ایک شخص نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی عورت کو سو طلاق دیں ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ تین طلاق میں تجھ سے بائن ہو گئی اور ستانوے طلاق سے تو نے اللہ کی آیتوں سے ٹھٹھا کیا۔،
ایک شخص عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا اور کہا میں نے اپنی عورت کو دو سو طلاقیں دیں ابن مسعود نے کہا لوگوں نے تجھ سے کیا کہا وہ بولا مجھ سے یہ کہا کہ تیری عورت تجھ سے بائن ہو گئی ابن مسعود نے کہا سچ ہے جو شخص اللہ کے حکم کے موافق طلاق دے گا تو اللہ نے اس کی صورت بیان کر دی اور جو گڑبڑ کرے گا اس کی بلا اس کے سر لگا دیں گے گڑبڑ مت کرو تاکہ ہم کو مصیبت نہ اٹھانا پڑے وہ لوگ سچ کہتے ہیں تیری عورت تجھ سے جدا ہو گئی۔
ابو بکر بن حزم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ طلاق بتہ میں لوگ کیا کہتے ہیں ابوبکر نے کہا ابان بن عثمان اس کو ایک طلاق سمجھتے تھے عمر بن عبدالعزیز نے کہا اگر طلاق ایک ہزار تک درست ہوتی تو بتہ اس میں سے کچھ باقی نہ رکھتا جس نے بتہ کہا وہ انتہا کو پہنچ گیا۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ مروان طلاق بتہ میں تین طلاق کا حکم کرتا تھا۔
حضرت عمر بن خطاب کے پاس خط لکھا ہوا آیا کہ ایک شخص نے اپنی عورت سے کہا جبلک علی غاربک حضرت عمر خطاب نے لکھا اس شخص سے کہہ دینا کہ حج کے موسم میں مکہ میں مجھ سے ملے حضرت عمر کعبہ کا طواف کر رہے تھے ایک شخص ملا اور سلام کیا پوچھا تم کون ہے آپ نے فرمایا میں وہی شخص ہوں جس نے تم نے حکم کیا تھا مکہ میں ملنے کا حضرت عمر نے کہا قسم ہے تجھ کو اس گھر کے رب کی جبلک علی غاربک سے تیری کیا مراد تھی وہ بولا اے امیر المومنین اگر تم مجھ کو کسی اور جگہ کی قسم دیتے تو میں سچ نہ کہتا اب سچ کہتا ہوں کہ میری نیت چھوڑ دینے کی تھی حضرت عمر نے فرمایا جیسے تو نے نیت کی ویسا ہی ہوا۔
حضرت علی کہتے تھے جو شخص اپنی عورت سے کہے تو مجھ پر حرام ہے تو تین طلاق پڑ جائیں گی۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ خلیہ اور بریہ ان میں سے ہر ایک میں تین طلاقیں پڑ جایئیں گی۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص کے نکاح میں ایک لونڈی تھی اس نے لونڈی کے مالکوں سے کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے لوگوں نے اس کو ایک طلاق سمجھا۔
ابن شہاب کہتے تھے اگر مرد عورت سے کہے میں تجھ سے بری ہوا اور تو مجھ سے بری ہوئی تو تین طلاقیں پڑیں گی مثل بتہ کے۔
کہا مالک نے اگر کوئی شخص اپنی عورت کو کہے تو خلیہ ہے یا بریہ ہے یا بائنہ ہے تو اگر اس عورت سے صحبت کر چکا ہے تین طلاق پڑیں گی اور اگر صحبت نہیں کی تو اس کی نیت کے موافق پڑے گی اگر اس نے کہا میں نے ایک کی نیت کی تھی تو حلف لے کر اس کو سچا سمجھیں گے مگر وہ عورت ایک ہی طلاق میں بائن ہو جائے گی اب رجعت نہیں کر سکتا البتہ نکاح نئے سرے سے کر سکتا ہے کیونکہ جس عورت سے صحبت نہ کی ہو وہ ایک ہی طلاق میں بائن ہو جاتی ہے جس سے صحبت کر چکا اور وہ تین طلاق میں بائن ہوتی ہے۔
امام مالک کو پہنچا کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آیا اور بولا میں نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا تھا اس نے اپنے آپ کو تین طلاق دے لی اب کیا کہتے ہو ابن عمر نے کہا کہ طلاق پڑ گئی وہ شخص بولا ایسا تو مت کرو ابن عمرو نے کہا میں نے کیا کیا تو نے اپنے آپ کیا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب مرد اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے تو جب بھی طلاق عورت چاہے اپنے اوپر ڈال لے مگر جب خاوند انکار کرے اور کہے میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا اور حلف کرے تو اس عورت کامستحق ہو گا جب تک وہ عدت میں ہے۔
خارجہ بن زید سے روایت ہے کہ وہ اپنے باپ زید بن ثابت کے پاس بیٹھے تھے اتنے میں محمد بن ابی عتیق روتے ہوئے آئے زید نے پوچھا کیوں انہوں نے کہا میں نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا تھا اس نے مجھے چھوڑ دیا زید نے کہا تو نے کیوں اختیار دیا انہوں نے کہا تقدیر میں یوں ہی تھا زید نے کہا اگر تو چاہے تو رجعت کر لے کیونکہ ایک طلاق پڑی ہے ابھی تو اس کا مالک ہے۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص ثقفی نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا اس نے اپنے تئیں ایک طلاق دی یہ چپ ہو رہا پھر اس نے دوسری طلاق دی اس نے کہا تیرے منہ میں پتھر اس نے تیسری طلاق دی اس نے کہا تیرے منہ میں پتھر پھر دونوں لڑتے ہوئے مروان کے پاس آئے مروان نے اس بات کی قسم لی کہ میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا اس کے بعد وہ عورت اس کے حوالہ کر دی۔
کہا مالک نے عبدالرحمن کہتے تھے کہ قاسم بن محمد اس فیصلہ کو پسند کرتے تھے اور مجھے بھی بہت پسند ہے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن کا پیام بھیجا قریبہ بنت ابی امیہ کے پاس ان کے لوگوں نے ان کا عبدالرحمن کے ساتھ نکاح کر دیا اس کے بعد لڑائی ہوئی ان لوگوں نے کہا یہ نکاح حضرت عائشہ نے کروایا ہے حضرت عائشہ نے عبدالرحمن سے کہا عبدالرحمن نے اختیار دے دیا قریبہ نے اپنے خاوند کو اختیار کیا اس کو طلاق نہ سمجھا۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے حفصہ بنت عبدالرحمن(اپنی بھتیجی) کا منذر بن زبیر سے نکاح کیا اور عبدالرحمن جو کہ لڑکی کے باپ تھے شام کو گئے ہوئے تھے جب عبدالرحمن آئے تو انہوں نے کہا کیا مجھ ہی سے ایسا کرنا تھا اور میرے اوپر جلدی کرنا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے منذر بن زبیر سے بیان کیا منذر نے کہا عبدالرحمن کو اختیار ہے۔ عبدالرحمن نے حضرت عائشہ سے کہا جس کام کو تم کر چکیں اس کام کو میں توڑنے والا نہیں پھر رہیں حضرت حفصہ منذر کے پاس اور اس اختیار کو طلاق نہ سمجھا۔
مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ سے سوال ہوا ایک شخص اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے مگر عورت اس کو قبول نہ کرے نہ اپنے تئیں طلاق دے انہوں نے کہا طلاق نہ پڑے گی۔
سعید بن مسیب نے کہا جب مرد اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے مگر عورت خاوند سے جدا ہونا قبول نہ کرے اسی کے پاس رہنا چاہے تو طلاق نہ ہو گی۔
کہا مالک نے جس مجلس میں خاوند عورت کو طلاق کا اختیار دے اسی مجلس میں عورت کو اختیار ہو گا اگر وہ مجلس برخواست ہوئی اور عورت نے طلاق نہ لی تو پھر اختیار نہ رہے گا۔
حضرت علی فرماتے تھے جب مرد اپنی عورت سے ایلاء کرے تو عورت پو طلاق نہ پڑے گی اگرچہ چار مہینے گزر جائیں جب تک مقدمہ حاکم کے سامنے پیش نہ ہو اور خاوند کو مجبور کیا جائے یا طلاق دے یا جماع کرے۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص ایلا کرے اپنی عورت سے جب چار مہینے گزر جائیں تو خاوند کو حاکم کے سامنے مجبور کریں طلاق دے یا رجوع کرے اور بغیر طلاق دئیے چار مہینے گزر جانے سے عورت پر طلاق نہ پڑے گی۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب اور ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے تھے جو شخص ایال کرے اپنی عورت سے تو جب چار مہینے گزر جائیں ایک طلاق پڑ جائے گی مگر خاوند کو اختیار ہے کہ جب تک عورت عدت میں ہے رجعت کر لے۔
مالک کو پہنچا کہ مروان بن حکم حکم کرتے تھے جب کوئی شخص اپنی عورت سے ایلا کرے اور چار مہینے گز رجائیں تو ایک طلاق پڑ جائے گی مگر خاوند کو اختیار رہے گا کہ جب تک عورت عدت میں ہے رجعت کر لے۔
امام مالک نے ابن شہاب سے غلام کی ایلاء کا حال پوچھا تو ابن شہاب نے کہا کہ غلام کا ایلاء بھی آزاد شخص کی طرح ہے مگر غلام کی مدت دو مہینے ہے۔
سعید بن عمر نے قاسم بن محمد سے پوچھا اگر کوئی شخص کسی عورت سے کہے کہ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ کو طلاق ہے قاسم بن محمد نے کہا کہ ایک شخص نے حضرت عمر کے زمانے میں ایک عورت کی نسبت یہ کہا تھا کہ اگر میں اس سے نکاح کروں وہ مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ حضرت عمر نے حکم دیا کہ اگر وہ شخص اس عورت سے نکاح کرے تو جماع نہ کرے جب تک کفارہ ظہار نہ دے۔
مالک کو پہنچا کہ ایک شخص نے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے پوچھا اگر کوئی شخص کسی عورت سے ظہار کرے نکاح سے پہلے تو دونوں نے کہا کہ اگر وہ شخص اس عورت سے نکاح کرے تو جماع نہ کرے جب تک کفارہ ظہار ادا نہ کرے۔
عروہ بن زبیر نے کہا جو شخص ایک ہی دفعہ چار عورتوں سے ظہار کرے تو اس پر ایک کفارہ لازم آئے گا۔
کہا مالک نے ظہار کے کفارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا تم میں سے جو لوگ اپنی عورتوں سے ظہار کرتے ہیں جماع سے پہلے اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا پڑے گا۔
کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت سے کئی مرتبہ کئی مجلسوں میں ظہار کرے اس پر ایک کفارہ لازم آئے گا البتہ اگر ایک مرتبہ ظہار کر کے کفارہ ادا کر دیا پھر دوبارہ ظہار کیا تو پھر کفارہ لازم آئے گا
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ظہار کیا پھر کفارہ سے پہلے عورت سے جماع کیا تو اس پر ایک ہی کفارہ لازم آئے گا اب جب تک کفارہ نہ دے عورت سے علیحدہ رہے اور خدا سے استغفار کرے۔
کہا مالک نے اللہ تعالی نے یہ فرمایا فرمایا ہے جو لوگ اپنی عورتوں سے ظہار کرتے ہیں پھر لوٹ کر دہی بارت کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہار کے بعد پھر عورت کو رکھنا اور اس سے صحبت کرنا چاہتے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ نے کفارہ واجب کیا اور جو ظہار کے بعد عورت کو طلاق دے دے اور نہ رکھے تو کچھ کفارہ نہیں اگر طلاق کے بعد پھر اس سے نکاح کرے تو صحبت نہ کرے جب تک ظہار کا کفارہ نہ دے۔
کہا مالک نے جو شخص اپنی لونڈی سے ظہار کرے پھر اس سے صحبت کرنا چاہے تو درست نہیں جب تک کفارہ نہ دے۔
کہا مالک نے ظہار سے ایلاء نہیں ہوتا البتہ جب ظہار سے یہ نیت ہو کہ کفارہ نہ دیں گے اور عورت کو ضرر پہنچائیں گے تو ایلاء ہو جائے گا۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عروہ بن زبیر سے پوچھا اگر کوئی شخص اپنی عورت سے کہے جب تک تو زندہ ہے اگر میں دوسری بیوی سے نکاح کروں تو وہ میرے اوپر ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ عروہ نے جواب دیا کہ اس شخص کو ایک غلام آزاد کرنا کافی ہے۔
کہا مالک نے ظہار کے غلام میں ایلاء شریک نہ ہو گا کیونکہ غلام جب دو مہینے کے روزے رکھے گا ایلاء کی طلاق پہلے ہی پڑ جائے گی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بریرہ کے سبب سے شرع کی تین باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ بریرہ جب آزاد ہوئی اس کو اختیار ہوا اگر چاہے اپنے خاوند کو چھوڑ دے دوسرا یہ کہ بریرہ جب آزاد ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ولا اس کو ملے گی جو آزاد کرے تیسرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بریرہ کے پاس تشریف لائے گوشت کی ہانڈی چڑھی ہوئی تھی بریرہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سالن پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ہانڈی چڑھی ہوئی ہے گوشت کی لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ گوشت صدقہ کا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم صدقہ نہیں کھاتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بریرہ پر صدقہ ہے اور ہمارے واسطے ہدیہ ہے بریرہ کی طرف سے۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ لونڈی اگر غلام کے نکاح میں ہو پھر آزاد ہو جائے تو اس کو اختیار ہو گا آزادی کے بعد جب تک اس کا شوہر اس اس سے جماع نہ کرے۔
کہا مالک نے اگر خاوند نے آزادی کے بعد اس سے جماع کیا اور لونڈی نے یہ کہا کہ مجھ کو یہ اختیار کا مسئلہ معلوم نہیں تھا تو عذر اس کا مسموع نہ ہو گا اور اس کو اختیار نہ رہے گا۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ بنی عدی کی لونڈی جس کا نام زبرا تھا ایک غلام کے نکاح میں تھی وہ آزاد ہو گئی حضرت حفصہ نے اس کو بلایا اور کہا میں تجھ سے ایک بات کہتی ہوں مگر یہ نہیں چاہتی کہ تو کچھ کر بیٹھے تجھے اختیار ہے جب تک تیرا خاوند تجھ سے جماع نہ کرے اگر جماع کرے گا پھر تجھے اختیار نہ رہے گا زبرا بول اٹھی اگر ایسا ہی ہے تو طلاق ہے طلاق ہے پھر طلاق ہے جدا ہو گئی اپنے خاوند سے تین بار کہہ کر۔
امام مالک کو پہنچا کہ سعید بن مسیب نے کہا جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور خاوند کو جنون یا اور کوئی مرض نکلے تو عورت کو اختیار ہے خواہ مرد کے پاس رہے یا جدا ہو جائے۔
کہا مالک نے جو لونڈی غلام کے نکاح میں آئے پھر آزاد ہو جائے صحبت سے پہلے اور خاوند سے جدا ہونا اختیار کرے تو اس کو مہر نہ ملے گا ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
کہا مالک نے ابن شہاب کہتے تھے جب مرد اپنی عورت کو طلاق دے اور عورت خاوند کو اختیار کرے تو طلاق نہ پڑے گی۔
کہا مالک نے جب مرد عورت کو اختیار دے اور عورت اپنی تئیں اختیار کرے تو تین طلاق پڑ جائیں گی اگر خاوند کہے میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا تو یہ نہ سنا جائے گا۔
کہا مالک نے اگر خاوند نے بی بی کو طلاق کا اختیار دیا عورت نے کہا میں نے ایک طلاق قبول کی خاوند نے کہا میری غرض یہ نہ تھی میں نے تجھے تین طلاق کا اختیار دیا تھا مگر عورت ایک ہی طلاق کو قبول کرے زیادہ نہ لے تو وہ خاوند سے جدا نہ ہو گی۔
حبیبہ بنت سہل ثابت بن قیس کے نکاح میں تھیں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اندھیرے میں فجر کی نماز کو نکلے حبیبہ کو دروازے پر پایا پوچھا کون بولی میں حبیبہ بنت سہل ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیوں کیا ہے بولی یا میں نہیں یا ثابت بن قیس نہیں جب ثابت بن قیس آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے کہا اس حبیبہ بنت سہل نے مجھ سے کہا جو کچھ اللہ کو منظور تھا حبیبہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ثابت نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ثابت سے فرمایا تم اپنی چیز لے لو انہوں نے لے لی اور حبیبہ اپنے میکے میں بیٹھی رہیں۔،
صفیہ بنت ابو عبید کی لونڈی نے اپنے خاوند سے سارے مال کے بدلے میں خلع کیا تو عبداللہ بن عمر نے اس کو برا نہ جانا۔
کہا مالک نے جو عورت مال دے کر اپنا پیچھا چھڑائے پھر معلوم ہو کہ خاوند نے سرا سر ظلم کیا تھا اور عورت کا کچھ قصور نہ تھا بلکہ خاوند نے زور ڈال کر زبردستی سے اس کا پیسہ مار لیا تو عورت پر طلاق پڑ جائے گی۔ اور مالک اس کا پھروا دیا جائے گا میں نے یہی سنا اور میرے نزدیک یہی حکم ہے اگر عورت جتنا خاوند نے اس کو دیا ہے اس سے زیادہ دے کر اپنا پیچھا چھڑائے تو کچھ قباحت نہیں۔
نافع سے روایت ہے کہ ربیع بنت معوذ بن عفرا اور ان کی پھوپھی عبداللہ بن عمر کے پاس آئیں اور بیان کیا کہ انہوں نے اپنے خاوند سے خلع کیا تھا حضرت عثمان کے زمانے میں جب یہ خبر حضرت عثمان کو پہنچی انہوں نے برا نہ جانا عبداللہ بن عمر نے کہا جو عورت خلع کرے اس کی عدت مطلقہ کی عدت کی طرح ہے۔
سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار اور ابن شہاب کہتے تھے جو عورت خلع کرے وہ تین طہر تک عدت کرے جیسے مطلقہ عدت کرتی ہے۔
کہا مالک نے جو عورت مال دے کر اپنا پیچھا چھڑائے تو پھر اپنے خاوند سے مل نہیں سکتی مگر نیا نکاح کر کے۔
سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آئے اور پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے پھر کیا کرے اگر اس کو مار ڈالے تو خود بھی مارا جاتا ہے تم میرے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس مسئلے کو پوچھو عاصم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس مسئلے کو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سوال کو نا پسند کیا اور برا کہا عاصم کو یہ امر نہایت دشوار گزرا وہ جب لوٹ کر اپنے گھر میں آئے عویمر نے آ کر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا فرمایا عاصم نے کہا تم سے مجھے بھلائی نہ پہنچی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سوال کو برا جانا عویمر نے کہا قسم خدا کی میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بغیر پوچھے نہ رہوں گا پھر عویمر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے لوگ جمع تھے انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر کوئی بیگانے مرد کو اپنی بی بی کے ساتھ پائے اور اس کو مار ڈالے تو خود مارا جاتا ہے پھر کیا کرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے اور تمہاری بی بی کے حق میں اللہ کا حکم اترا ہے تم اپنی بی بی کو لے آؤ سہل کہتے ہیں دونوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لعان کیا اور میں اس وقت موجود تھا جب لعان سے فارغ ہوئے عویمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر میں اس عورت کو رکھوں تو گویا میں نے جھوٹ بولا یہ کہہ کر تین طلاق دے دیں بغیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہے ہوئے ابن شہاب نے کہا پھر یہی متلاعنین کا طریقہ جاری رہا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی عورت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں لعان کیا اور اس کے لڑکے کو یہ کہا کہ میرا نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں میں تفریق کر دی اور لڑکے کو ماں کے حوالے کر دیا۔
کہا مالک نے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جو لوگ تہمت لگاتے ہیں اپنی جوروؤں کو اور کوئی گواہ نہ ہو ان کے پاس سوائے ان کے خود کے تو اس صورت میں کسی کی گواہی یہ ہے کہ چار دفعہ گواہی دے اللہ کے نام کی کہ بے شک عورت سچی ہے اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اللہ کی پھٹکار ہو اس شخص پر اگر وہ جھوٹا ہو اور عورت بھی گواہی دے چار دفعہ گواہی اللہ کے نام کی کہ بے شک وہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اللہ کا غضب آئے اس عورت پر اگر وہ شخص سچا ہو۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک سنت یہ ہے کہ متلاعنین پھر کبھی آپس میں نکاح نہیں کر سکتے اور اگر خاوند عبد لعان کے اپنے آپ کو جھٹلا دے تو اس کے تئیں حد قذف پڑے گی۔ اور لڑکے کا نسب پھر اس سے ملا دیا جائے گا یہی سنت ہمارے ہاں چلی آتی ہے جس میں نہ کوئی شک ہے نہ اختلاف۔
کہا مالک نے جب مرد اپنی عورت کو طلاق بائن دے پھر اس کے حمل کو کہے کہ میرا نہیں ہے تو لعان واجب ہو گا۔ جس حالت میں وہ حمل اتنے دنوں کا ہو کہ اس کا ہو سکتا ہو ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اور ہم نے ایسا ہی سنا۔
کہا مالک نے جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں اور اس کو حمل کا اقرار تھا اس کے بعد اس کو زنا کی تہمت لگائی تو خاوند پر حد قذف پڑے گا اور لعان اس پر واجب نہ ہو گا البتہ اگر طلاق کے بعد اس کے حمل کا انکار کرے تو لعان واجب ہے میں نے ایسا ہی کیا۔
کہا مالک نے غلام بھی لعان اور قذف دونوں میں آزاد شخص کی طرح ہے مگر جو شخص لونڈی کو زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف لازم نہ ہو گی۔
کہا مالک نے جب مسلمان مرد کسی مسلمان لونڈی یا آزاد عورت یا یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح کرے اور اس کو زنا کی تہمت لگائے تو لعان واجب ہو گا۔
کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت سے لعان کرے پھر ایک یا دو گواہیوں کے بعد اپنے آپ کو جھٹلائے تو حد قذف لگائی جائے گی اور تفریق نہ ہو گی۔
کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت کو طلاق دے پھر تین مہینے کے بعد عورت کہے میں حاملہ ہوں اور خاوند اس کے حمل کا انکار کرے تو لعان واجب ہو گا۔
کہا مالک نے جس لونڈی سے اس کا خاوند لعان کرے پھر اس کو خریدے تو اس سے وطی نہ کرے کیونکہ سنت جاری ہے کہ متلاعنین کبھی جمع نہیں ہوتے۔
امام مالک نے کہا کہ عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ ملاعنہ کا بچہ اور ولد زنا جب مر جائے تو ماں اس کی وارث ہوں گی اور جو کچھ بچے گا وہ اس کی ماں کے مولی کو ملے گا اگر ماں اس کی آزاد کی ہوئی لونڈی ہو اور جو آزاد ہو تو ماں اور بھائیوں کے حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ بیت المال میں داخل ہو گا۔
محمد بن ایاس بن بکیر نے کہا ایک شخص نے اپنی بی بی کو تین طلاق دیں وطی سے پہلے پھر اس سے نکاح کرنا چاہا پھر مسئلہ پوچھنے گیا میں بھی اس کے ساتھ گیا اس نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ سے پوچھا دونوں نے کہا کہ تجھ کو اس عورت سے نکاح کرنا درست نہیں جب تک وہ عورت دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے وہ شخص بولا میری ایک طلاق سے وہ عورت بائن ہو گئی ابن عباس نے کہا تو نے اپنے ہاتھ سے خود اختیار کھو دیا۔
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن عمرو کے پاس آیا پوچھنے لگا جو شخص اپنی عورت کو تین طلاق دے جماع سے پہلے اس کا کیا حکم ہے عطا نے کہا کہ باکرہ پر ایک طلاق پڑتی ہے عبداللہ بن عمرو نے کہا تو قصہ خوان ہے ایک طلاق سے بائن ہو جاتی ہے اور تین طلاق سے حرام ہو جاتی ہے یہاں تک کہ دوسرے شخص سے نکاح کرے۔
معاویہ بن ابو عیاش عبداللہ بن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں محمد بن ایاس بن بکیر آئے اور کہا کہ ایک بدوی شخص نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں صحبت سے پہلے تو تمہاری کیا رائے ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا اس مسئلے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ کے پاس جاؤ میں ان دونوں کو حضرت عائشہ کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں اور جو وہ کہیں اس سے مجھے بھی خبر کرنا محمد بن ایاس وہاں گئے اور ان سے جا کر پوچھا عبداللہ بن عباس نے ابوہریرہ سے کہا تم بتاؤ کہ ایک مشکل مسئلہ تمہارے پاس آیا ہے ابوہریرہ نے کہا ایک طلاق میں دو صورت بائن ہو گئی اور تین طلاق میں حرام ہو گئی جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے پھر عبداللہ بن عباس نے بھی ایسا ہی کہا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اگر ثیبہ عورت کوئی نکاح کرے اور جماع سے پہلے اسے تین طلاق دے دے تو وہ حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔
عبدالرحمن بن عوف نے بیماری کی حالت میں اپنی عورت کو تین طلاق دیں حضرت عثمان نے عبدا الرحمن کے ترکے میں سے ان کو حصہ دلایا عدت گزرنے کے بعد۔
عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے روایت ہے عثمان بن عفان نے ابن مکمل کی عورتوں کو ترکہ دلایا اور وہ بیماری میں طلاق دے کر مر گیا تھا۔
ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کہتے تھے عبدالرحمن بن عوف کی بی بی نے ان سے طلاق مانگی عبدالرحمن نے یہ کہا جب تو حیض سے پاک ہو مجھے خبر کر دینا اس کو حیض ہی نہ آیا یہاں تک کہ عبدالرحمن بیمار ہو گئے اس وقت حیض سے پاک ہوئی اور عبدالرحمن سے کہا عبدالرحمن نے اس کو تین طلاق دے دیں یا آخری طلاق دے دی پھر عبدالرحمن مر گئے حضرت عثمان نے ان کی بی بی کو عدت گزر جانے کے باوجود ترکہ دلایا۔
محمد بن یحیی بن حبان سے روایت ہے کہ میرے دادا حبان بن منقذ کے پاس دو بیبیاں تھیں ایک ہاشمی اور ایک انصاری۔ انصاری کو انہوں نے طلاق دی اور وہ ایک برس تک دودھ پلایا کرتی تھیں اس کو حیض نہ آیا اس کے بعد حبان مر گئے وہ بولی میں ترکہ لوں گی کیونکہ مجھے حیض نہیں آیا اور میری عدت نہیں گزری جب حضرت عثمان کے پاس یہ مقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے ترکہ دلانے کا حکم کیا ہاشمی عورت حضرت عثمان کو برا کہنے لگی انہوں نے کہا یہ حکم تو تیرے چچا کے بیٹے کا ہے انہوں نے مجھ سے ایسا ہی کہا تھا یعنی حضرت علی کا۔
امام مالک کو پہنچا کہ عبدالرحمن بن عوف نے اپنی عورت کو طلاق دی متعہ میں ایک لونڈی دی
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے ہر مطلقہ کو متعہ ملے گا مگر جس عورت کا مہر مقرر ہو گیا ہو اور صحبت سے پہلے اس کو طلاق دی جائے تو اس کو آدھا مہر دینا کافی ہے۔
کہا مالک نے ابن شہاب کہتے تھے ہر مطلقہ کو متعہ ملے گا قاسم بن محمد سے بھی مجھے ایسا ہی پہنچا۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ نفیع حضرت ام سلمہ کا مکاتب تھا یا غلام تھا اس کے نکاح میں ایک عورت آزاد تھی اس کو دو طلاق دیں پھر رجعت کرنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیبیوں نے اس کو حکم کیا کہ حضرت عثمان سے جا کر مسئلہ پوچھ وہ حضرت عثمان سے جا کر ملا درج میں وہ حضرت زید بن ثابت کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے جب اس نے مسئلہ پوچھا دونوں نے کہا وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نفیع جو مکاتب تھا حضرت ام سلمہ کا اسی نے اپنی بی بی کو طلاق دی پھر حضرت عثمان سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا تجھ پر حرام ہو گئی۔
محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی سے روایت ہے کہ نضیع جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ مکاتب تھا اس نے زید بن ثابت سے مسئلہ پوچھا کہ میں نے اپنی آزاد عورت کو دو طلاق دی ہیں زید بن ثابت نے کہا وہ عورت تیرے اوپر حرام ہو گئی۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب غلام اپنی عورت کو دو طلاق دے تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے خواہ اس کی بی بی لونڈی ہو یا آزاد عورت کی عدت تین حیض ہے اور لونڈی کی عدت دو حیض ہے ،۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص اپنے غلام کو نکاح کی اجازت دے تو طلاق غلام کے اختیار میں ہو گی نہ کہ اور کسی کے ہاتھ میں اگر آدمی اپنے غلام کی لونڈی چھین کر اس سے وطی کرے تو درست ہے۔
کہا مالک نے آزاد شخص یا غلام لونڈی کو طلاق دے یا غلام آزاد بی بی کو طلاق دے اگرچہ وہ حاملہ ہو تو اس کا نفقہ اس پر لازم نہ آئے گا جب طلاق بائن ہو جس میں رجعت نہیں ہو سکتی۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا جس عورت کا خاوند گم ہو جائے اور اس کا پتہ معلوم نہ ہو کہاں ہے تو جس روز سے اس کی خبر بند ہوئی ہے چار برس تک عورت انتظار کرے چار برس کے بعد چار مہینے دس دن عدت کر کے اگر چاہے تو دوسرا نکاح کرے۔
کہا مالک نے اگر عورت کی عدت گزر گئی اور اس نے دوسرا نکاح کر لیا تو پھر پہلے خاوند کو اختیار نہ رہے گا۔ خواہ دوسرے خاوند نے اس سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو ہمارے نزدیک بھی یہی حکم ہے۔
کہا مالک نے مجھے حضرت عمر سے پہنچا آپ نے فرمایا جس عورت کا خاوند کسی ملک میں چلا گیا ہو وہاں سے طلاق کہلا بھیجے اس کے بعد رجعت کر لے مگر عورت کو رجعت کی خبر نہ ہو اور وہ دوسرا نکاح کر لے اس کے بعد پہلا خاوند آئے تو اس کو کچھ اختیار نہ ہو گا خواہ دوسرے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو۔
کہا مالک نے مجھے یہ روایت اور مفقود کی روایت بہت پسند ہے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اپنی عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دی حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان کو حکم کرو رجعت کر لیں پھر رہنے دیں یہاں تک کہ حیض سے پاک ہو پھر حائضہ ہو پھر حیض سے پاک ہو اب اختیار ہے خواہ رکھے یا طلاق دے اگر طلاق دے تو اس طہر میں صحبت نہ کرے یہی عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق دینے کا حکم دیا۔
حضرت عائشہ نے اپنی بھتیجی حفص بن عبدالرحمن کو عدت سے اٹھایا جب تیسرا حیض شروع ہوا ابن شہاب نے کہا میں نے یہ عمرہ سے بیان کیا عمرہ نے کہا عروہ نے سچ کہا بلکہ حضرت عائشہ سے اس باب میں لوگوں نے جھگڑا کیا اور کہا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے مطلقہ عورتیں روک رکھیں اپنے نفسوں کو تین قروء تک انہوں نے کہا سچ کہتے ہو لیکن قروء سے جانتے ہو کیا مراد ہے قروء سے طہر مراد ہے۔
ابن شہاب نے کہا میں نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے سنا کہتے تھے میں نے سب فقیہوں کو حضرت عائشہ کی مثل کہتے ہوئے پایا۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ احوص نے اپنی عورت کو طلاق دیدی تھی جب تیسرا حیض اس کو شروع ہوا احوص مر گئے معاویہ بن ابی سفیان نے زید بن ثابت کو لکھ کر بھیجا اس کا کیا حکم ہے زید بن ثابت نے جواب لکھا کہ جب اس کو تیسرا حیض شروع ہو گیا تو خاوند کو اس سے علاقہ نہ رہا اور نہ اس کو خاوند سے نہ اس کی وارث ہو گی نہ وہ اس کا وارث ہو گا۔
امام مالک کو پہنچا کہ قاسم بن محمد بن سالم بن عبداللہ اور ابوبکر بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار اور ابن شہاب کہتے تھے جب مطلقہ عورت کو تیسرا حیض شروع ہو جائے تو وہ اپنے خاوند سے بائن ہو جائے گی اور خاوند کو رجعت کا اختیار نہ رہے گا اب ایک کا ترکہ دوسرے کو نہ ملے گا۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جب مرد اپنی عورت کو طلاق دے اور تیسرا حیض شروع ہو جائے تو اس عورت کو خاوند سے علاقہ نہ رہا اور خاوند کو اس سے نہ تو وہ اس کا وارث ہو گا اور نہ وہ اس کی۔
فضیل بن عبداللہ سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ کہتے تھے جب مطلقہ عورت کو تیسرا حیض شروع ہو جائے تو وہ اپنے خاوند سے بائن ہو جائے گی اور اس کو دوسرا نکاح کرنا درست ہو جائے گا۔
سعید بن مسیب اور ابن شہاب اور سلیمان بن یسار کہتے تھے جو عورت خلع کرے اس کی عدت تین قروء ہیں۔
ابن شہاب کہتے تھے مطلقہ کی عدت طہر سے ہو گی اگرچہ بہت دن لگیں۔
ایک انصاری کی بی بی نے اپنے خاوند سے طلاق مانگی اس نے کہا جب تجھے حیض آئے تو مجھے خبر کر دینا جب حیض آیا اس نے خبر کی کہا جب پاک ہونا تو مجھے خبر کرنا جب پاک ہوئی اور خبر کی اس وقت انہوں نے طلاق دے دی۔
قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار ذکر کرتے تھے کہ یحیی بن سعید نے عبدالرحمن بن حکم کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ان کے باپ عبد الرحمن نے اس مکان سے اٹھوا منگوایا تو حضرت عائشہ نے مروان کے پاس کہلا بھیجا خدا سے ڈر ان دنوں میں وہ مدینہ کا حاکم تھا اور عورت کو اسی گھر میں پہنچا دے جس میں طلاق ہوئی ہے سلیمان کی روایت میں ہے کہ مروان نے کہا عبدالرحمن مجھ پر غالب ہے اور قاسم کی روایت میں ہے کہ مروان نے حضرت عائشہ سے کہا کیا تم کو فاطمہ بنت قیس کی حدیث یاد نہیں حضرت عائشہ نے کہا اگر فاطمہ کی حدیث تم یاد نہ کرو تو کچھ ضرر نہیں مروان نے کہا اگر تمہارے نزدیک فاطمہ کی نقل مکان کرنے کی یہ وجہ تھی کہ جورو اور خاوند میں لڑائی تھی تو وہ وجہ یہاں بھی موجود ہے۔
نافع سے روایت ہے کہ سعید بن زید کی بیٹی عبداللہ بن عمرو بن عثمان کے نکاح میں تھی انہوں نے اس کو تین طلاقین دیں وہ اس مکان سے اٹھ گئی عبداللہ بن عمر نے اسے برا جانا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بی بی کو حضرت حفصہ کے مکان میں طلاق دی اور ان کے گھر میں سے مسجد کو راستہ جاتا تھا عبداللہ بن عمر گھروں کے پیچھے سے ہو کر دوسرے راستے سے جاتے تھے کیونکہ مکروہ جانتے تھے مطلقہ عورت کے گھر میں جانے کو اذن لے کر بغیر رجعت کے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ اگر عورت گھر میں کرایہ سے ہو اور خاوند طلاق دے دے تو عدت تک کرایہ کون دے گا سعید نے کہا خاوند دے گا اس نے کہا اگر خاوند کے پاس نہ ہو سعید نے کہا بی بی دے گی اس نے کہا اگر بی بی کے پاس بھی نہ ہو سعید نے کہا حاکم دے گا۔
فاطمہ بنت قیس کو ابو عمرو بن حفص نے طلاق بتہ دی اور وہ شام میں تھیں انہوں نے اپنے وکیل کو جو دے کر بھیجا فاطمہ بنت قیس خفا ہوئی وکیل بولا تمہارا تو کچھ نہیں دینا فاطمہ خفا ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک تیرا خرچ خاوند پر نہیں ہے۔ اور تو شریک کے گھر میں عدت گزار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ام شریک کے گھر میں رات دن میرے اصحاب آیا جایا کرتے ہیں عبداللہ بن مکتوم کے گھر میں تو عدت کر کیونکہ وہ اندھا ہے تو اگر تو اپنے کپڑے اتارے گی تو بھی کچھ قباحت نہیں جب تیری عدت گزر جائے تو مجھے کہنا فاطمہ بنت قیس نے کہا جب میری عدت گزر گئی تو میں نے حضرت سے کہا کہ معاویہ بن ابو سفیان اور ابو فہم بن ہشام دونوں نے مجھے پیام دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابو جہم تو اپنی لکڑی کبھی ہاتھ سے رکھتا ہی نہیں اور معاویہ مفلس ہیں ان کے پاس مال نہیں تو اسامہ بن زید سے نکاح کر میں نے اسامہ کو ناپسند کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا تو اسامہ سے نکاح کر فاطمہ نے کہا میں نے اسامہ سے نکاح کر لیا اللہ نے اس میں برکت دی اور لوگ رشک کرنے لگے۔
ابن شہاب کہتے ہیں جس عورت کو تین طلاق ہوئی ہوں وہ اپنے گھر سے نہ نکلے یہاں تک کہ عدت سے فارغ ہو اور اس کو نفقہ نہ ملے گا مگر جب حاملہ ہو تو وضع حمل تک ملے گا۔
کہا مالک نے اگر لونڈی کو غلام طلاق دے پھر وہ لونڈی آزاد ہو جائے تو اس کی عدت لونڈی کی سی ہے اس غلام کو رجعت کا حق باقی رہے یا نہ رہے۔
کہا مالک نے ایسا ہی اگر غلام پر حد واجب ہو پھر آزاد ہو جائے تو غلام ہی کی مثل حد رہے گی۔
کہا مالک نے آزاد شخص کو لونڈی پر تین طلاق کا اختیار ہے۔ مگر لونڈی کی عدت دو حیض ہیں اور غلام کو آزاد عورت پر دو طلاق کا اختیار ہے مگر عدت اس کی تین طہر ہیں۔
کہا مالک نے اگر لونڈی کسی کے نکاح میں ہو پھر خاوند اس کو خرید لے اور آزاد کر دے تو دو حیض سے عدت کرے اگر خرید نے کے بعد اس سے صحبت نہ کی ہو ورنہ ایک حیض سے استبراء کافی ہے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ جس عورت کو طلاق ہو پھر ایک یا دو حیض کے بعد اس کا حیض بند ہو جائے تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے گی اگر حمل معلوم ہو تو بہتر ہے ورنہ پھر تین مہینے عدت کر کے دوسرا نکاح کرے۔
سعید بن مسیب کہتے تھے کہ طلاق مردوں کے لحاظ سے ہے اور عدت عورتوں کے لحاظ سے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ مطلقہ عورت کا اگر حیض بند ہو جائے تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے اگر اس وقت تک بھی حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کرے اگر تین مہینے پورے ہونے سے پہلے حیض آنے لگے تو پھر عدت حیض سے شروع کرے اگر پھر نو مہینے تک حیض نہ آئے پھر تین مہینے عدت کرے اگر تین مہینے کے اندر پھر حیض آ جائے پھر حیض سے شروع کرے پھر اگر نو مہینے تک حیض نہ آئے تین مہینے عدت کرے اگر پھر ان تین مہینوں میں حیض آ جائے تو اب عدت حیضوں سے پوری ہو اور جب حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کر کے دوسرا نکاح کر لے اس تین برس کی عدت میں خاوند کو اختیار ہے رجعت کر لے مگر جب تین طلاق دے چکا ہو۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ اگر عورت مسلمان ہو جائے اور خاوند کافر ہو پھر خاوند بھی مسلمان ہو عدت کے اندر تو وہ عورت اسی کی رہے گی اگر عدت گزر جائے پھر عورت سے کچھ علاقہ نہ رہے گا البتہ نکاح کر سکتا ہے پھر تین طلاق کا مالک ہو گا کیونکہ عورت کے مسلمان ہونے سے طلاق نہیں پڑی بلکہ نکاح فسخ ہو گیا تھا۔
حضرت علی نے فرمایا جو اللہ جل جلالہ نے فرمایا اگر تم کو خاوند اور جورو کی آپس میں لڑائی کا خوف ہو تو ایک حاکم خاوند والوں میں سے مقرر کرو اور ایک حاکم جورو والوں میں سے اگر وہ بھلائی چاہیں گے تو اللہ اس کی توفیق دے گا بے شک اللہ جانتا خبرادر ہے ان حاکموں کو اختیار ہے کہ خاوند اور جورو میں تفریق کر دیں یا ملاپ کر دیں ،۔
کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا کہ حاکموں کا قول تفریق اور ملاپ میں معتبر اور نافذ ہے۔
حضرت عمر بن خطاب اور عبداللہ بن مسعود اور سالم بن عبداللہ اور قاسم بن محمد اور ابن شہاب اور سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ جو کوئی شخص قسم کھا لے کسی عورت کی طلاق پر نکاح سے پہلے پھر نکاح کے بعد وہ قسم ٹوٹے تو طلاق پر جائے گی۔
عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے جو شخص کہے میں جس عورت سے نکاح کروں اس عورت کو طلاق ہے اور کسی قبیلہ خاص اور عورت معین کا ذکر نہیں کیا تو یہ کلام لغو ہو جائے گا۔
کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت سے کہے اگر میں فلاں کام نہ کروں تو تجھ پر طلاق ہے اور جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے اور اس کا مال اللہ کی راہ میں صدقہ ہے پھر اس نے وہ کام نہ کیا تو اس کی عورت پر طلاق پڑ جائے گی مگر یہ جو کہا کہ جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے اگر کسی عورت معین یا قبیلہ معین کا نام نہ لیا تو لغو ہو جائے گی اور مال میں سے تلائی صدقہ دینا ہو گا۔
سعید بن مسیب کہتے تھے جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے پھر اس سے جماع نہ کر سکے اس کو ایک برس کی مہلت دی جائے اور اس عرصہ میں اگر جماع کرے گا تو بہتر نہیں تو تفریق کر دی جائے گی۔
امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ کب سے ایک برس کی مہلت دی جائے گی جس روز سے خلوت ہوئی یا جس روز سے مقدمہ پیش ہوا حکم کے سامنے انہوں نے کہا جس روز مقدمہ پیش ہوا اس روز سے دعوت دی جائے گی۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ثقفی شخص سے فرمایا جو مسلمان ہوا تھا اور اس کی دس بیبیاں تھیں چار کو رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔
ابن شہاب نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب اور حمید بن عبدالرحمن بن عوف اور عیبد اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود اور سلیمان بن یسار سے سنا سب کہتے تھے کہ ہم نے ابوہریرہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عمر سے سنا کہتے تھے کہ جس عورت کو اس کا خاوند ایک طلاق یا دو طلاق دے پھر چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے اور دوسرے خاوند سے نکاح کرے پھر وہ دوسرا خاوند مر جائے یا طلاق دے دے پھر اس سے پہلا خاوند نکاح کرے تو اس کو بقیہ ایک طلاق کا اختیار رہے گا۔
ثابت احنف نے عبدالرحمن بن زید بن خطاب کی ام ولد سے نکاح کیا ان کو عبداللہ نے بلایا جو عبدالرحمن بن زید بن خطاب کے بیٹے تھے ثابت نے کہا میں ان کے پاس گیا دیکھا تو کوڑے رکھے ہوئے ہیں اور لوہے کی دو بیڑیاں رکھی ہوئیں ہیں اور دو غلام حاضر ہیں عبداللہ نے مجھ سے کہا تو اس ام ولد کو طلاق دے دے نہیں تو میں تیرے ساتھ ایسا کروں گا میں نے کہا ایسا ہے تو میں نے اس کو ہزار طلاق دیں جب میں ان کے پاس سے گزرا تو مکہ کے راستے میں عبداللہ بن عمر مجھ کو ملے میں نے ان سے ذکر کیا وہ غصے ہوئے اور کہا یہ طلاق نہیں ہے اور وہ ام ولد تیرے اوپر حرام نہیں ہے تو اپنے گھر میں جا ثابت نے کہا مجھ کو ان سے تسکیں نہ ہوئی یہاں تک کہ کہ میں مکہ میں عبداللہ بن زبیر کے پاس آیا اور وہ ان دنوں میں مکہ کے حاکم تھے میں نے ان سے یہ قصہ بیان کیا اور عبداللہ بن عمر نے جو کہا تھا وہ بھی ذکر کیا عبداللہ بن زبیر نے کہا بے شک وہ عورت تجھ پر حرام نہیں ہوئی تو اپنی بی بی کے پاس جا جابر بن اسود زہری جو مدینہ کے حاکم تھے ان کو خط لکھا کہ عبداللہ بن عبدالرحمن کو سزا دو اور ان کی بی بی کو ان کے حوالے کر دو ثابت کہتے ہیں میں مدینہ آیا تو عبداللہ بن عمر کی بی بی صفیہ نے میری عورت کو بنا سنوار کے میرے پاس بھیجا عبداللہ بن معمر کی اطلاع سے پھر میں نے ولیمہ کی دعوت کی اور عبداللہ بن عمر کو بلایا وہ دعوت میں آئے۔
عبد اللہ بن دینار نے کہا میں نے عبداللہ بن عمر کو سنا یوں پڑھتے تھے اے نبی جب تم طلاق دو اپنی عورتوں کو تو ان کی عدت کے استقبال میں طلاق دو۔
عروہ بن زبیر کہتے تھے پہلے یہ دستور تھا کہ مرد اپنی عورت کو طلاق دیتا جب عدت گزرنے لگتی تو رجعت کر لینا ایسا ہی ہمیشہ کیا کرتا اگرچہ ہزار مرتبہ طلاق دے ایک شخص نے اپنی عورت کے ساتھ ایسا ہی کیا اس کو طلاق دی جب عدت گزرنے لگی تو رجعت کر لی پھر طلاق دیدی اور کہا قسم خدا کی نہ میں تجھے اپنے ساتھ ملاؤں گا اور نہ کسی اور سے ملنے دوں گا جب اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری طلاق دو دو بار یا پھر رکھ لو دستور کے موافق یا رخصت کر دو دستور کے موافق اس دن سے لوگوں نے نئے سرے سے طلاق شروع کی جنہوں نے طلاق دی تھی اور جنہوں نے نہ دی تھی سب نے۔
ثور بن زید دیلی سے روایت ہے کہ اگلے زمانہ میں لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دیتے تھے پھر رجعت کر لیتے تھے اور ان کے رکھنے کی نیت نہ ہوتی تھی تاکہ ان کی عدت بٹھ جائے اور ان کو ضرر پہنچے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری عورتوں کو ضرر پہنچانے کے لیے مت روک رکھو جو ایسا کرے گا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اللہ تعالیٰ لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہے۔
سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ جو شخص نشے میں مست ہو اور طلاق دے اس کا کیا حکم ہے دونوں نے کہا کہ طلاق پڑ جائے گی اور وہ نشے میں مار ڈالے کسی کو تو مارا جائے گا۔
سعید بن مسیب کہتے تھے جب خاوند جورو کو نان نفقہ نہ دے سکے تو تفریق کر دی جائے گی۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ سے سوال ہوا کہ حاملہ عورت کا خاوند اگر مر جائے تو وہ کس حساب سے عدت کرے ابن عباس نے کہا کہ دونوں عدتوں میں سے جو عدت دور ہو اس کو اختیار کرے اور ابوہریرہ نے کہا کہ وضع حمل تک انتظار کرے پھر ابو سلمہ کے پاس گئیں اور ان سے جا کر پوچھا انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد پندرہ دن میں جنی پھر دو شخصوں نے اس کو پیام بھیجا ایک نوجوان تھا دوسرا ادھیڑ وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئی ادھیڑ نے کہا تیری عدت ہی ابھی نہیں گزری اس خیال سے کہ اس کے عزیز وہاں نہ تھے جب وہ آئیں گے تو شاید اس عورت کو میری طرف مائل کر دیں پھر سبیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور یہ حال بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیری عدت گرز گئی تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔
عبد اللہ بن عمر سے سوال ہوا کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند مر جائے تو اس کی عدت کیا ہے عبداللہ بن عرم نے کہا جب وہ بچہ جنے اس کی عدت پوری ہو گئی اتنے میں ایک شخص انصاری نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا اگر خاوند کا جنازہ تخت پر رکھا ہوا ہو اور اس کی عورت بچہ جنے تو اس کی عدت گزر جائے گی۔
مسعور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کے مرنے کے بعد چند روز میں بچہ جنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اب تیری عدت گزر گئی جس سے چاہے نکاح کرے۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے اس عورت کی عدت میں اختلاف کیا جو پندرہ دن کے بعد اپنے خاوند کے مرنے کے بعد بچہ جنے ابو سلمہ نے کہا جب وہ بچہ جنے تو اس کی عدت گزر گئی اور عبداللہ بن عباس نے کہا نہیں دونوں عدتوں میں جو دور ہو وہاں تک انتظار کرے اتنے میں ابوہریرہ آئے انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی ابو سلمہ کے ساتھ ہوں پھر ان سب لوگوں نے اس مسئلے کو پوچھنے کے واسطے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس کریب کو بھیجا جو عبداللہ بن عباس کے مولیٰ تھے انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد چند روز کے بعد جنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا تو حلال ہو گئی جس سے چاہے نکاح کرے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اور ہمارے شہر کے عالم اسی مذہب پر رہے۔
زینت بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور پوچھا کہ مجھے اپنے لوگوں میں جانے کی اجازت ہے کیونکہ میرے خاوند کے چند غلام بھاگ گئے تھے وہ ان کو ڈھونڈ نے کو نکلے جب قدوم (ایک مقام ہے مدینہ سے سات میل پر) میں پہنچی وہاں غلاموں کو پایا اور غلاموں نے میرے خاوند کو مار ڈالا اور میرا خاوند میرے لیے نہ کوئی مکان ذات کا چھوڑ گیا ہے نہ کچھ خرچ دے گیا ہے اگر آپ کہئے تو میں اپنے کنبے۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ان عورتوں کو بیداء سے پھیر دیتے تھے حج کو نہ جانے دیتے تھے جو خاوند کے مرنے کے بعد سے عدت میں ہوتی تھیں۔
سائب بن خباب کا انتقال ہو گیا تو ان کی بی بی عبداللہ بن عمر کے پاس آئیں اور اپنے خاوند کا مرنا بیان کیا اور کہا کہ میری کچھ کھیتی ہے چاہے اگر آپ اجازت دیجیے تو میں شب کو وہاں رہا کروں انہوں نے اس سے منع کیا تو وہ مدینہ سے صبح کو جاتیں دن بھر اپنے کھیت میں رہتیں اور سارا دن وہاں کاٹتیں شام کو پھر مدینہ میں آ جاتیں اور رات پھر اپنے گھر میں بسر کرتیں۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے ان کے باپ عروہ کہتے تھے کہ جو لوگ جنگل میں رہا کرتے ہیں اگر ان میں سے کسی کا خاوند مر جائے تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہے جہاں وہ اتریں وہاں وہ بھی اترے۔ (عذر کی وجہ سے)
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے یا طلاق دے دے وہ رات کو اپنے گھر میں رہا کرے۔
قاسم بن محمد کہتے تھے کہ یزید بن عبدالملک نے مردوں اور ان عورتوں کے درمیان جو ام ولد تھیں تفریق کر دی اور ان کے مولی مر گئے تھے انہوں نے ایک حیض یا دو حیض کے بعد نکاح کر لیے تھے اور حکم دیا چار مہینے دس دن عدت کرنے کاتب قاسم بن محمد نے کہا سبحان اللہ اللہ فرماتا ہے جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بیبیاں چھوڑ جائیں وہ چار مہینے دس دن عدت کریں اور ام دلد بیبیوں میں داخل نہیں۔
عبد اللہ بن عمر نے کہا ام ولد کا مولی جب مر جائے تو ایک حیض تک عدت کرے۔
سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ لونڈی کا خاوند جب مر جائے تو اس کی عدت دو مہینے پانچ دن ہے۔
کہا مالک نے جو غلام لونڈی کو طلاق رجعی دے پھر مر جائے اور اس کی عورت عدت میں ہو تو اب دو مہینے پانچ دن تک عدت کرے۔ اگر وہ لونڈی آزاد ہو جائے اور اپنے خاوند سے جدا نہ ہونا چاہے یہاں تک کہ خاوند اس کا عدت میں مر جائے تو اب وہ لونڈی مثل آزاد عورت کے چار مہینے دس دن تک عدت کرے کیونکہ عدت وفات کے بعد آزادی کے اس پر لازم ہوئی تو مثل آزاد عورت کے کرنا چاہیے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
ابن محیریز سے روایت ہے کہ میں مسجد میں گیا وہاں ابو سعید خدری کو بیٹھے دیکھا میں نے پوچھا عزل درست ہوے انہوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوہ بن مصطلق میں گئے وہاں عورتیں کافروں کی قید ہوئی ہم لوگوں کو شہوت ہوئی اور مجردی دشوار گزری اور یہ بھی کہ ہم چاہتے تھے کہ ان عورتوں کو بیچ کر روپیہ حاصل کریں اس لے ہم نے چاہا کہ عزل کریں پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہیں بغیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھے کیونکر عزل کریں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عزل رکنے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ جس جان کو پیدا کرنا اللہ کو منظور ہے وہ خوار مخواہ پیدا ہو گی قیامت تک۔
حجاج بن عمرو بن غزیہ بن ثابت پاس بیٹھے تھے اتنے میں ابن فہد ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا اور کہا اے ابس سعید میرے پاس چند لونڈیاں ہیں جو میری بیبیوں سے بہتر ہیں مکر میں نہ نہیں چاہتا کہ وہ سب حاملہ ہو جائیں کیا میں اس سے عزل کروں زید نے حجاج سے کہا مسئلہ بتاؤ حجاج نے کہا اللہ تمہیں بخشے ہم تو تمہارے پاس علم سیکھنے کو آتے ہیں زید نے کہا بتاؤ جب میں نے کہا وہ کھیتیاں ہیں تیری تیرا جی چاہے ان میں پانی پہنچا یا جی چاہے سوکھا رکھ میں اسیا ہی سنا کرتا تھا زید سے زید نے کہا سچ بولا۔
ذفیف سے روایت ہے کہ ابن عباس سے سوال ہوا عزل کرنا درست ہے یا نہیں انہوں نے اپنی لونڈی کو بلا کر کہا تو ان کو بتا دے اس نے شرم کیا عبداللہ بن عباس نے کہا دیکھ لو ایسا ہی حکم ہے میں تو عزل کیا کرتا ہوں۔
کہا مالک نے آزاد عورت سے عزل کرنا بغیر اس کی اجازت کے درست نہیں اور اپنی لونڈی سے بغیر اس کی اجازت کے درست ہے اور پرائی لونڈی سے اس کے مالک کی اجازت لینا ضروری ہے۔
حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زبیب بنت ابی سلمہ نے تین حدیثیں ان سے بیان کیں ایک تو یہ کہ میں ام حبیبہ کے پاس گئی جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جب ان کے باپ ابو سفیان بن حرب مرے تھے تو ام حبیبہ نے خوشبو منگوائی جس روز دی ملی ہوئی تھی وہ خوشبو ایک لونڈی کے لگا کر اپنے کلوں پر لگا لی اور کہا کہ قسم خدا کی مجھ خوشبو کی احتیاج نہیں مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں کہ کسی مردے پر تین دن تک زیادہ سوگ کرے سوا خاوند کے کہ اس پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے دوسری حدیث یہ ہے کہ زینب نے کہا میں زینب بن جحش پاس جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گئی جب ان کے بھائی مر گئے تھے انہوں نے خوشبو منگا کر لگائی اور کہا قسم خدا کی مجھے خوشبو کی حاجت نہیں مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں کہ سوگ کرے کسی مردے پر تین روز سے زیادہ مگر خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔ تیسری حدیث یہ ہے کہ زینب نے کہا میں نے اپنی ماں ام سلمہ کے پاس گئی جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انہوں نے ایک عورت آ
حضرت ام المومنین عائشہ اور حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں سوگ کرنا کسی مردے پر تین راتوں سے زیادہ مگر خاوند پر۔
حضرت ام سلمہ نے ایک عورت سے کہا جو سوگ میں تھی اپنی خاوند کے اور اس کی آنکھ دکھتی تھی رات کو وہ سرمہ لگا لے جس سے آنگھ روشن ہو اور دن کو پونچھ ڈالے۔
سالم بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار کہتے تھے جس عورت کا خاوند مر جائے اور اس کو آنکھ کے آشوب یا کسی اور دکھ کی تکلیف ہو وہ سرمہ لگائے اور دو کرے اگرچہ اس میں خوشبو ہو۔
صفیہ بنت ابو عبید اپنے خاوند یعنی عبداللہ بن عمر کے سوگ میں تھیں انہوں نے سرمہ نہ لگایا اور ان کی آنکھیں دکھتی تھیں یہاں تک کہ چیپڑ آنے لگا۔
کہا مالک نے جو عورت سوگ میں ہو اپنے خاوند کے اور وہ زیور قسم سے کچھ نہ پہنے نہ انگوٹھی نہ پائے زیب نہ اور زیور نہ یمن کا کپڑا مگر جب موٹا اور سخت ہو نہ رنگا ہو کپڑا مگر سیاہ نہ کنگھی کرے نہ کھلی ڈالے مگر بیری وغیرہ کے پتوں سے بالوں کو دھو سکت ہے یا اور کسی چیز سے جس میں خوشبو نہ ہو
مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس گئے اور وہ اپنے خاوند ابو سلمہ کے سوگ میں تھیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر ایلوا لگایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نے پوچھا اے ام سلمہ؟ یہ کیا لگایا انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ ایلوا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رات کو لگایا کر اور دن کو پونچھ ڈالا کر۔
کہا مالک نے اگر عورت نابالغ ہو اس کو حیض نہ آتا ہو وہ بالغہ کی طرح ہے جب اس کا خاوند مر جائے تو سوگ کرے اور جن امور سے بالغہ کو پرہیز کرنا لازم ہے ان سے بھی پرہیز کرے۔