عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذکر کیا رمضان کا تو فرمایا نہ روزہ رکھو تم یہاں تک کہ چاند دیکھو رمضان کا اور نہ روزے موقوف کرو یہاں تک کہ چاند دیکھو شوال کا سو اگر چاند چھپ جائے ابر سے پس گن لو دن رمضان کے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی مہینہ انتیس روز کا ہوتا ہے تو نہ روزہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھو اور نہ روزہ موقوف کرو جب تک چاند نہ دیکھو پس اگر ابر ہو تو شمار کر لو۔
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کا ذکر کر کے نہ روزہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور نہ روزے موقوف کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اگر ابر ہو تو تیس روزے پور کر لو۔
امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عثمان بن عفان کے زمانے میں چاند دکھائی دیا تیسرے پہر کو تو روزہ نہ توڑا حضرت عثمان نے یہاں تک کہ شام ہو گئی اور آفتاب ڈوب گیا۔
عبد اللہ بن عمر نے کہا روزہ کسی شخص کا درست نہیں ہوتا جب تک کہ نیت نہ کرے قبل صبح صادق کے۔ حضرت ام المومنین عائشہ اور ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہما نے بھی ایسا ہی فرمایا
سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ لوگ اچھے رہیں گے اپنے دین میں جب تک وہ روزہ جلدی افطار کریں گے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ لوگ اچھے رہیں گے جب تک روزہ جلدی کھولیں گے۔
حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان نماز پڑھتے تھے مغرب کی رمضان میں جب سیاہی ہوتی تھی پچھان کی طرف پھر بعد نماز کے روزہ رکھ لتیے تھے۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ایک شخص بولا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے تھے دروازہ پر اور میں سن رہی تھی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح ہو جاتی ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں روزہ کی نیت سے تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں بھی جنبی ہوتا ہوں اور صبح ہو جاتی ہے روزہ کی نیت سے تو میں غسل کرتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں بولا وہ شخص یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا کہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم جیسے تھوڑی ہیں اللہ جل جلالہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اگلے اور پچھلے گناہ سب بخش دیے تو غصے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں امید رکھتا ہوں کہ تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ جاننے والا پرہیز گاری کی باتوں کو میں ہوں گا۔
حضرت ام المومنین عائشہ اور ام سلمہ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنبی رہتے تھے جماع سے نہ کہ احتلام سے اور صبح ہو جاتی تھی رمضان میں پھر روزہ رکھتے تھے۔
ابوبکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے باپ عبدالرحمن دونوں بیٹھے مروان بن حکم کے پاس اور مروان ان دنوں میں حاکم تھے مدینہ کے تو ان سے ذکر کیا گیا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں جو شخص جنبی ہو اور صبح ہو جائے تو اس کا روزہ نہ ہو گا مروان نے کہا قسم دیتا ہوں تم اے عبدالرحمن تم جاؤ ام المومنین حضرت عائشہ اور ام المومنین ام سلمہ کے پاس اور پوچھو ان سے یہ مسئلہ تو گئے عبدالرحمن اور گیا میں ساتھ ان کے یہاں تک کہ پہنچے ہم ام المومنین عائشہ کے پاس تو سلام کیا ان کو عبدالرحمن نے پھر کہا اے ام المومنین ہم بیٹھے تھے مروان بن حکم کے پاس ان سے ذکر ہوا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں جس شخص کو صبح ہو جائے اور وہ جنبی ہو تو اس کا روزہ نہ ہو گا فرمایا حضرت عائشہ نے ایسا نہیں ہے جیسا کہا ابوہریرہ نے اے عبدالرحمن کیا تو منہ پھیرتا ہے اس کام سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کرتے تھے کہا عبدالرحمن نے نہیں قسم خدا کی فرمایا حضرت عائشہ نے میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کہ ان کو صبح ہو جاتی تھی اور وہ جنبی ہوتے تھے جماع سے نہ کہ احتلام سے پھر روزہ رکھتے اس دن کا۔ کہا ابوبکر نے پھر نکلے ہم یہاں تک کہ پہنچے ام المومنین سلمہ کے پاس اور پوچھا ہم نے ان سے اس مسئلہ کو انہوں نے بھی یہ کہا جو حضرت عائشہ نے کہا کہا ابوبکر نے پھر نکلے ہم اور آئے مروان بن حکم کے پاس ان سے عبدالرحمن نے بیان کیا قول حضرت عائشہ اور ام سلمہ کا تو کہا مروان نے قسم دیتا ہوں میں تم کو اے ابو محمد تم سوار ہو کر جاؤ میرے جانور پر جو دروازہ پر ہے ابوہریرہ کے پاس کیونکہ وہ اپنی زمین میں ہے عقیق میں اور اطلاع کرو ان کو اس مسئلہ سے تو سوار ہوئے عبدالرحمن اور میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوا یہاں تک کہ آئے ہم ابوہریرہ کے پاس تو ایک ساعت تک باتیں کیں ان سے عبدالرحمن نے پھر بیان کیا ان سے اس مسئلہ کو تو ابوہریرہ نے کہا مجھے علم نہیں تھا اس مسئلہ کا بلکہ ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا تھا۔
ام المومنین عائشہ اور ام المومنین سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنبی ہوتے تھے جماع سے نہ کہ احتلام سے اور صبح ہو جاتی تھی پھر روزہ رکھتے تھے۔
عطا بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بوسہ دیا اپنی عورت کو اور وہ روزہ دار تھا رمضان میں سو اس کو بڑا رنج ہوا اور اس نے اپنی عورت کو بھیجا ام المومنین ام سلمہ کے پاس کہ پوچھے ان سے اس مسئلہ کو تو آئی وہ عورت ام سلمہ کے پاس اور بیان کیا ان سے، ام سلمہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بوسہ لیتے ہیں روزے میں تب وہ اپنے خاوند کے پاس گئی اور اس کو خبر دی پس اور زیادہ رنج ہوا اس کے خاوند کو اور کہا اس نے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سے نہیں ہیں اللہ اپنے رسول کے لئے جو چاہتا ہے حلال کر دیتا ہے پھر آئی اس کی عورت ام سلمہ کے پاس اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی وہیں موجود ہیں سو پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ہوا اس عورت کو تو بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ام سلمہ نے سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیوں نہ کہہ دیا اس سے کہ میں بھی یہ کام کرتا ہوں ام سلمہ نے کہا میں نے کہہ دیا لیکن وہ گئی اپنے خاوند کے پاس اور اس کو خبر کی سو اس کو اور زیادہ رنج ہوا اور وہ بولا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سے نہیں ہیں حلال کرتا ہے اللہ جل جلالہٗ جو چاہتا ہے اپنے رسول کے لئے غصہ ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم خدا کی تم سب سے زیادہ ڈرتا ہوں اللہ تعالی سے اور تم سب سے زیادہ پہچانتا ہوں اس کی حدوں کو۔
حضرت ام المومنین عائشہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بوسہ دیتے تھے اپنی بعض بیبیوں کو اور وہ روزہ دار ہوتے تھے پھر ہنستی تھیں۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عاتکہ بیوی حضرت عمر کی بوسہ دیتی تھیں سر کو حضرت عمر کے اور حضرت عمر روزہ دار ہوتے تھے لیکن ان کو منع نہیں کرتے تھے۔
عائشہ بن طلحۃ سے روایت ہے کہ وہ ام المومنین عائشہ کے پاس بیٹھی تھیں اتنے میں ان کے خاوند عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق آئے اور وہ روزہ دار تھے تو کہا ان سے حضرت عائشہ نے تم کیوں نہیں جاتے اپنی بی بی کے پاس بوسہ لو ان کا اور کھیلو ان سے تو کہا عبداللہ نے بوسہ لوں میں ان کا اور میں روزہ دار ہوں حضرت عائشہ نے کہا ہاں۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابوہریرہ اور سعد بن ابی وقاص روزہ دار کو اجازت دیتے تھے بوسہ کی۔
امام مالک کو پہنچا کہ ام المومنین جب بیان کرتیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بوسہ لیتے تھے روزہ میں تو فرماتیں کہ تم میں سے کون زیادہ قادر ہے اپنے نفس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔
عبد اللہ بن عباس سے سوال ہوا روزہ دار کو بوسہ لینا کیسا ہے تو اجازت دی بوڑھے کو اور مکروہ رکھا جوان کے لئے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر منع کرتے تھے روزہ دار کو بوسہ اور مباشرت سے۔
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکلے مکہ کو جس سال مکہ فتح ہوا رمضان میں تو روزہ رکھا یہاں تک کہ پہنچے کدید کو پھر افطار کیا تو لوگوں نے بھی افطار کیا اور صحابہ کا یہ قاعدہ تھا کہ نئے کام کو لیتے تھے پھر لیا اس نئے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کاموں میں
بعض صحابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا لوگوں کو سفر میں جس سال مکہ فتح ہوا ہے روزہ نہ رکھنے کا فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکہ تم قوی رہو دشمن کے مقابلہ میں اور روزہ رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا ابوبکر بن عبدالرحمن نے مجھ سے بیان کیا اس صحابی نے جس نے حدیث بیان کی مجھ سے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو عرج میں کہ پانی ڈالا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر پر پیاس کی وجہ سے یا گرمی کی وجہ سے پھر کہا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ بعض لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے روزہ رکھنے کے سبب سے تو جب پہنچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کدید میں ایک پیالہ پانی کا منگا یا اور پانی پیا تب لوگوں نے بھی روزہ کھول ڈالا۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ ہم نے سفر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رمضان میں تو نہ عیب کیا روزہ دار نے روزہ کھولنے والے پر اور نہ بے روزہ دار نے روزہ دار پر۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے میں روزہ رکھا کرتا ہوں تو کیا روزہ رکھو سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیرا جی چاہے تو روزہ رکھ چاہے نہ رکھ۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر سفر کرتے تھے رمضان میں اور ہم سفر کرتے تھے ساتھ ان کے تو روزہ رکھتے تھے اور ہم نہ رکھتے تھے سو ہم کو حکم نہیں کرتے تھے روزہ رکھنے کا۔
امام مالک سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب رمضان میں سفر میں ہوتے پھر ان کو معلوم ہوتا کہ آج کے روز شہر میں داخل ہوں گے دوپہر سے اول تو روزہ رکھ کر داخل ہوتے
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے روزہ توڑ ڈالا رمضان میں تو حکم کیا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بردہ آزاد کرنے کا یا دو مہینہ روزے رکھنے کا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا سو اس نے کہا مجھ سے یہ کوئی کام نہیں ہو سکتا اتنے میں ایک ٹوکرا کھجور کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیا اور کہا کہ اس کو صدقہ کر دے وہ شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کچلیاں کھل گئیں پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہی کھا لے اس کو۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنا سینہ کوٹتا ہوا اور بال نوچتا ہوا اور کہتا تھا ہلاک ہوا وہ شخص جو دور ہے نیکیوں سے تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ہوا بولا میں نے صحبت کی اپنی بی بی سے رمضان کے روزہ میں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ایک بردہ آزاد کر سکتا ہے بولا نہیں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک اونٹ یا گائے ہدی کر سکتا ہے بولا نہیں اتنے میں ایک ٹوکرا کھجور کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو لے اور صدقہ کر وہ بولا مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھا لے اس کو اور ایک روزہ رکھ لے اس دن کے بدلے میں جس دن تو نے یہ کام کیا ہے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ پچھنے لگاتے تھے روزے میں پھر اس کو چھوڑ دیا پھر جب روزہ دار ہوتے پچھنے نہ لگواتے یہاں تک کہ روزہ افطار کر تے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر پچھنے لگواتے تھے روزے میں
عروہ بن زبیر پچھنے لگاتے تھے روزے میں پھر افطار نہیں کر تے تھے کہا ہشام نے میں نے کبھی نہیں دیکھا عروہ کو پچھنے لگاتے ہوئے مگر وہ روزہ سے ہوتے تھے۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا عاشورہ کے دن لوگ روزہ رکھتے تھے جاہلیت میں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے زمانہ جاہلیت میں پھر جب آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں تو روزہ رکھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن اور لوگوں کو بھی حکم کیا اس دن روزہ رکھنے کا پھر جب فرض ہوا رمضان تو رمضان ہی کے روزے فرض رہ گئے اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا سو جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے انہوں نے سنا معاویہ بن ابی سفیان سے کہتے تھے جس سال انہوں نے حج کیا اور وہ منبر پر تھے اے اہل مدینہ کہاں ہیں علماء تمہارے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے اس دن کو یہ دن عاشورہ کا ہے اس دن روزہ تمہارے اوپر فرض نہیں ہے اور میں روزہ دار ہوں سو جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہلا بھیجا حارث بن ہشام کو کہ کل عاشورے کا روزہ ہے تو روزہ رکھ اور حکم کر اپنے گھر والوں کو وہ روزہ رکھیں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو دن روزے رکھنے سے ایک یوم الفطر دوسرے یوم الاضحی میں۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا تہہ کے روزے رکھنے سے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکھتے ہیں فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں کھلایا جاتا ہوں پلایا جاتا ہوں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بچو تم تہہ کے روزے رکھنے سے لوگوں نے کہا آپ رکھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے رات کو میرا رب کھلا دیتا ہے اور پلا دیتا ہے۔
سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے نذر کی ایک مہینہ روزے رکھنے کی اب اس کو نفل روزہ رکھنا درست ہے جواب دیا کہ پہلے نذر کے روزے رکھ لے پھر نفل رکھے۔
امام مالک کو پہنچا ہے عبداللہ بن عمر سے پوچھتے کیا کوئی روزہ رکھے کسی کی طرف سے یا نماز پڑھے کسی کی طرف سے بولے نہ کوئی روزہ رکھے کسی کی طرف سے اور نہ کوئی نماز پڑھے کسی کی طرف سے۔
خالد بن اسلم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ایک روزہ افطار کیا رمضان میں اور اس دن ابر تھا ان کو یہ معلوم ہوا کہ شام ہو گئی اور آفتاب ڈوب گیا پس ایک شخص آیا اور بولا یا امیر المومنین آفتاب نکل آیا حضرت عمر نے فرمایا اس کا تدارک سہل ہے ہم نے اپنے ظن پر عمل کیا تھا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جس شخص کے رمضان کے روزے قضا ہوں بیماری سے یا سفر سے تو ان کی قضا لگاتار رکھے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ نے اختلاف کیا رمضان کی قضا میں ایک نے کہا کہ رمضان کے روزوں کی قضا پے درپے رکھنے ضروری نہیں دوسرے نے کہا پے درپے رکھنا ضروری ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ کس نے ان دونوں میں سے پے درپے رکھنے کو کہا اور کس نے یہ کہا کہ پے درپے رکھنا ضروری نہیں۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص قصداً قے کرے روزے میں تو اس پر قضا واجب ہے اور جس کو خود قے آ جائے تو اس پر قضا نہیں ہے۔
یحیی بن سعید نے سنا سعید بن مسیب سے پوچھا گیا ان سے رمضان کی قضا کے بارے میں تو کہا سعید نے میرے نزدیک یہ بات اچھی ہے کہ رمضان کی قضا پے درپے رکھے۔
حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ میں ساتھ تھا مجاہد کے اور طواف کر رہے تھے خانہ کعبہ کا اتنے میں ایک آدمی آیا اور پوچھا کہ قسم کے کفارے کے روزے پے درپے ہیں یا جدا جدا حمید نے کہا ہاں جدا جدا بھی رکھ سکتا ہے اگر چاہے مجاہد نے کہا نہیں کیونکہ ابی بن کعب کی قرات میں ہے ثلثۃ ایام متتابعات یعنی روزے تین دن کے پے درپے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ اور ام المومنین حفصہ صبح اٹھیں نفل روزہ رکھ کر پھر کھانے کا حصہ آیا تو انہوں نے روزہ کھول ڈالا اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے عائشہ فرماتی ہیں کہ حفصہ نے کہا شروع کر دیا مجھے بولنے نہ دیا آخر اپنے باپ کی بیٹی تھیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اور عائشہ صبح کو اٹھیں نفل روزہ رکھ کر تو ہمارے پاس حصہ آیا کھانے کا ہم نے روزہ کھول ڈالا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے عوض میں ایک روزہ قضا کا رکھو۔
امام مالک کو پہنچا انس بن مالک بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ روزہ نہ رکھ سکتے تھے تو فدیہ دیتے تھے۔
امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر سے سوال ہوا کہ حاملہ عورت اگر خوف کرے اپنے حمل کا اور روزہ نہ رکھ سکے تو کہا انہوں نے روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک مد گیہوں دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مد سے۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے وہ کہتے تھے جس شخص پر رمضان کی قضا لازم ہو پھر وہ قضا نہ کرے یہاں تک کہ دوسرا رمضان آ جائے اور وہ قادر رہا ہو روزے پر تو ہر روزے کے بدلے میں ایک ایک مسکین کو ایک ایک مد گیہوں کا دے اور قضا بھی رکھے۔
ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں میرے اوپر روزے ہوتے تھے رمضان کے اور میں قضا رکھ نہیں سکتی تھی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا
ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے اب افطار نہ کریں گے اور پھر افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے اب روزہ نہ رکھیں گے اور میں نے نہیں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہ کسی مہینہ کے پورے روزہ رکھے ہوں سوائے رمضان کے اور کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہ رکھتے تھے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا روزہ ڈھال ہے تو جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو چاہیے کہ بے ہودہ نہ بکے اور جہالت نہ کرے اگر کوئی شخص اسے گالیاں بکے یا لڑے تو کہہ دے میں روزہ دار ہوں میں روزہ دار ہوں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بو زیادہ پسند ہے مشک کی بو سے اللہ جل جلالہ کے نزدیک کیونکہ وہ چھوڑ دیتا ہے اپنی خواہشوں کو اور کھانے کو اور پانی کو میرے واسطے تو وہ روزہ میرے واسطے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا جو نیکی ہے اس کا ثواب دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک ملے گا مگر روزہ وہ میرے واسطے ہے اور اس کا ثواب بھی میں ہی دوں گا۔
ابوہریرہ نے کہا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیطان باندھ دیے جاتے ہیں
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعتکاف کیا کرتے تھے رمضان کے درمیانی عشرے کا تو ایک سال اعتکاف کیا جب اکیسویں رات آئی جس کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اعتکاف سے باہر آیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے تو چاہیے اور دس دن تک اخیر میں اعتکاف کرے میں نے شب قدر کو معلوم کیا تھا پھر میں بھلا دیا گیا میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ میں شب قدر کی صبح کو سجدہ کرتا ہوں کیچڑ اور پانی میں پس ڈھونڈو تم اس کو اخیر دس میں سے ہر طاق رات میں ابو سعید خدری نے کہا کہ اسی رات پانی برسا اور مسجد کی چھت پتوں اور شاخوں کی تھی تو ٹپکی مسجد ابو سعید نے کہا میری دونوں آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے اور پیشانی اور ناک مبارک پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مٹی اور پانی کا نشان تھا۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ڈھونڈو تم شب قدر کو رمضان کی اخیر دس راتوں میں
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ڈھونڈو تم شب قدر کو رمضان کی آخر سات راتوں میں
ابو النصر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن انیس جہنی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرا گھر دور ہے تو ایک رات مقرر کیجئے کہ اس رات میں اس مسجد میں رہوں اور عبادت کروں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسویں شب کو رمضان میں
انس بن مالک سے روایت ہے کہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس اور فرمایا کہ مجھے شب قدر معلوم ہو گئی تھی مگر دو آدمیوں نے غل مچایا تو میں بھول گیا پس ڈھونڈو اس کو اکیسویں تئیسویں ، اور پچیسویں شب میں یا انتیسویں اور ستائیسویں میں۔
امام مالک کو پہنچا کہ چند صحابہ نے شب قدر کو دیکھا خواب میں رمضان کی اخیر سات راتوں میں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں دیکھتا ہوں کہ خواب تمہارا موافق ہوا میرے خواب کے رمضان کی اخیر سات راتوں میں سو جو کوئی تم میں سے شب قدر کو ڈھونڈنا چاہے تو ڈھونڈے اخیر کی سات راتوں میں۔
امام مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا ایک معتبر شخص سے اہل علم میں سے کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اگلے لوگوں کی عمریں بتلائیں گئیں جتنا اللہ کو منظور تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کی عمروں کو کم سمجھا اور خیال کیا کہ یہ لوگ ان کے برابر عمل نہ کر سکیں گے پس دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی نے شب قدر جو بہتر ہے ہزار مہینے سے۔