کرنا یعنی کسی سے مثلاً یہ کہنا کہ تمہارا فلاں کام کر دوں گا یا تمہارے پاس آؤں گا اور یا تمہارے ساتھ کھانا کھاؤں گا وغیرہ وغیرہ، واضح رہے کہ لفظ وعد خیر اور شر دونوں سے متعلق جملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس جملہ میں خیر اور شر کا لفظ مذکور ہو جیسے کہا جاتا ہے کہ وعدتہ خیرا یا وعد شرا، اور اگر خیر یا شر کا لفظ مذکور نہ ہو تو خیر میں وعد کا لفظ استعمال کیا جائے اور شر میں وعید کا اور ایعاد کا لفظ۔ ایفائے عہد اور وعدے کو پورا کرنا انسانیت کا مظہر اور اسلامی اخلاق و آداب کا ایک بنیادی تقاضا ہے کہ اس کے برخلاف بدعہدی اور وعدہ خلافی ایک بہت بڑا عیب ہے جو شخص اپنا عہد پورا نہ کرے اور اپنا وعدہ وفا نہ کرے وہ اسلام اور معاشرہ دونوں کی نظر میں سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس باب میں اسی موضوع سے متعلق احادیث نقل ہوں گی۔

جو شخص اپنا وعدہ پورا کرنے سے پہلے مر جائے تو اس کا جانشین اس کا وعدہ پورا کرے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس علاء بن حضرمی کے ہاں سے مال آیا جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بحرین کا عامل مقرر کیا تھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس شخص کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر قرض ہو یا جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ دینے کا وعدہ کیا تو اس کو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا رسول اللہ نے اتنا اتنا دینے کا مجھ سے وعدہ فرمایا تھا (یہ کہہ کر) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ کھولے یعنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ کھول کھول کر دکھایا اور واضح کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ مال آنے پر میں تمہیں دونوں ہاتھ بھر بھر کر دوں گا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک بار اپنے دونوں ہاتھ بھر کر مجھ کو زر نقد عطا فرمایا میں نے اس کو شمار کیا تھا تو وہ تعداد میں پانچ سو تھے پھر انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح دو مرتبہ اور لے لو (یعنی ایک ہزار گن کر اور لے لو تاکہ کم و بیش نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وعدہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایفاء

حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ کا رنگ سرخی مائل سفید تھا اور آپ پر بڑھاپا ظاہر ہو چکا تھا اگرچہ آپ کے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید نہیں تھے اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ جسم کے اوپر کے حصہ کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت مشابہ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہماری جماعت کو تیرہ اونٹنیاں دیئے جانے کا حکم فرمایا تھا چنانچہ ہم ان اونٹنیوں کو لینے گئے تو اسی دوران ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کی خبر ملی اور ہمیں کچھ بھی نہیں دیا گیا پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول قرار پائے اور خطبہ دینے کے لیے آ کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ جس شخص سے رسول اللہ نے کچھ دینے کا وعدہ فرمایا ہو اس کو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد سن کر سامنے جا کھڑا ہوا اور ان کو اس بارے میں بتایا کہ رسول اللہ نے ہمیں تیرہ اونٹنیاں دینے کا وعدہ فرمایا تھا چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیں تیرہ اونٹنیاں دینے کا حکم فرمایا۔ (ترمذی)

ایفاء عہد کی عملی تعلیم

اور حضرت عبداللہ بن ابوحسماء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے سے پہلے ایک مرتبہ میں نے آپ سے کسی چیز کو خریدا اور اس کے کچھ حصہ کی ادائیگی مجھ پر باقی رہ گئی اور میں نے وعدہ کیا کہ میں بقیہ قیمت لے کر اسی جگہ جہاں آپ تشریف فرماتے یا جہاں میں نے وہ چیز خریدی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا لیکن میں اس وعدہ کو بھول گیا اور پھر تیسرے دن یہ بات یاد آئی کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ کیا تھا جبھی میں وہ بقیہ قیمت لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تم نے مجھ کو بڑی زحمت میں مبتلا کر دیا میں تین دن سے اسی جگہ بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اتنے طویل انتظار کی اس مشقت و زحمت کو برداشت کرنا اپنی چیز کی بقیہ قیمت وصول کرنے لیے نہیں تھا بلکہ اس احساس کے تحت تھا کہ جب عبداللہ نے بقیہ قیمت لے کر یہاں آنے کا وعدہ کیا تھا اور ان کے وعدے کے جواب میں گویا میری طرف سے بھی یہ وعدہ تھا کہ میں یہاں ہوں گا تو جب تک وہ یہاں نہ آ جائیں ایفاء عہد کی خاطر مجھے یہاں بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے اس اعتبار سے آپ نے اپنے اس عمل کے ذریعہ امت کو یہ تعلیم دی کہ وعدہ کو بہر صورت پورا کرنا چاہیے خواہ اس کے لیے کتنی ہی زحمت کیوں نہ برداشت کرنی پڑی واضح رہے کہ دین اسلام سے پہلے بھی تمام ادیان میں وعدے کو پورا کرنے کا حکم تھا اور سارے رسول ایفاء عہد کی محافظت کرتے رہے ہیں چنانچہ اللہ نے حضرت ابراہیم کی مدح و تعریف میں یوں فرمایا، آیت (و ابراہیم الذی وفی)۔

ایفاء عہد کی نیت ہو اور وعدہ پورا نہ ہو سکے تو گناہ نہیں ہو گا

اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے کسی بھائی سے کوئی وعدہ کرے اور اس کے تئیں اس وعدہ کو پورا کرنے کا قصد رکھتا ہو مگر کسی عذر کے سبب اس وعدہ کو پورا نہ کر سکے اور وقت موعود پر نہ آئے تو گناہگار نہ ہو گا۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص وعدہ کو پورا کرنے کی نیت رکھنے کے باوجود اس وعدہ کو پورا نہ کرے تو وہ گناہگار نہیں ہوتا اس سے یہ بات بھی سمجھی جاتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی وعدہ کیا اور نیت یہ رکھی کہ اس وعدہ کو پورا نہیں کروں گا تو وہ گناہگار ہو گا خواہ اس وعدے کو پورا کرے نہ کرے کیونکہ زبان سے وعدہ کرنا اور دل میں اس کے خلاف کرنے ارادہ کرنا منافقت کی خصلت ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بغیر کسی اور بلا کسی امر مانع کے وعدہ خلافی کرنا حرام ہے اور مذکورہ بالا ارشاد گرامی کی مراد بھی یہی ہے مجمع البحار میں لکھا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ممنوع کام کا وعدہ کرے تو اس وعدہ کو پورا نہیں کرنا چاہیے۔

ایفائے عہد واجب ہے یا مستحب؟: ائمہ فقہ کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ وعدہ پورا کرنا واجب ہے یا مستحب۔چنانچہ جمہور علماء بشمول حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا قول یہ ہے کہ وعدہ پورا کرنا مستحب ہے اور پورا نہ کرنا سخت مکروہ ہے البتہ گناہ نہیں اس کے برخلاف ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ وعدہ کو پورا کرنا واجب ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز بھی اسی جماعت میں شامل ہیں۔ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب کوئی وعدہ کرتے تو انشاء اللہ کہہ لیتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بھی منقول ہے کہ آپ لفظ عسی فرماتے تھے۔

بچے سے بھی وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو

اور حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ لو آؤ میں تمہیں (ایک چیز) دوں گی اس وقت رسول اللہ ہمارے گھر تشریف فرما تھے جب میری والدہ نے مجھ سے کہا تو رسول اللہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اس کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا انہوں نے فرمایا کہ میں اس کو ایک کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ یاد رکھو اگر اس کو تم کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔ (ابوداؤد، بیہقی)

 

 تشریح

 

یہ واقعہ حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے بچپن کا ہے چنانچہ ان کی والدہ نے ان کو بلایا کہ اور کوئی چیز دینے کا وعدہ کیا تو رسول اللہ یہ سمجھے کہ اپنے بچے کو محض ہلانے کے اور ادھر ادھر کی باتیں کی جاتیں ہیں اس کو اس کی مطلوبہ چیز کچھ اور دینے کا جھوٹ موٹ وعدہ کیا جاتا ہے یا اس کو ڈرانے دھمکانے کے لیے خوفناک چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور موقع پر ان باتوں کا حقیقی مفہوم مراد نہیں ہوتا لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ کی والدہ کو اس بارے میں آگاہ کیا کرنے لیے مذکورہ سوال کیا۔

کسی شرع اور حقیقی عذر کی بناء پر وعدہ خلافی کرنا مناسب نہیں

اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی آدمی سے کہیں ملنے کا وعدہ کرے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک نماز کے وقت تک وہاں نہ پہنچے اور وہ شخص نماز پڑھنے کے لیے چلا جائے جو وہاں آ گیا تھا تو وہ گناہگار نہیں ہو گا۔

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کی صورت وضاحت یہ ہے کہ مثلاً دو آدمیوں نے اپنے آپس میں ایک دوسرے سے یہ وعدہ کیا کہ ہم دونوں فلاں جگہ پہنچ کر ایک دوسرے سے ملیں گے اس وعدہ کے مطابق ان دونوں میں سے کوئی ایک مقررہ جگہ پر پہنچ کر دوسرے آدمی کی انتظار میں بیٹھا ہوا تھا اب مزید انتظار نہ کرے اور نماز کے لیے چلا جائے تو وعدہ خلاف نہیں کہلائے گا اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا کیونکہ نماز کے لیے جانا ضرورت دین میں سے ہے ہاں اگر وہ نماز کا وقت آنے سے پہلے ہی وہاں سے اٹھ جائے تو بے شک اس کو وعدہ خلاف کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کی برائی اس کے ذمہ ہو گی اسی طرح اگر کوئی ضروری امر مانع پیش آئے جیسے کھانے پینے کا وقت ہو گیا یا پیشاب و پاخانہ کی حاجت لاحق ہو گئی تو اس صورت میں بھی مزید انتظار کیے بغیر پہلے جانا جائز ہو گا۔