عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے اور اس شخص کے پاس انتا مال کہ غلام کی قیمت دے سکے تو اس غلام کی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو موافق حصہ ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جس قدر اس غلام میں سے آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مولیٰ اگر اپنے مرنے کے بعد اپنے غلام کا ایک حصہ جیسے ثلث یا ربع یا نصف آزاد کر جائے تو بعد مولیٰ کے مر جانے کے اسی قدر حصہ جتنا مولیٰ نے آزاد کیا تھا آزاد ہو جائے گا کیونکہ اس حصے کی آزادی بعد مولیٰ کے مر جانے کے لازم ہوئی اور جب تک مولیٰ زندہ تھا اس کو اختیار تھا جب مر گیا تو موافق اس کی وصیت کے اسی قدر حصہ آزاد ہو گا اور باقی غلام آزاد نہ ہو گا اس واسطے کہ وہ غیر کی ملک ہو گا تو باقی غلام غیر کی طرف سے کیونکر آزاد ہو گا نہ اس نے آزادی شروع کی اور نہ ثابت کی اور نہ اس کے واسطے ولاء ہے بلکہ یہ میت کا فعل ہے اسی نے آزاد کیا اور اسی نے اپنے لیے ولاء ثابت کی تو غیر کے مالک میں کیونکر درست ہو گا البتہ اگر یہ وصیت کر جائے کہ باقی غلام بھی اس کے مال میں سے آزاد کر دیا جائے گا اور ثلث مال میں سے وہ غلام آزاد ہو سکتا ہو تو آزاد ہو جائے گا پھر اس کے شریکوں یا وارثوں کو تعرض نہیں پہنچتا کیونکہ ان کا کچھ ضرر نہیں۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی بیماری میں تہائی غلام آزاد کر دیا تو وہ ثلث مال میں سے پورا آزاد ہو جائے گا کیونکہ یہ مثل اس شخص کے نہیں ہے جو اپنی تہائی غلام کی آزادی اپنی موت پر معلق کر دے اس واسطے کہ اس کی آزادی قطعی نہیں جب تک زندہ ہے رجوع کر سکتا ہے اور جس نے اپنے مرض میں تہائی غلام قطعاً آزاد کر دیا اگر وہ زندہ رہ گیا تو کل غلام آزاد ہو جائے گا کیونکہ میت کا تہائی مال میں وصیت درست ہے جیسے صحیح سالم کا تصرف کل مالک میں درست ہے۔
کہا مالک نے جس شخص نے اپنا غلام قطعی طور پر آزاد کر دیا یہاں تک کہ اس کی شہادت ہو گئی اور اس کی حرمت پوری ہو گئی اور اس کی میراث ثابت ہو گئی اب اس کے مولیٰ کو نہیں پہنچتا کہ اس پر کسی مال یا خدمت کی شرط لگا دے یا اس پر کچھ غلامی کا بوجھ ڈالے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا حصہ غلام میں سے آزاد کر دے تو اس کی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو موافق حصہ کر آزاد کرے اور غلام اس کے اوپر آزاد ہو جائے گا پس جس صورت میں وہ غلام خاص اسی کی ملک ہے تو زیادہ تر اس کی آزادی پوری کرنے کا حقدار ہو گا اور غلامی کا بوجھ اس پر نہ رکھ سکے گا۔
حسن بصری اور محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرعہ ڈال کر دو کی آزاد قائم رکھی۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابان بن عثمان کی خلافت میں اپنے سب غلاموں کو آزاد کر دیا اور سوا ان غلاموں کے اور کچھ مال اس شخص کے پاس نہ تھا تو ابان بن عثمان نے حکم کیا ان غلاموں کے تین حصے کئے گئے پھر جس حصے پر میت کا حصہ نکلا وہ غلام آزاد ہو گئے اور جب حصوں پر وارثوں کا نام نکلا وہ غلام رہے۔
شہاب کہتے تھے کہ سنت جاری ہے اس بات پر جب غلام آزاد ہو جائے اس کا مال اسی کو ملے گا۔
کہا مالک نے اس کی دلیل یہ ہے کہ غلام اور مکاتب جب مفلس ہو جائیں تو ان کے مالک اور ام دلد لے لیں گے مگر اولاد کو نہ لیں گے کیونکہ اولاد غلام کا مالک نہیں ہے۔
کہا مالک نے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ غلام جب بیچا جائے اور خریدار اس کے مالک لینے کی طرف کر لے تو اولاد اس میں داخل نہ ہو گی۔
کہا مالک نے غلام اگر کسی کو زخمی کرے تو اس دیت میں وہ خود اور مال اس کا گرفت کیا جائے گا مگر اس کی اولاد سے مواخذہ نہ ہو گا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو لونڈی اپنے مالک سے جنے تو مالک اس کے بہ بیچے نہ ہبہ کر نہ وہ مالک کے وارثوں کے ملک میں آ سکتی ہے بلکہ جب تک مالک زندہ رہے اس سے مزے لے جب مر جائے وہ آزاد ہو جائے گی۔
حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک لونڈی آئی جس کو اس کے مولی نے آگ میں جلایا تھا آپ نے اس کو آزاد کر دیا۔
عمر بن حکم سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری ایک لونڈی بکریاں چرا رہی تھی جب میں وہاں گیا دیکھا تو ایک بکری گم ہے پوچھا میں نے ایک بکری کہاں ہے بولی اس کو بھیڑیا کھا گیا ہے مجھے غصہ آیا آخر میں آدمی تھا میں نے ایک طماچہ اس کے منہ پر جڑا میرے ذمے ایک بردہ آزاد کرنا واجب ہے کیا اسی کو آزاد کر دوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لونڈی سے فرمایا اللہ جل جلالہ کہاں ہے وہ بولی آسمان پر ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں کون ہو بولی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو فرمایا اس کو آزاد کر دے۔
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کالی لونڈی لے کر آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے اوپر ایک مسلمان بردہ آزاد کرنا واجب ہے کیا میں اس کو آزاد کر دوں اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ مومنہ ہے تو میں اسی کو آزاد کر دوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لونڈی سے فرمایا کیا تو یقین کرتی ہے اس بات کو کہ نہیں ہے کوئی معبود سچا سوائے اللہ کے وہ بولی ہاں پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو یقین کرتی ہے اس بات کو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں وہ بولی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تو یقین کرتی ہے اس بات کر کہ مرنے کے بعد پھر جی اٹھیں گے بولی ہاں تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو آزاد کر دے
ابوہریرہ سے سوال ہوا کہ جس شخص پر ایک بردہ آزاد کرنا لازم ہو گیا ہو ولد الزنا کو آزاد کر سکتا ہے جواب دیا ہاں کر سکتا ہے۔
فضالہ بن عبید انصاری سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا جس شخص پر ایک بردہ آزاد کرنا لازم ہو گیا وہ ولد ا لزنا کو آزاد کر سکتا ہے جواب دیا ہاں کر سکتا ہے۔
عبد اللہ بن عمر سے سوال ہوا کہ جس بردہ کا آزاد کرنا واجب ہو وہ شرط لگا کر خرید کیا جائے کہا نہیں۔
کہا مالک نے جو شخص غلام کو آزاد کرنے کے لیے اور اس پر آزاد کرنا واجب ہو تو اس شرط سے نہ خریدے کہ میں آزاد کر دوں گا اس واسطے کہ اگر اس شرط سے خریدے گا تو بائع رعایت کر کے اس کی قیمت کم کر دے گا اس صورت میں وہ پورا رقبہ نہ ہو گا۔
عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے وصیت کر نے کا ارادہ کیا پھر صبح تک دیر کی رات کو مر گئیں اور ان کا قصد بردہ آزاد کرنے کا تھا عبدالرحمن نے کہا میں نے قاسم بن محمد سے پوچھا اگر میں اپنی ماں کی طرف سے آزاد کر دوں تو ان کو کچھ فائدہ ہو گا قاسم نے کہا سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میری ماں مر گئی اگر میں اس کی طرف سے آزاد کر دوں کیا اس کو فائدہ ہو گا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں۔
یحییٰ بن سعید نے کہا عبدالرحمن بن ابو بکر سوتے سوتے مر گئے حضرت عائشہ نے ان کی طرف سے بہت سے بردے آزاد کیے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کون سا بررہ آزاد کرنا افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کی قیمت بھاری ہو اور اس کے مالکوں کو بہت مرغوب ہو۔
عبد اللہ بن عمر نے ولد الزنا کو اور اس کی ماں کو آزاد کیا۔
حضرت عائشہ کے پاس بریرہ آئی اور کہا کہ مجھ کو میرے لوگوں نے مکاتب کیا ہے نو اوقیہ پر ہر سال میں ایک اوقیہ تو میری مدد کرو حضرت عائشہ نے کہا اگر تیرے لوگوں کو منظور ہو تو میں ایک دفعہ میں سب سے دیتی ہوں مگر تیری ولا میں لوں گی بریرہ اپنے لوگوں کے پاس گئی ان سے بیان کیا انہوں نے ولا دینے سے انکار کیا پھر بریرہ لوٹ کر آئی حضرت عائشہ کے پاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور کہا میں نے اپنے لوگوں سے بیان کیا وہ انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ولا ہم لیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر پوچھا کیا حال ہے حضرت عائشہ نے سارا قصہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم بریرہ کو لے لو اور ولا کی شرط انہیں لوگوں کے واسطے کر دو کیونکہ ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کرے حضرت عائشہ نے ایسا ہی کیا بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں گئے اور کھڑے ہو کر اللہ جل جلالہ کی تعریف کی پھر فرمایا کیا حال ہے لوگوں کا ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے گو سو بار لگائی جائے اللہ کا حکم سچا اور اس کی شرط مضبوط ہے ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک لونڈی کو خرید کر آزاد کرنا چاہا اس کے لوگوں نے کہا ہم اس شرط سے بیچتے ہیں کہ ولا ہم کو ملے حضرت عائشہ نے یہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیر کچھ حرج نہیں ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔
عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ بریرہ آئی حضرت عائشہ سے مدد مانگنے کو حضرت عائشہ نے کہا اگر تیرے لوگوں کو منظور ہو کہ میں یک مشت ان کو تیری قیمت ادا کر دوں اور تجھ کو آزاد کر دوں تو میں راضی ہوں بریرہ نے یہ اپنے لوگوں سے بیان کیا انہوں نے کہا ہم نہیں بیچیں گے مگر اس شرط سے کہ ولا ہم کو ملے۔
عمرہ نے کہا کہ پھر حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو خرید کر آزاد کر دے کیونکہ ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کر دے گا۔
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ اولاد کی بیع یا ہبہ سے۔
کہا مالک نے جو غلام اپنے تئیں مولیٰ سے مول لے لے اس شرط سے کہ میری ولاء جس کو میں چاہوں گا اس کو ملے گی تو یہ جائز نہیں کیونکہ ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے اور اگر مولیٰ نے غلام کو اجازت دے دی کہ جس سے جی چاہے موالات کا عقد کر لے تو بھی جائز نہ ہو گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ولاء اس کو ملے گی جو آزاد کرے اور منع کیا آپ نے ولاء کی بیع اور ہبہ سے پس اگر مولیٰ کو یہ امر جائز ہو کہ غلام سے ولاکی شرط کر لے یا اجازت دے جس کو وہ چاہے ولاء ملے اس صورت میں ولاء کا ہبہ ہو جائے گا۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ زبیر بن عوان نے ایک غلام خریدا کر آزاد کیا اس غلام کی اولاد ایک آزاد عورت سے تھی جب زبیر نے غلام کو آزاد کر دیا تو زبیر نے کہا اس کی اولاد میری مولی ہیں اور ان کی ماں کے لوگوں نے کہا ہمارے مولی ہیں دونوں نے جھگڑا کیا ۔حضرت عثمان کے پاس آئے آپ نے حکم کیا کہ ان کی ولا زبیر کو ملے گی۔
سعید بن مسیب سے سوال ہوا اگر ایک غلام کا لڑکا آزاد عورت سے ہو تو اس لڑکے کی ولا کس کو ملے گی سعید نے کہا اگر اس لڑکے کا باپ غلامی کی حالت میں مر جائے تو ولا اس کی ماں کے موالی کو ملے گی۔
کہا مالک نے مثال اس کی یہ ہے ملا عنہ عورت کا لڑکا اپنی ماں کے موالی کی طرف منسوب ہو گا اگر وہ مر جائے گا وہی اس کے وارث ہوں گے اگر جنایت کرے گا وہی دیت دیں گے پھر اس عورت کا خاوند اقرار کر لے کہ یہ میرا لڑکا ہے تو اس کی ولاء باپ کے موالی کو ملے گی وہی وارث ہوں گے وہی دیت دیں گے مگر اس کے باپ پر حد قذف پڑے گی مالک نے اسی طرح کہا اگر عورت ملاعنہ عربی ہو اور خاوند اس کے لڑکے کا اقرار کر لے کا اقرار کر لے کہ میرا لڑکا ہے تو وہ لڑکا اپنے باپ سے ملا دیا جائے گا۔ جب تک خاوند اقرار نہ کرے تو اس لڑکے کا ترکہ اس کی ماں اور اخیافی بھائی کو حصہ دے کر جو بچ رہے گا۔ مسلمانوں کا حق ہو گا اور ملاعنہ کے لڑکے کی میراث اس کی ماں کے موالی کو اس واسطے ملتی ہے کہ جب تک اس کے خاوند نے اقرار نہیں کیا نہ اس لڑکے کا نسب ہے نہ اس کا کوئی عصبہ ہے جب خاوند نے اقرار کر لیا نسب ثابت ہو گیا اپنے عصبہ سے مل جائے گا۔
کہا مالک نے جس غلام کی اولاد آزاد عورت سے ہو اور غلام کا باپ آزاد ہو و (ف) اپنے پوتے یے ولاء کا مالک ہو گا جب تک باپ غلام رہے گا جب باپ آزاد ہو جائے گا تو اس کے موالی کو ملے گی اگر باپ غلامی کی حالت میں مر جائے گا تو میراث اور ولاء دادا کو ملے گی اگر اس غلام کے دو آزاد لڑکوں میں سے ایک لڑکا مر جائے اور باپ ان کا غلام ہو تو ولاء اور میراث اس کے دادا کو ملے گی۔
کہا مالک نے حاملہ لونڈی اگر آزاد ہو جائے اور خاوند اس کا غلام ہو پھر خاوند بھی آزاد ہو جائے وضع حمل سے پہلے یا بعد تو ولاء اس بچہ کی اس کی ماں کے مولیٰ کو ملے گی کیونکہ یہ بچہ قبل آزادی کے اس کا غلام ہو گیا البتہ جو حمل اس عورت کو بعد آزادی کے ٹھہرے گا اس کی ولاء اس کے باپ کو ملے گی جب وہ آزاد کر دیا جائے گا کہا مالک نے جو غلام اپنے مولیٰ کے اذن سے اپنے غلام کو آزاد کرے تو اس کی ولاء مولیٰ کو ملے گی غلام کو نہ ملے گی اگرچہ آزاد ہو جائے۔
عبد الملک بن ابی بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عاصی بن ہشام مر گئے اور تین بیٹے چھوڑ گئے دو اس میں سے سگے بھائی تھے اور ایک سوتیلا تو سکے بھائیوں میں سے ایک بھائی مر گیا اور ماں اور غلام آزاد کئے ہوئے چھوڑ گیا اس کا وارث سگا بھائی ہوا ماں اور غلاموں کی سب ولا اس نے لی پھر وہ بھائی بھی مر گیا اور ایک بیٹا اور سوتیلا بھائی چھوڑ گیا بیٹے نے کہا میں اپنے باپ کے مال اور ولا کا مالک ہوں بھائی نے کہا بے شک مال کا تو مالک ہے مگر ولا کا مالک نہیں فرض کر کہ اگر پہلا بھائی میرا آج مرتا تو میں اس کا وارث ہوتا تو پھر دونوں نے جھگڑا کیا حضرت عثمان کے پاس آئے آپ نے ولا بھائی کو دلائی
عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم کے والد ابن بن عثمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں کچھ لوگ جہنیہ کے اور کچ لوگ بنی الحارث بن خزرج کے لڑتے جھگڑتے آئے مقدمہ یہ تھا کہ ایک جہنیہ کے نکاح میں تھی ایک شخص بنی الحارث بن خزرج میں سے جس کا نام ابرہیم بن کلیب تھا وہ عورت مر گئی اور مال اور غلام آزاد کئے ہوئے چھوڑ گئی اس کا خاوند اور بیٹا وارث ہوا پھر اس کا بیٹا مر گیا اب بیٹے کو وارثوں نے کہا ولا ہم کے ملے گی کیونکہ عورت کا بیٹا اس ولا پر قابض ہو گیا تھا اور جہنیہ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ ولا کے مستحق ہم ہیں اس لئے وہ غلام ہمارے کنبے کی عورت کے غلام ہیں جب اس عورت کا لڑکا مر گیا ولا ہم کے ملے گی ابان بن عثما نے جہنیہ کے لوگوں کو ولا دلائی۔
عید بن مسیب نے کہا جو شخص مر جائے اور تین بیٹے چھوڑ جائے اور آزاد کئے ہوئے غلام چھوڑ جائے پھر تینوں بیٹوں میں سے دو بیٹے مر جائیں اور اولاد اپنی چھوڑ جائیں تو ولا کا وارث تیسرا بھائی ہو گیا جب وہ مر جائے تو اس کی اولاد اور ان دونوں بھائیوں کی اولاد اول کے استحقاق میں برابر ہو گی۔
امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا سائبہ کا حکم انہوں نے کہا سائبہ جس شخص سے چاہے عقد موالات کرے اگر مر جائے اور کسی سے موالات نہ کرے تو اس کی میراث مسلمانوں کو ملے گی اگر وہ جنایر کرے گا تو دیب بھی وہی دیں گے۔
کہا مالک نے میرے نزدیک یہ ہے کہ سائبہ کسی سے عقد موالات نہ کرے اور میراث اس کی مسلمانوں کے ملے گی اور دیت بھی رہی دیں گے۔
کہا مالک نے اگر یہودی یا نصرانی کا لڑکا مسلمان ہو تو وہ اپنے باپ کے آزاد کیے ہوئے غلام کی ولاء پائے گا جب وہ غلام مسلمان ہو گیا ہو مگر باپ اس کا مسلمان نہ ہوا ہو جس نے آزاد کیا ہے اور اگر وہ غلام آزادی کے وقت بھی مسلمان تھا تو یہودی یا نصاریٰ کے مسلمان لڑکے کو ولاء نہ ہو گی بلکہ وہ مسلمانوں کا حق ہو گی۔