اس باب میں ان دعاؤں پر مشتمل احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں اکثر غیر پسندیدہ، غیر شرعی اور نقصان دہ چیزوں اور شیطان کے مکر و فریب سے اللہ رب العزت کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کلام اللہ پڑھنے سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا افضل ہے یا استعیذ باللہ اکثر حضرات کہتے ہیں کہ استعیذ باللہ پڑھنا افضل ہے کیونکہ قرآن کریم سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے آیت (واذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ)۔ تاہم احادیث و آثار سے چونکہ اعوذ باللہ پڑھنا بھی ثابت ہے اس لئے اس کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بلاء کی مشقت سے بد بختی کے پہنچنے سے، بری تقدیر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے اللہ کی پناہ مانگو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
بلاء اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان امتحان و آزمائش کے سخت کوش مرحلہ سے دوچار اور فتنہ دین و دنیا کی کٹھنائیوں اور دشواریوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ جہد کے معنی ہیں مشقت و غایت لہٰذا جہد البلاء وبلاء کی مشقت سے مراد دین و دنیا کی وہ مصیبتیں ہیں جن میں انسان مبتلا ہوتا ہے اور وہ نہ صرف ان کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتا بلکہ ان مصیبتوں کے آنے پر بھی صبر نہیں کر سکتا۔
بری تقدیر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے حق میں بری اور ناپسندیدہ ہو، اسی طرح دشمن کی خوشی سے پناہ مانگنے سے مراد یہ ہے کہ دین و دنیا کی کسی بھی ایسی مصیبت میں مبتلا نہ ہونے پائے جس سے دشمن خوش ہوتا ہو۔ بہرکیف اس حدیث میں جن چیزوں سے پناہ مانگنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے اس میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث میں ایک ایسی جامع دعا کی طرف راہنمائی کی گئی ہے جو تمام دینی اور دنیوی مقاصد و مطالب پر حاوی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الہم والحزن والعجز والکسل والجبن والبخل وضلع الدین وغلبۃ الرجال)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ فکر سے، غم سے، عاجز ہونے سے، سستی سے، نامردی سے، بخل سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں (یعنی ظالموں) کے غلبہ سے۔ (بخاری و مسلم)
٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکسل والہرم والمغرم والمأثم اللہم انی اعوذ بک من عذاب النار وفتنۃ النار وفتنۃ القبر وعذاب القبر ومن شر فتنۃ الغنی ومن شر فتنۃ الفقر ومن شر فتنۃ المسیح الدجال اللہم اغسل خطایای بماء الثلج والبرد ونق قلبی کما ینقی الثوب الابیض من الدنس وباعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، طاعت میں سستی سے، بڑھاپے کے سبب سے مخبوط الحواس اور اعضاء کے ناکارہ ہونے سے تاوان یا قرض سے اور گناہ سے، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے اور عذاب کے فتنہ سے۔ قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے، دولت کے فتنہ سے اور برائی سے، فقر کے فتنہ کی برائی سے اور کانے دجال کے فتنہ سے اے اللہ۔ برف اور اولے کے پانی سے میرے گناہ دھو دے (یعنی طرح طرح مغفرتوں کے ذریعہ مجھے گناہوں سے پاک کر دے جس طرح برف اور اولے کا پانی میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور میرے دل کو برے اخلاق اور برے خیالات سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا پانی سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح بعد پیدا کر دے جس طرح تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان بعد پیدا کیا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہو جو دوزخی ہیں یا کفار۔
اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ عذاب الٰہی میں صرف کفار ہی مبتلا ہوں گے چنانچہ موحدین جو اپنی بد عملیوں کی سزا آخرت میں پائیں گے اسے عذاب نہیں کہا جاتا بلکہ وہ تادیب ہے یعنی اگر ان کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور ایسا عذاب کے لئے نہیں بلکہ تادیب یعنی ان کے گناہوں کو دھونے اور ختم کرنے کے لئے ہو گا۔
آگ کے فتنہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آگ اور قبر کے عذاب کا باعث بنتی ہیں یعنی گناہ و معصیت۔
قبر کے فتنہ سے مراد ہے منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیتے وقت حواس باختہ ہونا۔
قبر کے عذاب سے مراد ہے، فرشتوں کا، ان لوگوں کو لوہے کے گرزوں سے مارنا اور ان کا عذاب میں مبتلا ہونا۔ جو منکر نکیر کے سوالات کا جواب نہ دے سکیں گے۔ قبر سے مراد ہے عالم برزخ چاہے وہ قبر ہو یا کچھ اور ہو دولت کے فتنہ سے مراد ہے تکبر و سرکشی کرنا مال و زر حرام ذرائع سے حاصل کرنا اور ان کو گناہ کی جگہ خرچ کرنا اور مال و جاہ پر بے جا فخر کرنا اسی طرح فخر کے فتنے سے مراد ہے۔ دولت مندوں پر حسد کرنا، ان کے مال و زر کی ہوس اور طمع رکھنا، اس چیز پر راضی نہ ہونا جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دی ہے یعنی فقر اور اسی قسم کی وہ تمام چیزیں جو صبر و توکل اور قناعت کے منافی ہیں۔
اب آخر میں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لیجئے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ان تمام چیزوں سے پناہ مانگنا اس کے معنی میں نہیں تھا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان چیزوں میں مبتلا تھے، یا ان میں مبتلا ہونے کا خوف تھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معصوم تھے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دائمی طور پر ان تمام چیزوں سے امن و حفاظت میں رکھا تھا بلکہ ان چیزوں سے پناہ مانگنا تعلیم امت کے طور پر تھا کہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں اور ان سے بچیں۔
٭٭ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل والجبن والبخل والھرم وعذاب القبر اللہم اٰت نفسی تقواہا وزکہا انت خیر من زکھا انت ولیہا ومولاہا اللہم انی اعوذبک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب لہا)۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں عاجزی یعنی طاعت پر قادر نہ ہو کر اچھے کاموں میں سستی سے، نامردی سے، بخل سے، بڑھاپے کے سبب اعضاء کے ناکارہ اور حواس باختہ ہونے سے اور قبر کے عذاب یعنی قبر کی تنگی، وہاں کی وحشت گرزوں کے مارے جانے سے، بچھوؤں کے ڈنک مارنے، سانپوں کے ڈسنے اور اسی قسم کی دوسری ہولناکیوں سے اے اللہ میرے نفس کو اس کی پرہیزگاری عطا کر اور اس کو پاک کر، کیونکہ اس کو پاک کرنے والوں میں تیری ہی ذات بہترین ہے تو ہی اس کا کارساز اور مالک ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اس دل سے جو نہ ڈرے (یا اسے ذکر اللہ سے تسکین نہ) اس نفس سے جو سیر نہ ہو (یعنی حریص ہو اللہ نے جو کچھ دیا ہے اس پر قناعت نہ کرے اور اس دعا سے جو مرتبہ قبولیت کو نہ پہنچے۔ (مسلم)
تشریح
غیر نفع بخش علم سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جس پر عمل نہ کروں جو دوسروں کو نہ سکھاؤں اور جو اخلاق و افعال کو نہ سدھارے، یا پھر اس سے وہ علم مراد ہے جو دین کے لئے ضروری نہ ہو اس طرح وہ علم بھی مراد ہو سکتا ہے جس کو حاصل کرنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔
حضرت ابو طالب مکی فرماتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شرک، نفاق اور برے افعال سے پناہ مانگی ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم کی (اس ایک قسم سے پناہ مانگی جو اسلامی عقائد و اعمال کے نقطہ نظر سے مضر ہے اور جو انسان کو تقویٰ اور خوف آخرت کی راہ پر لگانے کی بجائے دنیا کی حرص و محبت کے راستہ پر لے جائے چنانچہ جس علم کے ساتھ تقویٰ اور خوف آخرت نہ ہو وہ دنیا کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اور دنیاداری کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔
٭٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہوتی تھی۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من زوال نعمتک وتحول عافیتک وفجاءۃ نعمتک وجمیع سخطک)۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کے جاتے رہنے سے اور نعمت سے مراد ایمان و اسلام و نیکیاں اور عرفان ہے تیری عافیت کی تبدیلی سے مثلاً صحت کے بدلے بیمار اور غنا کے بدلے محتاجگی ہو جانے سے تیرے ناگہانی عذاب سے اور تمام غصوں سے۔ (مسلم)
٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے دعا (اللہم انی اعوذبک من شر ما عملت ومن شر مالم اعمل)۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس کام کی برائی سے جو میں نے کیا اور اس کام کی برائی سے جو میں نے نہیں کیا۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ میں نے جو برے کام کئے ہیں ان سے بھی پناہ مانگتا ہوں بایں معنی کہ ان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤں اور وہ برے کام معاف فرما دئیے جائیں اور جو کام نہیں کئے ہیں ان سے بھی پناہ مانگتا ہوں بایں معنی کہ آئندہ ایسا کوئی کام نہ کرو جو تیری ناراضگی و خوشی کا باعث ہو یا یہ کہ برے کاموں کے ترک کو اپنا کمال نہ سمجھوں بلکہ اسے صرف تیرا فضل جانوں۔
٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا کرتے تھے۔ اللہم لک اسلمت وبک اٰمنت وعلیک توکلت والیک انبت وبک خاصمت اللہم انی اعوذ بعزتک لاالہ الا انت من ان تضلنی انت الحی الذی لا یموت والجن والانس یموتون)۔ اے اللہ میں نے تیری اطاعت کی، میں تجھی پر ایمان لایا، میں نے تجھی پر توکل کیا، میں نے تیری ہی طرف رجوع کیا (یعنی گناہوں کو چھوڑ کر تیری ہی طرف متوجہ ہوا، اور میں تیری مدد سے کافروں سے لڑتا ہوں۔ اے اللہ میں تیری عزت کے واسطے سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں، اس سے کہ گمراہ کرے تو مجھ کو تو زندہ ہے ایسا کہ تو نہیں مرے گا اور تمام جن انسان مریں گے۔ (بخاری)
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یوں دعا مانگتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الاربع من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعاء لا یسمع)۔ اے اللہ میں چار چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع نہ دے اس دل سے جو عاجزی نہ کرے اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔ (احمد، ابوداؤد، و ابن ماجہ) نیز اس روایت کو ترمذی نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت کیا ہے۔
٭٭ ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ (١) نامردی سے۔ (٢) بخل سے (٣) عمر کی برائی سے یعنی عمر کی اتنی زیادتی سے کہ آخر میں قویٰ اور حواس میں فرق آ جائے اور عبادت و طاعت کی قوت نہ رہے۔ (٤) سینہ کے فتنہ سے یعنی اس چیز سے کہ سینہ کے اندر برے اخلاق اور برے عقائد جاگزیں ہوں یا حق بات قبول نہ ہو اور بلاؤں کا متحمل نہ ہو (٥) قبر کے عذاب سے۔ (ابوداؤد، نسائی)
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا کرتے۔ (اللہم انی اعوذبک من الفقر والقلۃ والذلۃ واعوذبک من ان اظلم او اظلم)۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، محتاجگی سے، قلت سے، ذلت سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے۔ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
محتاجگی سے مراد دل کی محتاجگی ہے یعنی دل مال و زر جمع کرنے کا حریص ہو، یا اس سے مراد مال کی محتاجگی (افلاس ہے کہ اس کی وجہ سے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محتاجگی کے فتنہ سے پناہ مانگی خواہ وہ دل کی محتاجگی ہو یا مال کی۔
قلت سے مراد نیکیوں کی قلت (کمی) ہے مال و زر کی قلت مراد نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو خود مال و زر میں قلت و کمی رکھتے تھے۔ اور مال کی کثرت و زیادتی کو ناپسند فرماتے تھے، یا پھر قلت سے مال کی اتنی قلت مراد ہے کہ وہ قوت لایموت (بقدر بقاء زندگی غذا کے لئے بھی کافی نہ ہو جس کی وجہ سے عبادات میں کوتاہی اور نقصان واقع ہو، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں صبر کی کمی مراد ہے۔
ذلت سے مراد گناہوں کے نتیجہ میں ملنے والی ذلت ہے گنہگار اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلیل ہوتا ہے یا پھر مالداروں کی مفلسی یا غربت کی بناء پر ذلیل ہونا مراد ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا کرتے۔ (اللہم انی اعوذبک من الشقاق والنفاق وسوء الاخلاق) اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اختلاف سے، نفاق سے، اور برے اخلاق سے۔ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
خلاف سے مراد ہے حق کی مخالفت، اور بعض حضرات نے کہا کہ آپس میں اختلاف و عداوت مراد ہے۔
نفاق سے نفاق کی تمام قسمیں مراد ہیں خواہ عقیدہ میں نفاق ہو یا عمل میں۔ مثلاً دل میں کفر و شرک کی تاریکی رکھنا اور زبان سے اسلام کا اظہار کرنا، کسی سے زبان سے تو کچھ کہنا اور دل میں کچھ رکھنا، بہت زیادہ جھوٹ بولنا، امانت میں خیانت کرنا اور وعدہ کے خلاف کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا فرماتے تھے۔ (اللہم انی اعوزبک من الجوع فانہ بئس الضجیع واعوذبک من الخیانۃ فانہا بئست البطانۃ)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کہ وہ بدترین ہم خواب ہے اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کہ وہ باطن کی بد ترین خصلت ہے۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
تشریح
بھوک سے اس لئے پناہ مانگی کہ اس کی وجہ سے انسان کے بد، قوی اور حواس میں کمزوری ہو جاتی ہے اور اس کا اثر عبادت میں نقصان اور حضوری میں خلل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے لہٰذا بد ترین بھوک وہی ہے جو نقصان و خلل کا باعث بنے اور اکثر ہو جب کہ وہ بھوک جو ریاضت و مجاہدہ کے مقصد سے بطریق اعتدال اور اپنی حالت کے موافق ہو بدترین نہیں ہے۔ بلکہ وہ باطن کی صفائی دل کی نورانیت اور بیماریوں سے بدن کی صحت و سلامتی کا سبب ہے۔
خیانت سے مراد ہے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ارتکاب کرنا اور لوگوں کے اموال اور ان کے رازوں میں بے ایمانی و خیانت کرنا چنانچہ قرآن کریم کی یہ آیت اسی پر دلالت کرتی ہے۔ آیت (یٰٓاَیھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ) 8۔ الانفال:27)۔ اے ایمان والو! نافرمانی کے ذریعہ اللہ اور رسول کے حق میں خیانت نہ کرو اور نہ اپنے اموال میں خیانت کرو۔
٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگتے تھے (اللہم انی اعوذبک من البرص والجذام والجنون ومن سییء الاسقام)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ سے، جذام سے دیوانگی سے، اور بری بیماریوں سے، (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
سییء الاسقام (بری بیماریوں) کا ذکر تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ہے یعنی پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاص طور پر چند بری بیماریوں کا نام لیتے ہوئے پناہ مانگی۔ پھر عام طور پر ہر بری بیماری مثلاً استسقاء اور دق وغیرہ سے پناہ مانگی۔ ان بیماریوں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پناہ اس لئے مانگی کہ جس شخص کو ان میں سے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے اکثر لوگ اس سے گھبراتے ہیں اور اس کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ نیز برص اور کوڑھ تو ایسے مرض ہیں جن کی وجہ سے مریض کا جسم بد ہیئتی اور بد نمائی کا شکار ہو جاتا ہے اس طرح وہ جسم کے معاملہ میں اپنے ہی جیسے انسانوں کی صف سے باہر ہو جاتا ہے پھر یہ کہ مرض ہمیشہ کے لئے چپک کر رہ جاتے ہیں جو کبھی اچھے نہیں ہوتے برخلاف اور امراض کے مثلاً بخار، سردرد وغیرہ کا یہ حال نہیں ہوتا ان میں تکلیف بھی کم ہوتی ہے اور ثواب بھی بہت ملتا ہے۔
ابن مالک رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو مرض ایسا ہو کہ لوگ مریض سے احتراز کرتے ہوں۔ نہ خود مریض دوسروں سے منقطع ہو سکتا ہو اور نہ دوسرے اس سے کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہوں اور مریض اس مرض کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے عاجز ہو جاتا ہو تو اس مرض سے پناہ مانگنی مستحب ہے۔
علماء کا خیال یہ ہے کہ اور جذام بالطبع متعدی نہیں ہیں یعنی یہ مرض کسی کو از خود نہیں لگتے مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوڑھی کے بدن سے اپنا بدن لگانے کی وجہ سے جذامی کی پیپ لگ کر یہ بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
٭٭ حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے۔ (اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاہواء)۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق سے برے اعمال سے اور بری خواہشات سے۔ (ترمذی)
تشریح
منکر اسے کہتے ہیں کہ جسے شریعت نے بھلائی میں شمار نہ کیا ہو یا شریعت نے جس کی برائی بیان کی ہو۔
اخلاق سے مراد باطنی اعمال ہیں لہٰذا منکر الاخلاق سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دل کے برے اعمال سے مثلاً حسد و کینہ وغیرہ سے۔
برے اعمال سے مراد ظاہری برے افعال ہیں اور بری خواہشات سے مراد برے عقائد اور غلط افکار و نظریات ہیں۔
حضرت شتیر بن شکل بن حمید اپنے والد (حضرت شکل رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کوئی ایسا تعویذ (یعنی ایسی دعا) بتا دیجئے جس کے ذریعہ سے میں پناہ مانگوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ دعا پڑھو۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من شر سمعی و شر بصری و شر لسانی و شر قلبی وشرمنیی)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کی برائی سے۔ (کہ اپنے کان سے بری باتیں نہ سنوں) اپنی بینائی کی برائی سے (کہ اپنی آنکھوں سے بری چیزیں نہ دیکھوں) اپنی زبان کی برائی سے کہ اپنی زبان سے برے برے اور بے فائدہ کلمات نہ نکالوں، اپنے دل کی برائی سے کہ میرے دل میں برے عقیدے اور حسد اور کینہ وغیرہ کا گزر نہ ہو اور برے کام میں عزم مصمم نہ کروں اور اپنی منی کی برائی سے کہ وہ حرام کاری میں صرف نہ ہو اور میں بنظر شہوت کسی کو نہ دیکھوں۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی)
حضرت ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الہدم واعوذبک من التردی ومن الغرق والحرق واعوذبک من ان یتخبطنی الشیطان عندالموت واعوذبک من ان اموت فی سبیلک مدبرا واعوذبک من ان اموت لدیغا)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں مکان گرنے سے یعنی کوئی مکان یا دیوار مجھ پر نہ گر پڑے کہ جس کی وجہ سے میں ہلاک ہو جاؤں۔ اور تیری پناہ مانگتا ہوں کسی بلند جگہ سے گر پڑنے سے، ڈوبنے سے، جلنے سے، زیادہ بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان مجھے حواس باختہ کرے (یعنی وسوے پیدا کر کے میرے دین کو تباہ کر دے) تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تیری راہ میں پشت پھیر کر (یعنی جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگ کر) مروں اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ لدیغ (یعنی سانپ بچھو اور دوسرے زہریلے جانوروں) کے کاٹنے سے مروں۔ (ابوداؤد، نسائی)
نسائی نے ایک روایت میں والغم بھی نقل کیا ہے۔ (یعنی تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے)
تشریح
اگرچہ یہ اشکال پیدا ہو کہ حدیث میں مذکورہ بالا چیزیں بعض تو ایسی ہیں جن کے سبب سے موت واقع ہو جانے کی صورت میں شہادت کا درجہ ملتا ہے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پناہ کیوں مانگی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مصیبت و تکلیف اور پریشانیوں کا گویا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے نازک اور سخت موقع پر کوئی صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور شیطان کو موقع مل جائے اور وہ بہکا کر دینی و اخروی سعادتوں کو ملیا میٹ کر دے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بھی پناہ مانگی تاکہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں۔
زیادہ بڑھاپے سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے کی برائی سے کہ حواس و قوی میں فرق آ جائے بے ہودہ و لایعنی کلام زبان سے نکلنے لگیں اور عبادت میں فتور آ جائے ان سے پناہ مانگتا ہوں، منقول ہے کہ جو شخص کلام اللہ یاد کر لیتا ہے وہ ان آفات سے محفوظ رہتا ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کی پناہ مانگو طمع سے جو طبع تک پہنچا دے۔ (احمد، بیہقی)
تشریح
طمع کے معنی ہیں مخلوق خدا سے مال و زر کی امید رکھنا! اور طمع کے اصل معنی تو ہیں تلوار کو زنگ لگنا۔ لیکن یہاں اس لفظ سے مراد عیب ہے لہٰذا حدیث بالا کے مطابق طمع سے پناہ مانگنے کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں طمع سے جو مجھے اس مقام پر پہنچا دے جہاں میری زندگی عیب دار ہو جائے اور وہ عیب ہے، اہل دنیا کے سامنے تواضع و انکساری ختیار کرنا، کم ظرف، پست خیال اور بد کردار دنیا داروں کے آگے اپنے آپ کو ذلیل کرنا، سمعہ وریا (کسی بھی کام کے وقت دکھانے سنانے کے جذبہ) کو ظاہر کرنا، سرمایہ داروں کی بے جا تعریف و مدح اور ان کی چاپلوسی میں مبتلا ہونا اور اسی قسم کی وہ ذلیل حرکتیں جو طمع کی حالت میں صادر ہوتی ہیں۔
حاصل یہ کہ طمع سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ یہی وہ حقیر جذبہ ہے جو انسان کی عزت نفس، خود داری اور ضمیر کے شرف و وقار کے لئے بہت بڑا عیب ہے جس کی وجہ سے انسان نہ صرف دنیاوی طور پر ذلیل و حقیر اور بے وقعت ہو جاتا ہے بلکہ دینی طور پر بھی اس کی روح کی بالیدگی اور پاکیزگی کے لئے ایک ناسور سے کم نہیں ہے جو آہستہ آہستہ دین کے تمام گوشوں میں مختلف طریقوں سے زہر کی آمیزش کرتا رہتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ طمع دین کے فساد کی جڑ ہے اور ورع (پرہیز گاری) دین کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
حضرت شیخ علی متقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ طمع اسے کہتے ہیں کہ اس مال کی امید رکھی جائے جس کے حاصل ہونے میں شک ہو اگر اس کے حصول کا یقین ہو جیسے کسی پر کوئی حق ہو یا کسی کا وعدہ صادق ہو اور یا کسی سے اتنی راسخ محبت ہو کہ وہ اس کی ہر خواہش کی تکمیل ضرور کرتا ہو تو اسی صورت میں اس سے توقع رکھنے کو طمع نہیں کہتے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ عائشہ اللہ کی پناہ مانگو! اس چاند کی برائی سے کیونکہ یہ غاسق اندھیرا پھیلانے والا ہے جب بے نور ہو جائے۔ (ترمذی)
تشریح
قرآن مجید کی سورت آیت (قل اعوذ برب الفلق) میں جہاں اور کئی چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں۔ غاسق اذا وقب کا بھی ذکر ہے یعنی پناہ مانگو اندھیرا پھیلانے والے کی برائی سے جب وہ بے نور ہو جائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی نے غاسق اذا وقب کی وضاحت فرمائی کہ اس سے مراد چاند ہے جب وہ گہن میں آ جاتا ہے لہٰذا اس سے پناہ مانگنے کا سبب یہ ہے کہ اس کا گرہن میں آنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ یہ بلاؤں کے نازل ہونے کا اشارہ دیتا ہے، چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ جب چاند کو گرہن لگتا تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لرزاں و ترساں اٹھ کھڑے ہوتے۔
لیکن اتنی بات ذہن نشین رہے کہ بلاؤں کے نازل ہونے سے وہ بلائیں اور حادثات مراد نہیں ہیں جو منجم یا بد عقیدہ لوگ کسوف و خسوف (چاند سورج کے گرہن لگنے) کے سلسلہ میں بتاتے ہیں کیونکہ اہل اسلام کے نزدیک ان کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اس سے مراد عبرت کے مواقع ہیں۔ مثلاً جب چاند گرہن میں آتا ہے تو وہ ایک بڑی عبرت کا وقت ہوتا ہے جو ہر انسان کو احساس دلاتا ہے کہ جب چاند باوجود اپنی اس نورانیت کے اپنے نور کو کھو چکا ہے اور اس کے اپنے نور کی بقاء پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے تو ایسا نہ ہو کہ میرے ایمان اور میرے عمل کا نور بھی جاتا رہے اسی اعتبار سے اس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس حدیث سے تو معلوم ہوا کہ غاسق اذا وقب سے مراد گرہن میں آیا ہوا چاند ہے لیکن اکثر مفسرین نے آیت (من شر غاسق اذا وقب) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد تاریک رات ہے۔ واللہ اعلم۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے باپ (حضرت حصین) سے جو اس وقت تک ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ مند نہیں تھے فرمایا۔ حصین آج کل تم کتنے معبودوں کی بندگی کرتے ہو۔ میرے باپ نے عرض کیا کہ سات معبودوں کی جن میں سے چھ تو زمین پر ہیں (اور ان کے نام یہ ہیں) یغوث، یعوق، نسر، لات، منات اور عزی، اور ایک آسمان میں ہے (جو سب کا خالق ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ پھر ان میں سے کون سا معبود تمہاری امید اور تمہارے خوف کا مرجع ہے؟ یعنی ان میں سے کس معبود سے تم ڈرتے ہو اور اس سے بھلائی کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جو آسمان میں ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ حصین! جان لو اگر تم مسلمان ہو جاتے تو میں تمہیں دو کلمے سکھاتا جو تمہیں دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچاتے حضرت عمران کہتے ہیں کہ چنانچہ جب میرے باپ حضرت حصین مسلمان ہو گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے اب وہ دو کلمے بتائیے جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا یہ پڑھو۔ اللہم الہمنی رشدی واعذنی من شر نفسی۔ اے اللہ میرے دل میں میری ہدایت ڈال دے اور میرے نفس کی برائی سے مجھے پناہ دے۔ (ترمذی)
تشریح
اور ایک آسمان میں ہے یہ بات حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے اپنے گمان کے مطابق کی تھی کیونکہ وہ ایمان و اسلام کی دولت سے اس وقت تک بہرہ ور نہیں تھے انہیں کیا معلوم تھا کہ اللہ کے لئے کوئی جگہ اور کوئی مکان مقرر نہیں ہے۔ وہ تو زمین اور آسمان کے ایک ایک ذرہ پر حاوی ہے اور محیط ہے اس کی ذات کسی مقام اور کسی جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ان کی اس بات کا مفہوم یہ تھا کہ وہ خدا جس کی آسمان میں فرشتے عبادت کرتے ہیں۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (یعنی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی شخص نیند میں ڈرے تو اسے چاہئے کہ یہ کلمات پڑھے۔ دعا (اعوذبکلمات اللہ التامات من غضبہ وعقابہ و شر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون)۔ میں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب سے اس کے عذاب سے اس کے بندوں کی برائی سے شیطان کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ شیطان میرے پاس آئیں۔ لہٰذا ان کلمات کے کہنے والے کو شیطان ہر گز کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ان کلمات کو اپنی اولاد میں سے ہر اس شخص کو سکھاتے جو بالغ ہوتا اور ان کی اولاد میں جو نابالغ ہوتے ان کلمات کو کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے۔ اس روایت کو ابوداؤد ترمذی نے روایت کیا ہے لیکن الفاظ ترمذی کے ہیں)
تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نیند میں ڈرنا شیطان کے تصرف اور اس کی شرارت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نیز یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ گلے میں تعویذ ڈالنا اور لٹکانا جائز ہے۔ اس مسئلہ میں اگرچہ علماء کے اختلافی اقوال ہیں لیکن زیادہ صحیح اور مختار بات یہی ہے کہ حرزات وغیرہ تو گلے میں لٹکانا حرام اور مکروہ ہیں لیکن ایسے تعویذ لٹکانا جائز ہیں جن میں آیات قرآنی یا اسمائے الٰہی لکھے ہوں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ جنت مانگتا ہے (یعنی تین مرتبہ یہ دعا کرتا ہے۔ (اللہم انی اسئلک الجنۃ) اے اللہ میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں یا یوں کہے۔ دعا (اللہم ادخلنی الجنۃ)۔ اے اللہ مجھے جنت میں داخل کر۔ اور یا کسی بھی زبان میں اس مفہوم و مضمون کو تین مرتبہ کہتا ہے) تو جنت کہتی ہے کہ اے اللہ تو اس کو جنت میں داخل کر۔ اور جو شخص تین بار آگ سے پناہ مانگتا ہے۔ یعنی تین مرتبہ یوں کہتا ہے دعا (اللہم اجرنی من النار)! اے اللہ مجھے آگ سے محفوظ رکھ۔ یا اسی مفہوم و مضمون کو کسی بھی زبان میں تین مرتبہ ادا کرتا ہے تو آگ کہتی ہے کہ اے اللہ! تو اس شخص کو آگ سے محفوظ رکھ۔ یا اسی مفہوم و مضمون کو کسی بھی زبان میں تین مرتبہ ادا کرتا ہے تو آگ کہتی ہے کہ اے اللہ! تو اس شخص کو آگ سے محفوظ رکھ۔ (ترمذی، نسائی)
تشریح
تین مرتبہ چاہے تو ایک ہی مجلس میں یہ دعا مانگی جائے اور چاہئے کئی مجلسوں میں، لیکن ضروری ہے کہ دعا کے وقت حضور اخلاص، تضرع، عجز اور انکساری و لجاجت زبان کے ہم نوا ہوں۔
حضرت قعقاع کہتے ہیں کہ حضرت کعب احبار فرماتے تھے کہ اگر میں وہ کلمات نہ کہا کرتا تو یہود مجھے گدھا بنا ڈالتے۔ ان سے پوچھا گیا وہ کلمات کیا ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ہیں۔ دعا (اعوذ بوجہ اللہ العظیم الذی لیس شیء اعظم منہ وبکلمات اللہ التامات التی لایجاوزہن بر ولا فاجر وباسماء اللہ الحسنی ماعلمت منہا ومال اعلم من شر ماخلق وذرأ وبرأ)۔ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی ذات کے ذریعہ جو بہت بڑا ہے وہ اللہ کہ کوئی چیز اس سے بڑی نہیں، اس کے کامل کلمات کے ذریعے کہ ان سے نہ کوئی نیک تجاوز کرتا ہے اور نہ کوئی بد، اللہ کے ناموں کے ذریعہ جو پاک و نیک ہیں اور ان میں سے جو کچھ میں جانتا ہوں اور جو کچھ میں نہیں جانتا اس چیز کی برائی سے جو اس پیدا کی اور پراگندہ و برابر کی (یعنی متناسب الاعضاء بنائی) (مالک)
تشریح
کعب الاحبار قوم یہود کے ایک بڑے دانشمند فرد تھے وہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک زمانہ میں تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیدار اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت کے شرف سے محروم رہے۔ پھر بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ایمان و اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے انہیں کعب کا بیان ہے کہ جب میں ایمان لایا اور مسلمان ہوا تو یہود میرے مخالف ہو گئے وہ میرے بارے میں اس قدر بغض و کینہ رکھتے تھے کہ اگر ان کی حرکتیں کامیاب ہو جاتیں اور میں یہ دعا نہ پڑھتا تو وہ سحر کر کے مجھے گدھا بنا دیتے یعنی مجھے ذلیل و بے وقوف اور گدھے کی مانند مسلوب العقل کر دیتے۔
اللہ کے کامل کلمات سے مراد قرآن ہے چنانچہ ان سے تجاوز نہ کرنے کے معنی ہیں کہ اس کے ثواب و عذاب وغیرہ سے کوئی بھی خارج نہیں ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس شخص کو اجر و ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے یا جس شخص کو عذاب میں مبتلا کر دینے کا فیصلہ کیا ہے یا اور جن چیزوں کا بیان کیا ہے وہ سب بلاشبہ انجام پذیر ہوتا ہے اور اس میں کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ یا پھر اللہ کے کلمات سے مراد صفات الہی اور علوم الٰہی ہیں کہ ان سے بھی کوئی چیز باہر نہیں یہ سب کو محیط یعنی گھیرے ہوئے ہیں۔
حضرت مسلم بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ مرے والد ہر نماز یا فرض نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکفر والفقر وعذاب القبر) اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر سے، فقر سے (یعنی قلبی فقر کے فتنہ سے کہ جو بے صبری اور کفران نعمت وغیرہ ہے) اور عذاب قبر سے چنانچہ میں بھی ان کلمات کو پڑھا کرتا تھا ایک دن میرے والد نے مجھ سے پوچھا کہ میرے بیٹے تم نے یہ کلمات کس سے سیکھے؟ میں نے کہا آپ سے! انہوں نے فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے بعد یہ کلمات کہا کرتے تھے۔ اس روایت کو نسائی اور ترمذی نے نقل کیا ہے۔ لیکن ترمذی نے فی دبر الصلوۃ (نماز کے بعد) کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔ امام احمد نے صرف حدیث کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ (یعنی ان کی روایت میں مسلم بن ابی بکرہ اور ان کے باپ کا ذکر نہیں ہے) نیز ان کی روایت میں فی دبر کل الصلوٰۃ(ہر نماز کے بعد) کے الفاظ ہیں یعنی ان کی روایت میں لفظ کل بھی ہے۔
٭٭ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ کلمات فرماتے سنا ہے۔ دعا (اعوذ باللہ من الکفر والدین)۔ یعنی میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کفر اور قرض سے۔ ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے کفر کو قرض کے برابر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔ اور ایک روایت میں یہ دعا منقول ہے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکفر والفقر)۔ یعنی اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر سے اور فقر سے۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا کفر اور فقر دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں!۔ (نسائی)
تشریح
کفر اور قرض کو برابر اس لئے فرمایا کہ قرض کی وجہ سے انسان جھوٹ بولتا ہے، مکاری کرتا ہے اور وعدہ کے خلاف کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بدترین خصلتیں کفار اور منافقین ہی میں ہوتی ہیں۔
کفر اور فقر کو برابر بایں معنی کیا گیا ہے کہ فقر کی وجہ سے انسان بے صبری کرتا ہے، اپنی قسمت کو کوستا ہے، تقدیر کا گلہ کرتا ہے اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکال بیٹھتا ہے جو کفر کا باعث ہوتے ہیں۔