ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں بھی بشر ہوں اور تم میرے پاس لڑتے جھگڑتے آتے ہو شائد تم میں سے کوئی باتیں بنا کر اپنے دعوے کو ثابت کر لے پھر میں اس کے موافق فیصلہ کروں اس کے کہنے پر تو جس شخص کو میں اس کے بھائی حقل دلا دوں وہ نہ لے کیونکہ میں ایک انگارہ آگ کا اس کو دلاتا ہوں۔
حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان لڑتے ہوئے آئے حضرت عمر کو یہودی کی طرف حق معلوم ہوا انہوں نے اس کے موافق فیصلہ کیا پھر یہودی بولا قسم خدا کی تم نے سچا فیصلہ کیا حضرت عمر نے اس کو درے سے مار اور کہا تجھے کیوں کر معلوم ہوا یہودی نے کہا ہماری کتابوں میں لکھا ہے جو حاکم سچا فیصلہ کرتا ہے اس کے داہنے ایک فرشتہ ہوتا ہے اور بائیں ایک فرشتہ دونوں اس کو مضبوط کرتے ہیں اور سیدھی راہ بتلاتے ہیں جب تک کہ وہ حاکم حق پر جما رہتا ہے جب حق چھوڑ دیتا ہے وہ فرشتے بھی اس کو چھوڑ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔
زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا نہ خبر دوں میں تم کو سب سے بہتر گواہ کی جو گواہی دیتا ہے قبل اس کے کہ پوچھا جائے اس سے۔
ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک شخص عراق کا رہنے والا حضرت عمرب کے پاس آیا اور بولا میں تمہارے پاس اس کام کو آیا ہوں جس کا سر پیر کچھ نہیں حضرت عمر نے کہا کیا ہے اس نے کہا جھوٹی گواہیاں ہمارے ملک میں بہت پھیل گئی ہیں حضرت عمر نے کہا سچ اس نے کہا ہاں تب حضرت عمر نے کہا اب کوئی شخص مسلمان قید نہ کیا جائے گا بغیر معتبر گواہوں کے۔
سلیمان بن یسار وغیرہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص کو حد قذف پڑی پھر اس کی گواہی درست ہے انہوں نے کہا ہاں جب وہ توبہ کر لے اور اس کی توبہ کی سچائی اس کے اعمال سے معلوم ہو جائے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا جو لوگ لگاتے ہیں نیک بخت بیبیوں کو پھر چار گواہ نہیں لاتے ان کو اسی کوڑے مارو پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو وہی گنہگار ہیں مگر جو لوگ توبہ کریں بعد اس کے اور نیک ہو جائیں تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے پس جو شخص حد قذف لگایا جائے پھر توبہ کرے اور نیک ہو جائے اس کی گواہی درست ہے۔
جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فیصلہ کیا ایک قسم اور ایک گواہ پر۔
عمر بن عبدالعزیز نے لکھا عبدالحمید بن عبدالرحمن کو اور وہ عامل تھے کوفہ کے کہ ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا کر۔
ام سلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا درست ہے انہوں نے کہا ہاں۔
کہا مالک نے جب مدعی کے پاس ایک گواہ ہو تو اس کی گواہی لے کر مدعی کو قسم دیں گے اگر وہ قسم کھا لے گا تو بری ہو جائے گا اگر وہ قسم کھانے سے انکار کرے تو مدعی کا دعویٰ اس پر ثابت ہو جائے گا۔
کہا مالک نے ایک قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ کرنا صرف اموال کے عدوے میں ہو گا اور حدود اور نکاح اور طلاق اور عتاق اور سرقہ اور قذف میں ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور جس شخص نے عتاق کو اموال کے دعوے میں داخل کیا اس نے غلطی کی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو غلام جب ایک گواہ لاتا اس امر پر کہ مولیٰ نے اس کو آزاد کر دیا ہے تو چاہیے تھا کہ غلام سے حلف لے کے اس کو آزاد کر دیتے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ جب غلام اپنی آزادی پر ایک گواہ لائے تو اس کے مولیٰ سے حلف لیں گے اگر حلف کر لے گا تو آزادی ثابت نہ ہو گی۔
کہا مالک نے اسی طرح اگر عورت ایک گواہ لائے اس امر پر کہ اس کے خاوند نے اس کو طلاق دی تو خاوند سے قسم لیں گے اگر وہ قسم کھائے اس امر پر کہ میں نے طلاق نہیں دی تو طلاق ثابت نہ ہو گی۔
کہا مالک نے اگر طلاق اور عتاق میں جب ایک گواہ ہو تو خاوند اور مولیٰ پر قسم لازم آئے گی۔ کیونکہ عتاق ایک حد شرعی ہے جس میں عورتوں کی گواہی درست نہیں اس لیے کہ غلام جب آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی حرمت ثابت ہو جاتی ہے اور اس کی حدیں اوروں پر پڑتی ہیں اور اوروں کی حدیں اس پر پڑتی ہیں اگر وہ زنا کرے اور محصن ہو تو رجم کیا جائے گا اگر اس کو کوئی مار ڈالے تو قاتل بھی مارا جائے گا اور اس کے وارثوں کو میراث کا استحقاق حاصل ہو گا اگر کوئی حجت کرنے والا یہ کہے کہ مولیٰ جب غلام کو آزاد کر دے پھر ایک شخص اپنا قرض مولیٰ سے مانگنے آئے اور ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے اپنا قرض ثابت کرے تو مولیٰ پر قرضہ ثابت ہو جائے گا اگر مولیٰ کے پاس سوائے اس غلام کے کوئی مال نہ ہو گا تو اس غلام کی آزادی فسخ کر ڈالیں گے اس سے یہ بات نکالی کہ عورتوں کی گواہی عتاق میں درست ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ عورتوں کی گواہی قرضے کے اثبات میں معتبر ہوئی نہ کہ عتاق میں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص اپنے غلام کو آزاد کر دے پھر اس کا قرض خواہ ایک گواہ اور ایک قسم سے اپنا قرضہ مولیٰ پر ثابت کر دے اور اس کی وجہ سے آزادی فسخ کی جائے یا مولیٰ پر قرضے کا دعویٰ کرے اور گواہ نہ رکھتا ہو تو مولیٰ سے قسم لی جائے اور وہ انکار کرے تو مدعی سے قسم لے کر اس کا قرضہ ثابت کر دیا جائے اور آزادی فسخ کی جائے اسی طرح ایک شخص نکاح کرے لونڈی سے پھر لونڈی کا مولیٰ خاوند سے کہنے لگے کہ تو نے اور فلاں شخص نے مل کر میری اس لونڈی کو اتنے دینار میں خرید کیا ہے اور خاوند انکار کرے تو مولیٰ ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ لائے اپنے قول پر اس صورت میں بیع ثابت ہو جائے گی۔ اور وہ لونڈی خاوند پر حرام ہو جائے گی۔ اور نکاح فسخ ہو جائے گا حالانکہ طلاق میں عورتوں کی گواہی درست نہیں۔
کہا مالک نے اسی طرح اگر ایک شخص قذف کرے ایک شخص کو پھر ایک مرد یا دو عورتیں گواہی دیں کہ جس شخص کو قذف کیا ہے وہ غلام ہے تو قاذف کے ذمہ سے حد ساقط ہو جائے گی حالانکہ قذف میں شہادت عورتوں کی درست نہیں۔
کہا مالک نے یہ بھی اس کی مثال ہے کہ وہ عورتیں گواہی دیں بچے کے رونے پر تو اس بچے کے لیے میراث ثابت ہو جائے گی اور جو بچہ مر گیا ہو گا تو اس کے وارثوں کو میراث ملے گی حالانکہ ان دو عورتوں کے ساتھ نہ کوئی مرد ہے نہ قسم ہے اور کبھی میراث کا مال کثیر ہوتا ہے جیسے سونا چاندی زمین ، باغ، غلام وغیرہ اگر یہی دو عورتیں ایک درہم پر یا اس سے کم پر بھی گواہی دیں تو ان کی گواہی سے کچھ ثابت نہ ہو گا۔ جب تک کہ ان کے ساتھ ایک مرد یا ایک قسم نہ ہو۔
کہا مالک نے بعضے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک قسم اور ایک گواہ سے حق ثابت نہیں ہو تو بہ سبب قول اللہ تعالیٰ کے فان لم یکونا رجلین الایۃ تو حجت ان لوگوں پر یہ ہے کہ آیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص نے دعویٰ کیا ایک شخص پر مال کا کیا نہیں حلف لیا جاتا مدعی علیہ تو اگر حلف کرتا ہے باطل ہو جاتا ہے اس سے یہ یہ حق اگر نکول کرتا ہے پھر حلف دلاتے ہیں صاحب حق کو تو یہ امر ایسا ہے کہ نہیں ہے اختلاف اس میں کسی کا لوگوں میں سے اور نہ کسی شہر میں شہروں میں سے تو کسی دلیل سے نکالا ہے اس کو اور کس کتاب اللہ میں پایا ہے اس مسئلے کو تو جب اس امر کو اقرار کرے تو ضرور ہی اقرار کرے یمین مع الشاہد کا اگرچہ نہیں ہے یہ کتاب اللہ میں مگر حدیث میں تو موجود ہے آدمی کو چاہیے کہ ٹھیک راستہ پہچانے اور دلیل کا موقع دیکھے اس صورت میں اگر خدا چاہے گا تو اس کی مشکل حل ہو جائے گی۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص مر جائے اور وہ لوگوں کا قرضدار ہو جس کا ایک گواہ ہو اور اس کا بھی قرض ایک پر آتا ہو اس کا بھی ایک گواہ ہو اور اس کے وارث قسم کھانے سے انکار کریں تو قرض خواہ قسم کا کر اپنا قرضہ وصول کریں اگر کچھ بچ رہے گا تو وہ وارثوں کو نہ ملے گا کیونکہ انہوں نے قسم نہ کھا کر اپنا حق آپ چھوڑ دیا مگر جب وارث یہ کہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ قرض میں سے کچھ بچ رہے گا اسی واسطے ہم نے قسم نہیں کھائی اور حاکم کو معلوم ہو جائے کہ وارثوں نے اسی واسطے قسم نہ کھائی تھی تو اس صورت میں وارث قسم کھا کر جو کچھ مال بچ رہا ہے اس کو کے سکتے ہیں۔
جمیل بن عبدالرحمن عمر بن عبدالعزیز کے پاس آیا کرتے تھے جب وہ فیصلہ کرتے تھے لوگوں کا جو شخص کسی پر دعوی کرے گو مدعی اور مدعا علیہ میں یک جائی اور تعلق اور ارتباط معلوم ہوتا تو مدعا علیہ سے حلف لیتے ورنہ حلف نہ لیتے۔
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر لڑکوں کی گواہی پر حکم کرتے تھے ان کے آپس کی مار پیٹ کے۔
کہا مالک نے لڑکے لڑ کر ایک دوسرے کو زخمی کریں تو ان کی گواہی درست ہے لیکن لڑکوں کی گواہی اور مقدمات میں درست نہیں ہے یہ بھی جب درست ہے کہ لڑ لڑا کر جدا نہ ہو گئے ہوں مکر نہ کیا ہو اگر جدا جدا چلے گئے ہوں تو پھر ان کی گواہی درست نہیں ہے مگر جب عادل لوگوں کو اپنی شہادت پر شاہد کر گئے ہوں۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص میرے منبر پر جھوٹی قسم کھائے اس نے اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہنم میں
ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی مسلمان کا حق اڑا لے جھوٹی قسم کھا کر تو اللہ جنت کو اس پر حرام کرے گا اور جہنم اس کے لئے ضروری کرے گا صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ وہ حق تھوڑا ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر ایک شاخ ہو پیلو کی اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی تین بار فرمایا۔
ابی غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ زید بن ثابت اور عبداللہ بن مطیع نے جھگڑا کیا ایک گھر میں جو دنوں میں مشترک تھا تو لے گئے مقدمہ مروان بن حکم کے پاس وہ ان دنوں میں حاکم تھا مدینہ کا مروانے فیصلہ کیا اس بات پر کہ زید بن ثابت قسم کھائیں منبر شریف پر زید نے کہا میں اپنی جگہ پر قسم کھاؤں گا مروان نے کہا نہیں وہیں قسم کھاؤ جہاں لوگوں نے قضیے چکتے ہیں تو زید بن ثابت قسم کھاتے تھے میں سچا ہوں لیکن منبر پر قسم کھانے سے انکار کرتے تھے اور مروان کو تعجب ہوتا تھا۔