تغیر کا معنی ہیں بدل جانا۔ یعنی ایک حالت کو چھوڑ کر دوسری حالت اختیار کر لینا۔ یہاں لوگوں میں تغیر وتبدل ہو جانے سے مراد مسلمانوں کی اس حالت کا بدل جانا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں تھی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اہل ایمان کی حالت یہ تھی کہ وہ دین کے راستہ پر سختی سے قائم تھے، احکام سنت کا احترام تھا حق کے پیرو تھے دنیا سے بے رغبت تھے، دنیا کی چمک دمک یعنی مال و دولت، حشم و خدم اور جاہ و منصب نے ان کے اندر حرص ولالچ، اور غرور و تکبر کے جراثیم پیدا نہیں کئے تھے شریعت کے پسندیدہ اعمال، اچھے خصائل و اطوار، بلند کرداری اور حسن اخلاق ان کی عادت ثانیہ تھی حق کی راہ میں سینہ سپر رہتے تھے، دل کی نورانیت اور باطن کی صفائی و پاکیزگی کے جوہر سے متصف تھے۔
لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا لوگوں کے ان حالات میں تبدیلی آتی گئی یہاں تک کہ آخر زمانے میں ان کے حالات، معاملات بالکل برعکس ہو جائیں گے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ آدمی اختلاف حالات اور تغیر صفات کے اعتبار سے ان سو اونٹوں کے مانند ہے جن میں سے تم ایک ہی کو سواری کے قابل پا سکتے ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
راحلۃ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو تندرست و توانا ہوتا ہے اور سواری و بار برداری کے کام کے لئے بہت اچھا اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لفظ میں حرف ۃ اظہار مبالغہ کے لئے ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی تو بہت ہیں جیسے اونٹ بہت ہوتے ہیں، لیکن جس طرح اونٹوں میں سے سواری اور بار برداری کے قابل چند ہی اونٹ نکلتے ہیں اسی طرح کام کے آدمی کہ جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت و دریافت کے قابل ہوں اور صحبت دریافت کا حق ادا کر سکیں اور ان کے نیک مقصد میں ان کے معین و مددگار ثابت ہو سکیں، بہت کم ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زمانہ اس اعتبار سے سب سے بہتر زمانہ تھا کہ اس میں کام کے لوگ زیادہ تھے پھر بعد کے زمانہ میں اگرچہ پہلے زمانہ کی بہ نسبت ایسے لوگوں کی تعداد کم تھی لیکن آنے والے زمانہ کے اعتبار سے وہ تعداد یقیناً زیادہ تھی اور پھر اس کے بعد کے زمانہ میں ایسے لوگوں کی تعداد اگرچہ دوسرے زمانے کی تعداد سے بھی کم تھی لیکن آنے والے زمانوں کے اعتبار سے یقیناً بہت زیادہ تھی۔
حدیث سو کا جو عدد ذکر فرمایا گیا ہے وہ تحدید و تعین کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہار کثرت کے لئے ہے حاصل یہ کہ لوگوں کے جنگل میں ایسی ہستی کا وجود کہ جس پر مخلص عالم با عمل کا اطلاق کیا جا سکے کیمیا کی طرح نایاب ہوتا ہے، اسی لئے ہر زمانہ کے ارباب حال یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ زمانہ قحط الرجال کا ہے۔ حضرت سہل تستری کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب مسجد میں لوگوں کو اس کثرت کے ساتھ دیکھا کہ مسجد اندر اور باہر سے بھری ہوئی تھی تو فرمایا کہ کلمہ گو یقیناً بہت ہیں لیکن ان میں مخلص لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس مفہوم کو اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں کئی موقعوں پر بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یقیناً آنے والے زمانوں میں تم بالشت، بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ان لوگوں کے طور و طریق کو اختیار کرو گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ یعنی سوسمار کے بل میں بیٹھیں گے (جو بہت تنگ اور برا ہوتا ہے) تو تم اس میں بھی ان کی پیروی کرو گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! وہ لوگ کہ جو پہلے گزر چکے ہیں اور جن کے طور طریقوں کو ہم اختیار کریں گے کیا وہ یہود و نصاریٰ ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ یہود و نصاریٰ نہیں ہیں تو اور کون ہیں؟ یعنی تم سے پہلے گزرے ہوئے جن لوگوں کی طرف میں اشارہ کیا ہے ان سے مراد یہود و نصاریٰ ہی ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
سنن سنت کی جمع ہے جس کے معنی طور اور طریقے کے ہیں، خواہ نیک طریقہ ہو یا برا طریقہ، یہاں اس لفظ سے ان خواہش پرست اور دین کو مسخ کر دینے والے لوگوں کا طور طریقہ ہے جنہوں نے اپنے نبی اور پیغمبر کے گزر جانے کے بعد اپنی نفسانی خواہشات اور جھوٹی اغراض کے تحت اپنے دین تک کو بدل ڈالا اور ان کا نبی و پیغمبر ان کے پاس خدا کی جو کتاب چھوڑ کر گیا تھا اس میں انہوں نے تحریف کر ڈالی اور ان کے احکام مسائل میں کانٹ چھانٹ کر دی۔ بعض نسخوں میں یہ لفظ سین کے زبر کے ساتھ ہے۔
بالشت بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر کا مطلب ہے وبجمیع وجوہ ہر کام و معاملہ میں ان کی اتباع و پیروی کرنا اور ان کے تمام طور طریقوں کو اختیار کر لینا۔
حضرت مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ نیک بخت و صالح لوگ یکے بعد دیگرے اس دنیا سے گزرتے رہیں گے اور بدکار و ناکارہ لوگ جو یا کھجور کی بھوسی کی طرح باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہو گی (یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے لوگوں کی کوئی قدر و منزلت نہیں اور ان کے وجود کا کوئی اعتبار نہیں)۔ (بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب میری امت کے لوگ تکبر کی چال چلنے لگیں گے اور بادشاہوں کے بیٹے کہ جو فارس و روم کے شہزادے ہوں گے، ان کی خدمت کریں گے (بایں طور کہ اللہ تعالیٰ اہل فارس و روم کے علاقوں اور شہروں کو مسلمانوں کے زیر نگیں کر دے گا اور وہ فتوحات حاصل کریں گے تو اس کے نتیجے میں ان علاقوں اور شہروں کے نہ صرف عام آدمی بلکہ بادشاہ و شہزادے بھی قیدی بنائے جائیں گے اور مسلمان ان سب کو بطور غلام اپنی خدمت پر مامور کریں گے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ امت کے برے لوگوں کو بھلے لوگوں پر یعنی ظالموں کو مظلوموں پر مسلط کر دے گا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حدیث کے ذریعے ایک ایسی بات کی خبر دی جو آئندہ زمانہ میں وقوع پذیر ہونے والی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور پیشگوئی جو بات فرمائی وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی، چنانچہ یہ بات اسلامی تاریخ کی ایک عین حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے فارس و روم کے علاقے فتح کر لئے وہاں کی بے شمار دولت مال غنیمت کے طور پر حاصل کی، ان علاقوں اور شہروں کے لوگوں کو قیدی بنایا اور بادشاہوں کی اولادوں تک کو غلام بنا کر ان سے خدمت و چاکری کرائی اور اس طرح سے ان کے اندر جب بڑائی کا احساس پیدا ہو گیا اور اخلاص کی جگہ جاہ و منصب اور مال و دولت کی محبت نے لے لی تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ان لوگوں کا عذاب مسلط کر دیا۔ جنہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، یہاں تک کہ بنی ہاشم جو کل تک مسلمانوں کی قیادت و سیادت کے امین سمجھے جاتے تھے اور جن کی خلافت و حکمرانی تمام عالم اسلام پر قائم تھی ان پر بنو امیہ کو مسلط کر دیا اور بنو امیہ نے جو کچھ کیا وہ اسلامی تاریخ کی ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کو یہاں بیان نہ کرنا ہی مناسب ہے۔
مطیطا کے معنی ہیں دونوں ہاتھ پھیلا کر اتراتے ہوئے (یعنی مغرورانہ چال چلنا۔ اسی سے مط ہے جس کے معنی از راہ نخوت و تکبر ناک بھوں سکیڑنے اور ابرو چڑھانے کے ہیں۔ لغت کی مشہور کتابوں قاموس صحاح اور صراح نیز مشکوٰۃ کے صحیح نسخوں میں لفظ اسی طرح ہے لیکن مجمع البحار اور اس کتاب کے بعض حواشی میں لکھا ہے کہ یہ لفظ دوسری ط کے بعد بھیی کے ساتھ منقول ہے جو محذوف ہے یعنی مطیطا کے جائے مطیطی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس لفظ میں دوسرے ط کے بعد بھی حرفی ہے بلکہ ایک معنی میں ہی رائج ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم مسلمان اپنے خلیفہ یا سلطان و حکمران کو قتل کر دو گے تمہاری تلواریں آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردن اڑائیں گی اور یہاں تک کہ تمہاری دنیا کے وارث و والی، مکار لوگ ہو جائیں گے (یعنی سلطنت و حکمران ظالموں کے پاس پہنچ جائے گی اور مخلوق خدا کی زمام کار اور اقتدار کی باگ دوڑ بدکاروں اور فاسقوں کے ہاتھ میں آ جائے گی تو اس وقت قیامت قائم ہو جائے گی۔ (ترمذی)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ عیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک کہ دنیا میں کثرت مال و زر اور اقتدار و حکمرانی کے اعتبار سے سب سے زیادہ نصیبہ ور وہ شخص نہ بن جائے گا جو احمق ہے اور احمق کا بیٹا ہے (یعنی جب دنیا میں بد اصل اور بد سیرت اور بدکار لوگ سب سے زیادہ حکومت و اقتدار اور مال دولت کے مالک بن جائیں گے تو سمجھو کہ قیامت بس آنے ہی والی ہے) اس روایت کو ترمذی نے اور کتاب دلائل النبوۃ میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔
حضرت محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کو سنا تھا (چنانچہ اس شخص نے بیان کیا کہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ایک دن ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسجد میں (یعنی مسجد نبوی یا مسجد قبا میں) بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ بھی وہاں آ گئے اس وقت ان کے بدن پر صرف ایک چادر تھی اور اس چادر میں بھی چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دیکھا تو رو پڑے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب مصعب اس قدر خوشحال اور آرام و راحت کی زندگی گزارتے تھے اور آج ان کی کیا ٹوٹی پھوٹی حالت ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اظہار تعجب و حسرت کے طور پر فرمایا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب کہ تم میں کوئی شخص صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلے گا اور پھر شام کو دوسرا جوڑا پہن کر نکلے گا، تمہارے سامنے کھانے کا ایک بڑا پیالہ رکھا جائے گا اور دوسرا اٹھایا جائے گا اور تم اپنے گھروں پر اس طرح پردہ ڈالو گے جس طرح کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے (یعنی حضور نے اس ارشاد کے ذریعے آنے والے زمانہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ جب تم پر خوشحالی و ترفہ کا دور آئے گا، اللہ تعالیٰ دنیا کے خزانوں کی کنجیاں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا، تمہارے گھروں میں مال و اسباب کی فراوانی ہو گی تو تم دن میں کئی کئی مرتبہ جوڑے بدلو گے، صبح کا لباس الگ ہو گا، شام کا الگ، تمہارے دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں اور لذیذ و مرغوب اشیا سے بھرے ہوں گے، تمہارے مکان راحت و آسائش اور آراستگی و زیبائش کی چیزوں سے پر رونق ہوں گے اور گویا تمہاری زندگی عیش و عشرت کا گہوارہ اور اسراف و تنعم کی آئینہ دار ہو جائے گی۔ تو بتاؤ اس وقت تمہارے دل کی کیا حالت ہو گی اور تم کیا محسوس کرو گے؟ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!(صلی اللہ علیہ و سلم ) ہم اس دن جب کہ خوشحالی و ترفہ کی نعمت سے بہرہ مند ہوں گے آج کے دن سے (جب کہ ہم فقر و افلاس کی گرفت میں ہیں) بہتر حال میں ہوں گے۔ کیونکہ اس وقت ہم عبادت کے لئے اپنی معاشی جدوجہد کی الجھنوں اور حصول رزق کے فکر سے آزاد و فارغ ہوں گے اور ہمیں محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی (یعنی جب اس وقت ہمیں معاشی و اقتصادی طور پر خوشحالی حاصل ہو گی اور نوکر چاکر ہمارے سارے کام کاج کریں گے تو ہم ذہنی و جسمانی طور پر پوری طرح بے فکر و آزاد ہوں گے اور اس صورت میں طاعت و عبادت اور دینی خدمت میں پوری دل جمعی اور سکون کے ساتھ منہمک رہ سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس وقت تم بہتر ہو گے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اس دن کی نسبت آج کے دن زیادہ بہتر ہو۔ (ترمذی)
تشریح
سیوطی رحمۃ اللہ نے جمع الجوامع میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن مصعب بن عمیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت انہوں نے بکری کے چمڑے کا ایک تسمہ اپنی کمر کے گرد باندھ رکھا تھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دیکھا تو (حاضرین مجلس سے) فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے منور کر دیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس کے بدن پر ایک ایسا لباس دیکھا ہے جو دو سو درہم کے عوض خریدا گیا تھا، (یعنی یہ وہ شخص ہے جو اپنی پچھلی زندگی میں نہایت عیش و عشرت اور راحت و تنعم کی زندگی گزارتا تھا۔ لیکن خدا اور خدا کے رسول کی محبت نے اس کو ایسی حالت پر پہنچا دیا ہے، جس میں تم اس کو اب دیکھ رہے ہو۔ اللہ کی بے انتہا رحمتیں ہوں اس جلیل القدر ہستی پر جس کا نام مصعب بن عمیر ہے، قریش الاصل ہیں بڑے اونچے درجے کے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، مکہ سے ہجرت کی، گھر بار چھوڑا، دنیا کی ساری نعمتوں اور راحتوں کو ٹھکرا دیا، اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں مدینہ آ گئے جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے شہادت دی ہے یہ اپنے اسلام سے پہلے کے زمانے میں مکہ کے بڑے مالداروں میں شمار ہوتے تھے، نہایت خوش لباس و خوش طعام تھے، اچھے سے اچھا پہنتے اور اچھے سے اچھا کھاتے تھے، لیکن جب مسلمان ہو گئے تو سارے عیش و تنعم پر لات ماردی، خدا اور اس کے رسول کے عشق میں ایسے رنگ گئے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں سے نفرت کرنے لگے، زہد اختیار کر لیا، یہاں تک کہ غزوہ احد کے موقع پر جام شہادت نوش کر کے واصل بحق ہو گئے، شہادت کے وقت ان کی عمر چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔
حدیث سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا رو پڑنا، ان کی خستہ حالی کے تئیں رحم و شفقت کے جذبات کے تحت تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو کبھی اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا تھا، عیش و راحت کی زندگی گزارتا تھا اور اب اس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ بدن پر صرف ایک پیوند لگی چادر لپیٹے اپنا وقت گزار رہا ہے۔ لیکن یہ بات اس واقعہ کے منافی معلوم ہوتی ہے جس کا ذکر پیچھے بھی ایک روایت میں گزر چکا ہے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کھردری چارپائی پر لیٹے ہوئے دیکھا جس کے بان کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم مبارک پر پڑ گئے تھے تو اس وقت رو پڑے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مشقت بھری زندگی کے ساتھ فارس و روم کے بادشاہوں کی زندگی کا موازنہ کیا۔ جو خدا کے سرکش و نافرمان اور باغی بندے ہونے کے باوجود عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ تم ابھی تک سوچنے سمجھنے کے اس مقام سے نہیں بڑے ہو، بندہ خدا ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان بادشاہان دنیا کو بس دنیا کی نعمتیں ملیں اور ہمیں آخرت کی نعمتوں اور سعادتوں سے نوازا جائے؟ اولیٰ یہ ہے کہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے رونے کو فرط مسرت سے رونے پر محمول کیا جائے کہ اپنی امت کے لوگوں کو دنیا سے زہد اختیار کر کے عقبی کی طرف متوجہ دیکھ کر مارے خوشی کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اگر اس رونے کو غم و حسرت ہی پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ آپ کا غم دراصل اس بات پر تھا کہ میری امت کے جیسے لوگوں کو ضروریات زندگی کی ایسی چیزیں بھی میسر نہیں ہیں جو دنیا ہی کے لئے ضروری نہیں ہیں بلکہ طاعت و عبادت میں معاون و مددگار بھی ہوتی ہیں جیسے بقدر ضرورت لباس وغیرہ۔ اس تاویل کی تائید حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ان الفاظ کیف بکم اذا غدا الخ اور انتم الیوم خیر منکم الخ سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ غریب و مفلس شخص کہ جو ضروریات زندگی کی بقدر کفایت چیزوں کا مالک ہو، غنی و مالدار شخص سے بہتر ہے، چنانچہ غنی و مالدار شخص حصول مال و زر کی جدوجہد میں زیادہ مشغولیت کی وجہ سے طاعت و عبادت کے لئے اتنا زیادہ قلبی و جسمانی فراغ و سکون نہیں رکھتا جس قدر کہ وہ غریب و مفلس شخص رکھتا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث درحقیقت صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر و استقامت اختیار کرنے والا غریب و مفلس شخص شکر گزار مالدار سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔ پس صحابہ جیسی ہستیوں کے تعلق سے کہ جو امت کے سب سے زیادہ مضبوط ایمان و عقیدہ اور کردار کے حامل تھے، مالداری کا یہ حال ہے تو غیر صحابہ کے تعلق سے اس کا کیا حال ہو گا، جو ان کی بہ نسبت ایمان و عقیدہ اور کردار و عمل میں کہیں زیادہ ضعیف ہیں۔ اس کی مؤید وہ حدیث بھی ہے جس کو دیلمی نے فردوس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مارویت الدنیا عن احد الاکانت خیرۃ لہ بلکہ ملا علی قاری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ایک خاص بات یہ کہی ہے کہ عن احد (اسی شخص) کا لفظ عام ہے کہ اس کے مفہوم میں مومن و غیر مومن سب شامل ہیں، لہٰذا دوزخ میں مالدار کافر کی بہ نسبت فقیر و مفلس کافر کا عذاب ہلکا ہو گا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ جب اس دار فانی میں فقر و افلاس نے کافر کو یہ فائدہ پہنچایا تو اس مومن کو دا رالتمرار (آخرت میں) کیسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو دنیا میں اپنے فقر و افلاس پر صابر رہا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس وقت لوگوں کے درمیان اپنے دین پر صبر کرنے والا (یعنی دنیا سے اپنا دامن بچا کر دینی احکام کی حفاظت و پیروی کرنے والا) اس شخص کی مانند ہو گا جس نے اپنی مٹھی میں انگارہ لے لیا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے
تشریح
مطلب یہ ہے کہ آخر زمانے میں جب برائی عام ہو جائے گی، فسق فجور پھیل جائے گا، اور پورے معاشرہ میں بدکار لوگوں کا اس قدر غلبہ ہو گا کہ دین کی بات کرنے والے اور دینداروں کے مددگار معاون ڈھونڈھے نہیں ملیں گے، تو اس وقت دین کو اختیار کرنا اور ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہنا اتنا ہی دشوار اور سخت صبر آزما ہو گا جس قدر کہ کوئی شخص اپنی مٹھی میں انگارہ بند کر لے اور اس کی اذیت و تکلیف پر صبر تحمل کرے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تمہارے قائد و سردار وہ لوگ ہوں کہ جو تم میں کے بہترین لوگ ہیں، تمہارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشوروں سے انجام پاتے ہوں (یعنی مسلمان ایک مرکز پر متحد و متفق ہوں، اور اپنے تمام معاملات و امور ایک رائے ہو کر طے کرتے ہوں) تو اس وقت زمین کی پشت تمہارے لئے زمین کے پیٹ سے بہتر ہو گی (یعنی ایسے مبارک زمانہ میں زندگی سے موت سے بہتر ہو گی کیونکہ اس صورت میں تمہیں کتاب و سنت کے مطابق عمل کرنے اور دین کی راہ پر چلنے کی توفیق نصیب ہو گی، اور ظاہر ہے وہ لوگ نہایت خوش بخت ہیں جنہیں حسن عمل کے ساتھ طویل زندگی ملے اور جب تمہارے قائد و سردار وہ لوگ ہوں جو تم میں کے بدترین یعنی فاسق و فاجر اور ظالم لوگ ہیں تمہارے دولت مند لوگ بخیل ہوں اور تمہارے معاملات کی باگ دوڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہو، تو اس وقت زمین کا پیٹ تمہارے لئے زمین کی پشت سے بہتر ہو گا (یعنی ایسے زمانہ میں مرنا، جینے سے بہتر ہو گا۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرہ بہت بدنصیب ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کر دیتے ہیں، درآنحالیکہ عورتیں مر دوں کی بہ نسبت عقل اور دین دونوں میں کمزور اور ناقص ہونے کی وجہ سے اس طرح کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں، اسی لئے فرمایا شاوروہن وخالفوھن یعنی عورتوں سے مشورہ ضرور لو لیکن کرو ان کی رائے کے خلاف، اسی طرح وہ مرد بھی عورتوں ہی کے حکم میں ہیں جو انہی جیسے احوال رکھتے ہیں یعنی جن مر دوں پر جاہ و مال کی محبت کا غلبہ ہوتا ہے، جو یہ نہیں جانتے کہ کیا چیز دین کو نقصان پہنچاتی ہے، کونسا کام دین و شریعت کے خلاف ہے کسی بھی چیز اور کسی بھی معاملہ کا کیا انجام ہو سکتا ہے تو وہ بھی یقیناً عورتوں کی طرح عقل و دین دونوں کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں لہٰذا ایسے مر دوں کو بھی اپنا مقتدا و رہنما بنانا اور اپنی زمام کار ان کو سونپ دینا پورے معاشرہ کو تباہی و خرابی سے دوچار کرنا ہے۔
حدیث کا ظاہری اسلوب یہ تقاضا کرتا ہے کہ جب پہلے جزء میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارے معاملات باہمی مشوروں سے طے پاتے ہوں تو دوسرے جز میں یوں فرمانا چاہئے تھا کہ تمہارے معاملات باہمی اختلاف رائے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح فرمانے کی بجائے یہ فرمانا کہ تمہارے معاملات کی باگ دوڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہو۔ گویا اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ آپس میں پیدا ہونے والے اختلاف اور تنازعات عام طور پر عورتوں کی اتباع کرنے اور ان کے کہے پر چلنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے جب کفر و ضلالت سے بھرے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ آپس میں ایک دوسرے کو تم سے لڑاتے اور تمہاری شان و شوکت کو مٹانے کے لئے بلائے گا جیسا کہ کھانے کے دسترخوان پر جمع ہونے والے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو کھانے کے قاب کی طرف متوجہ کرتے ہیں یعنی جس طرح کچھ لوگ جمع ہو کر کھانے کی محفل میں دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف کھانے کے برتن سرکاتے رہتے ہیں، اور اس میں جو چیز ہوتی ہے اس کو کھانے کے لئے کہتے رہتے ہیں چنانچہ وہ سب بلا تکلف اور بغیر کسی رکاوٹ کے ان برتنوں میں سے جو کچھ چاہتے ہیں لے لے کر کھاتے ہیں، اسی طرح کفر و ضلالت کے حامل لوگ تمہارے مقابلے پر جمع ہو کر آپس میں ایک دوسرے کو اکسائیں گے، بھڑکائیں گے اور آخر کار وہ تمہیں ہلاک کریں گے، تمہاری جائیدادیں تباہ کریں گے، تمہارے مال و اسباب لوٹیں گے اور تمہیں خانماں برباد کریں گے اس میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ تم مسلمان ان دشمنان دین کے سامنے چارہ تر کی طرح ہو جاؤ گے جس کا جی چاہے گا تمہیں نگل لے گا۔ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ان کا ہمارے خلاف جمع ہونا اور ہم پر غالب آ جانا کیا اس سبب سے ہو گا کہ اس وقت ہم کم تعداد میں ہوں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں ایسا اس وجہ سے نہیں ہو گا کہ تم کم تعداد میں ہو گے بلکہ اس وقت تمہاری تعداد تو بہت ہو گی، لیکن تمہاری حیثیت پانی کے اس جھاگ کی سی ہو گی جو دریا نالوں کے کناروں پر پائے جاتے ہیں (یعنی تمہارے اندر جرات و شجاعت اور قوت کا فقدان ہو گا) اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت اور تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ضعف و سستی پیدا کر دے گا۔ کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارے دلوں ضعف و سستی پیدا ہو جانے کا سبب کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، دنیا کی محبت اور موت سے بیزاری،۔ یعنی جب زندگی تمہارے لئے عزیز اور موت تمہارے لئے ناپسندیدہ ہو جائے گی تو تم دشمن کا مقابلہ کرنے اور بہادری کے جوہر دکھانے کے قابل نہیں رہ جاؤ گے) اس روایت کو ابو داؤد نے اور بیہقی نے کتاب دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ جب کوئی قوم مال غنیمت میں خیانت کرنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دلوں میں دشمن کا رعب و خوف پیدا کر دیتا ہے، جس قوم میں زنا کاری پھیل جاتی ہے اس میں کسی وبا مثلاً طاعون وغیرہ کے پھیلنے یا اہل علم و دانش کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کی صورت میں اموات کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے (یعنی اس کا تجارت پیشہ طبقہ کم ناپنے کم تولنے اور کم گننے جیسے عیب میں مبتلا ہو جاتا ہے) تو اس کا رزق اٹھا لیا جاتا ہے (یعنی اس کے رزق میں برکت ختم کر دی جاتی ہے یا اس قوم کے مقدر سے حلال رزق اٹھ جاتا ہے) جو قوم غیر منصفانہ اور ناحق احکام جاری کرنے لگتی ہے یعنی جس قوم کے ارباب اقتدار احکام و فیصلوں کے نافذ کرنے عدل و انصاف اور مساوات کو ملحوظ نہیں رکھتے یا جہل و نادانی کی وجہ سے غلط سلط فیصلے کرنے لگتے ہیں تو ان کے درمیان خون ریزی پھیل جاتی ہے یعنی اس قوم کے معاشرے میں ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسے عوامل پھیل جاتے ہیں جو عام فتنہ و فساد اور خونریزی کا باعث بنتے ہیں اور جو قوم اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمن کو مسلط کر دیتا ہے۔ (مالک)
مشکوٰۃ کے صحیح نسخوں اور اصل متون میں اوپر عنوان باب کی جگہ صرف باب کا لفظ لکھا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ باب گزشتہ باب کے لواحق اور متعلقات پر مشتمل ہے، لیکن ابن ملک نے یہاں باب کا مذکورہ بالا عنوان قائم کیا ہے ہم نے اسی کو نقل کیا ہے۔
حضرت عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے جمعہ وغیرہ کے خطبہ میں (یا کسی وعظ کے دوران فرمایا) لوگو !سنو! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں بتا دوں جو تم نہیں جانتے۔ (اس کے بعد آپ نے ان باتوں کے سلسلے میں اس طرح بیان فرمانا شروع کیا کہ) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو مال میں نے اپنے کسی بندہ کو دیا ہے وہ حلال ہے یعنی کسی شخص کو جو مال و اسباب جائز ذرائع سے حاصل ہوا ہے۔ وہ اس کے حق میں حلال ہے، کوئی اس کو اپنی طرف سے حرام قرار نہیں دے سکتا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں قاعدہ تھا کہ لوگ بعض صورتوں میں اونٹوں کو خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے تو اپنے سب بندوں کو باطل کے خلاف، حق کی طرف مائل پیدا کیا۔ لیکن یہ شیاطین تھے، جو ان بندوں کے پاس آئے اور ان کو ان کے دین سے پھیر کر گمراہی میں ڈال دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کر دیں جن کو میں نے ان کے لئے حلال کیا تھا (یعنی شیاطین نے ان لوگوں کو اس طرح گمراہ کر دیا کہ انہوں نے اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام کر لیا، اور ان ہی شیاطین نے ان کو حکم دیا (یعنی ان کے دل میں یہ گمراہ کن وسوسہ ڈالا) کہ وہ اس چیز کو میرے ساتھ شریک کریں جس کے غالب ہونے کی کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی (یعنی جو لوگ بتوں کو پوجتے ہیں اور اس طرح عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کے پاس ان کے اس فعل کی کوئی معقول دلیل اور استحقاق نہیں ہے، یہ صرف شیاطین کے گمراہ کرنے کا اثر ہے کہ وہ ایسے ناروا کام میں مبتلا ہیں، اور یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں پر نظر ڈالی اور ان کو کفر شرک پر متفق اور ضلالت و گمراہی میں مستغرق پایا چنانچہ اللہ نے ان سب کو اپنا مبغوض و ناپسندیدہ قرار دے دیا خواہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے (یعنی جب دنیا کے سارے لوگ کفر شرک میں مبتلا ہو گئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت تک سب کے سب گمراہی پر متفق و مجتمع تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے تو عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے سے انکار کیا اور عزیر علیہ السلام کی پوجا کرنے لگے، عیسیٰ علیہ السلام کی قوم تین خداؤں کی قائل اور اس مشرکانہ عقیدہ کی حامل ہو گئی کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں وغیرہ وغیرہ تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنا مبغوض ترین بندہ قرار دے دیا) علاوہ اہل کتاب کی اس جماعت کے جو مشرک نہیں ہوئی بلکہ موسیٰ و عیسیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اصل دین پر قائم و ثابت قدم رہی، اس جماعت کے لوگوں نے نہ تو اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کی اور نہ اپنے دین کے احکام میں اپنی مرضی کے مطابق کوئی تبدیلی کی یہاں تک کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا میں مبعوث ہوئے تو ان پر ایمان لائے اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو مبغوض قرار نہیں دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پیغمبر بنا کر دنیا میں اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں آپ کو آزماؤں کہ آپ اپنی قوم کی ایذا رسانی پر کس طرح صبر کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم کو بھی آزماؤں کہ آیا وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لاتے ہیں یا آپ کے ساتھ کفر اختیار کرتے ہیں اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی جس کو پانی دھو اور مٹا نہیں سکتا (یعنی عام طور سے کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب کو پانی سے دھویا جائے تو مٹ جاتی ہے لیکن وہ کتاب جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی یعنی قرآن کریم ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو کوئی پانی دھو اور مٹا دے بلکہ وہ ہر قسم کی تحریف اور تغیر و تبدل سے محفوظ ہے بایں طور کہ اس کو قیامت تک کے لئے دلوں میں محفوظ کر دیا گیا ہے اور اس کے احکام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی و جاری رکھا گیا ہے آپ اس کتاب کو سوتے جاگتے ہر وقت پڑھتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا دوں (یعنی اہل قریش میں سے جو لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں اور کفر کی حالت پر قائم ہیں ان کو اس طرح تباہ و ہلاک کر دوں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے) میں نے عرض کیا کہ میرے پروردگار قریش تو میرا سر کچل کر روٹی کی مانند چوڑا کر دیں گے (یعنی اہل اسلام کے مقابلہ پر ان کی طاقت اور تعداد بہت زیادہ ہے، میں ان سے کس طرح نمٹ سکوں گا اور کیسے ان پر غلبہ پاؤں گا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تم ان کو ان کے وطن سے نکال دو جس طرح کہ انہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وطن بدر کیا تھا اور ان کے ساتھ جہاد کرو، ہم آپ کے جہاد کے سامان کا انتظام کریں گے یعنی آپ اور آپ کے رفقا کو ایسی غیبی طاق اور ہمت عطا کریں گے کہ اہل اسلام کی مٹھی بھر جماعت بھی ان کے لشکر جرار پر غالب آ جائے گی) آپ اپنے لشکر والوں پر مال و اسباب خرچ کیجئے۔ اگر آپ کے پاس مال و اسباب نہیں ہو گا تو ہم دیں گے اور اس کا انتظام کریں گے، آپ ان کے خلاف اپنا لشکر بھیجئے ہم دشمن کے لشکر سے پانچ گنا زیادہ طاقت کے ساتھ آپ کی مدد کریں گے چنانچہ جب بدر کی جنگ ہوئی اور مسلمان صرف تین سو کی تعداد میں کفر کے ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ معرکہ آرا ہوئے تو روایات میں آتا ہے کہ پانچ ہزار فرشتوں کا لشکر مسلمانوں کی مدد کے لئے آیا۔ اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے اور آپ کے اطاعت گزار ہیں ان کو ساتھ لے کر ان کے خلاف جنگ کیجئے جنہوں نے آپ کی نافرمانی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سرکشی کی ہے اور کافر ہیں۔ (مسلم)
تشریح
حق کی طرف مائل پیدا کیا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کو ایسی استعداد و صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جو قبول حق و قبول طاعت کی راہ میں ان کی مددگار ہوتی۔ اس ارشاد میں گویا اس فطرت اسلام کی طرف اشارہ ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے حدیث(کل مولود یولد علی فطرۃ الاسلام) (یعنی ہر بچہ قبول اسلام کی استعداد و صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے) لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ واقعۃً بالفعل مومن و مسلمان پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں شیطان کی گمراہی کی وجہ سے کافر ہو گئے۔ یا اس جملہ کے ذریعہ اس عہد کی طرف اشارہ ہے کہ جو میثاق کے دن تمام روحوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کا لیا تھا اور سب نے یہ اقرار کیا تھا کہ بے شک ہم سب آپ کو اپنا رب مانتے ہیں عہد و اقرار میں ان لوگوں کی روحیں بھی شامل تھیں جو اس دنیا میں آنے کے بعد اور شیطان کے گمراہ کر دینے کی وجہ سے اپنے اس عہد و اقرار سے مکر گئے اور مومن و مسلمان رہنے کی بجائے کفر و شرک اختیار کر لیا۔
سوتے جاگتے پڑھتے ہیں کا مطلب کہ ایسا ملکہ اور عبور حاصل ہو گیا ہے کہ قرآن ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذہن میں مستحضر رہتا ہے اور اکثر حالات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقدس و پاک نفس اسی کی طرف متوجہ و ملتفت رہتا ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ تو اس سے جاگنے کی حالت میں غافل رہتے ہیں اور نہ سونے کی حالت میں، یہ ایک عام محاورہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی خاص کام میں مہارت و ملکہ رکھتا ہے اور زیادہ اسی میں منہمک و مستغرق رہتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ سوتے جاگتے یہی کام کرتا ہے۔ حاصل یہ کہ قرآن سوتے وقت آپ کے دل میں رہتا ہے۔ لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلب مبارک کی نسبت سے یہ تاویل قطعاً غیر ضروری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دل تو ہر وقت ہی بیدار رہتا تھا سونے کی حالت میں بھی صرف آنکھیں سوتی تھیں اور دل پر کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا اس جملہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ سوتے کی حالت بھی قرآن سے آپ کا تعلق منقطع نہیں ہوتا، فرق صرف اتنا ہے کہ جاگنے کی حالت میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان اور دل دونوں پر قرآن شریف رہتا ہے اور سونے کی حالت میں صرف قلب مبارک پر جاری رہتا ہے۔ قرآن کا اعجاز تو یہاں تک ثابت ہے کہ جو پاک نفس لوگ کلام اللہ سے بہت زیادہ اور نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں ان کی زبان سوتے کی حالت میں بھی تلاوت کرتی ہے جیسا کہ بہت سے بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ ان کو دیکھا گیا کہ وہ سو رہے ہیں لیکن زبان سے تلاوت جاری ہے اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز اور عجیب واقعہ وہ ہے جو بعض کتابوں میں منقول ہے کہ ایک شخص اپنے شیخ و مرشد کے ساتھ ہر روز سحر کے وقت قرآن کی دس آیتوں کا دور کیا کرتا تھا۔ جب شیخ کی وفات ہو گئی تو وہ شخص اپنی عادت کے مطابق سحر کے وقت اٹھا اور شیخ کی قبر پر حاضر ہوا اور وہاں دس آیتوں کی تلاوت کی، تلاوت فارغ ہو کر خاموش ہی ہوا تھا کہ اچانک قبر کے اندر سے اپنے شیخ کی آواز سنی کہ اپنی زندگی کے معمول کے مطابق انہوں نے دس آیتوں کی تلاوت کی اور اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پھر تو اس شخص نے یہ معمول بنا لیا کہ روز سحر کے وقت قبر پر پہنچ جاتا دس آیتوں کی تلاوت کرتا اور قبر کے اندر سے اپنے شیخ کی آتی ہوئی آواز میں دس آیتوں کی تلاوت سنتا اور چلا آتا یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا، ایک دن اس نے یہ واقعہ اپنے کسی دوست سے بھی بیان کر دیا اس دن سے قبر کے اندر سے شیخ کی تلاوت کی آواز کا آنا بھی موقوف ہو گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ) 26۔ الشعرا:214) (یعنی اپنے قریب کے کعبہ والوں کو ڈرائیے تو آپ کو صفا پر جو خانہ کعبہ کے قریب ہے تشریف لے گئے اور وہاں سے پکارنا شروع کیا۔ اے بنی عدی یعنی قریش کی تمام شاخوں کو نام بنام بلانا شروع کیا۔ چنانچہ جب قریش کی تمام شاخوں کے لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا تم لوگ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ جنگل میں ایک لشکر آ کر اترا ہے اور تمہیں تباہ و غارت کر دینا چاہتا ہے تو کیا تم مجھ کو سچا جانو گے ان سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ بیشک کیونکہ ہمارا ہمیشہ کا تجربہ یہ ہے کہ تم نے جب بھی کوئی بات کہی ہے سچ کہی ہے تمہاری زبان سے ہم نے کبھی سوائے سچ کے کوئی بات نہیں سنی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو تو سنو کہ میں خدا کی طرف سے تمہیں اس کے سخت ترین عذاب کے اترنے سے پہلے ڈرانے والا مامور ہوا ہوں یعنی میں خدا کے رسول کی حیثیت سے تمہارے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتا ہوں اس کو قبول کرو اگر تم اس دعوت کو قبول نہیں کرو گے اور مجھ پر ایمان نہیں لاؤ گے تو پھر میں تمہیں یہ خبر دیتا ہوں کہ تم پر خدا کا نہایت سخت عذاب نازل ہو گا۔ ابو لہب جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چچا تھا اور جس کا نام عبدالعزی تھا یہ بات سن کر بولا۔ سارے دن تیری تباہی ہو، کیا اسی لئے تو نے ہمیں اکٹھا کیا تھا کہ ہم تیری خراب باتیں سنیں ؟ اس پر سورۃ لہب نازل ہوئی جسکا ترجمہ یہ ہے یعنی ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو جائے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گستاخی کرنے کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گیا۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آواز دیکر قریش کو جمع کیا اور فرمایا کہ اے عبد مناف کے بیٹو میری اور تمہاری حالت کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے دشمن کا لشکر اپنی قوم پر حملہ آور ہونے کے لئے آتے ہوئے دیکھا تو وہ اپنی قوم کو اس دشمن کے قتل و غارت گری سے بچانے کے لئے چلا تاکہ کسی پہاڑی پر چڑھ کر بلند آواز کے ذریعہ قوم کے لوگوں کو دشمن کے خطرہ سے آگاہ کر دے لیکن اس خوف سے کہ کہیں دشمن کا لشکر اس سے پہلے ہی اس کی قوم تک نہ پہنچ جائے اس نے وہیں سے چلا چلا کر یہ کہنا شروع کر دیا۔
تشریح
بطن کے اصل معنی تو پیٹ کے ہیں لیکن یہ گروہ یا شاخ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جو قبیلہ سے نیچے کا درجہ ہے بطن سے نیچے کا جو درجہ ہوتا ہے اس کو فخذ کہتے ہیں گویا عرب میں نسب کے بالائی درجہ کو تو قبیلہ کہتے ہیں اس کے بعد کے درجہ کو بطن اور اس کے بعد کے درجہ کو فخذ کہا جاتا تھا چنانچہ قریش قبیلہ کا نام ہے جس کے مورث اعلیٰ کا نام نضر بن کنانہ تھا نضر بن کنانہ کے بعد جو شاخیں چلیں ان کو بطون سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پھر بطون کے بعد کی شاخوں کو افخاذ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی الفاظ میں اس کا حاصل یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ قبیلہ بمنزلہ جنس ہے، بطن بمنزلہ نوع کے ہیں اور فخذ بمنزلہ فصل کے ہے۔
وادی (جنگل) سے مراد حجاز کا وہ خاص علاقہ ہے جو مکہ سے شمالی جانب تقریباً سولہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جس کو وادی فاطمہ کہا جاتا ہے یہ ایک نخلستانی علاقہ ہے اور یہاں کی زمین شاداب اور قابل کاشت ہے اس وادی کا ایک قدیم نام مر الظہران بھی ہے، مکہ اور مدینہ کے درمیان کا یہ پرانا راستہ اس طرف سے بھی گزرتا تھا۔
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں میں ہاتھوں کے ٹوٹنے اور ہلاک ہونے سے مراد اس کی ذات کا ہلاک ہونا ہے، جیسا کہ قرآن نے ان الفاظ آیت(ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ) سے ثابت ہوتا ہے کہ عربی میں ذات کی ہلاکت کو ہاتھوں کی ہلاکت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کے دونوں ہاتھوں سے مراد اس کے دونوں جہاں یعنی دنیا اور آخرت ہیں چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اس کے دونوں جہاں تباہ و برباد ہو گئے، وہ نہ یہاں کا رہا نہ وہاں کا۔ اور بعض حضرات نے یہ تحقیق بھی بیان کی ہے کہ خاص طور اس کے ہاتھوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حاضرین کو اسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے عذاب خداوندی سے ڈرایا تو ابو لہب نے اس وقت صرف مذکورہ بات کہنے ہی پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ اس نے اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مارنا بھی چاہا تھا۔
عبد مناف قریش کی ان دو شاخوں کے جد اعلیٰ کا نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے وقت سب سے مشہور اور مقتدر و غالب شاخیں تھیں۔ عبد مناف کے دو بیٹوں یعنی ہاشم اور عبد شمس سے جو شاخیں چلیں ان میں سے ایک یعنی ہاشم کی اولاد کو بنو ہاشم کہا جاتا ہے، اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خاندان ہے، اس خاندان کے ممتاز افراد میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جو سلسلہ نسب چلا وہ علوی اور عباسی کہلاتا ہے عبد مناف کے دوسرے بیٹے عبد شمس تھے، ان کی شاخ ان کے بیٹے امیہ سے چلی اور ان کا خاندان بنو امیہ کے اہم اشخاص میں حضرت ابو سفیان، مروان اور سیدنا عثمان غنی ہیں۔
صباحاہ اصل میں ایک ایسا لفظ ہے جو اہل عرب میں کسی خطرناک اور دہشت آمیز چیز سے ڈرانے کے لئے بولا جاتا ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ لفظ صباح صبح کے وقت) سے مشتق ہے اور عام طور پر دشمن چونکہ صبح کے وقت حملہ آور ہو کر غارت گری کرتا ہے اس لئے کسی حملہ کے خطرہ کے وقت چوکیدار اور محافظ لوگ اس لفظ کے ذریعہ چیختے چلاتے ہیں تاکہ لوگ حملہ کے خطرہ سے آگاہ ہو کر اپنی حفاظت و مقابلہ کے لئے تیار رہیں۔ لہٰذا اس لفظ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ لوگو ہوشیار ہو جاؤ قبل اس کے کہ دشمن تمہیں تباہ و غارت کرنے کے لئے حملہ آور ہو اپنے بچاؤ کے لئے یہاں سے نکل جاؤ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل قریش کے سامنے مذکورہ مثال بیان کر کے گویا یہ فرمایا کہ میں بھی تمہیں ایک ایسے ہی عذاب کے خطرہ سے آگاہ کر رہا ہوں جو تمہیں تباہ و برباد کر دے گا لہٰذا قبل اس کے کہ وہ عذاب تم پر نازل ہو تم ایمان قبول کر کے اس عذاب سے اپنے آپ کو بچاؤ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ (وانذر عشیرتک الاقربین) (یعنی اپنے قریب کے کنبہ والوں کو ڈرائیے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریش کے لوگوں کو آواز دے کر بلایا جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے خطاب میں تعمیم بھی کی اور تخصیص بھی یعنی ان کو ان کے دور کے جد اعلیٰ کے ناموں کے ذریعہ بھی مخاطب کیا خاص خاص لوگوں سے مخصوص خطاب بھی ہو جائے چنانچہ آپ نے ان سب کو اس طرح خطاب فرمایا اے کعب بن لوی کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ (یعنی ایمان قبول کرو اور نیک عمل کرو تاکہ دوزخ کی آگ سے نجات پا سکو) اے مرہ بن کعب کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد مناف کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ اور اے میری لخت جگر فاطمہ اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچا اس لئے کہ میں تمہارے حق میں خدا کی طرف از قسم عذاب کسی چیز کا مالک نہیں ہوں یعنی میں تم سے کسی کو بھی خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکتا البتہ مجھ پا تمہاری قرابت کا حق ہے جس کو میں اس کی تری کے ساتھ تر کرتا ہوں یعنی میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت ہے اور اس کا جو حق مجھ پر ہے۔ وہ بس اتنا ہی کہ میں اس دنیا کے معاملات میں تمہاری دیکھ بھال رکھوں، تمہارے ساتھ اچھا سلوک کروں اور اگر تم احتیاج و ضرورت کی تپش محسوس کرو تو میں صلہ رحمی اور حسن سلوک و احسان کے چھینٹوں سے اس تپش کو ختم کرنے کی کوشش کروں۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے اور جس روایت کو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے ان میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے قریش کے گروہ اپنے آپ کو خرید لو یعنی مجھ پر ایمان لانے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعہ کفران نعمت ترک کر کے اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ میں تم سے خدا کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کر سکتا۔ اے میرے چچا عباس بن عبدالمطلب میں آپ سے بھی خدا کے عذاب میں سے کچھ دور نہیں کر سکتا اور اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی صفیہ میں آپ سے بھی خدا کے عذاب میں سے کچھ دور نہیں کر سکتا۔ اور اے جان پدر فاطمہ بنت محمد، میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے میں دوں گا لیکن خدا کے کسی عذاب سے میں تجھ کو بھی نہیں بچا سکتا۔
تشریح
لوی اصل میں تو لام کے پیش اور ہمزہ کے زیر کے ساتھ ہے لیکن کبھی ہمزہ واؤ سے بدل جاتا ہے اور آخر میں تشدید کے ساتھ یا آتی ہے اس طرح سے یہ نام لوی پڑھا جاتا ہے۔ لوی قریش کے ایک جد اعلیٰ کا نام ہے جو غالب بن فہر کے بیٹے تھے اور یہ وہی فہر ہیں جن کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قریش نضر بن کنانہ کے بجائے انہیں کا لقب تھا اور اس اعتبار سے قریش کے سلسلہ نسب کی ابتدا گویا فہر ہی کے نام سے ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ قریش اصل میں لفظ القرش سے نکلا ہے جس کے معنی تجارت کے ہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ قریش اصل میں قرش سے نکلا ہے جس کے معنی ایک بڑی خطرناک مچھلی کے ہیں اور جس کو کلب البحر بھی کہتے ہیں مچھلی پانی کے اندر جانوروں کے اپنے دانت سے تلوار کی طرح کاٹ دیتی ہے۔ مرۃ بن کعب بھی قریش کی ایک شاخ کے جد اعلیٰ کا نام ہے اپنی شاخ کے سلسلہ نسب میں عبد مناف کا نام عبد شمنس سے پہلے آتا ہے کیونکہ وہ عبد شمس کے باپ تھے لیکن یہاں روایت میں ان کا ذکر عبد شمس کے بعد کیا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جد اعلیٰ ہاشم کے باپ بھی عبد مناف ہی تھے۔
اے ہاشم کے بیٹو! ان الفاظ کے ذریعہ گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچاؤں اور چچاؤں کے بیٹوں، ان سب کو مخاطب فرمایا حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریش کی تمام شاخوں کو جمع فرما کر دعوت اسلام پیش کی اور ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا، اور یہ ڈرانا اس حد تک تھا کہ اپنی اولاد کو بھی اس میں شامل فرما لیا۔ چنانچہ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جو تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہیں اور ان پر دوزخ کی آگ حرام ہے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا۔
کسی چیز کا مالک نہیں ہوں کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں عذاب دینے کا ارادہ فرما لیا تو میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تم سے اس عذاب کا کوئی حصہ بھی دفع کر دوں، گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمانا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی بنا پر تھا کہ آیت(قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا او اراد بکم نفعا) بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرمایا ہے آیت(قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الاماشا اللہ)۔
جس کو میں اس کی تری کے ساتھ تر کرتا ہوں میں تری سے مراد قرابت داری کے تعلق کو قائم رکھنا اور ان قرابت داروں کے ساتھ احسان و حسن سلوک کرنا ہے۔ پس اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ میں اپنے قرابتداروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں، ان کے ساتھ امداد و تعاون کا معاملہ کرتا ہوں اور ان کو ظلم و نقصان سے بچاتا ہوں۔ نہایہ میں لکھا ہے کہ بلال اصل میں بل کی جمع ہے جس کے معنی تری کے ہیں اور اہل عرب اس قسم کے موقعوں پر تری کا اطلاق احسان اور حسن سلوک کرنے پر کرتے ہیں جیسا کہ یبس یعنی خشکی کا اطلاق قطع تعلق اور بدسلوکی کرنے پر کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اجزا تری کے ذریعہ ایک دوسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں جب کہ خشکی کا پیدا ہو جانا ان اجزا کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کر دیتا ہے تو انہوں نے بطور استعارہ تری کو وصل یعنی جوڑنے اور ملانے کے معنی میں اور خشکی کو منقطع کرنے اور توڑنے کے معنی میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پورے قریش کو اور ان کے ساتھ اپنے خاندان والوں اور قریبی متعلقین کو جس انداز میں خدا کے عذاب سے ڈرایا وہ خدا کے حکم کی تعمیل میں اور مقصد کی عظمت کے لحاظ سے نہایت ہی سخت اور بہت ہی پر زور تھا اور اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے پیش نظر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ڈرانے کا حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کو جمع فرما کر ڈرا دیا ورنہ ان مخاطبین میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کی فضیلت اور جن کا جنت میں داخل ہونا بہت سی روایات سے ثابت ہے علاوہ ازیں جب اپنی امت کے دوسرے لوگوں کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شفاعت کرنا اور اس شفاعت کا قبول ہونا ایک یقینی امر ہے تو پھر خاص اقربا جیسے حضرت عباس، حضرت صفیہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا معاملہ کہیں زیادہ خصوصی رحمت و شفاعت کا مستحق ہے لیکن جیسا کہ بتایا گیا ہے، یہ موقع بہرحال اس بات کا متقاضی تھا کہ ڈرانے کے فریضہ کو زیادہ اہم انداز میں ادا کیا جائے اور چونکہ خدا کی بے نیازی کا خوف ہر صورت میں باقی رہتا ہے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سارے مخاطبین کے ساتھ ان اقربا خاص سے بھی یہ فرمایا کہ تم لوگوں کو بھی خدا کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہوں اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ڈرانے کا یہ واقعہ پہلے کا ہے جب کہ ان خاص اقربا کی فضیلت اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت کی بشارت بعد میں وارد ہوئی ہے۔
میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے اس جملہ کے بارے میں بعض حضرات کو سخت اشکال واقع ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتصادی زندگی جس تنگی و سختی اور فقر و افلاس سے بھری ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کے پاس مال کہاں تھا خصوصاً مکہ کے قیام کے دوران تو آپ بہت سخت مصائب و آلام میں تھے ایسی صورت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آپ کے اس فرمانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ از قسم مال جو بھی چیز تم چاہو مجھ سے مانگ سکتی ہو اور میں تمہیں وہ چیز دوں گا۔ لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس اشکال کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی، ول تو اس وجہ سے کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے آیت(ووجدک عائلا فاغنی) یعنی اور ہم نے آپ کو محتاج و مفلس پایا تو غنی و مالدار کر دیا۔ چنانچہ مفسرین کہتے ہیں کہ غنی کر دیا سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال و دولت کی طرف اشارہ ہے جو ان کے ساتھ نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قبضہ تصرف میں آیا اور آپ جس طرح چاہتے تھے اس مال و دولت کو خرچ کرتے تھے لہٰذا معلوم ہوا کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بالکل تہی دست نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ مال کا اطلاق تھوڑے مال اور زیادہ مال دونوں پر ہوتا ہے پس یہ بات کہ اسے معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس از قسم مال، مطلق کچھ بھی نہیں تھا اور تیسرے یہ کہ مذکورہ جملہ کا ہونا اسی صورت میں کب ضروری ہے جب کہ آپ کے پاس اس وقت مال موجود رہا ہو، اس جملہ کے ذریعہ آپ کی مراد یہ بھی تو ہو سکتی تھی کہ جب بھی میرے پاس کچھ مال و اسباب آیا اور خدا نے مجھے کچھ دیا تو تم اس میں سے جو چاہو مانگ لینا وہ میں تمہیں دے دوں گا لیکن جہاں تک آخرت کی نجات کا تعلق ہے اس کا میری ملکیت و قدرت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں یہ چیز تمہیں دینے پر قادر نہیں ہوں۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میری یہ امت امت مرحومہ ہے (یعنی دوسری امتوں کی بہ نسبت میری امت کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کے نبی کی شان بھی رحمۃ للعالمین ہے) اس امت پر آخرت میں عذاب نہیں ہو گا اور دنیا میں اس کا عذاب، فتنے زلزلے اور ناحق قتل ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
آخرت میں عذاب نہیں ہو گا کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں دائمی عذاب یا سخت عذاب جو کفار و مشرکوں کے لئے ہے اس امت پر نہیں ہو گا بلکہ اس کا عذاب یہ ہے کہ جو لوگ برے اعمال کرتے ہیں اور دین و شریعت کے راستہ پر نہیں چلتے ان کو سزا کے طور پر اس دنیا میں مختلف فتنوں، آفتوں امراض اور طرح طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات اس آیت کریمہ (مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءاً يُّجْزَ بِهٖ) 4۔ النسا:123) کی مراد سے بھی واضح ہوتی ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے اور حدیث کے الفاظ عذابہا فی الدنیا الخ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے حدیث خاص طور سے ان مسلمانوں کے حق میں ہے جو کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث کا روئے سخن اس امت کی ایک مخصوص جماعت یعنی صحابہ کرام کی طرف ہو مظہر نے یہ کہا ہے کہ یہ حدیث نہایت پیچیدہ مفہوم کی حامل ہے کیونکہ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کے کسی بھی فرد کو آخرت میں عذاب نہیں دیا جائے گا خواہ وہ گناہ کبیرہ کرے یا جو چاہے کرتا پھرے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی و توضیح کے بغیر کچھ نہیں کہا جا سکتا سوائے اس سے کہ یہ تاویل کی جائے کہ یہاں امت سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام و فرمانبرداری کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بھی کامل پیروی کرے اور ان چیزوں سے بری طرح پرہیز کرے جن کو اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
دنیا میں اس کا عذاب الخ کا مطلب یہ ہے کہ میری امت کے لوگ زمانہ کے جن حادثات سے دوچار ہوتے ہیں جیسے زلزلے آتے ہیں اور جان و مال کو نقصان میں مبتلا کرتے ہیں، سیلاب آتے ہیں اور سخت تباہی پھیلاتے ہیں، لوٹ مار مچتی ہے اور مسلمانوں کے جان و مال کو نقصان پہنچتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور یہ سب چیزیں ان لوگوں کے گناہوں خطاؤں اور بد عملیوں کے کفارہ کا موجب بنتی ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کا باعث ہوتی ہیں، اسی طرح جو کشت و خون اور قتل و قتال ان کے درمیان ہوتا ہے اگر اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ مسلمان کفار اور دین کے دوسرے دشمنوں جیسے مبتدعین وغیرہ کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا قتل ہونا خود موجب شہادت ہوتا ہے یعنی ان مسلمانوں کو شہید کا درجہ ملتا ہے جو ایک بہت بڑی سعادت ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مسلمان خود آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں تو دیکھا جائے گا کہ ان کا باہمی قتل و قتال اور کشت و خون کس بنا پر ہے اگر ایسا ہے کہ دونوں فریق کسی ایسے معاملہ میں بر سر جنگ ہو گئے ہیں جس کی حیثیت شرعی نقطہ نظر سے واضح نہیں ہے اور اشتباہ و تاویل کے سبب دونوں کا حق پر ہونا ثابت ہو سکتا ہے تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ دونوں فریق سلامتی پر ہیں، اور ان میں سے کسی کو بھی ظالم قرار نہیں دیا جائے گا اور اگر ان کا باہم بر سر جنگ ہونا اور ایک دوسرے کا کشت و خون کرنا کسی ایسے معاملہ کی وجہ سے ہے جس کی حیثیت و حقیقت بالکل واضح ہے اور ایک فریق صریحاً ظلم و زیادتی پر ہے تو جو فریق مظلوم ہو گا اس کو ماجور قرار دیا جائے گا۔
بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عذاب قبر اس امت مرحومہ و مغفورہ کے خصائص میں سے ہے، یعنی مسلمانوں کو عذاب قبر میں اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ وہ معصیت کی جو گندگی ہے اس کو عالم برزخ میں دھویا جائے اور وہ مسلمان عذاب قبر کی صورت میں اپنے گناہوں سے پاک وصاف ہو کر آخرت میں پہنچیں اور وہاں کے عذاب کا منہ نہ دیکھنے پائیں۔
حضرت عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما جو دونوں اونچے درجہ کے صحابہ میں سے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ امر (یعنی دین اسلام) نبوت و رحمت کے ساتھ ظاہر ہوا (یعنی دین اسلام سب سے پہلے جس زمانہ میں ظاہر ہوا وہ زمانہ نزول وحی اور رحمت و نورانیت کا زمانہ ہے) پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گے وہ خلاف و رحمت کا زمانہ ہو گا، پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گا وہ کاٹ کھانے والی بادشاہت کا زمانہ ہو گا اور پھر اس دین کا جو زمانہ آئے گا وہ ظلم و جور، قہر و تکبر اور زمین پر فتنہ و فساد کا زمانہ ہو گا۔ اس وقت لوگ ریشمی کپڑوں کو جائز جان کر استعمال کریں گے، عورتوں کی شرمگاہوں کو اور شراب کی تمام انواع و اقسام کو حلال قرار دیں گے۔ لیکن ان چیزوں کے باوجود ان کو رزق دیا جائے گا اور کفار اور ان کے مخالفین کے مقابلہ پر ان کی مدد کی جائے گی یہاں تک وہ روز جزا اللہ تعالیٰ سے جا ملیں گے (یعنی لوگ اگرچہ اتنی سخت بد عملیوں اور خدا کی نافرمانی میں مبتلا ہوں گے اور اس اعتبار سے وہ عذاب خداوندی کے مستوجب اور ہلاکت و تباہی کے مستحق ہوں گے۔ مگر حق تعالیٰ کی اس رحمت کے سبب کہ جو امت مرحومہ کے لئے مخصوص ہے ان کو یہاں عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اور اس میں شاید حق تعالیٰ کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو مثلاً یہ کہ ان سے مخلوق خداوندی کے نظم و نسق اور انتظام مملکت کا وہ کام لیا جانا مقصود ہو گا جس کی اہلیت و صلاحیت وہی رکھیں گے یا یہ کہ اگر وہ لوگ خود فاسق و بدکار ہوں گے لیکن ان کے ہاتھوں دین کی اصلاح و درستی کا کوئی انجام پانا مقدر ہو گا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
لفظ بدا الف کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں ظاہر ہوا اور بعض نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ ہے جس کے معنی شروع ہونے کے ہیں اس صورت میں گویا ترجمہ یہ ہو گا کہ یہ امر یعنی دین اسلام کا ابتدائی زمانہ وحی سے شروع ہوا اور ذات رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک باقی رہا۔
اس ارشاد گرامی اسلامی تاریخ کے ان ادوار اور زمانوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے جس سے مسلمانوں کا کارواں گزرا یا گزرے گا۔ پہلا زمانہ تو وہ ہو گا جس میں دین اسلام کی ابتدا اور اس کا ظہور ہوا ہے اور جو نزول وحی کے وقت سے شروع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخر زندگی تک باقی رہا یہ زمانہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں سراسر رحمت و نورانیت اور خیر سعادت کا زمانہ تھا ذات رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی کی وجہ سے دین میں کسی رخنہ اندازی، احکام شریعت میں کسی ابہام و تشکیک، مسلمانوں کی نظریاتی و عملی زندگی میں کسی گمراہی و ضلالت اور عام حالات میں کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہونے کا کوئی خوف تک نہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جو زمانہ آیا وہ خلافت کا زمانہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت و رفاقت سے فیض اٹھائے ہوئے اور ذات رسالت پناہ کے تربیت یافتہ افراد میں سے سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ با عظمت اور ایمان و عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ کامل انسان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نائب و خلیفہ بنے، مسلمانوں کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں آئی اور وہ دین و ملت کے معاملات کے والی و نگہبان بنے ان پاک نفس حضرات نے یکے بعد دیگر مسند خلافت پر متمکن رہ کر جتنے دنوں تک مملکت و ملت کا نظم و نسق چلایا وہ پورا زمانہ گویا پھر ایک مرتبہ رحمت و نورانیت کا زمانہ رہا کہ خلفا راشدین اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طور پر مسلمانوں پر سایہ فگن اور خیر و برکت کے نزول کا باعث بنے رہے اور ان کے زمانہ میں نیکیوں اور بھلائیوں کا دور دورہ رہا مسلمان اخلاص و ایثار اور عمل کردار کی پختگی کا نمونہ بنے رہے اور ان کے طفیل میں یہ زمین عام طور پر امن و سکون اور اطمینان وعافیت کا گہوارہ رہی۔ وہ زمانہ کہ جس کو خلافت و رحمت کا زمانہ کہا گیا ہے تیس سال کے شب و روز پر مشتمل تھا ان تیس سالوں میں ساڑھے انتیس سال تو چاروں خلفا راشدین کے مجموع زمانہ خلافت کے ہیں اور باقی چھ ماہ کا عرصہ وہ ہے جس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن رہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ربیع الاول 11ھ میں خلیفہ رسول مقرر ہوئے اور جمادی الثانی 13ھ میں وفات پائی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض الموت میں صاحب الرائے مسلمانوں کے مشورہ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد فرما دیا تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمادی الثانی 13ھ میں خلافت کا منصب سنبھالا اور آخر ذی الحجہ 23ھ تک اس منصب پر فائز رہے، 27ذی الحجہ کو ایک نصرانی غلام ابو لؤلؤ (اصل نام فیروز) نے آپ کو نماز فجر کی امامت کی حالت میں خنجر سے حملہ کر کے سخت زخمی کر دیا تھا جس کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکے اور یکم محرم الحرام 24ھ کو فوت ہو کر مدفون ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری دنوں میں پانچ جلیل القدر اور ممتاز صحابہ حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن عوام، حضرت طلحہ، حضرت علی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو نامزد فرما دیا تھا کہ یہ حضرات آپس میں مشورہ کر کے اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لیں، چنانچہ ان حضرات نے کافی غور و خوض اور باہمی مشورہ کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر اور تیسرا خلیفہ منتخب کر لیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت محرم 24ھ سے شروع ہوئی اور ذی الحجہ 30ھ تک رہی جب کہ اس ماہ کی 18تاریخ کو خلافت کے باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نے آپ کو مکان میں محصور کر کے بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد 25ذی الحجہ 35ھ کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مدینہ منورہ میں عام بیعت ہوئی اور اس طرح وہ چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے اور رمضان 40ھ کو ان کی خلافت کا دور ختم ہوا جب کہ عبدالرحمن بن ملجم کے زخمی کر دینے کی وجہ سے سے ان کی وفات ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی خلافت قائم ہوئی، لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے آویزش جو سلسلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شروع ہوا تھا وہ ان کی وفات کے بعد اور زیادہ بڑھ گیا اور جب سیادت و امارت کے مسئلہ پر مسلمانوں میں افتراق و انتشار بڑھنے لگا اور مخالف فریقوں کے درمیان کشت و خون کا خطرہ زیادہ سنگین ہو گیا تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلاف سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ انہوں نے ربیع الاول 41ھ تک خلافت کی۔ 41ھ تک کا تیس سالہ دور وہ زمانہ ہے جس کو اس حدیث میں خلافت و رحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے اور اس زمانہ میں ان خلفا راشدین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نائب و خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اخلاص ودیانت، اور عدل و انصاف کے ساتھ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر دین اسلام کی خدمات انجام دیں، مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادت و سیادت کی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ نبھایا اور اسلام کی عظمت و شوکت کا جھنڈا بلند کیا۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس خلافت کی اس حدیث میں فضیلت بیان کی گئی ہے اور جو واقعتاً ذات رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نیاب تھی اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا کوئی حصہ نہیں ہے کہ ان کا دور حکمرانی اس زمانہ سے الگ ہے۔ جس کو خلافت و رحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے۔
عض کے معنی کاٹنے کے ہیں اور عضوض (عین کے زبر کے ساتھ) اسی لفظ سے نکلا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے اور ایک روایت میں ملوکا عضوضا (عین کے پیش کے ساتھ) منقول ہے جو عض (عین کے زیر کے ساتھ) کی جمع ہے اور جس کے معنی خبیث،شریر، اور ب دخلق کے ہیں مطلب یہ ہے کہ خلافت و رحمت کے زمانہ کے بعد جو دور آئے گا وہ ملوکیت بادشاہت کا دور ہو گا اور ایسے ایسے لوگ ملک کے بادشاہ حکمران اور مسلمانوں کے سردار و حاکم بن بیٹھیں گے جن کے دلوں میں نہ خدا کا خوف اور مواخذہ آخرت کا ڈر ہو گا اور نہ مخلوق خدا کے تئیں ہمدردی و مروت اور عدل و انصاف کا احساس ہو گا اس لئے وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے لوگوں پر ظلم وجبر کریں گے ان کو ناحق سزاؤں اور عقوبتوں میں مبتلا کریں گے اور ان کو طرح طرح سے ستائیں گے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ بات غالب و اکثریت کے اعتبار سے کہی گئی ہے یعنی اکثر بادشاہ حکمران ایسے ہوں گے، اور چونکہ شاذ و نادر پر حکم نہیں لگایا جاتا کہ النادر کالمعدوم اس لئے یہ اشکال پیدا نہیں ہو سکتا کہ حدیث میں خلافت راشدہ کے بعد کے حکمرانوں اور بادشاہوں کے زمانہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے کیا اس کا اطلاق ان حکمرانوں کے رانوں پر بھی ہوتا ہے۔ جو عدل و انصاف، مذہب و ملت کی خدمت گزاری اور خدا ترسی کے اوصاف سے پوری طرح آراستہ تھے ؟ مثال کے طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکمرانی ہے، انہوں نے جس عدل و انصاف کے ساتھ حکمرانی کی اور ان کا دور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں جس طرح خیر و بھلائی کا باعث بنا اس کی بنیاد پر عمر ثانی کہا گیا ہے حاصل یہ کہ خلاف راشدہ کے بعد جن لوگوں نے مسلمانوں پر حکمرانی کی، اور جو لوگ بادشاہ بنے ان میں سے اکثر ایسے تھے جن کا دور حکمرانی مذہب و ملت کے حق میں مفید ثابت ہوا اور اپنے عوام کے لئے خیر و برکت اور راحت و اطمینان کا باعث بنے وہ استثنائی حکم رکھتے ہیں۔
ظلم و جور، قہر و تکبر اور زمین پر فتنہ و فساد کا زمانہ ہو گا کا مطلب یہ ہے کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اور زیادہ سخت ہو گا، نااہل لوگ تخت حکومت پر بیٹھیں گے، ظلم اور زیادتی اور انتشار و بد امنی کا دور دورہ ہو گا، عالم لوگوں کی جان و مال اور عزت آبرو غیر محفوظ ہو گی ہر طرف لوٹ مار، قتل و غارتگری کا بازار گرم ہو گا، اور انسانیت کو تباہ کرنے والی ہر طرح کی برائیاں روئے زمین پر پھیل جائیں گی۔ چنانچہ جیسا کہ ہم اپنے زمانہ میں دیکھ رہے ہیں یہ پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ حکومت و اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے جو آئیں جہانبانی سے ناواقف ہیں، جنہوں نے ظلم و جور کو اپنا شعار بنا رکھا ہے اور مسلم ممالک جہاں مذہب و ملت کے اصولوں کی فرمانبرداری ہونی چاہیے وہاں طاغوتی طاقتیں بر سر حکومت ہیں ظالم و جابر لوگوں نے زور زبردستی اور مکر و فریب کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کر لیا ہے وہ نہ قیادت و سیادت کے اصول و شرائط کو پورا کرتے ہیں، نہ اپنے عوام کی دینی و دنیاوی بھلائی و بہتری سے انہیں کوئی تعلق ہے وہ اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے فتنہ و فساد کے بیج بوتے ہیں تباہ کن سازشیں کرتے ہیں عوام پر نت نئے ظلم ڈھاتے ہیں جو بندگان خاص انہیں راہ راست دکھانا چاہتے ہیں ان کو طرح طرح کی صعوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، کلیدی عہدوں اور مناسب پر اہل و لائق افراد کی بجائے موقع پرست، خود غرض اور نااہل لوگوں کو فائز کرتے ہیں، علما و صلحا اور اکابرین دین، جو ہر طرح کی عزت احترام کے مستحق ہوتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی طرف کوئی توجہ و التفات نہیں کی جاتی بلکہ مختلف ذرائع اور اقدامات کے ذریعہ ان کی ہتک کی جاتی ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی پاداش میں ان کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔
اور یہ کہ تقریباً تمام ہی مسلم حکمرانوں نے دین کے دشمنوں کے خلاف تو جہاد کے فریضہ کو ترک کر دیا، البتہ اپنی حکمرانی کی خاطر اور ملک گیری کی ہوس میں خود مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہو گئے اور اپنی تلواروں کو ان کے خون سے رنگین کیا۔ اور اسی وجہ سے بعض علما نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو شخص ان حکمرانوں اور بادشاہوں کو عادل کہے گا وہ کافر ہو جائے گا۔
غرضیکہ ان حکمرانوں اور بادشاہ کی وجہ سے روئے زمین پر فتنہ و فساد روز افزوں ہوتا گیا خود غرضی، موقع پرستی، بد انتظامی، اور عام بدامنی و انتشار کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، یہاں تک کہ تاریخ ایسے حکمرانوں کے سیاہ کارناموں سے شرمسار ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے ان شہروں کو تاراج کرنے اور وہاں کے لوگوں کا قتل عام کا باعث بنے، جہاں بڑے بڑے اولیا، صلحا اور مشائخ تھے، جہاں کمزور اور ضعیف لوگ بچے اور عورتیں تھیں، اور جن کو قتل کرانے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں تھی، مزید ستم یہ کہ اس شہر کے لوگ ملت حنیفہ سے تعلق رکھتے تھے، اور اہل سنت والجماعت میں شامل تھے اور ان کا قتل عام کرنے والے مدعی سلطنت اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ ہم دین و شریعت کے حامی و مددگار ہیں، اور اہل علم و بزرگان دین کی تعظیم کرتے ہیں۔
علما نے تو یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر مسلمان دشمنان دین کے کسی ایسے قلعہ کو فتح کریں جس میں ہزاروں اہل حرب اور دشمنان دین پائے جائیں لیکن ان ہزاروں میں کوئی ایک مجہول الحال ذمی بھی موجود ہو تو محض اس ذمی کی وجہ سے مفتوح قلعہ میں قتل عام کرنا ہرگز درست نہیں ہو گا۔ مگر وہ حکمران اور بادشاہ حشر کے دن آخر کیا جواب دیں گے جنہوں نے محض اپنے اقتدار اور اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے مسلمانوں تک کا قتل عام کرایا ہے اور ان کے شہروں و آبادیوں کو چشم و زون میں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے نالائق و نااہل مسلم حکمرانوں ہی کی وجہ سے ایسے ایسے فتنہ و فساد رونما ہوئے اسلامی سلطنتوں میں اس قدر تباہیاں آئیں اور اتنا زیادہ کشت و خون ہوا کہ روئے زمین پناہ مانگنے لگی، یہاں تک کہ حرمین شریفین بھی ان فتنہ و فساد سے محفوظ نہ رہ سکے اور ان مقدس شہروں میں اتنے تباہ کن اور بھیانک واقعات رونما ہوئے کہ قلم کو مجال بیان نہیں اور ان کی تفصیل کو ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنے دین کا بہترین کارساز اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس کی امت کا حامی و مددگار ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آنے والا ہر سال، بلکہ ہر دن اور بلکہ ہر لمحہ پہلے کی بہ نسبت بد سے بدتر ہی گزر رہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے جس کام کو اوندھا کر دیا جائے گا حدیث کے راوی حضرت زید بن یحییٰ رضی اللہ عنہ نے وضاحت کی کہ یعنی اسلام میں سب سے پہلے جس کام کو اوندھا کر دیا جائے گا جیسے برتن اوندھا کر دیا جاتا ہے وہ شراب ہو گی۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! یہ کیونکر ہو گا جب شراب کے متعلق اللہ کے وہ احکام بیان ہو چکے ہیں جو سب پر ظاہر بھی ہو گئے ہیں؟ یعنی جب شراب کی حرمت نازل ہو چکی ہے اور نہایت سختی کے ساتھ مسلمانوں کو اس چیز سے اجتناب کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس حرمت اجتناب کا یہ حکم اتنا واضح، اتنا عام اور اس قدر تاکید کے ساتھ ہے کہ سب مسلمان اس سے واقف و آگاہ ہو گئے ہیں تو پھر ایسا کس طرح ہو گا کہ اس کا حکم بدل دیا جائے گا اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی مخالفت کی راہ پر لے جائے گی؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ لوگ حیلوں اور بہانوں کے ذریعہ اس کو پینا شروع کر دیں گے اور طریقہ یہ اختیار کریں گے کہ اس کا نام بدل دیں گے اور اس کو حلال قرار دے لیں گے۔ (دارمی
تشریح
مایکفا اصل میں لفظ کفا کا صیغہ مجہول ہے، جس کے معنی ہیں برتن وغیرہ کو اوندھا دینا الٹ دینا تاکہ اس میں پانی وغیرہ جو بھی چیز ہو وہ گر جائے۔
یعنی الاسلام کے الفاظ حدیث کے ایک راوی زید نے بیان کئے ہیں اور ان میں بھی الاسلام سے پہلے فی کا لفظ تھا جو راوی سے ساقط ہو گیا ہے۔ کسی مجلس یا خطبہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شراب کا ذکر اور اس کا حکم بیان فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس اثنا میں اول مایکفا ارشاد فرمایا چنانچہ راوی نے اس ارشاد کو واضح کرنے کے لئے اس جملہ کی خبر، جو محذوف تھی، اپنے الفاظ الخمر کے ذریعہ بیان کی پس یعنی الخمر کا لفظ بھی راوی کا ہے جو یہ مراد بیان کرتا ہے کہ اسلام میں جس چیز کو سب سے پہلے الٹ دیا جائے گا وہ شراب ہے۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب آخر زمانہ میں مسلمانوں کی دینی زندگی میں بہت الٹ پھیر ہو جائے گا اور مذہب کے ساتھ ان کا تعلق کمزور ہو جائے گا تو اس وقت حرام وناجائز چیزوں میں سے سب سے پہلے جس چیز کا کھلم کھلا ارتکاب ہو گا اور اسلام کے احکام میں سے سب سے پہلے جس حکم کو ساقط کر دیا جائے گا وہ شراب اور اس کا حکم ہے کہ لوگ نہ صرف شراب نوشی اختیار کریں گے بلکہ مختلف حیلوں بہانوں اور تاویلوں کے ذریعہ اس کو حلال وجائز قرار دینے کی سعی بھی کریں گے، مثلاً اس کا نام بدل کر کسی ایسے مشروب کے نام پر رکھ دیں گے جس کا پینا جائز ہے جب کہ حقیقت میں وہ شراب ہو گی، یا اس کو کسی دوسرے اجزا جیسے شہد اور چاول وغیرہ کے ساتھ بنائیں گے اور کہیں گے کہ اسلام میں جس چیز کو خمر یعنی شراب کہا گیا ہے اور جس کا پینا حرام ہے وہ انگور کا پانی ہے کہ اس سے نشہ پیدا ہوتا ہے اور یہ مشروب چونکہ انگور سے نہیں بنایا گیا ہے اس لئے اس کو پینا حرام نہیں ہے، حالانکہ وہ نہیں جانیں گے کہ جو بھی چیز نشہ پیدا کرنے والی ہے وہ حرام ہے اور خمر کے حکم میں ہے۔
اور اس کو حلال قرار دے لیں گے کی دو صورتیں ہوں گی، ایک تو یہ کہ وہ لوگ واقعتاً اس کو حلال جانیں گے۔ اس صورت میں وہ کافر ہو جائیں گے کیونکہ شریعت نے جس چیز کو وضاحت کے ساتھ حرام قرار دیا ہے اس کو حلال جاننا کفر ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس کو واقعتاً حلال قرار نہیں دیں گے بلکہ اس کو اسی طرح کھلم کھلا پئیں گے اور یہ ظاہر کریں گے کہ گویا ہم حلال چیز پیتے ہیں۔ اس صورت میں ان پر کفر کا نہیں بلکہ فسق کا حکم لگے گا۔
حضرت نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت کا وجود اور اس کا نور اس وقت تک باقی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہو گی (یعنی ایسے لوگوں کی بادشاہت کا زمانہ آئے جو آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹیں گے جس طرح کتے کاٹتے ہیں اور وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہو گی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر یعنی عدل و انصاف کو پورے طور پر جاری کرنے والی خلافت قائم ہو گی (اور اس خلافت سے مراد حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ ہے) اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔
حضرت حبیب بن سالم نے جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں اور حضرت نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام اور ان کے کاتب تھے، نیز ان سے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور انہوں نے نبوت کے طریقہ پر حکومت قائم کی تو میں نے اس حدیث کی طرف ان کی توجہ مبذول کرنے کے لئے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر و تکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔
وہ یعنی عمر بن عبدالعزیز اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اس تشریح نے ان کو بہت مسرور کیا (یعنی اس بات کی امید و آرزو نے ان کو بھی بہت خوش کیا کہ حدیث میں جس آخری خلافت کا ذکر کیا گیا ہے شاید اس کا اطلاق میرے زمانہ خلافت ہی پر ہو) اس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔