ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیوں سے جو چاندی کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ وسق سے جو غلہ کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کھجور پانچ وسق سے کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جو چاندی پانچ اوقیہ سے کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا اپنے عامل کو دمشق میں کہ زکوٰۃ سونے چاندی اور زراعت اور جانوروں میں ہے۔
محمد بن عقبہ نے پوچھا قاسم بن محمد بن ابی بکر سے کہ میں نے اپنے مکاتب سے مقاطعت کی ہے ایک مال عظیم پر تو کیا زکوٰۃ اس میں واجب ہے قاسم بن محمد نے کہا کہ ابوبکر صدیق کسی مال میں سے زکوٰۃ نہ لیتے تھے۔
قدامہ بن مظعون سے روایت ہے کہ جب میں عثمان بن عفان کے پاس اپنی سالانہ تنخواہ لینے آیا تو مجھ سے پوچھتے کہ تمہارے پاس کوئی ایسا مال ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو اگر میں کہتا ہاں تو تنخواہ میں سے زکوٰۃ اس مال کی لے لیتے اور جو کہتا نہیں تو تنخواہ دے دیتے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کسی مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک اس پر کوئی سال نہ گزرے۔
کئی ایک لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاگیر کر دی تھیں بلال بن حارث مزنی کو کانیں قبیلہ کی جو فرح کی طرف ہیں تو ان کانوں سے آج تک کچھ نہیں لیا جاتا سوائے زکوٰۃ کے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رکاز میں پانچواں حصہ لیا جائے گا۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ پرورش کرتی تھیں اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کی یتیم بیٹیوں کی اور ان کے پاس زیور تھا تو نہیں نکالتی تھیں اس میں سے زکوٰۃ۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنی بیٹیوں اور لونڈیوں کو سونے کا زیور پہناتے تھے اور ان کے زیوروں میں سے زکوٰۃ نہیں نکالتے تھے۔
امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن خطاب نے فرمایا تجارت کرو یتیموں کے مال میں تاکہ زکوٰۃ ان کو تمام نہ کرے۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ پرورش کرتی تھیں میری اور میرے بھائی کی دونوں یتیم تھے ان کی گود میں تو نکالتی تھیں ہمارے مالوں میں سے زکوٰۃ۔
ا مام مالک کو پہنچا کہ حضرت ام المومنین عائشہ یتیموں کا مال تاجر کو دیتی تھیں تاکہ وہ اس میں تجارت کریں۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے یتیم لڑکوں کے واسطے کچھ مال خریدا پھر وہ مال بڑی قیمت کا بکا۔
کہا مالک نے ایک شخص مر گیا اور اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس کے تہائی مال سے زکوٰۃ وصول کی جائے نہ زیادہ اس سے اور یہ زکوٰۃ مقدم ہو گی اس کی وصیتوں پر کیونکہ زکوٰۃ مثل دین کے ہے اس پر اس واسطے وصیت پر مقدم کی جائے گی مگر یہ حکم جب ہے کہ میت نے وصیت کی ہو زکوٰۃ ادا کرنے کی اگر وہ وصیت نہ کرے لیکن وارث اس کو ادا کر دیں تو بہتر ہے مگر ان کو ضروری نہیں۔
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان فرماتے تھے یہ مہینہ تمہاری زکوٰۃ کا ہے تو جس شخص پر کچھ قرض ہو تو چاہئے کہ قرض اپنا ادا کر دے اور باقی جو مال بچ جائے اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔
ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا ایک مال کے بارے میں (جس کو بعض حکام نے ظلم سے چھین لیا تھا) کہ پھیر دیں اس کو مالک کی طرف اور اس میں سے زکوٰۃ ان برسوں کی جو گزر گئے وصول کر لیں اس کے بعد ایک نامہ لکھا کہ زکوٰۃ ان برسوں کی نہ لی جائے کیونکہ وہ مال ضمار تھا۔
یزید بن خصیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سلیمان بن یسار سے ایک شخص کے پاس مال ہے لیکن اس پر اسی قدر قرض ہے کیا زکوٰۃ اس پر واجب ہے بولے نہیں۔
زریق بن حیان سے روایت ہے کہ وہ مقرر تھے مصر کے محصول خانہ پر ولید اور سلیمان بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا ان کو جو شخص گزرے اوپر تیرے مسلمانوں میں سے تو جو مال ان کو ظاہر ہو اموال تجارت میں سے تو لے اس میں سے ہر چالیس دینار میں سے ایک دینار یعنی چالیسواں حصہ اور جو چالیس دینار سے کم ہو تو اسی حساب سے بیس دینار تک اگر بیس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم تو اس مال کو چھوڑ دے اس میں سے کچھ نہ لے اور جو تیرے اوپر کوئی ذمی گزرے تو اس کے مال تجارت میں سے ہر بیس دینار میں سے ایک دینار لے جو کم ہو اسی حساب سے دس دینار تک اگر دس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم ہو تو کچھ نہ لے اور جو کچھ تو لے اس کی ایک رسید سال تمام کے واسطے لکھ دے۔
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا عبداللہ بن عمر سے کسی نے پوچھا کنز کسے کہتے ہیں جواب دیا کنز وہ مال ہے جس کی زکوٰۃ نہ دی جائے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ کہتے تھے جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے روز وہ مال ایک گنجے سانپ کی صورت بنے گا جس کی دو آنکھوں پر سیاہ داغ ہوں گے اور ڈھونڈے گا اپنے مالک کو یہاں تک کہ پائے گا اس کو پھر کہے گا اس سے میں تیرا مال ہوں جس کی زکوٰۃ تو نے نہیں دی تھی۔
امام مالک نے پڑھا حضرت عمر بن خطاب کی کتاب صدقہ اور زکوٰۃ کے باب میں اس میں لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ کتاب ہے صدقہ کی چوبیس اونٹنیوں تک ہر پانچ میں ایک بکری لازم ہے جب چوبیس سے زیادہ ہوں پینتیس تک ایک برس کی اونٹنی ہے اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ ہے اس سے زیادہ میں پینتالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے اس سے زیادہ میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے جو قابل ہو جفتی کے اس سے زیادہ میں پچھتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے اس سے زیادہ میں نوے اونٹ تک دو اونٹنیاں ہیں دو دو برس کی اس سے زیادہ میں ایک سو بیس اونٹ تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو قابل ہوں جفتی کے اس سے زیادہ میں ہر چالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی اونٹنی ہے بکریاں جو جنگل میں چرتی ہوں جب چالیس تک پہنچ جائیں ایک بکری زکوٰۃ کی لازم ہو گی اس سے زیادہ میں تین سو بکریوں تک تین بکریاں بعد اس کے ہر سینکڑے میں ایک بکری دینا ہو گی اور زکوٰۃ میں بکرا نہ لیا جائے گا اسی طرح بوڑھے اور عیب دار مگر جب زکوٰۃ لینے والے کی رائے میں مناسب ہو اور جدا جدا اموال ایک نہ کئے جائیں گے اسی طرح ایک مال جدا جدا نہ کیا جائے گا زکوٰۃ کے خوف سے اور جو دو آدمی شریک ہوں تو وہ آپس میں رجوع کر لیں برابر کا حصہ لگا کر اور چاندی میں جب پانچ اوقیہ ہو تو چالیسواں حصہ لازم آئے گا۔
طاؤس یمانی سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل نے تیس گایوں میں سے ایک گائے ایک برس کی لی اور چالیس گایوں میں دو برس کی ایک گائے لی اور اس سے کم میں کچھ نہ لیا اور کہا کہ نہیں سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں یہاں تک کہ پوچھوں گا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پس وفات پائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ بن جبل کے آنے سے پہلے۔
سفیان بن عبداللہ کو عمر بن خطاب نے متصدق ( یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والا ) کر کے بھیجا تو وہ بکریوں میں بچوں کو بھی شمار کرتے تھے لوگوں نے کہا تم بچوں کو شمار کرتے ہیں لیکن بچہ لیتے نہیں ہو تو جب آئے وہ عمر بن خطاب کے پاس بیان کیا ان سے یہ امر تو کہا حضرت عمر نے ہاں ہم گنتے ہیں بچوں کو بلکہ اس بچے کو جس کو چرواہا اٹھا کر چلتا ہے لیکن نہیں لیتے اس کو نہ موٹی بکری کو جو کھانے کے واسطے موٹی کی جائے اور نہ اس بکری کو جو اپنے بچے کو پالتی ہو اور نہ حاملہ کو اور نہ نر کو اور لیتے ہیں ہم ایک سال یا دو سال کی بکری ہو جو متوسط ہے نہ بچہ ہے نہ بوڑھی ہے نہ بہت عمدہ ہے۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے پاس بکریاں آئیں زکوٰۃ کی اس میں ایک بکری دیکھی بہت دودھ والی تو پوچھا آپ نے یہ بکری کیسی ہے لوگوں نے کہا زکوٰۃ کی بکری ہے حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کے مالک نے کبھی اس کو خوشی سے نہ دیا ہو گا لوگوں کو فتنے میں نہ ڈالو ان کے بہترین اموال نہ لو اور باز آؤ ان کا رزق چھین لینے سے۔
محمد بن یحیی بن حبان سے روایت ہے کہ خبر دی مجھ کو دو شخصوں نے قبیلہ اشجع سے کہ محمد بن مسلمہ انصاری آتے تھے زکوٰۃ لینے کو تو کہتے تھے صاحب مال سے لاؤ میرے پاس زکوٰۃ اپنے مال کی پھر وہ جو بکری لے کر آتا اگر وہ زکوٰۃ کے لائق ہوتی تو قبول کر لیتے۔
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زکوٰۃ درست نہیں مالدار کی مگر پانچ آدمیوں کو درست ہے پہلے غازی جو جہاد کرتا ہو اللہ کی راہ میں دوسرے جو عامل ہو زکوٰۃ کا یعنی زکوٰۃ کو وصول اور تحصیل کرتا ہو تیسرے مدیون یعنی جو قرضدار ہو چوتھے جو زکوٰۃ کو خرید لے اپنے مال کے عوض میں پانچویں جو مسکین ہمسایہ کے پاس سے بطور ہدیہ کے آئے۔
امام مالک سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ اگر نہ دیں گے رسی بھی اونٹ باندھنے کی تو میں جہاد کروں گا ان پر۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے دودھ پیا تو بھلا معلوم ہوا پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا جو لایا تھا وہ بولا کہ میں ایک پانی پر گیا تھا اور اس کا نام بیان کیا وہاں پر جانور زکوٰۃ کے پانی پی رہے تھے لوگوں نے ان کا دودھ نچوڑ کر مجھے دیا میں نے اپنی مشک میں رکھ لیا وہ یہی دودھ تھا جو آپ نے پیا تو حضرت عمر نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کی۔
امام مالک کو پہنچا کہ ایک عامل نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ ایک شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا عمر نے جواب میں لکھا کہ چھوڑ دے اس کو اور مسلمانوں کے ساتھ اور زکوٰۃ نہ لیا کر اس سے۔ یہ خبر اس شخص کو پہنچی اس کو برا معلوم ہوا اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی بعد اس کے عامل نے حضرت عمر کو اطلاع دی انہوں نے جواب میں لکھا کہ لے لے زکوٰۃ کو اس شخص سے۔
سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بارانی اور زیر چشمہ یا تالاب کی زمین میں اور اس کھجور میں جس کو پانی کی حاجت نہ ہو دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جو زمین پانی سینچ کر تر کی جائے اس میں بیسواں حصہ زکوٰۃ کا ہے۔
ابن شہاب زہری نے کہا کہ کھجور کی زکوٰۃ میں جعرور (ایک قسم کی خراب کھجور ہے جو سوکھنے سے کوڑا ہو جاتی ہے) اور مصران الفارہ اور عذق بن حبیق(یہ بھی ردی کھجوروں کی قسم ہیں) نہ لی جائیں گی اور مثال ان کی بکریوں کی سی ہے کہ صاحب مال کے مال کے شمار میں سب قسم کی شمار کی جائیں گی لیکن لی نہ جائیں گی۔
امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ زیتون میں کیا واجب ہے بولے دسواں حصہ۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں ہے مسلمان پر اپنے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ شام کے لوگوں نے ابو عبیدہ بن جراح سے کہا کہ ہمارے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ لیا کرو انہوں نے انکار کیا اور حضرت عمر بن خطاب کو لکھ بھیجا حضرت عمر نے بھی انکار کیا پھر لوگوں نے دوبارہ ابو عبیدہ سے کہا انہوں نے حضرت عمر کو لکھا حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ اگر وہ لوگ ان چیزوں کی زکوٰۃ دینا چاہیں تو اسے ان سے لے کر انہی کے فقیروں کو دے دے اور ان کے غلاموں اور لونڈیوں کی خوراک میں صرف کر۔
عبد اللہ بن ابی حزم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا خط میرے باپ کے پاس آیا جب وہ منی میں تھے کہ شہد اور گھوڑے کی زکوٰۃ کچھ نہ لے۔
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے سعید بن مسیب سے کہ ترکی گھوڑوں میں زکوٰۃ کیا ہے انہوں نے جواب دیا کیا گھوڑوں میں بھی زکوٰۃ ہے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جزیہ لیا بحرین کے مجوس سے اور عمر بن خطاب نے جزیہ لیا فارس کے مجوس سے اور عثمان بن عفان نے جزیہ لیا بربر سے۔
امام محمد بن باقر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ذکر کیا مجوس کا اور کہا کہ میں نہیں جانتا کیا کروں ان کے بارے میں تو کہا عبدالرحمن بن عوف نے گواہی دیتا ہوں میں کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے وہ طریقہ برتو جو اہل کتاب سے برتتے ہو۔
اسلم جو مولی ہیں عمر بن خطاب کے سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے مقرر کیا جزیہ کو سونے والوں پر ہر سال میں چار دینار اور چاندی والوں پر ہر سال میں چالیس درہم اور ساتھ اس کے یہ بھی تھا کہ بھوکے مسلمانوں کو کھانا کھلائیں اور جو کوئی مسلمان ان کے یہاں آ کر اترے تو اس کی تین روز کی ضیافت کریں۔
اسلم بن عدوی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا حضرت عمر بن خطاب سے کہ شتر خانے میں ایک اندھی اونٹنی ہے تو فرمایا حضرت عمر نے وہ اونٹنی کسی گھر والوں کو دے دے تاکہ وہ اس سے نفع اٹھائیں میں نے کہا وہ اندھی ہے حضرت عمر نے کہا اس کو اونٹوں کی قطار میں باندھ دیں گے میں نے کہا وہ چارہ کیسے کھائے گی حضرت عمر نے کہا وہ جزیے کے جانوروں میں سے ہے یا صدقہ کے میں نے کہا وہ جزیے کے حضرت عمر نے کہا واللہ تم لوگوں نے اس کے کھانے کا ارادہ کیا ہے میں نے کہا نہیں اس پر نشانی جزیہ کی موجود ہے تو حکم کیا حضرت عمر نے اور وہ نحر کی گئی اور حضرت عمر کے پاس نو پیالے تھے جو میوہ یا اچھی چیز آتی آپ ان میں رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیبیوں کو بھیجا کرتے اور سب سے آخر میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس بھیجتے اگر وہ چیز کم ہوتی تو کمی حفصہ کے حصے میں ہوتی تو پہلے آپ نے گوشت کو پیالوں میں ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیبیوں کو روانہ کیا بعد اس کے پکانے کا حکم کیا اور سب مہاجرین اور انصار کی دعوت کر دی۔
امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھ بھیجا اپنے عاملوں کو جو لوگ جزیہ والوں میں سے مسلمان ہوں ان کا جزیہ معاف کریں۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نبط کے کافروں سے گیہوں اور تیل کا بیسواں حصہ لیتے تھے تاکہ مدینہ میں اس کی آمدنی زیادہ ہو اور قطنیہ سے دسواں حصہ لیتے تھے۔
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ میں عامل تھا عبداللہ بن عتبہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے بازار میں تو ہم لیتے تھے نبط کے کفار سے دسواں حصہ۔
امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ حضرت عمر کفار نبط سے دسواں حصہ کیسے لیتے تھے تو ابن شہاب نے کہا کہ ایام جاہلیت میں ان لوگوں سے دسواں حصہ لیا جاتا تھا حضرت عمر نے وہی قائم رکھا ان پر۔
اسلم بن عددی سے روایت ہے کہ سنا میں نے عمر بن خطاب سے کہتے تھے میں نے ایک شخص کو عمدہ گھوڑا دے دیا خدا کی راہ میں مگر اس شخص نے اس کو تباہ کیا تو میں نے قصد کیا کہ پھر اس سے خرید لوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ سستا بیچ ڈالے گا سو پوچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت خرید اس کو اگرچہ وہ ایک درہم کا تجھے دے دے اس لئے کہ صدقہ دے کر پھر اس کو لینے والا ایسا ہے جیسے کتا قے کر کے پھر اس کو کھا لے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ایک گھوڑا دیا خدا کی راہ میں پھر قصد کیا اس کے خرید نے کا تو پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت خرید اس کو اور نہ پھیر صدقہ کو۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر نکالتے اپنے غلاموں کی طرف سے جو وادی قری اور خیبر میں تھے۔
کہا مالک نے جو بہتر سنا ہے اس باب میں وہ یہ ہے کہ آدمی اس شخص کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے جس کا نان ونفقہ اس پر واجب ہے اور اس پر خرچ کرنا ضروری ہے اور اپنے غلام اور مکاتب اور مدبر اور سب کی طرف سے صدقہ ادا کرے خواہ یہ غلام حاضر ہوں یا غائب شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوں تجارت کے واسطے ہوں یا نہ ہوں اور جو ان میں مسلمان نہ ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر نہ دے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقہ فطر مقرر کیا لوگوں پر ایک صاع کھجور کا اور ایک صاع جو کا ہر آزاد اور ہر غلام پر مرد ہو یا عورت مسلمانوں میں سے۔
عیاض بن عبداللہ نے سنا ابو سعید خدری سے ہم نکالتے تھے صدقہ فطر ایک صاع گیہوں سے یا ایک صاع جو سے یا ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع پنیر سے یا ایک صاع انگور خشک سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صاع سے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر میں ہمیشہ کھجور دیا کرتے تھے مگر ایک بار جو دئیے۔