کتاب سے مراد کتاب اللہ یعنی قرآن مجید ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ و کے اقوال، افعال اور احوال ہیں جن کے مجموعہ کا نام حدیث ہے ان کو شریعت ، طریقت، حقیقت فرماتے ہیں۔
٭٭ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
فائدہ
مومن و مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اعتقاد و ایمان پختہ اور کامل ہو کہ قرآن و سنت نے جو راستہ بتا دیا ہے اس پر پورے یقین کے ساتھ چلنا اور شریعت نے جو حدود قائم کر دی ہیں ان کے اندر پورے اعتقاد کے ساتھ رہنا ہی عین فلاح و سعادت سمجھے ، اپنی طرف سے ایسے راستے پیدا کرنا جو سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہوں، یا ایسے طریقے اختیار کرنا جو قرآن و سنت کے صحیح راستے سے الگ ہوں نہ صرف یہ کہ ایمان و اعتقاد کی سب سے بڑی کمزوری ہے بلکہ دعویٰ اسلام کے برخلاف بھی ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں ان لوگوں کو مردود قرار دیا جا رہا ہے جو محض اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض کی بنا پر دین و شریعت میں نئے نئے طریقے رائج کرتے ہیں اور ایسی غلط باتوں کا انتساب شریعت کی طرف کرتے ہیں جن کا اسلام میں سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔
مثلاً کوئی آدمی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور اپنی فہم کے مطابق اسلام میں ایسی نئی چیزیں پیدا کرتا ہے جس کا ثبوت نہ تو قرآن و سنت سے ظاہرا ہے اور نہ معناً اور نہ اس کی سند کسی اسلامی نظریہ سے مستنبط ہے تو اسے مردود قرار دیا جائے گا۔ ہاں حدیث کے الفاظ مالیس منہ نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ایسی چیزیں پیدا کرنا، یا ایسے نظریے قائم کرنا جو کتاب سنت کی منشاء کے خلاف اور ان کے برعکس نہ ہوں ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور نہ ان پر کوئی نکیر قائم کی جا سکتی ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا۔ بعد ازاں جاننا چاہئے کہ بے شک سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے ، سب سے بہترین راستہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کا راستہ ہے اور سب سے بد ترین چیز وہ ہے جس کو (دین میں) نیا نکالا گیا ہو اور ہر بدعت (اپنی طرف سے دین میں پیدا کی ہوئی نئی بات) گمراہی ہے۔ (صحیح مسلم)
فائدہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے ہوں گے ، چنانچہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی حمد و تعریف کی ہو گی پھر اما بعد یعنی بعد ازاں کہہ کر یہ حدیث اس طرح ارشاد فرمائی۔
بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کا وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں نہ رہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مختلف زمانوں میں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ یعنی اگر ایسی چیزیں نکالی گئی ہیں جو اسلامی اصول و قواعد کے مطابق ہوں اور قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہوں تو ان کو بدعت حسنہ فرماتے ہیں، اور جو چیزیں منشاء شریعت کے برعکس اور قرآن و حدیث کے برخلاف ہوں ان کو بدعت سیۂ فرماتے ہیں اور یہی بدعت گمراہی و ضلالت اور خداوند کے رسول کی ناراضگی کا باعث ہے ، چنانچہ حدیث میں کل بدعۃ ضلالۃ سے مراد یہی بدعت سیۂ ہے ایسی بدعت سے اجتناب ضروری ہے۔
اس کے برخلاف بعض بدعات حرام ہیں مثلاً قدریہ و جبریہ کے مذاہب اور ان کے افکار و نظریات جو قرآن و سنت کے بالکل برخلاف ہیں بلکہ ان کے مذاہب کا رد کرنا بدعت واجبہ ہے۔
بعض بدعات مستحب ہیں جیسے خانقاہیں قائم کرنا اور وہاں معرفت الی اللہ کے لیے لوگوں کے قلوب کو راہ حق پر لگانا، یا مدرسے قائم کرنا جہاں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم و تربیت دینا، یا اسی طرح ایسے تمام کار خیر اور اچھی چیزیں جن کی فی الوقت ضرورت مسلم ہوا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود نہ رہی ہوں۔
کچھ بدعات مکروہ بھی ہیں مثلاً کلام اللہ اور مساجد پر نقش و نگار بنانا اور ان کی تزئین و آرائش کے لیے غیر مسنون طریقے اختیار کرنا، بعض بدعات مباح بھی ہیں، جیسے صبح کے بعد مصافحہ کرنا لیکن یہ امام شافعی کا مذہب ہے حنفیہ کے یہاں صبح کے بعد کا مصافحہ کرنا مکروہ ہے۔
بدعت کے سلسلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ نے بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں جو نئی بات پیدا کی جائے یعنی بدعت اگر وہ کتاب کے مخالف صحابہ کے اقوال کے منافی اور اجماع امت کے برعکس ہو تو وہ ضلالت و گمراہی ہے اور جو چیزیں ایسی نہ ہوں ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب (وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے) تین ہیں۔ (١) حرم میں کجروی کرنے والا۔ (٢) اسلام میں ایام جاہلیت کے طریقوں کو ڈھونڈھنے والا۔ (٣) کسی مسلمان کے خون ناحق کا طلب گار تاکہ اس کے خون کو بہائے۔ (صحیح البخاری)
فائدہ
اس حدیث میں تین آدمیوں کو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مغضوب قرار دیا جاتا ہے ، پہلا آدمی تو وہ ہے جسے اللہ نے اپنے گھر یعنی بیت اللہ میں حاضری کی سعادت بخشی مگر وہ بیت اللہ کی نہ تو عظمت کرتا ہے اور نہ حدود حرم میں ممنوع چیزوں سے پرہیز کرتا ہے بلکہ وہ حرم میں کجروی کرتا ہے یعنی ایسی چیزیں اختیار کرتا ہے جو ایک طرف تو اس مقدس جگہ کی شان عظمت کے منافی ہیں اور دوسری طرف احکام شریعت کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہیں مثلاً وہاں لڑائی جھگڑا کرنا، شکار کرنا، یا کوئی بھی مطلق گناہ اور قانون شریعت کی خلاف ورزی کرنا۔
دوسرا آدمی وہ ہے جس کو اللہ نے ایمان و اسلام کی دولت سے نوازا اور اس کے قلب کو یقین و اعتقاد کی روشنی سے منور کیا مگر وہ اسلام میں ان چیزوں کو اختیار کرتا ہے جو خالص زمانہ جاہلیت کا طریقہ اور غیر اسلامی رسمیں تھیں جیسے نوحہ کرنا، یا مصائب و تکالیف کے وقت چاک گریبان ہونا، برے شگون لینا، اور نو روز کرنا، یا ایسی رسمیں کرنا جو خالص کفر کی علامت ہوں (جیسے اولیاء اللہ کے مزار پر عرس کرنا، وہاں چراغاں کرنا، قبروں پر روشنی کا انتظام کرنا، غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کرنا محرم و شب برات میں غلط رسمیں ادا کرنا۔ وغیرہ وغیرہ)۔
تیسرا آدمی وہ ہے جو کسی مسلمان کا ناحق خون بہانے کا طلب گار ہو یعنی کسی مسلمان کو قتل کرنے کا مقصد محض خون ریزی ہو اور کوئی دوسرا مقصد نہ ہو، اگرچہ محض قتل ہی کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے اس پر بھی بڑی وعید ہے مگر جب مقصد صرف خون ریزی ہو تو یہ جرم شریعت کی نظر میں اور زیادہ قابل نفرت ہو جاتا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب محض خون ریزی کی خواہش اور طلب ہی اتنا بڑا جرم ہے تو اس جرم کو کر گزرنا یعنی واقعۃً کسی کا ناحق خون بہا دینا کتنا بڑا جرم ہو گا اور اس کی کتنی سخت سزا ہو گئی؟
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میری امت جنت میں داخل ہو گی مگر وہ آدمی جس نے انکار کیا اور سرکشی کی وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا، پھر پوچھا گیا وہ کون آدمی ہے جس نے انکار کیا اور سرکشی کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس آدمی نے میری اطاعت و فرمانبرداری کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا اور سرکشی کی۔ (صحیح البخاری)
فائدہ
صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ قبول کرنے والا اور سرکشی اختیار کرنے والا کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضاحت فرمائی کہ جس نے میری اطاعت نہیں کی اور میرے احکام و فرمان سے رو گردانی کی وہ سرکش ہے جو جنت کا مستحق نہیں ہو گا بلکہ اپنی سرکشی اور نافرمانی کی بناء پر اللہ کے عذاب کا مستوجب گردانا جائے گا۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (کچھ) فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت آئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو رہے تھے فرشتوں نے آپس میں کہا۔ تمہارے اس دوست یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ایک مثال ہے اس کو ان کے سامنے بیان کرو، دوسرے فرشتوں نے کہا، وہ سوئے ہوئے ہیں (لہٰذا بیان کرنے سے کیا فائدہ) ان میں بعض نے کہا، بے شک آنکھیں سو رہی ہیں لیکن دل تو جاگتا ہے ، پھر اس نے کہا، ان کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے گھر بنایا اور لوگوں کے کھانا کھانے کے لیے دستر خوان چنا اور پھر لوگوں کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا لہٰذا جس نے بلانے والی بات کو مان لیا وہ گھر میں داخل ہو گا اور کھانا کھائے گا اور جس نے بلانے والے کی بات کو قبول نہ کیا وہ نہ گھر میں داخل ہو گا اور نہ کھانا کھائے گا یہ سن کر فرشتوں نے آپس میں کہا، اس کو (وضاحت کے ساتھ) بیان کرو تاکہ یہ اسے سمجھ لیں، بعض فرشتوں نے کہا بیان کرنے سے کیا فائدہ کیونکہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسروں نے کہا، بے شک آنکھیں سو رہی ہیں لیکن دل تو جاگتا ہے اور پھر کہا، گھر سے مراد تو جنت ہے اور بلانے والے سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کی اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس آدمی سے مراد جس نے گھر بنایا اور دستر خوان چنا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، اسی طرح دستر خوان اور کھانے سے مراد بہشت کی نعمتیں ہیں چونکہ یہ ظاہری طور پر مفہوم ہو رہے ہیں اس لیے ان کی وضاحت نہیں کی گئی آخر میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی لوگوں کے درمیان فرق کرنے والی ہے یعنی کافر و مومن حق و باطل اور صالح و فاسق میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرق کرنے والے ہیں۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال دریافت کریں، جب ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال بتلایا گیا تو انہوں نے آپ کی عبادت کو کم خیال کر کے آپس میں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں ہم کیا چیز ہیں اللہ تعالیٰ نے تو ان کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا، اب میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا ، دوسرے نے کہا، اور میں دن کو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا، ان میں آپس میں یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے اور فرمایا، تم لوگوں نے ایسا ویسا کہا ہے ، خبردار ! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں، اور تم سے زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہوں (لیکن اس کے باوجود) میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں میں (رات میں) نماز بھی پڑھتا ہوں او سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں (یہی میرا طریقہ ہے لہٰذا) جو آدمی میرے طریقہ سے انحراف کرے گا وہ مجھ سے نہیں (یعنی میری جماعت سے خارج ہے)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
تین صحابی یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ازواج مطہرات کی خدمت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئے جب ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال معلوم ہوا تو اسے انہوں نے کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہم اور کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ یعنی عبادت کے مقابلہ میں ہمیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے کیا نسبت؟ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنی بھی عبادت کی حاجت نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سراپا معصوم اور مغفور ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ بار گاہ الوہیت میں سے پہلے ہی بخش دیے گئے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔
آیت (لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ) 48۔ الفتح:2)
تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اگلے پچھلے تمام گنا بخش دے۔
چنانچہ ان تینوں نے حسب طبیعت ایک ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کر لیا اور یہ خیال کیا کہ عبادت میں اتنی زیادتی عرفان حق کا باعث اور تقرب الی اللہ کا واحد ذریعہ ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا اس لیے کہ عبادت وہی معتبر اور قابل تحسین ہو گی جو اللہ اور اللہ کے رسول کی قائم کردہ حدود کے اندر ہو اور جتنی عبادت کے لیے بندہ کو مکلف کیا گیا ہے اتنی عبادت ہی تقرب الی اللہ کا باعث ہو گی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تم سے زیادہ ڈرتا ہوں، تقویٰ تم سے زیادہ اختیار کئے ہوئے ہوں، خوف خدا میرے دل میں تم سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی میری عبادت اور میری ریاضت ان ہی حدود کے اندر ہے جو اللہ نے قائم کر دی ہے ، اسی لیے میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سونے کے وقت سوتا بھی ہوں اور بتقاضائے فطرت عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔
چنانچہ کمال انسانیت یہی ہے کہ بندہ علائق سے تعلق رکھے ، عورتوں سے نکاح بھی کرے لیکن اس شان کے ساتھ کہ ایک طرف تو ان کے حقوق میں ذرہ برابر بھی کمی نہ ہو اور دوسری طرف حقوق اللہ میں بھی فرق نہ آئے اور نہ توکل کا دامن ہاتھ سے چھوٹے ، اسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پورے کمال کے ساتھ عملی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کر دیا تاکہ امت بھی اسی طریقہ پر چلتی رہے۔
اور پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صاف طور پر اعلان فرما دیا کہ یہ میرا طریقہ ہے اور یہی میری سنت ہے ، اب جو آدمی میری سنت سے انحراف کرتا ہے ، میری بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ میری سنت اور میرے طریقہ سے بیزاری و بے رغبتی کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا آدمی میری جماعت سے خارج ہے اسے مجھ سے اور میری جماعت سے کوئی نسبت نہیں۔
اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ علائق دنیا سے بالکل منہ موڑ لینا اور رہبانیت کا طریق اختیار کر لینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی کا شیرازہ بکھر جائے گا بلکہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بھی کوتاہی ہو گی اور عبادت کا جو اصلی حق ہے وہ ادا نہیں ہو گا۔
حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق حمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استنباط کیا ہے کہ اس حدیث میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو بدعت حسنہ کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ تینوں صحابہ نے جن چیزوں کو اپنے اوپر لازم کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ عبادت ہی کی قسم سے تھیں لیکن چونکہ یہ سنت کے طریقہ کے خلاف اور اس سے زیادہ تھیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو پسند نہیں فرمایا اور اس سے منع فرما دیا، لہٰذا اولیٰ یہی ہے کہ جو عبادت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہو، اور جس طرح ثابت ہو اسی طرح ادا کرے اس میں اپنی طرف سے کمی زیادتی نہ کرے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک کام کیا اور اس کی اجازت دے دی لیکن کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و تعریف کے بعد فرمایا۔ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ اس چیز سے پرہیز کرتے ہیں جسے میں کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و نا مرضی کو ان سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
روزہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا ہو گا یا سفر میں روزہ نہ رکھا ہو گا چونکہ ان چیزوں کی اجازت ہے اور شریعت نے اس کی رخصت دی ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی اس پر عمل فرمایا اور لوگوں کو بھی اس کی اجازت دے دی کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے از راہ احتیاط ان کو جائز نہ سمجھا ہو گا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اس کے باوجود کہ میں لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور کمال اخلاق میرے اندر موجود ہے لیکن میں شریعت کی طرف سے دی گئی آسانی اور رخصت پر عمل کرتا ہوں تو وہ لوگ کون ہوئے ہیں جو اس رخصت و اجازت پر عمل نہ کریں۔
اگر معنوی حیثیت سے ان آسانیوں اور رخصت کی حقیقت پر غور کیا جائے جو شریعت نے ایسے مواقع پر دے رکھی ہیں تو اس میں بڑی عجیب حکمتیں نظر آئیں گی۔ مثلاً ! یہ کہ ایسے مواقع پر دراصل بندہ کے عجز و نا چارگی اور ضعف بشریت نیز رفاہیت نفس کا اظہار ہوتا ہے جو اللہ کے نزدیک بہت محبوب شے ہے اسی لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ اسے پسند کرتا ہے کہ رخصتوں یعنی آسانیوں پر عمل کیا جائے جیسا کہ وہ عزیمتوں یعنی اولیٰ چیزوں پر عمل کئے جانے کو پسند کرتا ہے۔
٭٭حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت رافع بن خدیج انصاری اوسی ہیں جس وقت حق و باطل کے درمیان جنگ بدر ہوئی اس وقت یہ بہت کم سن تھے ٤٢ھ میں بعمر ۵۶ سال انتقال فرمایا۔ اسد الغابہ) بیان کرتے ہیں کہ (جب) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے اس وقت مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں میں تابیر کیا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا، تم یہ کیا کرتے ہو؟ اہل مدینہ نے عرض کیا، ہم ایسا ہی کرتے رہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید بہتر ہو، چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر اسے چھوڑ دیا اور اس سال پھل کم آیا، راوی فرماتے ہیں کہ اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں بھی ایک آدمی ہوں لہٰذا جب میں تمہیں کسی ایسی چیز کا حکم دوں جو تمہارے دین کی ہو تو اسے قبول کر لو، اور جب میں کوئی بات اپنی عقل سے تمہیں بتاؤں تو سمجھ لو کہ میں بھی انسان ہوں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
کھجور کے درختوں میں ایک درخت نر ہوتا ہے اور دوسرے مادہ ہوتے ہیں۔ مدینہ والے یہ کیا کرتے تھے کہ نر درخت کا پھل مادہ درختوں پر جھاڑتے یا ان میں لگا دیتے تھے اس سے ان کا خیال تھا کہ پھل زیادہ آتے ہیں اسی کو تابیر کرنا کہا جاتا ہے ، آخر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ میں بھی ایک انسان ہوں دنیاوی اسباب کے سلسلہ میں مجھ سے خطا بھی واقع ہو سکتی ہے اور صواب بھی، مگر میں کسی دنیاوی معاملہ میں اپنی کسی ایسی اجتہادی رائے کا اظہار کروں جو وحی کے زیر حکم نہ ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے چنانچہ اس معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دیکھا کہ یہ چیز امور جاہلیت میں سے ہے اور اس کی تاثیر پھلوں کی کمی و زیادتی میں کچھ معقول نظر نہیں آتی اور اس کا خیال نہیں فرمایا کہ شاید اس کی تاثیر کچھ منجانب اللہ ہی سے ہوتی ہو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ترک کر دینے کے لیے فرمایا لیکن حکم نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اگر یہ عمل نہ کرو تو بہتر ہو گا۔
جب تجربہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ لیا کہ یہ تو ایک قدرتی چیز ہے کہ جب نر درخت کے پھلوں کو مادہ درخت میں لگا دیتے ہیں تو اس سے پھل کثرت سے آتے ہیں اور اس عمل کے خلاف اللہ کی جانب سے کوئی وعید نہیں آئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سکوت فرمایا۔
یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا کی طرف التفات نہ تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی غرض دنیا تھی بلکہ امور آخرت کے مسائل و احکام اور دینی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زیادہ اہتمام تھا۔
بعض دوسری احادیث میں اس واقع کے بیان کے سلسلہ میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اتنم اعلم بامور دنیاکم یعنی تم اپنی دنیا کے امور کو خوب جانتے ہو ! اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیاوی اموری کی طرف مجھے التفات نہیں ہے ورنہ جہاں تک رائے و عقل کا معاملہ ہے اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں سب سے زیادہ عقل مند و صائب الرائے تھے۔
٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری اور اس چیز کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے (یعنی دین و شریعت) اس آدمی کی سی ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور کہا، اے قوم ! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے اور میں ننگا (یعنی بے غرض) ڈرانے والا ہوں، لہٰذا تم اپنی نجات کو تلاش کرو، چنانچہ اس کی قوم کی ایک جماعت نے اس کی فرمانبرداری کی اور راتوں رات آہستہ آہستہ نکل گئی اور نجات پالی ان میں سے ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور صبح تک اپنے گھروں میں رہا صبح کو لشکر نے آ کر ان کو پکڑ لیا اور ہلاک کر ڈالا (یہاں تک کہ) ان کی جڑیں کھود ڈالیں یعنی ان کی نسل تک کا خاتمہ کر دیا، چنانچہ یہی مثال ہے اس آدمی کی جس نے میری فرمانبرداری کی اور جو (احکام) میں لایا ہوں ان کی پیروی کی، اور اس آدمی کی بھی یہی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق بات (یعنی دین و شریعت میں لے کر آیا ہوں اس کی تکذیب کی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ننگا ڈرانے والے کی اصل یہ ہے کہ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی آدمی کسی لشکر کو اپنی قوم پر حملہ کے لیے آتا ہوا دیکھتا تو کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور بالکل ننگا ہو کر چلاتا ہوا اپنی قوم کی طرف آتا تاکہ لوگ خبردار ہو جائیں اور دشمن کی اچانک آمد سے بچاؤ کی شکل پیدا کر سکیں۔ اسی کو ننگا ڈرانے والا کہا جاتا تھا، اس کے بعد سے یہ کسی ناگہانی اور خوفناک حادثہ کے پیش آنے میں صرف ایک ضرب المثل بن گیا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ مثال بالکل صحیح و صادق تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمانبردار اور اطاعت گزار کو جنت اور رضاء مولی کی خوشخبری اور نا فرمانبردار و سر کش جماعت کو اللہ کے عذاب و غضب کی خبر دینے میں بالکل سچے تھے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میری مثال اس آدمی کی مانند ہے جس نے آگ روشن کی چنانچہ جب آگ نے چاروں طرف روشنی پھیلا دی تو پروانے اور دوسرے وہ جانور جو آگ میں گرتے ہیں آ کر آگ میں گرنے لگے آگ روشن کرنے والے آدمی نے ان کو روکنا شروع کیا لیکن وہ (نہیں رکتے بلکہ اس کی کوششوں پر) غالب رہتے ہیں اور آگ میں گر پڑتے ہیں اسی طرح میں تمہاری کمریں پکڑ کر تمہیں آگ میں گرنے سے روکتا ہوں اور تم آگ میں گرتے ہو۔
یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور مسلم میں بھی ایسی ہی روایت ہے البتہ مسلم کی روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ بالکل ایسی ہی مثال میری اور تمہاری ہے میں تمہاری کمریں پکڑے ہوں کہ تمہیں آگے سے بچاؤں اور یہ کہتا ہوں کہ دوزخ سے بچو میری طرف آؤ، دوزخ سے بچو میری طرف آؤ لیکن مجھ پر تم غالب آتے ہو اور آگ میں گر پڑتے ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میں نے حرام اور ممنوع چیزوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کر دیا ہے لیکن جس طرح کوئی آدمی آگ جلائے اور اس آدمی کے روکنے کے باوجود پروانے آگ میں گرتے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح باوجودیکہ میں تمہیں برے راستہ سے ہٹاتا ہوں اور برے کام سے روکتا ہوں لیکن تم اس ممنوع اور غیر پسندیدہ چیزوں کو کرتے ہو ! اسی طرح دوزخ کی آگ میں گرنے کی کوشش کرتے ہو۔
٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اس چیز کی مثال جسے اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے یعنی علم اور ہدایت کثیر بارش کی مانند سے جو زمین پر بوئی چنانچہ زمین کے اچھے ٹکڑے نے اسے قبول کر لیا یعنی اپنے اندر جذب کر لیا، اس سے بہت زیادہ خشک و ہری گھاس پیدا ہوئی اور زمین کا ایک ٹکڑا ایسا سخت تھا کہ اس کے اوپر پانی جمع ہو گیا اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا اور لوگوں نے اسے پیا اور پلایا اور کھیتی کو سیراب کیا اور یہ (بارش کا پانی) زمین کے ایسے ٹکڑے پر بھی (پہنچا) جو چٹیل سخت میدان تھا نہ تو اس نے پانی کو روکا اور نہ گھاس کو اگایا لہٰذا یہ سب (مذکورہ مثالیں) اس آدمی کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے میری وساطت سے بھیجی تھی اس نے اس سے نفع اٹھایا پس اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور اس آدمی کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے تکبر کی وجہ سے سر نہیں اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جو میرے ذریعہ بھیجی گئی تھی قبول نہیں کیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس میں دو قسم کے آدمی ذکر کئے گئے ہیں ایک تو دین سے فائدہ اٹھانے والے اور دوسرے دین سے فائدہ نہ اٹھانے والے ، اسی طرح مثال مذکورہ میں زمین دو قسم کی بیان کی گئی ہے ، زمین کی ایک قسم تو وہ ہے جو پانی سے فائدہ اٹھاتی ہے ، دوسرے وہ جو پانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی پھر فائدہ اٹھانے والی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک اگانے والی اور دوسری نہ اگانے والی۔
ٹھیک اسی طرح علم دین سے بھی فائدہ اٹھانے والے دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلا وہ آدمی جو عالم بھی ہو اور عابد و فقیہ اور معلم بھی۔ اس پر زمین کے اس ٹکڑے کی مثال صادق آتی ہے جس نے پانی کو اپنے اندر جذب کر لیا، خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو بھی نفع پہنچایا نیز گھاس بھی اگائی۔ اسی طرح اس آدمی نے علم دین سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو بھی اپنے علم سے مستفیض کیا۔ دوسرا وہ آدمی ہے جو عالم و معلم ہو مگر عابد و فقیہہ نہ ہو، نہ تو وہ نوافل وغیرہ میں مشغول ہوا اور نہ اس نے اپنے علم میں تفقہ یعنی سمجھ بوجھ پیدا کی، اس کی مثال زمین کے اس حصہ کی مانند ہے جس میں پانی جمع ہو گیا اور لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ یا پھر زمین کا وہ حصہ جس نے پانی کو جذب بھی کیا اور گھاس بھی اگائی وہ مجتہدین کی مثال ہے کہ جنہوں نے علم حاصل کیا، پھر بہت سے مسائل کا استنباط کیا اس سے خود بھی منتفع ہوئے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا۔
اور زمین کے اس حصہ کی مثال جس میں پانی جمع ہوا، محدثین ہیں کہ انہوں نے علم حدیث حاصل کیا اور اس علم کو بعینہ دوسرے لوگوں تک پہنچا دیا، ان دونوں کے مقابلہ میں تیسرا آدمی وہ ہے جس نے از راہ غرور و تکبر اللہ کے دین کے سامنے اپنی گردن نہیں جھکائی، نہ اس نے علم دین کی طرف کوئی توجہ والتفات کی اور نہ اس نے خدا اور خدا کے رسول کے پیغام کو سنا اور نہ اس پر عمل کیا اور نہ علم کی روشنی دوسروں تک پہنچائی، اب چا ہے یہ دین محمدی میں داخل ہو یا نہ ہو اور یا کافر ہو، اس کی مثال زمین شور کی ہے کہ جس نے نہ پانی کو قبول کر کے اپنے اندر جذب کیا، نہ پانی کو جمع کیا اور نہ کچھ اگایا۔
٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ) 3۔ آل عمران:7) ترجمہ: یہ وہ (خدا) ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب نازل کی کہ جس کی بعض آیات محکم ہیں۔ اور آخر آیت وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (3۔ آل عمران:7) اور نہیں نصیحت پکڑتے مگر صاحب عقل، تک پڑھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ آیت پڑھ کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس وقت تو دیکھے اور مسلم کی روایت میں ہے جب تم دیکھو کہ لوگ ان آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں جو متشابہ ہیں تو (تم سمجھو کہ یہ) وہ لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے (کج رو یا گمراہ) رکھا ہے لہٰذا ان لوگوں سے بچتے رہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت (ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہ مِنْہ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَہٓ اِلَّا اللّٰہ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَاب) 3۔ آل عمران:7)
اور وہی (آیات محکمات) اصل کتاب ہیں اور بعض آیات متشابہ ہیں۔ ایسے لوگ کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں ، حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جو لوگ علم میں کامل دسترس رکھتے ہیں وہ یہ فرماتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آیات متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں اور ان کی اصل مراد کو پانے کے لیے اپنی عقل کے تیر چلاتے ہیں ان کو اللہ نے کجرو یعنی گمراہ کہا ہے جیسا کہ آیت بالا (فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہمْ زَيْغٌ) 3۔ آل عمران:7) سے معلوم ہوا۔
حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیتیں ہیں اول آیات محکمات یہ وہ آیتیں ہیں جس کے معنی و مطلب ظاہر ہوتے ہیں ان میں اخفاء و ابہام نہیں ہوتا، دوسری آیات متشابہات ہیں یعنی جن کے معنی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان کی حقیقی مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے جیسے آیت (يَدُ اللّٰہ فَوْقَ اَيْدِيْہمْ) 48۔ الفتح:10) وغیرہ۔
لہٰذا جو لوگ نیک اور صالح ہوتے ہیں اور جن کے قلوب ایمان و ایقان کی روشنی سے پوری طرح منور ہوتے ہیں وہ آیات محکمات کے معنی و مطالب کو سمجھتے بھی ہیں اور ان پر ایمان بھی لاتے ہیں اور آیات متشابہات پر پوری رسوخ و ایقان کے ساتھ ایمان لا کر ان کے معنی و مطالب اور حقیقی مراد کا علم اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں کہ وہی بہتر جاننے والا ہے۔
لیکن جن لوگوں کے قلوب میں کجی ہوتی ہے اور جن کے ذہن گمراہ ہوتے ہیں وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ان میں اپنی طرف سے غلط تاویلیں کر کے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس حدیث اور مذکورہ بالا آیات شریفہ کا یہی خلاصہ اور مطلب ہے
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک (متشابہ) آیت میں اختلاف کر رہے تھے یعنی اس کے معنی میں جھگڑ رہے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان تشریف لائے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تم سے پہلے کے لوگ کتاب (الہٰی) میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس سے مراد وہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے قلوب شک میں گرفتار ہوں، یا ایمان میں کمزوری پیدا ہو اور آپس میں فتنہ وفساد اور دشمنی کا سبب نیز کفر و بدعت کا باعث ہو، جیسے نفس قرآن میں اختلاف کرنا، اس کے معنی و مطالب میں فرق پیدا کرنا، ظاہر ہے کہ ان چیزوں میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ اختلاف کرنا صحیح ہے ، ہاں علمائے مجتہدین کے اختلاف صحیح ہیں جو اللہ کی رحمت کا باعث اور دین و شریعت میں وسعت کا ذریعہ ہیں، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے اس طرح کا اجتہادی اختلاف جو فائدہ مند ہے ، منقول ہے جو جائز تھا اور جس کی وجہ سے بے شمار مسائل کا استنباط ہوا اور امت ان سے منتفع ہو گئی۔
٭٭اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، مسلمانوں میں سب سے بڑا گناہگار وہ آدمی ہے جس نے کسی ایسی چیز کا سوال کیا جو حرام نہ تھی مگر اس کے سوال کرنے سے وہ حرام ہو گئی ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ وعید آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کے بارے میں فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے از راہ سرکشی سوالات کرتے تھے یا ان کا سوال کرنا محض تصنع کی وجہ سے ہوتا تھا جیسا کہ بنی اسرائیل نے گائے کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا تھا۔ ہاں جن لوگوں کا سوال کرنا واقعۃً علم حاصل کرنے یا کسی ضرورت کی بنا پر ہوتا تھا وہ اس میں داخل نہیں ہیں کیونکہ ان کو تو اپنے صحیح سوالات کی بنا پر ثواب ملتا تھا۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ آخری زمانہ میں ایسے فریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہو گا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زہد و تقدس کا پرفریب لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بہکائیں گے ، عوام سے کہیں گے کہ ہم علماء اور مشائخ میں سے ہیں اور تمہیں اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں، نیز جھوٹی حدیث اپنی طرف سے وضع کر کے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے ، یا پچھلے بزرگوں کی طرف غلط باتیں منسوب کر کے لوگوں کو دھوکا دیں گے ، باطل احکام بتلائیں گے اور غلط عقیدوں کا بیج لوگوں میں بوئیں گے۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اگر وہ ایسے لوگوں کو پائیں تو ان سے بچیں، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے مکر و فریب سے نیک لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیں یعنی شرک و بدعت میں مبتلا کر دیں۔
اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ دین کے حاصل کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے ، نیز بدعتی اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہئے جو ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کی بنا پر دین و مذہب کی نام پر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان سے ربط و ضبط نہ رکھنا چاہئے
چوں بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب تو رات کو عبرانی زبان میں پڑھا کرتے تھے (جو یہودیوں کی زبان ہے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کیا کرتے تھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا یہ عمل دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا)۔ تم اہل کتاب کو نہ تو سچا جانو اور نہ ان کو جھٹلاؤ (صرف) یہ کہ کہو کہ ہم اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم پر نازل کی گئی، ایمان لائے (آخر آیت تک)۔ (صحیح البخاری)
تشریح
پوری آیت یہ ہے آیت (قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَہ مُسْلِمُوْنَ) 2۔ البقرۃ:136) (مسلمانو !) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو عطا ہوئیں ان پر اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ان (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ واحد) کے فرمانبردار ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے اہل کتاب (یعنی یہودی) تو رات کی کسی عبارت کا ترجمہ و تفسیر کریں تو ان کو نہ جھٹلاؤ اور نہ ان کو سچ جانو بلکہ یہ آیت کریمہ پڑھو اور ان کو سچا اس لیے نہ جانو کہ یہ لوگ کتاب الہٰی میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ تمہارے سامنے جس عبارت کا ترجمہ و تفسیر کر رہے ہیں، اس کو انہوں نے بدل دیا ہو، اور ان کو جھٹلاؤ اس لیے نہیں کہ اگرچہ انہوں نے تورات میں تغیر و تبدل کر رکھا ہے لیکن پھر بھی وہ کتاب ہے الہٰی ہے اور حق ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ شاید وہ سچ اور صحیح عبارت نقل کر رہے ہوں۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، انسان کے جھوٹ بولنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے (بغیر تحقیق کے) اسے نقل کر دے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی جھوٹ نہ بولتا ہو لیکن اس کی عادت یہ ہے کہ جو کچھ سنے بغیر تحقیق و تفتیش کے اسے نقل کر دیتا ہے اور لوگوں میں اسے مشہور کر دیتا ہے تو جھوٹ بولنے کے یہی بہت ہے ، کیونکہ سنی سنائی باتوں پر اعتماد کر لینا اور بغیر تحقیق کے اس کو پھیلا دینا جھوٹ کا پہلا زینہ ہے ، جو آدمی ایسی عادت میں مبتلا ہو گا وہ یقیناً جھوٹ کی لعنت میں گرفتار ہو گا کیونکہ وہ جو کچھ سنتا ہے اس میں سب سچ نہیں ہوتا کچھ جھوٹ بھی ہوتا ہے اور جب وہ سچ کے ساتھ جھوٹ کو نقل کرتا ہے تو وہ بھی جھوٹ ہوتا ہے۔
دراصل اس کا مقصد اس بات سے منع کرنا ہے کہ جس چیز کی حقیقت معلوم نہ ہو اور اس کی صداقت کا علم نہ ہو تو اسے بیان کرنا یا اس کی تشہیر کرنا نہیں چاہیے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ مجھ سے پہلے کسی قوم میں اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کے مددگار اور دوست اسی قوم سے نہ ہوں جو اسی (نبی) کے طریقہ کو اختیار کرتے اور اس کے احکام کی پیروی کرتے پھر ان (دوست و مددگار) کے بعد ایسے نا خلف (نالائق) لوگ پیدا ہوتے جو لوگوں سے ایسی بات کہتے جس کو خود نہ کرتے اور وہ کام کرتے جن کا انہیں حکم نہیں ملا تھا (جیسا کہ علماء سوء اور امراء و سرداروں کا طریقہ ہے) لہٰذا (تم سے)۔ جو خاص لوگوں سے اپنے ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو آدمی ان لوگوں سے اپنی زبان سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو آدمی ان لوگوں سے اپنے دل سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور اس کے علاوہ (جو آدمی ان کے خلاف اتنا بھی نہ کر سکے اس) میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ہاتھ سے جہاد کا مطلب تو ظاہر ہے زبان سے جہاد کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کے غلط عقائد و اعمال کی بنا پر ان کو تنبیہ کرے اور ان کو اس سے منع کرے اور ان کی برائی بیان کرتا رہے اسی طرح دل سے جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ایسی غلط چیزوں کو برا جانے جو دین و شریعت کے خلاف ہوں اور دل میں ان کے کرنے والوں سے بغض و نفرت رکھے۔
آخر میں فرمایا گیا کہ جس آدمی کا احساس اتنا مردہ ہو جائے کہ وہ غلط چیزوں کو دل سے بھی برا نہ جانے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ اس کے دل میں ایمان کی ہلکی سی روشنی بھی موجود نہیں ہے اس لیے کہ کسی غلط عقیدہ و عمل کو برا نہ جاننا گویا اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ وہ اس بری بات سے راضی اور خوش ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کفر کا خاصہ ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جس آدمی نے (کسی کو) ہدایت کی طرف بلایا اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس کو جو اس کی پیروی اختیار کرے ، اور اس (پیروی کرنے والے) کے ثواب میں کچھ بھی کم نہ ہو گا۔ اور جو (کسی کو) گمراہی کی طرف بلائے اس کو اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا کہ اس کو جو اس کی اطاعت کریں اور ان کے گناہ میں کچھ بھی کم نہ ہو گا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یعنی جو آدمی کسی بھلائی کا باعث اور ذریعہ ہو گا اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس بھلائی پر عمل کرنے والے کو، لیکن ہدایت و راستی کی طرف بلانے والے کو جو ثواب ملے گا اس کی وجہ سے اس کی پیروی کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی، کیونکہ اطاعت کرنے والوں کو جو ثواب ملے گا اور ان کے عمل صالح بنا پر ہو گا اور جو ثواب و بھلائی کی طرف بلانے والے کو ہو گا وہ اس کی دعوت و تبلیغ کی بناء پر ہو گا۔ یہی حال ان لوگوں کے گناہ کا ہے جو لوگوں کو غلط عقائد و اعمال کے طرف بلاتے ہیں اور خلاف شرع طریقہ پر عوام کو چلاتے ہیں۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اسلام غربت میں شروع ہوا اور آخر میں بھی ایسا ہی ہو جائے گا لہٰذا غرباء کے لیے خوشخبری ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اسلام کی ابتداء غریبوں سے ہوئی اور آخر میں بھی اسلام غریبوں میں ہی رہ جائے گا۔ یعنی ابتداء اسلام میں مسلمان غریب اور کم تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنی پڑی، اسی طرح آخر میں بھی ایسا ہی ہو گا کہ اسلام غریبوں ہی کی طرف لوٹ آئے گا، لہٰذا ان غرباء کے لیے جن کے قلوب ایمان و اسلام کی روشنی سے پوری طرح منور ہوں گے خوش بختی و سعادت ہے۔ اس لیے کہ آخر زمانہ میں یہی بے چارے اسلام پر ثابت قدم رہیں گے اور کتاب و سنت کے علوم و معارف سے اپنی زندگیوں کو منور کریں گے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ ایمان مدینہ کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح سانپ بل کی طرف سمٹتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (ذرونی ماتر کتکم) ہم کتاب مناسک (حج) میں ذکر کریں گے نیز حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و جابر کی دونوں حدیثیں (لایزال من امتی الخ) اور لا یزال طائفۃ من امتی۔ بھی اس امت کے ثواب کے باب میں ذکر کریں گے انشاء اللہ یعنی یہ حدیثیں صاحب مصابیح نے اسی باب میں ذکر کی تھیں لیکن ہم نے ان کو ان بابوں میں ذکر کیا ہے۔
تشریح
دشمنان اسلام کے مصائب اور مظالم سے اہل ایمان کے بھاگنے اور ایمان پر ثابت قدم رہنے کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سانپ سے دی ہے اس لیے کہ دوسرے جانوروں کے مقابلہ میں سانپ تیز بھاگتا ہے اور بہت سمٹ کر بل میں جاتا ہے اور پھر مشکل ہی سے وہ بل سے نکالا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیشین گوئی یا تو ابتدائے ہجرت کے وقت کے لیے تھی یا پھر آخر زمانہ کے بارہ میں جب مسلمان بہت کم رہ جائیں گے اور سب سمٹ سمٹا کر مدینہ چلے جائیں گے۔
٭٭حضرت ربیعہ الجرشی (آپ کا اسم گرامی ربیعۃ بن التمار ہے کچھ لوگوں نے انہیں ربیعہ بن عمرو بھی لکھا ہے ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے خرج راہط کے دن انتقال ہوا تھا۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں فرشتے دکھلائے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا (یعنی فرشتوں نے کہا) چاہئے کہ آپ کی آنکھیں سوئیں،
آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے کان سنیں اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا دل سمجھے ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا، تو میری آنکھیں سوئیں، میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے سمجھا، پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ سے کہا گیا (یعنی مثال کے طور پر فرشتوں نے میرے سامنے بیان کیا) کہ ایک سردار نے گھر بنایا اور کھانا تیار کیا پھر ایک بلانے والے کو بھیجا (تاکہ وہ لوگوں کو بلائے) لہٰذا جس نے بلانے والے کی دعوت کو قبول کیا وہ گھر میں داخل ہوا اور کھانے میں سے کھایا اور سردار خوش ہوا ، اور جس نے بلانے والے کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ گھر میں داخل ہوا اور نہ کھانے میں سے کھایا اور نہ ہی اس سے سردار خوش ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اس مثال میں سردار سے مراد اللہ ہے ، بلانے والے سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ہیں، گھر مراد اسلام ہے اور کھانے سے مراد جنت ہے۔ (دارمی)
تشریح
چاہئے کہ آپ (صل اللہ علیہ و سلم) کی آنکھیں سوئیں یعنی اپنی آنکھوں سے اور کچھ نہ دیکھئے ، نہ کسی بات پر کان رکھئے اور نہ دل میں کوئی دوسرا سوال جمائیے فرشتوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خوب غور و خوض اور حضور دل کے ساتھ اس مثال کو سنیے جو ہم بیان کرنے والے ہیں تاکہ یہ خوب اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ فنامت عینای یعنی میری آنکھیں سوئیں الخ، اسی مضمون کی وہ حدیث جو پہلی فصل میں گزری اس کی مذکورہ مثال میں گھر سے جنت اور کھانے سے بہشت کی نعمتیں مراد لی گئی تھیں، اس حدیث میں گھر سے مراد اسلام لیا گیا ہے اور کھانے سے جنت مراد لی گئی ہے اس لیے کہ مکان بہشت میں داخل ہونے کا سبب اور ذریعہ ہے اس لیے اسے گھر کی تمثیل دی گئی ہے مادبۃ کے معنی مہمان کے کھانے کے ہیں، دونوں حدیث میں اس سے مراد جنت کی نعمتیں ہیں۔
٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ(آپ کا اسم گرامی اسلم ہے ابو رافع کنیت ہے یہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے چھپر کھٹ (مسہری) پر تکیہ لگائے ہوئے اور میرے ان احکام میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جس سے منع کیا ہے کوئی حکم اس کے پاس پہنچے اور وہ (اسے سن کر) یہ کہہ دے کہ میں کچھ نہیں جانتا ، جو کچھ ہمیں اللہ کی کتاب میں ملا ہم نے اس کی اطاعت کی۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، بیہقی)
تشریح
چھپر کھٹ پر لگائے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی از راہ غرور و تکبر بے فکر ہو کر بیٹھا نہ رہے اور نہ طالب علم و حصول حدیث میں کوتا ہی کرے اور نہ دینی علوم کو ترک کرے اور از راہ جہالت و نادانی میرے کسی ایسے حکم کے بارے میں جو قرآن میں صراحت کے ساتھ موجود نہ ہو یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتا اور نہ اس کے سوا کسی دوسری چیز کی پیروی کرتا ہوں اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جاہل اور متکبر و بے فکرے لوگوں کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی ہے جو ان احکام پر عمل کرنے میں شک و شبہ کا اظہار کریں گے یا ان کی اطاعت میں کسل و سستی کا اظہار کریں گے جو صراحت کے ساتھ قرآن میں موجود نہ ہوں گے اور ان کی ظاہر بین نظریں قرآنی علوم کے اسرار و معانی کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہیں گی۔
چنانچہ وہ لوگ یہ خیال کریں کہ دین و شریعت کے احکام و مسائل صرف قرآن ہی میں منحصر و مذکور ہیں حالانکہ وہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ بہت سے مسائل و احکام قرآن مجید میں موجود نہیں ہیں وہ صرف حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں، اسی لیے علماء اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح احکام شرائع کے لیے قرآن دلیل و حجت ہے اسی طرح حدیث بھی دلیل و حجت ہے کیونکہ جس طرح قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا ہے ، اسی طرح احادیث کے علوم و معارف بھی بارگاہ الوہیت ہی سے نازل ہوئے ہیں اور دونوں وحی ہیں۔
٭٭اور حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ(اسم گرامی مقدام بن معدیکرب اور کنیت بھی معدیکرب ہے ، آپ صحابی ہیں شام میں ٨٧ھ میں بعمر ٩١ سال آپ کا انتقال ہوا ہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، آگاہ رہو ! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کا مثل، خبردار، عنقریب اپنے چھپر کھٹ پر پڑا ایک پیٹ بھرا آدمی کہے گا کہ بس اس قرآن کو اپنے اوپر لازم جانو (یعنی فقط قرآن ہی کو سمجھو اور اس پر عمل کرو) اور جو چیز تم قرآن میں حلا ل پاؤ اس کو حلال جانو اور جس چیز کو تم قرآن میں حرام پاؤ اسے حرام جانو حالانکہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام فرمایا ہے وہ اس کے مانند ہے جسے اللہ نے حرام کیا، خبردار تمہارے لیے نہ اہلی (گھریلو) گدھا حلال کیا اور نہ کچلی رکھنے والے درندے ، اور نہ تمہارے لیے معاہد یعنی وہ قوم جس سے معاہدہ کیا گیا ہو کا لقطہ حلال کیا ہے جس کی پرواہ اس کے مالک کو نہ ہو، اور جو شخص کسی قوم کا مہمان ہو اس قوم پر لازم ہے کہ اس کی مہمانی کریں۔ اگر وہ مہمانی نہ کریں تو اس آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ مہمانی کے مانند اس سے حاصل کرے۔ (ابوداؤد) دارمی نے بھی ایسی روایت نقل کی ہے اور اسی طرح حدیث بھی مجھے بارگاہ الوہیت سے عطا ہوئی ہے۔
تشریح
قرآن کا مثل حدیث ہے یعنی جس طرح قرآن مجید مجھ پر نازل کیا گیا ہے اسی طرح حدیث بھی مجھے بارگاہ الوہیت ہی سے عطا ہوئی ہے لیکن فرق یہی ہے کہ قرآن وحی ظاہر ہے اور حدیث وحی پوشیدہ۔ لہٰذا واجب العمل دونوں میں الا لا یحل سے بطور مثال کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان چیزوں کی حرمت قرآن میں کہیں مذکور نہیں ہے میں نے ہی ان کی حرمت بیان کی ہے جس پر عمل کرنا واجب و ضروری ہے۔
اہلی گدھا اسے کہتے ہیں جو گھر میں رہتا ہے یہ حرام ہے گدھا وحشی جسے گورخر کہتے ہیں۔ ان سب کی حرمت احادیث ہی سے ثابت ہے معاہد اس کافر کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ صلح و امان ہوا ہو، خواہ وہ کافر ہو یا غیر ذمی، اس کے بارہ میں فرمایا کہ اس کا لقطہ حلال نہیں ہے ، ہاں اگر لقطہ ایسی چیز ہے جس سے اس کا مالک بے نیاز و بے پرواہ ہو جیسے گٹھلی، چھلکے ، گاجر، مولی یا ایسی ہی کوئی حقیر چیز تو اس کے لیے لینا جائز ہے لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو راستہ میں گری پڑی پائی جائے۔
آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جو آدمی کسی کے یہاں مہمان جائے تو میزبان پر اس کی مہمانداری لازم ہے علماء فرماتے ہیں کہ یہ حکم فرض نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا مستحب و اولیٰ ہے ، اسی طرح یہ حکم دینا کہ اگر میزبان مہمان نوازی نہ کر سکے تو میزبان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس میزبان سے مہمانداری کا عوض وصول کر لے یعنی اس سے روپیہ پیسہ لے۔
اس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ یا تو ایسی شکل میں جائز ہوا جب کہ مہمان ایسا مضطر ولا چار ہو کہ اگر میزبان سے وہ کچھ نہ لے تو اس کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہو۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جواز کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا لیکن اب منسوخ ہے۔
٭٭اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت او نجیح ہے اور سلمی ہیں آپ اہل صفہ سے تھے۔ ان سے تابعین کی ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے ۷۵ہ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (خطبہ کے لیے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی آدمی اپنے چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے یہ خیال رکھتا ہے کہ اللہ نے وہی چیزیں حرام کی ہیں جو قرآن میں ذکر کی گئی ہیں، خبردار ! اللہ کی قسم ! بلاشک میں نے حکم دیا، میں نے نصیحت کی اور میں نے منع کیا چند چیزوں سے جو مثل قرآن کے ہیں بلکہ زیادہ ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ حلال نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت حاصل کئے بغیر چلے جاؤ اور نہ تمہارے لیے ان عورتوں کو مارنا حلال ہے اور نہ تمہارے لیے ان کے پھلوں کا کھانا جائز کیا ہے جب کہ وہ اپنا مطالبہ ادا کر دیں جو ان کے ذمہ تھا۔ (ابوداؤد) اور ان کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی ہیں جن کے بارے میں کلام کیا گیا ہے وہ ثقہ ہیں یا نہیں؟۔
تشریح
ان اللہ لم یحل سے آخر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چند احکام دیے ہیں وہ یہ کہ اہل کتاب کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہو کر ان کو نہ ستاؤ اور نہ ان کو پریشان کرو اور نہ ان کے گھر والوں کو ستاؤ اور نہ تکلیف پہنچاؤ اسی طرح ان کے مال کو نہ لو جب کہ وہ جزیہ ادا کریں۔
ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ یہ احکام قرآن میں مذکور نہیں ہیں بلکہ میں نے دیے ہیں اور ان چیزوں سے میں نے منع کیا ہے اور ان پر عمل کرنا واجب و ضروری ہے۔ ان احکام سے یہ کہہ کر اعراض نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قرآن میں چونکہ موجود نہیں ہیں اس لئے واجب العمل بھی نہیں ہیں۔
آخر روایت میں لفظ رواہ کے بعد مشکوۃ کے اصل نسخہ میں جگہ خالی ہے اس لیے کہ صاحب مشکوٰۃ کو اس حدیث کے راوی کا علم نہ ہوا ہو گا۔ لیکن بعد میں میرک شاہ نے مذکورہ عبارت لکھ دی ہے۔
٭٭اور حضرت عرباض بن ساریہ (حضرت عرباض ابن ساریہ کی کنیت ابو نجیح ہے اور سلمی ہیں آپ اہل صفہ سے تھے۔ ان سے تابعین کی ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے ٧٥ھ ہیں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نماز پڑھائی ہماری طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے اور ہم کو نہایت موثر انداز میں نصیحت کی کہ ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور دلوں میں خوف پیدا ہو گیا، ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ !(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) گویا نصیحت کرنے والے کی یہ (آخری نصیحت ہے) لہٰذا ہم کو وصیت فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم کو مسلمان سردار جو کہے سننے اور بجا لانے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ وہ (سردار) حبشی غلام ہو تم میں سے جو آدمی میرے بعد زندہ رہے گا وہ اختلاف بھی دیکھے گا ا یسی حالت میں تم پر لازم ہے کہ میرے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم جانو اور اسی طریقہ پر بھروسہ رکھو اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہو اور تم (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچو اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) مگر اس روایت میں جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں کیا ہے یعنی ان کی رعایت میں حدیث کے الفاظ صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مذکور نہیں ہیں بلکہ حدیث وعظنا موعظۃ سے شروع ہوتی ہے۔
تشریح
راوی کے قول کَأَنَّ ھٰذِہٖ مُوَعِظَۃُ مُوْدِّعِ (گویا کہ رخصت کرنے والے کی آخری نصیحت ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی آدمی کوچ کرنے والا ہوتا ہے تو بر وقت رخصت وعظ و نصیحت کے بیان میں کمال کوشش کرتا ہے تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس وقت اس انداز سے وعظ و نصیحت بیان فرمائی ہے گویا آپ کا وقت رحلت قریب ہے لہٰذا اس سے پہلے آپ اس دنیا سے تشریف لے جائیں ہمیں ایسی وصیتیں فرما دیجئے جو دین و دنیا دونوں جگہ ہمارے لئے رہبر ہوں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان سردار و حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری ہر حال میں ضروری، الا یہ کہ خلاف شریعت باتوں کا حکم نہ دے چنانچہ بطور مبالغہ فرمایا کہ اگرچہ مسلمان سردار حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو اس کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری ہے۔ دانتوں سے پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو پورے عزم و یقین اور پختگی کے ساتھ اپنے اوپر لازم کر لیا جائے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہمیں سمجھانے کے لیے) ایک (سیدھا) خط کھینچا اور فرمایا۔ یہ اللہ کا راستہ ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خط کے دائیں اور بائیں کئی (چھوٹے اور ٹیڑھے) خطوط کھینچے اور فرمایا۔ یہ بھی راستے ہیں جن میں سے ہر ایک راستہ پر شیطان (بیٹھا ہوا) ہے جو اپنے راستہ کی طرف بلاتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوْہ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ) 6۔ الانعام:153) ٖ ترجمہ: اور بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا اس کی پیروی کرو اور (دوسرے) راستے کی پیروی نہ کرو تاکہ اس کے راستے تمہیں منتشر نہ کریں۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن نسائی، دارمی)
تشریح
خط مستقیم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے کھینچا تھا وہ راہ خدا کی مثال ہے جس سے صحیح عقائد اور نیک و صالح، اعمال مراد ہیں اور دوسرے چھوٹے و ٹیڑھے خطوط راہ شیطان کی مثال ہیں جن سے گمراہی و ضلالت کے راستے مراد ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر ر راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک پورا مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز(دین و شریعت) کی تابع نہیں ہوتیں جس کو میں (اللہ کی جانب سے لایا ہوں یہ حدیث شرح السنۃ میں روایت کی گئی ہے اور امام نووی نے اپنی چہل حدیث میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے جس کو ہم نے کتاب الحجۃ میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کامل اس آدمی کا ہوتا ہے جو دین و شریعت کا پوری طرح پیری اور ان کی صداقت و حقانیت کا ایقان و اعتقاد پورے رسوخ کے ساتھ رکھتا ہو، نیز اس کی زندگی کے ہر پہلو میں خواہ اعتقادات و عبادات ہوں یا اعمال و عادات سب میں کمال رضا و رغبت اور بخوشی دین و شریعت کار فرما ہوں اور ظاہر ہے کہ روحانی پاکیزگی و لطافت اور عرفانی عروج کا یہ مرتبہ اس آدمی کو حاصل ہو سکتا ہے جس کا قلب و دماغ خواہشات نفسانی کی تمام گندگی و ثقالت سے پاک و صاف ہو کر نور الہٰی کی مقدس روشنی سے جگمگا اٹھے ، چنانچہ اولیاء اللہ اور صالحین حقیقت و معرفت کے اسی عظیم مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔
٭٭اور حضرت بلال بن حارث مزنی (اسم گرامی بلال بن حارث اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے ، آخر میں آپ نے بصرہ میں سکونت اختیار فرمائی تھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخر زمانہ میں ٩٠ھ بعمر اسی سال آپ کا انتقال ہوا۔ (راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہو گا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔ (جامع ترمذی) اور اس روایت کو سنن ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمر سے اور عمر نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سنت پر عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی اور سنت کو رائج کرنے والے کو بھی اس کے برابر ثواب ملتا ہے ، اسی طرح بدعت پر عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں ہوتی اور بدعت پیدا کرنے والے کے نامہ اعمال میں اس کے برابر گناہ لکھا جاتا ہے۔
یہاں سنت سے مراد مطلق دین کی بات ہے خواہ وہ فرض ہو یا واجب وغیرہ جیسے کہ نماز جمعہ کہ لوگوں نے اسے چھوڑ رکھا ہو اور اسے تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ قائم کیا جائے یا ایسے ہی مصافحہ اور دیگر مسنون چیزیں جو متروک العمل ہو چکی ہوں، ان سب کو رائج کرنا بے شمار حسنات کو موجب ہے۔
٭٭اور حضرت عمر بن عوف راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بلاشبہ دین (اسلام) حجاز (مکہ و مدینہ اور اس کے متعلقات) کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح کہ سانپ بل کی طرف سمٹ آتا ہے ، اور دین حجاز میں اس طرح جگہ پکڑ لے گا جیسے کہ بکری پہاڑ کی چوٹی پر جگہ پکڑ لیتی ہے اور دین ابتداء میں غریب پیدا ہوا تھا اور آخر میں ایسا ہی ہو جائے گا جیسا کہ ابتداء میں تھا، چنانچہ خوشخبری ہو غریبوں کو وہی اس چیز(یعنی میر ی سنت) کو درست کر دیں گے جس کو میرے بعد لوگوں نے خراب کر دیا ہو گا۔ (جامع ترمذی)
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہو گی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بد فعلی کی ہو گی تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! جنتی فرقہ کون سا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس میں میں اور میرے اصحاب ہوں گے۔ (جامع ترمذی) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے جو روایت معاویہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ بہتر گروہ دوزخ میں جائیں گے اور ایک گروہ جنت میں جائے گا اور وہ جنتی گروہ جماعت ہے اور میری امت میں کئی قومیں پیدا ہوں گی جن میں خواہشات یعنی عقائد و اعمال میں بدعات اسی طرح سرائیت کر جائیں گی جس طرح ہڑک والے میں ہڑک سرایت کر جاتی ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے باقی نہیں رہتا۔
تشریح
بنی اسرائیل اور اس امت کی مماثلت کو جوتوں کی برابری سے تشبیہ دی گئی ہے جس طرح بنی اسرائیل کے لوگ اپنے زمانہ میں بداعمالیوں میں مبتلا تھے اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ جب اس امت کے لوگ بھی بالکل بنی اسرائیل کی طرح ہو جائیں گے اور ان کے عقائد و اعمال میں ان سے بالکل مطابقت ہو جائے گی۔
یہاں ماں سے حقیقی ماں مراد نہیں بلکہ باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں مرادی ہے اس لیے کہ حقیقی ماں سے اس قسم کا معاملہ بالکل بعید ہے کیونکہ اس میں شرعی رکاوٹ کے ساتھ طبعی رکاوٹ بھی ہوتی ہے۔
اسی طرح امتی سے مراد اہل قبلہ ہیں یعنی جو مسلمان سمجھے جاتے ہیں۔ اس شکل میں کلھم فی النار یعنی وہ تمام فرقے دوزخ میں ہوں گے کہ معنی یہ ہوں گے کہ وہ سب اپنے غلط عقائد اور بداعمالیوں کی بنا پر دوزخ میں داخل کئے جائیں گے ، لہٰذا جس کے عقائد و اعمال اس حد تک مفسد نہ ہوں گے کہ وہ دائرہ کفر میں آتے ہوں تو اللہ کی رحمت سے وہ اپنی مدت سزا کے بعد دوزخ سے نکال لئے جائیں گے۔
آخر حدیث میں جنتی گروہ کو جماعت کہا گیا ہے اور اس سے مراد اہل علم و معرفت اور صاحب فقہ حضرات ہیں ان کو جماعت کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ حضرات کلمہ حق پر جمع ہیں اور دین و شریعت پر متفق ہیں، اس موقع پر مناسب ہے کہ حدیث میں مذکورہ تہتر فرقوں کی تفصیل کر دی جائے۔
اہل اسلام میں بڑے گروہ آٹھ ہیں۔ (١) معتزلہ (٢) شیعہ (٣) خوارج (٤) مرجیہ (٥) بخاریہ (٦) جبریہ (٧) مشبہہ (٨) ناجیہ، پھر یہ آٹھوں گروہ چھوٹے چھوٹے فرقوں پر اس طرح منقسم ہیں۔
(١) معتزلہ کے بیس فرقے ہیں۔ (٢) شیعہ کے بائیس فرقے ہیں (٣) خوارج کے بیس فرقے ہیں۔ (٤) مرجیہ کے پانچ فرقے ہیں (٥) بخاریہ کے تین فرقے ہیں اور (٦) جبریہ (٧) مشبہہ صرف ایک ایک ہی فرقے ہیں ان میں کئی فرقے نہیں ہیں اور آٹھواں فرقہ ناجیہ بھی صرف ایک ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت ہیں جو جنتی ہیں۔ اس موقع پر ان فرقوں کے عقائد بھی اجمالی طور پر سن لیجئے۔
معتزلہ فرماتے ہیں کہ بندہ اپنے تمام اعمال کا خالق ہے ، کا سب نہیں ہے نیز ان کا عقیدہ ہے کہ بندہ صالح کو ثواب دینا اور بد کار بندہ کو عذاب دینا اللہ پر واجب اور ضروری ہے اسی طرح اس فرقہ کے لوگ باری تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں، مرجیہ کا عقیدہ ہے کہ جس طرح کافر کے لیے اس کے صالح اور نیک اعمال کار آمد نہیں ہیں اسی طرح مومن کو اس کے اعمال بد کچھ نقصان و ضرر نہیں پہنچاتے اور نہ اس کے ایمان میں کوئی نقص پیدا ہوتا ہے ، بخاریہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال کا انکار کرتے ہیں اور کلام الہٰی کو حادثات مانتے ہیں۔ جبریہ کا عقیدہ ہے کہ بندہ مجبور محض ہے اسے اپنے کسی عمل پر کوئی اختیار نہیں ہے ، مشبہہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مخلوق کے مشابہ مانتے ہیں اور ذات باری تعالیٰ کی جسمیت کے قائل ہیں، نیز ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق میں حلول کرتا ہے ، اور شیعہ اور خوارج کے عقائد مشہور ہی ہیں، یعنی شیعہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی تفصیل کے قائل ہیں، اب ان میں بھی کئی فرقے ہیں، شیعہ کے بعض فرقے تو حضرت علی کرم اللہ وجہ کو شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت و فوقیت دیتے ہیں لیکن شیخین کی تکفیر نہیں کرتے مگر دوسرے فرقے حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تکفیر کے بھی قائل ہیں۔ (نعوذبا اللہ) نیز بعض شیعہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن اپنی مکمل صورت میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی بعض وہ آیتیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی منقبت میں تھیں، حذف کر دی گئی ہیں، خوارج حضرت علی کرم اللہ وجہ کی دشمن جماعت کو کہتے ہیں یہ لوگ حضرت علی کرم وجہ اللہ کی تکفیر کے قائل ہیں (نعوذ با اللہ)۔
اس موقع پر ایک خاص اشکال کی طرف اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے
ایک ایسا آدمی جو جاہل تھا اسلام کی دولت سے مشرف ہوا، اس کے سامنے اہل سنت و الجماعت بھی ہیں اور شیعہ کی جماعت بھی ہے دونوں اس کے سامنے اپنے حق پر ہونے کے دلائل قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں، وہ نو مسلم حیران ہے کہ وہ دونوں میں سے کسے حق جانے اور کس کے دلائل کی تصدیق کرے جب کہ وہ علم سے بالکل بے بہرہ ہے ، اس کا سیدھا حل یہ ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو صراحت کے ساتھ اہل سنت و الجماعت کے حق ہونے کی دلیلیں پیش کرتی ہیں اور وہ چیزیں ایسی صاف اور ظاہر ہیں کہ ان کا مشاہدہ عام لوگوں کو بھی ہوا کرتا ہے لہٰذا وہ ان میں غور کرے تو اس کے سامنے اہل سنت کی حقانیت آشکارا ہو جائے گی۔
مثلاً ایک سب سے بڑی کھلی نشانی جو آج سب کے سامنے مشاہدہ میں ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت کے حصہ میں ہے یعنی قرآن کریم کے جتنے بھی حافظ ہوتے ہیں وہ سنی ہوتے ہیں آج تک کسی شیعہ کو حافظ نہیں دیکھا گیا اس لیے کہ ان کی قسمت میں اس عظیم نعمت سے محرومی لکھی ہوئی ہے ، ہو سکتا ہے کہ لاکھوں میں کوئی ایک شیعہ حافظ نکل آئے تو یہ نادر ہے جس کا اثر کلیہ پر نہیں پڑتا کیونکہ النادر کا لمعدوم نادر نہ ہونے کے درجہ میں ہے۔
دوسرے یہ بھی ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ دین محمدی اور شریعت مصطفوی کے ائمہ اور رکن دین جتنے علماء اور اولیاء تھے وہ سب سنی تھے اور ان میں بعض ائمہ و علماء کے شیعہ بھی معتقد ہیں۔ اگر مسلک اہل سنت و الجماعت میں کوئی کجی یا نقص ہو تو وہ حضرات یقیناً اس مسلک کو اختیار کئے ہوئے نہ ہوتے۔
تیسرے اسلامی شعار مثلاً جمعہ، جماعت عیدین وغیرہ علی الاعلان اور کھلے بندوں صرف سنی ہی ادا کرتے ہیں اور شیعہ ان نعمتوں سے محروم و بے نصیب ہیں۔
چوتھے مکہ و مدینہ جو دین اسلام کا مبداء اور مرکز ہے اور وہاں کے باشندے اپنی بزرگی و عظمت کے لحاظ سے ضرب المثل ہیں وہاں کے لوگ بھی اسی مسلک کے پابند ہیں اگر شیعہ مسلک اچھا ہوتا تو وہ لوگ یقیناً سنی نہ ہوتے بلکہ شیعہ مسلک کے پابند ہوتے۔
اسی طرح دوسرے فرقے بھی اپنی حقانیت کے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کا جواب یہی ہے کہ کسی کی حقانیت و بطلان پر محض دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک اس دعویٰ کی قوی دلیل نہ ہو۔
اہل سنت و الجماعت کی حقانیت کی دلیل یہ ہے کہ یہ دین اسلام جو ہم تک پہنچا ہے وہ نقل کے ساتھ پہنچا ہے اس میں محض عقل کافی نہیں ہے لہٰذا تواتر اخبار اور احادیث و آثار میں تلاش و جستجو اور تنقیع کے بعد یہ بات متیقّن ہو گئی ہے کہ صحابہ اکرام رضون اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ اسی مسلک و اعتقاد پر تھے ، دوسرے باطل فرقے سب بعد میں پیدا ہوئے ، نہ تو صحابہ ان باطل فرقوں کے مسلک کے پابند تھے اور نہ دیگر نیک و صالح لوگ ان فرقوں کے ساتھ تھے اگر صحابہ اور تابعین کے زمانوں میں ان میں سے بعض باطل فرقے پیدا ہوئے تو ان لوگوں نے ان سے اپنی انتہائی نفرت و بیزاری کا اظہار کیا یہاں تک کہ ایسے غلط عقائد و مسلک کے لوگوں سے ان حضرات نے تمام تعلق و رابطے منقطع کر ڈالے ، نیز صحاح ستہ کے حضرات مصنفین و دیگر محدثین علمائے ربانین اور اولیائے کاظمین تمام کے تمام اہل سنت و الجماعت کے عقائد و مسلک کے پابند تھے۔
لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت الجماعت کا مسلک حق نہ ہوتا اور ان کے عقیدے صحیح نہ ہوتے تو کروڑہا پدم ہا پدم لوگ اس مسلک حق کے پابند نہ ہوتے جن میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی، بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی تھے اور علمائے محدثین بھی، عقلاء و دانش مند بھی تھے اور عوام بھی۔
بہر حال مسلک اہل سنت و الجماعت کے حق ہونے کی چند مثالیں ہیں ان کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں ہیں جو اہل سنت و الجماعت کی حقانیت پر شاہد عادل ہیں، اگر نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض سے الگ ہٹ کر تلاش حق کے حقیقی جذبہ سے اہل حق کی اس جماعت کے عقائد کو دیکھا جائے تو ان کی حقانیت عیاں ہو جائے گی ورنہ بقول شاعر
ہشیار کو اک حرف نصیحت ہے کافی
نادان کو کافی نہیں دفتر نہ رسالہ
اس حدیث کے ان تمام فرق باطلہ کے لوگوں کو ہڑک والوں سے مشابہت دی گئی ہے اس لیے کہ جس طرح ہڑک والے پر ہڑک غالب ہوتی ہے اور پانی سے بھاگتا ہے نتیجہ میں وہ پیاسا ہو جاتا ہے اسی طرح جھوٹے مذاہب اور باطل مسلک والوں پر بھی خواہشات نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے وہ علم و معرفت کے لالہ زاروں سے بھاگ کر جہل و گمراہی کی وادیوں میں جا گرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ دین و دنیا دونوں جگہ اللہ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ میری امت کو یا (بجائے میری امت کے) یہ فرمایا کہ امت محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو آدمی جماعت پر ہے اور جو آدمی جماعت سے الگ ہے وہ جنت والوں کی جماعت سے الگ کر کے تنہا دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اللہ کے ہاتھ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے توفیق و تائید اور حفاظت و مدد جماعت پر ہوتی ہے اس امت مرحومہ پر اللہ کی جانب سے جہاں بہت سے احسانات ہیں وہیں اس کا یہ بھی بڑا کرم ہے کہ امت کے تمام لوگ کبھی ناحق اور غلط باتوں پر جمع نہیں ہوتے یہ جب بھی کسی چیز پر اتفاق کرتے ہیں وہ حق بات ہوتی ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بڑی جماعت کی پیروی کرو ! اس لیے کہ جو جماعت سے الگ ہوا وہ تنہا آگ میں ڈالا جائے گا ابن ماجہ نے یہ حدیث کتاب السنۃ سے حدیث انس و ابن عاصم سے روایت کی ہے۔
تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ انہی اعتقادات کی پیروی کرنی چاہئے جو اکثر علماء کے نزدیک حق ہوں اسی طرح ایسے اقوال و افعال کو قبول کرنا چاہئے جو جمہور علماء سے ثابت ہوں۔ اس حدیث میں لفظ رواہ کے بعد اصل مشکوٰۃ میں جگہ خالی تھی اس لیے کہ صاحب مشکوٰۃ کو اس کتاب کا نام معلوم نہیں ہوا تھا جس سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے بعد میں میرک شاہ نے مذکورہ عبارت نقل کی ہے۔
٭٭اور حضرت انس راوی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا۔ اے میرے بیٹے ! اگر تم اس پر قدرت رکھتے ہو کہ صبح سے لے کر شام تک اس حال میں بسر کرو کہ تمہارے دل میں کسی سے کینہ نہ ہو تو ایسا ہی کرو ! پھر فرمایا، اے میرے بیٹے ! یہی میری سنت ہے لہٰذا جس آدمی نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا اور جس نے مجھ کو محبوب رکھا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کو پسند کرنا اور اسے محبوب رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھنے کا سبب اور جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت جیسی نعمت عظیم کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو پسند کرنے پر یہ خوشخبری ہے تو سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل کرنا کتنی بڑی سعادت و خوش بختی کی بات ہو گی۔ ذرا غور کرنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو پسند کرنے والوں کا کتنا بڑا مرتبہ ہے وہ یہ ہے کہ انہیں جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت و معیت کا شرف حاصل ہو گا، حقیقت یہ ہے کہ دونوں جہان کی تمام نعمتیں اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف یہ نعمت ہو تو یقیناً سعادت و خوشی کے اعتبار سے یہ نعمت بڑھ جائے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مقدّس سنت کو محبوب رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب اس نعمت سے بہرہ ور ہو سکیں۔ (آمین)۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری امت کے بگڑنے کے وقت جس آدمی نے میری سنت کو دلیل بنایا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ تو بیہقی نے یہ روایت اپنی کتاب زہد میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔
تشریح
ایسے عظیم اجر کے ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ایک شہید دین اسلام کو زندہ رکھنے اور اس کی شان و شوکت کو بڑھانے کی خاطر دنیا کی تمام مصیبتیں جھیلتا ہے یہاں تکہ کہ اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہے ، اسی طرح جب کہ دین میں رخنہ اندازی ہونے لگے اور فتنہ فساد کا دور دورہ ہو تو سنت کو رائج کرنے اور علوم نبوی کو پھیلانے میں بے شمار مصائب و تکالیف کا سامنا ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں اس لیے اس عظیم اجر کی خوشخبری دی جا رہی ہے اس حدیث میں بھی لفظ رواہ کے بعد مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں جگہ خالی ہے مگر مذکورہ عبارت میرک شاہ نے بڑھا دی ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم یہود کی حدیثیں سنتے ہیں اور وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتی ہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو لکھ لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، کیا تم بھی اسی طرح حیران ہو جس طرح یہود اور نصاریٰ حیران ہیں۔ (جان لو کہ) بلاشبہ میں تمہارے پاس صاف و روشن شریعت لایا ہوں، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ بھی میری پیروی پر مجبور ہوتے۔ (مسند احمد بن حنبل ، بیہقی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ حیران ہیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو اور اپنے پیغمبر کی حقیقی تعلیم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے خود غرض و لالچی علماء کی خواہشات کے مطیع ہو گئے ہیں، کیا اسی طرح تم بھی متحیر ہو کہ اپنے دین کو ناقص و نامکمل سمجھ کر دوسروں کے دین و شریعت کے محتاج ہو رہے ہو، حالانکہ میری لائی ہوئی شریعت اتنی مکمل اور واضح ہے کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی میری شریعت کے پابند اور میرے احکام کے مطیع ہوتے۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جس آدمی نے حلال (رزق) کھایا، سنت کے طریقہ پر عمل کیا اور اس کی زیادتیوں سے لوگ امن میں رہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسے لوگ تو آج کل بہت ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اور میرے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
حلال رزق کا مطلب یہ ہے کہ خواہ تجارت ہو یا ملازمت یا کوئی دوسرا ذریعہ معاش، ہر جگہ ایماندار و دیانت کے دامن کو پکڑے رہے اور شریعت کی حدود سے تجاوز نہ کرے نیز ایسی کوئی صورت اختیار نہ کرے جس سے اس کی کمائی حرام ہو جائے جیسے اگر کوئی آدمی تجارت میں خرید و فروخت کے وقت میں ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جو شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہیں تو اس کا کمایا ہوا مال پاک و حلال نہیں رہے گا۔ ہاں اگر اس کا طرز عمل خلاف شریعت نہیں ہوتا تو اس کی کمائی حلال ہو گی۔
شرعی نقطہ نظر سے تجارت میں حلال کمائی کے لیے یہ شرط ہے کہ کسی مال کو فروخت کرتے وقت نہ تو عقد بیع سے پہلے نہ عقد بیع کے وقت اور عقد بیع کے بعد کوئی ایسی شکل اختیار کرے جو شرعی طور پر مفسد بیع ہو تو اس کا کمایا ہوا مال حلال و طیب ہو گا اور اگر اس کے برخلاف عمل کیا تو اس کی کمائی حلال نہیں ہو گی۔ مثلاً کسی تاجر نے کسی چیز کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا اور عقد بیع سے پہلے دھوکہ اور فریب دینے کا خیال کیا۔ جیسے جس چیز کو فروخت کر رہا ہے اس میں کوئی عیب ہے لیکن اس نے اس کو نہ ظاہر کرنے کا ارادہ کیا تو اگرچہ عقد بیع کے وقت ایجاب و قبول شرعی طور پر ہوا ہو مگر اس کی اس فاسد نیت کی وجہ سے اس کا کمایا ہوا مال حلال نہیں ہو گا۔ یا اسی طرح فروخت کے وقت جب کہ عقد بیع واقع ہو رہا تھا یا عقد بیع کے بعد تاجر نے کوئی فاسد شرط لگا دی جو جائز نہیں ہے تو اس صورت میں بھی اس کا کمایا ہوا مال حلال نہیں ہو گا جیسے دکاندار نے کسی چیز کو فروخت کیا اور خریدار سے کہا کہ بیع ہو گی لیکن شرط یہ ہے کہ ایک بوتل شراب مجھے دیا کرنا تو چونکہ یہ شرعی طور پر جائز نہیں ہے اس لیے اس کا حاصل کیا ہوا مال حلال نہیں ہو گا۔
بہر حال مطلب یہ ہے کہ خرید و فروخت کے سلسلہ میں ان تینوں اوقات میں ایسا طریقہ اختیار نہ کرنا چاہئے جو خلاف شریعت ہوتا کہ اس کا کمایا ہوا مال حلال رہے۔ پھر یہ تجارت ہی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح ملازمت اور زراعت وغیرہ کا معاملہ بھی ہے کہ وہاں ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جو حلال رزق کے حصول میں رکاوٹ بنیں۔
بہرحال مطلب یہ ہے کہ خرید و فروخت کے سلسلہ میں ان تینوں اوقات میں ایسا طریقہ اختیار نہ کرنا چاہئے جو خلاف شریعت ہو تاکہ اس کا کمایا ہوا مال حلال رہے۔ پھر یہ تجارت ہی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح ملازمت اور زراعت وغیرہ کا معاملہ بھی ہے کہ وہاں ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جو حلال رزق کے حصول میں رکاوٹ بنیں۔
حدیث میں دخول بہشت کے لیے دوسرا وصف یہ قرار دیا گیا ہے کہ سنت کی پیروی پوری پوری ہو یعنی جو بھی کام کیا جائے یا جو بھی بات کہی جائے وہ سنت نبوی کے مطابق ہو۔ گویا انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو خواہ وہ عبادات کا ہو یا معاملات یا معاشرت کا، سب میں سنت نبوی کی جھلک اور اتباع رسول کا جذبہ موجود ہو۔
چنانچہ جن اعمال کے بارہ میں احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مطابق ہی عمل کیا جائے یہاں تک کہ بیت الخلاء جانے اور راستہ کو کسی تکلیف دہ چیز سے صاف کرنے کے بارہ میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں یا جو سنت منقول ہے اس پر عمل کرے اور ان کے احکام کو بجا لائے۔
آخر حدیث میں صحابی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسے لوگ بکثرت موجود ہیں جو مذکورہ اوصاف سے متّصف ہونے کی وجہ سے اس خوشخبری کے مستحق ہیں لیکن ہمارے بعد ایسے لوگ پائے جائیں گے یا نہیں؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہمارے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے یعنی اس امت سے خیر و بھلائی بالکل ختم نہیں ہو جائے گی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ آخر زمانہ میں جب کہ فتنہ و فساد کا دور دورہ ہو گا، ایسے لوگوں کی کمی ہو جائے گی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسے اللہ والے لوگ اس دنیا میں رہیں گے جو حدیث و سنت کے طریقہ پر اپنی زندگی گزاریں گے اور ایمان و دین پر پورے یقین کے ساتھ قائم و دائم رہیں گے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، تم ایسے زمانہ میں ہو کہ اگر تم میں سے کوئی آدمی ان احکام کا دسواں حصہ بھی چھوڑ دے جو دیے گئے ہیں تو وہ ہلاک ہو جائے لیکن ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اگر کوئی آدمی ان احکام کے دسویں حصہ پر بھی عمل کرے گا تو نجات پا جائے گا۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے عہد رسالت اور مابعد کے فرق کا پتہ چلتا ہے ، عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کا چرچا اتنی شدت اور کثرت کے ساتھ تھا کہ ذرا سی لغزش بھی ہلاکت و تباہی کا باعث بن سکتی تھی لیکن زمانہ آخر میں جب کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں اضمحلال پیدا ہو جائے گا تو اس وقت اتنا فرق ہو جائے گا کہ اگر کوئی آدمی احکام کے دسویں حصہ پر بھی عمل کرے تو یہ اس کی نجات کے لیے کافی ہو گا۔
٭٭اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، ہدایت پانے اور ہدایت پر قائم رہنے کے بعد کوئی قوم گمراہ نہیں ہوئی مگر اس وقت جب کہ اس میں جھگڑا پیدا ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی آیت (مَا ضَرَبُوْہ لَكَ اِلَّا جَدَلاً ۭ بَلْ ہمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ) 43۔ الزخرف:58) (قرآن) ترجمہ: وہ تمہارے لیے نہیں بیان کرتے مثال مگر جھگڑنے کے لیے بلکہ وہ جھگڑالو قوم ہی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل،جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دینی معاملات اور شرعی مسائل میں جھگڑنا نہیں چاہئے اور نہ ہر کس و ناکس کو ان میں اپنی عقل کے تیر چلانے چاہیں کیونکہ زمانہ ما سبق میں ہدایت یافتہ اقوام کی گمراہی کا بیشتر سبب یہی ہوتا تھا کہ لوگ دینی معاملات میں جھگڑتے رہتے تھے اور یہ حرکت علماء سوء اور نفسانی خواہشات کے تابع لوگ کیا کرتے تھے اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ دینی معاملات میں تفرقہ پیدا ہو اور لوگ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگیں تاکہ غلط عقائد اور باطل مذاہب کو فروغ دیں اور حق کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکیں۔
مشرکین کے اس غلط نظریہ کے رد میں آیت مذکورہ آیت (ماضربوہ لک) الایۃ نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مشرک لوگ اس آیت کو سن کر تم سے جو بحث کرتے ہیں اور اپنی طرف سے غلط معنی مراد لے رہے ہیں وہ محض ان کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے اور یہ مخاصمت و مجادلت کے طور پر ایسی غلط بات کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ صاحب زبان ہیں اور عربی زبان کے اصول و قواعد انہیں معلوم ہیں اور وہ بھی جانتے ہیں کہ ماتعبدون سے پتھر وغیرہ کے بت مراد ہیں اس لیے کہ لفظ ماخود اس پر دال ہے کہ یہ حکم غیر ذوی العقول معبودوں یعنی پتھروں وغیرہ کے بتوں کے بارہ میں ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ کے دیگر نیک بندے اس میں شامل ہیں۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے ، تم اپنے نفس پر سختی نہ کرو اس لیے کہ پھر اللہ بھی تم پر سختی کرے گا، ایک قوم (یعنی بنی اسرائیل) نے اپنے نفس پر سختی کی تھی چنانچہ اللہ نے بھی اس پر سختی کی۔ پس آج جو لوگ صومعوں اور دیار میں پائے جاتے ہیں یہ انہیں لوگوں نے پیدا کیا ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اپنی جانوں کو خواہ مخواہ زیادہ محنت و مشقت میں مبتلا نہ کرو یعنی ریاضت و مجاہدہ میں ایسے طریقے اختیار نہ کرو جن کو تمہارے قوی برداشت کرنے کے اہل نہ ہوں اور نہ تمہارا نفس اتنی محنت و مشقت برداشت کر سکتا ہو اور اسی طرح ایسی چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے مباح قرار دی ہیں اس لیے کہ اگر تم اپنی طرف سے اپنی جانوں پر سختی کرو گے اور زیادہ محنت و مشقت میں پڑو گے تو اللہ انہیں چیزوں کو تمہارے اوپر فرض کرے گا لیکن تمہارے اندر اتنی طاقت نہیں ہو گی کہ تم ان کے حقوق ادا کر سکو، نتیجہ میں آخرت کی تباہی و ہلاکت اپنے ذمہ لے لو گے۔
صومہ اس جگہ کو فرماتے ہیں جہاں عیسائی عبادت کیا کرتے ہیں جسے گرجا کہا جاتا ہے اور دیار یہود کے عبادت کرنے کو جگہ کو کہتے ہیں اسی طرح رہبانیت اسے کہتے ہیں کہ عبادت و ریاضت بہت زیادہ کی جائے اپنے نفس کو مشقّتوں اور تکلیفوں میں ڈالا جائے دنیا سے بالکل بے تعلق ہو جائے تمام لوگوں سے اپنے کو منقطع کر لے ٹاٹ کے پیراہن استعمال کرے ، گردن میں زنجیر باندھ لے قوت مردانگی کو ختم کرنے کے لیے نفسانی خواہشات کو مار ڈالنے کے لیے بالکل غیر فطری طور پر جنسی محرکات کو منقطع کر ڈالے اور دنیاوی زندگی کو یکسر چھوڑ کر جنگل و پہاڑ پر جا کر بسیرا ڈال لے ، جیسا کہ رہبانیت اہل کتاب نے اپنے اوپر ضروری کر رکھی تھی اور ان کے عابد و زاہد لوگ ایسا کیا کرتے تھے لیکن چونکہ رہبانیت اسلام کے فطری اصولوں سے بالکل جدا اور الگ ہے اس لیے شریعت نے کبھی اس کا جائز قرار نہیں دیا۔
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رہبانیت اسلام میں نا جائز قرار دی ہے اور فرمایا ہے الحدیث (لارھبانیۃ فی الاسلام) یعنی اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے ، بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رہبانیت کسی بھی آسمانی دین میں ضروری نہیں تھی بلکہ خود اس دین کے ماننے والے رہبانیت کو اپنی دینی و دنیاوی فلاح و کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے ، چنانچہ یہود و نصاریٰ میں بھی لوگوں نے خود ہی ان چیزوں کا اختراع کیا تھا اور ایسی مشقیتں و تکلیفیں اپنے اوپر لازم کر لی تھیں جو شریعت کی جانب سے ان پر فرض نہ کی گئی تھیں لیکن یہ قومیں چونکہ فطرتاً غیر مستقل مزاج، خواہشات نفسانی کی پابند اور آزاد طبع واقع ہوئی ہیں اس لیے وہ اپنے اوپر خود فرض کی ہوئی چیزوں کو بھی پورا نہ کر سکیں ان کے ذہن و قوی نہ ان کے حقوق ادا کر سکے اور نہ وہ ان پر مستقل مزاجی سے قائم رہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے دین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا چنانچہ اکثر نہ ان کے حقوق ادا کر سکے اور نہ وہ ان پر مستقل مزاجی سے قائم رہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے دین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا چنانچہ اکثر عیسائی اپنے دین سے منحرف ہو گئے اور انہوں نے یہودی مذہب قبول کر لیا بہت سے یہودی رہبانیت کو چھوڑ چھاڑ کر نصرانیت کی طرف مائل ہو گئے کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے دین پر قائم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ پایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے۔
بہر حال آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اسی طرح تم رہبانیت کو اختیار نہ کرو اور نہ غیر شرعی فطری مشقتوں میں اپنی جانوں کو مبتلا کرو بلکہ شریعت نے جو حدود متعین کر دی ہیں انہیں کے اندر اپنی زندگی کزارو اور خداوند کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرائض بتائے ہیں وہی ادا کرتے رہو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، قرآن کریم پانچ صورتوں پر نازل ہوا ہے۔ (١) حلال۔ (٢) حرام۔ (٣) محکم۔ (٤) متشابہ۔ (٥) امثال۔ لہٰذا تم حلال کو حلال جانو، حرام کو حرام جانو، محکم پر عمل کرو، متشابہ پر ایمان لاؤ، اور امثال (قصوں) سے عبرت حاصل کرو، یہ الفاظ مصابیح کے ہیں اور بیہقی نے جو روایت شعب الایمان میں نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔ لہٰذا حلال پر عمل کرو، حرام سے بچو اور محکم کی پیروی کرو۔
تشریح
قرآن شریف اپنے اسلوب و بیان کے اعتبار سے پانچ طرح کی آیتوں پر مشتمل ہے۔ (ا) ایسی آیتیں جن میں حلال کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے احکام بتائے گئے ہیں۔ (٢) ایسی آیتیں جن میں حرام کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے احکام بتائے گئے ہیں۔ (٣) ایسی آیتیں جن کے معنی و مطالب میں کوئی ابہام و اشتباہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مقصد و مراد کو صاف واضح کرتی ہیں جیسے آیت (اَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ) 2۔ البقرۃ:43) (یعنی نماز پڑھو اور زکوٰۃ ادا کرو) اس حدیث میں ایسی ہی آیتوں کو محکم کہا گیا ہے۔ (٤) ایسی آیتیں جن کی مراد واضح نہیں ہے اور نہ ان کے معنی و مطالب کسی پر ظاہر کئے گئے ہیں جیسے آیت (يَدُ اللّٰہ فَوْقَ اَيْدِيْہمْ) 48۔ الفتح:10) (یعنی اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے) حدیث میں ایسی ہیں ہی آیتوں کو متشابہ کہا گیا ہے ان کے بارہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایسی آیتوں کے معنی و مطالب کے کھوج کرید میں نہ لگو بلکہ ان پر صرف ایمان لاؤ اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے جو معنیٰ مراد ہیں وہی حق اور صحیح ہیں اگرچہ ہماری رسائی ان تک نہیں ہے۔ (٥) ایسی آیتیں جن میں پچھلی آیتوں کے حالات و واقعات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی نیک اقوام کی فلاح و کامرانی اور بد اقوام کی تباہی و بربادی کے واقعات بتائے گئے ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان واقعات سے تم عبرت پڑو اور دیکھو کہ اللہ نے اپنے نیک و صالح بندوں پر اپنی رحمتوں و نعمتوں کی کیسی بارش کی اور بدکار و سرکش قوموں کو تباہی و بربادی اور ہلاکت کی وادیوں میں کس عبرت ناک طریقہ سے پھینک دیا۔
٭٭اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، امر تین طرح کے ہیں۔ (١) وہ امر جس کی ہدایت ظاہر ہے اس کی پیروی کرو۔ (٢) وہ امر جس کی گمراہی ظاہر ہے اس سے بچو۔ (٣) وہ امر جو مختلف فیہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
وہ امر جس کی ہدایت ظاہر ہے ایسی چیزیں ہیں جن کا حق و صحیح ہونا واضح طور پر آیات و احادیث سے ثابت ہو جیسے نماز روزہ، زکوٰۃ و حج، وغیرہ کا فرض واجب ہونا، ان کے بارہ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی پیروی کرو، اسی طرح وہ امر جس کی گمراہی ظاہر ہے ایسی چیزیں ہیں جن کا باطل و فاسد ہونا واضح طور پر معلوم ہو جیسے کفار کی رسموں اور ان کے طور طریقوں پر عمل کرنا، ان سے بچنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔
تیسرا امر مختلف فیہ ہے یعنی ایسی چیزیں جن کا حکم واضح طور پر کچھ ثابت نہ ہو بلکہ پوشیدہ مشتبہ ہو، بعض لوگوں نے اس کی تعریف یہ کی ہے امر مختلف فیہ وہ چیزیں ہیں جن کے احکام اللہ اور اللہ کے رسول نے نہ بتائے ہوں بلکہ لوگ اس کی تعیین میں اختلاف کرتے ہوں جیسے آیات متشابہات یا وقت قیامت کا تعین وغیرہ، اس کے بارہ میں حکم دیا گیا ہے کہ ایسی چیزوں میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو بلکہ ان کے حقیقی مراد و مفہوم کا تعین اللہ کے سپرد کرو وہی بہتر جاننے والا ہے۔
٭٭حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، شیطان آدمی کا بھیڑیا ہے جس طرح بکری کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ اس بکری کو اٹھا کر لے جاتا ہے جو ریوڑ سے بھاگ نکلی ہو یا ریوڑ سے دور چلی گئی ہو یا ریوڑ کے کنارے پر ہو اور تم پہاڑ کی گھاٹیوں (یعنی گمراہی) سے بچو نیز جماعت اور مجمع کا ساتھ پکڑے رہو۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس طرح بھیڑیا جب کسی ایسی اکیلی بکری کو پا لیتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو گئی ہو تو وہ اس پر بہت دلیر ہو جاتا ہے اور اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اسی طرح جب کوئی آدمی علماء دین کی جماعت اور ان کے گروہ سے انحراف کر کے الگ ہوا جاتا ہے اور اپنی عقل و فہم کے بل بوتے پر نئے نئے مذاہب نکالتا ہے اور نت نئے مسلک پیدا کرتا ہے تو اس پر شیطان کو پوری طرح اختیار و تسلط ہو جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا آدمی شیطان کے چنگل میں پوری طرح آکر گمراہی کی انتہائی گہری گھاٹیوں پر جا گرتا ہے۔
اس لیے آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ پہاڑ کی گھاٹیوں سے بچو یعنی اسلام کی صاف و سیدھی راہ کو چھوڑ کر ایسی گھاٹیوں میں نہ جا بیٹھو جو ضلالت و گمراہی سے بھری ہوئی ہوں۔
٭٭اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی جماعت سے بالشت بھر بھی (یعنی ایک ساعت کے لیے بھی) جدا ہوا، اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے نکال دیا۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد)
تشریح
یعنی جو آدمی کسی مرحلہ پر بھی جماعت سے الگ ہوا ہو گا تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ وہ اب اسلام کی قیود اور احکام کی پابندی سے بھی آزاد ہو جائے گا اور اپنی ذہنی و فکری اور عملی طاقتوں کو ایسے رخ پر موڑ دے گا جہاں نہ کوئی قید ہو گی اور نہ کسی کی پابندی بلکہ وہ خود رو، آزاد اور دین شریعت کا غیر پابند بن جائے گا۔
٭٭اور حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہو سکتے۔ وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) اور سنت رسول اللہ (احادیث) ہیں۔ (موطا)
٭٭اور حضرت غضیف بن حارث الثمالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی غضیف ابن حارث شمالی ہے اور کنیت ابواسماء ہے آپ صحابی ہیں اور انصار سے ہیں۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، جب کوئی قوم (دین میں) نئی بات نکالتی ہے (یعنی ایسی بدعت جو سنت کے مزاحم ہو) تو اس کے مثل ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے۔ لہٰذا سنت کو مضبوط پکڑنا نئی بات نکالنے (بدعت) سے بہتر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
سنت پر عمل کرنا اگرچہ وہ معمولی درجہ کی ہو بدعت پیدا کرنے اور بدعت پر عمل کرنے سے بہتر ہے اگرچہ وہ بدعت حسنہ ہو اس لیے کہ سنت نبوی کے اتباع و پیروی سے روح میں جلا پیدا ہوتا ہے جس کے نور سے قلب و دماغ منور ہوتے ہیں اس کے برخلاف بدعت ظلمت و گمراہی کا سبب ہے مثلاً بیت الخلاء میں آداب سنت و شرع کے مطابق جانا، سرائیں بنانے اور مدرسے قائم کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ اگر کوئی آدمی ان آداب کی رعایت کرتا ہوا بیت الخلاء جاتا ہے جو حدیث سے منقول ہیں تو وہ سنت پر عمل کرنے والا کہلائے گا۔ برخلاف اس کے کہ اگرچہ مدرسے قائم کرنا اور خانقاہیں بنانا بہت بڑا کام ہے۔ لیکن چونکہ وہ بدعت حسنہ ہے ، اس لیے اس معمولی سی سنت پر عمل کرنے والا اتنے بڑے کام کرنے والے سے افضل ہو گا اس لیے کہ آداب سنت کا خیال کرنے والا اور سنت کی پیروی کرنے والا مقام و عروج اور قرب الہٰی کی طرف ترقی کرتا ہے مگر سنت کو ترک کرنے والا مقام علیا سے نیچے گرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزیں جو افضل و اعلیٰ ہوتی ہیں وہ انہیں ترک کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک مقام آ جاتا ہے کہ وہ قساوت قلبی کے مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جسے رائن اور طبع کہتے ہیں۔
سید جمال الدین سے بھی یہی منقول ہے نیز وہ لکھتے ہیں کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس نے آداب سنت کی رعایت کی مثلاً اس کا بیت الخلاء جانا بھی آداب سنت کے مطابق ہے تو اللہ کی جانب سے یہ توفیق دی جاتی ہے کہ وہ اس سے اعلیٰ سنت پر عمل کرے۔ چنانچہ توفیق الہٰی کا وہی نور اعلیٰ مقامات کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا رہتا ہے آخر کار وہ منزل مقصود تک جا پہنچتا ہے۔ اور جو آدمی کسی معمولی سنّت کو بھی ترک کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ خامی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسری اعلیٰ و افضل چیزوں کو بھی ترک کرتا رہتا ہے اور اس کی سلامتی قلب ترک سنت کی ظلمت میں پھنس کر تنزل کرتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ مقام رین و طبع تک جا گرتا ہے۔
ملا علی قاری نے اس موقع پر بڑی اچھی بات کہی ہے کہ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ کسل وسستی کی وجہ سے سنت کو ترک کرنا ملامت و عتاب کا باعث ہے اور سنت کو ناقابل اعتناء سمجھ کر اس پر عمل کرنا معصیت اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے اور سنت کا انکار بد عتی ہونے کا اظہار ہے لیکن اگر کسی بدعت کو خواہ وہ بدعت حسنہ کیوں نہ ہو ترک کر دیا جائے تو یہ تمام باتیں لازم نہیں آیتیں۔
گویا سنت کو ترک کرنا بے شمار نقصان و فساد کا باعث ہے مگر بدعت کو ترک کرنا کوئی اثر نہیں ڈالتا اس لیے اس سے معلوم ہوا کہ سنت پر عمل کرنا خواہ کتنی ہی معمولی ہو، فلاح و سعادت اور بہتری کا باعث ہے اور بدعت پر عمل کرنا خواہ وہ حسنہ ہوا اس کے مقابلہ میں بہتر نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حسان ابن ثابت ہے اور کنیت ابو الولید ہے انصاری اور خزرجی ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ کنیت ابوالحسام ہے حضرت حسان کی وفات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں ٤٠ھ میں ہوئی ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ وفات پچاس ہجری میں ہوئی ہے۔) فرماتے ہیں، کہ جب کوئی قوم اپنے دین میں نئی بات (یعنی ایس بدعت سیۂ جو سنت کے مزاحم ہو) نکالتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی سنت میں سے اس کا مثل نکال لیتا ہے (یعنی جب کوئی بدعت سیۂ پیدا ہوتی ہے تو اس کے مثل سنت دنیا سے اٹھالی جاتی ہے) اور پھر وہ سنت قیامت تک اس کی طرف واپس نہیں کی جاتی۔ (درامی)
٭٭اور حضرت ابراہیم بن میسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کے ستون کو گرا دینے میں مدد کی۔ (بیہقی)
تشریح
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی بدعتی کی توقیر و عزت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اس سنت کی عزت و احترام کا کوئی خیال نہیں ہے اس طرح وہ سنت کی تحقیر کا باعث ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ سنت کی تحقیر اسلام کی عمارت کو اجاڑنا ہے اسی پر اہل سنت کی تحقیر کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی پابند شرع و سنت کی توہین کرتا ہے تو وہ دین و سنت کی عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی آدمی بدعتی کی تحقیر و تذلیل کرے تو یہ اس بات کا اظہار ہو گا کہ اسے سنت سے محبت ہے جو دین اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب ہے جس پر اسے بے شمار حسنات کا مستحق قرار دیا جائے گا۔
٭٭اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچا لے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچا لے گا (یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہو گا) اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ آخرت میں بدبخت ہو گا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ ہدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) 20۔طہ:123) ترجمہ: جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہو گا۔ (رزین)
تشریح
چونکہ قرآن کریم کا پڑھنا باعث سعادت اور اس پر عمل کرنا ذریعہ نجات ہے اس لیے جو آدمی قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھے اور قرآن کو سمجھنے کی جو شرائط ہیں ان کے مطابق اس کے علوم و معارف کو حاصل کرے اور پھر قرآن کریم نے جو احکام بتائے ہیں ان پر عمل کرے اور ہدایت کا جو راستہ متعین کر دیا ہے اس پر چلتا رہے تو اس کے لیے دین و دنیا دونوں جگہ سعادت و رحمت کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ دنیا میں اس پر اللہ کی جانب سے رحمت ہو گی کہ وہ چونکہ قرآن کو اپنا راہبر بنا رکھے گا اس لیے گناہ و معصیت سے بچتا رہے گا برائی کے راستے کو چھوڑ دے گا جس کا نتیجہ آخرت میں یہ ہو گا کہ وہاں اس پر اللہ کی بے شمار رحمتوں کا سایہ ہو گا نہ تو حساب و کتاب کی سختی ہو گی اور نہ عذاب میں مبتلا ہو گا اور یہی بندہ کے حق میں سب سے بڑی فلاح و سعادت ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے (وہ یہ کہ) ایک سیدھا راستہ ہے اور اس کے دونوں طرف دیواریں ہیں۔ ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور راستہ کے سر پر پکارنے والا کھڑا ہے جو پکار پکار کر کہتا ہے ، سیدھے راستہ پر چلے آؤ، غلط راستے پر نہ لگو ! اس پکارنے والے کے اوپر (یعنی اس کے آگے کھڑا ہوا) ایک دوسرا پکارنے والا ہے ، جب کوئی بندہ ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ (دوسرا پکارنے والا) پکار کر کہتا ہے ، تجھ پر افسوس ہے ! اس کو نہ کھول اگر تو اسے کھولے گا تو اس کے اندر داخل ہو جائے گا (اور وہاں سخت تکلیف میں ہو گا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مثال کی وضاحت کی اور فرمایا، سیدھا راستہ سے مراد اسلام ہے (جس کو اختیار کر کے جنت میں پہنچتے ہیں) اور کھلے ہوئے دروازوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے (جس کو اختیار کرنا تکمیل اسلام کے منافی ہے) اور (دروازوں پر) پڑے ہوئے پردوں سے مراد اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدود ہیں اور راستہ کے سرے پر جو پکارنے والا کھڑا ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت کرنے والا فرشتہ ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے۔ زرین، مسند احمد بن حنبل اور بیہقی نے اس روایت کو شعب الایمان میں نواس بن سمعان سے نقل کیا ہے اور جامع ترمذی نے بھی انہیں سے روایت کی ہے مگر جامع ترمذی نے اختصار ساتھ بیان کیا ہے۔
تشریح
شرعی احکام زیادہ تر دو ہی قسموں سے متعلّق ہیں یعنی حلال و حرام اور ان دونوں کو شریعت نے وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے جو چیزیں حلال ہیں ان کے بارہ میں بھی اعلان کر دیا گیا ہے اور جو چیزیں حرام ہیں ان کی بھی تصریح کر دی گئی ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ جس طرح حلال چیزوں پر عمل کر کے اللہ کی خوشنودی و رضا کے مستحق ہو گے اسی طرح حرام چیزوں کو اختیار کر کے سزا کے مستوجب گردانے جاؤ گے جو چیزیں حرام قرادی گئی ہیں ان کے اور بندوں کے درمیان اللہ نے اپنے احکام سے حدیں قائم کر دی ہیں تاکہ بندے اس سے تجاوز کر کے محرمات کے ارتکاب کے مجرم نہ ہوں، انہی حرام چیزوں اور حدود کو جو احکام الہٰی ہیں اس مثال میں دروازوں اور پردوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اسی طرح مثال مذکورہ میں فرمایا گیا ہے کہ ہر مومن کے دل پر ایک فرشتہ ہوتا ہے جو قلب کا محافظ ہوتا ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بندہ کو نیکی کے راستہ پر لگانے کی سعی کرے اس کو تائید الہٰی اور توفیق خداوندی کہتے ہیں اگر کسی بندے کے ساتھ تائید الہٰی و توفیق خداوندی نہ ہو تو انسان کتنا بھی چا ہے ہدایت کے راستہ پر نہیں لگ سکتا۔ چنانچہ مثال میں قرآن کو راہبر بتایا گیا ہے مگر اس کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ قرآن کی ہدایت بھی اسی وقت کارآمد ہوتی ہے جب کہ بندہ کے ساتھ تائید الہٰی اور توفیق خداوندی بھی شامل ہو۔ قرآن تو راستہ بتا دیتا ہے اور سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے مگر اس سے نصیحت حاصل کرنا اور اس راہ پر چل کر منزل مقصود تک پہنچنا اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب بندہ کے دل میں اللہ کی جانب سے ہدایت ڈال دی جائے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چا ہے تو اس کو چاہئے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو فوت ہو گے ہیں (اور جن کی پیروی کرنی چاہئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب ہیں، جو اس امت کے بہترین لوگ تھے ، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے منتخب کیا تھا لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو (اس لیے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔ (رزین)
تشریح
مرے ہوئے لوگوں سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور زندوں سے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کے لوگ اور تابعین مراد ہیں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد تابعین کے سامنے از راہ نصیحت فرمایا تھا اور ہو سکتا ہے کہ ان دور میں چونکہ باطل فرقے جنم لینے لگے تھے جو صحابہ کرام کی ذات اقدس کے پاک دامن پر گندگی و غلاظت کے چھینٹے ڈالتے تھے جیسا کہ رافضی اور ملحدین کے گروہ اس ناپاک مشغلہ میں لگے ہوئے تھے اس لیے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے غلط الزامات اور صحابہ پر باندھے گئے بہتان کی رد میں صحابہ کرام کی عظمت و بزرگی اور ان کی فضلیت کا اظہار فرمایا۔
چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہادت دے رہے ہیں کہ صحابہ کرام امت کے بہترین اور انتہا درجہ کے نیک لوگ تھے۔ یعنی ان کے قلوب ایمان و اسلام کی روشنی سے پوری طرح منوّر تھے خلوص و استقامت کے اوصاف سے متصف تھے ایمان کامل کی دولت سے مشرف تھے اور زہد و تقدس و خشیت الہٰی سے ان کی زندگیاں معمور تھیں۔
پھر دوسری بات یہ کہ یہی وہ مقدس جماعت تھی جس نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز پر لبّیک کہا اور اللہ کے دین کو پھیلانے میں معین و مددگار رہے ، جس کے نتیجہ میں انہیں جن جانکاہیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ظلم و ستم اور تشدّد و بربریّت کے جس دور سے گزرے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت و بقاء کے سلسلہ میں جو قربانیاں دیں وہ اسلامی تاریخ کا سب سے تابناک باب ہے۔
چنانچہ اسلامی تاریخ کے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان مقدّس حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معاونت اور رفاقت اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے صلہ میں کتنی سختیوں اور مشکلات سے دو چار ہو نا پڑا، زندگی کی کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جس میں یہ مبتلا نہ کئے گئے ہوں، کوئی ایسی آزمائش نہ تھی جس سے انہیں سابقہ نہ پڑا ہو اور یہ سب اللہ کی جانب سے محض اس لیے تھا کہ ان قلوب کو خوب جانچ، پرکھ لیا جائے اور دیکھ لیا جائے کہ جس عظیم مشن کے چلانے کے لیے ان کو منتخب کیا جا رہا ہے اور جس رسول کی رفاقت جیسے عظیم منصب کے لیے ان کو پسند کیا جا رہا ہے ان کے ذہن و فکر اور دل و دماغ اس کے اہل ہیں یا نہیں، ان کے قلوب سختیوں کو برداشت کرنے کے قابل اور مشکلات پر صبر و شکر کرنے والے ہیں یا نہیں، چنانچہ ان کو امتحان میں ڈالا گیا ہے ، آزمائش کی گئی اور وہ حضرات امتحان و آزمائش کے ہر مرحلہ سے کامیاب گزرے اور مصیبت و سختی کی ہر بھٹی سے کندن ہو کر نکلے ، ان کے صبر و رضا کا جب امتحان لیا گیا تو ایسے صابر و شاکر نکلے کہ بڑی سے بڑی سختی اور سخت مصیبت پر بھی ان کے قدم میں لغزش آنے کی بجائے اور استقامت پیدا ہوئی اور وہ اپنے ایمان و اسلام پر پورے ایقان و اعتماد کے ساتھ قائم و مضبوط رہے ان کے اسی عظیم وصف کی شہادت قرآن نے اس طرح دی ہے کہ
آیت (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰہ قُلُوْبَہمْ لِلتَّقْوٰى۔ (49۔ الحجرات:3)
یہ صحابہ وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ادب کے واسطے جانچ لیا ہے۔
اگر علم و فضل کی کسوٹی پر ان سختیوں کو پرکھا جائے تو بلا مبالغہ نتیجہ یہی قائم کرنا پڑے گا کہ ہر صحابی علم و معرفت، فہم و فراست ، تدبر و فکر، عقل و دانش کا مینارہ نور تھا جن سے دنیا نے ظلم و جہل کے اس ماحول میں تعلیم و ترقی و تہذیب و شرافت اور انسانیت کی روشنی حاصل کی۔ چنانچہ کوئی حدیث و تفسیر میں یکتا تھا تو کوئی فقہ و قراءت کا امام کسی کے اندر تصوّف و فرائض کا علم پورے کمال کے ساتھ تھا تو کسی کے اندر معانی و ادب کا بحر بیکراں موجزن تھا، غرض کہ ہر ایک اپنی جگہ علمی حیثیت سے بھی کامل و اکمل تھا۔ اور پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شرف و صحبت کا اثر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نگاہ کرشمہ ساز کا کمال تھا کہ نہ صرف مرد صحابی بلکہ عورت صحابیہ بھی اپنی اپنی جگہ علم و معرفت کے آفتاب ہدایت تھے جن سے بڑے بڑے صحابی روشنی حاصل کرتے تھے۔
روحانی و اخروی عظمت و سعادت کے اس عظیم مرتبہ پر ہوتے ہوئے ان مقدس حضرات کی بے تکلّفی کا یہ عالم تھا کہ عملی دنیا میں بھی دولت و ثروت ، اقتدار حکمرانی اور ملک و وجاہیت کے باوجود انہیں ننگے پاؤں پھرنے میں عار تھا اور نہ زمین و فرش پر نماز پڑھنے ، لیٹنے بیٹھنے میں کوئی شرم محسوس ہوتی تھی۔ سادگی کی حد تھی کہ مٹی لکڑی کے برتن و باسن میں انہیں کھانے پینے میں کوئی تکلّف نہیں ہوتا تھا، دوسرے لوگوں کا جھوٹا کھانا اور پینا ان کے نزدیک کوئی معیوب چیز نہ تھی، آداب گفتگو کی یہ کیفیت تھی کہ ہر ایک کی نجی بات چیت نے بھی کبھی شرافت و تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا، بیکار گفتگو، لا یعنی باتیں، لغو باتوں سے کوسوں دور رہتے کلام و گفتگو وہی کرتے جو ضروری اور با مقصد ہو صاف گوئی اس درجہ کی تھی کہ جو مسئلہ انہیں معلوم نہ ہوتا نہایت صفائی سے کہہ دیتے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے آج کل کی طرح خواہ مخواہ تکلّف کر کے لچھے دار تقریریں کر کے مسئلے کو غلط سلط بیان نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جسے اپنے سے افضل سمجھتے تھے نہایت خلوص کے ساتھ سائل کو ان کے پاس بھیج دیتے کہ ان سے دریافت کر لو، حصول علم کا اتنا شوق تھا کہ جس کو وہ علم میں اپنے سے بڑا سمجھتے ، خواہ وہ عمر میں کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، استفادہ کے لیے اس کے پاس جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ان کے یہاں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں تصنع و بناوٹ نام کو بھی نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ وہ لوگ اگر قرآن پڑھتے تو وہ بھی کسی تصنع و بناوٹ کے بغیر اس کے پورے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھ کر خالص عربی لہجہ میں پڑھتے تھے یہ نہیں تھا کہ خواہ مخواہ آواز بنا کر راگ و سر کے ساتھ پڑھتے ہوں۔
یہی حال ان کے باطن کا تھا چونکہ انہیں براہ راست سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے قرب و صحبت کا شرف حاصل تھا اس لیے ان کے قلوب پوری طرح مجلیٰ و مصفا ہو کر ہمہ وقت یاد الہٰی اور ذکر اللہ میں مصروف رہتے تھے ، ان کے افکار عرفان و حقیقت کی انتہائی بلندیوں پر تھے ، آج کل کے جاہل صوفیاء اور پیروں کی طرح وہ دکھلانے کے لیے حال میں آکر رقص نہ کرتے تھے نہ ہو ہا کا شور و شغب کرتے تھے اور نہ وہ اپنے قلوب کی صفائی کے لیے ہارمونیم کے ساز پر، طبلہ کی تھاپ پر اور قوالی کی تان پر حصول معرفت کا دعویٰ کرتے تھے جیسا کہ آج کے دور میں اہل اللہ کے مزارات پر ان لغویات سے تصوّف و طریقت کے نام پر سرور و کیف حاصل کیا جاتا ہے اور نہ وہ کسی اسکیم و تنظیم کے باعث حلقہ وغیرہ بنا کر مسجد و گھر میں ذکر جہر کرتے تھے بلکہ نہایت سادگی کے ساتھ جسے جہاں موقع مل جاتا وہیں یاد الہٰی میں نہایت صبر و سکون کے ساتھ مشغول ہو جانا ان کی اسی سادگی اور خلوص کی وجہ سے بظاہر تو ان کے اجسام فرش پر نظر آتے مگر ان کی روحیں عرش پر سیر کرتی ہوتیں، ان کے ظاہری بدن لوگوں کے ساتھ ہوتے مگر ان کے قلوب مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر ہوتے۔
صحابہ کا طرز معاشرت بھی تصنع و بناوٹ اور تکلّف سے بالکل پاک و صاف تھا، انہیں جو میسر آتا وہی کھا لیتے جو مل جاتا وہی پہن لیتے ، موٹا چھوٹا کپڑا ہو وہ پہن لیا، عمدہ ملا اسے استعمال کر لیا، یہ نہیں تھا کہ دنیا کو دکھلانے کے لیے یا اپنے زہد و تقدّس کا رعب جمانے کے لیے حرقہ، گڑری یا ایسے ہی لباس اپنے اوپر لازم کر رکھے ہوں، ہاں جسے یہی لباس میسر ہوتا وہ اسے بھی استعمال کرتا، کھانے پینے میں یہ تامل تھا نہایت ذوق و شوق سے کھاتے اور اگر روکھا سوکھا دال دلیا ہی اللہ دے دیتا تو اسے بھی نہایت صبر و شکر سے کھا لیتے۔
بہر حال عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق و عادات ہوں، یا معیشت و معاشرت، زندگی کے ہر پہلو میں ان کے یہاں خلوص اور بے تکلّفی و سادگی تھی اور انہوں نے اپنے نظام حیات کو ایسے سانچے میں ڈھال رکھا تھا جو خالص اسلامی دینی اور اخلاقی تھا اور یہ سب نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی اور اس ذات اقدس کی صحبت کا اثر تھا جو خود اپنے قول الحدیث (ادبنی ربی فاحسن تادیبی) (یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا اور ادب کے انتہائی درجہ بر پہنچایا) کے مطابق ادب و اخلاق اور تہذیب و شرافت کے تمام جواہر ازل ہی سے اپنے اندر سموئے ہوئے تھے کہ جو قوم دنیا کی سب سے زیادہ غیر مہذب، غیر متمدن، اور غیر ترقی یافتہ تھی اور اصلاح و تربیت کے ذریعہ اسے تہذیب و تمدن اور اخلاق و احسان کے اس مقام رفیع تک پہنچا دیا جہاں نہ صرف یہ کہ وہ خود ایک کامل اور عظیم قوم ثابت ہوئی بلکہ دنیا کی دوسری قوموں نے اس کے نقش قدم کو اپنے لیے جادہ منزل بنا کر تہذیب و تمدن کی انتہائی بلندیوں پر بسیرا کیا۔
چنانچہ اس حدیث میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو یہی ہدایت فرما رہے ہیں کہ اگر تم ہدایت کا راستہ چاہتے ہو، فلاح کی منزل کے خواہش مند ہو، عرفان الہٰی اور حبّ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے انتہائی مقام پر پہنچنا چاہتے ہو تو تمہارے لیے ضروری ہے کہ اسی مقدّس جماعت کے راستہ کو اختیار کرو، انہی کے اخلاق و عادات کو اپنے لئے جادہ منزل جانو، انہی کی متابعت و پیروی کو کامیابی و کامرانی کا ذریعہ سمجھو اور ان کی عقیدت و محبت سے زندگی کے ہر گوشہ کو منور کرو۔
اس جگہ اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انتقال فرما گئے ہیں انہیں کی پیروی و اطاعت کرنی چاہئے۔ حالانکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیروی کے لائق صحابہ کرام کی جماعت ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں مردوں کی تخصیص صرف اس لیے کی گئی ہے کہ اکثر صحابہ کرام اس وقت انتقال فرما چکے تھے ورنہ یہاں زندہ اور مردہ دونوں مراد ہیں۔
اس حدیث سے صحابہ کی انتہائی عظمت اور فضل و کمال کا اظہار ہوتا ہے چونکہ تمام مخلوق اور تمام انسانوں میں یہ سب سے افضل تھے اور حق و صداقت کے قبول کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ان میں موجود تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کے لیے منتخب فرمایا اور قرآن میں بایں طور پر ان کے فضل و کمال کی شہادت دی کہ
آیت (وَاَلْزَمَہمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَكَانُوْٓا اَحَقَّ بِہا وَاَہلَہا) 48۔ الفتح:26)
اور ان (صحابہ) کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے مستحق اور اہل تھے۔
بعض آثار میں آیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام بندوں کے قلوب پر نظر فرمائی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلب مبارک سب سے زیادہ منوّر و روشن اور پاک و صاف تھا تو نور نبوت اس میں ودیعت فرمایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب بھی بہت زیادہ پاک و صاف اور اہل و لائق تھے تو ان کو اپنے نبی کی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کے لیے پسند فرمایا۔
اور اتنی بات تو ہم آج خود جانتے ہیں کہ ایک آدمی جب کسی پیر برحق کا مرید ہوتا ہے تو باوجودیکہ وہ پہلے سے بالکل خالی اور کورا ہوتا ہے مگر پیر کی صحبت اور اس کی خدمت و اطاعت گزاری کی وجہ سے وہ کتنا اعلیٰ مقام حاصل کر لیتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی زندگیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں اور اپنی عمریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں صرف کر دیں اور فضل و کمال حاصل نہ کریں۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لائے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ تورات کا نسخہ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (تورات کو) پڑھنا شروع کر دیا۔ ادھر غصہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک متغیر ہونے لگا (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عمر! گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں۔ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ اقدس (کے تغیر) کو نہیں دیکھتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرۂ منوّر کی طرف نظر ڈالی اور (غصہ کے آثار دیکھ کر کہا) میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غصہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی جان ہے اگر موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے درمیان ظاہر ہوتے تو تم ان کی پیروی کرتے اور مجھے چھوڑ دیتے (جس کے نتیجہ میں) تم سیدھے راستہ سے بھٹک کر گمراہ ہو جاتے اور (حالانکہ) اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے اور میرا زمانہ نبوت پاتے تو وہ (بھی) یقیناً میری (ہی) پیروی کرتے۔ (درامی)
تشریح
جملہ ثکلتک الثواکل (گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں) اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے موت کے لیے بد دعا ہے لیکن یہ ایک اہل عرب کا محاورہ ہے جو اپنے اصل معنی و مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے جب اپنے کسی بے تکلف دوست سے کسی کو تعجب کا اظہار مقصود ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی اپنے بے تکلف مخاطب سے ایسے موقع پر جب کہ وہ کسی ظاہری بات کو بھی نہیں سمجھ رہا ہوتا یہ کہے کہ مجھے بڑا تعجب ہے کہ یہ کھلی ہوئی بات بھی تم نہیں سمجھ رہے ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ اور حکماء اور فلاسفہ کی کتابوں کی طرف بے ضرورت رجوع کرنا اور ان کی طرف التفات کرنا مناسب نہیں بلکہ یہ گمراہی کی بات ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔
تشریح
نسخ کے معنی لغت میں کسی شے کو مٹانے یا نقل و تحویل کے آتے ہیں جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ نسخت الریح اثار القوم۔ کہ ہوا نے لوگوں کے پاؤں کے نشان مٹا دیے یا اسی طرح بولتے ہیں نسخ الکتاب الی کتاب کہ ایک جگہ سے کتاب کو دوسری طرف نقل کیا۔ علماء کی اصطلاح میں نسخ اسے کہتے کہ کسی حکم شرعی کا اصلاح دین کی خاطر کسی دوسرے حکم کے ذریعہ تغیر و تبدل کیا جائے۔ یا کسی حکم کو نافذ کرنا کہ جس کے اور اس سے پیشتر کا حکم جو مقدم تھا اٹھ جائے اوّل حکم کو منسوخ اور دوسرے حکم کو ناسخ کہتے ہیں۔
نسخ کی چار قسمیں ہیں۔ (١) کتاب اللہ کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ (٢) حدیث کا نسخ حدیث کے ساتھ(۱) کتاب اللہ کا نسخ حدیث کے ساتھ(٤) حدیث کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ مثلاً پہلے کوئی حکم قرآن میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتارا گیا لیکن بعد میں کسی خاص مصلحت کی وجہ سے قرآن کی کسی دوسری آیت نے آکر اس حکم کو منسوخ کر دیا، اب اس کی بھی دو شکلیں ہوں گی، یا تو وہ آیت قرآن میں باقی رہے اور صرف تلاوت کی جاتی رہے مگر اس کا حکم کالعدم قرار دیا گیا۔ یا یہ کہ حکم کے ساتھ آیت بھی منسوخ کر دی گئی اور اسی طرح نسخ کی دوسری شکل یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو حدیث ہی کے ذریعہ منسوخ کر دیا گیا ہو، تیسری شکل نسخ کی یہ ہے کہ قرآن کے کسی حکم کو حدیث کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منسوخ فرمایا ہو لیکن اس میں کسی قسم کا یہ اشکال پیدا نہیں ہو سکتا کہ حکم الہٰی کو رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو ایک انسان ہوتا ہے کس طرح کالعدم قرار دے سکتا ہے یہ اشکال وہیں رفع ہو گیا ہے جہاں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ حدیث بظاہر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے مجموعہ کا نام ہے لیکن حقیقت میں حدیث بھی وحی من اللہ ہے فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن ایسی وحی ہے جس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور جس کا مضمون براہ راست بار گاہ الوہیت سے اترتا ہے لیکن الفاظ رسول کے ہوتے ہیں اس صورت میں یہ حدیث متعارض نظر آئے گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس کا جواب یہی ہو گا کہ حدیث میں لفظ کلامی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ ارشاد ہے جو خود رسول اللہ کی ذاتی رائے اور اجتہاد کے طریقہ پر وارد ہو، نہ کہ وہ ارشاد جو بطور وحی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب پر القاء فرمایا گیا ہے اس تاویل کے بعد یہ تعارض رفع ہو جائے گا۔ یا پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ یہ حدیث خود منسوخ ہے لہٰذا اس سے اس کلیہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
چوتھی شکل نسخ کی یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو کتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ قرار دے دیا گیا، یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ کسی قانون میں تبدیلی یا کسی حکم کی منسوخی دو وجہ سے ہوتی ہے اوّل تو یہ کہ قانون بناتے وقت بانی قانون سے کوئی فروگزاشت یا غلطی ہو گئی جس کی وجہ سے بعد میں اس قانون میں تبدیلی اور منسوخی ضروری قرار دی گئی۔
ظاہر ہے کہ کلام اللہ میں یہ محال ہے اس لیے کہ اللہ کی علیم و خبیر ذات کسی قسم کی غلطی، بھول چوک یا فروگزاشت سے بالکل منزّیٰ و پاک و صاف ہے اس لیے جو بھی قانون بنائے گا یا جو بھی حکم دے گا وہ بالکل صحیح و کامل ہو گا اس میں کسی غلطی کا امکان بھی نہیں ہو سکتا اسی طرح رسول کے بتائے ہوئے احکام میں بھی یہ چیز نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے احکام جن کا تعلق دینی امور سے ہوتا ہے وہ براہ راست بارگاہ الوہیت سے نازل ہوئے ہیں اور دربار رسالت سے ان کا انعقاد عمل میں آتا ہے گویا وہ خود بھی احکام اللہ کے مرتبہ کے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اسی طرح حدیث کے احکام کی پیروی کرنا بھی ضروری و لازم ہے لہٰذا حدیث کے احکام میں بھی کسی حکم کی تبدیلی کا سبب یہ نہیں ہو سکتا۔ کسی قانون و حکم کی تبدیلی و منسوخی کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ محکوم کی حالت بدلنے سے مصلحت بھی بدل گئی ہے اس لیے قانون بھی بدل گیا جیسے کہ مریض کی حالت بدل جانے پر نسخہ بھی بدل دیا جاتا ہے۔
مثلاً ایک قانون بنایا گیا یا کوئی حکم دیا گیا اس وقت ماحول اس قسم کے قانون کا متقاضی تھا، یا محکوم کے ذہن مزاج اسی حکم کے لائق تھے مگر بعد میں جب ماحول میں تبدیلی آ گئی، محکوم کے ذہن و مزاج بھی دوسرا رخ اختیار کر گئے تو اب بانی قانون کی مصلحت بھی بدل گئی لہٰذا اس نے محکوم اور ماحول کی بھلائی اور اصلاح کی خاطر اس سے پہلے قانون کو بدل دیا اور اس جگہ کسی دوسرے قانون کو لاگو کر دیا ظاہر ہے کہ ایسا نسخ صحیح اور جائز ہو گا اس میں کسی قسم کا کوئی عقلی و نقلی اشکال پیدا نہی ہو سکتا اور یہی تبدیلی و تفسیر اور نسخ قرآن و احادیث کے احکام میں ہوتے ہیں لہٰذا ان میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، ہماری (بعض) احادیث بعض کو اس طرح منسوخ کرتی ہیں جیسا کہ (قرآن کے بعض حصہ کو) قرآن منسوخ کرتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابو ثعلبہ خشنی (آپ کے نام میں بہت زیادہ اختلاف ہے بعض نے جرہم بن ثابت کہا ہے اور بعض نے جرثوم بن ثابت اور عمر ابن جرثوم لکھا ہے بہر حال یہ اپنی کنیت ابو ثعلبہ سے مشہور ہیں ٧٥ھ میں بعہد عبدالملک بن مروان کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے چند فرائض کو فرض کیا ہے لہٰذا تم ان کو ضائع نہ کرو (یعنی ان کو نہ چھوڑو یا ان کے شرائط و ارکان کو ترک نہ کرو، یا یہ کہ ان فرائض میں نمائش و ریا، شک و شبہ اور غرور و تکبر نہ کرو) اور چند چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہیں (یعنی ان کو اختیار کرنا گناہ قرار دیا ہے) لہٰذا تم ان کے نزدیک بھی مت جاؤ اور چند حدود مقرر کی ہیں (مثلاً قصاص وغیرہ) لہٰذا تم ان سے تجاوز نہ کرو (یعنی ان میں اپنی طرف سے کمی و زیادتی نہ کرو) اور چند چیزوں کے بارہ میں بھول کر نہیں (بلکہ دانستہ) اختیار کیا ہے (یعنی کتنی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارہ میں وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ حرام ہیں یا حلال اور یا واجب ہیں، لہٰذا ان چیزوں میں تم اپنی طرف سے) بحث نہ کرو۔ مذکورہ تینوں حدیثیں دار قطنی نے روایت کی ہیں۔
تشریح
روایۃً منقول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعاً ہی روایت کی ہے۔ لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ چونکہ یاد نہیں رہے اس لئے انھوں نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا۔
اونٹوں کے جگر کو پھاڑنے کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان علم کا چرچہ پڑھے گا اور حصولِ علم کا شوق افزوں ہو گا تو لوگ دور دراز کا سفر کریں گے اور علم کی خاطر دنیا بھر کی خاک چھانٹتے پھریں گے ، یا یہ کہ درِ علم تک جلد پہنچ جانے کے لیے اونٹوں کو تیزی سے چلائیں گے اور تیزگامی کے ساتھ علم کی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔
حدیث کے الفاظ کے مصداق میں کلام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ مدینہ کے عالم سے زیادہ کوئی بڑا عالم نہیں ملے گا تو مدینہ کے عالم سے کون مراد ہے؟
حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ جو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ کے اصحاب اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے مراد حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ محترم ہے۔ اسی طرح حضرت عبدالرزاق رحمۃ اللہ تعالیٰ جو حدیث کے جلیل القدر اور مشہور امام ہیں یہی فرماتے ہیں کہ حدیث میں جس عالم مدینہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔
لیکن حضرت ابن عیینہ کے ایک شاگرد حضرت اسحٰق بن موسیٰ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عیینہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عالم مدینہ سے مراد حضرت عمری زاہد ہیں۔ جن کا اسم گرامی عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔ چونکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اس لیے عمری کہا جاتا ہے اور زاہد ان کی صفت ہے اس لیے کہ یہ اپنے زمانہ میں مدینہ کے ایک جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پائے کے زاہد و متفی آدمی تھے ان کا نسب اس طرح ہے۔ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمرو بن حفص بن عاصم بن عمر فاروق۔
بہر حال امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ کے واسطہ سے ابن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کا جو قول نقل کیا ہے وہ اس قول کے مخالف ہے جو ابن عیینہ سے اسحٰق بن موسیٰ نقل کرتے ہیں اس طرح حضرت ابن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے اقوال میں اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں حضرات نے عیینہ سے جو قول نقل کیا ہے ، وہ بااعتبار ظن کے ہے یقینی اور حتمی طور پر ان لوگوں نے نقل نہیں کیا ہے۔
یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ تعالیٰ کے دور کے اعتبار سے ہے کہ ان کے زمانوں میں مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑا عالم کسی دوسری جگہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد جب علم کی مقدّس روشنی مدینہ سے نکل کر اطراف عالم میں پھیلی تو اس کے نتیجہ میں دیگر ممالک اور دوسرے شہروں میں ایسے ایسے عالم و فاضل پیدا ہوئے جو اپنے علم و فضل اور دینی فہم و فراست کے اعتبار سے مدینہ کے عالموں سے بڑھے ہوئے تھے۔
اس حدیث کے ظاہری معنی جو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ قریب اور انسب ہیں یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد اس ارشاد سے اس بات کی خبر دینا ہے کہ آخر زمانہ میں علم اپنی وسعت و فراخی کے باوجود صرف مدینہ منورہ میں منحصر ہو جائے گا جیسا کہ دیگر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مجھے جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے نفع کے واسطے ہر سو برس پر ایک آدمی کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کو تازہ کرتا ہے۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
اکثر علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حدیث سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں امت کے اندر اپنے علم و فضل کے اعتبار سے سب میں ممتاز ایک ایسا آدمی موجود ہوتا ہے جو دین کو نکھارتا اور تجدید کرتا ہے جسے مجدّد کہا جاتا ہے۔ مجدّد اپنے زمانہ میں دین کے اندر ہر پیدا ہونے والی برائی اور خرابی کو دور کرتا ہے۔ بدعت اور رسم و رواج کے جو گہرے پردے دین کی حقیقت پر پڑ جاتے ہیں وہ اپنے علم و معرفت کی قوّت سے انھیں چاک کرتا ہے اور امت کے سامنے پورے دین کو نکھار کر اور صاف و ستھرا کر کے اس کی اپنی شکل میں پیش کر دیتا ہے۔
چنانچہ بعض حضرات نے تعین بھی کیا ہے کہ فلاں مجدّد پیدا ہوا تھا اور فلاں صدی میں فلاں مجدّد موجود تھا۔ بعض علماء نے حدیث کے معنی کو عمومیت پر محمول کیا ہے ، یعنی خواہ دین کی تجدید کرنے والا کوئی ایک آدمی واحد ہو خواہ کوئی جماعت ہو جودین میں پیدا کی گئی برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرے۔
٭٭اور حضرت ابراہیم بن عبدالرحمن عذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ ہر آئندہ آنے والی جماعت میں سے اس کے نیک (یعنی ثقہ اور معتمد) لوگ اس علم (کتاب و سنت) کو حاصل کریں گے اور وہی لوگ اس (علم) کے ذریعہ (آیات و احادیث میں) حد سے گزرنے والوں کی تحریف کو باطلوں کی افتراء پردازی کو اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کریں گے ، (اس حدیث کو بیہقی نے اپنی کتاب مدخل میں حدیث بقیۃ ابن ولید سے نقل کیا ہے اور انھوں نے معان بن مرفاعہ سے اور انھوں نے ابراہیم بن عبدالرحم عذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے) اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (جس کی ابتداء یہ ہے) فانما شفاء العی السوال ہم باب تیمّم میں بیان کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
٭٭حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ سے بطریق مرسل روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کی موت اس حال میں آئے کہ وہ علم حاصل کر رہا ہو اور (وہ علم) اس غرض سے (حاصل کر رہا ہو) کہ وہ اس کے ذریعہ اسلام کو رائج کرے گا تو جنت میں اس کے اور انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہو گا اور وہ مرتبہ نبوت ہے۔ (درامی)
٭٭اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ (حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ تابعی ہیں آپ کی پیدائش مدینہ میں ہوئی تھی۔ ١١٠ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) سے بطریق مرسل روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے بارے میں سوال کیا گیا، ان میں سے ایک تو عالم تھا جو فرض نماز پڑھتا تھا پھر بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھاتا تھا۔ اور دوسرا آدمی وہ تھا جو دن کو تو روزے رکھتا تھا اور تمام رات عبادت کیا کرتا تھا (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا) کہ ان دونوں میں بہتر کون ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اس عالم کو جو فرض نماز پڑھتا ہے اور بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھلاتا ہے اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتا ہے ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مجھے تمہارے میں سے ایک ادنیٰ آدمی پر فضیلت حاصل ہے۔ (درامی)
تشریح
بنی اسرائیل کے مذکورہ دونوں عالم یوں تو اپنے علم و فضل کے اعتبار سے ہم رتبہ تھے مگر فرق یہ تھا کہ ایک عالم نے تو اپنی زندگی کا مقصد صرف عبادت خداوندی بنا لیا تھا چنانچہ وہ دن رات ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہا کرتا تھا بندگان خدا کی اصلاح و تعلیم سے اسے غرض نہیں تھی، مگر دوسرا عالم فرض عبادت بھی پوری طرح ادا کرتا تھا اور اپنے اوقات کا بقیہ حصہ لوگوں کی اصلاح و تعلیم میں بھی صرف کیا کرتا تھا۔ لہٰذا دونوں میں افضل اسی آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو خود بھی اپنے علم پر عمل کرتا تھا اور دوسروں کو بھی علم سکھلا کر انھیں راہِ ہدایت پر لگاتا تھا۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بہتر آدمی وہ ہے جو دین کی سمجھ رکھتا ہو۔ اگر اس کے پاس کوئی حاجت لائی گئی تو اس نے نفع پہنچایا اور اگر اس سے بے پروائی برتی گئی تو اس نے بھی اپنے نفس کو بے پرواہ رکھا۔ (رزین)
تشریح
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک عالم کی یہ شان ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کا محتاج کر کے اپنی حیثیت کو کمتر نہ کرے ، نیز غلط اغراض و مقاصد کی خاطر عوام کی مصاحبت کی طرف میلان نہ رکھے اور نہ ان سے کسی دنیاوی غرض و منافع کی طمع کرے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو عوام سے بالکل بے تعلق کر لیا جائے اور اپنے علم سے اللہ کی مخلوق کو محروم رکھا جائے۔ بلکہ اگر عوام دینی ضروریات کے سلسلے میں صرف اسی کے محتاج ہوں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے عالم کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی رجوع اس کی طرف ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے درمیان جائے اور ان کی دینی و اسلامی ضروریات کو پورا کر کے انہیں نفع پہنچائے۔ ہاں اگر عوام خود اس سے لاپرواہی برتیں کہ انھیں اس سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہو اور نہ وہ اس کے محتاج ہوں تو چاہئے کہ وہ بھی ان سے بے پروائی برتے اور ان سے ترک تعلق کر کے اپنے اوقات کو عبادت خداوندی میں مشغول رکھے یا پھر خدمت علم دین کی خاطر دینی کتابوں کے مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں منہمک ہو کر اس ذریعہ سے علم کی روشنی پھیلائے۔
٭٭ اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔ تم ہر جمعہ کو ایک بار لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرو۔ اگر اسے قبول نہ کرو (یعنی ہفتہ میں ایک بار وعظ نصیحت کو کافی نہ جانو تو ہفتہ میں) دو بار اور زیادہ چاہو تو (ہفتہ میں تین بار وعظ و نصیحت کر سکتے ہو) اور تم لوگوں کو اس قرآن سے تنگ نہ کرو (یعنی ہفتہ میں تین بار سے زیادہ وعظ و نصیحت بیان کر کے لوگوں کو ملول نہ کرو) اور میں تمہیں اس حالت میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں مشغول ہوں اور تم ان کی باتوں کو منقطع کر کے ان کے سامنے وعظ و نصیحت شروع کر دو اور (اس طرح) تم ان کو کبیدہ خاطر کرو۔ ایسے موقع پر تمہیں چاہئے کہ تم خاموش رہو البتہ وہ اگر تم سے وعظ و نصیحت کی فرمائش کریں تو جب تک اس کے خواہش مند ہوں تم ان کے سامنے حدیث بیان کرو اور تم دعا میں مقفیٰ عبارت سے صرف نظر کرو اور اس سے بچو، چنانچہ میں نے معلوم کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب ایسا نہیں کرتے تھے (یعنی دعا میں مقفیٰ عبارت استعمال نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
جیسا کہ پچھلے صفات میں گزر چکا ہے اس حدیث میں بھی اس پر زور دیا جا رہا ہے کہ وعظ و نصیحت کے معاملہ میں اعتدال اور موقع و ماحول کی رعایت ضروری ہے اور اثر اندازی کے اعتبار سے دعوت و تبلیغ کا یہ بنیادی پتھر ہے جس پر تبلیغ کی کامیابی کا پورا دار و مدار ہے۔
اس سلسلہ میں خاص طور پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر کچھ لوگ کسی بات چیت اور آپس کی گفتگو میں مشغول ہوں تو ایسے موقع پر پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع نہیں کر دینی چاہئے ، چا ہے ان کی بات چیت دنیاوی امور سے متعلق ہو یا دینی باتوں پر مشتمل ہو۔ اگر وہ دین کی بات میں مشغول ہیں تو ظاہر ہے کہ بدرجہ اولیٰ ان کی بات کو منقطع کرنا اور اس میں خلل انداز ہونا خواہ وہ تبلیغ ہی کی خاطر کیوں نہ ہو مناسب نہیں ہو گا۔ اگر بات چیت کا موضوع خالص دنیا بھی ہو تو ایسا کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جب ایک آدمی اپنی کسی ضروری گفتگو میں مشغول ہو اور وہاں پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع کر دی جائے تو گفتگو میں خلل پڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ بتقاضائے بشریت اسے گوارہ نہ کرے اور وہ ایسے موقع پر قرآن و حدیث کی باتیں سننا پسند نہ کرے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ خواہ مخواہ گناہ میں مبتلا ہو گا بلکہ اس کے قلب پر دین کی عظمت و اہمیت کا نقش بھی قائم نہ ہو گا۔
ہاں اگر مصلحت کا تقاضا ہی یہ ہو کہ انھیں اس گفتگو سے باز رکھا جائے تو پھر ایسا انداز اور طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے انھیں ناگواری بھی نہ ہو اور وہ اس کلام و گفتگو سے رک بھی جائیں ، غرض کہ نظر مصلحت ضرورت وقت پر رکھنی چاہئے۔
ویسے جہان تک عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دینا اکثر کے اعتبار سے تھا یعنی یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ اکثر و بیشتر لوگ محض دنیاوی باتوں ہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔
دعامیں مقفیٰ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ دعا تاثیر کے اعتبار سے وہی بہتر ہوتی ہے جو بغیر تصنع و بناوٹ کے سیدھی سادھی ہو اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہو۔ اس لیے دعا کی عبارت کو شعر و شاعری کا رنگ دینا، الفاظ میں قافیہ اور تکلف نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ان دعاؤں پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقفی و مسجع ثابت ہیں اور جن میں قفیہ بندی بھی ہے۔ اس لیے یہ چیزیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بے تکلف اور از خود صادر ہوتی تھیں ان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تکلف اور کوشش کو دخل نہیں ہوتا تھا۔
٭٭حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی علم کا طالب ہو اور اسے علم حاصل بھی ہو گیا تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا اور اگر اسے علم حاصل نہ ہو تو اس کو ایک حصہ ثواب ملے گا۔ (درامی)
تشریح
دو ثواب اس طرح ملیں گے کہ ایک ثواب تو طلب علم اور اس کی مشقت و محنت کا ہو گا جو اس نے حصول علم کے سلسلے میں اٹھائی ہیں اور دوسرا ثواب علم کے حاصل ہونے کا اور پھر دوسروں کو علم سکھلانے کا ہو گا یا دوسرا ثواب عمل کا ہو گا جو اس نے علم پر کیا ہے۔ ہاں اس آدمی کو جسے اس کی طلب اور کوشش کے باوجود حاصل نہیں ہوا صرف ایک ثواب اس کی محنت و مشقت ہی کا ملے گا۔
بہر حال اتنی بات تو طے ہے کہ بہتر تقدیر طلب علم میں لگے رہنا چاہئے۔ اگر علم حاصل ہو گیا تو نور علیٰ نور کہ اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر علم حاصل نہ ہوا تو یہی کیا کم ہے کہ طلب علم میں مر جانا بھی سعادت ہے
گرچہ نہ تواں بد دست رہ برون
شرط یاری ست در طلب مردن
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مومن کو اس کے جس عمل یا جن نیکیوں کا مرنے کے بعد ثواب پہنچتا ہے اس میں ایک تو علم ہے جس کو اس نے سیکھا اور رواج دیا تھا، دوسرے نیک اولاد ہے جس کو اپنے بعد چھوڑا۔ تیسرے قرآن ہے جو وارثوں کے لیے چھوڑا ہو۔ چوتھے مسجد ہے جس کو اپنی زندگی میں بنا لیا گیا ہو، پانچویں مسافر خانہ ہے جس کو اس نے تعمیر کیا ہو، چھٹے نہر ہے جس کو اس نے جاری کیا ہے اور ساتویں وہ خیرات ہے جس کو اس نے اپنی تندرستی اور زندگی میں اپنے مال سے نکالا ہو، ان تمام چیزوں کا ثواب اس کے مرنے کے بعد اس کو پہنچتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، بیہقی)
٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی (خفی) بھیجی ہے کہ جو طلب علم کے لیے راستہ اختیار کرے تو میں اس پر جنت کے راستے کو آسان کر دوں گا اور جس آدمی کی میں نے دونوں آنکھیں چھین لی ہوں (یعنی کوئی آدمی نابینا ہو گیا ہو) تو اس دنیاوی نعمت سے محرومی اور اس پر صبر و شکر کی بناء پر میں اس کا بدلہ اسے جنت دوں گا اور علم کے اندر زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی جڑ پرہیز گاری ہے۔ (بیہقی)
تشریح
ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ جو آدمی علم دین کے حصول کے لیے کسی راستہ کو اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی راہ آسان کر دے گا یعنی دنیا میں معرفت و حقیقت کی دولت سے نوازا جائے گا اور عبادت خداوندی کی توفیق عنایت فرمائی جائے گی تاکہ وہ اس کے سبب جنت میں داخل ہو سکے ، یا اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی پر آخرت میں جنت کے دروازے کا راستہ اور جنت میں جو محل اہل علم کے لیے مخصوص ہے اس کی راہ آسان کر دی جائے گی۔
گو اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں علم کی جو راہ ہے وہی آخرت میں جنت کی بھی راہ ہے اور علم کے دروازوں کے علاوہ جنت کی تمام راہیں بند ہیں یعنی بغیر علم کے جنت میں داخل ہونا مشکل ہے مگر شرط یہی ہے کہ علم خلوص نیت اور للّٰہیت کے جذبہ سے حاصل کیا گیا ہو اور پھر اس عمل کی توفیق بھی ہوتی ہو ورنہ علم بغیر خلوص اور بغیر عمل کے کوئی حقیقت نہیں رکھے گا اور اس کا مصداق ہو گا کہ
چار پایہ بروکتا بے چند
آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ دین کی اصل اور جڑ ورع (یعنی پرہیزگاری) ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حرام، منکرات اور طمع سے بچنا چاہئے تاکہ عبادات میں ریاء اور عدم اخلاص پیدا نہ ہو۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ رات میں تھوڑی دیر علم کا درس دنیا کی تمام رات کو زندہ رکھنے سے بہتر ہے۔ (دارمی)
تشریح
یعنی تمام رات نماز پڑھنے اور عبادت خداوندی میں مشغول رہنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ تھوڑی دیر تک آپس میں تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس کا مشغلہ رکھا جائے اسی حکم میں حصول مقصد کے لیے علم کا لکھنا یعنی تصنیف و تالیف اور دینی و علمی کتابوں کا مطالعہ کرنا بھی داخل ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر دو مجلسوں پر ہوا، جو مسجد نبوی میں منعقد تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ دونوں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک (نیکی میں) دوسرے سے بہتر ہے۔ ایک جماعت عبادت میں مصروف ہے ، اللہ سے دعا کر رہی ہے اور اس سے اپنی رغبت کا اظہار کر رہی ہے (یعنی حصول مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف امید ہے اور حصول مقصد خواہش الہٰی پر موقوف ہے) لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ چا ہے تو انھیں دے اور اگر چا ہے نہ دے اور دوسری جماعت فقہ یا علم حاصل کر رہی ہے اور جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے ، چنانچہ یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلّم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی ان میں بیٹھ گئے۔ (دارمی)
تشریح
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ صحابہ کی دو جماعتیں الگ الگ بیٹھی ہوئی ہیں ایک جماعت تو ذکر و دعا میں مشغول تھی اور دوسری جماعت مذاکرہ علم میں مشغول تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں میں سے اس جماعت کو بہتر قرار دیا جو مذاکرۂ علم میں مشغول تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ زبان ہی سے ان کی فضیلت کا اظہار فرمایا بلکہ خود بھی اس جماعت میں بیٹھ کر علماء کی مجلس کو مزید عزّت و شرف کی دولت بخشی۔
علم اور عالموں کی اس سے زیادہ اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ سردار انبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے عابدوں کی مجلس کو چھوڑ کر عالموں ہی کی ہم نشینی اختیار فرمائی ہے اور اپنے آپ کو ان ہی میں سے شمار کیا
گدایان را ازیں معنی خبر نیست
کہ سلطان جہاں باما ست امروز
٭٭اور حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ علم کی مقدار کیا ہے کہ جب انسان اتنا علم حاصل کرے تو فقیہہ (عالم) ہو جائے اور آخرت میں اس کا شمار زمرہ علماء میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی میری امت کو فائدہ پہنچانے کے لیے امر دین کی چالیس حدیثیں یاد کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت میں فقیہ اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کا شفاعت کرنے والا اور (اس کی اطاعت پر) گواہ بنوں گا۔
تشریح
علماء لکھتے ہیں کہ اس سے مراد چالیس حدیثوں کا دوسرے لوگوں تک پہنچاتا ہے اگرچہ وہ یاد نہ ہوں چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے علماء نے چالیس احادیث جمع کر کے لوگوں تک پہنچائی ہیں اور اس طرح وہ قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت اور گواہی کے امیدوار ہوئے ہیں۔
٭٭اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ سخاوت کے معاملہ میں سب سے بڑا سخی کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سخاوت کرنے میں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے اور بنی آدم میں سے سب بڑا سخی میں ہوں، پھر لوگوں میں میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ آدمی ہو گا جس نے علم سیکھا اور اسے پھیلایا۔ وہ آدمی قیامت کے دن ایک امیر یا فرمایا کہ ایک گروہ کی طرح آئے گا۔
تشریح
آخر روایت میں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے امیر اوحدہ فرمایا یا امۃ واحدۃ فرمایا یعنی ایسا آدمی جس نے علم سیکھا اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلایا تو اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ آخرت میں ایک امیر کی مانند آئے گا کہ وہ کسی کے تابع نہیں ہو گا بلکہ اس کے ساتھ تابع اور خدام ہوں گے یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ وہ تن تنہا آدمی ایک گروہ جماعت کی مانند ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اللہ کی مخلوق کے درمیان معزز و مکرم ہو گا اور آخرت میں بصد شوکت و حشمت آئے گا۔
٭٭اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ حرص کرنے والے دو آدمی ہیں جن کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک علم میں حرص کرنے والا کہ اس کا پیٹ کبھی علم سے نہیں بھرتا، اور دوسرا دنیا کی حرص کرنے والا کہ اس کا پیٹ دنیا سے کبھی نہیں بھرتا۔ مذکورہ بالا تینوں حدیثیں بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہیں۔ حضرت امام مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ نے سنن ابوداؤد کی حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کا متن لوگوں میں مشہور ہے مگر اس کی اسناد صحیح نہیں ہے۔
تشریح
امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے طرق متعدد ہیں جن میں بعض کو دوسرے بعض کی بناء پر تقویت ملی ہے لیکن ویسے بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال کے سلسلہ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔
٭٭اور حضرت عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ دو حریص ہیں جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، ایک عالم اور دوسرا دنیا دار لیکن یہ (درجہ میں) برابر نہیں ہیں کیونکہ عالم تو اللہ کی خوشنودی و رضا مندی کو زیادہ کرتا ہے اور دنیا دار سرکشی میں زیادتی کرتا ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دنیا دار کے حق میں (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی۔ (آیت کا ترجمہ) خبردار ! انسان البتہ سرکشی کرتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو (کثرت مال کی بنا پر لوگوں سے) غنی دیکھتا ہے حضرت عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوسرے یعنی عالم کے حق میں یہ آیت پڑھی۔ (آیت کا ترجمہ) اللہ کے بندوں میں عالم اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (درامی)
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ میری امت میں بہت سے لوگ دین میں سمجھ یعنی دین کا علم حاصل کریں گے اور قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امراء کے پاس جا کر ان کی دنیا اور (دولت) میں سے اپنا حصّہ حاصل کریں گے اور اپنے دین کو ان سے یکسو رکھیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا (کہ دین و دنیا ایک جگہ جمع ہو جائیں اور امراء کی صحبت میں بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے) جیسا کہ جس طرح خاردار درخت سے صرف کانٹا ہی حاصل ہو سکتا ہے اسی طرح امراء کی صحبت سے نہیں حاصل ہوتا مگر! حضرت محمد ابن صباح رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد (لفظ الا کے بعد) خطایا تھی۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے الا کے بعد کسی لفظ کا تکلّم نہیں فرمایا چنانچہ حضرت محمد بن صباح رحمۃ اللہ تعالیٰ جو ایک جلیل القدر محدّث اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ و امام مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ جیسے ائمہ حدیث کے استاد ہیں۔ اس کی وضاحت فرما رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد الفاظ الا کے بعد خطایا ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے حذف فرمایا اور اس کا تکلّم نہیں کیا۔ اس طرح حدیث کے آخری الفاظ اب اس طرح ہو جائیں گے لَا یُجْتَنِی من قربھم الا الخطایا یعنی امراء کی صحبت سے حاصل نہیں ہوتا مگر گناہ۔
بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ایسے بھی عالم پیدا ہوں گے جن کا مقصد حصول علم سے محض یہ ہو گا کہ وہ علم حاصل کر کے اور قرآن پڑھ کر امراء کے پاس جائیں اور ان کے سامنے اپنی بزرگی و فضیلت کا اظہار کر کے ان سے مال و دولت حاصل کریں اور علم کی جو حقیقی منشاء و مدعا ہو گی یعنی اللہ کی مخلوق کی ہدایت اور عوام الناس کی بغیر کسی لالچ اور طمع کے دینی راہبری اس سے انھیں قطعاً کوئی مطلب نہ ہو گا۔ اور جب ان سے کہا جائے گا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بیک وقت تفقہ فی الدّین اور امراء کی قربت و صحبت جمع ہو جائے؟ تو وہ جواب میں یہ کہیں گے کہ ہم ان سے مال و دولت تو حاصل کریں گے مگر اپنے دین کو ان سے بچائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے حالانکہ یہ امر محال ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا اگر اہل علم (یعنی علماء) علم کی حفاظت کریں اور علم کو اس کے اہل ہی (یعنی قدر دانوں) کے سامنے رکھیں تو وہ بے شک اپنے علم کے سبب دنیا والوں کے سردار بن جائیں لیکن (علماء) نے اگر ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے علم کو دنیا داروں پر خرچ کیا تاکہ اس کے ذریعہ وہ دنیا (یعنی جاہ و جلال) کو حاصل کریں اور علم کا حقیقی مقصد یعنی دنیا والوں کی ہدایت و نصیحت کو موقوف کر دیں تو وہ دنیا والوں کی نظر میں ذلیل ہوئے۔ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس آدمی نے اپنے مقاصد میں سے صرف ایک مقصد یعنی آخرت کے مقصد کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی مقصد کو پورا کر دیتا ہے جس آدمی کے مقاصد پراگندہ ہوں جیسے کہ دنیا کے حالات ہیں تو پھر اللہ کو پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ خواہ کسی جنگل (یعنی دنیا کی کسی حالت) میں ہلاک ہو۔ (ابن ماجہ، بیہقی نے اس حدیث کو شعب الایمان میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قول من جعل الھموم سے آخر تک روایت کیا ہے۔
تشریح
یہ حدیث علماء کو احساس و شعور کی ایک دولت بخش رہی ہے اور علم کے سب سے اعلیٰ و بلند مقام کی نشاندہی کر رہی ہے چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ علماء اپنا مرتبہ و مقام پہچانیں اور وہ جس عرفانی مقام پر فائز ہیں اس کی اہمیت و نزاکت کا احساس کریں۔ اس لیے کہ علم دین جن بلند و اعلیٰ احساسات کا حامل ہے اسی طرح وہ اپنا ظرف بھی بلند و اعلیٰ چاہتا ہے۔ علم کی شان عظمت ہی یہ ہے کہ وہ قدر دانوں اور با شعور اشخاص کے پاس رہے۔ اگر حصول جاہ و جلال کی خاطر علم کو دنیا دار سرداروں اور ظالموں کی چوکھٹ کا سجدہ ریز بنایا جاتا ہے تو یہ علم کی سب سے بڑی توہین اور عالم کی سب سے بڑی ذلت ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بات اس سے بڑی فرما رہے ہیں۔ وہ کہتے کہ دنیاوی اعتبار سے سرداری، شوکت و حشمت اور عزت و عظمت کوئی بڑی چیز نہیں ہے بلکہ اصل اور حقیقی سرداری و امارت تو وہ ہے جو فضل و کمال اور بزرگی کے اعتبار سے ہو یہی وجہ ہے کہ علماء کی یہ شان نہیں ہوا کرتی کہ وہ بادشاہ و امیر بنیں یا حاکم و سردار ہوں، وہ تو علم و فضل اور بزرگی کی طاقت سے دنیا کے روحانی تاجدار ہوتے ہیں اور لوگوں کے دل و دماغ پر حکمران ہوتے ہیں اور ان کے ماسواء ان کے زیر قدم، زیر قلم اور ان کی عقل و احکام کے تابع دار ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شاہد ہے
آیت (يَرْفَعِ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ)۔ (58۔ المجادلۃ:11)
یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان کے جو ایمان لائے اور جن کو علم دیا گیا درجات بلند کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ بندہ کا احساس اور اس کا شعور اتنا پاکیزہ اور لطیف ہو جانا چاہئے کہ اس کے دل و دماغ کے ایک ایک گوشہ میں صرف ایک ہی مقصد کی روشنی ہو اور وہ مقصد آخرت ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہ ہو اور کوئی غرض نہ ہو تو پھر اللہ کی جانب سے اس پر دنیاوی وسعت کے دروازے بھی خود بخود کھول دیئے جاتے ہیں۔
لیکن بندہ کا دل و دماغ اگر اتنا پراگندہ ہو کہ وہ ہمہ وقت دنیا کی چیزوں میں تو لگا رہے اور دنیا کے تفکرات میں مستغرق رہے تو اللہ کی جانب سے اس کے ساتھ کوئی اچھا معاملہ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ اس سے اتنا بے تعلق ہو جاتا ہے کہ اگر وہ بندہ دنیا کی کسی تکلیف اور کسی بھی مصیبت میں ہلاک ہو جائے تو اللہ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی اور نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ دینی اعتبار سے رحمت خداوندی کی نظر کرم اس کی طرف ہوتی ہے۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کے خسران و نقصان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
٭٭اور حضرت اعمش رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا علم کی آفت بھولنا ہے اور علم کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو نا اہل کے سامنے بیان کیا جائے۔ (دارمی نے بطریق ارسال کیا)
تشریح
علم کے حاصل ہونے سے پہلے تو بہت آفات اور مصیبتیں ہوتی ہیں لکل شئی آفۃ والعلم اٰفات یعنی ہر چیز کی ایک ہی آفت ہوتی ہے مگر علم کے لیے بہت سے آفات ہیں لیکن حصول علم کے بعد ایک ہی آفت ہے اور وہ نسیان یعنی بھولنا ہے اور یقیناً کسی چیز کا حاصل ہو جانے کے بعد زائل ہو جانا اور ذہن میں آ کر پھر محو ہو جانا زبردست روحانی اذیت ہے۔
دراصل اس حدیث سے اس پر تنبیہ مقصود ہے کہ طالب علم اور اہل علم کو چاہئے کہ وہ ایسی باتوں سے اجتناب کریں جو نسیان کا سبب ہیں یعنی گناہ و معصیت سے بچیں اور ان چیزوں میں دل نہ لگائیں جو ذہن و فکر کو غافل کر دیتی ہیں جیسے دنیا کی سحر آفرینیوں اور خواہشات نفسانی میں دلچسپی لینا چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی
ترجمہ میں نے اپنے استاد وکیع سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے ترک معصیت کی نصیحت کی۔
فان العلم فضل من الٰہ
وفضل اللہ لا یعطی لعاص
ترجمہ کیونکہ علم تو اللہ کا ایک فضل ہے اور اللہ کا فضل گناہ گار کے حصہ میں نہیں آتا۔
آخر حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ علم کو اس کے نااہل اور ناقدردان کے سامنے پیش کرنا دراصل علم کو ضائع کرنا ہے اور نا اہل وہ آدمی ہے جو نہ تو علم کو سمجھتا ہے اور نہ علم کی قدر جانتا ہے لہٰذا جب اس کے سامنے علم پیش کیا جائے گا تو علم ضائع ہو گا۔ اس لیے علم انھی کو سکھانا چاہئے جو اس کے اہل اور قدردان ہوں، یعنی وہ علم سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان کے اندر موجود ہو۔
٭٭ اور حضرت سفیان رحمۃ اللہ تعالیٰ راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا (تمہارے نزدیک) صاحب علم کون ہے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا وہ لوگ جو اپنے علم کے موافق عمل کریں، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کون سی چیز عالموں کے دلوں سے علم کو نکال لیتی ہے؟ حضرت کعب نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ جواب دیا۔ لالچ (دارمی)
تشریح
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ علماء کے دلوں سے نور علم اور علم کی عظمت و برکت کو نکالنے والی کونسی چیز ہے اور وہ کیا شے ہے جس کی موجودگی علم کے منافی ہے؟ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ لالچ۔ وہ بری خصلت ہے جو علم کے نور کو عالم کے دل سے ضائع کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب کسی عالم کے اندر جاہ و جلال کی محبت اور لالچ اور دنیاوی اسباب عیش و عشرت کی طمع پیدا ہو جائے گی تو پھر علم کا نور اور علم کی برکت اپنی جگہ چھوڑ دیں گے اور عالم کے دل و دماغ علم کی حقیقی روشنی سے منوّر نہ رہ سکیں گے۔
٭٭اور حضرت احوض بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے برائی کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ سے برائی کے بارے میں مت پوچھو بلکہ بھلائی کے بارے میں سوال کرو۔ اور ان جملوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار ادا فرمایا۔ خبردار ! بد لوگوں میں بد ترین برے عالم ہیں اور بھلے لوگوں میں سب سے بہتر بھلے علماء ہیں۔ (دارمی)
تشریح
صحابی کے سوال کا مقصد یا تو نفسِ برائی کے بارے میں دریافت کرنا تھا جیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوا یا وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ بد ترین آدمی کون ہے َ اور جواب کو دیکھتے ہوئے یہی مقصد زیادہ واضح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کے سوال سے منع فرمایا، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سراپاءِ رحمت اور سراپاءِ خیر ہے اس لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محض بدی اور برائی کا سوال کیا جاتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے برائی اور بھلائی دونوں کے بارے میں جواب دے کر اسی طرف اشارہ فرمایا۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ علماء کی ذات چونکہ عوام کے اندر ایک معیار اور نمونہ ہوتی ہے اور لوگ ان کے تابع و معتقد ہوتے ہیں لہٰذا عالم کی ہر صفت اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے اثرات تک بھی پہنچتے ہیں، عالم اگر نیک اخلاق و عادات اور اچھے خصائل کا ہوتا ہے تو اس کے ماننے والے اور اس کی اتباع کرنے والے بھی نیک اخلاق و عادات کے مالک ہوتے ہیں اور خدانخواستہ بد اخلاق، بد کردار ہو جائے تو پھر اس کے جراثیم دوسرے تک پہنچتے ہیں اور اس کے ماننے والے بھی اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔
٭٭اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مرتبہ میں سب سے بد تر وہ عالم ہے جس نے اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھایا۔ (دارمی)
تشریح
یا تو اس سے مراد وہ عالم ہے جس نے ایسا علم سیکھا جو فائدہ پہنچانے والا نہیں ہے۔ یعنی غیر شرعی علوم اس نے حاصل کئے جو نفع بخش نہیں ہیں یا پھر وہ عالم مراد ہے جس نے علم تو شرعی اور دینی حاصل کیا مگر اس پر عمل نہیں کیا۔
لہٰذا ایسے عالم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ قیامت کے روز مرتبہ کے اعتبار سے وہ اللہ کے نزدیک سب سے بد تر ہو گا یعنی یہ جاہل سے بھی زیادہ برا ہو گا یہی وجہ ہے کہ اس پر جو عذاب ہو گا وہ جاہل کے عذاب سے سخت ہو گا، جیسا کہ منقول ہے۔
ویل للجاھل مرۃ و ویل اللعالم سبع مرات۔
یعنی جاہل کے لیے ایک مرتبہ بربادی ہے اور عالم کے لیے سات مرتبہ بربادی ہے ، نیز یہ وارد ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ اور سب سے شدید عذاب جس پر ہو گا وہ ایسا عالم ہے کہ جسے اللہ نے علم دیا اور اس نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔
٭٭اور حضرت زیاد بن حدیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کی عمارت کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم! حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ عالم کا پھسلنا (یعنی کسی مسئلہ میں عالم کا غلطی کرنا اور اس کا گناہ کرنا، منافق کا کتاب اللہ میں جھگڑنا اور گمراہ سرداروں کا حکم جاری کرنا اسلام (کی عمارت) کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ (دارمی)
تشریح
اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو پانچ بنیادی اصول ہیں، یعنی کلمہ، توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ وہ بیکارِ محض ہو کر رہ جائیں، چنانچہ جب عالم اپنے حقیقی فرائض یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی کو اپنی خواہشات نفسانی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے تو ان چیزوں میں سستی اور فساد واقع ہو جاتا ہے۔
اسی طرح منافق یعنی وہ آدمی جو بظاہر تو اسلام کا دم بھرتا ہے مگر اندرونی طور پر وہ کفر و بدعت کا پوری طرح ہمنوا ہوتا ہے۔ جب قرآن میں جھگڑتا ہے بایں طور پر وہ قرآن کے معنی و مفہوم کی غلط تاویلات کر کے احکام شرعیہ کو رد کرتا ہے تو اس سے ارکان اسلام میں سستی اور دین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔
اسی زمرہ میں وہ روافض اور خوارج نیز دیگر باطل عقائد کے لوگ بھی داخل ہیں جو اپنی خواہشات نفسانی اور ذاتی اغراض کی خاطر غلط سلط تاویلیں کر کے دین و شریعت میں شک و شبہہ کا بیج بوتے ہیں۔
٭٭اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ علم کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ علم جو دل کے اندر ہوتا ہے یہ علم تو نفع دیتا ہے اور دوسرا وہ علم ہے جو زبان کے اوپر ہوتا ہے یہ علم آدمی پر اللہ عزوجل کی دلیل و حجت ہے۔ (دارمی)
تشریح
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے علم کی جو دو قسمیں کی ہیں ان میں سے پہلے کو علم باطن کہا جاتا ہے اور دوسرے کو علم ظاہر چنانچہ جب تک ظاہر کی اصلاح نہیں ہوتی علم باطن سے کچھ میسر نہیں آتا، اسی طرح جب تک باطن کی اصلاح نہیں ہو جاتی علم ظاہر کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ابوطالب مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں علم اصل اور بنیادی ہیں اور ان دونوں میں اس درجہ کا ارتباط و تعلّق ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ایمان و اسلام کہ ایک دوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوتے یا جیسے دل و جسم کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ٹھیک اسی طرح ان دونوں علوم کا آپس میں ارتباط و تعلق ّہے۔ (ملاقاری)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ نفع دینے والا علم وہ ہوتا ہے کہ جب اس کی روشنی سے دل منوّر ہو جاتا ہے تو دل کے وہ پردے اٹھ جاتے ہیں جو حقائق اشیاء کی معرفت و فہم کے لیے مانع ہیں۔
علم نافع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو علم معاملہ جو عمل کا باعث ہوتا ہے اور دوسرا علم مکاشفہ جو عمل کا اثر ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے دل میں یہ نورانی علم ڈال دیتا ہے اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے جس علم کو نافع قرار دیا ہے وہ یہی علم ہے اور جو علم زبان کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جو نہ تو تاثیر رکھتا ہے اور نہ دل میں نورانیت پیدا کرتا ہے
علم چوں بردل زند یاری شود
علم چوں برتن زند ماری شود
چنانچہ اسی علم کو کہا جا رہا ہے کہ یہ بندوں پر اللہ کی جانب سے حجت اور دلیل ہے کہ خدا بندوں کو الزام دیتے ہوئے فرمائے گا کہ میں نے تو تمہیں علم دیا تھا تم نے اس پر علم کیوں نہیں کیا؟ اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ جاہل کے لیے ایک بار بربادی ہے اور عالم کے لیے سات بار کیونکہ یہ دیدہ و دانستہ گمراہ ہوا۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے دو باسن (یعنی دو طرح کے علم) یاد رکھے ہیں، ان میں سے ایک کو تمہارے درمیان میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا علم وہ ہے کہ اگر میں اسے بیان کروں تو میرا یہ گلا کاٹ ڈالا جائے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
پہلے علم سے مراد تو علم ظاہر ہے جس کا تعلق احکام و اخلاق وغیرہ سے ہے۔ دوسرے علم کے دو مفہوم لیے جا سکتے ہیں اول تو یہی کہ اس سے مراد وہ علم باطن ہے جس کے اسرار و معانی عوام سے ان کے ناقص فہم کی بنا پر پوشیدہ ہیں اور وہ علم خواص علماء عارفین کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسرے معنیٰ یہ ہو سکتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا تھا کہ میرے بعد ایک جماعت کی طرف سے ایک زبردست فتنہ اٹھے گا جس سے بدعات کی بنیاد پڑ جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قوم اور قوم کے افراد کے ناموں کا بھی علم تھا چنانچہ ہو سکتا ہے کہ اس سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد یہی علم ہو جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اگر میں اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دوں گا تو میری جان کے لالے پڑ جائیں گے۔
٭٭اور مروی ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) اے لوگو! جو آدمی کسی بات کو جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ اسے بیان کر دے ، اور جو نہ جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ کہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے اس لیے کہ جس چیز کا اسے علم نہیں ہے ، اس کے بارے میں اللہ زیادہ جانتا ہے۔ کہنا بھی علم کی ایک قسم ہے (یعنی معلوم کا غیر معلوم سے تمیز کرنا بھی علم کی ایک قسم ہے) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے فرمایا ہے کہ آیت (قُلْ مَآ اَسَْٔلُكُمْ عَلَيْہ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ) 38۔ص:86) ترجمہ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ دیجئے کہ میں اس قرآن پر تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہو۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس آیت کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ خدا نے جو کچھ علم مجھے دیا اور جتنا مجھے سکھا دیا اور پھر اس کو پھیلانے اور لوگوں کو سکھانے کا حکم دیا اسی کو لوگوں تک پہنچاتا اور انھیں سکھاتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں کسی دوسری چیز کا دعویٰ اپنی طرف سے نہیں کرتا اور نہ ان چیزوں سے بحث کرتا ہوں جو مشکل اور سخت ہونے کی وجہ سے عوام کے فہم سے بلند و بالا ہیں کیونکہ ایسا کرنا خواہ مخواہ کا تکلف کرنا ہے۔
٭٭اور حضرت ابن سیرین رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ علم (یعنی کتاب و سنت کا علم) دین ہے۔ لہٰذا جب تم اس کو حاصل کرو تو یہ دیکھ لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس ارشاد سے دراصل اس بات پر تنبیہ مقصود ہے کہ جب علم حاصل کرنے کا ارادہ کرو یا حدیث حاصل کرو تو اس بات کو خوب اچھی طرح جانچ پرکھ لو کہ تم جس سے علم حاصل کر رہے ہو وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ آیا وہ قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ جب تمہیں اس عالم یا راوی کے حالات کا پوری طرح علم ہو جائے اور سمجھ لو کہ واقعی وہ دیندار، پرہیزگار اور قوی الحافظہ ہے تو اس سے علم حاصل کرو۔ اس طرح ہر کس و ناکس کو اپنا استاد نہ بناؤ اور ہر آدمی سے حدیث کی روایت نہ کرو خصوصاً اہل بدعت، نفسانی خواہشات کے غلام اور غیر دیندار لوگوں سے اس معاملہ میں اجتناب برتو۔
٭٭اور مروی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے قاریوں کی جماعت سیدھے رہو! اس لیے کہ تم سبقت لے گئے ہو دور کی سبقت اگر تم (سیدھے راستہ سے ہٹ کر) ادھر ادھر ہو گئے تو البتہ بڑی گمراہی میں پڑ جاؤ گے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
یہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب ہے جو ابتداء ہی میں اسلام کی دولت سے مشرف ہو گئے تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے شروع ہی میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ اس لیے یہ اپنے فضل و کمال کی بناء پر ان لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں جو بعد میں مسلمان ہوئے ہوں گے اگرچہ ان کے اعمال بھی ان ہی جیسے ہوں گے لیکن بعد کے لوگ پہلے والوں کے مرتبہ و درجہ کو ان کی سبقت اسلام کی بناء پر نہیں پہنچ سکتے۔
بہر حال انھیں مقدّس حضرات کو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخاطب فرما رہے ہیں کہ تم لوگ شریعت، طریقت اور حقیقت کی راہ پر مستقیم رہو اس لیے کہ استقامت کرامت سے بہتر ہے۔
استقامت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اچھے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہا جائے ، نفع دینے والے علم اور صالح پر مداومت اختیار کی جائے ، اخلاص خالص رکھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام چیزوں سے دھیان ہٹا کر حق تعالیٰ کے ساتھ لو لگائے رہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم(صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا۔ تم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو حب الحزن یعنی غم کے کنویں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! غم کا کنواں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ دوزخ میں ایک نالہ ہے جس سے دوزخ دن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! اس میں کون داخل ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے اعمال کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں۔ (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ) اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اللہ کے نزدیک مبغوض ترین وہ قاری ہیں جو سرداروں سے ملاقات کرتے ہیں اس حدیث کے راوی حاربی نے کہا ہے کہ سرداروں سے مراد ظالم سردار ہیں۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
جب الحزن دوزخ کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور کنوئیں کے مشابہ ہے یہ اتنی زیادہ ہیبت ناک اور وحشت ناک ہے کہ دوزخی تو الگ رہے خود دوزخ دن میں چار سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتی ہے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا کہ وہ قاری جو اپنا عمل یعنی قرآن پڑھنا محض دکھلا وے و ریاء کے لیے کرتے ہیں اسی وحشت ناک وادی میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ اسی حکم میں ریاکار عالم اور عابد بھی داخل ہیں، کیونکہ علم کی اصل بنیاد تو قرآن ہی ہے اسی طرح عبادت بھی قرآنی احکام ہی کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے عالم اور عابد جو ریاء کار ہیں وہ انھیں قاریوں کے ہمراہ اسی کنواں کا لقمہ بنیں۔
سرداروں سے ملاقات کا مطلب یہ ہے کہ جو قاری سرداروں سے محض حب جاہ و مال اور دنیاوی طمع و لالچ کی خاطر ملتا ہے وہ اللہ کے نزدیک مبغوض ترین ہے۔ ہاں اگر سرداروں سے ملنا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ہو یا بطریق جبر اور ان کے شرک کے دفعیہ کے لیے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
نیز یہاں سرداروں سے بھی وہی سردار مراد ہیں جو ظالم اور جابر ہوں، نیک بخت سردار یا عادل امیر و حاکم کا یہ حکم نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے امراء و سردار جو اللہ کے نیک بندے ہوں ان سے ملاقات کرنا عبادت میں داخل ہے۔
٭٭اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انھیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے) دین میں فتنہ پیدا ہو گا اور انھیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انھیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔ (بیہقی)
تشریح
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے ، کہنے کے لیے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کوسوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لیے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لیے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لیے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں رسم قرآن سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے ، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہو گا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہو گا۔
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے ، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔
٭٭اور حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی چیز (یعنی فتنہ اور ابتلاء) کا ذکر کیا۔ پھر فرمایا یہ اس وقت ہو گا جبکہ علم جاتا رہے گا۔ (یہ سن کر) میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) علم کس طرح جاتا رہے گا؟ حالانکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں گے ، ہمارے بچے اپنے بچوں کو پڑھائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ زیاد! تمہیں تمہاری ماں گم کر دے ! میں تو تمہیں مدینے کے لوگوں میں بڑا سمجھ دار سمجھتا تھا کیا یہود و نصاریٰ توریت و انجیل کو نہیں پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کی کتابوں کے اندر جو کچھ ہے۔ (یعنی احکام) اس میں وہ کسی چیز پر عمل نہیں کرتے (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ) اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی ہی روایت زیاد سے اور اسی طرح دارمی نے ابی امامہ سے نقل کی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ، جامع ترمذی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ تم نے میرے کلام کا منشاء جانے بغیر یہ خیال کر لیا کہ صرف قرآن کا پڑھ لینا اور اس کا علم حاصل کر لینا ہی کافی ہے یعنی جس نے قرآن پڑھ لیا اور اس کا علم حاصل کر لیا گویا اس نے اس پر عمل بھی کر لیا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ محض قرآن کو پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اصل چیز تو اس کا اتباع اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے اور یہی چیز اس وقت مقصود ہو گی، چنانچہ قرآن کو مسلمان پڑھیں گے اور اس کا علم حاصل کریں گے مگر ان کا عمل قرآن کے مطابق نہیں ہو گا جس طرح کہ یہود و نصاریٰ کہ وہ بھی اپنی کتابوں یعنی تو ریت و انجیل کو پڑھتے ہیں اور اس کا علم بھی حاصل کرتے ہیں لیکن ان کے احکام پر ذرہ برابر بھی عمل نہیں کرتے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا۔ علم کو سیکھو اور سکھلاؤ، علم فرائض (یا فرض احکام) کو سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھلاؤ (اسی طرح) قرآن کو سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھلاؤ۔ اس لیے کہ بے شک میں ایک آدمی ہوں جو اٹھایا جاؤں گا اور علم بھی اٹھا لیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی ایک فرض چیز میں اختلاف کریں گے اور کسی کو ایسا نہ پائیں گے جو ان دونوں کے درمیان فیصلہ کرے (یعنی علم کے کم ہو جانے اور فتنوں کے بڑھ جانے) سے یہ حال ہو جائے گا۔ (دارمی ، دار قطنی)
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اس علم کی مثال جس سے نفع نہ اٹھایا جائے (یعنی نہ دوسروں کو پڑھایا جائے اور نہ اس پر عمل کیا جائے ، اس خزانہ کی مانند ہے جس میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا جائے۔ (مسند احمد بن حنبل، دارمی)