نعال نعل کی جمع ہے اور نعل اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ پیروں کو زمین سے بچایا جائے، جس چیز کے ذریعہ پیروں کی حفاظت کی جاتی ہے یعنی پاپوش اس کی ہیئت و قسم ہر دور میں اور ہر قوم و فرقہ کے لوگوں میں مختلف رہی ہے خواہ وہ جوتے کی صورت میں ہو یا چپل و کھڑاؤں وغیرہ کی شکل میں ہو۔ اس بات کی اصل مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاپوشوں کی ہیئت و صفات بیان کرنا ہے جو اس دور میں اہل عرب کے درمیان رائج تھیں، چونکہ اس زمانہ میں رائج پاپوش بھی مختلف اقسام کے ہوتے تھے اس لئے باب کے عنوان میں جمع کا صیغہ، نعال، استعمال کیا گیا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جو پاپوش مبارک پہنے ہوئے دیکھا ہے اس میں بال نہیں تھے !۔ (بخاری)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پاپوش مبارک میں دو تسمے تھے۔ (البخاری)
تشریح
قبال پاپوش کے تسمے کو کہتے ہیں جو انگلیوں کے بیچ میں ہوتا ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پاپوش مبارک میں دو تسمے تھے ایک انگوٹھے اور اس کے برابر والی انگلی کے درمیان رہتا تھا اور دوسرا تسمہ بیچ کی انگلی اور اس کے برابر والی انگلی جس کو عربی میں بنصر کہتے ہیں کے درمیان ہوتا تھا۔ اس پاپوش کو اس زمانے میں اہل عرب چپل کے طور پر استعمال کرتے تھے جس کو ہمارے یہاں عام طور پر گھر میں یا مسجد وغیرہ تک جانے کے لئے پہن لیا جاتا ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک غزوے کے موقع پر کہ جس میں جنگ ہوئی (یعنی کسی جہاد کے لئے روانگی کے وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بہت سی جوتیاں لے لو، کیونکہ آدمی جب تک جوتیاں پہنے ہوئے ہوتا ہے سوار کی مانند رہتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
جو شخص جوتا پہنے ہوئے ہوتا ہے وہ یقیناً ننگے پیر چلنے والوں کی بہ نسبت زیادہ تیز چلتا ہے اور اس کے پیر بھی تکلیف اور نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اسی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے جوتا پہننے والے شخص کو سوار کی مانند کہا گیا ہے، اس ارشاد گرامی میں گویا اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ اسباب سفر میں سے وہ چیزیں دوران سفر ضرور ساتھ رکھنی چاہئیں جن کی ضرورت پڑتی ہو۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو اس کو چاہئے کہ دائیں پیر سے ابتدا کرے یعنی پہلے دایاں پیر جوتے میں ڈالے اور جب جوتا اتارے تو چاہئے کہ بائیں پیر سے ابتداء کرے یعنی بایاں پیر جوتے سے نکالے حاصل یہ کہ دائیں پیر کو پہنتے وقت تو مقدم رکھنا چاہئے اور اتارتے وقت مؤخر رکھنا چاہئے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مذکورہ مسئلہ میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ جو عمل فضیلت و شان رکھتا ہو اس میں دائیں سے ابتداء کرنا مستحب ہے اور جو عمل ایسا نہ ہو اس میں بائیں سے ابتداء ہونی چاہئے، چنانچہ جوتا پہننا چونکہ مسجد میں جانے اور دوسرے اعمال خیر کا ذریعہ اور وسیلہ ہے اس لئے جوتا پہنتے وقت دائیں پیر سے ابتداء کرنا مستحب ہے اس ضابطہ کی روشنی میں یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دائیں پیر رکھنا چاہئے اور مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں پیر نکالنا چاہئے اس کے برخلاف بیت الخلاء جاتے وقت پہلے بایاں پیر اندر رکھنا چاہئے اور وہاں سے نکلتے وقت پہلے دایاں پیر نکالنا چاہئے۔ یہ ضابطہ کی بات تھی اس کے علاوہ اس حقیقت پر بھی نظر رہنی چاہئے کہ بائیں پیر کے مقابلہ میں دائیں پیر کو فضیلت اور برتری کا درجہ حاصل ہے لہٰذا اس کی تکر یم کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس کی تکریم یہی ہے کہ جب جوتا پہنا جائے تو پہلے دایاں پیر جوتے میں ڈالا جائے اور جب جوتا اتارا جائے تو پہلے بائیں پیر کا جوتا نکالا جائے تاکہ دایاں پیر بائیں پیر کی بہ نسبت جوتے میں زیادہ دیر تک رہے یہ گویا دائیں پیر کے اعزاز و احترام کا ذریعہ ہے اسی پر مسجد وغیرہ میں داخل ہونے اور وہاں سے نکلنے کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایک پیر میں جوتا پہن کر نہ چلے، یہ ضروری ہے کہ یا تو دونوں پیر ننگے ہوں یا دونوں پیروں میں جوتے ہوں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جوتا پہنے تو دونوں پیروں میں پہنے اور اگر نہ پہنے تو دونوں پیروں میں نہ پہنے ایک پاؤں میں جوتا پہننا اور دوسرے پاؤں کو ننگا رکھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اول تو یہ طریقہ تہذیب و شائستگی کے خلاف ہے، دوسرے پیروں کے اونچے نیچے پڑنے اور گر جانے کا سبب بن سکتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ جوتا اونچا اور زمین غیر ہموار ہو۔ علماء نے اس کے ساتھ ایک ہاتھ آستین سے باہر رکھنے کو بھی شامل کیا ہے یعنی اگر کوئی شخص کرتے وغیرہ کی ایک آستین میں تو ہاتھ ڈال لے لیکن دوسری آستین کو خالی چھوڑ کر کندھے پر ڈال لے تو اس کا بھی یہی حکم ہے اسی طرح ایک پاؤں میں جوتا پہننا اور دوسرے پاؤں میں محض موزہ پہن لینا بھی یہی حکم رکھتا ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کسی شخص کی جوتی یعنی چپل وغیرہ کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک ہی جوتے میں نہ چلے بلکہ اس جوتی کا تسمہ درست کر لے اسی طرح کپڑے میں گوٹ مارے (جب کہ اس کپڑے کا کوئی حصہ اس کے ستر کو چھپائے ہوئے نہ ہو) اور نہ کسی کپڑے کو بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ہاتھ بھی اندر رہیں (اور ہاتھ نکالتے وقت ستر کھل جائے)۔ (مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پاپوش مبارک میں دو تسمے تھے جن میں پیروں کی انگلیاں رہتی تھیں اور ان دونوں میں ہر تسمہ دوہرا تھا تاکہ تسمے کی مضبوطی بھی قائم رہے اور پاؤں میں دھنستے بھی نہیں۔ (ترمذی)
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی، و ابن ماجہ،) نے اس روایت کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ کھڑے ہو کر جوتا پہننے میں مشقت اٹھانا پڑتی ہو، یعنی ایسا جوتا ہو جس کو پہننے اور اس کا تسمہ باندھنے میں ہاتھ لگانا پڑتا ہو، ویسے مطلق جوتے کے بارے میں یہ ممانعت نہیں ہے۔
اور حضرت قاسم بن محمد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بعض وقت ایک پاپوش پہن کر چلتے تھے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک پاپوش پہن کر چلیں ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ روایت اسناد کے اعتبار سے یا مفہوم و معنی کے اعتبار سے نہایت صحیح ہے
تشریح
جن احادیث میں ایک پاؤں میں جوتا پہن کر چلنے کی ممانعت منقول ہے یہ حدیث ان کے بالکل متضاد ہے چنانچہ علماء نے اس حدیث کے صحیح ہونے میں شک و شبہ کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل نادر کے درجہ میں ہو گا اور یہ کہ اس کا تعلق گھر کے اندر سے ہو گا نہ کہ باہر سے یعنی اپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر کے اندر کسی موقع پر ایک جوتا پہن کر چلے ہوں گے اور وہ بھی کسی ضرورت و مجبوری کی بنا پر، یا بیان جواز کی خاطر تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ ایک پیر میں جوتا پہن کر چلنا بالکل حرام نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز امت کے حق میں مکروہ تنزیہی ہے اس کا شارع علیہ السلام کے عمل میں آنا اس چیز کے اصل میں جواز کو ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے اس اعتبار سے وہ چیز گویا شارع کے حق میں مکروہ ہوتی ہی نہیں بلکہ کسی چیز کے جواز کو بیان کرنا شارع پر واجب ہے اس نکتہ کو صاحب مواہب لدنیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کھڑے ہو کر پانی پینے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ جب کوئی شخص بیٹھے تو اپنے جوتے اتارے اور ان کو اپنے پہلو میں رکھ لے !۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جوتے سمیت نہ بیٹھے بلکہ ان کو اتار کر بیٹھے کہ یہ آداب مجلس کا تقاضہ بھی ہے اور تہذیب و شائستگی کی علامت بھی، نیز جوتوں کو اپنے بائیں پہلو کی طرف رکھے تاکہ دائیں پہلو کی تکریم برقرار رہے، سامنے کی طرف بھی نہ رکھے، تاکہ اگر مسجد وغیرہ میں بیٹھا ہو تو قبلہ کی تعظیم کے خلاف نہ ہو اور چوری ہو جانے کے خوف سے پیچھے کی طرف بھی نہ رکھے۔
اور حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نجاشی (حبش کے بادشاہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں دو سیاہ موزے (یعنی کالے چمڑے کے پائتابے) بطور ہدیہ بھیجے جو سادہ یعنی غیر منقش تھے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بحالت طہارت پہنا۔ (ابن ماجہ) اور ترمذی نے اس روایت کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے یعنی ترمذی کی روایت میں عن ابن بریدۃ کے بجائے عن ابی بریدۃ ہے اور ان کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور ان موزوں پر مسح کیا۔
تشریح
وہ موزے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تحقیق و تفتیش نہیں کی کہ یہ موزے جس چمڑے کے ہیں آیا وہ دباغت دیا گیا تھا یا نہیں اور یہ کہ چمڑہ مردار کا ہے یا ذبح کئے ہوئے جانور کا، ان باتوں کو پوچھے بغیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ موزے پہن لئے گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان موزوں کی ظاہری صورت حال کا اعتبار کیا کہ ظاہر میں ان پر کسی نجاست وغیرہ کے آثار نہیں تھے اس لئے ان کو پاک سمجھا اس سے کورے کپڑوں، بوریوں، چٹائیوں، قالین، دریوں اور شطرنجی اور دوسرے فرش و فروش کا یہ حکم معلوم ہوا کہ اگر ان پر ظاہر میں کوئی نجاست وغیرہ محسوس نہ ہو تو وہ پاک سمجھے جائیں گے۔