ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں جو نکاح میں کھلایا جاتا ہے اور چونکہ ولیمہ مشتق ہے التیام سے جس کے معنی اجتماع کے ہیں اس لئے اس کھانے کو ولیمہ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اجتماع زوجین کی تقریب میں کھلایا جاتا ہے۔
اکثر علماء کے قول کے مطابق ولیمہ مسنون ہے جب کہ بعض علماء اسے مستحب کہتے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک یہ واجب ہے اسی طرح ولیمہ کے وقت کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں۔ بعض علماء تو یہ فرماتے ہیں کہ ولیمہ کا اصل وقت دخول یعنی شب زفاف کے بعد ہے بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ ولیمہ عقد نکاح کے وقت کھلانا چاہئے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ عقد نکاح کے وقت بھی کھلانا چاہئے اور دخول کے بعد بھی۔
دو دن سے زیادہ وقت تک ولیمہ کھلانے کے بارے میں بھی علماء کے مختلف قول ہیں ایک طبقہ تو اسے مکروہ کہتا ہے یعنی علماء کے اس طبقہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ دو دن تک کھلایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ وقت تک کھلانا مکروہ ہے حضرت امام مالک کے ہاں ایک ہفتہ تک کھلانا مستحب ہے لیکن اس سلسلہ میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کا انحصار خاوند کی حیثیت و استطاعت پر ہے اگر وہ صرف ایک ہی وقت پر اکتفا کرے اور اگر کئی دن اور کئی وقت تک کھلانے کی استطاعت رکھتا ہے تو کئی دن اور کئی وقت تک کھلا سکتا ہے۔
مجمع البحار میں لکھا ہے کہ ضیافت یعنی دعوت کی آٹھ قسمیں ہیں (ولیمہ) (خرس، اعذار، وکیرہ، نقیعہ، وضیمہ، عقیقہ، مادبہ: چنانچہ ولیمہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو شادی بیاہ کے موقعہ پر کی جائے۔ خرس اس دعوت کو کہتے ہیں کہ جو بچہ کی پیدائش کی خوشی میں کی جائے اعزار اس دعوت کو کہتے ہیں جو ختنہ کی تقریب میں کی جائے وکیرہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو مکان بننے کی خوشی میں کی جائے نقیعہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو آنے کی تقریب میں کی جائے عقیقہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو بچہ کا نام رکھنے کی تقرب میں کی جائے اور مادبہ ہر اس دعوت کو کہتے ہیں جو بلا کسی خاص تقریب کے کی جائے ضیافت کی یہ تمام قسمیں مستحب ہیں البتہ ولیمہ کے بارے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ دعوت واجب ہے۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد الرحمن بن عوف کے بدن یا کپڑے پر زعفران کا زرد نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے عبد الرحمن نے کہا کہ میں نے ایک نواۃ سونے کے عوض ایک عورت سے نکاح کیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مبارک کرے تم ولیمہ کرو یعنی کھانا پکوا کر کھلاؤ اگرچہ وہ ایک بکری کا ہو (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت عبد الرحمن کے کپڑوں پر یا ان کے بدن پر زعفران کا نشان دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ یہ کیا ہے؟ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس زعفران کے لگنے کا سبب دریافت فرمایا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ مردوں کو خلوق استعمال کرنے سے منع فرماتے تھے (خلوق ایک خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے بنتی ہے) اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ کے ذریعہ ان کو تنبیہ فرمائی کہ جب مردوں کے لئے یہ ممنوع ہے تو تم نے کیوں لگائی چنانچہ عبد الرحمن نے جواب دیا کہ میں نے قصداً نہیں لگائی ہے بلکہ دلہن سے اختلاط کی و جہ سے بغیر میرے قصد اور بغیر علم کے لگ گئی ہے۔
قاضی کہتے ہیں کہ جس طرح نش بیس درہم اور اوقیہ چالیس درہم کے برابر وزن کو کہتے ہیں اسی طرح نواۃ پانچ درہم کے برابر وزن کا نام ہے۔ لہذا ایک نواۃ سونے کے عوض کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس عورت کا مہر پانی درہم کے برابر یعنی پونے سولہ ماشہ سونا مقرر کیا ہے۔ بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ نواۃ سے نواۃ تمر یعنی کھجور کی گٹھلی مراد ہے اور بظاہر یہی مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اس صورت میں حضرت عبد الرحمن کے کہنے کا مطلب یہ ہو گا کہ میں نے کھجور کی گٹھلی کے بقدر سونے کا مہر باندھا ہے۔
تم ولیمہ کرنا اگرچہ ایک بکری کا ہو اس طرح کی عبارت تقلیل کم سے کم مقدار بیان کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے اور یہاں تکثیر مراد ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصود یہ بیان کرنا تھا کہ اگرچہ زیادہ خرچ ہو تب بھی ولیمہ کرو اور تکثیر مراد لینے کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں بکری کو ایک قلیل ترین مقدار کے اظہار کے لئے ذکر کرنا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی مالی اور اقتصادی حالت بہت کمزور تھی لوگ ستو اور اسی قسم کی دوسری کم تر چیزوں کے ذریعہ ولیمہ کی سنت پوری کیا کرتے تھے پھر یہ کہ خود حضرت عبدا لرحمن بن عوف کی مالی حیثیت اس وقت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کے سامنے بکری جیسی چیز کو کم سے کم مقدار کی صورت میں بیان فرماتے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی کسی بھی زوجہ مطہرہ کا اتنا بڑا ولیمہ نہیں کیا جتنا بڑا ولیمہ حضرت زینب کے نکاح کے وقت کیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے نکاح میں ایک بکری کا ولیمہ کیا تھا (بخاری و مسلم)
تشریح
اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں جو یہ بتایا گیا تھا کہ بکری کا ذکر بیان تکثیر کے لئے ہے تو اس حدیث سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ایسا ولیمہ جس میں ایک بکری استعمال کی گی ہو ایک بڑے اور کثیر خرچ ولیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ شب زفاف گزارنے کے بعد ولیمہ کیا اور اس ولیمہ میں لوگوں کا پیٹ گوشت اور روٹی سے بھر دیا (بخاری)
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت صفیہ کو پہلے آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کر لیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا اور ان کے نکاح میں حیس کا ولیمہ کیا (بخاری مسلم)
تشریح
حضرت صفیہ حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں جو خیبر میں آباد قبیلہ بنوقریظہ و بنو نضیر کے سردار تھے جب خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح عطا کی تو صفیہ بھی ہاتھ لگیں اور بطور لونڈی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ملکیت میں آئیں مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو آزادی کے خلعت سے نوازا اور پھر اپنی زوجیت میں لے کر انہیں دین و دنیا کی سب سے بڑی سعادت سے سرفراز کیا۔
اس مسئلہ میں اہل علم کے اختلافی اقوال ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اور اس کی آزادی ہی کو اس کا مہر قرار دے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کی ایک جماعت اور بعض علماء اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر اس کے جواز کے قائل ہیں جب کہ صحابہ اور علماء کی ایک جماعت نے اسے جائز نہیں کہا ہے اور حنفیہ کا بھی یہی مسلک ہے ان کی طرف سے اس حدیث کی یہ تاویل کی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے حضرت صفیہ کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا جانا ایک استثنائی صورت ہے جو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے ساتھ مختص ہے لہذا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے تھا اور کسی کو جائز نہیں ہے۔
شرح ہدایہ میں لکھا ہے اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور اس کی آزادی کو مہر قرار دے بایں طور کہ اس سے یہ کہے کہ میں نے تجھ کو اس شرط پر آزاد کیا کہ تو مجھ سے آزادی کے عوض نکاح کر لے اور پھر اس لونڈی نے اسے قبول کر لیا تو یہ آزاد کرنا صحیح ہو جائے گا یعنی وہ آزاد ہو جائے گی البتہ نکاح کے معاملے میں وہ خود مختار ہو گی یہاں تک کہ اگر اس نے اس شخص سے نکاح کر لیا تو اس کے لئے اس کا مہر مثل واجب ہو گا۔
حیس ایک کھانے کا نام ہے جو حلوے کی قسم کا ہوتا ہے اور کھجور گھی اور اقط سے بنتا ہے اقط کہ جس کا دوسرا نام قروط ہے پنیر کی طرح ہوتا ہے اور دہی سے بنایا جاتا ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر اور مدینہ کے درمیان تین رات قیام فرمایا اور صفیہ کے ساتھ ان کے نکاح کے بعد شب زفاف گزاری اور میں نے مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت ولیمہ میں بلایا ولیمہ میں نہ تو گوشت تھا اور نہ روٹی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور جب دستر خوان بچھا دیا گیا تو اس پر کھجوریں اقط اور گھی رکھ دیا گیا (بخاری)
تشریح
اوپر کی حدیث میں حضرت صفیہ کے ولیمہ میں جس حیس کا ذکر کیا گیا ہے اسی کی تفصیل اس حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ حیس کے اجزاء کھجور اقط اور گھی تھے
اور حضرت صفیہ بنت شیبہ کہتی ہیں کہ نبی کریم نے اپنی زوجہ مطہرہ غالباً ام سلمہ کا ولیمہ دو سیر جو کے ساتھ کیا (بخاری)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو شادی کے کھانے پر بلایا جائے تو اسے جانا چاہئے اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ دعوت قبول کرنی چاہئے خواہ وہ ولیمہ کی دعوت ہو یا اسی قسم کی کوئی اور دعوت (بخاری و مسلم)
تشریح
یا اسی قسم کی کوئی اور دعوت سے ختنہ و عقیقہ وغیرہ کی دعوت مراد ہے اس سے معلوم ہوا کہ ان روایتوں میں ولیمہ سے مراد صرف وہی کھانا ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر کھلایا جائے۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ شادی بیاہ کے کھانے کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اگر کوئی شخص بلا کسی عذر کے دعوت قبول نہ کرے تو وہ گنہگار ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
جس شخص نے دعوت قبول نہ کی اس نے خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی نافرمانی کی۔
اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ قبول کرنے سے مراد دعوت میں جانا یعنی اگر کسی شخص کو شادی میں بلایا جائے تو اس کے لئے اس دعوت میں جانا بعض علماء کے نزدیک واجب ہے اور بعض علماء کے نزدیک مستحب ہے اب رہی یہ بات کہ کھانے میں شریک ہونے کی تو اس کے بارے میں متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ اگر روزے سے نہ ہو تو کھانے میں شریک ہونا مستحب ہے شادی کے کھانے کی دعوت کے علاوہ دوسری دعوتوں کا قبول کرنا مستحب ہے۔
طیبی اور ابن ملک نے یہ بھی لکھا ہے کہ دعوت قبول کرنے کا وجوب یا استحباب بعض صورتوں میں ساقط ہو جاتا ہے یہ شبہ ہونا کہ دعوت میں جو کھانا کھلایا جائے گا وہ حلال مال کا نہیں ہو گا یا اس دعوت میں مالداروں کی تخصیص ہو یا اس دعوت میں کوئی ایسا شخص شریک ہو جس سے یا تو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا وہ اس قابل نہ ہو کہ اس کے ساتھ کہیں بیٹھا جائے ان صورتوں میں اگر کوئی شخص دعوت قبول نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اسی طرح اگر کسی شخص کو دعوت میں محض اس لئے بلایا جائے کہ اس کی خوشنودی مزاج حاصل ہو جائے اور اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے یا اس کی ذات وجاہ سے کوئی دنیاوی غرض پوری ہوئے تو ایسی دعوت کو قبول نہ کرنا ہی اولی ہے یا ایسے ہی اگر کچھ لوگ کسی شخص کو اس مقصد کے لئے دعوت میں بلائیں کہ وہ ان لوگوں کے باطل ارادوں یا غیر شرعی کاموں میں مدد کرے یا کسی دعوت میں ممنوع چیزیں جیسے شراب وغیرہ موجود ہو یا وہاں ناچ گانے یا غیر شرعی تفریحات کی چیزیں ہوں یا جس جگہ دعوت ہو وہاں حریر وغیرہ کا فرش بچھا ہو تو ایسی دعوت میں شریک نہ ہونا چاہئے۔ یہ بات مد نظر رہنی چاہئے کہ آجکل کی مجالس مذکورہ بالا چیزوں سے خالی نہیں ہوتیں اگر سب چیزیں نہیں ہوتیں تو ان میں بعض چیزیں اکثر مجلسوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے صوفیاء کا قول ہے کہ عزلت گوشہ نشینی) حلال ہو گئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آجکل گوشہ نشینی واجب ہو گی ہے لہذا جو شخص احتیاط کے پیش نظر گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہے اور کسی بھی مجلس یا دعوت میں شریک ہونا مناسب نہ سمجھتا ہو تو اس کے لئے گوشہ نشینی ہی بہتر ہے۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو شادی بیاہ اسی رسم کی کسی اور تقریب کے) کھانے پر بلایا جائے تو اسے چاہئے کہ وہ دعوت قبول کر لے یعنی دعوت میں چلا جائے پھر وہاں جا کر اس کی مرضی پر موقوف ہو گا کہ چاہے تو کھائے چاہے تو نہ کھائے (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنے کا مطلب داعی کے یہاں جانا ہے اور یہ واجب یا سنت ہے ہاں دعوت کے کھانے میں شریک ہونا سنت ہے بشرطیکہ روزہ سے نہ ہو۔
ابن ملک فرماتے ہیں کہ ارشاد گرامی میں دعوت کو قبول کا جو حکم دیا گیا ہے وہ بطریق وجوب ہے لیکن اس کا تعلق اس شخص سے ہے جس کو کوئی عذر لاحق نہ ہو اگر کوئی شخص معذور ہو مثلاً دعوت کی جگہ اتنی دور ہے کہ وہاں جانا تکلیف و مشقت برداشت کرنے کا مترادف ہے تو اس صورت میں اس دعوت کو قبول نہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے اور جس شخص نے دعوت کو کوئی عذر نہ ہونے کے باوجود قبول نہ کیا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی (بخاری)
تشریح
شر الطعام، یعنی برے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں اور بہت سے برے کھانے ہیں اس میں سے ایک یہ بھی ہے یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ بعض کھانے اس سے بھی برے ہوتے ہیں چنانچہ جہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ (شر الناس من اکل وحدہ) (یعنی برا شخص وہ ہے جس نے تنہا کھانا کھایا ہو) وہاں یہ بھی مراد ہے کہ جہاں اور بہت سے برے شخص ہیں ان میں سے ایک برا شخص وہ بھی ہے جو تنہا کھانا کھاتا ہے۔
اس حدیث کا مقصد مطلق ولیمہ کے کھانے کی برائی بیان کرنا نہیں ہے کیونہ نہ صرف دعوت ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ اس دعوت کو قبول کرنے کی تاکید بھی فرمائی گئی ہے اور جو شخص دعوت ولیمہ کو قبول نہیں کرتا وہ گنہگار ہوتا ہے لہذا حدیث کی مراد یہ ہے کہ جو ولیمہ ایسا ہو کہ اس میں صرف مالداروں کو بلایا جائے اور غربا کو نہ پوچھا جائے تو وہ ایک برا ولیمہ ہے چنانچہ اس وقت کچھ لوگوں کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے ولیمہ میں صرف مالداروں کو بلاتے تھے اور انہیں اچھا اچھا کھانا کھلاتے اور بیچارے غریبوں کی بات بھی نہ پوچھتے تھے لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس بری عادت سے منع فرمایا۔
دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اس طرح ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے دعوت قبول کرنے کا حکم دیا ہے لہذا جس نے دعوت قبول نہ کر کے اللہ کے رسول کے حکم کی نافرمانی کی اس نے گویا اللہ ہی کے حکم کی نافرمانی کی۔ جو حضرات دعوت کے قبول کرنے کو واجب کہتے ہیں انہوں نے اس حدیث کو اپنے قول کی دلیل قرار دیا ہے جب کہ جمہور علماء نے اس حدیث کو تاکیداً استحباب پر محمول کیا ہے۔
اور حضرت ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی کے ہاں جن کی کنیت ابو شعیب تھی ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا ایک دن ان انصاری صحابہ یعنی ابو شعیب نے اپنے اس غلام سے کہا کہ میری ہدایت کے مطابق اتنا کھانا تیار کرو جو پانچ آدمیوں کے لئے کافی ہو کیونکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کروں گا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پانچ آدمیوں میں سے ایک ہوں گے۔ یعنی ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہوں گے اور چار آدمی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہوں گے) چنانچہ اس غلام نے ان کی ہدایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے تھوڑا سا کھانا تیار کر لیا پھر وہ ابو شعیب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے چار صحابہ کو اس کھانے پر مدعو کیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کے گھر تشریف لے گئے) تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہو لیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے گھر پہنچ کر فرمایا کہ ابو شعیب ایک اور شخص ہمارے ساتھ ہو لیا ہے اگر تم چاہو تو اس کو بھی کھانے پر آنے کی اجازت دے دو ورنہ اس کو دروازہ ہی پر چھوڑ دو اور دستر خوان پر بیٹھنے کی اجازت نہ دو) ابو شعیب نے کہا کہ نہیں اس کو دسترخوان پر بیٹھنے کی اجازت نہ دینا میں مناسب نہیں سمجھتا بلکہ میں اس کو بھی اجازت دیتا ہوں (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کی دعوت میں بن بلائے پہنچ جائے اور اسی طرح کسی مہمان کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی بن بلائے شخص کو اپنے ساتھ دعوت میں لے جائے ہاں اگر میزبان نے اس بات کی تصریح اجازت دی ہو یا کوئی ایسی دعوت ہو جہاں اذان عام ہو یا مہمان یہ جانتا ہو کہ اگر میں کسی بن بلائے مہمان شخص کو اپنے ساتھ دعوت میں لے گیا تو میزبان کی مرضی کے خلاف نہیں ہو گا تو ان صورتوں میں مدعو کسی غیر مدعو کو اپنے ساتھ دعوت میں لے جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس حدیث سے اور بھی کئی باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں داخل ہونا جائز نہیں ہے دوم یہ کہ اگر کوئی شخص چند مخصوص آدمیوں کی دعوت کرے اور ان کے ساتھ کوئی بن بلایا شخص بھی ہو لے تو ان مہمانوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ صاحب خانہ یعنی میزبان سے اس شخص کے لئے کھانے میں شریک ہونے کی اجازت لے لیں، سوم یہ کہ بن بلائے مہمان کے بارے میں میزبان کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اس کو دسترخوان پر بیٹھنے سے نہ روکے الا یہ کہ اس کی وجہ سے مہمانوں کو کوئی نقصان یا تکلیف پہنچنے کا خوف ہو اور اگر اس کو کھانے میں شریک کئے بغیر واپس کرے تو نرمی کے ساتھ واپس کرے لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو کھانے میں سے کچھ دے دے بشرطیکہ وہ اس کا مستحق ہو۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی غیر مدعو کو دعوت کے کھانے میں شریک ہونا جائز نہیں ہے اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جب ایک شخص نے کسی کی دعوت کی اور اس کے سامنے کھانا رکھ کر اس کو اس کھانے کا مالک بنا دیا تو اب وہ شخص یعنی مہمان مختار ہے کہ چاہے تو اس کھانے کو خود کھائے چاہے کسی اور کو کھلائے اور چاہے اٹھا کر اپنے گھر لے جائے ہاں اگر یہ صورت ہو کہ میزبان دستر خوان بچھا کر اس پر کھانا چن دے جو اس بات کی علامت ہو کہ اس نے مہمان کو اس کھانے کا مالک نہیں بنایا ہے بلکہ اسے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ یہیں بیٹھ کر کھائے اور جو کچھ بچ جائے اسے میزبان اٹھا کر لے جائے تو اب مہمان کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ دستر خوان پر بیٹھ کر حسب قاعدہ اور حسب رواج کھانا کھائے نہ تو اس کھانے میں سے کچھ اٹھا کر اپنے گھر لے جائے اور نہ اس میں سے کسی اور کو کھلائے۔
بعض اہل علم نے اس چیز کو بہت اچھا جانا ہے کہ جب ایک دسترخوان پر کچھ لوگ کھانا کھانے بیٹھیں تو دستر خوان پر موجود کھانے کی چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے سامنے کرتے رہیں ہاں اگر وہ لوگ دو دستر خوانوں پر بیٹھے ہوں تو ایک دستر خوان کے لوگوں کو دوسرے دستر خوان کے لوگوں کے سامنے اپنے دستر خوان پر بیٹھے ہوں تو ایک دستر خوان کے لوگوں کو دوسرے دستر خوان کے لوگوں کے سامنے اپنے دستر خوان کے کھانے پیش کرنے جائز نہیں ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ام المؤمنین حضرت صفیہ کا ولیمہ ستو اور کھجور کے ساتھ کیا تھا۔ (احمد ترمذی ابو داؤد ابن ماجہ)
تشریح
حضرت صفیہ کے ولیمہ کے سلسلہ میں جو حدیث پہلے گزری ہے اس میں ان کے ولیمہ کا کھانا حیس ذکر کیا گیا تھا جب کہ یہاں ستو اور کھجور کا ذکر ہے۔ ان دونوں روایتوں میں اس طرح مطابقت ہو گی کہ حضرت صفیہ کے ولیمہ میں دونوں چیزیں تھیں حیس بھی تھا اور ستو اور کھجوریں بھی تھیں راویوں میں سے جس نے جو دیکھا اسی کو بیان کر دیا۔
اور حضرت سفینہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی بن ابی طالب کے ہاں ایک مہمان آیا تو حضرت علی نے اس کے لئے کھانا تیار کرایا حضرت فاطمہ نے کہا کہ اگر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی مدعو کر لیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے ساتھ کھانا کھا لیں تو بڑا اچھا ہو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بلایا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور مکان میں داخل ہونے کے لئے جیسے ہی دروازے کے دونوں بازوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر اس پردہ پر پڑ گئی جو گھر کے ایک کونے پر پڑا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پردہ کو دیکھتے ہی واپس ہو گئے حضرت فاطمہ کہتی ہیں کہ میں بھی آپ کے پیچھے گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ واپس کیوں ہو گئے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو یا کسی بھی نبی کو زینت والے گھر میں داخل ہونا مناسب نہیں ہے (احمد ابن ماجہ)
تشریح
قرام باریک اور منقش پردہ کو کہتے ہیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کے گھر کے گوشہ میں جو پردہ پڑا ہوا تھا وہ منقش نہیں تھا لیکن اس پردہ سے دیوار کو اس طرح ڈھکا گیا تھا جیسے دولہا دلہن کے چھپر کٹ کو پردوں سے سجاتے ہیں اور ڈھکتے ہیں اور یہ چونکہ دنیا داروں اور اپنی وجاہت و مالداری کا بے جا اظہار کرنے والوں کا طریقہ ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پردہ کو دیکھتے ہی واپس ہو گئے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا یہ تنبیہ فرمائی کہ دیواروں کو اس طرح پردوں سے سجانا اور ڈھکنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا کی بیجا زیب و زینت ہے جو آخرت کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے
اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ دعوت قبول نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کرنے والا ہو گا اور جو شخص بغیر بلائے کسی کے ہاں کھانے کی مجلس میں چلا جائے تو وہ چوروں کی طرح آیا اور مال لوٹ کر نکل گیا (ابو داؤد)
تشریح
کسی دعوت میں بغیر بلائے پہنچ جانے والے کو چور کے ساتھ اس وجہ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کوئی چور چھپ کر کسی کے گھر میں داخل ہوتا ہے اسی طرح بن بلایا مہمان بھی صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر اس کے کھانے کی مجلس میں گویا چور کی طرح چپکے سے آتا ہے لہذا جس طرح چور کسی کے گھر میں گھسنے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اسی طرح بن بلایا مہمان بھی اپنے اس غیر اخلاقی اور قبیح فعل کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اخلاق زندگی کے دو بنیادی سبق دیئے ہیں جو ایک انسان کی معاشرتی برائی اور انسانی وقار کے ضامن ہیں اول تو یہ کسی کی دعوت کو بلا عذر کے قبول نہ کرنا نفس کے تکبر و رعونت اور عدم الفت پر دلالت کرتی ہے دوم یہ کہ بغیر دعوت کے کسی کے ہاں پہنچ جانا نفس کے حرص و لالچ اور اپنی عزت اپنے ہاتھوں خراب کرنے پر دلالت کرتا ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر بیک وقت دو شخص دعوت کریں تو ان میں سے اس شخص کی دعوت قبول کرو جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو اور اگر ان میں سے ایک نے پہلے مدعو کیا اور دوسرے نے اس کے بعد دعوت دی تو اس صورت میں اس شخص کی دعوت قبول کی جائے جس نے پہلے مدعو کیا (احمد ابو داؤد)
تشریح
بظاہر یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جب کہ ایک ہی وقت ہونے کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے دونوں کی دعوت میں شریک ہونا ممکن نہ ہو ہاں اگر دونوں کی دعوت میں شریک ہونا ممکن ہو تو پھر یہی حکم ہو گا کہ دونوں کی دعوت میں شرکت کی جائے نیز یہ حکم دو ہمسایوں کی دعوت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر ایک ہی وقت میں پڑوس کے دو آدمی دعوت کریں تو اس پڑوسی کی دعوت کو ترجیح حاصل ہو گی جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو اور اگر ہمسایوں کے علاوہ شہری آبادی کے دوسرے دو آدمی بیک وقت مدعو کریں تو اس صورت میں دوسری وجوہ مثلاً معرفت اصلاح اور حقوق کے پیش نظر ترجیح دی جائے گی۔ یعنی ان دونوں میں سے اس شخص کی دعوت کو ترجیح حاصل ہو گی جو دوسرے سے زیادہ قریبی جان پہچان کا ہو یا وہ دوسرے سے زیادہ نیک بخت و صالح ہو اور یا حقوق کے اعتبار سے وہ دوسرے سے زیادہ قریب ہو۔ اس حدیث سے ایک نکتہ یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی استاد کے پاس اس کے دو شاگرد بیک وقت سبق پڑھنے آئیں یا کسی عالم کے پاس ایک ہی وقت میں دو آدمی مسئلہ پوچھنے آئیں تو پہلے اس کو سبق پڑھایا جائے یا مسئلہ بتایا جائے جو پہلے آیا ہے۔
اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پہلے دن شادی کا کھانا کھلانا حق ہے دوسرے دن کھانا سنت ہے اور تیسرے دن کا کھانا اپنے آپ کو سنانا ہے اور جو اپنے آپ کو سنانے کا خواہشمند ہو گا اللہ تعالیٰ اسے سنائے گا (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ شادی بیاہ میں پہلے دن لوگوں کو کھانے پر بلانا اور لوگوں کا اس دعوت کو قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے اور جن علماء نے ولیمہ کی دعوت کو واجب کہا ہے ان کے نزدیک حق سے مراد واجب ہے اور دوسرے دن کو مدعو کرنا مسنون و مستحب ہے اور دو دن کے بعد جب تیسرے دن بھی کوئی مدعو کرے تو سمجھنا چاہئے کہ اب اس کی دعوت میں نام و نمود کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے یعنی اس نے تیسرے دن لوگوں کو کھانے پر اس لئے بلایا ہے تا کہ شہرت ہو جائے اور لوگ اس کی تعریف کریں اس کے بارے میں یہ تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ جو شخص اپنے نام و نمود کے تحت تیسرے دن بھی لوگوں کو کھانے پر بلائے گا اور خواہش مند ہو گا کہ اس کی سخاوت کی تعریف کریں تا کہ وہ اظہار فخر کر سکے تو ایسے شخص کو جان لینا چاہئے کہ میدان حشر میں اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں یہ اعلان کرائے گا کہ دیکھو یہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جس نے محض دکھانے سنانے کے لئے لوگوں کو کھانا کھلایا تھا چنانچہ وہ شخص تمام مخلوق خدا کے سامنے سخت رسوا اور ذلیل ہو گا۔
طیبی کہتے ہیں کہ جس بندہ کو اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا کرے (مثلاً اس کا نکاح ہو جائے) تو اس پر لازم ہے کہ وہ شکر ادا کرے اور شکریہ ہے کہ دعوت ولیمہ میں لوگوں کو بلا کر کھانا کھلائے اور یہ (یعنی شکر ادا کرنا مثلاً دعوت کرنا پہلے دن تو ضروری ہے اور) دوسرے دن مستحب ہے تا کہ پہلے دن اگر کوتاہی ہو گئی ہو تو دوسرے دن ان کی تلافی ہو جائے اس لئے کہ سنت واجب کو مکمل کر دیتی ہے اور تیسرے دن دعوت کرنا بس دکھانے سنانے کے لئے ہے (یعنی تیسرے دن دعوت کرنے کا نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ نام و نمود کی وجہ سے آخرت کا نقصان ہی ہوتا ہے) اسی طرح جن لوگوں کی دعوت کی جائے ان کے بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ پہلے دن کی دعوت قبول کرنا ان کے لئے واجب ہے دوسرے دن کی دعوت قبول کرنا مستحب ہے اور تیسرے دن کی دعوت قبول کرنا مکروہ بلکہ حرام ہے۔
اس حدیث سے مالکیہ کے اس مسلک کی صریح تردید ہوتی ہے کہ سات دن تک ولیمہ کی دعوت کرتے رہنا مستحب ہے۔
اور حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس سے یہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں آدمیوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے جو آپس میں فخر کا مقابلہ کریں (ابوداؤد) اور محی السنۃ نے کہا ہے کہ صحیح الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عکرمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بطریق ارسال نقل کرتے ہیں یعنی روایت کی سند میں عن ابن عباس کے الفاظ مذکور نہیں ہیں بلکہ یہ یہاں زیادہ نقل کئے گئے ہیں۔
تشریح
متباریین ان دو شخصوں کو کہتے ہیں جو زیادہ کھانا پکانے کا آپس میں مقابلہ کریں اور ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش ہو کہ وہ دوسرے کی ضد میں زیادہ سے زیادہ کھانا پکوائے اور زیادہ لوگوں کی دعوت کرے تا کہ وہ برتر اور دوسرا کمتر رہے گویا اس مقابلہ سے دونوں ہی کا مقصد اظہار فخر اور محض نام و نمود ہو چنانچہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کی دعوت نہ قبول کی جائے اور نہ ان کے کھانے میں شرکت کی جائے۔
آجکل تو اس سلسلہ میں احتیاط نہیں برتی جاتی لیکن پہلے زمانہ کے بزرگوں کا یہ حال تھا کہ اگر انہیں کسی شخص کی دعوت کے بارے میں یہ شبہ بھی ہو جاتا تھا کہ اس دعوت کا مقصد محض اظہار فخر و نام و نمود ہے تو وہ اس دعوت میں شرکت کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان دو شخصوں کی دعوت قبول نہ کی جائے اور نہ ان کا کھانا کھایا جائے جو اظہار فخر کے لئے کھانا پکانے کھلانے کا آپس میں مقابلہ کریں امام احمد نے لفظ متباریان کی وضاحت میں کہا ہے کہ متباریان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد وہ شخص ہے جو از راہ فخر و ریا اور بطریق مقابلہ یعنی ایک دوسرے کی ضد میں دعوت کریں۔
اور حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فاسق لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے،
تشریح
فاسق سے مراد مطلق فاسق ہے خواہ وہ کسی طرح کے فسق میں مبتلا ہو فاسق کی دعوت قبول کرنے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ اکثر فاسق اپنے مزاج و کردار کے اعتبار سے ظالم بھی ہوتا ہے اور یہ مسئلہ ہے کہ ظالم جو لوگوں کا مال از راہ ظلم لیتا ہے اس کے کھانے میں شریک ہونا حرام ہے اس کے علاوہ فاسق کی دعوت قبول کرنا گویا اس فاسق کو خوش کرنا اور اس کی عزت کرنا ہے جو شرعاً جائز نہیں ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کے ہاں جائے تو اس کا کھانا کھا لے اور پانی پی لے اور یہ نہ پوچھے کہ وہ کھانا اور پانی کیسا ہے اور کہاں سے آیا ہے ان تینوں حدیثوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آخری حدیث اگر صحیح ہے تو اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو وہی چیز کھلاتا پلاتا ہے جو اس کے نزدیک حلال ہوتی ہے۔
تشریح
مسلمان سے کامل یعنی متقی و پرہیزگار مسلمان مراد ہے چنانچہ اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے ہاں کھانا کھانے جائے تو اس کے کھانے کے جائز و ناجائز ہونے کی تحقیق نہ کرے بلکہ جو کچھ اس کے سامنے آئے بلا شک و شبہ اسے کھا پی لے کیونکہ اول تو اس کے متقی و پرہیزگار ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں یہی نیک گمان رکھا جائے کہ وہ ناجائز و حرام چیز نہیں کھلائے گا دوسرے یہ کہ اگر اس کے کھانے کے جائز و ناجائز کی تحقیق کی جائے گی تو اسے تکلیف پہنچے گی جو مناسب نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ یقین ہو کہ جو چیز کھلائی پلائی جا رہی ہے اس کا کوئی جزء حرام ذریعہ سے آیا ہوا ہے یا اس کھانے کا اکثر حصہ حرام ہے تو پھر اس کو نہ کھائے پئے۔