مؤطا امام مالک

کتاب قصر الصلوٰۃ فی السفر

دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

اعرج سے روایت ہے کہ رسول اللہ جمع کرتے تھے ظہر اور عصر کو سفر تبوک میں

دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ صحابہ نکلے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوہ تبوک کے سال تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمع کرتے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو پس ایک دن تاخیر کی ظہر کی پھر نکل کر ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھا پھر داخل ہوئے ایک مقام میں پھر وہاں سے نکل کر مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھا پھر فرمایا کہ کل اگر خدا چاہے تو تم پہنچ جاؤں گے تبوک کے چشمہ پر سو تم ہرگز نہ پہنچو گے یہاں تک کہ دن چڑھ جائے گا اگر تم میں سے کوئی اس چشمہ پر پہنچے تو اس کا پانی نہ چھوئے جب تک میں نہ آلوں پھر پہنچے ہم اس چشمہ پر اور ہم سے آگے دو شخص وہاں پہنچ چکے تھے اور چشمہ میں کچھ تھوڑا سا پانی چمک رہا تھا پس پوچھا ان دونوں شخصوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا چھوا تم نے اس کا پانی بولے ہاں سو خفا ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں پر سخت کہا ان کو اور جو منظور تھا اللہ کو وہ کہا ان سے پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی چشمہ سے نکال کر ایک برتن میں اکٹھا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے منہ اور ہاتھ دونوں اس میں دھو کر وہ پانی پھر اس چشمہ میں ڈال دیا پس چشمہ خوب بھر کر بہنے لگا سو پیا لوگوں نے پانی اور پلایا جانوروں کو بعد اس کے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریب ہے اے معاذ اگر زندگی تیری زیادہ ہو تو دیکھے گا تو یہ پانی بھر دے گا باغوں کو۔

دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب جلدی چلنا سفر میں منظور ہوتا تو جمع کر لیتے مغرب اور عشاء کو۔

دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ پڑھیں ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عصر ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ بغیر خوف اور بغیر سفر کے امام مالک نے کہا میرے نزدیک شاید یہ واقعہ بارش کے وقت ہو گا۔

دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جمع کر لیتے حاکموں کے ساتھ مغرب اور عشاء بارش کے وقت میں۔

دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

ابن شہاب نے پوچھا سالم بن عبداللہ بن عمر سے کیا سفر میں ظہر اور عصر جمع کی جائیں بولے کچھ حرج نہیں ہے کیا تم نے عرفات میں نہیں دیکھا ظہر اور عصر کو جمع کر تے ہیں۔

دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

امام زین العابدین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب دن کو چلنا چاہتے ظہر اور عصر کو جمع کر لیتے اور جب رات کو چلنا چاہتے مغرب اور عشاء کو جمع کر لیتے۔

سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان

امیہ بن عبداللہ نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے کہ ہم پاتے ہیں خوف کی نماز اور حضرت کی نماز کو قرآن میں اور نہیں پاتے ہیں ہم سفر کی نماز کو قرآن میں عبداللہ بن عمر نے جواب دیا کہ اے بھتیجے میرے اللہ جل جلالہ نے بھیجا ہمارے طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت میں کہ ہم کچھ نہ جانتے تھے پس کرتے ہیں ہم جس طرح ہم نے دیکھا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو کرتے ہوئے۔

سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان

حضرت ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ کہا انہوں نے نماز دو دو رکعتیں فرض ہوئیں تھیں حضر میں اور سفر میں بعد اس کے سفر میں نماز اپنے حال پر رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔

سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان

یحیی بن سعید نے کہا سالم بن عبداللہ سے کہ تم نے اپنے باپ کو کہاں تک دیر کرتے دیکھا مغرب کی نماز میں سفر میں سالم نے کہا آفتاب ڈوب گیا تھا اور ہم اس وقت ذات الجیش میں تھے پھر نماز پڑھی مغرب کی عقیق میں۔

قصر کی مسافت کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب مدینہ سے نکلتے مکہ کو حج یا عمرہ کے لئے تو قصر کر تے نماز کو ذوالحلیفہ سے

قصر کی مسافت کا بیان

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عبداللہ بن عمر مدینہ سے سوار ہوئے ریم کو جانے کے لئے تو قصر کیا نماز کو راہ میں

قصر کی مسافت کا بیان

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سوار ہوئے مدینہ سے ذات النصب کو تو قصر کیا نماز کو راہ میں۔

قصر کی مسافت کا بیان

عبد اللہ بن عمر سفر کرتے تھے مدینہ سے خیبر کا تو قصر کرتے تھے نماز کو۔

قصر کی مسافت کا بیان

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر قصر کرتے تھے نماز کو پورے ایک دن کی مسافت میں۔

قصر کی مسافت کا بیان

نافع سفر کرتے تھے عبداللہ بن عمر کے ساتھ ایک برید کا تو نہیں قصر کرتے تھے نماز کا۔

قصر کی مسافت کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عباس قصر کرتے تھے نماز کو اس قدر مسافرت میں جتنی مکہ اور طائف کے بیچ میں ہے اور جتنی مکہ اور عسفان کے بیچ میں ہے اور جتنی مکہ اور جدہ کے بیچ میں ہے۔

جب نیت اقامت کی نہ کرے اور یونہی ٹھہر جائے تو قصر کرنے کا بیان

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عرم کہتے تھے میں نماز قصر کیا کرتا ہوں جب تک نیت نہیں کرتا اقامت کی اگرچہ بارہ راتوں تک پڑا رہوں۔

جب نیت اقامت کی نہ کرے اور یونہی ٹھہر جائے تو قصر کرنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر مکہ میں دس رات تک ٹھہرے رہے اور نماز کا قصر کرتے رہے مگر جب امام کے ساتھ پڑھتے تو پوری پڑھ لیتے۔

مسافر جب نیت اقامت کی کرے تو اس کا بیان

سعید بن مسیب کہتے تھے جو شخص نیت کرے چار رات کے رہنے کی تو وہ پورا پڑھے نماز کو۔

مسافر کا امام ہونا یا امام کے پیچھے نماز پڑھنا

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب جب مدینہ سے مکہ آئے تو جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیتے پھر کہتے اے مکہ والو تم اپنی نماز پوری پڑھو کیونکہ میں مسافر ہوں۔

مسافر کا امام ہونا یا امام کے پیچھے نماز پڑھنا

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر امام کے پیچھے منی میں چار رکعتیں پڑھتے تھے اور جب اکیلے پڑھتے تھے تو دو رکعتیں پڑھتے۔

مسافر کا امام ہونا یا امام کے پیچھے نماز پڑھنا

صفوان بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر عیادت کرنے آئے عبداللہ بن صفوان کے پاس تو دو رکعتیں پڑھائیں پھر جب انہوں نے سلام پھیرا ہم اٹھے اور پورا کیا نماز کو۔

سفر میں رات اور دن کو نفل پڑھنے کا بیان اور جانور پر نماز پڑھنے کا بیان

عبد اللہ بن عمر سفر میں فرض کے ساتھ نفل نہیں پڑھتے تھے نہ آگے فرض کے نہ بعد فرض کے مگر رات کو زمین پر اتر کے اور کبھی اونٹ ہی پر نفل پڑھتے تھے اگرچہ منہ اونٹ کا قبلہ کی طرف نہ ہوتا۔

سفر میں رات اور دن کو نفل پڑھنے کا بیان اور جانور پر نماز پڑھنے کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ قاسم بن محمد اور عروہ بن زبیر اور ابوبکر بن عبدالرحمن نفل پڑھا کر تے تھے سفر میں۔

سفر میں رات اور دن کو نفل پڑھنے کا بیان اور جانور پر نماز پڑھنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے بیٹے عبید اللہ کو سفر میں نفل پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے پھر کچھ انکار نہ کر تے تھے ان پر۔

سفر میں رات اور دن کو نفل پڑھنے کا بیان اور جانور پر نماز پڑھنے کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے گدھے پر اور رخ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خیبر کی جانب تھا۔

سفر میں رات اور دن کو نفل پڑھنے کا بیان اور جانور پر نماز پڑھنے کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے تھے اونٹ پر سفر میں جس طرف اونٹ کا منہ ہوتا تھا اسی طرف اپنا منہ کرتے تھے عبداللہ بن دینار نے کہا کہ عبداللہ بن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

سفر میں رات اور دن کو نفل پڑھنے کا بیان اور جانور پر نماز پڑھنے کا بیان

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضرت انس کو نماز پڑھتے تھے سفر میں گدھے پر اور منہ ان کا قبلہ کی طرف نہ تھا رکوع اور سجدہ اشارہ سے کر لیتے تھے بغیر اس امر کے کہ منہ اپنا کسی چیز پر رکھیں۔

چاشت کی نماز کا بیان جس کو اشراق کی نماز بھی کہتے ہیں وقت اس کا آفتاب کے بلند ہونے سے دوپہر تک ہے

ام ہانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس سال مکہ فتح ہوا آٹھ رکعتیں چاشت کی پڑھیں ایک کپڑا اوڑھ کر۔

چاشت کی نماز کا بیان جس کو اشراق کی نماز بھی کہتے ہیں وقت اس کا آفتاب کے بلند ہونے سے دوپہر تک ہے

ام ہانی سے روایت ہے کہ میں گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جس سال فتح ہوا مکہ تو پایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل کرتے ہوئے فاطمہ بیٹی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چھپائے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک کپڑے سے کہا ام ہانی نے سلام کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کون ہے میں نے کہا ام ہانی بیٹی ابو طالب کی تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خوشی ہو ام ہانی کو پھر جب فارغ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل سے کھڑے ہو کر آٹھ رکعتیں پڑھیں ایک کپڑا پہن کر جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے بھائی علی کہتے ہیں میں مار ڈالوں گا اس شخص کو جس کو تو نے پناہ دی ہے وہ شخص فلاں بیٹا ہبیرہ کا ہے پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم نے پناہ دی اس شخص کو جس کو توں نے پناہ دی اے ام ہانی۔ کہا امی ہانی نے اس وقت چاشت کا وقت تھا۔

چاشت کی نماز کا بیان جس کو اشراق کی نماز بھی کہتے ہیں وقت اس کا آفتاب کے بلند ہونے سے دوپہر تک ہے

حضرت ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا نہیں دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز چاشت کی پڑھتے ہوئے کبھی بھی مگر میں پڑھتی ہوں اس کو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ تھا کہ ایک بات کو دوست رکھتے تھے مگر اس کو نہیں کرتے تھے اس خوف سے کہ لوگ بھی اس کو کرنے لگیں اور وہ فرض ہو جائے۔

چاشت کی نماز کا بیان جس کو اشراق کی نماز بھی کہتے ہیں وقت اس کا آفتاب کے بلند ہونے سے دوپہر تک ہے

حضرت ام المومنین حضرت عائشہ نماز ضحی کی آٹھ رکعتیں پڑھا کرتیں پھر کہتیں اگر میری ماں اور باپ جی اٹھیں تو بھی میں ان رکعتوں کو نہ چھوڑوں۔

نماز چاشت کی متفرق حدیثیں

انس بن مالک سے روایت ہے کہ ان کی نانی ملیکہ نے دعوت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پس کھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھانا پھر فرمایا کہ کھڑے ہو تاکہ میں نماز پڑھوں تمہارے واسطے کہا انس نے پس کھڑا ہوا میں ایک بوریا لے کر جو سیاہ ہو گیا تھا بوجہ پرانا ہونے کے تو بھگویا میں نے اس کو پانی سے اور کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر اور صف باندھی میں نے اور یتیم نے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور بڑھیاں نے پیچھے ہمارے تو پڑھائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پھر چلے گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم۔

نماز چاشت کی متفرق حدیثیں

عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ میں گیا عمر بن خطاب کے پاس گرمی کے وقت تو پایا میں نے ان کو نفل پڑھتے ہوئے پس کھڑا ہونے لگا میں یچھے ان کے سو قریب کر لیا انہوں نے مجھ کو اور کھڑا کیا آپ نے برابر داہنی طرف بعد اس کے جب آیا یرفا تو پیچھے ہٹ گیا میں اور صف باندھی ہم دونوں نے پیچھے حضرت عمر کے۔

نمازی کے سامنے سے چلے جانے کا بیان

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہو تو کسی کو اپنے سامنے سے جانے نہ دے اگر کوئی جانا چاہے تو اس کو اشارہ سے منع کرے اگر نہ مانے تو پھر زور سے منع کرے اس لئے کہ وہ شیطان ہے۔

نمازی کے سامنے سے چلے جانے کا بیان

ابو جہیم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر جانے گزر جانے والا سامنے سے نمازی کے کتنا عذاب ہے اس پر تو چالیس (دن، یا مہینے، یابرس) کھڑا رہے تو بہتر معلوم ہو اس کو گزر جانے سے شک ہے اس روایت میں ابو النصر کو۔

نمازی کے سامنے سے چلے جانے کا بیان

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ کعب الاحبار نے کہا جو شخص گزرتا ہے نمازی کے سامنے سے اگر اس کو معلوم ہو عذاب اس فعل کا تو اگر دھنس جائے زمین میں تو اچھا معلوم ہو اس کو سامنے سے گزر جانے سے۔

نمازی کے سامنے سے چلے جانے کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ تھے عبداللہ بن عمر ناپسند سمجھتے تھے یہ کہ وہ گزرے عورتوں کے آگے سے اور وہ نماز پڑھ رہی ہوں۔

نمازی کے سامنے سے چلے جانے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نہیں گزرتے تھے نماز میں کسی کے سامنے سے اور نہ اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے دیتے تھے۔

نمازی کے سامنے سے گزر جانے کی اجازت

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں گدھی پر سوار ہو کر آیا اور سن میرا قریب بلوغ کے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھا رہے تھے منی میں تو گزر گیا میں تھوڑا صف کے سامنے سے پھر اترا میں اور چھوڑ دیا گدھی کو وہ چرتی رہی اور میں صف میں شریک ہو گیا بعد نماز کے کسی نے کچھ برا نہ مانا۔

نمازی کے سامنے سے گزر جانے کی اجازت

امام مالک کو پہنچا سعد بن ابی وقاص صفوں کے سامنے سے گزر جاتے تھے نماز میں۔

نمازی کے سامنے سے گزر جانے کی اجازت

امام مالک کو پہنچا حضرت علی سے کہتے تھے نمازی کے سامنے سے کوئی چیز بھی گزر جائے تو نماز اس کی نہیں ٹوٹتی۔

نمازی کے سامنے سے گزر جانے کی اجازت

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کہ نمازی کے سامنے سے کوئی چیز بھی گزر جائے مگر اس کی نماز نہیں ٹوٹتی۔

سفر میں سترہ کا بیان

امام مالک کو پہنچا عبداللہ بن عمر اپنے اونٹ کو سترہ بنا لیتے جب نماز پڑھتے سفر میں

سفر میں سترہ کا بیان

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ نماز پڑھتے تھے صحرا میں بغیر سترہ کے۔

نماز میں کنکروں کا ہٹانا

ابو جعفر قاری سے روایت ہے کہ دیکھا میں نے عبداللہ بن عمر کو جب جھکتے تھے سجدہ کرنے کے لئے اور اپنے سجدہ کے مقام سے ہلکا سا کنکریوں کو ہٹا دیتے تھے۔

نماز میں کنکروں کا ہٹانا

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ پہنچا ان کو ابوذر کہتے تھے کنکریوں کا ایک بار ہٹانا درست ہے اور نہ ہٹانا سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

صفیں برابر کرنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب لوگوں کو صفیں برابر کرنے کا حکم دیتے تھے جب وہ لوگ لوٹ کر خبر دیتے کہ صفیں برابر ہو گئیں اس وقت تکبیر کہتے۔

صفیں برابر کرنے کا بیان

مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ تھا میں عثمان بن عفان کے ساتھ اتنے میں تکبیر ہوئی نماز کی اور میں ان سے باتیں کرتا رہا اس لئے کہ میرا کچھ وظیفہ مقرر کریں اور وہ برابر کر رہے تھے کنکریوں کو اپنے جوتوں سے یہاں تک کہ آن پہنچے وہ لوگ جن کو صفیں برابر کرنے کے لئے مقرر کیا تھا اور انہوں نے خبر دی ان کو اس بات کی صفیں برابر ہو گئیں تو کہا مجھ سے کہ شریک ہو جا صف میں پھر تکبیر کہی۔

نماز میں داہنا ہاتھ بائیں پر رکھنا

عبدالکریم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا نبوت کی باتوں میں سے یہ بات ہے کہ جب تجھے حیا نہ ہو تو جو جی چاہے کر اور نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا اور روزہ جلدی افطار کرنا اور سحری کھانے میں دیر کرنا۔

نماز میں داہنا ہاتھ بائیں پر رکھنا

سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ لوگوں کو حکم کیا جاتا تھا نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا کہا ابو حازم نے کہا میں سمجھتا ہوں سہل اس حدیث کو مرفوع کہتے تھے۔

صبح کی نماز میں قنوت پڑھنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر قنوت نہیں پڑھتے تھے کسی نماز میں

پاخانہ یا پیشاب کی حاجت کے وقت نماز نہ پڑھنا

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ارقم امامت کرتے تھے اپنے لوگوں کی تو ایک دن نماز تیار ہوئی لیکن آپ چلے گئے حاجت کو پھر آئے اور بولے کو سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے جب قصد کرے کوئی تم میں سے پائخانہ کا تو پہلے پائخانہ کر لے پھر نماز پڑھے۔

پاخانہ یا پیشاب کی حاجت کے وقت نماز نہ پڑھنا

حضرت عمر نے فرمایا کہ کوئی تم میں نماز نہ پڑھے جب وہ روکے پیشاب یا پائخانہ کو۔

نماز کے انتظار کرنے کا اور نماز کا جانے کا ثواب

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرشتے دعا کرتے ہیں کہ اس شخص کے لئے جو بیٹھا رہے اس جگہ میں جہاں وہ نماز پڑھ چکا ہے جب تک اس کو حدث نہ ہو کہتے ہیں اے اللہ بخش دے اس کو رحم کر اس پر۔

نماز کے انتظار کرنے کا اور نماز کا جانے کا ثواب

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز ہی میں رہتا ہے وہ شخص جس کو نماز گھر میں جانے سے روکے رہے۔

نماز کے انتظار کرنے کا اور نماز کا جانے کا ثواب

ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے تھے جو شخص صبح کو یا سہ پہر کو جائے مسجد میں نیک امر سیکھنے کو یا سکھانے کو پھر لوٹ آئے اپنے گھر میں تو گویا جہاد سے غنیمت لے کر لوٹا۔

نماز کے انتظار کرنے کا اور نماز کا جانے کا ثواب

ابوہریرہ کہتے تھے جو شخص تم میں سے نماز پڑھ کر وہیں بیٹھا رہے تو ملائکہ دعا کرتے ہیں اس کے لئے یا اللہ بخش دے اس کو رحم کر اس پر اگر کھڑا ہو گیا اس جگہ سے لیکن بٹیھا رہا مسجد میں نماز کے انتظار میں تو گویا وہ نماز ہی میں ہے جب تک نماز پڑھے۔

نماز کے انتظار کرنے کا اور نماز کا جانے کا ثواب

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا نہ بتاؤں میں تم کو وہ چیزیں جو دور کرتی ہیں گناہوں کو اور بڑھاتی ہیں درجوں کو پورا کرنا وضو کا تکلیف کے وقت اور قدم بہت ہونا مسجد تک اور انتظار کرنا نماز کا بعد ایک نماز کے یہی رباط ہے یہی رباط ہے یہی رباط۔

نماز کے انتظار کرنے کا اور نماز کا جانے کا ثواب

سعید بن مسیب نے کہا کہتے ہیں مسجد سے بعد اذان کے جو نکل جائے اور پھر آنے کا اردہ نہ ہو تو وہ منافق ہے۔

جو شخص مسجد میں جائے تو بغیر دو رکعتیں نفل پڑھے ہوئے نہ بیٹھے

ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے۔

جو شخص مسجد میں جائے تو بغیر دو رکعتیں نفل پڑھے ہوئے نہ بیٹھے

ابو النضر سے روایت ہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہا مجھ سے میں نہیں دیکھتا تمہارے صاحب یعنی عمر بن عبید اللہ کو تحیۃالمسجد پڑھتے ہوئے جب آتے ہیں مسجد کو تو بیٹھ جاتے ہیں بغیر پڑھے ہوئے ابو نضر نے کہا کہ ابو سلمہ عیب کرتے تھے اس امر کا عمر بن عبید اللہ پر۔

جس چیز پر سجدہ کرے اس پر دونوں ہاتھ رکھے

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب سجدہ کرتے تھے تو جس چیز پر سجدہ کرتے تھے اسی پر ہاتھ رکھتے تھے نافع نے کہا کہ سخت جاڑے کے دن میں نے عبداللہ بن عمر کو دیکھا اپنے ہاتھ نکالتے تھے جبہ سے اور رکھتے تھے ان کر پتھریلی زمین پر۔

جس چیز پر سجدہ کرے اس پر دونوں ہاتھ رکھے

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص پیشانی زمین پر رکھے تو اپنے ہاتھ بھی زمین پر رکھے پھر منہ اٹھائے تو ہاتھ بھی اٹھائے اس لئے کہ ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں جیسے منہ سجدہ کرتا ہے۔

نماز میں کسی طرف دیکھنا یا دستک دینا وقت حاجت کے

سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گئے بنی عمرو بن عوف کے پاس ان میں صلح کرنے کو اور وقت آگیا نماز کا تو موذن ابوبکر صدیق کے پاس آ کر بولا اگر تم نماز پڑھاؤ تو میں تکبیر کہوں بولے اچھا پس شروع کی نماز ابوبکر نے اور آ گئے رسول اللہ اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم صفوں کو چیر کر پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے پس دستک دی لوگوں نے مگر ابوبکر نماز میں کسی طرف دھیان نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے بہت زور سے دستکیں دینا شروع کیں تب دیکھا ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور ارادہ کیا پیچھے ہٹنے کا پس اشارہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی جگہ پر رہو تو دونوں ہاتھ اٹھا کر ابوبکر نے خدا کا شکر کیا اس بات پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو امام رہنے کا حکم دیا پھر پیچھے ہٹ آئے ابوبکر اور آگے بڑھ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور نماز پڑھا کر فارغ ہوئے پھر فرمایا اے ابوبکر تم کیوں اپنی جگہ پر کھڑے نہ رہے جب میں نے تم کو اشارہ کیا تھا ابوبکر نے کہا بھلا ابو قحافہ کے بیٹے کو یہ بات پہنچتی ہے کہ نماز پڑھاۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہوتے ہوئے تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے تم نے اس قدر دستکیں کیوں بجائیں جس شخص کو نماز میں کچھ حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہے لوگ اس طرف دیکھ لیں گے اور دستک دینا عورتوں کے لئے ہے

نماز میں کسی طرف دیکھنا یا دستک دینا وقت حاجت کے

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز میں التفات نہیں کرتے تھے۔

نماز میں کسی طرف دیکھنا یا دستک دینا وقت حاجت کے

ابو جعفر قاری سے روایت ہے کہ میں پڑھتا تھا اور عبداللہ بن عمر میرے پیچھے تھے مجھے خبر نہ تھی میں نے ان کو دیکھا تو دبا د یا انہوں نے مجھ کو۔

جو شخص آیا اور امام کو رکوع میں پایا وہ کیا کرے

ابو امامہ بن سہل سے روایت ہے کہ زید بن ثابت مسجد میں آئے تو امام کو رکوع میں پایا پس رکوع کر لیا پھر آہستہ چل کر صف میں مل گئے۔

جو شخص آیا اور امام کو رکوع میں پایا وہ کیا کرے

امام مالک کو پہنچا عبداللہ بن مسعود سے کہ وہ رکوع میں آہتسہ چلتے تھے صف میں مل جانے کو۔

دورد شریف کے بیان میں

ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیونکر درود بھیجیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہو اے پروردگار رحمت اتار اپنی محمد اور ان کی بیبیوں اور آل پر جیسے رحمت کی تو نے ابراہیم پر اور برکت اتار محمد اور ان کی بیبیوں پر اور آل پر جیسے تو نے برکت اتاری ابراہیم کی اولاد پر بے شک تو تعریف کے لائق اور بڑا ہے۔

دورد شریف کے بیان میں

ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے ہمارے پاس سعد بن عبادہ کے مکان میں تو کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بشیر بن سعد نے حکم کیا ہم کو اللہ جل جلالہ نے درود بھیجنے کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر تو کیوں کر درود بھیجیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر پس چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہاں تک کہ ہم کو تمنا ہوئی کہ کاش نہ پوچھتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہو اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم فی العالمین انک حمید مجید اور سلام بھیجنے کی ترکیب جیسے تم جان چکے ہو۔

دورد شریف کے بیان میں

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو کھڑے ہوتے تھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر درود بھیجتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ابوبکر اور عمر پر۔

متفرق حدیثیں نماز کی

ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے ظہر کی اول دو رکعتیں اور بعد ظہر کے دو رکعتیں اور بعد مغرب کے دو رکعتیں اپنے گھر میں اور بعد عشا کے دو رکعتیں اور نہیں پڑھتے تھے بعد جمعہ کے مسجد میں یہاں تک کہ گھر میں آتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔

متفرق حدیثیں نماز کی

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم دیکھتے ہو میرا منہ قبلہ کی طرف قسم خدا کی مجھ سے چھپا نہیں ہے خشوع تمہارا نماز میں اور رکوع تمہارا میں دیکھتا ہوں تم کو پیٹھ کے پیچھے سے۔

متفرق حدیثیں نماز کی

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آتے تھے قبا میں سوار ہو کر اور پیدل۔

متفرق حدیثیں نماز کی

نعمان بن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا رائے ہے تمہاری اس شخص میں جو شراب پئے اور چوری کرے اور زنا کرے اور تھا یہ امر قبل اترنے حکم کے ان کے باب میں تو کہا صحابہ نے اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ برے کام ہیں ان میں سزا ضرور ہے اور سب چوریوں میں بری نماز کی چوری ہے پوچھا صحابہ نے نماز کا چور کیونکر ہے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا چور وہ ہے جو رکوع اور سجدہ کو پورا نہ کرے۔

متفرق حدیثیں نماز کی

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ ایک حصہ اپنی نماز میں سے اپنے گھروں میں ادا کرو۔

متفرق حدیثیں نماز کی

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے بیمار کو اگر سجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو سر سے اشارہ کرے لیکن کوئی چیز اپنی پیشانی کے سامنے اونچی نہ رکھے۔

متفرق حدیثیں نماز کی

ربیعہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب آتے مسجد میں اور معلوم ہوتا کہ جماعت ہو چکی ہے تو فرض شروع کرتے اور سنتیں نہ پڑھتے۔

متفرق حدیثیں نماز کی

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر گزرے ایک شخص پر اور وہ نماز پڑھ رہے تھے تو سلام کیا اس کو اس نے جواب دیا زبان سے پھر لوٹے عبداللہ بن عمر اور کہا اس سے جب کوئی سلام کرے تم پر تم نماز پڑھتے ہو تو زبان سے جواب نہ دو بلکہ ہاتھ سے اشارہ کر دو۔

متفرق حدیثیں نماز کی

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص بھول جائے نماز کو پھر یاد کرے اور وہ دوسری نماز میں امام کے پیچھے ہو تو جب امام سلام پھیرے تو چاہئے کہ اس نماز کو پڑھ کر جو نماز امام کے ساتھ پڑھی ہے اس کا اعادہ کرے۔

متفرق حدیثیں نماز کی

واسع بن حبان سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور عبداللہ بن عمر قبلہ کی طرف پیٹھ کئے ہوئے بیٹھے تھے تو جب نماز سے فارغ ہوا بائیں طرف سے مڑ کر ان کے پاس گیا تو عبداللہ بن عمر نے کہا تو داہنی طرف سے مڑ کر کیوں نہ آیا میں نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر بائیں طرف سے مڑ کر چلا آیا عبداللہ نے کہا تو نے اچھا کیا ایک صاحب کہتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکے تو داہنی طرف سے مڑ کر مگر تو جب نماز پڑھے تو جدھر سے چاہے مڑ کر جا داہنی طرف سے یا بائیں طرف سے۔

متفرق حدیثیں نماز کی

عبد اللہ بن عمر بن العاص سے ایک شخص نے پوچھا کیا نماز پڑھوں میں اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ میں نے کہا نہیں لیکن پڑھ لے بکری کے تھانوں میں۔

متفرق حدیثیں نماز کی

سعید بن مسیب نے کہا کہ وہ کون سی نماز ہے جس میں ہر رکعت کے بعد بیٹھنا پڑے پھر خود ہی کہا وہ نماز مغرب کی ہے جب ایک رکعت فوت ہو جائے امام کے ساتھ۔

جامع الصلوٰۃ

ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے تھے اپنی نواسی امامہ کو جو بیٹی زینب کی تھیں ابو العاص سے اٹھائے ہوئے تو جب سجدہ کرتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بٹھا دیتے ان کو زمین پر جب کھڑے ہوتے اٹھا لیتے۔

جامع الصلوٰۃ

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آتے جاتے رہتے ہیں فرشتے تمہارے پاس رات کے جدا ہونے کے وقت اور دن کے جدا ہونے کے وقت اور جمع ہو جاتے ہیں سب عصر کی اور فجر کی نماز میں پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے ساتھ رہتے ہیں چڑھ جاتے ہیں اور پس پوچھتا ہے ان سے پروردگار ( حالانکہ وہ خوب جانتا ہے) کس حال میں چھوڑا تم نے میرے بندوں کو؟ کہتے ہیں ہم نے چھوڑا ان کو نماز میں، جب ہم گئے تھے جب بھی نماز پڑھتے تھے۔

جامع الصلوٰۃ

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا مرض موت میں ابوبکر کو نماز پڑھانے کا تو کہا میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ابوبکر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو روتے روتے ان کی آواز نہ نکلے گی تو حکم کیجئے عمر کو نماز پڑھانے کا میں نے حفصہ سے کہا تم کہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ابوبکر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ میں کھڑے ہوں گے تو روتے روتے ان کی آواز نہ نکلے گی پس حکم کیجئے عمر کو نماز پڑھانے کا سو کہا حضرت نے تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم یوسف کی ساتھی عورتوں کی طرح ہو کہو ابوبکر سے نماز پڑھانے کو پس کہا حفصہ نے عائشہ سے تم سے مجھے بھلائی نہ ہوئی۔

جامع الصلوٰۃ

عبید اللہ بن عدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے لوگوں میں، اتنے میں ایک شخص آیا اور کان میں کچھ بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے لگا ہم کو خبر نہیں ہوئی کیا کہتا ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پکار کر بول اٹھے تب معلوم ہوا وہ شخص حضرت سے ایک منافق کے قتل کی اجازت چاہتا تھا تو جب پکار اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو فرمایا کیا وہ شخص گواہی نہیں دیتا اس امر کی کہ کوئی معبود حق نہیں ہے سوا خدا کے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم بے شک اس کے رسول ہیں اس شخص نے کہا ہاں مگر اس کی گواہی کا کچھ اعتبار نہیں تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا وہ نماز نہیں پڑھتا بولا ہاں پڑھتا ہے لیکن اس کی نماز کا کچھ اعتبار نہیں ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں کے قتل سے منع کیا ہے مجھ کو اللہ نے۔

جامع الصلوٰۃ

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اے پروردگار مت بنا قبر میری کو بت، کہ لوگ اس کو پوجیں بہت بڑا غضب اللہ کا ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔

جامع الصلوٰۃ

محمود بن لبید انصاری سے روایت ہے کہ عتبان بن مالک امامت کرتے تھے اپنی قوم کی اور ان کی بینائی میں ضعف تھا کہا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کبھی اندھیرا یا پانی یا بہاؤ ہوتا ہے اور میری بینائی میں فرق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ دیجئے تاکہ میں اس جگہ کو اپنا مصلی بناؤں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور کہا کس جگہ تم میری نماز پڑھنا پسند کرتے ہو انہوں نے ایک جگہ بتا دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں نماز پڑھ دی۔

جامع الصلوٰۃ

عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چپ لیٹے ہوئے تھے مسجد میں ایک پاؤں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرے پاؤں پر تھا

جامع الصلوٰۃ

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان ایسا کیا کرتے تھے

جامع الصلوٰۃ

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے کہا ایک شخص سے تم ایسے زمانے میں ہو کہ عالم اس میں بہت ہیں صرف لفظ پڑھنے والے کم ہیں عمل زیادہ کیا جاتا ہے قرآن کے حکموں پر اور لفظوں کا ایسا خیال نہیں کیا جاتا پوچھنے والے کم ہیں جواب دینے والے بہت ہیں یا بھیک مانگنے والے کم ہیں اور دینے والے بہت ہیں لمبا کرتے ہیں نماز کو اور چھوٹا کرتے ہیں خطبہ کو نیک عمل پہلے کرتے ہیں اور نفس کی خواہش کو مقدم نہیں کرتے اور قریب ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کم ہوں گے عالم اس وقت میں الفاظ پڑھنے والے بہت ہوں گے یاد کئے جائیں گے الفاظ قرآن کے اور اس کے حکموں پر عمل نہ کیا جائے گا پوچھنے والے اور مانگنے والے بہت ہوں گے اور جواب دینے والے اور دینے والے بہت کم ہوں گے لمبا کریں گے خطبہ کو اور چھوٹا کریں گے نماز کو اپنی خواہش نفس پر چلیں گے اور عمل نیک نہ کریں گے۔

جامع الصلوٰۃ

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ پہنچی ان کو حدیث کہ قیامت کے دن پہلے نماز دیکھی جائے گی اگر نماز قبول ہو گئی تو پھر اور عمل اس کے دیکھے جائیں گے ورنہ کوئی عمل پھر نہ دیکھا جائے گا۔

جامع الصلوٰۃ

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ کام بہت پسند تھا جو ہمیشہ آدمی اس کو کرتا رہے۔

جامع الصلوٰۃ

سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ دو بھائی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ان میں سے ایک دوسرے سے چالیس دن پہلے مر گیا تو لوگوں نے تعریف کی اس کی جو پہلے مرا تھا تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا دوسرا بھائی مسلمان نہ تھا بولے ہاں مسلمان تھا وہ بھی کچھ برا نہ تھا تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم کیا جانو دوسرے کی نماز نے اس کو کس درجہ پر پہنچایا نماز کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک نہر میٹھے پانی کی بہت گہری کسی نے دروازے پر بہتی ہو اور وہ اس میں پانچ وقت غوطہ لگایا کرے کیا اس کے بدن پر کچھ میل رہے گی پھر تم کیا جانو کہ نماز نے دوسرے بھائی کے مرتبہ کس درجہ کر پہنچایا۔

جامع الصلوٰۃ

امام مالک کو پہنچا کہ عطاء بن یسار جب دیکھتے کسی شخص کو جو سودا بیچتا ہے مسجد میں پھر بلاتے اس کو پھر پوچھتے اس سے کیا ہے تیرے پاس اور تو کیا چاہتا ہے اگر وہ بولتا کہ میں بیچنا چاہتا ہوں تو کہتے جاؤ دنیا کے بازار میں یہ تو آخرت کا بازار ہے۔

جامع الصلوٰۃ

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر نے ایک جگہ بنا دی مسجد کے کونے میں اس کا نام بطیحا تھا اور کہہ دیا تھا کہ جو کوئی بک بک کرنا چاہے یا اشعار پڑھنا چاہے یا پکارنا چاہے تو اس جگہ کو چلا جائے۔

جامع الصلوٰۃ

طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے کہ آیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نجد کا رہنے والا اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی لیکن اس کی بات سمجھ میں نہ آتی تھی یہاں تک کہ قریب آیا تو وہ پوچھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اسلام کے معنی فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ نمازیں پڑھنا رات دن میں تب وہ شخص بولا سوا ان کے اور بھی کوئی نماز مجھ پر ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں مگر نفل پڑھنا چاہے تو تو پڑھ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور روزے رمضان کے بولا سوا ان کے اور بھی کوئی روزہ مجھ پر ہے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں مگر نفل رکھے تو پھر ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زکوٰۃ کا وہ شخص بولا اس کے سوا بھی کچھ صدقہ مجھ پر فرض ہے فرمایا نہیں مگر اگر اللہ چاہے تو دے پس پیٹھ موڑ کر چلا وہ شخص تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیڑا اس کا پار ہوا اگر سچ بولا۔

جامع الصلوٰۃ

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب آدمی سو جاتا ہے تو باندھتا ہے شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں ہر گرہ مار کر کہتا جاتا ہے کہ ابھی تجھ کو بڑی رات باقی ہے تو سو رہ پھر اگر جاگتا ہے آدمی اور یاد کرتا ہے اللہ جل جلالہ کو کھل جاتی ہے ایک گرہ اگر وضو کرتا ہے کھل جاتی ہے دوسری گرہ پھر اگر نماز پڑھتا ہے صبح کی کھل جاتی ہے تیسری گرہ پس رہتا ہے وہ شخص اس دن خوش دل اور خوش مزاج ورنہ رہتا ہے بد نفس مجہول۔