سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ روکی جائے گی رہن۔
کہا مالک نے جو شخص باغ رہن کرے ایک میعاد معین پار تو جو پھل اس باغ میں رہن سے پہلے نکل چکے تھے وہ رہن نہ ہوں گے مگر جس صورت میں مرتہن نے شرط کر لی ہو تو وہ پھل بھی رہن رہیں گے اور جو کوئی شخص حاملہ لونڈی کو رہن رکھے یا بعد رہن کے وہ حاملہ ہو جائے تو اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ رہن رہے گا یہی فرق ہے پھل اور بچے میں اس واسطے کہ پھل بیع میں بھی داخل نہیں ہوتے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص نے کھجور کے درخت بیچے تو پھل بائع کو ملیں گے مگر جب مشتری شرط کر لے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے اگر کوئی لونڈی یا جانور بیچے اور اس کے پیٹ میں بچہ ہو تو وہ بچہ مشتری کا ہو گا خواہ مشتری اس کی شرط لگائے یا نہ لگائے تو کھجور کا درخت جانور کی مانند نہیں نہ پھل کھجور کے بچے کے مانند ہیں۔
کہا مالک نے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ آدمی درخت کے پھلوں کو رہن کر سکتا ہے بغیر درختوں کے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ پیٹ کے بچے کو رہن کرے بغیر اس کی ماں کے آدمی ہو یا جانور۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ شئے مرہوں اگر ایسی ہو جس کا تلف ہونا معلوم ہو جائے جیسے زمین اور گھر اور جانور تو اس صورت میں شئے مرہوں کے تلف ہونے سے مرتہن کا کچھ حق کم نہ ہو گا بلکہ راہن کا نقصان ہو گا اور جو شئے مرہوں ایسی ہو جس کا تلف ہونا صرف مرتہن کے کہنے سے معلوم ہو (جیسے سونا چاندی وغیرہ) تو مرتہن اس کی قیمت کا ضامن ہو گا (جس صورت میں گواہ نہ رکھتا ہو اس کے تلف ہونے کا) اب اگر راہن اور مرتہن زر رہن میں اختلاف کریں تو مرتہن سے کہا جائے گا تو خلفاً شئے مرہوں کے اوصاف اور زر رہن کو بیان کر جب وہ بیان کرے گا تو نگاہ والے لوگ اس شئے کی قیمت مرتہن نے جو اوصاف بیان کیے ہیں ان کے لحاظ سے لگائیں گے اگر قیمت زر رہن سے زیادہ ہو تو رہن جس قدر زیادہ ہے مرتہن سے وصول کر لے گا اگر قیمت زر رہن سے کم ہو تو راہن سے حلف لیں گے اگر وہ حلف کر لے گا تو جس قدر مرتہن نے زر رہن قیمت سے زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا اور جو حلف سے انکار کرے تو اس قدر مرتہن کو ادا کرے گا اگر مرتہن نے کہا میں شئے مرہوں کی قیمت نہیں جانتا تو راہن سے شئے مرہوں کے اوصاف پر حلف لے کر اس کے بیان پر فیصلہ کریں گے جب کہ وہ کوئی امر خلاف واقعہ بیان نہ کرے۔
کہا مالک نے اگر ایک شئے دو آدمیوں کے پاس رہن ہو تو ایک مرتہن اپنے دین کا تقاضا کرے اور شئے مرہوں کو بیچنا چاہے اور ایک مرتہن راہن کو مہلت دے اگر شئے مرہوں ایسی ہے کہ اس کے نصف بیچ ڈالنے سے دوسرے مرتہن کا نقصان نہیں ہوتا تو آدھی بیچ کر ایک مرتہن کا دین ادا کر دیں گے اور جو نقصان ہوتا ہے تو کل شئے مرہوں کو بیچ کر جو مرتہن تقاضا کرتا ہے اس کو نصف دے دیں گے اور جس مرتہن نے مہلت دی ہے وہ اگر خوشی ہے چاہے تو نصف ثمن کو راہن کے حوالہ کر دے نہیں تو حلف کرے میں نے اس واسطے مہلت دی تھی کہ شئے مرہوں اپنے حال پر میرے پاس رہے پھر اس کا حق اسی وقت ادا کر دیا جائے۔
کہا مالک نے اگر غلام کو رہن رکھے تو غلام کا مال راہن لے لے گا مگر جب مرتہن شرط کر لے کہ اس کا مال بھی اس کے ساتھ رہن رہے۔
کہا مالک نے ایک شخص نے اسباب رہن رکھا وہ مرتہن کے پاس تلف ہو گیا لیکن راہن اور مرتہن کو زر رہن کی مقدار میں اختلاف نہیں ہے البتہ شئے مرہوں کی قیمت میں اختلاف ہے راہن کہتا ہے اس کی قیمت بیس دینار ہے۔ اور مرتہن کہتا ہے اس کی قیمت دس دینار تھی اور رہن بیس دینار ہے اور مرہن سے کہا جائے گا کہ شئے مرہوں کے اوصاف بیان کر جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے ایسی شئے کی قیمت دریافت کریں اگر وہ قیمت زر رہن سے زیادہ ہو تو مرتہن سے کہا جائے گا جس قدر زیادہ ہے وہ راہن کو دے اگر قیمت کم ہے تو مرتہن جس قدر کم ہے راہن سے لے لے اگر برابر ہے تو خیر قصہ چکا نہ یہ کچھ دے نہ وہ کچھ دے۔
کہا مالک نے اگر شئے مرہوں موجود ہو لیکن راہن زر رہن دس دینار بیان کرے اور مرتہن بیس دینار تو مرتہن حلف اٹھائے اگر شئے مرہوں کی بیس دینار قیمت ہو تو اسی شئے مرہوں کو اپنے دین کے بدلے میں لے لے البتہ اگر راہن بیس دینار ادا کر کے اپنی شئے لینا چاہے تو لے سکتا ہے اگر اس شئے مرہوں کی قیمت بیس دینار سے کم ہو تو مرتہن سے حلف لے پھر راہن کو اختیار ہے یا بیس دینار دے کر اپنی شئے لے لے یا خود بھی حلف اٹھائے کہ میں نے اتنے پر رہن کی تھی اگر حلف اٹھائے تو جس قدر شئے مرہوں کی قیمت سے مرتہن نے دین زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمے سے ساقط ہو جائے گا ورنہ دینار پڑے گا۔
کہا مالک نے اگر وہ شئے مرہوں سے تلف ہو گئی اب اختلاف ہوا زر رہن کی مقدار اور شئے مرہوں کی قیمتیں مرتہن نے کہا زر رہن بیس دینار تھا اور شئے مرہوں کی قیمت دس دینار تھی اور راہن نے کہا زر رہن دس دینار تھا اور شئے مرہوں کی قیمت بیس دینار تھی تو مرتہن سے کہیں گے شئے مرہوں کے اوصاف بیان کر جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے قیمت کا اندازہ کرائیں اگر قیمت بیس دینار سے زیادہ (مثلاً تیس دینار ہو) تو مرتہن سے حلف لے کر جس قدر قیمت زیادہ (مثلاً دس دینار) راہن کو دلا دیں گے اگر قیمت بیس کم ہو (مثلاً پندرہ دینار) تو مرتہن سے زر رہن پر حلف لے کر جس قدر قیمت ہے وہ گویا مرتہن کو وصول ہو چکی باقی کے واسطے راہن سے حلف لیں گے اگر وہ حلف اٹھائے گا تو مرتہن راہن سے کچھ نہ لے سکے گا اگر حلف نہ اٹھا لے تو بیس دینار میں جتنا کم ہے وہ راہن سے مرتہن کو دلا دیں گے۔
کہا مالک نے اگر کوئی شخص جانور کرایہ پر لے اس اقرار سے کہ فلاں مقام تک جاؤں گا پھر اس سے آگے بڑھ جائے تو جانور کے مالک کو اختیار ہے کہ اگر چاہے جتنا آگے گیا ہے اتنی دور کا کرایہ دستور کے موافق اور لے لے نہیں تو اپنے جانور کی قیمت اس دن کی اور اس مقام کی جہاں تک جانا ٹھہرا تھا کرایہ دار سے لے لے اور کرایہ جو پہلے ٹھہر چکا تھا وہ بھی لے لے اگر صرف جانے پر کرایہ ہوا تھا اور جو آنے پر کرایہ ہوا تھا تو جو کرایہ ٹھہرا تھا اس کا نصف لے کیونکہ نصف کرایہ جانے کا تھا اور نصف آنے کا اور جس وقت کرایہ دار نے زیادتی کی اس وقت اس پر نصف ہی کرایہ واجب ہوا تھا اگر کرایہ دار نے آنے جانے کے لیے جانور کرایہ پر لیا اور جب جانے کی جگہ پہنچا تو وہ جانور مر گیا تو کرایہ دار پر تاوان نہ ہو گا اور الک کو نصف کرایہ ملے گا اسی طرح اگر رب المال مضارب کو منع کر دے کہ فلاں فلاں مال نہ خریدنا اور مضارب وہی خریدے اس خیال سے کہ میں ضمان دے دوں گا اور نفع سارا مار کھاؤں گا تو رب المال کو اختیار ہے چاہے اس سے مال میں مضاربت قائم رکھے چاہے اپنا رائس المال پھیر لے اسی طرح نضاعت میں صاحب مال اگر یہ کہے کہ فلاں فلاں مال خریدنا اور وہ شخص دوسرا مال خریدے تو صاحب مال کو اختیار ہے چاہے اسی مال کو اپنا سمجھے یا اپنا رائس المال پھیر لے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حکم دیا ایک عورت کے مہر دینے کا اس شخص پر جس نے اس سے جبراً جماع کیا تھا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو شخص کسی عورت کو غصب کرے بکر ہو یا ثیبہ اگر وہ آزاد ہے تو اس پر مہر مثل لازم ہے اور اگر لونڈی ہے تو جتنی قیمت اس کی جماع کی وجہ سے کم ہو گئی دینا ہو گا اور اس کے ساتھ غصب کرنے والے کو سزا بھی ہو گی لیکن لونڈی کو سزا نہ ہو گی۔ اگر غلام نے کسی کی لونڈی غصب کر کے یہ کام کیا تو تاوان اس کے مولیٰ پر ہو گا مگر جب مولیٰ اس غلام کو جنایت کے بدلے میں دے ڈالے۔
یحییٰ نے نقل کیا کہ کہا مالک نے جو شخص مالک سے بن پوچھے اس کے جانور کو ہلاک کر دے تو اسے دن کی قیمت دینی ہو گی نہ کہ اس کے مانند اور جانو اور اسی طرح مالک کو جانور کے بدلے میں ہمیشہ اسی دن کی قیمت دی جائے گی نہ کہ جانور یہی حکم ہے اور اسباب کا۔
کہا مالک نے البتہ اگر کسی کا اناج تلف کر دے تو اسی قسم کا اتنا ہی اناج دے دے کیونکہ چاندی سونے (جن کا مثل اور بدل ہوا کرتا ہے) کے مشابہ ہے نہ کہ جانور کے۔
کہا مالک نے اگر امانت کے روپوں سے کچھ مال خریدا اور نفع کمایا تو وہ نفع اس شخص کا ہو جائے گا جس کے پاس روپے امانت تھے مالک کو دینا ضروری نہیں کیونکہ اس نے جھ امانت میں تصرف کیا تو وہ اس کا ضامن ہو گیا۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص اپنا دین بدل ڈالے تو اس کی گردن مارو۔
کہا مالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جو فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کی گردن مارو ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں جو مسلمان اسلام سے باہر ہو جائیں جیسے زنادقہ یا ان کی مانند تو جب مسلمان ان پر غلبہ پائیں تو ان کو قتل کر دیں یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے ان سے توبہ کرنے کو کہیں کیونکہ ان کی توبہ کا اعتبار نہیں ہو سکتا وہ کفر کو اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ظاہر میں اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں لیکن اگر مسلمان شخص (کسی شبہ کی وجہ سے) علانیہ دین اسلام سے پھر جائے تو اس سے توبہ کرائیں (اور جو شبہ ہوا ہو اس کو دور کر دیں) اگر توبہ کرے تو بہتر۔ ورنہ قتل کیا جائے اور جو کافر ایک کفر کے دین کو چھوڑ کر دوسرا کفر کا دین اختیار کرے مثلاً پہلے یہودی تھا پھر نصرانی ہو جائے تو اس کو قتل نہ کریں گے بلکہ جو دین اسلام کو چھوڑ کر اور کوئی دین اختیار کرے گا اسی کے لیے یہ سزا ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے پاس ایک شخص آیا ابو موسیٰ اشعری کے پاس سے حضرت عمر نے اس سے وہاں کے لوگوں کا حال پوچھا اس نے بیان کیا پھر حضرت عمر نے کہا تم کو کوئی نادر چیز معلوم ہے وہ شخص بولا ہاں ایک شخص کافر ہو گیا تھا بعد اسلام کے حضرت عمر نے پوچھا تم نے اس سے کیا کیا وہ شخص بولا ہم نے اسے پکڑا اور اس کی گردن ماری حضرت عمر نے کہا تم نے اس کو تین دن تک قید کیا ہوتا اور ہر روز روٹی دی ہوتی پھر توبہ کروائی ہوتی شائد وہ توبہ کرتا اور پھر اللہ کے حکم مان لیتا پھر حضرت عمر نے فرمایا یا اللہ میں اس وقت وہاں موجود نہ تھا میں نے حکم کیا نہ میں خوش ہوا جب کہ مجھے معلوم ہوا۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا اگر میں اپنی عورت کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں کیا میں اس کو مہلت دوں یہاں تک کہ چار گواہ لاؤں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے شام والوں میں سے اپنی عورت کے ساتھ ایک مرد کو پایا تو مار ڈالا اس مرد کو یا مرد عورت دونوں کو معاویہ بن ابی سفیان ان کو اس فیصلہ دشوار ہوا انہوں نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ تم حضرت علی سے اس مسئلہ کو پوچھو ابو موسیٰ نے حضرت علی سے پوچھا حضرت علی نے کہا یہ واقعہ میرے ملک میں نہیں ہوا میں تم کو قسم دیتا ہوں تم سچ بیان کرو کہاں یہ امر ہوا ابو موسیٰ نے کہا مجھے معاویہ بن سفیان نے لکھا ہے کہ میں تم سے اس مسئلہ کو پوچھوں حضرت علی نے کہا میں ابو ا لحسن ہوں اگر چار گواہ نہ لائے تو قتل پر راضی ہو جائے۔
سنین بن ابی جمیلہ نے ایک منبوذ پایا حضرت عمر کے زمانے میں انہوں نے کہا میں اس کو حضرت عمر کے پاس لے آیا حضرت عمر نے پوچھا تو نے اس کو کیوں اٹھایا میں نے کہا یہ پڑے پڑے مر جاتا اس واسطے میں نے اٹھا لیا اتنے میں حضرت عمر کے عریف نے کہا اے امیر المومنین میں اس شخص کو جانتا ہوں نیک آدمی ہے حضرت عمر نے کہا نیک ہے اس نے کہا ہاں حضرت عمر نے کہا جادہ مبنوذ آزاد ہے تجھ کو اس کی ولا ملے گی اور ہم اس کا خرچ دیں گے۔
کہا مالک نے منبوذ آزاد رہے گا اور ولاء اس کی مسلمانوں کو ملے گی وہی اس کے وارث ہوں گے وہی اس کی طرف سے دیت بھی دیں گے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے تو اس کو اپنے پاس رکھوں تو جب مکہ فتح ہوا تو سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا میرے بھائی کا بیٹھا ہے اس نے وصیت کی تھی اس کے لینے کی عبدزمعہ نے کہا یہ لڑکا میرا بھائی ہے میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے دونوں نے جھگڑا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس سعد نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بیٹا ہے میرے بھائی کا اس نے مجھے وصیت کی تھی اور میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عبدا زمعہ سے کہ یہ لڑکا تیرا ہے پھر فرمایا لڑکا ماں کے خاوند یا مالک کا ہوتا ہے اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہیں پھر سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر کیونکہ وہ لڑکا مشابہ تھا عتبہ بن ابی وقاص کے سوا اس لڑکے نے نہ دیکھا سودہ کر یہاں تک کہ انتقال ہوا اس کا۔
عبد اللہ بن امیہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا خاوند مر گیا تو اس نے چار مہینے دس دن تک عدت کی پھر دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ابھی اس کے پاس ساڑھے چار مہینے رہی تھی کہ ایک لڑکا جنا خاصا پورا تو اس کا خاوند حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے یہ حال بیان کیا حضرت عمر نے اپنی پرانی عورتوں کو جاہلیت کے زمانے میں تھیں بلوایا اور ان سے پوچھا ان میں سے ایک عورت بولی میں تم کو اس عورت کا حالات باتی ہوں یہ حاملہ ہو گئی تھی اپنے پہلے خاوند سے جو مر گیا تو حیض کا خون بچے پر پڑتے پڑتے وہ بچہ سوکھ گیا تھا اس کے پیٹ میں تو جب اس نے دوسرا نکاح کیا مر کی منہ پہنچے سے پھر بچے کو حرکت ہوئی اور بڑا ہو گیا حضرت عمر نے اس کی تصدیق کی اور نکاح توڑ ڈالا تو فرمایا کہ خیر ہوئی تمہاری کوئی بری بات مجھے نہیں پہنچی اور لڑکے کا نسب پہلے خاوند سے ثابت کیا،۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت عمر جاہلیت کے بچوں کو جو ان کا دعوی کرتا اسلام کے زمانے میں اسی سے ملا دیتے ایک بار دو آدمی دعوی کرتے ہوئے آئے ایک لڑکے کا حضرت عمر نے قائف کو بلایا قائف نے دیکھ کر کہا اس لڑکے میں دونوں شریک ہیں حضرت عمر نے قائف کو درے سے مارا پھر اس عورت کو بلایا اور کہا تو اپنا حال مجھ سے کہہ اس نے ایک مرد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرے پاس آتا تھا اور میں اپنے لوگوں کے اونٹوں میں ہوتی تھی تو وہ مجھ سے الگ نہیں ہوتا تھا بلکہ مجھ سے چمٹا رہتا تھا یہاں تک کہ وہ بھی اور بھی بھی گمان کرتے حمل رہ جانے کا پھر جاتا اور مجھے خون آیا کرتا تب دوسرا مرد آتا وہ بھی صحبت کرتا میں نہیں جانتی ان دونوں میں سے یہ کسی کا نطفہ ہے قائف یہ سن کر خوشی کے مارے پھول گیا حضرت عمر نے کہا لڑکے سے تجھے اختیار ہے جس سے چاہے ان دنوں میں سے مولات کر لے۔
حضرت عمر نے یا عثمان نے جب ایک عورت نے دھوکہ سے اپنے کو آزاد قرار دے کر ایک شخص سے نکاح کیا اور اولاد ہوئی یہ فیصلہ کیا کہ خاوند اپنی اولاد کو فدیہ دے کر چھڑا لے اس کے مانند غلام لونڈی دے کر۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے ایک شخص مر جائے اور کئی بیٹے چھوڑ جائے اب ایک بیٹا ان میں سے یہ کہے کہ میرے باپ نے یہ کہا تھا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے تو ایک آدمی کے کہنے سے اس کا نسب ثابت نہ ہو گا اور وارثوں کے حصوں میں سے اس کو کچھ نہ ملے گا البتہ جس نے اقرار کیا ہے اس کے حصے میں سے اس کو ملے گا۔
کہا مالک نے اس کی تفسیر یہ ہے ایک شخص مر جائے اور دو بیٹے چھوڑ جائے اور چھ سو دینار ہر ایک بیٹا تین تین سو دینار لے پھر ایک بیٹا یہ کہے کہ میرے باپ نے اقرار کیا تھا اس امر کا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے تو وہ اپنے حصے میں سے اس کو سو دینار دے کیونکہ ایک وارث نے اقرار کیا ایک نے اقرار نہ کیا تو اس کو آدھا حصہ ملے گا اگر وہ بھی اقرار کر لیتا تو پورا حصہ یعنی دو سو دینار ملتے اور نسب ثابت ہو جاتا اس کی مثال یہ ہے ایک عورت اپنے باپ یا خاوند کے ذمے پر قرض کا اقرار کرے اور باق وارث انکار کریں تو وہ اپنے حصے کے موافق اس میں سے قرضہ ادا کرے اسی حساب سے۔
کہا مالک نے ایک مرد بھی اس قرض خواہ کے قرضے کا گواہ ہو تو اس کو حلف دے کر ترکے میں سے پورا قرضہ دلادیں گے۔ کیونکہ ایک مرد جب گواہ ہو اور مدعی بھی حلف کرے تو دعویٰ ثابت ہو جاتا ہے البتہ اگر قرض خواہ حلف نہ کرے تو جو وارث اقرار کرتا ہے اسی کے حصے کے موافق قرضہ وصول کرے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کیا حال ہے لوگوں کو جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے پھر ان سے جدا ہو جاتے ہیں اب سے میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور اس کے مولی کو اقرار ہو گا اس سے جماع کرنے کا تو میں اس لڑکے کو مولی سے ملا دوں گا تم کو اختیار ہے چاہے عزل کرو یا نہ کرو۔
صفیہ بن عبید سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کیا حال ہے لوگوں کو جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے پھر ان کو چھوڑ دیتے ہیں وہ نکلی پھرتی ہیں اب میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور مولی کا اقرار ہو گا اس سے صحبت کرنے کا تو میں اس کے لڑکے کا نسب مولی سے ثابت کر دوں گا اب اس کے بعد چاہے انہیں بھیجا کرو چاہے روکے رکھا کرو
کہا مالک نے ام ولد جب جنایت کرے تو مولیٰ اس کا تاوان دے اور ام ولد کو اس جنایت کے عوض میں نہیں دے سکتا مگر قیمت سے زیادہ تاوان نہ دے گا۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے جو شخص ظلم سے وہاں کچھ تصرف کرے اس کو کچھ حق نہیں ہے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے۔
عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دو نالوں میں ایک کا نام مہروز تھا اور دوسرے کا نام مذینیب کہ جس کا باغ نالہ کے متصل ہے وہ اپنے باغ میں ٹخنوں ٹخنوں پانی بھر کے پھر دوسرے کے باغ میں پانی چھوڑ دے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں روکا جائے گا پانی جو بچ رہا ہو تاکہ گھانس بچ جائے۔
عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ منع کیا جائے اس پانی سے کنوئی کے جو بچ رہے۔
یحیی بن عمارہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ ضرر ہے اسلام میں نہ ضرار۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کرتے تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کو لکڑی گاڑنے سے اپنی دیوار میں پھر ابوہریرہ کہتے تھے کیا وجہ ہے کہ تم اس حدیث کو متوجہ ہو کر نہیں سنتے قسم خدا کی میں اس کو خوب مشہور کروں گا۔
یحیی بن عمارہ سے روایت ہے کہ ضحاک بن خلیفہ نے ایک نہر نکالی عرض میں سے محمد بن مسلمہ کی زمین میں سے ہو کر انہوں نے منع کیا ضحاک نے کہا تم کیوں منع کرتے ہو تمہارا تو اس میں نفع ہے اپنی زمین کو اول اور آخر پانی دیا کرنا اور کچھ ضرر نہی محمد نہ مانا ضحاک نے حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے محمد بن مسلمہ کا بلا کر کہا تم اجازت دو محمد نے کہا میں نہ دوں گا حضرت عمر نے کہا تم اپنے بھائی مسلمان کو ایسی بات سے منع کرتے ہو جس میں اس کا نفع ہے اور تمہارا بھی نفع ہے تم بھی پانی لیا کرنا اول اور آخر میں اور تمہارا کچھ ضرر نہیں محمد نے کہا قسم خدا کی میں اجازت نہ دوں گا حضرت عمر نے کہا وہ نہر بہائی جائے اگرچہ تمہارے پیٹ پر سے ہو پھر حضرت عمر نے ضحاک کو حکم کیا نہر جاری کرنے گا محمد بن مسلمہ کی زمین سے ہو کر ضحاک نے ایسا ہی کہا۔
یحیی بن عمارہ سے روایت ہے کہ میرے دادا کے باغ میں سے ہو کر ایک نہر بہتی تھی عبدالرحمن بن عوف کی عبدالرحمن نے یہ چاہا کہ اس کو باغ کی دوسری طرف سے لے جائیں کیونکہ وہ قریب تھا ان کی زمین سے لیکن باغ کے مالک یعنی میرے داد نے اجازت نہ دی عبدالرحمن نے حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے اجازت دے دی۔
ثور بن زید ویلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو زمین یا مکان جاہلیت کے زمانے میں تقسیم ہو چکا ہے وہ اسی طور پر رہیگا البتہ جو مکان یا زمین اسلام کے زمانے تک تقسیم نہیں ہوئی تو وہ اسلام کے قاعدوں کے موافق تقسیم ہو گی۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص مر جائے اور بارانی اور چاہی زمینیں چھوڑ جائے تو بارانی کو چاہی کے ساتھ ملا کر تقسیم نہ کریں گے بلکہ جدا جدا تقسیم کریں گے۔ (کیونکہ بارانی کا لگان دسواں حصہ اور چاہی کا بیسواں حصہ پیداوار کا) مگر جب سب شریک ملا کر تقسیم کرنے پر راضی ہو جائیں تو ملا کر تقسیم کر دیں گے البتہ بارانی اور زیر تالاب یا کاریز کو ملا کر تقسیم کر دیں گے۔ (کیونکہ ان کا دھارا ایک ہے یعنی دونوں قسموں کی زمینوں کا لگان پیداوار کا دسواں حصہ ہے اسی طرح اگر کسی قسم کے مال ہوں ایک ہی جگہ اور ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو ہر ایک مال کی قیمت لگا کر ایک ساتھ تقسیم کر دیں گے مکانوں اور گھروں کا بھی یہی حکم ہے۔
حرام بن سعد محیصہ سے روایت ہے کہ برا بن عازب کا اونٹ ایک باغ میں چلا گیا اور نقصان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا کہ باغ کی حفاظت دن کو باغ والے کے ذمے پر ہے البتہ اگر رات کو کسی کا جانور باغغ میں جا کر نقصان کرے تو ضمان اس کا جانور کے مالک پر ہو گا۔
یحیی بن عبدالرحمن بن حاطب سے روایت ہے کہ غلاموں نے ایک شخص کا اونٹ چرا کر کاٹ ڈالا جب یہ مقدمہ حضرت عمر کے پاس گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کثیر بن صلت سے کہا ان غلاموں کا ہاتھ کاٹ ڈال پھر حاطب سے کہا میں سمجھتا ہوں کہ تو ان غلاموں کو بھوکا رکھتا ہو گا پھر حضرت عمر نے کہا حاطب سے قسم خدا کی میں تجھ سے ایسا تاوان دلاؤں گا جو تجھ پر بہت گراں گزرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ والے سے پوچھا تیرا اونٹ کتنے کا ہو گا اس نے کہا میں نے چار سو درہم کو اسے اس نے نہیں بیچا حضرت عمر نے کہا تو آٹھ سو درہم اس کے دے
کہا مالک نے ہمارے نزدیک قیمت دوچند لینے میں اس روایت پر عمل نہ ہو گا لیکن در آمد لوگوں کی یہ رہی کہ اس جانور کی جو قمیت چرانے کے دن ہو گی وہ دینی ہو گی۔
کہا مالک نے جو کسی کے جانور کو نقصان پہنچائے تو نقصان کی وجہ سے جس قدر قیمت اس کی کم ہو جائے اس کا تاوان دینا ہوا۔
کہا مالک نے ایک اونٹ حملہ کرے کسی آدمی پر اور وہ آدمی اپنی جان کو خوف کر کے اس کو مار ڈالے یا زخمی کرے تو اگر وہ گواہ رکھتا ہو اس امر کا کہ اونٹ نے اس پر حملہ کیا تھا تو اس پر تاوان نہ ہو گا ورنہ تاوان دینا ہو گا۔
کہا مالک نے اگر کسی نے اپنا کپڑا رنگریز کو رنگنے کو دیا اس نے رنگا اب کپڑے والا یہ کہے میں نے تجھ سے یہ رنگ نہیں کہا تھا اور رنگریز کہے تو نے یہی رنگ کہا تھا تو رنگریز کا قول قسم سے مقبول ہو گا ایسا ہی درزی کا بھی حکم ہے اور سنار کا جب وہ حلف اٹھا لیں البتہ اگر ایسی بات کا دعویٰ کرتے ہوں جو بالکل عرف اور رواج کے خلاف ہو تو اس کا قول مقبول نہ ہو گا بلکہ کپڑے والے سے قسم لی جائے گی اگر وہ قسم نہ کھائے گا تو کاریگر سے قسم لی جائے گی۔
کہا مالک نے ایک شخص نے اپنا کپڑا رنگریز کو دیا رنگنے کو واسطے رنگریز نے وہ کپڑا دوسرے شخص کو پہننے کو دے دیا۔ تو رنگریز پر اس کا تاوان ہو گا اگر پہننے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کپڑا کسی اور کا ہے اور جو معلوم ہو تو تاوان اسی پر ہو گا۔
کہا مالک نے ایک شخص نے اپنے ذمے پر جو قرض ہے اس کو اپنے ایک قرض دار پر اتار دیا قرض خواہ کی رضامندی سے اب وہ قرض دار مفلس ہو گیا یا بے جائداد مرگیا تو قرض خواہ پھر اس سے مطالبہ نہیں کر سکتا۔ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے البتہ اگر ایک شخص دوسرے کے ذمے پر جو قرض ہے اس کا ضامن ہو گیا پھر جو ضامن ہوا تھا بے جائداد مر گیا یا مفلس ہو گیا تو قرض خواہ قرضدار سے مطالبہ کر سکتا ہے۔
کہا مالک نے جب کوئی شخص کپڑا خریدے اور اس میں عیب نکلے مثلاً پھٹا ہوا ہو یا اور کچھ عیب بائع کے پاس کا ہو گواہوں کی گواہی سے یا بائع کے اقرار سے اب مشتری نے اس کپڑے میں تصرف کیا جیسے اس کو کتربیونت کر ڈالا۔ جس سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی پھر اس کو عیب معلوم ہوا تو وہ کپڑا بائع کو پھیر دے اور کاٹنے کا ضمان مشتری پر نہ ہو گا۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کپڑا خریدا اور اس میں عیب پایا مثلاً پھٹا ہو یا چرا ہوا ہے بائع نے کہا مجھے اس عیب کی خبر نہ تھی اور مشتری اس کپڑے کو کاٹ بیونت کر چکا ہے یا رنگ چکا ہے تو مشتری کو اختیار ہے چاہے کپڑا رکھ لے اور بائع سے عیب کے موافق نقصان مجرا لے چاہے کپڑا پھیر دے اور جس قدر کاٹ بیونت یا رنگ سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی ہے اس قدر بائع کو مجرا دے اگر مشتری نے اس پر وہ رنگ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ گئی تب بھی مشتری کو اختیار ہو گا چاہے عیب کا نقصان بائع سے وصول کر کے کپڑا رکھ لے چاہے بائع کا شریک ہو جائے۔ اس کپڑے میں اب دیکھا جائے گا کہ اس کپڑے کی قیمت عیب کے لحاظ سے کتنی ہے مثلاً دس درہم ہو اور مشتری کے رنگنے کی وجہ سے پندرہ درہم قیمت ہو گئی ہو تو بائع دو ثلث کا اور مشتری ایک ثلث کا اس کپڑے میں شریک ہو گا جب وہ کپڑا بکے اس کی قیمت کو اسی حساب سے بانٹ لیں گے۔
نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میرے باپ مجھ کو رسول اللہ کے پاس لے کر آئے اور کہا یا رسول اللہ میں نے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام ہبہ کیا ہے رسول اللہ نے فرمایا کیا سب بیٹوں کو تو نے ایسا ہی غلام دیا بولا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رجوع کر ہبہ سے
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ حضرت ابوبکر صدیق نے ان کو ہبہ کئے تھے کھجور کے درخت جن میں سے بیس وسق کھجور نکلتی تھی اپنے باغ میں سے جو غابہ میں تھے جب حضرت ابوبکر کی وفات ہونے لگی انہوں نے کہا اے بیٹی کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا مالدار رہنا مجھے پسند ہو بعد اپنے تجھ سے زیادہ اور نہ کسی آدمی کا مفلس رہنا نا پسند ہے مجھ کو بعد اپنے تجھ سے زیادہ میں نے تجھے بیس وسق کھجور کے درخت ہبہ کئیے تھے اگر تو ان درختوں سے کھجور کاٹتی اور ان پر قبضہ کر لیتی تو وہ تیرا مال ہو جاتا اب تو وہ سب وارثوں کا مال ہے اور وارث کون ہیں دو بھائی ہیں تمہارے اور دو بہنیں ہیں تو بانٹ لینا کا کو کتاب اللہ کے موافق حضرت عائشہ نے کہا اے میرے باپ قسم خدا کی اگر بڑے سے بڑا مال ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی لیکن میں حیران ہوں اور دوسری بہن کون ہے حضرت ابوبکر نے کہا وہ جو حبیبہ بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے میں اس کو لڑکی سمجھتا ہوں۔
عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہا کیا حال ہے لوگوں کا کہ ہبہ کرتے ہیں اپنے بیٹوں کو پھر روک لیتے ہیں اگر بیٹا مر جاتا ہے تو کہتے ہیں میرا مال میرے قبضے میں ہے کسی کو نہیں دیا اگر باپ مر جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کہ وہ میرے بیٹے کو ہے اس کو میں ہبہ کر چکا ہوں جو کوئی ہبہ کرے اور اس کو نافذ نہ کرے یعنی موہوب لہ اس پر قبضہ نہ کرے اس طرح سے کہ جب موہوب لہ مرے تو وہ اس کے وارثوں کو ملے تو وہ ہبہ باطل ہے۔
کہا مالک نے جو شخص ثواب کے واسطے کسی کو کوئی شئے دے اس کا عوض نہ چاہتا ہو اور لوگوں کو اس پر گواہ کر دے تو وہ نافذ ہو جائے گا مگر جب دینے والا مر جائے معطی لہ کے قبضے سے پہلے۔ اگر دینے والا یہ چاہے کہ بعد دینے کے اس کو رکھ چھوڑے تو یہ نہیں ہو سکتا معطی کہ جب چاہے تو جبراً اس سے لے سکتا ہے۔
کہا مالک نے ایک شخص نے ایک شئے لللہ دی پھر معطی لہ قبل قبضے کے مر گیا تو اس کے وارث اس کے قائم مقام ہوں گے اگر دینے والا قبل معطی لہ کے قبضے کے مر گیا تو اب اس کو کچھ نہ ملے گا کیونکہ قبضہ نہ ہونے کے سبب سے وہ ہبہ لغو ہو گیا اگر دینے والا اس کو روک رکھے اور ہبہ پر گواہ نہ ہوں گو یہ نہیں ہو سکتا جب معطی لہ لینے کو کھڑا ہو جائے تو لے سکتا ہے۔
ابی غطفان بن طریف مرسی سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب نے فرمایا جو شخص ہبہ کرے کسی ناتے والے کو صلہ رحم کے واسطے یا صدقی کے طور پر ثواب کے واسطے تو اس میں رجوع نہیں کر سکتا اور جو ہبہ کرے عوض لینے کے واسطے تو وہ رجوع کر سکتا ہے جب کہ ناراض ہو۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جب موہوب میں کچھ تفاوت ہو جائے کمی بیشی سے اور وہ ہبہ ایسا ہو جوعوض کے واسطے دیا گیا ہو تو موہوب لہ کو اس کی قیبت قبضے کے دن کی دینی پڑے گی۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے باپ اگر اپنے بیٹے کو کچھ صدقہ کے طور پر دے تو بیٹا اس کو اپنے قبضے میں کر لے یا بیٹاصغیر سن ہو خودباپ کی گود میں ہو اور وہ صدقہ پر گواہ کر دے تو اب باپ کو اس میں رجوع کرنا درست نہیں کیونکہ کسی صدقہ میں رجوع درست نہیں۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکن اجماعی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو کوئی چیز محبت کی وجہ سے دے نہ کہ صدقہ کے طور پر تو وہ اس میں رجوع کر سکتا ہے جب تک کہ بیٹا اس جائداد کے اعتماد پر معاملہ نہ کرنے لگے اور لوگ اس کو اس جائداد کے بھروسے پر قرض نہ دیں لیکن جب ایسا ہو جائے تو پھر رجوع نہیں کر سکتا۔
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کو عمری دے اس کے واسطے اور اس کے وارثوں کے واسطے تو پھر وہ عمرہ اس کا ہو جاتا ہے دینے ولاے کو پھر نہیں مل سکتا۔
عبدالرحمن بن قاسم نے سنا مکحول سے پوچھتے ہوئے قاسم سے عمری کے متعلق کیا قول ہے لوگوں کا اس میں قاسم نے کہا میں نے تو لوگوں کو اپنی شرطین پوری کرتے وہئے پایا اپنے مالوں میں اور جو کچھ وہ دیا رکتے تھے اس کو بھی پورا کرتے تھے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر وارث ہوئے ام المومنین حفصہ کے وہ اپنا گھر زید بن خطاب کی بیٹی کو زندگی پھر رہنے کر دے گئی تھیں جب وہ مر گئیں تو عبداللہ بن عمر نے اس گھر کو لے لیا اپنا سمجھ کر۔
زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لقطہ کو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہچان رکھ طرف اس کا لقطہ ہو خواہ چمڑے میں ہو یا کپڑے میں ہو پاور پہچان رکھ بندھن اس کا پھر ایک برس تک لوگوں سے اس کا حال کہا کر اگر اس کا مالک مل جائے تو اس کے دے دے نہیں تو لے لے پھر اس نے کہا گر کوئی بکری بہکی بھٹکی مل جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بکری تیرے کام میں آئے گی یا تیرے بھائی کے نہیں تو بھیڑیا کھا جائے گا پھر اس شخص نے کہا اگر اونٹ بھولا ملے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اونٹ سے تجھے کیا کام وہ تو اپنے ساتھ اپنا پانی رکھتا ہے اور موزے رکھتا ہے جہاں اس کو پانی مل جاتا ہے پی لیتا ہے جو درخت ملتا ہے کھالیتا ہے یہاں تک کہ مالک اس کا اس کو پا لیتا ہے
معاویہ بن عبداللہ بن بدر الجہنی سے روایت ہے کہ ان کے باپ نے بیان کیا کہ انہوں نے شام کے راستے میں ایک منزل میں جہاں لوگ آتے جاتے تھے ایک تھیلی پائی جس میں اسی دینار تھے انہوں نے حضرت عمر سے بیان کیا آپ نے کہا مسجدوں کے دروازوں پر لوگوں سے کہا کر اور جو شخص شام سے آ۔۔۔۔۔۔
نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے لقطہ پایا اس کو عبداللہ بن عمر کے پاس لے آیا اور پوچھا کیا کہتے ہو اس باب میں عبداللہ بن عمر نے کہا لوگوں سے پوچھا اور بتا اس نے کہا میں پوچھ اور بتا چکا عبداللہ بن عمر نے کہا اور سہی اس نے کہا میں پوچھ بتا چکا ہوں عبداللہ نے کہا میں کبھی تجھ کو حکم نہ کروں گا اس کے کھانے کا اگر تو چاہتا تو اس کو نہ لیتا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے غلام اگر لفظ پائے اور اس کو خرچ کر ڈالے میعاد گزرنے سے پہلے یعنی ایک برس سے پہلے تو وہ اس کے ذمہ رہے گا اب جب اس کا مالک آئے تو غلام کا مولیٰ لقطے کی قیمت ادا کرے یا غلام کو حوالے کر دے اگر غلام نے میعاد گزرنے کے بعد اس کو صرف کیا تو وہ اس کے ذمے قرض رہے گا جب آزاد ہو اس سے لے لے فی الحال کچھ نہیں لے سکتا نہ مولیٰ کو اس کا دینا لازم ہے۔
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ثابت بن ضحاک انصاری نے ایک اونٹ پایا حرہ میں اس کو رسی سے باندھا اور حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے کہا تین مرتبہ اس کو بتاؤ ثابت نے کہا اپنی زمین کی خبر لیتے سے میں مجبور ہو گیا حضرت عمر نے کہا جہاں سے تو نے اس اونٹ کو پایا ہے وہیں چھوڑ دے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمایا جو شخص گم ہوئی چیز اٹھائے وہ خود گمراہ ہے۔
ابن شہاب کہتے تھے کہ حضرت عمر کے زمانے میں جو اونٹ گمے ہوئے ملتے تھے وہ چھوڑ دئے جاتے تھے بچے جنا کرتے تھے کوئی ان نہ لتیا تھا جب حضرت عثمان کا زمانہ ہوا انہوں نے حکم کیا کہ بتائے جائیں پھر بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں رکھی جائے جب مالک آئے تو اس کو دیدی جائے
شرجیل بن سعید بن سعد بن عبادہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جہاد کر نکلے ان کی ماں مدینہ میں مرنے لگیں لوگوں نے ان سے کہا وصیت کروں انہوں نے کہا کیا وصیت کروں مال تو سعد کا ہے پھر مر گئیں سعد کے آنے سے پہلے جب سعد آئے لوگوں نے بیان کیا سعد نے رسول سے پوچھا کہ اگر میں اپنی ماں کی طرف سے لللہ دوں تو اس کو فائدہ ہو گا۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ میرے ماں کا دم یکایک نکل گیا اگر بات کرنے پاتی تو ضرور صدقہ کرتی کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں۔
ایک شخص انصاری نے اپنے والدین کو کھجور کے درخت صدقہ میں دئیے پھر والدین مر گئے تو وہی شخص اس کا وارث ہو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اتجھے صدقہ کا ثواب ہوا اب میراث میں اس کو لے لے
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں لائق ہے آدمی کو جس کے پاس چیز یا معاملہ ایسا ہو جس میں وصیت کرنا ضروری ہو اور وہ دو راتیں گزارے بغیر وصیت لکھے ہوئے
کہا مالک نے اگر موصی اپنی وصیت کے بدلنے پر قادر نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ ہر وصیت کرنے والے کا مال اس کے اختیار سے نکل کر رکا رہتا حالانکہ ایسا نہیں ہے کبھی آدمی اپنی صحت کو بدل سکتا ہے سوائے تدبیر کے۔
عمرو بن سلیم زرقی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب سے کہا گیا کہ اس جگہ مدینہ میں ایک لڑکا ہے قریب بلوغ کے مگر بالغ نہیں ہوا قبیلہ غسان سے اور اس کے وارث شام میں ہیں اور اس کے پاس مال ہے اور یہاں اس کا کوئی وارث نہیں سوائے ایک چچا زاد بہن کے تو حضرت عمر نے کہا اس کو وصیت کرے اس لڑکے نے مال کی وصیت جس کا نام بیر جشم تھا اپنی چچا زاد بہن کے واسطے کی عمرو بن سلیم نے کہا وہ مال تیس ہزار درہم کا بکا اور اس کی چچا زاد بہن عمرو بن سلیم کی ماں تھی۔
ابوبکر بن حزم سے روایت ہے کہ ایک لڑکا غسان کا مرنے لگا مدینہ میں اور وارث اس کے شام میں تھے حضرت عمر سے اس کا ذکر ہوا اور پوچھا گیا کیا وصیت کرے آپ نے فرمایا وصیت کرے یحیی بن سعید نے کہا وہ لڑکا دس برس کا تھا یا بارہ برس کا اور بیر جشم چھوڑ گیا اس کی وصیت کر گیا لوگوں نے اسے تیس ہزار درہم کا بیچا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ ضعیف العقل اور نادان اور مجنوں کی جس کو کبھی افاقہ ہو جاتا ہے وصیت درست ہے جب اتنی عقل رکھتے ہوں کہ وصیت جو کریں اس کو سمجھیں اگر اتنی بھی عقل نہ ہو تو اس کی وصیت درست نہیں ہے۔
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری عیادت کو آئے (یعنی بیمار پرسی کے لیے) حجۃ الوداع کے سال میں اور میرا مرض شدید تھا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری بیماری کا حال تو آپ دیکھتے ہیں اور میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے کیا میں دو ثلث مال للہ دے دوں آپ نے فرمایا نہیں میں نے کہا آدھا مال دے دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں پھر خود آپ نے فرمایا تہائی مال للہ دے دے اور تہائی بہت ہے اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ فقیر بھیک منگا چھوڑ جائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور تو جو چیز صرف کرے گا خدا کی رضامندی کے واسطے تجھ کو اس کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ تو جو اپنی بی بی کے منہ میں دیتا ہے اس کا بھی ثواب ملے گا پھر میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میں اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تو پیچھے رہ جائے گا اور نیک کام کرے گا تیرا درجہ بلند ہو گا اور شاید تو زندہ رہے (مکہ میں نہ مرے) یہاں تک کہ نفع دے اللہ جل جلالہ تیرے سبب سے ایک قوم کو اور نقصان دے ایک قوم ہے۔
کہا مالک نے اگر کوئی وصیت کرے تہائی مال کی ایک شخص کو اور کہے غلام میرا فلاں شخص کی خدمت کرے جب تک وہ شخص زندہ رہے پھر آزاد ہے بعد اس کے اس غلام کی قیمت ثلث مال نکلے تو غلام کی خدمت کی قیمت لگا دیں گے اور اس غلام میں حصہ کر لیں گے جس کو ثلث مال کی وصیت کی ہے اس کا حصہ ایک ثلث ہو گا اور جس کو خدمت کی وصیت کی ہے اس کا حصہ خدمت کے موافق ہو گا بعد اس کے دونوں شخص کی خدمت یا کمائی میں سے اپنا حصہ لیا کریں گے۔ جب وہ شخص مر جائے گا جس کے واسطے خدمت کی تھی تو غلام آزاد ہو جائے گا۔
کہا مالک نے جو شخص وصیت کرے کئی آدمیوں کے لیے پھر اس کے وارث یہ دعویٰ کریں کہ وصیت ثلث سے زیادہ ہے تو وارثوں کو اختیار ہو گا چاہے ہر ایک موصی لہ کو اس کی وصیت ادا کریں اور میت کا پورا ترکہ آلے لیں یا تہائی مال موصی لہ جتنے ہوں ان کے حوالہ کر دیں اور اپنے حصوں کے موافق اس کو تقسیم کر لیں گے۔
کہا مالک نے حاملہ بھی مثل بیمار کے ہے اگر بیماری خفیف ہو جس میں موت کا خوف نہ ہو تو مالک مال کو اختیار ہے جیسا چاہے تصرف کرے البتہ جس بیماری میں موت کا خوف ہو تو ثلث سے زیادہ تصرف درست نہیں۔
کہا مالک نے اسی طرح حاملہ بھی اوائل حمل میں جب تک خوشی اور سرور اور صحت سے رہے نہ مرض ہو نہ خوف اپنے کل مال میں اختیار رکھے گی۔ اللہ جل جلالہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ہم نے بشارت دی سارہ کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ اور فرمایا اللہ جل جلالہ نے جب آدمی نے عورت سے جماع کیا تو اس کو حمل ہو گیا ہلکا ہلکا چلتے پھرتے رہے جب حمل بھاری ہوا تو دونوں نے دعاکی اللہ سے جو ان کا رب تھا کہ اگر تو ہم کو نیک (یا صحیح و سالم) بچہ دے گا تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے۔ پس عورت حاملہ جب بوجھل ہو جائے تو اس وقت ثلث مال سے زیادہ اختیار نہیں رہتا اور یہ بعد چھ مہینے کے ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے مائیں اپنے بچے کو دو برس کامل دودھ پلائیں جو شخص دودھ کی مدت پوری کرنا چاہے۔ اور پھر فرماتا ہے حمل اور دودھ چھڑائی اس کی تیس مہینے میں ہوتی ہے۔ تو جب حاملہ پر چھ مہینے گزر جائیں حمل کے روز سے اس وقت سے اس کا تصرف ثلث مال سے زیادہ میں درست نہ ہو گا۔
کہا مالک نے جو شخص صف جنگ میں کھڑا ہو اور لڑائی کو جائے اس کو بھی ثلث مال سے زیادہ اپنے مال میں تصرف درست نہیں وہ بھی حاملہ اور بیمار کے حکم میں ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک وارث کے واسطے وصیت درست نہیں ہے مگر جب اور ورثاء اجازت دیں اور اگر بعض ورثاء اجازت دیں اور بعض نہ دیں تو جو اجازت دیں گے ان کے حصے میں سے وصیت ادا کی جائے گی۔
کہا مالک نے جو شخص بیمار ہو وہ اپنے وارثوں سے اجازت چاہے ثلث سے زیادہ وصیت کرنے کی اور وارث اجازت دیں اس بات کی کہ ثلث سے زیادہ کسی وارث کے لیے وصیت کرے تو پھر ان وارثوں کو رجوع کا اختیار نہیں اگر رجوع درست ہوتا تو ہر وارث یہی کیا کرتا جب موصی مر جاتا تو مال وصیت آپ لے لیا کرتے اور اس کی وصیت روک دیتے البتہ اگر کوئی شخص صحت کی حالت میں اپنے وارثوں سے اجازت چاہے وارث کے واسطے وصیت کرنے کی اور وہ اجازت دے دے تو اس سے رجوع کر سکتے ہیں کیونکہ جب آدمی صحیح ہے تو اپنے کل مال میں اختیار رکھتا ہے چاہے سب صدقہ دے چاہے سب کسی کے حوالے کر دے تو یہ اذن لینا لغو ہوا اور وارثوں کا اذن دینا بھی اپنے وقت سے پیشتر ہوا اس واسطے ان کو رجوع درست ہے بلکہ اذن لینا اس وقت درست ہے جب وہ اپنے مال میں اختیار نہ رکھتا ہو اور ثلث سے زیادہ صرف کرنے پر قادر نہ ہو اس وقت وارثوں کو دو ثلث کا اختیار ہو گا وہ اجازت بھی دے سکتے ہیں اگر مریض نے اپنے وارث سے کہا تو اپنا حصہ میراث کا مجھے ہبہ کر دے اس نے ہبہ کر دیا لیکن مریض نے اس میں کچھ تصرف نہیں کیا یوں ہی مر گیا تو وہ حصہ پھر اسی وارث کا ہو جائے گا البتہ اگر میت یوں کہے ایک وارث سے کہ فلانا وارث بہت ضعیف ہے تو بھی اپنا حصہ اس کو ہبہ کر دے اور اگر وہ ہبہ کر دے تو درست ہو جائے گا اگر وارث نے اپنا حصہ میراث میت کو ہبہ کرد یا اس نے کچھ اس میں سے کسی کو دلایا کچھ بچ رہا تو جو بچ رہا وہ اسی وارث کا ہو گا۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک مخنث خلقی حضرت ام سلمہ کے پاس تھا اس نے عبداللہ بن امیہ سے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سن رہے تھے اے عبداللہ اگر کل اللہ جل جلالہ تمہارے ہاتھ سے طائف کو فتح کرا دے تو تم غیلان کی بیٹی کو ضرور لینا جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار بٹیں معلوم ہوتی ہیں اور جب پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو چار کی آٹھ بٹیں معلوم ہوتی ہیں (دونوں جانب پہلو سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ لوگ تمہارے پاس نہ آیا کریں۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا کہتے تھے حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک انصاری عورت تھی اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عاصم بن عمر رکھا تھا پھر حضرت عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور مسجد قبا میں آئے وہاں عاصم کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا مسجد کے صحن میں حضرت عمر نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے جانور پر سوار کر لیا لڑکے کی نانی نے یہ دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا اور اپنا لڑکا طلب کیا پھر دونوں حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آئے حضرت عمر نے کہا میرا بیٹا ہے عورت نے کہا میرا بچہ ہے ابوبکر صدیق نے کہا عمر اسے چھوڑ دو بچے کو اور دے دو اس کی نانی کو حضرت عمر چپ ہو رہے اور کچھ تکرار نہ کی۔
کہا مالک نے ایک شخص جانور یا کپڑا یا اور کوئی اسباب خریدے پھر یہ بیع ناجائز معلوم ہو اور مشتری کو حکم ہو کہ وہ چیز بائع کو پھیر دے (حالانکہ اس شئے میں کوئی عیب ہو جائے) تو بائع کو اس شئے کی قیمت ملے گی اس دن کی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی نہ کہ اس دن کی جس دن وہ پھیرتا ہے کیونکہ جس دن سے وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی اس دن سے وہ اس کا ضامن ہو گیا تھا اب جو کچھ اس میں نقصان ہو جائے وہ اسی پر ہو گا اور جو کچھ زیادتی ہو جائے وہ بھی اسی کی ہو گی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مال ایسے وقت میں لیتا ہے جب اس کی قدر اور تلاش ہو پھر اس کو وقت میں پھیر دیتا ہے جب کہ وہ بے قدر ہو کوئی اس کو نہ پوچھے تو آدمی ایک شئے خریدتا ہے دس دینار کو پھر اس کو رکھ چھوڑتا ہے اور پھیرتا ہے ایسے وقت میں جب اس کی قیمت ایک دینار ہو تو یہ نہیں ہو سکتا کہ بے چارے بائع کا نو دینار کا نقصان کرے یا جس دن خریدا اسی دن اس کی قیمت ایک دینار تھی پھر پھیرتے وقت اس کی قیمت دس دینار ہو گئی تو بائع مشتری کو ناحق نو دینار کا نقصان دے اسی واسطے وہ قیمت اس دن کی واجب ہوئی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی ہو۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ابو الدرداء نے سلمان فارسی کو لکھا کہ چلے آؤ مقدس زمین میں سلمان نے جواب لکھا کہ زمین کسی کو مقدس نہیں کرتی بلکہ آدمی کو اس کے عمل مقدس کرتے ہیں اور میں نے سنا ہے تم طبیب بنے ہو لوگوں کی دوا کرتے ہو اگر تم لوگوں کو دوا سے اچھا کرتے ہو تو بہتر ہے اور اگر تم طب نہیں جانتے تو اور خواہ مخواہ طبیب بن گئے تو بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی آدمی کو مار ڈالو تو جہنم میں جاؤ پھر ابوالدردا جب فیصلہ کیا کرتے دو شخصوں میں اور وہ جانے لگتے تو دوبارہ ان کو بلاتے اور کہتے پھر بیان کرو اپنا قصہ میں تو واللہ طب نہیں جانتا یوں ہی علاج کرتا ہوں۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے دوسرے کے غلام سے بغیر اس کی اجازت کے کسی بڑے کام میں مدد لی جس کے واسطے نوکر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یا مزدور بلانے کی اور غلام میں کوئی عیب ہو گیا اس کام کرنے کی وجہ سے تو اس پر ضمان لازم آئے گی اور جو غلام صحیح و سالم رہا اور اس کے مولیٰ (مالک) نے مزدوری طلب کی تو مزدوری دینی پڑے گی۔
کہا مالک نے اگر غلام کا ایک حصہ آزاد ہو اور کچھ فقیق (مملوک) تو مال اس کا اس کے پاس رہے گا اگر اس میں کوئی نیا کام نہیں کر سکتا بلکہ بقدر ضرورت کھاتا پیتا ہے تو جب مر جائے گا تو وہ مال اس کو ملے گا جس کی ملک باقی تھی۔
کہا مالک نے جس روز سے لڑکا مالدار ہو جائے تو والد نے جو اس پر خرچ کیا ہو اس روز سے حساب کر کے اس سے کٹوتی لے سکتا ہے اگر چاہے، خواہ مال لڑکے کا نقد کی قسم سے ہو یا جنس کی قسم سے۔
عمر بن عبدالرحمن بن دلاف مزنی سے روایت ہے کہ ایک شخص قبیلہ جہینہ کا سب حاجیوں سے آگے جا کر اچھے اچھے مہنگے اونٹ خریدا کرتا تھا اور جلدی چلا کرتا تھا سب حاجیوں سے پہلے پہنچتا تھا ایک بار وہ مفلس ہو گیا اور اس کا مقدمہ حضرت عمر کے پاس آیا آپ نے کہا بعد حمد و صلوۃ کے لوگوں کو معلوم ہو کہ اسیفع نے جو جہنیہ کے قبیلے کا ہے دین اور امانت میں بھی بات پسند کی کہ لوگ اس کو کہا کریں کہ وہ سب حاجیوں سے پہلے پہنچا آگاہ رہو کہ اس نے قرض خریدا ادا کرنے کا خیال نہ رکھا تو وہ مفلس ہو گیا اور قرض نے اس کے مال کو لپیٹ لیا تو جس شخص کا اس پر قرض آتا ہے وہ ہمارے پاس صبح کو آئے ہم اس کا مال قرض خواہوں کو تقسیم کریں گے تم لوگوں کو چاہیے کہ قرض لینے سے پرہیز کرو قرض میں لیتے ہی رنج ہوتا ہے اور آخر میں لڑائی ہوتی ہے
کہا مالک نے ہمارے نزدیک غلام کی جنایت میں سنت یہ ہے کہ اگر غلام کا رقبہ (گردن۔ آزادی یا غلامی) اس میں پھنس جائے گا تو مولیٰ (مالک) کو اختیار ہے چاہے ان چیزوں کی قیمت یا زخم کی دیت ادا کرے اور اپنے غلام کو رکھ لے چاہے اس غلام ہی کو صاحب جنایت کے حوالے کر دے غلام کی قیمت سے زیادہ مولیٰ (مالک کو کچھ نہ دینا ہو گا اگرچہ اس چیز کی قیمت یا دیت اس کی قیمت سے زیادہ ہو۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان نے کہا کہ جو شخص اپنے نابالغ لڑکے کو کوئی چیز ہبہ کرے تو درست ہے جب کہ علانیہ دے اور اس پر گواہ کر دے پھر اس کا ولی باپ ہی رہے گا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ جو شخص اپنے نابالغ بچے کو سونا یا چاندی دے پھر وہ بچہ مر جائے اور باپ ہی اس کا ولی تھا تو وہ مال اس بچے کا شمار نہ کیا جائے گا الاّ جس صورت میں باپ نے اس مال کو جدا کر دیا ہو یا کسی کے پاس رکھوایا ہو تو وہ بیٹے کا ہو گا (اب وہ مال بیٹے کے سب وارثوں کو بموجب فرائض کے پہنچے گا۔)