مشکوٰة شر یف

چھوٹے بچوں کی تربیت و پرورش اور ان کے بالغ ہونے کا بیان

چھوٹے بچوں کی تربیت و پرورش اور ان کے بالغ ہونے کا بیان

اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہونے کی علامت اور حد کیا ہے اور یہ کہ بچے کی تربیت وپرورش کرنے کا حق کس پر ہے؟

 

بلوغ کی علامت

لڑکے کے بالغ ہونے کی علامت یہ کہ اس کو احتلام ہونے لگے اور اس میں عورت کو حاملہ کر دینے کی صلاحیت پیدا ہو جائے اور انزال ہو سکتا ہو۔ اسی طرح لڑکی کے بالغ ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کو ماہواری آ جائے اور احتلام ہو جائے اور اس کے حمل ہو سکتا ہو اگر یہ علامتیں نہ پائی جائیں تو پھر جب لڑکے اور لڑکی دونوں کی عمر پندرہ سال کی ہو جائے تو وہ بالغ کے حکم میں داخل ہو جائیں گے فتویٰ اسی قول پر ہے لڑکے کے بالغ ہونے کی کم سے کم مدت بارہ برس کی عمر ہے اور لڑکی کے بالغ ہونے کی کم سے کم مدت نو برس ہے۔

اگر لڑکا لڑکی بالغ ہونے کے قریب ہوں اور وہ یہ کہیں کہ ہم بالغ ہو گئے ہیں تو ان دونوں کی اس بات کو صحیح سمجھا جائے گا اور وہ دونوں حکم میں بالغ کی مانند ہوں گے۔

 

بچہ کی پرورش کا حق کس کو ہے؟

چھوٹے بچے کی پرورش کا حق سب سے زیادہ ماں کو ہے خواہ وہ شادی قائم ہونے کی حالت میں ہو یا اس کو طلاق دے دی گئی ہو ہاں اگر ماں مرتد یا بدکار ہے جس سے امن نہ ہو تو پھر اس کو حق سب سے زیادہ نہیں ہو گا اگر ماں طلاق کے بعد بچہ کی پرورش کرنے سے انکار کر دے تو صحیح یہ ہے کہ اس کو مجبور نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ عاجز ہو لیکن اگر اس بچہ کا کوئی ذی رحم اس کی ماں کے علاوہ نہ ہو تو بچہ کو ضائع ہونے بچانے کے لئے ماں کو پرورش کرنے کے لئے مجبور کیا جائے گا اگر ماں نے بچہ کے باپ کی وفات یا طلاق کے بعد اس بچہ کے غیر محرم سے شادی کر لی تو پھر اس بچہ کی پرورش کا سب سے زیادہ حق اس کو نہیں ہو گا اور اس نے کسی محرم سے شادی کر لی ہے مثلاً بچہ کے چچا سے نکاح کر لیا ہے تو اس صورت میں اس کا یہ حق ساقط نہیں ہو گا اسی طرح ماں نے پہلے کسی غیر محرم سے نکاح کر لیا اور اس کی وجہ سے اس کا حق ساقط ہو گیا مگر پھر ماں نے اس غیر محرم کی وفات یا طلاق کے بعد کسی محرم سے جیسے بچہ کے چچا سے شادی کر لی تو اب اس کو پرورش کا سب سے زیادہ حق مل جائے گا۔

اگر بچہ کی ماں پرورش کا حق نہ رکھتی ہو بایں سبب کہ اس نے غیر محرم سے شادی کر لی ہے یا مرتد ہو گئی اور یا وہ مر گئی ہو تو پھر اس بچہ کی پرورش کا حق سب سے زیادہ نانی کو ہو گا۔ اگر نانی موجود نہ ہو تو اس سے اوپر کے درجہ والی مثلاً پڑنانی وغیرہ کو ہو گا نانی و پرنانی وغیرہ کے بعد پرورش کرنے کی سب سے زیادہ مستحق دادی و پردادی وغیرہ ہو گی اگر دادی اور پردادی وغیرہ موجود نہ ہو تو پرورش کا سب سے زیادہ حق بچہ کی حقیقی بہن اس کے بعد اخیافی بہن اور اس کے بعد سوتیلی بہن کو ہو گا اور اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو یا پرورش کرنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو تو پھر اسی ترتیب کے مطابق پرورش کرنے کا حق سب سے زیادہ بچہ کی خالہ کو اس کے بعد بچہ کی پھوپھی کو ہو گا اور بھانجیاں بھتیجیوں اور بھتیجیاں پھوپھیوں سے اولی ہوں گی۔

استحقاق پرورش کے سلسلہ میں جن عزیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کا آزاد ہونا شرط ہے لہذا باندی اور ام ولد کو پرورش کا کوئی حق نہیں ہے لیکن ذمیہ مسلمہ کے حکم میں ہے کہ ذمیہ کو پرورش کا حق حاصل ہے بشرطیکہ بچہ دین کی سمجھ بوجھ کی عمر کو نہ پہنچ گیا ہو اگر ایسی کوئی بھی عورت موجود نہ ہو جس کو پرورش کا حق پہنچتا ہے تو پھر اس بچہ کی پرورش کا حق عصبات کو ہو گا اور ان کی ترتیب وہی ہو گی جو میراث پانے میں ہوتی ہے لیکن لڑکی کسی ایسے عصبہ کی پرورش میں نہ دی جائے جو غیر محرم ہو جیسا چچا کا لڑکا یا وہ فاسق و  لا پرواہ ہو۔

 

حق پرورش کی مدت

حق پرورش کی مدت نو سال یا سات سال کی عمر مقرر کی گئی ہے اور قدوری نے لکھا ہے کہ جب بچہ تنہا کھانے پینے لگے کپڑا پہننے لگے اور خود استنجا کرنے لگے تو حق پرورش ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد اس بچہ کو اسکا باپ زبردستی اپنی تحویل میں اور نگہداشت میں لے سکتا ہے اور لڑکی کی صورت میں ماں اور نانی اس وقت تک مستحق رہیں گی جب تک کہ اس کی لڑکی کو حیض نہ آ جائے اور حضرت امام محمد کے نزدیک لڑکی کے قابل شہوت ہونے تک ماں اور نانی کو پرورش کا استحقاق رہتا ہے جیسا کہ ماں اور نانی اور دادی کے علاوہ دوسری عورتوں کے استحقاق کے بارے میں یہ شرط ہے کہ جب لڑکی مرد کے قابل ہو جائے تو وہ ان کی پرورش سے نکل جائے گی۔

عمر بلوغ پندرہ سال ہے

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ تین ہجری میں غزوہ احد کے موقع پر جہاد میں جانے کے لئے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا گیا جب کہ میری عمر چودہ سال تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے واپس کر دیا یعنی جہاد میں شرکت کے لئے مجھ کو نہ لے گئے) پھر غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ میری عمر پندرہ سال تھی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے جہاد میں جانے کی اجازت عطاء فرما دی کیونکہ بالغ ہونے کی عمر پندرہ سال ہے) حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ عمر لڑنے والوں اور لڑکوں کے درمیان فرق کرنے والی ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ حدیث سنی تو مذکورہ بالا جملہ ارشاد فرمایا کہ جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ جب لڑکا پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائے اور جو پندرہ سال کی عمر کو نہ پہنچے اس کو نابالغ لڑکوں میں شمار کیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ بالغ ہونے کی عمر پندرہ سال ہے۔

حضرت حمزہ کی صاحبزادی کی پرورش کا تنازعہ اور اس کا تصفیہ

اور حضرت براء ابن عازب کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیبیہ کے دن کفار مکہ سے تین باتوں پر صلح کی تھی ایک تو یہ کہ مشرکوں میں جو شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ جائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے واپس فرما دیں گے دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آئندہ سال مدینہ سے مکہ تشریف لائیں اور اپنا عمرہ قضا کریں اور ارکان عمرہ کی ادائیگی اور استراحت کے لئے) مکہ میں صرف تین دن قیام فرمائیں چنانچہ آئندہ سال جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ تشریف لائے اور متعینہ مدت پوری ہو گئی (یعنی تین دن گزر گئے) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ سے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت حمزہ کی بیٹی اے میرے چچا اے میرے چچا کہتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے لگ گئی، حضرت علی نے اس کو پکڑنے یعنی اپنے ہمراہ لینے کا ارادہ کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا یعنی اپنے ہمراہ لے لیا اس کے بعد حضرت حمزہ کی اس بیٹی کی پرورش کے بارے میں حضرت علی حضرت زید اور حضرت جعفر کے درمیان تنازعہ پیدا ہو گیا حضرت علی تو یہ کہتے تھے کہ پہلے میں نے اس بچی کو لیا ہے اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے) اور حضرت جعفر یہ کہتے تھے کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح کیا کہ اس کو اس کی خالہ کے سپرد کر دیا جو جعفر کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا کہ خالہ ماں کے برابر ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو یعنی ہم دونوں میں کمال اخلاص و یگانگت ہے اور حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری پیدائش اور میرے خلق میں مشابہ ہو اور حضرت زید سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے محبوب ہو (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیبیہ مکہ سے تقریباً پندرہ میل کے فاصلہ پر بجانب جدہ ایک جگہ کا نام ہے ٦ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کی معیت میں عمرہ کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوئے جب حدیبیہ پہنچے تو کفار مکہ نے وہیں سے روک دیا اور مکہ نہ آنے دیا اور پھر اس مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار مکہ کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت صلح ہوئی جس کی تین بنیادی دفعات کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے یہ صلح حدیبیہ بڑا مشہور واقعہ ہے اور اس کا تفصیلی بیان ان شاء اللہ کتاب الجہاد میں آئے گا۔

حضرت حمزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا اور دودھ شریک بھائی تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اور حضرت حمزہ نے ابولہب کی لونڈی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا اسی رشتہ رضاعت کی بناء پر حضرت حمزہ کی بیٹی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو چچا کہا۔

حضرت جعفر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی یعنی ابوطالب کے لڑکے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بھائی تھے اور عمر میں حضرت علی سے دس سال بڑے تھے۔

حضرت زید بن ثابت ایک غلام تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آزاد کیا تھا اور اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا تھا ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت محبت تھی چونکہ آپ نے دوسرے صحابہ کی مانند حضرت حمزہ اور حضرت زید کے درمیان بھائی چارہ کا تعلق قائم کر دیا تھا اس لئے حضرت زید نے حضرت حمزہ کی بیٹی کو بھتیجی کہا۔

حضرت علی جب حضرت حمزہ کی بیٹی کو مدینہ لے آئے تو اس کی پرورش کے بارے میں مذکورہ بالا تینوں حضرات کے درمیان تنازعہ ہوا ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرتا تھا کہ اس بچی کی پرورش کرنا سب سے زیادہ میرا حق ہے اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ یہ میری تربیت و کفالت میں رہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح فرمایا کہ اس بچی کو اس کی خالہ کی پرورش میں دے دیا جو حضرت جعفر کے نکاح میں تھیں اور ان تینوں حضرات کی تسلی اور ان کا دل خوش کرنے کے لئے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے تاکہ وہ آزردہ نہ ہوں۔

کس بچہ کی پرورش کا سب سے زیادہ حق اس کی ماں کو ہے

حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد مکرم(حضرت شعیب) اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا یہ بیٹا ایک مدت تک میرا پیٹ اس کا برتن رہا میری چھاتی اس کی مشک رہی یعنی مدتوں میری چھاتی سے دودھ پیتا رہا اور میری گود اس کا گہوارہ رہی یعنی مدتوں میں نے اس کو اپنی گود میں پالا ہے اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور میرے بیٹے کو بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تک تم کسی سے نکاح نہ کرو اس بچہ کی پرورش کرنے کی تم سب سے زیادہ مستحق ہو۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے بعد جو حدیث آ رہی ہے اس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لڑکے کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ چاہے تو اپنی تو ماں کے پاس رہے اور چاہے تو اپنے باپ کے ہاں رہے اس طرح دونوں حدیثوں کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے چنانچہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جس لڑکے کا ذکر ہے ہو سکتا ہے کہ وہ کم سن رہا ہو اور سن تمیز کو نہ پہنچا ہو اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق ماں کو دیا جب کہ آگے آنے والی حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے وہ سن تمیز کو پہنچ چکا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو یہ حق دے دیا کہ وہ اپنے اختیار تمیزی کی بنا پر ماں باپ میں سے جس کو چاہے پسند کرے اور اس کے پاس چلا جائے

 جب تک کہ تم کسی سے نکاح نہ کرو  اس بارے میں یہ حدیث مطلق ہے لیکن علماء نے اس مسئلہ کو  غیر محرم  کے ساتھ مقید کیا ہے یعنی اگر مطلقہ ماں وغیرہ کسی ایسے شخص کے ساتھ شادی کر لے جو لڑکے کا غیر محرم ہے تو اس کو اس لڑکے کی پرورش کا حق نہیں رہتا۔ اور اگر کسی ایسے شخص سے شادی کرے جو لڑکے کا محرم ہے جیسے اس کے چچا سے نکاح، تو اس صورت میں اس کو پرورش کا حق رہتا ہے کیونکہ وہ محرم لڑکے کے حق میں یقیناً شفیق و مہربان ثابت ہو گا۔

مدت پر ورش کے بعد لڑکے کو ماں باپ میں سے کسی کے بھی پاس رہنے کا اختیار ہے

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لڑکے کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے اپنے باپ کے پاس رہے اور چاہے اپنی ماں کے پاس رہے ۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 جیسا کہ اس سے پہلے کی حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے یہ لڑکا چونکہ سن تمیز کو پہنچ گیا تھا یعنی بالغ ہو گیا تھا۔ اس لئے اس کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ خواہ اپنے باپ کے پاس چلا جائے۔ خواہ وہ اپنی ماں کے پاس رہے لہٰذا اس کا تعلق  حضانتہ (یعنی پرورش کرنے) کے باب اور مسئلہ سے نہیں ہے جب کہ پہلی حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق  حضانتہ  کے مسئلہ سے ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضانتہ یعنی پرورش کر نے کے حق کے بارے میں ماں کو مقدم رکھا۔

چنانچہ حنفیہ کے نزدیک یہی مسئلہ ہے کہ  مدت پرورش  میں لڑکے کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ چاہے تو اپنی ماں کے پاس رہے اور چاہے تو باپ کے پاس رہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک لڑکے کو مدت پرورش میں بھی یہ اختیار حاصل ہوتا ہے۔

 اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ  میرا خاوند چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے حالانکہ وہ مجھے پانی پلاتا ہے اور نفع پہنچاتا ہے (یعنی وہ اب اس عمر کو پہنچ گیا ہے کہ میں اس کی خدمت سے فائدہ اٹھاتی ہوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس لڑکے سے) فرمایا کہ یہ تمہارا باپ اور یہ تمہاری ماں ہے ان میں سے تم جس کو پسند کرو اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ چنانچہ اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئی۔  (ابوداؤد، نسائی، دارمی)

 حضرت بلال ابن اسامہ حضرت میمونہ سے کہ جن کا نام سلیمان تھا اور اہل مدینہ میں سے کسی کے آزاد کردہ غلام تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا (ایک دن) جب کہ میں حضرت ابوہریرہ کے ہاں بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس فارس کی ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا اور اس کے خاوند نے اس کو طلاق دے دی تھی اور میاں بیوی کے درمیان اس لڑکے کے بارے میں تنازعہ تھا اس عورت نے ابوہریرہ سے فارسی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابوہریرہ میرا شوہر میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے ! حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ تم دونوں اس پر قرعہ ڈالو (جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ اس لڑکے کو لے لے) حضرت ابوہریرہ نے بھی اس عورت کے سامنے اسی مفہوم کو فارسی زبان میں ادا کیا پھر اس عورت کا خاوند آگیا کہ میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کرتا ہے ؟ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ  یا اللہ ! میں یہ بات (اپنی طرف سے) نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک عورت آئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرا شوہر چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لے جب کہ یہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے اور ابو عنبہ کے کنوئیں سے مجھ کو پانی اور نسائی میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ (شہر کے باہر کافی فاصلہ سے) میٹھا پانی (لاکر) مجھ کو پلاتا ہے۔ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم دونوں اس پر قرعہ ڈالو خاوند نے کہا کہ  میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑتا ہے ؟  پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس لڑکے سے) فرمایا  یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے ان دونوں میں سے جس کو تم پسند کرو، اس کو ہاتھ پکڑ لو ! چنانچہ اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ (اور وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئی)۔  (ابوداؤد، نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

 حضرت ابوہریرہ نے اس عورت سے جو فارسی زبان میں گفتگو کی اس سے معلوم ہوا کہ بعض صحابہ اہل عجم کے ساتھ میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے ان کی زبان سیکھ گئے تھے۔ اس حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی بالغ تھا اور چونکہ بالغ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ چاہے ماں کے پاس رہے اور چاہے باپ کے ساتھ رہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو یہ حق دے دیا اور اس نے ماں کے پاس رہنے کو اختیار کیا، اس لڑکے کے بالغ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ شہر کے باہر بہت دور دور سے پانی بھر کر لاتا تھا اگر وہ نابالغ ہوتا تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی کم سنی کی وجہ سے شہر کے باہر اتنی دور سے پانی بھر لانے کی ہمت نہ کرتا بلکہ اس کی ماں بھی اس خوف سے کہ کہیں یہ اپنی نادانی کی وجہ سے کنوئیں میں گر نہ جائے۔ اس کی اتنی دور سے پانی لانے کے لئے ہرگز نہ بھیجتیں۔