کہا مالک نے ہر عورت کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہو گی اگر وہ مدبر ہے یا مکاتبہ ہے یا معتقہ الی اجل ہے یا مخدمہ ہے یا معتقۃ البعض ہے یا گرو ہے یا ام ولد ہے۔ ہر ایک کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہو گی وہ آزاد تو وہ آزاد اور وہ لونی ہو جائے گی تو وہ بھی مملوک ہو جائے گی۔
کہا مالک نے اگر لونڈی حالت حمل میں مدبر ہوئی تو اس کا بچہ بھی مدبر ہو جائے گا اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنی حاملہ لونڈی کو آزاد کر دیا اور اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ حاملہ ہے تو اس کا بچہ بھی آزاد ہو جائے گا۔
کہا مالک نے اسی طرح اگر ایک شخص حاملہ لونڈی کو بیچے تو وہ لونڈی اور اس کے پیٹ کا بچہ مشتری کا ہو گا خواہ مشتری نے اس کی شرط لگائی ہو یا نہ لگائی ہو۔
کہا مالک نے اسی طرح بائعے کے لئے درست نہیں کہ لونڈی کو بیچے اور اس کا حمل بیچے کیونکہ اس میں دھوکا ہے شاید بچہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص پیٹ کے بچے کو بیچے اس کی بیع درست نہیں۔
کہا مالک نے اگر مدبر اپنے مولیٰ سے کہے تو مجھے ابھی آزاد کر دے میں تجھے پچاس دینار قسط وار دیتا ہوں مولیٰ کہے اچھا تو آزاد ہے تو مجھے پچاس دینار پانچ برس میں دے دینا ہر سال دس دینار کے حساب سے مدبر اس پر راضی ہو جائے بعد اس کے دو تین دن میں مولیٰ مر جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا اور پچاس دینار اس پر قرض رہیں گے اور اس کی گواہی جائز ہو جائے گی اور اس کی حرمت اور میراث اور حدود پورے ہو جائیں گے اور مولیٰ کے مر جانے سے ان پچاس دینار میں کچھ کمی نہ ہو گی۔
کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مدبر کرے پھر مر جائے اور اس کا مال کچھ موجود ہو کچھ غالب ہو جس قدر موجود ہو اس کے ثلث میں سے مدبر کو روک رکھیں گے اور اس کی کمائی کو بھی جمع کرتے جائیں گے یہاں تک کہ جو مال غائب ہے وہ بھی نکل آئے پھر اگر مولیٰ کے کل مال کے ثلث میں سے مدبر آزاد ہو سکے گا تو آزاد ہو جائے اور مدبر کا مال اور کمائی اسی کو ملے گی اور جو ثلث میں سے کل آزاد نہ ہو سکے گا تو ثلث ہی کی مقدار آزاد ہو جائے گا اس کا مال اسی کے پاس رہے گا۔
کہا مالک نے آزادی کی جتنی وصیتیں ہیں صحت میں ہوں یا مرض میں ان میں رجوع اور تغیر کر سکتا ہے مگر تدبیر میں جب کسی کو مدبر کر دیا اب اس کے فسخ کا اختیار نہ ہو گا۔
کہا مالک نے جس لونڈی کے آزاد کرنے کی وصیت کی اور اس کو مدبر نہ کیا تو اس کی اولاد اپنی ماں کے ساتھ آزاد نہ ہو گی اس لیے کہ مولیٰ کا اس وصیت کے بدل ڈالنے کا اختیار تھا نہ ان کی ماں کے لیے آزادی ثابت ہوئی تھی بلکہ یہ ایسا ہے کوئی کہے اگر فلانی لونڈی میرے مرنے تک رہے تو وہ آزاد ہے پھر وہ اس کے مرنے تک رہی تو آزاد ہو جائے گی مگر مولیٰ کو اختیار ہے کہ موت سے پیشتر اس کو یا اس کی اولاد کو بیچے تو آزادی کی وصیت اور تدبیر کی وصیت میں سنت قدیمہ کی رو سے بہت فرق ہے اگر وصیت مثل تدبیر کے ہوتی تو کوئی شخص اپنی وصیت میں تغیر و تبدل کا اختیار نہ رکھتا۔
کہا مالک نے جو شخص اپنے چند غلاموں کو صحت کی حالت میں مدبر کرے اور سوا ان کے کچھ مال نہ رکھتا ہو اگر اس نے اس طرح مدبر کیا کہ پہلے ایک کو پھر دوسرے کو تو جس کو پہلے مدبر کیا وہ ثلث مال میں سے آزاد ہو جائے گا پھر دوسرا پھر تیسرا اسی طرح جب تک ثلث مال میں گنجائش ہو اگر سب کو ایک ساتھ مدبر کیا ہے ایک ہی کلام میں تو ہر ایک ثلث آزاد ہو جائے گا جب سب کو بیماری میں مدبر کیا۔
کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور سوا اس کے کچھ مال نہ تھا پھر مولیٰ مر گیا اور مدبر کے پاس مال ہے تو ثلث مدبر آزاد ہو جائے گا اور مال اس کا اسی کے پاس رہے گا۔
کہا مالک نے جس مدبر کو مولیٰ مکاتب کر دے پھر مولیٰ مر جائے اور سوا اس کے کچھ مال نہ چھوڑے تو اس کا ایک ثلث آزاد ہو جائے گا اور بدل کتابت میں سے بھی ایک ثلث گھٹ جائے گا اور دو ثلث مدبر کو ادا کرنا ہوں گے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی لونڈیوں کو مدبر کیا اور اس سے صحبت بھی کرتے تھے۔
سعید بن مسیب کہتے تھے جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے تو اس سے وطی کر سکتا ہے مگر بیع یا ہبہ نہیں کر سکتا اور اس کی اولاد بھی مثل اپنی ماں کے ہوں گی۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مدبر کو مولیٰ نہ بیچے اور نہ کسی طرح سے اس کی ملک منتقل کرے اور مولیٰ اگر قرضدار ہو جائے تو اس کے قرض خواہ مدبر کو بیچ نہیں سکتے جب تک اس کا مولیٰ زندہ ہے اگر مر جائے اور قرض دار نہ ہو تو ثلث مال میں کل مدبر آزاد ہو جائے گا کیونکہ اگر کل مال میں سے آزاد ہو تو سراسر مولیٰ کا فائدہ ہے کہ زندگی بھر اس سے خدمت لی پھر مرتے وقت آزادی کو بھی ثواب کما لیا اور ورثاء کا بالکل نقصان ہے اگر سوا اس مدبر کے مولیٰ کا کچھ مال نہ ہو تو ثلث مدبر آزاد ہو جائے گا اور دو ثلث وارثوں کا حق ہو گا اگر مدبر کا مولیٰ مر جائے اور اس قدر مقروض ہو کہ مدبر کی کل قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ تو مدبر کو بیچیں گے کیونکہ مدبر جب آزاد ہوتا ہے کہ ثلث مال میں گنجائش ہو اگر قرضہ غلام کے نصف قیمت کے برابر ہو تو نصف مدبر کو قرضہ ادا کرنے کے لیے بیچیں گے اور نصف جو باقی ہے اس کا ایک ثلث آزاد ہو جائے گا۔
کہا مالک نے مدبر کا بیچنا درست نہیں اور نہ کسی کو اس کا خریدنا درست ہے مگر مدبر اپنا آپ مولیٰ سے خرید سکتا ہے یہ جائز ہے اور یہ بھی جائز کہ کوئی شخص مدبر کے مولیٰ کو کچھ مالک دے تاکہ وہ اپنے مدبر کو آزاد کر دے مگر ولاء اس کے مولیٰ کو ملے گی جس نے اس کو مدبر کیا تھا۔
کہا مالک نے جو غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور یہ شخص ان میں سے اپنے حصے کو مدبر کر دے تو اس کی قیمت لگا دیں گے اگر جس شخص نے مدبر کیا ہے اس نے دوسرے شریک کا بھی حصہ خرید لیا تو کل غلام مدبر ہو جائے گا اگر نہ خریدا تو اس کی تدبیر باطل ہو جائے گی مگی جس صورت میں جس نے مدبر نہیں کیا وہ اپنے شریک سے قیمت لینے پر راضی ہو جائے اور قیمت لے لے تو غلام مدبر ہو جائے گا۔
کہا مالک نے اگر نصرانی اپنے نصرانی غلام کو مدبر کرے بعد اس کے غلام مسلمان ہو جائے تو اس کو مولیٰ سے الگ کر دیں گے۔
عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا کہ جب مدبر کسی شخص وہ اس سے خدمت لے اپنے زخم کی دیت کے بدلے میں جب اس کی دیت ادا ہو جائے اور مولی نہ مرا ہو تو پھر اپنے مولی کے پاس چلا آئے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ مدبر اگر کسی شخص کو زخمی کرے پھر اس کا مولیٰ مر جائے اور سوائے اس کے اور کچھ مال نہ ہو تو ثلث مدبر آزاد ہو جائے گا پھر زخم کی دیت کے تین حصے کریں گے ایک حصہ تو مدبر کے اس ثلث پر ڈالا جائے گا جو آزاد ہو گیا اور دو حصے ان دو ثلث پر واقع ہوں گے جو ورثہ کے ہاتھ میں ہیں اب ورثاء کو اختیار ہو گا اگر چاہیں تو ان دو ثلث کو بھی مدبر کے مجروح کے حوالہ کریں اگر چاہیں تو دیت کے دو ثلث ادا کریں اور مدبر کے دو ثلث رکھ چھوڑیں کیونکہ اس زخم کی دیت غلام کی جنایت کے سبب سے ہے اور سید پر دین نہیں ہے تو غلام کے اس قصور سے سید نے جو کام کیا تھا آزادی یا تدبیر باطل نہ ہو گا۔ اگر مولیٰ اس صورت میں قرضدار بھی ہو تو مدبر میں سے موافق دیت کے اور قرضہ کے بیچ کے پہلے دیت کو ادا کریں گے پھر دین کو ادا کریں گے پھر جو کچھ حصہ غلام کا بیچ رہے گا اس کا ثلث آزاد ہو جائے گا اور دو ثلث اس کے وارثوں کو ملیں گے کیونکہ غلام کی جنایت کا تاوان مولیٰ کے قرض پر مقدم ہے اس کی مثال یہ ہے ایک شخص مر گیا اور ایک غلام مدبر چھوڑ گیا جس کی قیمت ڈیڑھ سو دینار ہے اور اس غلام نے ایک شخص کو زخمی کیا تھا جس کے زخم کی دیت پچاس دینار ہے اور سید پر بھی پچاس دینار کا قرض ہے تو پہلے مدبر کی قیمت میں سے دیت کے پچاس دینار ادا کریں گے پھر قرض کے پچاس دینار ادا کریں گے اب جو کچھ بچ رہا اس کا ایک ثلث آزاد ہو جائے گا اور دو ثلث وارثوں کو ملیں گے تو دیت قرض سے مقدم ہے اور جو وصیت ہے مال تو تدبیر جائز نہ ہو گی۔ جب سید پر دین ہو جو ہو بلکہ تدبیر ایک وصیت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین) اور دین مقدم ہے وصیت پر اجمالا۔
کہا مالک نے اگر مدبر ثلث مال میں سے آزاد ہو سکتا ہے تو آزاد ہو جائے گا اور زخم کی دیت اس پر دین رہے گی اگرچہ یہ پوری دیت ہو بعد آزادی کے اس سے مؤاخذہ کیا جائے گا جب سید پر کچھ دین نہ ہو۔
کہا مالک نے مدبر جب کسی شخص کو زخمی کرے اور مولیٰ اس کو مجروح کے حوالے کر دے پر مولیٰ قرضدار ہو کر مر جائے اور سوائے اس کے کچھ مال نہ چھوڑے پھر وارث یہ کہیں کہ ہم مدبر کو مجروح کے حوالے کرتے ہیں اور قرض خواہ یہ کہے کہ مدبر اگر مجھ کو ملے تو دیت سے زیادہ میں قیمت دیتا ہوں اس صورت میں وہ مدبر قرض خواہ کے حوالے کیا جائے گا اور جس قدر قرض خواہ نے دیت سے زیادہ دیا ہے اتنا قرضہ مولیٰ کے ذمے سے ساقط ہو گا اگر دیت سے زیادہ نہ دے تو قرض خواہ اس مدبر کو نہ لے سکے گا۔
کہا مالک نے اگر مدبر مالدار ہو اور کسی شخص کو زخمی کرے پھر مولیٰ دیت دینے سے انکار کرے تو جو شخص زخمی ہوا ہے وہ مدبر کا مال اپنی دیت میں لے گا اگر اس کی دیت اسی مال میں پوری ہو گئی تو مدبر اس کے مولیٰ کے حوالے کرے گا ورنہ جس قدر دیت باقی رہ گئی ہے اسی قدر خدمت مدبر سے لے گا۔
کہا مالک نے اگر ام ولد کسی شخص کو زخمی کرے تو دیت اس کے مولیٰ کو دینا ہو گی مگر جس صورت میں دیت ام ولد کی قیمت سے زیادہ ہو تو مولیٰ پر لازم نہیں کہ کہ ام ولد کی قیمت سے زیادہ دے اس لیے کہ اگر کوئی لونڈی یا غلام جنایت کرے تو مولیٰ اس پر اس سے زیادہ لازم نہیں کہ اس لونڈی یا غلام کو صاحب جنایت کے حوالے کرے اگرچہ دیت کتنی ہی اس لونڈی یا غلام کی قیمت سے زیادہ ہو اب یہاں پر ام ولد کا مولیٰ یہ تو نہیں کر سکتا کہ ام ولد صاحب جنایت کے حوالے کرے اس لیے کہ ام ولد کی بیع یا ہبہ اور کسی طور سے نقل ملک درست نہیں بلکہ خلاف ہے سنت قدیمہ کے جب ایسا ہوا تو قیمت ام ولد کی خود ام ولد کے قائم مقام ہے اس سے زیادہ مولیٰ پر لازم نہیں یہ میں نے بہت اچھا سنا مولیٰ پر ام ولد کی قیمت سے زیادہ جنایت میں دینا لازم نہیں۔