ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ بن حزم کے واسطے لکھی تھی دیتوں کے بیان میں اس میں یہ تھا کہ جان کی دیت سو اونٹ ہیں اور ناک کی جب پوری کاٹی جائے سو اونٹ ہیں اور مامومہ میں تیسرا حصہ دیت ہے اور جائفہ میں بھی تیسرا حصہ دیت کا ہے اور آنکھ کی دیت پچاس اونٹ ہیں اور ہاتھ کے بھی پچاس اور پیر کے بھی پچاس اور ہر انگلی کے دس اونٹ ہیں اور ہر دانت کے پانچ اونٹ اور موضحہ کی دیت پانچ اونٹ ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے دیت کی قیمت لگائی گاؤں والوں پر تو جن کے پاس سونا رہتا ہے ان پر ہزار دینار مقرر کئے اور جن کے پاس چاندی رہتی ہے ان پر بارہ ہزار درہم مقرر کئے۔
کہا مالک نے سونے والے شام اور مصر کے لوگ ہیں اور چاندی والے عراق کے لوگ ہیں۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ اتفاق ہے کہ سونے چاندی والوں سے دیت میں اونٹ نہ لیے جائیں گے اونٹ والوں سے سونا چاندی نہ لیا جائے گا اور سونے والے سے چاندی نہ لی جائے گی اور چاندی والے سے سونا نہ لیا جائے گا۔
ابن شہاب کہتے تھے قتل عمد میں کہ جب مقتول کے وارث دیت پر راضی ہو جائیں تو دیت پچیس بنت مخاض اور پچیس بنت لبون اور پچیس حقے اور پچیس جذعے ہو گی۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ میرے پاس ایک مجنوں لایا گیا ہے جس نے ایک شخص کو مار ڈالا معاویہ نے جواب میں لکھا کہ اسے قید کر اور اس سے قصاص نہ لے کیونکہ مجنوں پر قصاص نہیں ہے۔
کہا مالک نے اگر ایک بالغ اور نابالغ نے مل کر ایک شخص کو عمداً قتل کیا تو بالغ سے قصاص لیا جائے گا اور نابالغ پر نصف دیت لازم ہو گی۔
کہا مالک نے اسی طرح سے ایک آزاد شخص اور ایک غلام مل کر ایک غلام کو عمداً مار ڈالیں تو غلام قصاصاً قتل کیا جائے گا اور آزاد پر آدھی قیمت اس غلام کی لازم ہو گی۔
عراک بن مالک اور سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جو بنی سعد میں سے تھا اپنا گھوڑا دوڑایا اور ایک شخص کی انگلی جو جہینہ کا تھا کچل دی اس میں سے خون جاری ہوا اور وہ شخص مر گیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے کچلنے والے کی قوم سے کہا کہ تم پچاس قسمیں کھاتے ہو اس امر پر کہ وہ شخص انگلی کچلنے سے نہیں مرا انہوں نے انکار کیا اور رک گئے پھر میت کے لوگوں سے کہا تم قسم کھاتے ہو انہوں نے بھی انکار کیا آپ نے آدھی دیت بنی سعد سے دلائی۔
ابن شہاب اور سلیمان بن یسار اور ریبعہ بن ابی عبدالرحمن کہتے قتل خطا کی دیت بیس بنت مخاض اور بیس بنت لبون اور بیس ابن لبون اور بیس حقے اور بیس جذعے ہیں۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نابالغ لڑکوں سے قصاص نہ لیا جائے گا اگر وہ کوئی جنایت قصداً بھی کریں تو خطا کے حکم میں ہو گی ان سے دیت لی جائے گی جب تک کہ بالغ نہ ہوں اور جب تک ان پر حدیں واجب نہ ہوں اور احتلام نہ ہونے لگے اسی واسطے اگر لڑکا کسی کو قتل کرے تو وہ قتل خطا سمجھا جائے گا اگر لڑکا اور ایک بالغ مل کر کسی کو خطاءً قتل کریں تو ہر ایک کے عاقلے پر نصف دیت ہو گی۔
کہا مالک نے جو شخص خطاءً قتل کیا جائے اس کی دیت مثل اس کے اور اس کے مال کے ہو گی اس سے اس کا قرض ادا کیا جائے گا اور اس کی وصیتیں پوری کی جائیں گی اگر اس کے پاس اتنا مال ہو جو دیت سے دوگنا ہو اور وہ دیت معاف کر دے تو درست ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو تو ثلث کے موافق معاف کر سکتا ہے کیونکہ باقی وارثوں کا بھی حق ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک خطا میں یہ حکم اتفاقی ہے کہ زخم کی دیت کا حکم نہ ہو گا جب تک مجروح اچھا نہ ہو جائے۔ اگر ہاتھ یا پاؤں کی ہڈی ٹوٹ جائے پھر جڑ کر اچھی ہو جائے پہلے کے موافق تو اس میں دیت نہیں ہے اور اگر کچھ نقص رہ جائے تو اس میں دیت ہے نقصان کے موافق۔ اگر وہ ہڈی ایسی ہو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دیت ثابت ہے تو اسی قدر دیت لازم ہو گی ورنہ سوچ سمجھ کر جس قدر مناسب ہو دیت دلائیں گے۔
کہا مالک نے اگر بدن میں خطاءً زخم لگ کر اچھا ہو جائے نشان نہ رہے تو دیت نہیں ہے اگر دھبہ یا عیب رہ جائے تو اس کے موافق دیت دینی ہو گی مگر جائفہ میں تہائی دیت لازم ہو گی اور منقلہ جسد میں دیت نہیں ہے جیسے موضحہ جسد میں۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر جراح نے ختنہ کرتے وقت خطاء سے حشفے کو کاٹ ڈالا تو اس پر دیت ہے اور یہ دیت عاقلے پر ہو گی اسی طرح طبیب سے جو غلطی ہو جائے بھول چوک کر اس میں دیت ہے (اگر قصداً ہو تو قصاص ہے)۔
سعید بن مسیب کہتے تھے کہ مرد اور عورت کی دیت ثلث دیت تک برابر ہے مثلاً عورت کی انگلی جیسے مرد کی انگلی اور دانت عورت کا جیسے دانت مرد کا اور موضحہ عورت کی مثل مرد کے موضحہ کے اس طرح منقلہ عورت کا مثل مرد کے منقلے کے ہے۔
ابن شہاب اور عروہ بن زبیر کہتے تھے جیسے سعید بن مسیب کہتے تھے کہ عورت ثلث دیت تک مرد کے برابر ہو گی پھر وہاں سے اس کی دیت مرد کی آدھی ہو گی۔
کہا مالک نے تو موضحہ اور منقلہ میں عورت اور مرد دونوں کی دیت برابر ہو گی اور مامومہ اور جائفہ جس میں ثلث دیت واجب ہے عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہو گی۔
ابن شہاب کہتے تھے کہ یہ سنت چلی آتی ہے کہ مرد اپنی عورت کو اگر زخمی کرے تو اس سے دیت لی جائے گی اور قصاص نہ لیا جائے گا۔
کہا مالک نے یہ جب ہے کہ مرد خطا سے اپنی عورت کو زخمی کرے عمداً یہ کام نہ کرے (اگر عمداً کرے تو قصاص واجب ہو گا)۔
کہا مالک نے جس عورت کا خاوند یا لڑکا اس کی قوم سے نہ ہو تو عورت کی جنایت کی دیت میں وہ شریک نہ ہو گا اسی طرح اس کا لڑکا یا اخیافی بھائی جب اور قوم سے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت سے دیت کنبے والوں پر ہوتی ہے مگر میراث لڑکے اور اخیافی بھائیوں کو ملے گی جیسے عورت کے موالی (غلامان آزاد) کی میراث اس کے لڑکے کو ملے گی اگرچہ اس کی قوم سے نہ ہو مگر اس کی جنایت کی دیت عورت کے کنبے والوں پر ہو گی۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو عورتیں ہذیل کی آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کے پتھر مارا اس کے پیٹ کا بچہ نکل پڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیت میں ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا حکم کیا۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم کیا پیٹ کے بچے میں جو قتل کیا جائے ایک غلام یا لونڈی دینے کا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیت دینے کا حکم کیا وہ بولا کیونکر میں تاوان دوں اس بچے کا جس نے نہ پیا نہ کھایا نہ بولا نہ رویا ایسے شخص کا خون ہدر ہے یعنی لغو ہے اس میں دیت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے۔
ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کہتے تھے کہ غلام یا لونڈی کی قیمت جو پیٹ کے بچے کی دیت میں دی جائے پچاس دینار ہونے چاہئے یا چھ سو درہم اور عورت مسلمان آزاد کی دیت پانچ سو دینار ہیں یا چھ ہزار درہم۔
کہا مالک نے آزاد عورت کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کی دیت عورت کی دیت کا دسواں حصہ ہے اور وہ پچاس دینار ہے یا چھ سو درہم اور یہ دیت پیٹ کے بچے میں اس وقت لازم آتی ہے جب کہ وہ پیٹ سے نکل پڑے مردہ ہو کر میں نے کسی کو اس میں اختلاف کرتے نہیں سنا اگر پیٹ سے زندہ نکل کر مر جائے تو پوری دیت لازم ہو گی۔
کہا مالک نے جنین یعنی پیٹ کے بچے کی زندگی اس کے رونے سے معلوم ہو گی اگر رو کر مر جائے تو پوری دیت لازم آئے گی اور لونڈی کے جنین میں اس لونڈی کی قیمت کا دسواں حصہ دینا ہو گا۔
کہا مالک نے اگر ایک عورت حاملہ نے کسی مرد یا عورت کو مار ڈالا تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا جب تک وضع حمل نہ ہو اگر عورت حاملہ کو کسی نے مار ڈالا عمداً یا خطاءً تو اس کے جنین کی دیت واجب نہ ہو گی بلکہ اگر عمداً مارا ہے تو قاتل قتل کیا جائے گا اور اگر خطاءً مارا ہے تو قاتل کے عاقلہ پر عورت کی دیت واجب ہو گی۔ سوال ہوا مالک سے اگر کسی نے یہودیہ یا نصرانیہ کے جنین کو مار ڈالا تو جواب دیا کہ اس کی ماں کی دیت کا دسواں حصہ دینا ہو گا۔
سعید بن مسیب کہتے تھے کہ دونوں ہونٹوں میں پوری دیت ہے اگر صرف نیچے کا ہونٹ کاٹ ڈالے تو ثلث دینی ہو گی۔
کہا مالک نے میں نے ابن شہاب سے پوچھا کہ اگر کانا کسی اچھے آدمی کی آنکھ پھوڑ ڈالے تو انہوں نے کہا کہ اس کو اختیار ہے خواہ کانے کی آنکھ پھوڑے خواہ دیت لے ہزار دینار بارہ ہزار دینار۔
کہا مالک نے مجھے پہنچا کہ جو چیزیں انسان کے جسم میں دو دو ہیں اگر دونوں کو کوئی تلف کر دے تو پوری دیت دینی ہو گی۔ اسی طرح زبان میں پوری دیت دینی ہو گی۔ اگر کانوں پر ایسی ضرب لگائے جس کی وجہ سے دونوں کی سماعت جاتی رہے اگرچہ کانوں کو نہ کاٹے تب بھی پوری دیت دینی ہو گی۔ اسی طرح ذکر (عضو تناسل) اور انیثین (فوطوں) میں پوری دیت لازم ہو گی۔
کہا مالک نے مجھے پہنچا جب عورت کی دونوں چھاتیاں کاٹ ڈالے تو اس میں پوری دیت ہو گی لیکن ابروؤں کے اور مرد کی دونوں چھاتیاں کاٹ ڈالنے میں پوری دیت لازم نہ آئے گی۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص کے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے اور دونوں پاؤں اور دونوں آنکھیں بھی اس کی پھوڑ ڈالیں تو اس کو پوری دیت ملے گی ہاتھوں کی الگ اور پاؤں کی الگ اور آنکھوں کی الگ یعنی تین دیتیں دینی ہوں گی۔
کہا مالک نے اگر کانے کی جو آنکھ اچھی تھی اس کو کسی نے پھوڑ ڈالا خطا سے تو پوری دیت لازم ہو گی۔
زید بن ثابت کہتے تھے کہ جب آنکھ قائم رہے اور روشنی جاتی رہے تو سو دینار ہوں گے۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ موضحہ چہرے میں ایسا ہے جیسے موضحہ سر میں مگر جب چہرے میں اس کی وجہ سے کوئی عیب ہو جائے تو دیت بڑھا دی جائے گی موضحہ سر کے نصف تک ہو تو اس میں پچھتر دینار لازم ہوں گے۔
کہا مالک نے منقلہ وہ ضرب ہے جس سے ہڈی اپنے مقام سے جدا ہو جائے اور دماغ تک نہ پہنچے اور وہ سر اور منہ میں ہوتی ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ مامومہ اور جائفہ میں قصاص نہیں ہے اور ابن شہاب نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ مامومہ میں قصاص نہیں ہے۔
کہا مالک نے مامومہ وہ ضرب ہے جو دماغ تک پہنچ جائے ہڈی توڑ کر اور مامومہ سر ہی میں ہوا کرتی ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ موضحہ سے کم جو زخم ہو اس میں دیت نہیں ہے جب تک کہ موضحہ تک نہ پہنچے بلکہ دیت موضحہ میں ہے یا جو اس سے بھی زیادہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمرو بن حزم کی حدیث میں موضحہ میں پانچ اونٹ ہیں اس سے کم کو بیان نہ کیا نہ کسی امام نے زمانہ سابق یا حال میں موضحہ سے کم میں دیت کا حکم کیا۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا کہ عورت کی انگلی میں کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ دس اونٹ ہیں میں نے کہا دو انگلیوں میں تو انہوں نے کہا بیس اونٹ ہیں میں نے کہا تین انگلیوں میں تو انہوں نے کہا تیس اونٹ میں نے کہا چار انگلیوں میں تو انہوں نے کہا بیس اونٹ میں نے کہا کیا خوب جب زخم زیادہ ہو گیا اور نقصان زیادہ ہو تو دیت کم ہو گئی سعد نے کہا کیا تو عراقی ہے میں نے کہا نہیں بلکہ مجھے جس چیز کا علم ہے اس پر جما ہوا ہوں اور جو چیز نہیں جانتا اس کو پوچھتا ہوں سعید نے کہا کہ سنت میں ایسا ہی ہے اے میرے بھائی کے بیٹے
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ جب پوری ایک ہتھیلی کی انگلیاں کاٹ ڈالی جائیں تو دیت لازم ہو گی اس حساب سے کہ ہر انگلی میں دس اونٹ تو پچاس اونٹ لازم ہوں گے اور ہتھیلی بھی اگر اس کی کاٹی جائے تو اس میں حاکم کی رائے کے موافق دینا ہو گا۔ دنانیر کے حساب سے ہر انگلی کے سو دینار اور ہر ایک پور کے تینتیس دینار ہوئے اور ہر ایک پور کے تین اونٹ اور ثلث اونٹ ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم کی ڈاڑھ میں ایک اونٹ کا اور ہنسلی کی ہڈی میں ایک اونٹ کا اور پہلو کی ہڈی میں ایک اونٹ کا۔
سعید بن مسیب نے کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر ڈاڑھ میں ایک اونٹ کا حکم کیا اور معاویہ نے ہر ڈاڑھ میں پانچ اونٹ کا حکم کیا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیت میں کمی کی اور معاویہ نے زیادتی کی اگر میں ہوتا تو ہر ڈاڑھ میں دو دو اونٹ دلاتا اس صورت میں دیت پوری ہو جاتی۔
سعید بن مسیب کہتے تھے کہ جب دانت کو ضرب پہنچے اور وہ کالا ہو جائے تو اس کی پوری دیت لازم ہو گی اگر کالا ہو کر گرجائے تب بھی پوری دیت لازم ہو گی۔
ابی غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے ان کو بھیجا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کو کہ ڈاڑھ میں کیا دیت ہے ابن عباس نے کہا کہ پانچ اونٹ ہیں مروان نے پھر ان کو بھیجا اور کہلایا کہ کیا دانت سامنے کے اور ڈاڑھیں دیت میں برابر ہیں ابن عباس نے کہا کہ اگر تو دانتوں کو انگلیوں پر قیاس کر لیتا تو کافی تھا ہر ایک انگلی کی دیت ایک ہی ہے۔ اگر منفعت کسی سے کم ہے کسی سے زیادہ ایسا ہی دانت اور ڈاڑھ بھی سب یکساں ہیں۔
عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ اگلے زمانے میں سب دانتوں کی دیت برابر تھی کوئی دوسرے پر زیادہ نہ تھی۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ دانت اور کچلیاں اور داڑھیں سب برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر دانت میں پانچ اونٹ کا حکم کیا داڑھ بھی ایک دانت ہے۔
سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ غلام کے موضحہ میں اس کی قیمت کا بیسواں حصہ دینا ہو گا۔
مروان بن حکم فیصلہ کرتا تھا اس شخص پر جو زخمی کرے غلام کو کہ جس قدر اس زخم کی وجہ سے اس کی قیمت میں نقصان ہوا وہ ادا کرے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ غلام کے موضحہ میں اس کی قیمت کا بیسواں حصہ اور منقلہ میں دسواں حصہ اور بیسواں حصہ اور مامومہ اور جائفہ میں تیسرا حصہ دینا ہو گا سوائے ان کے اور طرح کے زخموں میں جس قدر قیمت میں نقصان ہو گیا دینا ہو گا جب وہ غلام اچھا ہو جائے تب دیکھیں گے کہ اس کی قیمت اس زخم سے پہلے کیا تھی اور اب کتنی ہے۔ جس قدر کمی ہو گی وہ دینی ہو گی۔
کہا مالک نے جب غلام کا ہاتھ یا پاؤں کوئی شخص توڑ ڈالے پھر وہ اچھا ہو جائے تو کچھ تاوان نہیں ہو گا البتہ اگر کسی قدر نقصان رہ جائے تو اس کا تاوان دینا ہو گا۔
کہا مالک نے غلاموں میں اور لونڈیوں میں قصاص کا حکم مثل آزادوں کے ہو گا اگر غلام لونڈی کو قصداً قتل کرے تو غلام بھی قتل کیا جائے گا اگر اس کو زخمی کرے وہ بھی زخمی کیا جائے گا ایک غلام نے دوسرے غلام کو عمداً مار ڈالا تو مقتول کے مولیٰ کو اختیار ہو گا چاہے قاتل کو قتل کرے چاہے دیت یعنی اپنے غلام کی قیمت لے لے۔ قاتل کے مولیٰ کو اختیار ہے چاہے مقتول کی قیمت ادا کرے اور قاتل کو اپنے پاس رہنے دے چاہے قاتل ہی کو حوالے کر دے اس سے زیادہ اور کچھ لازم نہ آئے گا۔ اب جب مقتول کا مولیٰ دیت پر راضی ہو کر قاتل کو لے لے تو پھر اس کو قتل نہ کرے۔ اسی طرح اگر ایک غلام دوسرے غلام کا ہاتھ یا پاؤں کاٹے تو اس کے قصاص کا بھی یہی حکم ہے۔
کہا مالک نے اگر مسلمان غلام کسی یہودی یا نصرانی کو زخمی کرے تو غلام کے مولیٰ کو اختیار ہے چاہے دیت دے یا غلام کو حوالے کر دے تو اس غلام کو بیچ کر اس کی دیت ادا کریں گے مگر وہ غلام یہودی یا نصرانی کے پاس رہ نہیں سکتا (کیونکہ مسلمان کو کافر کا محکوم کرنا درست نہیں )۔
عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ یہودی یا نصرانی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت سے نصف ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے گا مگر جب مسلمان فریب سے اس کو دھوکہ دے کر مار ڈالے تو قتل کیا جائے گا۔
کہا مالک نے یہودی یا نصرانی کے زخموں کی دیت اسی حساب سے ہے موضحہ میں بیسواں حصہ اور مامومہ اور جائفہ میں تیسرا حصہ وقس علی ہذا۔
عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ قتل عمد میں عاقلہ پر دیت نہیں ہے عاقلہ پر خطا کی دیت ہے۔
ابن شہاب نے کہا کہ عاقلہ پر عمداً خون کرنے کا بار نہیں ڈالا جاتا مگر خوشی سے دینا چاہیں۔
یحیی بن سعید نے بھی ایسا ہی کہا۔
کہا مالک نے ابن شہاب کہتے تھے سنت یوں ہی ہے کہ جب قتل عمد میں مقتول کے وارث قصاص کو عفو کر کے دیت پر راضی ہو جائیں تو وہ دیت قاتل کے مال سے لی جائے گی عاقلہ سے کچھ غرض نہیں مگر جب عاقلہ خود دینا چاہیں۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ دیت عاقلہ پر لازم نہیں آتی جب ایک ثلث یا زیادہ نہ ہو اگر ثلث سے کم ہو تو جنایت کرنے والے کے مال سے لی جائے گی۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتل عمد یا اور جراحات میں جن میں قصاص لازم آتا ہے اگر دیت قبول کر لی جائے تو قاتل یا جارح کی ذات پر ہو گی عاقلہ پر نہ ہو گی اگر اس کے پاس مال ہو اور جو مال ہو تو اس پر قصاص رہے گا البتہ اگر عاقلہ خوشی سے دینا چاہیں تو اور بات ہے۔
کہا مالک نے اگر کوئی شخص اپنے تئیں آپ عمداً یا خطاءً زخمی کرے تو اس کی دیت عاقلہ پر نہ ہو گی اور میں نے کسی کو نہیں سنا جو عمد کی دیت عاقلہ سے دلائے اس وجہ سے کہ اللہ جل جلالہ نے قتل عمد میں فرمایا جس کا بھائی معاف کر دے کچھ (یعنی قصاص چھوڑ دے) تو چاہیے کہ دستور کے موافق چلے اور دیت اچھی طرح ادا کرے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ عمد کی دیت قاتل کو ادا کرنی چاہیے )
کہا مالک نے جس لڑکے کے پاس کچھ مال نہ ہو یا جس عورت کے پاس مال نہ ہو اور وہ کوئی جنایت کرے جس میں ثلث سے کم دیت واجب ہوتی ہے تو دیت انہی کے مال میں سے دی جائے گی اگر مال نہ ہو تو ان پر قرض کے طور پر رہے گی عاقلہ پر یا لڑکے کے باپ پر کچھ لازم نہیں آئے گا۔
کہا مالک نے جب غلام قتل کیا جائے تو اس کی قیمت جو قتل کے روز ہے دینی ہو گی قاتل کے عاقلہ پر کچھ لازم نہ آئے گا بلکہ قاتل کے خاص مال میں سے لیا جائے گا اگرچہ اس غلام کی قیمت دیت سے زیادہ ہو۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلایا لوگوں کو منی میں اور کہا کہ جس شخص کو دیت کا مسئلہ معلوم ہو وہ بیان کرے مجھ سے، تو ضحاک بن سفیان کلابی کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ اشیم ضبابی کی عورت کو میراث دلاؤں اشیم کی دیت میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو خیمے میں جا جب تک میں آؤں جب تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو ضحاک نے یہی بیان کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی کا حکم کیا ابن شہاب نے کہ اشیم خطا سے مارا گیا تھا۔
عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی مدلج میں سے جس کا نام قتادہ تھا اپنے لڑکے کو تلوار ماری وہ اس کے پنڈلی میں لگی خون بند نہ ہوا آخر مر گیا تو سراقہ بن جعشم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا قدید کے پاس ایک سو بیس اونٹ تیار رکھ جب تک میں وہاں آؤں جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں آئے تو ان اونٹوں میں سے تین حقے اور بیس جزعے لئے اور چالیس حقے لیے پھر کہا کون ہے مقتول کا بھائی؟ اس نے کہا کیوں میں موجود ہوں نا! کہا تو یہ سب اونٹ لے لے اس واسطے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قاتل کو میراث نہیں ملتی
سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ماہ حرام میں اگر کوئی قتل کرے تو دیت میں سختی کریں گے انہوں نے کہا نہیں بلکہ بڑھا دیں گے بوجہ ان مہینوں کی حرمت کے پھر سعید سے پوچھا کہ اگر کوئی زخمی کرے ان مہینوں میں تو اس کی بھی دیت بڑھا دیں گے جیسسے قتل کی دیت بڑھا دیں گے سعید نے کہا ہاں۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار کا جس کا نام احیحہ بن جلاح تھا اس سے چھوٹا چچا تھا وہ اپنی ننہیال میں تھا اس کو احیحہ نے لے کر مار ڈالا اس کے ننہیال کے لوگوں نے کہا ہم نے پالا پرورش کیا جب جوان ہوا تو اس کا بھتیجا ہم پر غالب آیا اور اسی نے لے لیا عروہ نے کہا اس وجہ سے قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتل عمد کرنے والا مقتول کی دیت کا وارث نہیں ہوتا نہ اس کے مال کا نہ وہ کسی وارث کو محروم کر سکتا ہے اور قتل خطا کرنے والا دیت کا وارث نہیں ہوتا لیکن اور مال کا وارث ہوتا ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے میرے نزدیک اور مال کا وارث ہو گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جانور کسی کو صدمہ پہنچائے تو اس کا بدلہ نہیں کنوئیں میں کوئی گر کر مر جائے تو اس کا بدلہ نہیں اور کان کھودنے میں کوئی مزدور مر جائے تو بدلہ نہیں (کافروں کے) گڑے خزانے میں پانچواں حصہ لیا جائے گا۔
کہا مالک نے جو شخص جانور کو آگے سے کھینچ رہا ہے یا پیچھے سے ہانک رہا ہے یا جو اس پر سوار ہے وہ جرمانہ دے گا اگر جانور کسی کو صدمہ پہنچائے لیکن خود بخود وہ لات سے کسی کو مار دے تو تاوان نہیں ہے۔ حضرت عمر نے حکم کیا دیت کا اس شخص پر جس نے اپنا گھوڑا دوڑا کر کسی کو کچل ڈالا تھا۔
کہا مالک نے جب دوڑانے والا ضامن ہوا تو کھینچنے والا اور ہانکنے والا اور سوار تو ضرور ضامن ہو گا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو کوئی راستے میں کنواں کھودے یا جانور باندھے یا مشابہ اس کے کوئی کام کرے تو راہ میں کرنا درست نہیں ہے اور اس کی وجہ سے کسی کو صدمہ پہنچے تو وہ ضامن ہو گا ثلث دیت تک اپنے مال میں سے دے گا جو ثلث سے زیادہ ہو تو اس کے عاقلہ سے وصول کی جائے گی اور اگر ایسا کام کرے جو درست ہے تو اس پر ضمان نہ ہو گا جیسے گڑھا کھودے یا بارش کے واسطے یا اپنے جانور پر سے کسی کام کو اترے اور راہ پر کھڑا کر دے۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص کنوئیں میں اترے پھر دوسرا شخص اترے اب نیچے والا اوپر والے کو کھینچے اور دونوں گر کر مر جائیں تو کھینچنے والے کے عاقلہ پر دیت لازم آئے گی۔
کہا مالک نے اگر کوئی شخص کسی بچے کو حکم کرے کنوئیں میں اترنے کا یا درخت پر چڑھنے کا اور وہ لڑکا ہلاک ہو جائے تو وہ شخص ضامن ہو گا اس کی دیت کا یا نقصان کا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ عاقلہ میں عورتیں اور بچے داخل نہ ہوں گے بلکہ بالغ مردوں سے دیت وصول کی جائے گی۔
کہا مالک نے مولیٰ کی دیت اس کے عاقلہ پر ہو گی اگرچہ وہ دفتر سرکار میں ماہوار یاب (ملازم) نہ ہوں جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وقت تھا کیونکہ دفتر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے نکلا تو ہر ایک کی دیت اس کے موالی اور قوم ادا کریں گے کیونکہ ولاء بھی انہیں کو ملتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔
کہا مالک نے جو کوئی شخص کسی کے جانور کو نقصان پہنچائے تو جس قدر قیمت اس نقصان کی وجہ سے کم ہو جائے اس کا تاوان لازم ہو گا۔
کہا مالک نے ایک شخص قصاصاً قتل کے لائق ہو پھر وہ کوئی کام ایسا کرے جس سے حد لازم آئے (مثلاً زنا کرے کوڑے و رجم لازم آئے یا چوری کرے ہاتھ کاٹنا لازم ہو) تو کسی حد کا مواخذہ نہ کیا جائے صرف قتل کافی ہے مگر حد قذف کا، اس میں کوڑے مار کر پھر اس کو قتل کریں اگر اس نے کسی کو زخمی کیا تو زخمی کا قصاص لینا ضروری نہیں۔ قتل کرنا کافی ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر کوئی نعش کسی گاؤں وغیرہ میں ملے یا کسی کے دروازے پر تو یہ ضروری نہیں کہ جو لوگ اس کے قریب ہوں وہ پکڑے جائیں کیونکہ اکثر ہوتا ہے کہ لوگ مار کر کسی کے دروازے پر ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ پکڑا جائے۔
کہا مالک نے اگر چند آدمی مل کر لڑے اس کے بعد جب جدا ہوئے تو ایک شخص ان میں مقتول یا مجروح پایا گیا لیکن ہنگامے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ کس نے مارا یا زخمی کیا تو فریق ثانی (یعنی جن کا مقتول نہیں ہے) کی قوم پر اس کی دیت واجب ہو گی اور اگر وہ شخص دونوں فریق میں سے نہ ہو تو دونوں فریق پر دیت واجب ہو گی۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانچ یا سات آدمیوں کو ایک شخص کے بدلے میں قتل کیا انہوں نے دھوکا دے کر اس کو مار ڈالا تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر سارے صنعا والے اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرتا۔
حضرت ام المومنین حفصہ نے ایک لونڈی کو قتل کیا جس نے ان پر جادو کیا تھا اور پہلے آپ اس کو مدبر کر چکی تھیں پھر حکم کیا اس کے قتل کا تو قتل کی گئیں۔
کہا مالک نے جو شخص جادو جانتا ہے اور اس کو کام میں لاتا ہے اس کا قتل کرنا مناسب ہے۔
کہا مالک نے ایک شخص نے دوسرے کو لکڑی سے مار ڈالا عبدالملک بن مروان نے قاتل کو ولی مقتول کے حوالے کیا اس نے بھی اس کو لکڑی سے مار ڈالا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو لکڑی یا پتھر سے قصداً مارے اور وہ ہلاک ہو جائے تو قصاص لیا جائے گا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک قتل عمد یہی ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو قصداً مارے یہاں تک کہ اس کا دم نکل جائے اور یہ بھی قتل عمد ہے کہ ایک شخص سے دشمنی ہو اس کو ایک ضرب لگا کر چلا آئے اس وقت وہ زندہ ہو بعد اس کے اسی ضرب سے مر جائے اس میں قسامت واجب ہو گی۔
کہا مالک نے قتل عمد میں ایک شخص آزاد کے عوض میں کئی شخص آزاد مارے جائیں گے کہ جب سب قتل میں شریک ہوں اسی طرح عورتوں اور غلاموں میں بھی حکم ہو گا۔
امام مالک کو پہنچا کہ مروان بن حکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ ایک شخص نے نشے کی حالت میں ایک شخص کو مار ڈالا معاویہ نے جواب لکھا کہ تو بھی اس کو مار ڈال۔
کہا مالک نے میں نے اس کی تفسیر بہت اچھی سنی فرمایا اللہ تعالیٰ نے قتل کر آزاد کو آزاد کے بدلے میں اور غلام کو غلام کے بدلے میں اور عورت کو عورت کے بدلے میں تو قصاص عورتوں میں آپس میں لیا جائے گا جیسا کہ مردوں میں لیا جاتا ہے اور مرد اور عورت میں بھی لیا جائے گا کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے نفس بدلے نفس کے قتل کیا جائے گا تو عورت مرد کے بدلے میں قتل کی جائے گی اور مرد عورت کے بدلے میں مارا جائے گا اسی طرح ایک دوسرے کو اگر زخمی کرے گا تب بھی قصاص لیا جائے گا۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص ایک شخص کو پکڑ لے اور دوسرا اس کو آ کر مار ڈالے اور معلوم ہو جائے کہ اس نے مار ڈالنے ہی کے واسطے پکڑا تھا تو دونوں شخص اس کے بدلے میں قتل کیے جائیں گے اگر اس نے اس نیت سے نہیں پکڑا تھا بلکہ اس کو یہ خیال تھا کہ دوسرا شخص یوں ہی اسے مارے گا تو پکڑنے والا قتل نہ کیا جائے گا لیکن اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ اور بعد سزا کے ایک برس تک قید کیا جائے گا۔
کہا مالک نے زید نے عمرو کو قتل کیا یا اس کی آنکھ پھوڑ ڈالی ، قصداً اب قبل اس کے کہ زید سے قصاص لیا جائے اس کو بکر نے مار ڈالا یا زید کی آنکھ پھوڑ ڈالی تو اس پر دیت یا قصاص واجب نہ ہو گا کیونکہ عمرو کا حق زید کی جان میں تھا یا اس کی آنکھ میں اب زید ہی نہ رہا یا وہ آنکھ ہی نہ رہی۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ زید عمرو کو عمداً مار ڈالے گا پھر زید بھی مر جائے تو عمرو کے وارثوں کو اب کچھ نہ ملے گا کیونکہ قصاص قاتل پر ہوتا ہے جب وہ خود مرگیا تو نہ قصاص ہے نہ دیت۔
کہا مالک نے آزاد اور غلام میں قصاص نہیں ہے زخموں میں لیکن اگر غلام آزاد کو مار ڈالے گا تو غلام مارا جائے گا اور جو آزاد غلام کو مار ڈالے گا تو آزاد نہ مارا جائے گا یہ میں نے بہت اچھا سنا۔
امام مالک نے کئی اچھے عالموں سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ جب مقتول مرتے وقت اپنے قاتل کو معاف کر دے تو درست ہے قتل عمد میں اس کو اپنے خون کا زیادہ اختیار ہے وارثوں سے۔
کہا مالک نے جو شخص قاتل کو عمداً معاف کر دے تو قاتل پر دیت لازم نہ ہو گی مگر جب کہ قصاص عفو (معاف) کر کے دیت ٹھہرا لے۔
کہا مالک نے اگر قاتل کو مقتول معاف کر دے تب بھی قاتل کو سو کوڑے لگائیں گے اور ایک سال تک قید کریں گے۔
کہا مالک نے جب کوئی شخص عمداً مارا گیا اور گواہوں سے قتل ثابت ہوا اور مقتول کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں بیٹوں نے تو معاف کر دیا لیکن بیٹیوں نے معاف نہ کیا تو بیٹیوں کے معاف کرنے سے کچھ خلل واقع نہ ہو گا بلکہ خون معاف ہو جائے گا کیونکہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ان کو اختیار نہیں ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کسی کا ہاتھ یا پاؤں توڑ ڈالے تو اس سے قصاص لیا جائے گا دیت لازم نہ آئے گی۔
کہا مالک نے زخم کا قصاص نہ لیا جائے گا جب تک کہ وہ شخص اچھا نہ ہو لے جب وہ اچھا جائے گا تو قصاص لیں گے اب اگر جارح کا بھی زخم اچھا ہو کر مجروح کے مثل ہو گیا تو بہتر نہیں تو اگر جارح کا زخم بڑھ گیا اور جارح اسی کی وجہ سے مر گیا تو مجروح پر کچھ تاوان نہ ہو گا اگر جارح کا زخم بالکل اچھا ہو گیا اور مجروح کا ہاتھ شل ہو گیا یا اور کوئی نقص رہ گیا تو پھر جارح سے قصاص نہ لیا جائے گا لیکن بقدر نقصان کے دیت اس سے وصول کی جائے گی۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی عورت کی آنکھ پھوڑ دی یا اس کا ہاتھ توڑ ڈالا یا اس کی انگلی کاٹ ڈالی قصداً تو اس سے قصاص لیا جائے گا البتہ اگر اپنی عورت کو تنبیہاً رسی یا کوڑے سے مارے اور بلا قصد کسی مقام پر لگ کر زخم ہو جائے یا نقصان ہو جائے تو دیت لازم آئے گی قصاص نہ ہو گا۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ایک سائبہ نے جس کو کسی حاجی نے آزاد کر دیا تھا ایک شخص کے بیٹے کو جو بنی عاذ میں تھا مار ڈالا مقتول کا باپ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اپنے بیٹے کی دیت مانگنے آیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کے لئے دیت نہیں ہے وہ شخص بولا اگر میرا بیٹا سائبہ کو مار ڈالتا تو تم کیا حکم کرتے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس وقت تم کو اس کی دیت ادا کرنی ہوتی وہ شخص بولا پھر تو سائبہ کیا ہے ایک چتلا سانپ ہے اگر چھوڑ دو تو ڈس لے اگر مارو تو بدلہ لے۔