سعید بن مسیب اور ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا شفعہ کا اس چیز میں جو تقسیم نہ ہوئی ہو شریکوں میں جب تقسیم ہو جائے اور حدیں قائم ہو جائیں پھر اس میں شفعہ نہیں۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اور اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔
سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ شفعے میں کیا حکم ہے انہوں نے کہا شفعہ مکان میں اور زمین میں ہوتا ہے اور شفعے کا استحاق صرف شریک کو ہوتا ہے۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص نے مشترک زمین کا ایک حصہ کسی جانور یا غلام کے بدلے میں خریدا اب دوسرا شریک مشتری سے شفعے کا مدعی ہوا لیکن وہ جانور یا غلام تلف ہو گیا اور اس کی قیمت معلوم نہیں مشتری کہتا ہے اس کی قیمت سو دینار تھی اور شفیع کہتا ہے پچاس دینار تھی تو مشتری سے قسم لیں گے اس امر پر کہ اس جانور یا غلام کی قیمت سو دینار تھی۔ بعد اس کے شفیع کو اختیار ہو گا چاہے سو دینار دے کر زمین کے اس حصے کو لے لے چاہے چھوڑ دے البتہ اگر شفیع گواہ لائے اس امر پر کہ اس جانور یا غلام کی قیمت پچاس دینار تھی تو اس کا قول معتبر ہو گا۔
کہا مالک نے جس شخص نے اپنے مشترک گھر یا مشترک زمین کا ایک حصہ کسی کو ہبہ کیا موہوب لہ نے واہب کو اس کے بدلے میں کچھ نقد دیا یا چیز دی تو اور شریک موہوب لہ کو اسی قدر نقد یا اس چیز کی قیمت دے کر شفعہ لے لیں گے۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنا حصہ مشترک زمین یا مشترک گھر میں ہبہ کیا لیکن موہوب لہ نے اس کا بدلہ نہیں دیا تو شفیع کو شفعہ کا استحقاق نہ ہو گا جب موہوب لہ دے گا تو شفیع موہوب لہ کو اس بدلہ کی قیمت دے کر شفعہ لے لے گا۔
کہا مالک نے اگر بیع کے وقت شفیع غائب ہو تو اس کا شفعہ باطل نہ ہو گا اگرچہ کتنی ہی مدت گزر جائے۔
کہا مالک نے اگر کئی شریکوں کو شفعے کا استحقاق ہو تو ہر ایک ان میں سے اپنے حصے کے موافق مبیع میں سے حصہ لیں گے اگر ایک شخص نے مشترک حصہ خرید کیا اور سب شریکوں نے شفعے کا دعویٰ چھوڑ دیا مگر ایک شریک نے مشتری سے یہ کہا کہ میں اپنے حصے کے موافق تیری زمین سے شفعہ لوں گا۔ مشتری یہ کہے یا تو تو پوری زمین جس قدر میں نے خریدی ہے سب لے لے یا شفعے کا دعویٰ چھوڑے تو شفیع کو لازم ہو گا یا تو پورا حصہ مشتری سے لے لے یا شفعے کا دعویٰ چھوڑ دے۔
کہا مالک نے ایک شخص زمین کو خرید کر اس میں درخت لگا دے یا کنواں کھود دے پھر ایک شخص اس زمین کے شفعے کا دعویٰ کرتا ہوا آئے تو اس کو شفعہ نہ ملے گیا جب تک کہ مشتری کے کنوئیں اور درختوں کی بھی قیمت نہ دے۔
کہا مالک نے جس شخص نے مشترک گھر یا زمین میں سے اپنا حصہ بیچاجب بائع کو معلوم ہوا کہ شفیع اپنا شفعہ لے تو اس نے بیع کو فسخ کر ڈالا اس صورت میں شفع کا شفعہ ساقط نہ ہو گا بلکہ اس قدر دام دے کر جتنے کو وہ حصہ بکا تھا اس حصے کو لے گا۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص نے ایک حصہ مشترک گھر یا زمین کا اور ایک جانور اور کچھ اسباب ایک ہی عقد میں خرید کیا پھر شفیع نے اپنا حصہ یا شفعہ اس زمین یا گھر میں مانگا مشتری کہنے لگا جتنی چیزیں میں نے خریدی ہیں تو ان سب کو لے لے کیونکہ میں نے ان سب کو ایک عقد میں خریدا ہے تو شفیع زمین یا گھر میں اپنا شفعہ لے گا اس طرح پر کہ ان سب چیزوں کی علیحدہ علیحدہ قیمت لگائیں گے اور پھر ثمن کو ہر ایک قیمت پر حصہ رسد تقسیم کریں گے جو حصہ ثمن کا زمین یا مکان کی قیمت پر آئے اس قدر شفیع کو دے کر وہ حصہ زمین یا مکان کا لے لے گا اور یہ ضروری نہیں کہ اس جانور اور اسباب کو بھی لے لے البتہ اگر اپنی خوشی سے لے تو مضائقہ نہیں۔
کہا مالک نے جس شخص نے مشترک زمین میں سے ایک حصہ خرید کیا اور سب شفیعوں نے شفعے کا عدویٰ چھوڑ دیا مگر ایک شفیع نے شفعہ طلب کیا تو اس شفیع کو چاہیے کہ پورا حصہ مشتری کا لے لے یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے حصے کہ موافق اس میں سے لے لے۔
کہا مالک نے اگر ایک گھر میں چند آدمی شریک ہوں اور ایک آدمی ان میں سے اپنا حصہ بیچے سب شرکاء کی غیبت میں مگر ایک شریک کی موجودگی میں اب جو شریک موجود اس سے کہا جائے تو شفعہ لیتا ہے یا نہیں لیتا۔ وہ کہے بالفعل میں اپنے حصے کے موافق لے لیتا ہوں بعد اس کے جب میرے شریک آئیں گے وہ اپنے حصوں کو خرید کریں گے تو بہتر۔ نہیں تو میں کل شفعہ لے لوں گا تو یہ نہیں ہو سکتا بلکہ جو شریک موجود ہے اس سے صاف کہہ دیا جائے گا یا تو شفعہ کل لے لے یا چھوڑ دے اگر وہ لے لے گا تو بہتر نہیں تو اس کا شفعہ ساقط ہو جائے گا۔
حضرت عثمان نے کہا جب زمین میں حدیں پڑ جائیں تو اس میں شفعہ نہ ہو گا اور نہیں شفعہ ہے کنوئیں میں اور نہ کھجور کے نر درخت میں۔
کہا مالک نے راستے میں شفعہ نہیں ہے خواہ وہ تقسیم کے لائق ہو یا نہ ہو۔
کہا مالک نے اگر مشتری نے خیار کی شرط سے زمین کے ایک حصے کو خریدا تو شفیع کو شفعے کا حق نہ ہو گا جب تک کہ مشتری کا خیار پورا نہ ہو۔ اور وہ اس کو قطعی طور پر نہ لے۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص نے زمین خریدی اور مدت تک اس پر قابض رہا بعد اس کے ایک شخص نے اس زمین میں اپنا حق ثابت کیا تو اس کو شفعہ ملے گا اور جو کچھ زمین میں منفعت ہوئی ہے وہ مشتری کی ہو گی جس تاریخ تک اس کا حق ثابت ہوا ہے کیونکہ وہ مشتری اس زمین کا ضامن تھا اگر وہ تلف ہو جاتی یا اس کے درخت تلف ہو جاتے۔ اگر بہت مدت گزر گئی یا گواہ مر گئے یا بائع اور مشتری مر گئے یا وہ رندہ ہیں مگر بیع کو بھول گئے بہت مدت گزرنے کی وجہ سے اس صورت میں اس شخص کو اس کا حق تو ملے گا مگر شفعے کا دعویٰ نہ پہنچے گا۔ اگر زمانہ بہت نہیں گزرا ہے اور اس شخص کو معلوم ہوا کہ بائع نے قصداً شفعہ باطل کرنے کے واسطے بیع کو چھپایا ہے تو اصل زمین کی قیمت اور جو اس میں زیادہ ہو گیا ہے اس کی قیمت وہ شخص ادا کر کے شفعہ لے لے گا۔
کہا مالک نے جیسے زندہ کے مال میں شفعہ ہے ویسے میت کے مال میں بھی شفعہ ہے۔ البتہ اگر میت کے وارث اس کے مال کو تقسیم کر لیں پھر بیچیں تو اس میں شفعہ نہ ہو گا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک غلام اور لونڈی اور اونٹ اور گائے اور بکری اور جانور اور کپڑے میں شفعہ نہیں ہے نہ اس کنوئیں میں جس کے متعلق زمین نہیں ہے کیونکہ شفعہ اس زمین میں ہوتا ہے جو تقسیم کے قابل ہے اور اس میں حدود ہوتے ہیں زمین کی قسم سے جو چیز ایسی نہیں ہے اس میں شفعہ بھی نہیں ہے۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایسی زمین خریدی جس میں لوگوں کو حق شفعہ پہنچتا ہے تو چاہیے کہ شفیعوں کو حاکم کے پاس لے چائے یا شفعہ لیں یا چھوڑ دیں اگر مشتری شفیعوں کو حاکم کے پاس نہیں لے گیا لیکن ان کو خریدنے کی خبر ہو گئی تھی اور انہوں نے مدت شفعہ کا دعویٰ نہ کیا بعد اس کے دعویٰ کیا تو مسموع نہ ہو گا۔ پوری ہوئی کتاب شفعے کی۔