اسما بنت عمیس سے روایت ہے کہ انہوں نے جنا محمد بن ابی بکر کو مقام بیدا میں تو ذکر کیا ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ غسل کر کے احرام باندھ لے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس نے جنا محمد بن ابی بکر کو ذوالحلیفہ میں تو حکم کیا ان کو ابوبکر نے غسل کر کے احرام باندھنے کا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر غسل کرتے تھے احرام کے واسطے احرام باندھنے سے پہلے اور غسل کر تے تھے مکہ میں داخل ہونے کے واسطے اور غسل کر تے تھے نویں تاریخ کو عرفات میں ٹھہرنے کے واسطے۔
عبد اللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ نے اختلاف کیا ابوا میں تو کہا عبداللہ بن عباس نے محرم اپنا سر دھو سکتا ہے مسور بن مخرمہ نے کہا نہیں دھو سکتا ہے کہ عبداللہ بن حنین کو بھیجا عبداللہ بن عباس نے ابوایوب انصاری کے پاس تو پایا میں نے ان کو غسل کرتے ہوئے دو لکڑیوں کے بیچ میں جو کنوئیں پر لگی ہوتی ہیں اور وہ پردہ کئے ہوئے تھے ایک کپڑے کو تو سلام کیا میں نے ان کو، پوچھا انہوں نے کون ہے یہ میں نے کہا عبداللہ بن حنین ہوں مجھ کو بھیجا ہے عبداللہ بن عباس نے تاکہ تم سے پوچھوں کس طرح غسل کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب وہ محرم ہوتے تھے تو ابو ایوب نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھ کر سر سے کپڑا ہٹایا یہاں تک کہ ان کا سر مجھ کو دکھائی دینے لگا پھر کہا انہوں نے ایک آدمی سے جو پانی ڈالتا تھا ان پر کہ پانی ڈال تو پانی ڈالا اس نے ان کے سر پر اور انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے ملا کر آگے لائے پھر پیچھے لے گئے اور کہا کہ ایسا ہی دیکھا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کرتے ہوئے۔
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا یعلی بن منبہ کے اور وہ پانی ڈالا کرتے جب حضرت عمر غسل کرتے تھے کہ پانی ڈال میرے سر پر یعلی نے کہا تم چاہتے ہو کہ گناہ مجھ پر ہو اگر تم حکم کرو تو میں ڈالوں حضرت عمر نے کہا ڈال کیونکہ پانی ڈالنے سے اور کچھ نہ ہو گا مگر بال اور زیادہ پریشان ہوں گے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب نزدیک ہوتے مکہ کے ٹھہر جاتے ذی طوی میں دو گھاٹیوں کے بیچ میں یہاں تک کہ صبح ہو جاتی تو نماز پڑھتے صبح کی پھر داخل ہوتے مکہ میں اس گھاٹی کی طرف سے جو مکہ کے اوپر کی جانب میں ہے اور جب حج یا عمرہ کے ارادے سے آتے تو مکہ میں داخل نہ ہوتے جب تک غسل نہ کر لیتے ذی طوی میں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہوتے ان کو بھی غسل کا حکم کرتے قبل مکہ میں داخل ہونے کے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نہیں دھوتے تھے اپنے سر کو احرام کی حالت میں مگر جب احتلام ہوتا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محرم کون سے کپڑے پہنے تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ پہنو قمیص اور نہ باندھو عمامہ اور نہ پہنو پائجامہ اور نہ ٹوپی اور نہ موزہ مگر جس کو چپل نہ ملے تو وہ اپنے موزوں کو پہن لے اور ان کو کاٹ ڈالے اس طرح کہ ٹخنے کھلے رہیں اور نہ پہنو ان کپڑوں کو جن میں زعفران لگی ہو اور ورس۔
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے کہ محرم رنگا ہوا کپڑا زعفران میں ورس میں پہنے اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کو نعلین نہ ملیں وہ موزے پہن لے مگر اس کو ٹخنوں سے نیچا کر کے کاٹ لے۔
نافع سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اسلم سے جو مولی تھے عمر بن خطاب کے حدیث بیان کرتے تھے عبداللہ بن عمر سے کہ عمر بن خطاب نے دیکھا طلحہ بن عبید اللہ کو رنگین کپڑے پہنے ہوئے احرام میں تو پوچھا حضرت عمر نے کیا یہ کپڑا رنگا ہوا ہے طلحہ، طلحہ نے کہا اے امیر المومنین یہ مٹی کا رنگ ہے حضرت عمر نے کہا تم لوگ پیشوا ہو لوگ تمہاری پیروی کرتے ہیں اگر کوئی جاہل جو اس رنگ سے واقف نہ ہو اس کپڑے کو دیکھے تو یہی کہے گا کہ طلحہ بن عبید اللہ رنگین کپڑے پہنتے تھے احرام میں، تو نہ پہنو تم لوگ ان رنگین کپڑوں میں سے کچھ۔
اسما بنت ابوبکر خوب گہرے قسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں احرام میں لیکن زعفران اس میں نہ ہوتی تھیں۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے پیٹی کا باندھنا واسطے محرم کے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعد بن مسیب کہتے تھے کہ اگر محرم اپنے کپڑوں کے نیچے پیٹی باندھے تو کچھ قباحت نہیں ہے جب اس کے دونوں کناروں میں تسمے ہوں وہ ایک دوسرے سے باندھ دیے جاتے ہوں۔
فرافصہ بن عمیر حنفی سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عثمان بن عفان کو عرج (ایک گاؤں کا نام ہے مدینہ سے تین منزل پر) میں ڈھانپتے تھے منہ اپنا احرام میں
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے ٹھوڑی کے اوپر ( والا حصہ) سر میں داخل ہے محرم اس کو نہ چھپائے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کفن دیا اپنے بیٹے واقد بن عبداللہ کو اور وہ مر گئے تھے جحفہ میں احرام کی حالت میں اور کہا کہ اگر ہم احرام نہ باندھے ہوتے تو ہم اس کو خوشبو لگاتے، پھر ڈھانپ دیا سر اور منہ ان کا۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو وہ نقاب نہ ڈالے منہ پر اور دستانے نہ پہنے۔
فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے کہ ہم اپنے منہ ڈھانپتی تھیں احرام میں اور ہم ساتھ ہوتے اسما بنت ابی ابکر صدیق کے سو انہوں نے منع نہ کیا ہم کو۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ میں خوشبو لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احرام کو احرام باندھنے سے پہلے اور احرام کھولنے کے وقت طواف زیارت سے پہلے۔
عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم حنین میں تھے اور وہ اعرابی ایک کرتہ پہنے ہوئے تھا جس میں زرد رنگ کا نشان تھا تو کہا اس نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے نیت کی ہے عمرہ کی پس میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنا کرتہ اتار اور زردی دھو ڈال اپنے بدن سے اور جو حج میں کرتا ہے وہی عمرہ میں کر۔
اسلم جو مولی ہیں عمر بن خطاب کے ان سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب کو خوشبو آئی اور وہ شجرہ میں تھے سو کہا کہ یہ خوشبو کس شخص سے آتی ہے معاویہ بن ابی سفیان بولے مجھ سے اے امیر المومنین، حضرت عمر نے کہا ہاں تمہیں قسم ہے خداوند کریم کے بقا کی، معاویہ بولے کہ حبیبہ نے خوشبو لگا دی میرے اے امیر المومنین۔ حضرت عمر نے کہا میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم دھو ڈالو اس کو جا کر۔
صلت بن زبید سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی اپنے عزیزوں سے سنا کہ حضرت عمر بن خطاب کو خوشبو آئی اور وہ شجرہ میں تھے اور آپ کے پہلو میں کثیر بن صلت تھے تو کہا عمر نے کس میں سے یہ خوشبو آتی ہے کثیر نے کہا مجھ میں سے میں نے اپنے بال جمائے تھے کیونکہ میرا ارادہ سر منڈانے کا نہ تھا بعد احرام کھولنے کے، حضرت عمر نے کہا شربہ (وہ گڑھا جو کھجور کے درخت کے پاس ہوتا ہے جس میں پانی بھرا رہتا ہے) کے پاس جا اور سر کو مل کر دھو ڈال تب ایسا کیا کثیر بن صلت نے۔
یحیی بن سعید اور عبداللہ بن ابی بکر اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ولید بن عبدالملک نے پوچھا سالم بن عبداللہ اور خارجہ بن زید سے کہ بعد کنکریاں مارنے کے اور سر منڈانے کے قبل طواف الافاضہ کے خوشبو لانگا کیسا ہے تو منع کیا سالم نے اور جائز رکھا خارجہ بن زید بن ثابت نے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ احرام باندھیں اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے اور اہل شام جحفہ سے اور اہل نجد قرن سے کہا عبداللہ بن عمر نے پہنچا مجھ کو کہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام باندھیں اہل یمن یلملم سے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مدینہ کو ذوالحلیفہ سے احرام باندھنے کا اور اہل شام کو جحفہ سے اور اہل نجد کو قرن سے عبداللہ بن عمر نے کہا ان تینوں کو تو سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور مجھے خبر پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا احرام باندھیں اہل یمن یلملم سے۔
مالک نے ایک معتبر شخص سے سنا کہ عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا بیت المقدس سے۔
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام باندھا عمرہ کا جعرانہ سے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لبیک یہ تھی لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنمعۃ لک والملک لا شریک لک اور عبداللہ بن عمر اس میں زیادہ کرتے لیبک لبیک لبیک وسعدیک والخیر بیدیک لبیک الرغباء الیک والعمل۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے ذوالحلیفہ میں مسجد میں دو رکعتیں پھر جب اونٹ پر سوار ہو جاتے لبیک پکار کر کہتے۔
سالم بن عبداللہ نے سنا اپنے باپ عبداللہ بن عمر سے کہتے تھے کہ یہ میدان ہے جس میں تم جھوٹ باندھتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام باندھا وہاں سے حالانکہ نہیں لبیک کہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مگر ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس سے۔
عبید اللہ بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا اے ابو عبدالرحمن میں نے تم کو چار باتیں ایسی کرتے ہوئے دیکھیں جو تمہارے ساتھیوں میں سے کسی کو نہیں کرتے دیکھا، عبداللہ بن عمر نے کہا کون سے باتیں بتاؤ اے ابن جریج، انہوں نے کہا میں نے دیکھا تم کو نہیں چھوتے ہو تم طواف میں مگر رکن یمانی اور حجر اسود کو اور میں نے دیکھا تم کو کہ پہنتے ہو تم جوتیاں ایسے چمڑے کی جس میں بال نہیں رہتے اور میں نے دیکھا خضاب کرتے ہو تم زرد اور میں نے دیکھا تم کو جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو لوگ چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لینے ہیں اور تم نہیں باندھتے مگر آٹھویں تاریخ کو، عبداللہ بن عمر نے جواب دیا ارکان کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی رکن کو چھوتے نہیں دیکھا سوائے حجر اسود اور رکن یمانی کے اور جوتیوں کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسے چمڑے کی جوتیاں پہنتے دیکھا جس میں بال نہیں رہتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کر کے بھی ان کو پہن لیتے تو میں بھی ان کو پہننا پسند کرتا ہوں اور زرد رنگ کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو زرد خضاب کئے ہوئے دیکھا تو میں بھی اس کو پسند کرتا ہوں اور احرام کا حال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لبیک نہیں پکارتے تھے یہاں تک کہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سیدھا کھڑا ہو جاتا چلنے کے واسطے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے ذوالحلیفہ کی مسجد میں پھر نکل کر سوار ہوتے اس وقت احرام باندھتے۔
امام مالک کو پہنچا کہ عبدالملک بن مروان نے لبیک پکارا ذوالحلیفہ کی مسجد سے جب اونٹ ان کا سیدھا ہوا چلنے کو، اور ابان بن عثمان نے یہ حکم کیا تھا ان کو۔
سائب بن خلاد انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آئے میرے پاس جبرائیل اور کہا کہ حکم کروں میں اپنے اصحاب کو بلند آواز سے لبیک پکارنے کا۔
کہا مالک نے میں نے سنا اہل علم سے کہتے تھے یہ حکم عورتوں کو نہیں ہے بلکہ عورتیں آہستہ سے لبیک کہیں اس طرح کہ آپ ہی سنیں۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال تو ہم میں سے بعض لوگوں نے احرام باندھا عمرہ کا اور بعضوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اور بعضوں نے صرف حج کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حج کا احرام باندھا سو جس نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اس نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا اور جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا یا صرف حج کا اس نے احرام نہ کھولا دسویں تاریخ تک۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حج افراد کیا۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے افراد کیا حج کا۔
امام محمد باقر سے روایت ہے کہ مقداد بن الاسود آئے حضرت علی کے پاس اور وہ پلا رہے تھے اپنے اونٹ کے بچوں کو گھلا ہو آٹا اور چارہ پانی میں، تو کہا مقداد نے یہاں عثمان بن عفان منع کرتے ہیں قران سے درمیان حج اور عمرہ کے پس نکلے علی اور ان کے ہاتھوں میں آٹے کے نشان تھے سو میں اب تک اس آٹے کے نشانوں کو جو ان کے ہاتھ پر تھے نہیں بھولا اور گئے حضرت عثماں بن عفان کے پاس اور کہا کیا تم منع کرتے ہو قران سے درمیان حج اور عمرہ کے انہوں نے کہا ہاں میرے رائے یہی ہے تو حضرت علی غصے سے باہر نکلے کہتے تھے لبیک اللہم البیک بحجۃ وعمرۃ۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکلے حجۃ الوداع کے سال حج کرنے کے لیے تو ان کے بعض اصحاب نے احرام باندھا حج کا اور بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا اور بعض نے صرف عمرہ کا سو جس شخص نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا اس نے احرام نہ کھولا اور جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اس نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا۔
محمد بن ابی بکر نے پوچھا انس بن مالک سے جب وہ دونوں صبح کو جا رہے تھے منی سے عرفہ کو، تم کیا کرتے تھے آج کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بولے بعض لوگ ہم میں سے آج کے روز لبیک کہتے تھے پکار کر تو کوئی منع نہ کرتا بعض لوگ تکبیر کہتے تو کوئی منع نہ کرتا۔
محمد باقر سے روایت ہے کہ حضرت علی لبیک کہتے تھے حج میں مگر جب زوال ہوتا آفتاب کا عرفہ کے روز تو موقوف کرتے لبیک کو۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر موقوف کرتے تھے لبیک کہنے کو حج میں حرم میں طواف کرنے بیت اللہ کا اور سعی کرنے تک پھر لبیک کہنے لگتے یہاں تک کہ صبح کو منی سے چلتے عرفہ کو سو جب عرفات کو چلتے لبیک موقوف کرتے اور عمرہ میں موقوف کرتے لبیک کو جب داخل ہوتے حرم میں۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ وہ جب عرفات میں آتیں تو نمرہ میں اترتیں پھر اراک میں اترنے لگیں اور عائشہ اپنے مکان میں جب تک ہوتیں تو بھی، ان کے ساتھی لبیک کہا کرتے جب سوار ہوتیں تو لبیک کہنا موقوف کریں اور عائشہ بعد حج کے عمرہ ادا کرتیں مکہ سے احرام باندھ کر ذوالحجہ میں پھر یہ چھوڑ دیا اور محرم کے چاند سے پہلے جحفہ میں آ کر ٹھہرتیں جب چاند ہوتا تو عمرہ کا احرام باندھتیں۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز صبح کو چلے نویں تاریخ کو منی سے عرفہ کو تو بلند آواز سے تکبیر سنی، انہوں نے اپنے آدمیوں کو بھیج کر کہلوایا کہ اے لوگو یہ وقت لبیک کہنے کا ہے۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہا اے مکہ والو لوگ تو بال بکھرے ہوئے پریشان یہاں تک آتے ہیں اور تم تیل لگائے ہوتے ہو جب چاند دیکھو ذی الحجہ کا تو تم بھی احرام باندھ لیا کرو۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر نو برس مکے میں رہے جب چاند دیکھتے ذی الحجہ کا تو احرام باندھ لیتے اور عروہ بن زبیر بھی ایسا ہی کرتے۔
عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ زیادبن ابی سفیان نے لکھا ام المومنین عائشہ کو کہ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں جو شخص ہدی روانہ کرے تو اس پر حرام ہو گئیں وہ چیزیں جو حرام ہیں محرم پر یہاں تک کہ ذبح کی جائے ہدی سو میں نے ایک ہدی تمہارے پاس روانہ کی ہے تم مجھے لکھ بھیجو اپنا فتوی یا جو شخص ہدی لے کر آتا ہے اس کے ہاتھ کہلا بھیجو، عمرہ نے کہا عائشہ بولیں ابن عباس جو کہتے ہیں ویسا نہیں ہے میں نے خود اپنے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدی کے ہار بٹے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے لٹکائی اور اس کو روانہ کیا میرے باپ کے ساتھ سو آپ پر کوئی چیز حرام نہ ہوئی ان چیزوں میں سے جن کو حلال کیا تھا اللہ نے ان کے لئے یہاں تک کہ ذبح ہو گئی ہدی۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا عمرہ بنت عبدالرحمن سے کہ جو شخص ہدی روانہ کرے مگر خود نہ جائے کیا اس پر کچھ لازم ہوتا ہے وہ بولیں میں نے سنا عائشہ سے کہتی تھیں محرم نہیں ہوتا مگر جو شخص احرام باندھے اور لبیک کہے۔
ربیعہ بن عبداللہ نے دیکھا ایک شخص کو عراق میں کپڑے اتارے ہوئے تو پوچھا لوگوں سے اس کا سبب لوگوں نے کہا اس نے حکم کیا ہے اپنی ہدی کی تقلید کا سو اس لئے سلے ہوئے کپڑے اتار ڈالے ربیعہ نے کہا میں نے ملاقات کی عبداللہ بن زبیر سے اور یہ قصہ بیان کیا انہوں نے کہا قسم کعبہ کے رب کی یہ امر بدعت ہے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو حج یا عمرہ کا پھر اس کو حیض آنا شروع ہو جائے تو وہ لبیک کہا کرے جب اس کا جی چاہے اور طواف نہ کرے اور سعی نہ کرے صفا مروہ کے درمیان باقی سب ارکان ادا کرے لوگوں کے ساتھ فقط طواف اور سعی نہ کرے اور مسجد میں نہ جائے جب تک کہ پاک نہ ہو۔
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین عمرے ادا کئے ایک حدیبیہ کے سال اور ایک عمرہ قضا کے سال اور ایک عمرہ جعرانہ کے سال۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں عمرہ کیا مگر تین بار ایک شوال اور دو ذیقعدہ میں۔
عبدالرحمن بن حرملہ اسلمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ میں عمرہ کروں قبل حج کے انہوں نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرہ کیا قبل حج کے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن ابی سلمہ نے اجازت مانگی حضرت عمر سے عمرہ کرنے کی شوال میں تو اجازت دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو وہ عمرہ کر کے لوٹ آئے اپنے گھر کو اور حج نہ کیا۔
محمد بن عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس سے جس سال معاویہ بن ابی سفیان نے حج کیا اور وہ دونوں ذکر کر رہے تھے تمتع کا تو ضحاک بن قیس نے کہا کہ تمتع وہی کرے گا جو خدا کے احکام سے ناواقف ہو سعد نے کہا بری بات کہی تم نے اے بھتیجے میرے۔ ضحاک نے کہا کہ عمر بن خطاب نے منع کیا تمتع سے سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کیا۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے قسم خدا کی مجھ کو قبل حج کے عمرہ کرنا اور ہدی لے جانا بہتر معلوم ہوتا ہے اس بات سے کہ عمرہ کروں بعد حج کے ذی الحجہ میں۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جس شخص نے عمرہ کیا حج کے مہینوں میں شوال یا ذی قعدہ یا ذی الحجہ میں قبل حج کے پھر ٹھہرا رہا مکہ میں یہاں تک کہ پا لیا اس نے حج کو اس نے تمتع کیا اگر حج کرے تو اس پر ہدی لازم ہے اگر میسر ہو اگر ہدی نہ میسر ہو تو تین روزے حج میں رکھے اور سات روزے جب حج سے لوٹے تو رکھے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے انہوں نے سنا سعید بن مسیب سے کہتے تھے جس نے عمرہ کیا شوال یا ذی قعدہ میں یا ذی الحجہ میں پھر مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ حج پایا تو وہ متمتع ہے اگر حج کرے تو اس پر ہدی لازم ہو گی اگر میسر ہے ورنہ تین روزے حج میں اور سات جب لوٹے رکھنے ہوں گے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک عمرہ سے لے کر دوسرے عمرہ تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو ان دونوں کے بیچ میں ہوں اور حج مبرور کا کوئی بدلہ نہیں ہے سوائے جنت کے۔
ابوبکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہتے تھے ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا میں نے تیاری کی تھی حج کی پھر کوئی عارضہ مجھ کو ہو گیا تو حج ادا نہ کر سکی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رمضان میں عمرہ کر لے کیونکہ ایک عمرہ رمضان میں ایک حج کے برابر ہے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر فرماتے تھے جدائی کرو حج اور عمرہ میں تاکہ حج بھی پورا ادا ہو اور عمرہ بھی پورا ادا ہو اور وہ اس طرح کہ حج کے مہینوں میں نہ کرے بلکہ اور دنوں میں کرے۔
امام مالک کو پہنچا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان جب عمرہ کرتے تو کبھی اپنے اونٹ سے نہ اترتے یہاں تک کہ لوٹ آتے مدینہ کو۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مولی ابو رافع اور ایک شخص انصاری کو بھیجا ان دونوں نے نکاح کر دیا ان کا میمونہ بنت حارث سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں تھے نکلنے سے پہلے۔
نبیہ بن وہب سے روایت ہے کہ عمر بن عبید اللہ نے بھیجا ان کو ابان بن عثمان کے پاس اور ابان ان دنوں میں امیر تھے حاجیوں کے اور دونوں احرام باندھے ہوئے تھے کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں کہ نکاح کروں طلحہ بن عمر کا شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے سو تم بھی آؤ، ابان نے اس پر انکار کیا اور کہا کہ سنا میں نے عثمان بن عفان سے انہوں نے کہا سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ نکاح کرے محرم اپنا اور نہ غیر کا اور نہ پیغام بھیجے نکاح کا۔
ابو غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ ان کے باپ طریف نے نکاح کیا ایک عورت سے احرام میں تو باطل کر دیا اس کو حضرت عمر نے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے نہ نکاح کرے محرم اور نہ پیغام بھیجے اپنا اور نہ غیر کا۔
امام مالک کو پہنچا کہ سعید بن مسیب اور سالم بن عبداللہ بن سلیمان بن یسار سے سوال ہوا محرم کے نکاح کا تو ان سب نے کہا محرم نہ نکاح کرے اپنا نہ پرایا۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پچھنے لگائے احرام میں اپنے سر پر لحی جمل میں جو ایک مقام ہے مکہ کی راہ میں
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں محرم پچھنے نہ لگائے مگر جب اس کو ضرورت پڑے۔
ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے مکہ کے ایک راستے میں ، پیچھے رہ گیا وہ (ابوقتادہ) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن وہ (ابوقتادہ) احرام نہیں باندھے ہوئے تھے انہوں نے ایک گورخر کو دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا انہوں نے انکار کیا پھر برچھا مانگا انہوں نے انکار کیا آخر انہوں نے خود برچھا لے کر حملہ کیا گورخر پر اور قتل کیا اس کو اور بعض صحابہ نے وہ گوشت کھایا اور بعض نے انکار کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ایک کھانا تھا جو کھلایا تم کو اللہ جل جلالہ نے۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ زبیر بن عوام ناشتہ کرتے تھے ہرن کے بھونے ہوئے گوشت کا جس کو قدید کہتے ہیں۔
عطاء بن یسار نے ابو قتادہ کی حدیث گورخر مارنے کی ویسی ہی روایت کی جیسے اوپر بیان ہوئی مگر اس حدیث میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیا اس گوشت میں کچھ تمہارے پاس باقی ہے۔
زید بن کعب بہزی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکلے مکہ کے قصد سے احرام باندھے ہوئے جب روحا میں پہنچے تو ایک گورخر زخمی دیکھا تو بیان کیا یہ ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو پڑا رہنے دو اس کا مالک آ جائے گا اتنے میں بہزی آیا وہی اس کا مالک تھا وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس گورخر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختار ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوبکر کو حکم کیا انہوں نے اس کا گوشت تقسیم کیا سب ساتھیوں کو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم آگے بڑھے جب اثابہ میں پہنچے جو درمیان میں ہے رویثہ اور عرج کے تو دیکھا کہ ایک ہرن اپنا سر جھکائے ہوئے سائے میں کھڑا ہے اور ایک تیر اس کو لگا ہوا ہے تو کہا بہزی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو کہ کھڑا رہے اس کے پاس، تاکہ کوئی اس کو نہ چھیڑے یہاں تک کہ لوگ آگے بڑھ جائیں۔
ابوہریرہ جب آئے بحرین سے تو جب پہنچے ربذہ میں تو چند سوار ملے عراق کے احرام باندھے ہوئے تو پوچھا انہوں نے ابوہریرہ سے شکار کے گوشت کا حال جو ربذہ والوں کے پاس تھا ابوہریرہ نے ان کو کھانے کی اجازت دی پھر کہا کہ مجھ کو شک ہوا اس حکم میں تو جب آیا میں مدینہ تو ذکر کیا میں نے عمر بن خطاب سے حضرت عمر نے پوچھا تم نے کیا حکم دیا ان کو میں نے کہا کہ میں نے حکم دیا کھانے کا حضرت عمر نے کہا اگر تم ان کو کچھ اور حکم دیتے تو میں تمہارے ساتھ ایسا کرتا یعنی ڈرانے لگے۔
سالم بن عبداللہ نے سنا ابوہریرہ سے وہ کہتے تھے عبداللہ بن عمر سے کہ مجھ کو ملے کچھ لوگ احرام باندھے ہوئے ربذہ میں تو پوچھا انہوں نے شکار کے گوشت کی بابت جو حلال لوگوں کے پاس موجود ہو وہ کھاتے ہوں اس کو ابوہریرہ نے ان کو کھانے کی اجازت دی، کہا ابوہریرہ نے جب میں مدینہ میں آیا حضرت عمر کے پاس میں نے ان سے بیان کیا انہوں نے کہا تو نے کیا فتوی دیا؟ میں نے کہا میں نے فتوی دیا کھانے کا حضرت عمر نے کہا اگر تو اور کسی بات کا فتوی دیتا تو میں تجھے سزا دیتا۔
کعب الاحبار جب آئے شام سے تو چند سوار ان کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے راستے میں انہوں نے شکار کا گوشت دیکھا تو کعب الاحبار نے ان کو کھانے کی اجازت دی جب مدینہ میں آئے تو انہوں نے حضرت عمر سے بیان کیا آپ نے کہا تمہیں کس نے فتوی دیا بولے کعب نے حضرت عمر نے فرمایا کہ میں نے کعب کو تمہارے اوپر حاکم کیا یہاں تک کہ تم لوٹو، پھر ایک روز مکہ کی راہ میں ٹڈیوں کا جھنڈ ملا کعب نے فتوی دیا کہ پکڑ کر کھائیں جب وہ لوگ حضرت عمر کے پاس آئے ان سے بیان کیا آپ نے کعب سے پوچھا کہ تم نے یہ فتوی کیسے دیا کعب نے کہا کہ ٹڈی دریا کا شکار ہے حضرت عمر بولے کیونکر، کعب بولے اے امیر المومنین قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ ٹڈی ایک مچھلی کی چھینک سے نکلتی ہے جو ہر سال میں دو بار چھینکتی ہے۔
صعب بن جثامہ لیثی سے روایت ہے کہ انہوں نے تحفہ بھجا ایک گورخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابوا یا ودان میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واپس کر دیا صعب کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے چہرے کا حال دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہم نے اس واسطے واپس کر دیا کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عثمان بن عفان کو عرج میں گرمی کے روز انہوں نے ڈھانپ لیا تھا منہ اپنا سرخ کمبل سے اتنے میں شکار کا گوشت آیا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کھاؤ انہوں نے کہا آپ نہیں کھاتے آپ نے فرمایا میں تمہاری مثل نہیں ہوں میرے واسطے تو شکار ہوا ہے۔
حضرت ام المومنین عائشہ نے فرمایا عروہ بن زبیر سے کہ اے بیٹے میرے بھائی کے، یہ دس راتیں ہیں احرام کی اگر تیرے جی میں شک ہو تو بالکل چھوڑ دے شکار کا گوشت۔
کہا مالک نے جو جانور شکار کیا جائے حرم میں یا کتا شکاری جانور پر حرم میں چھوڑا جائے لیکن وہ حل میں جا کر اس کو مارے تو وہ شکار کھانا حلال نہیں ہے اور جس نے ایسا کیا اس پر جزا لازم ہے لیکن جو کتا حل میں شکار پر چھوڑے اور وہ اس کو حرم میں لے جا کر مارے اس کا کھانا درست نہیں مگر جزا لازم نہ ہو گی الا یہ کہ اس نے حرم کے قریب کتے کو چھوڑا ہو اس صورت میں جزا لازم ہو گی۔
کہا مالک نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے اے ایمان والو مت مارو شکار جب تم احرام باندھے ہو اور جو کوئی تم میں سے قصدا شکار مارے تو اس پر جزا ہے اس کی مثل جانور کے جب حکم کر دیں اس کو دو پرہیز گار شخص، خواہ جزا ہدی ہو جب کعبہ میں پہنچے یا کفارہ ہو مسکینوں کو کھلانا یا اس قدر روزے تاکہ چکھے وبال اپنے کام کا
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پانچ جانور ہیں محرم کو ان کا قتل منع نہیں ہے کوا اور چیل بچھو اور چوہا اور کاٹنے والا کتا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں کہ جو کوئی ان کو احرام کی حالت میں مار ڈالے تو کچھ گناہ نہیں ہے ایک بچھو دوسرے چوہا تیسرے کاٹنا کتا چوتھے چیل پانچواں کوا۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور ناپاک ہیں قتل کئے جائیں گے حل اور حرم میں چوہا اور بچھو اور کوا اور چیل اور کاٹنا کتا۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے حکم کیا سانپوں کے مارنے کا حرم میں۔
ربیعہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا حضرت عمر بن خطاب کو جوئیں نکالتے تھے اپنے اونٹ کی اور پھینک دیتے تھے جوں کو خاک میں موضع سقیا میں اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے مالک نے کہا میں اس کام کو مکروہ جانتا ہوں۔
مرجانہ نے سنا حضرت ام المومنین عائشہ سے ان سے سوال ہوا کہ کیا محرم اپنے بدن کو کھجائے؟ بولیں ہاں کھجائے اور زور سے کھجائے اور اگر میرے ہاتھ باندھ دیے جائیں اور پاؤں قابو میں ہوں تو اسی سے کھجاؤں۔
ایوب بن موسیٰ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے آئینہ میں دیکھا بسبب کسی مرض کے جو ان کی آنکھ میں تھا اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے اپنے اونٹ کی جوں یا لیکھ نکالنے کو۔
محمد بن عبداللہ بن ابی مریم نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ میرا ایک ناخن ٹوٹ گیا ہے اور میں احرام باندھے ہوئے ہوں سعید نے کہا کاٹ ڈال اس کو۔
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سوار تھے اتنے میں ایک عورت آئی خنعم سے مسئلہ پوچھنے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے، تو فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل کی طرف دیکھنے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فضل کا منہ اور طرف پھیرنے لگے اس عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حج اللہ کا فرض ہوا میرے باپ پر ایسے وقت میں کہ میرا باپ بوڑھا ہے اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں! اور یہ قصہ حجۃ الوداع میں ہوا۔
کہا مالک نے جس شخص کو احصار ہوا دشمن کے باعث سے اور وہ اس کی وجہ سے بیت اللہ تک نہ جا سکا تو وہ احرام کھول ڈالے اور اپنی ہدی کو نحر کرے اور سر منڈائے جہاں پر اس کو احصار ہوا ہے اور قضا اس پر نہیں ہے۔
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کو جب روکا کفار نے تو احرام کھول ڈالے حدیبیہ میں اور نحر کیا ہدی کو اور سر منڈائے اور حلال ہو گئے ہر شئے سے یعنی بیت اللہ کا طواف اور اس کی طرف ہدی کو پہنچانے سے پہلے، پھر ہم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا ہو کسی کو اپنے اصحاب اور ساتھیوں میں سے دوبارہ قضا یا اعادہ کرنے کا۔
عبد اللہ بن عمر جب نکلے مکہ کی طرف عمرہ کی نیت سے جس سال فساد درپیش تھا یعنی حجاج بن یوسف لڑنے کو آیا تھا عبداللہ بن زبیر سے جو حاکم تھے مکہ کے تو کہا اگر میں روکا جاؤ بیت اللہ جانے سے تو کروں گا جیسا کیا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ، جب روکا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار نے تو عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا تھا عمرہ کا اس خیال سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حدیبیہ کے سال میں احرام باندھا تھا عمرہ کا پھر عبداللہ بن عمر نے سوچا تو یہ کہا کہ عمرہ اور حج دونوں کا حکم احصار کی حالت میں یکساں ہے پھر متوجہ ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف اور کہا کہ حج اور عمرہ کا حال یکساں ہے میں نے تم کو گواہ کیا کہ میں نے اپنے اوپر حج بھی واجب کر لیا عمرہ کے ساتھ پھر چلے گئے عبداللہ یہاں تک کہ آئے بیت اللہ میں اور ایک طواف کیا اور اس کو کافی سمجھا اور نحر کیا ہدی کو۔
عبد اللہ بن عمر نے کہا جو شخص بیماری کی وجہ سے رک جائے تو وہ حلال نہ ہو گا یہاں تک کہ طواف کرے خانہ کعبہ کا اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں اگر ضرورت ہو کسی کپڑے کے پہننے کی یا دوا کی تو اس کا استعمال کرے اور جزا دے۔
ام المومنین عائشہ نے فرمایا کہ محرم حلال نہیں ہوتا بغیر خانہ کعبہ پہنچے ہوئے۔
ایوب بن ابی تمیمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا ایک شخص سے جو بصرہ کا رہنے والا پرانا آدمی تھا اس نے کہا کہ میں چلا مکہ کو راستہ میں میرا کولہا ٹوٹ گیا تو میں نے مکہ میں کسی کو بھیجا وہاں عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر اور لوگ بھی تھے ان میں سے کسی نے مجھ کو اجازت نہ دی احرام کھول ڈالنے کی یہاں تک کہ میں وہیں پڑا رہا سات مہینے تک جب اچھا ہوا تو عمرہ کر کے احرام کھولا۔
عبد اللہ بن عمر نے کہا جو شخص خانہ کعبہ نہ جا سکے بیماری کی وجہ سے تو اس کا احرام نہ کھلے گا یہاں تک کہ طواف کرے بیت اللہ اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سعید بن حزابہ مخزومی گر پڑے مکہ کو آتے ہوئے راہ میں اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے تو جہاں پانی دیکھ کر ٹھہرے تھے وہاں پوچھا عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور مروان بن حکم ملے ان سے بیان کیا اس عارضے کو ان سب نے کہا جیسی ضرورت ہو ویسی دوا کرے اور فدیہ دے۔ جب اچھا ہو تو عمرہ کر کے احرام کھولے پھر آئندہ سال حج کرے اور موافق طاقت کے ہدی دے۔
روایت ہے حضرت ام المومنین عائشہ سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ تیری قوم نے جب بنایا کعبہ کو تو حضرت ابراہیم نے جیسے بنایا تھا اس میں کمی کی، حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ اس کو جیسے حضرت ابراہیم نے بنایا تھا ویسا کیوں نہیں بنا دیتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تیری قوم کا کفر قریب نہ ہوتا تو میں بنا دیتا۔ عبداللہ بن عمر نے کہا اسی وجہ سے شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکن شامی اور عراقی کو جو حطیم کے متصل ہیں استلام نہ کیا کیونکہ خانہ کبعہ ابراہیم کی بنا پر نہ تھا۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ نے فرمایا مجھے کچھ فرق نہیں معلوم ہوتا اس میں کہ نماز پڑھوں کعبہ کے اندر یا حطیم میں۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہ رمل کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود سے حجرا اسود تک تین پھیروں میں
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رمل کرتے تھے حجر اسود تک تین پھیروں میں اور باقی چار پھیروں میں معمولی چال سے چلتے تھے۔
عروہ بن زبیر جب طواف کرتے خانہ کعبہ کا تو دوڑ کر چلتے تین پھیروں میں اور آہستہ سے کہتے اے اللہ سوائے تیرے کوئی سچا معبود نہیں اور تو جلا دے گا ہم کو بعد مرنے کے۔
عروہ بن زبیر نے دیکھا عبد اللہ بن زبیر کو انہوں نے احرام باندھا عمرہ کا تننعیم سے پھر دیکھا کہ وہ دوڑ کر چلتے ہیں پہلے تین پھیروں میں خانہ کعبہ کے گرد۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب احرام باندھتے مکہ سے تو طواف نہ کرتے بیت اللہ کا اور نہ سعی کرتے صفا مروہ کے درمیان یہاں تک کہ لوٹتے منی سے اور نہ رمل کرتے۔
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب طواف سے فارغ ہو کر دوگانہ رکعت پڑھ چکتے اور پھر صفا مروہ کو نکلنے کا ارادہ کرتے تو حجر اسود کو چوم لیتے نکلنے سے پہلے۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عبدالرحمن بن عوف سے کس طرح تم نے چوما حجر اسود کو عبدالرحمن نے کہا کبھی میں نے چوما اور کبھی ترک کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ٹھیک کیا تم نے۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ بن زبیر جب طواف کرتے خانہ کعبہ کا تو سب رکنوں کا استلام کرتے خصوصا رکن یمانی کو ہرگز نہ چھوڑتے مگر جب مجبور ہو جاتے۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جب وہ طواف کر رہے تھے خانہ کعبہ کا حجر اسود کو! کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں نہ چومتا تجھ کو پھر چوما حجر اسود کو۔
عروہ بن زبیر دو طواف ایک ساتھ نہ کرتے تھے اسطرح پر کہ ان دونوں کے بیچ دوگانہ طواف ادا نہ کریں بلکہ ہر سات پھیروں کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے مقام ابراہیم کے پاس یا اور کسی جگہ۔
عبدالرحمن بن عبدالقاری نے طواف کیا خانہ کعبہ کا حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ بعد نماز فجر کے تو جب حضرت عمر طواف ادا کر چکے تو آفتاب نہ پایا پس سوار ہوئے یہاں تک کہ بٹھایا اونٹ ذی طوی میں وہاں دوگانہ طواف ادا کیا۔
ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ دیکھا میں نے عبداللہ بن عباس کو طواف کرتے تھے بعد عصر کے پھر جاتے تھے اپنے حجرے میں پھر معلوم نہیں وہاں کیا کرتے تھے۔
ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا خانہ کعبہ کو خالی ہو جاتا طواف کرنے والوں سے بعد نماز صبح اور بعد نماز عصر کے کوئی طواف نہ کرتا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے فرمایا کوئی حاجی مکہ سے نہ لوٹے یہاں تک کہ طواف کرے خانہ کعبہ کا کیونکہ آخری عبادت یہ ہے طواف کرنا خانہ کعبہ کا ہے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو مرا الظہران سے پھیر دیا اس واسطے کہ اس نے طواف الوداع نہیں کیا تھا۔
عروہ بن زبیر نے کہا کہ جس شخص نے طواف الافاضہ ادا کیا اس کا حج اللہ نے پورا کر دیا اب اگر اس کو کوئی امر مانع نہیں تو چاہیے کہ رخصت کے وقت طواف الوداع کرے اور اگر کوئی مانع یا عارضہ درپیش ہو تو حج تو پورا ہو چکا۔
حضرت ام المومنین ام سلمہ سے روایت ہے کہ شکایت کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنی بیماری کی سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مردوں کے پیچھے سوار ہو کر تو طواف کر لے ام سلمہ نے کہا کہ میں نے طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت خانہ کعبہ کے ایک گوشے کی طرف نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ والطور وکتاب مسطور پڑھ رہے تھے
ابو ماعز اسلمی سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے تھے عبداللہ بن عمر کے ساتھ اتنے میں ایک عورت آئی مسئلہ پوچھنے ان سے، تو کہا اس عورت نے کہ میں نے قصد کیا خانہ کعبہ کے طواف کا جب مسجد کے دروازے پر آئی تو مجھے خون آنے لگا سو میں چلی گئی جب خون موقوف ہوا تو پھر آئی جب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو خون آنے لگا تو میں پھر چلی گئی پھر جب خون موقوف ہوا پھر آئی جب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو پھر خون آنے لگا عبداللہ بن عمر نے کہا یہ لات ہے شیطان کی، تو غسل کر پھر کپڑے سے شرمگاہ کو باندھ اور طواف کر۔
امام مالک کو پہنچا کہ سعد بن ابی وقاص جب مسجد میں آتے اور نویں تاریخ قریب ہوتی تو عرفات کو جاتے قبل طواف اور سعی کے پھر جب وہاں سے پلٹتے تو طواف اور سعی کرتے۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب نکلتے مسجد حرام سے صفا کی طرف فرماتے تھے شروع کرتے ہیں ہم اس سے جس سے شروع کیا اللہ جل جلالہ نے تو شروع کی سعی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صفا سے۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کھڑے ہوتے صفا پر تین بار اللہ اکبر کہتے اور فرماتے نہیں ہے کوئی معبود سچا سوائے اللہ پاک کے کوئی اس کا شریک نہیں ہے اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے وہ ہر شئے پر قادر ہے، تین بار اس کو کہتے تھے اور دعا مانگتے تھے پھر مروہ پر پہنچ کر ایسا ہی کرتے۔
نافع نے سنا عبداللہ بن عمر سے وہ صفا پر دعا مانگتے تھے اے پروردگار! تو نے فرمایا کہ دعا کرو میں قبول کروں گا اور تو وعدہ خلافی نہیں کرتا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جیسے تو نے مجھ کو اسلام کی راہ دکھائی سو مرتے دم تک اسلام سے نہ چھڑائیوں یہاں تک کہ میں مروں مسلمان رہ کر۔
عروہ بن زبیر نے کہا کہ میں نے پوچھا ام المومنین عائشہ سے دیکھو اللہ جل جلالہ فرماتا ہے بے شک صفا اور مروہ اللہ کی پاک نشانیوں میں سے ہیں سو جو حج کرے خانہ کعبہ کا یا عمرہ کرے تو ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں اس پر کچھ گناہ نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سعی نہ کرے تب بھی برا نہیں ہے حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ہرگز ایسا نہیں اگر جیسا کہ تم سمجھتے ہو ویسا ہوتا تو اللہ جل جلالہ یوں فرماتا کہ گناہ ہے اس پر سعی نہ کرنے میں صفا اور مروہ کے درمیان اور یہ آیت تو انصار کے حق میں اتری ہے وہ لوگ حج کیا کرتے تھے منات کے واسطے اور منات مقابل قدید کے تھا اور قدید ایک قریہ کا نام ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان میں وہ لوگ صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کرنا برا سمجھتے تھے جب دین اسلام سے مشرف ہوئے تو انہوں نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں تو اس وقت اللہ جل جلالہ نے اتاری یہ آیت کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں جو شخص حج کرے خانہ کعبہ کا اور عمرہ کرے تو سعی کرنا گنا نہیں ہے ان دونوں کے درمیان میں۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ سودہ بیٹی عبداللہ بن عمر کی عروہ بن زبیر کے نکاح میں تھیں ایک روز وہ نکلیں حج یا عمرہ میں پیدل سعی کرنے صفا اور مروہ کے بیچ اور وہ ایک موٹی عورت تھیں تو آئی سعی کرنے کو جب لوگ فارغ ہوئے عشاء کی نماز سے، اور سعی ان کی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اذان ہو گئی صبح کی پھر انہوں نے پوری کی سعی اپنی اس درمیان میں، اور عروہ جب لوگوں کو دیکھتے تھے کہ سوار ہو کر سعی کرتے ہیں تو سختی سے منع کرتے تھے اور وہ لوگ بیماری کا حیلہ کر تے تھے عروہ سے شرم کی وجہ سے تو عروہ کہتے تھے ہم سے اپنے لوگوں کے آپس میں ان لوگوں نے نقصان پایا مراد کو نہ پہنچے۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفا اور مروہ میں جب آتے تو معمولی چال سے چلتے جب وادی کے اندر آپ کے قدم آتے تو دوڑ کر چلتے یہاں تک کہ وادی سے نکل جاتے۔
ام الفضل سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کے سامنے شک کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے روزے میں عرفہ کے دن بعضوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزے سے ہیں بعضوں نے کہا نہیں تو ام الفضل نے ایک پیالہ دودھ کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اونٹ پر سوار تھے عرفات میں تو پی لیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ام المومنین عرفہ کے روز روزہ رکھتی تھیں قاسم نے کہا میں نے دیکھا کہ عرفہ کی شام کو جب امام چلا تو وہ ٹھہری رہیں یہاں تک کہ زمین صاف ہو گئی پھر ایک پیالہ پانی کا منگایا اور روزہ افطار کیا۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا منی کے دنوں میں روزہ رکھنے سے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن حذافہ کو بھیجا منی کے دنوں میں کہ لوگوں میں پھر کر پکار دیں کہ یہ دن کھانے اور پینے اور خدا کی یاد کے ہیں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا دو دن روزہ رکھنے سے ایک عیدالفطر اور دوسرے عیدالاضحی کے دن۔
عبد اللہ بن عمرو بن عاص گئے اپنے باپ عمرہ بن عاص کے پاس ان کو کھانا کھاتے ہوئے پایا تو انہوں نے بلایا عبداللہ کو عبداللہ نے کہا میں روزے سے ہوں انہوں نے کہا ان دنوں میں منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روزے رکھنے سے اور حکم کیا ہم کو ان دنوں میں افطار کرنے کا۔
عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدی بھیجی ایک اونٹ کی جو ابو جہل بن ہشام کا تھا حج یا عمرہ میں
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا ایک شخص کو ہانکتا تھا اونٹ ہدی کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سوار ہو جا اس پر وہ بولا کہ ہدی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سوار ہو جا خرابی ہو تیری، دوسری یا تیسری مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہا۔
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر حج میں دو اونٹوں کی ہدی کیا کرتے تھے اور عمرہ میں ایک ایک اونٹ کی میں نے دیکھا ان کو کہ وہ نحر کرتے تھے اپنے اونٹ کا اور اونٹ کھڑا ہوتا تھا خالد بن اسید کے گھر میں وہیں وہ اترتے تھے اور میں نے دیکھا ان کو عمرہ میں کہ برچھا مارا انہوں نے اپنے اونٹ کی گردن میں یہاں تک کہ نکل آیا وہ اس کے بازو سے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے ہدی بھیجی ایک اونٹ کی حج یا عمرہ میں۔
ابو جعفر قاری سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عیاش نے دو اونٹوں کو ہدی کیا ایک اونٹ ان میں سے بُختی تھا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب جنے اونٹنی ہدی کی تو اس کے بچے کو بھی ساتھ لے چلیں اور اپنی ماں کے ساتھ قربانی کریں اگر اس کے چلنے کے لئے کوئی سواری نہ ہو تو اس کو اپنی ماں پر سوار کر دیا جائے تاکہ اس کے ساتھ نحر کیا جائے۔
ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ عروہ کہتے تھے کہ اگر تجھ کو ضرورت پڑے تو اپنی ہدی پر سوار ہو جا مگر ایسا نہ ہو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے اور جب ضرورت ہو تجھ کو اس کے دودھ کی تو پی لے جبکہ بچہ اس کا سیر ہو جائے، پھر جب تو اس کو نحر کرے تو اس کے بچے کو بھی اس کے ساتھ نحر کر۔
عبد اللہ بن عمر جب ہدی لے جاتے مدینہ سے تو تقلید کرتے اس کی اور اشعار کرتے اس کا ذوالحلیفہ میں، مگر تقلید اشعار سے پہلے کرتے لیکن دونوں ایک ہی مقام میں کرتے اس طرح پر کہ ہدی کا منہ قبلہ کی طرف کر کے پہلے اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دیتے پھر اشعار کرتے بائیں طرف سے اور ہدی کو اپنے ساتھ لے جاتے یہاں تک کہ عرفہ کے روز عرفات میں بھی سب لوگوں کے ساتھ رہتے پھر جب لوگ لوٹتے تو ہدی بھی لوٹ کر آتی، جب منی میں صبح کو یوم النحر میں پہنچتے تو اس کو نحر کرتے قبل حلق یا قصر کے اور عبداللہ بن عمر اپنی ہدی کو آپ نحر کرتے ان کو کھڑا کرتے صف باندھ کر منہ ان کا قبلہ کی طرف کرتے پھر اس کو نحر کرتے اور ان کا گوشت بھی کھاتے دوسروں کو بھی کھلاتے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب اپنی ہدی کے کوہان میں زخم لگاتے اشعار کے لئے کہتے اللہ کے نام سے اللہ بڑا ہے
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر فرماتے تھے کہ ہدی وہ جانور ہے جس کی تقلید اور اشعار ہو اور کھڑا کیا جائے اس کو عرفات میں۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے اونٹوں کو جو ہدی کے ہوتے تھے مصری کپڑے اور چار جامی اور جوڑے اوڑھاتے تھے (قربانی کے بعد) ان کپڑوں کو بھیج دیتے تھے کعبہ شریف اوڑھانے کو۔
امام مالک نے پوچھا عبداللہ بن دینار سے کہ عبداللہ بن عمر اونٹ کی جھول کا کیا کرتے تھے جب کعبہ شریف کا غلاف بن گیا تھا؟ انہوں نے کہا صدقہ میں دے دیتے تھے
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے قربانی کے لئے پانچ برس یا زیادہ کا اونٹ ہونا چاہیے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے اونٹوں کے جھول نہیں پھاڑتے تھے اور نہ جھول پہناتے تھے یہاں تک کہ عرفہ کو جاتے منی سے۔
عروہ بن زبیر اپنے بیٹوں سے کہتے تھے اے میرے بیٹو! اللہ کے لئے تم میں سے کوئی ایسا اونٹ نہ دے جو آپ اپنے دوست کو دیتے ہوئے شرماتے ہو اس لئے کہ اللہ جل جلالہ سب کریموں سے کریم ہے اور زیادہ حقدار ہے اس امر کا کہ اس کے واسطے چیز چن کر دی جائے۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدی لے جانے والے نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو ہدی راستے میں ہلاک ہونے لگے اس کا کیا کروں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو اونٹ ہدی کا ہلاک ہونے لگے اس کو نحر کر اور اس کے گلے میں جو قلادہ پڑا تھا وہ اس کے خون میں ڈال دے پھر اس کو چھوڑ دے کہ لوگ کھا لیں اس کو۔
سعید بن مسیب نے کہا جو شخص ہدی کا اونٹ لے جائے پھر وہ تلف ہونے لگے اور وہ اس کونحر کر کے چھوڑ دے کہ لوگ اس میں سے کھائیں تو اس پر کچھ الزام نہیں ہے البتہ اگر خود اس میں سے کھائے یا کسی کو کھانے کا حکم دے تو تاوان لازم ہو گا، عبداللہ بن عباس نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔
ابن شہاب نے کہا جو شخص اونٹ جزا کا یا نذر کا یا تمتع کا لے گیا پھر وہ راستے میں تلف ہو گیا تو اس پر اس کا عوض لازم ہے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص اونٹ ہدی کا لے جائے پھر وہ راستے میں مر جائے یا گم ہو جائے تو اگر نذر کو ہو تو اس کا عوض دے اور جو نفل ہو تو چاہے عوض دے چاہے نہ دے۔
امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب اور ابوہریرہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے جماع کیا اپنی بی بی سے احرام میں وہ کیا کرے ان سب نے جواب دیا کہ وہ دونوں حج کے ارکان ادا کرتے جائیں یہاں تک کہ حج پورا ہو جائے پھر آئندہ سال ان پر حج اور ہدی لازم ہے۔ حضرت علی نے یہ بھی فرمایا کہ پھر آئندہ سال جب حج کریں تو دونوں جدا جدا رہیں یہاں تک کہ حج پورا ہو جائے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا سعید بن مسیب سے وہ کہتے تھے لوگوں سے تم کیا کہتے ہو اس شخص کے بارے میں جس نے جماع کیا اپنی عورت سے، احرام کی حالت میں تو لوگوں نے کچھ جواب نہ دیا تب سعید نے کہا کہ ایک شخص نے ایسا ہی کیا تھا تو اس نے مدینہ میں کسی کو بھیجا دریافت کرنے کے لئے بعض لوگوں کے پاس، بعض لوگوں نے کہا کہ میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی کی جائے، سعید نے کہا دونوں حج کرنے چلے جائیں اور اس حج کو پورا کریں جو فاسد کر دیا ہے جب فارغ ہو کر لوٹیں تو دوسرے سال اگر زندہ رہیں تو پھر حج کریں اور ہدی دیں اور دوسرے حج کا احرام وہیں سے باندھیں جہاں سے پہلے حج کا احرام باندھا تھا اور مرد عورت جدا رہیں جب تک فارغ نہ ہوں حج سے۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ابو ایوب انصاری حج کرنے کو نکلے جب نازیہ میں پہنچے مکہ کے راستے میں تو ان کا اونٹ گم ہو گیا سو آئے وہ مکہ میں حضرت عمر بن خطاب کے پاس دسویں تاریخ کو ذی الحجہ کی اور بیان کیا ان سے حضرت عمر نے فرمایا کہ عمرہ کر لے اور احرام کھول ڈال پھر آئندہ سال حج کے دن آئیں تو حج کر اور ہدی دے موافق اپنی طاقت کے۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ہبار بن اسود آئے یوم النحر کو اور عمر بن خطاب نحر کر رہے تھے اپنی ہدی کا تو کہا انہوں نے اے امیر المومنین ہم نے تاریخ کے شمار میں غلطی کی ہم سمجھتے تھے کہ آج عرفہ کا روز ہے حضرت عمر نے کہا مکہ کو جاؤ اور تم اور تمہارے ساتھی سب طواف کرو اگر کوئی ہدی تمہارے ساتھ ہو تو اس کو نحر کر ڈالو پھر حلق کرو یا قصر اور لوٹ جاؤ اپنے وطن کو، آئندہ سال آؤ اور حج کرو اور ہدی دو جس کو ہدی نہ ملے وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے جب لوٹے تب رکھے۔
عبد اللہ بن عباس سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے صحبت کی اپنی بی بی سے اور وہ منیٰ میں تھا قبل طواف زیارۃ کے، تو حکم کیا اس کو عبداللہ بن عباس نے ایک اونٹ نحر کرنے کا۔
عبد اللہ بن عباس نے کہا جو شخص صحبت کرے اپنی بی بی سے قبل طواف زیارۃ کے تو وہ ایک عمرہ کرے اور ہدی دے۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔
حضرت علی فرماتے تھے کہ مَا اسْتَیسَرَ مِنْ الْهَدْی سے مراد ایک بکری ہے۔
امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عباس کہتے تھے مَا اسْتَیسَرَ مِنْ الْهَدْی سے ایک بکری مراد ہے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے مَا اسْتَیسَرَ مِنْ الْهَدْی سے ایک بکری یا گائے مراد ہے۔
عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک آزاد لونڈی عمرہ بنت عبدالرحمن کی جس کا نام رقیہ تھا مجھ سے کہتی تھی کہ میں چلی عمرہ بنت عبدالرحمن کے ساتھ مکہ کو تو آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی وہ مکہ میں پہنچیں اور میں بھی ان کے ساتھ تھی تو طواف کیا خانہ کعبہ کا اور سعی کی صفا اور مروہ کے درمیان میں پھر عمرہ مسجد کے اندر گئیں اور مجھ سے کہا کہ تیرے پاس قینچی ہے میں نے کہا نہیں عمرہ نے کہا کہیں سے ڈھونڈھ کر لاؤ سو میں ڈھونڈھ کر لائی عمرہ نے اپنی لٹیں بالوں کی اس سے کاٹیں جب یوم النحر ہوا تو ایک بکری ذبح کی۔
صدقہ بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا عبداللہ بن عمر کے پاس اور اس نے بٹ لیا تھا اپنے بالوں کو تو کہا اے ابا عبدالرحمن میں صرف عمرہ کا احرام باندھ کر آیا عبداللہ بن عمر نے کہا اگر تو میرے ساتھ ہوتا یا مجھ سے پوچھتا تو میں تجھے قران کا حکم کرتا اس شخص نے کہا اب تو ہو چکا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ جتنے بال تیرے پریشان ہیں ان کو کتروا ڈال اور ہدی دے، ایک عورت عراق کی رہنے والی بولی اے ابا عبدالرحمن کیا ہدی ہے اس کی؟ انہوں نے کہا جو ہدی ہے اس کی، اس عورت نے کہا کیا ہدی ہے؟ عبداللہ بن عمر نے کہا میرے نزدیک تو یہ ہے کہ اگر مجھے سوا بکری کے کچھ نہ ملے تب بھی بکری ذبح کرنا بہتر ہے روزے رکھنے سے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو جب احرام کھلوائے تو کنگھی نہ کرے جب تک اپنے بالوں کی لٹیں نہ کٹوا دے اور جو اس کے پاس ہدی ہو جب تک ہدی نحر نہ کرے تو اپنے بال نہ کتروائے۔
ابو اسما سے جو مولی ہیں عبداللہ بن جعفر کے روایت ہے کہ عبداللہ بن جعفر کے ساتھ وہ مدینہ سے نکلے تو گزرے حسین بن علی پر اور وہ بیمار تھے سقیا میں پس ٹھہرے رہے وہاں عبداللہ بن جعفر یہاں تک کہ جب خوف ہوا حج کے فوت ہو جانے کا تو نکل کھڑے ہوئے عبداللہ بن جعفر اور ایک آدمی بھیج دیا حضرت علی کے پاس اور ان کی بی بی اسما بنت عمیس کے پاس وہ دونوں مدینہ میں تھے تو آئے حضرت علی اور اسماء مدینہ سے امام حسین کے پاس انہوں نے اشارہ کیا اپنے سر کی طرف حضرت علی نے حکم کیا ان کا سر مونڈا گیا سقیا میں، پھر قربانی کی ان کی طرف سے ایک اونٹ کی وہیں سقیا میں، کہا یحیی بن سعید نے کہ امام حسین حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ نکلے تھے حج کرنے کو۔
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عرفات تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن عرفہ میں نہ ٹھہرو اور مزدلفہ تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن محسر میں نہ ٹھہرو۔
عبد اللہ بن زبیر کہتے تھے جانو تم کہ عرفات سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن محسر۔
کہا مالک نے فرمایا اللہ تعالی نے فلا رفث ولا فسوق ولاجدال فی الحج، نہ رفث ہے نہ فسق ہے نہ جھگڑا ہے حج میں، تو رفث کے معنی جماع کے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے فرمایا ہے احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نساءکم حلال ہے تمہارے لئے روزوں کی رات میں جماع اپنی عورتوں سے یہاں پر رفث سے جماع مراد ہے۔
کہا یحیی نے سوال ہوا امام مالک سے کہ عرفات میں یا مزدلفہ میں کوئی آدمی بے وضو ٹھہر سکتا ہے یا بے وضو کنکریاں مار سکتا ہے یا بے وضو صفا اور مروہ کے درمیان میں دوڑ سکتا ہے تو جواب دیا کہ جتنے ارکان حائضہ عورت کر سکتی ہے وہ سب کام مرد بے وضو کر سکتا ہے اور اس پر کچھ لازم نہیں آتا مگر افضل یہ ہے کہ ان سب کاموں میں با وضو ہو اور قصداً بے وضو ہونا اچھا نہیں ہے۔ سوال ہوا امام مالک سے کہ عرفات میں سوار ہو کر ٹھہرے یا اتر کر، بولے سوار ہو کر مگر جب کوئی عذر ہو اس کو یا اس کے جانور کو تو اللہ جل جلالہ قبول کرنے والا ہے عذر کو۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر کہتے تھے جو شخص عرفہ میں نہ ٹھہرا یوم النحر کے طلوع فجر تک تو فوت ہو گیا حج اس کا اور جو یوم النحر کے طلوع فجر سے پہلے عرفہ میں ٹھہرا تو اس نے پا لیا حج کو۔
عروہ بن زبیر نے کہا کہ جب مزدلفہ کی رات کی صبح ہو گئی اور وہ عرفہ میں نہ ٹھہرا تو حج اس کا فوت ہو گیا اور جو مزدلفہ کی رات کو عرفہ میں ٹھہرا طلوع فجر سے پہلے تو پا لیا اس نے حج کو۔
سالم اور عبید اللہ سے جو دو بیٹے ہیں عبداللہ بن عمر کے روایت ہے کہ ان کے باپ عبداللہ بن عمر آگے روانہ کر دیتے تھے عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے منی کی طرف تاکہ نماز صبح کی منی میں پڑھ کر لوگوں کے آنے سے اول کنکریاں مار لیں۔
اسماء بنت ابی بکر کی آزاد لونڈی سے روایت ہے کہ ہم اسما بنت ابی بکر کے ساتھ منی میں آئے منہ اندھیرے تو میں نے کہا کہ ہم منی میں منہ اندھیرے آئے اسماء نے کہا ہم ایسا ہی کرتے تھے اس شخص کے ساتھ جو تجھ سے بہتر تھے۔
امام مالک نے سنا بعض اہل علم سے مکروہ جانتے تھے کنکریاں مارنا قبل طلوع فجر کے نحر کے دن، اور جس نے ماریں تو نحر اس کو حلال ہو گیا۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت المنذر دیکھتی تھیں اسما بنت ابی بکر کو مزدلفہ میں کہ جو امامت کرتا تھا ان کی اور ان کے ساتھیوں کی نماز میں حکم کرتی تھیں اس شخص کو کہ نماز پڑھائے صبح کی فجر نکلتے ہی پھر سوار ہو کر منی کو آتی تھیں اور توقف نہ کرتی تھیں۔
عروہ بن زبیر نے کہا کہ سوال ہو اسامہ بن زید سے اور میں بیٹھا تھا ان کے پاس کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حج وداع میں کس طرح چلاتے تھے اونٹ کو؟ کہا انہوں نے چلاتے تھے ذرا تیز جب جگہ پاتے تو خوب دوڑا کر چلاتے تھے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تیز کرتے تھے اپنے اونٹ کو بطن محسر میں ایک ڈھیلے کی مار تک۔
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا منی کو نحر کی جگہ یہ ہے اور ساری منی نحر کی جگہ ہے اور عمرہ میں کہا مروہ کو نحر کی جگہ یہ ہے اور سب راستے مکہ کے نحر کی جگہ ہے۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جب پانچ راتیں باقی رہی تھیں ذیقعدہ کی اور ہم کو گمان یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حج کو نکلے ہیں جب ہم نزدیک ہوئے مکہ سے تو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو جس کے ساتھ ہدی نہ تھی کہ طواف اور سعی کر کے احرام کھول ڈالے کہا عائشہ نے کہ یوم النحر کے دن ہمارے پاس گوشت آیا گائے کا تو میں نے پوچھا کہ یہ گوشت کہاں سے آیا لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے نحر کیا ہے۔
حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرہ کر کے اپنا احرام نہیں کھولا تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے تلبید کی اپنے سر کی اور تقلید کی اپنی ہدی کی تو میں احرام نہ کھولوں گا جب تک نحر نہ کر لوں۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ہدی کے بعض جانوروں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بعضوں کو اوروں نے ذبح کیا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص نذر کرے بدنہ کی (بدنہ اونٹ یا گائے یا بیل کو کہتے ہیں) جو بھیجا جائے مکہ کو قربانی کے واسطے تو اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دے اور اشعار کرے پھر نحر کرے اس کا بیت اللہ کے پاس یا منی میں دسویں تاریخ ذی الحجہ کو، اس کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے اور جو شخص نذر کرے قربانی کے اونٹ یا گائے کی اس کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے نحر کرے۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ نحر کرتے تھے اپنے اونٹوں کو کھڑا کر کے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر صحابہ نے کہا اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر پھر صحابہ نے کہا اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اور قصر کرنے والوں پر۔
عبدالرحمن بن القاسم سے روایت ہے کہ ان کے باپ قاسم بن محمد مکہ میں عمرہ کا احرام باندھ کر رات کو آتے اور طواف وسعی کر کے حلق میں تاخیر کرتے صبح تک لیکن جب تک حلق نہ کرتے بیت اللہ کا طواف نہ کرتے اور کبھی مسجد میں آ کر وتر پڑھتے لیکن بیت اللہ کے قریب نہ جاتے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ کوئی شخص سر نہ منڈائے اور بال نہ کتروائے یہاں تک کہ نحر کرے ہدی کو اگر اس کے ساتھ ہو اور جو چیزیں احرام میں حرام تھیں ان کا استعمال نہ کرے جب تک احرام نہ کھول لے منی میں یوم النحر کو کیونکہ فرمایا اللہ تعالی نے ولا تحلقو رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ مت منڈاؤ سروں کو اپنے جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے اور حج کا قصد ہوتا تو سر اور داڑھی کے بال نہ لیتے یہاں تک کہ حج کرتے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب حلق کرتے حج یا عمرہ میں تو اپنی داڑھی اور مونچھ کے بال لیتے۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا قاسم بن محمد کے پاس اور اس نے کہا کہ میں نے طواف الافاضہ کیا اور میرے ساتھ میری بی بی نے بھی طواف الافاضہ کیا پھر میں ایک گھاٹی کی طرف گیا تاکہ صحبت کروں بی بی سے وہ بولی کہ میں نے ابھی بال نہیں کتروائے میں نے دانتوں سے اس کے بال کترے اور اس سے صحبت کی قاسم بن محمد ہنسے اور کہا کہ حکم کر اپنی عورت کو کہ بال کترے قینچی سے۔
عبد اللہ بن عمر اپنے عزیزوں میں سے ایک شخص سے ملے جس کا نام مجبر تھا انہوں نے طواف الافاضہ کر لیا تھا لیکن نہ حلق کیا نہ قصر نادانی سے، تو ان کو عبداللہ بن عمر نے لوٹ جانے کا اور حلق یا قصر کر کے اور طواف زیادہ دوبارہ کرنے کاحکم کیا۔
امام مالک کو پہنچا کہ سالم بن عبداللہ بن عمر جب ارادہ کرتے احرام کا تو قینچی منگاتے اور مونچھ اور داڑھی کے بال لیتے سواری اور لیبک کہنے سے پہلے احرام باندھ کر۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص بال گوندھے احرام کے وقت وہ سر منڈا دے احرام کھولتے وقت اور اس طرح بال نہ گوندھو کہ تلبید سے مشابہت ہو جائے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص جوڑا باندھے یا گوندھ لے یا تلبید کرے بالوں کو احرام کے وقت تو واجب ہو گیا اس پر سر منڈانا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم داخل ہوئے کعبہ شریف کے اندر اور ان کے ساتھ اسامہ بن زید اور بلال بن رابح اور عثمان بن طلحہ تھے تو دروازہ بند کر لیا اور وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ نے کہا میں نے بلال سے پوچھا جب نکلے کیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے؟ تو کہا انہوں نے ایک ستون پیچھے کو بائیں طرف کیا اور دو ستون داہنی طرف اور تین ستون پیچھے اپنے اور خانہ کعبہ میں ان دنوں چھ ستون تھے پھر نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے۔
سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ لکھا عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو جب وہ آیا تھا عبداللہ بن عمر کا کسی بات میں حج کے کاموں میں سے کسی میں اختلاف نہ کرنا، کہا سالم نے جب عرفہ کا روز ہوا تو عبداللہ بن عمر زوال ہوتے ہی آئے اور میں بھی ان کے ساتھ اور پکارا حجاج کے خیمہ کے پاس کہ کہاں ہے حجاج؟ تو نکلا حجاج ایک چادر کسم میں رنگی ہوئی اوڑھے ہوئے اور کہا اے ابا عبدالرحمن کیا ہے انہوں نے جواب دیا کہ اگر سنت کی پیروی چاہتا ہے تو چل حجاج بولا ابھی؟ انہوں نے کہا ہاں ابھی، حجاج نے کہا مجھے تھوڑی مہلت دو کہ میں نہا لوں پھر نکلتا ہوں عبداللہ بن عمر سواری سے اتر پڑے پھر حجاج نکلا سو میرے اور میرے باپ عبداللہ کے بیچ میں آگیا میں نے اس سے کہا اگر تجھ کو سنت کی پیروی منظور ہو تو آج کے روز خطبہ کو کم کر اور نماز جلد پڑھ وہ عبداللہ کی طرف دیکھنے لگا تاکہ ان سے سنے جب عبداللہ نے یہ دیکھا تو کہا سچ کہا سالم نے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے تھے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی منی میں پھر صبح کو جب آفتاب نکل آتا تو عرفات کو جاتے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی مغرب کی اور عشاء کی مزدلفہ میں ملا کر۔
اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوٹے عرفات سے یہاں تک کہ جب پہنچے گھاٹی میں اترے اور پیشاب کیا اور وضو کیا لیکن پورا وضو نہ کیا میں نے کہا نماز یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز آگے ہے تیرے، پھر سوار ہوئے جب مزدلفہ میں آئے اترے اور پورا وضو کیا پھر تکبیر ہوئی تو نماز پڑھی مغرب کی اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنی جگہ میں بٹھایا پھر تکبیر ہوئی عشاء کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کی نماز پڑھی بیچ میں ان دونوں کے کوئی نماز نہ پڑھی۔
ابو ایوب انصاری نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیساتھ مغرب اور عشاء ملا کر مزدلفہ میں پڑھیں۔
نافع سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔
کہا مالک نے مکہ کے رہنے والے حج کو جائیں تو منی میں قصر کریں اور دو رکعتیں پڑھیں جب تک وہ حج سے لوٹیں۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی منی میں دو رکعتیں پڑھیں اور ابوبکر نے بھی وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور عمر بن خطاب نے بھی دو رکعتیں وہاں پڑھیں اور عثمان بن عفان نے بھی دو رکعتیں وہاں پڑھیں اور آدھی خلافت تک پھر چار پڑھنے لگے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب مکہ میں آئے تو دو رکعتیں پڑھ کر لوگوں سے کہا اے مکہ والوں تم اپنی نماز پوری کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں پھر منی میں حضرت عمر نے وہی دو رکعتیں پڑھیں لیکن ہم کو یہ نہیں پہنچا کہ وہاں کچھ کہا۔
اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے مکہ میں دو رکعتیں پڑھ کر لوگوں سے کہا اے مکہ والوں تم اپنی نماز پوری کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں پھر منی میں بھی حضرت عمر نے دو ہی رکعتیں پڑھیں لیکن ہم کو یہ نہیں پہنچا کہ وہاں کچھ کہا ہو۔
کہا مالک نے جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی مکہ میں آگیا اور حج کا احرام باندھا تو وہ جب تک مکہ میں رہے چار رکعتیں پڑھے اس واسطے کہ اس نے چار راتوں سے زیادہ رہنے کی نیت کر لی۔
یحیی بن سعید کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب گیارہویں تاریخ کو نکلے جب کچھ دن چڑھا تو تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی پھر دوسرے دن نکلے جب دن نکلا اور تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی تاکہ ایک تکبیر دوسری تکبیر سے ملتے ملتے آواز بیت اللہ کو پہنچے اور لوگ جانیں کہ حضرت عمر رمی کرنے نکلے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ بٹھایا بطحا میں جو ذوالحلیفہ میں تھا اور نماز پڑھی وہاں کہا نافع نے عبداللہ بن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ظہر اور عصر اور مغرب محصب میں پڑھتے پھر مکہ میں جاتے رات کو اور طواف کرتے خانہ کعبہ کا۔
نافع سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب چند آدمیوں کو مقرر کرتے اس بات پر کہ لوگوں کو پھیر دیں منی کی طرف جمرہ عقبہ کے پیچھے سے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کوئی حاجی منی کی راتوں میں جمرہ عقبہ کے ادھر نہ رہے۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ بن زبیر نے کہا کہ منی کی راتوں میں کوئی مکہ میں نہ رہے بلکہ منی میں رہے۔
امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب ٹھہرتے تھے جمرہ اولی اور وسطی کے پاس بڑی دیر تک کہ تھک جاتا تھا کھڑا ہونے والا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جمرہ اولی اور وسطی کے پاس ٹھہرتے تھے بڑی دیر تک پھر تکبیر کہتے اور تسبیح اور تحمید پڑھتے اور دعا مانگتے اللہ جل جلالہ سے اور جمرہ عقبہ کے پاس نہ ٹھہرتے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کنکریاں مارتے وقت تکبیر کہتے ہر کنکری مارنے پر۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جس کا آفتاب ڈوب جائے بارہویں تاریخ کو منی میں تو وہ نہ جائے جب تک تیرہویں تاریخ کو رمی نہ کر لے۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ لوگ جب رمی کرنے کو جاتے تو پیدل جاتے اور پیدل آتے لیکن سب سے پہلے معاویہ بن ابی سفیان رمی کے واسطے سوار ہوئے۔
امام مالک نے پوچھا عبدالرحمن بن قاسم سے کہ قاسم بن محمد کہاں سے رمی کرتے تھے جمرہ عقبہ کی، بولے جہاں سے ممکن ہوتا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے تینوں دنوں میں رمی بعد زوال کے کی جائے۔
عاصم بن عدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت دی اونٹ والوں کو رات اور کہیں بسر کرنے کی سوائے منی کے، وہ لوگ رمی کر لیں یوم النحر کو پھر دوسرے دن یا تیسرے دن دونوں پھر اگر رہیں تو چوتھے دن بھی رمی کریں
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ زمانہ اول میں اونٹ چرانے والے کو اجازت تھی رات کو رمی کرنے کی۔
نافع سے روایت ہے کہ صفیہ بن ابی عبید کی بھتیجی کو نفاس ہوا مزدلفہ میں تو وہ اور صفیہ ٹھہر گئیں یہاں تک کہ منی میں جب پہنچیں آفتاب ڈوب گیا یوم النحر کو تو حکم کیا ان دونوں کو عبداللہ بن عمر نے کنکریاں مارنے کا جب آئیں وہ منی میں اور کوئی جزا ان پر لازم نہ کی۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے خطبہ پڑھا عرفات میں اور سکھائے ان کو ارکان حج کے اور کہا ان سے! جب تم آؤ منی میں اور کنکریاں مار چکو تو سب چیزیں درست ہو گئیں تمہارے واسطے جو حرام تھیں احرام میں، مگر عورتوں سے صحبت کرنا اور خوشبو لگانا کوئی شخص تم میں سے صحبت نہ کرے اور نہ خوشبو لگائے جب تک طواف نہ کر لے خانہ کعبہ کا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص کنکریاں مارے اور سر منڈائے یا بال کتروائے اور اس کے ساتھ اگر ہدی ہو تو نحر کرے پس حلال ہو جائیں گیں اس پر وہ چیزیں جو حرام تھیں مگر صحبت کرنا عورتوں سے اور خوشبو لگانا درست نہ ہو گا طواف الزیارہ تک۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حجہ الوداع کے سال میں تو احرام باندھا ہم نے عمرہ کا پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص کے ساتھ ہدی ہو تو وہ احرام حج اور عمرہ کا ساتھ باندھے پراحرام نہ کھولے یہاں تک کہ دونوں سے فارغ ہو ، حضرت عائشہ نے کہا کہ میں آئی مکہ میں حیض کی حالت میں تو میں نے نہ طواف کیا نہ سعی کی صفا مروہ کی اور شکایت کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنا سر کھول ڈال اور کنگھی کر اور عمرہ چھوڑ دے اور حج کا احرام باندھ لے میں نے ویسا ہی کیا جب ہم حج کر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو عبدالرحمن بن ابی بکر کے ساتھ تنیعم کو بھیجا میں نے عمرہ ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمرہ عوض ہے تیرے اس عمرہ کا تو جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ طواف اور سعی کر کے حلال ہو گئے پھر حج کے واسطے دوسرا طواف کیا جب لوٹ کر آئے منی سے، اور جن لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ کا ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ میں آئی مکہ میں حالت حیض میں اور میں نے طواف نہ کیا خانہ کعبہ کا اور نہ سعی کی صفا اور مرہ کی تو میں نے شکوہ کیا اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کام حاجی کرتے ہیں وہ تو بھی کر فقط طواف اور سعی نہ کر جب تک کہ پاک نہ ہو۔
کہا مالک نے جو عورت عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ میں آئے اور وہ حیض سے ہو اور حج کے دن آ جائیں اور طواف نہ کر سکے تو اگر حج کے فوت ہونے کا خوف ہو تو حج کا احرام باندھ لے اور ہدی دے اور اس کا حکم قارن جیسا ہو گا ایک طواف اس کو کافی ہے اور وقوف عرفہ اور وقوف مزدلفہ اور رمی جمار حیض کی حالت میں ادا کر سکتی ہے مگر طواف الزیارۃ نہ کرے جب تک حیض سے پاک نہ ہو۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ صفیہ کو حیض آیا تو بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ہمیں روکنے والی ہے لوگوں نے کہا وہ طواف الافاضہ کر چکی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر نہیں۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفیہ کو حیض آگیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید وہ ہم کو روکے گی کیا اس نے طواف نہ کیا خانہ کعبہ کا، عورتوں نے کہا ہاں کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر چلو۔
عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عائشہ جب حج کرتیں عورتوں کے ساتھ اور خوف ہوتا ان کو حیض آ جانے کا تو یوم النحر کو ان کو روانہ کر دیتیں طواف الافاضہ کے واسطے، جب وہ طواف کر چکتیں اب اگر ان کو حیض آتا تو ان کے پاک ہونے کا انتظار نہ کرتیں بلکہ چل کھڑی ہوتیں۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذکر کیا صفیہ کا تو لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کو حیض آگیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید وہ ہمیں روکنے والے ہے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ طواف کر چکیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ نہیں۔
ہشام نے کہا عروہ نے کہا عائشہ نے جب ہم اس کا ذکر کرتے تھے کہ اگر پہلے سے عورتوں کو طواف کے لئے روانہ کر دینا مفید نہیں تو لوگ کیوں بھیج دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ جیسے سمجھتے ہیں کہ طواف الوداع کے لئے ٹھہرنا لازم ہے صحیح ہوتا تو منی میں چھ ہزرار عورتوں سے زیادہ حیض کی حالت میں پڑی ہوتیں طواف الوداع کے انتظار میں۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ام سلیم نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور اس کو حیض آگیا تھا یا زچگی ہوئی تھی بعد طواف الافاضہ کے یوم النحر کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت دی اور وہ چلی گئیں
کہا مالک نے جس عورت کو حیض آ جائے منی میں تو وہ ٹھہری رہے یہاں تک کہ وہ طواف الافاضہ کرے اور اگر طواف الافاضہ کے بعد اس کو حیض آیا تو اپنے شہر کو چلی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو رخصت پہنچی ہے حائضہ کے واسطے اور اگر حیض آیا طواف الافاضہ سے پہلے پھر خون بند نہ ہوا تو اکثر مدت لگا لیں گے حیض کی۔
ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حکم کیا بجو کے مارنے میں (جزا) ایک مینڈھے کا اور ہرن میں ایک بکری اور خرگوش میں بکری کے بچے کا جو سال بھر کا ہو اور جنگلی چوہے میں بکری کے چار ماہ کے بچے کا۔
محمد بن سرین سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنے ساتھی کے ساتھ گھوڑے ڈالے ایک تنگ گھاٹی میں تو مارا ہم نے ہرن کو اور ہم دونوں احرام باندھے ہوئے تھے حضرت عمر نے ایک شخص کو جو ان کے پہلو میں بیٹھا تھا بلایا اور کہا آؤ ہم تم مل کر حکم کر دیں تو دونوں نے مل کر ایک بکری کا حکم کیا وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہنے لگا یہ ہیں امیر المومنین ایک ہرن کا فیصہ اکیلے نہ کر سکے جب تک کہ ایک اور شخص کو اپنے ساتھ نہ بلایا۔ حضرت عمر نے یہ بات سن لی تو اس پکارا اور کہا تو نے سورۃ مائدہ پڑھی ہے وہ بولا نہیں حضرت عمر بولے تو اس شخص کو پہچانتا ہے جس نے میرے ساتھ مل کر فیصلہ کیا اس نے کہا نہیں حضرت عمر نے کہا اگر تو یہ کہتا کہ میں نے سورۃ مائدہ پڑھی ہے تو اس وقت میں تجھے مارتا پھر کہا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے اپنی کتاب میں تجویز کر دیں جزا کر دو عادل تم میں سے وہ ہدی ہو جو پہنچے مکہ میں اور یہ شخص عبدالرحمن بن عوف ہے
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عرہ کہتے تھے نیل گائے میں ایک گائے لازم اور ہرن میں ایک بکری لازم ہے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے مکہ کے کبوتر کو جب قتل کیا جائے تو ایک بکری لازم ہے۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا حضرت عمر کے پاس اور کہا کہ میں نے چند ٹڈیوں کو کوڑے سے مار ڈالا اور میں احرام باندھے ہوئے تھا آپ نے فرمایا کہ ایک مٹھی بھر کھانا کسی کو کھلا دے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا حضرت عمر بن خطاب کے پاس اور پوچھا آپ سے میں نے ایک ٹڈی مار ڈالی حالت احرام میں حضرت عمر نے کہا آؤ ہم تم مل کر فیصلہ کریں کعب نے کہا ایک درہم لازم ہے حضرت عمر نے کہا تیرے پاس بہت درہم ہیں میرے نزدیک ایک کھجور بہتر ہے ایک ٹڈی سے۔
کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے، ان کی سر میں جوئیں پڑ گئیں تو حکم دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سر منڈانے کا اور کہا تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو دو دو مد کھانا دے یا ایک بکری ذبح کر ان میں سے جو بھی کرے گا کافی ہے۔
کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید تجھ کو تکلیف دیتی ہیں جوئیں انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یا منڈوا ڈال سر اپنا اور تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا یا ایک بکری ذبح کر۔
کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ آئے میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور میں ہانڈی پھونک رہا تھا اپنے ساتھیوں کی اور میرے سر اور ڈاڑھی کے بال جوؤں سے بھر گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میری پیشانی تھام کر فرمایا ان بالوں کو منڈوا ڈال اور تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے واسطے کچھ نہیں ہے۔
کہا مالک نے جس شخص نے اپنے ناک کے بال اکھاڑے یا بغل کے یا بدن پر نورہ لگایا یا سر میں زخم ہوا اور ضرورت کی وجہ سے سر منڈوایا یا گدی کے بال منڈوائے پچھنے لگانے کے واسطے احرام میں، اگر بھولے سے یا نادانی سے یہ کام کرے تو ان سب صورتوں میں اس پر فدیہ ہے اور محرم کو درست نہیں کہ پچھنے لگانے کی جگہ مونڈے۔ کہا مالک نے جو شخص نادانی سے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لے تو فدیہ دے۔
سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس نے کہا جو شخص اپنے کاموں میں سے کوئی کام بھول جائے یا چھوڑ دے تو ایک دم دے ایوب نے کہا مجھے یاد نہیں سعید نے بھول جائے کہا یا چھوڑ دے کہا۔
کہا مالک نے جو شخص چاہے ایسے کپڑے پہننا جو احرام میں درست نہیں ہیں یا بال کم کرنا چاہے یا خوشبو لگانا چاہے بغیر ضرورت کے فدیہ کو آسان سمجھ کر تو یہ جائز نہیں ہے بلکہ رخصت ضرورت کے وقت ہے جو کوئی ایسا کرے فدیہ دے۔
کہا مالک نے جو شخص حج میں تین روزے رکھنا بھول جائے یا بیماری کی وجہ سے نہ رکھ سکے یہاں تک کہ اپنے شہر چلا جائے تو اس کو اگر ہدی کی قدرت ہو تو ہدی دے ورنہ تین روزے اپنے گھر میں رکھ کر پھر سات روزے رکھے۔
عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ٹھہرے منی میں حجۃ الوداع میں اور لوگ مسئلہ پوچھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سو ایک شخص آیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے سر منڈا لیا قبل نحر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اب ذبح کر لے کچھ حرج نہیں ہے پھر دوسرا شخص آیا وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے نادانی سے نحر کیا قبل رمی کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رمی کر لے کچھ حرج نہیں ہے عبداللہ بن عمر نے کہا پھر جب سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی چیز کے مقدم یا موخر کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کر لے اور کچھ حرج نہیں ہے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب لوٹتے جہاد یا حج یا عمرہ سے تو تکبیر کہتے ہر چڑھاؤ پر تین بار فرمایا لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شئی قدیر۔ ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرنے والے ہیں اللہ کی طرف پوجنے والے ہیں سجدہ کرنے والے ہیں اللہ اپنے پروردگار کی طرف سچا کیا اللہ نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے بندے کی اور بھگادیا فوجوں کو اکیلے۔
کریب سے روایت ہے جو مولی ہیں عبداللہ بن عباس کے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ہوا ایک عورت پر اور وہ اپنے محافہ میں تھی تو کہا گیا اس سے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اس نے اپنے لڑکے کا بازو پکڑ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لڑکے کا بھی حج ہے فرمایا ہاں اور تجھ کو اجر ہے۔
طلحہ بن عبید اللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں دیکھا جاتا شیطان کسی روز ذلیل اور منحوس اور غضبناک زیادہ عرفے کے روز سے اس وجہ سے کہ دیکھتا ہے اس دن خدا کی رحمت اترتی ہوئی اور بڑے بڑے گناہ معاف ہوتے ہوئے مگر بدر کے روز بھی شیطان کا یہی حال تھا لوگوں نے کہا اس دن کیا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دیکھا اس نے جبریل کو فرشتوں کی صف باندھے ہوئے۔
عبید اللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہتر دعاؤں میں عرفے کی دعا ہے اور بہتر اس میں جو کہا میں نے اور میرے سے پہلے پیغمبروں نے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم داخل ہوئے مکے میں جس سال مکہ فتح ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر پر خود تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ابن خطل کعبے کے پردے پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو مار ڈالو۔ امام مالک نے کہا کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم محرم نہیں تھے
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر آئے مکے سے جب قدید میں پہنچے تو مدینے کے فساد کی خبر پہنچی پس آپ مکہ میں بغیر احرام کے لوٹ آئے۔
عمران انصاری سے روایت ہے کہ میرے پاس عبداللہ بن عمر آئے اور میں مکے کی راستے میں ایک درخت کے تلے ٹھہرا ہوا تھا ، تو انہوں نے پوچھا کیوں ٹھہرا تو اس درخت کے تلے ، میں نے کہا سایہ کے واسطے انہوں نے کہا یا اور کسی کام کے واسطے میں نے کہا نہیں، میں صرف سایہ کے واسطے ٹھہرا ہوں، عبداللہ بن عمر نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تو منی میں دو پہاڑوں کے بیچ میں پہنچے اور اشارہ کیا ہاتھ سے پورب کی طرف وہاں ایک جگہ ہے جس کو سُرر کہتے ہیں وہاں ایک درخت ہے اس کے تلے ستر نبیوں کی نال کاٹی گئی یا ستر نبیوں کو نبوت ملی پس وہ اس سبب سے خوش ہوئے۔
ابن ابی ملکیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ایک جذامی عورت کے پاس سے گزرے جو خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھی، تو (عمر نے) کہا اے خدا کی لونڈی لوگوں کو تکلیف مت دے، کاش تو اپنے گھر میں بیٹھتی ، وہ اپنے گھر میں بیٹھی رہی یہاں تک کہ ایک شخص اس سے ملا اور بولا کہ جس شخص نے تجھ کو منع کیا تھا وہ مر گیا، اب نکل، عورت بولی میں ایسی نہیں کہ زندگی میں تو میں اس شخص کی اطاعت کروں اور مرنے کے بعد اس کی نافرمانی کروں۔
امام مالک کو یہ روایت پہنچی کہ عبداللہ بن عباس کہتے تھے کہ "ملتزم " حجر اسود اور کعبہ کے دروازہ کے درمیان میں ہے۔
محمد بن یحیی بن حبان سے روایت ہے کہ ایک شخص ابوذر کے پاس سے گزرے ربذہ میں (ایک مقام کا نام ہے)، ابوذر نے پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ اس نے کہا حج کا، ابوذر نے پوچھا اور کسی نیت سے تو نہیں نکلا ؟ بولا نہیں، ابوذر نے کہا پس شروع کر کام، اس شخص نے کہا میں نکلا یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور وہاں ٹھہرا رہا پھر دیکھا میں نے لوگوں کو کہ گھیرے ہوئے ہیں ایک شخص کو ، تو میں لوگوں کو چیر کے اندر گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہی شخص جو ربذہ میں مجھ کو ملا تھا موجود ہے یعنی ابوذر انہوں نے مجھ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا تو وہی ہے جس سے میں نے حدیث بیان کی تھی۔
امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ حج میں شرط لگانا درست ہے؟ بولے کیا کوئی ایسا کرتا ہے؟ اور اس سے انکار کیا۔
امام مالک نے کہا کہ جن عورتوں کے خاوند نہیں ہیں اور انہوں نے حج نہیں کیا، اگر ان کا کوئی محرم نہ ہو یا ہو لیکن ساتھ نہ جا سکے تو فرض حج کو ترک نہ کرے بلکہ عورتوں کے ساتھ حج کو جائے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے . وہ کہتی تھیں روزہ اس شخص کے اوپر ہے جو تمتع کرے یعنی عمرہ کر کے حج کرے اور ہدی نہ پائے حج کے احرام سے لے کر عرفہ تک روزے رکھے اگر ان دنوں میں نہ رکھے تو منی کے دنوں میں رکھے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دن بھر روزہ رکھے اور رات بھر عبادت کرے، نہ تھکے نماز سے اور نہ روزے سے یہاں تک کہ لوٹے جہاد سے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ ضامن ہے اس شخص کا جو جہاد کرے اس کی راہ میں، اور نہ نکلے گھر سے مگر جہاد کی نیت سے، اللہ کے کلام کو سچا جان کر. اس بات کا کہ داخل کرے گا اللہ اس کو جنت میں یا پھیر لائے گا اس کو اس کے گھر میں جہاں سے نکلا ہے ثواب اور غنیمت کے ساتھ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گھوڑے ایک شخص کے واسطے اجر ہیں اور ایک شخص کے واسطے درست ہیں اور ایک شخص کے واسطے گناہ ہیں. اجر اس کے واسطے ہیں جو باندھے ان کو جہاد کے واسطے پھر لمبی کر دے اس کی رسی ، ان کی کسی موضع یا چراگاہ میں تو جس قدر دور تک اس رسی کے سبب سے چرے اس کی واسطے نیکیاں لکھی جائیں گی ، اگر وہ رسی توڑا کر ایک اونچان یا نیچان چڑھیں ان کے ہر قدم اور لید پر نیکیاں لکھی جائیں گی اور اگر وہ کسی نہر پر جا نکلے اور پانی پائے اور مالک کا ارادہ پانی پلانے کا نہ تھا تب بھی اس کے واسطے نیکیاں لکھی جائیں۔ اور درست اس کے واسطے ہیں جو تجارت کے واسطے باندھے اور ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔ اور گناہ اس کے واسطے ہیں جو فخر اور ریا اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھے۔ اور حضرت سے سوال ہوا گدھوں کے باب میں، آپ نے فرمایا کہ اس مقدمے میں میرے اوپر کچھ نہیں اترا مگر یہ آیت جو اکیلی تمام نیکیوں کو شامل ہے " فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة خَيْرًا يَرَه ﴿7﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة شَرًّا يَرَه ﴿8﴾ الزال۔ ۶
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، کیا میں نہ بتاؤں تم کو وہ شخص جو سب سے بڑھ کر درجہ رکھتا ہے. وہ شخص ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے جہاد کرتا ہے خدا کی راہ میں، کیا نہ بتاؤں میں تم کو اس کے بعد جو سب سے بڑھ کر درجہ رکھتا ہے وہ شخص ہے جو ایک گوشے میں بکریوں کا غلہ لے کر نماز پڑھتا ہے اور اللہ کو پوجتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم نے بیعت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر آسانی اور سختی میں خوشی اور غم میں، اور بیعت کی ہم نے اس بات پر کہ جو مسلماں حکومت کے لائق ہو گا اس سے نہ جھگڑیں گے اور اس امر پر کہ ہم سچ کہیں گے یا سچ پر جمے رہیں گے جہاں ہوں گے، اللہ کے کام میں کسی کے برا کہنے سے نہ ڈریں گے۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابو عبیدہ بن جراح نے حضرت عمر کو روم کے لشکروں کا اور اپنے خوف کا حال لکھا . حضرت عمر نے جواب لکھا کہ بعد حمد و نعت کے معلوم ہو کہ بندہ مومن پر جب کوئی سختی اترتی ہے تو اس کے بعد اللہ پاک خوشی دیتا ہے. اور ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں ہو سکتی. اور بے شک اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا . "اے ایمان والو صبر کرو مصیبتوں پر اور صبر کرو کفار کے مقابلہ میں اور قائم رہو جہاد پر اور ڈرو اللہ سے شاید کہ تم نجات پاؤ"۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا قرآن شریف کو دشمن کے ملک میں لے جانے سے. کہا مالک نے منع اس واسطے کیا "تاکہ ایسا نہ ہو کہ دشمن قرآن شریف کو لے کر اس کی توہین کرے"۔
عبدالرحمن بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا تھا ان لوگوں کو جنہوں نے قتل کیا ابن ابی حقیق کو عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے ; ابن کعب نے کہا کہ ایک شخص ان میں سے کہتا تھا کہ ابن ابی حقیق کی عورت نے چیخ کر ہمارا حال کھول دیا تھا; تو میں تلوار اس پر اٹھاتا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ممانعت کو یاد کر کے رک جاتا تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم اسے بھی قتل کر دیتے۔
نافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض لڑائیوں میں ایک عورت کو قتل کئے ہوئے پایا تو ناپسند کیا اس کے قتل کو ، اور منع کیا عورتوں اور بچوں کے قتل سے۔
یحیی بن سیعد سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے شام کو لشکر بھیجا تو یزید بن ابی سفیان کے ساتھ پیدل چلے اور وہ حاکم تھے ایک چوتھائی لشکر کے. تو یزید نے ابوبکر سے کہا آپ سوار ہو جائیں نہیں تو میں اترتا ہوں، ابوبکر صدیق نے کہا نہ تم اترو اور نہ میں سوار ہوں گا ، میں ان قدموں کو خدا کی راہ میں ثواب سمجھتا ہوں پھر کہا یزید سے کہ تم پاؤ گے کچھ لوگ ایسے جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں کو روک رکھا ہے اللہ کے واسطے سو چھوڑ دے ان کو اپنے کام میں اور کچھ لوگ ایسے پاؤ گے جو بیچ میں سے سر منڈاتے ہیں تو مار ان کے سر پر تلوار سے
امام مالک نے روایت نقل کی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عاملوں میں سے ایک عامل کو لکھا کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ روایت پہنچی ہے. کہ جب فوج روانہ کرتے تھے تو کہتے تھے ان سے جہاد کرو اللہ کا نام لے کر، اللہ کی راہ میں تم لڑتے ہو ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا اللہ کے ساتھ، نہ چوری کرو نہ اقرار توڑو نہ ناک کان کاٹو نہ مارو بچوں اور عورتوں کو اور کہہ دے یہ امر اپنی فوجوں اور لشکروں سے، اگر خدا نے چاہا تو تم پر سلامتی ہو گی۔
ایک کوفہ کے رہنے والے سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے لشکر کے ایک افسر کو لکھا. کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض لوگ تم میں سے کافر عجمی کو بلاتے ہیں جب وہ پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اور لڑائی سے باز آتا ہے، تو ایک شخص اس سے کہتا ہے مت ڈر، پھر قابو پاکر اس کو مار ڈالتا ہے. قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں کسی کو ایسا کرتے جان لوں گا تو اس کی گردن ماروں گا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب جہاد کے واسطے کوئی چیز دیتے تو فرماتے "جب پہنچ جائے تو وادی قری میں تو وہ چیز تیری ہے"۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب کہتے تھے. جب کسی شخص کو جہاد کے واسطے کوئی چیز دی جائے اور وہ دار جہاد میں پہنچ جائے تو وہ چیز اس کی ہو گئی۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لشکر نجد کی طرف روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر تھے، تو غنیمت میں بہت سے اونٹ حاصل کئے اور ہر ایک کا حصہ بارہ اونٹ یا گیارہ اونٹ تھے، اور ایک اونٹ زیادہ دیا گیا۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا . کہتے تھے جب جہاد میں لوگ غنیمتوں کو بانٹتے تھے تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر سمجھتے تھے۔
کہا مالک نے جو کفار بند کے کنارہ پر مسلمانوں کی زمین میں ملیں اور وہ یہ کہیں کہ ہم سوداگر تھے، دریا نے ہم کو یہاں پھینک دیا مگر مسلمانوں کو اس امر کی تصدیق نہ ہو، البتہ یہ گمان ہو کہ جہاز ان کا ٹوٹ گیا یا پیاس کے سبب سے اتر پڑے بغیر اجازت مسلمانوں کے، تو امام کو ان کے بارے میں اختیار ہے اور جن لوگوں نے گرفتار کیا ان کو خمس نہیں ملے گا۔
کہا مالک نے جب مسلمان کفار کے ملک میں داخل ہوں اور وہاں کھانے کی چیزیں پائیں تو تقسیم سے پہلے کھانا درست ہے۔
کہا مالک نے، اونٹ بیل بکریاں بھی کھانے کی چیزیں ہیں، تقسیم سے قبل ان کا کھانا درست ہے۔
امام مالک کو روایت پہنچی. کہ عبداللہ بن عمر کا ایک غلام اور ایک گھوڑا بھاگ گیا تھا تو کافروں نے ان دونوں کو پکڑ لیا . پھر غنیمت میں پایا ان دونوں کو مسلمانوں نے پس واپس کر دیا ان دونوں کو ، عبداللہ بن عمر کو تقسیم سے قبل کے۔
ابی قتادہ بن ربعی سے روایت ہے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جنگ حنین میں، جب لڑے ہم کافروں سے تو مسلمانوں میں گڑبڑ مچی میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ اس نے ایک مسلمان کو مغلوب کیا ہوا ہے، تو میں نے پیچھے سے آن کر ایک تلوار اس کی گردن پر ماری، وہ میرے طرف دوڑا اور مجھے آن کر ایسا کر دیا گویا موت کو مزہ چکھایا، پھر وہ خود مرگیا اور مجھے چھوڑ دیا، پھر میں حضرت عمر سے ملا . اور میں نے کہا آج لوگوں کو کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کا ایسا ہی حکم ہوا، پھر مسلمان واپس لوٹے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے "جو کسی شخص کو مارے تو اس کا سامان اسی کو ملے گا جبکہ اس پر وہ گواہ رکھتا ہو" ابوقتادہ کہتے ہیں. جب میں نے یہ سنا تو اٹھ کھڑا ہوا پھر میں نے یہ خیال کیا کہ کون گواہی دے گا میری؟ تو میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کو مارے گا ، اس کا سامان اسی کی ملے گا بشرطیکہ وہ گواہ رکھتا ہو تو میں اٹھ کھڑا ہوا پھر میں نے یہ خیال کیا کہ کون گواہی دے گا میری؟ پھر بیٹھا رہا۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا. میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا ہوا تجھ کو اے ابو قتادہ؟ میں نے سارا قصہ کہہ سنایا.
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ. "سنا میں نے ایک شخص کو ، عبداللہ بن عباس سے نفل کے معنی پوچھتا تھا" ، ابن عباس نے کہا کہ" گھوڑا اور ہتھیار نفل میں داخل ہیں۔ پھر اس شخص نے یہی پوچھا، پھر ابن عباس نے یہی جواب دیا۔ پھر اس شخص نے کہا میں وہ انفال پوچھتا ہوں جن کا ذکر، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ قاسم کہتے ہیں کہ وہ برابر پوچھے گیا، یہاں تک کہ تنگ ہونے لگے عبداللہ بن عباس، اور کہا انہوں نے تم جانتے ہو اس شخص کی مثال. صبیغ کی سی ہے جس کو حضرت عمر بن خطاب نے مارا تھا۔
مالک نے روایت کیا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا "گھوڑے کے دو حصے ہیں اور مرد کا ایک حصہ ہے"۔
عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب حنین سے لوٹے اور ارادہ رکھتے تھے جعرانہ کا. مانگنے لگے لوگ آپ سے (مال غنیمت)، اسی اثنا میں آپ کا اونٹ کانٹوں کے درخت کی طرف چلا گیا، اور کانٹے آپ کی چادر میں اٹک کر چادر آپ کی پشت مبارک سے اتر گئی، تب آپ نے فرمایا. "کہ میری چادر مجھ کو دے دو کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نہ بانٹوں گا وہ چیز تم کو جو اللہ نے تم کو دی" "قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر اللہ تم کو جتنے تہامہ کے درخت ہیں اتنے اونٹ دے تو میں بانٹ دوں گا تم کو. پھر نہ پاؤ گے مجھ کو بخیل نہ بودا نہ جھوٹا، پھر جب اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑ ہوئے لوگوں میں، اور کہا کہ. اگر کسی نے تاگا اور سوئی لے لی ہو وہ بھی لاؤ کیونکہ غنیمت کے مال میں سے چرانا شرم ہے دین میں اور آگ ہے اور عیب ہے قیامت کے روز، پھر زمین سے اونٹ یا بکری کے بالوں کا ایک گچھا اٹھایا، اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، جو مال اللہ پاک نے تم کو دیا. اس میں سے میرا اتنا بھی نہیں ہے، مگر پانچواں حصہ اور پانچواں حصہ بھی تمہارے ہی واسطے ہے۔
زید بن خالد جہنی نے کہا ایک شخص مر گیا حنین کی لڑائی میں تو بیان کیا گیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز پڑھ لو اپنے ساتھی پر، لوگوں کے چہرے زرد ہو گئے، تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس شخص نے مال غنیمت میں چوری کی تھی، زید نے کہا ہم نے اس شخص کا اسباب کھولا تو چند منکے یہودیوں کے پائے جو دو درہم کے مال کے برابر تھے۔
عبد اللہ بن مغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے لوگوں کی جماعتوں پر تو دعا کی سب جماعتوں کے واسطے مگر ایک جماعت کے واسطے دعا نہ کی کیونکہ اس جماعت میں ایک شخص تھا جس کے بچھونے کے نیچے سے ایک کنٹھا چوری کا نکلا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس جماعت پر آئے تو آپ نے تکبیر کہی جیسے جنازے پر کہتے ہیں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نکلے ہم ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے, خبیر کے سال تو غنیمت میں سونا اور چاندی حاصل نہیں کیا بلکہ کپڑے اور اسباب ملے اور رفاعہ بن زید نے ایک غلام کالا ہدیہ دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جس کا نام مدعم تھا, تو چلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وادی القری کی طرف تو جب پہنچے ہم وادی القری میں تو مدعم اتنے میں ایک تیر بے نشان کے آ لگا اور وہ مرگیا، لوگوں نے کہا مبارک ہو جنت کی اس کے واسطے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، ہرگز ایسا نہیں قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ جو کمبل اس نے حنین کی لڑائی میں غنیمت کے مال سے قبل تقسیم لیا تھا، آگ ہو کر اس پر جل رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ سنا ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ تسمہ یا دو تسمے آگ کے تھے۔
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جو قوم غنیمت کے مال میں چوری کرتی ہے ان کے دل بودے ہو جاتے ہیں، اور جس قوم میں زنا زیادہ ہو جاتا ہے ان میں موت بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے، اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ان کی روزی بند ہو جاتی ہے، اور جو قوم ناحق فیصلہ کرتی ہے ان میں خون زیادہ ہو جاتا ہے، اور جو قوم عہد توڑتی ہے ان پر دشمن غالب ہو جاتا ہے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے چاہی یہ بات کہ اللہ کی راہ میں لڑوں پھر قتل کیا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ ابوہریرہ کہتے تھے. اس بات کی میں تین بار گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی فرمایا۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا. ہنسے گا اللہ تعالی قیامت کے دن دو شخصوں پر کہ ایک دوسرے کا قاتل ہو گا اور دونوں جنت میں جائیں گے ایک شخص نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور مارا گیا بعد اس کے مارنے والے پر اللہ نے رحم کیا اور وہ مسلمان ہوا اور جہاد کیا اور شہید ہوا۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے نہیں زخمی ہو گا کوئی شخص اللہ کی راہ میں اور اللہ خوب جانتا ہے اس کو جو زخمی ہوتا ہے اس کے راستے میں ، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہو گا جس کا رنگ بھی خون جیسا ہو گا اور خوشبو مشک جیسی ہو گی۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے تھے اے پروردگار!میرا قاتل ایسے شخص کو نہ بنانا جس نے تجھے ایک سجدہ بھی کیا ہو تاکہ اس سجدہ کی وجہ سے قیامت کے دن تیرے سامنے مجھ سے جھگڑے۔
ابوقتادہ انصاری سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر میں قتل کیا جاؤں اللہ کی راہ میں جس حال میں کہ میں صبر کرنے والا ہوں مخلص ہوں منہ سامنے رکھنے والا ہوں نہ پیٹھ موڑنے والا ہوں، کیا بخش دے گا اللہ گناہ میرے؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں، جب وہ شخص واپس لوٹا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بلایا یا بلانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ کیا کہا تو نے؟ اس نے اپنی بات کو دہرا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں مگر قرض، ایسا ہی کہا مجھ سے جبرائیل نے۔
ابو النصر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ احد کے شہیدوں کے لئے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کا میں گواہ ہوں حضرت ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں مسلمان ہوئے ہم جیسے وہ مسلمان ہوئے اور جہاد کیا ہم نے جیسے انہوں نے جہاد کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں مگر مجھے معلوم نہیں کہ بعد میرے کیا کرو گے تو ابوبکر رونے لگے اور فرمایا کہ ہم زندہ رہیں گے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور قبر کھد رہی تھی، مدینہ میں ایک شخص قبر کو دیکھ کر بولا کیا بری جگہ ہے مسلمان کی! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بری بات کہی تو نے، وہ شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرا یہ مطلب نہ تھا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا اس سے بہتر ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں مگر ساری زمین میں کوئی مقام ایسا نہیں کہ میں اپنی قبر وہاں پسند کرتا ہوں مدینہ سے تین بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے اے پروردگار میں چاہتا ہوں کہ شہید ہوں تیری راہ میں اور مروں تیرے رسول کے شہر میں
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے. عزت مومن کے تقوی میں ہے اور دین اس کی شرافت ہے اور مروت اس کا خلق ہے اور بہادری اور نامردی دونوں خلقی صفتیں ہیں جس شخص میں اللہ چاہتا ہے ان صفتوں کو رکھتا ہے تو نامرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور بہادر اس شخص سے لڑتا ہے جس کو جانتا ہے کہ گھر تک نہ جانے دے گا اور قتل ایک موت ہے موتوں میں سے اور شہید وہ ہے جو اپنی جان خوشی سے اللہ کے سپرد کر دے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر غسل دئے گئے اور کفن پہنائے گئے اور نماز جنازہ ان پر پڑھی گئی حالانکہ وہ شہید تھے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ایک برس میں چالیس ہزار اونٹ بھیجتے تھے شام کے جانے والوں کو فی آدمی ایک ایک اونٹ دیتے اور عراق کے جانے والوں کو دو آدمیوں میں ایک اونٹ دیتے تھے ایک شخص عراق کا رہنے والا آیا اور حضرت عمر سے بولا کہ مجھ کو اور سحیم کو ایک اونٹ دیجئے حضرت عمر نے فرمایا میں تجھ کو دیتا ہوں خدا کی قسم سے تیری مراد کد ہے وہ بولا ہاں۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد قبا کو جاتے تو ام حرام بنت ملحان کے گھر میں آپ تشریف لے جاتے وہ آپ کو کھانا کھلاتیں اور وہ اس زمانے میں عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں ایک روز آپ ان کے گھر میں گئے انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ کے سر کے بال دیکھنے لگیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم جاگے ہنستے ہوئے ام حرام نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں ہنستے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ لوگ میرے امت کے پیش کئے گئے میرے اوپر جو خدا کی راہ میں جہاد کے لئے سوار ہو رہے تھے بڑے دریا میں جیسے بادشاہ تخت پر سوار ہوتے ہیں ام حرام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا کیجئے کہ اللہ جل جلالہ مجھ کو بھی ان میں سے کرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سر رکھ کے سو گئے پھر جاگے ہنستے ہوئے ام حرام نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں ہنستے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ لوگ میری امت کے پیش کئے گئے میرے اوپر جو خدا کی راہ میں جہاد کو جاتے تھے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں ام حرام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا کیجئے اللہ جل جلالہ مجھ کو بھی ان میں سے کرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پہلے لوگوں میں سے ہو چکی ام حرام معاویہ کے ساتھ دریا میں سوار ہوئیں جب دریا سے نکلیں تو جانور پر سے گر کر مر گئیں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں کسی لشکر کا جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے ساتھ نہ چھوڑتا مگر نہ پاس اس قدر سواریاں ہیں کہ سب لوگوں کو ان پر سوار کروں نہ ان کے پاس اتنی سواریاں ہیں کہ وہ سب سوار ہو کر نکلیں اگر میں اکیلا جاؤں تو ان کو میرا چھوڑنا شاق ہوتا ہے میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں لڑوں اور مارا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر مارا جاؤں
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ جنگ احد کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کون خبر لا کر دیتا ہے مجھ کو سعد بن ربیع انصاری کی ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں دوں گا وہ جا کر لاشوں میں ڈھونڈھنے لگا سعد نے کہا کہ کیا کام ہے؟ اس شخص نے کہا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہاری خبر لینے کو بھیجا ہے کہا کہ تم جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور میرا سلام عرض کرو اور کہو کہ مجھے بارہ زخم برچھوں کے لگے ہیں اور میرے زخم کاری ہیں اپنی قوم سے کہ اللہ جل جلالہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر قبول نہ ہو گا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہوئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رغبیت دلائی جہاد میں اور بیان کیا جنت کا حال اتنے میں ایک شخص انصاری کھجوریں ہاتھ میں لئے ہوئے کھا رہا تھا وہ بولا مجھے بڑی حرص ہے دنیا کی اگر میں بیٹھا رہوں اس انتظار میں کہ کھجوریں کھالوں پھر کھجوریں پھینک دیں اور تلوار اٹھا کر لڑائی شروع کی اور شہید ہوا۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل نے کہا جہاد دو قسم کے ہیں ایک وہ جس میں عمدہ سے عمدہ مال صرف کیا جاتا ہے اور رفیق کے ساتھ محبت کی جاتی ہے اور افسر کی اطاعت کی جاتی ہے اور فسار سے پرہیز رہتا ہے یہ جہاد سب کا سب ثواب ہے اور ایک وہ جہاد ہے جس میں اچھا مال صرف نہیں کیا جاتا اور رفیق سے محبت نہیں ہوتی اور افسر کی نافرمانی ہوتی ہے اور فسار سے پرہیز نہیں ہوتا یہ جہاد ایسا ہے اس میں جو کوئی جائے ثواب تو کیا خالی لوٹ کر آنا مشکل ہے۔