نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر جب شروع کرتے نماز کو اٹھاتے دونوں ہاتھوں کو برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے رکوع سے اٹھاتے دونوں ہاتھ ذرا کم اس سے۔
وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری سکھاتے تھے ان کو تکبیر نماز میں تو حکم کرتے تھے کہ تکبیر کہیں ہم جب جھکیں ہم اور اٹھیں ہم۔
ابن شہاب کہتے تھے جب پا لیا کسی شخص نے رکوع اور تکبیر کہہ لی تو یہ تکبیر کافی ہو جائے کی تکبیر تحریمہ سے۔
جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ سنا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھا سورہ طور کو مغرب کی نماز میں
ام فضل نے عبداللہ بن عباس کو سورۃ المرسلات عرفا پڑھتے سنا تو کہا اے بیٹے میرے! یاد دلا دیا تو نے یہ سورۃ پڑھ کر اخیر جو سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سورہ کو پڑھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب میں
ابو عبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ میں آیا مدینہ میں جب ابوبکر خلیفہ تھے تو پڑھی میں نے پیچھے ان کے مغرب کی نماز تو پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورہ مفصل کو چھوٹی سورتوں میں سے پڑھی پھر جب تیسری رکعت کے واسطے کھڑے ہوئے تو میں نزدیک ہو گیا ان کے یہاں تک کہ میرے کپڑے قریب تھے کہ چھو جائیں ان کے کپڑوں سے تو سنا میں نے پڑی انہوں نے سورۃ فاتحہ اور اس آیت کو ربنا (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ) 3۔ ال عمران:8)۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو چاروں رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورۃ پڑھتے تھے اور کبھی دو دو تین سورتیں ایک رکعت میں پڑھتے تھے فرض کی نماز میں اور مغرب کی نماز میں دو رکعتوں میں فاتحہ اور سورت پڑھتے تھے۔
برا بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عشاء کی تو پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں والتین و الزیتون۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ منع کیا حضرت نے ریشمی کپڑا اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور قرآن کو رکوع میں پڑھنے سے۔
فروہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے لوگوں کے پاس اور وہ نماز پڑھ رہے تھے آوازیں ان کی بلند تھیں کلام اللہ پڑھنے سے تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نمازی کانا پھوسی کرتا ہے اپنے پروردگار سے تو چاہئے کہ سمجھ کر کانا پھوسی کرے اور نہ پکارے ایک تم میں دوسرے پر قرآن میں۔
انس بن مالک نے کہا نماز کو کھڑا ہوا میں پیچھے ابوبکر اور عمر اور عثمان کے جب نماز شروع کرتے تو کوئی ان میں سے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھتا۔
مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ ہم سنتے تھے قراۃ عمر بن خطاب کی اور وہ ہوتے تھے نزدیک دار ابی جہم کے اور ہم ہوتے تھے بلاط میں
نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر جب فوت ہو جاتی کچھ نماز ان کی ساتھ امام کے جس میں پکار کر قرات کی ہوتی تو جب سلام پھیرتا امام، اٹھتے عبداللہ بن عمر اور پڑھتے جو رہ گئی تھی نماز میں پکار کر۔
یزید بن رومان سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھتا تھا نافع کے ایک جانب تو اشارہ کر دیتے تھے مجھ کو واپس بتا دیتا تھا میں ان کو جہاں وہ بھول جاتے تھے اور ہم نماز میں ہوتے تھے۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے نماز پڑھائی صبح کی تو پڑھی اس میں سورۃ بقرہ دو رکعتوں میں
عروہ بن زبیر نے سنا عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے کہتے تھے نماز پڑھی ہم نے پیچھے عمر بن خطاب کے صبح کی تو پڑھی انہوں نے سورۃ یوسف اور سورۃ حج ٹھہر ٹھہر کر عروہ نے کہا قسم خدا کی پس اس وقت کھڑے ہوتے ہوں گے نماز کو جب نکلتی ہے صبح صادق کہا عبداللہ نے ہاں۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ فرافصہ بن عمیر حنفی نے کہا کہ میں نے سورہ یوسف یاد کر لی حضرت عثمان کے پڑھنے سے آپ صبح کی نماز میں اس کو بہت پڑھا کرتے تھے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سفر میں مفصل کے پہلی دس سورتوں میں سے ہر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھا کرتے تھے۔
ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پکارا ابی بن کعب کو اور وہ نماز پڑھ رہے تھے تو جب نماز سے فارغ ہوئے مل گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پس رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ اپنا ابی کے ہاتھ پر اور وہ نکلنا چاہتے تھے مسجد کے دروازے سے سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں چاہتا ہوں کہ نہ نکلے تو مسجد کے دروازے سے یہاں تک کہ سیکھ لے ایک سورت ایسی کہ نہیں اتری تورات اور انجیل اور قرآن میں مثل اس کے کہا ابی نے پس ٹھہر ٹھہر کر چلنے لگا میں اسی امید میں پھر کہا میں نے اے اللہ کے رسول وہ سورت جس کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وعدہ کیا تھا بتلائیے مجھ کو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیونکر پڑھتا ہے تو جب شروع کرتا ہے نماز کو کہا ابی نے تو میں پڑھنے لگا الحمد للہ رب العالمین یہاں تک کہ ختم کیا میں نے سورت کو پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ یہی سورت ہے اور یہ سورت سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا۔
ابی نعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا جابر بن عبداللہ انصاری سے کہتے تھے جس شخص نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز نہ پڑھی مگر جب امام کے پیچھے ہو
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص نے پڑھی نماز اور نہ پڑھی اس میں سورہ فاتحہ تو نماز اس کی ناقص ہے ناقص ہے ہرگز تمام نہیں ہے ابو السائب نے کہا اے ابوہریرہ کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو دبا دیا ابوہریرہ نے میرا بازو اور کہا پڑھ لے اپنے دل میں اے فارس کے رہنے والے کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے فرمایا اللہ تعالی نے بٹ گئی نماز میرے اور میرے بندے کے بیچ میں آدھوں آدھ آدھی میری اور آدھی اس کی اور جو بندہ میرا مانگے اس کو دوں گا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھو بندہ کہتا ہے کہ سب تعریف اللہ کو ہے جو صاحب ہے سارے جہاں کا پروردگار کہتا ہے میری تعریف کی میرے بندے نے بندہ کہتا ہے بڑی رحمت کرنے والا مہربان پروردگار کہتا ہے خوبی بیان کی میرے بندے نے بندہ کہتا ہے کہ وہ مالک بدلے کے دن کا پروردگار کہتا ہے بڑائی کی میری میرے بندے نے بندہ کہتا ہے خاص تجھ کو پوجتے ہیں ہم اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ہم تو یہ آیت میرے اور میرے بندے کے بیچ میں ہے بندہ کہتا ہے دکھا ہم کو سیدھی راہ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپنا کرم کیا نہ دشمنوں کی اور گمراہوں کی تو یہ آیتیں بندہ کے لئے ہیں اور میرا بندہ جو مانگے سو دوں۔
عروہ بن زبیر سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے امام کے پیچھے سری نماز میں
نافع بن جبیر امام کے پیچھے سری نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جب کوئی پوچھتا کہ سورۃ فاتحہ پڑھی جائے امام کے پیچھے تو جواب دیتے کہ جب کوئی تم میں سے نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرات امام کی اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے کہا نافع نے اور تھے عبداللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے پیچھے امام کے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے ایک نماز جہری سے پھر فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ کلام اللہ پڑھا تھا ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ہی میں کہتا تھا اپنے دل میں کیا ہوا ہے مجھ کو چھینا جاتا ہے مجھ سے کلام اللہ کہا ابن شہاب یا ابوہریرہ نے تب لوگوں نے ٍ کیا قرات کو حضرت کے پیچھے نماز جہری میں جب سے یہ حدیث سنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام کہے آمین تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین مل جائے گی ملائکہ کی آمین سے بخش دئیے جائیں گے اگلے گناہ اس کے کہا ابن شہاب نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آمین کہتے تھے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کا آمین کہنا برابر ہو جائے گا ملائکہ کے کہنے کے بخش دئیے جائیں گے اگلے گناہ اس کے۔
یحیی بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قصد کیا دو لکڑیاں بنانے کا اس لئے کہ جب ان کو ماریں تو آواز پہنچے لوگوں کو اور جمع ہوں لوگ نماز کے لئے پس دکھائے گئے عبداللہ بن زید دو لکڑیاں اور کہا کہ یہ لکڑیاں تو ایسی ہیں جیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاہیں پھر کہا گیا ان سے خواب میں کہ تم نماز کے لئے اذان کیوں نہیں دیتے تو جب جاگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور ان سے خواب بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کا حکم دیا۔
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب سنو تم اذان کو تو کہو جیسا کہ کہتا جاتا ہے موذن۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر معلوم ہوتا لوگوں کو جو کچھ اذان دینے میں اور صف اول میں ثواب میں پھر نہ پا سکتے ان کو بغیر قرعہ کے البتہ قرعہ ڈالتے اور اگر معلوم ہوتا لوگوں کو جو کچھ نماز کے اول وقت پڑھنے میں ثواب ہے البتہ جلدی کرتے اس کی طرف اور اگر معلوم ہوتا جو کچھ ثواب ہے عشاء اور صبح کی نماز با جماعت پڑھنے کا البتہ آتے جماعت میں گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تکبیر ہو نماز کی تو نہ دوڑتے ہوئے آؤ تم بلکہ اطمینان اور سہولت سے تو جتنی نماز تم کو ملے پڑھ لو اور جو نہ ملے اس کو پورا کر لو کیونکہ جب کوئی تم میں سے قصد کرتا ہے نماز کا تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔
عبد اللہ بن عبدالرحمن انصاری سے ابو سعید خدری نے کہا کہ تو بکریوں کو اور جنگل کو دوست رکھتا ہے تو جب جنگل میں ہو اپنی بکریوں میں اذان دے نماز کی بلند آواز سے کیونکہ نہیں پہنچتی آواز موذن کی نہ جن کو نہ آدمی کو اور نہ کسی شئے کو مگر وہ گواہ ہوتا ہے اس کا قیامت کے روز کہا ابو سعید نے سنا میں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جب اذان ہوتی ہے نماز کے لئے شیطان پیٹھ موڑ کر پادتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ نہ سنے اذان کو پھر جب اذان ہو چکتی ہے چلا آتا ہے پھر جب تکبیر ہوتی ہے بھاگ جاتا ہے پیٹھ موڑ کر پھر جب تکبیر ہو چکتی ہے چلا آتا ہے یہاں تک کہ وسوسہ ڈالتا ہے نمازی کے دل میں اور کہتا ہے اس سے خیال کر فلاں چیز کا خیال کر جس کو خیال نماز کو اول بھی نہ تھا یہاں تک کہ رہ جاتا ہے نماز اور خبر نہیں ہوتی اس کو کہ کتنی رکعتیں پڑھیں۔
سہل بن سعد سے روایت ہے کہا انہوں نے دو وقت کھل جاتے ہیں دروازے آسمان کے اور کم ہوتا ہے ایسا دعا کر نے والا کہ نہ قبول ہو دعا اس کی ایک جس وقت اذان ہو نماز کی دوسری جس وقت صف باندھی جائے جہاد کے لئے۔
مالک بن ابی عامر اصبحی جو دادا ہیں امام مالک کے کہتے ہیں کہ میں نہیں دیکھتا کسی چیز کو کہ باقی ہو اس طور پر جس پر پایا میں نے صحابہ کو مگر اذان کو۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے تکبیر سنی اور وہ بقیع میں تھے تو جلدی جلدی چلے مسجد کو۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اذان دی رات کو جس میں سردی اور ہوا بہت تھی پھر کہا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ڈیروں میں پھر کہا ابن عمر نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حکم کرتے تھے موذن کو جب رات ٹھنڈی ہوتی تھی پانی برستا تھا یہ کہ پکارے نماز پڑھ لو اپنے ڈیروں میں۔
نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر سفر میں صرف تکبیر کہتے تھے مگر نماز فجر میں اذان بھی کہتے تھے اور عبداللہ بن عمر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اذان اس امام کے لئے ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوں۔
ہشام بن عروہ سے ان کے باپ نے کہا کہ جب تو سفر میں ہو تو تجھے اختیار ہے چاہے اذان یا اقامت دونوں کہہ یا فقط اقامت کہہ اور اذان نہ دے۔
سعید بن مسیب نے کہا جو شخص نماز پڑھتا ہے چٹیل میدان میں تو داہنی طرف اس کے ایک فرشتہ اور بائیں طرف اس کے ایک فرشتہ نماز پڑھتا ہے اور اگر اس نے اذان دے کر تکبیر کہہ کر نماز پڑھی تو اس کے پیچھے بہت سے فرشتے نماز پڑھتے ہیں مثل پہاڑوں کے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال رات رہے سے اذان دے دیتے ہیں تو کھایا پیا کرو جب تک اذان دے عبداللہ بیٹا ام مکتوم کا۔
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال اذان دیتا ہے رات کو تو کھایا پیا کرو جب تک اذان نہ دے بیٹا ام مکتوم کا کہا ابن شہاب نے یا سالم نے یا عبداللہ بن عمر نے کہا تھا بیٹا ام مکتوم کا نابینا اذان نہ دیتا تھا جب تک لوگ اس سے نہ کہتے تھے صبح ہو گئی صبح ہو گئی۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب شروع کرتے تھے نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد اور سجدوں کے بیچ میں ہاتھ نہ اٹھاتے نہ سجدے کو جاتے وقت۔
امام زین العابدین سے جن کا اسم مبارک علی ہے اور وہ بیٹے ہیں حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب کے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر کہتے نماز میں جب جھکتے اور جب اٹھتے اور ہمیشہ رہے اسی طور سے نماز ان کی یہاں تک کہ مل گئے اللہ جل جلالہ سے۔ سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھاتے تھے ہاتھوں کو نماز میں
ابو سلمہ سے روایت ہے کہ ابوہریرہ امام ہوتے تھے ان کے تو تکبیر کہتے تھے جب جھکتے اور جب اٹھتے اور پھر جب فارغ ہوئے تو کہا قسم خدا کی میں زیادہ مشابہ ہوں تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز میں۔
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تکبیر کہتے نماز میں جب جھکتے اور اٹھتے۔
ابویرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے فرشتے بھی آسمان میں آمین کہتے ہیں پس اگر برابر ہو جائے ایک آمین دوسری آمین سے تو بخش دئیے جاتے ہیں اگلے گناہ اس کے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو کیونکہ جس کا کہنا ملائکہ کے کہنے کے برابر ہو جائے گا اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
علی بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھ کو عبداللہ بن عمر نے نماز میں کنکریوں سے کھیلتا ہوا دیکھا تو جب فارغ ہوا میں نماز سے منع کیا مجھ کو اور کہا کہ کیا کر جیسے کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے کہا کیسے کرتے تھے کہا جب بیٹھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں تو داہنی ہتھیلی کو داہنی ران پر رکھتے تو سب انگلیوں کو بند کر لیتے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر تے اور بائیں ہتھیلی کو ران پر رکھتے اور کہا کہ اس طرح کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم۔
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کے پہلو میں نماز پڑھی ایک شخص نے تو جب وہ بیٹھا بعد چار رکعت کے چار زانو بیٹھا اور لپیٹ لئے دونوں پاؤں اپنے تو جب فارغ ہوئے عبداللہ بن عمر نماز سے عیب کہا اس بات کو تو اس شخص نے جواب دیا آپ کیوں ایسا کرتے ہیں کہا میں تو بیمار ہوں ۔
مغیرہ بن سکیم سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو کہ بیٹھے تھے درمیان دونوں سجدوں کے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر اور پھر سجدہ میں چلے جاتے تھے تو جب فارغ ہوئے نماز سے ذکر ہوا اس کا پس کہا عبداللہ نے کہ اس طرح بیٹھنا نماز میں درست نہیں ہے لیکن میں بیماری کی وجہ سے اس طرح بیٹھتا ہوں ،۔
عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو چار زانو بیٹھتے ہوئے نماز میں تو وہ بھی چار زانو بیٹھے اور کمسن تھے ان دنوں میں پس منع کیا ان کو عبداللہ نے اور کہا کہ سنت نماز میں یہ ہے کہ داہنے پاؤں کا کھڑا کرے اور بائیں پاؤں کو لٹا دے کہا عبداللہ نے کہ میں نے ان سے کہا تم چار زانو بیٹھتے ہو جواب دیا عبداللہ نے کہ میرے پاؤں میرا بوجھ اٹھا نہیں سکتے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد نے سکھایا لوگوں کو بیٹھنا تشہد میں تو کھڑا کیا داہنے پاؤں کو اور جھکایا بائیں پاؤں کو اور بیٹھے بائیں سرین پر اور نہ بیٹھے بائیں پاؤں پر کہا قاسم نے کہ بتایا مجھ کو اس طرح بیٹھنا عبید اللہ نے اور کہا کہ میرے باپ عبداللہ بن عمر اسی طرح کرتے تھے۔
عبدالرحمن بن عبدالقاری نے سنا عمر بن خطاب سے اور وہ منبر پر تھے سکھاتے تھے لوگوں کو تشہد کہتے تھے کہو التحیات للہ الزاکیات لللہ الطیبات الصلوت لللہ الخ۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تشہد پڑھتے تھے اس طرح بسم اللہ التحیات لللہ کہتے تھے یہ پہلی دو رکعتوں کے بعد مانگتے تھے بعد تشہد کے جو کچھ جی چاہتا تھا پھر جب اخیر قعدہ کرتے اور اسی طرح پڑھتے مگر پہلے تشہد پڑھتے پھر دعا مانگتے جو چاہتے اور بعد تشہد کے جب سلام پھیرنے لگتے تو کہتے السلام علی البنی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد الصالحین السلام علیکم داہنی طرف کہتے پھر امام کے سلام کا جواب دیتے پھر اگر کوئی بائیں طرف والا ان کو سلام کرتا تو اس کو بھی جواب دیتے۔
امام مالک نے ابن شہاب زہری اور نافع مولی ابن عمر سے پوچھا کہ ایک شخص امام کے ساتھ آ کر شریک ہوا جب ایک رکعت ہو چکی تھی اب وہ امام کے ساتھ تشہد پڑھے قعدہ اولی اور قعدہ اخیر میں یا نہ پڑھے کیونکہ اس کی تو ایک رکعت ہوئی قعدہ اولی میں اور تین رکعتیں ہوئیں قعدہ اخیرہ میں تو جواب دیا دونوں نے کہ ہاں تشہد پڑھے امام کے ساتھ امام مالک نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
ابوہریرہ نے کہا کہ جو شخص سر اٹھاتا ہے یا جھکاتا ہے امام کے پیشتر تو اس کا ماتھا شیطان کے ہاتھ میں ہے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیر دیا دو رکعتیں پڑھ کر تو کہا ذوالیدین نے کیا نماز گھٹ گئی یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے۔ رسول آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں سے کیا سچ کہتا ہے ذوالیدین، کہا لوگوں نے ہاں سچ کہتا ہے پس کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور پڑھیں دو رکعتیں پھر سلام پھیر کر تکبیر کہی اور سجدہ کیا مثل سجدوں کے یا کچھ بڑا پھر سرا اٹھایا اور تکبیر کہی اور سجدہ کیا مثل سجدوں کے یا کچھ بڑا پھر سر اٹھایا۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی تو سلام پھیر دیا دو رکعتیں پڑھ کر پس کھڑا ہوا ذوالیدین اور کہا کیا نماز کم ہو گئی یا بھول گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اے اللہ کے رسول اللہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی بات نہیں ہوئی متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں پر اور کہا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے لوگوں نے کہا ہاں پس اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام کیا جس قدر نماز باقی تھی پھر دو سجدے کئے بعد سلام کے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے تھے۔
ابی بکر بن سلیمان سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں ظہر یا عصر کی پھر سلام پھیر دیا تو کہا ذولشمالین اور وہ ایک شخص تھا بنی زہرہ بن کلاب سے کہ نماز کم ہو گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ نماز کم ہوئی نہ میں بھولا ذوالشمالین نے کہا کچھ تو ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پس متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں پر اور کہا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے لوگوں نے کہا ہاں تو تمام کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باقی نماز کو پھر سلام پھیرا۔
سعید بن مسیب اور ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب شک ہو تم میں سے کسی کو نماز میں تو نہ یاد رہے اس کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو چاہئے کہ ایک رکعت اور پڑھ لے اور دو سجدے کرے قبل سلام کے پھر اگر یہ رکعت جو اس نے پڑھی ہے درحقیقت پانچویں ہو گی تو ان سجدوں سے مل کر ایک دوگانہ ہو جائے گا اگر چوتھی ہو گی تو ان سجدوں سے ذلت ہو گی شیطان کو۔
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کہ جب شک کرے کوئی تم میں اپنی نماز کا تو سوچے جو بھول گیا ہے پھر پڑھ لے اس کو اور دو سجدے سہو کے بیٹھ کر کر لے۔
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص اور کعب احبار سے اس شخص کے بارے میں جو شک کرے اپنی نماز میں تو نہ یاد رہے اس کو کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار پس جواب دیا دونوں نے کہ ایک رکعت اور پڑھ کر دو سجدے سہو کے کر لے بیٹھے بیٹھے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے سوال ہوا نماز میں بھول جانے کا تو کہا سوچ لے جو بھول گیا ہے پھر پڑھ لے اس کو۔
عبد اللہ بن بحینہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو رکعتیں پڑھا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور نہ بیٹھے تب لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے پس جب تمام کیا نماز کو اور انتظار کیا ہم نے سلام کا تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو سجدے کئے بیٹھے بیٹھے قبل سلام کے پھر سلام پھیرا۔
عبد اللہ بن بحینہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی پھر کھڑے ہو گئے دو رکعتیں پڑھ کر اور نہ بیٹھے تو جب پورا کر چکے نماز کو دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا بعد اس کے۔
مرجانہ سے روایت ہے کہ عائشہ نے فرمایا کہ ابو جہم بن حذیفہ نے تحفہ بھیجی ایک چادر شام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے جس میں نقش تھے تو نماز کو آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اوڑھ کر پھر جب فارغ ہوئے نماز سے فرمایا کہ پھیر دے یہ چادر ابوجہم کو کیونکہ میں نے دیکھا اس کے بیل بوٹوں کو نماز میں پس قریب تھا کہ غافل ہو جاؤں میں۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چادر شام کی بنی ہوئی نقشی بھیجی پھر وہ چادر ابو جہم کو دے دی اور ایک چادر موٹی سادی لے لی تو ابو جہم نے کہا کیوں ایسا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ فرمایا میں نے نماز میں اس کو نقش و نگار کی طرف دیکھا۔
عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابو طلحہ انصاری نماز پڑھ رہے تھے باغ میں تو ایک چڑیا اڑی اور ڈھونڈے لگی راہ نکلنے کی کیونکہ باغ اس قدر گنجان تھا اور پیڑ آپس میں ملے ہوئے تھے کہ چڑیا کو جگہ نکلنے کی نہ ملتی تھی پس پسند آیا ان کو یہ امر اور خوش ہوئے اپنے باغ کا یہ حال دیکھ کر تو ایک گھڑی تک اس طرف دیکھتے رہے پھر خیال آیا نماز کا سو بھول گیا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں تب کہا مجھے آزمایا اللہ جل جلالہ نے اس مال سے تو آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور بیان کیا جو کچھ باغ میں قصہ ہوا تھا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ باغ صدقہ ہے واسطے اللہ کے اور صرف کریں اس کو جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں۔
عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار میں سے نماز پڑھ رہا تھا اپنے باغ میں اور وہ باغ قف میں تھا جو نام ہے ایک وادی کا جو مدینہ کی وادیوں میں سے ہے ایسے موسم میں کہ کھجور پک کر لٹک رہی تھی گویا پھلوں کے طوق شاکوں کے گلوں میں پڑے تھے تو اس نے نماز میں اس طرف دیکھا اور نہایت پسند کیا پھلوں کو پھر جب خیال کیا نماز کا تو بھول گیا کتنی رکعتیں پڑھیں تو کہا کہ مجھے اس مال میں آزمائش ہوئی اللہ جل جلالہ کی پس آیا حضرت عثمان کے پاس اور وہ ان دنوں خلیفہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور بیان کیا ان سے یہ قصہ پھر کہا کہ وہ صدقہ ہے تو صرف کرو اس کو نیک راہوں میں پس بیچا اس کو حضرت عثمان نے پچاس ہزار کا اور اس مال کا نام ہو گیا پچاس ہزارہ۔