امام محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غسل دیے گئے ایک قمیص میں۔
ام عطیہ انصاریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی نے انتقال کیا تو آئے ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور کہا کہ غسل دو ان کو تین بار یا پانچ بار پانی اور بیری کے پتوں سے اور اخیر میں کافور بھی شامل کرو اور جب تم غسل سے فارغ ہو تو مجھے اطلاع دو کہا ام عطیہ نے جب غسل سے ہم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا تہہ بند دیا اور کہا کہ یہ ان کے بدن پر لپیٹ دو۔
عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ اسما بنت عمیس نے اپنے شوہر ابوبکر صدیق کو غسل دیا جب ان کی وفات ہوئی پھر نکل کر مہاجرین سے پوچھا کہ میں روزے سے ہوں اور سردی بہت ہے کیا مجھ پر بھی غسل لازم ہے بولے نہیں۔
ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کفن دیے گئے تین سفید کپڑوں میں جو سحول کے بنے ہوئے تھے نہ ان میں قمیص تھی نہ عمامہ۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کفن دیے گئے تین سفید کپڑوں میں جو سحول کے بنے ہوئے تھے۔
یحیی بن سعید نے کہا مجھے پہنچا کہ ابوبکر صدیق نے حضرت عائشہ صدیقہ سے کہا اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کتنے کپڑوں میں کفن دیے گئے تھے حضرت عائشہ نے کہا سفید تین کپڑوں میں سحول کے، تب ابوبکر نے کہا کہ یہ کپڑا جو میں پہنے ہوں اس میں گیرو یا زعفران لگا ہوا ہے اس کو دھو کر اور دو کپڑے لے کر مجھے کفن دے دینا حضرت عائشہ بولیں یہ کیا بات ہے ابوبکر بولے کہ مردے سے زیادہ زندے کو کپڑے کی حاجت ہے کفن تو پیپ اور خون کے لئے ہے۔
عمر وبن عاص سے روایت ہے کہ مردہ قمیص پہنایا جائے اور تہ بند پہنایا جائے پھر تیسرے کپڑے میں لپیٹ دیا جائے اگر ایک ہی کپڑا ہو تو اس میں کفن دیا جائے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابوبکر اور عمر بن خطاب اور تمام خلفاء جنازے کے آگے چلتے تھے اور عبداللہ بن عمر بھی ایسا کرتے تھے۔
ربیعہ بن عبداللہ بن الہدیر سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا حضرت عمر کو آگے چلتے تھے زینب بن جحش کے جنازے میں۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ عروہ کو ہمیشہ جنازہ کے آگے چلتے دیکھا یہاں تک کہ وہ بقیع میں آ جاتے اور بیٹھے رہتے یہاں تک کہ جنازہ آ کر گزر جاتا۔
اسما بن ابی ابکر نے کہا اپنے گھر والوں سے میں جب مر جاؤں تو میرے کپڑوں کو خوشبو سے بسانا پھر میرے بدن پر خوشبو لگانا لیکن میرے کفن پر نہ چھڑکنا اور میرے جنازہ کے ساتھ آگ نہ رکھنا۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جس دن نجاشی کا انتقال ہوا اسی روز آپ نے لوگوں کو خبر دی اس کی موت کی اور نکلے مصلے کی طرف اور صف کھڑی کر کے نماز پڑھی جنازے کی اور تکبیریں کہیں چار۔
ابوامامہ سے روایت ہے کہ ایک عورت مسکین بیمار ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ یہ تھا کہ بیمار پرسی کرتے تھے مسکینوں کی اور ان کا حال پوچھتے تھے سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مر جائے یہ عورت تو مجھے خبر کرنا سو رات کو اس کا جنازہ نکلا اور صحابہ نے ناپسند کیا کہ جگائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب صبح ہوئی تو اس کی کیفیت معلوم ہوئی فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے تو تم سے کہہ دیا تھا کہ مجھے خبر کر دینا صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جگانا اور رات کو باہر نکالنا نا گوار ہوا سو نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صف باندھی اس کی قبر پر اور چار تکبیریں کہیں
امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ جس شخص کو بعض تکبیریں جنازہ کی ملیں اور بعض نہ ملیں وہ کیا کرے کہا جس قدر نہ ملیں ان کی قضا کر لے۔
ابو سعید مقبری نے پوچھا ابوہریرہ سے کس طرح تم نماز پڑھتے ہو جنازہ کی کہا ابوہریرہ نے قسم ہے اللہ جل جلالہ کی بقا کی میں تمہیں خبر دوں گا میں جنازہ کے ساتھ ہوتا ہوں اس کے گھر سے پھر جب رکھا جاتا ہے تو میں تکبیر کہہ کر اللہ کی تعریف کرتا ہوں اور پیغمبر پر اس کے درود بھیجتا ہوں پھر کہتا ہوں یا اللہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا اور تیری لونڈی کا بیٹا اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ کوئی معبود سچا تیرے سوا نہیں ہے اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تیرے بندے اور تیرے پیغمبر ہیں اور تو اس کا حال خوب جانتا ہے اے پروردگار اگر وہ نیک ہو تو زیادہ کر اجر اس کا اور جو گناہگار ہو تو درگزر کر اس کے گناہوں سے اے پروردگار مت محروم کر ہم کو اس کے ثواب سے اور مت فتنہ میں ڈال ہم کو بعد اس کے۔
سعید بن مسیب کہتے تھے نماز پڑھی میں نے ابوہریرہ کے پیچھے ایک لڑکے پر جو بے گناہ تھا تو سنا میں نے ان سے کہتے تھے اے اللہ بچا اس کو قبر کے عذاب سے۔
محمد بن ابی حرملہ سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ مر گئیں اور اس زمانے میں طارق حاکم تھے مدینہ کے تو لایا گیا جنازہ ان کا بعد نماز صبح کے اور رکھا گیا بقیع میں اور طارق نماز پڑھا کرتے تھے صبح کی اندھیرے میں ابی حرمہ نے کہا میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا وہ کہتے تھے زینب کے لوگوں سے یا تو تم جنازہ کی نماز اب پڑھ لو یا رہنے دو یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو جائے۔