لغت میں طہارۃ کے معنی نظافت اور پاکی کے آتے ہیں جو نجاست کی ضد ہے طہور بضم طاء مصدر ہے اور ان چیزوں کو بھی طہور فرماتے ہیں جو پاک کرتی ہیں جیسے پانی اور مٹی طہور، لفتح طاء بھی مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
اصطلاح شریعت میں طہارت کا مفہوم ہے نجاست حکمی یعنی حدث سے اور نجاست یعنی خبث سے پاکیزگی حاصل کرنا۔
٭٭حضرت ابی مالک شعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ کے نام میں اختلاف ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا نام کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے اور بعض کعب بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، عبیدہ ، حارث اور عمرو بھی بیان کیے جاتے ہیں ، کنیت ابو مالک ہے ، مشہور صحابی ہیں۔ حضرت عمر فاروق اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور الحمد اللہ کہنا (اعمال کی) ترازو کو بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ و الحمد اللہ بھر دیتے ہیں یا فرمایا ایک کلمہ بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے نماز نور ہے صدقہ دلیل ہے ، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے لیے یا تمہارے اوپر دلیل ہے ہر آدمی (جب) صبح کرتا ہے (یعنی سو کر اٹھتا ہے ) تو اپنی جان کو اپنے کاموں میں بیچتا ہے (یعنی لگاتا) ہے لہٰذا وہ اپنی جان کو آزاد کرتا ہے یا ہلاک کرتا ہے۔ (مسلم اور ایک روایت میں ہے کہ لا الہٰ الا اللہ اکبر بھر دیتے ہیں اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے اس روایت کو نہ صحیح البخاری میں پایا ہے نہ مسلم میں اور نہ ہی کتاب حمیدی و کتاب جامع الاصول میں مجھے یہ روایت ملی ہے البتہ دارمی نے اس روایت کو بجائے سبحان اللہ والحمد اللہ کے ذکر کیا ہے۔ (لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو فصل اول میں نقل کرنا درست نہیں ہوا)۔
تشریح
اس حدیث میں پاکیزگی و طہارت کی انتہائی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام میں طہارت کو کیا مقام حاصل ہے چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور وجہ ظاہر ہے کہ ایمان سے چھوٹے اور بڑے سب ہی گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور وضو سے صرف چھوٹے گناہ ہی بخشے جاتے ہیں اس لیے طہارت کو آدھے ایمان کا درجہ حاصل ہے۔
درمیان روایت میں راوی کو شک ہو رہا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ تملاء مفرد فرمایا تملان تثنیہ کے ساتھ فرمایا ہے اس لیے انہوں نے دونوں کو نقل کر دیا ہے ، اس جملہ کا مطلب ہے کہ سحان اللہ والحمد اللہ پڑھنا اور ان کا ورد رکھنا اتنی فضیلت کی بات ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ان دونوں کلموں کو ایک جسم فرض کر لیا جائے تو اتنے عظیم ہیں کہ آسمان اور زمین کے درمیانی حصہ کو بھر دیں۔
نماز کو نور فرمایا گیا ہے اس لیے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جو قبر کے اندھیرے اور قیامت کی ظلمت میں روشنی کی مانند ہے جو مومن کو گناہوں اور بری باتوں سے بچاتی ہے اور نیکی و بھلائی اور ثواب کے کاموں کی طرف راہنمائی کرتی ہے یا پھر نماز کو نور اس لیے کہا گیا ہے کہ مومن کے قلب کو ذات خداوندی کے عرفان کی روشنی سے منور کرتی ہے اور عبادت خداوندی کی ادائیگی و اطاعت الہٰی کی بنا پر نماز پڑھنے والے کے چہرہ پر سعادت و نیک بختی کی چمک پیدا کرتی ہے۔
صدقہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو دلیل اس لیے کہا گیا ہے کہ مومن کے دعویٰ ایمان کی صداقت اور پروردگار عالم سے محبت پر دلالت کرتا ہے یا یہ معنی کہ جب قیامت میں مالدار سے اللہ سوال کرے گا کہ ہم نے تمہیں مال و دولت میں اتنی وسعت بخشی تھی تو تم نے اس مال و دولت کو کہاں خرچ کیا؟ اور اس کا مصرف کیا تھا؟ یعنی تم نے ہماری بخشی ہوئی اس نعمت کو اچھی راہ میں خرچ کیا یا برے راستہ میں لٹا دیا؟ تو اس کے جواب میں صدقہ بطور دلیل پیش ہو گا کہ رب قدّوس تیرا دیا ہوا مال برے راستہ میں نہیں لٹایا گیا ہے بلکہ اسے تیری ہی راہ میں اور تیری ہی خوشنودی کے لیے خرچ کیا گیا ہے
صبر اس کو فرماتے ہیں کہ گناہوں سے بچا جائے ، طاعات پر مستعد رہا جائے اور کسی مصیبت و تکلیف کے موقعہ پر آہ بکا اور جزع و فزع نہ کیا جائے چنانچہ اس کے بارہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ کامل روشنی کا سبب ہے اس لیے کے صابر کا قلب و دماغ ایمانی عزم و یقین کی روشنی سے ہمیشہ منور رہتا ہے اور وہ دین و دنیا کے ہر مرحلہ پر کامیاب ہوتا ہے۔
قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ تمہارے لیے یا تمہارے او پر دلیل ہے یعنی تم قرآن پڑھو گے اور اس پر اگر عمل کرو گے تو قرآن تمہیں نفع بخشے گا اور اگر عمل نہ کرو گے تو تمہارے لیے ضرر کا باعث ہو گا۔
جان کو بیچنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس کام کی طرف آدمی متوجہ ہو اس میں اپنی ذات کو کھپا دے ، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھتا ہے تو اپنے کام میں لگ جاتا ہے اور دنیا میں مشغول ہو جاتا ہے لہٰذا اب اس نے اگر اس کام کے بدلے آخرت خرید لی بایں طور کہ اس کام پر آخرت کو ترجیح دی تو اس نے اپنے نفس کو عذاب آخرت سے آزاد کر لیا، اور اگر خدانخواستہ اس نے دنیا اور دنیا کے اس کام کو آخرت کے بدلے خرید لیا بایں طور کہ اس کام کو آخرت پر ترجیح دی تو اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا اور اپنے نفس کو عذاب میں ڈال دیا
بد نیا توانی کہ عقبے خری
بخر جان من ورنہ حسرت بری
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتا دوں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو دور کر دے اور جس کے سبب (جنت میں ) تمہارے درجات کو بلند کرے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مشقّت کے وقت (یعنی بیماری یا سخت جاڑے میں ) وضو کو پورا کرنا، مسجد کی طرف (گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ) کثرت سے قدموں کا رکھنا اور (ایک) نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا پس یہ رباط ہے ، اور مالک بن انس کی حدیث میں پس یہ رباط ہے پس یہ رباط ہے دو مرتبہ ہے اور جامع ترمذی کی روایت میں تین مرتبہ ہے۔
تشریح
اس حدیث میں ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے رب قدوس اپنے بندوں پر اس طرح فضل و کرم فرماتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور جنت میں ان کے مراتب و درجات میں ترقی عطا فرماتا ہے چنانچہ سب سے پہلی چیز وضو ہے۔ یوں تو وضو نماز کے لیے شرط اور ضروری ہے لہٰذا جو نماز پڑھے گا وہ وضو بھی کرے گا خواہ کیسا ہی موسم ہو مگر اس جگہ ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی سخت وقت میں مثلاً کسی بیماری کی حالت میں یا شدید سردی کے موسم میں عموماً وضو کے معاملہ میں بڑی تساہلی برتی جاتی ہے اور اول تو زبردستی اور صحت کے منافی طریقوں کو اختیار کر کے دو اور تین وقت وضو کو باقی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر اگر وضو کیا جاتا ہے تو ایسے طریقے سے کہ نہ تو اس میں وضو کے آداب اور اس کے سنن و مستحبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ وضو پورے طریقہ سے مکمل کیا جاتا ہے۔
ایسے ہی مواقع کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے سخت اور شدید وقت میں اگر وضو پورے آداب و طریقے ملحوظ رکھ کے اور تمام سنن و مستحبات کا خیال کر کے کیا جائے اور تمام اعضاء وضو پر پانی اچھی طرح پہنچایا جائے اور ان کو تین تین مرتبہ دھویا جائے تو یہ فضل خداوندی کا سبب ہو گا۔
دوسری چیز مسجد کی طرف کثرت سے قدموں کا رکھنا ہے ، یعنی ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا جو گھر سے دور ہو اس لیے کہ جتنے زیادہ قدم مسجد کی طرف اٹھیں گے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔
نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار یہ ہے کہ مسجد میں ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے یا اگر مسجد سے نکلے بھی تو دل وہیں دوسری نماز میں لگا رہے اس کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان فرمائی جا رہی ہے چنانچہ اس کو رباط کہا گیا ہے۔
رباط اسے فرماتے ہیں کہ کوئی مسلمان اسلامی مملکت کی سرحد پر دشمنان اسلام کا مقابلہ پر نگہبانی کی خاطر بیٹھے تاکہ دشمن سرحد پار کر کے اسلامی ملک میں داخل نہ ہو جائیں اس کا ثواب ہے اور بڑی فضیلت ہے جو خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی فرمایا ہے
آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا) 3۔ آل عمران:200)
اے ایمان والو! (تکلیف پر) خود صبر کرو اور مقابلہ میں صبر کرو اور مقابلہ کے لیے مستعد رہو۔
چنانچہ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا اصل رباط ہے کہ جیسے وہاں تو کفار مقابلہ میں بیٹھے ہیں یہاں شیطان کے مقابلہ میں بیٹھے ہیں جو دین کا سب سے بڑا دشمن ہے اس لیے جیسی فضیلت و سعادت رباط میں ہے ویسی ہی فضیلت و سعادت نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی ہے اس حدیث میں چونکہ وضو کا ذکر آگیا ہے اس لیے اس کے متعلقات کا یہاں بیان کر دینا مناسب ہے۔
وضو میں چار چیزیں فرض ہیں (١) تمام منہ کا دھونا (٢) ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا (٣) چوتھائی سرکا مسح کرنا (٤) پاؤں کا ٹخنوں تک دھونا وضو میں پورے چہرے کا دھونا فرض ہے اور اسی میں ڈاڑھی بھی شامل ہے ، البتہ ڈاڑھی کی تعین میں تھوڑا بہت اختلاف ہے چنانچہ متون میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے فتاویٰ عالمگیری اور در مختار میں صحیح اور مفتی بہ قول یہ لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے اور لٹکی ہوئی کا دھونا فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے و اللہ تعالیٰ اعلم وضو میں سنت یہ چیزیں ہیں (١) ہاتھوں کا پہنچوں تک دھونا (٢) ابتدائے وضو میں بسم اللہ کہنا (٣) مسواک کرنا (٤) کلی کرنا (٥) ناک میں پانی دینا (٦) ڈاڑھی اور انگلیوں کا خلال کرنا (٧) ہر عضو کو تین بار دھونا (٩) اسی ترتیب سے وضو کرنا جس ترتیب سے قرآن میں مذکور ہے (١٠) تمام سرکا مسح کرنا (١١) اعضاء وضو کو پے در پے دھونا (١٢) سر کے پانی کے ساتھ ہی کانوں کا مسح کرنا (یعنی ہاتھ پر پانی ڈال کر جب سر پر مسح کیا جائے تو اسی ہاتھ سے کانوں کا مسح کیا جائے ، کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی کی ضرورت نہیں۔
وضو کے مستحبات یہ ہیں (١) اعضاء وضو کو دھونے کے لیے دائیں طرف سے شروع کرنا (مثلاً پہلے دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں ) (٢) گردن کا مسح کرنا (٣) وضو کے لیے قبلہ رخ بیٹھنا (٤) اعضاء کا (دھوتے وقت) پہلی بار ملنا (٥) غیر معذور کا وقت سے پہلے وضو کر لینا (٦) ڈھیلی انگوٹھی کو گھمانا پھرانا اسی طرح غسل میں قرظ یعنی بالی کو گھمانا پھرانا، لیکن اس کے بارہ میں اتنی بات یاد رکھ لینی چاہئے کہ اگر غسل اور وضو کے وقت ان چیزوں کے متعلق یہ خیال ہو کہ ان کے نیچے بدن پر پانی پہنچ رہا ہے تو پھر یہ عمل مستحب ہو گا اور یہ جانے کے پانی ان کے نیچے نہیں پہنچتا تو پھر ان کو ہلا لینا فرض ہو گا (٧) خود وضو کرنا مستحب ہے کسی دوسرے سے وضو نہ کرایا جائے (٨) وضو کے وقت کوئی دنیاوی گفتگو نہ کرنا چاہئے ہاں اگر کوئی مجبوری ہو کہ بغیر کلام و گفتگو کے مقصد اور حاجت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو کر سکتا ہے (٩) ہر عضو کو دھونے کے وقت اور مسح کرتے وقت بسم اللہ پڑھیے (۱۰) ان دعاؤں کا پڑھنا جو عضو کے دھونے کے وقت پڑھنے کے لئے منقول ہیں (۱۱) وضو مکمل کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجنا، مگر کتاب زیلعی میں لکھا ہے کہ ہر عضو کو دھونے کے بعد درود و سلام بھیجنا مستحب ہے (١٢) وضو کے بعد شہادتین اور وہ دعائیں جو حدیث میں وارد ہیں پڑھنا (آگے حدیث میں یہ دعائیں آ رہی ہیں ) (١٣) وضو کا بقیہ پانی قبلہ رخ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پینا (١٤) بھوؤں اور مونچھوں کے نیچے ، گوشۂ چشم پر اور پاؤں کے کونچوں پر پانی پہنچانے کے لیے تعاہد یعنی خبر گیری کرنا کہ یہ حصے خشک نہ رہ جائیں۔
مکروہات وضو یہ ہیں : (١) منہ پر زور سے پانی مارنا (٢) اسراف کرنا ضرورت اور حاجت سے زیادہ پانی بہانا (٣) اعضاء کو تین تین مرتبہ سے زیادہ دھونا (٤) نئے پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا۔
اور منہیات وضو یہ ہیں : (١) عورت کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا چاہئے (٢) نجس جگہ وضو نہ کرنا چاہئے تاکہ وضو کے پانی کی بے حرمتی نہ ہو (٣) مسجد میں وضو نہ کرنا چاہئے البتہ کسی برتن میں یا اس جگہ جو وضو کے لیے خاص طور پر مقرر ہے وضو کرنا درست ہے (٤) تھوک اور رینٹھ وغیرہ وضو کے پانی میں نہ ڈالنا چاہئے۔
٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کرے اور اچھی طرح کرے (یعنی اس کے سنن و مستحبات کی رعایت کے ساتھ) تو اس کے (صغیرہ) گناہ اس کے بدن سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بھی وضو کی فضیلت اور طہارت کی بڑائی بیان کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وضو کرنا درحقیقت اپنے گناہوں کو اپنے جسم سے دھونا ہے جو جتنا زیادہ جتنی اچھی طرح وضو کرے گا اس کے اتنے ہی گناہ ختم کر دئیے جائیں گے اور پھر بطور مبالغہ کے فرمایا گیا ہے کہ وضو کرنے والے کے ناخنوں کے نیچے کے گناہ بھی وضو کرنے سے نکل جاتے ہیں یعنی وضو کرنے کے بعد اس کو نہ صرف یہ کہ ظاہری پاکی اور طہارت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ گناہوں سے بھی خوب پاک ہو جاتا ہے ، یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے یہاں یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ تمہاری شیخی ناک کی راہ نکال دیں گے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی بندہ مسلمان یا فرمایا مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور اپنے منہ کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں (یعنی جو گناہ آنکھوں سے ہوئے ہیں جھڑ جاتے ہیں ) پھر جب دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ہاتھوں کے تمام گناہ جن کو اس کے ہاتھ نے پکڑا تھا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں (یعنی جو گناہ ہاتھ سے ہوئے جھڑ جاتے ہیں ) پھر جب وہ دونوں پاؤں کو دھوتا ہے تو اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف وہ پاؤں سے چلا تھا پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اچھی طرح وضو کرے اور نماز میں خشوع و خضوع کرے تو (اس کی یہ نماز) ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جو اس نے نماز سے پہلے کئے تھے ، بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ نہ ہوں اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے (یعنی وہ نماز جو گناہوں کا کفارہ ہے کسی زمانہ میں مخصوص نہیں ہے یہ فضیلت ہر زمانہ میں قائم رہتی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
نماز کی اصل روح خشوع اور خضوع ہے اس لیے کہ نماز ہی وہ عبادت ہے جو بندہ کی انتہائی بے چارگی اور اس کے عجز کو ظاہر کرتی ہے لہٰذا نماز کے اندر جتنا زیادہ خشوع و خضوع ہو گا اتنی ہی اعلیٰ درجہ تک رسائی ہو گی نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھے تو نماز کے جتنے ظاہری و باطنی آداب ہیں سب کو بجا لائے اور سب کی رعایت کرے تاکہ دل ترساں رہے جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو نہایت سکون کے ساتھ رہے نظر سجدہ کی جگہ پر ہو، سوائے نماز کے کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہو اپنا دھیان نماز ہی میں رکھے کسی دوسری طرف دھیان نہ بٹے ، بدن کپڑے اور ڈاڑھی وغیرہ سے کھیلے نہیں ، دائیں بائیں طرف دیکھے نہیں اور آنکھ نہ بند کرے ، یہ تمام چیزیں اگر نماز میں حاصل ہو جائیں تو پھر انشاء اللہ حضور قلب کی دولت بھی میسر آ جائے گی جو عند اللہ نماز کی مقبولیت کا سبب ہے۔
حدیث میں صرف رکوع کا ذکر کیا گیا ہے سجدہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رکوع صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی نماز میں مشروع ہے یہود و نصاریٰ کی نماز و عبادت میں علی العموم رکوع نہیں ہوتا اس لیے اس کو بیان کر کے اس کی امتیازی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے ، آخر میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسی نماز صرف صغیرہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوتی ہے اور صغیرہ گناہوں کو ختم کر دیتی ہے ، کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہیں ہوتی۔
٭٭حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ وضو کیا چنانچہ انہوں نے پہلے اپنے ہاتھوں میں تین مرتبہ پانی ڈالا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک جھاڑی (یعنی ناک میں پانی دینے کے بعد ناک سن کی پھر تین مرتبہ منہ دھویا، پھر تین مرتبہ اپنا داہنا ہاتھ کہنی تک دھویا (یعنی کہنی سمیت دھویا) پھر تین مرتبہ اپنا بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں پیر تین مرتبہ دھویا اور پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جس طرح اب میں نے وضو کیا ہے پھر فرمایا جو آدمی میرے اس وضو کی مانند وضو کرے (یعنی فرائض و سنن اور مستحبات و آداب کی رعایت کے ساتھ) پھر دو رکعت نماز پڑھے اور نماز کے اندر اپنے دل سے کچھ باتیں نہ کرے (یعنی پورے دھیان سے نماز پڑے تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اس روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔
تشریح
اعضاء وضو کا تین مرتبہ سے زائد دھونا تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پورے عضو تین مرتبہ دھو چکا ہے تو اب اس پر زیادتی نہ کرے یعنی تین بار سے زائد نہ دھوئے اگر ایسی شکل ہے کہ ایک چلو سے آدھا عضو دھویا اور پھر دوسرے چلو سے آدھا دھویا تو یہ ایک مرتبہ ہی کہلائے گا مثلاً اسی طرح کسی عضو کو چھ چلوں سے دھو کر تین بار کو پورا کیا تو یہ زیادتی نہ ہو گی بلکہ تین مرتبہ ہی ہو گا وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا انتہائی درجہ نہیں ہے بلکہ ادنیٰ درجہ ہے اگر زیادہ بھی پڑھے تو افضل ہے بہر حال یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وضو کے بعد نماز یعنی تحیۃ الوضو پڑھنی مستحب ہے اگر فرض یا سنت مؤکدہ ہی پڑھے تو یہ بھی کافی ہے۔
آخر حدیث میں اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ نماز میں حضور قلب اور خشوع و خضوع بہت زیادہ مطلوب ہے چنانچہ آخری جملہ کا یہ مطلب یہ ہے کہ جب نماز شروع کرے تو پھر اپنے دل کو نماز میں لگائے خیالات نماز سے باہر کہیں دوسری جگہ بھٹکنے نہ پائیں اور قلب میں دنیا کے خیالات او ایسے تفکرات کو جو نماز کے منافی ہیں جگہ نہ دے خیال اللہ ہی کی طرف لگائے رکھے اگر خطرات و وساوس دل میں آئیں تو ان کو دفع کر لے ہاں اگر دل میں ایسے خطرات پیدا ہوتے ہیں جو نماز میں حضور قلب کے منافی نہیں پھر کچھ مضر نہیں۔
٭٭اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عقبہ ابن عامر جنبی ہے کنیت میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ لوگ فرماتے ہیں کہ ابو حماد تھی بعض نے ابولبید، ابو عمر وغیرہ بھی کہا ہے مصر میں انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان وضو کرے اور اچھا وضو کرے پھر کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے دل اور منہ سے متوجہ ہو کر (یعنی ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہو کر) تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
فرمایا گیا ہے کہ جب اچھی طرح وضو کرے تو کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے تو یہ کھڑا ہونا یا حقیقۃً ہو یعنی واقعی کھڑا ہو کر نماز پڑھے یا کھڑا ہونا حکماً ہو مثلاً بیٹھ کر پڑھے خصوصاً جب اس کو کوئی عذر اور مجبوری ہو کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا یہ دونوں شکلیں مراد ہیں۔
٭٭اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں جو آدمی وضو کرے اور (اس کی خوبیوں ) کو انتہاء پر پہنچا دے یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ فرمائے کہ اور پورا وضو کرے پھر کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہٗ (یعنی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں اور ایک روایت میں ہے (کہ اس طرح کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہ، وَرَسُوْلُہٗ یعنی میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور شہادت دیتا ہوں اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں ، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس دروازے میں سے اس کا جی چا ہے جنت میں داخل ہو (مسلم ، حمیدی، جامع الاصول) اور امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی حدیث کے آخر میں جس کو ہم نے روایت کیا ہے کہ ذکر کیا ہے کہ جامع ترمذی نے (شہادتین پر اس دعا کے ) یہ الفاظ زیادہ لکھے ہیں اے اللہ ! مجھ کو توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر (یعنی مسلم کی روایت جس طرح ہم نے ذکر کی ہے وہی روایت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی شرح میں نقل کی ہے اور اس کے آخر میں رواہ الجامع ترمذی الخ کی عبارت بڑھا دی ہے ) اور وہ حدیث جس کو امام محی السنتہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے صحاح میں روایت کی ہے یعنی مَنْ تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ الخ (جس نے وضو کیا آخر تک) اس کو
امام ترمذی نے رحمۃ اللہ تعالیٰ اپنی جامع میں بعینہ اسی طرح نقل کیا ہے اَنَّ مُحَمَّداً سے پہلے اَشْھَدُ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تشریح
مراتب اور درجات کے اعتبار سے جنت کے آٹھ حصے ہیں چنانچہ اس حدیث میں آٹھوں دروازوں کا جو ذکر کیا گیا ہے ان سے حقیقۃً دروازے مراد نہیں بلکہ ان آٹھ حصوں کو ایک ہی اعتبار کیا ہے اور ہر ایک کو دروازے سے تعبیر کیا ہے کبھی ایک کو بھی بہشت فرماتے ہیں ، اس حساب سے ہشت بہشت بولتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی الخ یعنی اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں تو اس کی توفیق عنایت فرما کہ جب ہم سے کبھی بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور ہم سے کوئی لغزش ہو جائے تو ہم اس سے فوراً توبہ کر لیں اور اپنے عیوب سے رجوع کر لیں۔
اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سے گناہ زیادہ واقع ہوں بلکہ یہاں یہ مراد ہے کہ جب گناہ سرزد ہو جائے تو ہمارے دلوں میں توبہ کرنے کا داعیہ پیدا کر دے خواہ گناہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں تاکہ اس آیت کے مطابق تیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں کی جماعت میں شامل ہو سکیں۔
(اِنَّ اللّٰہ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَہرِيْنَ) 2۔ البقرۃ:222)
یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
یعنی اللہ اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو بارگاہ الوہیت سے منہ نہیں پھیرتے اور کسی موقعہ پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے دعا کے آخری جملہ اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں باطنی پاکیزگی کی دولت سے نواز دے اور ہمارے اندر جتنے برے اخلاق اور بد خصائل ہیں سب سے ہمیں پاک و صاف کر دے چنانچہ اس طرف اشارہ ہے کہ جسم اور اعضاء ظاہری کی طہارت و صفائی ہمارے اختیار میں تھی اس کو ہم نے پورا کر لیا، اب باطنی احوال کی طہارت اور اندرونی صفائی تیرے ہاتھوں میں ہے لہٰذا اپنے فضل و کرم سے باطنی پاکیزگی بھی عنایت فرما دے۔
(رباعی)
اے درخم چوگان تو دل ہم چو گوے :: بیروں نہ فرمان تو جاں یک سرموئے
اے ! کہ تیرے خم چوگان میں ہمارا دل ایک گیند کی طرح ہے ، ہم تیرے فرمان سے ایک موئے بدن بھی باہر نہیں ہیں۔
ظاہر کے بدست ماست شستیم تمام:: باطن کہ بدست تست آن راہ تو بشوئے
ظاہر جو ہمارے قبضہ میں تھا ہم اسے دھو چکے ہیں۔ باطن جو تیرے قبضہ میں ہے اسے تو ہی دھو سکتا ہے۔
آخر میں مشکوٰۃ کے مولف صاحب مصابیح پر ایک اعتراض فرما رہے ہیں ، اعتراض یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے جو حدیث فاحسن الوضو ثم قال اشھد ان لا الہ الا اللہ وحد لا شریک لہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین فتحت لہ ثمانیۃ ابواب الجنۃ یدخل من ایھا شاء کو صحاح میں نقل کیا ہے حالانکہ اس حدیث کو صحاح میں نقل کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے بلکہ یہ روایت جامع ترمذی کی ہے ، لہٰذا یہ روایت صحاح کے بجائے حسان میں نقل کرنی چاہئے تھی ، پھر دوسری بات یہ ہے کہ جامع ترمذی نے بھی اپنی روایت میں ان محمداً سے پہلے اشھد کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔
اتنی بات اور جان لینی چاہئے کہ جزری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے حصن حصین میں ابن ماجہ،ابن ابی شیبہ، اور ابن سنّی کے حوالہ سے شہادتین کے بعد لفظ ثلاث مرات کا ذکر کیا ہے ، یعنی شہادتیں تین مرتبہ پڑھنی چاہئے اور سنن نسائی و حاکم کی روایت میں اللھم اجعلنی الخ کے بعد یہ بھی منقول ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ لِہٰذَا اولیٰ اور بہتر ہے کہ جتنی دعائیں منقول ہیں وضو کے بعد سب ملا کر پڑھی جائیں نیز نہانے والے کے لیے بھی یہ دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز میری امت اس حال میں پکاری جائے گی کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں روشن ہوں گی اور اعضا چمکتے ہوں گے لہٰذا تم میں سے جو آدمی چا ہے کہ وہ اپنی پیشانی کی روشنی کو بڑھائے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسا ہی کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
غُرَّ جمع ہے اغر کی جس کے معنی ہیں سفید چہرہ اور محجل اس آدمی کو فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ پاؤں سفید ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز وضو کے اثر یہ تمام اعضاء روشن ہوں گے اور جب محشر میں نمازیوں کو جنت میں جانے کے لیے پکارا جائے گا تو وہ لوگوں کے درمیان سے اس طرح آئیں گے کہ ان کے اعضاء وضو روشن و چمک دار ہوں گے۔
آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جس آدمی کی خواہش ہو کہ قیامت کے روز اس کی پیشانی چمکدار اور اس کے اعضاء کی سفید دراز ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس عمل اور فعل کے کرنے میں پوری احتیاط سے کام لے جو اس سعادت کا سبب ہو گا یعنی وضو پوری رعایت سے کرے ، چہرہ کو پیشانی کے اوپر سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک خوب اچھی طرح دھوئے۔
تحجیل کی درازگی یہ ہے کہ پاؤں کو خوب اچھی طرح اور ٹخنوں کے اوپر تک دھوئے یہاں تحجیل کی درازگی کا ذکر نہیں فرمایا گیا ہے اس لیے کہ یہ دونوں یعنی غر اور محجل آپس میں لازم اور ملزوم ہیں جب ایک کی درازگی کا ذکر فرما دیا تو دوسرا خود بخود مفہوم ہو جائے گا۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (جنت میں ) مومن کو زیور (وہاں تک) پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ وضو کا پانی جن اعضاء پر پہنچتا ہے یعنی جو اعضاء وضو میں دھوئے جاتے ہیں جنت میں ان سب اعضاء کی زیورات سے زیب و زینت کی جائے گی، اسی طرح جس کا وضو جتنا زیادہ بہتر اور مکمل یعنی سنت کے مطابق ہو گا جنت میں اس کے اعضاء وضو کی آرائش اتنے ہی اعلیٰ پیمانہ پر ہو گی۔
٭٭حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی ثوبان ابن بجد ہے کنیت ابو عبد اللہ ہے بعض حضرات نے ابوعبدالرحمن بھی لکھی ہے آپ نے حمص میں ٥٤ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا سیدھے رہو اور سیدھے رہنے کی ہر گز طاقت نہ رکھ سکو گے ، اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین چیز نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔ (مالک، مسند احمد بن حنبل ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
سیدھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال پر مستقیم رہو اور ہمیشہ سیدھی راہ پر چلتے رہو، ادھر ادھر برے راستوں کی طرف میلان نہ کرو، اور چونکہ یہ امر مشکل تھا اس لیے آگے فرمایا کہ لن تحصوا یعنی پورے کمال اور رسوخ کے ساتھ تم استقامت اختیار نہیں کر سکتے اور جب یہ فرما دیا گیا کہ استقامت کی طاقت نہیں رکھ سکتے اور اعمال و افعال میں استقامت کے جو حقوق ہیں وہ پوری طرح ادا نہیں ہو سکتے تو آگے ایک نہایت آسان اور سہل راہ کی طرف راہنمائی کر دی گئی یعنی عبادت کی جڑ اور خلاصہ نماز پر آگاہ کر دیا کہ اگر صرف اسی ایک عمل اور ایک عبادت یعنی نماز میں استقامت اختیار کر لو گے تو تمام تقصیرات کا تدارک ہو جائے گا لہٰذا چاہئے کہ نماز پر مداومت اختیار کرو۔ اس کے جو شرائط و آداب ہوں ان کا خیال رکھو اور اس کے جو حقوق ہیں ان کو پوری طرح سے ادا کرو۔
بعد میں نماز کے مقدمہ اور شرط یعنی وضو اور طہارت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جس کو نصف ایمان کہا گیا ہے چنانچہ فرمایا گیا کہ وضو کی محافظت تو مومن کا خاصہ ہے اس لیے کہ وہ مومن کامل کا قلب و دماغ توجہ الیٰ اللہ کی شعاعوں سے ہر وقت منور رہتا ہے وہ اپنے قلب و بدن دونوں کے ساتھ یعنی ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ بارگاہ الوہیت میں حاضری بغیر ظاہر و باطن کی صفائی و پاکیزگی اور بدون طہارت کے آداب کے منافی چیز ہے اور شان عبودیت کے خلاف بھی ہے اس لیے مومن وضو کی محافظت کرتا ہے اور وضو کے جو آداب و شرائط اور سنن و مستحبات ہیں ان سب کی رعایت کرتا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کے اوپر وضو کرے تو اس کے واسطے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (جامع ترمذی)
تشریح
ایک تو مطلقاً وضو کرنے کا ثواب و اجر مقرر ہے وہ تو ملنا ہی ہے لیکن جو آدمی وضو پر وضو کرے تو اس کے واسطے اس مقررہ اجر و ثواب کے علاوہ مزید دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ اجر و ثواب اس وقت ملتا ہے جب کے پہلے وضو کے بعد فرض یا نقل نماز پڑھ چکا ہو، اور اس کے بعد پھر دوسرا وضو کرے۔
شرح السنۃ میں منقول ہے کہ تجدید و ضو اس وقت مستحب ہے جب کہ پہلے وضو سے کوئی نماز پڑھ چکا ہو اور بعض علماء کے نزدیک اگر پہلے وضو کے بعد نماز نہ پڑھی ہو تو وضو کرنا مکر وہ ہے۔
٭٭حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
جیسے کہ مقفّل دروازہ بغیر کنجی کے نہیں کھل سکتا اسی طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہو سکتی اور بغیر نماز کے جنت میں داخلہ نہیں ہو سکتا، اس حدیث میں محافظت نماز کی اہمیت کو بطور نمونہ بیان کیا گیا ہے ، کہ گویا نماز کا حکم ایمان میں ہے کہ بغیر اس کے جنت میں جانا میسر نہیں ہو گا لہٰذا چاہئے کہ نماز خوب اچھی طرح ادا کی جائے اور کبھی نماز ترک و قضا نہ کی جائے کیونکہ دخول جنت کا سبب یہی ہے۔
٭٭اور حضرت شبیب بن ابی روح رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک مرتبہ) صبح کی نماز پڑھی اور اس کے اندر سورہ روم کو پڑھا (اثناء نماز میں ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو متشابہ ہوا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ پڑھتے ہیں اور اچھی طرح وضو نہیں کرتے اور اس وجہ سے یہ لوگ ہم پر قرآن میں متشابہ ڈالتے ہیں۔ (سنن نسائی)
تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی عمل اور کسی عبادت کے جو سنن و آداب ہوتے ہیں وہ واجب کو کامل کرتے ہیں اور برکت کا سبب ہوتے ہیں ، اسی برکت کا اثر نہ صرف یہ کہ عامل ہی کی ذات تک محدود رہتا ہے ، بلکہ وہ برکت دوسروں میں بھی سرائیت کرتی ہے جیسے کہ کوتاہی اور قصور عامل کی ذات کے علاوہ دوسرے کے ضرر کا بھی باعث ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنن و آداب پر عمل نہ کرنے سے فتوحات غیبیہ کا دروازہ بند ہوتا ہے۔
یہ حدیث درحقیقت ان بے بصیرت لوگوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے جو صحبت کی تاثیر کے منکر اور اس سے غافل ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ سرکار دو عالم، سید الرسل صلی اللہ علیہ و سلم پر باوجود اس رتبہ کے اور قرآن پڑھنے کی حالت میں جو تقرب الی اللہ کا وقت ہے ایک ادنیٰ امتی کی صحبت نے اثر کیا جس سے وضو کے آداب و سنت میں کوئی کوتاہی یا قصور ہو گیا تھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرأت میں متشابہ لگا تو ایسے لوگوں کا کیا حشر ہو گا جو شب و روز اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت کو اختیار کئے رہتے ہیں۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں کہ اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت و ہم نشینی کو بالکل ترک کر کے علماء حق، صوفیائے کرام اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ ان کی ہم نشینی اور صحبت کے اثرات و برکات اپنے اندر پیدا ہوں جو دین و دنیا دونوں جگہ کی بھلائی کے لیے ضامن ہیں۔
ابتداء روایت میں راوی نے اس صحابی کا نام ذکر نہیں کیا ہے جس سے یہ حدیث حاصل کی گئی ہے مگر حضرت میرک شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ صحابی حضرت ابوذر غفاری ہیں۔
٭٭اور قبیلہ بنی سلیم کے ایک آدمی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے باتوں کو (جو آگے مذکور ہیں ) میری ہاتھ پر یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا (چنانچہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا (یعنی اس کا ثواب) آدھی ترازو بھر دیتا ہے اور الحمد اللہ (سبحان اللہ کے ساتھ) کہنا (یا فقط الحمدللہ کہنا ہی پوری ترازو کو بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے اور روزہ آدھا صبر ہے اور پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔ جامع ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے )
تشریح
حدیث کو بیان کرتے وقت راوی کو شک ہو گیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان باتوں کو میرے ہاتھ پر شمار کیا ہے یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا ہے بہر حال ان کو شمار اس طرح کیا کہ یا تو آپ نے صحابی کی انگلی پکڑی اور ان کو ہتھیلی پر بند کرے ان پانچ باتوں کو شمار کیا۔
حدیث میں روزے کو آدھا صبر فرمایا گیا ہے ، اس لیے کہ پورا صبر تو یہ ہے کہ نفس کو طاعت پر رو کے یعنی احکام کو بجا لائے اور گناہوں سے روکے یعنی ممنوع چیزوں کو نہ کرے اور روزہ نام ہے صرف نفس کو طاعت پر روکنے یعنی حکم الہٰی کو بجا لانے کا لہٰذا اس اعتبار سے روزہ آدھا صبر ہوا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ صنابحی (ان کے صحابی ہونے اور نام میں اختلاف ہے یحییٰ ابن معین کا قول تو یہی ہے کہ ان کا نام عبداللہ یا ابو عبداللہ بیان کیا جاتا ہے ) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں اور جب ناک جھاڑتا ہے تو گناہ اس کی ناک سے خارج ہو جاتے ہیں اور جب اپنا منہ دھوتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں ، اور جب اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو گناہ اس کے دونوں پاؤں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ، پھر مسجد کی طرف اس کا چلنا ہوتا ہے اور اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں ) زیادتی ہے۔ (مالک و سنن نسائی)
تشریح
جیسا کہ اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کرنے والا اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں پھر آگے فرمایا گیا ہے کہ یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اس جملہ سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ کان سر میں داخل ہیں بائیں طور کہ جو حکم سر کا ہو گا وہی حکم کان کا ہو گا چنانچہ حنفی مسلک یہی ہے اس لیے یہ مسئلہ ہے کہ جب مسح کے لیے پانی لیا جائے تو اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کر لیا جائے کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں ) زیادتی ہے یعنی جب یہ وضو سے فارغ ہوا تو گناہوں سے وضو کی وجہ سے پاک و صاف ہو چکا تھا، اب نماز زائد ہے جو بلندی درجات کا سبب ہو گی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مقبرہ (یعنی جنت البقیع) میں (دعاء مغفرت کے لیے ) تشریف لائے ، چنانچہ (وہاں پہنچ) کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اے مومنین کی جماعت! تم پر سلامتی ہو (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل قبور کو سلام کیا اور فرمایا) ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اور میں اس بات کی تمنا رکھتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میرے دوست ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی (دنیا میں ) نہیں آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم (قیامت میں کس طرح پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر کسی آدمی کے پاس سفید پیشانی اور سفید ہاتھ اور پیر والے گھوڑے ہوں اور وہ نہایت سیاہ گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو پہچان لے گا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا ہاں (یا رسول اللہ ! ان امتیازی اوصاف کی بنا پر تو وہ یقیناً پہچان لے گا) آپ نے فرمایا (وہ قیامت میں ) وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے (لہٰذا اس علامت سے میں انہیں پہچان لوں گا) اور میں حوض کوثر پر ان کا میر سامان ہوں گا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ان کے بعد ہونے والے مسلمانوں میں نہ صرف یہ کہ بڑا دلچسپ اور لطیف فرق بیان فرمایا ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو امتیازی شان بھی بخش دی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ تم میرے دوست ہو اور بعد میں پیدا ہونے والے مومنین میرے بھائی ہیں ، یعنی تمہارے ساتھ تعلقات کی دو نوعیتیں ہیں ایک تو یہ کہ تم میرے بھائی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ رفیق خاص بھی اور جو بعد میں آنے والے ہیں یعنی تابعین وغیرہ ان کے ساتھ ایک ہی تعلق ہے کہ وہ صرف میرے اسلامی بھائی ہیں۔
میر سامان کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے پہلے ہی اللہ کے یہاں جا کر ان کی مغفرت و بخشش اور بلندی اور درجات کے اسباب درست کروں گا۔
٭٭اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ کی اجازت دی جائے گی اور (پھر) ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ سے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی چنانچہ میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہو گی (یعنی مخلوق کا مجمع) اور میں امتوں کے درمیان اپنی امت کو پہچان لوں گا، پھر میں اپنے پیچھے کی طرف اسی طرح اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف (بھی) اس طرح دیکھوں گا (یعنی چاروں طرف اژدہام خلق دیکھوں گا اور میں اپنی امت کو پہچان لوں گا) ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! اپنی امت سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام کی امت تک کی تمام امتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو کیونکر پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری امت کے لوگ وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ہوں گے اس امت کے علاوہ کوئی دوسری امت اس طرح (امتیازی وصف کے ساتھ) نہیں ہو گی اور میں اپنی امت کو اس طرح بھی پہچان لوں گا کہ (میری امت کے لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے ، نیز اس وجہ سے شناخت کر لوں گا کہ ان کی (خورد سال) اولاد ان کے آگے دوڑتی ہو گی۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
محشر میں جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بارگاہ صمدیت میں حاضر ہوں گے تو شفاعت کے لیے سجدہ میں جائیں گے اور بمقدار ایک ہفتہ سجدہ میں رہیں گے پھر بعد میں بارگاہ الوہیت سے حکم ہو گا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! اپنا سر مبارک اٹھائیے اور اے میرے محبوب مانگئے کیا مانگتے ہیں؟ ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) درخواست کو شرف قبولیت بخشیں گے اس کے بعد شافع محشر، آقائے نامدار، سرور کائنات، فخر موجودات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ روحی) اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے لیے اپنی لسان مبارک سے بارگاہ خداوندی میں درخواست پیش فرمائیں گے ، حدیث کے ابتدائی حصہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔
اس حدیث میں میدان حشر میں امت محمدیہ کی کثرت و زیادتی اور ان کے مراتب میں تفاوت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے چنانچہ فانظر الی ما بین یدی (یعنی میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہو گی ایسے ہی عن شمالی مثل ذلک(یعنی اور بائیں طرف اس طرح دیکھوں گا) تک یہی مراد ہے کہ میرے چاروں طرف میری ہی امت پھیلی ہو گی اور پھر ان میں مختلف مراتب و درجات کے لوگ ہیں گے۔
صحابی رضی اللہ عنہ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک ایک بڑی لمبی مدت ہے اور ایک بڑا طویل زمانہ ہے اس دوران میں ایک دو نہیں بہت زیادہ امتیں گزری ہیں ، پھر تعداد شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بے انتہاء اللہ کی مخلوق اس زمانہ میں پیدا ہوئی اور مری ہے تو اتنے اژدہام اور اتنی امتیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو کس طرح پہچان لیں گے ، اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امتیازی صفت کا ذکر فرمایا جس سے امت محمد یہ کے افراد متصف ہوں گے اور تمام امتوں میں ممتاز ہوں گے۔
اس سلسلہ میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام بطور خاص لینے کی وجہ یہی ہے کہ اوّل تو اس زمانہ کا طول مراد ہے دوسرے چونکہ یہ تمام نبیوں میں بہت زیادہ مشہور ہیں اس لیے ان کا نام لیا۔
اس باب میں ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو وضو کو توڑتی ہیں چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے مسلک کے مطابق ان چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(١) پاخانہ اور پیشاب کے راستہ سے نکلنے والی ہر چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے پاخانہ، پیشاب اور ریاح وغیرہ مگر جو ہوا مرد یا عورت کے آگے کے سرے سے نکلتی ہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
(٢) اس چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جو نجس ہو (جیسے خون اور پیپ وغیرہ) اور بدن میں خود بخود نکل کر اس حصہ تک پہنچ جائے جس کو غسل یا وضو میں دھونا لازم ہو، یعنی اگر ناک کے بانسے اور آنکھ کے اندر رہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ان کا دھونا لازم نہیں ہے۔
(٣) قے کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے منہ بھر قے کرنے میں خواہ اناج نکلے ، پانی نکلے ، جما ہوا خون یعنی سودا نکلے ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اگر بلغم نکلے تو وضو نہیں ٹوٹتا، اگر پتلے خون یا پیپ کی قے ہو تو اس میں منہ بھرنے کی شرط نہیں بلکہ تھوک کے برابر ہو یا تھوک پر غالب ہو جائے تب بھی وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کم ہو گا تو نہیں ٹوٹے گا اگر ایک ہی متلی میں تھوڑی قے اتنی مقدار میں ہوئی کہ اگر اسے جمع کیا جائے تو منہ بھر جائے تو اس سے وضو جاتا ہے جس چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے وہ نجس نہیں ہوتی مثلاً تھوڑی سے قے کی یا بدن سے خون اس طرح نکلا کہ وہ جسم پر بہا نہیں تو یہ ناپاک نہیں ہے۔
(٤) وضو ٹوٹ جاتا ہے دیوانہ ہونے سے۔
(٥) نشے سے۔
(٦) بے ہوش ہو جانے سے۔
(٧) اور بالغ کے قہقہے سے اس نماز میں جو رکوع و سجود والی ہو۔
(٨) مباشرت فاحشہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، مباشرت فاحشہ اسے فرماتے ہیں کہ انتشار اور جنسی ہیجان کے ساتھ مرد کا ستر عورت کے ستر سے اور عورت کا ستر مرد کے ستر سے مل جائے یا دو عورتوں یا مردوں کے ستر مل جائیں۔
(٩) لیٹ کر اپنے بدن پر یا دیوار وغیرہ پر تکیہ لگا کر سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن یہ سونا اس طرح ہو کہ اگر تکیہ کی وہ چیز جس پر ٹیک لگا کر سویا ہوا ہے ہٹا لی جائے تو گر پڑے۔
(١٠) اگر اس طرح سو جائے کہ مقعد زمین سے اٹھ جائے یعنی پہلو پر یا کولھوں پر یا چت یا منہ کے بل، یا کولھے کو دیوار سے لگا کر یا پیٹ پاؤں پر لگا کر جھکا ہوا سو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کھڑا کھڑا سو جائے یا رکوع اور سجدہ کی حالت میں سو جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا مگر شرط یہ ہے کہ رکوع و سجود ہیئت مسنونہ پر ہوں ، اگر زخم میں کیڑے نکلیں یا گوشت کٹ کر گر جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
(١١) اگر جونک لگائی جائے اور وہ خون پی کی کر بھر گئی یا بڑی چیچری نے پیٹ بھر خون پیا تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
(١٢) اگر کسی کی آنکھ دکھنے آتی ہے اور آنسو نکلتے ہیں تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس سلسلہ میں اکثر لوگ غافل ہیں اس کا خیال نہیں کرتے اس لیے اس کا خیال رکھنا چاہئے ہاں اگر کوئی آدمی ایسا ہے جس کی آنکھیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں تو وہ صاحب عذر ہو جاتا ہے۔
(١٣) اگر کان دکھتا ہے اور اس سے پیپ یا کچھ لہو نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ان میں سے دو چیزیں یعنی پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے نکلنے والی چیزوں اور نیند پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ چیزیں ناقض وضو ہیں باقی چیزیں مختلف فیہ ہیں۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بے وضو کی نماز قبول نہیں کی جاتی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پانی رکھتا ہو اور اس کے استعمال کی قدرت بھی اس کے اندر ہو یعنی جس آدمی کے پاس پانی اور اس پانی کے استعمال کرنے میں اس کو کوئی عذر شرعی نہ ہو تو اس کو نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے اگر اس نے وضو نہیں کیا تو اس کی نماز ادا نہیں ہو گی۔
اگر کوئی آدمی پانی نہ پائے یا اس کے استعمال کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ بجائے وضو کے پاک و صاف مٹی سے تیمم کرے ایسا آدمی جو نہ تو پانی پائے اور نہ پاک و صاف مٹی ہی اسے ملے اور نہ وہ ان کے استعمال کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے آدمی کو اصطلاح شریعت میں فاقد الطھورین فرماتے ہیں اس آدمی کے بارہ میں یہ حکم ہے کہ وہ نماز نہ پڑھے ، ہاں جب پانی وغیرہ پائے تو وضو کر کے نماز پڑھے۔
اس مسئلہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا مسلک دوسرا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی یعنی فاقدا الطہورین کو چاہئے کہ اس شکل میں بھی وقت نماز کے احترام میں بغیر وضو اور تیمم ہی کے نماز پڑھ لے جب اسے پانی یا مٹی دستیاب ہو جائے تو وضو یا تیمم کر کے قضا کر لے۔
ہمارے علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی قصداً بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور پھر یہ کہ اس سے اس کا مقصد احترام وقت بھی نہ ہو تو یہ آدمی کافر ہو جاتا ہے ، یا اگر لوگوں کی شرم کی وجہ سے محض دکھلانے کے لیے بھی بغیر طہارت کے نماز پڑھے تو بھی کافر ہو جاتا ہے کیونکہ ان دونوں شکلوں میں اس نے شرع کی تحقیر کی ہے اس لیے ایسا آدمی جو اپنے قول سے یا فعل سے شریعت کی تحقیر کا سبب بنتا ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ دائرہ اسلام اور ایمان میں رہ سکے۔
٭٭اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بغیر طہارت نماز قبول نہیں کی جاتی اور مال حرام کی خیرات قبول نہیں کی جاتی۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حرام مال میں صدقہ خیرات کرنا چونکہ صدقہ و خیرات کی توہین و تحقیر ہے اس لیے اس کو بہت زیادہ قابل نفرت شمار کیا گیا ہے چنانچہ ہمارے علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو آدمی مال حرام میں سے صدقہ و خیرات کرتا ہے اور پھر اس کی امید بھی رکھتا کہ اس سے ثواب ملے گا تو کافر ہو جاتا ہے۔
(٣) وَعَنْ عَلِیٍّ صقَالَ کُنْتُ رَجُلاً مَذَّآئً فَکُنْتُ اَسْتَحْیِیْ اَنْ اَسْأَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و سلم لِمَکَانِ ابْنَتِہٖ فَاَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَہُ فَقَالَ ے َغْسِلُ ذَکَرَہُ وَے َتَوَضَّاُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میرے نکاح میں تھی اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا حکم دریافت کرتے ہوئے شرماتا تھا (کہ آیا اس سے غسل واجب ہوتا ہے یا وضو) اس لیے میں نے (اس مسئلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کرنے کے لیے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو مامور کیا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا (اس طرح سے کہ ایک آدمی ایسا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ) تو آپ نے فرمایا کہ (مذی نکلنے پر) پیشاب گاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ حدیث ایک اخلاقی معاملہ میں بڑی لطیف تنبیہ کر رہی ہے کہ داماد کو اپنے سسر سے شہوت کی باتوں کا ذکر کرنا، ایسی چیزوں کا تذکرہ کرنا جن کا تعلق مباشرت عورت سے ہو یا جن کا بیان اخلاق و تہذیب اور شرم و حیا کے منافی ہو مناسب نہیں۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس چیز کو آگ نے پکایا ہو اس کے کھانے کے بعد وضو کرو۔ (صحیح مسلم)
تشریح
امام محی السنتہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے منسوخ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
پہلے حکم کی منسوخی تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث سے ہو گئی لیکن اس سلسلہ میں اس حدیث کی ایک دوسری تاویل اور کی جاتی ہے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کی کہ آگ کی پکی ہوئی چیز کو کھانے کے بعد وضو کرو سے مراد یہ ہے کہ جب تم کوئی پکی ہوئی چیز کھاؤ تو چکنائی وغیرہ دور کرنے کے لیے ہاتھ منہ دھولیا کرو، کیونکہ نہ صرف یہ کہ نظافت و صفائی کا یہی تقاضا ہے بلکہ یہ سنت بھی ہے چنانچہ اسی کو وضو طعام بھی کہا جاتا ہے ، اس صورت میں حدیث کو منسوخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
٭٭اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی جابر بن سمرۃ اور کنیت ابوعبد اللہ عامری ہے سن وفات میں اختلاف ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ ٦٦ھ میں انہوں نے وفات پائی کچھ حضرات کی تحقیق ہے کہ ان کا سن وفات ٧٤ھ ہے۔) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا ہم بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تمہارا جی چا ہے تو وضو کرو اور نہ چا ہے تو نہ کرو پھر اس آدمی نے پوچھا کیا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرو پھر اس آدمی نے سوال کیا کیا بکریوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھ لوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! پھر اس آدمی نے دریافت کیا کیا اونٹوں کے بندھے کی جگہ نماز پڑھوں آپ نے فرمایا نہیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ چونکہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں اس لیے انہوں نے تو یہ حدیث دیکھ کر حکم لگا دیا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے کہ یہ حضرات اس حدیث کا محل وضو کے لغوی معنے ہاتھ منہ دھونے کو قرار دیتے ہیں یعنی یہ حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اونٹ کے گوشت میں بساندہ اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کو کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا چاہئے چونکہ بکری کے گوشت میں بساندھی اور چکنائی کم ہوتی ہے اس لیے اس کے بارے میں فرما دیا کہ اگر طبیعت چا ہے اور نظافت کا تقاضا ہو تو ہاتھ منہ دھو لیا کرو اور اگر طبیعت نہ چا ہے تو کوئی ضروری نہیں ہے۔
اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے منع فرمانا نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور منع اس لیے فرمایا کہ وہاں نماز پڑھنے میں سکون و اطمینان اور خاطر جمعی نہیں رہتی، اونٹوں کے بھاگ جانے یا لات مار دینے اور تکلیف پہنچانے کا خدشہ رہتا ہے بخلاف بکریوں کے چونکہ وہ بیچاری سیدھی سادی اور بے ضرر ہوتی ہیں اس لیے ان کے رہنے کی جگہ نماز پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔
اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ نماز پڑھنے کے سلسلہ میں یہ جواز او عدم جواز اس صورت میں ہے جب کہ مرابض (بکریوں کے رہنے کی جگہ) اور مبارک (اونٹوں کے بندھنے کی جگہ) نجاست و گندگی سے خالی ہوں اگر وہاں نجاست ہو گی تو پھر مرابض میں بھی نماز پڑھنی مکروہ ہو گی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ کے اندر کچھ پائے (یعنی قراقر) اور اس پر یہ بات مشتبہ ہو کہ کوئی چیز خارج ہوئی یا نہیں تو اس وقت تک وضو کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے جب تک آواز کو نہ سنے یا بو نہ پائے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
جب تک کوئی آواز نہ سنے یا بو نہ پائے یہ غالب کے اعتبار سے ہے ورنہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جب ریاح کا خارج ہونا یقینی طور پر معلوم ہو جائے خواہ آواز سنے یا نہ سنے بو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو تو سمجھ لے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دودھ پیا (اس کے بعد) کلی کی اور فرمایا دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چکنی چیز کھانے کی بعد کلی کرنا مستحب ہے ، اس لیے کہ اگر کلی نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ جو چیز کھائی گئی چکناہٹ کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ منہ میں لگا رہ جائے ، جب نماز پڑھی جائے تو حالت نماز میں پیٹ میں پہنچ جائے اس پر ہر اس چیز کو قیاس کیا جاتا ہے جو منہ میں لگی ہو اور حالت نماز میں اس کے پیٹ میں پہنچ جانے کا خوف ہو تو اس سے بھی کلی کرنا مستحب ہے۔
اس حدیث سے علماء کرام نے مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے صفائی اور ستھرائی کے لیے ہاتھوں کو دھو لینا چاہئے ، ہاں اگر ہاتھ پہلے سے صاف ستھرے ہیں اور نجاست و میل نہیں لگی ہے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے ، اسی طرح کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھوں کو دھونا چاہئے اگر کھانا خشک ہونے کی وجہ سے یا چمچہ وغیرہ سے کھانے کی وجہ سے ہاتھ میں کچھ نہ لگے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
آخر میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بظاہر تو اس باب سے اس حدیث کی کچھ ماسبت نظر نہیں آتی ہے اس لیے یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مصنف مشکوٰۃ نے اس حدیث کو اس باب میں کیوں ذکر کیا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں کلی کا ذکر کیا گیا ہے وہ متعلقات وضو سے ہے اس لیے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی بریدہ بن حصیب ہے ان کی کنیت جو مشہور ہے وہ ابو عبداللہ ہے ، یہ مدینہ کے باشندہ تھے مقام مرد میں یزید بن معاویہ ٦٣ھ میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں (یعنی ایک ہی وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں ) اور موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے آج وہ چیز کی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! میں نے ایسا قصداً کیا ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پہلے تو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا معمول یہ تھا کہ ہر نماز لیے تازہ وضو کرتے تھے ، مگر آج آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے خلاف معمول ایک وقت وضو کر لیا پھر اسی وضو سے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پانچوں نمازیں ادا فرمائیں اور پھر ایک نئی چیز کی کہ موزوں پر مسح بھی فرمایا حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔
اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ میرا عمل کسی دوسری وجہ سے نہیں بلکہ میں نے قصداً کیا ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ دونوں صورتیں بھی جائز ہیں اور دوسرے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
٭٭اور حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حضرت سوید ابن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے آپ کا شمار اہل مدینہ میں ہے۔) راوی ہیں کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ خیبر (کے فتح) کے سال سفر پر گئے جب صہباء کے مقام پر پہنچے جو خیبر کے نزدیک ہے ، عصر کی نماز پڑھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے توشہ (زاد راہ) منگوایا، چنانچہ ستو کے علاوہ کچھ نہ تھا جو حاضر کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے اس کو گھولا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور ہم نے اس کو کھایا اور پھر مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کلی کی اور ہم نے بھی کلی کی اور وضو نہیں کیا۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس حدیث نے اس مسئلہ کی وضاحت کر دی کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کو کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ستو کھایا جو آگ ہی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد صرف کلی کر کے مغرب کی نماز پڑھ لی اور وضو نہیں کیا۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وضو کرنا آواز با بو سے واجب ہوتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ وضو شک سے نہیں ٹوٹتا، جب تک یقین نہ ہو جائے وضو باقی رہتا ہے یعنی پیٹ میں اگر محض قراقر ہو تو اس شبہ سے کہ شاید ریاح کا اخراج ہو گیا ہو وضو نہیں ٹوٹے گا ہاں جب آواز کے نکلنے یا بو سے یقین ہو جائے کہ ریاح خارج ہو گئی ہے تو جب وضو ٹوٹ جائے گا۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ میں نے (حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطہ سے ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے مذی کے بارہ میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مذی نکلنے سے وضو لازم آتا ہے اور منیٰ نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی)
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز کی کنجی وضو ہے نماز کی تحریم تکبیر (یعنی اللہ اکبر کہنا) ہے اور نماز کی تحلیل سلام پھیرنا۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، ودارمی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابی سعید سے روایت کیا ہے )
تشریح
تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھانا پینا اور جتنے کام نماز کے منافی ہیں اب سب حرام ہو گئے ہیں اور سلام پھیرنے سے نماز ختم ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز شروع کر دینے سے جتنی چیزیں حرام کر لی گئی تھی ں اب وہ سب حلال ہو گئیں ہیں اسی کو فرمایا گیا ہے کہ نماز کی تحریم تکبیر اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے۔
٭٭اور حضرت علی بن طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی حدث کرے (یعنی بغیر آواز کے ہوا خارج ہو) تو اسے وضو کرنا چاہئے اور تم عورتوں سے (خلاف فطرت) ان کی مقعد (یعنی پاخانہ کی جگہ) میں جماع نہ کرو۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد)
٭٭اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنیت ابوعبدالرحمن اور والد کا نام ابوسفیان ہے۔ آپ کاتب وحی ہیں ٦٠ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا آنکھیں سرین کا سر بند ہیں چنانچہ آنکھ سو جاتی ہے تو سر بند کھل جاتا ہے۔ (دارمی)
تشریح
جب انسان جاگتا رہتا ہے تو گویا اس کے مقعد پر بند لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے ہوا خارج نہیں ہوتی بلکہ رکی رہتی ہے اور اگر خارج ہوتی ہے تو اس کا احساس ہوتا ہے جب سو جاتا ہے تو چونکہ وہ بے اختیار ہو جاتا ہے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو ہوا کے خارج ہونے کا گمان رہتا ہے جس کا اسے یقینی احساس نہیں ہو سکتا اسی لیے نیند کو ناقض وضو کہا جاتا ہے۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سرین کا سر بند آنکھیں ہیں لہٰذا جو آدمی سو جائے اسے چاہئے کہ وضو کرے۔ (ابوداؤد)
اور حضرت امام محی السنۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حکم اسی آدمی کے واسطے ہے جو بیٹھا نہ ہو (بلکہ لیٹ کر سویا ہو) اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب عشاء کی نماز بیٹھے ہوئے ) انتظار کیا کرتے تھے یہاں تک کے نیند کے سبب سے ان کے سر جھک جاتے تھے ، اسی حالت میں وہ اٹھ کر نماز پڑھ لیتے تھے وضو نہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) مگر جامع ترمذی نے اپنی روایت میں یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءَ حَتَّی تَخْفِقَ رُؤُوْسُھُمْ کے بجائے لفظ ینامون ذکر کیا ہے۔
تشریح
حضرت امام محی السنۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کا حکم سونے والوں کے بارہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے آدمی کے بارہ میں ہے جو لیٹ کر سو جائے ، کیونکہ لیٹ کر سونے سے تمام اعضاء ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور اپنے اوپر پوری طرح اختیار نہیں رہتا اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس حالت میں ریاح خارج ہو جائے اور اس کا احساس بھی نہ ہو۔
ہاں جو آدمی لیٹ کر نہیں بلکہ بیٹھا بیٹھا اس طرح سو جائے اس کی مقعد زمین پر رکھی رہے اور پھر جب وہ جاگے تو مقعد اسی طرح زمین پر ٹھیری ہوئی ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا چا ہے وہ جتنا بھی سوئے ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیٹھے ہوئے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، بیٹھنے کی اقسام فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں ، جن کو قیاس یا دیگر احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وضو اس آدمی پر لازم ہوتا ہے جو لیٹ کر سو جائے اس لیے کہ جس وقت آدمی لیٹتا ہے تو اس کے (بدن کے جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں ) اور پھر ہوا خارج ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
حضرت میرک شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حدیث منکر ہے کیونکہ اس کے راویوں میں ایک راوی یزید دالانی بھی ہے جو کہ کثیر الخطاء اور فاحش الوہم اور ثقات کے مخالف ہے۔
٭٭حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو آدمی اپنے ذکر (عضو خاص) کو ہاتھ لگائے تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔ (مالک، ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، دارمی)
تشریح
پیشاب گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے میں اختلاف ہے ، بلکہ اس مسئلہ میں خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف تھا چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے ذکر کو ننگی ہتھیلی سے چھو دیا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، ان کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذکر کو چھو دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل ما بعد کی حدیث ہے جو قیس بن علی کی روایت کے ساتھ جسے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے ، مسند ابی حنیفہ میں مذکور ہے اس کے علاوہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ کی دلیل میں اور بہت سی حدیثیں وارد ہیں اس سلسلہ میں مزید تشفی کے لیے شرح ملا علی قاری اور مشکوٰۃ کا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں یعنی بسرہ کی یہ حدیث جو شوافع کی دلیل ہے اور طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جو آگے آ رہی ہے اور حنیفہ کی دلیل ہے ، درجہ حسن سے باہر نہیں ہیں لیکن حضرت طلق ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کو حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث پر ترجیح ہو گی اس لیے کہ حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عورت اور حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد ہیں اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کی حدیث قوی ہوتی ہے کیونکہ وہ عورت کی نسبت علم اور حدیث کو خوب اچھی طرح یاد رکھتے ہیں اور ان کی قوت حافظہ عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔
٭٭اور حضرت طلق بن علی المرتضیٰ) اسم گرامی طلق بن علی اور کنیت ابو علی ہے ان کی حدیثیں ان کے بیٹے قیس سے مروی ہیں۔ (فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ وضو کرنے کے بعد اگر کوئی آدمی اپنے ذکر کو چھوئے (تو کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بھی تو آدمی کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ابو داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے امام محی السنۃ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لیے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کے بعد اسلام لائے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث منقول ہے کہ جب تم میں سے کسی کا ہاتھ اپنے ذکر پر پہنچ جائے اور ہاتھ و ذکر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو تو اس کو چاہئے وضو کرے۔ (شافع دار قطنی اور سنن نسائی نے بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ روایت نقل کی ہے جس میں لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیئٌ کے الفاظ مذکور ہیں۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن کے گوشت کے دیگر ٹکڑے مثلاً ہاتھ پاؤں کان ناک وغیرہ ہیں اسی طرح ذکر بھی بندہ کے گوشت ہی کا ایک ٹکڑا ہے اور جب ان دوسرے ٹکڑوں اور حصوں کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پھر ذکر کے چھو جانے سے کیوں وضو ٹوٹے گا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مس ذکر ناقص وضو نہیں ہے۔
امام محی السنہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کا قول در اصل حضرات شوافع کی ترجمانی ہے اس کا مطب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ و طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بہت بعد اسلام لائے ہیں ، کیونکہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے فوراً بعد جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن ٧ھ میں غزوہ خبیر کے موقع پر اسلام لائے ہیں اس لیے حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیث سننا پہلے ہوا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سننا بعد میں ہوا ہو گا، لہٰذا حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ناسخ ہوئی۔
حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت طلق کے اسلام لانے کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث سنی بھی بعد میں ہو شوافعہ کا یہ دعویٰ تو جب صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ثابت ہو کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے ہی حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتقال فرما چکے تھے یا یہ کہ اپنے وطن کو چلے گئے تھے کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھی کبھی حاضر نہیں ہوئے ، اس لیے کہ اگر حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے انتقال فرما جاتے ہیں یا اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتے تو پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد کچھ نہیں سن سکتے تھے مگر اب تو یہ ممکن ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ہی سنی ہو لہٰذا شوافع کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔
حضرت مظہر نے ایک اچھی اور فیصلہ کن بات کہہ دی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہو گیا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو ہے اور حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث مس ذکر کو ناقض وضو نہیں کہتی لہٰذا اس تعارض کی شکل میں ہمیں چاہئے کہ ہم دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی طرف رجوع کریں چنانچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت ابودرداء حضرت حذیفہ اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال ثابت ہیں کہ ذکر چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حنفیہ ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے ، و اللہ اعلم بالصواب۔
٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے تھے اور بغیر وضو کے (پہلے ہی وضو سے ) نماز پڑھ لیتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ابن ماجہ) جامع ترمذی نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کے نزدیک کسی حال میں عروہ کی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نیز ابراہیم تیمی کی بھی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح نہیں ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لیے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نہیں سنا ہے۔
تشریح
اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام مسند احمد بن حنبل کے نزدیک غیر محرم عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹا جاتا ہے ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ غیر محرم عورت کو اگر شہوت کے ساتھ چھوئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں ٹوٹے گا ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک دوسری حدیث بھی جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب رات میں تہجد پڑھنے کے لیے بیدار ہوتے تو میں سوتی رہتی اور میرے دونوں پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کی جگہ پڑھے رہتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کے وقت میرے پیروں میں ٹھونکا دیتے تھے تو میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی لہٰذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، امام جامع ترمذی کا یہ کہنا عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں ہے بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں (صحیح البخاری و صحیح مسلم) میں اکثر احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سماع ثابت ہے معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے میں مصنف مشکوٰۃ سے کچھ چوک ہو گئی ہے کیونکہ جامع ترمذی کے اس قول کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا جو مصنف مشکوٰۃ نے اخذ کیا ہے۔
ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ کہنا کہ یہ حدیث یعنی مرسل کی ایک قسم منقطع) ہے دراصل حنفیہ کی اس دلیل کو کمزور کرتی ہے کہ جب یہ حدیث مرسل ہے تو حنفیہ کا اس کو اپنی دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک حدیث مرسل بھی حجت ہوتی ہے اور نہ صرف ہمارے نزدیک بلکہ جمہور علماء بھی مرسل حدیث کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں ، لہٰذا اس حدیث کو مرسل کہہ کر اسے ناقابل استدلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔
٭ز اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے بکری کا شانہ (یعنی بکری بریاں کے شانہ کا گوشت) کھایا، پھر اپنا ہاتھ ٹاٹ سے پونچھ لیا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نیچے بچھا ہوتا تھا اور پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھ لی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث نے بھی حنفیہ کے اس مسلک کی توثیق کر دی ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے بعد اگر منہ پر چکنائی وغیرہ لگے تو اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک بھنا ہوا پہلو لے گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے کھایا پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور وضو نہیں کیا (نہ ہاتھ منہ دھویا۔ (مسند احمد بن حنبل)
٭٭حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس بات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے بکری کا پیٹ (یعنی کے اندر کی چیزیں مثلاً دل کلیجی وغیرہ) بھونتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اس میں سے کھاتے ) پھر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور وضو نہ کرتے۔ (صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری بھیجی گئی، چنانچہ میں نے اس (کے گوشت) کو (پکانے کے لیے ) ہانڈی میں ڈال دیا (اسی اثناء میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور فرمایا ابورافع یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا (یا رسول اللہ ! بکری کا گوشت ہے جو میرے پاس ہدیہ کے طور پر آیا تھا اسی کو میں نے ہانڈی میں پکا لیا ہے آپ نے فرمایا ابورافع! ایک دست دو ! میں نے دست خدمت اقدس میں پیش کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دوسرا دست دو میں نے دوسرا دست بھی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا ایک دست اور دو میں عرض کیا یا رسول اللہ ! بکری کے تو دو ہی دست ہوتے ہیں (اور وہ دونوں ہی آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں اب کہاں سے لاؤں ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا ابورافع! اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دئیے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا اور منہ دھویا (یعنی کلی کی) پھر انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہوئے اور پھر نماز پڑھ کر ابورافع کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے نزدیک ٹھنڈا گوشت دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے کھایا اس کے بعد مسجد تشریف لے گئے اور (شکرانہ) کی نماز پڑھی اور اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے مگر ثم دعا بماء سے آخر تک ذکر نہیں کیا ہے۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دست کا گوشت بہت زیادہ مرغوب تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دست کا گوشت زیادہ قوت بخش ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے پسند فرماتے تھے تاکہ جسمانی طاقت و قوت زیادہ حاصل ہو جس کی وجہ عبادت خداوندی بخوبی ادا ہو سکے۔
ارشاد اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دیئے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم چپ رہتے اور میں جس طرح مانگتا جا رہا تھا تم اسی طرح اٹھا (اٹھا کر دیتے رہتے تو تم دیکھ لیتے کی خداوند کریم اپنی قدرت سے معجزہ کے طور پر بے حد و بے حساب دست مہیا فرماتا، لیکن چونکہ تمہاری نظر صرف ظاہر پر تھی اور تم نے یہ سوچ کر کہ بکری کے صرف دو ہی دست ہوتے ہیں اب کہاں سے لا کر دوں گا اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اور جب تم نے خود ہی ہاتھ کھینچ لیا اور یہ جواب دے دیا تو ادھر سے بھی امداد غیبی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واقعی سب دست ختم ہو گئے یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہو سکتا ہے کہ جب باری تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش کی تکمیل کی خاطر غیبی طور پر بکری کے دست کا انتظام کیا جا رہا تھا تو محض ابو رافع کے جواب دے دینے سے وہ سلسلہ رک کیوں گیا اور پھر دست ظاہر کیوں نہیں فرمائے گئے۔ جواب یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی جانب سے تمام اعزاز و کرامات اور فضل و عنایات محض خالص نیت اور توجہ الی اللہ کی بناء پر ہوتی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی توجہ الی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضوری قلب میں ابو رافع کے جواب سے کچھ فرق آگیا ہو اس لیے آپ ان کے جواب کے رد کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ، چنانچہ ادھر سے بھی ہاتھ روک لیا گیا اور دست ختم ہو گئے۔
٭٭اور حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ، ابی بن کعب اور ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیٹھے ہوئے تھے ، ہم نے گوشت روٹی کھائی (کھانے سے فارغ ہو کر) میں نے وضو کے لیے پانی منگوایا ابی بن کعب اور طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا تم وضو کیوں کرتے ہو میں نے کہا اس کھانے کی وجہ سے جو میں نے ابھی کھایا ہے ان دونوں نے کہا کیا تم پاک چیزوں کے کھانے سے وضو کرتے ہو ان چیزوں کو کھا کر اس آدمی نے وضو نہیں کیا جو تم سے بہتر ہیں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم)۔ (مسند احمد بن حنبل)
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مرد کا اپنی عورت سے بوسہ لینا یا اس کو اپنے ہاتھ سے چھونا یہ بھی ملامست ہے اور جس آدمی نے اپنی عورت کا بوسہ لیا یا اس کو ہاتھ سے چھوا تو اس پر وضو واجب ہے۔ (مالک، شافعی)
تشریح
قرآن مجید میں جس جگہ ان چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو وضو کو توڑنے والی ہیں انہیں ایک چیز ناقض وضو یہ بھی بتائی گئی ہے کہ
اَوْلَمَسْتُمُ النِّسَآءَ۔ یعنی تم عورت سے ملامست کرو۔
ملامست کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ اور اس کا محل کیا ہے؟ اسی میں اختلاف ہو رہا ہے ، امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو یہ فرماتے ہیں کہ ملامست کے معنی عورت کو ہاتھ لگانا ہے ، تو گویا اس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت کو محض ہاتھ لگانے کے بعد اگر کسی آدمی کا وضو ہے تو وہ ٹوٹ جائے گا لہٰذا اگر وہ نماز پڑھنا چا ہے تو اس کو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہو گا۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد کا مفہوم بھی یہی ہے جو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تصدیق کر رہا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرما رہے ہیں کہ عورت کو صرف ہاتھ لگانا، یا عورت کا بوسہ لینا ملامست میں داخل ہے جس کو قرآن میں ناقض وضو فرمایا گیا ہے۔
ہمارے امام صاحب ملامست کے معنی قرار دیتے ہیں جماع اور ہمبستری یعنی قرآن میں ملامست عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے اور جسے ناقض وضو کہا گیا ہے اس سے جماع اور ہمبستری مراد ہے۔ امام اعظم نے اپنے اس مسلک کی تصدیق میں دلائل کا ایک ذخیرہ جمع کر دیا ہے جو فقہ کی کتابوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔
٭٭اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مرد کو اپنی عورت کا بوسہ لینے سے وضو لازم آتا ہے۔ (مؤطا امام مالک)
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا کہ بوسہ لینا لمس میں داخل ہے (جو قرآن میں مذکور ہے ) لہٰذا بوسہ لینے کے بعد وضو کیا کرو۔
تشریح
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔
ہمارے امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چونکہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے ان روایتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اوّل تو یہ تمام روایتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر موقوف ہیں یعنی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال ہیں اس لیے ان کا حکم حدیث مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد جیسا نہیں ہو سکتا دوسرے ان کے نزدیک یہ روایتیں درجہ صحت کو بھی نہیں پہنچی ہوئی ہیں۔
پھر اس سے قطع نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث موجود ہے جو پہلے ذکر کی گئی اور جس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کیا ہے کہ اس سے بصراحت یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس کے علاوہ مسندابی حنیفہ میں ایک دوسری حدیث مذکور ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضوء یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضو یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا گویا اس حدیث نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ عورت کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کو ناقض وضو کہا گیا ہے۔ و اللہ اعلم۔
٭٭حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (امیر المومنین حضرت عمر ابن عبدالعزیز اموی رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور خلیفہ ہیں اور رجب ١٠١ھ میں اس جہاں فانی سے رحلت فرما گئے۔) تمیم داری (اسم گرامی تمیم بن اوس الداری ہے ٩ھ میں مشرف باسلام ہوئے ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد شام میں ان کی وفات ہوئی۔) سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے کہ ان دونوں روایتوں کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ ہی انہیں دیکھا ہے نیز اس روایت کے دو راوی یزید ابن خالد اور یزید ابن محمد مجہول ہیں۔
تشریح
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے یعنی اگر بدن کے کسی بھی حصہ سے خون نکلا اور نکل کر اس حصہ تک بہہ گیا جس کا دھونا وضو اور غسل میں ضروری ہوتا ہے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا چنانچہ یہ حدیث امام صاحب کے مسلک کی دلیل ہے ، امام صاحب کے علاوہ دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر خون، پیشاب یا پاخانہ کے راستہ سے نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نکلا تو نہیں ٹوٹے گا۔
حضرت دار قطنی اس حدیث میں کلام فرما رہے ہیں ، ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے اس لیے حدیث مرسل ہے ، نیز اس حدیث کے دو راوی یزید بن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول میں گویا ان کا مقصد اس کلام سے یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ کلام ہواس کو امام صاحب کا اپنے مسلک کی دلیل بنانا کوئی وزنی بات نہیں ہے۔
ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدیث مرسل نہ صرف یہ کہ ہمارے ہی نزدیک بلکہ جمہور علماء کے نزدیک بھی دلیل اور حجت بن سکتی ہے اسی طرح یزید ابن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول ہونے میں بھی اختلاف ہے بعض حضرات نے تو انہیں مجہول قرار دیا ہے جیسا کہ دارقطنی فرما رہے ہیں مگر بعض حضرات نے انہیں مجہول نہیں کہا ہے اس سے قطع نظر امام صاحب کی اصل دلیل تو یہ حدیث ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے
مَنْ قَاءَ اَوْرَعُفُ اَوْ اَمْذَی فِی صَلٰوتِہٖ فَلْیَنْصَرِفْ وَلْیَتَوَضَّأ وَلْیَبْنِ عَلَی صَلٰوتِہٖ مَالَمْ یَتَکَلَّمْ۔ (کذافی الھدایہ)
اگر کسی آدمی نے اپنی نماز میں قے کی یا اس کی نکسیر پھوٹی یا مذی نکلی تو اس کو چاہئے کہ وہ نماز سے نکل کر آئے اور پھر وضو کرے اور جب تک کہ کلام نہ کرے اسی نماز پر بناء کرے۔
نیز ابوداؤد میں بھی اس مضمون کی حدیث منقول ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ بدن کے کسی دوسرے حصہ سے بھی خون نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
آداب ان چیزوں کو کہتے ہیں کہ جس کا ذکر کرنا اچھا اور بہتر ہو وہ چیزیں خواہ عمل سے تعلق رکھتی ہوں خواہ قول سے چنانچہ اس بات میں ان احادیث کو ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق استنجاء کے آداب سے ہے یعنی ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء کے سلسلے میں ممنوع و مکر وہ ہیں اور ان چیزوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء میں مطلوب و مستحب ہیں۔
٭٭ حضرت ابو ایوب انصاری (اسم گرامی خالد ابن زید ہے اور کنیت ابو ایوب ہے ٥٠ھ یا ٥١ھ میں ان کا انتقال ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم بیت الخلاء جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرو بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت رکھو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) حضرت امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ یہ جنگل کا حکم ہے ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی ضرورت سے حفصہ کے مکان پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو (بیت الخلاء میں ) قضاء حاجت کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث میں جہت اور سمت کا جو تعین فرمایا گیا ہے وہ اہل مدینہ کے اعتبار سے یا ان لوگوں کے لیے جو اسی سمت رہتے ہیں اس لیے کہ مدینہ میں قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے اس لیے ان کو تو مشرق اور مغرب ہی کی طرف منہ اور پشت کرنی ہو گی، ہمارے ملک والوں کے لیے یا ان ممالک کے لیے جو اس سمت میں واقع ہیں ان کو مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت نہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے اعتبار سے قبلہ مغرب کی طرف پڑتا ہے۔
بہر حال۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ، ہمارے امام صاحب تو فرماتے ہیں کہ پیشاب، پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف نہ منہ کرنا چاہئے خواہ جنگل ہو یا آبادی و گھر ہو، اگر کرے گا تو مرتکب حرام ہو گا۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا جنگل میں تو حرام ہے آبادی و گھر میں حرام نہیں ہے۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل پہلی حدیث ہے جو ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اس حدیث میں قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم مطلقاً ہے اس میں جنگل و آبادی و گھر کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا جو حکم جنگل کا ہو گا وہی حکم آبادی کا بھی ہو گا یہ حدیث نہ صرف یہ کہ حضرت ابو ایوب ہی سے منقول ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد اس کی روایت کرتی ہے۔
پھر امام صاحب کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم قبلہ کی تعظیم و احترام کے پیش نظر دیا ہے لہٰذا جس طرح جنگل میں تعظیم قبلہ ملحوظ رہے گا اسی طرح آبادی و گھر میں بھی احترام قبلہ کا لحاظ ضروری ہو گا جیسا کہ قبلہ کی طرف تھوکنا اور پاؤں پھیلانا ہر جگہ منع ہے۔
امام محی السنۃ نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو حدیث روایت کی ہے وہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پشت کرنا گھر میں جائز ہے۔
ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اول تو یہ ہو سکتا ہے کہ عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گھر میں بیت الخلاء کے اندر قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے اس حکم کے نفاذ سے پہلے دیکھا ہو گا، لہٰذا یہ حکم پہلے کے لیے ناسخ ہے ، پھر دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے نہیں بیٹھے ہوں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس انداز سے گھوم کر بیٹھے ہوں گے کہ حقیقت میں قبلہ کی طرف پشت نہ ہو گی اور ظاہر ہے کہ موقع کے نزاکت کے پیش نظر عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں کھڑے ہو کر بغور تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا نہیں ہو گا، بلکہ جب یہ چھت پر چڑھے تو ان کی نظر اچانک ادھر بیت الخلاء کی طرف اٹھ گئی ہو گی اس لیے اس میں سرسری طور پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نشست کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے اس حدیث کے بارے میں جب یہ احتمال بھی نکل سکتا ہے تو پھر حضرت شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے مسلک کی دلیل کے لیے اس کا سہارا لینا کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
٭٭اور حضرت سلمان (اسم گرامی سلمان فارسی اور کنیت ابوعبد اللہ ہے۔ ان کی وفات ٣٥ھ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری زمانہ میں ہوئی ہے بعض لوگوں نے کہا کہ٣٦ھ کے اوائل میں ہوئی ہے۔) فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں منع کیا ہے اس سے کہ ہم پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں اور اس سے کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم تین ڈھیلوں سے کم استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم گوبر یا ہڈی سے استنجاء کریں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ہمارے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا مکروہ تنزیہی ہے گویا پہلی نہی تو تحریمی ہے او دوسری تنزیہی ہے۔
اتنی بات جان لینی چاہئے کہ استنجاء کرنے کے وقت پیشاب گاہ کو دایاں ہاتھ نہ لگانا چاہئے بلکہ طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ڈھیلا بائیں ہاتھ میں لے کر اس پر پیشاب گاہ کو رکھ لے مگر دائیں ہاتھ سے پکڑ کر نہ رکھے کیونکہ یہ بھی مکروہ ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین ڈھیلوں سے استنجاء کرنا واجب ہے مگر ہمارے امام صاحب فرماتے ہیں کہ استنجاء کے لیے تین ڈھیلے لینا شرط نہیں ہے اگر تین سے کم ہی میں پاکی حاصل ہو جائے تو یہ بھی کافی ہے ان کی دلیل صحیح البخاری کی یہ حدیث ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پاخانہ کیلئے تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ تین ڈھیلے لاؤ مجھے ڈھیلے تو دو ہی ملے اس لیے میں اس کے ساتھ گوبر کا ایک ٹکڑا بھی لایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں ڈھیلے تو لے لیے اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ میں داخل ہوتے (یعنی داخل ہونے کا ارادہ کرتے ) تو یہ دعا پڑھتے اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ناپاک جنوں اور جنیوں (یعنی نرما و مادہ دونوں سے )۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
آداب پاخانہ میں سے یہ ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لیے بیت الخلاء میں جائے تو اندر داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لینی چاہئے ، اگر پاخانہ کے لیے جنگل میں جائے تو عین ارادہ کے وقت یعنی دامن وغیرہ سمیٹ کر بیٹھنے لگے اس وقت یہ دعا پڑھ لے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کی پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (انھیں دیکھ کر) فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں پر عذاب نازل ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی چیز پر نہیں نازل ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہو) ان میں ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کو بیچ سے آدھوں آدھ چیرا انہیں ایک ایک کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (یہ دیکھ کر) پوچھا یا رسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید (اس عمل سے ) ان کے عذاب میں (اس وقت تک کے لیے ) کچھ تخفیف ہو جائے جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مسلم کے الفاظ کی مناسبت سے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پہلا آدمی جس پر اس کی قبر میں عذاب نازل ہو رہا تھا وہ تھا جو پیشاب سے بچتا نہیں تھا یعنی پیشاب کرتے وقت اس بات کی احتیاط نہیں کرتا تھا کہ چھینٹیں اس کے اوپر نہیں پڑتیں ایک دوسری روایت میں لا یستبراء کے الفاظ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی پیشاب سے پاکی طلب نہیں کرتا تھا نیز ایک روایت میں لا یستنتر کے الفاظ مذکور ہیں استنا کے معنی آتے ہیں عضو تناسل کو زور سے جھاڑنا یا کھنچنا تاکہ پیشاب کے جو قطرے اندر رہ گئے ہوں وہ نکل جائیں اس طرح معنی یہ ہوں گے وہ آدمی پیشاب گاہ کو اچھی طرح جھاڑ کر پیشاب کے قطروں کو نکالتا نہ تھا۔
بہر حال ان تمام الفاظ کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے ، مطلب سب کا یہی ہے کہ وہ پیشاب سے پاکی اور صفائی حاصل نہیں کرتا تھا اور چونکہ پیشاب سے پاکی حاصل نہ کرنا گناہ کبیرہ اور نماز کے بطلان کا سبب ہے اس لیے اسے اللہ کی جانب سے عذاب میں گرفتار کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک خاص بات ضروری ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ غلط اور گمراہ کن خیال پیدا ہو گیا ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ڈھیلے سے پیشاب خشک کرتے تھے اس لیے ہر آدمی کو چاہئے کہ پیشاب کے بعد ڈھیلے کا استعمال نہ کرے ، یہ انتہائی گمراہی اور کم عقلی کی بات ہے ، اگر کسی آدمی کا مزاج ہی اتنا قوی اور مضبوط ہو، نیز اسے اس بات کا یقین ہو کہ پیشاب سے فارغ ہو جانے کے بعد قطرے نہیں آئیں گے تو البتہ اس کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ صرف پانی سے استنجاء کر لے ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لیے ضروری نہیں ہو گا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لیے ضروری نہیں ہو گا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال نہ کرے صرف پانی سے پاک کرے گا تو اس کے پائجامہ اور کپڑا وغیرہ گندا اور ناپاک ہو گا، جہاں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا سوال ہے تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مزاج مبارک مضبوط اور قویٰ انتہائی طاقتور تھے اس لیے آپ ڈھیلے کا استعمال نہیں فرماتے تھے صرف پانی ہی سے استنجاء پاک کر لیتے تھے۔
پھر دوسرے یہ کہ وہ فعل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خود ثابت نہ ہو مگر اس کا کرنا کسی نہ کسی وجہ سے مطلوب اور ضروری ہو تو اسے یہ کہہ کر نا قابل اعتناء قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ فعل چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے اس لیے ہم بھی اسے نہیں کرتے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فصد نہیں کرائی ہے اب اگر کسی دوسرے کو فصد کی حاجت ہو اور وہ یہ کہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فصد نہیں کرائی ہے اس لیے میں فصد نہیں کراتا تو ظاہر ہے کہ یہ بات اسی کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
بہر حال مقصد یہ ہے کہ نظر شارع کی غرض پر ہونی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ شارع کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ طہارت ہے جس کی ہمیں تاکید کی گئی ہے اس لیے ہمیں تو طہارت حاصل کرنی چاہئے خواہ وہ کسی طرح حاصل ہو پانی سے حاصل ہو یا ڈھیلے سے اس قسم کے بیہودہ احتمالات نکال کر اور غلط حیلہ و بہانہ کر کے اپنے کپڑوں کو گندہ کرنا اور نجاست میں اپنے آپ کو ملوث کرنا اور پھر اسی طرح نماز پڑھنا انتہائی غلط اور گمراہی کی بات ہے ، پیشاب سے بچنے اور اس سے احتیاط کرنے کی کتنی اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہو سکتا ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عذاب قبر اکثر پیشاب کی بناء پر ہوتا ہے (اس لیے ) پیشاب سے پاکی حاصل کرو۔
یا اسی طرح فرمایا پیشاب سے پرہیز کرو اس لیے کہ وہ اس چیز کا اول ہے جس کی وجہ سے بندہ قبر میں حساب (کی سختی) میں گرفتار ہو گا (طبرانی) پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ صحابی کا فعل حجت ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو بھی لازم پکڑو۔
چنانچہ حضرت عمر کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مصنف ابن ابی شیبہ میں منقول ہے کہ
ابوبکر عن یسار، بن نمیر کان عمر اذا بال مسح زکرہ بحائط او حجرلم یمسہ ماء۔
حضرت عمر فاروق جب پیشاب کرتے تھے تو اپنا عضو تناسل دیوار پر یا پتھر پر پھیر تے تھے اور اس پر پانی لگاتے بھی نہیں تھے۔
نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ پر کہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے اہل سنت کا اتفاق و اجماع ہے ، و اللہ علم تمیمۃ کے معنی ہیں سخن چینی، یعنی کوئی آدمی ایسے دو آدمیوں کی بات جن میں آپس میں دشمنی ہو ایک دوسرے تک فساد پھیلانے کے لیے پہنچائے یا کوئی آدمی دو آدمیوں میں دشمنی پیدا کرائے اس طرح کہ ایک کی بات دوسرے کے پاس قسم اور گالی وغیرہ اس انداز سے نقل کرے جس سے اشتغال پیدا ہو۔
امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نمیمہ کہ معنی یہ ہیں کہ کسی کی گفتگو کسی دوسرے آدمی سے ضرر پہنچانے کے لیے نقل کی جائے بہر حال آج کل عرف عام ہے جسے چغل خوری فرماتے ہیں وہی معنی نمیمہ کے ہیں چغل خوری چونکہ انسانی اور اخلاقی نقطہ نظر سے انتہائی بدترین اور کمینی خصلت ہے اور اس لیے اسلام بھی چغل خور کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور چغل خوری کو ایک بدتر برائی قرار دیتا ہے چنانچہ صحیحین میں منقول ہے کہ جنت میں چغل خور داخل نہیں ہو گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کعب احبار سے جو ایک بڑے یہودی عالم تھے اور بعد میں اسلام لائے ، پوچھا کہ تم نے توریت میں سے سب سے بڑا گناہ کون سا پڑھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ چغل خوری۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کہ اس کا گناہ قتل کے گناہ سے بھی زیادہ ہیبت ناک ہے ! انہوں نے کہا قتل بھی چغل خوری ہی سے ہوتے ہیں اور دوسری برائیاں بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔
حدیث کے آخر میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کی ترشاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ان دونوں قبروں پر گاڑ دیا اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی اس وقت کے لیے ان کے عذاب میں شاید کچھ تخفیف ہو جائے تو عذاب کے تخفیف کا سبب علماء یہ لکھتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہیں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت اسے برداشت نہ کر سکی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بارگاہ الوہیت میں ان کے لیے رحم و کرم کی درخواست کی، ادھر غفور الرحیم نے بھی اپنے حبیب کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا اور فیصلہ صادر فرمایا دیا کہ جب تک ان پر گاڑی ہوئی شاخیں خشک نہ ہوں اس وقت تک ان دونوں پر عذاب میں کمی کر دی جائے۔
چنانچہ اس کی وضاحت بھی ایک دوسری روایت میں موجود ہے جسے مسلم نے نقل کیا ہے اس کے آخری الفاظ یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری شفاعت قبول فرما لی ہے کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی یہ عذاب میں گرفتار نہیں رہیں گے۔
بہرحال بظاہر تو اس کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے جس کی تصدیق بھی مسلم کی اس روایت سے ہو جاتی ہے ، ویسے علماء نے اس کے علاوہ بھی بہت سے اسباب لکھے ہیں جو دیگر کتابوں اور شروح میں وضاحت کے ساتھ منقول ہیں چنانچہ کرمانی کا قول ہے کہ تخفیف عذاب کا سبب وہ تر شاخ تھی کہ اس کے اندر رفع عذاب کی خاصیت تھی مگر یہ خاصیت اس کی بنفسہ نہیں تھی بلکہ یہ خاصیت اسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کی برکت کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء اور صلحاء اور اللہ کے نیک بندوں کو چاہئے کہ وہ قبور پر جایا کریں تاکہ ان کی وجہ سے اہل قبور کے عذاب میں تخفیف ہو کیونکہ صالحین کا قبروں پر جانا مردوں کے عذاب میں تخفیف کا باعث ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں صحابہ نے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک تو یہ ہے کہ کوئی آدمی لوگوں کے راستہ میں پاخانہ کرے ، دوسرے یہ کہ کوئی آدمی لوگوں کے سایہ کے نیچے پاخانہ کرے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
علماء کرام نے اس ارشاد کی یہ وضاحت کی ہے کہ راستہ سے مراد شاہراہ ہے یعنی ایسا راستہ اور ایسی سڑک وغیرہ جس پر لوگ اکثر چلتے پھرتے ہوں یہاں وہ راستہ مراد نہیں ہے جو ویران پڑا رہتا ہو یا کبھی کبھی اس پر کوئی اکا دکا آدمی چلتا پھرتا ہو۔
سایہ مراد وہ سایہ دار درخت ہے یا سائبان ہے جس کے نیچے لوگ اٹھتے بیٹھے ہوں ، یا وہ لوگوں کے سونے کی جگہ ہو بہر حال ان دونوں جگہوں پر پاخانہ کر کے گندگی اور غلاظت پھیلانے سے منع کیا جا رہا ہے ، اس لیے کہ اس سے اللہ کی مخلوق کی ایذاء رسانی کا سامان ہوتا ہے اور لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک مومن و مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی دوسرے آدمی کی تکلیف و پریشانی کا سبب بنے۔
٭٭اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حارث بن ربعی ہے انصاری اور خزرجی ہیں آپ اپنی کنیت ابوقتادہ سے مشہور ہیں۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی پانی پیئے تو (پانی پینے کے ) برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانہ میں جائے تو داہنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں دو ادب بتائے جا رہے ہیں پہلی چیز تو یہ بتائی جا رہی ہے کہ جب کوئی آدمی پانی پئے تو اسے چاہئے کہ وہ پانی پینے کے دوران اسی برتن میں سانس نہ لے جس میں وہ پانی پی رہا ہے جب اسے سانس لینا ہو تو برتن کو منہ سے جدا کر دے تاکہ منہ یا ناک سے کوئی چیز نکل کر پانی میں نہ گر پڑے۔
دوسرے چیز یہ بتائی جا رہی ہے کہ جو کوئی آدمی پاخانہ جائے تو اسے چاہئے کہ وہ داہنے ہاتھ سے نہ تو اپنے عضو مخصوص کو چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجا کرے ، اس لیے کہ داہنے ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جاتا ہے اور یہ چیز صفائی اور پاکیزگی کے خلاف ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جائے اسی ہاتھ سے ایسے اعضاء کو چھوا جائے جس سے گندگی اور غلاظت لگتی ہو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ناک کو بھی جھاڑ دے اور جو آدمی (پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے ) استنجاء کرے اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے لے (یعنی تین، یا پانچ، یا سات۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ کے لیے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا (یعنی حضرت بلال یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پانی کی چھاگل اور ایک برچھی لیتے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم(ڈھلیوں سے صفائی کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب آپ پاخانہ کے لیے تشریف لے جاتے تو ایک خادم پانی کا برتن اٹھاتے اور دوسرے خادم ایک برچھی ساتھ لے کر چلتے ، برچھی اس لیے ساتھ لے جاتے کہ اس سے زمین کو کھود کر نرم کر دیا جائے تاکہ پیشاب اس میں کریں جس کی وجہ سے چھینٹیں نہ پڑیں یا زمین پر بہہ کر پاؤں وغیرہ میں لگنے کا خدشہ نہ رہے۔
دوسری غرض یہ ہوتی تھی کہ بوقت ضرورت اس سے ڈھیلے اکھاڑے اور توڑے جا سکیں یا پھر یہ کہ وقت پر کوئی دوسری ضرورت پیش آئے جس میں اس کی ضرورت پڑے تو اس میں کام آ سکے۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب بیت الخلاء تشریف لے جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیا کرتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، اور ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے نیز ان کی روایت لفظ نزع کے بجائے لفظ وضع ہے۔
تشریح
بیت الخلاء میں داخل ہونے کے وقت آپ انگوٹھی اس لیے اتار دیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی میں محمد رسول اللہ کھدا ہوا تھا، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ استنجاء کرنے والے پر واجب ہے کہ جب وہ بیت الخلاء جائے تو اپنے ہمراہ کوئی ایسی چیز نہ لے جائے جس پر اللہ اور اس کے رسول کا نام نقش ہو نیز قرآن بھی نہ لے جائے۔ (طیبی)
بلکہ ابہری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر صرف دوسرے رسولوں ہی کا نام لکھا ہوا ہو تو اسے بھی اپنے ہمراہ بیت الخلاء میں نہ لے جائے ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی استنجاء کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے بدن سے ایسی چیزوں کو اتار دے یا الگ کر دے جن پر کوئی قابل تعظیم چیز لکھی ہو، خواہ اللہ تعالیٰ کا نام ہو یا نبی اور فرشتے کا نام لکھا ہو۔
اگرچہ اس حدیث میں سنن ابوداؤد نے کلام کیا ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے اس سلسلہ میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل بحث کی ہے ، نیز یہ حدیث جامع صغیر میں بھی حاکم وغیرہ سے منقول ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ کے لیے (جنگل میں ) جانے کا ارادہ کرتے تو (اتنی دور) تشریف لے جاتے کہ آپ کو کوئی نہ دیکھتا۔ (ابوداؤد)
٭٭اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشاب کرنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دیوار کی جڑ میں (یعنی اس کے قریب) نرم زمین پر پہنچے اور پیشاب کیا ، پھر پیشاب سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ پیشاب کے لیے نرم زمین تلاش کرے تاکہ چھینٹیں نہ پڑیں۔(ابوداؤد)
تشریح
خطابی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس دیوار کے پاس بیٹھ کر پیشاب کیا وہ دیوار کسی کی ملکیت میں نہیں ہو گی اس لیے کہ دیوار کی جڑ میں پیشاب کرنا دیوار کے نقصان کا سبب ہوتا ہے کیونکہ دیوار کی مٹی کو شورا لگ جاتا ہے اس لیے یہ مسئلہ ہے کہ جو دیوار کسی کی ملکیت میں ہو اس کے نیچے بیٹھ کے مالک کی اجازت کے بغیر پیشاب نہیں کرنا چاہئے اب اس میں وسعت ہے کہ اجازت خواہ حقیقۃً ہو یا حکماً۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب استنجاء کا ارادہ فرماتے تو جب (بیٹھنے کے لیے ) زمین سے قریب نہ ہو جاتے کپڑا نہ اٹھاتے تھے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد ، دارمی)
تشریح
یہ بھی استنجاء کے ادب اور شرم و حیا کا تقاضہ ہے کہ بغیر ضرورت ستر نہ کھولے اور ظاہر ہے کہ ضرورت جب ہی پڑتی ہے جب کہ استنجاء کے لیے بیٹھنے کے وقت زمین کے بالکل قریب ہو جائے چنانچہ رسول اللہ و صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھنے کے وقت زمین سے بالکل متصل نہ ہو جاتے کپڑا اوپر نہ اٹھاتے تھے۔
چنانچہ یہ مسئلہ ہے کہ بیٹھنے سے پہلے یعنی کھڑے ہی کھڑے ستر کا کھول دینا جائز نہیں ہے ، خواہ گھر کے بیت الخلاء کے اندر پاخانہ کرنا ہو یا جنگل میں کرنا ہو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (تعلیم و نصیحت کے سلسلہ میں ) تمہارے لیے ایسا ہی ہوں جیسے باپ بیٹے کے لیے ہوتا ہے ، چنانچہ میں سکھاتا ہوں کہ جب تم پاخانہ میں جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ تو منہ کرو اور نہ پشت کرو (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (پاخانہ کے بعد) تین ڈھلیوں سے استنجاء کرنے کا حکم فرمایا اور لید (یعنی تمام نجاستوں ) اور ہڈی سے استنجاء کرنے کو منع فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔ (ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
اس حدیث سے جہاں اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ امور دین اور نصیحت کے سلسلہ میں اپنی امت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کتنا شغف اور تعلق تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ کو باپ اور امت کو اولاد کی مثل قرار دیا، وہیں حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کو باپ کی اطاعت کرنی لازم ہے اور باپ پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ان چیزوں کے آداب سکھائیں جو ضروریات دین سے ہیں۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا داہنا دست مبارک وضو کرنے اور کھانے کے لیے تھا اور بایاں ہاتھ استنجاء اور ہر مکروہ کام کے استعمال کے لیے تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائیں ہاتھ سے وضو کرتے تھے اور اس سے کھانا بھی کھاتے نیز جتنے اچھے کام ہیں سب دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے مثلاً یہ، صدقہ و خیرات کرنا یا دوسری چیزیں لینا دینا وغیرہ وغیرہ اور بائیں ہاتھ کو استنجاء کرنے یا ایسی چیزوں کی انجام دہی میں استعمال فرماتے جو مکروہ ہوتیں یعنی ایسی چیزیں جو طبعاً مکروہ ہوں ، جیسے ناک سنکنی یا ایسے ہی دوسری چیزیں جنہیں نفس مکروہ سمجھتا ہو۔
اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وضو وغیرہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ناک میں پانی دائیں ہاتھ سے دیتے ہوں گے اور ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرتے ہوں گے ، مگر۔ افسوس کہ جس طرح آج کے دور میں عقل و دین سے بیگانہ لوگوں نے دوسری اسلامی چیزوں کو ترک کر دیا اور دینی آداب کو فیشن پرستی کے بھینٹ چڑھا دیا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی اکثر لوگ بالکل برعکس عمل اختیار کئے ہوئے ہیں مثلاً آج کل یہ بہت بڑا مرض عام طور پر لوگوں میں سرایت کر چکا ہے کہ کتاب تو لوگ بائیں ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اپنے جوتے دائیں ہاتھ میں اٹھاتے ہیں اب اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ یا تو ایسے لوگ آداب شریعت سے قطعاً نا واقف ہوتے ہیں یا پھر نفس کی گمراہی میں پھنس کر غفلت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ تین پتھر (یا ڈھیلے ) لے جائے جو کافی ہوں گے (یعنی پانی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی)
تشریح
اصل مقصد تو نجاست سے پاکی حاصل کرنا ہے ، اور جب تین ڈھیلے سے استنجاء کرے گا اور نجاست صاف کرے گا تو پانی سے استنجاء کی حاجت نہیں رہے گی کیونکہ اصل طہارت اس سے حاصل ہو جائے گی جس سے نماز پڑھنی بھی جائز ہو جائے گی، البتہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی سے بھی استنجاء کر لے تو یہ اچھی بات ہو گئی کیونکہ پانی سے استنجاء کرنا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ (ہڈی) تمہارے بھائی جنات کی غذا ہے۔ (جامع ترمذی سنن نسائی مگر سنن نسائی نے زاد اخو انکم من الجن کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں )
تشریح
جس طرح شریعت محمدی کے مخاطب انسان ہیں اسی طرح جنات بھی ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح انسانوں کی دنیوی اور دینی رہبری فرماتے ہیں اسی طرح جنات کی دینی و دنیوی امور کی بھی رعایت فرماتے ہیں چنانچہ اس حدیث کے ذریعہ انسانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی تو جنات کی غذا ہے اور لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔
٭٭اور حضرت رویفع بن ثابت (رویفع بن ثابت بن سکن بن عدی بن حارثہ بنی مالک نجار سے ہیں ان کا شمار اہل مصر میں ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے رویفع! شاید میرے بعد تمہاری زندگی دراز ہو، لہٰذا تم لوگوں کو خبردار کرنا کہ جس آدمی نے اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگائی یا (گلے میں ) تانت کا ہار ڈالا یا جانور کی نجاست (لید اور گوبر وغیرہ) اور ہڈی سے استنجاء کیا تو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اس سے بیزار ہیں۔ (ابوداؤد)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت رویفع کو اس انداز سے مخاطب کرنے کا یہ معنی ہیں کہ شاید میرے انتقال کی بعد تمہاری زندگی دراز ہو اور تم دوسرے لوگوں کو گناہ کرتے اور رسوم جاہلیت میں انہیں مبتلا دیکھو تو ان باتوں سے انہیں خبردار کر دینا ڈاڑھی میں گرہ لگانے کے کئی معنی ہیں ، چنانچہ اکثر علماء یہ لکھتے ہیں کہ ڈاڑھی میں گرہ لگانا یہ ہے کہ کوئی آدمی تدابیر اور تکلّف اختیار کر کے مثلاً گرہ وغیرہ لگا کر ڈاڑھی کے بالوں کو گھنگر یالے بنائے چنانچہ ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ، اس سے سنت کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے کے ڈاڑھی کے بالوں کو سیدھا چھوڑنا سنت ہے۔
بعض علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ جنگ کے وقت اپنی ڈاڑھی کے بالوں میں گرہ دے لیتے تھے چنانچہ اس سے منع فرمایا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔
کچھ علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اہل عجم کی بھی عادت تھی کہ وہ اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگا لیتے تھے اس لیے اس سے منع فرمایا کیونکہ اس سے خلقت الہٰی میں تغیر لازم آتا ہے۔ (و اللہ اعلم)
لفظ وتر کے بھی کئی معنی ہیں ، یا تو اس کے معنی دورے کے ہیں جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگ دفع نظر اور آفات نظر سے محافظت کی خاطر تعویذ اور گنڈے وغیرہ باندھ کر بچوں اور گھوڑوں کے گلوں میں ڈال دیتے تھے ، اس منع فرمایا گیا ہے ، بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس سے ڈورے مراد ہیں جن میں کفار گھنٹی اور گھنگرو باندھ کر لٹکاتے تھے یا اس سے کمان کے وہ چلے مراد ہیں جو گھوڑے کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں تاکہ نظر نہ لگے ، بہر حال، ان تمام رسموں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے کافروں کی مشابہت ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کافروں کی مشابہت سے بیزار ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کفار کی ایسی چھوٹی چھوٹی رسمیں اختیار کرنا گناہ کبیرہ میں شامل نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیزاری و ناراضگی کا سبب ہے ، تو کفر کی وہ بڑی بڑی رسمیں جن میں بد قسمتی سے آج مسلمان مبتلا ہیں اور جن کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے ان سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو کتنی زیادہ نفرت ہو گی اور ان رسموں کے کرنے والوں کا اللہ کے یہاں کیا انجام ہو گا؟
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی سرمہ لگائے تو اسے چاہئے کہ طاق سلائیاں لگائے جس نے ایسا کیا (یعنی طاق سلائیاں لگائیں ) اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا تو کچھ گناہ نہیں ! اور جو آدمی استنجاء کرے تو اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے استعمال کرے (یعنی تین پانچ یا سات) جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھا گناہ نہیں ! اور جو آدمی کچھ کھائے جو چیز خلال میں نکلے تو اسے چاہئے کہ پھینک دے اور جو چیز زبان سے نکلے تو اسے چاہئے کہ نگل لے ، جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھ گناہ نہیں اور جو آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو اسے چاہئے کہ پردہ کرے ، اگر کوئی چیز پردہ کی نہ ملے تو (کم از کم) ریت کو جمع کر کے اس کا تودہ اپنے پیچھے کر لے اس لیے کہ شیطان بنی آدم (انسان) کے پاخانہ کے مقام پر کھیلتا ہے جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
طاق سلائیوں سے سرمہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگائے ، زیادہ بہتر یہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بھی ایسا ہی معمول منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے آپ سرمہ اس طرح لگاتے تھے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگاتے اور تین سلائی دوسری آنکھ میں لگاتے۔
بعضوں نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ تین سلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے ، نیز کچھ حضرات نے کہا ہے کہ پہلے دو سلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے اور اس کے بعد پھر ایک سلائی دائیں آنکھ میں لگائے تاکہ ابتدا بھی دائیں آنکھ سے ہو اور اختتام بھی دائیں ہی آنکھ پر ہو، جو آدمی طاق سلائی لگائے گا اس کے لیے بہتر اور اچھا ہو گا، اور جو آدمی طاق سلائی نہ لگائے گا اس میں کوئی حرج اور گناہ بھی نہیں ہے کیونکہ طاق سلائی لگانا مستحب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے طاق ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نہ ایسا نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں ، اس سے حنفیہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ تین یا طاق ڈھیلے لینے واجب نہیں ہیں اس سے کم اور زیادہ بھی لیے جا سکتے ہیں البتہ طاق ڈھیلے لینا مستحب ہے ، کھانا کھانے کے بعد خلال سے نکالی ہوئی چیز کو منہ سے پھینک دینے کو بہتر قرار دیا جا رہا ہے اور زبان سے نکالی ہوئی چیز کو نگل لینے کے لیے کہا جا رہا ہے اس لیے کہ تنکے سے خلال کرنے میں اکثر خون بھی نکل آتا ہے اس لیے احتیاطاً اس کو پھینک دینا ہی بہتر ہے زبان سے چونکہ خون نکلنے کا احتمال نہیں ہوتا اس لیے اس کو نگل لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مگر اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جو فرمایا کہ جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں تو یہ حکم اسی صورت میں ہو گا جب کہ خون نکلنے کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو اگر خون نکلنے کا یقین ہو تو پھر خلال میں ہر طرح کی نکلی ہوئی چیز کا نگلنا حرام ہوا، اس کا پھینک دینا واجب ہو گا۔
آخر حدیث میں فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو پاخانہ کے وقت اسے پردہ کر کے بیٹھنا چاہئے یعنی ایسی جگہ بیٹھے جہاں لوگ نہ دیکھ سکیں اگر پردہ کے لیے کچھ نہ پائے بایں طور کے نہ تو ایسی جگہ ہے جو گھری ہوئی اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہو اور نہ اپنے پاس ایسا کوئی کپڑا یا یا کوئی دوسری چیز ہے جس سے پردہ کیا جا سکے تو اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ ریت کا تودہ جمع کر لے اور اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے اس طرح کسی نہ کسی حد تک پردہ ہو جائے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی پاخانہ کے وقت پردہ کا لحاظ نہیں کرتا تو شیطان اس کے پاخانہ کے مقام سے کھیلتا ہے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس آدمی کے ستر کو دیکھیں جو بے پردہ بیٹھا ہوا پاخانہ کر رہا ہے ، نیز یہ کہ اگر پردہ نہ کیا جائے تو اس کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ جب ہوا چلے تو اس کی وجہ سے ناپاک چھینٹیں اڑ کر بدن اور کپڑے پر پڑیں گی اس لیے پاخانہ کے وقت پردہ کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
اس کے بارہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی پردہ کا لحاظ کرے تو یہ اچھا ہے اور اگر نہ کرے تو کوئی گناہ کی بات بھی نہیں ہے مگر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ پردہ کا خیال رکھا جائے بلکہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ پردہ نہ کیا گیا تو لوگ دیکھیں گے تو ایسی شکل میں پردہ کرنا لازم اور ضروری ہے ، اگر پردہ نہ کرے تو گناہ گار ہو گا۔
اگر بحالت مجبوری کوئی آدمی بغیر پردہ کے پاخانہ کے لیے بیٹھ جائے تو پھر اس کی ستر کی طرف قصداً دیکھنے والوں کو گناہ ہو گا، مجبوری سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا موقع آپڑے جب کہ پردہ کا کوئی انتظام ممکن نہ ہو اور اس کو شدید حاجت ہو تو اس صورت میں اسے مجبوری ہے۔ ریت کے تودہ کو پشت کی طرف کرنے کو اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آگے کے ستر کو تو دامن وغیرہ سے بھی چھپایا جا سکتا ہے بخلاف پیچھے کے ستر کے کہ اس کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عبداللہ بن مغفل کی کنیت ابو سعید ہے پہلے مدینہ میں سکونت اختیار فرمائی پھر آپ بصرہ چلے گئے آپ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ میں مسائل دین کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا تھا آپ کی وفات بمقام بصرہ ٥٩ھ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی اپنے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے جس میں پھر وہ نہائے یا وضو کرے (یعنی یہ عقل سے بعید ہے کہ نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور پھر وہیں نہائے یا وضو کرے ) اس لیے کہ اس سے اکثر وساوس پیدا ہوتے ہیں (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) جامع ترمذی اور سنن نسائی نے ثم یغتسل فیہ او یتوضا فیہ کہ الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
تشریح
غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے وساوس اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ جب وہاں پیشاب کیا جاتا ہے تو وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے اور پھر وضو یا غسل کے وقت جب اس پر پانی پڑتا ہے تو دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں چھینٹیں تو نہیں پڑ رہے ہیں اور پھر یہ شبہ رفتہ رفتہ دل میں جم جاتا ہے جس سے ایک مستقل خلجان واقع ہو جاتا ہے۔
ہاں اگر غسل خانہ کی زمین ایسی ہو کہ اس پر سے چھینٹیں اچھل کر اوپر نہ پڑتی ہوں مثلاً وہاں کی زمین ریتلی ہو اس کا فرش اور اس میں نالی ایسی ہو کہ پیشاب کا ایک قطرہ بھی وہاں نہ رکتا ہو سب نکل جاتا ہو تو پھر وہاں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔
اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں غسل خانہ میں پیشاب کرنے کو جو منع کیا گیا ہے تو نہی تنزیہی ہے نہی تحر یمی نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی آدمی کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
سوراخ میں پیشاب کرنے سے اس لیے روکا جا رہا ہے کہ اکثر و بیشتر سوراخ کیڑے مکوڑوں اور سانپ بچھو کا مسکن ہوتے ہیں چنانچہ ہو سکتا ہے کہ پیشاب کرتے وقت اس میں سے سانپ یا بچھو یا تکلیف دینے والا کوئی دوسرا کیڑا نکل کر ایذاء پہنچائے یا اگر اس سوراخ کے اندر کوئی ضعیف اور بے ضرر جانور ہو تو پھر پیشاب کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچے گی۔
بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوراخوں میں جنات رہتے ہیں چنانچہ ایک صحابی سعد بن عبادہ خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے زمیں حوران کے ایک سوراخ میں پیشاب کر دیا تھا تو ان کو جنات نے مار ڈالا اور اس میں یہ شعر پڑھتے تھے۔
نَحْنُ قَتَلْنَا سَیِّدَ الْخَزْرَجَ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ
وَرَمِیْنَاہُ بِسَھْمَیْنِ فَلَمْ نَخُطُّ فَؤَادَہُ
ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا ہم نے اس کی طرف دو تیر مارے اور اس کے دل کو نشانہ بنانے میں خطا نہیں کی اور بعض علماء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی سوراخ خاص طور پر پیشاب ہی کے لیے ہو تو اس میں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم تین چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں (١) گھاٹوں پر استنجاء (یعنی پیشاب پاخانہ) کر نے سے (٢) راستہ کے درمیان اور (٣) سایہ میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے۔ (ابوداؤد و ابن ماجہ)
تشریح
یہ تین افعال ایسے ہیں جو لعنت کا سبب ہیں یعنی جب کوئی آدمی کسی راستہ پر، یا گھات پر ، یا سایہ کی جگہ پر پاخانہ کرتا ہے تو جو لوگ اس راستہ سے گزرتے ہیں یا گھاٹ کو استعمال کرتے ہیں ، یا سایہ دار جگہ پر آتے ہیں وہ اس آدمی پر لعنت بھیجتے ہیں یا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ آدمی ان افعال بد کی بنا پر لوگوں کی ان منفعت اور آرام کو جوان جگہوں سے مختص ہیں فاسد کرتا ہے ، لہٰذا یہ ظالم ہوا اور ظالم آدمی ملعون ہوتا ہے۔
موارد ان مکانوں کو فرماتے ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرتے ہیں ، بعض علماء کرام نے کہا ہے کہ موارد جمع مورد گھاٹ کو کہتے ہیں جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ سایہ ، عام ہے خواہ درخت کا سایہ ہو یا کسی اور چیز کا جہاں لوگ سوتے اور بیٹھتے ہوں ، نیز اپنے جانوروں کو باندھتے ہیں۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (ایک ساتھ) دو آدمی پاخانہ کے لیے (اس طرح) نہ جائیں کہ دونوں اپنی شرم گاہ کھولے ہوئے ہوں اور باتیں کرتے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ غصب ناک ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، و ابن ماجہ)
تشریح
مردوں اور عورتوں کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ پاخانہ کے لیے اس طرح بیٹھیں کہ ایک دوسرے کی شرم گاہیں دیکھیں اسی طرح ایسی حالت میں آپس میں باتیں کرنا بھی مکروہ ہے یہ دونوں چیزیں غضب خداوندی کا سبب اور اس کے عتاب کا باعث ہیں۔
اس موقع پر اس تکلیف دہ صورت حال کی وضاحت ضروری ہے کہ آج کل عورتوں میں خصوصیت سے ایسی بد احتیاطیاں پائی جاتی ہیں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں آپس میں ایک دوسری کے سامنے ستر کھولنے کو قطعاً معیوب نہیں سمجھتیں خصوصاً غسل اور پاخانہ کے وقت اس قسم کی شرمناک حرکتیں عام طور پر کرتی ہیں ، ایسی عورتوں کو چاہئے کہ وہ اس حدیث کو غور سے پڑھیں اور پھر سمجھیں کہ وہ ایسی ناشائستہ اور شرم و حیا کے منافی چیزوں کے ارتکاب سے اللہ کا غضب مول رہی ہیں اور اس کے عتاب کا باعث ہو رہی ہیں۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ پاخانہ کرتے وقت اور جماع (ہم بستری) کے وقت زبان سے ذکر اللہ نہ کیا جائے بلکہ دم کے ساتھ کیا جائے۔
٭٭اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ انصاری ہیں اور کنیت ابو عمرو ہے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سترہ غزوات میں شرکت کی ہے آپ کوفہ میں رہتے تھے اور وہیں ٦٨ھ انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا پاخانے شیاطین اور جنات کے حاضر ہونے کی جگہ ہیں ، اس لیے جب تم میں سے کوئی بیت الخلا جائے تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے اعوذ با اللہ من الخبث و الخبائث یعنی میں ناپاک جنوں اور جنیوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
جنات اور شیاطین پاخانہ میں آتے ہیں اور اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ جو آدمی پاخانہ میں آئے اس کو ایذاء پہنچائیں اور تکلیف دیں کیونکہ پاخانہ جانے والا آدمی وہاں ستر کھول کر بیٹھا ہے اور ذکر اللہ کر نہیں سکتا اس لیے یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو آدمی پاخانہ جاتے وقت یہ دعا پڑھ لے گا وہ جنات اور شیاطین کی ایذاء و تکلیف سے محفوظ رہے گا۔
اس باب میں جو حدیث نمر ٣ گزری ہے اس میں اس دعا کے الفاظ اس طرح ہیں۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ چونکہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اس لیے اختیار ہے کہ چا ہے وہ دعا پڑھی جائے لیکن بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ کبھی وہ دعا پڑھ لے اور کبھی یہ پڑھ لے یا دونوں کو ساتھ ساتھ پڑھے۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی پاخانہ میں داخل ہو تو جن (شیطان) کی آنکھوں اور انسان کی شرم گاہ کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ بسم اللہ کہے۔ (اس حدیث کو جامع ترمذی نے روایت کیا اور کہا ہے ) کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے )
تشریح
ارشاد کا مطلب ہے کہ جب انسان بیت الخلاء میں جاتا ہے ، تو چونکہ وہاں ستر کھول کر بیٹھتا ہے اس لیے شیاطین اس کی شرم گاہ دیکھتے ہیں ، لہٰذا جب کوئی آدمی پاخانہ جائے تو اسے چاہئے کہ بسم اللہ کہہ کر بیت الخلاء جائے کیونکہ اس سے شیاطین ستر نہیں دیکھ سکتے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں سنت یہ ہے کہ جب کوئی آدمی بیت الخلاء جائے تو پہلے بسم اللہ اور پھر اس کے بعد وہ دعا پڑھے جو اس سے پہلے حدیث میں گزر چکی ہے ، لیکن ان دونوں یعنی بسم اللہ اور مذکورہ دعاؤں میں سے کسی ایک کو بھی پڑھ لیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی مگر افضل یہی ہے کہ دونوں پڑھی جائیں یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے ، لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے غفر انک یعنی اے اللہ ! میں تیری بخشش کا خواست گار ہوں۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
علماء نے اس وقت بخشش چاہنے کی دو وجہیں لکھی ہیں ، اول تو یہ کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم زبان سے ذکر اللہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتے تھے سوائے اس کے کہ کسی شدید حاجت اور مجبوری مثلاً پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ترک فرما دیتے تھے اس کی وجہ سے آپ اللہ سے بخشش کے خواستگار ہوتے تھے۔
دوسرے یہ کہ جب انسان کوئی غذا کھاتا ہے ، تو وہ غذا معدہ میں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک حصہ تو خون بن کر قوت و طاقت پیدا کرتا ہے اور دوسرا حصہ فضلہ ہو کر پاخانہ کی شکل میں نکل جاتا ہے ، اگر قدرت کے اس نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بندوں پر اللہ کا بہت بڑا انعام اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکر بندے سے کماحقہ، ادا نہیں ہو سکتا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بخشش چاہتے تھے کہ اے اللہ ! مجھ سے تیری اس عظیم نعمت کا شکر ادا نہیں ہوا اس لیے تو مجھے اس کوتاہی پر بخش دے۔
بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ایسے موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ اپنی احتیاج اور اس بات کا خیال کیا جائے کہ انسان کی ذات کی حیثیت ہی کیا ہے جس میں نجاست ہی نجاست بھری ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں رب قدوس کی ذات پاک اور اس کے تقدس کا تصور کرے ، افضل یہ ہے کہ لفظ غفرانک کے بعد یہ دعا پڑھ لی جائے الحمد اللہ الذی اذھب عنی الاذی وعافنی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ جاتے تو آپ کے لیے پیالہ یا چمڑے کی چھاگل میں پانی لاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے استنجاء کرتے پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑتے پھر اس کے بعد میں (پانی کا) دوسرا برتن لاتا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرماتے۔ (دارمی ،سنن نسائی)
تشریح
تور عرب میں پیتل یا پتھر کا ایک چھوٹا سا برتن پیالہ کی طرح ہوتا ہے ، اس میں کھانا کھاتے ہیں ، اور بوقت ضرورت اس میں پانی بھر کر اس سے وضو بھی کر لیتے ہیں رکوۃ چمڑے کی چھاگل کو فرماتے ہیں جو پانی رکھنے کے کام آتا ہے۔
استنجاء سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم زمین پر ہاتھ رگڑ کر اس لیے دھوتے تاکہ ہاتھ سے بدبو نکل جائے اور ہاتھ خوب پاک و صاف ہو چنانچہ پاخانہ سے آ کر اس طرح سے ہاتھ دھونا سنت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضوء کے لیے دوسرے برتن میں پانی اس لیے نہیں لاتے تھے کہ استنجے کے بقیہ پانی یا اس برتن سے وضو درست نہیں تھا بلکہ اس برتن میں چونکہ پانی صرف استنجے کی ضرورت کی مطابق ہی رہتا ہو گا اس لیے وضو کے لیے دوسرے برتن میں پانی لانے کی ضرورت ہوتی تھی ، اس حدیث میں بعض علماء کرام نے یہ اخذ کیا ہے کہ اگر استنجے اور وضو کے پانی کے لیے الگ الگ برتن ہوں تو یہ مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت حکم ابن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پیشاب کر چکتے تو وضو فرماتے اور اپنی شرم گاہ پر چھینٹا دیتے !۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
پیشاب کرنے کے بعد جب آپ وضو فرماتے تو دفع وساوس کے لیے تھوڑا سا پانی لے کر ستر کی جگہ ازار پر چھڑک لیتے تھے تاکہ پیشاب کے قطرہ کا وہم باقی نہ رہے۔
ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس و ساوس و خطرات سے پاک و صاف تھی اس لیے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ طرز عمل امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ پیشاب کرنے کہ بعد جب وضو کیا جائے تو تھوڑا سا پانی ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر چھڑک لیا جائے ، اس لیے کہ اگر پانی نہ چھڑکا جائے اور ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر تری کا احساس ہو تو اس سے پیشاب کے قطروں کا وہم ہو گا اور پانی چھڑک لیا جائے تو اس کے بعد اگر تری کا حساس ہو گا بھی تو یہی سمجھا جائے گا کہ اسی چھڑ کے ہوئے پانی کی تری ہے چنانچہ اس سے وسوسہ کی راہ بند ہو جائے گی اور مقصد یہی ہے کہ وساوس و خطرات کی راہ روک دی جائے تاکہ اطمینان قلب کے ساتھ عبادت میں مصروف رہا جا سکے۔
ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ وضوء کے بعد شرم گاہ کے اوپر پانی چھڑکنے کی ایک وجہ تو یہ دفع وساوس ہو سکتی ہے مگر ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے پیشاب وغیرہ کے قطرے رک جائیں باہر نہ آئیں۔
٭٭اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ (امیمہ بنت رقیقہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہمشیرہ کی صاحبزادی ہیں۔) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو اس میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
چونکہ رات میں سردی وغیرہ کی بناء پر اٹھنا تکلیف دہ اور پریشانی کا سبب ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیالہ اس کام کے لیے مخصوص کر لیا تھا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات میں پیشاب کی حاجت ہوتی تھی تو اس پیالہ میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ اور اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت ہی مقصد سامنے آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے طرز عمل سے امت کے لیے یہ آسانی پیدا کر دی ہے کہ جب رات میں پیشاب کی حاجت ہو اور سردی وغیرہ کی تکلیف کی بناء پر باہر نکلنا دشوار ہو تو کسی برتن وغیرہ میں پیشاب کر لیا جائے اور صبح اٹھ کر اسے پھینک دیا جائے تاکہ ایک طرف تو تکلیف اور پریشانی میں مبتلاء ہونے سے بچا جائے اور دوسری طرف رات میں بیت الخلاء جانے سے بچ جائیں جو شیاطین کا مسکن ہے اور شیاطین دن کے مقابلہ میں رات کو زیادہ ضرر اور تکلیف پہنچانے کا سبب ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ امت کے لیے یہ تعلیم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی جذبہ رحمت و شفقت کی مرہون منت ہے جو اعمال و افعال میں ہر مرحلہ پر آسانی و سہولت کی صورت میں نظر آتی ہے۔
منقول ہے کہ ایک صحابی نا دانستہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیشاب اسی پیالہ میں سے پی گئے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ جب تک وہ زندہ رہے ان کے بدن سے خوشبو آتی رہی اور نہ صرف ان کے بدن سے بلکہ کئی نسلوں تک ان کی اولاد کے بدن میں بھی وہی خوشبو باقی رہی۔
٭٭اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک روز) مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ عمر! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا کرو چنانچہ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا (ابن ماجہ ،جامع ترمذی) امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک قوم کی کوڑی پر گئے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا (صحیح البخاری و صحیح مسلم) کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل (کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، کسی عذر کی بناء پر تھا۔
تشریح
متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے ، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی چنانچہ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔
جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ چونکہ ایام جاہلیت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا طریقہ رائج تھا اور ان کو وہی عادت پڑی ہوئی تھی اس لیے انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا، یا ہو سکتا ہے کہ کسی عذر کی بنا پر انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہو۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بھی حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے اس سلسلہ میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی کسی عذر کی بنا پر ایسا کیا ہو گا، اور علماء کرام نے وہ اعذار بھی لکھے ہیں چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ چونکہ وہاں نجاست کی وجہ سے آپ نے بیٹھنے کی جگہ نہیں پائی اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا۔
بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیر مبارک میں درد تھا اور بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق پیٹھ میں درد تھا ، اس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھ نہیں سکتے تھے اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جو آدمی یہ حدیث بیان کرے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اسے سچ نہ مانو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیا۔
تشریح
امام محی السنۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت نقل فرمائی ہے اس سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث اس بات کی بالکل نفی کر رہی ہے ، اب ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہو گی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے علم کے مطابق خبر دے رہی ہیں یعنی انہوں نے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے کبھی گھر میں نہیں دیکھا تھا اس لیے انہوں نے اس بات کی سرے سے نفی کر دی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ باہر سے متعلق ہے اور وہ بھی عذر کی بناء پر نادر ہے ، اور ظاہر کہ نادر شی معدوم کی مانند ہے نیز عذر کی بنا پر اسے مستثنی بھی قرار دیا جا سکتا ہے لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔
٭٭اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی زید بن حارثہ، کنیت ابواسامہ ہے عظیم صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا متبنیٰ بننے کا شرف حاصل ہوا ہے غزوہ موتہ کے موقع پر سر زمین شام میں آٹھ ہجری کو آپ نے شہادت پائی شہادت کے وقت آپ کی عمر ٥٥ سال کی تھی۔) سرکار دو عالم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (جب) سے پہلی وحی کے موقع پر آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ کو وضو کرنا سکھایا، پھر نماز پڑھنی سکھائی چنانچہ جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو پانی لیا اور اس کو اپنی شرم گاہ پر چھڑک لیا۔ (مسند احمد بن حنبل، دارقطنی)
تشریح
حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آدمی کی شکل میں آئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے وضو کیا اور نماز پڑھی تاکہ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی سیکھ جائیں اسی طرح انہوں نے اللہ کی جانب سے ان دونوں چیزوں کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دی پھر اس کے ساتھ ساتھ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وضو کے بعد شرم گاہ پر یا ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر وضو کے بعد پانی چھڑک کر بھی آپ کو دیکھا یا تاکہ دفع وساوس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کریں تو تھوڑا سا پانی (شرم گاہ پر دفع وساوس کے لیے چھڑک لیا کیجئے (جامع ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے اور میں نے محمد (یعنی عبداللہ بن اسماعیل صحیح البخاری) کو یہ کہتے سنا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی حسن بن علی ہاشمی منکر الحدیث ہیں۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشاب کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کا لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا عمر یہ کیا ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے وضو کے لیے پانی ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب میں پیشاب کروں تو وضو بھی کروں ، اگر میں ایسا کروں تو یہ (میرا فعل سنت ہو جاتا)۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ مجھے بطریق وجوب اور فرض کے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب بھی پیشاب کروں تو اس کے بعد وضوء بھی کروں اور اگر میں اپنی طرف سے یہ فعل اختیار کر لیتا ہوں تو پھر ہر مرتبہ پیشاب کے بعد وضو کرنا سنت موکدہ ہو جائے گا، بہر حال یہاں سنت سے مراد سنت موکدہ ہی ہے ، کیونکہ ویسے تو پانی سے استنجاء کرنا اور ہر وقت با وضو رہنا تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مستحب ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ادنیٰ چیزوں کو اپنی امت کی آسانی او سہولت کی خاطر کبھی ترک فرما دیتے تاکہ وہ چیزیں امت کے لیے کہیں ضروری نہ ہو جائیں۔
٭٭حضرت ابوایوب، جابر، حضرت انس رضوان اللہ علیہم راوی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آیت (فِيْہ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَہرُوْا ۭوَاللّٰہ يُحِبُّ الْمُطَّہرِيْنَ) 9۔ التوبہ:108) یعنی مسجد قبا میں ایسے مرد (انصاری) ہیں جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ خوب پاکی حاصل کریں اور اللہ خوب پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے پاکی کے معاملہ میں تمہاری تعریف کی ہے تمہاری پاکی کیا ہے؟ اور انہوں نے عرض کیا ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں جنابت (ناپاکی) سے غسل کرتے ہیں (جیسا کہ دوسرے مسلمان کرتے ہیں ) اور (ڈھیلے کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! وہ یہی ہے ، لہٰذا اسے لازم پکڑو۔ (ابن ماجہ)
تشریح
انصاری کی عادت تھی کہ وہ پیشاب و پاخانہ کے بعد ڈھیلوں سے صفائی کے بعد پانی سے بھی استنجاء کرتے تھے ، اس بنا پر ان کی فضیلت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی اور انصار کی اس فضیلت کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ کونسی پاکیزگی ہے جسے حاصل کرنے کے بعد تم اس سعادت کے حقدار ہوئے ہو، جب انہوں نے پاکیزگی کی تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی تصدیق کر دی کہ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی سبب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں تمہاری تعریف کی ہے اور پھر بعد میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کہ اس سعادت کو ہمیشہ باقی رکھو یعنی جس طرح تم لوگ پاکی حاصل کرتے ہو اسی طرح ہمیشہ حاصل کرتے رہو۔
٭٭اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی نے بطور استہزاء یہ کہا کہ میں تمہارے سردار (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کو دیکھتا ہوں تو وہ تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ بیٹھنے کی صورت بھی؟ میں نے کہا! ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ (استنجے کے وقت) ہم قبلہ کی طرف رخ کر کے نہ بیٹھیں ، اپنے دائیں ہاتھوں سے استنجاء پاک نہ کریں ، تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کریں اور ان پتھروں میں نجاست (یعنی پاخانہ، لید گوبر) اور نہ ہڈی ہو۔ (مسلم مسند احمد بن حنبل الفاظ مسند احمد بن حنبل کے ہیں )
تشریح
اگر مذہب کی بنیاد پر حقیقت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہو گی کہ مذہب اور دین دراصل نام ہے ایک مکمل ضابطہ حیات کا اور ایک دستور کامل ہے نظام زندگی کا جس میں انسانوں کے لیے دین اور دنیا دونوں جگہ کے لیے مکمل رہبری، کامل راہنمائی اور ہمہ گیر ہدایات ہوں۔
اگر چند مخصوص اعتقادات پر چند مخصوص عبادات اور چند اعمال کا نام، مذہب اور دین، رکھ دیا جائے تو وہ کامل و مکمل مذہب وہ دین ہی نہیں بلکہ انسانی دماغ کے اختراعات اور نظریات کا مجموعہ ہے۔
اسلام دوسرے تمام مذاہب میں اگر اپنی کوئی امتیازی شان رکھتا ہے اگر دوسرے دینوں پر کوئی تفوق و برتری رکھتا ہے اور اگر دوسری شریعتوں میں اکملیت کا کوئی درجہ رکھتا ہے تو وہ اسلام کی شان ہمہ گیریت اور اس کی شان جامعیت ہے مسلمانوں کو چھوڑئیے وہ تو اسلام کی پیروی کرنے والے ہیں ہیں ، دنیا کے وہ دانشور اور عقلاء بھی اسلام کے اعتقادات و احکامات کے پابند و متبع نہیں ہیں ، آج اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اور دنیا کی تمام شریعتوں میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور دین ہے جو انسانوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ایک نظام زندگی اور کائنات کے ہر شعبہ پر حاوی ایک مجموعہ ہدایات ہے جو انسانی زندگی کے ہر چھوٹے و بڑے مسئلہ کی رہبری کرتا ہے۔
چنانچہ اسلام اگر ایک طرف اعتقادات و نظریات کی انتہائی بلندی تک جن و انس کی راہنمائی کرتا ہے ، عبادت و احکامات کے بلند و بالا نظام کا تفوق بخشتا ہے ، تو دوسری طرف زندگی کی ان چھوٹی راہوں کی بھی معرفت عطا کرتا ہے جو دنیا والوں کی نظر میں حقیر ہیں ، جن کی طرف دوسرے مذاہب آنکھ بھی نہیں اٹھاتے۔
دیکھئے ایک بے بصیرت اور عقل و دانائی کا دشمن مشرک مسلمانوں کا یہی تو مزاق اڑا رہا ہے کہ شارع اسلام کی شان و شوکت کا بھی کوئی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کو سکھاتے پھریں ، یہاں تک کہ وہ پیشاب و پاخانہ تک کے مسائل اور ان کے طور طریقے بتاتے ہیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اسی کا جواب دے رہے ہیں کہ اے بے خبرادر، نادان انسان! یہ ہنسنے کی بات نہیں ہے ، استہزاء کا مقام نہیں ہے ، تجھے کیا معلوم کہ ہمارے سردار ہم پر کتنے شفیق ہیں ہم پر کتنے مہربان ہیں؟ امت پر انتہائی شفقت و محبت ہی کی یہ وجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلہ پر ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔
اگر ایک طرف صلی اللہ علیہ و سلم توحید و رسالت کے عقائد اور نماز روزہ ، زکوٰۃ اور حج جیسے دینی اصول کے احکام و مسائل ہمیں بتاتے ہیں تو دوسری طرف پیشاب و پاخانہ جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے آداب بھی بتائے ہیں اور ہدایات اور راہنمائی کا یہی تو وہ مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت ہم قبلہ کی طرف پشت و رخ کر کے نہ بیٹھیں کہ اس سے قبلہ کے احترام پر حرف آتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا جائے یہ چیز پاکیزگی و نظافت کے منافی ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا کھایا جائے اسی ہاتھ سے گندگی و غلاظت کی صفائی کی جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بہتر قرار دیا ہے کہ تین ڈھیلوں یا پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کیا جائے کہ صفائی و پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ استنجاء کے ڈھیلوں میں لید و گوبر اور دوسری نجاست نہ ہو کہ اس سے بجائے پاکیزگی حاصل ہونے کے اور زیادہ غلاظت و گندگی لگے گی اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی جنات کی خوراک ہے۔
٭٭اور حضرت عبدالرحمن ابن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (گھر سے ) نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں ڈھال تھی ، اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنے سامنے زمین پر) رکھ دیا پھر اس کے سامنے بیٹھ کر پیشاب کیا (یہ دیکھ کر) ایک مشرک نے کہا ان کی طرف دیکھو اس طرح پیشاب کرتے ہیں جسے عورت پیشاب کرتی ہے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سن لی اور فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تو اس چیز کو نہیں جانتا جو بنی اسرائیل کے ساتھی کو پہنچی (یعنی عذاب) بنی اسرائیل (جب پیشاب کرتے اور ان) کے (جسم یا کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو اس کو قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے چنانچہ (بنی اسرائیل میں اس ایک) آدمی نے (اس حکم کو ماننے سے ) لوگوں کو روکا، لہٰذا اسے قبر کے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ اور سنن نسائی اس حدیث کو عبدالرحمن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ سے روایت کیا ہے )
تشریح
بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا کہ اگر کسی آدمی کے بدن میں نجاست لگ جاتی تو اتنے حصہ کے گوشت کو چھیل ڈالتے تھے اور اگر کپڑے پر لگ گئی تو اس جگہ سے کپڑا کاٹ ڈالتے تھے مگر ان میں سے ایک آدمی نے اپنی شریعت کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکا کرتا تھا لہٰذا اس بنا پر اسے عذاب قبر میں مبتلا کیا گیا۔
اسی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ فرمایا کہ بنی اسرائیل کی شریعت کا وہ قاعدہ اگرچہ شرعی اعتبار سے پسندیدہ تھا مگر چونکہ اس میں مال اور جان کا ضرر ہوتا تھا اس لیے خلاف عقل و دانائی تھا مگر اس کے باوجود شریعت کے اس حکم کو نہ ماننے اور دوسرے لوگوں کو اس سے روکنے پر جب اس آدمی پر عذاب قبر نازل کیا گیا تو شرم و حیا نہ کرنا بطریق اولیٰ عذاب کا سبب ہے کیونکہ پیشاب کے وقت پردہ کرنا اور شرم کرنا نہ صرف یہ کہ از راہ شریعت پسندیدہ اور بہتر چیز ہے بلکہ عقل و دانائی کے اعتبار سے بھی اولیٰ و افضل ہے۔
٭٭اور حضرت مروان اصفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا اونٹ قبلہ کی طرف بیٹھایا پھر خود بیٹھے اور اونٹ کی طرف پیشاب کیا میں نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا ابوعبدالرحمن!(یہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ہے ) کیا اس طرح قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا انہوں نے فرمایا ہاں جنگل میں اس سے منع فرمایا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل سے دلیل پکڑتے تھے جسے اس باب کی پہلی حدیث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قبلہ کی طرف پشت کر کے پاخانہ کرتے ہو دیکھا تھا اور یہ اسی موقع پر بتایا جا چکا ہے کہ اس فعل میں کئی احتمالات پیدا ہوتے ہیں لہٰذا فعل محتمل کو دلیل کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور پھر اس کی بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اکثر احادیث سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کا حکم عام ہے اس میں جنگل کی تخصیص نہیں ہے اسی لیے امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ اس حکم میں جنگل و آبادی سب برابر ہیں قبلہ کی طرف منہ و پشت کرنا ہر جگہ ممنوع ہے خواہ جنگل کا کھلا میدان ہو یا آبادی میں گھرے ہوئے مکانات۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِیّ الْاَذٰی وَعَافَانِی یعنی تمام تعریفیں خدا ہی کو زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز (یعنی پاخانہ) کو دور کیا اور مجھے عافیت بخشی۔ (ابن ماجہ)
تشریح
یوں تو اگر کوئی انسان یہ چا ہے کہ وہ اللہ کی نعمت کو دائرہ شمار میں لے آئے جو اس پر اللہ کی جانب سے ہیں تو یہ مشکل ہیں نہیں بلکہ ناممکن ہے ، پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی ساری زندگی اور اس کی حیات کا ایک ایک لمحہ اللہ رحیم و کریم کی بے شمار نعمتوں ہی کا مرہون منت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اللہ کی ان بے شمار اور لا محدود نعمتوں کا شکر بھی بجا طور پر ادا نہیں کر سکتا۔
اب آپ پیشاب و پاخانہ ہی کو لے لیجئے بظاہر تو کتنی معمولی سے چیز ہے ، اور کتنی غیر اہم ضرورت مگر ذرا کسی حکیم و ڈاکٹر سے اس کی حقیقت تو معلوم کر کے دیکھ لیجئے ، ایک طبی ماہر آپ کو بتائے گا کہ ان معمولی چیزوں پر انسان کی زندگی کا کتنا دار و مدار ہے اور انسان کی موت و حیات سے اس کا کتنا گہرا تعلق ہے؟ اگر کسی آدمی کا کچھ عرصہ کے لیے پیشاب بند ہو جائے ، یا کسی کا پاخانہ رک جائے تو اس کی زندگی کے لالے پڑھ جاتے ہیں اور خدانخواستہ اگر اس عرصہ میں غیر معمولی امتداد پیدا ہو جائے تو پھر اس کی زندگی موت کی آغوش میں سوتی نظر آتی ہے۔
تو کیا؟ یہ اللہ کا ایک عظیم انعام اور اس کا بہت بڑا فضل و کرم نہیں ہے کہ وہ اس تکلیف دہ چیز کو انسان کے جسم سے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کتنی آسانی سے خارج کرتا رہتا ہے ، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ زبان جو اس کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر ہر وقت ادائے شکر و سپاس میں مشغول رہتی تھی اس کی عظیم الشان نعمت پر شکر سے قاصر رہتی۔
چنانچہ یہ حدیث یہی بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی بیت الخلاء سے باہر نکلتے ، اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اے الٰہ العلمین! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے زیبا ہیں ، تمام حمد و ثنا کا تو ہی مستحق ہے ، اور کیوں نہ ہو؟ جب کے تیری ذات اپنے بندوں کے لیے سراسر لطف و کرم اور رحمت و شفقت ہے۔۔۔ جس کا ایک ادنیٰ سا اظہار یہ بھی ہے کہ تو نے اس وقت محض اپنے فضل و کرم سے ایک تکلیف دہ چیز کو میرے جسم سے خارج کیا اور اس طرح مجھے سکون و اطمینان عطا فرمایا اور عافیت بخشی۔
بعض احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دعا بھی منقول ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت الخلا سے باہر آنے کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ اَلحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِّی مَایُؤْ ذِیْنِی وَاَبْقَی عَلَیَّ مَایَنْفَعُنِی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور وہ چیز باقی رکھی جو میرے لے فائدہ منہ ہے۔
غذا ہضم ہونے پر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ، ایک بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جو فضلہ بن جاتا ہے ، دوسرا حصہ جو غذا کا اصل جوہر ہوتا ہے وہ خون وغیرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اس پر زندگی کی بقا منحصر ہوتی ہے ، چنانچہ اس دعا میں غذا کی انہی دونوں حصوں کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے۔
اگر ان دونوں نعمتوں کا کوئی آدمی خیال کرے تو اسے احساس ہو کہ یہ کتنی اہمیت کی حامل ہیں لیکن افسوس کہ آج ایسے کتنے ہی بے حس و لا پرواہ انسان ملیں گے جن کے دماغ و شعور میں ان کا تصور بھی نہیں ہو گا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنات کی جماعت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنی امت کو منع فرما دیجئے کہ وہ گوبر، ہڈی اور کوئلہ سے استنجاء نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارا رزق پیدا کیا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ان (چیزوں کے استعمال) سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد)
تشریح
ہڈی جنات کی خوراک ہے جس سے وہ غذا حاصل کرتے ہیں ، اسی طرح لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے نیز کوئلے سے بھی چونکہ جنات فائدہ اٹھاتے ہیں مثلاً کوئلہ سے کھانا وغیرہ پکاتے ہیں یا اس سے روشنی کرتے ہیں اس لیے اس کو بھی رزق میں شمار کیا گیا ہے۔
یوں تو مسواک کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک سنت ہے مگر حنفیہ کے نزدیک خاص طور پر وضو کے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وضوء و نماز کے وقت مسواک کرنا مسنون ہے ، نیز نماز فجر اور نماز ظہر سے پہلے بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ، مسواک کرنے میں بڑی خیر و برکت اور بہت فضیلت ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ مسواک کرنے کی فضلیت میں چالیس احادیث وارد ہوئی ہیں ، پھر نہ صرف یہ کہ مسواک کرنا ثواب کا باعث ہے بلکہ اس سے جسمانی طور پر بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں چنانچہ مسواک کرنے سے منہ پاک و صاف رہتا ہے ، منہ کے اندر بدبو پیدا نہیں ہوتی، دانت سفید و چمک دار ہوتے ہیں ، مسوڑھوں میں قوت پیدا ہوتی ہے اور دانت مضبوط ہو جاتے ہیں۔
ویسے تو ہر حال میں مسواک کرنا مستحب اور بہتر ہے مگر بعض حالتوں میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے مثلاً وضو کرنے کے وقت، قرآن شریف پڑھنے کے لیے ، دانتوں پر زردی اور میل چڑھ جانے کے وقت اور سونے ، چپ رہنے ، بھوک لگنے یا بدبو دار چیز کھانے کے سبب منہ کا مزہ بگڑ جانے کی حالت میں مسواک زیادہ مستحب اور اولیٰ ہے۔
مسواک کرنے کے کچھ آداب و طریقے ہیں چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ کسی مجلس و مجمع میں اس طرح مسواک کرنا کہ منہ سے رال ٹپکتی ہو مکروہ ہے خصوصاً علماء اور بزرگوں کے قریب اس طرح مسواک کرنا مناسب نہیں ہے۔
مسواک کڑوے درخت مثلاً نیم وغیرہ کی ہونی چاہئے ، پیلو کے درخت کی مسواک زیادہ بہتر ہے چنانچہ احادیث میں بھی پیلو کی مسواک کا ذکر آیا ہے نیز حضرت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ پیلو کی مسواک کی جائے مسواک کا سرا چھنگلیا کی طرف ہونا چاہئے اور مسواک کی لمبائی ایک بالشت کے برابر ہونی چاہئے ، مسواک دانتوں کی چوڑائی پر کرنی چاہئے لمبائی پر مسواک نہ کی جائے کیونکہ اس طرح مسواک کرنے سے مسوڑھے چھل جاتے ہیں۔
مسواک کرنے کے وقت کے بارے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جب وضو شروع کیا جائے تو کلی کے وقت مسواک کرنی چاہئے مگر بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وضو کرنے سے پہلے ہی مسواک کر لینی چاہئے ، نیز مسواک کرنے میں مستحب ہے کہ مسواک دائیں طرف سے شروع کی جائے۔
اگر کسی آدمی کے پاس مسواک نہ ہو یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں تو ایسی حالت میں انگلی سے دانت یا مسوڑھوں کو صاف کرنا چاہئے یا اسی طرح مسواک کو نرم کرنے کے لیے اگر کوئی پتھر نہ ملے اور ایسی شکل میں مسواک کرنا ممکن نہ ہو تو دانت کو ایسی چیزوں سے صاف کر لیا جائے جو منہ کی بد مزگی کو دور کر دیں جیسے موٹا کپڑا اور منجن وغیرہ یا صرف انگلی ہی سے صاف کر لے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر میں اپنی امت پر اس بات کو مشکل نہ جانتا تو مسلمانوں کو یہ حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز دیر سے پڑھیں اور ہر نماز کے لیے مسواک کریں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنا مستحب اور بڑی فضیلت کی بات ہے اسی طرف یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت دشواری میں مبتلا ہو جائے گی تو میں یہ فرض قرار دیتا کہ تمام مسلمان عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھا کریں اب تاخیر کی حد کیا ہے؟ اس بارے میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ تہائی یا آدھی رات تک عشاء کی نماز پڑھنا مستحب ہے۔
دوسری بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ اگر اس معاملہ میں بھی تنگی و مشکلات کا خوف نہ ہوتا تو اس بات کا اعلان کر دیتا کہ ہر نماز کے وقت یعنی ہر نماز کے وضو کے وقت مسواک کرنا فرض ہے۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ امت کے حق میں سراپا رحمت و شفقت ہیں اس لیے آپ نے ان چیزوں کو فرض کا درجہ نہیں دیا کہ فرض ہونے کی شکل میں مسلمان تنگی اور تساہلی کی بناء پر ان فرائض پر عمل نہیں کر سکیں گے نتیجے کے طور پر گناہ گار ہوں گے ، لہٰذا ان کو صرف مستحب ہی قرار دیا کہ اگر کوئی آدمی ان پر عمل نہ کرے اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا اور کوئی اللہ کا بندہ اس پر عمل پیرا ہو جائے تو یہ اس کے حق میں سرا سر سعادت و نیک بختی کی بات ہو گی۔
٭٭اور حضرت شریح ابن ہانی راوی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنے گھر میں تشریف لاتے تو پہلے کیا کرتے؟ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کرتے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے اور یہ آپ و کے مزاج اقدس کی انتہائی نظافت کی دلیل تھی کہ اگر مجلس مبارک میں خاموش بیٹھنے یا لوگوں سے گفتگو کرنے کی وجہ سے منہ کے اندر کچھ تغیر آگیا ہو تو وہ دور ہو جائے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل مبارک کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت کا مقصد سامنے آئے گا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ انتہائی پاکیزگی و صفائی کے ساتھ رہا کریں یہاں تک کے آپ میں گفتگو و کلام کرنے اور ملنے جلنے کے لیے مسواک کر لیا کریں تاکہ کوئی آدمی منہ کی بدمزگی یا بو کے تغیر کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کرے۔
مسواک کی فضیلت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے منقول ہے کہ مسواک کرنے کے ستر فائدے ہیں جن میں سب سے ادنیٰ اور کم درجہ فائدہ یہ ہے کہ مسواک کرنے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت کو یاد رکھے گا جس کی بناء پر اس کا خاتمہ یقیناً خیر پر ہو گا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ افیون کھانے کے ستر نقصان ہیں جن میں سب سے ادنی اور کم تر نقصان یہ ہے کہ افیون کھانے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت بھول جائے گا ، العیاذ با اللہ
حضرت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے یہ تاکید ہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سب سے پہلے مسواک کرے کیونکہ اس سے منہ میں بہت زیادہ خوشبو پیدا ہو جاتی ہے جس سے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب رات تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے ملتے اور دھوتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا دس چیزیں فطرت میں سے ہیں (یعنی دین کی باتیں ) (١) لبوں کے بال کٹوانا (٢) داڑھی کا بڑھانا (٣) مسواک کرنا (٤) ناک میں پانی دینا (٥) ناخن کٹوانا (٦) جوڑوں کی جگہ کو دھونا (٧) بغل کے بال صاف کرنا (٨) زیر ناف بالوں کو مونڈنا (٩) پانی کا کم کرنا یعنی استنجاء کرنا راوی یعنی مصعب یا زکریا کا بیان ہے کہ دسویں چیز کو میں بھول گیا، ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔ (صحیح مسلم) اور ایک روایت میں (دوسری چیز) داڑھی بڑھانے کے بجائے ختنہ کرانا ہے اور (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ روایت نہ صحیحین یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ملی ہے اور نہ کتاب حمیدی میں (جو صحیحین کی جامع ہے ، البتہ اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب میں ) ذکر کیا ہے ، اسی طرح خطابی نے معالم السنن میں ابوداؤد کے حوالہ سے حضرت عمر ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے ساتھ نقل کیا ہے۔
تشریح
اس حدیث میں جن دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ تمام چیزیں پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں سنت تھی ں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت یعنی دین اسلام میں بھی سنت ہیں چنانچہ اکثر علماء کرام کے نزدیک فطرت کے یہی معنی ہیں ، دوسری شروحات میں اس کے علاوہ علماء کے دوسرے اقوال بھی منقول ہیں لیکن طوالت کی بناء پر یہاں سب کو ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
پہلی چیز لبوں کے بال یعنی مونچھوں کا کٹوانا ہے ، اس سلسلہ میں مختار مسلک یہی ہے مونچھیں کتروائی جائیں اور اس طرح کتروائی جائیں کہ اوپر کے ہونٹ کا کنارہ معلوم ہونے لگے۔
امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ کی ایک روایت یہ ہے کہ مونچھیں بھوؤں کی برابر رکھنی چاہئیں۔ البتہ غازیوں اور مجاہدوں کو زیادہ مونچھیں بھی رکھنی جائز ہے کیوں کہ زیادہ مونچھیں دشمن کی نظر میں دہشت کا باعث ہوتی ہیں اور اس سے ان پر رعب چھا جاتا ہے ، مونچھوں کا زیادہ کٹوانا کہ ان کا نشان بھی باقی نہ رہے یا بالکل منڈوانا مکروہ ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر بعض علماء نے اسے سنت بھی کہا ہے۔
دوسری چیز داڑھی کا بڑھانا ہے ، اس کے بارے میں علماء کا فیصلہ ہے کہ داڑھی کی لمبائی ایک مٹھی کے برابر ہونا ضروری ہے اس سے کم نہ ہونا چاہئے اگر مٹھی سے زیادہ بھی ہو جائز ہے بشرطیکہ حد اعتدال سے نہ بڑھ جائے۔
داڑھی کو منڈوانا یا پست کرنا حرام ہے کیونکہ یہ اکثر مشرکین مثلاً انگریز و ہندو کی وضع ہے ، اسی طرح منڈی ہوئی یا پست داڑھی ان لوگوں کی وضع ہے جنہیں دین سے کوئی حصہ نصیب نہیں ہے کہ جن کا شمار گروہ قلندری رمد مشرب میں ہوتا ہے۔
داڑھی کے بال ایک مٹھی کے برابر چھوڑنا واجب ہے اسے سنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے جیسے نماز عید کو سنت فرماتے ہیں حالانکہ عید واجب ہے۔
اگر لمبائی یا چوڑائی میں کچھ بال آگے بڑھ کر بے ترتیب ہو جائیں تو ان کو کتروا کر برابر کرنا جائز ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ انہیں بھی نہ کتروایا جائے ، اگر کسی عورت کی داڑھی نکل آئے تو اسے صاف کر ڈالنا مستحب ہے۔
تیسری چیز مسواک کرنا ہے ، اس کے متعلق پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ مسواک کرنا بالاتفاق علماء کرام کے نزدیک سنت ہے ، بلکہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تو اسے واجب کہا ہے ، حضرت شاہ اسحٰق صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی آدمی مسواک کو قصداً چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہو گی،
چوتھی چیز ناک میں پانی دینا ہے ، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے لیے ناک میں پانی دنیا مستحب ہے اور غسل کے لیے ناک میں پانی دینا فرض ہے یہی حکم کلی کا بھی ہے کہ وضو میں کلی کرنا سنت ہے اور غسل میں فرض ہے۔
پانچویں چیز ناخن کا کٹوانا ہے ، ناخن کسی طرح بھی کٹوائے جائیں اصل سنت ادا ہو جائے گی لیکن اولٰی اور بہتر یہ ہے کہ ناخن کٹوانے کے وقت یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ناخن کٹوائے جائیں اس کے بعد بیچ کی انگلی کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی کے پھر چھنگلیا کے پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں ، اس کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن اس طرح کٹوائے جائیں کہ سب سے پہلے چھنگلیا کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی اس کے بعد بیچ کی انگلی اس کے بعد شہادت کی انگلی اور پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں۔
بعض علماء کرام نے یہ طریقہ بھی لکھا ہے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے ناخن کٹوانا شروع کرے اور چھنگلیا پر پہنچ کر روک دے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے شروع کرے اور اس کے انگوٹھے تک پہنچ کر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کر دے۔
اسی طرح پیر کے ناخن اس طرح کٹوانا چاہئے کہ پہلے دائیں پیر کی چھنگلیا سے کٹوانا شروع کرے اور آخر میں بائیں بیر کی چھنگلیا پر لے جا کر ختم کرے بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز ناخن کتروانا مستحب ہے ، کچھ حضرات نے ناخن کٹوا کر ان کو زمین میں دفن کر دینے کو بھی مستحب لکھا ہے ، اگر ناخن پھینک دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ان کو پاخانہ میں یا غسل کی جگہ میں پھینکنا مکروہ ہے۔
چھٹی چیز براجم یعنی جوڑوں کی جگہ کو دھونا ہے ، براجم فرماتے ہیں انگلیوں کی گانٹھوں (جوڑوں ) کو اور اس کی اوپر کی کھال کو جو چنٹ دار ہوتی ہے اس میں اکثر میل جمع ہوتا ہے۔ خصوصاً جو لوگ ہاتھ سے کام کاج زیادہ کرتے ہیں ان کی انگلیاں سخت ہو جاتی ہیں اور ان میں میل جم جاتا ہے ، لہٰذا ان کو دھونے کی تاکید فرمائی جا رہی ہے ، اسی طرح بدن کے وہ اعضاء جن میں میل جم جانے کا گمان ہو جیسے کان، بغل، ناف ان کو بھی دھونے کا یہی حکم ہے۔
ساتویں چیز بغل کے بالوں کو صاف کرنا ہے ، اس سلسلہ میں نتف استعمال فرمایا گیا ہے ، نتف بال اکھاڑنے کو فرماتے ہیں ، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ بغل کے بالوں کو منڈوانا سنت نہیں ہے بلکہ ان کو ہاتھ سے اکھاڑنا سنت ہے مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ بغل کے بالوں کو ہاتھ سے اکھاڑنا اس آدمی کے لیے افضل ہے جو اس کی تکلیف کو برداشت کر سکتا ہو، ویسے بغل کے بالوں کا منڈوانا یا نورے سے صاف کرنا بھی جائز ہے۔
آٹھویں چیز زیر ناف بالوں کو مونڈنا ہے ، یہ بھی سنت ہے ، زیر ناف بال، اگر منڈانے کی بجائے اکھاڑے جائیں ، یا نورے سے صاف کئے جائیں تو بھی ان کے حکم میں شامل ہوں گے مگر قینچی سے کاٹنے میں سنت ادا نہیں ہوتی۔ مقعد (پاخانہ کے مقام) کے گرد جو بال ہوتے ہیں ان کو بھی صاف کرنا مستحب ہوتا ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زیر ناف بالوں نورے (نورہ ایک خاص مرکب چیز کو فرماتے ہیں جو ہڑتال اور چونے سے ملا کر بنائی جاتی تھی جس سے بال اڑ جاتے ہیں۔) سے صاف کیا کرتے تھے وا اللہ اعلم۔
عورتوں کو زیر ناف بال اکھاڑنا اولیٰ ہے کیونکہ اس سے خاوند کو رغبت زیادہ ہوتی ہے ، نیز عورت کے اندر چونکہ خواہشات نفسانی اور شہوت ننانوے حصہ ہوتی ہے اور مرد میں صرف ایک حصہ ہوتی ہے اور یہ طے ہے کہ زیر ناف بال اکھاڑنے سے شہوت کم ہوتی ہے اور مونڈنے سے قوی ہوتی ہے ، لہٰذا عورت کے مناسب حال یہی ہے کہ وہ بال اکھاڑے اور مرد کے مناسب حال یہ ہے کہ وہ مونڈے۔
زیر ناف بال مونڈنے ، بغل کے بال اکھاڑنے ، مونچھیں کتروانے اور ناخن کٹوانے کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہونی چاہئے ، چالیس دن کے اندر اندر ان کو صاف کر لینا چاہئے اس سے زیادہ مدت تک انہیں چھوڑے رکھنا مکروہ ہے۔
نویں چیز پانی کا کم کرنا یعنی پاکی کے ساتھ استنجاء کرنا ہے۔ انتقاص الماء کے دو مطلب ہیں ایک تو یہی جو راوی نے بیان کئے ہیں یعنی پانی کے ساتھ استنجاء کرنا چونکہ استنجاء کرنے میں پانی خرچ ہوتا ہے اور کم ہو جاتا ہے اس لیے اس انتقاص الماء (پانی کا کم کرنا) سے تعبیر کیا گیا ہے ، دوسرے معنی یہ کہ پانی کے استعمال یعنی استنجاء کرنے کی بناء پر پیشاب کو کم کرنا، مطلب یہ ہے کہ پانی سے استنجاء کرنے کی وجہ سے پیشاب کے قطرے رک جاتے ہیں اس طرح پیشاب میں کمی ہو جاتی ہے۔
ایک دوسری روایت میں انتقاص کی جگہ لفظ انتقاض آیا ہے اس کے معنی ہیں ستر کے اوپر پانی چھڑکنا جیسا کہ پہلی حدیثوں میں گزر چکا ہے ، بہر حال یہ دونوں چیزیں بھی سنت ہیں۔
ختنہ چونکہ شعائر اسلام میں سے ہے اس لیے اگر کسی شہر کے تمام لوگ ختنہ ترک کر دیں تو امام وقت کو ان کے ساتھ جنگ کرنی چاہئے تا آنکہ وہ لوگ اس اسلامی شعائر کو اختیار کر لیں جیسے اذان کے بارے میں حکم ہے۔
ختنہ کرنے کی عمر اور وقت کے تعین میں علماء کے یہاں اختلاف ہے ، بعض علماء کے نزدیک پیدائش کے ساتویں دن ختنہ کر دینا چاہئے جیسے عقیقہ ساتویں دن ہوتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک سال اور بعض کے نزدیک نو سال کی مدت ہے ، بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی قید نہیں ہے ، جب چا ہے ختنہ کر دیا جائے ، گویا بالغ ہونے سے پہلے پہلے جب بھی وقت اور موقع ہو ختنہ کرایا جا سکتا ہے ، امام اعظم کے نزدیک اس صورت میں بلوغ سے پہلے کی شرط بطور خاص ہے کیونکہ ختنہ کرنا سنت ہے اور بالغ ہونے کے بعد ستر چھپانا واجب ہے اس لیے اگر کوئی آدمی بالغ ہونے کے بعد ختنہ کرائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے ایک سنت کو ادا کرنے کے لیے واجب کو ترک کر دیا حالانکہ سنت کی ادائیگی کے لیے واجب کو ترک کر دینا جائز نہیں۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسواک کرنا، منہ کی پاکی کا سبب ہے اور پروردگار کی خوشنودی کا باعث ہے شافعی، مسند احمد بن حنبل، دارمی، سنن نسائی) اور امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح (جامع صحیح البخاری) میں بغیر سند کے نقل کیا ہے۔
٭٭حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں (١) حیا کرنا (ایک روایت میں ) ختنہ کرنا مروی ہے (یعنی اس روایت میں تو الحیاء کا لفظ ہے اور بعض روایت میں اس کے بجائے الختان کا لفظ آیا ہے۔ (٢) خوشبو لگانا (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا۔ (جامع ترمذی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں کہ اکثر کے اعتبار سے ہے کیونکہ بعض انبیاء کرام علیہم السلام ایسے بھی تھے جن کے یہاں ان میں سے کچھ چیزیں نہیں پائی جاتی تھی ں مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا تھا۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت سلیمان، حضر زکریا، حضرت عیسیٰ علیم السلام اور حضرت حنظلہ بن صفوان علیہ السلام جو اصحاب الرس کے نبی تھے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مختون ہی اس دنیا میں تشریف لائے تھے ، یعنی انبیاء و رسول ختنہ کئے ہوئے پیدا ہوئے تھے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بعض علماء کرام کا قول ہے کہ پیدا ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ختنہ ہوا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ نظافت و لطافت کے انتہائی بلند مقام پر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوشبو زیادہ مرغوب تھی ، چنانچہ منقول ہے کہ آپ خوشبو کے لیے مشک استعمال فرماتے تھے۔
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم میں نکاح کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ جو آدمی میری اس سنت سے اعراض کرے گا یعنی نکاح نہیں کرے گا تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔
حضرت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے نکاح کے فضائل و مناقب میں منقول جو احادیث جمع کی ہیں ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب رات اور دن میں سو کر اٹھتے تو وضو کر نے سے پہلے مسواک کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دن میں بھی قیلولہ کے وقت آرام فرماتے تھے ، چنانچہ دن میں تھوڑا بہت سو لینا اور قیلولہ کے وقت آرام کرنا سنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رات میں اللہ کی عبادت کے لیے اٹھنے میں آسانی ہوتی ہے جیسے کہ سحری کھا لینے سے روزہ آسان ہو جاتا ہے۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنا سنت موکدہ ہے کیونکہ سونے کی وجہ سے منہ میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور بو میں فرق آ جاتا ہے اس لیے مسواک کرنے سے منہ صاف ہو جاتا ہے۔
اب اس میں احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پھر وضوء کے لیے دوبارہ مسواک کرتے تھے یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اسی مسواک پر اکتفا فرماتے ہوں اور وضوء کے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وضو کے ارادہ کے وقت یا وضو میں کلی کرتے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کرتے اور پھر مجھے دے دیتے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں چنانچہ میں (آپ سے مسواک لے کر) پہلے اس سے خود مسواک کرتی پھر دھوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیتی۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ مسواک کرنے کے بعد اس کو دھونا مستحب ہے ، حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ تین مرتبہ مسواک کی جائے اور ہر مرتبہ اسے پانی سے دھو لیا جائے تاکہ اس کا میل کچل دور ہوتا رہے اور یہ کہ مسواک نرم ہونی چاہئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسواک لے کر دھونے سے پہلے اپنے منہ میں اس لیے پھیرتی تھی ں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی لعاب مبارک کی برکت حاصل ہو، پھر اسے دھو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیتی تھی ں تاکہ مسواک پوری طرح نہ کی ہو تو اسے مکمل کر لیں۔
یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی دوسرے کی مسواک اس کی رضا مندی سے استعمال کر لینا مکروہ نہیں ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صالحین اور بزرگوں کے لعاب وغیرہ سے برکت حاصل کرنا اچھی بات ہے۔
٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں (اس اثناء میں ) دو آدمی میرے پاس آئے ، ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے بڑا تھا، میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دینے کا ارادہ کیا مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو مسواک دو، چنانچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے مسواک کی بزرگی اور فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے اس لیے کہ اسے بڑے کو دینے کا حکم کیا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک افضل اور بہترین چیز ہے جب ہی تو بڑے کو جو چھوٹے سے افضل و اعلیٰ تھا، دئیے جانے کا حکم کیا گیا۔
اس حدیث نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ کھانا وغیرہ دینے ، خوشبو لگانے یا ایسی ہی دوسری چیزوں میں ابتداء بڑے سے ہی کرنی چاہئے۔
٭٭حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آتے مجھے مسواک کرنے کا حکم دیتے (یہاں تک کہ) یہ مجھے خوف ہوا کہ (کہیں مسواک کی زیادتی سے ) میں اپنے منہ کے اگلے حصہ کو چھیل نہ ڈالوں۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
مسواک کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لاتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مسواک کرنے کا حکم دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس حکم کی بنا پر کثرت سے مسواک کرتے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہی فرما رہے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بار بار حکم اور اس شدت سے تاکید کی بناء پر مسواک اتنی کثرت سے استعمال کرتا ہوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ مسواک کی زیادتی سے کہیں میرا منہ نہ چھیل جائے۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تم سے مسواک کے متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس ارشاد کا مقصد مسواک کی فضیلت و اہمیت کو بتانا ہے اور اس پر تاکید فرمانی ہے کہ مسواک زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے اس لیے کہ کسی چیز کو بار بار بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چیز بڑی اہمیت و فضیلت کی حامل ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دو آدمی تھے جن میں ایک دوسرے سے بڑا تھا چنانچہ مسواک کی فضیلت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ وحی نازل فرمائی گئی کہ بڑے کو مقدم رکھو اور ان دونوں میں سے بڑے کو مسواک دو۔ (ابوداؤد)
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ نماز جس کے لیے مسواک کی گئی (یعنی وضو کے وقت) اس نماز پر جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی ستر درجے کی فضیلت رکھتی ہے۔ (بیہقی)
تشریح
اس حدیث سے بھی مسواک کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ مسواک کی وجہ سے نماز کے مراتب و درجات کی کمی پیشی ہوتی ہے ، چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کسی آدمی نے ایک نماز تو اس طرح پڑھی کہ اس نے اس نماز کے لیے وضو کے وقت مسواک اور ایک نماز اس طرح پڑھی کہ اس کے لیے وضو کے وقت مسواک نہیں کی تو پہلے نماز جس کے لیے مسواک کی گئی ہے اس نماز کے مقابلہ میں جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی فضیلت اور ثواب کی زیادتی ستر درجہ زیادہ ہو گی گویا دوسری نماز کے مقابلہ میں پہلی نماز کا ثواب ستر گناہ زیادہ ملے گیا۔
٭٭حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت ابو سلمہ تابعی ہیں ، بعمر ٧٢ سال ٩٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) حضرت زید ابن خالد الجہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت زید ابن خالد جنہی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی ہیں کنیت ابو عبدالرحمن بعمر ٨٥ سال بعہد عبدالملک ٧٨ھ میں اور بعض کے خیال کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری زمانہ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میں اپنی امت کے لیے اسے مشکل نہ جانتا تو میں ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا (یعنی یہ اعلان کرتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کرنا واجب ہے اور عشاء کی نماز میں تہائی رات یا تاخیر کرنا۔ راوی کا بیان ہے کہ (اس کے بعد) زید ابن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے لیے مسجد میں آتے تو مسواک ان کے کان پر رکھی ہوتی جس طرح کاتب کے کان میں قلم رکھا رہتا ہے ، جب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے فوراً مسواک کر لیتے اور پھر کان پر رکھ لیتے (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی) ابوداؤد نے لَاَخَّرْتُ صَلٰوَۃَ الْعِشَآءِ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)
یہاں وضو کی سنتوں سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ افعال و اقوال ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے وضو کے بارے میں منقول ہیں خواہ ان کا تعلق وضو کے فرائض سے ہو یا سنت یا آداب وضو سے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی سو کر اٹھے تو (اسے چاہئے کہ) اپنے ہاتھ کو پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے (پہنچوں تک) تین بار دھو نہ لے ، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ رات بھر اس کا ہاتھ کہاں رہا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو سے پہلے ہاتھوں کو دھونا سنت ہے ، جہاں تک سو کر اٹھنے کے بعد کی قید کا سوال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں پانی کی قلت ہوتی ہے ، خاص طور پر زمانۂ نبوت میں تو پانی بہت ہی کم مقدار میں دستیاب ہوتا تھا، اس لیے اکثر و بیشتر لوگ پانی سے استنجاء نہیں کرتے تھے پہلے ڈھیلوں سے یا پتھروں سے صاف کر لیا کرتے تھے ، اور یہ ظاہر ہے کہ گرم ہوا کی بنا پر سوتے میں استنجاء کے مقام پر پسینہ آ جاتا ہے ، اس صورت میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ رات میں سوتے وقت ہاتھ استنجاء کے مقام پر پہنچ جائے جس سے ہاتھ گندے ہو جائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سونے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا ہاتھ رات کو سوتے وقت کہاں رہا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھے تو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے ہاتھوں کو پانی کے برتن میں نہ ڈال دے بلکہ ہاتھ تین مرتبہ دھو ڈالے تاکہ وہ پاک و صاف ہو جائیں اس کے بعد برتن سے پانی لے کر وضو کر لے۔
بہر حال یہاں نیند کی قید تو اس لیے ہے کہ اس میں ہاتھوں کو نجاست لگنے کا احتمال ہے ورنہ ہر ایک وضو کرنے والے کو پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھونا چاہئے اس لیے کہ علماء لکھتے ہیں کہ اس طرح ہاتھ دھونا اس آدمی کے لیے بھی سنت ہے جو سو کر نہ اٹھا ہو کیونکہ ہاتھ دھونے کا سبب یعنی ہاتھ کو نجاست و میل لگنے کا احتمال جاگنے کی حالت میں بھی موجود ہے۔
ہاتھ دھونے کا یہ حکم فرض اور واجب نہیں ہے بلکہ مسنون کے درجہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا حکم احتیاط کے طور پر دیا ہے اگر کوئی آدمی ہاتھ نہ دھوئے تو بھی وہ پاک ہے کہ اگر بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دے تو اس سے پانی ناپاک و نجس نہیں ہوتا کیونکہ سوتے میں ہاتھ کا ناپاک ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ احتمال کے درجہ کی چیز ہے مگر حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ کا دھونا واجب ہے ، اگر کوئی آدمی سو کر اٹھا اور اس نے بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دیا تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے اور وضو کا ارادہ کرے تو تین مرتبہ (ناک میں پانی دے کر) ناک کو جھاڑے اس لیے کہ اس کی ناک کے بانسے پر شیطان رات گزارتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
انسان کی ناک کے بانسے پر شیطان کا رہنا اور اس پر رات گزارنے کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی حقیقت و کیفیت کا علم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے اس کے رموز و اسرار کی معرفت سے ہماری عقلیں قاصر ہیں۔ لہٰذا ایسے امور کے معاملہ میں جن کی خبر شارع نے دی ہے۔ بہتر اور اولیٰ طریقہ یہی ہے کہ صرف ان کی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی حقیقت و کیفیت کے بیان کرنے میں سکوت اختیار کیا جائے۔
بعض حضرات نے اس کی بڑی دلچسپ تاویل بھی کی ہے ، مثلاً یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان سو جاتا ہے تو بخارات، رینٹھ اور گرد و غبار ناک میں جمع ہو جاتے ہیں جو دماغ کا قریبی حصہ ہے اس کی بنا پر دماغ جو حواس و شعور کی جگہ ہے مکدر ہو جاتا ہے اور یہ چیز تلاوت قرآن کے آداب کو کماحقہ، ادا کرنے اور اس کے معنی و مطلب کے سمجھنے میں مانع ہوتی ہے ، نیز یہ عبادات کی ادائیگی میں سستی اور کسل کا باعث بھی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں شیطان کی منشاء کے عین مطابق اور اس کی خوشی کا باعث ہیں ، اس لیے اس مشابہت سے کہا گیا ہے کہ سونے والے کی ناک کے بانسہ کے اوپر رات بھر شیطان بیٹھا رہتا ہے۔ بہر حال یہ احتمالات ہیں ، ان پر بھی کوئی یقینی حکم نہیں لگایا جا سکتا اس لیے بہتر اور اولیٰ طریقہ وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عاصم ہے ابن ام عمارہ کے نام سے مشہور ہیں ، ابو محمد کنیت ہے ، آپ بزمانہ یزید ٦٤ھ میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔) سے پوچھا گیا کہ سر کاردو عالم کس طرح وضو فرمایا کرتے تھے (یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کا پانی منگوایا (جب پانی آگیا تو) انہوں نے دونوں ہاتھوں پر (پانی) ڈالا اور انہیں پہنچوں تک) دو دو مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور پانی ڈال کر ناک کو جھاڑا تین مرتبہ پھر اپنا منہ تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک لائے یعنی انہوں نے اپنے سر کی اگلی جانب سے شروع کیا اور دونوں ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر ان کو (پھیر کر) اسی جگہ واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا اور پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔ (مالک، سنن نسائی، ابوداؤد) اور صحیح البخاری و صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کرتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے سامنے وضو کریں چنانچہ عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (پانی کا) برتن منگوایا (جب پانی کا برتن آگیا تو) انہوں نے اسے جھکایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں تین مرتبہ دھویا پھر ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے پانی نکالا پھر (اسی) ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اس طرح انہوں نے تین مرتبہ کیا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی نکالا اور تین مرتبہ منہ دھویا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر نکالا اور سر کا مسح (اس طرح) کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے ، اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا، پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی وضو تھا اور صحیح البخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ (مسح کے لیے ) اپنے ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا اور (ہاتھوں کو) گدی کی طرف لے گئے پھر گدی کی طرف سے وہیں لے آئے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا اور پھر اپنے پاؤں کو دھویا صحیحین کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ کلی کی ناک میں پانی دیا اور ناک تین مرتبہ جھاڑی تین چلوؤں سے ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ پس کلی کی اور ایک ہی چلو سے ناک میں پانی ڈالا۔ اس طرح تین مرتبہ کیا۔صحیح البخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ پس سر کا مسح کیا (اس طرح کہ) اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور آگے سے پیچھے کی طرف لے آئے اور یہ ایک مرتبہ کیا پھر دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا بخاری ہی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں بس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ صرف ایک چلو سے۔
تشریح
اس حدیث کے پہلے جزء سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے ہاتھوں کو دو مرتبہ دھویا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں دوسری روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ہاتھ تین مرتبہ دھوتے تھے ، اس سلسلہ میں علماء کرام یہ تاویل کرتے ہیں کہ سنت تو تین ہی مرتبہ دھونا ہے مگر چونکہ دو مرتبہ بھی دھو لینا جائز ہے اس لیے حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان جواز کے لیے اپنے ہاتھوں کو پہنچوں تک دو مرتبہ دھویا۔ تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ دو مرتبہ دھونا جائز ہے۔
اس سلسلہ میں مرتین کا لفظ دو مرتبہ آیا ہے ، حالانکہ ایک ہی مرتبہ لانا کافی تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لفظ مرتین صرف ایک ہی مرتبہ ذکر کیا جاتا تو اس سے یہ وہم پیدا ہو سکتا تھا کہ دونوں ہاتھ متفرق طور پر دو مرتبہ دھوئے ہوں گے ، یعنی ایک مرتبہ ایک ہاتھ دھویا اور ایک مرتبہ ایک دھویا، لہٰذا اس وہم سے بچانے کے لیے مرتین کو دو مرتبہ ذکر کیا تاکہ یہ بات صاف ہو جائے کہ دونوں ہاتھ ملا کر دو مرتبہ دھوئے۔
سر کے مسح کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی تین انگلیاں سر کے آگے کی جانب رکھی جائیں اور دونو ہاتھوں کے انگوٹھوں کو اور شہادت کی انگلیوں کو نیز ہتھیلیوں کو سر سے جدا رکھا جائے اس طرح چھ انگلیوں کو گدی کی طرف لے کر جائیں پھر، دو ہتھیلیاں سر کے پچھلے حصہ پر رکھ کر آگے کی طرف لائی جائیں اور پھر دونوں کانوں کے اوپر کے حصہ پر دونوں انگوٹھوں سے اور کانوں کے دونوں سوراخوں میں شہادت کی انگلیوں سے مسح کیا جائے۔
وفی المقفق علیہ کے بعد جو روایتں نقل کی گئی ہیں وہ صاحب مصابیح کی نقل کردہ نہیں ہیں بلکہ صاحب مشکوٰۃ نے ان کا اضافہ کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ما قبل کی روایت باوجودیکہ صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں ہے مگر صاحب مصابیح نے انہیں صحاح یعنی فصل اوّل میں نقل کیا ہے اس لیے مصنف مشکوٰۃ ان روایتوں کو جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول ہیں آگے اضافہ کر دیا ہے تاکہ ترتیب صحیح رہے۔
صحیح البخاری کی آخری روایت جس کے الفاظ یہ ہیں۔ پس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ ایک چلو سے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی چلو سے ناک میں تین مرتبہ پانی دے کر اسے جھاڑے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین دفعہ میں ہر مرتبہ ایک ایک چلو سے ناک میں پانی دے کے اسے جھاڑا یعنی تین مرتبہ کے لیے تین چلو بھی استعمال کئے۔
اس سلسلہ میں اتنی بات جان لینی چاہئے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں ، چنانچہ بعض احادیث میں کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا اور بعض روایات میں ایک ہی چلو سے فصل و وصل کے ساتھ منقول ہے یعنی تین چلو سے کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ دونوں ایک ہی چلو سے بھی ثابت ہے ، اس طرح اس کی کئی صورتیں ہیں ، چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک قول صحیح کے مطابق یہ ہے کہ دونوں تین چلو میں کئے جائیں اس طرح کے پہلے ایک چلو پانی لیا جائے اور اس میں تھوڑے پانی سے کلی کر لی جائے اور بقیہ پانی ناک میں ڈالے پھر دوسرا چلو اور تیسرا چلو لے کر اسی طرح کیا جائے۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ کا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک تین تین چلو سے کئے جائیں یعنی کلی کے لیے تین چلو استعمال کئے جائیں اور پھر ناک میں پانی دینے کے لیے بھی تین ہی چلو الگ سے استعمال کئے جائیں۔
امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اس طریقہ کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ قیاس کے مطابق ہے اس لیے کہ منہ اور ناک دونوں علیحدہ علیحدہ عضو ہیں لہٰذا جس طرح دیگر اعضاء وضو کو جمع نہیں کیا جاتا اسی طرح ان دونوں عضو کو بھی جمع نہیں کیا جائے گا اور اصل فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ جو حدیث قیاس کے موافق ہوا سے ترجیح دی جائے۔
جہاں تک شوافع و حنفیہ کے مذہب میں تطبیق کا تعلق ہے اس سلسلہ میں شمنی نے فتاوی ظہریہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے یہاں وصل بھی جائز ہے یعنی امام شافعی علیہ الرحمۃ کا جو مسلک ہے وہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک بھی صحیح ہے ، اسی طرح امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے یہاں فصل بھی جائز ہے ، یعنی جو مسلک امام اعظم کا ہے وہ امام شافعی کے یہاں بھی صحیح اور جائز ہے۔
نیز امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کو ایک ہی چلو کے ساتھ جمع کرنا جائز ہے لیکن میں اسے زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ان دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ چلو استعمال کئے جائیں ، اس قول سے صراحت کے ساتھ یہ بات ثابت ہو گئی کہ حنفیہ اور شوافع کے مسلک میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا (یعنی تمام اعضاء وضو کو صرف ایک ایک مرتبہ دھویا اور اس پر زیادہ نہیں کیا۔ (صحیح البخاری)
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عبدربہ ہے اور کنیت ابو محمد ہے آپ انصاری ہیں اور آپ صحابی ہیں۔ ٣٢ھ میں بعمر ٦٤سال آپ کی وفات ہوئی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو ، مرتبہ وضو کیا (یعنی اعضاء وضو کو دو دو بار دھویا)۔ (صحیح البخاری)
٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے مقام مقاعد میں وضو کیا اور کہا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وضو نہ دکھلاؤں؟چنانچہ انہوں نے تین تین مرتبہ وضو کیا (یعنی انہوں نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھو کر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح وضو فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعضاء وضو کو کبھی ایک ایک مرتبہ دھوتے تھے کبھی دو دو مرتبہ دھوتے تھے اور کبھی تین تین مرتبہ دھوتے تھے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اکثر تین تین مرتبہ ہی دھوتے تھے۔
ان میں تطبیق اس طرح ہو گی کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اعضاء وضو کو کبھی کبھی ایک ایک مرتبہ دھونا بیان جواز کے لیے تھا یعنی اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک ایک مرتبہ دھونا جائز ہے اور اس طرح وضوء ہو جاتا ہے کیونکہ یہ ادنی درجہ ہے اور فرض بھی ایک ایک مرتبہ ہی دھونا ہے ، اسی طرح دو دو مرتبہ بھی بیان جواز کے لیے دھوتے تھے کہ اس طرح بھی وضو ہو جاتا ہے اور اکثر و بیشتر تین تین مرتبہ اس لیے دھوتے ہیں کہ یہ طہارت کا انتہائی درجہ ہے ، لہٰذا عضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اس پر زیادتی کرنا منع ہے ، بعض احادیث میں بعض اعضاء کو تین تین مرتبہ بعض اعضاء کو دو دو مرتبہ اور بعض اعضاء کو ایک ایک مرتبہ بھی دھونا ثابت ہے چنانچہ یہ سب طریقے بھی بیان جواز کے لیے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا گناہ ہے کیونکہ اس طرح سنت مشہورہ ترک ہوتی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ جب خود احادیث سے ایک ایک مرتبہ دھونا ثابت ہے اسے گناہ کہنا مناسب نہیں ہے۔
آخر حدیث کے یہ الفاظ کہ تین تین مرتبہ وضو کیا یعنی اعضاء وضو کو تین بار دھویا۔ اس سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا ہو گا لیکن جن روایتوں میں اعضاء وضو کے دھونے کی تفصیل اور وضاحت کی گئی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایتیں گزری ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک ہی مرتبہ ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لیے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے ، چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھی ں (یعنی خشک رہ گئی تھی ں کیونکہ) ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ویل(خرابی) ہے ایڑیوں کے لیے آگ سے !وضو کو پورا کرو۔ (صحیح مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لیے واپس لوٹ رہے تھے درمیان سفر عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، راستہ میں ایک جگہ پانی کے قریب یہ قافلہ رک گیا، کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے ، وضو کرنے کے لیے پانی کی طرف لپکے چنانچہ وہ لوگ تیز چل کر اس جماعت سے جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ تھے آگے نکل گئے اور پانی پر پہلے پہنچ کر وقت کی تنگی کے سبب جلدی جلدی وضو کر لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ جلدی کی وجہ سے ان کی پیر پوری طرح دھلے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایڑیاں خشک رہ گئی، اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایڑیوں کے لیے ویل (خرابی ہے ) آگ سے۔
بعض علماء نے ویل کے معنی شدت عذاب لکھے ہیں۔
کچھ علماء کی تحقیق ہے کہ ویل دوزخ میں پیپ اور لہو کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔
بعض محققین لکھتے ہیں کہ ویل ایک ایسا کلمہ ہے جسے رنج رسیدہ آدمی بولتا ہے اور اصل میں اس کے معنی ہلاکت اور عذاب کے ہیں۔
بہر حال ان تمام معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب اور صحیح یہ ہے کہ اس لفظ کا محل اصل ہی کو قرار دیا جائے۔ یعنی ایڑیوں کے لیے عظیم ہلاکت اور درد ناک عذاب ہے خاص طور پر ایڑیوں ہی کے لیے یہ وعید اس لیے ہے کہ وضو میں دھوئی نہیں گئی تھی ں جس کی بناء پر وہ خشک رہ گئی تھی ں۔
گو! بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں ایڑیوں سے مراد ایڑیوں والے ہیں یعنی یہ وعید ان لوگوں کے لیے جن کی ایڑیاں وضو میں خشک رہ گئی تھی ں۔
آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ وضو کو پورا کرو یعنی وضو کے جو فرائض و سنن اور مستحبات و آداب ہیں ان سب کو پورا کرو اور سب کی ادائیگی کا خیال رکھو چنانچہ دوسری حدیث میں وارد ہے کہ (اعضاء وضو کا کوئی حصہ) اگر ایک ناخن کے برابر بھی خشک رہ جائے گا تو وہ وضوء درست نہیں ہو گا۔
یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ وضو میں پاؤں کا دھونا فرض ہے کیونکہ اگر پاؤں دھونا فرض نہ ہوتا تو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کی وجہ سے اتنی بڑی وعید نہ فرمائی جاتی، چنانچہ ہر دور کے تمام علماء اور فقہاء کا یہی عقیدہ اور مسلک رہا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا فرض ہے مسح کافی نہیں ہے ، اس مسئلہ میں کسی بھی ایسے عالم کا اختلاف جو لائق اعتبار اور قابل استناد ہو ثابت نہیں ہے ، نیز صحابہ کرام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کی کیفیت و تفصیل بیان کرتے ہیں جیسے حضرت علی، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہم جنہیں حاکی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کو بیان کرنے والا کہا جاتا ہے یہاں اسی طرح حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔
پھر ایسی بے شمار احادیث جو مرتبہ تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بے شمار احادیث میں مذکور ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔
پھر ایسی بے شمار احادیث جو مرتبہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بے شمار احادیث میں مذکور ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (پیروں کو دھو کر) وضو کو پورا کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے ترک پر و عید فرمائی چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسح چھوڑ دیا اور وہ منسوخ ہو گیا۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت عبدالملک بن سلیمان کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جو جلیل القدر تابعی ہیں ، پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی ایک روایت بھی ایسی ملی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی بھی صحابی، اپنے پیروں پر مسح کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! نہیں۔
بہر حال اس سلسلہ میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ وضو میں پیر کے بارے میں جو حکم قرآن مجید میں مذکور ہے وہ محمل اور مشتبہ ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت نے خواہ وہ قولی ہو یا فعلی جو حد شہرت و تواتر کو پہنچتی ہے اس کی تشریح اور وضاحت کر دی ہے کہ قرآن پاک میں اس حکم سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کو دھونا چاہئے لہٰذا پاؤں کو دھونا ہی فرض ہے۔
جہاں تک شیعہ فرقہ کے مسلک و معمول کا تعلق ہے کہ وہ لوگ وضو میں پیر پر مسح کرتے ہیں ، اس بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتنی زیادہ تفصیل و تشریح اور اتنے کھلے ہوئے حکم کے باوجود ان کا پیروں کا نہ دھونا انتہائی غلط اور غیر شری فعل ہے۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت مغیرہ شعبہ کے لڑکے ہیں آپ کی کنیت ابوعبد اللہ اور ابو عیسیٰ ہے آپ نے بعمر ستر سال ۵۰ھ ہجری میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پیشانی کے بالوں اور پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
سر کے مسح کی مقدار میں علماء کرام کے یہاں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہے ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہے خواہ وہ تین بال ہی کیوں نہ ہوں ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چوتھائی سرکار مسح فرض ہے ، حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہی حدیث ناصیہ (ناصیہ سر کے آگے کی جانب حصہ کو فرماتے ہیں ) اسی بنا پر حنفیہ فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ دو ہی شکلیں ہو سکتی ہیں ، اوّل تو یہ کہ امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق مسح پورے سر کا فرض ہے ، مگر یہ ظاہر ہے کہ پورے سر کا مسح اگر فرض ہوتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسح ناصیہ پر ہی اکتفا نہ فرماتے ، بلکہ ادائے فرض کے لیے پورے ہی سر کا مسح فرماتے ہیں ، لہٰذا معلوم ہوا کہ پورے سر کا مسح تو فرض نہیں ، دوسری شکل یہ ہے کہ چوتھائی سر سے بھی کم پر مسح فرض ہو جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مذہب ہے ، اس سلسلہ میں بھی یہی بات ہے کہ اگر چوتھائی سر سے کم بھی مسح فرض ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیان جواز کے لیے اسے بھی اختیار فرماتے مگر یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چوتھائی سر سے کم پر کبھی مسح نہیں کیا ہے ، لہٰذ اس سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسح چوتھائی سر کا ہی فرض ہے۔
پگڑی پر مسح کرنے کے معنی شارحین نے یہ لکھے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چوتھائی سرکا مسح جو فرض ہے کر لیا تو تکمیل وضو اور ادائے سنت کے لیے (کہ تمام سر کا مسح کرنا سنت ہے ) بجائے اس کے سر کے بقیہ حصہ پر مسح فرماتے ، سر کے اوپر بندھی ہوئی پگڑی پر مسح کر لیا۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پگڑی طہارت کے بعد پہنی ہو اور پگڑی نے پورے سر کو ڈھانک لیا ہو جیسا کہ موزہ پر مسح کرنے کا مسئلہ ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حتی الامکان اپنے تمام کاموں کو سیدھے ہاتھ سے شروع کرنا محبوب رکھتے تھے اور (مثلاً) اپنی طہارت میں ، اپنا جوتا پہننے میں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں اچھے کاموں کو داہنے ہاتھ سے شروع کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے بارے میں اسے پسند فرماتے اور عزیز رکھتے تھے کہ جہاں تک اپنا بس چلے تمام کام داہنے ہاتھ سے انجام دیئے جائیں چنانچہ لفظ ماستطاع (حتی الامکان) سے اسی محافظت اور تاکید کی طرف اشارہ ہے۔
طہارت دائیں طرف سے شروع کرنے کی یہ شکل تھی کہ وضو میں دایاں ہاتھ اور دایاں پیر پہلے دھوتے تھے اور بایاں ہاتھ و بایاں پیر بعد میں دھوتے تھے ، اسی طرح نہانے کے وقت دائیں جانب پہلے دھوتے اور بائیں جانب بعد میں دھوتے تھے۔
بہر حال اس حدیث میں تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں ، جو مثال کے طور ہیں ورنہ تو ہر وہ چیز جو از قبیل بزرگی ہوتی تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے ، جیسے کپڑے پہننا، ازار زیب تن کرنا، موزہ پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، بیت الخلاء سے باہر آنا (یعنی بیت الخلاء سے پہلے دایاں پیر باہر نکالتے تھے ، سرمہ لگانا ، ناخن کتروانا، بغل کے بال صاف کرنا، لب کے بال کتروانا، سر منڈوانا، زیر ناف بال صاف کرنا، مصافحہ کرنا، کھانا پینا اور کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح جو چیز از قبیل بزرگی نہیں ہیں ان کو بائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے ، مثلاً بیت الخلاء (یعنی بیت الخلاء میں پہلے بایاں پیر رکھنا، بازار میں جانا، مسجد سے نکلنا ، ناک سنکنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور کپڑے اور جوتے اتارنا یا ایسے ہی دوسرے کام، ان کاموں کو بائیں طرف سے شروع کرنے میں ایک لطیف اور پر حقیقت نکتہ بھی ہے یہ کہ ایسی چیزوں کی ابتداء بائیں طرف سے کرنے کی وجہ دائیں طرف کی تکریم و احترام کا مظاہرہ ہوتا ہے مثلاً جب کوئی آدمی مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں قدم باہر نکالے گا تو دائیں قدم کی تکریم ہوئی بایں طور کہ دایاں قدم محترم جگہ میں باقی رہا۔ اسی پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ، یہی وجہ کہ انسان کے ہمراہ جو دو فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے دائیں ہاتھ کا فرشتہ دائیں طرف کی فضیلت و احترام کی بناء پر بائیں ہاتھ کے فرشتے پر شرف و فضیلت رکھتا ہے ، نیز اسی نقطہ کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ دائیں طرف کا ہمسایہ بائیں طرف کے ہمسایہ پر مقدم ہے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم لباس وغیرہ) پہنو یا وضو کرو تو اپنے دائیں طرف سے شروع کرو۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد)
٭٭اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی سعید بن زید اور کنیت ابو الاعور ہے آپ قریشی عدوی ہیں اور آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں آپ کا انتقال ٥٠ ھ یا ٥١ ھ میں بعمر ۷۰ سال بمقام عتیق ہوا۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے (وضو کے وقت) اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا اس کا وضو نہیں ہوا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور دارمی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے ، نیز ان لوگوں نے اپنی روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد ذکر کئے کہ اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جس نے وضو نہیں کیا )
تشریح
اس حدیث سے وضو کے ابتداء میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت و اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے ، حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے ابتداء وضو میں اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا یعنی بسم اللہ نہیں کہی تو اس کا وضو درجہ تکمیل کو نہ پہنچا جس کی بنا پر اسے ثواب نہیں ملا۔ ویسے اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعلایٰ علیہ کے نزدیک ابتداء وضو میں بسم اللہ کہنا واجب ہے ، مگر جمہور علماء کے کرام کے نزدیک سنت یا مستحب ہے۔
ابتداء وضو میں علماء سلف سے یہ الفاظ منقول ہیں سُبْحَانَ اﷲ الْعَظِیْم وَبِحَمْدِہٖ بعض علماء نے کہا ہے کہ اَعُوْذُ بِاﷲ پڑھنے کے بعد بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا افضل ہے اور مشہور یہ الفاظ ہیں۔ بِسْمِ اﷲ وَالحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ۔
روایت کے آخر میں ایک لفظی غلطی ہے ، جو ہو سکتا ہے کہ کاتب وغیرہ سے سہو ہو یعنی آخر میں یہ الفاظ ذکر کئے گئے ہیں والدارمی عن ابی سعید الخدری عن ابیہ غلط ہے بلکہ صحیح ابی سعید الخدری عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعنی درامی نے اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور ابی سعید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے۔
٭٭اور حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے وضو کے بارے میں آگاہ فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم وضو کو پورا کرو، انگلیوں میں خلال کرو، اور اگر تمہارا روزہ نہ ہو تو ناک میں اچھی طرح پانی پہنچاؤ۔ (سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی سنن ابن ماجہ اور دارمی نے اس حدیث کو بین الا صابع تک روایت کیا ہے )
تشریح
سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کمال وضو کا طریقہ بتا دیجئے تاکہ اسے اختیار کر کے ثواب کا مستحق ہو سکوں اس کا جواب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیا کہ وضو کو پورا کرو، یعنی وضو کے جو فرائض اور سنن و مستحبات ہیں انہیں پورا کرو۔
وضو میں انگلیوں کے درمیان خلال کرنا حضرت امام اعظم اور امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت ہے مگر یہ حکم اس شکل میں ہے جبکہ انگلیاں خلقی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا اور کشادہ ہوں لیکن آپس میں اگر اس طرح ملی ہوں کہ آسانی اور بے تکلفی سے پانی انکے درمیان نہ پہنچا ہو تو پھر انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہو گا۔
حنفیہ کے یہاں انگلیوں کے درمیان خلال کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر دائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر خلال کیا جائے۔ یہی طریقہ اولیٰ ہے۔
پاؤں کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے کرنا چاہئے اس طرح کہ اسے دائیں پاؤں کی چھنگلیا کے نیچے داخل کر کے خلال کرنا شروع کیا جائے ، یہاں تک کہ بائیں پاؤں کی چھنگلیا پر ختم کیا جائے۔
ناک میں پانی دینے کی حد یہ ہے کہ پانی ناک کے نرم حصہ تک پہنچایا جائے اور اس میں مبالغہ جو حدیث کا منشا ہے یہ ہے کہ پانی اس سے بھی آگے گزر جائے ، مگر جیسا کہ خود حدیث نے وضاحت کر دی ہے کہ یہ مبالغہ یعنی ناک کے نرم حصہ سے بھی آگے پانی پہنچانا اس وقت ہے جب کہ وضو کرنے والا روزہ دار نہ ہو، اگر وضو کرنے والا روزہ دار ہو تو پھر اس کے لیے یہ مبالغہ مکروہ ہے۔
اس موقع پر یہ بھی سمجھ لیجئے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض مگر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک غسل اور وضو میں یہ دونوں چیزیں سنت ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں اور اپنے پیروں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔ (جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔)
تشریح
ہاتھ کی انگلیوں کے درمیاں خلال تو ہاتھوں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال پاؤں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے ، یہی طریقہ افضل اور اولیٰ ہے۔
٭٭اور حضرت مستور بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرماتے تو اپنے پاؤں کی انگلیوں کو (بائیں ہاتھ کی) چھنگلیا، سے ملتے (یعنی پاؤں کی انگلیوں کے درمیان بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے خلال فرماتے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، ابن ماجۃ)
تشریح
لفظ یدلک کا مطلب یہ ہے کہ آپ (بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان) خلال کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جسے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے روایت کیا ہے جس میں لفظ (یعنی خلال کرتے تھے ) صراحت کے ساتھ آیا ہے اس شکل میں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا مستحب ہے یا یدلک کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلیا پاؤں کی انگلیوں پر) پھیرتے تھے ، اس صورت میں یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ تمام اعضاء کا ملنا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو فرماتے تو ایک چلو پانی لیتے ، پھر اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے پہنچاتے اور اس سے اپنی داڑھی میں خلال کرتے اور پھر فرماتے کے میرے پروردگار نے (وحی خفی کے ذریعہ) اسی طرح سے حکم فرمایا۔) (ابوداؤد)
تشریح
وضو میں داڑھی کا اس طرح خلال کرنا مستحب ہے ، یہ خلال منہ دھونے کے بعد کرنا چاہئے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ انگلیاں داڑھی کے نیچے سے داخل کر کے اوپر کی طرف کا باہر نکالی جائیں۔
٭٭حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (وضو کرتے وقت) اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔ (جامع ترمذی ، دارمی)
٭٭حضرت ابوحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عمرو بن نصر انماری الہمدانی اور کنیت ابو عیسیٰ سے مشہور ہیں تابعی ہیں۔) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو دھویا یہاں تک کہ انہیں پاک کیا، پھر تین مرتبہ ناک میں پانی دیا، تین مرتبہ اپنا منہ دھویا، تین مرتبہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے ، ایک مرتبہ اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے ، پھر کھڑے ہوئے اور وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا اور پھر فرمایا کہ میں نے یہ پسند کیا کہ تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وضو کس طرح تھا۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)
تشریح
وضو کے بچے ہوئے پانی میں چونکہ برکت آ جاتی ہے اس لیے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے وضو کے بقیہ پانی کو پی لیا، چنانچہ حصول برکت کے لیے وضو کے بقیہ پانی کو پی لینا چاہئے ، یہ پانی کھڑے ہو کر پینا بھی جائز ہے۔
٭٭اور حضرت عبد خیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (اسم گرامی عبد خیر یزید اور کنیت ابو عمارہ ہمدانی ہے ، آپ تابعی ہیں کوفہ میں سکونت پزیر تھے۔) فرماتے ہیں کہ ہم بیٹھے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے چنانچہ انہوں نے برتن میں داہنے ہاتھ سے پانی لیا اور منہ بھر کر کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور بائیں ہاتھ سے ناک سینکی اسی طرح تین مرتبہ کیا پھر فرمایا جس کے لئے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کو دیکھے تو وہ دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وضو یہ ہے (یعنی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وضو فرماتے تھے۔ دارمی)
تشریح
یہاں راوی کا مقصد یہ تھا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کی کیفیت بیان کرے اس لیے انہوں نے صرف اسی قدر بیان کیا، باقی وضو چونکہ معلوم تھا اس لیے اسے بیان نہیں کیا۔
٭٭اور حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)
تشریح
حدیث کے آخر جملہ میں دو احتمال ہیں یعنی اس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور اس طرح تین مرتبہ کیا یا یہ کہ تین چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور پھر تین چلو سے تین مرتبہ ناک میں پانی دیا۔ دوسرے معنی زیادہ مناسب اور اکثر روایات کے مطابق ہیں۔
ان کے علاوہ ایک تیسرا احتمال اور بھی ہو سکتا ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی بھی دیا، دوسرا چلو نہیں لیا۔ یہی تمام احتمالات اس سے پہلے گزرنے والی حدیث میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا اور کانوں کے اندر کا مسح اپنی شہادت کی انگلیوں سے اور اوپر کا انگوٹھوں سے کیا۔ (سنن نسائی)
٭٭اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (اسم گرامی ربیع ہے معوذ کی لڑکی ہیں ، آپ جلیل القدر صحابیہ ہیں اور انصاریہ ہیں آپ بیعت رضوان میں شامل تھی ں۔) سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو وضو کرتے دیکھا چنانچہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر کے اگلے حصہ پر، پچھلے حصہ پر، کنپٹیوں پر اور کانوں پر ایک مرتبہ مسح کیا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا چنانچہ (مسح کے لیے ) اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں میں داخل کیا۔ (ابوداؤد) جامع ترمذی نے پہلی حدیث کو اور سنن ابن ماجہ نے دوسری حدیث کو روایت کیا ہے۔)
تشریح
لفظ صدغیہ اور اذنیہ لفظ راسہ پر عطف ہیں اسے عطف خاص علی العام فرماتے ہیں یعنی سر کے پانی کے ساتھ مسح کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ پر پانی لے کر سر کا مسح کیا تو اسی پانی سے کنپٹیوں اور کانوں پر بھی مسح کر لیا اور ان دونوں کے مسح کے لیے علیحدہ سے پانی نہیں لیا، چنانچہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔
صدغ کان اور آنکھ کے درمیانی حصہ کو فرماتے ہیں اردو میں کنپٹی کہا جاتا ہے ، نیز جو بال اس جگہ پر لٹکے رہتے ہیں اسے بھی صدغ فرماتے ہیں۔ (قاموس) اور (امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ صدغ ان بالوں کو فرماتے ہیں جو سر کے دونوں طرف کان اور ناصیہ (پیشانی کے بال) کے درمیان ہوتے ہیں ، یہی معنی حنفی مسلک کے مطابق اور مناسب ہیں۔
شرح السنتہ میں منقول ہے کہ علماء کے یہاں مسئلہ میں اختلاف ہے کہ تین مرتبہ مسح کرنا سنت ہے یا نہیں؟ چنانچہ اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے ، یہی مسلک حضرت امام اعظم، امام احمد، امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ تین مرتبہ مسح اس طرح کرنا کہ ہر مرتبہ نیا پانی لیا جائے سنت ہے ، چنانچہ اکثر علماء کا یہی خیال ہے مگر خود امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تین مرتبہ مسح کرنے کو مستحب فرماتے ہیں ، امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حضرت عثمان غنی سے جو احادیث مروی ہیں وہ سب صحیح ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے۔
شمنی فرماتے ہیں کہ ہر دفعہ نئے پانی کے ساتھ تین مرتبہ کرنا بدعت ہے مگر ہدایہ میں لکھا ہے کہ ایک ہی پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا مشروع ہے اور یہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی منقول ہے۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سرکا مسح اس پانی سے کیا جو ہاتھوں کا بچا ہوا نہ تھا (یعنی نیا پانی لے کر مسح کیا۔) (جامع ترمذی ، اور مسلم نے اس روایت کو زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جس میں دیگر اعضاء وضو کے دھونے کا بھی ذکر ہے )۔
تشریح
فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مثلاً ایک آدمی نے وضو کے وقت ہاتھ دھویا اور ہاتھ دھونے کے بعد جو تری اس کے ہاتھوں میں باقی رہ گئی تھی تو اس سے سر کا مسح کر لیا تو مسح ہو جائے ، اور اگر کسی عضو پر مسح کرنے کے بعد اس کے ہاتھوں میں تری رہ گئی تو اس سے سر کا مسح کیا تو یہ درست نہیں ہو گا۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث بھی نقل کی جاتی ہے ، نیز اس مذکورہ حدیث کو بھی ابن لہیعہ کی روایت سے نقل کیا گیا ہے جس میں بماء غبر فضل یدیہ یعنی لفظ غبرنا کے ساتھ غبر ہے جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اس پانی کے ساتھ مسح کیا جو ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا، یعنی مسح کے لیے از سر نو پانی نہیں لیا بلکہ پورے ہاتھ دھونے کے بعد جو تری ہاتھوں میں رہ گئی تھی اس سے مسح کر لیا۔ اس طرح حدیث کے معنی بالکل برعکس ہو گئے کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے جو یہاں نقل کی گئی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر کا مسح ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے نہیں کیا بلکہ نیا پانی لے کر کیا لیکن مذکورہ بالا شکل میں صرف ایک نقطہ کے تغیر سے معنی بالکل برعکس ہو گئے۔
مگر جہاں تک سوال کی تحقیق کا ہے تو بات یہی ہے کہ حدیث یہ صحیح ہے جو یہاں نقل کی گئی ہے ، لہٰذا۔ اولیٰ یہ ہوا اگر مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے اور یہ بھی جائز ہو کہ ہاتھ کے باقی بچے ہوئے پانی سے مسح کیا جا سکتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آنکھ کے کونوں کو بھی ملا کرتے تھے اور کہا کہ دونوں کان بھی سر میں داخل ہیں (ابی داؤد، جامع ترمذی) اور امام ابو داؤد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا میں یہ نہیں جانتا کہ الاذنان من الراس (یعنی دونوں کان سر میں داخل ہیں ) ابوامامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اپنا قول ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔
تشریح
ماق ناک کی طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں (قاموس) اور جوہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ ماق دونوں طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں ، لہٰذا اولیٰ یہی ہے کہ دونوں طرف کے گوشہ چشم (کونوں ) کو منہ دھوتے وقت ملنا مستحب ہے تاکہ آنکھ کے اندر کا میل کچیل جو گوشۂ چشم میں جمع ہو جاتا ہے ملنے سے نکل جائے اور آنکھیں صاف ہو جائیں۔
روایت کے اس جز الا ذنان من الراس (دونوں کان سر میں داخل ہیں ) سے دو حکم ثابت ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ کانوں کا مسح بھی سر کے مسح کے ساتھ کرنا چاہئے ، دوسرے یہ کہ سر کے مسح کے لیے جو پانی لیا ہے اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کر لیا جائے کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
چنانچہ پہلے حکم پر تو چاروں ائمہ متفق ہیں ، دوسرے حکم میں کچھ اختلاف ہے ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے ہی کر لینا چاہئے ، اس کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے ، اس مسلک کی تائید بھی کثیر احادیث سے ہوتی ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح نئے پانی سے کرنا چاہئے یعنی سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے کانوں کا مسح کرنا کافی نہ ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں بھی اس سلسلہ میں منقول ہے جو امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید کرتی ہے۔
بہرحال یہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر و بیشتر سر اور کانوں کا مسح ایک ہی پانی سے کرتے ہوں گے ، مگر ایسی شکل میں جب کہ ہاتھ میں تری باقی نہ رہتی ہو گی کبھی کبھی کانوں کے مسح کے لیے لیتے ہوں گے۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭اور حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے وضو کی کیفیت پوچھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اعضاء وضو کو تین مرتبہ دھو کر دکھلایا اور فرمایا کہ (کامل) وضو اس طرح ہے لہٰذا جس نے اس پر زیادہ کیا (یعنی تین مرتبہ سے زیادہ دھویا) اس نے برا کیا، تعدی کی اور ظلم کیا۔ (سنن نسائی و سنن ابن ماجہ اور ابوداؤد نے بھی اسی مطلب کی حدیث روایت کی ہے۔)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سائل کے جواب میں اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھو کر دکھایا اور اسے بتا دیا کہ اگر تم کامل وضو چاہتے ہو اور اس پر ثواب کے متمنی ہو تو پھر وضو اسی طرح کرو۔ اس پر زیادتی کرنا یعنی اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا وضو کرنے والے کے حق میں کوئی مفید بات نہیں ہو گی بلکہ نقصان دہ ہو گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے آدمی کے بارے میں تین الفاظ، استعمال فرمائے ہیں۔
(١) برا کیا۔ اس لیے کہ اس نے سنت کو ترک کیا۔
(٢) تعدی کی۔ یعنی زیادتی کر کے حدود سنت سے تجاوز کیا۔
(٣) ظلم کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ اور سنت کے خلاف عمل کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ میں تجھ سے جنت کی دائیں طرف سفید محل مانگتا ہوں تو انہوں نے کہا اے میرے بیٹے ! تم اللہ سے جنت مانگو اور (دوزخ کی) آگ سے پناہ چاہو۔ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں غلو کریں گے۔ (مسند احمد بن حنبل ، ابن ماجۃ، سنن ابوداؤد)
تشریح
صاحبزادہ کو عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنبیہ کا مقصد یہ تھے کہ تم جس طرح اور جن قیود کے ساتھ دعا مانگ رہے ہو یہ غلط اور شان عبودیت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ایک طرف اگر تحکم کا پہلو ہے تو دوسری طرف بہشت میں ایک مخصوص صفت کی طلب یا کسی مخصوص جگہ کا تعین ایک لا یعنی اور نامناسب چیز ہے۔ ہاں۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ سے صرف بہشت مانگو اور دوزخ کی آگ سے پناہ چاہو۔ اب آگے اللہ کا کام ہو گا کہ وہ جنت میں اپنے فضل و کرم سے تمہیں مراتب و درجات کی جس بلندی پر چا ہے گا پہنچائے گا۔
حد سے تجاوز اور غیر مطلوب زیادتی ہر چیز میں ناپسندیدہ اور غیر مناسب ہو، خواہ وہ چیز شریعت کا مطلوب ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے ، اور لسان نبوت سے پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ سے الگ ہو کر اور حدود شریعت سے تجاوز کر کے طہارت اور دعاء میں زیادتی کریں گے۔
طہارت میں زیادتی یہ ہے کہ دعا اس انداز اور اس طریقہ سے مانگی جائے جس سے بے ادبی کا اظہار ہوتا ہو اور وہ شان عبودیت کے خلاف ہو، یا دعا میں غیر ضروری و نا مناسب قیود لگائی جائیں یا ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے جو انسانی اعتبار سے احاطہ امکان سے خارج یا عادۃً محال ہوں۔
٭٭اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وضو کا ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے لہٰذا پانی کے وسوسہ سے بچو (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی سند قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ خارجہ (ایک عالم) کے علاوہ کسی نے اس کی سند بیان کی ہو اور وہ (خارجہ) ہمارے محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔
تشریح
ولھان کے معنی ہیں عقل کا جاتے رہنا اور متحیر ہونا۔ یہ نام اس شیطان کا اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں متحیّر اور بے عقل کر دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا اس چکر میں پھنس کر وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ جب وضو کرتا ہے تو یہ وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نامعلوم فلاں عضو پر ٹھیک سے پانی پہنچا ہے یا نہیں؟ فلاں عضو کو ایک مرتبہ دھویا ہے یا دو مرتبہ؟
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پانی کے وسوسہ سے بچو یعنی وضو کے وقت پانی استعمال کرنے میں جب اس قسم کے وسوسے اور وہم پیدا ہوں تو انہیں قائم نہ رہنے دو بلکہ انہیں اپنے دل سے باہر نکال پھینکو تاکہ حدود سنت سے تجاوز نہ کر سکو، کیونکہ اس شیطان کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا ان وسوسوں اور اوہام میں مبتلاء ہو کر اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے بھی زیادہ دھو ڈالے یا ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے جس کی بنا پر وہ مسنون طریقہ سے ہٹ جائے۔
٭٭اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
جب آپ وضو سے فارغ ہو جاتے تو پانی خشک کرنے کے لیے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کر لینا جائز ہے چنانچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس، اور حسن ابی علی رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔
حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لیے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے ) پوچھنا اگر از راہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور و تکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لیے اور نہ غسل کرنے والے کے لیے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو فرما چکے تو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک رومال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے واپس کر دیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لیے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رومال واپس فرما دیا ہو۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اپنے بھیگے ہوئے اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے (جامع ترمذی) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی، ابو معاذ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں
تشریح
نہ یہ کہ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وضو کے بعد بھیگے ہوئے اعضاء کو کپڑے سے پونچھے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک حمایت اور تابعین نے وضو کے بعد اعضاء کو پونچھ لینے کی اجازت دی ہے اور ان کی یہ اجازت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی قول و فعل سے مستنبط نہیں ہے بلکہ یہ خود ان لوگوں کی اپنی رائے ہے ، چنانچہ سید جمال الدین شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ یہ دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ جواز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کی ذاتی رائے ہے غلط ہے ، بلکہ اس کے برعکس آپ کا یہ قول خود آپ کے ذہن کی پیداوار ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام مثلاً حضرت عثمان، حضرت انس اور حضرت حسن بن علی رضوان اللہ علیہم کی جلالت شان اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے جذبہ صادق کے پیش نظر اس کا وہم بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دینی معاملات میں کوئی چیز ان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہو سکتی ہے لہٰذا ان کا فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ضرور ہے۔
اس کے علاوہ اس کلیہ کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنا خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے بنسبت اس کے کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے ، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور قوی کیوں نہ ہو۔
٭٭اور حضرت ثابت بن ابی صفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (حضرت ثابت بن ابی صفیہ تابعی ہیں ، آپ کی کنیت ابوحمزہ تھی۔ ١٤٨ھ میں انتقال ہوا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد سے جن کا نام محمد باقر حضرت امام محمد باقر حضرت امام زین العابدین رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے ہیں ٥٦ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی ، آپ کا انتقال ١١٧ھ یا ١١٨ھ بمقام مدینہ منورہ ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہیں۔) ہے کہا کہ آپ سے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (کبھی) ایک ایک مرتبہ (کبھی) دو دو مرتبہ اور (کبھی) تین تین مرتبہ وضو کیا: انہوں نے فرمایا ہاں۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
محدثین کی عادت ہے کہ جب شاگرد اپنے شیخ (استاد) سے کوئی حدیث سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ حدثک فلان عن فلان (اس طرح شاگرد اپنی سند کے سلسلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتا ہے اور استاد خاموشی سے اس سلسلہ سند کو سنتا رہتا ہے ) یعنی کیا آپ سے یہ حدیث فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے (یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فلاں نے ) سنی ہے اس کے جواب میں شٰخ کہتا ہے کہ نعم! (یعنی ہاں ) گویا روایت حدیث کا یہ ایک طریقہ ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ استاد اپنے شاگرد کے سامنے جب کہتا ہے کہ حد ثنی فلاں الخ (یعنی مجھ سے یہ حدیث بیان کی فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فلاں نے سنی ہے ) تو شاگرد بیٹھا سنتا رہتا ہے۔
بہر حال۔ اسی طرح سے حضرت عثمان بن ابی صفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے استاد حضرت امام محمد باقر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ حدثک جابر الخ یعنی کیا یہ حدیث آپ سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی ہے۔ اس کے جواب میں محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقرار کیا کہ ہاں مجھ سے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو، دو مرتبہ وضو فرمایا (یعنی اعضاء وضو کو دو ، دو بار دھویا) اور پھر فرمایا کہ یہ نور کے اوپر نور ہے۔
تشریح
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا تو اس سے فرض اداء ہوا اور ایک نور ہوا، پھر اس کے بعد جب دوسری مرتبہ دھویا تو سنت اداء ہوئی اور چونکہ یہ بھی نور ہے اس لیے نور کے اوپر نور ہوا۔
٭٭اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین تین مرتبہ وضو کیا اور پھر فرمایا کہ یہ میرا اور مجھ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کا وضو ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وضو ہے (یہ دونوں حدیثیں رزین نے روایت کی ہیں اور امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے شرح مسلم میں دوسری حدیث کو ضعیف کہا۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو ذکر کیا ہے اسے تخصیص بعد تعمیم فرماتے ہیں یعنی انبیاء علیہم السلام کا عمومی طور پر ذکر کرنے کے بعد پھر بطور خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسم گرامی کا ذکر کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام طہارت اور نظافت کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہر (فرض) نماز کے لیے وضو فرمایا کرتے تھے اور ہم کو ایک وضو اس وقت تک کافی ہوتا تھا جب تک کہ وضو نہ ٹوٹتا تھا۔ (دارمی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا پہلے واجب تھا مگر بعد میں وجوب کا یہ حکم منسوخ ہو گیا، جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، کچھ علماء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اولیٰ اور عزیمت سمجھ کر ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے تھے۔
٭٭اور حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ مجھے یہ بتائیے کہ کیا حضرت عبداللہ ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے خواہ وہ با وضو ہوں یا بے وضو اور انہوں نے یہ عمل کس سے حاصل کیا تھا؟ حضرت عبید اللہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ ابی عامر الغسیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر نماز کا وضو کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا خواہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم با وضو ہوں یا بے وضو جب آپ کے لیے یہ مشکل ہوا تو ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیا گیا اور وضو کو موقوف کیا گیا (یعنی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا واجب نہ رہا، جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے حضرت عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ خیال تھا کہ مجھ میں ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کی قوت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی پر موت کے وقت تک عمل کیا۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
لفظ غسیل کے معنی ہیں نہلایا گیا یہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفت ہے ، حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسیل اس لیے کہا جاتا ہے کہ انتقال کے بعد انہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔ چنانچہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا کہ ان کا کیا حال تھا؟(یعنی جب وہ گھر سے نکلے تو کیا کام کر رہے تھے ) انہوں نے جواب دیا کہ وہ حالت ناپاکی میں تھے اور (نہانے کے وقت) اپنے سر کا ایک ہی حصہ دھو پائے تھے کہ اتنے میں انہوں نے صدا سنی (کہ جہاد کے لیے بلایا جا رہا ہے ، چنانچہ وہ اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور (غزوہ احد میں ) جام شہادت نوش فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ فرشتے انہیں نہلا رہے تھے۔ (طیبی)
بہر حال طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسواک بہت زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھتی ہے کہ جب ہی تو اسے واجب وضو کا قائم مقام قرار دیا گیا۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو اس لئے کرتے تھے کہ انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اگرچہ اس کا وجوب منسوخ ہو گیا ہے مگر اس آدمی کے لیے جو اس پر عمل کی طاقت و قوت رکھتا ہے اس کی فضیلت باقی ہے اس لیے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے اندر اتنی قوت و ہمت ہے کہ میں اس عمل کو بخوبی پورا کر سکتا ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس فضیلت و سعادت سے محروم رہوں۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنا معمول بنا لیا کہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے اور جب تک موت کی آغوش نے انہیں اپنے اندر چھپا نہ لیا وہ اس معمول پر قائم و دائم رہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے )؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے ) ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)
تشریح
یہ حدیث اس بات پر تنبیہ کر رہی ہے کہ وضو و غسل میں پانی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اسراف ہے اور اسراف شریعت کی نگاہ میں کوئی محبوب چیز نہیں ہے
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وضو میں پانی زیادہ خرچ کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں تنبیہ فرمائی اس پر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بڑا تعجب ہوا کہ پانی کوئی نایاب اور کم یاب چیز تو ہے نہیں پھر اس میں اسراف کے کیا معنی؟ اسی بنا پر انہوں نے سوال بھی کیا کہ کیا وضوء میں بھی اسراف ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اسراف تو اسے بہی کہیں گے کہ تم نہر جاری پر بیٹھ کر وضوء کرو اور پانی زیادہ خرچ کرو جب کہ نہر یا دریا وغیرہ سے کتنا بھی پانی خرچ کر دیا جائے اس میں کوئی کمی واقعی نہیں ہو سکتی۔
اس جملہ کی تشریح علماء کرام یہ کرتے ہیں کہ نہر جاری پر اسراف اس لیے ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی حدود شریعت سے تجاوز کر کے ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرتا ہے تو اس میں عمر اور وقت یوں ہی ضائع ہو تا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اسراف ہے۔
علامہ طیبی نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اس سے اس بات میں مبالغہ منظور ہے کہ جس چیز میں اسراف متصور نہیں ہے جب اس میں بھی اسراف ہو سکتا ہے تو پھر ان چیزوں کا کیا حال ہو گا جس میں اسراف واقعۃً ہوتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ وضو اور غسل وغیرہ میں ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرنا اسراف میں شامل ہے اور یہ چیز مناسب نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس آدمی نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا (یعنی پوری بسم اللہ پڑھ کر وضو شروع کیا) تو اس نے اپنا تمام بدن (گناہوں سے ) پاک کیا اور جس نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا تو اس نے صرف اعضاء وضو کو پاک کیا۔
تشریح
اس حدیث میں وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ جو آدمی بسم اللہ کہہ کر وضو شروع کرتا ہے اس کا تمام بدن گناہ صغیرہ کی غلاظتوں سے پاک ہو جاتا ہے اور جس آدمی نے بغیر بسم اللہ کہے ہوئے وضو کیا تو اس کے اسی اعضاء سے گناہ صغیرہ دور ہوتے ہیں جنہیں وضو میں دھویا گیا ہے۔
نیز اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ وضو میں بسم اللہ کہنا سنت یا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے وضو فرماتے تو اپنی انگلی کی انگوٹھی کو بھی گھما پھیرا لیتے۔ (ان دونوں حدیثوں کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور سنن ابن ماجہ نے صرف دوسری حدیث نقل کی ہے )۔
تشریح
اس کا مسئلہ یہ ہے کہ انگوٹھی ڈھیلی ہو اور اس بات کا گمان ہو کہ وضو کے وقت پانی انگوٹھی کے نیچے انگلی تک پہنچ جاتا ہے تو اس صورت میں انگوٹھی کو ہلا لینا سنت ہو گا، ہاں اگر انگوٹھی تنگ ہو اور یہ یقین ہو کہ انگوٹھی کو ہلائے بغیر اس کے نیچے پانی نہیں پہنچے گا تو پھر انگوٹھی کو ہلا لینا واجب ہو گا تاکہ پانی اس کے نیچے انگلی تک پہنچ جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے پھر کوشش کرے (یعنی جماع کرے ) تو اس پر غسل واجب ہو گیا، اگرچہ منیٰ نہ نکلے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
عورت کی چار شاخوں سے مراد اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ہیں ، یا اس سے مراد عورت کے دونوں پیر اور فرج (شرم گاہ) طرفین ہیں۔ یہ جملہ عورت کے پاس جماع کے لیے جانے اور صحبت کرنے کی بلیغ تعبیر ہے ، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شرم و حیا کے انتہائی بلند مقام پر تھے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صورت مسئلہ کی وضاحت کے لیے الفاظ کے کنایا کا سہارا لیا ہے کھلے طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تشریح نہیں فرمائی ہے۔
بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی عورت کے پاس جماع کے لیے گیا اور اس نے جماع کیا تو محض حشفہ داخل کرنے سے اس پر غسل واجب ہو جائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ خلفائے راشدین اور اکثر صحابہ نیز چاروں اماموں کا یہی مسلک ہے۔
٭٭اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانی پانی سے ہے (یعنی منیٰ نکلنے غسل واجب ہو جاتا ہے ) (صحیح مسلم) اور امام محی السنہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ پانی پانی سے ہے کا حکم احتلام کے لیے ہے۔ (جامع ترمذی) اور مجھے یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ملی ہے۔
تشریح
اس ارشاد کے اسلوب پر بھی غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک طرف تو احکام شریعت کی تعلیم کی ذمہ داری ہے اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم شرم و حیا کے انتہائی بلند و بالا مقام پر فائز ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا اسلوب اختیار فرماتے ہیں کہ مسئلہ کی وضاحت بھی ہو جائے اور شرم و حیا کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کنا یۃ مسئلہ کی وضاحت کر رہے ہیں۔
بہر حال اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انزال نہ ہو یعنی منیٰ نہ نکلے غسل واجب نہیں ہوتا مگر ابھی اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غسل محض دخول حشفہ سے واجب ہو جائے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، اس طرح ان دونوں حدیثوں میں تعارض پیدا ہو گیا ہے۔
چنانچہ اسی تعارض کو دفع کرنے کے لیے حضرت امام محی السنۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول مصنف مشکوۃ نقل فرما رہے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ یعنی یہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے منسوخ قرار دیا گیا ہے جس میں منقول ہے کہ یہ آسانی ابتداء اسلام میں تھی (کہ جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا تھا) پھر بعد میں اس حکم کو منسوخ قرار دیا گیا۔
حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال منقول ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر بعد میں اسے منسوخ قرار دے کر یہ حکم نافذ کیا گیا کہ جب مرد کا ذکر عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو اور ختنین مل جائیں تو غسل واجب ہو جائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث ایک دوسری توجیہہ بیان فرما رہے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم احتلام کے بارے میں ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس کا ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ محض خواب دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد اگر کپڑے وغیرہ پر منیٰ کی تری دیکھی جائے تو غسل واجب ہو جائے گا۔ گویا حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس توجیہ کے پیش نظر اس حدیث کو منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث مطلق ہے یعنی اس حکم کا تعلق احتلام سے بھی تھا اور غیر احتلام سے بھی، مگر یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا۔
٭٭حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلیم (آپ کے نام میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ علماء نے سلمہ کچھ نے رملہ اور بعض نے ملیکہ لکھا ہے بہر حال حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ ہیں۔) نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ حق کے معاملہ میں حیا نہیں کرتا (لہٰذا یہ بتائیے کہ) عورت پر غسل واجب ہے جب کہ اس کو احتلام ہو۔ (یعنی خواب میں مجامعت دیکھے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! جب کہ وہ پانی (منی) کو دیکھے یہ سن کر ام سلمہ نے اپنا منہ (شرم کی وجہ سے ) ڈھانک لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ (یعنی کیا مرد کی طرح عورت کے بھی منیٰ ہوتی ہے اور نکلتی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! خاک آلودہ ہو تیرا داہنا ہاتھ (اگر ایسا نہ ہوتا تو) پھر اس کا بچہ اس کے مشابہ کیونکر ہو سکتا تھا۔ اور امام مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا، مرد کی منیٰ گاڑھی سفید ہوتی ہے اور عورت کی منیٰ پتلی زرد ہوتی ہے لہٰذا ان میں جو منیٰ غالب ہو یا سبقت کرے تو (بچہ کی) مشابہت اسی کے ساتھ ہوتی ہے۔
تشریح
چونکہ مسئلہ ذرا نازک اور عرفاً خلاف شرم و حیا تھا اس لیے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پہلے تمہید کے طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ حق کہنے میں حیا نہیں کرتا یعنی اللہ نے اس سے منع کیا ہے کہ حق بات پوچھنے میں شرم و حیا کیا جائے ، پھر اس کے بعد انہوں نے اصل مسئلہ دریافت کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب ما مطلب یہ ہے کہ محض مجامعت کا خواب دیکھ لینے سے ہی غسل واجب نہیں ہو جاتا جب تک انزال نہ ہو یا صبح اٹھنے کے بعد اس کی کوئی علامت نہ پائے یعنی سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے یا بدن پر منیٰ دیکھی جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔
خاک آلود ہو تیرا داہنا ہاتھ یہ شدت فقر سے کنایہ ہے گویا یہ ایک قسم کی بدعا ہے۔ لیکن اس کا استعمال حقیقی معنی میں نہیں بلکہ ایک ایسا جملہ ہے جو اہل عرب کے یہاں تعجب کے وقت بولتے ہیں ، اس طرح اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ام سلمہ! بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہہ رہی ہو؟ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتیں کہ اگر عورت کے منیٰ نہ ہوتی تو پھر اکثر بچے جو اپنی ماں کے مشابہ ہوتے ہیں وہ کس طرح ہوتے؟ مرد کی منیٰ کی طرح عورت کی بھی منیٰ ہوتی ہے اور پھر دونوں کی منیٰ سے بچہ کی تخلیق ہوتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منیٰ کے جو رنگ بیان کئے ہیں وہ اکثر کے اعتبار سے ہے ، یعنی اکثر و تندرست و صحت مند عورت کی منیٰ کے رنگ ایسے ہوتے ہیں ، کیونکہ بعض مردوں کی منیٰ کسی مرض کی بنا پر پتلی یا کثرت مباشرت کی وجہ سے سرخ ہوتی ہے ، اس طرح بعض عورتوں کی منیٰ قوت و طاقت کی زیادتی کی وجہ سے سفید بھی ہوتی ہے۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مباشرت کے وقت اگر مرد اور عورت دونوں کی منیٰ ساتھ ہی گر کر رحم مادہ پر پہنچے تو دونوں میں سے جس کی منیٰ بھی غالب ہو گی یا ان دونوں سے جس کی منیٰ سبقت کرے گی یعنی ایک دوسرے سے پہلے گر کر رحم مادر میں پہنچے گی بچہ اسی کے مشابہ ہو گا۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب غسل جنابت (یعنی ناپاکی کو دور کرنے کے لیے غسل) کا ارادہ فرماتے تو (غسل) اس طرح شروع فرماتے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھ(پہنچوں تک) دھوتے پھر وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے پھر انگلیاں (تر ہونے کے لیے ) پانی میں ڈالتے پھر انہیں نکال کر ان (انگلیوں کی تری) سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے پھر دونوں ہاتھوں سے تین چلو (پانی لے کر) سر پر ڈالتے اور پھرا پنے تمام بدن پر پانی بہاتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل) شروع کرتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ کو دھوتے اور اس کے بعد وضو کرتے۔
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے غسل کے طریقہ کو بتا رہی ہیں کہ جب آپ ناپاکی دور کرنے کے لیے غسل فرماتے تو اس کا طریقہ کیا ہوتا تھا؟ چنانچہ آپ فرما رہی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل شروع کرتے تو سب سے پہلے پہنچوں تک اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح وضو فرماتے جیسے کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے ، یعنی اگر آپ کسی ایسی جگہ غسل فرماتے کہ جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہیں ہوتا مثلاً کسی تخت یا پتھر پر کھڑے ہو کر نہاتے تو وہ پورا وضو فرماتے اور اگر کسی ایسی جگہ نہاتے جہاں کوئی گڑھا وغیرہ ہوتا کہ اس کی وجہ سے پاؤں کے پاس پانی جمع رہتا تھا تو اس شکل میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کے وقت پاؤں نہیں دھوتے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے ہٹ کر پیر دھوتے تھے۔ جیسا کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے وضاحت ہو رہی ہے۔ چنانچہ ہدایہ میں بھی لکھا ہے کہ اسی طرح کرنا چاہئے یعنی اگر غسل کے وقت پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو مکمل کرنا چاہیے اور اگر پاؤں کے پاس پانی جمع ہوتا ہو تو پھر اس وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل سے فارغ ہو کر وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر پیر دھوئے جائیں۔
اس جگہ نکتہ کے طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ طبرانی کی روایت ہے کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی احتلام نہیں ہوا اور نہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو احتلام ہوا تھا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نے سرکار دو عالم کے غسل کے واسطے پانی رکھا اور کپڑا ڈال کر پردہ کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں دھویا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور شرم گاہ کو دھویا۔ پھر اپنا بایاں ہاتھ جس سے شرم گاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا اور اسے دھویا، پھر کلی کی ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ و ہاتھوں کو (کہنیوں تک) دھویا، پھر اپنے سر پر پانی ڈالا اور تمام بدن پر بہایا پھر (جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل فرمایا تھا) اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے (بدن پونچھنے کے لیے ) کپڑا دیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کپڑا نہیں لیا اور پھر ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہاں سے چلے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں )
تشریح
اس حدیث سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ اگر غسل ایسی جگہ کیا جائے جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع ہوتا ہو تو وضو کے وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پاؤں دھو لیے جائیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر اس لیے دھوئے تھے کہ غسل کے وقت وضو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پاؤں نہیں دھوئے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کسی پتھر، تخت یا بلند جگہ پر نہیں کیا ہو گا جس کی وجہ سے پیروں میں پانی جمع ہوتا ہو گا۔
غسل کے بعد جب حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بدن پونچھنے کے لیے کپڑا پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لینے سے انکار فرما دیا اس کے کئی احتمال علماء نے لکھے ہیں چنانچہ ہو سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کپڑا لینے سے اس لیے انکار فرما دیا ہو کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن کو نہ پونچھنا ہی افضل تھا یا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی جلدی میں جا رہے ہوں گے ، اس لیے یہ سوچ کر کہ کپڑے سے بدن پونچھنے میں دیر ہو گئی کپڑا نہیں لیا۔ یا یہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت گرمی کا موسم تھا اس لیے نہانے کے بعد پانی کی تری چونکہ اچھی اور بھلی معلوم ہو رہی تھی ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کو بدن سے پونچھنا پسند نہ فرمایا ہو، یا پھر یہ وجہ رہی ہو گی کہ اس کپڑے میں گندگی وغیرہ لگنے کا شبہ ہو گا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے واپس فرما دیا۔
بہر حال جو بھی صورت حال رہی ہو مگر کپڑے کو واپس کرنا کسی عذر اور سبب ہی کی بنا پر تھا۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط نہیں کیا جا سکتا کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن پر لگے ہوئے پانی کو نہ پونچھنا ہی سنت ہے یا یہ کہ پونچھنا مکروہ ہے۔
ہاتھ جھٹکنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عام طور پر طاقتور اور صحت مند و توانا لوگ چلتے ہوئے ہاتھ ہلاتے چلتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنے ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے تشریف لے گئے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دن) ایک انصاری عورت نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے غسل حیض کے بارے میں پوچھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے غسل کا حکم دیا کہ کس طرح غسل کیا جائے۔ (یعنی پہلی حدیثوں میں غسل کی جو کیفیت گزری ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ بیان فرمائی، اور پھر فرمایا کہ مشک میں (بھگوئے ہوئے کپڑے ) کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو، اس نے کہا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ اس نے پھر پوچھا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سبحان اللہ (یعنی اللہ پاک ہے )۔ تم اس سے پاکی حاصل کرو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے انہیں الفاظ کو بار بار سن کر) میں نے اس عورت کو اپنی جانب کھینچ لیا اور اس سے کہا کہ (تم اس کپڑے کو) خون کی جگہ (یعنی شرم گاہ پر) رکھ لو!۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس قسم کے مسائل جہاں آ رہے ہیں۔ وہاں آپ حدیث کا اسلوب دیکھ رہے ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایسے مسائل کو کس انداز سے بیان فرماتے ہیں ، بات وہی ہے کہ ایک طرف تو مسائل شرعیہ کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کاندھوں پر ہے جس میں شرم و حیا کی وجہ سے کسی اخفاء کی گنجائش نہیں ہے دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرم و حیا کے وہ فطری تقاضے ہیں جو خلاف ادب و تہذیب جملوں کی ادائیگی میں حائل ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان مسائل کے بیان میں ایسی راہ اختیار کرتے ہیں جو شرم و حیا کے دائرے سے سرمو متجاوز نہیں ہوتی اور مسائل کی وضاحت بھی حتی الامکان ہو جاتی ہے۔
اب آپ یہیں دیکھئے کہ ایک سائلہ عورتوں کے مسئلے کی وضاحت چاہتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے جواب دیتے ہیں اور پھر اس سلسلے میں نظامت و لطافت کے ایک خاص طریقہ کی طرف اس کی راہنمائی فرمانا چاہتے ہیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اشاروں اشاروں میں اسے سمجھا رہے ہیں ، سائلہ زیادہ سمجھ کا ثبوت نہیں دیتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوبارہ اپنے جملوں کو دہراتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائے مگر وہ مزید وضاحت چاہتی ہے تو آپ پھر انتہائی تعجب سے فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ ! تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ یعنی تعجب کی بات ہے کہ تم اتنے سیدھے سادھے اور ظاہر مسئلہ کو نہیں سمجھ پا رہی ہو۔ یہ کوئی ایسا باریک مسئلہ نہیں ہے ، کوئی خاص نکتہ نہیں ہے جسے سمجھنے میں اعلیٰ غور و فکر کی ضرورت ہو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس وقت ذکاوت و ذہانت کا بہترین ثبوت دیتی ہیں ، انہوں نے تاڑ لیا کہ ادھر تو عورت آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مقصد اور مطلب تک پہنچ نہیں پا رہی ہے۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرم و حیا اس سے آگے بڑھ کر مزید وضاحت کی اجازت نہیں دیئے جا رہی ہے ، چنانچہ آپ اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد وضاحت کے ساتھ سمجھاتی ہیں۔
حدیث کے الفاظ خذی فرصۃ من مسک فتطھری میں لفظ مسک میم کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی مشک کے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مشک کا ایک بڑا ٹکڑا یا مشک میں بھیگے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑے کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو۔ ایک روایت میں میم کے زبر کے ساتھ بھی آیا ہے جس کے معنی چمڑے کے ہیں۔ لیکن روایت کے مطابق اور موقع کی مناسبت سے میم کے زیر کے ساتھ یعنی مشک کے معنی زیادہ بہتر اور اولیٰ ہیں۔
٭٭حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) !میں ایک عورت ہوں اپنے سر کے بال بہت مضبوط گوندھتی ہوں ، کیا صحبت کے بعد نہانے کے واسطے انہیں کھولا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں ! بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں یہی کافی ہے کہ تین لپٹیں پانی لے کر اپنے سر پر ڈال لیا کرو اور پھر سارے بدن پر پانی بہا لیا کرو، پاک ہو جاؤ گی۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث کے سلسلے میں صحیح قول یہ ہے کہ حدیث کا مذکورہ بالا حکم صرف عورتوں کے لیے ہے ، چنانچہ غسل کے وقت اگر بال گندھے ہوئے ہوں اور سر پر پانی اس طرح ڈالا جائے کہ بالوں کی جڑیں بھیگ جائیں تو یہ کافی ہے ، بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر یہ جانے کے بالوں کو کھولے بغیر جڑیں نہیں بھیگیں گی تو پھر اس صورت میں بالوں کو کھولنا ضروری ہو گیا۔ مردوں کو ہر صورت میں بال کھول لینے چاہئیں۔
٭٭حضرت انس راوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک مد (پانی) وضو فرماتے اور ایک صاع سے پانچ مد تک (پانی سے ) غسل فرما لیتے تھے (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مد ایک پیمانے کا نام ہے جس میں تقریباً ایک سیر اناج آتا ہے اور صاع پیمانہ کا نام ہے جس میں تقریباً چار مد یعنی چار سیر کے قریب اناج آتا ہے۔ یہاں مد اور صاع سے پیمانہ مراد نہیں ہے بلکہ وزن مراد ہے ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تقریباً ایک سیر پانی سے وضو فرماتے تھے اور چار سیر اور زیادہ سے زیادہ پانچ سیر غسل پر صرف فرماتے تھے ، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تقریباً ایک سیر پانی سے وضو اور تقریباً چار سیر پانی سے غسل کیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ وضو اور غسل کے لیے پانی کی یہ مقدار اور وزن واجب کے درجہ میں نہیں ہے لیکن یہ سنت ہے کہ وضو اور غسل کے لیے پانی اس مقدار سے کم نہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کے پانی کی مقدار بعض روایتوں میں دو تہائی مد اور بعض روایتوں میں آدھا مد منقول ہے لہٰذا اس حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم کا محل یہ قرار دیا جائے گا کہ آپ اکثر و بیشتر ایک ہی مد سے وضو فرماتے تھے مگر کبھی کبھی اس سے کم مقدار پانی میں بھی وضو فرما لیتے تھے ، جیسا کہ ان بعض روایتوں میں منقول ہے۔.
٭٭اور حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھی ں کہ میں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی برتن جو دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا، نہاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم (پانی لینے میں ) مجھ سے جلدی کرتے تھے تو میں کہا کرتی تھی میرے لیے تو پانی چھوڑیئے ، میرے لیے بھی تو پانی رہنے دیجئے۔ حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ دونوں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) جنبی (یعنی ناپاکی) کی حالت میں ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جس برتن سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مشترکہ طور پر غسل فرماتے تھے وہ ایک طشت کی قسم سے تھا جس میں تین صاع تقریباً بارہ سیر پانی سماتا تھا، غسل کے وقت یہ دونوں اس میں ہاتھ ڈال ڈال کر پانی نکالتے اور اس سے نہاتے ، حدیث کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و سلم(پانی لینے میں ) جلدی کرتے تھے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نہانے سے پہلے تھوڑے سے پانی سے نہا لیتے تھے اور بقیہ پانی چھوڑ دیتے تھے ، جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہاتی تھی ں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کا برتن دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا اور دونوں اکٹھے اس سے نہاتے تھے۔ حدیث کے آخری جملے وہ دونوں حالت ناپاکی میں ہوتے تھے کہ تحت ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس پانی میں جنبی ہاتھ ڈالے وہ پانی طاہر و مطہر ہے جنبی خواہ مرد ہو یا عورت۔
امام ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کا یہ قول ہے کہ اگر محدث (بے وضو) جنبی (جس پر غسل واجب ہو) اور حائض (حیض والی عورت) کے ہاتھ پاک ہوں اور وہ برتن میں چلو بھرنے کے لیے ہاتھ ڈالیں تو پانی مستعمل (یعنی ناقابل استعمال) نہیں ہوتا۔ کیوں کہ برتن سے پانی نکالنے کے لیے وہ اس طریقے کے محتاج ہیں۔ چنانچہ امام موصوف اپنے اس قول کی دلیل میں یہی حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ اس کے برخلاف اگر جنبی پانی کے برتن میں اپنا پاؤں یا سر ڈالے تو پھر پانی نا قابل استعمال ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ اسی طریقہ کی ضرورت ہے۔
٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو (سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے پر منیٰ کی) تری محسوس کرے اور خواب (احتلام) اسے یاد نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ نہانا چاہئے ! اور ایسے آدمی کے بارے میں بھی پوچھا گیا جسے (سو کر اٹھنے کے بعد) احتلام تو یاد ہو مگر تری معلوم نہیں ہوتی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس پر غسل واجب نہیں ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا اگر عورت بھی یہی (تری) دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں عورتیں بھی مردوں ہی کی مثل ہیں۔ (ترمذی ، ابوداؤد اور دارمی و ابن ماجہ نے اس حدیث کو لا غسل علیہ (اس پر غسل واجب نہیں تک نقل کیا ہے۔)
تشریح
سوال یہ تھا کہ مثلاً ایک آدمی ہے وہ سو کر اٹھا اس نے کپڑے پر یا بدن پر منیٰ یا مذی لگی ہوئی ہے مگر اسے کوئی ایسا خواب یاد نہیں ہے کہ اس نے نیند میں کسی سے مباشرت کی ہو جس کی وجہ سے یہ احتلام ہوا ہے تو کیا ایسے آدمی پر غسل واجب ہو گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ اسے نہانا چاہئے ! گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ غسل کے وجوب کا دارومدار منیٰ یا مذی کی تری پر ہے خواب کے یاد رہنے نہ رہنے پر نہیں ہے۔
حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ پیدائش اور طبائع کے اعتبار سے عورتیں چونکہ مردوں ہی کی مانند ہیں اس لیے مرد کی طرح اگر عورت بھی جاگنے کے بعد اپنے کپڑے اور بدن پر تری محسوس کرے تو اس پر بھی غسل واجب ہو گا۔
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ محض تری دیکھ لینے سے غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ اس بات کا یقین نہ ہو کہ منیٰ کود کر نکلی ہے چنانچہ تابعین کی ایک جماعت اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہی منقول ہے۔
اکثر علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ غسل اس وقت تک واجب نہیں ہو گا جب تک یہ جانے کہ کہ منیٰ کود کر نکلی ہے ، اگر یہ جانے کہ منیٰ کود کر نکلی ہے ، تو غسل واجب ہو جائے گا ورنہ بصورت دیگر غسل واجب تو نہ ہو گا مگر احتیاطا غسل کر لینا مستحب ہو گا۔
اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مرد و عورت ایک ہی بستر پر اکٹھے سوئے ، جب وہ سو کر اٹھے تو انہوں نے بستر پر منیٰ کی تری محسوس کی۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ یہ کس کی منیٰ کی تری ہے تو اس صورت میں دونوں میں سے کس پر غسل واجب ہو گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس شکل میں یہ دیکھا جائے گا کہ منیٰ کا رنگ کیسا ہے؟ اگر وہ سفید ہے تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ مرد کی ہے لہٰذا مرد پر غسل واجب ہو گا۔ اور اگر رنگ زرد ہے تو پھر غسل عورت پر واجب ہو گا۔ مگر احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی غسل کر لیں۔
٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب مرد کے ختنے کی جگہ عورت کے ختنے کی جگہ تجاوز کر جائے (یعنی حشفہ غائب ہو جائے تو (دونوں پر) غسل واجب ہو جائے گا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
ختان اس جگہ کو کہتے ہیں جسے ختنہ کرتے وقت کاٹتے ہیں جو مرد کے عضو تناسل کے آگے ایک کھال ہوتی ہے اور عورت کی شرم گاہ پر مرغ کی کلغی کی طرح ابھرا ہوا ایک حصہ ہوتا ہے لہٰذا فرمایا جا رہا ہے کہ جب ختنین مل جائیں اور حشفہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہوتا ہے ، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر بال کے نیچے (جڑ میں ) جنابت ہوتی ہے لہٰذا بالوں کو (خوب) دھویا کرو اور بدن کو پاک کیا کرو۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، ابن ماجۃ) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ اس حدیث کا ایک راوی حارث ابن وجیہ ایک بوڑھا آدمی ہے وہ معتبر نہیں (یعنی کبر سنی اور غلبہ نسیان کی وجہ سے ) اس کی روایت قابل اعتماد یعنی قوی نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے )
تشریح
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ غسل جنابت میں سر کے بالوں کو اچھی طرح دھویا جائے تاکہ پانی بالوں کی جڑ میں پہنچ جائے اس لیے اگر پانی بالوں کی جڑ تک نہیں پہنچے گا تو پاکی حاصل نہیں ہو گی، چنانچہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اگر ایک بال کے نیچے کی بھی جگہ خشک رہ جائے گی تو غسل ادا نہ ہو گا۔
بالوں کے ساتھ ساتھ بدن کو بھی اچھی طرح دھونے کا حکم دیا جا رہا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ نہانے کے وقت بدن کو خوب اچھی طرح مل کر میل وغیرہ کو صاف کرنا چاہئے اور پورے بدن پر پانی اس طرح بہانا چاہئے کہ بدن کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہ جائے کیونکہ اگر بدن پر خشک مٹی، آٹا یا موم وغیرہ لگا رہا اس کے نیچے پانی نہ پہنچا تو ناپاکی دور نہ ہو گی۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے غسل جنابت میں ایک بال کے برابر بھی جگہ (خشک) چھوڑ دی کہ اسے نہ دھویا تو اسے اس طرح آگ کا عذاب دیا جائے گا حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی (کہ منڈا ڈالا) تین مرتبہ یہی کہا۔ (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل، دارمی) مگر احمد بن حنبل نے یہ الفاظ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی مکرر ذکر نہیں کئے ہیں۔)
تشریح
یہ حدیث مزید وضاحت کے ساتھ اوپر کی حدیث کی تائید کر رہی ہے اور غسل جنابت میں بالوں کے سلسلے میں غفلت برتنے والوں کو متنبہ کر رہی ہے چنانچہ اس طرح یہ تعدد سے کنایہ ہے یعنی ایسے آدمی کو جس نے غسل احتیاط سے نہیں کیا اور بالوں کی جڑوں میں پانی اچھی طرح نہیں پہنچایا کئی قسم کے اور بہت زیادہ عذاب دئیے جائیں گے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لسان مبارک سے یہ تہدید اور وعید سنی تو اس خوف سے کہ اگر بال رہے تو غسل جنابت کے وقت شاید ان کی جڑیں خشک رہ جائیں اپنے بالوں سے بالکل دشمنوں جیسا معاملہ کیا جس طرح ایک آدمی اپنے دشمن کو اپنے لیے خطرے کا سبب اور باعث سمجھ کر موقع ملتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ، ایسے ہی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تہدید اور وعید کی بنا پر ان بالوں کو اپنی عاقبت کی خرابی کا باعث سمجھتے ہوئے ان کا صفایا کر دیا۔
اس حدیث اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے اس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ سر کے بال ہمیشہ مڈاتے رہنا جائز ہے مگر اولیٰ اور سنت بالوں کا رکھنا ہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین اپنے سروں پر بال رکھتے تھے اور صرف حج کے موقع پر منڈواتے تھے۔
جہاں تک حضرت علی کرم اللہ وجہ کے اس ارشاد کا تعلق ہے ، اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کی مراد یہ ہے کہ میں نے اپنے سر کے جو بال منڈاوئے ہیں ، ان کی کوئی دوسری غرض نہیں ہے یعنی اس سے زیبائش اور آرائش یا کسی راحت و آرام کا طلب مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصد وہی ہے جو بیان کیا گیا، اس طرح گویا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ایک ایسے فعل کے ترک پر عذر بیان کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مداومت کے ساتھ ثابت ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم غسل کرنے کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل سے پہلے جو وضو غسل کے لیے فرماتے تھے غسل کے بعد پھر دوبارہ وضو نہیں فرماتے تھے ، چنانچہ مسئلہ بھی یہی ہے کہ غسل کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے وہ کافی ہوتا ہے غسل کے بعد اگر نماز وغیرہ پڑھی جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے غسل کے وضو سے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ناپاکی کی حالت میں (غسل کے وقت) خطمی سے سر کو دھو لیتے تھے اور اسی پر کفایت کرتے اور دوبارہ سر پر خالص پانی نہ ڈالتے تھے۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
جس طرح یہاں آنولہ وغیرہ سے دھونے کا رواج تھا ایسے ہی عرب میں خطمی سے سر دھوئے جاتے تھے ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کے بارے میں فرما رہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب غسل جنابت فرماتے تو اپنے سر کے بال خطمی کے پانی سے دھویا کرتے تھے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب سر پر خطمی لگا کر اسے دھونے کے لیے سر پر خطمی ملا ہوا پانی ڈالتے تھے تو پھر دوبارہ پانی بہانے کے وقت سر پر پانی نہیں ڈالتے تھے بلکہ اسی پہلے دھوئے ہوئے کو کافی سمجھتے تھے جیسا کہ عام طور پر نہانے والے یہ کرتے ہیں کہ پہلے سر کو دھوتے ہیں ، اس کے بعد غسل کرتے ہیں اور پھر دوبارہ سر پر بھی پانی ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا نہیں کرتے تھے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جس پانی سے سر کو دھویا کرتے تھے اس میں خطمی کے اجزاء کم ہوتے ہوں گے کہ جس سے پانی کی حقیقت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ہو گا یعنی سیلان باقی رہتا ہو گا۔
٭٭اور حضرت یعلیٰ (یہاں تحقیق سے یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ یہ یعلیٰ بن امیہ تمیمی ہیں یا یعلی ابن مرہ ثقفی ہیں بہر حال یہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔
فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو میدان میں ننگا نہاتے ہوئے دیکھاچنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (وعظ کے لیے ) منبر پر چڑھے اور پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اللہ تعالیٰ بہت حیا دار ہے (یعنی اپنے بندوں سے حیا داروں کا سا معاملہ کرتا ہے ، بایں طور کہ انہیں معاف کر دیتا ہے اور بہت پردہ پوش ہے (یعنی اپنے بندوں کے گناہ اور عیوب کو پوشیدہ رکھتا ہے ) وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے لہذا جب تم میں سے کوئی (میدان میں ) نہائے تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ کر لیا کرے۔ (ابوداؤد اور نسائی) اور نسائی کی ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پردہ پوش ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہانے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی چیز سے پردہ کر لیا کرے )
تشریح
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی اہم اور عظیم مسئلے کو بیان کرنا چاہتے یا کسی خاص چیز سے آگاہ کرنا چاہتے تو منبر پر تشریف لے جاتے اور پہلے اللہ جل شانہ کی حمد و ثنا کرتے اس کے بعد اصل مسئلے کو بیان فرماتے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو دیکھا وہ شرم کو بالائے طاق رکھ کر ایک کھلی جگہ (میدان میں ننگا نہا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جبین شرم و حیا پر بل پڑ گئے ، فوراً مسجد نبوی میں پہنچے منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شرم و حیا کی اہمیت کو بڑے بلیغ اور ناصحانہ انداز میں بیان فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ رب قدوس کی ذات پاک تمام محاسن و اوصاف کی جامع ہے چنانچہ شرم و حیا اور پردہ پوشی جو بہت بڑے وصف ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں سے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے اوصاف کی نورانی کرنوں سے اپنے دل و دماغ کو روشن کریں ، اس کی جو صفات ہیں ان کو حتی الامکان اپنے اندر پیدا کریں اس لیے وہ پسند کرتا ہے۔ بندے شرم و حیاء کے اصولوں پر کار بند رہیں ، ان عظیم اوصاف سے اپنے دامن کو مالا مال کریں اور پردہ پوشی کو کسی حال میں ترک نہ کریں ، لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شرم اور پردے کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی نہ برتیں۔
٭٭حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم، غسل انزال کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں آسانی کی وجہ سے تھا، پھر اسے منع فرما دیا گیا (یعنی یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، دارمی)
تشریح
اس باب کی حدیث نمبر ٢ کی تشریح میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا ذکر آ چکا ہے ، وہاں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ غسل اسی صورت میں واجب ہو گا جب کہ جماع کے وقت انزال بھی ہو یعنی اس وقت بغیر انزال کے محض ادخال ذکر سے ہی غسل واجب نہیں ہوتا تھا، چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرما رہے ہیں کہ یہ حکم (جو اس باب کی حدیث ٢ میں گزرا ہے ) پہلے تھا، اب منسوخ ہو گیا ہے اور اب یہ حکم ہو گیا ہے کہ محض جماع (ادخال ذکر) سے غسل واجب ہو جائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے غسل جنابت کیا اور صبح کی نماز پڑھ لی، پھر میں نے دیکھا کہ (بدن پر) ناخن کے برابر جگہ خشک رہ گئی کہ وہاں ) پانی نہیں پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم (اس جگہ اپنے بھیگے ) ہاتھ سے مسح بھی کر لیتے تو کافی ہو جاتا۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
آپ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم غسل کے وقت اس جگہ جو خشک رہ گئی تھی بھیگا ہوا ہاتھ پھیر لیتے یا اسے معمولی طور پر دھو دیتے تو یہ کافی ہو جاتا اور تمہارا غسل پورا ہو جاتا۔
اور اگر تمہیں اس جگہ خشکی کا احساس کچھ عرصہ کے بعد ہوا تھا تو تمہیں چاہئے تھا کہ اس جگہ کو دھو لیتے خواہ معمولی طور پر ہی کیوں نہ ہوتا اور جو نماز پڑھ لی تھی اس کی قضا ادا کرتا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (پہلے ) پچاس نمازیں فرض ہوئیں تھی ں ، نیز جنابت (ناپاکی) سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب دھونا سات سات مرتبہ (فرض ہوا تھا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم متواتر (اللہ تعالیٰ سے ان میں تخفیف کی دعا مانگتے رہے ، یہاں تک کہ نمازیں تو پانچ فرض رہ گئیں اور جنابت سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب کا دھونا ایک ایک مرتبہ رہ گیا۔ (ابوداؤد)
تشریح
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب روحانی اور جسمانی بلندیوں کی تمام منازل کو طے فرما کر شب معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا شرف حاصل فرمایا تو اس مقدس اور انسانی زندگی کی سب سے بڑی سعادت و رفعت کی یادگار کے طور پر بارگاہ حق میں جل مجدہ کی طرف سے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے توسط سے بندوں کے لیے نماز کا تحفہ عنایت فرمایا گیا ہے جسے معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس عظیم سعادت کی مناسبت سے معراج مومنین کہا گیا ہے۔ نماز چونکہ تمام عبادات الہٰی میں اپنے اجر و ثواب اور اپنی عظمت و اہمیت کے اعتبار سے بندوں کے لیے سعادت و نیک بختی اور رضائے مولیٰ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس لیے کہ اس عظیم اور مقدس فریضہ کے ذریعہ اللہ کے نیک اور اطاعت گزار بندے زیادہ سے زیادہ سعادت نیک بختی کی دولت سے اپنے دامن مالا مال کر سکیں اور دن و رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔
ظاہر ہے کہ پچاس نمازوں کے فریضے کا یہ تحفہ بندوں کی سعادت و نیک بختی کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی اہمیت و عظمت کا حامل کیوں نہ ہو مگر سوال یہ تھا کہ انسان کے قویٰ اور ذہن و فکر اس عظیم فریضے کی ادائیگی کا بار برداشت بھی کر سکیں گے؟ صدقے جائیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت کے ! کہ انسانی فطرت و مزاج کا یہ سب سے بڑا راز دان اور انسانیت کا یہ عظیم محسن اور عظیم شفیق راہبر (صلی اللہ علیہ و سلم) سمجھ لیتا ہے کہ انسان کے قوائے فکر و عمل اس عظیم بار کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور اللہ کے بندے نماز کی اتنی بڑی تعداد کی ادائیگی پر قادر نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوچا کہ اگر آج پچاس نمازیں فرض ہو رہی ہیں تو کل پوری مخلوق زبردست اخروی خسران اور روحانی اذیت میں مبتلاء ہو جائے گی کیونکہ پچاس نمازیں ادا ہوں گی نہیں ، جس کا نتیجہ حکم خداوندی کی نا فرمانی کی بنا پر عذاب کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ چنانچہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت پر انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے ہیں اور بار گاہ خداوندی میں نماز کی اس تعداد میں تخفیف چاہتے ہیں ، پھر ادھر سے بھی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے اور اس میں کمی کر دی جاتی ہے ، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تو مزید تخفیف کی درخواست پیش کرتے ہیں جب کچھ اور تخفیف ہوتی ہے تو آپ اسے بھی زیادہ اور امت کے حق میں مالایطاق سمجھتے ہوئے کمی چاہتے ہیں یہاں تک کہ درخواست اور قبولیت کا یہ سلسلہ پانچ پر آ کر ختم ہو جاتا ہے اور پانچ نمازیں فرض قرار دے دی جاتی ہیں۔
چنانچہ اس حدیث میں اسی طرف اشارہ دیا جا رہا ہے کہ شب معراج میں تو نمازیں پچاس ہی فرض ہوئیں تھی ں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کے حق میں انتہائی شفقت و رحمت کے پیش نظر یہ جان کر کہ امت سے اتنی نمازیں ادا نہیں ہوں گی اس تعداد میں تخفیف کرائی جب بھی آپ تخفیف کی درخواست پیش کرتے پانچ نمازیں کم کر دی جاتیں یہاں تک کہ آخر میں پانچ نمازیں رہ گئیں۔
اسی طرح پہلے ناپاکی دور کرنے کے لیے سات مرتبہ غسل کرنے کا حکم تھا مگر بعد میں اسے بھی منسوخ قرار دے دیا گیا اور صرف ایک مرتبہ غسل واجب کیا گیا یعنی پورے دن پر ایک مرتبہ پانی بہانے سے فرض ادا ہو جاتا ہے مگر مسنون طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ جسم پر پانی بہایا جائے ، صحیح البخاری و صحیح مسلم میں اس سلسلہ میں جو حدیث منقول ہے اس میں صرف نماز کا ذکر ہے ، غسل اور کپڑے سے پیشاب دھونے کا ذکر نہیں ہے مگر یہاں یہ ابوداؤد کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں ان دونوں چیزوں کا بھی ذکر ہے چنانچہ اس روایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔
بہر حال اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کپڑے پر پیشاب اور غلاظت وغیرہ لگ جائے تو اسے صرف ایک بار دھو لینا ہی کافی ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے کہ کپڑا ایک مرتبہ دھو لینے سے پاک ہو جاتا ہے ، لیکن علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر پیشاب اور غلاظت لگ جائے تو اسے اتنا دھویا جائے کہ اس کی پاکی کا ظن غالب حاصل ہو جائے اور اس کی حد یہ مقرر کی ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ کپڑے کو نچوڑا جائے کیونکہ تین مرتبہ دھو لینے سے پاکی کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔
اس موقع پر تفصیل بتا دینی مناسب ہے کہ غسل کن کن مواقع پر واجب اور مستحب ہو جاتا ہے۔
(١) غسل اس شکل میں فرض ہوتا ہے کہ منیٰ کود کر نکلے اور ریڑھ کی ہڈی سے جدا ہونے کے وقت شہوت بھی ہو ا گرچہ باہر نکلتے وقت شہوت یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منیٰ نکلی ہے۔
(٢) اگر کوئی آدمی سو کر اٹھے اور اپنے بستر وغیرہ پر منیٰ کی تری پائے خواہ وہ مذی ہی کیوں نہ ہو تو غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ ایسا کوئی خواب یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منیٰ نکلی ہے۔
(٣) اگر زندہ عورت کے آگے یا پیچھے ستر میں ذکر داخل کیا جائے یا لواطت کی جائے تو دونوں یعنی فاعل و مفعول پر غسل فرض ہو گا خواہ انزال نہ ہو۔
(٤) حیض اور نفاس ختم ہونے کے بعد غسل فرض ہوتا ہے۔
(٥) اگر چو پائے یا مردہ کے آگے یا پیچھے کے حصہ میں ذکر داخل کیا تو اگر انزال ہو گا تو غسل واجب ہو گا ورنہ نہیں۔
(٦) مذی اور ودی نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، اسی طرح اگر محض جواب یاد ہو اور بستر وغیرہ پر منیٰ کی تری یا اس کی کوئی علامت موجود نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا۔
(٧) اگر کوئی غیر مسلم اس حال میں مسلمان ہوا کہ وہ ناپاکی کی حالت میں تھا تو اس پر غسل واجب ہو گا اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہیں تھا تو واجب نہیں ہو گا البتہ مستحب ہو گا۔
(٨) زندوں پر میت کو غسل دینا واجب کفایہ ہے ، یعنی اگر کچھ لوگ نہلا دیں تو سب بری الذمہ ہو جاتے ہیں ، ورنہ سب گناہ گار ہوتے ہیں۔
(٩) جمعہ عید ین، احرام اور عرفہ کے لیے غسل کرنا سنت ہے۔
(١٠) محدث (بے وضو) کو قرآن کریم چھونا نا جائز ہے ، ہاں اگر قرآن کریم جزدان یا کسی کپڑے میں لپٹا ہوا ہو تو جائز ہے اور اگر قرآن کی جلد پر محض چولی چڑھی ہوئی ہو تو چھونا درست نہیں ہے۔
(١١) اگر کوئی آدمی بے وضو ہے تو اسے کرتے وغیرہ کے آستین یا کسی ایسے کپڑے کے ساتھ جو اس کے بدن پر ہے (مثلاً چادر وغیرہ اوڑھ رکھی ہو تو) قرآن کریم کو پکڑنا اور چھونا مکروہ ہے ، ہاں اگر اس کپڑے کو اپنے بدن سے الگ کر کے پھر اس کی ساتھ قرآن کریم کو پکڑے اور چھوئے تو جائز ہو گا۔
(١٢) بے وضو کو تفسیر اور حدیث کی کتابوں کو چھونا مکروہ ہے لیکن آستین کے ساتھ چھونا متفقہ طور پر جائز ہے۔
(١٣) جس درہم (سکے ) پر قرآن کی کوئی سورۃ لکھی ہو تو بے وضو کے لیے اسے چھونا جائز نہیں ہاں اگر وہ تھی لی وغیرہ میں ہو تو پھر جائز ہے۔
(١٤) جنبی کو مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی خاص ضرورت ہو تو داخل ہو سکتا ہے اسی طرح اس کے لیے قرآن پڑھنا خواہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہونا جائز ہے البتہ دعا اور ثنا کے طور پر پڑھ سکتا ہے ، ایسے ہی جنبی کا ذکر کرنا تسبیح پڑھنی اور دعا کرنی جائز ہے ، ان مسائل میں حیض اور نفاس والی عورتوں کا بھی وہی حکم ہے جو جنبی کا ہے۔
اس باب میں دو چیزوں سے متعلق احادیث ذکر کی جا رہی ہیں ، پہلی چیز تو یہ ہے کہ جنبی آدمی (یعنی غسل جس پر واجب ہو) کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کلام کرنا، مصافحہ کرنا اور اس طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں دوسری چیز یہ ہے کہ جنبی آدمی کے لیے کیا چیزیں جائز ہیں کہ وہ انہیں حالت ناپاکی میں کر سکتا ہے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے میری ملاقات ہوئی اور میں جنبی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ہمراہ ہو لیا۔ جب آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے نکل کر اپنے مکان آیا اور نہا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے (مجھے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم کہاں تھے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے (اصل واقعہ) ذکر کیا (کہ میں ناپاک تھا اس لیے چلا گیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سبحان اللہ ! مومن ناپاک نہیں ہوتا۔ روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں مسلم نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ (انہوں نے کہا) چونکہ میں حالت ناپاکی میں تھا اس لیے یہ مناسب معلوم نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھوں جب تک کہ نہا نہ لوں۔ اسی طرح صحیح البخاری کی ایک دوسری روایت میں بھی یہ الفاظ منقول ہیں۔
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جنابت نجاست حکمی ہے کہ شریعت نے اس کا حکم کیا ہے اور اس پر غسل کو واجب قرار دیا ہے ، لہٰذا حالت جنابت میں آدمی حقیقۃً نجس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنبی کا نہ تو جھوٹا ناپاک ہوتا ہے اور نہ اس کا پسینہ ہی ناپاک ہے ، اس لیے جنبی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا، مصافحہ کرنا ، کلام کرنا یا اسی طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں ، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
٭٭حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے رات کو جنابت ہو جاتی ہے (یعنی احتلام یا جماع سے غسل واجب ہوتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (اسی وقت) وضو کر کے عضو تناسل کو دھو کر سو جایا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ وضو کرنا جنبی کے سونے کے لیے طہارت ہے ، یعنی جنبی وضو کر کے سویا تو گویا وہ پاک سویا، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسے رات کو احتلام ہو جائے یا جماع سے فراغت ہو اور اس کے بعد سونے کا ارادہ یا بوجہ کسی ضرورت بے وقت غسل جنابت میں تاخیر کا خیال ہو تو ایسی شکل میں جنبی کا وضو کر لینا سنت ہے۔
اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صورت مذکورہ میں وضو کیا جائے اس کے بعد عضو تناسل کو دھویا جائے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ پہلے عضو تناسل کو دھونا چاہئے اس کے بعد وضو کرنا چاہئے ، اس شکل میں حدیث کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہاں وضو کرنا اس لیے مقدم کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کا احترام اور اس کی تعظیم کا اظہار پیش نظر تھا۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حالت ناپاکی میں ہوتے اور کھانا کھانے یا سونے کا ارادہ فرماتے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر لیتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
٭٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے ) اور پھر اس کے پاس آنے کا (یعنی دوبارہ صحبت کرنے کا) ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ دونوں کے درمیان وضو کر لے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے دو مرتبہ صحبت کرے اور دونوں مرتبہ کے درمیان وضو کرے تو دو فائدے ہیں۔ اول تو یہ کہ اس پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے ، دوسری یہ کہ نشاط اور لذت زیادہ ہو جاتی ہے۔
بہر حال اس حدیث سے اور اس سے پہلی حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ حالت ناپاکی میں اگر سونے اور کھانے پینے کا یا دو بارہ جماع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے عضو تناسل کو دھو کر وضو کر لے۔
بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ جنبی کے کھانے پینے کے سلسلے میں ان احادیث میں جس وضو کا ذکر ہے ، اس سے مراد حقیقۃً وضو نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہاتھ دھو لئے جائیں اور یہی رائے جمہور علماء کرام کی ہے کیونکہ سنن نسائی کی روایت میں اس مراد کی صراحت بھی موجود ہے۔
لیکن مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جائے ، لہٰذا اب ان روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے یہی کہا جائے گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم ایسے مواقع پر کبھی کبھی اختصار کے طور پر محض ہاتھ ہی دھو لینے کو کافی سمجھتے تھے۔ مگر اکثر و بیشتر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکمل وضو فرماتے تھے۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک غسل کے ساتھ اپنی ازواج مطہرات سے صحبت کر لیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک شب میں اپنی تمام ازواج مطہرات سے صحبت کیا کرتے تھے اور غسل ایک ہی مرتبہ آخر میں فرماتے تھے یہ نہیں تھا کہ ایک بیوی سے صحبت کے بعد پہلے غسل کرتے ہوں ، پھر بعد میں دوسری بیوی کے پاس جاتے ہوں۔ ہاں اس کا احتمال ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم درمیان میں وضو فرما لیتے ہوں گے ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیان جواز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کو ترک کر دیا ہو۔ اس موقع پر ایک ہلکا سے اعتراض ہو سکتا ہے وہ یہ کہ قاعدہ شرعی کے مطابق اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کا اقل درجہ ایک رات ہے۔ یعنی اگر کسی آدمی کے پاس چند بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنے کا قاعدہ یہ ہے کہ، ہر ایک بیوی کے یہاں کم از کم ایک پوری شب قیام کیا جائے ، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی رات میں تمام ازواج مطہرات کے پاس کس طرح جایا کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے لیے باری مقرر کرنے کا یہ وجوب مختلف فیہ ہے ، چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پر باری مقرر کرنا واجب نہیں تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے از خود راہ احسان باری مقرر فرما رکھی تھی مگر اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی باری مقرر کرنا واجب تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس ایک ہی شب میں خود ان کی رضا و خوشی سے جایا کرتے تھے لہٰذا اس پر کوئی اشکال پیدا نہیں ہو سکتا۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہر وقت یاد الہٰی میں مصروف رہا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (جو صاحب مصابیح نے اس موقع پر نقل کی ہے ) ہم انشاء اللہ کتاب الا طعمہ میں ذکر کریں گے )
تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی حالت میں ذکر خداوندی اور یاد الہٰی سے غافل نہیں ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم خواہ حالت ناپاکی میں ہوتے یا بے وضو ہوتے اور یا ان کے علاوہ کسی بھی حالت میں ہوتے اللہ رب العزت کی یاد میں ہمیشہ مشغول رہتے۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد ذکر قلبی اور قدرت خداوندی کا تفکر ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلب مبارک ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مشغول اور پروردگار کی قدرتوں پر غور و فکر کرنے میں منہمک رہتا تھا۔
٭٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ نے لگن سے (یعنی لگن میں بھرے ہوئے پانی سے ) چلو لے کر غسل کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی (لگن میں بچے ہوئے ) پانی سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو! انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں جنبی تھی (اور میں نے اس سے غسل کیا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانی تو جنبی نہیں ہوتا۔ (یعنی جنبی کے نہانے سے یا اس کے کسی عضو کے پڑنے سے پانی نا پاک نہیں ہوتا) (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) اور دارمی نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مصابیح کے ہم الفاظ روایت نقل کی ہے۔
تشریح
اس حدیث سے تو بصراحت یہ معلوم ہوا کہ عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کا وضو کرنا جائز ہے لیکن اسی باب کی تیسری فصل میں ایک حدیث (نمبر ٢) آ رہی ہے جس میں منقول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔
لہٰذا ان دونوں روایتوں میں مطابقت کے لیے کہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث تو جواز پر دلالت کرتی ہے اور وہ دوسری حدیث ترک کی اولیت پر دلالت کرتی ہے ، یعنی اگر کوئی مرد عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے وضو کرنا چاہئے تو اس حدیث کی رو سے اس کا وضو جائز تو ہو جائے گا لیکن دوسری حدیث کے پیش نظر اس پانی سے وضو نہ کرنا ہی بہتر اور اولیٰ ہو گا۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (میرے ساتھ) صحبت سے فراغت کے بعد غسل فرماتے ، پھر میرے نہانے سے پہلے مجھ سے گرمی حاصل کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں مصابیح کے ہم لفظ روایت منقول ہے )
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم بستری سے فارغ ہوتے تو مجھ سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہا لیتے تھے اور چونکہ سرد موسم میں نہانے کی وجہ سے ٹھنڈ محسوس ہوتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لاتے اور اپنے اعضاء مبارک میرے بدن سے چمٹا کر لیٹ جایا کرتے تھے تاکہ گرمی حاصل ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کا بدن پاک ہوتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ مل کر لیٹ جانے میں کچھ حرج نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بیت الخلاء سے نکل کر وضو سے پہلے ہمیں قرآن کریم پڑھا دیا کرتے تھے اور (اسی وقت) ہمارے ساتھ گوشت کھا لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن کریم پڑھنے سے سوائے جنابت کے کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) اور ابن ماجہ نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔
تشریح
اس حدیث سے دو مسئلوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ اول تو یہ کہ بغیر وضو کے قرآن کریم پڑھنا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ آپ ہاتھوں سے قرآن کریم کو نہ چھوئے کیونکہ بغیر و ضو قرآن کریم کو چھونا نا جائز ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حائضہ (ایام والی عورت) اور جنبی قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی نہیں پڑھیں۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو عورت ایام حیض میں ہو یا جو آدمی حالت ناپاکی میں ہو وہ قرآن شریف بالکل نہ پڑھے یہاں تک کہ ایک آیت سے کم بھی قرآن کے الفاظ کی تلاوت نہ کرے چنانچہ حضرت امام اعظم اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ اور جنبی کو قرآن کریم کی تلاوت بالکل نہ کرنی چاہئے خواہ وہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہو۔
مگر بعض علماء کرام کے ہاں حائضہ اور جنبی کا ایک آیت یا زیادہ حصہ کی تلاوت تو حرام ہے البتہ ایک آیت سے کم کی تلاوت حرام نہیں ہے۔ اگر حائضہ یا جنبی قرآن کریم کا کوئی حصہ تلاوت کے مقصد سے نہیں بلکہ شکر کے ارادے سے پڑھے تو یہ جائز ہے ، مثلاً کوئی حائضہ یا جنبی کسی ایسے موقع پر جب کہ اللہ کا شکر ادا کرنا ہو کہے الحمد اللہ رب العالمین تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مکانوں کے یہ دروازے مسجد کی طرف سے پھیر دو کیونکہ حائضہ اور جنبی کا مسجد میں داخل ہونا (خواہ وہاں ٹھہرنے کے لیے ہو یا وہاں سے گزرنے کے لیے ) جائز نہیں۔ (ابوداؤد)
تشریح
مسجد اللہ کا گھر ہونے کی وجہ سے ایک مقدس اور محترم جگہ ہے ، اس پاک جگہ کی عظمت و احترام اور اس کے تقدس کا تقاضہ ہے کہ کوئی ایسا آدمی اس میں داخل نہ ہو جو حالت ناپاکی میں ہو۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ مسجد کی طرف (گھروں کو ایسے دروازے جن میں گزرنے کے لیے مسجد سے گزرنا پڑتا ہے ان) کے رخ تبدیل کر دئیے جائیں تاکہ جنبی اور حائضہ جو اپنے مکانوں میں جانے کے لیے مسجد سے گزرنے کے لیے مجبور ہیں اس شکل میں مسجد سے نہ گزر سکیں ، حضرت امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر جنبی اور حائضہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے مسجد سے گزرنا چاہیں تو وہ گزر سکتے ہیں لیکن انہیں مسجد کے اندر بحالت ناپاکی بیٹھنا جائز نہیں ہے۔
مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح جنبی اور حائضہ کو مسجد کے اندر ٹھہرنا نا جائز ہے اسی طرح انہیں مسجد کے اندر سے گزرنا بھی حرام ہے چنانچہ یہ حدیث امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید کر رہی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنبی اور حائضہ کو مسجد میں داخل ہونے سے مطلقاً منع فرمایا ہے اس میں گزرنے یا ٹھہرنے کی کوئی قید نہیں ہے۔ لہٰذا اس عموم کا تقاضہ یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ کو مطلقاً مسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے خواہ وہ گزرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوں یا وہاں ٹھہرنے کے لیے۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس گھر میں تصویر یا کتا یا جنبی ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (سنن نسائی، سنن ابوداؤد)
تشریح
یہاں فرشتوں سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں یعنی جس مکان میں یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں اس میں وہ فرشتے داخل نہیں ہوتے جو رحمت و برکت لاتے ہیں اور اللہ کا ذکر سننے کو آسمان سے اترتے ہیں۔
تصویر کا مسئلہ یہ ہے کہ تصویر اگر جاندار کی ہو اور بلند جگہ پر ہو مثلاً دیواروں پر آویزاں ہو، یا چھت پر لگی ہوئی ہو یا ایسے ہی پردوں پر تصویر بنی ہوئی ہوں تو اس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ ہاں اگر تصویر بچھونے پر ہو یا اسی طرح پاؤں رکھنے کی جگہ پر ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اگر تصویر غیر جاندار کی ہو مثلاً درخت و پہاڑ کی ہو یا کسی عمارت وغیرہ کی ہو تو ان کو رکھنا جائز ہے یا تصویر تو جاندار کی ہو مگر اس کا سر کٹا ہوا ہو تو یہ بھی جائز ہے اسی طرح جو تصویر ایسی جگہ ہو جہاں روندی جاتی ہو مثلاً فرش پر ہو یا تکیہ وغیرہ پر ہو تو وہ بھی مکان میں فرشتوں کے دخول کو مانع نہیں ہے۔ اسی طرح نابالغ لڑکیوں کے لیے گھروں میں گڑیاں رکھنا بھی جائز ہے۔
ایسے سکے جن پر تصویریں بنی ہوئیں ہوں جیسے کہ آج کل سکے یا نوٹ چل رہے ہیں ان کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کے الفاظ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ گھر میں ہوں تو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مکان میں ان کا رکھنا جائز ہے ، یہاں تک کہ ان کو اپنے پاس رکھنا خواہ پگڑی ہی میں رکھے جائز ہے کیونکہ اگر پچھلے تمام علماء ایسے سکوں کو پاس رکھتے رہے ہیں اور ان کالین دین کرتے رہے ہیں اور کسی عالم نے بھی ان کے رکھنے کو منع نہیں فرمایا ہے۔
کتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مکان میں کتے از راہ شوق و فیشن ہوں گے تو یا جائز نہیں ہو گا ہاں اگر ضرورت اور حاجت کی وجہ سے مثلاً شکار کے لیے ہوں یا کھیتوں اور مویشیوں کی حفاظت کے لیے ہوں تو جائز ہے اور ان کا پالنا درست ہے۔
جنبی سے مراد ہر جنبی نہیں ہے بلکہ وہ جنبی ہے جسے غسل جنابت میں سستی اور کاہلی کی بنا پر تاخیر کرنے کی عادت ہو یعنی وہ غسل کرنے میں اتنی ہی تاخیر کرتا ہو کہ نماز کا وقت بھی نکل جاتا ہو یا پھر وہ جنبی مراد ہے جو وضو نہ کر لیتا ہو۔ (دیکھئے باب کی حدیث نمبر ٢)
٭٭اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عمار بن یا سر اور کنیت ابو الیقطان ہے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی ، ان کی والدہ سمیہ تھی ں اور وہ پہلی خاتون تھی ں جو اللہ عزو جل کی راہ میں شہید کی گئیں ، یہ اور ان کی والدہ اور ان کے والد سب کے سب پہلے ایمان لانے والوں میں ہیں حضرت عمار کا شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں ہوتا ہے جو اسلام لانے کی وجہ سے ظلم و ستم کی ہر بھٹی میں ڈالے گئے مگر جب وہاں سے نکلے تو کندن ہو کر نکلے۔ حضرت عمار اس وقت اسلام لائے تھے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ارقم کے گھر میں پوشیدہ تھے۔ یہ اور حضرت صہیب بن سنان دونوں ساتھ ہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عمار بن یا سر اللہ کی راہ میں بہت زیادہ ستائے گئے ، یہاں تک کہ جب مشرکین مکہ انہیں مارتے مارتے تھک گئے اور یہ اپنے ایمان سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹتے تو انہیں آگ میں جلایا کرتے تھے اسی ثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ان کی طرف ہوا کرتا تو آپ انہیں آگ میں جلتا ہوا دیکھ کر اپنا دست مبارک ان کے اوپر پھیر کر فرمایا کرتے تھے کہ اے آگ ! تو عمار پر ایسی ہی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہوئی تھی۔ جب آپ زخمی ہوئے تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ مجھے انہی کپڑوں کے ساتھ دفن کرنا کیونکہ میں انہی کپڑوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں گا، چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ان کو ان ہی کپڑوں میں دفن کیا۔ ربیع الاول ٣٧ھ میں ٩٤ برس کی عمر میں جنگ صفین کے دوران آپ نے شہادت پائی۔ اسد الغابہ) راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ رحمت کے فرشتے ان کے قریب نہیں آتے۔ (١) کافر کا بدن (٢) خلوق کا ملنے والا (٣) جنبی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
جیفہ سے مراد کافر کا بدن ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، ویسے تو اصل میں جیفہ مردار کو کہتے ہیں ظاہر ہے کہ کافر بھی بمنزلہ مردار کے ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ نجاست مثلاً شراب اور سود وغیرہ سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے نجس و ناپاک ہوتا ہے۔
خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے بنتی ہے اور چونکہ رنگ دار ہوتی ہے اس لیے عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے مردوں کو اس کا لگانا ممنوع ہے صرف عورتیں اسے استعمال کر سکتی ہیں ، اس لیے اگر کوئی مرد اسے لگا لیتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہیں جاتے کیونکہ اس میں رعونت پائی جاتی ہے۔ اور عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔
دراصل اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی سنت کے خلاف کام کرتا ہے تو اگرچہ وہ بظاہر با زیب و زینت او خوشبو سے معطر ہوتا ہے نیز لوگوں میں صاحب عزت و احترام بھی ہوتا ہے مگر سنت کے خلاف عمل کی وجہ سے حقیقت میں وہ نجس اور کتے سے بھی زیادہ خسیس ہوتا ہے۔
جنبی کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد و تہدید اور زجر و تو بیخ کے لیے ہے تاکہ جنبی غسل جنابت میں تاخیر نہ کریں کیونکہ اس سے جنبی رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔
٭٭اور حضرت عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم (اسم گرامی عمرو بن حزم اور کنیت ابو ضحاک، آپ انصاری ہیں سب سے پہلے غزوہ خندق میں شریک ہوئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں (نواح یمن) میں اہل نجران پر عامل بنا کر بھیجا تھا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ سال تھی بمقام مدینہ منورہ ٥١ ھ یا ٥٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ہدایت نامہ عمر و بن حزم کے لیے لکھا تھا اس میں یہ (حکم بھی) مرقوم تھا کہ قرآن کریم کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگایا کریں۔ (مالک ، دارقطنی)
تشریح
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر و بن حزم کو نواح یمن کے کسی شہر کا عامل بنا کر بھیجا تھا اور ایک ہدایت نامہ لکھ کر انہیں دیا تھا جس میں فرائض اور صدقات و دیات وغیرہ کے احکام و مسائل کی تفصیل تحریر کی تھی۔ اسی مکتوب گرامی میں یہ حکم بھی تھا جسے راوی یہاں بیان کر رہے یں۔
٭٭اور حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عبداللہ ابن عمر استنجے کے لیے جا رہے تھے میں بھی ان کے ہمراہ ہو لیا (پہلے تو) انہوں نے استنجاء کیا اور اس کے بعد انہوں نے اس روز یہ حدیث بیان کی کہ ایک آدمی کسی گلی محلہ میں جا رہا تھا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر تشریف لا رہے تھے اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی اور سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کا جواب نہیں دیا جب یہ آدمی (دوسرے ) گلی محلے میں مڑنے لگا تب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (تیمم کے لیے ) اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مار کر منہ پر پھیرے پھر (دوسری مرتبہ) مار کر اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک پھیرے ، اس کے بعد اس آدمی کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے کسی چیز نے نہیں روکا تھا فقط یہ بات تھی کہ میں بے وضو تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ دراصل سلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام ہے گو کہ عام طور پر ایسے موقع پر سلام کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے بلکہ اس سے سلامت کے معنی مراد ہوتے ہیں ، مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے اصل معنی کا احترام کرتے ہوئے بغیر وضو کے اللہ عزوجل کا نام لینا مناسب نہ سمجھا۔
اسی باب میں پہلے کچھ حدیثیں گزری ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت الخلاء سے آ کر بغیر وضو کے قرآن پڑھتے اور پڑھاتے تھے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر وضو کے ذکر اللہ کیا کرتے تھے۔ بظاہر وہ احادیث اور یہ حدیث آپس میں متعارض نظر آتی ہیں؟
اس تعارض کا دفعیہ یہ کہہ کر کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بے وضو قرآن پڑھنا یا ذکر اللہ کرنا جیسے کہ پہلی حدیثوں میں گزرا رخصت (آسانی) پر عمل تھا۔ اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کی تعلیم کے لیے عزیمت (اولیٰ) پر عمل فرمایا ہے۔ یعنی یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا امت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ بے وضو اللہ کا نام لینا جائز تو ہے مگر افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ با وضو ذکر اللہ کیا جائے۔
اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں اوّل تو یہ کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی آدمی کسی عذر کی بناء پر سلام کا جواب نہ دے سکے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کے بعد اپنا وہ عذر جس کی وجہ سے وہ سلام کا جواب نہیں دے سکا، سلام کرنے والے کے سامنے بیان کر دے تاکہ اس کی طرف غرور و تکبر کی نسبت نہ کی جا سکے یعنی سلام کرنے والا یہ سوچے کہ اس نے غرور و تکبر کی بنا پر میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔
٭٭اور حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت مہاجر بن قنفذ قریشی تیمی ہیں کہا جاتا ہے کہ مہاجر اور قنفذ دونوں لقب ہیں اصل میں ان کا نام عمرو بن خلف ہے۔ آپ فتح مکہ کے دن اسلام لائے ہیں اور ہجرت کے بعد بصرہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا۔ (کے بارے میں مردی ہے کہ یہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیشاب کر رہے تھے ، انہوں نے سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو فرمایا اور پھر یہ عذر بیان فرمایا کہ میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں کہ بے وضو اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کروں۔ (ابوداؤد) اور نسائی نے یہ روایت لفظ حتی توضاء (یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو فرمایا) تک نقل کی ہے اور کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو فرما لیا تو سلام کا جواب دیا۔
تشریح
مکروہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے وضو اللہ کا نام لینا حرام ہے بلکہ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہتر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقدس و مبارک نام با وضو لیا جائے ، اگر کسی نے بغیر وضو اللہ کا نام لیا تو اس پر گناہ نہیں ہو گا۔
٭٭حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حالت ناپاکی میں سوجایا کرتے اور پھر جاگتے اور سو جاتے۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
اسی باب کی حدیث نمبر ٣ میں گزر چکا ہے کہ جب آپ حالت جنابت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو پہلے وضو فرما لیا کرتے تھے اس کے بعد سویا کرتے تھے ، اس حدیث میں گو اس کی صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حالت جنابت میں سونے سے پہلے وضو فرماتے تھے مگر یہاں بھی مراد یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کرنے کے بعد ہی آرام فرماتے تھے۔
یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کبھی بغیر وضو کے بھی بیان جواز کے لیے سو جایا کرتے تھے تاکہ اس سے یہ معلوم ہو کہ بغیر وضو بھی سو جانا جائز ہے مگر افضل اور بہتر یہی ہے کہ وضو کرنے کے بعد سویا جائے۔
٭٭حضرت شعبہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ناپاکی کا غسل فرماتے تو (پہلے ) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات مرتبہ پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ دھوتے۔ ایک مرتبہ بھول گئے کہ پانی کتنی مرتبہ ڈالا ہے؟ چنانچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا میں نے عرض کیا مجھے یاد نہیں انہوں نے فرمایا تمہاری ماں مرے تمہیں یاد رکھنے سے کس نے روک دیا تھا ؟ پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کر کے اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور کہنے لگے کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس طرح پاک ہوا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)
تشریح
غسل جنابت کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق ستر دھونے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کے بارے میں اس سے پہلے جو احادیث گزری ہیں یا تو وہ مطلق ہیں یعنی ان میں یہ تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کتنی مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے یا جن میں تعداد ذکر کی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک دو مرتبہ دھوئے ہیں یا تین مرتبہ، چنانچہ باب الغسل کی پہلی فصل میں خود حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت (نمبر ٥) گزری ہے جس میں یہ تو منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک دھوئے ان کی تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے کہ کتنی مرتبہ دھوئے؟ لیکن یہاں حضرت شعبہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ عمل نقل فرما رہے ہیں کہ وہ غسل جنابت کے وقت سات مرتبہ پانی ڈال کر ہاتھ دھوتے تھے۔
لہٰذا اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل کسی خاص صورت میں ہو گا یعنی آپ کو کوئی ایسی صورت پیش آئی ہو گئی۔ جس کی بنا پر بہت زیادہ طہارت و پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ساتھ مرتبہ دھونا ضرور سمجھا ہو گا۔ یا پھر اس کی تاویل یہ ہو گی کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کے منسوخ ہونے کی اطلاع حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں ہوئی ہو گی اس لیے انہوں نے اسی پہلے حکم کے مطابق سات مرتبہ دھویا ہو گا۔
یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ شاگرد کو اپنے شیخ و استاد کے سامنے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ رہنا چاہئے تاکہ شیخ کے ہر ہر قول اور ہر ہر عمل کو ذہن نشین کر کسے۔ نیز شیخ و استاد کو یہ حق ہے کہ وہ شاگرد کی غفلت اور لاپرواہی پر تنبیہ کرے۔
٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک روز اپنی تمام بیویوں کے پاس آئے (یعنی سب سے جماع کیا) اور ہر ایک بیوی سے (جماع سے فارغ ہو کر علیحدہ علیحدہ) غسل فرمایا۔ ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ غسل کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ (یعنی ہر جماع کے بعد غسل کرنا، خوب پاک کرتا ہے ، (نفس کے لیے ) بہت خوش آئند ہے اور (جسم کو) خوب صاف کرتا ہے۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٥ سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شب میں تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرما کر آخر میں ایک ہی مرتبہ غسل فرمایا اور یہاں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ایک دن تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرمائی اور غسل کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ہر بیوی کے ساتھ جماع سے فراغت کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا تو ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ پہلا عمل جو اوپر بیان ہوا وہ امت کی آسانی کے لیے تھا یعنی اس بات کا اظہار مقصود تھا تمام بیویوں کے ساتھ ہم بستری سے فراغت کے بعد آخر میں ایک مرتبہ غسل کر لینا کافی ہے لیکن افضل اور بہتر چونکہ یہی ہے کہ ہر جماع کے بعد غسل کیا جائے اس لیے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر جماع کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب میں ہر مرتبہ غسل کرنے کی جو وجہ بیان فرمائی ہے اس میں تین لفظ استعمال فرمائے ہیں (١) ازکی (٢) اطیب (٣) اطہر۔ ان تینوں الفاظ کے فرق کو ظاہر کرتے ہوئے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ تطہیر کا استعمال ظاہری مناسبت سے ہے اور تزکیہ و تطیب کا استعمال باطنی مناسبت سے ہے یعنی تطہیر اخلاق بد کے ازالہ کے لیے ہے اور تزکیہ و تطیب اچھی خصلتوں کے حصول کے لیے ہے گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرح غسل کرنے سے برے اخلاق مثلاً غصہ وغیرہ دور ہوتے ہیں اور اچھے اخلاق یعنی حلم و تقویٰ وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔
٭٭اور حضرت حکم بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حکم ابن عمر ہے قبیلہ غفار کی نسبت سے مشہور ہیں آپ صحابی ہیں وفات نبی کے بعد بصرہ چلے گئے ان کے سوتیلے بھائی زیاد نے انہیں خراسان کا حاکم بنایا تھا چنانچہ ان کی وفات بھی خراسان کے مضافات مقام مرو میں پچاس ہجری میں ہوئی۔) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ، عورت کے (وضو کے ) بقیہ پانی سے نیز (ترمذی) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے )
تشریح
لفظ سؤر یہاں غسل یا وضو کے بقیہ پانی کے معنی میں ہے ، اس کے لغوی معنی جھوٹھا (کسی کا استعمال کیا ہوا) مراد نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ راوی کو فقط لفظ میں شک واقعہ ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو فضل کہا ہے یا سور فرمایا ہے۔
اس فصل کی حدیث نمبر ٧ کے فائدے میں اس حدیث کا تذکرہ آ چکا ہے ان دونوں میں جو تعارض واقع ہو رہا ہے اس کی وضاحت وہاں کی جا چکی ہے علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث اور اس کے بعد آنے والی حدیث نمبر (٢١) سے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے کی جو ممانعت ثابت ہو رہی ہے اس کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے تاکہ اس حدیث اور اس حدیث نمبر (٧) میں جس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زوجہ مطہرہ کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے وضو فرمایا تھا تعارض پیدا نہ ہو سکے اور دونوں حدیثیں اپنی جگہ جگہ قابل عمل رہیں۔
٭٭حضرت حمید حمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (اسم گرامی حمید بن عبد الرحمن ہے ، قبیلہ حمیر سے تعلق کی وجہ سے حمیر کی نسبت سے مشہور ہیں جلیل القدر تابعی ہیں اپنے علم و فضل کی بنا پر اہل بصرہ کے امام سمجھے جاتے تھے ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سماعت کا شرف حاصل ہے۔ (فرماتے ہیں کہ میں ایک آدمی سے ملا جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح چار برس سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں رہ چکے تھے انہوں نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عورت مرد (کے غسل) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے یا مرد عورت (کے غسل) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے۔ (ایک راوی) مسدد نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ دونوں اکٹھے ہو کر (علیحدہ علیحدہ) چلو لے کر نہا لیں تو جائز ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے (بھی) منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی ہر روز کنگھی کرے اور نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور ابن ماجہ نے یہ روایت عبداللہ بن سر جس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔
تشریح
روزانہ کنگھی کرنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جن کا مقصد صرف بناؤ سنگار اور زیب و زینت ہوتا ہے لہٰذا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کنگھی تیسرے روز کی جائے یعنی درمیان میں ایک دن کا ناغہ کرنا چاہئے۔
غسل کرنے کی جگہ پیشاب کرنا اس لیے منع ہے کہ اس سے وسوسے پیدا ہوتے جو عبادت میں حضوری قلب کے لیے سد راہ بنتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہنے والا نہ ہو پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی میں غسل کرنے لگے (یعنی کسی دانشمند سے یہ بعید ہے کہ وہ پانی میں پیشاب کر لے پھر اسی پانی سے غسل کر لے ) (صحیح البخاری و صحیح مسلم) صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی ناپاکی کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے (تاکہ پانی ناپاک نہ ہو جائے ) لوگوں نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر کس طرح نہانا چاہئے؟ انہوں نے فرمایا اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی (چلو سے ) لے کر پانی سے باہر نہانا چاہئے۔
تشریح
یہاں جس پانی میں پیشاب کرنے اور پھر اس میں نہانے سے روکا جا رہا ہے اس سے ماء قلیل یعنی تھوڑا پانی مراد ہے کیونکہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی ماء جاری یعنی بہنے والے پانی کا حکم رکھتا ہے جو پیشاب وغیرہ سے ناپاک نہیں ہوتا اور پھر اس میں نہانا بھی جائز ہے۔
بعض علماء کرام نے کہا کہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی میں بھی پیشاب کرنا ممنوع ہے اگرچہ وہ پانی پیشاب وغیرہ سے نجس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی آدمی پیشاب کرے گا تو اس کے دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس میں پیشاب کرنے لگیں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عمومی طور پر سب ہی لوگ اس میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہو جائیں گے جس کی وجہ سے پانی رفتہ رفتہ متخیر (تبدیل) ہو جائے گا یعنی جب اس میں زیادتی اور کثرت سے پیشاب کیا جائے گا تو پانی کا رنگ مزہ اور بو تینوں چیزیں بدل جائیں گی اور پانی اصل حیثیت کھو کر ناپاک ہو جائے گا۔
لہٰذا اب اس حدیث میں مذکورہ حکم کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ پہلی شکل یعنی پانی کم ہونے کی صورت میں تو یہ نہی حرمت کے لیے ہے کیونکہ کم پانی میں پیشاب کرنے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔ دوسری شکل یعنی پانی زیادہ ہونے کی صورت میں کراہت کے لیے ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اصطلاح شریعت میں کم پانی اور زیادہ پانی کی مقدار اور اس کی تحدید کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے صفحات میں پوری وضاحت کی جائے گی۔
اسے بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث میں پانی کے ساتھ جاری یعنی بہنے والے کی قید کیوں لگائی گئی ہے؟ اس قید کی وجہ یہ ہے کہ اگر پانی جاری یعنی بہنے والا ہو تو خواہ کم ہو یا زیادہ ہو اس میں نجاست مثلاً پیشاب وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
نیز علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ تمام تفصیلات دن کے لیے ہیں ، رات میں جنابت کے خوف کی وجہ سے مطلقاً اس میں قضائے حاجت مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ جنات رات کو وہیں رہتے ہیں جہاں پانی ہوتا ہے چنانچہ اکثر و بیشتر ندی و نالے اور تالاب جوہڑ اور نہر وغیرہ رات کو جنات کا مسکن ہوتی ہیں۔
حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی جنبی پانی میں ہاتھ نکالنے کے لیے ڈالے تو پانی مستعمل یعنی ناقابل استعمال نہیں ہو گا اور اگر وہ پانی میں ہاتھ اس لیے ڈالے تاکہ اپنے ہاتھوں کو ناپاکی دور کرنے کے لیے اس میں دھوئے تو اس شکل میں اپنی مستعمل یعنی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت سائب بن یزید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میری خالہ مجھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے گئیں ، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (یہ) میرا بھانجا بیمار ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا پانی پی لیا۔ اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑا ہو کر مہر نبوت کو دیکھنے لگا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں کے درمیان تھی اور دلہن کے پلنگ کی گھنڈی کی طرح (چمک رہی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
وضو کے پانی سے یا تو یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو فرمانے کے بعد جو پانی برتن میں باقی رہ گیا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے پی لیا یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرما رہے تھے تو جو پانی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعضاء وضو سے گرتا جاتا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حصول برکت و سعادت کے خاطر اسے پیتے جاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت و رسالت کے منصب سے سرفراز فرما کر جب دنیا میں مبعوث کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کی حقانیت و صداقت کی دلیل کے طور پر جہاں اور بہت سی نشانیاں اور معجزے دئیے وہیں ایک بڑی نشانی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت بھی ثبت فرمائی چنانچہ حضرت سائب اسی مہر نبوت کی مقدار اور اس کی ہیت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ چھپر کھٹ کی گھنڈی کی طرح تھی۔
اس نشانی کو مہر نبوت اس لیے کہا جاتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے کے انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کتابیں نازل کی گئی تھی ں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد اور بعثت کی خبر دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ علامت بتائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو اس مہر نبوت کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہچانے گئے کہ آپ ہی وہی نبی آخر الزماں ہیں جن کی بعثت کی خبر پہلے کتابوں میں دی گئی ہے چنانچہ یہ مہر نبوت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کی علامت قرار دی گئی اس کے علاوہ علماء کرام نے اس کی وجہ تسمیہ اور بھی لکھی ہیں مگر یہاں طوالت کی وجہ سے سب کو ذکر نہیں کیا جا رہا۔
مہر نبوت کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہا اس کے اندرونی حصہ پر وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ کے الفاظ مرقوم تھے اور اندرونی حصے پریہ عبارت لکھی ہوئی تھی تَوَجَّہُ حَیْثَ مَا کُنْتَ فَاِنَّکَ مَنّصُورٌ یعنی جدھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم متوجہ ہوں گے ہماری مدد آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ ہو گی
مہر نبوت کے ظاہر ہونے کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ بعض حضرات نے تو یہ کہا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سینہ مبارک شق کر کے سیا گیا تو اس کے بعد یہ نمودار ہوئی بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے فوراً بعد یہ مہر ظاہر ہوئی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس مہر سمیت ہی پیدا ہوئے تھے۔ وا اللہ اعلم
٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس پانی کا حکم پوچھا گیا جو جنگل میں زمین پر جمع ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر چو پائے درندے اس پر آتے جاتے رہتے ہیں (یعنی جانور وغیرہ اس پانی پر آ کر اسے پیتے ہیں اور اس میں پیشاب وغیرہ بھی کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر پانی دو قلوں کے برابر ہو تو وہ ناپاکی کو قبول نہیں کرتا (یعنی نجاست وغیرہ پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا)۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، داری، سنن ابن ماجہ اور سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
تشریح
قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں جس میں اڑھائی مشک پانی آتا ہے قلتین یعنی دو مٹکوں میں پانچ مشک پانی سماتا ہے دو مشکوں کے پانی کا وزن علماء کرام نے سوا چھ من لکھا ہے اس حدیث کے پیش نظر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی دو مٹکوں کے برابر ہو اور اس میں نجاست و غلاظت گر جائے تو جب تک پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
لیکن جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام کا بہت زیادہ اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ سفر السعادہ کے مصنف جو ایک جلیل القدر محدث ہیں لکھتے ہیں کہ علماء کرام کی ایک جماعت کاقول تو یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے مگر ایک دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
علی بن مدینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو جلیل القدر علماء اور ائمہ حدیث کے امام اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاد ہیں لکھتا ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہی نہیں ہے۔
نیز علماء کرام لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اجماع صحابہ کے برخلاف ہے کیونکہ ایک مرتبہ چاہ زمزم میں ایک حبشی گر پڑا تو حضرت بن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ حکم دیا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے اور یہ واقعہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ہوا اور کسی نے بھی اس حکم کی مخالفت نہیں کی۔
پھر اس کے علاوہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں پانی کی حد اور مقدار متعین کرنے کے سلسلے میں نہ تو حنفیہ کو اور نہ ہی شوافع کو ایسی کوئی صحیح حدیث ہاتھ لگی ہے جس سے معلوم ہو کہ نجاست پڑنے سے کتنی مقدار کا پانی ناپاک ہو جاتا ہے اور کتنی مقدار کا ناپاک نہیں ہوتا۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو فن حدیث کے ایک جلیل القدر امام اور حنفی مسلک کے تھے فرماتے ہیں کہ حدیث قلتین (یعنی یہ حدیث) اگرچہ صحیح ہے لیکن اس پر ہمارے عمل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں پانی کی مقدار دو قلے بتائی گئی ہے اور قلے کے کئی معنی آتے ہیں ، چنانچہ قلہ مٹکے کو بھی کہتے ہیں اور مشک کو بھی، نیز پہاڑ کی چوٹی بھی قلہ کہلاتی ہے ، لہٰذا جب یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں حدیث میں قلہ سے کیا مراد ہے تو اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے؟
بہر حال اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جو علماء صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہیں ان کا مسلک تو یہ ہے کہ نجاست وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی کم ہو یا زیادہ ہو، جاری ہو یا ٹھہرا ہوا ہو، اور خواہ نجاست پڑنے سے پانی کا رنگ مزہ اور بو متغیر ہو یا نہ ہو یہ حضرات دلیل میں اس کے بعد آنے والی حدیث (نمبر٥) کے یہ الفاظ پیش کرتے ہیں کہ الحدیث (اِنَّ لْمَآءَ طُھُورٌّ لَا یُنَجِّسُہٌ شَیْی ءٌ (یعنی پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی) حالانکہ مطلقاً پانی نہیں ہے بلکہ زیادہ پانی ہے۔
ان کے علاوہ تمام علماء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی زیادہ ہو گا تو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہو گا اور اگر پانی کم ہے تو نجاست پڑنے سے ناپاک ہو جائے گا۔
اب اس کے بعد چاروں اماموں کے ہاں زیادہ اور کم کی مقدار میں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نجاست پڑنے سے جس پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو وہ ماء کثیر (زیادہ پانی) کہلائے گا اور جو پانی متغیر ہو جائے وہ ماء قلیل (کم پانی) کے حکم میں ہو گا۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک اس حدیث کے پیش نظر یہ ہے جو پانی دو قلوں کے برابر ہو گا اسے ماءِ کیثر کہیں گے اور جو پانی دو قلوں کے برابر نہ ہو گا وہ ماء قلیل کہلائے گا۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ماننے والے یہ فرماتے ہیں کہ۔ اگر پانی اتنی مقدار میں ہو کہ اس کے ایک کنارے کو ہلانے سے دوسرا کنارہ نہ ہلے تو وہ ماء کثیر ہے اور اگر دوسرا کنارہ ہلنے لگے تو وہ ماء قلیل ہے۔
بعد کے بعض حنفی علماء نے دہ در دہ کو ماء کیثر کہا ہے یعنی اتنا بڑا حوص جو دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا ہو اور اتنا گہرا ہو کہ اگر چلو سے پانی اٹھائیں تو زمیں نہ کھلے ایسے حوض کو دہ در دہ کہتے ہیں۔ چنانچہ ایسے حوض کے پانی میں جو دہ در دہ ہو ایسی نجاست پڑ جائے جو پڑ جانے کے بعد دکھلائی نہ دیتی ہو جیسے پیشاب، خون ، شراب وغیرہ تو چاروں طرف وضو کرنا درست ہے جدھر سے چا ہے وضو کر سکتا ہے ، البتہ اگر اتنے بڑے حوض میں اتنی نجاست پڑ جائے کہ پانی کا رنگ یا مزہ بدل جائے یا بد بو آنے لگے تو پانی ناپاک ہو جائے گا اور اگر حوض کی شکل یہ ہو کہ لمبا تو وہ بیس ہاتھ اور چوڑا پانچ ہاتھ ہو یا ایسے ہی لمبا پچیس ہاتھ ہو اور چوڑا چار ہاتھ ہو تو یہ دہ دردہ کی مثل ہی کہلائے گا۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا ہم بضاعہ کے کنویں (کے پانی) سے وضو کر سکتے ہیں؟ (جب کہ) اس کنویں میں حیض کے (خون میں بھرے ہوئے ) کپڑے کتوں کے گوشت اور گندگی ڈالی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (اس کنویں کا) پانی پاک ہے (جب تک کہ اس کے رنگ، مزہ اور بو میں فرق نہ آئے ) اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
بیر بضا عہ مدینہ کے ایک کنویں کا نام ہے وہ ایک ایسی جگہ واقع تھا جہاں نالے کی رو آتی تھی اس نالے میں جو گندگی اور غلاظت ہوتی تھی وہ اس کنویں میں پڑتی تھی مگر کہنے والے نے کچھ اس انداز سے بیان کیا جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ لوگ خود اس میں نجاست ڈالتے تھے ، حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اس قسم کی گندگی اور غلط چیزوں کا ارتکاب تو عام مسلمان بھی نہیں کر سکتا چہ جائے کہ وہ ایسی غیر شرعی غیر اخلاقی چیز کا ارتکاب کرتے جو افضل المومنین تھے۔
بہر حال! اس کنویں میں بہت زیادہ پانی تھا ور چشمہ دار تھا اس لیے جو گندگی اس میں گرتی تھی بہہ کر نکل جاتی تھی بلکہ علماء کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس وقت کنواں جاری تھا اور نہر جاری کی طرح ایک باغ میں بہتا بھی تھا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کنویں کی اس صفت کی وجہ سے اس کے پانی کے بارے میں وہی حکم فرمایا جو ماء کثیر یا جاری پانی کا ہوتا ہے۔
حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ نجاست پڑنے سے کوئی پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ تھوڑا پانی ہو یا زیادہ پانی بلکہ یہ حکم ماء کثیر یعنی زیادہ پانی کا ہے ماء قلیل یعنی کم پانی کا یہ حکم نہیں ہے۔
حنفیہ کے بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ چشمہ دار کنواں بھی جاری پانی کا حکم رکھتا ہے یعنی جو حکم بہنے والے پانی کا ہوتا ہے وہی چشمہ دار کنویں کا ہوتا ہے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہم (کھارے ) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لیے اگر ہم اس پانی سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں ! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں (یا تیمم کر لیا کریں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔ (مالک ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
میتہ اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مر جائے چنانچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مر جائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔
دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علماء کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے ، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔
٭٭اور حضرت ابوزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے لیلۃ الجن (یعنی جن کی رات) میں ان سے پوچھا کہ تمہارے لوٹے میں کیا ہے ! عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ نبیذ (یعنی کھجوروں کا شربت) ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھجوریں پاک ہیں اور پانی پاک کرنے والا ہے (ابوداؤد) امام احمد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے وضو کیا نیز امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ابو زید کا پتہ نہیں کہ یہ کون ہیں ہاں حضرت علقمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ البتہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح طور پر یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ لیلۃ الجن کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نہیں تھا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
لیلۃ الجن اس رات کو فرماتے ہیں جس میں جنات کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ان کے سامنے قرآن کریم پڑھا تھا جس کے بعد وہ جماعت اپنی قوم میں گئی اور اسلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات سے انھیں آگاہ کیا اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورہ جن میں بھی کیا گیا ہے۔
نبیذ تمر کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھوارے پانی میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور انہوں چند روز تک اسی طرح پانی میں رہنے دیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں کا شربت سا بن جاتا ہے اور اس میں ایک قسم کی تیزی بھی آ جاتی ہے ، یہ شربت جب تک تیز و تند نہیں ہوتا حلال رہتا ہے چنانچہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ نیند تمر بنایا جاتا تھا۔
نبیذ تمر سے وضو کرنا مختلف فیہ ہے ، چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر وضو کے لیے خاص پانی نہ ملے تو نبیذ تمر سے وضو کیا جا سکتا ہے اس کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس مسلک سے اختلاف کرتے ہیں ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے یہ حدیث چونکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لیے شوافع اس حدیث کو ضعیف ثابت کرتے ہیں چنانچہ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ حدیث کے راوی ابو زید غیر معروف ہیں اس لیے ان کی روایت کردہ حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دوسری چیز یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیلۃ الجن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نہیں تھے۔ اس کی شہادت میں وہ حضرت علقمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک روایت پیش کر رہے ہیں جو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ اس رات میں ہونا ہی ثابت نہیں ہے تو ابو زید کی یہ روایت یقیناً صحیح نہیں ہو سکتی۔
لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک برحق ہے کیونکہ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ کہنا ابو زید مجہول راوی ہیں حدیث کی حیثیت پر کچھ اثر انداز نہیں ہوتا اس لیے کہ حدیث کے راویوں کے غیر معروف ہونے کا دعویٰ دوسرے طریقوں سے غلط ثابت ہو جاتا ہے۔
دوسرا اعتراض یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نہیں تھے ، بالکل غلط ہے ، کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی دیگر روایتوں سے بھی تحقیق کے ساتھ ثابت ہے چنانچہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس شب میں جنات کو سلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات بتانے میں مشغول ہوئے تو اپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک جگہ بٹھا دیا اور ان کے اردگرد لکیر کھینچ کر ایک دائرہ بنایا اور انھیں ہدایت کی کہ وہ اس دائرے سے باہر نہ نکلیں۔
حضرت علقمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اس کا مطلب حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی کا سرے سے انکار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنات سے ہم کلام تھے اس وقت حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر نہ تھے ، یا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت جنات کے پاس تشریف لے جا رہے تھے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نہیں تھے بلکہ آخر شب میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی۔ وا اللہ اعلم
٭٭حضرت کبشہ بنت کعب بن مالک سے جو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کی بیوی تھی ں مروی ہے کہ (ایک روز ان کے سسر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس آئے (کبشہ کہتی ہیں کہ) میں نے ان کے وضو کے لیے (ایک برتن میں ) پانی رکھ دیا، ایک بلی آ کر اس میں سے پانی پینے لگی، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برتن کو اس کی طرف جھکا دیا (تاکہ وہ آسانی سے پانی پی لے ) چنانچہ بلی نے پانی پی لیا کبشہ کہتی ہیں کہ جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھا کہ میں تعجب سے ان کی طرف دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا میری بھتیجی کیا تمہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلیاں ناپاک نہیں ہیں ، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہیں یا یہ فرمایا آنے جانے والیوں میں سے ہیں۔ (موطا امام مالک، مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبشہ کو بھتیجی کہا ہے حالانکہ وہ ان کی بھتیجی نہیں تھی ں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں عام طور پر مرد مخاطب کو اگر وہ چھوٹا ہوتا ہے بھتیجا یا چچا کا بیٹا اور عورت مخاطب کو بھتیجی کہہ کر پکارتے ہیں چا ہے حقیقت میں ان کا یہ رشتہ نہ ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ، اس لیے وہ اسلامی اخوت کے رشتے کے پیش نظر اس کی اولاد کو بھتیجا یا بھتیجی کہتے ہیں۔ روایت میں طوافین اور طوافات دونوں لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بلی اگر نر ہے تو اس کی مناسبت سے طوافین کا لفظ ہو گا اور اگر بلی مادہ ہے تو اس کی مناسبت سے طوافات کا لفظ ہو گا۔
یہ دونوں لفظ یہاں خادم کے معنی میں استعمال فرمائے ہیں اس کا مطب یہ ہے کہ بلیاں تمہاری خادم ہیں ان کو خادم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی انسانوں کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتی ہیں اور ان کے آرام و راحت کی بعض چیزوں میں بڑی معاون ہوتی ہیں مثلاً نقصان دہ جانوروں جیسے چوہے وغیرہ کو یہ مارتی ہیں۔ یا ان کو خادم اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ جیسے خادموں کی خبر گیری میں ثواب ملتا ہے اسی طرح بلیوں کی خبر گیری میں بھی ثواب ہوتا ہے اور جس طرح گھروں میں خادم پھرتے رہتے ہیں اس طرح بلیاں بھی گھروں میں پھرتی رہتی ہیں۔
بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلیاں تمہارے پاس ہر وقت خادموں کی طرح رہتی ہیں اور گھر کے ہر حصے میں پھرا کرتی ہیں اگر ان کے استعمال کیے کو ناپاک قرار دے دیا جائے تو تم سب بڑی دشواریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ اس لیے یہ حکم کیا جاتا ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ پاک ہے۔ گویا یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ بلی کا استعمال کردہ پاک ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ ناپاک نہیں ہے بلکہ پاک ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلی کا استعمال کردہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی نہ مل سکے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ اس کی موجودگی میں تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو اور اس کے باوجود اسی جھوٹے پانی سے وضو کیا جائے گا تو وضو ہو جائے گا لیکن مکروہ ہو گا۔
امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس شکل میں اسے مکروہ بھی اس لیے فرماتے ہیں کہ ایک دوسری حدیث میں بلی کو درندہ کہا گیا ہے اور درندہ کے بارے میں بتایا گیا کہ ناپاک ہوتا ہے لیکن یہ حدیث چونکہ اس کے بالکل برعکس ہے اس لیے ان دونوں حدیثوں پر نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا حکم نافذ کیا جانا چاہئے جو دونوں حدیثوں کے مفہوم کے مطابق ہو لہٰذا اب یہی کیا جائے گا کہ جس حدیث میں بلی کو درندہ کہہ کر اس کی نجاست کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے مگر اس حدیث نے بلی کی نجاست کے حکم کو کراہت میں بدل دیا ہے لہٰذا اس کے استعمال کیے ہوئے کو ناپاک تو نہیں کہیں گے البتہ مکروہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٭٭حضرت داؤد بن صالح بن دینار اپنی والدہ محترمہ سے نقل کرتے ہیں کہ (ایک روز) انہیں ان کی آزاد کرنے والی مالکہ نے ہریسہ (یعنی حریرہ) دیکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت اقدس میں بھیجا ان کی والدہ فرماتی ہیں کہ میں نے (وہاں پہنچ کر) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نماز پڑھتے ہوئے پایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اشارے سے اسے رکھ دینے کے لیے مجھے کہا (چنانچہ میں نے ہریسہ کا برتن رکھ دیا اتنے میں ) ایک بلی آ کر اس میں سے کھانے لگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز سے فارغ ہوئیں تو حریرہ کو بلی نے جس طرف سے کھایا تھا اسی طرف سے انہوں نے بھی کھالیا پھر فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ بلی ناپاک نہیں ہے اور وہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے اور میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بلی کے استعمال کردہ (پانی) سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
داؤد کی والدہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حریرہ لے کر پہنچیں تو وہ نماز میں مشغول تھی ں اس لیے انہوں نے اپنے ہاتھ یا سر وغیرہ سے انہیں اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہ برتن رکھ دو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس طرح کے معمولی اشارے جائز ہیں کیونکہ یہ عمل کثیر نہیں ہے چنانچہ نماز کو فاسد اور ختم کر دینے والی چیز یا تو گفتگو ہے یا عمل کثیر ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے۔ لہٰذا جن علماء کا مسلک یہ ہے کہ بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو کرنا مکروہ تنزیہی ہے مثلاً امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل آسانی و رخصت پر عمل کرنے کے مترادف ہے اور بیان جواز کے لیے ہے۔ البتہ جن علماء کے نزدیک بلی کا استعمال کردہ پاک ہے ان کو اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے تو ان ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے علماء نے لکھا ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلیوں کو پالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم اس پانی سے وضو کر سکتے ہیں جس کو گدھوں نے استعمال کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں ! (اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے ) اور اس پانی سے بھی (وضو کرنا جائز ہے ) جس کو درندوں نے استعمال کیا ہو۔ (شرح السنۃ)
تشریح
اس مسئلے میں کہ گدھوں یا خچروں کا استعمال کردہ پانی پاک ہے یا نہیں؟ کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ اس مسئلے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں تعارض ہے چنانچہ بعض احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا استعمال کردہ حرام ہے اور بعض احادیث سے ان کی اباحت کا پتہ چلتا ہے ، جیسا کہ مرقات میں دونوں قسم کی احادیث جمع کی گئی ہیں لہٰذا ان کے ظاہری تعارض کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور پھر احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اس مسئلے کے بارے میں اختلاف منقول ہے چنانچہ حضرت ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گدھوں اور خچروں کے مستعمل کو ناپاک کہتے تھے مگر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے پاک ہونے کے قائل تھے۔
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ درندوں کا مستعمل پاک ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک درندوں کا استعمال کیا ہوا ناپاک ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب کوئی درندہ پانی وغیرہ کو استعمال کرے گا تو اس میں اس کا لعاب یقیناً پڑے گا اور لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر کہ درندوں کا گوشت ناپاک ہوتا ہے اس لیے اس کے استعمال کیے ہوئے کو بھی ناپاک کہا جائے گا۔
اب جہاں تک ان حدیثوں کا تعلق ہے جن سے درندوں کے مستعمل کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے ، اس کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کی صحت ہی میں کلام کیا جاتا ہے کہ آیا یہ احادیث صحیح بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ان احادیث سے درندوں کے مستعمل پانی کے پاک ہونے کا ثبوت ملتا ہے اس سے وہ پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع ہوتا ہے ، چنانچہ اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی جو حضرت یحییٰ اور حضرت ابو سعید رحمہما اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہیں ، ہوتی ہے جن میں وضاحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے کہ اگر درندے نے ایسے پانی کو استعمال کیا جو بہت زیادہ مثلاً کسی بڑے تالاب و غیرہ میں پانی ہے تو پاک ہو گا اگر پانی تھوڑا ہو گا تو وہ درندوں کے استعمال کر دینے سے ناپاک ہو جائے گا۔
پھر اس بات کو ذہن نشین کر لیجئے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان احادیث میں درندے اور پانی علی العموم مراد ہیں کہ پانی خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ وہ درندوں کے استعمال کرنے سے ناپاک نہیں ہوتا تو کیا اس شکل میں یہ لازم نہیں آتا کہ کتوں کے جوٹھے کو بھی پاک کہا جائے حالانکہ کوئی بھی کتے کہ جوٹھے کو پاک نہیں کہتا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جن احادیث سے درندوں کے جوٹھے پانی کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے اس سے وہی پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع رہتا ہے اور جو بہت زیادہ ہوتا ہے۔
اس موقع پر برسبیل تذکرہ ایک مسئلہ بھی سن لیجئے۔ یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ کتے کا لعاب وغیرہ بھی ناپاک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کتوں کا لعاب وغیرہ کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگ جائے تو اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس سلسلے میں اتنی بات یاد رکھئے کہ اگر کسی کتے نے کسی آدمی کے بدن کے کسی حصے کو منہ سے پکڑ لیا یا کسی کپڑے کو منہ میں دبا لیا تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ کتے نے اگر غصے کی حالت میں پکڑا یا دبا ہے تو وہ ناپاک نہیں ہو گا۔ اور اگر غصے کی حالت میں نہیں بلکہ بطور کھیل کود کے اس نے پکڑا اور دبایا ہے تو وہ ناپاک ہو جائے گا اس لیے بدن کے اس حصے کو اور کپڑے کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہو گا۔ اس فرق کی وجہ علماء یہ لکھتے ہیں کہ جب کتا کسی چیز کو غصے کی حالت میں پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے پکڑتا ہے اور اس کے دانت میں کوئی رطوبت نہیں ہوتی اس لیے اس چیز پر ناپاکی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور جب کسی چیز کو کھیل کے طریقہ پر پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے نہیں پکڑتا بلکہ ہونٹوں سے پکڑتا ہے اور ہونٹ چونکہ لعاب وغیرہ سے تر ہوتے ہیں اس لیے اس کی ناپاکی اس چیز کو بھی ناپاک کر دیتی ہے۔
٭٭حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا (آپ کا نام فاختہ ہے مگر ام ہانی کنیت سے مشہور ہیں ابو طالب کی صاحبزادی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کی حقیقی بہن ہیں۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک طشت میں کہ جس میں گندھے ہوئے آٹے کا کچھ حصہ لگا ہوا تھا غسل فرمایا۔ (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
تشریح
چونکہ حضرات شوافع کے نزدیک پانی میں تغیر آ جانے سے خواہ تغیر کسی پاک و جائز چیز سے آئے یا ناپاک و نا جائز چیز سے وہ پانی وضو و غسل کے استعمال کے قابل نہیں رہتا اس لیے وہ حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ طشت میں اتنا آٹا نہیں لگا تھا جس سے پانی متغیر ہو جاتا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس میں غسل کیا۔
مگر حنفیہ کے ہاں چونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر پانی کسی پاک و جائز چیز سے متغیر ہو بشرطیکہ پانی گاڑھا ہو جائے تو اس سے وضو اور غسل درست ہے اس لیے انہیں اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭٭حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک قافلہ کے ہمراہ کہ جس میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے چلے جب (اہل قافلہ جنگل میں ) ایک تالاب پر پہنچے تو حضرت عمرو بن عاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا کہ اے تالاب کے مالک کیا تمہارے اس تالاب پر (پانی پینے کے لیے ) درندے بھی آتے ہیں؟ (یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے تالاب کے مالک یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہم درندوں پر آتے ہیں اور درندے ہم پر آتے ہیں یعنی کبھی تو ہم پانی پر آتے ہیں اور کبھی درندے پانی پر آتے ہیں اور چونکہ تالاب میں پانی زیادہ ہے اس لیے درندوں کے پینے سے ناپاک نہیں ہوتا (مالک) اور رزین نے کہا ہے کہ بعض راویوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ) میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ درندے جو اپنے پیٹ میں لے جائیں وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے پینے کے قابل اور پاک کرنے والا ہے۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ان تالابوں کے بارے میں پوچھا گیا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں اور ان پر (پانی پینے کے لیے ) درندے ، کتے اور گدھے آتے رہتے ہیں کہ آیا اس سے کوئی چیز پاک کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو ان کے پیٹوں میں آ جائے وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے لیے پاک کرنے والا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
ان دونوں حدیثوں میں درندوں کے استعمال کردہ پانی کے پاک ہونے کا جو حکم بیان کیا جا رہا ہے وہ مطلقاً پانی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ حکم اس پانی کے بارے میں ہے جو برے بڑے تالابوں اور حوضوں میں جمع رہتا ہے۔
٭٭اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ یہ برص(یعنی سفیدی کی بیماری) کا سبب ہوتا ہے۔ (دارقطنی)
تشریح
دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی کا مطلب بعض علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ اس پانی سے غسل نہ کرنا چاہئے جو قصداً دھوپ میں رکھ کر گرم کیا گیا ہوا لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے یعنی خواہ پانی کو دھوپ میں قصداً رکھ کر گرم کیا گیا ہو یا پانی کسی جگہ پہلے سے رکھا ہوا ہو اور دھوپ کے آ جانے سے گرم ہو گیا ہو۔
حضرت میرک شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث (یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول) ضعیف ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث اس سلسلے میں منقول نہیں ہے۔
مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کو دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے جس کے راوی ثقہ اور معتمد ہیں لہٰذا اس کی صحت پر کوئی کلام صحیح نہیں ہو گا۔
جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کی مراد کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عمر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے پانی میں غسل مستقلاً نہ کیا جائے اور نہ اس پانی سے غسل کرنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ برص جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے۔
ویسے مسئلہ کی بات یہ ہے کہ دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ حضرت امام اعظم، امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں حضرات کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک میں کچھ اختلاف ہے لیکن ان کا صحیح قول یہ ہے کہ اس پانی سے غسل کرنا مکروہ ہے البتہ ان کے علماء متاخرین نے بھی تینوں ائمہ کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہی مسلک اختیار کیا ہے کہ اس میں کراہت نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کے برتن میں سے کتا پانی پی لے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہئے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جس کے برتن سے کتا پانی پی لے اس (برتن) کو پاک کرنے کی صورت یہ ہے اسے سات مرتبہ دھو ڈالے اور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوئے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کو بھی دوسری نجاستوں کے حکم میں شمار کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس برتن کو صرف تین مرتبہ بغیر مٹی کے دھو ڈالنا کافی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں سات مرتبہ دھونے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طریقے پر نہیں ہے بلکہ اختیار کے طور پر ہے ، یا پھر یہ کہ سات مرتبہ دھونے کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جو بعد میں منسوخ ہو گیا! وا اللہ اعلم۔
تشریح
اکثر محدثین اور تینوں ائمہ کے مسلک یہ ہیں کہ اگر برتن میں کتا منہ ڈال دے یا کسی برتن سے پانی پی لے اور کھائے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) ایک دیہاتی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا (یہ دیکھ کر) لوگ اس کے پیچھے پڑنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو اور ایک ڈول میں پانی اس کے پیشاب پر بہا دو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم لوگ آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنے والے نہیں۔) (الصحیح البخاری)
تشریح
راوی کو شک ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجلا من ماء فرمایا ہے یا ذنوبا من ماء کے الفاظ فرمائے ہیں اسی لیے انہوں نے دونوں نقل کر دئیے ہیں سجل اور ذنوب دونوں کے معنی ڈول ہی کے ہیں لیکن ان کے استعمال میں تھوڑا سا فرق ہے وہ یہ کہ سجل تو اس ڈول کو کہتے ہیں جس میں پانی ہو خواہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ اور ذنوب پانی سے بھرے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی انتہائی شفقت و رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حلم و عفو کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت پر کتنے مہربان اور شفیق تھے چنانچہ نہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس دیہاتی کی غلطی سے در گزر فرماتے ہوئے اس کو کچھ نہ کہا بلکہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے برا بھلا کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ تم جس پیغمبر کے رفیق و ساتھی اور جس امت کے فرد ہو اس کی مابہ الامتیاز خصوصیت ہی یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو سختی و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ کسی کی غلطی پر جو عدم واقفیت کی بناء پر سرزد ہو جائے برا بھلا کہا جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے امت کے لیے یہ تعلیم مقصود ہے کہ لوگوں کو کسی دشواری اور سختی میں نہ ڈالا جائے اور نہ ایسا کوئی معاملہ کیا جائے جس سے دوسرا آدمی بد دل ہو جائے اور اپنے آپ کو کسی گھٹن اور تنگی میں محسوس کرے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر زمین پر کوئی نجاست و گندگی پڑی ہوئی ہو تو اس نجاست پر زیادہ مقدار میں پانی ڈالنے یا نجاست کو بہا دینے سے زمین پاک ہو جاتی ہے۔
یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نجاست کا دھوون اگر متغیر نہ ہو تو پاک ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے کپڑے ، بدن، اور زمین پر یا کسی بوریے وغیرہ سے چھن کر زمین پر گرے تو یہ چیزیں ناپاک نہیں ہوں گی اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے مگر مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ دھوون اگر نجاست کی جگہ اس وقت گرے جب وہ نجاست کے زائل ہونے کی وجہ سے پاک ہو چکی ہو تو اس شکل میں وہ پاک ہو گا اور وہ دھوون جو نجاست کی جگہ سے پاک ہونے سے پہلے جدا ہوا وہ ناپاک ہو گا اور اگر دھوون متغیر ہو جائے بایں طور کہ پانی کے رنگ، مزے اور بو میں تبدیلی آ جائے تو وہ بالاتفاق ناپاک ہے۔
علامہ طیبی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ اگر زمین کسی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہو جائے تو وہ خشک ہونے سے پاک نہیں ہوتی یعنی وہ جگہ پانی بہا کر نجاست کو زائل کر دینے ہی سے پاک ہو گی اور اس جگہ کو کھرچ ڈالنا یا وہاں سے مٹی کھود کر اٹھا لینا ضروری نہیں ہے۔
مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک خشک ہونے سے زمین پاک ہو جاتی ہے اور اگر کوئی چا ہے کہ خشک ہونے سے پہلے ہی زمین پاک ہو جائے تو وہاں سے مٹی کھرچ کر اٹھا دی جائے تاکہ وہ حصہ پاک ہو جائے۔
علماء حنفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے مسجد کی زمین کے اس حصہ کے جہاں خشک ہو جانے سے پہلی جگہ جہاں دیہاتی نے پیشاب کر دیا تھا نماز پڑھ لی گی جس کی بناء پر حکم لگا دیا گیا کہ ناپاک زمین بغیر پانی بہائے ہوئے پاک نہیں ہوتی، جہاں تک سوال پانی ڈالنے کا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت نجاست کی جگہ پانی بہانے کا حکم اس لیے دیا ہو گا کہ پیشاب کی نجاست میں کچھ کمی ہو جائے اور پیشاب کا رنگ اور اس کی بدبو پانی بہانے کی وجہ سے ختم ہو جائے ، مگر زمین کا وہ حصہ خشک ہونے کے بعد ہی پاک ہوا ہو گا۔ اس سلسلے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مشکوۃ کی شرح مرقات میں اور بہت سی دلیلیں لکھی ہیں جو وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک ایک دیہاتی آیا اور مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے کہنے لگے کہ ٹھہر جا ! ٹھہر جا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اسے پیشاب کرنے سے نہ رو کو بلکہ اسے چھوڑ دو اور پیشاب کرنے دو کیونکہ اگر تمہارے دھمکانے سے اس کا پیشاب رک گیا تو اس کے لیے تکلیف دہ ہو گا پھر اس طرح اس کا پیشاب جو ایک ہی جگہ ہے کئی جگہ پھیل جائے گا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے چھوڑ دیا اور اس دیہاتی نے (جب پورا) پیشاب کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلایا اور (نہایت شفقت و مہربانی سے ) فرمایا کہ مسجدیں پیشاب و گندگی وغیرہ کے لیے نہیں ہیں بلکہ ذکر الہٰی اور نماز و قرآن پڑھنے کے لیے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی کے مثل فرمایا (یعنی راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعرابی سے یہی الفاظ فرمائے تھے یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجلس میں سے ایک آدمی کو حکم دیا اس نے ایک ڈول پانی لا کر پیشاب پر بہا دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کوئی حیض کا خون کپڑے پر لگا ہوا پائے تو کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے چاہئے کہ (پہلے ) چٹکیوں سے اسے ملے پھر پانی سے دھو لے اور اسی کپڑے میں (خواہ تر ہی کیوں نہ) ہو نماز پڑھ لے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭حضرت سلیمان بن یسار (اسم گرامی سلیمان ابن یسار اور کنیت ابو ایوب ہے آپ تابعی ہیں آپ کا ١٧ء ھ میں بعمر ٥٣ سال میں انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کپڑے پر لگی ہوئی منیٰ کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے سے منیٰ کو دھویا کرتی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (جب اسی گیلے کپڑے کے ساتھ) نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو اس کپڑے پر (منی) کے دھونے کا نشان رہتا تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منیٰ ناپاک ہے اگر منیٰ کسی کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو اسے دھو کر پاک کر لینا چاہئے چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح سنک (یعنی ناک سے نکلنے والی) رطوبت پاک ہے اسی طرح منیٰ بھی پاک ہے۔
٭٭اور حضرت اسود (حضرت اسود بن محاربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تابعی ہیں ٨٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) و حضرت ہمام (حضرت ہمام ابن حارث تحفی تابعی ہیں اور حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔) راوی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے سے (خشک) منیٰ کھرچ دیا کرتی تھی (صحیح مسلم) اور مسلم نے اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علقمہ اور حضرت اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ہی طرح ایک روایت بھی نقل کی ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی کپڑے سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
تشریح
یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مطابق منیٰ کے ناپاک ہونے کو وضاحت کے ساتھ ثابت کر رہی ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ تر منیٰ کو دھونا چاہئے اور گاڑھی منیٰ کو جو کپڑے کے اندر سرایت نہ کرے خشک ہونے کے بعد کھرچ کر اور رگڑ کر صاف کر دینا چاہئے۔
٭٭اور حضرت ام قیس بنت محصن (حضرت ام قیس محصن کی لڑکی اور عکاشہ کی بہن ہیں ابتداء ہی میں مکہ میں اسلام کی دولت سے مشرف ہو گئی تھی ں۔) سے مروی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کو بھی جو ابھی کھانا نہ کھاتا تھا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگایا اور کپڑوں پر بہا دیا اور خوب مل کر نہیں دھویا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر شیر خوار بچہ جو اناج نہ کھاتا ہو کسی کپڑے وغیرہ پر پیشاب کر دے تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس پر پانی چھڑک دینا کافی ہو جائے گا چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے مسلک کی تائید کر رہی ہے مگر حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ بچے کے پیشاب کو بھی ہر حال میں دھونا ضروری ہے۔ اس حدیث میں نضح جو لفظ آیا ہے اور جس کے معنی چھڑکنا ہیں اس کے معنی یہ دونوں حضرات دھونا ہی فرماتے ہیں۔ پھر حدیث کے آخری الفاظ لا یغسلہ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشاب کو دھویا نہیں ) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خوب مل مل کر نہیں دھویا بلکہ بچے کے پیشاب کے پیش نظر معمولی طور پر اس پر پانی بہا کر دھو ڈالنا ہی کافی سمجھا یہ دونوں حضرات اس حدیث کی یہ مذکورہ تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ دوسری احادیث مثلاً استنز ھو من البول (یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو) سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ ہر ایک پیشاب کو دھونا چاہئے حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں نضح سے مراد بغیر ملے اور نچوڑے پانی کا بہانا ہے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بچوں کو دعا و برکت حاصل کرنے کے لیے بزرگوں اور اولیاء اللہ کے پاس لے جانا مستحب ہے ، نیز بچوں کے ساتھ تواضع و نرمی اور محبت و شفقت کا معاملہ کرنا بھی مستحب ہے۔
٭٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب چمڑا دباغت دے دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
چمڑے کو ناپاکی وغیرہ سے پاک کرنے کو دباغت کہتے ہیں۔ چمڑے کو دباغت کئی طرح دی جاتی ہے یا تو چمڑے کو چھالوں وغیرہ میں ڈال کر پکایا جاتا ہے یا دھوپ میں رکھ کر اسے خشک کر لیا جاتا ہے اور اگر چمڑا بغیر دھوپ کے خشک کیا جائے تو اس کو دباغت نہیں کہیں گے بہر حال دباغت کے ذریعے چمڑا چاروں ائمہ کرام کے نزدیک پاک کیا جا سکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تو سور اور آدمی کے چمڑے کے علاوہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے۔ مگر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک کتے کا چمڑہ بھی پاک نہیں ہوتا حالانکہ حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے۔ البتہ آدمی اور سور کا چمڑا مستثنیٰ ہے کیونکہ آدمی کا چمڑا تو انسان کی عظمت و بزرگی کے پیش نظر پاک نہیں ہوتا اور سور کا چمڑا اس لیے پاک نہیں ہوتا کہ وہ نجس عین ہے۔
٭٭اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک آزاد کردہ باندی کو ایک بکری صدقہ میں دی گئی (اتفاق سے ) وہ بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اس پر گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے اس کا چمڑا اتار کیوں نہ لیا؟ اس چمڑے کو دباغت دے کر اس سے نفع اٹھا لیتے ! لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا؟ صرف اس کا کھانا حرام ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردار (یعنی جانور بغیر ذبح کئے ہوئے مر جائے اور اس کا کھانا حرام ہو تو جو اجزاء ذبح کرنے کی صورت میں کھائے جاتے ہیں مثلاً گوشت وغیرہ وہ تو مرنے کے بعد حرام ہو جاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دوسری چیزوں مثلاً دباغت دئیے ہوئے چمڑے ، دانت، بال اور سینگ وغیرہ سے فائدہ اٹھانا یعنی ان کی خرید و فروخت کرنا اور ان کو دوسری ضرورتوں میں استعمال کرنا جائز ہے۔
٭٭اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (ام المومنین حضرت سودا زمعہ کی بیٹی ہیں ابتداء اسلام سے مشرف تھی انتقال ٥٤ھ مدینہ میں ہوا۔) فرماتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مر گئی تھی ہم نے اس کی کھال اتار کر دباغت دے لی اور ہمیشہ اسی میں نبید (یعنی پانی اور کھجوروں کا شربت) بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی مشک ہو گئی۔ (صحیح البخاری)
٭٭حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا (آپ کا نام لبابہ ہے اور حارث کی بیٹی ہیں کنیت ام فضل ہے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں۔) فرماتی ہیں کہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی گود میں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (دوسرا) کپڑا پہن کر یہ تہ بند مجھے دے دیجئے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں آپ نے فرمایا لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ابوداؤد و سنن نسائی کی ایک روایت میں ابو سمح سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے۔
تشریح
حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہاں چھینٹا دینے سے مراد تڑ یڑا دینا یعنی پیشاب کی جگہ پر بغیر ملے اور نچوڑے ہوئے پانی کا بہا دینا ہے اور دھونے سے مراد مبالغے کے ساتھ دھونا ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ ایک لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر پانی کا تڑیڑا دو لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے پیشاب کو بھی دھونے کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر صرف پانی کا تڑیڑا دینا ہی کافی ہے یعنی اس کو ملنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لڑکوں کا پیشاب سوراخ کی تنگی کی بناء پر زیادہ نہیں پھیلتا اور لڑکیوں کا پیشاب سوراخ کی فراخی کی وجہ سے زیادہ پھیلتا ہے اس لیے لڑکیوں کے پیشاب کو خوب اچھی طرح دھونا چاہئے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے جوتوں کے ساتھ گندگی پر چلے تو مٹی اس کو پاک کرنے والی ہے (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے بھی اسی کے ہم معنی روایت نقل کی ہے
تشریح
صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے اتفاق سے کسی جگہ گندگی پڑی ہوئی تھی وہ اس کے جوتوں پر لگ گئی اب پھر وہ جب پاک اور صاف زمین پر چلے گا تو مٹی سے رگڑ کھانے کی وجہ سے اس کا جوتا پاک ہو جائے گا اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ایک شاگرد حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں گندگی سے مراد جو جسم والی اور خشک ہو یعنی اگر کسی راہ چلتے کے جوتے یا موزے میں ایسی گندگی لگ جائے جو جسم والی ہو اور خشک ہو تو پاک زمین پر رگڑ دینے سے وہ جوتا یا موزہ پاک ہو جائے گا اور اگر گندگی خشک نہ ہو تو پھر رگڑ نے سے گندگی زائل نہیں ہو گی۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک دوسرے شاگرد رشید حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ یہاں حدیث کی مراد عام ہے یعنی گندگی خواہ خشک ہو یا تر زمین پر رگڑنے سے پاک ہو جائے گی مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ پہلا قول ہے ان کا جدید مسلک یہ ہے کہ اس گندگی کو ہر حال میں پانی سے دھونا چاہئے زمین پر رگڑنے سے پاک نہیں ہو گی۔
فقہ حنفی میں فتویٰ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے قول پر ہے جو کہ جوتے یا موزے پر اگر تن دار نجاست لگ جائے خواہ وہ خشک ہو یا تر ہو تو زمین پر خوب اچھی طرح رگڑ دینے سے موزہ یا جوتا پاک ہو جائے گا۔
یہ سمجھ لیجئے کہ اس مسئلے میں علماء کرام کا یہ اختلاف تن دار نجاست جیسے گوبر وغیرہ ہی کے بارے میں ہے کیونکہ غیر تن دار نجاست مثلاً پیشاب و شراب کے بارے میں سب کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ اسے دھونا ہی واجب ہے۔
٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ ان سے ایک عورت نے کہا کہ میرا دامن لمبا ہے اور میں ناپاک جگہ پرچلتی ہوں (یہ خیال ہے کہ دامن کو ناپاکی لگ جاتی ہے ) حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں ) فرمایا تھا کہ اس کو وہ چیز پاک کرتی ہے جو اس کے بعد ہے (یعنی پاک زمین یا مٹی)۔ (مسند احمد بن حنبل، مالک، جامع ترمذی ، ابوداؤد اور درامی نے کہا ہے کہ (سوال کرنے والی) عورت ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کی ام ولد تھی (جس کا نام حمیدہ تھا)
تشریح
سوال کرنے والی کا مطلب یہ تھا کہ میرا دامن بہت لمبا ہے جب میں چلتی ہوں تو وہ زمین پر لگتا ہوا چلتا ہے اور جب میں نا پاک جگہ سے گزرتی ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ شاید دامن پر نجاست و گندگی لگ گئی ہو گی اس لیے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناپاک جگہ سے گزرتے ہوئے جب دامن میں نجاست لگ جاتی ہے تو بعد میں پاک صاف جگہ چلنے سے وہ نجاست زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے اور کپڑا پاک ہو جاتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ حکم خشک نجاست کے بارے میں ہے کہ اگر خشک نجاست کپڑے کو لگ جائے تو پھر پاک و صاف زمین پر چلنے سے وہ زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے جس سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔
اس حکم کو خشک نجاست کے بارے میں خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اگر کپڑا ناپاک ہو جائے تو وہ بغیر دھوئے پاک نہیں ہوتا، بخلاف جوتے کے (تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جوتا اگر نجاست کے لگ جانے سے ناپاک ہو جائے تو اس کو پاک و صاف زمین پر رگڑ کر پاک کیا جا سکتا ہے خواہ وہ نجاست تر ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ ابھی اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک بیان کیا جا چکا ہے (وا اللہ اعلم)
٭٭حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے درندوں کی کھالوں کے پہننے اور ان پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)
تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ درندوں مثلاً شیر اور چیتے وغیرہ کی کھال کا لباس بنا کر انہیں پہنا نہ جائے ، اسی طرح ان پر سوار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو بچھا کر اس پر بیٹھنا یا گھوڑے کی زین پر ڈال کر اس پر سوار ہونا مناسب نہیں ہے اس طرح ان کے استعمال سے منع اس لیے فرمایا گیا ہے کہ متکبر لوگوں اور خالص دنیا داروں کی عادت ہے لہٰذا نیک لوگوں کو ان سے اجتناب کرنا چاہئے اس شکل میں کہا جائے گا کہ یہ نہی تنزیہی ہے لیکن جن حضرات کے ہاں مردار کے بال نجس ہوتے ہیں اور وہ دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتے ان کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔
٭٭اور حضرت ابو الملیح بن اسامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عام صلی اللہ علیہ و سلم نے درندوں کی کھال کو استعمال کرنے سے منع فرمایا (احمد، ابوداؤد و نسائی) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دارمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت میں یہ الفاظ زیادہ نقل کیے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ درندوں کی کھالوں کا فرش بنایا جائے )
٭٭اور حضرت ابو الملیح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ درندوں کی کھالوں کی قیمت کو (بھی) مکروہ سمجھتے تھے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو خریدنا اور بیچنا بھی مناسب نہیں ہے چنانچہ ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی قول ہے اور یہ مسلک ابو الملیح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی ہے فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہوا ہے کہ درندوں کے چمڑے کو دباغت دیے جانے سے پہلے بیچنا باطل ہے مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں لفظ راوہ کے بعد جگہ خالی تھی عبارت مذکورہ بعد میں بڑھائی گئی ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عکیم (حضرت عبداللہ بن عکیم جہنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ تو پایا ہے لیکن یہ تحقیق سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شرف ملاقات حاصل کیا یا نہیں۔ (راوی ہیں کہ ہمارے (قبیلے جہینہ کے پاس سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا (جو) مکتوب گرامی آیا (اس میں یہ لکھا تھا) کہ تم مردار کے چمڑے اور اس کے پٹھے سے نفع نہ اٹھاؤ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
اس حکم کا تعلق اس چمڑے اور پٹھے سے ہے جو دباغت نہ دیا گیا ہے یعنی دباغت سے پہلے چمڑے اور پٹھے کو استعمال میں لانا جائز نہیں ہے بلکہ چمڑے اور پٹھے کو دباغت دینے کے بعد استعمال کرنا اور ان سے منفعت حاصل کرنا جائز ہے۔ اکثر احادیث سے یہی ثابت ہے اور اکثر علماء کا مسلک بھی یہی ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مردار کے چمڑے سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھایا جائے۔ (مالک، سنن ابوداؤد)
تشریح
اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٩ کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے کہ دباغت کے بعد مردار کے چمڑے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یعنی اس کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی کی جا سکتی ہے البتہ اس مسئلے میں امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دو روایتیں ہیں مگر ان کا ظاہری قول یہ ہے کہ مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پاک ہو تو جاتا ہے لیکن اسے خشک چیز میں اور پانی میں رکھنے کے لیے استعمال کا جا سکتا ہے پانی کے علاوہ دوسری پتلی اور سیال چیزوں کے لیے اسے استعمال نہ کیا جائے۔
٭٭اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ قریش کے چند آدمی اپنی ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح کھینچتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزرے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) ان سے فرمایا کہ اے کاش! تم اس کے چمڑے کو اتار لیتے ! (تو یہ کام آ جاتا) انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے (یعنی ذبح کی ہوئی نہیں ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے کیکر کے پتے اور پانی پاک کر دیتے ہیں (یعنی ان دونوں چیزوں کے ذریعے دباغت سے چمڑا پاک ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)
تشریح
دباغت دینے کے کئی طریقے ہیں لیکن کیکر کے پتوں اور پانی سے دباغت کے بعد چمڑا خوب اچھی طرح پاک ہو جاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور خاص ان دو چیزوں کا ذکر فرمایا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ چمڑے کی دباغت و طہارت ان ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ دوسرے طریقوں مثلاً دھوپ وغیرہ سے دباغت و طہارت ہو جاتی ہے۔ البتہ یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث کے پیش نظر کیکر کے پتوں اور پانی سے چمڑے کو دباغت دینا مستحب ہے۔
٭٭حضرت سلمہ بن محبق رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تبوک کی جنگ کے موقعہ پر ایک آدمی کے گھر تشریف لائے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ایک لٹکی ہوئی مشک پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی مانگا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو (دباغت دی ہوئی) مردار کی کھال) ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دباغت نے اسے پاک کر دیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد)
٭٭بنو عبدالاشہل کی ایک عورت کا بیان ہے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ رسول اللہ ! مسجد میں آنے کا ہمارا جو راستہ ہے وہ گندہ ہے جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ وہ کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا اس راستے کے بعد کوئی پاک صاف راستہ نہیں آتا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ پاک راستہ اس ناپاک راستہ کے بدلے میں ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اسی باب کی حدیث نمبر ١٣ میں اس مسئلہ کی وضاحت کی جا چکی ہے ، یہاں بھی اس ارشاد کا یہ مطلب ہے کہ گندے اور ناپاک راستہ سے جو گندگی لگتی ہے وہ پاک و صاف راستہ پر چلنے کے بعد زمین کی رگڑ سے صاف و پاک ہو جاتی ہے ، نیز یہاں بھی یہ ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا تعلق تن دار نجاست سے ہے کہ اگر گوبر وغیرہ قسم کی کوئی نجاست جوتے اور موزوں پر لگ جائے تو وہ اس طریقے سے صاف ہو جاتی ہے کیونکہ اگر پیشاب وغیرہ قسم کی نجاست جوتے موزے کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگے تو اس کو ہر حال میں دھو کر ہی پاک کیا جائے گا اسی طرح موزے اور جوتے کے علاوہ اگر کپڑے پر تن دار نجاست لگے گی تو بغیر دھوئے کپڑا پاک نہیں ہو گا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور زمین پر چلنے (کی وجہ سے وضو نہ کرتے تھے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہم نماز پڑھنے کے لیے اپنے اپنے مکان سے وضو کر کے چلتے تھے اور مسجد آتے ہوئے ننگے پاؤں چلنے کی وجہ سے پاؤں پر یا جوتے اور موزوں پر جو نجاست و گندگی لگ جایا کرتی تھی اسے دھویا کرتے تھے۔
اس ارشاد کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ اس کا تعلق خشک نجاست سے ہے ، کہ اگر خشک گندگی مثلاً سوکھا گوبر وغیرہ پیروں پر جوتے و موزے پر لگ جاتا تو اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ صاف زمین پر چلنے کی وجہ سے وہ پاک ہو جایا کرتا تھا اس سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ مراد ہے کہ راستہ چلتے وقت جو گرد و غبار پاؤں کو لگ جایا کرتی تھی اسے دھوتے تھے۔
تر نجاست مثلاً پیشاب وغیرہ کے بارے میں یہ پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ اگر اس قسم کی کوئی نجاست و گندگی پاؤں وغیرہ پر لگ جائے تو تمام علماء کے نزدیک یہ متفق علیہ مسلم مسئلہ ہے کہ اسے دھویا جائے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں مسجد میں کتے آتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے آنے جانے کی وجہ سے کچھ بھی نہ دھوتے تھے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
شروع زمانہ اسلام میں دروازے نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے مسجد کے اندر کتوں کی آمدورفت رہتی تھی اور چونکہ ان کے پاؤں خشک ہوتے تھے اس لیے کسی چیز کو دھونے کی ضرورت نہ ہوتی تھی جب مسجد میں دروازے لگنے لگے تو اس کی احتیاط ہونے لگی۔
٭٭اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ جس چیز کا گوشت کھایا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں۔ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اس طرح ہے کہ جس جانور کا گوشت کھا یا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل و دارقطنی)
تشریح
اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے حضرت امام مالک، حضرت امام احمد، حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اور بعض شوافع حضرات نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کا پیشاب پاک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام ابو یوسف اور تمام علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وہ نجس ہے ، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے مقابلے میں ایک حدیث عام وارد ہے کہ الحدیث (اِسْتَنْزِ ھُوْا مِنَ الْبَوْلِ فَاِنَّ عَامَّۃَ عَذَابِ الْقَبْرِمِنْہُ) یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو اس لیے کہ عذاب قبر اکثر اسی سے ہوتا ہے ) لہٰذا اس حدیث کی عمومیت کے پیش نظر ناپاک و نجس ثابت ہوا اس لیے اس احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کے پیشاب کو بھی ناپاک کہا جائے۔
موزوں پر مسح کرنے کا جواز سنت اور آثار مشہورہ سے ثابت ہے بلکہ حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں منقول حدیث متواتر ہے اور بعض محدثین نے اس حدیث کے راوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد بھی نقل کی ہے چنانچہ اسی سے زیادہ صحابہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس حدیث کو روایت کرتے ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں َ
علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ علمائے سلف میں سے کسی نے اس سے انکار کیا ہو اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر ٧٠ صحابہ کرام کو اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتے ہوئے پایا ہے حضرت امام کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے کو قبول نہ کرے یعنی اسے جائز نہ سمجھے مجھے اس کے کافر ہو جانے کا خوف ہے کیونکہ اس کے جواز میں جو احادیث منقول ہیں وہ حد تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ میں موزوں پر مسح کرنے کا قائل اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ اس کے جواز پر مشتمل احادیث آفتاب کی روشنی کی طرح مجھے نہ پہنچ گئیں۔ ان اقوال اور ارشادات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے ، اس کے جواز میں کوئی شبہ کوئی شک اور کوئی کلام نہیں ہے۔
اب اس کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ موزوں پر مسح کرنا رخصت شریعت اسلامی کے مسائل و جزئیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے کتنی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی ہیں یہ حقیقت ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بے پناہ شفقت و محبت ہی ہے جس نے عالمگیر اور سب سے سچے مذہب کو انسان کی عین فطرت و مزاج بنا دیا ہے قدم قدم پر ایسے مسائل سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس میں اسلام اور شارع اسلام نے امت کو بہت زیادہ آسانیاں دی ہیں جن کے بغیر یقیناً مسلمان مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہو جاتے کیونکہ سخت موقعوں پر مثلاً سردی کے موسم میں وضو کرنے کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پاؤں کو دھونے ہی میں ہوتی ہے لیکن شریعت نے اس سختی اور تکلیف کے پیش نظر موزوں پر مسح کو جائز قرار دے کر امت پر ایک عظیم احسان کیا ہے۔)
یعنی آسانی ہے اور پاؤں کو دھونا عزیمت یعنی اولیٰ ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے پر اعتقاد نہ رکھے وہ بدعتی ہے لیکن جو آدمی اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتا ہے مگر عزیمت یعنی اولیٰ ہونے پر عمل کرنے کی وجہ سے موزوں پر مسح نہیں کرتا تو اسے ثواب سے نوازا جاتا ہے۔
مواہب لدنیہ میں منقول ہے کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا موزوں پر مسح کرنا افضل ہے یا اسے اتار کر پاؤں کو دھونا افضل ہے؟ چنانچہ بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنا ہی افضل ہے کیونکہ اس سے اہل بدعت یعنی روافض و خوارج کا رد ہوتا ہے جو اس مسئلہ میں طعن و تشنیع کرتے ہیں ، حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مختار مسلک یہی ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کرام یعنی حضرات شوافع کا مسلک یہ ہے کہ پاؤں کو دھونا افضل ہے کیونکہ اصل یہی ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کو بالکل ترک نہ کیا جائے۔
صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دونوں میں کوئی تکلف نہیں تھا، یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم موزہ پہنے ہوتے تھے تو پاؤں دھونے کے لیے انھیں اتارتے نہیں تھے اور اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تھے تو مسح کرنے کے لیے انھیں پہنتے نہ تھے ، اس بارے میں علماء کرام کے ہاں اختلاف ہے مگر بہتر اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ میں سنت کے موافق ہی عمل کرے یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا جو تعامل ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تمام مسلمان بے تکلفی کے ساتھ اس پر عمل کریں۔
٭٭ حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے اک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن تین راتیں ہے یعنی وہ تین دن اور تین راتوں تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مقیم کے لیے مسح کی مدت ایک دن اور ایک رات ہے یعنی وہ ایک دن اور ایک رات تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مقیم کے لیے مسح کی مدت کی ابتداء جمہور علماء کے نزدیک اس وقت ہو گی جب کے وضو ٹوٹ جائے مثلاً ایک مقیم آدمی نے دوپہر کو وضو کرنے کے بعد موزہ پہنا اور شام کو اس کا وضو ٹوٹ گیا تو مسح کی مدت کی ابتداء شام ہی سے ہو گی یعنی وہ اگلے دن شام تک اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے۔
٭٭اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شرکت کی چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ (اسی دوران ایک روز) فجر سے پہلے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پاخانے کے لیے باہر تشریف لے گئے ہیں میں پانی کا لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہو لیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم (پاخانے سے ) واپس تشریف لائے (اور وضو کرنے کے لیے بیٹھے ) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں پر پانی ڈالنا شروع کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک اونی جبہ پہنے ہوئے تھے اس کی آستینیں چڑھانی چاہیں لیکن آستینیں تنگ تھی ں (اس لیے چڑھ نہ سکیں ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جبے کے اندر سے نکال کر جبے کو کندھوں پر رکھا اور کہنیوں تک دھو کر چوتھائی سر کا اور پگڑی کا مسح کیا پھر (جب) میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پاؤں دھولیں (تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انھیں چھوڑ دو کیونکہ میں نے (پاؤں کی) پاکی کی حالت میں انھیں پہنا تھا (یعنی وضو کرنے کے بعد پہنا تھا) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور میں دونوں سوار ہو کر واپس لوگوں کے پاس آئے تو (فجر کی) نماز کے لیے جماعت کھڑی ہو گئی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے اور ایک رکعت پڑھا بھی چکے تھے جب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم امامت کریں ) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں اشارہ کیا (کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور نماز پڑھائے جاؤ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری رکعت حضرت عبدا لرحمن کی اقتداء میں ادا کی) جب انہوں نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو گئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور جو پہلی رکعت رہ گئی تھی ہم نے اسے پڑھ لیا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
راوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا ذکر کیا ہے مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو راوی کے پیش نظر اختصار تھا اس لیے انھوں نے ان دونوں چیزوں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھایا یہ کہ راوی اس کا ذکر کرنے کو بھول گئے ہوں گے ، یا پھر اس لیے ذکر نہیں کیا کہ یہ دونوں چیزیں بھی منہ کی حد میں آ جاتی ہیں اس لیے صرف منہ دھونے کا ذکر کافی سمجھا۔
پگڑی پر مسح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چوتھائی سر پر مسح کرنے کے بعد تمام سر پر مسح کرنے کے بجائے پگڑی پر مسح کر لیا تاکہ تمام سر پر مسح کرنے کی سنت ادا ہو جائے اس کی وضاحت باب الوضو میں بھی کی جا چکی ہے (دیکھے باب سنن الوضو کی حدیث نمبر ٨)
بہر حال اس حدیث سے پانچ چیزیں ثابت ہوتی ہیں
(١) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت مثلاً نماز وغیرہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے اس عبادت کے لیے تیاری کرنا مستحب ہے۔
(٢) حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعضائے وضو پر پانی ڈالا اس سے معلوم ہوا کہ اگر دوسرا آدمی وضو کرائے تو جائز ہے۔
(٣) جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم قضائے حاجت اور وضو سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے بتقاضائے ادب پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ رسول اللہ امامت فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں روک دیا اور خود بھی آخری رکعت انہیں کی اقتداء میں پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ایک افضل آدمی نماز میں اگر اپنے سے کم درجہ آدمی کی اقتداء کرے تو یہ جائز ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لیے امام کا معصوم (بے گناہ) ہونا شرط نہیں ہے۔ اس سے اس فرقہ امامیہ کا رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔
(٤) حدیث کے آخری الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ جس آدمی کی کوئی رکعت امام کے ساتھ پڑھنے سے چھوٹ جائے تو اس کی ادائیگی کے لیے اسے اس وقت اٹھنا چاہئے جب کہ امام سلام پھیر لے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تو چھوٹی ہوئی رکعت کو ادا کرنے کے لیے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا جائز ہی نہیں اور علمائے حنفیہ کے نزدیک سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا مکر وہ تحریمی ہے۔ مگر اس صورت میں جب کہ یہ خوف ہو کہ اگر امام کے سلام کا انتظار کیا جائے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی تو پہلے بھی اٹھنا جائز ہے مثلاً فجر کی نماز میں امام ایک رکعت پہلے پڑھا چکا تھا ایک آدمی دوسری رکعت میں آ کر شامل ہوا اب اسے ایک رکعت بعد میں ادا کرنی ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتا ہے تو اسے خوف ہے کہ سورج طلوع ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں نماز فاسد ہو جائے گی لہٰذا اس کے لیے جائز یہ ہو گا کہ وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ جائے اور نماز پوری کر لے اس مسئلہ کی وضاحت فقہ کی کتابوں میں خوب اچھی طرح کی گئی ہے اس کی تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
(٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت اگر امام موجو نہ ہو اور اس کے آنے میں دیر ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب آئے گا تو یہ مستحب ہے کہ امام کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھانی شروع کر دے اور اگر امام کے آنے کا وقت معلوم ہو تو اس صورت میں اس کا انتظار کرنا مستحب ہے اور اگر امام کا مکان قریب مسجد ہو تو اسے جماعت کا وقت ہو جانے پر مطلع کرنا مستحب ہے۔
٭٭حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں پر مسح کرنے کی اجازت مسافر کو تین دن اور تین راتوں تک اور مقیم کو ایک دن اور ایک رات تک دی ہے جب کہ انھوں نے موزوں کو وضو کے بعد پہنا ہو۔ (ابن خزیمہ دارقطنی) اور خطابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اسناد کی رو سے صحیح ہے منتقیٰ میں (بھی جو ابن تیمیہ حنبلی کی کتاب ہے ) اسی طرح منقول ہے۔)
٭٭اور حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم سفر میں ہوتے تھے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ تین دن اور تین راتوں تک (وضو کرنے کے وقت پاؤں کو (دھونے کے لیے ) موزے نہ اتارے جائیں ، نہ پاخانے کی وجہ سے نہ پیشاب کی وجہ سے نہ سونے کی وجہ سے البتہ جنابت کی وجہ سے (یعنی غسل واجب ہونے کی صورت میں نہانے کے لیے اتارے جائیں۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سو کر اٹھنے یا پیشاب و پاخانے کے بعد وضو کرنے کی صورت میں اس مدت تک جو مسافر یا مقیم کے لیے ہے پاؤں کو دھونے کے لیے موزوں کو اتارنا نہیں چاہئے بلکہ موزوں پر مسح کر لیا جائے اور جنابت کی حالت میں یعنی جب غسل واجب ہو جائے تو نہانے کے لیے موزے اتارنے ضروری ہیں کیونکہ اس حالت میں موزوں پر مسح درست نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے غزوہ تبوک میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو وضو کرایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں کے نیچے اور اوپر مسح کر لیا۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث معلول ہے ، نیز میں نے اس حدیث کے بارے میں ابوزرعہ اور محمد یعنی محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو دونوں نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے اسی طرح امام ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے )
تشریح
حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پشت قدم یعنی موزے کے اوپر مسح کرنا واجب ہے اور موزے کے نیچے یعنی تلوے پر مسح کرنا سنت ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ مسح فقط پشت قدم یعنی موزے کے اوپر کیا جائے یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جس سے موزے کے دونوں طرف مسح کرنے کا اثبات ہو رہا ہے خود معیار صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے کیونکہ علماء کرام نے اس کی صحت بارے کلام کیا ہے۔ نیز ایسی احادیث بہت زیادہ منقول ہیں جو اس حدیث کے بالکل برعکس ہیں اور جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسح فقط پشت پر کیا جائے لہٰذا عمل اس ہی حدیث پر کیا جائے گا۔ محدثین کی اصطلاح میں حدیث معلول اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں ایسا سبب پوشیدہ ہو جو اس بات کا مقتضی ہو کہ اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔
اس حدیث کے ضعیف ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اس حدیث کی سند کا پہنچنا ثابت نہیں ہے بلکہ اس کی سند بولاو تک جو مغیرہ کے مولی اور کاتب تھے پہنچتی ہے ، دوسری وجہ ہے کہ اس حدیث کو ثور ابن یزید نے رجاء ابن حیوۃ سے روایت کیا ہے اور رجاء ابن حیوۃ نے حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب سے روایت کیا ہے حالانکہ رجاء سے ثور کا سماع ثابت نہیں ہے پھر ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مضمون جو (حدیث نمبر ٢) حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہے اور جو معیار صحت کو پہنچی ہوئی ہے اس میں مطلقاً اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں پر مسح کیا تھا، اوپر نیچے مسح کرنے کی کوئی وضاحت منقول نہیں ہے پھر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک اور روایت اس کے بعد آ رہی ہے اس میں صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں کے اوپر مسح کیا۔ لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے اور یہ وہ اسباب ہیں کہ جس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے۔
٭٭اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)
تشریح
موزے پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں دائیں پاؤں کے پنجے پر بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں کے پنجے پر رکھی جائیں پھر ان کو کھینچتے ہوئے ٹخنوں کے اوپر تک لایا جائے اس سلسلے میں اس کا خیال رہے کہ انگلیاں کشادہ رکھی جائیں آپس میں ملی ہوئی نہ ہوں۔ موزوں پر مسح کرنے کا مسنون طریقہ تو یہی ہے اور اگر کسی نے انگلی سے تین مرتبہ اس طرح مسح کیا کہ ہرمر تبہ تازہ پانی لیتا رہا اور ہر مرتبہ نئی جگہ پھیرتا رہا تو مسح جائز ہو گا ورنہ نہیں ان کے علاوہ بہت سے طریقے فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئی ہیں تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
٭٭اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور نعلین کے ساتھ جوربین پر مسح کیا۔ (مسند احمد بن حنبل و جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)
تشریح
قاموس میں لکھا ہے کہ جورب پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں جیسے ہمارے ہاں جراب یا موزہ کہلاتا ہے اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اس کی تفصیل چلپی میں بڑی وضاحت سے مذکور ہے یہاں اس کے بعض احکام و مسائل لکھے جاتے ہیں۔
حنفی مسلک میں جوربین یعنی موزوں پر مسح اس وقت درست ہو گا جب کہ وہ مجلد ہوں یعنی ان کے اوپر نیچے چمڑا لگا ہوا ہو، منعل ہوں یعنی فقط نیچے ہی چمڑا ہو اور مثخنین ہوں۔ ثخنین اس موزے کو کہتے ہیں جس کو پہن کر ایک فرسخ چلا جا سکے اور وہ بغیر باندھے ہوئے پنڈلی پر رکا رہے نیز اس کے اندر کا کوئی حصہ نہ دکھلائی دے اور نہ اس کے اندر پانی چھن سکتا ہو چلپی کی عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر جوربین منعلین بغیر ثخنین ہوں گے تو اس پر مسح جائز نہیں ہو گا لہٰذا منعلین پر مسح اسی وقت درست ہو گا جب کہ ثخنین بھی ہوں۔
چونکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جورب پر مسح درست نہیں خواہ وہ منحل ہی کیوں نہ ہو اس لیے یہ حدیث حنفیہ کی جانب سے ان پر حجت ہے جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جورب پر مسح فرمایا ہے نیز حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت انس ابن مالک اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی منقول ہے کہ ان حضرات نے اس پر مسح کیا ہے۔
آخر حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ نے نعلین کے ساتھ جوربین پر مسح کیا تو یہاں نعلین کے مفہوم کے تعین میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ اس سے جوتے مراد ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ربین پر جوتوں کے ساتھ مسح کیا چونکہ عرب میں اس وقت ایسے جوتے استعمال ہوتے تھے جو بالکل چپل کی طرح ہوتے تھے اور ان پر اس طرح تسمہ لگا رہتا تھا کہ انہیں پہننے کے بعد پاؤں کے اوپر کا حصہ کھلا رہتا تھا جس کی وجہ سے موزوں پر مسح کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جوربین پر مسح کیا جن کے نیچے چمڑا لگا ہوا تھا
٭٭حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر) میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے ہیں (یعنی موزے اتار کر پاؤں نہیں دھوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں ! بلکہ تم بھول گئے ) کہ میری طرف نسیان کی نسبت کر رہے ہو کیونکہ اللہ بزرگ و برتر نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ اگر دین (صرف) رائے اور عقل ہی پر موقوف ہوتا تو واقعی موزوں کے اوپر مسح کرنے سے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اور میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (ابوداؤد و دارمی)
تشریح
حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ناپاکی اور گندگی چونکہ موزوں کے نیچے کی جانب لگ سکتی ہے اس لیے عقل یہی تقاضا کرتی ہے کہ جس طرف ناپاکی اور گندگی لگنے کا شبہ ہو اسی طرف پاکی اور ستھرائی کے لیے مسح بھی کرنا چاہئے مگر چونکہ شرع میں صراحتہ یہ آگیا ہے کہ مسح اوپر کی جانب کرنا چاہئے اس لیے اب عقل کو دخل دینے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مسائل و احکام میں عقل کو دخل نہیں دینا چاہئے کیونکہ عقل کامل شریعت کے تابع ہوتی ہے اس لیے کہ اللہ کی حکمتوں اور اس کے مراد و مفہوم معلوم کرنے میں عقل مطلقاً عاجز ہوتی ہے لہٰذا عاقل کو چاہئے کہ وہ پہر نوع شریعت کا تابع و پابند بن کر رہے عقل کا تابع نہ بنے اس لیے کہ کفار اور اکثر فلاسفہ و حکماء اور اہل ہوا و ہوس اپنی عقلوں پر بھروسہ و پندار کرنے کے سبب اور عقلوں کے تابع ہونے ہی کی وجہ سے گمراہی و ضلالت کے غار میں گرے ہیں۔
چونکہ اس باب کی یہ آخری حدیث ہے اس لیے مناسب ہے کہ اس کے ضمن میں مسح سے متعلق چند مسائل ذکر کئے جائیں۔
(١) اگر موزہ کسی جگہ سے پاؤں کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر پھٹ جائے تو اس پر مسح درست نہیں ہوتا، اس طرح اگر ایک موزہ تھوڑا تھوڑا کر کے کئی جگہ سے اتنی مقدار میں پھٹ جائے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو وہ تین انگلیوں کے برابر ہو تو اس پر بھی مسح درست نہیں ہوتا اور اگر دونوں موزے تھوڑے تھوڑے اتنی مقدار میں پھٹے ہوں کہ اگر انھیں جمع کیا جائے تو وہ تین انگلیوں کے برابر ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ ان پر مسح درست ہو گا۔
(٢) جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ان سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
(٣) حدث کے بعد موزہ اتارنے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے۔
(٤) مسح کی مدت ختم ہو جانے کے بعد مسح ٹوٹ جاتا ہے بشرطیکہ سردی کی وجہ سے پاؤں کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہو، یعنی اگر سردی کی شدت اور کسی بیماری کی وجہ سے یہ خوف ہو کہ موزہ اتارنے سے پاؤں ضائع ہو جائے گا تو مسح کی مدت ختم ہونے کے بعد مسح نہیں ٹوٹے گا جب تک خوف باقی رہے گا مسح بھی باقی رہے گا۔
(٥) اگر موزہ اتارنے یا مدت ختم ہونے کی وجہ سے مسح ٹوٹ جائے اور وضو باقی ہو تو ایسی شکل میں از سر نو وضو کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا کافی ہو گا۔
(٦) اگر آدھے سے زیادہ پاؤں موزے سے باہر نکل آئے تو بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔
(٧) اگر مقیم نے مسح کیا اور ایک رات اور ایک دن گزرنے سے پہلے مسافر ہو گیا وہ مسح کے لیے سفر کی مدت پوری کرے یعنی تین دن اور تین رات تک مسح کرتا رہے ، اسی طرح اگر مسافر نے مسح کیا اور پھر وہ مقیم ہو گیا تو اسے چاہئے کہ ایک دن ایک رات کے بعد موزہ اتار دے کیونکہ اس کی مدت پوری ہو گئی ہے۔
(٨) اگر کوئی معذور مثلاً ظہر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے تو جس عذر کی وجہ سے وہ معذور ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کے لیے مسح کی مدت میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہو گا اور پھر مسح کی مدت ختم ہو جانے کے بعد مسح ٹوٹ جائے گا۔
تیمم (تیمم٥ھ میں مشروع ہوا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :آیت (فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْداً طَيِّباً فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہ) 5۔ المائدہ:6) (تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین(کی جنس) پر سے (مار کر) پھیر لیا کرو۔) وضو اور غسل کا قائم مقام ہے۔ لغت میں تیمم کے معنی قصد کے آتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں تیمم سے مراد ہے پاک مٹی کا قصد کرنا یا اس چیز کا قصد کرنا جو مٹی کے قائم مقام ہو جیسے پتھر اور چونا وغیرہ اور طہارت کی نیت کے ساتھ اسے ہاتھ اور منہ پر ملنا۔
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تیمیم کے لیے دو ضربیں یا ایک ضرب ہے؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام ابو یوسف، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ تیمم کے لیے دو ضربیں ہیں یعنی پاک مٹی یا اس کے قائم مقام مثلاً پاک چونے اور پتھر وغیرہ پر دو دفعہ ہاتھ مارنا چاہئے ایک ضرب تو منہ کے لیے ہے اور دوسری ضرب کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کے لیے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مختار مسلک یہی ہے اور بعض حنابلہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
لیکن حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور مسلک اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قدیم قول یہ ہے کہ تیمم ایک ہی ضرب ہے یعنی تیمم کرنے والے کو چاہئے کہ ایک ہی مرتبہ پاک مٹی وغیرہ پر ہاتھ مار کر اسے منہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر پھیر لے ، حضرت امام اوزاعی، عطاء اور مکحول رحمہم اللہ تعالیٰ عیہم سے بھی یہی منقول ہے۔ دونوں فریقین کے مذہب و مسلک کی تائید میں احادیث منقول ہیں جو آگے انشاء اللہ آئیں گی اور جن کی حسب موقع فائدہ و توضیح بھی کی جائے گی۔ اس موقعہ پر مناسب ہے کہ تیمم کے کچھ احکام اور وہ صورتیں ذکر کر دی جائیں جن میں تیمم جائز ہے تیمم حسب ذیل صورتوں میں جائز ہوتا ہے۔
(١) اتنا پانی جو وضو اور غسل کے لیے کافی ہو اپنے پاس موجود نہ ہو بلکہ ایک میل یا ایک میل سے زائد فاصلے پر ہو۔
(٢) پانی جو موجود تو ہو مگر کسی کی امانت ہو یا کسی سے غصب کیا ہوا ہو۔
(٣) پانی کے نرخ کا معمول سے زیادہ گراں ہو جانا۔
(٤) پانی کی قیمت کا موجود نہ ہونا خواہ پانی قرض مل سکتا ہو یا نہیں ، قرض لینے کے صورت میں اس پر قادر ہو یا نہ ہو، ہاں اگر اپنی ملکیت میں مال ہو اور ایک مدت معینہ کے وعدے پر قرض مل سکتا ہو تو قرض لے لینا چاہئے۔
(٥) پانی کے استعمال سے کسی مرض کے پیدا ہو جانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو یا یہ خوف ہو کہ اگر پانی استعمال کیا جائے گا تو صحت یابی میں دیر ہو گی۔
(٦) سردی اس قدر شدید ہو کہ پانی کے استعمال سے کسی عضو کے ضائع ہو جانے یا کسی مرض کے پیدا ہو جانے کا خوف ہو اور گرم پانی ملنا ممکن نہ ہو۔
(٧) کسی دشمن یا درندے کا خوف ہو مثلاً پانی ایسی جگہ ہو جہاں درندے وغیرہ آتے ہوں یا موجود ہوں یا راستے میں چوروں کا خوف ہو، یا اپنے اوپر کسی کا قرض ہو، یا کسی سے عداوت اور یہ خیال ہو کہ اگر پانی لینے جاؤں گا تو قرض خواہ مجھ کو پکڑ لے گا، یا کسی قسم کی تکلیف دے گا، یا پانی کسی غنڈے اور فاسق کے پاس ہو اور عورت کو اس کے حاصل کرنے میں اپنی بے حرمتی کا خوف ہو۔
(٨) پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے رکھا ہو کہ اسے وضو یا غسل میں خرچ کر دیا جائے تو اس ضرورت میں حرج ہو مثلاً آٹا گوندھنے یا گوشت وغیرہ پکانے کے لیے رکھا ہو، یا پانی اس قدر ہو کہ اگر وضو غسل میں صرف کر دیا جائے تو پیاس کا خوف ہو خواہ اپنی پیاس کا یا کسی دوسرے کی پیاس کا، یا اپنے جانوروں کی پیاس کا، بشرطیکہ کوئی ایسی تدبیر نہ ہو سکے کہ مستعمل پانی جانوروں کے کام آ سکے۔
(٩) کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور نہ کوئی کپڑا ہو کہ اسے کنوئیں میں ڈال کر تر کرے اور پھر اس سے نچوڑ کر طہارت حاصل کرے ، یا پانی مٹکے وغیرہ میں ہو اور کوئی چیز پانی نکالنے کے لیے نہ ہو اور نہ مٹکا جھکا کر پانی لے سکتا ہو، نیز ہاتھ نجس ہوں اور کوئی دوسرا ایسا آدمی نہ ہو جو پانی نکال کر دے یا اس کے ہاتھ دھلا دے۔
(١٠) وضو یا غسل کرنے میں ایسی نماز کے چلے جانے کا خوف ہو جس کی قضا نہیں ہے جیسے عیدین یا جنازے کی نماز۔
(١١) پانی کا بھول جانا مثلاً کسی آدمی کے پاس پانی تو ہے مگر وہ اسے بھول گیا ہو اور اس کا خیال ہو کہ میرے پاس پانی نہیں ہے۔
تیمم کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ درج ذیل ہے
پہلے بسم اللہ پڑھ کر تیمم کی نیت کی جائے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کسی ایسی مٹی پر جس کو نجاست نہ پہنچی ہو یا اس کی نجاست دھو کر زائل کر دی گئی ہو، ہتھیلیوں کی جانب سے کشادہ کر کے مار کر ملے اس کے بعد ہاتھوں کو اٹھا کر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور پھر پورے دونوں ہاتھوں کو اپنے پورے منہ پر ملے اس طرح کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچے۔ پھر اسی طرح دونوں ہاتھوں کو مٹی پر مار کر ملے پھر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں سوائے کلمہ کی انگلی اور انگوٹھے کے ، داہنے ہاتھ کے انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی بھی لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے پھر باقی انگلیوں کو اور ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر انگلیوں تک کھینچا جائے ، اسی طرح بائیں ہاتھ کا بھی مسح کرے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی طریقہ ہے اور ایک ہی تیمم دونوں کے لیے کافی ہے۔ اگر دونوں کی نیت کر لی جائے۔
تیمم کے کچھ احکام و مسائل یہ ہیں۔
یہ تمام مسائل عبدالشکور لکھنوی کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
(١) تیمّم کے وقت نیت کرنا فرض ہے اور نیت کی شکل یہ ہے کہ جس حدیث کے سبب سے تیمم کیا جائے اس سے طہارت کی نیت کی جائے یا جس چیز کے لیے تیمم کیا جائے اس کی نیت کی جائے مثلاً اگر نماز جنازہ کے لیے تیمم کیا جائے یا قرآن مجید کی تلاوت کے لیے تیمم کیا جائے تو اس کی نیت کی جائے مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہو گی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے یا کسی ایسی عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغیر طہارت کے نہیں ہو سکتی۔
(٢) تیمم کرتے وقت اعضاء تیمم سے ایسی چیزوں کو دور کر دینا فرض ہے جس کی وجہ سے مٹی جسم تک نہ پہنچ سکے جیسے روغن یا چربی وغیرہ۔
(٣) تنگ انگوٹھی تنگ چھلوں اور چوڑیوں کو اتار ڈالنا واجب ہے۔
(٤) اگر کسی قرینے سے پانی کا قریب ہونا معلوم ہو تو اس کی تلاش میں سو قدم تک خود جانا یا کسی کو بھیجنا واجب ہے۔
(٥) اگر کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی موجود ہو اور اس سے ملنے کی امید ہو تو اس سے طلب کرنا واجب ہے۔
(٦) اس ترتیب سے تیمم کرنا سنت ہے جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیمم کیا ہے یعنی پہلے منہ کا مسح پھر دونوں ہاتھوں کا مسح۔
(٧) منہ کے مسح کے بعد داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے۔
(٨) جس آدمی کو آخر وقت تک پانی ملنے کا یقین یا گمان غالب ہو تو اس کو نماز کے اخیر وقت تک پانی کا انتظام کرنا مستحب ہے مثلاً کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور یہ یقین یا گمان غالب ہو کہ آخر وقت رسی اور ڈول مل جائیں گے۔ یا کوئی آدمی ریل پر سوار ہو اور یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ نماز کے آخر وقت ریل ایسے اسٹیشن پر پہنچ جائے گی جہاں پانی مل سکتا ہے۔
(٩) تیمم نماز کے وقت کے تنگ ہو جانے کی صورت میں واجب ہوتا ہے۔ شروع وقت میں واجب نہیں ہوتا۔
(١٠) نماز کا اس قدر وقت ملے کہ جس میں تیمم کر کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو تو تیمم واجب ہوتا ہے اور اگر وقت نہ ملے تو تیمم واجب نہیں۔
(١١) جن چیزوں کے لیے وضو فرض ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی فرض ہے۔ اور جن چیزوں کے لیے وضو واجب ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی واجب ہے اور جن چیزوں کے لیے وضو سنت یا مستحب ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی سنت اور مستحب ہے ، یہی حال غسل کا بھی ہے۔
(١٢) اگر کوئی آدمی حالت جنابت میں ہو اور مسجد میں جانے کی اسے سخت ضرورت ہو تو اس پر تیمم کرنا واجب ہے۔
(١٣) جن عبادتوں کے لیے حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حدث اصغر (یعنی جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ) سے طہارت شرط نہیں ہے۔ جیسے سلام و سلام کا جواب وغیرہ ان کے لیے وضو و غسل دونوں کا تیمم بغیر عذر کے ہو سکتا ہے اور جن عبادتوں میں صرف حدث اصغر سے طہارت شرط نہ ہو جیسے تلاوت قرآن مجید اور اذان وغیرہ ان کے لیے صرف وضو کا تیمم بغیر عذر ہو سکتا ہے۔
(١٤) اگر کسی کے پاس مشکوک پانی ہو جیسے گدھے کا استعمال کردہ پانی تو ایسی حالت میں پہلے اگر وضو کی ضرورت ہو تو وضو، غسل کی ضرورت ہو تو غسل کیا جائے اس کے بعد تیمم کیا جائے۔
(١٥) اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے آدمیوں کی طرف سے ہو تو جب وہ عذر جاتا رہے تو جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ مثلاً کوئی آدمی جیل میں ہو اور جیل کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا کوئی آدمی اس سے کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا۔
(١٦) ایک جگہ سے اور ایک ڈھیلے سے چند آدمی یکے بعد دیگرے تیمم کریں تو درست ہے۔
(١٧) جو آدمی پانی اور مٹی دونوں پر قادر نہ ہو خواہ پانی و مٹی نہ ہونے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے تو اس کو چاہئے کہ نماز بلا طہارت پڑھ لے پھر اس نماز کو طہارت سے لوٹا لے مثلاً کوئی آدمی ریل میں سوار ہے اور نماز کا وقت ہو گیا ہے مگر نہ تو پانی موجود ہے کہ وہ وضو کرے اور نہ مٹی یا اس قسم کی کوئی دوسری چیز ہے جس سے وہ تیمم کر سکے ، ادھر نماز کا وقت بھی ختم ہوا جا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ ایسی حالت میں بلا طہارت نماز پڑھ لے۔ اسی طرح کوئی آدمی جیل میں ہو اور وہ پاک پانی اور مٹی پر قادر نہ ہو تو وہ بے وضو اور بے تیمم نماز پڑھ لے گا مگر ان دونوں صورتوں میں نماز کا اعادہ ضروری ہو گا۔
٭٭حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم لوگ (پہلی امتوں کے ) لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دئیے گئے ہیں (١) ہماری صفیں (نماز میں یاجہاد میں ) فرشتوں کی صفوں جیسی (شمار) کی گئی ہیں۔ (٢) ہمارے واسطے تمام زمین مسجد بنا دی گئی ہے (کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں )۔ (٣) جس وقت ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کر دینے والی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس امت سے پہلے دنیا میں جتنی بھی امتیں پیدا ہوئی ہیں ، یوں تو ان سب کے مقابلہ میں یہ امت گوناگوں خصوصیات اور امتیازات کی بناء پر سب سے زیادہ افضل اور بزرگ ہے۔ عظمت و فضیلت میں کوئی امت اس امت سے مماثل نہیں ہے۔ مگر یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس امت کی بعض امتیازی خصوصیات کی طرف جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس امت پر بے پایاں انعامات و احسانات کا نتیجہ ہیں اشارہ فرما رہے ہیں کہ ان چیزوں کے بناء پر میری امت کو دوسری امتوں پر خاص فضیلت و فوقیت دی گئی ہے۔ چنانچہ پہلی چیز تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرما رہے ہیں کہ (نماز یا جہاد میں ) اس امت کی صفیں فرشتوں کی صفیں جیسی (شمار) کی گئی ہیں یعنی جس طرح فرشتے صف بندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں کہ جس کی بناء پر انہیں مقام قرب میسر ہے اور بے انتہا بزرگی و سعادت حاصل ہوتی ہے اسی طرح اس امت کو بھی جہاد یا نماز میں صف بندی اور جماعت کی بناء پر خداوند قدوس کا مقام قرب حاصل ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ امت سابقہ امتوں کے مقابلے میں افضل ہے کیونکہ سابقہ امتوں میں صف بندی اور جماعت نہیں تھی وہ لوگ جس طرح چاہتے نماز پڑھ لیتے مگر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جماعت کا حکم دے کر گویا سعادت و نیک بختی کے اس عظیم راستہ پر لگا دیا کہ جماعت اور صف بندی کی جتنی زیادہ پابندی کی جائے گی سعادت و نیک بختی اور مقام قرب کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔
دوسری چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری امتوں کے مقابلہ میں اس امت پر یہ بھی بڑا احسان فرمایا اور اس کو فضیلت بخشی کہ اس امت کے لوگوں کے لیے تمام زمین کو سجدہ گاہ قرار دے دیا کہ بندہ زمین کے جس پاک حصے پر خدا کے سامنے جھک جائے اور نماز ادا کرے اس کی نماز قبول کر لی جائے گی برخلاف اس کے کہ پچھلی امتوں کے لئے یہ سہولت اور فضیلت نہیں تھی ان لوگوں کی نماز کنائس اور بیع (جو پچھلی امتوں کے عبادت خانوں کے نام ہیں ) اس کے علاوہ اور کہیں جائز نہ ہوتی تھی۔
تیسری چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمائی ہے کہ اس امت کے لیے تیمم کو جائز کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دوسری امتوں پر عظیم فضیلت عنایت فرمائی ہے یعنی اگر پانی موجود نہ ہو یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو یا پانی کے استعمال سے معذور ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ نماز جائز ہو جائے گی۔
بہر حال۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تین چیزوں میں ہمیں دوسری امتوں کے مقابلہ میں فضیلت و بزرگی ہے کہ ہمیں جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم ہوا اور اس پر بے شمار اجر و انعام اور ثواب کا وعدہ کیا گیا ساری زمین ہمارے لیے مسجد قرار دی گئی کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں ، نماز جائز ہو جائے گی اور جہاں پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نمازپڑھ لیں۔
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیمم صرف مٹی ہی سے کرنا چاہئے اور کسی چیز سے تیمم کرنا درست نہ ہو گا۔ جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ کا مسلک ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تیمم ہر اس چیز سے درست ہے جو زمین کی جنس سے ہو، زمین کی جنس کا اطلاق ان چیزوں پر ہوتا ہے جو نہ تو آگ میں جلنے سے پگھلیں نہ نرم ہوں اور نہ جل کر راکھ ہوں جیسے مٹی پتھر اور چونا وغیرہ ان حضرات کی دلیل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح البخاری میں منقول ہے کہ
الحدیث (جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضِ مَسْجِدً اوَّطَھُوْراً۔)
یعنی زمین میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی کر دی گئی ہے۔
اس ارشاد میں لفظ ارض کا استعمال کیا گیا ہے جو ہر اس چیز کے مفہوم کو ادا کرتا ہے جو زمین کی جنس سے ہو۔
٭٭اور حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہم) لوگوں کو نماز پڑھائی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی علیحدہ بیٹھا ہوا ہے اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس نے روک دیا تھا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہو گئی ہے اور پانی نہیں ملا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایسی صورت میں ) تمہیں مٹی سے تیمم کر لینا لازم تھا اور تمہیں وہی کافی تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کے مجھے نہانے کی ضرورت ہے اور پانی نہیں ملا (تو اب تیمم کروں یا کیا کروں؟) حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بولے کیا تمہیں یاد نہیں رہا کہ میں اور تم سفر میں تھے اور ہم دونوں کو نہانے کی ضرورت ہو گئی تھی ) تو تم نے نماز پڑھی تھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ کر نماز پڑھ لی تھی پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صورت حال ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہیں اس طرح کر لینا کافی تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک مار کر (یعنی جھاڑ کر) ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا۔ (صحیح البخاری) اسی طرح مسلم نے روایت کی ہے (جس کے آخری الفاظ یہ ہیں (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ) تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارو پھر ان میں پھونک مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کرو۔
تشریح
اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے بعض دوسرے طرق سے مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ لا تصل یعنی جب تک پانی نہ ملے نماز نہ پڑھو! چنانچہ حضرت عمر کا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک یہی تھا کہ جنبی کے لیے تیمم جائز نہیں ہے۔
یا یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسئلہ پوچھنے والے کے سوال پر جو سکوت اختیار فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنبی کے لیے تیمم کا حکم ان کے ذہن میں نہیں رہا تھا۔ چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام واقعہ بیان کیا تاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں اس سے یہ بات پیدا ہو جائے کہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو یہ بتایا کہ انھوں نے غسل کے لیے پانی نہ ہونے کی وجہ سے حالت جنابت میں نماز نہیں پڑھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سوچا ہو گا کہ ہو سکتا ہے کہ نماز کے آخر وقت تک پانی مل جائے اس لیے انھوں نے یہ مناسب سمجھا کہ پانی مل جانے کے بعد غسل کر کے ہی نماز پڑھی جائے یا پھر اس کی وجہ وہی ہو سکتی ہے کہ ان کے ذہن میں بات بیٹھی ہوئی تھی کہ تیمم تو صرف وضو کے قائم مقام ہے غسل کا قائم مقام نہیں ہے۔
ظاہری طور پر یہ وجہ قرین قیاس ہے ان کے اس اعتقاد کا سبب یہ تھا کہ چونکہ انہیں اس مسئلہ کی پوری حقیقت معلوم نہیں تھی پھر یہ کہ انہیں اس مسئلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کبھی سوال کا اتفاق بھی نہ ہوا تھا اس لئے وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ کہ تیمم صرف وضو کا قائم مقام ہے غسل کا نہیں ہے حالانکہ متفقہ طور پر سب ہی کے نزدیک تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہے اسی طرح غسل کا قائم مقام بھی ہے۔
حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بارے میں بتا رہے ہیں اس موقع پر میں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ یہ کہ میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا اور اس کے بعد نماز پڑھ لی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ذہن میں بھی یہ مسئلہ پوری وضاحت سے نہیں تھا اس لیے انہوں نے یہ قیاس کر کے جس طرح غسل میں پانی تمام اعضاء پر بہایا جاتا ہے اسی طرح مٹی بھی تمام اعضاء پر پہنچانی چاہئے ، مٹی میں لوٹ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیمم کا طریقہ بتاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ہاتھوں پر پھونک مار کر اس پر لگی ہوئی مٹی کو اس لیے جھاڑا تاکہ مٹی منہ پر نہ لگے جس سے منہ کی ہیت بگڑ جائے کہ وہ مثلہ کہ حکم میں ہے جو ممنوع ہے۔ مثلہ اسے کہتے ہیں کہ بدن کے کسی عضو کو کاٹ کر یا ایسا کوئی طریقہ اختیار کر کے جس سے خلقی طور پر اعضاء میں فرق آ جائے ، اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑا جائے ، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے چہروں پر بھبھوت وغیرہ ملتے ہیں وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں۔
یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تیمم کے لیے مٹی پر ایک مرتبہ ہاتھ مارنا کافی ہے جیسا کہ دوسرے حضرات کا یہی مسلک ہے مگر امام اعظم، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ تیمم کے لیے مٹی پر دو مرتبہ ہاتھ مارنا چاہئے ایک مرتبہ تو منہ پر پھیرنے کے لیے اور دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیرنے کے لیے اس لیے حضرت شیخ محی الدین نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی توجیہ یہ فرماتے ہیں کہ
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد صرف یہ تھا کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مٹی پر ہاتھ مارنے کی کیفیت و صورت دکھا دیں کہ جنابت کے لیے تیمم اس طرح کر لیا کرو مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد پورے تیمم کی کیفیت بیان کرنا نہیں تھا اس لیے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایت حدیث کے وقت ایک مرتبہ ہاتھ مارنے ہی کو بطور تعلیم ذکر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے علاوہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایتیں تیمم کے بارے میں منقول ہیں ان میں صراحت کے ساتھ دو مرتبہ ہی ہاتھ مارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث میں کفین سے ذراعین یعنی کہنیوں تک ہاتھ مراد ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کیا۔
٭٭اور حضرت ابوجہیم ابن حارث ابن صمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (میں ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت پیشاب کر رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہیں دیا۔ اور پیشاب سے فارغ ہو کر) ایک دیوار کے پاس کھڑے ہوئے اور ایک لاٹھی سے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھی کھرچ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر مسح کر کے میرے سلام کا جواب دیا۔ (مشکوٰۃ کے مصنف فرماتے ہیں کہ مجھے یہ روایت نہ صحیحین میں ملی ہے اور نہ حمیدی کی کتاب میں ہاں محی السنۃ نے اس کو شرح السنۃ میں ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حدیث حسن ہے (لہٰذا صاحب مصابیح کو چاہئے تھا کہ اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر نہ کرتے۔)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے عصا سے دیوار کی مٹی اس لیے کھرچی کہ اس میں سے غبار اٹھنے لگے کہ اس پر تیمم کرنا افضل ہے اور ثواب کی زیادتی کا باعث ہے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ذکر اللہ کے لیے باطہارت ہونا مستحب ہے نیز ہر وقت پاک و صاف اور طاہر رہنا بھی مستحب ہے۔
٭٭حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے۔ اگرچہ وہ دس برس تک پانی نہ پائے اور جس وقت مل جائے تو بدن دھو لینا چاہئے کیونکہ یہ بہتر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) اور نسائی نے بھی اسی طرح کی روایت عشر سنین تک نقل کی ہے۔
تشریح
دس برس کی مدت تحدید کے لیے نہیں ہے بلکہ کثرت کے لیے ہے یعنی اگر اتنے طویل عرصے تک بھی پانی نہ ملے تو غسل یا وضو کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے اور پھر بعد میں جب بھی اتنا پانی مل جائے جو غسل یا وضو کے لیے کافی ہو اور پینے کی ضرورت سے زیادہ ہو نیز اس کے استعمال پر قادر بھی ہو تو غسل کرنا یا وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس صورت میں غسل یا وضو واجب ہو گا تیمم جائز نہیں ہو گا۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو جانے پر تیمم نہیں ٹوٹتا بلکہ اس کا حکم وضو (جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے وضو کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے اور جن چیزوں سے غسل واجب ہوتا ہے ان سے غسل کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے علم الفقہ کا مطالعہ کریں۔) کی طرح ہے کہ جس طرح جب تک وضو نہ ٹوٹے ایک وضو سے جتنے فرض یا نقل چا ہے پڑھ سکتا ہے اسی طرح ایک تیمم سے بھی کئی وقت کی نماز پڑھی جا سکتی ہیں چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تیمم معذور کے وضو کی طرح ہے کہ جس طرح نماز کا وقت گزر جانے سے معذور کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح نماز کا وقت ختم ہو جانے پر تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سفر میں جا رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی کے پتھر لگا جس نے اس کے سر کو زخمی کر ڈالا (اتفاق سے ) اسے نہانے کی حاجت بھی ہو گئی چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے نزدیک (اس صورت میں ) میرے لیے تیمم کرنا جائز ہے َ انھوں نے کہا ایسی صورت میں جب کہ تم پانی استعمال کر سکتے ہو، ہم تمہارے لیے تیمم کی کوئی وجہ نہیں پاتے۔ چنانچہ اس آدمی نے غسل کیا (جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) اس کا انتقال ہو گیا۔ جب ہم (سفر سے واپس ہو کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (انتہائی رنج اور تکلیف کے ساتھ) فرمایا لوگوں نے اسے مار دیا ، اللہ بھی انہیں مارے پھر فرمایا کہ ان کو جو بات معلوم نہ تھی ، اسے انھوں نے دریافت کیوں نہ کر لیا؟ (کیونکہ) نادانی کی بیماری کا علاج سوال ہے اور اسے تو یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر ایک پٹی باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور پھر اپنا تمام بدن دھو لیتا۔ (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو عطاء ابن رباح سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے۔)
تشریح
بسا اوقات کم علمی اور کسی مسئلے سے عدم واقفیت پر اندو ہناک واقعہ کا سبب بن جایا کرتی ہے چنانچہ اس موقعہ پر یہی ہوا کہ جب اس زخمی آدمی نے اپنے عذر کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ آیا ایسے حال میں کہ جب میرے سر پر زخم ہے اور پانی اس زخم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے تو ناپاکی دور کرنے کے لیے بجائے غسل کے میں تیمم کر سکتا ہوں؟ تو ساتھیوں نے مسئلے سے ناواقفیت اور اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھ کر آیت تیمم (فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْداً طَيِّباً فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہ) 5۔ المائدہ:6) کا مطلب یہ ہے کہ تیمم صرف اس شکل میں جائز ہو گا جب کہ پانی موجود نہ ہو اگر پانی موجود ہو تو تیمم جائز نہیں ہو گا۔ اس آدمی سے کہہ دیا کہ تمہارے لیے تیمم جائز ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے؟ حالانکہ انھوں نے یہ نہ سمجھا کہ تیمم جائز نہ ہونے کی شکل یہ ہے کہ پانی موجود ہو اور ساتھ ساتھ اس کے استعمال پر قدرت نیز پانی کے استعمال سے کسی نقصان اور ضرر کا خدشہ بھی نہ ہو۔ اس بیچارے نے ان لوگوں کے علم و فہم پر اعتماد کیا اور اس حالت میں غسل کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانی نے زخم میں شدت پیدا کر دی اور شدت بھی ایسی کہ وہ اللہ کا بندہ اسی وجہ سے اللہ کو پیار ہو گیا۔
بہر حال یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے مواقع پر تیمم بھی کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام بدن کو دھونا بھی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے مگر امام اعظم ابوحنیفہ کے رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں سے ایک ہی چیز کافی ہے۔
حنفیہ کی جانب سے شوافع کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور پھر قیاس کے خلاف بھی ہے کہ اس سے بدل اور مبدل منہ کا جمع لازم آیا ہے۔
الحاصل اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اگر کسی آدمی کو پانی کے استعمال کرنے کی وجہ سے تلف جان کا خوف ہو تو اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے۔
اور اگر کسی آدمی کو یہ ڈر ہو کہ پانی کے استعمال سے مرض بڑھ جائے گا یا صحت یابی میں تاخیر ہو جائے گی تو ایسی شکل میں بھی حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اسے تیمم کر کے نماز پڑھ لینی جائز ہے اور بعد میں نماز کی قضا ضروری نہیں ہے حضرات شوافع کے ہاں بھی تقریباً یہ مسلک ہے۔
اگر کسی آدمی کے کسی عضو میں زخم ہو یا پھوڑا ہو اور اس کی پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس صورت میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پٹی اتارنے سے تلف جان کا خطرہ ہو تو اسے چاہئے کہ پٹی پر مسح کرے اور تیمم کرے مگر حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی کے بدن کا کچھ حصہ زخمی اور کچھ حصہ اچھا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ زخمی حصہ کتنا ہے اور اچھا حصہ کتنا ہے اگر زیادہ حصہ اچھا ہے تو اسے دھوئیں گے اور زخم پر مسح کریں اور اگر اکثر حصہ زخمی ہو گا تو تیمم کریں گے اور دھونا ساقط ہو جائے گا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جو حصہ اچھا ہو ا سے دھویا جائے اور زخم کے لیے تیمم کیا جائے۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ دو آدمی سفر کو روانہ ہوئے (اثنأ راہ میں ) نماز کا وقت ہوا مگر ان کے پاس پانی نہیں تھا چنانچہ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی (آگے چل کر انہیں پانی مل گیا اور نماز کا وقت بھی باقی تھا لہٰذا ان میں سے ایک نے وضو کر کے نماز لوٹا لی مگر دوسرے نے نہیں لوٹائی۔ جب دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ ذکر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (پورا واقعہ سن کر) اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا تمہارے لیے وہ نماز کافی ہے اور جس آدمی نے وضو کر کے نماز لوٹائی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا تمہارے لیے دو گنا اجر ہے۔ (ابوداؤد ، دارمی) اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور نسائی و ابوداؤد نے عطا ابن یسار سے مرسلا بھی نقل کی ہے۔
تشریح
پانی نہ ملنے کی صورت میں اگر نماز پڑھ لی جائے اور پھر پانی مل جائے اور نماز کا وقت بھی باقی ہو تو اس نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا یعنی شریعت کا حکم چونکہ یہی ہے اس لیے تم نے شریعت کے حکم کی پابندی کی ہے کہ تیمم سے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی ملنے کے باوجود تم نے نماز نہیں لوٹائی۔ دوسرے آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوہرے ثواب کا مستحق قرار دیا کہ ایک ثواب تو ادائے فرض کا اور دوسرا ثواب ادائے نفل کا۔ اس مسئلے میں علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تیمم کرنے والا نماز سے فارغ ہو کر اگر پانی دیکھے اور اسے پانی مل جائے تو اس پر نماز لوٹانا ضروری نہیں ہے خواہ نماز کا وقت باقی کیوں نہ ہو۔
لیکن صورت اگر یہ ہو کہ ایک آدمی تیمم کرنے کے بعد نماز پڑھنی شروع کر دے اور درمیان نماز سے پانی مل جائے تو اب وہ کیا کرے؟ آیا نماز ختم کر کے وضو کر لے اور پھر نماز پڑھے یا اپنی نماز تیمم ہی سے پوری کر لے؟ اس مسئلے پر علماء کرام کا اختلاف ہے؟ چنانچہ جمہور یعنی اکثر علماء کا مسلک تو یہ ہے کہ اس آدمی کو اپنی نماز ختم نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہ نماز پوری کر لے ، اس کی نماز صحیح ہو گی۔
مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں اس آدمی کا تیمم باطل ہو جائے گا ، گویا اسے نماز توڑ کر اور پانی سے وضو کر کے دوبارہ نماز شروع کرنی چاہئے۔
٭٭حضرت ابو جہیم ابن حارث ابن صمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (مدینہ میں ) جمل کے کنوئیں کی طرف سے تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک آدمی (یعنی خود ابی جہیم) ملے اور سلام کیا سرکا دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا اور ایک دیوار کے پاس تشریف لائے چنانچہ (پہلے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منہ اور ہاتھوں کا مسح کیا (یعنی تیمم کیا) پھر سلام کا جواب دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت عمار ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) چند صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے اور (پانی نہ ملنے کی وجہ سے ) فجر کی نماز کے لیے انھوں نے پاک مٹی سے (اس طرح) تیمم کیا (کہ پہلے ) اپنے ہاتھوں کو مٹی پر مار کر اپنے چہروں پر پھیرا اور دوسری مرتبہ اپنے ہاتھوں کو مٹی پر مار کر اپنے پورے ہاتھوں پر یعنی کندھوں تک اور بغلوں کے اندر تک مسح کیا ہاتھوں کے اندر کی طرف سے۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے آخری جملے من بطون ایدیھم میں لفظ من ابتدا کے لیے ہے یعنی انہوں نے پہلے ہاتھوں کے اندر کے رخ پر ہاتھ پھیرے نہ کہ ہاتھوں کے اوپر کے رخ پر، جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ پہلے ہاتھوں کے اوپر کے رخ پر مسح کرنا مستحب ہے۔ یا پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ انھوں نے ہتھیلیوں سے تیمم کرنا شروع کیا۔ یہی معنی زیادہ مناسب ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھوں پر بغلوں اور مونڈھوں تک مسح کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خیال کیا کہ آیت تیمم میں ید یعنی ہاتھ کا لفظ مذکور ہے جو مطلق ہے۔ اس آیت سے اور اس لفظ سے یہ بصراحت معلوم نہیں ہوتا کہ ہاتھوں پر مسح کہاں تک کیا جائے لہٰذا اس اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ید یعنی ہاتھ جو انگلیوں سے لے کر بغل اور کندھوں تک کے حصے کے لیے بولا جاتا ہے اس پورے حصے پر مسح کیا جائے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھ کے پورے حصے پر مسح کر ڈالا۔ اب جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے تو یہ کہا جائے گا کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اپنا اجتہاد تھا کیونکہ جمہور علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تیمم میں ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تیمم وضو کا قائم مقام ہے اور وضو کے بارے میں قرآن نے صراحت کے ساتھ بتا دیا کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا فرض ہے لہٰذا جس طرح اصل یعنی وضو میں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا جاتا ہے۔ وضو کے قائم مقام یعنی تیمم میں بھی ہاتھوں پر مسح وہیں تک کیا جا نا چاہئے۔
پھر اس سے پہلے تیمم کے بارے میں کچھ احکام نقل کئے گئے تھے اس حدیث پر چونکہ باب ختم ہو رہا ہے اس لیے مناسب ہے کہ تیمم کے چھ دوسرے احکام و مسائل جو پہلے نقل نہیں کئے گئے ذکر کر دئیے جائیں۔
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ تیمم ان چیزوں سے کرنا چاہئے جو زمین کی جنس سے ہوں چنانچہ مٹی، ریت ، چونا، قلعی، سرمہ، ہڑتال اور پتھر سے تیمم کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح موتی اور مونگے کے علاوہ تمام جواہرات سے بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی سمجھ لیجئے کہ تیمم کرنے کے لیے ان چیزوں پر جو زمین کی جنس سے ہوں غبار ہونا ضروری نہیں ہے۔ یعنی ان مذکور چیزوں پر غبار نہ ہونے کی صورت میں بھی ان سے تیمم کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر ایسی چیز کے ذریعے تیمم کیا جائے جو زمین کی جنس سے نہ ہو تو اس پر غبار ہونا ضروری ہے ، غبار نہ ہونے کی شکل میں اس کے ذریعے کیا گیا تیمم جائز نہ ہو گا، مثلاً کسی لکڑی، کپڑے یا سونے اور چاندی وغیرہ پر غبار ہو تو اس سے تیمم جائز ہے۔
تیمم کے جواز کے لیے چار شرائط ہیں۔ (١) پانی کے استعمال سے حقیقۃً یا حکماً عاجز ہونا۔ (٢) جس چیز سے تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا۔ (٣) استیعاب یعنی اعضاء تیمم کے ہر ہر حصے پر اس طرح ہاتھ پھیرنا کہ کوئی جگہ مسح سے باقی نہ رہ جائے۔ (٤) نیت اس کے بارے میں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ نماز اسی تیمم سے صحیح ہو گی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے۔ اس سلسلے میں (حدث یا جنابت کی تعیین شرط نہیں ہے ) یا اس سے عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغیر طہارت کے صحیح نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر کافر اسلام قبول کرنے کے لیے تیمم کرے یا کوئی آدمی مسجد میں جانے کے لیے تیمم اور پھر یہ چاہئے کہ اسی تیمم سے نماز پڑھ لے تو نماز اس تیمم سے جائز نہ ہو گی۔ جنبی، محدث، حائضہ اور نفاس والی عورت سب کے لیے تیمم کا ایک ہی طریقہ ہے جو پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھنے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مختار مسلک تو یہ ہے کہ غسل جمعہ کی نماز کے لیے ہے کہ اسی طہارت سے جمعہ اداء کرنا چاہئے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ غسل یوم جمعہ کی تعظیم و تکریم کے لیے ہے۔
بہر حال: تمام علماء کے نزدیک نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا سنت مؤکدہ ہے مگر حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک روایت یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر بالغ پر جمعہ کے روز نہانا واجب ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
واجب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی آدمی جمعہ کے روز غسل نہ کرے تو وہ گنہگار ہو گا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے روز غسل کو ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ہمارے ہاں عام طور کسی مستحق رعایت کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ فلاں آدمی کی رعایت ہم پر واجب ہے۔
چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہاں اور اسی طرح ایسے دوسرے مواقع پر واجب کا لفظ استعمال فرما نا دراصل استحباب کے حکم کو موکد کرنا ہے ، اور اس کی وجہ خاص طور پر یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں مسجدیں بہت تنگ اور چھوٹی ہوتی تھی ں اور مسلمان صوف (موٹا اونی کپڑا) کا استعمال کرتے تھے نیز محنت و مشقت بہت زیادہ کیا کرتے تھے چنانچہ جب ان کو پسینہ آتا تھا تو اس کی بو کی وجہ سے آس پاس کے لوگ تکلیف محسوس کرتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم میں واجب کا لفظ استعمال فرمایا ہے تاکہ لوگ جمعہ کے روز غسل کے اس حکم کو جلدی قبول کر لیں اور اس پر پابندی سے عمل پیرا ہوں
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر (عاقل بالغ) مسلمان پر حق ہے (یعنی ثابت اور لازم ہے یا لائق ہے ) کہ ہر ہفتہ میں ایک دن (یعنی جمعہ کو) نہائے اور اپنا سارا بدن دھوئے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
٭٭ حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے روز وضو ہی کر لیا تو اس نے فرض ادا کیا اور یہ بہت اچھا فرض ہے اور جس آدمی نے (نماز جمعہ کے لیے ) غسل کیا تو یہ بہت اچھا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤدِ، جامع ترمذی ، سنن نسائی، دارمی)
تشریح
فبھا و نعمت کا مطلب یہ ہے کہ فبھا بفریضہ اخذ ونعمت الفریضہ یعنی (جس آدمی نے نماز کے لیے غسل کیا اس نے فرض ادا کیا اور وہ فرض کیا ہی خوب ہے؟
اس سے پہلے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے تو معلوم ہوتا تھا کہ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے مگر یہ حدیث بصراحت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس آدمی نے مردے کو نہلایا ہو اسے خود بھی نہا لینا چاہئے۔ (ابن ماجۃ) اور مسند احمد بن حنبل، ترمذی اور ابوداؤد نے (اس حدیث میں ) مزید نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ) جو آدمی جنازہ کو کندھا دینے کا ارادہ کرے اسے وضو کر لینا چاہئے )
تشریح
اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں۔ اول تو یہ کہ جب کوئی آدمی کسی مردے کو نہلائے تو اسے چاہئے کہ غسل میت سے فراغت کے بعد خود بھی نہائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت اس کے اوپر چھینٹیں وغیرہ پڑ گئی ہوں لہٰذا پاکی اور صفائی کے لیے نہا لینا مناسب ہے۔ اکثر علماء کرام کے نزدیک غسل میت کے بعد نہانے کا یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے کیونکہ ایک حدیث صحیح میں یہ ارشاد منقول ہے کہ اگر تم مردے کو نہلاؤ تو تم پر غسل لازم نہیں ہے اس حدیث سے دوسری چیز یہ معلوم ہوئی کہ جب کوئی آدمی جنازے کو اٹھانے کا ارادہ کرے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی باوضو ہو کر جنازے کو اٹھائے گا تو جب نماز پڑھنے کی جگہ جنازہ رکھا جائے گا اور نماز جنازہ شروع ہو گی تو وہ فوراً نماز میں شریک ہو جائے گا یہ نہیں ہو گا کہ وہ تو جنازہ رکھ کر وضو کرنے چلا جائے اور ادھر نماز بھی ہو جائے۔ اس حکم کے بارے میں بھی متفقہ طور پر سب کی رائے یہی ہے کہ یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے یعنی جنازہ اٹھانے سے پہلے وضو کر لینا مستحب ہے ضروری اور واجب نہیں ہے
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چار چیزوں کی وجہ سے نہانے کا حکم دیا کرتے تھے۔ (١) جنابت یعنی ناپاکی سے (٢) جمعہ کے واسطے (٣) سینگی کھنچوانے سے (٤) مردے کو نہلانے سے۔ (ابوداؤد)
تشریح
یغتسل کا اگر لفظی ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ان چار چیزوں کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں چونکہ یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی کسی مردے کو نہلایا ہو اس لیے یغتسل کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان چار چیزوں کی وجہ سے نہانے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔
بہر حال: ان چار چیزوں میں سے جنابت یعنی ناپاکی کا غسل تو فرض ہے باقی سب مستحب ہیں۔ سینگی کھنچوانے یعنی پچھنے لگوانے کے بعد غسل کرنے کا حکم صفائی و ستھرائی کے لیے ہے گویا پچھنے لگوانے کے بعد اس لیے نہا لینا چاہئے کہ اس کی وجہ سے جو خون وغیرہ لگ گیا ہوا اس سے پاکی و صفائی حاصل ہو جائے
٭٭ اور حضرت قیس ابن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ جب اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ پانی اور بیری کے پتوں سے نہائیں۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤداور سنن نسائی)
تشریح
اگر کوئی کافر ایسی حالت میں مسلمان ہو کہ وہ حالت جنابت میں تھا تو اس شکل میں اس پر غسل کرنا واجب ہے۔ ورنہ توا سلام لانے کے بعد نہانا مستحب ہے اور اس سلسلے میں صحیح اور اولیٰ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہونا چا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے کلمہ شہادت پڑے لے اس کے بعد نہائے۔ اس طرح اس کے لیے یہ بھی سنت ہے کہ نہانے سے پہلے سر منڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پانی کے ساتھ بیری کے پتوں سے بھی نہانے کا حکم اس لیے دیا تاکہ پاکی اور صفائی پوری طرح حاصل ہو جائے
حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عراق کے چند آدمی آئے اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کی رائے میں جمعہ کہ دن نہانا واجب ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں !مگر (جمعہ کے دن نہانا) بہت زیادہ صفائی اور ستھرائی ہے اور جو آدمی غسل کر لے اس کے لیے بہتر ہے اور جو آدمی نہ نہائے اس پر واجب بھی نہیں ہے اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ جمعہ کے دن غسل کی ابتداء کیوں کر ہوئی؟ (یعنی جمعہ کے روز غسل کس وجہ سے شروع ہوا تو اصل بات یہ تھی کہ اسلام کے شروع زمانہ میں ) بعض نادار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اونی لباس پہنے تھے اور پیٹھ پر (بوجھ اٹھانے کا) کام کرتے تھے ، ان کی مسجد تنگ تھی جس کی چھت نیچی اور کھجور کی ٹہنیوں کی تھی۔ ایک مر تبہ جمعہ کے دن جب سخت گرمی کی وجہ سے ) اونی لباس کے اندر لوگ پسینہ سے تر ہو گئے ، یہاں تک کہ (پسینہ کی) بدبو پھیلی جس سے لوگ آپس میں تکلیف محسوس کرنے لگے۔ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بدبو کا احساس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لوگو! جب جمعہ کا دن ہو تو غسل کر لیا کرو بلکہ تم میں سے جسے تیل یا خوشبو مثلاً عطر وغیرہ میسر ہو وہ استعمال کرے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی کی تو لوگوں نے اونی لباس چھوڑ کر (عمدہ) کپڑے استعمال کرنے شروع کر دیئے محنت و مشقت کے کام بھی چھوٹ گئے ، مسجد بھی وسیع ہو گی اور پسینے کی وجہ سے جو لوگوں کو آپس میں تکلیف ہوتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ (ابوداؤد)
تشریح
شروع میں جب کہ اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمانوں کی زندگی محنت و مشقت اور تنگی و ناداری سے بھر پور تھی ، ایسے بہت کم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو مال دار اور خوش حال تھے۔ زیادتی اور کثرت ایسے ہی لوگوں کی تھی جو دن بھر محنت و مشقت کرتے اور جنگلوں اور شہروں میں مزدوری کرتے۔ اس طرح وہ حضرات مشکلات و پریشانی کی جکڑ بندیوں میں رہ کر اپنے دین و ایمان کی آبیاری کیا کرتے تھے۔ لیکن تنگی و پریشان حالی کا یہ دور زیادہ عرصہ نہیں رہا جب اسلام کی حقیقت آفریں آواز مکہ اور مدینہ کی گھاٹیوں سے نکل کر عالم کے دوسرے حصوں میں پہنچی اور مسلمانوں کے لشکر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا نام بلند کرنے کے لیے ان تمام سختیوں اور پریشانیوں کو زادہ راہ بناتے ہوئے قیصر و کسری جیسے والیان ملک کی حشمت و سلطنت اور شان و شوکت سے جا ٹکرائے اور جس کے نتیجے میں انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں پر اپنی فتح و نصرت کے عَلم گاڑ دئیے تو تنگی و پریشان حالی کا وہ دور خدا نے فراخی و وسعت میں تبدیل کر دیا۔ اب مسلمان نادار اور پریشان حال نہ رہے بلکہ مالدار اور خوش حال ہو گئے اور محنت و مشقت کی جگہ دنیا کی جہانبانی و مسند آرائی نے لے لی اس حدیث میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعہ کے روز غسل کے حکم کی وجہ بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کے ان دونوں ادوار کا ایک ہلکا اور لطیف خاکہ پیش فرمایا ہے کہ پہلے تو مسلمان اتنے نادار اور تنگ دست تھے کہ نہ تو ان کے پاس ڈھنگ سے پہننے کے کپڑے تھے اور نہ معیشت کی دوسری آسانیاں میسر تھی ں بلکہ وہ لوگ دن بھر محنت و مزدوری کر کے سوکھا روکھا کھاتے اور اونی لباس پہنا کرتے تھے جس کہ وجہ سے جب سخت گرمی میں ان کو پسینہ آتا تو مسجد میں بیٹھے ہوئے آس پاس کے لوگوں کو پسینے کی بو سے تکلیف ہوا کرتی تھی۔ مگر جب بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان پر مال و زر کے دروازے کھول دئیے تو وہ بغیر کسی کوشش اور محنت کے مال دار اور خوش حال ہو گئے اور اللہ نے ان پر اسباب معیشت کی بے انتہا فراوانی کر دی حدیث کے آخری لفط بَعْضاً مِنَ الْعِرَقِ میں لفظ من بیان کیلئے ہے لفظ بعض کا اور یہاں بعض سے مراد اکثر ہے اس طرح اس جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اکثر لوگوں کے پسینے جو آپس میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتے تھے خوشحالی اور اسباب معیشت کی فراوانی کی وجہ سے ختم ہو گئے بہر حال حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پسینے کی بدبو کی کثرت کی وجہ سے ابتدائے اسلام میں جمعہ کے روز غسل کرنا واجب تھا مگر جب اسباب معیشت کی فراوانی اور مسلمانوں کی خوشحالی کی وجہ سے یہ چیز کم ہو گئی تو غسل کے وجوب کا حکم منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ سنت کے حکم نے لے لی۔ اس طرح اب جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے
لغت میں حیض کے معنی جاری ہونا ہیں اور اصطلاح شریعت میں حیض اس خون کو کہا جاتا ہے جو عورت کے رحم سے بغیر کسی بیماری اور ولادت کے جاری ہوتا ہے اور جسے عرف عام میں ماہواری یا ایام بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح رحم عورت سے جو خون کسی مرض کی وجہ سے آتا ہے اسے استحاضہ اور جو خون ولادت کے بعد جاری ہوتا ہے اسے نفاس کہتے ہیں حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے لہٰذا اس مدت میں خون خالص سفیدی کے علاوہ جس رنگ میں بھی آئے وہ حیض کا خون شمار ہو گا یعنی حیض کے خون کا رنگ سرخ بھی ہوتا ہے اور سیاہ و سبز بھی، نیز زرد اور مٹی کے رنگ جیسا بھی حیض کے خون کا رنگ ہوتا ہے۔ ایام حیض میں نماز، روزہ نہ کرنا چاہئے البتہ ایام گزر جانے کے بعد روزے تو قضاء ادا کئے جائیں گے مگر نماز کی قضا نہیں ہو گی مناسب ہے کہ اس موقعہ پر حیض کے کچھ مسائل و احکام (ماخوذ از علم الفقہ) ذکر کر دئیے جائیں (١) اگر کوئی عورت سو کر اٹھنے کے بعد خون دیکھے تو اس کا حیض اسی وقت سے شمار ہو گا جب سے وہ بیدار ہوئی ہے اس سے پہلے نہیں اور اگر کوئی حائضہ عورت سو کر اٹھنے کے بعد اپنے کو طاہر پائے تو جب سے سوئی ہے اسی وقت سے طاہر سمجھی جائے گی(٢) حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے ناف اور زانوں کے درمیان کے جسم کو دیکھنا یا اس سے اپنے جسم کو ملانا بشرطیکہ کوئی کپڑا درمیان میں نہ ہو مکروہ تحریمی ہے اور جماع کرنا حرام ہے (٣) حیض والی عورت اگر کسی کو قرآن مجید پڑھاتی ہو تو اس کو ایک ایک لفظ رک رک کر پڑھانے کی غرض سے کہنا جائز ہے۔ ہاں پوری آیت ایک دم پڑھ لینا اس وقت بھی نا جائز ہے (٤) حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے بوسے لینا، اس کا استعمال کیا پانی وغیرہ پینا اور اس سے لپٹ کر سونا اور اس کے ناف اور ناف کے اوپر اور زانوں کے نیچے کے جسم سے اپنے جسم کو ملانا اگرچہ کپڑا درمیان میں نہ ہو اور ناف وزانوں کے درمیان کپڑے کے ساتھ ملا نا جائز ہے بلکہ حیض والی عورت سے علیحدہ ہو کر سونا یا اس کے اختلاط سے بچنا مکروہ ہے (٥) جس عورت کا حیض دس دن اور دس راتیں آ کر بند ہوا ہو تو اس سے بغیر غسل کے خون بند ہوتے ہی جماع جائز ہے اور جس عورت کا خون دس دن سے کم آ کر بند ہوا ہو تو اگر اس کی عادت سے بھی کم آ کر بند ہوا ہے تو اس سے جماع جائز نہیں۔ جب تک کہ اس کی عادت نہ گزر جائے اور عادت کے موافق اگر بند ہوا ہے تو جب تک غسل نہ کرے یا ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے جماع جائز نہیں۔ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد بغیر غسل کے بھی جائز ہو گا۔ نماز کے وقت گزر جانے سے یہ مقصود ہے کہ اگر شروع وقت میں خون بند ہوا تو باقی وقت سب گزر جائے اور اگر آخر وقت میں خون بند ہوا تو اس قدر وقت ہونا ضروری ہے کہ جس میں غسل کر کے نماز کی نیت کرنے کی گنجائش ہو اور اگر اس سے بھی کم وقت باقی ہو تو پھر اس کا اعتبار نہیں دوسری نماز کا پورا وقت گزرنا ضروری ہے۔ یہی حکم نفاس کا ہے کہ اگر چالیس دن آ کر بند ہوا ہو تو خون بند ہوتے ہی بغیر غسل کے اور اگر چالیس دن سے کم آ کر بند ہوا ہو اور عادت سے بھی کم ہو تو بعد عادت گزر جانے کے اور اگر عادت کے موافق بند ہوا ہو تو غسل کے بعد یا نماز کا وقت گزر جانے کے بعد جماع وغیرہ جائز ہے۔ ہاں ان کے سب صورتوں میں مستحب ہے کہ بغیر غسل کے جماع نہ کیا جائے (٦) جس عورت کا خون دس دن اور راتوں سے کم آ کر بند ہوا اور عادت مقرر ہو جانے کی شکل میں عادت سے بھی کم ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا واجب ہے اس خیال سے کہ شاید پھر خون آ جائے مثلاً عشاء کے شروع وقت خون بند ہوا ہو تو عشاء کے آخر وقت مستحب یعنی نصف شب کے قریب تک اس کو غسل میں تاخیر کرنا چاہئے اور جس عورت کا حیض دس دن یا عادت مقرر ہونے کی شکل میں عادت کے موافق آ کر بند ہوا ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا مستحب ہے (٧) اگر کوئی عورت غیر زمانہ حیض میں کوئی ایسی دوا استعمال کرے جس سے خون آ جائے تو وہ حیض نہیں مثلاً کسی عورت کو مہینے میں ایک دفعہ پانچ دن حیض آتا ہو تو اس کے حیض کے پانچ دن کے بعد کسی دوا کے استعمال سے خون آ جائے تو وہ حیض نہیں (٨) اگر کسی عادت والی عورت کو خون جاری ہو جائے اور برابر جاری رہے اور اس کو یہ یاد نہ رہے کہ مجھے کتنے دن حیض آتا تھا یا پھر یہ یاد نہ رہے کہ مہینہ کی کس کس تاریخ سے شروع ہوتا تھا اور کب ختم ہوتا تھا۔ یا دونوں باتیں یاد نہ رہیں تو اس کو چاہئے کہ اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جس زمانے کو وہ حیض کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں حیض کے احکام پر عمل کرے اور جس زمانے کو طہارت کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں طہارت کے احکام پر عمل کرے اور اگر اس کا گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھنی چاہئے اور روزہ بھی رکھے مگر جب اس کا یہ مرض رفع ہو جائے روزہ کی قضاء ادا کرنی ہو گی اور اگر اس کو شک کی کیفیت ہو تو اس میں دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانے کی نسبت یہ شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا تو اس صورت میں ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانہ کی نسبت پر شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا یا حیض سے خارج ہونے کا تو اس صورت میں وہ ہر نماز کے وقت غسل کر کے نماز پڑھ لے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ یہود میں سے جو کوئی عورت ایام سے ہو جاتی تو وہ لوگ نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے نہ تھے بلکہ گھروں میں سونا بیٹھنا تک چھوڑ دیتے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں حکم پوچھا (کہ حائضہ عورتوں کے بارے میں یہودیوں کا تو یہ عمل ہے لیکن ہم کیا کریں؟) جبھی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (وَيَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْض) 2۔ البقرۃ:222) (یعنی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں الخ نازل فرمائی (آیت کے نازل ہونے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ) تم اپنی عورتوں کے ساتھ جب کہ وہ حائضہ ہوں ) سوائے صحبت کے جو چا ہے کیا کرو جب یہ خبر یہودیوں کو پہنچی تو انہوں نے کہا یہ آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے جس دینی امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس میں ہماری مخالفت ضرور کرتے ہیں۔ (یہود کی زبانی یہ سن کر دو صحابہ کرام) حضرت اسید ابن حضیر اور حضرت عباد ابن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہما (دربار رسالت میں ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہودی ایسا ایسا کہہ رہے ہیں (یعنی انھوں نے یہودیوں کا کلام نقل کیا اور پھر یہ کہا کہ) اگر اجازت ہو (یہودیوں کی موافقت کے لیے ) ہم اپنی عورتوں کے پاس (ایام حیض) میں رہنا سہنا چھوڑ دیں۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا اور ہمیں یہ گمان ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں پر خفا ہو گئے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں بھی نکل کر چل دئیے۔ ان کے جاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کہیں سے تحفہ میں دودھ آگیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کے پیچھے (کسی آدمی کو بلانے کے لیے ) بھیجا (جب وہ آ گئے تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں وہ دودھ پلا دیا (تاکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لطف و کرم کا احساس ہو جائے چنانچہ دودھ پینے کے بعد انہوں نے جانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے ناراض نہیں ہیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
پوری آیت یہ ہے (وَيَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ۙ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَطْہرْنَ) 2۔ البقرۃ:222)
اور (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) صحابہ کرام حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں سو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ان سے کہہ دیجئے کہ وہ تو نجاست ہے لہٰذا ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تم وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور ان سے مقاربت نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں جماع نہ کرو، اس کے علاوہ تمام چیزیں جائز ہیں۔ یعنی ان کے ساتھ کھانا، پینا، گھروں میں رہنا سہنا، لیٹنا ، بیٹھنا یہاں تک کہ عورت کے ناف کے اوپر کے حصے سے اپنا بدن ملانا یا ہاتھ لگانا یہ سب چیزیں جائز ہیں لہٰذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایام حیض میں اگر کوئی آدمی جماع کرے گا تو وہ آدمی گنہ گار ہو گا کیونکہ یہ حرام ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی اپنی عورت سے ایام حیض میں یہ سمجھ کر جماع کرے کے یہ حلال اور جائز ہے تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہوتا ہے ، (دونوں صحابہ کرام نے یہود کی باتیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں جو معروضہ پیش کیا تھا اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کر لیجئے کہ خدا نخواستہ ان کے ذہن میں اس حکم کی کوئی اہمیت نہ تھی یا یہ کہ ایک اسلامی حکم کے مقابلے میں یہودیوں کی بات کا انہیں زیادہ خیال تھا بلکہ ان کا مطلب تو صرف یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیں تو ہم عورتوں کے ساتھ ایام حیض میں اٹھنا بیٹھنا ترک کر دیں اور ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیں ، تاکہ یہود جو طعن کرتے ہیں وہ نہ کریں اور ہم آپس میں الفت و یک جہتی کے ساتھ رہا کریں
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں جنابت کی حالت میں ایک برتن سے نہا لیا کرتے تھے۔ (اور بعض اوقات) میں ایام سے ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے (تہ بند باندھنے کے واسطے ) ارشاد فرماتے جب میں تہبند باندھ لیتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے (ناف کے اوپر اوپر) اپنے بدن کو لگا کر لیٹ جایا کرتے تھے اور (بعض مرتبہ) آپ اعتکاف میں ہوتے اور اپنا سر مبارک (مسجد سے ) باہر نکال دیتے تو میں اپنے ایام کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک دھویا کرتی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
عرب کے قاعدے اور معمول کے مطابق ایک بڑا برتن جو طشت کی قسم کا ہوتا تھا پانی سے بھرا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان رکھا ہوتا اور یہ دونوں اس میں سے چلو بھر بھر کر نہاتے تھے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کے جسم کے اس حصے سے فائدہ اٹھانا جو ناف کے نیچے اور زانو کے اوپر ہوتا ہے حرام ہے۔ یعنی وہاں ہاتھ لگانا اور جماع کرنا ممنوع ہے چنانچہ اس کی وضاحت دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے اور یہی مسلک امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف، امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اور امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے امام محمد، امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما اور بعض شوافع حضرات کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ عورت سے صرف وطی یعنی شرمگاہ میں دخول کرنا حرام ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حجرہ مسجد سے بالکل ملا ہوا تھا یہاں تک کہ اس کا دروازہ بھی مسجد ہی کی طرف کھلا ہوا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اعتکاف میں ہوتے تھے تو اپنے سر مبارک اسی دروازے سے حجرے کی طرف نکال دیتے تھے وہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک دھو دیتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی اعتکاف میں بیٹھا ہو اور اپنے جسم کے کسی حصے کو مسجد سے باہر نکالے تو اس سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حالت ایام میں پانی پی کر (وہ برتن) رسول اللہ کو دے دیا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی جگہ سے جہاں میرا منہ لگا ہوتا تھا منہ لگا کر پی لیتے اور کبھی میں ایام کی حالت میں ہڈی سے گوشت نوچ کر کھاتی پھر وہ ہڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی جگہ پر منہ رکھ کر گوشت کو نوچتے جہاں سے میں نے منہ رکھ کر نوچا ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل دو وجہ سے ہوا کرتا تھا اول تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے انتہا محبت تھی دوسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہودیوں کی مخالفت منظور ہوتی تھی چنانچہ یہودی تو کہاں حائضہ عورت کے ساتھ گھر میں رہنا اور ان کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہ کرتے تھے اور ادھر یہ معمول تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایام حیض میں برتن میں جس جگہ سے منہ لگا کر پانی پیا کرتی تھی ں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی جگہ منہ (لگا کر پانی پیتے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس جگہ سے منہ لگا کر ہڈی سے گوشت کو نوچا کرتی تھی ں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی جگہ منہ لگا کر ہڈی سے گوشت نوچا کرتے تھے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا اور اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جائز ہے نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کے اعضائے بدن نجس و ناپاک نہیں ہوتے
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ میں ایام کی حالت میں ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری گود میں سہارا دے کر بیٹھ جاتے اور قرآن کریم پڑھتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث نے بھی اس بات کی وضاحت کر دی کہ حائضہ عورت ظاہری طور پر پاک ہوتی ہے اس کی ناپاکی کا حکم صرف حکماً ہے اس لیے اگر حائضہ عورت ظاہراً پاک نہ ہوتی اور اس کے بدن کے اعضاء نجس ہوتے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گود میں سہارا دے کر جب کہ وہ حالت ایام میں ہوا کرتی تھی ں نہ بیٹھتے اور نہ اس طرح بیٹھ کر قرآن کریم پڑھتے
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ مسجد میں سے چھوٹا بوریہ (جائے نماز) اٹھا کر مجھے دے دو (یعنی باہر کھڑی ہو کر اندر ہاتھ ڈال کر بوریا اٹھالاؤ) میں نے عرض کیا کہ میں تو ایام سے ہوں۔ (اس لیے مسجد میں ہاتھ کیسے داخل کر سکتی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تمہارے ہاتھ میں تو حیض نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ مسجد سے باہر کھڑی ہو کر مسجد کے اندر سے کوئی چیز اٹھا لے تو جائز ہے۔ کیونکہ ایام والی عورت کو صرف مسجد کے اندر جانا منع ہے نہ کہ مسجد کے اندر ہاتھ داخل کرنا بھی
٭٭اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایسی چادر میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے کہ جس کا کچھ حصہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر ہوتا تھا اور کچھ حصہ مجھ پر ہوتا تھا اور میں ایام سے ہوتی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ حائضہ کا پورا جسم ناپاک نہیں ہوتا بلکہ اس کی شرم گاہ کے علاوہ تمام بدن پاک ہوتا ہے کیونکہ حائضہ کا پورا بدن اگر ناپاک ہوتا ہو تو ایسی چادر میں نماز جائز نہ ہوتی جس کا بعض حصہ تو نمازی پر پڑا ہو اور بعض حصہ نجاست و ناپاکی پر حضرت سید جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ صاحب تخریج نے لکھا ہے کہ میں نے یہ حدیث یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ان کے الفاظ کے ساتھ نہیں پائی ہے البتہ ان میں نیز ابوداؤد میں اس مضمون کی احادیث مذکور ہیں
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس آدمی نے ایام والی عورت سے صحبت کی یا عورت کے پیچھے کی طرف بد فعلی کی۔ یا کسی کاہن کے پاس (غیب کی باتیں پوچھنے ) گیا تو اس آدمی نے (گویا) محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر نازل کئے گئے دین کا کفر کیا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ،دارمی) ابن ماجہ اور دارمی کی روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کاہن کے کہے ہوئے کی اس نے تصدیق بھی کر دی تو وہ کافر ہے۔ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہمیں یہ حدیث معلوم نہیں سوائے اس سند کے کہ اسے حکیم اثرم، ابوتمیمہ سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔
تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حلال اور جائز سمجھ کر کسی حائضہ سے جماع کرے یا کسی عورت کے پیچھے کی طرف بد فعلی کرے یا کاہن کے پاس جائے اور کاہن اسے غیب کے متعلق جو چیزیں بتائے انہیں وہ سچ جانے تو وہ کافر ہو جائے گااور اگر یہ شکل ہو کہ کوئی آدمی حائضہ عورت سے جماع یا عورت سے لواطت کرے مگر یہ سمجھتا ہو کہ یہ حلال اور جائز نہیں ہے وہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی کاہن کے پاس جائے مگر اس نے جو چزیں بتائی ہیں اس کو سچ نہ جانے تو بھی فاسق ہو گا۔ اس صورت میں اس حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جس آدمی نے ایسا کیا گویا اس نے کفران نعمت کیا۔
کاہن اس آدمی کو کہتے ہیں جو آئندہ واقعات کی خبر دیتا ہے اور نجومی اسے کہتے ہیں جو ستاروں کی مدد سے خبر دیتا ہے۔ کاہن اور نجومی دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ جس طرح کاہن کے پاس غیب کی خبریں جاننے کے لیے جانا ممنوع ہے اور اس کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنا کفر ہے اسی طرح نجومی کے پاس بھی جانا فسق اور اس کی بتائی باتوں کو سچ جاننا کفر ہے اس حدیث میں پیچھے کی طرف بد فعلی کرنے کے سلسلے میں صرف عورت کی جو قید لگائی ہے اور وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد سے اغلام کرنا اس سے بھی زیادہ برا ہے
٭٭اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! میری بیوی کے ایام کی حالت میں میرے واسطے کیا کیا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ چیز جو تہ بند کے اوپر ہو۔ اور اس سے بھی بچنا بہت ہی بہتر ہے۔ (رزین اور محی السنۃ فرماتے ہیں اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے ایام کی حالت میں اس کی تہ بند کے اوپر ہاتھ وغیرہ لگانا یا تہ بند کے اوپر اختلاط کرنا اور بوس و کنار کرنا جائز ہے۔ مگر ان چیزوں سے بھی پرہیز کرنے کو زیادہ بہتر اور افضل اس لیے کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان امور کی وجہ سے خواہش نفسانی بھڑک اٹھے اور کوئی آدمی جذبات سے مغلوب ہو کر جماع کر بیٹھے اس لیے اس حرام فعل سے بچنے کے لئے مناسب ہے کہ ان امور سے بھی اجتناب کیا جائے جو اس کے لیے ممد اور سبب بنتے ہیں اور جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا سوال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تہ بند کے اوپر اوپر ہاتھ لگاتے تھے اور اختلاط کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے نفس اور جذبات پر قادر تھے۔ اس کے برخلاف دوسرے لوگوں سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح اپنے جذبات اور نفس پر قابو رکھ سکیں گے
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے تو اسے نصف دینار صدقہ کر دینا چاہئے۔ (جامع ترمذی ، ابوداؤد، دارمی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی)
تشریح
ایک دینار ساڑھے چار ماشے سونے کا ہوتا ہے۔ اگر سونا روپے تولہ ہو تو ایک دینار چھ روپے کا ہوا اور آدھا دینار تین روپے کا۔ خطابی نے کہا ہے کہ اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کر لے تو اس کا کفارہ صرف استغفار ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنفیہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی حائضہ عورت سے اس وقت جماع کیا جب کہ خون جاری تھا تو اسے ایک دینار صدقہ کرنا مستحب ہے اسی طرح اگر کسی نے انقطاع خون کے بعد صحبت کی تو اسے بھی نصف دینار صدقہ کرنا مستحب ہے حضرت ابن ہمام حنفی حرمہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے یہ سمجھ کر صحبت کرے کہ یہ حلال ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور جس آدمی نے اسے حرام سمجھتے ہوئے کیا تو اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خداوند کریم کی بارگاہ میں اس حرام فعل کے صدور پر شر مسار ہو کر اس سے توبہ و بخشش کا خواست گار ہو اور ایک دینار یا نصف دینار از روئے استحباب صدقہ کر لے محدثین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مرسل ہے یا موقوف ہے کیونکہ اس حدیث کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک مرفوع متصل ہونا ثابت نہیں ہے
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایام کی حالت میں اگر حیض کا) خون سرخ رنگ کا ہو (اور اس حالت میں کوئی صحبت کرے ) تو ایک پورا دینار اور اگر خون کا رنگ زرد ہو تو آدھا دینار (صدقہ کرنا لازم ہے )۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں جماع کرنے سے جو صدقہ دیا جاتا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ جماع کے وقت اگر حیض کے خون کا رنگ سرخ ہو تو ایک دینار صدقہ کرنا ضروری ہے اور اگر حیض کے خون کا رنگ زرد ہو تو آدھا دینار صدقہ کرنا چاہئے چنانچہ جو علماء کرام فرماتے ہیں کہ ابتدائے حیض میں صحبت کرنے کی وجہ سے ایک دینار اور حالت انقطاع میں نصف دینار مستحب ہے۔ وہ اسی حدیث سے استدلال ہیں کیونکہ ابتداء میں حیض کے خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور آخر میں زرد ہو جاتا ہے
٭٭حضرت زید ابن اسلم (بھی) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ میرے لیے میری بیوی سے جب کہ وہ ایام کی حالت میں ہو تو کیا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے جسم پر اس کا تہ بند خوب مضبوط باندھ لو پھر تہبند کے اوپر تمام کام ہے۔ (یعنی ناف سے اوپر تم کو اختلاط مباح ہے اور ناف کے نیچے حرام ہے۔ (مالک اور دارمی نے اس حدیث کو بطریق ارسال روایت کیا ہے )
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں ایام سے ہو جاتی تو بستر سے اتر کر بوریہ پر آ جاتی تھی ، چنانچہ جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جاتی نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے نزدیک آتے تھے اور نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک آتی تھی ں۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
بظاہر یہ حدیث ان احادیث کے بالکل برعکس ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے ایام کی حالت میں ان کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرتے تھے چنانچہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے ایسی احادیث مروی ہیں۔ جن میں انھوں نے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان سے ایام حیض میں اختلاط کرتے تھے لہٰذا اس تعارض کو ختم کرنے کے لیے یہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث ان احادیث سے منسوخ ہے۔ یا پھر اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ یہاں نزدیک نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایام کی حالت میں جماع کے لیے ایک دوسرے کے قریب نہ آتے تھے جیسا کہ قرآن مجید کی آیت (لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ) 2۔ البقرۃ:222) میں ان کے نزدیک نہ آؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں کا مطلب یہ کیا جاتا ہے کہ ان سے جماع نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں۔ یہاں حدیث کے الفاظ فلم یَقْرُبْ میں حرف ی زبر کے ساتھ اور حرف ر پیش کے ساتھ ہے اسی طرح لَمْ تدن حتی تطھر دونوں حرف ت کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ مشکوٰۃ کے اکثر صحیح نسخوں میں اسی طرح یہ الفاظ مذکور ہیں مگر نسخہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حاشیے میں لکھا ہے کہ صحیح فَلَمْ نَقْرِبْ نون اور حرف ر کے زبر کے ساتھ ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لام کو زبر ہے۔ اسی طرح لم ندن پہلے نون کے زبر اور دوسرے نون کے پیش کے ساتھ ہے اور لفظ نطہر میں بھی نون ہے اور میرک شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ اصل ابوداؤد میں یہ الفاظ اسی طرح ہیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! میں ایک ایسی عورت ہوں جسے برابر (استحاضہ کا) خون آتا رہتا ہے۔ چنانچہ میں کسی وقت پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں ! یہ تو ایک رگ کا خون ہے ، حیض کا خون نہیں ہے لہٰذا جب تمہیں حیض آنے لگے تو تم نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہو جائے تو جسم سے خون کو دھو ڈالو (اور نہا کر) نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس مسئلے میں کہ اگر کوئی عورت مستحاضہ ہو جائے اور وہ ہر وقت استحاضہ کے خون سے ناپاک رہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ ایسی عورت ہو جو معتادہ ہو یعنی اس کے حیض کے ایام مقرر ہوں مثلاً اسے ہر ماہ پانچ روز یا چھ روز خون آتا تھا تو جب وہ مستحاضہ ہو جائے تو اسے چاہئے کہ ان دنوں کو جن میں حیض کا خون آتا تھا ایام حیض قرار دے اور ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور جب وہ دن پورے ہو جائیں تو خون کو دھو کر نہائے اور نماز وغیرہ شروع کر دے اور اگر وہ مبتد یہ ہو یعنی ایسی عورت ہو کہ پہلا ہی حیض آنے کے بعد وہ مستحاضہ ہو گئی جس کے نتیجہ میں استحاضہ کا خون برابر جاری ہو گیا تو اسے چاہئے کہ وہ حیض کی انتہائی مدت یعنی دس دن کو ایام حیض قرار دے کر ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور بعد میں نہا دھو کر نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اس صورت میں دوسرے ائمہ کے نزدیک عمل تمیز پر ہو گا یعنی اگر خون سیاہ رنگ کا ہو تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا اور اگر سیاہ رنگ کا نہ ہو تو وہ استحاضہ کا خون کہلائے گا جیسے کہ آگے والی حدیث سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کے بارے میں جو آگے آ رہی ہے اور جو حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دو طرق سے روایت کی گئی ہے ایک تو ان میں سے مرسل ہے اور دوسری مضطرب اور یہ عجیب بات ہے کہ خون کے رنگ میں امتیاز کی بات صرف عروہ کی روایت ہی میں مذکور ہے جس کا حال معلوم ہو چکا کہ ایک طریق سے تو وہ مرسل ہے اور دوسرے طریقے سے مضطرب لہٰذا اس حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد رکھنا گویا اس مسلک کو کمزور کرنا ہے۔ اور یہ حدیث جو اوپر گزری جس میں دنوں کا اعتبار ہے اور جو ہماری دلیل ہے صحیح ہے لہٰذا اس حدیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے ، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ بنت حبیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہوں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں حکم دریافت کیا تھا معتادہ تھی ں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کو چاہئے کہ وہ ہر فرض نماز کے لیے اپنی شرم گاہ دھو لیا کرے۔ اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آئے جب ہی اپنی شرم گاہ دھو لے پھر نہ دھوئے اور لنگوٹا باندھ کر جلدی جلدی وضو کر لے اس کے بعد جو خون جاری رہے گا اس میں وہ معذور ہو گی لہٰذا آخر وقت تک وہ جو چا ہے پڑھے
٭٭حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) (حضرت عروہ زبیر بن العوام کے صاحبزادے اور عظیم المرتبت تابعی ہیں ٢٢ھ میں پیدا ہوئے۔) حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ جب حیض کا خون آئے جس کی پہچان یہ ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے تو اس وقت تم نماز پڑھنے سے رک جایا کرو اور جب استحاضہ کا خون آنے لگے (یعنی خون سیاہ رنگ کے علاوہ اور کسی رنگ کا ہو) تو وضو کر کے نماز پڑھ لیا کرو کیوں کہ (یہ حیض کا نہیں بلکہ ایک رگ کا خون ہوتا ہے۔) ابوداؤ د، سنن نسائی)
تشریح
اس حدیث کے بارے میں اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث ان ائمہ کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں کہ مستحاضہ ایام حیض کے سلسلہ میں تمیز پر عمل کرے کہ اگر خون کا رنگ گاڑھا سیاہ ہو تو اسے حیض کا خون قرار دے کر ان ایام میں نماز وغیرہ ترک کر دے اور اگر رنگ گاڑھا سیاہ نہ ہو تو پھر اسے استحاضہ کا خون سمجھے اور نماز روزہ کرتی رہے چنانچہ اسی جگہ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث صحیح درجے کو نہیں پہنچی اس لیے اس کو کسی مسلک کی بنیاد قرار دینا اس مسلک کی کمزوری کو ظاہر کرنے کے مترادف ہے بہر حال۔ یہاں خون کے جو رنگ بتائے گئے ہیں وہ دائمی اور کلی طور پر نہیں ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خون کے رنگ اکثر کے اعتبار سے بیان فرمائے ہیں کیونکہ کبھی حیض کا خون سرخ وغیرہ رنگ کا بھی ہوتا ہے حضرات حنفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی وضاحت یہ کرتے ہیں کہ اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا محمول یہ ہو گا کہ یہ تمیز عادت کے موافق ہو۔ یعنی جس عورت کو استحاضہ لاحق ہو اور حیض میں جب خون کا رنگ سیاہ ہو گا تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا جب اس کی عادت کے دن گزر جائیں اور ان ہی دنوں میں خون کا رنگ سیاہ بمائل سرخی وغیرہ ہو تو اس کے بعد حیض کا خون شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی عادت کے موافق خون کا رنگ اب سیاہ نہیں رہا
٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا (اور وہ معتادہ تھی ) چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فتویٰ پوچھا (کہ اس کا کیا حکم ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ دیکھے کہ اس بیماری کے آنے سے پہلے اسے مہینے میں حیض کا خون کتنے دن رات آتا تھا (جب یہ معلوم ہو جائے تو) ہر مہینے اتنے ہی دنوں کے لئے نماز پڑھنی چھوڑ دے اور جب وہ دن گزر جائیں تو نہا لے اور (پاجامہ کے اندر) کپڑے کی لنگوٹی باندھ کر نماز پڑھ لیا کرے۔ (مالک ابوداؤد، دارمی) اور نسائی نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے۔)
تشریح
مستحاضہ کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ لنگوٹ اس طرح باندھے کہ خون حتی المقدور رک سکے اگر لنگوٹ باندھنے اور احتیاط کے باوجود بھی خون آئے تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا نماز صحیح ہو جائے گی قضاء ضروری نہیں ہو گی یہ حکم سلسل البول کے مرض کا بھی ہے
٭٭اور حضرت عدی ابن ثابت سے مروی ہے کہ ان کے والد اپنے والد سے یعنی یحییٰ ابن معین سے جو عدی کے دادا ہیں اور جن کا نام دینار ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مستحاضہ کے بارے میں فرمایا کہ جن دنوں اسے (عادت کے موافق) حیض آتا تھا اسے چاہئے کہ ان میں نماز چھوڑ دے پھر (ان دنوں کے بعد ایک مرتبہ) نہائے اور ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز بھی پڑھے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)
تشریح
یہ حدیث ضعیف ہے نیز ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں فَتَوَضَّا لِوَقْتِ کُلِّ صَلٰوۃٍ یعنی مستحاضہ ہر نماز کے وقت وضو کرے
٭٭اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت سے استحاضہ کا خون آتا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر دوں اور اس کا حکم پوچھوں چنانچہ میں اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت سے آتا ہے جس نے مجھے نماز روزے سے بھی روک رکھا ہے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے روئی کو بیان کرتا ہوں کیونکہ وہ خون کو لے جاتی ہے (یعنی خون نکلنے کی جگہ روئی رکھ لو تاکہ وہ باہر نہ نکلے ) حمنہ نے کہا کہ وہ تو (اس سے نہیں رکے گا کیونکہ) بہت زیاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (روئی رکھ کر) اس پر لگام کی طرح کپڑا (یعنی لنگوٹ) باندھ لو۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ) زیادہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر لنگوٹ کے نیچے ) ایک کپڑا رکھ لو۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ بہت ہی زیادہ ہے یہاں تک کہ خون بارش کی (دھار) کی طرح آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر تو میں تمہیں دو باتوں کا حکم کرتا ہوں ان میں سے تم جس ایک کو بھی اختیار کر لو گی دوسری کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر تمہارے اندر دونوں (پر عمل کرنے ) کی طاقت ہو گی تو تم خود ہی دانا ہو (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حمنہ سے کہا کہ یہ استحاضہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے لہٰذا تم (ہر مہینہ) چھ یا سات روز (کیونکہ غیب کا علم اللہ کو ہے ) حیض کے ایام قرار دو اور پھر (مدت مذکورہ گزر جانے کے بعد) غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ میں پاک و صاف ہو گئی ہوں تو تیس دن رات (ایام حیض سات دن قرار دینے کی شکل میں ) یا چوبیس دن رات (ایام حیض چھ دن قرار دینے کی شکل میں ) نماز پڑھتی رہا کرو، اور اسی طرح مہینے رمضان وغیرہ کے ) روزے بھی رکھتی رہا کرو چنانچہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت پر ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں تم بھی ہر مہینہ اسی طرح کرتی رہا کرو کہ چھ دن یا سات دن تو حیض کے ایام قرار دو اور بقیہ دن طہر یعنی پاکی کے ایام قرار دو) تمہارے لیے یہ کافی ہو گا۔ اور اگر تمہارے اندر اتنی طاقت ہو کہ ظہر کے وقت میں تاخیر کر کے اس میں نہا لو اور عصر میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکٹھی پڑھ لو اور پھر مغرب کا وقت آخیر کر کے نہا لو اور عشاء میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکھٹی پڑھ لو اور نماز فجر کے لیے (علیحدہ) نہا لو تو اسی طرح کر لیا کرو (جن دنوں میں نماز پڑھو ان دنوں میں نفل اور فرض جیسے بھی چاہو) روزے رکھ لیا کرو اور اگر تم میں اس کی طاقت ہو تو (اس طرح کرتی رہا کرو) پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان دونوں باتوں میں سے آخری بات مجھے بہت پسند ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)
تشریح
یوں تو استحاضہ کا خون آنا مرض کی بناء پر ہوتا ہے تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے کہ یہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بہکانے اور عبادت کے اندر خلل ڈالنے کے لیے شیطان کو موقع ملتا ہے چنانچہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکی و صفائی اور نماز وغیرہ میں فساد کا بیج بوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے استحاضہ کی حقیقت بیان فرما کر سائلہ کو دو ایسے حکم دئیے جن پر عمل کرنے سے شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حکم تو یہ دیا کہ فَتَحَیْضِی سِتَّتِ اَیَّامٍ اَوْسَبْعَۃَ َایَّامٍ یعنی چھ روز یا سات روز حیض کے ایام قرار دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہر مہینے اپنی اوپر یہی عادت کے مطابق چھ دن یا سات دن تک حیض کے احکام جاری رکھ۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائلہ معتادہ تھی اور وہ حیض کے ایام بھول گئی تھی یعنی اسے یہ یاد نہیں رہا تھا کہ حیض کا خون ہر مہینے چھ دن آتا تھا یا ساتھ دن آتا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا کہ تم اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اگر تمہارا یقین یہ کہتا ہو کہ عادت چھ دن کی تھی تو اس صورت میں چھ دن حیض کے ایام قرار دو اگر اس بات کا گمان غالب ہو کہ عادت سات دن کی تھی تو پھر سات دن حیض کے ایام قرار دو پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فی علم اللہ فرما کر اس بات کا اشارہ کر دیا کہ تم بہر حال اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اس بات کا علم بہر صورت اللہ تعالیٰ کو ہے ، کہ تمہاری عادت کیا تھی کیونکہ غیب کی باتوں کا جاننے والا تو وہی ہے۔ یا پھر ستۃ ایام اوسبعۃ ایام او اگر شک کے لیے ہو تو فی علم اللہ راوی کا قول ہو گا جو وا اللہ اعلم کے معنی میں ہو گا۔ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ستۃ ایام فرمایا ہے یا سبعہ ایام اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے آپ نے سائلہ سے جو یہ فرمایا کہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت میں ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں۔ تم بھی اسی طرح ہر مہینہ کرتی رہا کرو۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جیسے تمہاری طرح وہ عورتیں جو اپنی عادت کے دن بھول جاتی ہیں اور پھر وہ اپنے ایام ٹھہراتی ہیں تم اسی طرح اپنے ایام قرار دو یعنی اگر ان کے حیض کا وقت اول مہینہ ہے تو ایام حیض اول مہینے کو قرار دو اور اگر ان کے حیض کا وقت مہینے کے درمیان میں ہو تو تم بھی ایام حیض درمیان مہینے کو قرار دو اسی طرح اگر ان کے حیض کا وقت آخر مہینہ میں ہو تو تم آخر مہینے کو ایام حیض قرار دو بہر حال۔ پہلے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنے حیض کی مدت خواہ وہ سات دن ہو یا چھ دن پوری کر کے اس کے بعد نہا ڈالو اور پھر ہر نماز کے لیے غسل کیا کرو دوسرا حکم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیا کہ دو نمازوں کے درمیان ایسے وقت غسل کر لیا کرو کہ ایک نماز کا انتہائی وقت ہوا اور دوسری نماز کا ابتدائی وقت پھر اس کے بعد دونوں کو اکٹھی پڑھ لیا کرو اس طرح ظہر اور مغرب کو تاخیر کے ساتھ پڑھنے کے لیے جو کہا گیا ہے اس میں دو احتمال ہیں۔ اول تو اس تاخیر کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وقت ختم ہونے کے بعد نماز پڑھی جائے مثلاً ظہر اور عصر دونوں وقت کی نماز عصر ہی کے وقت میں پڑھی جائے۔ اسی طرح مغرب کی اور عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی جائی جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کہ مطابق مسافر دو نمازوں کو اس طرح جمع کر کے پڑھ سکتا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ ظہر کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے ، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عشاء کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے جیسا کہ حنفی مسلک میں مسافر کے لیے جمع بین الصلوتین کی یہی تاویل کی جاتی ہے اور اسے جمع صوری کہتے ہیں۔چنانچہ اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اسی مقصد و مراد کی وضاحت کر رہی ہے۔ پس اس دوسرے حکم کا حاصل یہ ہے کہ روزانہ ایک غسل تو ظہر و عصر کے لیے کیا جائے اور ایک غسل مغرب و عشاء کے لیے اسی طرح ایک غسل فجر کے لیے کیا جائے یہ بات سمجھ لیجئے کہ پہلے حکم کا خلاصہ کرتے ہوئے جو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے۔ اس کی صراحت حدیث میں تو نہیں ہے لیکن ارشاد گرامی ان قویت علی ان تو خرین الخ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اس عبارت سے سائلہ کا ہر نماز کے لیے غسل سے عاجز ہونا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہی مسلک حضرت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ کا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک یہ ہے کہ دو نمازیں ایک غسل کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائیں اور یہی مسلک اس حدیث سے زیادہ قریب اور مطابق ہے کیونکہ اس میں زیادہ آسانی ہے بہ نسبت اس کے کہ ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ہے کہ ھذا اعجب الامرین الی یعنی دونوں نمازوں کے لیے غسل کرنا مجھے دوسرے امر یعنی ہر نماز کے لیے غسل سے زیادہ پسند ہے۔ اور اس دوسرے حکم کو پسند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ عادت شریفہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم امت کے لیے وہی چیز پسند فرماتے تھے جو آسان اور سہل العمل ہو جہاں تک حنفیہ کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہے یا یہ کہ دونوں صورتوں میں غسل کا حکم معالجہ پر معمول ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کا حکم اس لیے دیا ہے تاکہ خون کی کثرت اور اس کی شدت ختم ہو جائے
٭٭حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو (پہلی مرتبہ) اتنی مدت سے استحاضہ آ رہا ہے اس لیے وہ (یہ خیال کر کے کہ شاید یہ بھی حیض کے حکم میں ہو) نماز نہیں پڑھ رہی۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سبحان اللہ ! یہ نماز کا چھوڑنا تو شیطانی اثر ہے؟ اسے چاہئے کہ ایک ٹب میں پانی ڈال کر بیٹھ جائے جس وقت پانی پر زردی معلوم ہونے لگے تو ظہر اور عصر کے لیے ایک غسل کرے اور مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل کر لے اور فجر کے لئے علیحدہ ایک غسل کرے (اور جب ضرورت ہو تو عصر اور عشاء کے لیے ) ان کے درمیان وضو کرے۔ (یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ مجاہد نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب فاطمہ بنت ابی حییش کو (ہر نماز کے لیے ) غسل کرنا دشوار معلوم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو (ایک غسل سے ) دو نمازیں اکٹھی پڑھنے کا حکم دیا۔)
تشریح
جب ظہر کا وقت بالکل آخر ہو جاتا ہے تو آفتاب پر قدرے زردی آ جاتی ہے بلکہ زوال کے بعد تغیر ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹب میں دیکھنے کے لیے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ زردی پانی سے آسانی سے معلوم ہو جاتی ہے وہ زردی بڑھتے بڑھتے مغرب کے قریب پوری ہو جاتی ہے اس وقت نماز پڑھنی مکروہ ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس زردی کے بارے میں فرمایا ہے یہ اس زردی کے علاوہ ہے جو عصر کے بعد ہوتی ہے اور وہ نماز کے لیے کراہت کا وقت ہوتا ہے لغت میں صلوٰۃ دعا کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صلوٰۃ چند مخصوص اقوال و افعال کو کہتے ہیں جن کی ابتداء تکبیر سے اور انتہاء سلام پر ہوتی ہے۔ صلوٰۃ کے مادہ اشتقاق کے بارے میں کئی اقوال نقل کئے جاتے ہیں نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ صلوٰۃ کا مادہ اشتقاق صلوین ہے جو سرین کی دونوں ہڈیوں کو کہتے ہیں چونکہ نماز میں ان دونوں ہڈیوں کی رکوع و سجود کے وقت زیادہ حرکت ہوتی ہے اس لیے اس مناسبت سے نماز کو صلوٰۃ کہا گیا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں صلوٰۃ مصلی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ٹیڑھی لکڑی کو آگ سے سینک کر سیدھا کرنا چنانچہ نماز کو صلوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کے مزاج میں نفس امارہ کی وجہ سے ٹیڑھا پن ہے لہٰذا جب کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے۔ تو رب قدوس کی عظمت و ہیبت کی گرمی جو اس عبادت میں انتہائی قرب خداوندی کی بناء پر حاصل ہوتی ہے اس کے ٹیڑھے پن کو ختم کر دیتی ہے گویا مصلی یعنی نمازی اس مادہ اشتقاق کی رو سے اپنے نفس امارہ کو عظمت خداوندی اور ہیبت زبانی کی تپش سے سینکنے والا ہوا۔ لہٰذا جو آدمی نماز کی حرارت سے سینکا گیا اور اس کا ٹیڑھا پن نماز کی وجہ سے دور کیا گیا تو اس کو آخرت کی آگ یعنی دوزخ سے سینکنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو جس نے دنیا میں نماز کی پابندی کی اور کوئی ایسا فعل نہ کیا جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب ہو تو اسے جہنم کی آگ میں نہ ڈالے گااس اصطلاحی تعریف کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ نماز اسلام کا وہ عظیم رکن اور ستون ہے جس کی اہمیت و عظمت کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ اثر منقول ہے کہ
جب نماز کا وقت آتا تو ان کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ لوگوں نے پوچھا کہ، امیر المومنین ! آپ کی یہ کیا حالت ہے؟فرماتے ہیں کہ اب اس امانت (یہ اشارہ ہے اس آیت قرآنی کی طرف: آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہا وَاَشْفَقْنَ مِنْہا وَحَمَلَہا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّہ كَانَ ظَلُوْماً جَہوْلاً) 33۔ الاحزاب:72)
کا وقت آگیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، پہاڑوں اور زمین پر پیش فرمایا تھا اور وہ سب اس امانت کے لینے سے ڈر گئے اور انکار کر دیا۔ (احیاء العلوم)
نماز کی تاکید اور اس کے فضائل سے قرآن مجید کے مبارک صفحات مالا مال ہیں ، نماز کو اداء کرنے اور اس کی پابندی کرنے کے لیے جس سختی سے حکم دیا گیا ہے وہ خود اس عبادت کی اہمیت و فضلیت کی دلیل ہے۔ ایمان کے بعد شریعت نے سب سے زیادہ نماز ہی پر زور دیا ہے چنانچہ قرآن کریم کی یہ چند آیتیں ملاحظہ فرمائے آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰباً مَّوْقُوْتاً) 4۔ النساء:103)
بے شک ایمان والوں پر نماز فرض ہے وقت مقرر پر۔
آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ:238)
نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز (عصر) کی پابندی کرو۔
آیت (اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ) 11۔ہود:114)
بے شک نیکیاں (یعنی نمازیں ) برائیوں کو معاف کرا دیتی ہیں۔
آیت (ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ) 29۔ العنکبوت:45)
بے شک نماز برے اور خراب کاموں سے انسان کو بچاتی ہے۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ کے ذکر کا بڑا مرتبہ بڑا ثر ہے۔
بہر حال ! نماز ایک ایسی پسند اور محبوب عبادت ہے جس کی برکتوں اور سعادتوں سے خداوند کریم نے کسی بھی نبی کی شریعت کو محروم نہیں رکھا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تک تمام رسولوں کی امت پر نماز فرض تھی۔ ہاں نماز کی کیفیت اور تعینات میں ہر امت کے لیے تغیر ہوتا رہا۔ سرکار عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پر ابتدائے رسالت میں دو وقت کی نماز فرض تھی ایک آفتاب کے نکلنے سے قبل اور ایک آفتاب ڈوبنے سے بعد۔ ہجرت سے ڈیڑھ برس پہلے جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا عظیم و افضل ترین شرف پایا تو اس مقدس اور با سعادت موقعہ پر پانچ وقت کی نماز کا عظیم و اشرف ترین تحفہ بھی عنایت فرمایا گیا۔ چنانچہ فجر، ظہر، مغرب، عشاء ان پانچ وقتوں کی نماز کا فریضہ صرف اسی امت کی امتیازی خصوصیت ہے اگلی امتوں پر صرف فجر کی نماز فرض تھی نیز کسی پر ظہر کی اور کسی پر عصر کی۔ اسلام کی تمام عبادات میں صرف نماز ہی وہ عبادت ہے جس کو سب سے افضل اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ چنانچہ اس پر اتفاق ہے کہ نماز اسلام کا رکن اعظم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام کا دارومدار اسی عبادت پر ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ہر مسلمان عاقل بالغ پر ہر روز پانچ وقت نماز پڑھنا فرض عین ہے امیر ہو یا فقیر، تندرست ہو یا مریض اور مقیم ہو یا مسافر ہر ایک کو پانچوں وقت ان آداب و شرائط اور طریقوں کے ساتھ جو اللہ اور اللہ کے رسول نے نماز کے سلسلہ میں بتائے ہیں اللہ کے دربار میں حاضری دینا اور رب قدوس کی عظمت و بڑائی اور اپنی بے کسی و لاچاری اور عجز و انکساری کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ جب میدان کار زار میں جنگ کے شعلے بھرک رہے ہوں اور عورت سب سے زیادہ اور شدید تکلیف درد زہ میں مبتلا ہو تب بھی نماز کو چھوڑنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کی ادائیگی میں دیر کر نے کی بھی اجازت نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کسی عورت کے بچے کی پیدائش کے وقت بچے کا کوئی جزو نصف سے کم اس کے خاص حصے سے باہر آگیا ہو خواہ خون نکلا ہو یا نہ نکلا ہو اس وقت بھی اس کو نماز پڑھنے کا حکم ہے اور نماز میں توقف کرنا جائز نہیں ہے
جو آدمی نماز کی فرضیت سے انکار کرے وہ کافر ہے اور اس کو ترک کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق و فاجر ہے بلکہ بعض جلیل القدر صحابہ کرام مثلاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نماز چھوڑنے والے کو کافر کہتے ہیں امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے امام شافعی و امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نماز چھوڑنے کو گردن زنی قرار دیتے ہیں۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اگرچہ اس کے کفر کے قائل نہیں تاہم ان کے نزدیک بھی نماز چھوڑنے والے کے لیے سخت تعزیر ہے مصنف نے یہاں کتاب الصلوٰۃ کے نام سے جو عنوان قائم فرمایا ہے اس کے تحت نماز سے متعلق وہ تمام احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جن سے نماز کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور نماز کے جو احکام و فضائل ہیں ان کا استنباط ہوتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں جو ان کے درمیان ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پابندی کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز پڑھے ، جمعہ کی نماز پورے آداب کے ساتھ ادا کرے اور اسی طرح رمضان کے روزے رکھے تو ان کے درمیان جو صغیرہ گناہ صادر ہوئے ہیں سب ختم ہو جاتے ہیں البتہ کبیرہ گناہ نہیں بخشے جاتے ہاں اگر اللہ چا ہے تو وہ کبیرہ گناہ بھی معاف فرما سکتا ہے یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہوتا ہے کہ جب ہر روز کی پانچوں وقت کی نمازیں ہی تمام گناہ مٹا دیتی ہیں تو پھر یہ جمعہ وغیرہ کون سے گناہ ختم کرتے ہیں؟ چنانچہ اس خلجان کو رفع کرنے کے لیے ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ان سب میں گناہوں کو مٹانے اور ختم کرنے کی صلاحیت ہے چنانچہ اگر گناہ صغیرہ ہوتے ہیں تو یہ تینوں ان کو مٹا دیتے ہیں ورنہ ان میں سے ہر ایک کے بدلے بے شمار نیکیاں لکھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے درجات میں بلندی حاصل ہوتی ہے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ تینوں صغیرہ گناہوں کے لیے کفارہ ہیں اور ان کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک کسی گناہ کے لیے کفارہ بن سکے تو دوسرا کفارہ ہو جاتا ہے مثلاً نماز میں کسی تقصیر اور نقصان کی وجہ سے اگر وہ نماز گناہوں کے لیے کفارہ نہ ہو سکے تو ان کو جمعہ ختم کر دیتا ہے اور جمعہ میں بھی کسی تقصیر کی وجہ سے کفارہ ہونے کی صلاحیت نہ رہے تو پھر رمضان ان کے لیے کفارہ ہو جاتا ہے اور اگر سب کے سب کفارہ بننے کی صلاحیت رکھیں تو یہ سب مل کر گناہوں کو اچھی طرح مٹا دیتے ہیں اور کفارے کی زیادتی کا باعث ہوتے ہیں چنانچہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کئی چراغوں کی۔ اگر کسی مکان میں ایک چراغ ہو گا تو اندھیرا تو ختم ہو جائے گا مگر روشنی کم ہو گی اور اگر چراغ زیادہ ہوں گے تو نور اور روشنی حیثیت سے زیادتی ہو گی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا، تم بتاؤ کہ جس کے دروازے کے آگے پانی کی نہر چلتی ہو اور وہ روز اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر میل کا کوئی شائبہ بھی رہے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ نہیں ! میل بالکل باقی نہیں رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (تم سمجھ لو کہ) پانچوں نمازوں کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام (صغیرہ) گناہوں کو ان نمازوں کے سبب سے اسی طرح مٹا دیتا ہے (جس طرح پانی میل کو اتار دیتا ہے )۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی (غیر) عورت کا بوسہ لے لیا پھر (احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صورت واقعہ کی خبر دی (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا حکم پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ وحی کے ذریعہ حکم خداوندی کے منتظر رہے اس اثناء میں اس آدمی نے نماز پڑھی جب ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّہارِ وَزُلَفاً مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ) 11۔ہود:114) اور نماز کو دن کے وقت اول و آخر اور رات کی چند ساعات میں پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں (یعنی نمازیں ) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ آیت کے نازل ہونے کے بعد اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ حکم میرے لیے ہے (یا پوری امت کے لیے؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (نہیں ! یہ حکم) میری امت کے لیے ہے۔ ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب اس طرح مذکور ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) میری امت میں سے جو آدمی اس آیت پر عمل کرے اس کے لیے (یہی حکم ہے ، یعنی جو آدمی بھی برائی کے بعد بھلائی کرے گا اسے یہی سعادت حاصل ہو گی کہ اس بھلائی کے نتیجے میں اس کی برائی ختم ہو جائے گی)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جس صاحب کا یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک غیر عورت کا بوسہ لے لیا تھا ان کا نام ابوالیسر تھا۔ جامع ترمذی نے ان کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ خود راوی ہیں کہ، میرے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے کے لیے آئی میں نے اس سے کہا کہ میرے گھر میں اس سے زیادہ اچھی کھجوریں رکھی ہوئی ہیں (اس لیے تم وہاں چل کر دیکھ لو) چنانچہ وہ میرے ہمراہ مکان میں آگئی (وہاں میں شیطان کے بہکانے میں آگیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر) اس اجنبی عورت سے بوس و کنار کیا۔ اس نے (میرے اس غلط اور نازیبا رویے پر مجھے تنبیہ کرتے ہوئے ) کہا کہ بندہ خدا! اللہ (کے قہر و غضب) سے ڈرو چنانچہ (خوف خدا سے میرا دل تھرا گیا اور) میں نہایت ہی شرمندہ و شرمسار ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ چنانچہ بارگاہ رسالت میں ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے آیت کریمہ میں طرفی النھار یعنی دن کے اول و آخر سے دن کا ابتدائی حصہ اور انتہائی حصہ مراد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دن کے اول یعنی ابتدائی حصہ سے فجر کی نماز اور آخری حصہ سے ظہر و عصر کی نمازیں مراد ہیں اسی طرح زلفا من الیل یعنی رات کی چند ساعتوں سے مغرب و عشاء کا وقت مراد ہے۔ اس طرح اب آیت کریمہ کا مطلب یہ ہو گا فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھا کرو، کیونکہ نیکیاں (نمازیں ) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ پر حد جاری فرمائیے راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حد کے متعلق کچھ دریافت نہیں فرمایا اور نماز کا وقت آگیا۔ اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو چکے تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے ایک ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جو مستوجب حد ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے بارے میں اللہ کا حکم نافذ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ! پڑھی ہے ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ نے تمہاری خطاء یا فرمایا کہ تمہاری حد بخش دی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھئے کہ اس آدمی کے الفاظ اَصَبْتُ حَدّاً (یعنی مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے ) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی ایسے کبیرہ گناہ مثلاً چوری وغیرہ کا ارتکاب کیا تھا جس پر حد واجب ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی وجہ سے اس کی بخشش کی خوشخبری سنا دی لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ نماز کی وجہ سے کبیرہ گناہ بھی بخش دئیے جاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ صغیرہ سرزد ہو گیا تھا جو حقیقت میں تو ایسا نہیں تھا جس پر حد جاری ہوتی لیکن چونکہ وہ آدمی صحابیت جیسے مرتبہ پر فائز تھے جہاں معمولی سا گناہ بھی خوف خداوندی سے دل کو لرزاں کر دیتا ہے اور ایک ہلکی سی معصیت بھی قلب و دماغ کے ہر گوشہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اس لیے انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ مجھ سے ایک فعل سرزد ہو گیا ہے۔ جس پر از روئے شریعت حد جاری ہو جائے گی لہٰذا انہوں نے بارگاہ رسالت میں آ کر اس طرح ذکر کیا جس سے بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ ان سے واقعی کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے جو سخت ترین سزا یعنی حد کا مستوجب ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ حد سے ان کی مراد تعزیر تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے اس کے گناہ کی حقیقت اس لیے دریافت نہیں فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی معلوم ہو گیا تھا کہ اس آدمی نے کس قسم کا گناہ کیا ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اس گناہ کی بخشش کی جو خوشخبری دی تھی اپنی طرف سے نہیں دی تھی بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اس کا گناہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس پر حد جاری کی جائے بلکہ ایسا گناہ ہے جو نماز کے ذریعے معاف ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے یہ خوشخبری سنا دی
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنے (یعنی وقت مکروہ میں نماز نہ پڑھی جائے ) میں نے کہا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا میں نے عرض کیا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی باتیں بیان فرمائی تھی ں اگر میں کچھ زیادہ پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھی زیادہ بیان فرماتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اتنی بات معلوم ہونی چاہئے کہ بہترین و افضل اعمال کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں ، چنانچہ اس حدیث سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب اعمال یہ تین ہیں مگر دوسری حدیثوں میں مذکور ہے کہ اسلام کے بہترین و افضل اعمال یہ ہیں کہ (غریبوں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے۔ اسلام کی تبلیغ کی جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ آرام سے بستروں میں پڑے خواب شیریں سے ہمکنار ہوں اللہ کی عبادت کی جائے اور نماز پڑھی جائے اسی طرح بعض احادیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سب سے بہترین و افضل عمل یہ ہے کہ لوگ تمہاری زبان اور تمہارے ہاتھ (کی ایذا) سے محفوظ رہیں۔ نیز بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افضل ترین عمل اللہ کا ذکر کرنا ہے۔ بہر حال اسی طرح دوسری احادیث میں دیگر اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ اعمال بہترین و افضل ہیں تو۔ اب ان تمام احادیث میں تطبیق اسی طرح ہو گی کہ یہ کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر ایک کی رضا و رغبت اور اس کے مزاج کے مطابق جواب دیا ہے یعنی جس نے بہترین عمل کے بارے میں سوال کیا اس کو وہی عمل بتایا جسے اس کے لائق سمجھا اور جو اس کی فطرت و مزاج اور اس کے حال کے مناسب معلوم ہوا۔ چنانچہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم اکثر کسی خاص چیز کے بارے میں کسی وقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ فلاں چیز تو سب سے اچھی ہے حالانکہ دل کے اندر اس کی اچھائی و فضیلت کے بارے میں یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ چیز ہمہ وقت اور ہر حال میں نیز ہر ایک کے لیے سب سے اچھی اور افضل ہو گی بلکہ دل میں یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ چیز اس خاص وقت میں اچھی اور بہتر ہے نہ کہ ہمہ وقت مثلاً خاموشی اور سکوت کا معاملہ ہے کہ جہان مناسب ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ سکوت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے یا خاموشی سے افضل کوئی چیز نہیں ہے غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر ایک عمل کو حال اور مقام کے مناسب افضل فرمایا ہے۔ مثلاً ابتدائے اسلام میں جہاد ہی لوگوں کے حال مناسب تھا اس لیے جہاد کو فرمایا کہ یہ سب سے بہتر عمل ہے یا اسی طرح کسی آدمی کو یا کسی جماعت کو بھوکا ننگا دیکھا تو ان کی امداد و اعانت کی خاطر صدقہ خیرات کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی اور فرمایا کہ صدقہ افضل ترین عمل ہے یا نماز کو باری تعالیٰ کے قرب حقیقی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے سب سے اچھا اور بہتر عمل قرار دیا۔ بہر حال۔ ان میں سے ہر ایک عمل کو افضل ترین عمل کہنے کی وجوہ اور حیثیات مختلف ہیں۔ ہر ایک کی وجہ اور حیثیت اپنی اپنی جگہ دوسرے سے افضل و اعلیٰ ہے اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز کا چھوڑنا بندہ مومن اور کفر کے درمیان (کی دیوار کو گرا دیتا) ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یہاں لفظ بین کا متعلق محذوف ہے یعنی اس حدیث میں یہ عبارت مقدر ہے کہ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ وُصْلَۃٌ بِیْنَ الْعَبْدِ الَمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ جس کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ مومن اور کفر کے درمیان نماز بمنزلہ دیوار کے ہے کہ بندہ اس کی وجہ سے کفر تک نہیں پہنچ سکتا مگر جب نماز ترک کر دی گئی تو گویا درمیان کی دیوار اٹھ گئی لہٰذا نماز چھوڑنا اس بات کا سبب ہو گا کہ نماز چھوڑنے والا مسلمان کفر تک پہنچ جائے گابہر حال۔ اس حدیث میں نماز چھوڑنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ نماز کا چھوڑنے والا ممکن ہے کہ کافر ہو جائے کیونکہ جب اس نے اسلام و کفر کے درمیان کی دیوار کو ختم کر دیا گویا وہ کفر کی حد تک پہنچ گیا ہے اور جب وہ کفر کی حد تک پہنچ گیا تو ہو سکتا ہے کہ یہی ترک نماز اس کو فسق و فجور اور اللہ سے بغاوت و سرکشی میں اس حد تک دلیر کر دے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل ہو جائے یہ شروع میں بتایا جا چکا ہے کہ تارک نماز کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں چنانچہ اصحاب ظواہر تو یہ کہتے ہیں کہ تارک صلوۃ کافر ہو جاتا ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز چھوڑنے والا اگرچہ کافر نہیں ہوتا مگر وہ اس سرکشی و طغیانی کے پیش نظر اس قابل ہے کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جو آدمی نماز چھوڑ دے اس کو اس وقت تک جب تک کہ نماز نہ پڑھے مارنا اور قید خانہ میں ڈال دینا واجب ہے حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس آدمی نے ان پانچوں نمازوں کے لیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے (فرائض و مستحبات کی ادائیگی کے ساتھ) اچھی طرح وضو کیا اور ان کو وقت پر پڑھا نیز ان میں رکوع و خشوع کیا (یعنی نمازیں حضوری قلب کے ساتھ پڑھیں ) تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر ذمہ (یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ) یہ ہے کہ وہ اس کے (صغیرہ) گناہ بخشش دے گا اور جس آدمی نے ایسا نہ کیا (یعنی اس نے مذکورہ بالا طریقے سے یا مطلق نماز نہ پڑھی) تو اللہ تعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں ہے چا ہے تو بخش دے چا ہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، مالک، سنن نسائی)
تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافر نہیں ہوتا بلکہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کے بارے میں بھی یہ سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ کو عذاب دے بلکہ اس کا دارومدار سراسر اس کی مرضی پر ہے کہ اگر وہ چا ہے تو عذاب میں مبتلا کرے اور اگر چا ہے تو اپنے فضل و کرم سے اسے بخشش دے اسی طرح یہ بھی جان لیجئے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ اللہ کے حکم سے اسے جس مدت کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کے بعد وہ اپنی سزا پوری کر کے جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہو جائے گا۔ چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے اور حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (مسلمانو) پانچوں وقت اپنی نمازیں پڑھو اپنے (رمضان کے مہینے ) کے روزے رکھو! اپنے مال کی زکوٰۃ دو! اور اپنے سردار کی (جب تک کہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ کرے ) اطاعت کرو! (اگر ایسا کرو گے تو) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے (یعنی بہشت میں بلند درجات کے حقدار بنو گے )۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی)
تشریح
سردار سے مراد بادشاہ، امیر اور حاکم ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بادشاہ اور امراء کے احکام کی تابعداری اور ان کے فرمان کی اطاعت کریں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری کا یہ حکم اسی وقت تک رہے گا۔ جب تک کہ ان کا کوئی حکم حدود و شریعت سے باہر اور خداوند کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے خلاف نہ ہو، اگر ایسا ہو کہ امراء اور سلاطین حدود شریعت سے تجاوز کر کے غلط احکام دیں یا ایسے فرمان نافذ کریں جو قرآن و سنت کے خلاف ہوں تو پھر نہ صرف یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری نہیں ہے بلکہ ایسے سلاطین و امراء کو راہ راست پر لانے اور ان کو قرآن و سنت کو بتائے ہوئے راستوں پر چلنے اور ملک و قوم کو چلانے کے لیے مجبور کیا جائے یا پھر سردار سے مراد علماء ہیں کہ قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کے علم کے حامل جب مسلمانوں کو کوئی شرعی حکم دیں اور انہیں دین و شریعت کی طرف بلائیں تو ان کی پیروی ہر ایک مسلمان پر ضروری اور لازم ہے اسی طرح سردار سے ہر وہ آدمی مراد ہو سکتا ہے جو کسی کام کے لیے حاکم اور کار ساز مقرر کیا گیا ہو یعنی اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو اپنے کسی معاملہ میں حاکم اور راہبر مقرر کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حاکم یا راہبر کے مشوروں کو مانے اور وہ جو صحیح حکم دے اس کی پابندی کرے اور حضرت عمرو ابن شعیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس برس کے ہو جائیں (تو نماز چھوڑ نے پر) انہیں مارو۔ نیز ان کے بسترے علیحدہ کر دو (ابوداؤد) اسی طرح السنہ میں عمرو سے اور مصابیح میں سبرہ ابن معبد سے یہ روایت نقل کی گئی ہے۔
تشریح
اس حدیث کے ذریعے مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب ان کے بچے سات برس کے ہو جائیں تو اسی وقت سے ان کو نماز کی تاکید شروع کر دی جائے تاکہ انہیں نماز کی عادت کم سنی سے ہی ہو جائے اور جب وہ بالغ ہونے کے قریب (یعنی دس سال کی عمر میں ) پہنچ جائیں تو اگر وہ کہنے سننے کے باوجود نماز نہ پڑھیں تو انہیں تاکیداً مار مار کر نماز پڑھانی چاہئے۔ نیز جس طرح ان عمروں میں نماز کی تاکید کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح انہیں نماز کی شرائط وغیرہ بھی سکھانی چاہئے تاکہ انہیں ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو جائے حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جب بچے اس عمر میں پہنچ جائیں تو انہیں علیحدہ علیحدہ سلانا چاہئے یعنی اگر دو بھائی بہن یا دو اجنبی لڑکا لڑکی ایک ہی بستر میں سوتے ہوں تو اس عمر میں ان کے بستر الگ کر دینے چاہیں تاکہ وہ اکٹھے نہ سو سکیں اور حضرت بریدہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے لہذا جس نے نماز چھوڑی وہ کافر ہو گیا۔ (احمد۔ترمذی نسائی و ابن ماجہ)
تشریح
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور منافقین کے درمیان امن و امان کا جو معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہم انہیں قتل نہیں کرتے ، اور اسلام کے احکام ان پر نافذ نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے ، جماعت میں حاضر ہونے اور اسلام کے دوسرے ظاہری احکام کی تابعداری کرنے کے سبب سے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا جس نے نماز کو جو تمام عبادتوں میں سے افضل ترین ہے ترک کر دیا گویا کہ وہ کافر کے برابر ہو گیا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نماز ترک کر کے کفر کو ظاہر نہ کریں۔ اس طرح اس جملے فَقَدْ کَفَرَ کے معنی یہ ہوئے کہ (جس نے نماز چھوڑ دی) اس نے کفر کو ظاہر کر دیا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مدینہ کے کنارے میں نے ایک عورت کو گلے لگا کر سوائے صحبت کے اور سب کچھ کر لیا ہے ، (یعنی صحبت تو نہیں کی لیکن بوس و کنار ہو گیا ہے اس لیے ) میں حاضر ہو گیا ہوں جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں میرے بارے میں حکم فرمائیں۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے لیے جو سزا بھی تجویز فرمائیں گے مجھے منظور ہو گی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (جو اس وقت مجلس نبوی میں حاضر تھے یہ سن کر) فرمایا اللہ نے تو تمہارے عیب کی پردہ پوشی فرمائی تھی اگر تم بھی اپنے عیب کو چھپا لیتے تو (اچھا تھا) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اللہ کے حکم کے انتظار میں ) اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ چنانچہ وہ آدمی کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلانے کے لیے ایک آدمی بھیجا جو اسے بلا لایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّہارِ وَزُلَفاً مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ) 11۔ہود:114) دن کے اول و آخر اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور یہ نصیحت، نصیحت ماننے والوں کے لیے ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! کیا یہ حکم خاص طور پر اسی کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں : سب لوگوں کے لیے یہی حکم ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اسی باب کی پہلی فصل کی تیسری حدیث میں بھی اس آیت کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ دن کے اول سے فجر اور آخر سے ظہر و عصر مراد ہیں اسی طرح، رات کی چند ساعتوں سے مراد مغرب و عشاء ہیں حضرت ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ پہلی فصل میں اسی طرح کی جو حدیث نمبر تین گزری ہے وہ تو ایک آدمی (ابوالیسر) کا واقعہ ہے اور یہ حدیث جو یہاں ذکر کی گئی ہے یہ کسی دوسرے صاحب کا واقعہ ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ آیت بھی اس آدمی کے لیے دوسری مرتبہ نازل ہوئی ہو۔ مگر محققین نے لکھا ہے کہ تعدد واقعہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیت بھی مکرر نازل ہوئی ہو اور نہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی آیت جو پہلے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی بطور سند کے اس آدمی کے سامنے بھی تلاوت فرما دی اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جاڑے کے موسم میں جبکہ پت جھڑ کا وقت تھا باہر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک درخت کی دو شاخیں پکڑیں۔ راوی فرماتے ہیں کہ جس طرح حسب معمول پت جھڑ کے موسم میں کسی شاخ کو ہلانے سے پتے بہت زیادہ گرنے لگتے ہیں اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شاخیں پکڑیں تو ان سے پتے جھڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ابو ذر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب بندہ مومن خالصاً اللہ کیلئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ بھی ایسے ہی جھڑتے ہیں ، جس طرح اس درخت سے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
خالصاً اللہ تعالیٰ کیلئے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کسی کو دکھلانے یا کسی دوسری غرض و مقصد کے لیے نہ پڑھی جائے بلکہ محض اپنے پروردگار کی خوشنودی اور فرمانبرداری اور اس کی رضا کی طلب کے لیے پڑھی جائے اور حضرت زید ابن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس آدمی نے دو رکعت نماز (غافل ہو کر نہیں بلکہ اس درجہ حضوری قلب کے ساتھ) پڑھیں کہ ان میں سہو نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دے گا۔ (مسند احمد بن حنبل)
اور حضرت عبداللہ ابن عمر و ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ذکر کیا (یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے ) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہو گی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی اور جو آدمی نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لیے نماز نہ (ایمان کے ) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی، نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی بلکہ ایسا آدمی قیامت کے روز قارون، فرعون ، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہو گا۔ (مسند احمد بن حنبل، دارمی، بیہقی)
تشریح
نماز کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ نماز باقاعدگی اور پوری پابندی سے پڑھی جائے۔ کبھی ناغہ نہ ہو، نیز نماز کے تمام فرائض واجبات سنن اور مستحبات اداء کیے جائیں ، اس طرح جب کوئی نماز پڑھے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے نماز کی محافظت کی اور یہ مذکورہ ثواب کا حقدار ہو گا اور جو آدمی اس کے برعکس عمل اختیار کرے گا کہ نہ تو نماز باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ پڑھے اور نہ نماز کے فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کی رعایت کرے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ان چیزوں کو ترک کرنے کی وجہ سے مذکورہ عذاب کا مستحق ہو گا لہٰذا غور کرنا چاہئے کہ نماز کی محافظت اور اس پر دوام اختیار کرنے کی کس قدر تاکید ہے اس لیے اس میں کوتاہی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اپنی بربادی کو دعوت دینا ہے۔ نیز یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ جب نماز کی محافظت نہ کرنے پر اس قدر و عید ہے کہ ایسے آدمی کا حشر مذکورہ لوگوں جیسے لعین و بد بخت کفار کے ساتھ ہونے کی خبر دی جا رہی ہے تو اس آدمی کا کیا حال ہو گا جو نماز ترک کرتا ہے اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا قارون و فرعون جیسے مشہور لعین اور بد بختوں کو تو سب ہی جانتے ہیں۔ ہامان فرعون کا وزیر تھا ابی بن خلف وہ مشہور مشرک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جانی دشمن تھا اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ احد میں اپنے دست مبارک سے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم رسید کیا تھا چنانچہ اسی وجہ سے اس لعین کو امت کے بد بختوں میں سے سب سے بڑا بد بخت کہا جاتا ہے آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی محافظت کرے گا یعنی پورے خلوص اور تمام فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کے ساتھ نماز ہمیشہ پابندی سے پڑھتا رہے گا تو قیامت کو وہ انبیاء کرام ، صدیقین، شہداء اور صلحاء کے ہمراہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کی پابندی اور پورے ذوق و شوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب اس سعادت سے بہرہ ور ہو سکیں اور حضرت عبد اللہ شقیق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال میں صرف نماز ہی ایسا عمل تھا جس کے چھوڑنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محترم صحابہ کرام کفر سمجھتے تھے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
یہاں جو حصر کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سوائے نماز کے کسی دوسرے عمل کے چھوڑنے کو کفر نہ سمجھتے تھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک نہ صرف یہ کہ نماز چھوڑنا بڑے سخت گناہ کی بات تھی بلکہ وہ اسے کفر کے بہت قریب سمجھتے تھے اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے مجھے یہ وصیت (فرمائی تھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا خواہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تمہیں جلا کیوں نہ دیا جائے اور جان بوجھ کر فرض نماز نہ چھوڑنا جس نے قصداً نماز چھوڑ دی تو اس سے ذمہ بری ہو گیا نیز کبھی شراب نہ پینا کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو افضل بات کی تعلیم دی کہ اگر تم ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیے جاؤ تو شرک نہ کرنا، ورنہ تو جبر کی حالت میں جب کہ گردن تلوار کی زد میں ہو تو دل میں ایمان و ایقان کی پوری دولت لیے زبان سے کلمہ کفر ادا کر لینا جائز ہے۔ ذمہ کے بری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے قصداً نماز ترک کر دی تو گویا اس نے اسلام کے ایک بڑے اور بنیادی قانون و حکم سے بغاوت کی جس کی بناء پر اسلام کا عہد اس سے ختم ہو گیا اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا۔ اس مطلب کی وضاحت کرنے کے بعد کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد از راہ تغلیظ یعنی نماز چھوڑنے والے کے لیے انتہائی تہدید اور تنبیہ ہے یا پھر (اس سے ذمہ بری ہوا) کی مراد یہ ہے کہ ایمان لانے اور اسلام کی اطاعت قبول کرنے کی وجہ سے اسلام نے اس کے جان و مال کی حفاظت کی جو ضمانت لی تھی اور اسلامی اسٹیٹ میں اسے جو امان حاصل تھا اب وہ نماز کے ترک کی وجہ سے اسلام کی امان اور ضمانت سے نکل گیا۔ شراب کو تمام برائیوں کی کنجی اس لے فرمایا گیا ہے کہ شراب بنیادی طور پر انسان کے دل و دماغ اور ذہن و فکر کو بالکل ماؤف کر دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شراب پینے والا آدمی جب نشہ کی وجہ سے اپنی عقل سے ہاتھ دھو لیتا ہے تو دنیا بھر کی برائیاں اس سے سرزد ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو ام الخبائث کہا گیا ہے