عمرو بن یحیی المازنی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن زید سے جو دادا ہیں عمرو بن یحیی کے اور اصحاب میں سے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کیا تم مجھ کو دکھا سکتے ہو کس طرح وضو کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کہا انہوں نے ہاں تو منگایا انہوں نے پانی وضو کا پھر ڈالا اس کو اپنے ہاتھ پر اور دھویا دونوں ہاتھوں کو دو دو بار پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین بار پھر دونوں ہاتھ دھوئے کہنیوں تک دو دو بار پھر مسح کیا سر کا دونوں ہاتھوں سے آگے سے لے گئے اور پیچھے سے لائے یعنی دونوں ہاتھوں سے مسح شروع کیا پیشانی سے گدی تک پھر لائے گدی سے پیشانی تک پھر دونوں پیر دھوئے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب وضو کرے تم میں سے کوئی تو پانی ڈال کر چھینکے اور ڈھیلے کے واسطے استنجاء لے تو طاق لے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص وضو کرے تو ناک چھنکے اور جو ڈھیلے لے تو طاق لے۔
کہا یحیی نے سنا میں نے مالک سے کہتے تھے اگر کوئی شخص ایک ہی چلو لے کر کلی کرے اور ناک میں بھی پانی ڈالے تو کچھ حرج نہیں ہے۔
امام مالک روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو پہنچا کہ عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق گئے ام المومنین کے پاس جس دن مرے سعد بن ابی وقاص تو منگایا عبدالرحمن نے پانی وضو کا پس کہا عائشہ نے پورا کرو وضو کو کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے خرابی ہے ایڑیوں کو آگ سے۔
عبدالرحمن بن عثمان سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب کہتے تھے کہ پانی سے دھوئے اپنے ستر کو۔
کہا یحیٰ نے پوچھا گیا امام مالک سے اس شخص کے بارے میں جس نے وضو کیا تو بھول کر قبل کلی کرنے کے منہ دھو لیا یا پہلے ہاتھ دھو لئے اور منہ نہ دھویا کہا امام مالک نے جس شخص نے منہ دھو لیا کلی کرنے سے پیشتر تو وہ کلی کر لے اور دوبارہ منہ نہ دھوئے لیکن جس نے ہاتھ دھو لئے منہ دھونے سے پیشتر تو اس کو چاہئے کہ منہ دھو کر ہاتھوں کو دوبارہ دھوئے تاکہ دھونا ہاتھ کا بعد دھونے منہ کے ہو جائے جب تک وضو کرنے والا اپنی جگہ میں ہے یا قریب اس کے۔
کہا یحیی نے پوچھے گئے امام مالک اس شخص سے جو وضو میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا اور نماز پڑھ لی کہا مالک نے ہو گئ نماز اس کی دوبارہ پھر نماز پڑھنا لازم نہیں لیکن آئندہ کی نماز کے واسطے کلی کر لے یا ناک میں پانی ڈال لے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب سو کر اٹھے کوئی تم میں سے تو پہلے اپنے ہاتھ دھو کر پانی میں ہاتھ ڈالے اس لئے کہ معلوم نہیں کہاں رہی ہتھیلی اس کی۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ کہا عمر بن خطاب نے جو شخص تم میں سے سو جائے لیٹ کر تو وضو کرے۔
زید بن اسلم نے کہا یہ جو فرمایا اللہ جل جلالہ نے جب اٹھو تم نماز کے لئے تو دھوؤ منہ اپنا اور ہاتھ اپنے کہنیوں تک اور مسح کرو سروں پر اور دھوؤ پاؤں اپنے ٹخنوں تک اس سے یہ غرض ہے کہ جب اٹھو نماز کے لئے سو کر۔
ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے پھر نماز پڑھتے تھے اور وضو نہیں کرتے تھے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تو کہا اس نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سوار ہوتے ہیں سمندر میں اور اپنے ساتھ پانی تھوڑا رکھتے ہیں اگر اسی سے وضو کریں تو پیاسے رہیں کیا سمندر کے پانی سے ہم وضو کریں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پاک ہے پانی اس کا حلال ہے مردہ اس کا۔
کبشہ بنت کعب سے روایت ہے کہ ابو قتادہ انصاری گئے ان کے پاس تو رکھا کبشہ نے ایک برتن میں پانی ان کے وضو کے لئے پس آئی بلی اس میں سے پینے کو تو جھکا دیا برتن کو ابو قتادہ نے یہاں تک کہ پی لیا بلی نے پانی۔ کہا کبشہ نے دیکھ لیا ابو قتادہ نے کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھتی ہوں تو پوچھا ابوقتادہ نے کیا تعجب کرتی ہو؟ اے بھتیجی میری میں نے کہا ہاں۔ تو کہا ابو قتادہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی ناپاک نہیں ہے وہ رات دن پھرنے والوں میں سے ہے تم پر۔
یحیی بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نکلے چند سواروں میں ان میں عمرو بن عاص بھی تھے راہ میں ایک حوض ملا تو عمرو بن عاص نے حوض والے سے پوچھا کہ تیرے حوض پر درندے جانور پانی پینے کو آتے ہیں تو کہا عمر بن خطاب نے اے حوض والے مت بتا ہم کو کس لئے کہ درندے کبھی ہم سے آگے آتے ہیں اور کبھی ہم درندوں سے آگے آتے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ مرد اور عورتیں وضو کرتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اکٹھا۔
ابراہیم بن عبدالرحمن کی ام ولد نے پوچھا ام المومنین ام سلمہ سے کہ میرا دامن نیچا اور لمبا رہتا ہے اور ناپاک جگہ میں چلنے کا اتفاق ہوتا ہے تو کہا ام سلمہ نے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پاک کرتا ہے اس کو جو بعد اس کے ہے
امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کو دیکھا کئی مرتبہ انہوں نے قے کی پانی کی اور وہ مسجد میں تھے پھر وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے خوشبو لگائی سعید بن زید کے بچے کو جو میت تھا اور اٹھایا اس کو پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دست کا گوشت بکری کا پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
سوید بن النعمان سے روایت ہے کہ وہ ساتھ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جس سال جنگ خبیر ہوئی یہاں تک کہ جب پہنچے صہبا میں پیچھے کی جانب خبیر سے مدینہ کی طرف اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ پھر عصر کی نماز پڑھی اور مانگا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے توشہ تو نہ آیا مگر ستو پس حکم کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے کھولنے کا سو کھولا گیا پھر کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور ہم لوگوں نے پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز مغرب کے لئے کلی کی اور ہم نے بھی کلیاں کر لیں پھر نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور وضو نہ کیا۔
ربیعہ بن عبداللہ نے حضرت عمر کے ساتھ شام کا کھانا کھایا پھر حضرت عمر نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
ابان بن عثمان سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان نے روٹی اور گوشت کھا کر کلی کی اور ہاتھ دھو کر منہ پونچھا پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
امام مالک کو پہنچا حضرت علی اور عبداللہ بن عباس سے کہ وہ دونوں وضو نہ کرتے تھے اس کھانے سے جو آگ سے پکا ہو۔
یحیی بن سعید نے پوچھا عبداللہ بن عامر سے کہ ایک شخص وضو کرے نماز کے لئے پھر کھائے وہ کھانا جو پکا ہوا ہو آگ سے کیا وضو کرے۔ دوبارہ کہا عبداللہ نے کہ دیکھا میں نے اپنے باپ عامر بن ربیعہ بن کعب بن مالک کو کہ وہ آگ کا پکا ہوا کھانا کھاتے پھر وضو نہیں کرتے تھے۔
ابو نعیم وہب بن کیسان نے سنا جابر بن عبداللہ سے کہ انہوں نے دیکھا ابوبکر صدیق کو گوشت کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت ہوئی کھانے کی تو سامنے کیا گیا ان کے روٹی گوشت پس کھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے اور وضو کر کے نماز پڑھی پھر اس کھانے کا بچا ہوا آیا اس کو کھا کر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا ،۔
عبدالرحمن بن زید انصاری سے روایت ہے کہ انس بن مالک جب آئے عراق تو گئے ان کی ملاقات کو ابو طلحہ اور ابی بن کعب تو سامنے کیا انس نے ان دونوں کے کھانا جو پکا ہوا تھا آگ سے پھر کھایا سب نے تو اٹھے انس اور وضو کیا پس کہا ابو طلحہ اور ابی بن کعب نے کہ کھانا کھا کر وضو کرنا کیا تم نے عراق سے سیکھا ہے پس کہا انس نے کاش میں وضو نہ کرتا اور کھڑے ہوئے ابو طلحہ اور ابی بن کعب تو نماز پڑھی دونوں نے اور وضو نہ کیا۔
عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوچھا گیا استنجاء کے بارے میں تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا نہیں پاتا کوئی تم میں سے تین پتھروں کو۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گئے مقبرہ کو سو کہا سلام ہے تمہارے پر اے قوم مومنوں کی اور ہم اگر خدا چاہے تو تم سے ملنے والے ہیں تمنا کی میں نے کہ میں دیکھ لوں اپنے بھائیوں کو تو کہا صحابہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا نہیں ہیں ہم بھائی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلکہ تم بھائیوں سے بڑھ کر اصحاب ہو میرے اور بھائی میرے وہ لوگ ہیں جو ابھی نہیں آئے دنیا میں اور میں قیامت کے روز ان کا پیش خیمہ ہوں گا حوض کوثر پر تب کہا صحابہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیونکر پہچانیں گے ان لوگوں کو قیامت کے روز جو دنیا میں بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیدا ہوں گے امت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم مجھ کو بتلاؤ کہ کسی شخص کے سفید منہ اور سفید پاؤں کے گھوڑے خالص مشکی گھوڑوں میں مل جائیں کیا وہ اپنے گھوڑے نہ پہچانے گا کہا صحابہ نے پہچانے گا پس فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ قیامت کے روز بھائی میرے آئیں گے چمکتے ہوں گے منہ اور پاؤں ان کے وضو سے اور میں ان کا پیش خیمہ ہوں گا حوض کوثر پر تو ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص نکالا جائے میرے حوض سے جیسے نکالا جاتا ہے وہ اونٹ جو اپنے مالک سے چھٹ گیا ہو تو پکاروں گا میں ان کو ادھر آؤ ادھر آؤ کہا جائے گا مجھ سے کہ ان لوگوں نے بدل دیا سنت تیری کو بعد تیرے تب میں کہنے لگوں گا دور ہو دور ہو۔
روایت ہے حمران سے جو غلام ہیں عثمان بن عفان کے کہ عثمان بن عفان بیٹھے تھے چبوترہ پر اتنے میں موذن آیا اور نماز عصر کی خبر دی حضرت عثمان نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر کہا کہ خدا کی قسم میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں اگر وہ حدیث اللہ کی کتاب میں نہ ہوتی تو میں بیان نہ کرتا سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے کہ کوئی آدمی نہیں ہے کہ وضو کرے اچھی طرح پھر نماز پڑھے مگر جتنے گناہ اس کے اس کی نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے معاف کر دئیے جائیں گے یہاں تک کہ دوسری نماز پڑھے۔
روایت ہے عبداللہ صنابحی سے کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت وضو شروع کرتا ہے بندہ مومن پھر کلی کرتا ہے نکل جاتے ہیں گناہ اس کے منہ سے پھر جس وقت ناک صاف کرتا ہے نکل جاتے ہیں گناہ اس کی ناک سے پھر جس وقت منہ دھوتا ہے نکل جاتے ہیں اس کے منہ سے یہاں تک کہ نکل جاتے ہیں پلکوں کے اگنے کی جگہ یعنی پپوٹوں سے پھر جس وقت مسح کرتا ہے سر کے گناہ نکل جاتے ہیں اس کے دونوں کانوں سے پھر جس وقت پاؤں دھوتا ہے نکل جاتے ہیں گناہ اس کے دونوں پاؤں کے ناخنوں سے پھر چلنا اس کا مسجد کی طرف اور نماز الگ ہے یعنی اس کا ثواب جدا گانہ ہے۔
روایت ہے ابوہریرہ سے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت وضو شروع کرتا ہے بندہ مسلمان یا مومن پھر دھوتا ہے منہ اپنا نکل جاتا ہے اس کے منہ سے وہ گناہ جو دیکھا تھا اس نے اپنی آنکھوں سے ساتھ پانی کے یا سات اخیر قطرہ کے پانی سے پھر جب ہاتھ دھوتا ہے نکل جاتا ہے اس کے ہاتھوں سے جو گناہ کہ پکڑا تھا اس کے ہاتھوں نے ساتھ پانی کے یا ساتھ اخیر قطرے پانی کے پھر جب دھوتا ہے وہ پاؤں اپنے نکل جاتا ہے جو گناہ کہ چلے تھے اس کے لئے پاؤں اس کے ساتھ پانی یا ساتھ آخر قطرے پانی کے یہاں تک کہ نکل آتا ہے پاک صاف گناہوں سے۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب قریب آگیا عصر کا وقت پس ڈھونڈا لوگوں نے پانی وضو کے لئے مگر نہ پایا اور ایک برتن میں پانی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا وضو کرنے کا انس کہتے ہیں کہ میں دیکھتا تھا پانی کا فوارہ نکلتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں کے نیچے سے پھر وضو کر لیا لوگوں نے یہاں تک کہ جو سب سے اخیر میں تھا اس نے بھی وضو کر لیا۔
نعیم بن عبداللہ نے سنا ابوہریرہ سے کہتے تھے جس نے وضو کیا اچھی طرح پھر نکلا نماز کی نیت سے تو وہ گویا نماز میں ہے جب تک نماز کا قصد رکھتا ہے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور دوسرے قدم پر ایک برائی مٹائی جاتی ہے تو جب کوئی تم میں سے تکبیر نماز کی سنے تو نہ دوڑے کیونکہ زیادہ ثواب اسی کو ہے جس کا مکان زیادہ دور ہو کہا انہوں نے کیوں اے ابوہریرہ کہا اس وجہ سے کہ اس کے قدم زیادہ ہوں گے
سعید بن مسیب سوال کئے گئے بعد پاخانے کے پانی لینے سے تو کہا کہ یہ طہارت عورتوں کی ہے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب پی جائے کتا تمہارے کسی برتن میں تو دھوئے اس کو سات بار۔
مالک کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدھی راہ پر رہو اور نہ شمار کر سکو گے اس کے ثواب کا یا نہ طاقت رکھو گے تم استقامت کی اور سب کاموں میں تمہارے بہتر نماز ہے اور نہیں محافظت کرے گا وضو پر مگر مومن۔
مالک کو پہنچا کہ جابر بن عبداللہ انصاری پوچھے گئے عمامہ پر مسح کرنے سے تو کہا کہ نہ کرے یہاں تک کہ مسح کرے بال کا پانی سے۔
نافع سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا صفیہ کو جو بیوی تھیں عبداللہ بن عمر کی اتارتی تھیں اس کپڑے کو جس سے سر ڈھانپتے ہیں اور مسح کرتی تھیں اپنے سر پر پانی سے اور نافع اس وقت نابالغ تھے۔
مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گئے حاجت ضروری کو جنگ تبوک میں تو میں نے پانی ساتھ لے کر گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہو کر آئے میں نے پانی ڈالا تو دھویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منہ اپنا پھر نکالنے لگے ہاتھ اپنے جبہ کی آستینوں سے مگر وہ اس قدر تنگ تھیں کہ ہاتھ نہ نکل سکے آخر نکالا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھوں کو جبہ کے نیچے سے اور ہاتھ دھوئے اور مسح کیا سر پر اور موزوں پر پھر آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو عبدالرحمن بن عوف امامت کر رہے تھے اور ایک رکعت ہو چکی تھی پس پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت جو باقی تھی عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے اور لوگ گھبرائے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا کہ اچھا کیا تم نے۔
نافع اور عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر آئے کوفے میں سعد بن ابی وقاص پر اور وہ حاکم تھے کوفہ کے تو دیکھا ان کو عبداللہ نے کہ مسح کرتے ہیں موزوں پر پس انکار کیا اس فعل کا عبداللہ نے۔ کہا سعد نے تم اپنے باپ سے پوچھنا جب جانا تو جب آئے عبداللہ بھول گئے پوچھنا اپنے باپ سے یہاں تک کہ سعد آئے اور انہوں نے کہا ذکر کیا تم نے اپنے باپ سے پوچھا تھا عبداللہ نے کہا نہیں پھر پوچھا عبداللہ نے تو فرمایا حضرت عمر نے جب ڈالے تو پاؤں اپنے موزوں کے اندر اور پاؤں پاک ہوں تو مسح کر موزوں پر کہا عبداللہ نے اگرچہ ہم پائخانہ سے ہو کر آئیں کہا ہاں اگرچہ کوئی تم میں سے پائخانہ سے ہو کر آئے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے پیشاب کیا بازار میں پھر وضو کیا اور دھویا منہ اور ہاتھوں کو اپنے اور مسح کیا سر پر پھر بلائے گئے جنازہ کی نماز کے لئے جب جا چکے مسجد میں تو مسح کیا موزوں پر پھر نماز پڑھی جنازہ پر۔
سعید بن عبدالرحمن نے دیکھا انس بن مالک کو آئے وہ قبا کو تو پیشاب کیا پھر لایا گیا پانی وضو کا تو وضو کیا دھویا منہ کو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک اور مسح کیا سر پر اور مسح کیا موزوں پر پھر مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کو دیکھا جب مسح کرتے موزوں پر تو مسح کرتے موزوں کی پشت پر نہ کہ اندر کی جانب۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب نکسیر پھوٹتی ان کی نماز میں پھر آتے اور وضو کر کے لوٹ جاتے پھر بناکرتے اور بات نہ کرتے۔
امام مالک کو پہنچا عبداللہ بن عباس کے نکسیر پھوٹتی تو باہر جا کر خون دھوتے پھر لوٹ کر بنا کر لیتے جس قدر کہ پڑھ چکے تھے۔
یزید بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب کے نکسیر پھوٹی نماز میں تو آئے حجرہ میں ام سلمہ کے جو بی بی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پھر لایا گیا پانی وضو کا تو وضو کیا پھر لوٹ گئے اور بنا کر لی نماز اپنی سابق پر۔
عبدالرحمن بن سعید بن مسیب کو دیکھا کہ ان کی نکسیر پھوٹتی اور خوں نکلتا یہاں تک کہ انگلیاں ان کی رنگین ہو جاتیں اس خون سے پھر نماز پڑھتے اور وضو نہ کرتے۔
عبدالر حمن سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا سالم بن عبداللہ بن عمر کو خون نکلتا تھا ان کی ناک سے یہاں تک کہ رنگین ہو جاتی تھیں انگلیاں ان کی پھر آئل ڈالتے تھے اس کو پھر نماز پڑھتے اور وضو نہ کرتے۔
مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ وہ گئے حضرت عمر کے پاس اس رات کو جس میں وہ زخمی ہوئے تھے تو جگائے گئے حضرت عمر نماز صبح کے واسطے پس فرمایا کہ ہاں اور اچھا نہیں حصہ اس شخص کا اسلام میں جو ترک کرے نماز کو تو نماز پڑھی حضرت عمر نے اور زخم سے ان کے خوں بہتا تھا۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ جس شخص کا خون نکسیر پھوٹنے سے جاری رہے اور خون بند نہ ہو تو اس کے حق میں تم کیا کہتے ہو یحیی بن سعید نے پھر کہا سعید بن مسیب نے کہ میرے نزدیک نماز اشارہ سے پڑھ لے۔
مقداد بن الاسود کو حکم کیا حضرت علی نے کہ پوچھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جب کوئی مرد نزدیکی کرے اپنی عورت سے اور نکل آئے مذی تو کیا لازم ہوتا ہے اس شخص پر؟ کہا علی نے کہ آنحضرت کی صاحبزادی میرے نکاح میں ہیں اس سبب سے مجھے پوچھنے میں شرم آتی ہے تو پوچھا مقداد نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کسی کو ایسا اتفاق ہو تو دھو ڈالو ذکر کو پانی سے اور وضو کرے جیسے وضو ہوتا ہے نماز کے لئے۔
اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے کہا مذی اس طرح گرتی ہے مجھ سے جیسے بلور کا دانہ تو جب ایسا اتفاق ہو تم میں کسی کو تو دھو ڈالے اپنے ذکر کو اور وضو کرے جیسے وضو کرتا ہے نماز کے لئے۔
جندب سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے عبداللہ بن عمر سے مذی کا حکم تو کہا انہوں نے جب دیکھے تو مذی کو دھو ڈال ذکر کو اپنے اور وضو کر جیسے وضو کرتا ہے نماز کے لئے۔
یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب سے پوچھا ایک شخص نے اور میں سنتا تھا کہ مجھے تری معلوم ہوتی ہے نماز میں کیا توڑ دوں میں نماز کو تو کہا سعید نے کہ اگر بہہ آئے میری ران تک تو نہ توڑوں میں نماز کو یہاں تک کہ تمام کروں نماز کو۔
صلت بن زبید سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سلیمان بن یسار سے کہ تری پاتا ہوں میں۔ کہا پانی چھڑک لے اپنے تہبند یا ازار پر اور غافل ہو جا اس سے یعنی اس کا خیال مت کر اور بھلا دے اس کو۔
عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا عروہ بن زبیر سے کہ میں گیا مروان بن الحکم کے پاس اور ذکر کیا ہم نے ان چیزوں کا جن سے وضو لازم آتا ہے عروہ نے کہا میں اس کو نہیں جانتا مروان نے کہا مجھے خبر دی بسرہ بنت صفوان نے اس نے سنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے جب چھوئے تم میں سے کوئی اپنے ذکر کو تو وضو کرے۔
مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ میں کلام اللہ لئے رہتا تھا اور سعد بن ابی وقاص پڑھتے تھے ایک روز میں نے کھجایا تو سعد نے کہا کہ شاید تو نے اپنے ذکر کو چھوا میں نے کہا ہاں تو سعد نے کہا اٹھ وضو کر سو میں کھڑا ہوا اور وضو کیا پھر آیا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب چھوئے تم میں سے کوئی ذکر اپنا تو واجب ہوا اس پر وضو
عروہ بن زبیر کہتے تھے جو شخص چھوئے ذکر کو اپنے تو واجب ہوا اس پر وضو۔
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا اپنے باپ عبداللہ بن عمر کو غسل کر کے پھر وضو کرتے ہیں تو پوچھا میں نے اے باپ میرے کیا غسل کافی نہیں ہے وضو سے کہا ہاں کافی ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعد غسل کے چھو لیتا ہوں ذکر اپنا تو وضو کرتا ہوں۔
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں سفر میں ساتھ تھا عبداللہ بن عمر کے تو دیکھا میں نے جب آفتاب نکلا تو وضو کیا انہوں نے اور نماز پڑھی میں نے کہا کہ آج آپ نے ایسی نماز پڑھی جس کو آپ نہ پڑھتے تھے کہا عبداللہ بن عمر نے کہ آج میں نے وضو کر کے اپنے ذکر کو چھو لیا تھا پھر وضو کرنا بھول گیا اور نماز صبح کی میں نے پڑھ لی اس لئے میں نے اب وضو کیا اور نماز کو دوبارہ پڑھ لیا۔
عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ بوسہ لینا مرد کا اپنی عورت کو اور چھونا اس کا ہاتھ سے ملامست میں داخل ہے تو جو شخص بوسہ لے اپنی عورت کا یا چھوئے اس کو اپنے ہاتھ سے تو اس پر وضو ہے۔
مالک کو پہنچا عبداللہ بن مسعود سے کہتے تھے بوسہ سے مرد کے اپنی عورت کو وضو لازم آتا ہے۔
ابن شہاب زہری کہتے تھے بوسہ سے مرد کے اپنی عورت کو وضو لازم آتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت جب غسل کرتے جنابت سے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے پھر وضو کرتے جیسے وضو ہوتا ہے نماز کے لئے پھر انگلیاں اپنی پانی میں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا انگلیوں سے خلال کرتے پھر اپنے سر پر تین چلو دونوں ہاتھوں سے بھر کر ڈالتے پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم غسل کرتے تھے اس برتن میں جس میں تین صاع پانی آتا تھا جنابت سے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب غسل جنابت شروع کرتے تو پہلے اپنا داہنا ہاتھ پانی ڈال کر دھوتے پھر اپنی شرمگاہ دھوتے پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے پھر منہ دھوتے اور آنکھوں کے اندر پانی مارتے پھر داہنا ہاتھ دھوتے پھر بایاں ہاتھ دھوتے پھر سارے بدن پر پانی ڈال کر غسل کرتے۔
امام مالک کو پہنچا کہ عائشہ ام المومنین سے پوچھا گیا کس طرح غسل کرے عورت جنابت سے کہا کہ ڈالے اپنے سر پر تین چلو دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر اور ملے اپنے سر کر دونوں ہاتھوں سے۔
سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عائشہ کا قول یہی تھا کہ جب مس کرے ختنہ ختنہ سے یعنی سر ذکر عورت کی قبل میں غائب ہو جائے تو واجب ہوا غسل۔
ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا حضرت عائشہ سے کس چیز سے غسل واجب ہوتا ہے تو کہا حضرت عائشہ نے کہ تو جانتا ہے اپنی صفت کو اے ابو سلمہ صفت تیری مثل چوزہ مرغ کے ہے جب مرغ کو بانگ کرتے سنتا ہے تو آپ بھی بانگ کرنے لگتا ہے جب تجاوز کرے ختنہ ختنے سے تو واجب ہوا غسل۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ابو موسیٰ اشعری آئے حضرت عائشہ کے پاس اور کہا ان سے کہ بہت سخت گزرا مجھ کو اختلاف صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک مسئلے میں شرماتا ہوں کہ ذکر کروں اس کو تمہارے سامنے تو فرمایا عائشہ نے کہ کیا ہے وہ مسئلہ جو تو اپنی ماں سے پوچھ لے مجھ سے کہا ابو موسیٰ نے کوئی جماع کرے اپنی بیوی سے پھر دخول کرے لیکن انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے اس نے کہا کہ جب تجاوز کر جائے ختنہ ختنے سے واجب ہوا غسل کہا ابو موسیٰ نے کہ اب نہ پوچھوں گا اس مسئلے کو کسی سے بعد تمہارے۔
محمود بن لبید انصاری نے پوچھا زید بن ثابت انصاری سے کہا ایک شخص جماع کرے اپنی بیوی سے پھر دخول کرے لیکن انزال نہ ہو کہا زید نے غسل کرے کہا محمود نے کہ ابی بن کعب اس صورت میں غسل کو واجب نہیں جانتے تھے کہا زید نے کہ ابی بن کعب قبل موت کے پھر گئے اس قول سے۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جب تجاوز کرے ختنہ ختنہ سے واجب ہوا غسل۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ اسے رات کو نہانے کی حاجت ہوتی ہے تو فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کر لے اور دھو لے ذکر اپنے کو پھر سو جائے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں جب کوئی تم میں سے جماع کرے اپنی عورت سے پھر سونا چاہے قبل غسل کرے تو یہ سوئے یہاں تک کہ وضو کر لے جیسے کہ وضو ہوتا ہے نماز کے لئے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ جب سو رہنے یا کھانے کا ارادہ رکھتے حالت جنابت میں منہ دھوتے اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک اور سر پر مسح کرتے پھر کھانا کھاتے یا سو رہتے۔
عطا بن یسار سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیر کہی کسی نماز میں نمازوں میں سے پھر اشارہ کیا مقتدیوں کو اپنے ہاتھ سے اس بات کا کہ اپنی جائے پر جمے رہو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم گئے گھر میں بعد اس کے لوٹ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بدن پر پانی کے نشان تھے۔
زیبد بن صلت سے روایت ہے کہ نکلا میں ساتھ عمر بن خطاب کے جرف تک تو دیکھا عمر نے اپنے کپڑے کو اور پایا نشان احتلام کا اور نماز پڑھ چکے تھے بغیر غسل کے تب کہا قسم اللہ کی نہیں دیکھتا ہوں میں اپنے کو مگر مجھے احتلام ہوا اور خبر نہ ہوئی اور نماز پڑھ لی اور غسل نہیں کیا کہا زبید نے پس غسل کیا حضرت عمر نے اور دھویا جو نشان دکھائی دیا کپڑے میں اور جو نہ دکھائی دیا اس پر پانی چھڑک دیا اور اذان کہی یا اقامت کہی پھر نماز پڑھی جب آفتاب بلند ہو گیا اطمینان سے۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب صبح کو گئے اپنی زمین میں جو جرف میں تھی پس دیکھا اپنے کپڑے میں نشان احتلام کا پھر کہا میں مبتلا ہو گیا احتلام میں جب سے خلیفہ ہوا پھر غسل کیا اور دھویا جو نشان پایا اپنے کپڑے میں احتلام کا پھر نماز پڑھی جب آفتاب نکل آیا
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے صبح کی نماز پڑھائی لوگوں کو پھر گئے اپنی زمین کی طرف جو جرف میں تھی پس دیکھا اپنے کپڑے میں نشان احتلام کا تو کہا کہ جب سے ہم کھانے لگے چربی نرم ہو گئیں رگیں پھر غسل کیا اور دھویا احتلام کے نشان کو اپنے کپڑے سے اور لوٹا یا نماز کو۔
یحیی بن عبداللہ بن حاطب سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرہ کیا ساتھ عمر بن خطاب سے کئی شتر سواروں میں ان میں عمرو بن عاص بھی تھے اور عمر بن خطاب رات کو اترے قریب پانی کے تو احتلام ہوا حضرت عمر کو اور صبح قریب تھی اور قافلہ میں پانی نہ تھا تو سوار ہو کے حضرت عمر یہاں تک کہ آئے پانی کے پاس اور دھونے لگے کپڑے اپنے یہاں تک کہ روشنی ہو گئی اور عمر بن عاص نے کہا حضرت عمر سے صبح ہو گئی ہمارے پاس کپڑے ہیں اپنا کپڑا چھوڑ دیجئے دھو ڈالا جائے گا اور ہمارے کپڑوں میں سے ایک کپڑا پہن لیجئے تو کہا عمر بن خطاب نے کہ تعجب ہے اے عمرو بن عاص کیا تمہارے پاس کپڑے ہیں تو تم سمجھتے ہو کہ سب آدمیوں کے پاس کپڑے ہوں گے قسم خدا کی اگر میں ایسا کروں تو یہ امر سنت ہو جائے بلکہ دھو ڈالتا ہوں میں یہاں نجاست معلوم ہوتی ہے اور پانی چھڑک دیتا ہوں جہاں نہیں معلوم ہوتی۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ام سلیم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عورت دیکھے خواب میں جیسا کہ مرد دیکھتا ہے کیا غسل کرے تو کہا عائشہ نے ام سلیم کو نوج نگوڑی کیا عورت بھی دیکھتی ہے خواب میں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاک آلود ہو داہنا ہاتھ تیرا اور کہاں سے ہوتی ہے مشابہت۔
ام سلمہ سے روایت ہے ام سلیم آئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تو کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہیں شرماتا اللہ سچ سے کیا عورت پر بھی غسل ہے جو اس کو احتلام ہو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں جب کہ دیکھے پانی کو۔
عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کچھ مضائقہ نہیں کہ مرد غسل کرے اس پانی سے جو عورت کی طہارت سے بچا ہو جبکہ وہ عورت حیض اور جنابت سے نہ ہو۔
عبد اللہ بن عمر کو پسینہ آتا کپڑے میں اور وہ جنبی ہوتے تھے پھر اسی کپڑے سے نماز پڑھتے تھے۔
ابن عمر کی لونڈیاں ان کے پاؤں دھوتی تھیں اور ان کو جائے نماز اٹھا کر دیتی تھیں حالت حیض میں۔
عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی سفر میں تو جب پہنچے ہم بیدا یا ذات الجیش کو گلوبند میرا ٹوٹ کر گر پڑا تو ٹھہر گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے ڈھونڈنے کے لئے اور لوگ بھی ٹھہر گئے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور وہاں پانی نہ تھا اور نہ ساتھ لوگوں کے پانی تھا تب لوگ آئے ابوبکر صدیق کے پاس اور کہا کہ دیکھا تم نے کیا عائشہ نے ٹھہرا دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور لوگوں کو اور نہ یہاں پانی ہے نہ ہمارے ساتھ پانی ہے تو ابوبکر آئے میرے پاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنا سر میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے تو کہا ابوبکر نے روک دیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور لوگوں کو اور نہ پانی ملتا ہے نہ ان کے پاس پانی ہے کہا عائشہ نے غصہ ہوئے میرے اوپر ابوبکر اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں مارنے لگے تو میں ہل جاتی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک میری ران پر تھا اس وجہ سے میں نہ ہل سکتی تھی پس سوتے رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہاں تک کہ صبح ہوئی اور پانی نہ تھا تو اتاری اللہ جل جلالہ نے آیت تیمم کی تب کہا اسی دن اسید بن الحضیر نے کہا اے ابوبکر کے گھر والوں یہ کچھ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے یعنی تم سے ہمیشہ ایسی ہی برکتیں اور راحتیں مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہیں کہا عائشہ نے جب ہم چلنے لگے تو وہ گلو بن اس اونٹ کے نیچے سے نکلا جس پر ہم سوار تھے۔
نافع کہتے ہیں کہ میں اور عبداللہ بن عمر جرف سے آئے تو جب پہنچے مربد کو اترے عبداللہ اور متوجہ ہوئے پاک زمین کی طرف تو مسح کیا اپنے منہ کا اور ہاتھوں کا کہنیوں تک پھر نماز پڑھی۔
عبدالرحمن بن حرملہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ جنبی نے تیمم کیا پھر پایا پانی کو تو کہا سعید نے کہ جنبی پائے پانی تو اس پر غسل واجب ہو گا آئندہ کے واسطے۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کیا درست ہے مجھ کو اپنی عورت سے جب وہ حائضہ ہو تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باندھ اس پر تہ بند اس کے پھر تجھے اختیار ہے تہ بند کے اوپر۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ لیٹی تھیں ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک کپڑے میں اتنے میں کود کر الگ ہو گئیں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شائد حیض آیا تجھ کو کہا ہاں تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باندھ لے تہ بند اپنے پھر آ کر وہیں لیٹ جا۔
نافع سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر نے بھیجا کسی آدمی کو حضرت عائشہ کے پاس اور کہا پوچھو آیا کہ مرد مباشرت کرے اپنی عورت سے حالت حیض میں تو کہا حضرت عائشہ نے چاہیے کہ باندھ لے تہ بند نیچے کے جسم پر پھر اگر چاہے مباشرت کرے اس سے۔
امام مالک کو پہنچا کہ سالم بن عبداللہ بن عمر اور سلیمان بن یسار پوچھے گئے حائضہ عورت سے جب پاک ہو جائے تو جماع کرے خاوند اس کا قبل غسل کے کہا ان دونوں نے نہیں جب تک غسل نہ کرے۔
مرجانہ سے جو ماں ہیں علقمہ کی اور مولاۃ ہیں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ عورتیں ڈبیوں میں روئی رکھ کر حضرت عائشہ کو دکھانے کو بھیجتی تھیں اور اس روئی میں زردی ہوتی تھی حیض کے خون کی پوچھتی تھیں کہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو کہتی تھیں حضرت عائشہ مت جلدی کرو تم نماز میں یہاں تک کہ دیکھو سفید قصہ مراد یہ تھی کہ پاک ہو جاؤ حیض سے۔
ام کلثوم سے جو بیٹی ہیں زید بن ثابت کی روایت ہے کہ ان کو خبر پہنچی اس بات کی کہ عورتیں منگاتی ہیں چراغ بیچا بیچ رات کو اور دیکھتی ہیں کہ حیض سے پاک ہوئیں ام کلثوم عیب جانتی تھیں اس بات کو اور کہتی تھیں کہ صحابہ کی عورتیں ایسا نہیں کرتیں تھیں۔
امام مالک کو پہنچا حضرت عائشہ سے کہا کہ انہوں نے عورت حاملہ اگر دیکھے خون کو تو چھوڑ دے نماز کو۔
امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ عورت حاملہ اگر دیکھے خون کو تو کہا ابن شہاب نے باز رہے نماز سے۔
حضرت عائشہ نے کہا کنگھی کرتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک میں اور حائضہ ہوتی تھی۔
اسما بنت ابی بکر صدیق سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ اگر ہمارے کپڑے کو خون حیض کا لگ جائے تو کیا کریں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب بھر جائے کسی ایک کے کپڑے میں تم سے خون حیض کا تو مل ڈالے اس کو پھر دھو ڈالے پانی سے پھر نماز پڑھے اس کپڑے سے۔
عائشہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بن ابی حبیش نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں پاک نہیں ہوتی ہوں تو کیا چھوڑ دوں نماز کو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خون کسی رگ کا ہے اور حیض نہیں ہے تو جب حیض آئے تو چھوڑ دے نماز کو پھر جب مدت گزر جائے تو خون دھو کر نماز پڑھ لے۔
ام سلمہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا خون بہا کرتا تھا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں تو فتوی پوچھا اسی کے واسطے ام سلمہ نے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ شمار کرے ان دنوں اور راتوں کا جن میں حیض آتا تھا قبل اس بیماری کے تو چھوڑ دے نماز کو اس قدر مدت میں ہر مہینے سے پس جب گزر جائے وہ مدت تو غسل کرے اور ایک کپڑا باندھ لے فرج پر پھر نماز پڑھے۔
زینب بن ابی سلمہ نے دیکھا زینب بنت جحش کو جو نکاح میں تھیں عبدالرحمن بن عوف کے ان کو استحاضہ تھا اور وہ غسل کر کے نماز پڑھتی تھیں۔
قعقاع بن حکیم اور زید بن اسلم نے سمی کو بھیجا سعید بن مسیب کے پاس کہ پوچھیں ان سے کیوں کر غسل کرے مستحاضہ کہا سعید نے غسل کرے ایک طہر سے دوسرے طہر تک اور وضو کرے ہر نماز کے لئے تو اگر خون بہت آئے تو ایک کپڑا باندھ لے اپنی فرج پر۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہا انہوں نے مستحاضہ پر ایک ہی غسل ہے پھر وضو کیا کرے ہر نماز کے لئے۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک لڑکا لائے سو اس نے پیشاب کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے پر پس منگوایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی تو ڈال دیا اس پر۔
ام قیس سے روایت ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کو جس نے نہ کھانا کھایا تھا لے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تو بٹھا لیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بچے کو گود میں اپنی تو پیشاب کر دیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے پر پس منگایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی اور ڈال دیا اس پر اور نہ دھویا کپڑے کو۔
یحیی بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں آیا اور ستر اپنا کھولا پیشاب کے لئے تو غل مچایا لوگوں نے اور بڑا پکارا تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوڑ دو اس کو پس چھوڑ دیا لوگوں نے جب وہ پیشاب کر چکا تو حکم کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ڈول پانی کا ڈال دیا گیا اس جگہ پر۔
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو کھڑے کھڑے پیشاب کرتے۔
عبید اللہ بن سباق سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی جمعہ کو فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس کو اللہ تعالی نے عید کا دن کہا ہے تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو آج کے دن خوشبو لگانا نقصان نہیں ہے اور لازم کر لو تم مسواک کو۔