عرفہ ایک مخصوص جگہ کا نام ہے اور یہ زمان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بایں طور کہ نویں ذی الحجہ کو عرفہ کا دن کہتے ہیں۔ لیکن عرفات جمع کے لفظ کے ساتھ صرف اس مخصوص جگہ ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جمع اطراف و جوانب کے اعتبار سے ہے۔
عرفات مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے پندرہ میل (پچیس کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے یہ ایک وسیع وادی یا میدان ہے جو اپنے تین طرف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے ، درمیان میں اس کے شمالی جانب جبل الرحمۃ ہے۔
عرفات کی وجہ تسمیہ کے متعلق بہت اقوال ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت حوا جب جنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے۔ اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا ہے اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو افعال حج کی تعلیم دے رہے تھے تو وہ اس دوران ان سے پوچھتے کہ عرفت (یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے) تم نے اسے جان لیا؟ حضرت ابراہیم جواب میں کہتے عرفت (ہاں میں جان لیا) اور آخرکار دونوں کے سوال و جواب میں اس کلمہ کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا۔ ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔
وقوف عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدان عرفات میں پہنچنا اس کی ادائیگی حج کے سلسلہ میں ایک سب سے بڑا رکن ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، چنانچہ حج کے دو رکنوں یعنی طواف الافاضہ اور وقوف عرفات میں وقوف عرفات چونکہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے اس لئے اگر یہ ترک ہو گیا تو حج ہی نہیں ہو گا۔
حضرت محمد بن ابوبکر ثقفی (تابعی) کے بارہ میں منقول ہے انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا جب کہ وہ دونوں صبح کے وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے ، کہ آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اس عرفہ کے دن کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم میں سے لبیک کہنے والا لبیک کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
علامہ طیبی کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن حاجیوں کو تکبیر کہنی جائز تو ہے جیسا کہ اور اذکار جائز ہیں لیکن سنت نہیں ہے بلکہ اس دن ان کے لئے سنت تلبیہ میں مصروف رہنا ہے جب تک کہ وہ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ نہ ہو جائیں۔
یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کے آخر یعنی ذی الحجہ کی تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز پڑھنے والے کے لئے خواہ حج میں ہو یا حج کے علاوہ ہو، تکبیر کہنی واجب ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تو اس جگہ قربانی کی ہے ویسے منیٰ میں ہر جگہ قربان گاہ ہے لہٰذا تم اپنے ڈیروں میں قربانی کرو اور میں نے تو اس جگہ وقوف کیا ہے ویسے عرفات میں ہر جگہ موقف ہے اور میں نے تو اس جگہ وقوف کیا ہے ویسے مزدلفہ کی ہر جگہ موقف ہے۔ (مسلم)
تشریح
اس جگہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ کی اس خاص جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کی، چنانچہ یہ جگہ منحر النبی (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قربانی کرنے کی جگہ) کہی جاتی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے تو یہاں قربانی کی ہے ویسے منیٰ میں کسی بھی جگہ قربانی کی جا سکتی ہے کیونکہ وہاں ہر جگہ قربانی کرنا سنت ہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات میں اپنے وقوف کی جگہ اشارہ کر کے فرمایا کہ میں تو عرفات میں اس جگہ سوائے وادی عرفہ کے وقوف کیا جا سکتا ہے۔
مزدلفہ کو جمع بھی کہتے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہاں کے بارہ میں اپنے وقوف کے جگہ کی طرف کہ جو مشعر حرام کے قریب ہے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے تو یہاں وقوف کیا ہے ویسے مزدلفہ میں کسی بھی جگہ علاوہ وادی محسر کے وقوف کیا جا سکتا ہے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ منیٰ میں کسی بھی جگہ قربانی کی جا سکتی ہے ، عرفات اور مزدلفہ میں کسی بھی جگہ علاوہ وادی عرفہ اور وادی محسر کے وقوف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس جگہ قربانی کی ہے ، جس جگہ وقوف کیا ہے ، اسی جگہ قربانی کرنا یا وقوف کرنا بہرحال افضل ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندہ کو عرفہ کے دن سے زیادہ آگ سے آزاد کرتا ہو (یعنی اس عرفہ کے دن عرفات میں اللہ تعالیٰ سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات اور رستگاری کا پروانہ عطا فرماتا ہے) اور بلاشبہ (اس دن) اللہ تعالیٰ (اپنی رحمت و مغفرت کے ساتھ) بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے حج کرنے والوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ (یہ جو کچھ بھی چاہتے ہیں) میں انہیں وہ دوں گا۔ (مسلم)
حضرت عمرو بن عبداللہ بن صفوان (تابعی) اپنے ماموں سے کہ جن کا نام یزید بن شیبان تھا، نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ہم میدان عرفات میں اس جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے جو ہمارے لئے متعین تھی۔ اور عمرو اس جگہ کو امام کے موقف (ٹھہرنے کی جگہ) سے بہت دور بیان کرتے تھے ، چنانچہ ابن مربع الانصاری ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایلچی بن کر تمہارے پاس آیا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تمہارے لئے یہ پیغام ہے کہ تم لوگ اپنے مشار (یعنی اپنی عبادت کی جگہ) ٹھہرے رہو کیونکہ تم اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث (کی پیروی) پر قائم ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ)
تشریح
عرب میں زمانہ اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ میدان عرفات میں ہر قبیلہ اور ہر قوم کے لئے الگ الگ ایک جگہ موقف کے لئے متعین ہوتی تھی، ہر شخص اسی جگہ وقوف کرتا جو اس کی قوم کے لئے متعین ہوتی، چنانچہ حضرت یزید بن شیبان کے قبیلہ کا موقف جس جگہ تھا وہ جگہ اس مقام سے بہت دور تھی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وقوف فرمایا تھا، لہٰذا حدیث امام کے موقف سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا موقف ہے۔
بہرکیف میدان عرفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس دوری اور بعد کی بنا پر یزید بن شیبان نے چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ عرض کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں بھی اپنے قریب ہی وقوف کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ اس بات کی درخواست کرنے والے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صحابی کے ذریعے کہ جن کا نام ابن مربع تھا یہ پیغام بھیجا کہ تم لوگ اپنے قدیمی موقف پر ہی وقوف کرو چنانچہ حدیث مشاعر سے مراد ان کا قدیمی موقف ہے اور تم لوگ اپنے اس موقف سے جو تمہارے دادا سے تمہارے لئے متعین چلا آ رہا ہے منتقل ہونے کی خواہش نہ کرو، کیونکہ اول تو پورا میدان عرفات موقف ہے۔ دوسرے یہ کہ میدان عرفات میں امام کے موقف کی دوری یا نزدیکی سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر یہ کہ اگر ہر شخص یہی خواہش کرنے لگے کہ میں اپنے امام اور اپنے امیر کے قریب ہی وقوف کروں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات ان کی تسلی کے لئے کہلائی تاکہ آپس میں نزاع و اختلاف کی صورت پیدا نہ ہو جائے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پورا میدان عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے ، سارا منیٰ قربان گاہ ہے ، سارا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور مکہ کا ہر راستہ (اور اس کی ہر گلی) راستہ اور قربانی کی جگہ ہے۔ (ابوداؤد، دارمی)
تشریح
حدیث کے آخری کلمات کا مطلب یہ ہے کہ جس راستہ سے بھی مکہ میں جائیں درست ہے اور مکہ میں جس جگہ چاہیں قربانی کا جانور ذبح کریں جائز ہے کیونکہ قربانی کا جانور حرم میں ذبح کرنا چاہئے اور مکہ حرم میں واقع ہے ، یہ اور بات ہے کہ قربانی کا جانور منیٰ ہی میں ذبح کرنے کا دستور بن گیا ہے کیونکہ قربانی کے دن کہ وہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے حاجی منیٰ میں ہوتے ہیں اس لئے اپنی قربانی بھی وہیں کرتے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات بیان جواز کی خاطر ارشاد فرمائی ورنہ تو وہی جگہ افضل ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وقوف فرمایا جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کا جانور ذبح کیا اور وہی راستہ افضل ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ آئے۔
حضرت خالد بن ہوذہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفہ کے دن (میدان عرفات میں) اونٹ کے اوپر دونوں رکابوں پر کھڑے ہوئے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ (ابوداؤد)
تشریح
بلندی پر ہونے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکابوں پر کھڑے ہوئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ دور و نزدیک کے سبھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خطبہ سن سکیں۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی ہے (خواہ وہ میدان عرفات میں مانگی جائے یا کسی بھی جگہ) اور ان کلمات میں کہ جو میں نے یا مجھ سے پہلے کے نبیوں نے بطور دعا پڑھے ہیں سب سے بہتر یہ کلمات ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شئی قدیر۔ اللہ کے سوa کوئی معبود نہیں جو یکتا و تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے ، نیز مالک نے اس روایت کو طلحہ بن عبیداللہ سے الفاظ لا شریک لہ تک نقل کیا ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہ بن کریز کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں شیطان کو اتنا زیادہ ذلیل و راندہ اور اتنا زیادہ حقیر پر غیظ دیکھا گیا ہو جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے (یعنی یوں تو شیطان ہمیشہ ہی آدمیوں کو نیکیاں کرتا ہوا دیکھ کر پر غیظ و حقیر ہوتا ہے مگر عرفہ کے دن سب دنوں سے زیادہ پر غیظ ہوتا ہے اور ذلیل و خوار بھی) اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ (اس دن ہر خاص و عام پر) اللہ کی نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔ ہاں بدر کے دن بھی شیطان کو ایسا ہی دیکھا گیا تھا (یعنی غزوہ بدر کے دن جب مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو شوکت حاصل ہوئی تو اس دن بھی شیطان عرفہ ہی کے دن کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ذلیل و خوار اور پرغیظ تھا) چنانچہ (بدر کے دن) شیطان نے دیکھا تھا کہ حضرت جبرائیل (مشرکین سے لڑنے کے لئے) فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دے رہے تھے۔ اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے ، نیز شرح السنہ میں یہ روایت مصابیح کے الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (یعنی رحمت اور احسان و کریم کے ساتھ قریب ہوتا ہے) اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو، یہ میرے پاس پراگندہ بال، گرد آلود اور لبیک و ذکر کے ساتھ آوازیں بلند کرتے ہوئے دور، دور سے آئے ہیں، میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا، (یہ سن کر) فرشتے کہتے ہیں کہ پروردگار ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت بھی ہے جو گنہ گار ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انہیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کی برابر لوگوں کو آگ سے نجات و رستگاری کا پروانہ عطا کیا جاتا ہو۔ (شرح السنہ)
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے طریقہ کے پابند تھے مزدلفہ میں قیام کرتے تھے اور قریش کو حمس یعنی بہادر و شجاع کہا جاتا تھا۔ (قریش کے علاوہ) اور تمام اہل عرب میدان عرفات میں وقوف کرتے تھے ، لیکن جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ میدان عرفات میں آئیں وہاں وقوف کریں اور پھر وہاں سے واپس ہوں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد۔ آیت (ثم افیضوا من حیث افاض الناس)۔ پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوتے ہیں وہیں سے تم بھی واپس ہو۔ کے یہی معنیٰ ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مزدلفہ حدود حرم میں واقع ہے ، جب کہ عرفات حرم سے باہر ہے۔ چنانچہ قریش اور ان کے حواری دوسرے لوگوں پر اپنی برتری اور فوقیت جتانے کے لئے مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اہل اللہ ہیں اور اللہ کے حرم کے باشندہ ہیں اس لئے ہم حرم سے باہر وقوف نہیں کر سکتے ، قریش کے علاوہ اور تمام اہل عرب قاعدہ کے مطابق میدان عرفات ہی میں قیام کرتے تھے چنانچہ جب اسلام کی روشنی نے طبقاتی اور اونچ نیچ کی تاریکیوں کو ختم کر دیا اور قبیلہ و ذات کے دنیاوی فرق و امتیاز کو مٹا ڈالا تو یہ حکم دیا گیا کہ جس طرح تمام لوگ میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں اسی طرح قریش بھی میدان عرفات ہی میں وقوف کریں اور اس طرح اپنے درمیان امتیاز و فوقیت کی کوئی دیوار کھڑی نہ کریں۔
حضرت عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لئے بخشش کی دعا مانگی، جو قبول کی گئی اور حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو بخش دیا۔ علاوہ بندوں کے حقوق کے کہ میں ظالم سے مظلوم کا حق لوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا کہ میرے پروردگار! اگر تو چا ہے تو مظلوم کو اس حق کے بدلہ میں کہ جو ظالم نے کیا ہے جنت کی نعمتیں عطا فرما دے اور ظالم کو بھی بخش دے۔ مگر عرفہ کی شام کو یہ دعا قبول نہیں کی گئی، جب مزدلفہ میں صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر وہی دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو چیز مانگی وہ عطا فرما دی گئی راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسے یا راوی نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرائے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میرا باپ اور میری ماں آپ پر قربان! یہ ایسا وقت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنستے نہیں تھے۔ (یعنی یہ وقت ہنسنے کا تو نہیں ہے) پھر کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہنسایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دانتوں کو ہنستا رکھے (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، دشمن خدا ابلیس کو جب یہ معلوم ہوا کہ اللہ بزرگ و برتر نے میری دعا قبول کر لی ہے اور میری امت کو بخش دیا تو اس نے مٹی لی اور اسے اپنے سر پر ڈالنے لگا اور واویلا کرنے اور چیخنے چلانے لگا چنانچہ اس کی بدحواسی اور اضطراب نے مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیا۔ (ابن ماجہ، بیہقی)
تشریح
چونکہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت کو مغفرت عام سے نوازا گیا ہے کہ حقوق اللہ بھی بخش دئیے ہیں اور حقوق العباد بھی اس لئے بہتر یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم میں یہ قید لگا دی جائے کہ اس مغفرت عام کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ جو اس سال حج کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے ، یا یہ بات اس شخص کے حق میں ہے جس کا حج مقبول ہو بایں طور کہ اس کے حج میں فسق و فجور کی کوئی بات نہ ہو۔
یا پھر یہ کہ مفہوم اس ظالم پر محمول ہے جس کو توبہ کی توفیق ہوئی اور اس نے صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی مگر حق کی واپسی سے عاجز و معذور رہا۔ پھر یہ کہ رحمت خداوندی جسے چا ہے اپنے دامن میں چھپا سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ آیت (ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء)۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے ہاں مشرک کے علاوہ جس کو چا ہے گا بخش دے گا۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت اور مغفرت عام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت ہر مسلمان کو حاصل ہو گی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار، اور اس کی صورت یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں صالح اور نیکو کار لوگوں کے تو درجات بلند کرے گا اور اکثر گنہگاروں کو بخش کر جنت میں داخل کرے گا۔ اب رہ گئے وہ لوگ جو دوزخ میں ہوں گے تو ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت کا اثر یہ ہو گا کہ ان کے عذاب میں تخفیف اور مدت عذاب میں کمی کر دی جائے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش بھی انشاء اللہ ہر مسلمان کو حاصل ہو گی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار۔ بایں طور کہ جنت میں صالح و نیکوکاروں کے درجات اس جزاء و انعام سے زیادہ بلند ہوں گے جس کا وہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے مستحق ہو گا۔ اور فاجر و گنہگار کے حق میں اس کی مغفرت یہ ہو گی کہ یا تو انہیں اپنے فضل و کرم سے بغیر عذاب ہی کے جنت میں داخل کر دے گا یا پھر ان کے عذاب کی شدت میں کمی کر دے گا جو مغفرت ہی کی ایک نوع ہے۔