مؤطا امام مالک

کتاب القبلہ

قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا پاخانہ یا پیشاب کے وقت

ابو ایوب انصاری سے روایت ہے جو صحابی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہ وہ مصر میں کہتے تھے قسم خدا کی میں کیا کروں ان پائخانوں کا حالانکہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب جائے کوئی تم میں سے پائخانہ یا پیشاب کو تو نہ منہ کرے قبلہ کی طرف اور نہ پیٹھ کرے۔

قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا پاخانہ یا پیشاب کے وقت

ایک مرد انصاری سے روایت ہے کہ اس نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منع کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ کی طرف منہ کرنے سے پیشاب یا پائخانہ میں۔

قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا پاخانہ یا پیشاب کے وقت

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے بعض لوگ سمجھتے ہیں جب تو اپنی حاجت کو جائے تو منہ نہ کر قبلہ اور بیت المقدس کی طرف عبداللہ بن عمر نے کہا میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو اینٹوں پر حاجت ادا کر رہے ہیں منہ ان کا بیت المقدس کی طرف ہے پھر کہا عبداللہ بن عمر نے واسع بن حبان سے شاید تو ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں واسع نے کہا میں نہیں سمجھا کہا مالک نے اس قول کی تفسیر میں وہ لوگ ہیں جو سجدہ میں زمین سے لگ جاتے ہیں اور اپنی پیٹھ کو سرین سے جدا نہیں رکھتے۔

قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تھوک پڑا ہے قبلہ کی دیوار پر سو چھڑایا اس کو پھر متوجہ ہوئے لوگوں پر اور فرمایا جب کوئی تم میں سے نماز پڑھے تو اپنے سامنے نہ تھوکے اس لئے کہ اللہ اس کے سامنے ہے جب وہ نماز پڑھ رہا ہے۔

قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا دیوار میں قبلہ کے تھوک یا رینٹ یا بلغم تو چھڑا دیا اس کو۔

قبلہ کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے مسجد قبا میں صبح کی اتنے میں ایک شخص آ کر بولا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر رات کو قرآن اترا اور حکم ہوا کعبہ کی طرف منہ کرنے کا پھر گئے وہ لوگ نماز میں کعبہ کی طرف اور پہلے منہ ان کے شام کی طرف تھے۔

قبلہ کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعد مدینہ میں آنے کے سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف پھر قبلہ بدل گیا دو مہینے پہلے جنگ بدر سے

قبلہ کا بیان

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا درمیان پورب اور پچھم کے قبلہ ہے جب منہ کرے خانہ کعبہ کی طرف۔

مسجد نبوی کی فضلیت کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک نماز پڑھنا میری مسجد میں بہتر ہے ہزار نمازوں سے دوسری مسجد میں سوائے مسجد حرام کے۔

مسجد نبوی کی فضلیت کا بیان

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے گھر اور منبر کے بیچ میں ایک باغیچہ ہے جنت کے باغیچوں میں سے اور منبر میرا حوض پر ہے۔

مسجد نبوی کی فضلیت کا بیان

عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے گھر اور منبر کے بیچ میں ایک باغیچہ ہے جنت کے باغوں میں سے۔

عورتوں کا مسجد میں جانے کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مت منع کرو اللہ جل جلالہ کی لونڈیوں کو مسجد میں آنے سے۔

عورتوں کا مسجد میں جانے کا بیان

بسر بن سعید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی عورت عشاء کی جماعت میں آئے تو خوشبو لگا کر نہ آئے۔

عورتوں کا مسجد میں جانے کا بیان

حضرت عمر بن خطاب کی بی بی عاتکہ اجازت مانگتی تھیں حضرت عمر سے مسجد جانے کی تو چپ ہو جاتے حضرت عمر پس کہتیں عاتکہ میں تو قسم خدا کی جاؤں گی جب تک تم منع نہ کروں گے تو نہیں منع کرتے تھے حضرت عمر ان کو۔

عورتوں کا مسجد میں جانے کا بیان

حضرت ام المومنین عائشہ نے کہا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دیکھتے جو اس زمانے میں عورتوں نے نکالا ہے البتہ روک دیتے ان کو مسجدوں میں جانے سے جیسے روک دی گئیں عورتیں بنی اسرائیل کی کہا یحیی بن سعید نے میں نے پوچھا عمرہ سے کیا بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئیں تھیں مسجدوں سے؟ کہا ہاں۔

قرآن چھونے کے واسطے با وضو ہونا ضروری ہے

عبداللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لکھی تھی عمرو بن حزم کے واسطے اس میں یہ بھی تھا کہ قرآن نہ چھوئے مگر جو شخص با وضو ہو۔

کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت

محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آ کر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضو کے حضرت عمر نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا

کلام اللہ کا دور مقرر کرنا

عبد اللہ بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ جس کسی کے ورد کا رات کو ناغہ ہو جائے اور وہ دوسرے دن زوال تک ظہر کی نماز تک پڑھ لے تو گویا فوت نہیں ہوا بلکہ اس نے پا لیا۔

کلام اللہ کا دور مقرر کرنا

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں اور محمد بن یحیی بن حبان بیٹھے ہوئے تھے سو محمد نے ایک شخص کو بلایا اور کہا تم نے جو اپنے باپ سے سنا ہے اس کو بیان کرو اس شخص نے کہا میرا باپ گیا زیدی بن ثابت کے پاس اور ان سے پوچھا کہ سات روز میں کلام اللہ تمام کرنا کیسا ہے بولے اچھا ہے میرے نزدیک پندرہ روز یا بیس روز میں تمام کرنا بہتر ہے پوچھو مجھ سے کیوں کہا انہوں نے میں نے پوچھا کیوں زید نے کہا تاکہ میں اس کو سمجھتا جاؤں یاد رکھتا جاؤں

قرآن کے بیان میں

عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ میں نے سنا عمر بن خطاب سے کہتے تھے میں نے ہشام بن حزام کو پڑھتے سنا سورہ فرقان کو اور طرح سوائے اس طریقہ کے جس طرح میں پڑھتا تھا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی پڑھایا تھا اس سورۃ کو، قریب ہوا کہ میں جلدی کر کے ان پر غصہ نکالوں لیکن میں چپ رہا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوئے نماز سے تب میں انہی کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر لے آیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے ان کو سورہ فرقان پڑھتے سنا اور طور پر خلاف اس طور کے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے پڑھایا ہے تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوڑ دو ان کو پھر فرمایا ان سے پڑھو تو پڑھا ہشام نے اسی طور سے جس طرح میں نے ان کو پڑھتے ہوئے سنا تھا تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح اتری ہے یہ سورت پھر ارشاد کیا آپ نے کہا تو پڑھ پھر میں نے پڑھی پھر فرمایا قرآن شریف اترا ہے سات حرف پر تو پڑھو جس طرح سے آسان ہو۔

قرآن کے بیان میں

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حافظ قرآن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے اونٹ والے کی جب تک اونٹ کو بندھا رکھے گا وہ رہے گا جب چھوڑ دے گا چلا جائے گا۔

قرآن کے بیان میں

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے پوچھا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کس طرح وحی آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی آتی ہے جیسے گھنٹے کی آواز اور وہ نہایت سخت ہوتی ہے میرے اوپر پھر جب موقوف ہو جاتی ہے تو میں یاد کر لیتا ہوں جو کہتا ہے فرشتہ جو آدمی کی شکل بن کر مجھ سے باتیں کرتا ہے تو میں یاد کر لیتا ہوں جو کہتا ہے حضرت ام المومنین عائشہ کہتی ہیں کہ جب وحی اترتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سخت جاڑے کے دنوں میں پھر جب موقوف ہوتی تھی تو پیشانی سے آپ کے پسینہ بہتا تھا۔

قرآن کے بیان میں

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہا انہوں نے عبس وتولی اتری ہے عبداللہ بن ام مکتوم میں وہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہنے لگے اے محمد بتاؤ مجھ کو کوئی جگہ قریب اپنے تاکہ بیٹھوں میں وہاں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت ایک شخص بیٹھا تھا بڑے آدمیوں میں سے مشرکوں کے ابی بن خلف یا عتبہ بن ربیعہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم توجہ نہ کرتے تھے اے باپ فلاں کے کیا میں جو کہتا ہوں اس میں کچھ حرج ہے وہ کہتا تھا نہیں قسم ہے بتوں کی تمہارے کہنے میں کچھ حرج نہیں ہے تب یہ آیتیں اتریں عبس وتولی

قرآن کے بیان میں

اسلم عدوی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو سفر میں سوار ہو کر چل رہے تھے اور عمر بن خطاب بھی ان کے ساتھ تھے پس حضرت عمر نے ایک بات پوچھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے تو جواب نہ دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر پوچھی جب بھی جواب نہ دیا پھر پوچھی جب بھی جواب نہ دیا اس وقت حضرت عمر نے دل میں کہا کاش تو مر گیا ہوتا اے عمر تین بار تو نے گڑگڑا کر پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور کسی بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہ دیا عمر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ کو تیز کیا اور آگے بڑھ گیا لیکن میرے دل میں یہ خوف تھا کہ شاید میرے بارے میں کلام اللہ اترے گا تو تھوڑی دیر میں ٹھہرا تھا اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو مجھ کو پکارتا ہے اس وقت مجھے اور زیادہ خوف ہوا اس بات کا کہ کلام اللہ میرے بارے میں اترا ہو گا سو آیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور سلام کیا میں نے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ رات کو میرے اوپر ایک سورت ایسی اتری ہے جو ساری دنیا کی چیزوں سے مجھ کو زیادہ محبوب ہے پھر پڑھا انا فتحنا لک فتحا مبینا

قرآن کے بیان میں

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے نکلیں گے تم میں سے کچھ لوگ جو حقیر جانیں گے تمہاری نماز کو اپنی نماز کے مقابلے میں اور تمہارے روزوں کو اپنے روزوں کے مقابلہ میں اور تمہارے اعمال کو اپنے اعمال کے مقابلہ میں پڑھیں گے کلام اللہ کو اور نہ اترے گا ان کے حلقوں کے نیچے نکل جائیں گے دین سے جیسے نکل جاتا ہے تیر اس جانور میں سے جو شکار کیا جائے آر پار ہو کر صاف اگر پیکان کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہیں پائے اگر تیر کی لکڑی کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہ پائے اگر پر کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہ پائے اور سو فار میں شک ہو کہ کچھ لگا ہے یا نہیں۔

قرآن کے بیان میں

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر سورۃ بقرہ آٹھ برس تک سیکھتے رہے۔

سجدہ ہائے تلاوت کے بیان میں سجدہ تلاوت سنت ہے یا مستحب ہے اور حنفیہ کے نزدیک واجب ہے

ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ابوہریرہ نے پڑھا سورہ اذالسماء انشقت کو تو سجدہ کیا اور جب فارغ ہوئے سجدہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا اس میں۔

سجدہ ہائے تلاوت کے بیان میں سجدہ تلاوت سنت ہے یا مستحب ہے اور حنفیہ کے نزدیک واجب ہے

نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مصر والوں میں سے خبر دی مجھ کو کہ عمر بن خطاب نے سورہ حج کو پڑھا تو اس میں دو سجدے کئے پھر فرمایا کہ یہ سورۃ فضلیت دی گئی بسبب دو سجدوں کے۔

سجدہ ہائے تلاوت کے بیان میں سجدہ تلاوت سنت ہے یا مستحب ہے اور حنفیہ کے نزدیک واجب ہے

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو سورۃ حج میں دو سجدے کرتے ہوئے۔

سجدہ ہائے تلاوت کے بیان میں سجدہ تلاوت سنت ہے یا مستحب ہے اور حنفیہ کے نزدیک واجب ہے

اعرج سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے والنجم اذا ہوا پڑھ کر سجدہ کیا پھر سجدہ سے کھڑے ہو کر ایک اور سورہ پڑھی۔

سجدہ ہائے تلاوت کے بیان میں سجدہ تلاوت سنت ہے یا مستحب ہے اور حنفیہ کے نزدیک واجب ہے

عروہ بن الزبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ایک آیت سجدہ کی منبر پر پڑھی جمعہ کے روز اور منبر پر سے اتر کو سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا پھر دوسرے جمعہ میں اس کو پڑھا اور لوگ مستعد ہوئے سجدہ کو تب کہا حضرت عمر نے اپنے حال پر رہو اللہ جل جلالہ نے سجدہ تلاوت کو ہمارے اوپر فرض نہیں کیا ہے مگر جب ہم چاہیں تو سجدہ کریں پس سجدہ نہ کیا حضرت عمر نے اور منع کیا ان کو سجدہ کرنے سے۔

قل ہو اللہ احد اور تبارک الذی کی فضیلت کا بیان

حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ قل ہو اللہ احد برابر ہے تہائی قرآن کے اور تبارک الذی بیدہ الملک لڑے گی اپنے پڑھنے والی کی طرف سے۔

ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص کہے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ ایک روز میں سو بار تو گویا اس نے دس غلام آزاد کئے اور سو نیکیاں اس کے لئے لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس کی مٹائی جائیں گی اور وہ اس دن پھر شیطان کے شر سے بچا رہے گا یہاں تک کہ شام ہو اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل نہ لائے گا مگر اس سے بھی زیادہ عمل کرے۔

ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کہا سبحان اللہ وبحمدہ ایک دن میں سو بار مٹائے جائیں گے گناہ اس کے اگرچہ ہوں مثل سمندر کے پھین کے۔

ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

ابوہریرہ نے کہا جو شخص ہر نماز کے بعد سبحان اللہ کہے تینتیس بار اور اللہ اکبر کہے تینتیس بار اور الحمد للہ کہے تینتیس بار اور ختم کرے سو کے عدد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ پس بخش دیے جائیں گے گناہ اس کے اگرچہ ہوں مثل سمندر کی جھاگ کے۔

ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

سعید بن مسیب نے کہا باقیات صالحات یہ کلمے ہیں اللہ اکبر سبحان اللہ والحمدللہ لا الہ الا اللہ ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

ابو الدردا نے کہا کیا تم کو نہ بتاؤں وہ کام جو تمہارے سب کاموں سے بہتر ہے تمہارے لئے اور درجہ میں سب سے زیادہ بلند ہے اور تمہارے مالک کے نزدیک سب کاموں سے زیادہ عمدہ ہے اور بہتر ہے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے اور بہتر ہے اس سے کہ تم اپنے دشمن سے لڑ کر اس کی گردن مارو اور وہ تمہاری گردن مارے کہا صحابہ نے ہاں بتاؤ کہا انہوں نے ذکر اللہ سبحانہ کا۔

ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

معاذ بن جبل نے کہا آدمی نے کوئی عمل ایسا نہیں کیا جو زیادہ نجات دینے والا ہو اس کو اللہ کے عذاب سے سوا ذکر الہی کے۔

ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

رفاعہ بن رافع سے روایت ہے کہ ہم ایک روز نماز پڑھ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تو جب سر اٹھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع سے اور کہا سمع اللہ لمن حمدہ ایک شخص بولا ربنا لک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ پس جب فارغ ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فرمایا کون شخص بولا تھا ابھی اس شخص نے کہا میں تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے دیکھا کہ تیس سے زیادہ کچھ فرشتے جلدی کر رہے تھے کہ کون پہلے لکھے اس کو۔

دعا کے بیان میں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر نبی کے لئے ایک دعا مقرر ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس دعا کو اٹھا رکھوں اپنی امت کی شفاعت کے واسطے دن آخرت کے۔

دعا کے بیان میں

یحیی بن سعید کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دعا مانگتے تھے پس فرماتے تھے اے اللہ پیدا کر نے والے صبح کو اور رات کو راحت بنانے والے اور سورج اور چاند کے حساب سے چلانے والے ادا کر تو قرض میرا اور غنی کر مجھ کو محتاجی سے اور فائدہ دے مجھ کو میرے کان اور آنکھ سے اور میری قوت سے اپنی راہ میں۔

دعا کے بیان میں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب کوئی تم میں سے دعا کرے تو یوں نہ کہے یا خدا بخش دے مجھ کو اگر چاہے تو اور رحم کر ہم پر اگر چاہے تو بلکہ یوں کہے بخش دے مجھ کو اس لئے کہ اللہ جل جلالہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے۔

دعا کے بیان میں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا قبول ہوتی ہے جب تک دعا مانگنے والا جلدی نہ کرے اور یہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی سو دعا میری قبول نہ ہوئی۔

دعا کے بیان میں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اترتا ہے رب ہمارا ہر رات کو آسمان دنیا تک جب تہائی رات باقی رہتی ہے سو فرماتا ہے کون شخص ہے جو دعا کرے مجھ سے اور قبول کروں میں دعا اس کی، کون شخص ہے مانگے مجھ سے پس دوں میں اس کو، کون شخص ہے جو بخشش چاہے مجھ سے سو بخش دوں اس کو۔

دعا کے بیان میں

محمد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ ام المومنین نے کہا میں سو رہی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں سو نہ پایا میں نے ان کو پس چھوا میں نے آپ کو تو رکھا میں نے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں پر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ میں تھے فرماتے تھے پناہ مانگتا ہوں ہو تیری رضامندی کی تیرے غصے سے اور تیری عفو کی تیرے عتاب سے اور تجھ سے میں تیری تعریف نہیں کر سکتا تو ایسا ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔

دعا کے بیان میں

طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا افضل دعاؤں میں دعا عرفہ کے دن کی ہے اور افضل ان سب کلمات میں جو میں نے کہے ہیں اور اگلے پیغمبروں نے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔

دعا کے بیان میں

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سکھاتے تھے ان کو یہ دعا جیسے سکھاتے تھے ان کو ایک سورت قرآن کی فرماتے تھے اے اللہ پناہ مانگتا ہوں میں تیری جہنم کے عذاب سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری دجال کے فتنہ سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

دعا کے بیان میں

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کھڑے ہوتے نماز کو عین رات میں فرماتے یا اللہ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، تو نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں ، اور تو ہی قائم رکھنے والا ہے آسمانوں اور زمینوں کو ، اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں اور تو ہی پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان کا جو آسمان اور زمین کے بیچ میں ہیں تو حق ہے تیرا قول سچا ہے تیرا وعدہ برحق ہے تجھ سے ملنا حق ہے جنت و جہنم حق ہے قیامت حق ہے اے پروردگار تیرے حکم کا میں تابعدار ہوں اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف متوجہ ہوا اور تیری مدد سے میں لڑا کفار سے اور تجھ کو میں نے حاکم بنایا جب اختلاف ہوا سو بخش دے میرے اگلے اور پچھلے اور چھپے اور کھلے گناہ تو میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔

دعا کے بیان میں

عبد اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ہمارے پاس آئے بنی معاویہ میں اور وہ ایک گاؤں ہے انصار کے گاؤں میں سے تو پوچھا مجھ سے تم کو معلوم ہے کس جگہ پر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے کہا ہاں عبداللہ بن عمر نے کہا بتاؤ مجھ کو میں نے کہا دعا کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امر کی، کہ مسلمانوں پر کوئی دشمن ان کی غیر قوم کا یعنی کافروں میں سے مسلط نہ کرنا اور ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا تو یہ دونوں دعائیں قبول ہو گئیں تیسری دعا یہ ہے کہ مسلمانوں کی آپس میں خون اور جنگ نہ ہو تو یہ دعا قبول نہ ہوئی عبداللہ بن عمر نے کہا سچ کہا تو نے پھر کہا کہ اب قیامت تک فساد آپس میں چلتا جائے گا

دعا کے بیان میں

زید بن اسلم سے روایت ہے وہ کہتے تھے جو شخص دعا کرتا ہے تو اس کی دعا تین حال سے خالی نہیں ہوتی یا قبول ہو جاتی ہے یا رکھ لی جاتی ہے قیامت کے دن پر یا گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔

دعا کی ترکیب

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ دیکھا مجھ کو عبداللہ بن عمر نے دعا کرتے ہوئے اور میں دو انگلیوں سے اشارہ کرتا تھا ہر ایک ہاتھ کی ایک ایک انگلی تھی سو منع کیا مجھ کو۔

دعا کی ترکیب

سعید بن مسیب کہتے تھے بے شک آدمی کا درجہ بلند ہو جاتا ہے اس کے لڑکے کے دعا کرنے سے بعد اس کے مر جانے کے اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں ہاتھوں سے آسمانوں کی طرف پھر اٹھایا ان کو۔

دعا کی ترکیب

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ یہ آیت (وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَینَ ذٰلِكَ سَبِیلًا) 17۔ الاسراء:110) دعا میں اتری ہے۔

دعا کی ترکیب

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دعا مانگتے تھے یا اللہ میں مانگتا ہوں تجھ سے نیک کام کرنا اور برے کاموں کو چھوڑنا اور محبت غریبوں کی اور جب تو کسی مصیبت کو لوگوں میں اتارنا چاہے تو مجھے اپنے پاس بلا لے اس مصیبت سے بچا کر۔

دعا کی ترکیب

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو مثل اس کے ثواب ملے گا جو اس کی پیروی کرے کچھ کم نہ ہو گا اس کے ثواب سے اور جو شخص گمراہی کی طرف بلائے اس پر اتنا گناہ ہو گا جتنا پیروی کرنے والے پر ہو گا کچھ کم نہ ہو گا پیروی کرنے والے کے گناہ سے۔

دعا کی ترکیب

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے یا اللہ مجھ کو متقیوں کا پیشوا بنانا۔

دعا کی ترکیب

امام مالک کو پہنچا ہے ابو درداء سے جب اٹھتے تھے رات کو کہتے تھے سو گئیں آنکھیں اور غائب ہو گئے تارے اور تو اے پروردگار زندہ ہے بیدار ہے۔

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

حضرت ام المومنین عائشہ نے حکم دیا کہ سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد میں سے ہو کر ان کے حجرہ پر سے جائے تاکہ میں دعا کروں ان کے لئے سو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تب کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا جلدی لوگ بھول گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہیل بن بیضا پر نماز نہیں پڑھی مگر مسجد میں۔

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

عبداللہ بن عمر نے کہا کہ حضرت عمر پر نماز پڑھی گئی مسجد میں

نماز جنازہ کے احکام

امام مالک کو پہنچا کہ عثمان بن عفان اور عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے تھے عورتوں اور مردوں پر ایک ہی وقت میں تو مردوں کو امام کے نزدیک رکھتے تھے اور عورتوں کو قبلہ کے نزدیک

نماز جنازہ کے احکام

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب نماز پڑھ لیتے تھے جنازہ کی سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ ان کے نزدیک جو لوگ ہوتے تھے وہ سن لیتے تھے۔

نماز جنازہ کے احکام

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جنازہ کی نماز بغیر وضو کے کوئی نہ پڑھے۔

مردہ کے دفن کے بیان میں

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات کی دو شنبہ کے روز اور دفن کئے گئے منگل کے روز اور نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر لوگوں نے اکیلے اکیلے کوئی ان کا امام نہ تھا پھر کہا بعض لوگوں نے دفن کئے جائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم منبر کے پاس اور بعض نے کہا بقیع میں تو آئے حضرت ابوبکر اور کہا سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے نہیں دفن کیا گیا کوئی نبی مگر اس مقام میں جہاں اس کی وفات ہوئی پھر کھودی گئی قبر اسی مقام میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کی تھی جب غسل کا وقت آیا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کرتہ اتارنا چاہا سو ایک آواز سنی مت اتارو کرتے کو پس نہ اتارا گیا کرتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اور غسل دیے گئے کرتہ پہنے ہوئے۔

مردہ کے دفن کے بیان میں

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ دو آدمی قبر کھود نے والے تھے ایک ان میں سے بغلی بناتا تھا اور دوسرا نہیں بناتا تھا لوگوں نے کہا جو پہلے آئے گا وہی اپنا کام شروع کرے گا تو پہلے وہی آیا جو بغلی بناتا تھا پس قبر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بغلی بنائی۔

مردہ کے دفن کے بیان میں

امام مالک کو پہنچا کہ بی بی ام سلمہ کہتی تھیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کا یقین نہیں یہاں تک کہ میں نے کدال مارنے کی آواز سنی۔

مردہ کے دفن کے بیان میں

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے حجرے میں تین چاند گر پڑے سو میں نے اس خواب کو ابوبکر صدیق سے بیان کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ کے حجرہ میں دفن ہو چکے تھے ابوبکر نے کہا کہ ان تین چاندوں میں سے ایک چاند آپ صلی اللہ علیہ و سلم تھے اور یہ تینوں چاندوں میں بہتر ہیں۔ کئی ایک معتبر لوگوں سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید کی وفات ہوئی عقیق میں (ایک جگہ ہے مدینہ کے قریب) اور ان کا جنازہ اٹھا کر مدینہ میں لایا گیا اور وہاں دفن ہوئے

مردہ کے دفن کے بیان میں

عروہ بن زبیر نے کہا مجھے بقیع میں دفن ہونا پسند نہیں ہے اگر میں کہیں اور دفن ہوں تو اچھا ہے اس لئے کہ بقیع میں جہاں پر میں دفن ہوں گا وہاں پر کوئی گناہگار شخص دفن ہو چکا ہے تو اس کے ساتھ مجھے دفن ہونا منظور نہیں ہے اور یا کوئی نیک شخص دفن ہو چکا ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میرے لئے اس کی ہڈیاں کھودی جائیں۔

جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا اور بیٹھنا قبروں پر

حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو جاتے تھے جنازوں میں پھر بیٹھنے لگے بعد اس کے۔

جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا اور بیٹھنا قبروں پر

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت علی تکیہ لگاتے تھے قبروں پر اور لیٹ جاتے تھے ان پر۔

جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا اور بیٹھنا قبروں پر

ابو امامہ کہتے تھے ہم جنازوں میں جاتے تھے تو اخیر کا شخص بھی بدوں اذن کے نہ بیٹھتا تھا۔

میت پر رونے کی ممانعت

جابر بن عتیک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عبداللہ بن ثابت کی عیادت کو آئے تو دیکھا ان کو بیماری کی شدت میں سو پکارا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو انہوں نے جواب نہ دیا پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا اور فرمایا ہم مغلوب ہوئے تمہارے پر اے ابو الربیع! پس رونا شروع کیا عورتوں نے چلا کر اور جابر بن عتیک ان کو چپ کرانے لگے سو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سبھی عورتوں کو رونے دو جب آن پڑے تو اس وقت کوئی نہ روئے۔ رونے والی صحابیہ نے پوچھا کیا مطلب ہے آن پڑنے کا فرمایا جب مر جائے۔ اتنے میں عبداللہ بن ثابت کی بیٹی نے کہا مجھے امید تھی کہ تم شہید ہو گے کیونکہ تم سامان جہاد کا تیار کر چکے تھے تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ جل جلالہ اجر دے گا مواقف اس کی نیت کے۔ تم کس چیز کو شہادت سمجھتی ہو بولی اللہ جل جلالہ کی راہ میں مارے جانے کو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوا اس کے سات شہید ہیں ایک وہ جو طاعون سے مر جائے دوسرے وہ جو ڈوب کر مر جائے تیسرے وہ جو ذات الجنب سے مر جائے چوتھے جو پیٹ کے عارضہ سے مر جائے پانچویں وہ جو آگ سے جل کر مر جائے چھٹے وہ جو دب کر مر جائے ساتواں وہ عورت جو زچگی میں مر جائے۔

میت پر رونے کی ممانعت

عمرہ بن عبدالر حمن سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا حضرت عائشہ سے جب ان کے سامنے بیان کیا گیا کہ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں مردہ کو عذاب دیا جاتا ہے زندہ کے رونے سے خدا بخشے ابا عبدالرحمن کو انہوں نے جھوٹ نہیں بولا لیکن وہ بھول گئے یا چوک گئے اصل اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گزرے ایک یہودن پر جو مر گئی تھی اور لوگ اس پر رو رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اس پر عذاب قبر میں ہو رہا ہے۔

مصیبت کے وقت صبر کرنے کا ثواب

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی مسلمان کے تین بچے مر جائیں پھر وہ جہنم میں جائے یہ ممکن نہیں مگر قسم پورا کرنے کو۔

مصیبت کے وقت صبر کرنے کا ثواب

ابو النصر سلمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس مسلمان کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ صبر کرے تو قیامت کے روز وہ لڑکے بچائیں گے اس کو جہنم سے ایک عورت نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر دو مر جائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بھی۔

مصیبت کے وقت صبر کرنے کا ثواب

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ مسلمان کو مصیبت پہنچتی ہے اس کی اولاد اور عزیزوں میں یہاں تک کہ ملتا ہے اپنے پروردگار سے اور کوئی گناہ اس کا نہیں ہوتا۔

مصیبت میں صبر کرنے کی مختلف حدیثیں

عبدالرحمن بن قاسم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کی تمام مصیبتیں ہلکی ہو جاتی ہیں میری مصیبت کو یاد کر کے۔

مصیبت میں صبر کرنے کی مختلف حدیثیں

حضرت بی بی ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے پھر وہ جیسا اس کو خدا نے حکم کیا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر کہے اے پروردگار مجھ کو اس مصیبت میں اجر دے اور اس سے بہتر نیک بدلہ مجھے عنایت فرما تو اللہ تعالی اپنے فضل سے اس کے ساتھ ایسا ہی کرے گا ام سلمہ کہتی ہیں جب میرے خاوند نے وفات پائی تو میں نے یہی دعا مانگی پھر میں نے اپنے جی میں کہا ابو سلمہ سے کون بہتر ہو گا سو اللہ تعالی نے اس کا بدلہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا نکاح کیا۔

مصیبت میں صبر کرنے کی مختلف حدیثیں

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ میری زوجہ مر گئی سو آئے محمد بن کعب قرظی تعزیت دینے مجھ کو اور کہا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص فقیہ عالم عابد مجتہد تھا اور اس کی ایک بیوی تھی جس پر وہ نہایت فریفتہ تھا اور اس کو بہت چاہتا تھا اتفاق سے وہ عورت مر گئی تو اس شخص کو نہایت رنج ہوا اور بڑا افسوس ہوا اور وہ ایک گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہا اور لوگوں سے ملاقات چھوڑ دی تو اس کے پاس کوئی نہ جاتا تھا ایک عورت نے یہ قصہ سنا اور اس کے دروازے پر جا کر کہا کہ مجھ کو ایک مسئلہ پوچھنا ہے میں اسی سے پوچھوں گی بغیر اس سے ملے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکتا تو اور جتنے لوگ آئے تھے وہ چلے گئے اور وہ عورت دروازے پر جمی رہی اور کہا کہ بغیر اس سے طے کیے کوئی علاج نہیں ہے سو ایک شخص نے اندر جا کر اس کو اطلاع دی اور بیان کیا کہ ایک عورت مسئلہ پوچھنے کو تم سے آئی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں تو سب لوگ چلے گئے مگر وہ عورت دروازہ چھوڑ کر نہیں جاتی تب اس شخص نے کہا اچھا اس کو آنے دو پس آئی وہ عورت اس کے پاس اور کہا کہ میں ایک مسئلہ تجھ سے پوچھنے کو آئی ہوں وہ بولا کیا مسئلہ ہے اس عورت نے کہا میں نے اپنے ہمسایہ میں ایک عورت سے کچھ زیور مانگ کر لیا تھا تو میں نے ایک مدت تک اس کو پہنا اور لوگوں کو مانگنے پر بھی دیا اب اس عورت نے وہ زیور مانگ بھیجا ہے کیا میں اسے پھر واپس دے دوں اس شخص نے کہا ہاں قسم خدا کی واپس دیدے عورت نے کہا کہ وہ زیور ایک مدت تک میرے پاس رہا ہے اس شخص نے کہا کہ اس سبب سے اور زیادہ تجھے واپس دینا ضروری ہے کیونکہ ایک زمانے تک تجھے اس نے مانگنے پر دیا عورت بولی اے فلانے خدا تجھ پر رحم کرے تو کیوں افسوس کرتا ہے اس چیز پر جو اللہ جل جلالہ نے تجھے مستعار دی تھی پھر تجھ سے لے لی اللہ جل جلالہ زیادہ حقدار ہے تجھ سے جب اس شخص نے غور کیا تو عورت کی بات سے اللہ تعالی نے اس کو نفع دیا۔

کفن چوری کے بیان میں

عمرہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ لعنت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مرد پر جو کفن چرائے اور اس عورت پر جو کفن چرائے۔

کفن چوری کے بیان میں

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی تھیں کہ میت مسلمان کی ہڈی توڑنا ایسا ہے جیسا زندہ مسلمان کی ہڈی توڑنا۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے وفات سے پہلے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم تکیہ لگاۓ ہوئے تھے حضرت عائشہ کے سینے پر اور حضرت عائشہ کان لگائے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف فرماتے یا اللہ رحم کر مجھ پر اور ملا دے مجھ کو بڑے درجے کے رفیقوں سے۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

حضرت بی بی عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کوئی پیغمبر نہیں مرتا ہے یہاں تک کہ اس کو اختیار دیا جاتا ہے کہا حضرت عائشہ نے میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے یا اللہ میں نے اختیار کیا بلند رفیقوں کو تب میں نے جانا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جانے والے ہیں دنیا سے

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو صبح اور شام اس کا مقام اس کو بتایا جاتا ہے اگر جنت والوں میں سے ہے تو جنت میں اور اگر دوزخ والوں میں سے ہے تو دوزخ میں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ٹھکانا ہے تیرا جب تجھے اٹھائے گا اللہ جل جلالہ دن قیامت کے۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمام بدن کو آدمی کے زمین کھا جاتی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کو اسی سے پیدا ہوا اور اسی سے پیدا کیا جائے گا دن قیامت کے۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندہ کی شکل بن کر جنت کے درخت سے لٹکتی رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ پھر اس کو لوٹا دے گا اس کے بدن کی طرف جس دن اس کو اٹھائے گا۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے جب میرا بندہ مجھ سے ملاقات چاہتا ہے تو میں بھی اس کی ملاقات چاہتا ہوں اور جب وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے تو میں بھی اس سے نفرت کرتا ہوں۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی جب وہ مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا کہ بعد مرنے کے مجھے جلانا اور میری راکھ کے دو حصے کر کے ایک حصہ خشکی میں ڈال دینا اور ایک حصہ دریا میں اس لئے کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے پا لیا تو ایسا عذاب کرے گا کہ سارے جہاں میں ویسا عذاب کسی کو نہ کرے گا جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ لوگوں نے ایسا ہی کیا اللہ جل جلالہ نے خشکی کو حکم دیا کہ اس کی تمام راکھ اکٹھی کر دی پھر دریا کو حکم کیا اس نے بھی اکٹھی کر دی بعد اس کے اللہ جل جلالہ نے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا وہ بولا تیرے خوف سے اے پروردگار اور تو خوب جانتا ہے پس بخش دیا اس کو اللہ جل جلالہ نے۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر بچہ پیدا ہوتا ہے دین اسلام پر پھر ماں باپ اس کے اس کو یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں جیسے اونٹ پیدا ہوتا ہے صحیح سلامت جانور سے بھلا اس میں کوئی کنکٹا بھی ہوتا ہے صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو بچے چھوٹے پن میں مر جائیں ان کا کیا حال ہو گا فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں بڑے ہو کر۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت نہیں ہو گی یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص کی قبر کے سامنے سے نکل کر کہے گا کاش کہ میں اس کی جگہ قبر میں ہوتا۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

ابوقتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر گزرا ایک جنازہ تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مستریخ ہے یا مستراح منہ، صحابہ نے پوچھا مستریح کسے کہتے ہیں اور مستراح منہ، کسے کہتے ہیں فرمایا بندہ مومنی مستریح ہے یعنی جب مر جاتا ہے تو دنیا کی تکلیفوں اور اذیتوں سے نجات پا کر اللہ تعالی کی رحمت میں راحت پاتا ہے اور بندہ مستراح منہ ہے جب وہ مر جاتا ہے تو لوگوں کو بستیوں کو اور درختوں کو اور جانوروں کو اس سے راحت ہوتی ہے۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

ابو النصر نے کہا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب گزرا ان پر جنازہ حضرت عثمان بن مظعون کا چلے گئے تم دنیا سے اور نہیں لیا اس میں سے کچھ۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک رات کو اور کپڑے پہنے پھر چلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو کہا میں نے اپنی لونڈی بریرہ سے کہ پیچھے پیچھے جائیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تو گئی وہ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بقیع پہنچے اور کھڑے ہوئے قریب اس کے جب خدا کو منظور تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کھڑا رہنا پھر لوٹے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو بریرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اول میرے پاس پہنچ گئی اور میں نے کچھ ذکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں کیا یہاں تک کہ صبح ہوئی پھر میں نے ذکر کیا اس کا حضرت سے تو فرمایا مجھے حکم ہوا تھا بقیع والوں کے پاس جانے کا تاکہ دعا کروں ان کے لئے۔

جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

نافع سے روایت ہے کہ ابوہریرہ نے کہا جلدی کرو جنازہ کو لئے ہوئے چلنے میں اس لئے کہ اگر وہ اچھا ہے تو جلدی اس کو بہتری کی طرف لے جاتے ہو اور اگر برا ہے تو جلدی اپنے کندھوں سے اتارتے ہو۔