مشکوٰة شر یف

کسب اور طلب حلال کا بیان

کسب اور طلب حلال کا بیان

لغت میں وکل اوکول کا لفظ آتا ہے جس کے معنی ہیں سونپ دینا، سپرد کر دینا، کسی پر بھروسہ کر کے کام چھوڑ دینا اس کا اسم وکالت اور رکالت ہے اسی لفظ سے توکل نکلا ہے جس کے معنی اپنے عجز و بیچارگی کو ظاہر کر نے اور دوسرے پر اعتماد و بھروسہ کرنے ہیں، اس کا اسم تکلان ہے، اصطلاح شریعت میں توکل اس کو کہتے ہیں کہ بندہ اپنے معاملہ و کام کو خدا کے سپرد کر دے اپنی تدبیر و سعی کو ترک کر دے اور اپنی ذاتی طاقت و قدرت سے بے پرواہ ہو کر تقدیر اور رضائے الٰہی پر کامل اعتماد کرے، یعنی اس بات پر یقین رکھے کہ اپنی تدبیر و سعی اور ذاتی طاقت و قدرت، خدا کی مشیت اور اس کے فیصلہ کو بدل نہیں سکتا، جو لکھا ہی نہیں گیا وہ رونما نہیں ہو سکتا۔

 یوں تو توکل کا تعلق تمام امور اور معاملات پر ہوتا ہے لیکن اکثر اس کا استعمال رزق کے بارے میں ہوتا ہے۔ اور بات بھی یہی ہے کہ توکل کا جو اصل مفہوم ہے وہ اس بات پر اعتماد و بھروسہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے رزق کا ضامن ہے۔ حصول معاش کے لئے جائز و حلال ظاہری وسائل و ذرائع کو ترک کرنا گو توکل کے صحیح ہونے کی شرط نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ اصل اعتماد و بھروسہ ان وسائل و ذرائع پر نہ ہو۔ چنانچہ توکل کا تعلق اصل میں دل سے ہے اگر دل میں حق تعالیٰ کے ضامن ہونے کا یقین جاگزین ہو گیا تو توکل کا مفہوم پورا ہو جائے گا۔ گویا اعضا عمل کو معطل کر دینا اور ہاتھ پاؤں ڈال کر اپاہج بن جانا توکل کے صحیح ہونے کے لئے لازم نہیں ہو گا اور نہ حصول معاش کے لئے ظاہری تدبیر دستی کرنا اس کے منافی ہو گا رہی یہ بات کہ بعض زاہدان طریقت اور درویش صفت طالبان معرفت حصول معاش کے ظہری اسباب و وسائل کو ترک کر دیتے ہیں تو ان کا وہ عمل محض ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مقام توکل ثابت ہو جائے نفس زیادہ سے زیادہ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے اور نظر امید اسباب و ذرائع سے منقطع ہو جائے، نیز اس امر پر کامل یقین حاصل ہو جائے کہ ظاہری اسباب و ذرائع رزق پہنچنے کے لئے شرط کا درجہ نہیں رکھتے۔

 بعض حضرات نے توکل کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ بندہ کا حق اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر اعتماد و یقین کے سبب حصول معاش کے اسباب و ذرائع اور کسب و عمل کی پابندیوں سے مطلق آزاد ہو جانا، لیکن یہ توکل کا وہ مقام ہے جو ابتدائی حالت میں اختیار کیا جاتا ہے یا  آزاد ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بندہ ان اسباب و  وسائلہ اور کسب و عمل، رزق پہنچنے کے لئے حقیقی موثر و مسبب ہیں، چنانچہ جو بندہ توکل کے آخری مرحلہ پر پہنچ جاتا ہے اور اس مقام کا منتہی ہوتا ہے اس کا اسباب و وسائل اور کسب و عمل کو اختیار کرنا، اس کے حق میں توکل کے منافی نہیں ہوتا، اس کو خدا کی رزاقیت پر کامل یقین و اعتماد اس وقت بھی حاصل رہتا ہے جب وہ اپنی روزی کے لئے اسباب و وسائل اور کسب و عمل میں مشغول ہوتا ہے اور اس وقت بھی اس کے اس یقین و اعتماد میں ذرہ برابر بھی رخنہ نہیں پڑتا جب وہ ان چیزوں کو بالکل ترک کر دیتا ہے، مثلاً اگر وہ منتہی کھجور کا پودا لگائے اور خرق عادت کے طور پر (یعنی خلاف عادت) وہ پودا اسی لمحہ بار آور ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت صناعی پر اس کا یقین و اعتماد اس صورت میں اور اس صورت میں کہ کھجور کا پودا وہ عادت و محمول کے مطابق کئی سال کے بعد پھل لائے یکساں ہوتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے دنیاوی اسباب و وسائل کے ذریعہ اور ظاہری عوامل و مسببات کی تربیت کے ساتھ وجود پذیر ہوتی ہے تو اس صورت میں صانع کی کمال قدرت کا مشاہدہ زیادہ یقین و اعتماد اور زیادہ پر تاثیر انداز میں ہوتا ہے کیونکہ اسباب کے بغیر یعنی خرق عادت کے طور پر جو چیز سامنے آتی ہے اس میں محض وہی ایک فعل ہوتا ہے، جب کہ ظاہری اسباب و وسائل کے ذریعہ ظاہر ہونے والی چیز کتنے ہی مضبوط و مربوط افعال و حالات اور کتنے ہی محکم احکام و قوانین قدرت کا مظہر ہوتی ہے، علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ اسباب و وسائل کو ترک کر دینا گویا ان چیزوں کو معطل و بیکار بنا دینا ہے جن کو حق تعالیٰ نے انسان ہی کے لئے پیدا کیا ہے اور جن کو اختیار کرنا منشا قدرت کے خلاف نہیں ہے۔

 عنوان باب کا دوسرا جزء صبر ہے لغت میں صبر کے معنی ہیں رکنا منع کرنا، نفس کو کسی چیز سے باز رکھنا، فارسی میں اس کو شیکیبائی کہتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں صبر اس کو کہتے ہیں کہ نیکی اور برائی کے درمیان کشمکش کے وقت اپنے نفس کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ نیک کو اختیار کرے اور برائی سے باز رہے۔ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں کہ صبر کا مفہوم ہے ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ حظوظ نفس کے جال سے باہر آنا، اور نفس کو اس کی محبوب و مرغوب چیزوں سے باز رکھنے پر کاربند رہنا۔

 عوارف میں لکھا ہے  صبر کی جو اقسام ہیں ان میں سب سے اعلیٰ قسم کا وہ صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے تئیں کیا جائے بایں طور کہ اس کی طرف متوجہ و انابت، صدق و اخلاص کے ساتھ ہو، اس کی ذات صفات اور کمال قدرت میں استغراق و مراقبہ دوامی ہو، اور نفس کی تمام خواہشات و خیالات کو یکسر منقطع کر دیا جائے۔ نیز بیان کیا کہ۔ صبر فرض بھی ہے اور نفل بھی، فرض صبر تو وہی ہے جو فرائض کی ادائیگی اور حرام چیزوں کے ترک کرنے پر اختیار کرنا پڑتا ہے، اور نفل صبر کی جو صورتیں ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ (١) فقر و افلاس اور شدائد و آلام پر صبر کرنا۔ (٢) کوئی صدمہ و تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا (٣) اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کو چھپانا۔ (٤) شکوہ و شکایت سے اجتناب کرنا۔ (٥) باطنی احوال و کرامات کو چھپانا۔ واضح رہے کہ فرض اور نفل دونوں طرح صبر کی بہت اقسام اور صورتیں ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ بہت ہیں جو صبر کی تمام ہی اقسام پر عامل و کاربند نہیں رہ سکتے جیسا کہ بیان کیا گیا۔ اگرچہ صبر کی بہت اقسام ہیں اور ان کا اطلاق بہت سی صورتوں پر ہوتا ہے مگر عام طور پر اس کا اطلاق خصوصیت سے مصائب و آفات اور ناگوار و ناپسندیدہ امور کو انگیز کرنے پر ہوتا ہے، جیسا کہ  شکر ایک وسیع المفہوم لفظ ہے اور اپنے اطلاق کے اعتبار سے اس کی بہت سی قسمیں ہیں مگر خاص طور پر اس کا استعمال حصول نعمت و رزق کی صورت میں ہوتا ہے۔

 

توکل اور صبر کے بارے میں کچھ مفید باتیں

 

 جاننا چاہئے کہ جو چیزیں انسان کے لئے عبادت خداوندی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ان میں سب سے سخت رکاوٹ معاشی زندگی کے تفکرات یعنی کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کا فکر و خیال ہے، ظاہر ہے کہ انسان کا نفس اپنے وجود و بقا کے لئے جن چیزوں کا محتاج ہے ان کی طرف اس کا رجحان اور مطالبہ ایک فطری تقاضا ہے چنانچہ وہ بجا طور پر کہہ سکتا ہے کہ میں ہر چیز سے باز آیا۔ زہد و تقویٰ بھی اختیار کیا، دنیا کی نعمتوں اور لذتوں سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھتا، لیکن ان چیزوں کا کیا علاج کروں جو میرے وجود و بقا کے لئے ضروری ہیں۔ جیسے کھانا پینا اور لباس وغیرہ۔ اور یہ بھی بالکل ظاہر بات ہے کہ یہ چیزیں یوں ہی حاصل نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے حصول کے لئے کسب و عمل، جہد و سعی اور لوگوں کے ساتھ ربط وضبط اور میل جول اختیار کرنا ضروری ہے پس شریعت نفس کے اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے وہ سب سے یقینی راہ دکھاتی ہے جس کو توکل کہا جاتا ہے، کیونکہ توکل بذات خود وہ واحد قوی ذریعہ ہے جس پر اگر انسان صدق و اخلاص کے ساتھ عامل ہو جائے تو خدا کی طرف سے ضروریات زندگی کی تکمیل خود بخود ہونے لگتی ہے اور اس راہ کو اختیار کرنے کی وجہ سے نہ صرف نفس کی تشویش رفع ہو جاتی ہے بلکہ کمال ایمان کا درجہ بھی نصیب ہو جاتا ہے، اس کے برخلاف توکل کو ترک کر دینے والا نہایت سخت تفکرات و اوہام میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اس کو سکون و اطمینان کے ساتھ طاعت و عبادات کا موقع نصیب ہوتا ہے اور نہ اس اطاعت و عبادت میں لذت و حلاوت نصیب ہوتی ہے، اور روزی کا فکر و غم اس کو اس طرح پراگندہ خاطر اور پریشان حال بنا دیتا ہے کہ وہ کوئی بھی نیک عمل یقینی قوت و حالت کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا، لہٰذا توکل کی راہ اختیار کرنا ہر شخص کے لئے لازمی امر ہے کہ اس کے بغیر وہ اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا، جیسا کہ ایک طویل حدیث میں جو آگے آئے گی فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ قوی ہو تو اس کو چاہئے کہ توکل کی راہ اختیار کرے۔ اور توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے تمام امور کا وکیل اور اپنی بھلائی و بہتری کا ضامن جان کر بس اسی پر اعتماد و بھروسہ کرے اور جانے کہ اللہ تعالیٰ نے قسمت میں جو کچھ لکھ دیا ہے وہ ہرگز معدوم نہیں ہو گا اور حکم الٰہی کسی بھی حالت میں ادل بدل نہیں سکتا، خواہ بندہ مانگے یا نہ مانگے، نیز اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی روزی کا ضامن ہے، جب کہ اس نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی ضرور دے گا، چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت(وما من دابۃ فی الارض الاّ علی اللہ رزقہا) اور اس بات پر بھی قسم کھائی کہ آیت(فورب السما والارض انہ لحق)

 پس غور کرنے کو مقام ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے وعدہ کی صداقت کے جز و ایمان ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اگر وہ اس کے ضامن ہونے پر اعتماد نہ رکھے اور اس کے وعدہ پر باور نہ کرے تو اس کا ایمان کہاں رہے گا اور وہ کس طرح خدا کا بندہ کہلانے کا مستحق قرار پائے گا۔ ہر مومن کو چاہئے کہ وہ دنیا، دنیا کے مال و اسباب اور کسب و عمل کو محض حصول رزق کا ایک ظاہری وسیلہ و بہانہ اور سبب سمجھے، اس سے زیادہ اور کچھ نہ جانے، اور یہ یقین رکھے کہ حقیقی رازق صرف اللہ تعالیٰ ہے، وہ اتنی بڑی قدرت کا مالک ہے کہ اس کے نزدیک ظاہری وسائل و اسباب کی چنداں اہمیت نہیں ہے وہ توکل و اعتماد کرنے والوں کو بے سبب و وسیلہ، اور بلا کسب و عمل بھی روزی پہنچاتا ہے، جیسا کہ فرمایا آیت(ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ)۔ اسی طرح حصول معاش کے لئے وسائل و ذرائع کو اختیار کرنے اور کسب و عمل میں مشغول ہونے کو بھی خدا کی طرف سے مقرر کردہ نظام کائنات کا ایک سلسلہ اور رزق پہنچنے کا ایک ظاہری سبب جانے اس پر دل سے اعتماد و بھروسہ نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اطمینان رکھے اور جانے کہ اگر کوئی کسب و عمل نہ کروں گا تو بھی اللہ تعالیٰ روزی پہنچائے گا، یہ توکل کا کم سے کم درجہ ہے جو ایمان کے لئے ضروری ہے اور عام مسلمانوں کا مرتبہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت(وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین) اس سے اعلیٰ درجہ تسلیم ہے، یعنی بندہ کا اپنے تمام معاملات خدا کے سپرد کر دینا، خدا کے علم پر کفایت کرنا اور اپنے دل میں کسی بھی طرح کا کوئی رد و بدل نہ رکھنا یہ اولیا اللہ کا مرتبہ ہے اور آیت(وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون) سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے۔

 ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ حصول معاش کے لئے اسباب و ذرائع اختیار کرنا اور کسب و عمل میں مشغول ہونا توکل کے منافی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسباب و ذرائع اور کسب و عمل بھی نظام قدرت کا ایک حصہ ہے اور خدا کی طرف سے ایک حد تک انسان کو ان چیزوں کا مکلف بھی قرار دیا گیا ہے، البتہ جو چیز توکل کے منافی ہے، وہ بس یہ ہے کہ حصول معاش کے ظاہری، اسباب و ذرائع اور کسب و عمل پر دل سے اعتماد نہ کیا جائے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ رزق پہنچنے کا حقیقی سبب یہی چیزیں ہیں اگر انسان کوئی کسب و عمل نہ کرے اور محض خدا پر توکل کر کے بیٹھ جائے تو اس کو رزق پہنچ ہی نہیں سکتا، یہ عقیدہ و خیال ایمان کے منافی ہے اور اس کو شرک خفی کہا گیا ہے۔ لہٰذا جو شخص اسباب و ذرائع کو اختیار کرے اور کسب و عمل میں مشغول ہو لیکن اس کے دل کا اعتماد صرف خدا پر ہو تو وہ شخص بھی یقیناً مومنین میں سے ہو گا، اگرچہ توکل کا اعلیٰ درجہ یہی ہے کہ بندہ اپنے ہاتھ پاؤں کو تمام اسباب و ذرائع سے دور رکھے اپنے تمام معاملات میں اللہ ہی پر اعتماد کرے اور اپنے تمام امور اسی کے سپرد کرے بشرطیکہ ہر حالت میں خواہ تنگی ہو یا فراخی، قوت ایمان کے سبب اللہ پر اس کا کامل اعتماد یکساں رہے، غیر اللہ سے امید منقطع رکھے اور اس راہ میں جو بھی رنج و مصیبت پیش آئے اس کو صبر و رضا کے ساتھ برداشت کر کے ریاضت و مجاہدہ اور عبادت میں مشغول رہے اور جو شخص ان امور پر پوری طرح قادر نہ ہو سکے تو ان کے حق میں افضل یہی ہو گا کہ وہ دل سے خدا پر اعتماد رکھتے ہوئے ظاہری اسباب و ذرائع کو اختیار کرے اور کسب و عمل میں مشغول ہو۔ اسی طرح محض کسل و سستی اور عار کی وجہ سے یا بطور یا ہاتھ پاؤں کو معطل کر دینا اور کسب و عمل سے باز رہنا قطعاً روا نہیں ہے کیونکہ اکثر انبیا اور اولیا کا یہی معمول رہا ہے کہ انہوں نے حصول معاش کے لئے ظاہری اسباب و ذرائع کو اختیار کیا اور کسب و عمل سے باز نہیں رہے کہ جو شخص کسب و عمل کی وجہ سے اپنی دینی زندگی میں کوئی نقصان اور اپنے باطنی احوال میں رخنہ پڑتا ہوا دیکھے تو اس کے لئے بہر صورت یہی ضروری ہو گا کہ وہ سب چیزوں سے تعلق منقطع کر کے بس ذکر و فکر اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے تاکہ واصل بحق ہو۔

 متوکل کو ایسے کام و ذریعہ سے باز رہنا کہ جس کے بغیر کار برآری قطعاً ممکن نہ ہوا اور سنت اللہ اسی کے مطابق جاری ہو، ہرگز روا نہیں ہے بلکہ حرام ہے، مثلاً کھانا ہاتھ کے ذریعہ کھایا جاتا ہے اور سنت اللہ اس کے مطابق جاری ہے کہ جو شخص کوئی چیز کھانا چاہے اس کو ہاتھ سے اٹھا کر منہ میں ڈالے، اب اگر کوئی شخص متوکل یہ گمان کرے کہ اس چیز کو کھانے کے لئے ہاتھ کا ذریعہ اختیار کرنا توکل کے منافی ہے اور اس امید میں بیٹھا رہے کہ یہ چیز خود بخود (اٹھ کر منہ میں جائے گی کھاؤں گا، یہ توکل نہیں ہے بلکہ اس کو محض جنون و حماقت سے تعبیر کیا جائے گا، ایسے امور میں توکل کی کار فرمائی کی بس حد یہ ہے کہ یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ نے کھانا اسی لئے پیدا کیا ہے کہ اس کو کھایا جائے، سب کا خالق و رازق بھی وہی ہے اور یہ ہاتھ اس عمل یعنی کھانے کا سبب و ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے بس ہاتھ کو کھانے کا ظاہر ذریعہ جان کر کھانے کے لئے استعمال کرے لیکن دل سے اس پر اعتماد نہ کرے اور یہ جانے کہ جن لوگوں کے ہاتھ نہیں ہوتے ان کے کام بھی بہحال سر انجام پاتے ہیں جہاں تک کسی ایسے کام کا تعلق ہے کہ جس کی انجام دہی کا ذریعہ اگرچہ ہاتھ ہی ہے لیکن وہ ایسا قطعی ذریعہ نہیں ہے کہ اس کے بغیر کام انجام ہی نہ پا سکتا ہو جیسے سفر کے دوران خرچ اور زاد راہ تھامنا وغیرہ، تو ایسی صورت میں ہاتھوں کو بطور ذریعہ استعمال کرنے سے باز رہنا روا ہو سکتا ہے کیونکہ ایسا ممکن اور کثیر الوقوع ہے کہ جو لوگ خرچ اور زاد راہ لے کر نہیں چلتے ان کا سفر بھی پورا ہو ہی جاتا ہے، تاہم واضح رہے کہ زاد راہ اور سفر خرچ پر، بلکہ بقدر ضرورت سفر خرچ اور زاد راہ لے کر چلنا سنت ہے اور سلف کے معمولات سے بھی ثابت ہے۔ لیکن حق تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد بھروسہ کے سبب سفر خرچ اور زاد راہ وغیرہ نہ لینا تو متوکلین کے اعلیٰ درجات میں سے ہے۔

 جو شخص عیالدار ہو اور اس کے اہل و عیال حالات کی تنگی پر صبر نہ کر سکتے ہوں، اور وہ اس بات کی اجازت نہ دیتے ہوں کہ وہ شخص توکل کے سبب کوئی کسب و عمل نہ کرے اور ذرائع سے اجتناب کرے۔

 اپنے اہل و عیال کے لئے ایک سال تک کا اور اپنی ذات کے لئے چالیس روز تک کا بقدر ضرورت غذائی ضروریات کا سمان اکٹھا بھروا کر رکھ لینا توکل کے منافی نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص از راہ توکل غذائی ضروریات کی چیزیں پہلے سے بھروا کر نہ رکھے اور سب کچھ ترک کر دے بشرطیکہ اللہ پر اس کا پورا اعتماد و اطمینان ہو تو یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے وہ اعلیٰ درجہ کا حامل ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لئے بڑی زبردست قوت اور ہمت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جس شخص کو اتنی قوت و ہمت میسر نہ ہو اور اگر وہ غذائی ضروریات کا سمان اکٹھا بھروا کر نہ رکھنے کی صورت میں طاعت و عبادت میں اطمینان و سکون اور دل جمعی حاصل نہ کر سکتا ہو تو اس کے لئے یہی افضل ہو گا کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی غذائی ضروریات کے لئے غلہ وغیرہ اکٹھا بھروا کر رکھ لے۔

 رنج و پریشانی اور بیماری کا گلہ شکوہ نہ کرنا اور جو شخص طبیب و معالج نہ ہو اس کے سامنے بلا ضرورت اپنے مرض کو ظاہر نہ کرنا توکل کے لئے شرط ہے۔

 علما نے یہ بھی لکھا ہے کہ توکل اسی شخص کو راست آتا ہے جو توحید آشنا اور زہد صفت ہو۔ اس موقع پر توحید سے مراد یہ ہے کہ بندہ یہ جانے کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں اور جانے کہ سب کا حقیقی محرک و عامل بس حق تعالیٰ ہے اس کے علاوہ کوئی ذات ایسی نہیں ہے جس کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی جنبش نہ کر سکے، اور جہاں بھی جو کچھ بھی آتا جاتا ہے سب کا منبع و مصدر اسی ذات واحد کی مرضی و مشیت ہے، جس شخص کے دل پر یہ بات غالب آ جائے گی اس کو بے اختیار توکل حاصل ہو جائے گا۔

 یہ تو توکل کے بارے میں کچھ باتیں ہوئی۔ اب  صبر  کے بارے میں جاننا چاہئے کہ صبر ایک ایسی راہ ہے جس کو اختیار کئے بغیر کسی مومن کے لئے کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ ایمان کی سلامتی اور عبادت میں اطمینان و سکون کے ساتھ مشغولیت کا انحصار  صبر ہی پر ہے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دنیا، اہل ایمان کے لئے آفات و مصائب اور رنج و آلام کے ایک گھروندہ کے سوا اور کچھ نہیں، مومن کی زندگی کا وہ کون سا لمحہ ہوتا ہے جس میں اس کو کسی نہ کسی طرح کی جسمانی اور روحانی اذیت و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو؟ لہٰذا اس صورت میں ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ صبر کی راہ اختیار کرے تاکہ اس کا ایمان بھی سلامت رہے اور طاعت و عبادت میں بھی اطمینان و سکون کے ساتھ مشغول رہ سکے، کیونکہ دل گرفتگی رنج خوری جزع و فزع اور تاسف و حسرت کے عالم میں عبادت پورے کیف و نشاط کے ساتھ ادا نہیں ہو سکتی، علاوہ ازیں صبر کرنے والے کو دنیا و آخرت کی بے شمار بھلائیاں اور سعادتیں عطا کر نے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے مثلاً دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ پر اور دیگر مہمات میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت(فاصبر ان العاقبۃللمتقین)۔ دوسرے صبر کی وجہ سے بندہ اپنی مراد کو پہنچتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت(وتمت کلمۃ ربک الحسنی علی بنی اسرائیل بما صبروا)۔ تیسرے صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کو قیادت و امامت کا درجہ حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ فرمایا۔ (وجعلناہم ائمۃ یہدون بامرنا لما صبروا)۔ چوتھے صبر کرنے والا بندہ حق تعالیٰ کی طرف سے تعریف و توصیف سے نوازا جاتا ہے جیسا کہ فرمایا۔ آیت(انا وجدناہ صابرا نعم العبد انہ اواب)۔ پانچویں صابر بندوں کو بشارت دینے کا حکم فرمایا گیا ہے جیسا کہ فرمایا وبشر الصابرین۔ چھٹے صبر کرنے والے بندوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے جیسا کہ فرمایا آیت(ان اللہ یحب الصابرین)۔ ساتویں جو بندے صبر کرتے ہیں وہ جنت میں بلند تر درجات پائیں گے جیسا کہ فرمایا آیت(اولئک یجزون الغرفۃ بماصبروا)۔ آٹھویں صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام کا اعزاز و شرف عطا ہوا ہے جیسا کہ فرمایا آیت(سلام علیکم بما صبرتم)۔ اور نویں یہ کہ بندے صبر کرتے ہیں اور وہ بے حساب اور بے انتہا اجر و ثواب سے نوازے جائیں گے جیسا کہ فرمایا آیت(انما یوفی الصابرون اجرہم بغیر حساب)

 پس صبر اتنی بڑی فضیلت اور اتنا عظیم وصف ہے کہ اس پر کاربند رہنے کی ہر مومن کو کوشش کرنا چاہئے۔ اور اس کے حاصل کرنے کو نہایت اہم اور غنیمت جاننا چاہئے اور صبر اصل میں یہ ہے کہ اپنے نفس کو جزع سے روکا جائے اور جزع اس کو کہتے ہیں کہ جب کوئی سخت حالت اور آفت و پریشانی پیش آئے تو اس پر اضطراب و گھبراہٹ کا اظہار کیا جائے اپنے عجز کا رونا رویا جائے۔

 اور سختی و پریشانی سے بطریق قطع و حکم گلو خلاصی کا ارادہ کیا جائے۔ لہٰذا ان چیزوں کو ترک کرنا صبر کہلاتا ہے۔

 صبر کا وصف حاصل کرنے کا نہایت مفید اور نفسیاتی طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسی صورت حال پیش آئے کہ جس کی وجہ سے نفس اضطراب و بے قراری میں مبتلا ہونے لگے۔ اور طبعی طور پر رنج و اذیت محسوس ہو تو یہ سوچنا چاہئے کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہوا ہے وہ ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا، اس کی وجہ سے جزع و فزع کرنا اور رونا، دھونا،شکوہ و شکایت کرنا ایک قطعی لاحاصل چیز ہے کہ ان باتوں سے اس صورت حال میں کوئی تغیر تبدل، کمی بیشی اور تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی، علاوہ ازیں صبر کا جو ثواب تلف ہوتا ہے وہ مزید نقصان ہے۔

 یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ اپنی حیثیت و حالت کے اعتبار سے صبر کی چار قسمیں ہیں ایک تو صبر وہ ہے جو نفس کو طاعت و عبادت کی استقامت و پابندی کی محنت و مشقت برداشت کرنے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے، دوسرا وہ صبر ہے جو گناہوں سے اجتناب کرنے کی صورت میں اختیار کیا جائے، تیسرا وہ صبر ہے جو دنیا کی زائد از ضرورت چیزوں سے قطع تعلق کر لینے کی صورت میں اختیار کیا جائے اور چوتھا صبر وہ ہے جو کسی دینی و دنیاوی آفت و مصیبت اور سختی و پریشانی کو برداشت کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جو شخص صبر کی ان چاروں قسموں کو اختیار کر لے وہ طاعت عبادت کی راہ پر سکون و استقامت کے ساتھ گامزن رہے گا، گناہوں سے محفوظ مامون رہے گا، دنیا کی آفات و بلیات سے سلامتی اور آخرت کے عذاب سے نجات پائے گا، علاوہ ازیں بہت زیادہ اجر و ثواب سے نوازا جائے گا، اور جو شخص مذکورہ بالا صورتوں میں صبر کو اختیار نہیں کرے گا اور جزع و فزع کی راہ پکڑے گا وہ تمام نعمتوں سے محروم رہے گا اور اول تو وہ دل جمع اور اطمینان و سکون کے ساتھ عبادت نہیں کر سکے گا اور کچھ اگر کرے گا بھی تو بے صبر کے گناہ اس کو کالعدم کر دیں گے۔

توکل اختیار کرنے والوں کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ستر ہزار کی تعداد سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو مستقل بالذات بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ان ستر ہزار لوگوں کے متبعین کی حیثیت سے ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے۔ یہ وضاحت اس لئے کی گئی ہے تاکہ یہ روایت اس روایت کے منافی نہ رہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ بے حساب جنت میں جانے والے ان لوگوں میں ہر ایک کے ساتھ ان کے ستر ستر ہزار متبعین بھی ہوں گے۔

  منتر نہیں کراتے میں منتر سے مراد یا تو مطلق جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا وغیرہ ہے۔ یا اس سے وہ منتر اور ٹونا ٹوٹکا مراد ہے جو کلمات قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ اور اسما الٰہی کے بغیر ہوں۔ اسی طرح  شگون بد نہیں لیتے سے مراد یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی طرح پرندوں کے اڑ جانے اور آواز وغیرہ سن کر ان سے شگون بد نہیں لیتے ہیں بلکہ یوں گویا ہوتے ہیں کہ اللہم لا طیر الاّ طیرک ولا خیر الاّ خیرک ولا الہ غیرک اللہم لا یاتی بالحسنات الاّ انت ولایذہب بالسیئات الاّ انت۔

 صاحب نہایہ نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا اوصاف اولیائے کاملین کی خصوصیات میں سے ہیں کہ وہ پاک نفس لوگ دنیا کے اسباب و وسائل اور ان کے متعلقات سے بے اعتنائی برتتے ہیں اور دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کی طرف مائل و ملتفت نہیں ہوتے اور یہی درجہ ہے جو خواص کے لئے مخصوص ہے اور اس درجہ تک عوام کی رسائی نہیں ہوتی لیکن جہاں تک ان عوام کا تعلق ہے تو ان کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ حلال اسباب و ذرائع کو اختیار کریں اور دوا وغیرہ کے ذریعہ علاج معالجہ کرائیں البتہ اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ جو شخص کسی بیماری وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ اس پر صبر کرے پھر دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشائش و راحت کا منتظر و متمنی رہے تو یقیناً وہ شخص اولیا و خواص میں سے شمار ہونے کا مستحق ہو گا اور جو شخص اس پر صبر کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ اس بیماری و مصیبت سے گلو خلاصی پانے کے ظاہری اسباب و ذرائع اختیار کرنا چاہئے تو اس کو اس بات کی اجازت دے دی جائے گی کہ وہ دعا تعویذ اور دوا وغیرہ کے ذریعہ اپنی اس بیماری و مصیبت کے دفعیہ کی سعی کرے۔

 حاصل یہ کہ جو شخص اپنی طبع حالت و کیفیات اور بطنی حیثیت کے اعتبار سے جس طرح کا ہو گا اس کے حق میں اس کے مطابق فیصلہ ہو گا اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے عنہ نے ایک موقعہ پر اپنا تمام مال و اسباب خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس پیش کش کو رد نہیں کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے کہ ان میں یقین و صبر کا وصف بدرجہ کمال موجود ہے اس کے برخلاف جب ایک اور شخص نے کبوتر کے انڈے کے برابر سونا لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا ہے اور کہا کہ میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے یہ جو کچھ بھی ہے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آپ کی نذر کرتا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ صرف یہ کہ اس سونے کو قبول نہیں فرمایا بلکہ اس پر سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ اس کو ایک دھپ بھی مارا۔ یہاں تک ملا علی قاری کے منقولات کا ماحصل نقل کیا گیا۔

 حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حدیث میں منتر کا جو ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانہ جاہلیت کے ٹونے ٹوٹکے اور مشرکانہ منتر مراد ہیں جن کا کتاب و سنت کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور جن کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قطعاً روا نہیں رکھا تھا کیونکہ ان منتروں کی ساخت اور ان کے الفاظ و معانی کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ان کو اختیار کرنے والا شرک میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بات کہ منتر سے زمانہ جاہلیت کے منتر مراد ہیں حدیث کے الفاظ لایتطیرون سے بھی واضح ہوتی ہے کہ تطیر یعنی بدفالی لینا زمانہ جاہلیت کے اہل عرب کا خاص معمول تھا۔ پس جس طرح زمانہ جاہلیت کی دیگر مشرکانہ رسوم و عادات سے اجتناب ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اسی طرح تطیر یعنی بدفالی لینے سے بھی قطعی پرہیز کرنا نہایت لازم ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے بہت سے مسلمان بھی بر بنا جہل و نادانی بدفالی لینے کی برائی میں مبتلا ہیں باوجودیکہ زمانہ جاہلیت کی ایک مشرکانہ عادت رہی ہے اور اگر اس بات سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو اس سے اجتناب کی ایک بڑی معقول وجہ یہ بھی ہے کہ بدفالی نہ لینے والے کو بڑی فضیلت کا حامل قرار دیا گیا ہے بایں طور کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو گا جو بغیر حساب جنت میں شامل کئے جائیں گے، نیز اس سے اجتناب ایک ایسا وصف بھی ہے جس کو توکل کے درجات میں سے شمار کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے بالا تر درجہ وہ ہے جو ہر طرح کے علاج معالجہ جھاڑ پھونک تعویذ گنڈے اور دیگر تدابیر کو کلیۃ ترک کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور جس کا مقصد حقیقی توکل کے مقام کو ثابت و ظاہر کرنا ہوتا ہے چنانچہ توکل کا متعارف مفہوم بھی یہ بیان کیا جاتا ہے اور اسی لئے صوفیہ نے توکل کی وضاحت یہی کی ہے کہ توکل کا مطلب ہے حق تعالیٰ کی رزاقیت پر کامل اعتماد و بھروسہ کر کے سبب کسب و عمل اور اسباب و وسائل کو مطلق ترک کر دینا۔ یہ دوسرا یا اوسط درجہ ہے جو خواص کا مرتبہ مانا جاتا ہے اس مرتبہ کے لوگ اس اجر و فضیلت کے مستحق قرار پاتے ہیں جس کا ذکر حدیث میں ہے بلکہ مزید برآں ایک اور عظیم الشان سعادت کی بشارت دی گئی ہے کہ آیت(للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ) اس کے بعد تیسرا درجہ وہ ہے جو اس مقام کے منتہی اور مقربین بارگاہ الٰہی کے لئے مخصوص ہے اس درجہ کے لوگوں کی ظاہری نظر میں اسباب و ذرائع کلیۃ ساقط ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان کا عدم اور وجود دونوں برابر ہیں، وہ اگر اسباب و ذرائع کو کسی حد تک اختیار بھی کرتے ہیں تو محض اظہار عبودیت اور مشیت الٰہی کی فرمانبرداری کے طور پر، اور اس حیثیت سے ان کا اسباب و ذرائع کو اختیار کرنا ان کے حق میں عزیمت (اولویت) کا حکم رکھتا ہے یہ مرتبہ اخص الخواص کا مرتبہ کہلاتا ہے اور وہ انبیا و اولیا ہیں کہ جو اپنی ذات کے اعتبار سے فانی اور خدا کے ساتھ باقی ہیں اور توکل کا یہی سب سے آخری مرتبہ بھی ہے اور اس کی اصل حقیقت بھی، نیز جو بندگان خاص اس مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں، ان کی فضیلت سب سے زیادہ اور ان کا اجر سب سے بڑا ہوتا ہے۔

 مذکورہ مسئلے میں عالمگیری نے یہ قاعدہ کلیہ بیان کیا ہے کہ کسی نقصان و ضرر اور تکلیف کو دور کرنے والے اسباب و ذرائع تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ کہ جن کا موثر ہونا یقینی ہوتا ہے جیسا کہ پانی پیاس کو اور کھانا بھوک کو دور کرتا ہے دوسرے وہ اسباب جو ظنی ہوتے ہیں جیسے فصد کھلوانا، پچھنے لگوانا، مسہل لینا اور طب کے دوسرے قواعد و ضوابط کہ مثلاً گرمی سے پیدا ہونے والے امراض میں ٹھنڈی دواؤں کے ذریعہ اور ٹھنڈ سے پیدا ہونے والے امراض میں گرم دواؤں کے ذریعہ علاج معالجہ کرنا، اور یہ چیزیں طبی نقطہ نظر سے ظاہری اسباب کا درجہ رکھتی ہیں اور تیسرے وہ اسباب کہ جو موہوم ذریعہ ہوتے ہیں جیسے جسم کو داغنا، دعاؤں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا اور تعویذ گنڈا وغیرہ۔ پس جو اسباب و ذرائع یقینی درجہ رکھتے ہیں ان کو ترک کرنا نہ صرف یہ کہ توکل کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ اس صورت میں شرعی نقطہ نظر سے بھی حرام ہے جب کہ ان کو ترک کرنے کی وجہ سے موت کے واقع ہو جانے کا خوف ہو، اس کے برخلاف جہاں تک ان اسباب و ذرائع کا تعلق ہے جو موہوم کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو ترک کرنا ہی توکل کی شرط ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسے اسباب و ذرائع کو ترک کرنے والوں کو  متوکلین  کے زمرہ میں شمار فرمایا ہے، رہی ان اسباب و ذرائع کی بات جو ظنی ہیں اور جو اطبا و حکما کے نزدیک ظاہری اسباب کا درجہ رکھتے ہیں تو ان کو اختیار کرنا یعنی طبی اصول و قواعد کے تحت علاج کرانا توکل کے منافی نہیں ہے۔ اس طرح ظنی اسباب، موہوم اسباب کی طرح تو توکل کے خلاف نہیں ہے اور ان کو ترک کرنا یقینی اسباب کو ترک کرنے کی طرح ممنوع نہیں ہے بلکہ بعض احوال میں اور بعض اشخاص کے حق میں ان کو ترک کرنا افضل ہو جاتا ہے۔ پس یہ ظنی اسباب گویا دو درجوں کے درمیان ایک معتدل درجہ ہے۔

 

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (حالت کشف یا خواب میں) میرے سامنے امتوں کو (ان کے انبیا کے ساتھ) پیش کیا گیا (یعنی ہر نبی کو اس کی امت کے ساتھ مجھے دکھایا گیا) پس (جب ان انبیا نے اپنی امتوں کے ساتھ گزرنا) شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک نبی کے ساتھ صرف ایک شخص تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کرنے والا اس ایک شخص کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوا) اور ایک نبی ایسا تھا کہ اس کے ساتھ دو شخص تھے، ایک اور نبی گزرا تو اس کی معیت میں پوری ایک جماعت تھی اور پھر ایک نبی ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ ایک بھی شخص نہیں تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کسی ایک شخص نے بھی نہیں کی) اس کے بعد میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا انبوہ دیکھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا اتنی بڑی امت دیکھ کر میں نے امید باندھی کہ یہ میری امت ہو گی لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ اور ان کی امت کے لوگ ہیں کہ جو ان پر ایمان لائے تھے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ذرا آپ نظر اٹھا کر دیکھئے میں نے جو نظر اٹھائی تو اپنے سامنے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم بے پناہ ہے جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا ہے (میں اتنا بڑا انبوہ دیکھ کر مطمئن ہو گیا اور خدا کا شکر ادا کیا) پھر مجھ سے کہا گیا کہ آپ اس انبوہ کو بس نہ سمجھئے آپ اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو دیکھیں گے ذرا ادھر ادھر یعنی دائیں بائیں بھی نظر گھما کر تو دیکھئے چنانچہ میں نے دائیں بائیں نظر گھما کر دیکھا تو دونوں طرف بے پناہ ہجوم تھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اور دائیں بائیں آسمان کے کناروں تک جو انسانوں کا ایک بحر بیکراں نظر آتا ہے یہ سب آپ کی امت کے لوگ ہیں اور ان کے علاوہ (یعنی منجملہ ان لوگوں کے یا ان کے علاوہ مزید) ان کے آگے ستر ہزار لوگ ایسے ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ تو بدفالی لیتے ہیں، نہ منتر پڑھواتے ہیں اور نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں۔ یہ سن کر، ایک صحابی عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے جو خدا پر توکل کرتے ہیں اور بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا فرمائی۔ الٰہی عکاشہ کو ان لوگوں میں شامل فرما دے، پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے بھی عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس دعا کے سلسلہ میں عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  نبی سے مراد رسول ہیں کہ جو خدا کا دین پہنچانے اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے اس دنیا میں مبعوث کئے گئے۔ جیسا کہ ترجمہ میں بین القوسین واضح کیا گیا، امام نووی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ  ستر ہزار سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت میں سے ستر ہزار لوگ وہ ہیں جو ان لوگوں کے علاوہ ہیں، اور اس سے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ ان ہی لوگوں میں ستر ہزار لوگ ایسے بھی ہیں جو بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ اس دوسرے معنی کی تائید بخاری کے روایت کردہ ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ ہذہ امتک ویدخلون الجنۃ من ھؤلا سبعون الفا۔ یعنی یہ آپ کی امت کے لوگ ہیں اور ان میں سے ستر ہزار لوگ وہ ہیں جو بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔

  نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بلا ضرورت اپنے جسم کے کسی حصہ پر آگ کا داغ نہیں لیتے الاّ یہ کہ انہیں کوئی ایسی مجبوری پیش آ جائے کہ دغوائے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو، تو یہ اور بات ہے چنانچہ ضرورت ومجبوری کے تحت دغوانا بعض صحابہ سے بھی ثابت ہے ان میں سے حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی ہیں جن کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ یا یہ معنی ہیں کہ وہ لوگ مطلق نہیں دغواتے، خواہ انہیں اس کی کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو، کیونکہ وہ تقدیر و قضا الٰہی پر راضی و مطمئن ہوتے ہیں، ان کا صرف خدا پر اعتماد و بھروسہ ہوتا ہے، وہ کسی آفت و مصیبت کو دفع کرنے کی تدبیر کرنے کی بجائے اس کی وجہ سے ایک خاص لذت محسوس کرتے ہیں اور اس بات پر ان کو پورا یقین ہوتا ہے۔ کہ فائدہ اور نقصان پہنچانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کے علاوہ ایسی کوئی ذات اور کوئی چیز نہیں ہے۔ جو حقیقی موثر ہو۔ پس وہ لوگ پاک نفس، گویا مرتبہ مشہود پر فائز ہوتے ہیں کہ ان کی نظر میں ان کا اپنا وجود، عدم کے برابر ہوتا ہے اور نفس کی لذات و خواہشات کے اعتبار سے وہ فنا کا مقام اختیار کر لیتے ہیں۔

 بعض شارحین نے یوں لکھا ہے کہ  نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اول تو جسم کو دغوانے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن اگر کسی مرض و تکلیف کی واقعی ضرورت و مجبوری کے تحت ان کو ایسا کرنا بھی پڑتا ہے تو ان کا فائدہ اور شفا کا اعتقاد صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے نہ کہ محض دغوانے پر۔

 بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جسم پر داغ لینا ان اسباب میں سے ہے جو وہمیہ ہیں، نیز احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے لیکن اگر کسی بیماری و تکلیف کے دفعیہ کے لئے کوئی حاذق معالج دغوانے کو ضروری قرار دے اور اس کا کارگر ہونا یقینی امر ہو تو اس کی اجازت بھی ہے۔

  نہ منتر پڑھواتے ہیں میں منتر سے مراد، منتر و افسوں اور جادو ہے کہ جس کے الفاظ و معنی قرآن و احادیث صحیحہ کے مطابق نہ ہوں اور ان کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو، اسی طرح  'نہ بد فالی لیتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ کسی جانور، خواہ وہ پرندہ ہو اور خواہ چرند جیسے کتا اور بلی وغیرہ، ان کے اڑنے، ان کی آواز، اور ان کے راستہ وغیرہ کاٹنے سے وہ لوگ کوئی بدفالی نہیں لیتے۔

 حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے وہ دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان و اعتقاد اور کردار و عمل کے لحاظ سے بہت پختہ و مضبوط ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے عقیدہ اور ایسے عمل کو مطلقاً اختیار نہیں کرتے جو زمانہ جاہلیت کے عقائد و اعمال سے مطابقت و مشابہت رکھتا ہے۔

 اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مذکورہ لوگوں کے سلسلے میں  ستر ہزار کی تعداد کا ذکر ہے تو کیا از ابتدا تا انتہا اس امت محمدیہ میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف ستر ہزار ہی ہو گی؟ جب کہ یقیناً اس وصف کے لوگ مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ ایک ہی زمانہ میں پائے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ستر ہزار سے مراد کسی مخصوص عدد کو واضح نہیں کرنا ہے۔ بلکہ ستر ہزار کا عدد استعمال کرنے کا واحد مقصد ایسے لوگوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔

 حدیث کے آخری جزء کے سلسلے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرے شخص کی درخواست قبول کیوں نہیں کی اور اس کے حق میں دعا کیوں نہیں کی؟ اس کے جواب دئیے جا سکتے ہیں مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس مجلس میں صرف ایک ہی شخص کے حق میں دعا کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور چونکہ آپ عکاشہ کے حق میں دعا فرما چکے تھے اس لئے ان کے بعد کسی دوسرے شخص کے حق میں دعا کرنے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ یا یہ کہ وہ دوسرا شخص اپنی باطنی حیثیت و حالت کے اعتبار سے اس مرتبہ کا اہل اور اس منزلت کا مستحق نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے حق میں دعا نہیں فرمائی۔ لیکن اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے صراحت کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ تم اس مرتبہ و منزلت کے اہل و مستحق نہیں ہو بلکہ اس کو ایک عام جواب دے دیا اور واضح فرمایا کہ عکاشہ کے حق میں دعا کرنے کا سبب ان کی طرف سے دعا کی عرض و التماس میں سبقت ہے! بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ شخص دراصل منافقین میں سے تھا اور ظاہر ہے کہ اس کی یہ حیثیت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علم میں تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے حق میں دعا نہیں فرمائی لیکن آپ نے از راہ اخلاق و مروت اس سے یہ نہیں کہا بلکہ ایک مجمل جواب دے دیا۔ لیکن بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ عکاشہ کے حق میں دعا کرنا دراصل وحی خفی کے سبب تھا جس میں حضور کو مذکورہ دعا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

 یہ قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ایک اور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس موقع پر دعا کی درخواست کرنے والے دوسرے شخص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے جو مشاہیر صحابہ میں سے ہیں۔

 نیز یہ ارشاد گرامی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نیکی کی راہ اختیار کرنے میں سبقت کرنی چاہئے اور اہل اللہ و بزرگان دین سے اپنے حق میں فلاح و سعادت کی دعا کی درخواست کی جانی چاہئے۔

مومن کی مخصوص شان

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن کی بھی عجیب شان ہے کہ اس کی ہر حالت اس کے لئے خیر و بھلائی کا باعث ہے اور یہ بات صرف مومن کے لئے مخصوص ہے کوئی اور اس کے وصف میں شریک نہیں ہے اور اس کو رزق و فراخی و وسعت، راحت، چین، صحت و تندرستی، نعمت و لذت اور طاعت و عبادت کی توفیق کی صورت میں خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے، بس یہ شکر اس کے لئے خیر و بھلائی کا باعث ہوتا ہے اور اگر اس کو فقر و افلاس، مرض و تکلیف، رنج و الم اور آفات و حادثات کی صورت میں مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے پس یہ صبر بھی اس کے لئے خیر و بھلائی کا باعث ہوتا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی شب و روز کی زندگی میں یا تو ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اس کو رنج و تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے یا وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس سے وہ خوشی و مسرت محسوس کرتا ہے ان دونوں حالتوں سے کوئی شخص خالی نہیں ہوتا، پس مومن کے لئے رنج و تکلیف میں مبتلا کرنے والی حالت صبر کا تقاضہ کرتی ہے اور خوشی و مسرت دینے والی حالت شکر کا، اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں مقام صبر و شکر، نہایت اعلیٰ ہیں اور بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث بنتے ہیں، اس طرح مومن گویا ہر حالت میں اعلیٰ مقام و مرتبہ اور بہت زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اوپر حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ  اور یہ بات صرف مومن کے لئے مخصوص ہے تو بظاہر مومن سے مراد مومن کا دل  ہے کیونکہ یہ کامل مومن کی ہی شان ہوتی ہے کہ وہ تنگی و سختی اور رنج و تکلیف کی حالت میں صبر کرتا ہے اور خوش حالی و مسرت کی صورت میں شکر گزار ہوتا ہے، اس کے برخلاف غیر کامل مومن کا یہ حالت ہوتا ہے کہ اگر اس کو رفاہ و خوش حالی اور خوشی و مسرت کے اسباب میسر ہو جاتے ہیں تو وہ مغرور ہو جاتا ہے اور خلاف شرع باتیں کرنے لگتا ہے۔ اور اگر تنگی و سختی اور رنج و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو جزع فزع، شکوہ شکایت اور کفران نعمت کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا ہر مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جس حالت میں بھی ہو اس کے مطابق اپنی کیفیت کا جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ اپنے فکر و خیال اور قول و فعل کے اعتبار سے اس حدیث کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اور پھر کامل مومن کہلانے کا مستحق ہے یا نہیں۔

کچھ خاص ہدایتیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قوی مسلمان، ضعیف مسلمان سے بہتر اور خدا کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے (یعنی جو مسلمان خدا کی ذات و صفات کے تئیں ایمان و اعتماد میں مضبوط ہوتا ہے اس پر پختگی کے ساتھ توکل و اعتماد رکھتا ہے ہر حالت میں نیکیاں و بھلائیاں اس کا مقصود ہوتی ہیں اور خدا کی راہ میں جہاد و ایثار کرتا ہے۔ یا یہ کہ جو مسلمان لوگوں کی صحبت وہم نشینی اور ان کی طرف سے پیش آنے والی ایذا و تکلیف پر صبر کرتا ہے، مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے کوشش کرتا ہے اور تقریر و تحریری اور درس و تعلیم کے ذریعہ خیر و بھلائی پھیلانے میں مصروف رہتا ہے وہ اس مسلمان سے کہیں زیادہ بہتر اور خدا کے نزدیک کہیں زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے جو ان صفات میں اس کا ہم پلہ نہیں ہوتا اور ہر مسلمان خواہ وہ قوی ہو یا ضعیف اپنے اندر نیکی و بھلائی رکھتا ہے۔ (یعنی کوئی مسلمان نیک صفات سے خالی نہیں ہوتا ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے، کیونکہ تمام نیکیوں اور بھلائیوں کا اصل سرچشمہ بنیادی ایمان ہے اور بنیادی ایمان ہر مسلمان میں ہوتا ہے) جو چیز تمہیں دین و آخرت کے اعتبار سے نفع پہنچانے والی ہو اس کی حرص رکھو، اللہ تعالیٰ سے نیک عمل کرنے کی مدد و توفیق طلب کرو اور اس طلب مدد و توفیق سے عاجز نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر پوری طرح قادر ہے کہ تمہیں اپنی طاعت و عبادت کی توفیق عطا فرمائے بشرطیکہ تم اس کی استعانت پر سیدھی طرح قائم رہو۔ اور بعض حضرات نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ تم اس چیز پر عمل کرنے سے عاجز نہ رہو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ اور ان کو ترک نہ کرو۔ نیز اگر تمہیں دین و دنیا کی کوئی مصیبت و آفت پہنچے تو یوں نہ کہو اگر میں اس طرح کرتا تو ایسا ہوتا بلکہ زبان قال یا زبان حال سے یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے یہی مقدر کیا تھا۔ لہٰذا جو کچھ بھی پیش آیا ہے قضا و قدر الٰہی کے مطابق ہی پیش آیا ہے اور اللہ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ اگر کا لفظ جب کسی چیز پر حسرت و پریشانی کے اظہار، تقدیر الٰہی کے ساتھ معارضہ و مقابلہ اور اپنی قوت و تدبیر پر اعتماد کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے تو شیطان کے عمل دخل کا دروازہ کھول دیتا ہے اور دل میں یہ غلط وسوسہ اور خیال سما جاتا ہے کہ ہر کام کا نتیجہ ہماری ہی تدبیر سے نکلتا ہے تقدیر الٰہی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 یہ کہنا کہ میں اگر فلاں تدبیر کر لیتا اور یہ کام اس طرح کر لیتا تو میں فلاں نقصان اور مصیبت سے بچ جاتا۔ اس لئے ممنوع ہے کہ ایسا کہنا بالکل لاحاصل ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں جو چیز جس طرح پیش آتی ہے وہ یوں ہی نہیں، بلکہ خدا کی مشیت اور اس کے حکم و فیصلہ کے مطابق پیش آتی ہے۔ جس کو تقدیر کا لکھا کہ آ جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ آیت(قل لن یصیبنا الاّ ماکتب اللہ لنا) (کہہ دو کہ ہمیں صرف وہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے) لہٰذا  لو یعنی  اگر کے لفظ کی ممانعت کا تعلق ایسی بات سے ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور جو تقدیر الٰہی کے معارض ثابت ہوتی ہے تاہم یہ واضح رہے کہ مذکورہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے نہ کہ نہی تحریمی کے طور پر! نیز اگر اس لفظ کا استعمال کسی ایسے جملہ میں ہو کہ جس کا مقصد کسی طاعت و عبادت کے فوت ہو جانے پر اظہار تاسف و حسرت سے ہو یا اس عبادت و طاعت سے اس معذوری و مجبوری کے اظہار و افسوس کے تئیں ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اور مختلف احادیث میں جو یہ لفظ منقول ہوا ہے وہ اسی مفہوم پر محمول کیا جاتا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عبادت و طاعت کے فوت ہو جانے پر اظہار تاسف کرنا ثواب کا باعث بھی ہے اور اس کو ان چیزوں میں شمار کیا جانا ہی لائق ہے جو مستحب ہیں۔

 چنانچہ امام رازی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب مشیخت میں ابی عمرو سے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے اپنی کسی دنیاوی چیز کے فوت و ضائع ہو جانے پر تاسف کیا تو وہ ایک ہزار سال کی مسافت کے بقدر دوزخ کے قریب ہو جاتا ہے اور جس شخص نے اپنے کسی دینی عمل اور کسی اخروی چیز کے فوت و ضائع ہو جانے پر تاسف کیا تو وہ ایک ہزار سال کی مسافت کے بقدر جنت کے قریب ہو جاتا ہے۔

اللہ پر پوری طرح توکل کرنے کی فضیلت

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد کرو جیسا کہ توکل کا حق ہے تو یقیناً وہ تمہیں اسی طرح روزی دے گا جس طرح کہ پرندوں کو روزی دیتا ہے۔ (وہ پرندے صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے اپنے گھونسلوں میں واپس آتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 توکل کا حق یہ ہے کہ اول تو اس بات پر پورا یقین و اعتقاد ہو کہ کسی بھی چیز کو وجود میں لانے والا اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ اور ہر موجودہ کو خواہ وہ جاندار یا غیر جاندار مخلوق ہو، یا رزق، کسی چیز کا ملنا ہو یا نہ ملنا ہو، ضرر ہو یا نفع ہو، غربت و افلاس ہو یا ثروت و مال داری ہو، مرض ہو یا صحت ہو، اور موت ہو یا حیات ہو، غرضیکہ کوئی بھی چیز ہو، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور سب چیزیں اسی کی طرف سے ہیں، پھر اس امر کا پختہ اعتقاد ہو کہ رزق کا ضامن بلا شک و شبہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اور پھر اس یقین و اعتقاد کے ساتھ حصول معاش کی سعی و جہد میں اچھے طور طریقوں سے، اور مناسب و معقول صورت میں مشغول ہو، یعنی کسب و کمائی میں زیادہ تعب و مشقت برداشت نہ کرے، حرص و لالچ میں مبتلا نہ ہو، ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے کی جدوجہد نہ کرے اور کمانے کی دھن میں غرق نہ ہو جائے کہ حلال و حرام کی تمیز بھی نہ کر سکے۔

 حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا گمان یہ ہو کہ  توکل نام سے کسب و عمل کے ترک کر دینے کا  اور ہاتھ پاؤں کو معطل کر دینے اور اپاہج بن کر پڑے رہنے کا کہ جس طرح کسی کپڑے کو زمین پر ڈال دیا جائے تو، وہ شخص نرا جاہل ہے۔ اور حضرت امام قشیری رحمۃ اللہ کا قول یہ ہے کہ  توکل کا اصل مقام قلب ہے، اور حصول معاش کے لئے حرکت و عمل ایک ظاہری فعل ہے جو توکل کے منافی نہیں ہے بشرطیکہ اصل اعتماد اپنے کسب و عمل کی بجائے محض اللہ تعالیٰ پر ہو، اسی لئے حدیث میں پرندہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور وہ اگرچہ اپنی روزی کی تلاش میں نکلتا ہے اور سارے جہاں میں مارا مارا پھرتا ہے لیکن اس کا اصل اعتماد اللہ تعالیٰ ہی پر ہوتا ہے، نہ کہ اپنی طلب اور جدو جہد اور اپنی تدبیر و قوت پر لہٰذا اس سے واضح ہوا کہ انسان کا حصول معاش کے لئے معقول اور مناسب طریقہ پر جدوجہد اور سعی کرنا اللہ تعالیٰ پر اعتماد و بھروسہ کرنے کے منافی نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا آیت(وکاین من دابۃ لا تحمل رزقہا اللہ یرزقہا وایاکم)۔ یعنی اور کوئی جانور اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو بھی اور تمہیں بھی رزق عطا کرتا ہے۔

 حاصل یہ کہ حدیث کا مفہوم اس امر سے آگاہ کرنا ہے کہ سعی جدوجہد اور کسب و عمل حقیقت میں رزق پہنچانے والا نہیں ہے بلکہ رزق پہنچانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح حدیث کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ انسان کو اپنی روزی کمانے کے لئے حرکت و عمل سے باز رکھا جائے کیونکہ اللہ پر توکل و اعتماد کا تعلق دل سے ہے جو اعضائے ظاہری کی حرکت و عمل کے مطلقاً منافی نہیں ہے، گو بسا اوقات اعضا و جوارح کی حرکت اور کسی کسب و عمل کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ رزق پہنچاتا ہے بلکہ توکل کی برکت تو یہاں تک ہوتی ہے کہ متوکل کو اپنا رزق لینے کے لئے حرکت بھی کرنا نہیں پڑتی بلکہ دوسرے حرکت کر کے اس تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق پہنچاتے ہیں جیسا کہ اس ارشاد ربانی کے عمومی مفہوم سے واضح ہوتا ہے۔ آیت(ومامن دابۃ فی الارض الاّ علی اللہ رزقہا)

 کہ جب کوے کے بچے انڈے سے باہر آتے ہیں تو بالکل سفید ہوتے ہیں اور کوا ان بچوں کو دیکھتا ہے تو وہ اسے بہت برے لگتے ہیں چنانچہ ان بچوں کو چھوڑ کر کوا چلا جاتا ہے۔ اور وہ تنہا پڑے رہ جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ ان کے پاس مکھی اور چیونٹیاں بھیجتا ہے جن کو وہ بچے بچے چن چن کر کھاتے ہیں، اور پرورش پاتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنا رنگ بدل دیتے ہیں اور بالکل سیاہ ہو جاتے ہیں، پھر جب کچھ عرصہ کے بعد کوا ان بچوں کے پاس آتا ہے اور ان کو سیاہ رنگ کو دیکھتا ہے تو ان کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور ان کی پرورش کرنے لگتا ہے اس سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ بغیر حرکت و سعی کے بھی کسی طرح رزق پہنچاتا ہے، اس سلسلے میں کافی حکایتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن یہ حکایت تو بہت ہی عجیب و غریب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روح قبض کرنے والے فرشتے عزرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا کسی کی روح نکالتے وقت تجھے رحم بھی کبھی آیا ہے؟ عزرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں اے میرے پروردگار، ایک موقع پر تو مجھے بہت ہی رحم آیا تھا، اور وہ اس وقت کا قصہ ہے جب کہ ایک کشتی ٹوٹ گئی تھی اور اس کے لوگ پانی میں غرق ہو گئے تھے لیکن کچھ لوگ ڈوبنے سے بچ گئے تھے اور کشتی کے باقی ماندہ تختوں پر تیر رہے تھے، انہی میں ایک عورت تھی جو ایک تیرتے ہوئے تختے پر بیٹھی ہوئی اپنے شیر خوار بچے کو دودھ پلا رہی تھی، جبھی تیرا حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کر لی جائے چنانچہ میں نے اس عورت کی روح قبض کر لی، لیکن اس کے بچے پر بہت رحم آیا جو اس دریا میں ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر تنہا رہ گیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے اس بچے کا انجام کیا ہو؟ میں نے اس تیرتے ہوئے تختے کو ایک جزیرہ کے کنارے لگ جانے کا حکم دیا جہاں اس نے بچہ کو ساحل پر ڈال دیا، پھر میں نے ایک شیرنی اس بچے کے پاس بھیجی جس نے اس کو اپنا دودھ پلا پلا کر پرورش کیا، جب وہ کچھ بڑا ہو گیا تو میں نے کچھ جنات متعین کر دئیے تاکہ وہ اس بچے کو آدمیوں کی بول چال اور رہن سہن کی تعلیم دیں، یہاں تک کہ وہ ایک مضبوط جوان ہو گیا اور پھر علم و فضل میں کمال حاصل کرتا ہوا علما کی صف میں داخل ہو گیا، دولت و امارت سے بہرہ مند ہوا اور آخرکار سلطنت کے مرتبہ کو پہنچ کر تمام روئے زمین کا بادشاہ و حکمران بن گیا، تب وہ اپنی اصل حقیقت کو بھول گیا، روئے زمین پر چلنے والی اس کی مطلق العنانی اس کی انسانیت و عبودیت کی سب سے بڑی دشمن بن گئی، اس نے عبودیت کے مرتبہ اور ربوبیت کے حقوق کو فراموش کر دیا اس کو یہ یاد نہ رہا کہ خدا تو وہ ذات ہے جس نے اس کو دریا کی لہروں سے زندہ بچا کر اپنی قدرت کے ذریعہ پرورش و تربیت کے مراحل سے گزارا، اور پھر اس مرتبہ تک پہنچایا کہ آج وہ تمام روئے زمین کا بادشاہ اور مطلق العنان حکمران بنا بیٹھا ہے، جانتے ہو وہ کون شخص تھا؟ وہ اس دنیا میں شداد کے نام سے مشہور ہوا ہے۔

 بہرحال اہل ایمان کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، جب وہ اپنے دشمنوں کو رزق دیتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ان بندوں کو بھول جائے جو اس کے دوست اور محبوب ہیں۔

حصول رزق کے بارے میں ایک خاص ہدایت

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ لوگو! کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو جنت سے قریب کر دے اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس کو اختیار کرنے کا حکم میں نے تمہیں دیا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو دوزخ کی آگ سے قریب کر دے اور جنت سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس سے میں نے تمہیں منع کیا ہے، اور روح الامین۔ یا ایک روایت میں ہے کہ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے (یعنی میرے پاس وحی خفی لائے ہیں) کہ بلاشبہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہیں کر لیتا (یعنی جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ اپنے اس رزق کو پائے بغیر دنیا سے نہیں جاتا جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے مقدر میں لکھ دیا جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ نے اس طرف یوں اشارہ فرمایا ہے آیت(اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم) پس جب یہ معاملہ ہے کہ جو رزق مقدر ہو گیا ہے وہ ہر حال میں ملے گا تو دیکھو، خدا کی نافرمانی سے ڈرتے رہو اور حصول معاش کی جدوجہد نیک روی اور اعتدال اختیار کرو تاکہ تمہارا رزق تم تک جائز و حلال وسائل و ذرائع اور مشروع طور طریقوں سے پہنچے نیز کہیں ایسا نہ ہو کہ رزق پہنچنے میں تاخیر تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم گناہوں کے ارتکاب کے ذریعہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگو، حقیقت یہ ہے کہ جو چیز خدا کے پاس ہے اس کو اس کی طاعت و خوشنودی ہی کے ذریعہ پایا جا سکتا ہے۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے لیکن بیہقی نے وان روح القدس کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔

 

تشریح

 

 حدیث کے ابتدائی جملوں کا مفہوم اس بات پر بصراحت دلالت کرتا ہے کہ وہ تمام باتیں جو انسانیت کو ابدی نفع پہنچانے والے امور اور نقصان کو دفع کرنے والے ذرائع سے روشناس کراتی ہیں صرف کتاب و سنت سے حاصل کی جا سکتی ہیں، جو باتیں اور جو چیزیں کتاب و سنت کی روشنی سے بے بہرہ ہوں وہ انسان کو صلاح و فلاح سے تو کیا ہمکنار کر سکتی ہیں ان میں اپنا وقت بھی صرف کرنا عمر کو بے فائدہ ضائع کرنا ہے۔

 لفظ  روح جان کے معنی میں آتا ہے اور اس سے  وحی جبرائیل اور عیسیٰ علیہ السلام کے معنی بھی لئے جاتے ہیں، یہاں اس لفظ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ذات مراد ہے اور ان کی صفت  امین کے ذریعہ بیان کرنا (یعنی ان کو روح الامین کہنا ان کی اس کمال دیانت داری کے سبب سے ہے جو خدا کے رسولوں تک علم و وحی پہنچانے میں ان کا وصف خاص ہے۔ اسی طرح روح القدس میں ان کی طرف قدس (پاکی) کی نسبت ناموئی نجاست و کثافت سے ان کی کمال طہارت و پاکی بنا پر ہے۔

 لفظ  اجملوا  اجال سے نکلا ہے اور اس کے معنی ہیں روزی کی تلاش میں اعتدال اختیار کرنا، مطلب یہ ہے کہ تم حصول معاش کی خاطر کئے جانے والے کسب و عمل اور سعی و جد و جہد میں نیکی و میانہ روی اختیار کرو، طلب معاش میں ضرورت سے زیادہ مشقت و محنت کرنا غیر مناسب بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں تلاش رزق کا مکلف قرار نہیں دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ آیت(وما خلقت الجن والانس الاّ لیعبدون۔ ماارید منہم من رزق وما ارید ان یطعمون۔ ان اللہ ہو الرزاق ذوالقوۃ المتین)۔ میں نے جنات اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں، میں ان سے رزق کا بالکل طالب نہیں ہوں اور نہ یہ قطعاً چاہتا ہوں کہ وہ مجھ کو بھلائیں، حقیقت یہ ہے کہ رزاق تو صرف اللہ تعالیٰ ہے (اور) وہ بڑی زبردست قوت کا مالک ہے۔

 ایک موقع پر پروردگار نے یوں فرمایا ہے۔ آیت(وامر اھلک بالصلوۃ واصطبر علیہا لا نسئلک رزقا نحن نرزقک، والعاقبۃ للتقویٰ)۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے کا حکم کرو اور اس پر صابر و قائم رہو، ہم تم سے روزی کے خواستگار نہیں ہیں (یعنی ہم تمہیں اپنی اور دوسروں کی روزی پیدا کرنے کا مکلف قرار نہیں دیتے بلکہ ہم تمہیں روزی دیتے ہیں اور حسن انجام انہیں کے لئے ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں۔

 حاصل یہ ہے کہ لفظ اجملو کے ذریعہ جو حکم دیا گیا ہے اس کا مفہوم اگر وہ مراد لیا جائے جو اوپر مذکور ہوا تو پھر یہ حکم اباحت کے لئے ہو گا، اور اگر اس لفظ کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ تم اپنا رزق حلال و جائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرو، تو اس صورت میں حکم وجوب کے لئے ہو گا، اس کی تائید بعد کی عبارت ولا یحملنکم الخ سے بھی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حصول معاش کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے اور رزق پہنچنے میں تاخیر محسوس کرو تو اس کی وجہ سے مضطرب و پراگندہ خاطر نہ ہو جاؤ اور ایسا ہرگز نہ ہو کہ روزی حاصل کرنے کے لئے حرام و مکروہ ذرائع اختیار کرنے لگو، مثل چوری ڈکیتی پر اتر آؤ کسی کا مال ہڑپ کر لو، امانت میں خیانت کے مرتکب ہو جاؤ اور کچھ نہ سہی تو اپنی سیادت و حیثیت اور اپنی عبادت و دیانت کا اظہار کر کے ان چیزوں کو حصول رزق کا واسطہ بنا لو، یا بیت المال جیسے مراکز سے اپنے حق اور اپنی حاجت سے زیادہ حاصل کرنے میں کوئی خرابی نہ سمجھو وغیرہ وغیرہ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ رزق دیر سے کبھی نہیں پہنچتا جو کچھ پہنچے اور جس وقت پہنچے اصل رزق ہی ہے اور اسی طرح مقدر ہوتا ہے، پھر یہ کہ گناہ و معصیت کے ارتکاب سے رزق میں نہ تو وسعت ہوتی ہے اور نہ جلدی پہنچتا ہے اسی قدر ملتا ہے اور اسی وقت پہنچتا ہے کہ مقدر میں جس قدر اور جس وقت پہنچنا لکھا جا چکا ہے، علاوہ ازیں مضطرب اور پراگندہ خاطر ہونے سے سوائے گناہ کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، اور جو رزق گناہ کے ساتھ پہنچے وہ حرام ہوتا ہے۔ لہٰذا حصول معاش کی راہ میں اضطراب و بے چینی اور گناہ و معصیت کی راہ اختیار کرنا کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

 طیبی نے لکھا ہے کہ اجملو کے ذریعہ جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مال کماؤ تو حسن و خوبی کے ساتھ کماؤ یعنی کسی حال میں ایسا کوئی ذریعہ اور ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کرو جو شریعت کے خلاف ہو

 لفظ استبطا اصل میں ابطا تاخیر ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور حرف  سین اظہار مبالغہ کے لئے ہے جیسا کہ قرآن نے ان الفاظ آیت(ومن کان غنیا فلیستعفف) میں استعفف دراصل عف (باز رہنے) کے معنی میں ہے۔

اصل زہد کیا ہے؟

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دنیا سے زہد اختیار کرنا یہ نہیں ہے کہ حلال چیزوں کو حرام کر لیا جائے اور مال و اسباب کو ضائع کر دیا جائے بلکہ دنیا سے زہد اختیار کرنا یہ ہے (یعنی اس دنیا کے تئیں کامل و معتبر زہد یہ) کہ مال و دولت اور دیگر دنیاوی اسباب میں سے) جو کچھ تمہارے ہاتھوں میں ہے اس پر اس چیز سے زیادہ اعتماد و بھروسہ نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے نیز زہد یہ ہے کہ تم اس وقت کہ جب کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو طلب ثواب کی خاطر اس مصیبت کی طرف کہ جو اگر تمہارے لئے باقی رہے زیادہ رغبت رکھو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عمرو بن واقد، منکر الحدیث ہیں۔

 

تشریح

 

 حقیقی زہد کیا ہے اور زاہد کسے کہتے ہیں؟ اس بات کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے چنانچہ ارشاد گرامی کے مطابق دنیا سے زہد اختیار کرنا اس چیز کا نام ہرگز نہیں ہے کہ محض دنیا کی نعمتوں اور لذتوں اور طبعی خواہشوں کو ترک کر دیا جائے جب کہ ایسا کرنا گویا ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا ہے جن کو خدا نے حلال کیا ہے اور یہ بات نہ صرف یہ کہ حقیقی زہد و تقویٰ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی بلکہ بذات خود ممنوع ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔

 آیت(لاتحرموا طیبات مااحل اللہ لکم) ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے علاوہ ازیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ ثابت ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرغوب ولذیذ چیزوں اور خدا کی اتاری ہوئی دنیاوی نعمتوں سے اجتناب نہیں کیا بلکہ جو چیز حاصل ہوئی اس سے فائدہ اٹھایا اور ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ زہد و تقوی کس سے ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جو نام نہاد صوفی اور جاہل محض ترک لذات کو زہد و تقویٰ کا کمال سمجھتے ہوئے عمدہ و لذیذ کھانوں اور پھل و میوہ جات وغیرہ سے اجتناب کرتے ہیں اچھے اور نئے لباس اور اسی طرح کی دوسری نعمتوں کو ترک کرتے ہیں اور اس چیز کو زہد و تقویٰ کا نام دیتے ہیں وہ حقیقت میں یہ جانتے تک نہیں کہ زہد کس کو کہتے ہیں اور زاہد ہونے کا مطلب کیا ہے، اسی طرح زہد و تقویٰ یہ بھی نہیں ہے کہ خدا نے جو مال و دولت اور روپیہ پیسہ عطا کیا ہو اس کو یوں ہی ضائع کر دیا جائے یا اس کو غیر مصرف میں خرچ کر دیا جائے مثلاً یہ سوچ کر کہ میرے پاس جو مال و دولت رہے زہد و تقویٰ کی راہ میں رکاوٹ ہے اس کو لے جا کر دریا میں پھینک دے یا فقیر و غنی مستحق و غیر مستحق کی تمیز کے بغیر لوگوں میں بانٹ دے۔

 حاصل یہ کہ نہ تو اس طرح کے ظاہری زہد کا اعتبار ہے اور نہ یہ بات گوارا کرنے کے قابل ہے کہ دنیا کے ظاہری مال و اسباب سے اپنے ہاتھ کو بالکل خالی رکھے اور کوئی چیز کمانے اور اپنے پاس رکھنے کو تو زہد و تقویٰ کے خلاف جانے مگر معاشی ضرورت و احتیاج کے وقت دل غیر اللہ کی طرف متوجہ رکھے بلکہ اصل مدار و اعتبار قلب کے زہد پر ہے کہ دل ہر صورت میں صرف اللہ کی طرف متوجہ رہے اور اس میں دنیا اور دنیا کی کسی چیز کی کوئی محبت نہ ہو۔

  جو کچھ تمہارے ہاتھوں میں ہے سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی مال و اسباب، تدبیر و ہنر، کسب و عمل اور مادی اسباب و وسائل ہیں۔ اسی طرح  جو اللہ کے ہاتھوں میں ہے سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز اس کے ظاہری و باطنی خزانوں میں ہے۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا اصل اعتماد و بھروسہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر ہونا چاہئے۔ جو اس نے تمہیں رزق دینے اور تم تک اپنی نعمتیں پہنچانے کے بارے میں کیا ہے کہ وہ تمہیں اس طرح رزق دیتا ہے اور ایسی جگہ سے تم تک اپنی نعمتیں پہنچاتا ہے کہ تم اس کا گمان بھی نہیں کر سکتے۔ جو چیز تم اپنی سعی و تدبیر سے حاصل کرتے ہو اور جو مال وغیرہ تم اپنے کسب و عمل کے ذریعہ پیدا کرتے ہو اس کو یہ نہ سمجھو کہ واقعتاً اس چیز کے حاصل ہونے اور اس مال کے ملنے کے صرف تمہاری تدبیر و سعی اور تمہارے کسب و عمل کا دخل ہے بلکہ یہ یقین رکھو کہ تم تک جو کچھ بھی آیا ہے وہ سب دراصل خدا ہی کی طرف سے اس کے وعدہ رزق کے مطابق آیا ہے اگر خدا تمہیں کچھ بھی نہ دینا چاہتا تو تم لاکھ تدبیر و سعی کرتے اور کتنی ہی محنت و مشقت سے کماتے تمہارے ہاتھ میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ آ سکتی تھی پھر اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے تھا کہ تم نے ظاہری اسباب و وسائل کے ذریعہ جو کچھ کمایا اور حاصل کیا ہے اور تمہارے کسب و عمل کے نتیجہ میں جو بھی چیز تمہارے پاس آئی ہے کہ خواہ وہ جاہ و منصب ہو یا مال و زر، خواہ وہ صنعتی و تجارتی کاروبار ہو یا زمین و جائیداد ہو، بالفرض محال علم کیمیا ہی کیوں نہ ہو، یہ سب چیزیں ان نعمتوں اور فائدوں سے زیادہ دیرپا ہرگز نہی ہو سکتیں جو خدا کے خزانہ قدرت میں موجود ہیں اور جو تمہیں ابھی نہیں ملی ہیں، کیونکہ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب تلف و فنا ہو جانے والا ہے اس کے برخلاف جو چیزیں اور نعمتیں خدا کے خزانوں میں ہیں وہ سب ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت(ماعندکم ینفد وماعنداللہ باق)۔ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے سب فانی ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔

 حدیث کے آخری جزو، وان تکون فی ثواب المصیبۃ الخ کا مطلب یہ ہے کہ زہد یہ بھی ہے کہ تم دنیا کی راحت چین اور آرام و آسائش کی طرف مائل و متوجہ نہ ہو اور دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی خواہش و آرزو نہ رکھو بلکہ یہ جانو کہ دنیا کی نعمتیں اور لذتیں دراصل ان آفات اور بلاؤں میں مبتلا کرنے کا ذریعہ ہیں جو دینی اور اخروی، زندگی کو نقصان پہنچاتی ہی۔ یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ تمہارا دل دنیا کی طرف مائل نہ ہو اور تمہارا نفس دنیاوی چیزوں سے کوئی انس و تعلق نہ رکھے لہٰذا جب تم کسی دنیاوی مصیبت و آفت میں مبتلا ہو تو اس وقت مضطرب و پریشان حال اور شاکی ہونے کے بجائے اس مصیبت و آفت کو خوش آمدید کہو اور اس کے ذریعہ اجر و ثواب کے طلبگار بنو یہاں تک کہ اس وقت تمہارے دل میں اس مصیبت کی طرف اتنی زیادہ رغبت و اشتیاق ہو کہ جیسے وہ ابھی آئی نہیں ہے اور تم اس کے منتظر ہو۔

 واضح رہے کہ ان الفاظ لو انہا بقیت میں لفظ بقیت دراصل لم یصب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور جملہ کا واضح مفہوم، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اجر و ثواب کی وجہ سے اس مصیبت کی طرف تمہاری رغبت، عدم مصیبت کی رغبت سے زیادہ ہونی چاہئے۔

 بہرحال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زہد کی مذکورہ دو صورتیں بیان کر کے یہ واضح فرمایا کہ کسی شخص میں ان دونوں صفات کا ہونا اس کے حق میں یہ کھلی ہوئی دلیل ہو گی کہ وہ زہد کے مقام پر فائز ہے دنیا اور دنیا کی چیزیں اس کی نظر میں کالعدم اور صرف آخرت اس کا مطلوب و مقصود ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ یوں تو بظاہر زہد کا مفہوم یہی ہے کہ دنیا سے بے رغبتی ہو، دنیاوی متاع و خواہشات جیسے مال و دولت اور جاہ و منصب وغیرہ کو ترک کیا جائے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ فرمایا کہ زہد کا مرتبہ محض اس چیز سے کامل نہیں ہوتا تاوقتیکہ صبر و توکل کا مقام حاصل نہ ہو اور آخرت کی طرف رغبت و اشتیاق اس حد کو نہ پہنچ جائے کہ اس دنیا میں جو مصیبتیں اور بلائیں پہنچیں وہ آخرت کے اجر و ثواب کی تمنا میں محبوب و پسندیدہ بن جائیں اور ان کا پہنچنا، ان کے نہ پہنچنے سے زیادہ مرغوب ہو۔ اگر یہ مقام حاصل ہو جائے تو سمجھنا چاہئے کہ زہد کی صفت پوری طرح پیدا ہو گئی، ورنہ بصورت دیگر محض مال و دولت کو ترک کرنا اور دنیاوی لذتوں اور نعمتوں سے اجتناب کرنا گویا اپنے مال کو ضائع کرنا اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا ہے۔

تمام تر نفع و نقصان پہنچانے والا اللہ ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن سفر کے دوران میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ لڑکے! اللہ تعالیٰ کے تمام احکام امر و نہی کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا خیال رکھے گا اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ان چیزوں پر عمل کرو گے جن پر عمل کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اور ان چیزوں سے اجتناب کرو گے جن سے اجتناب کرنے کا اس نے حکم دیا۔ نیز تم ہر وقت اور ہر معاملہ میں اسی کی رضا و خوشنودی کے طالب رہو گے تو یقیناً اللہ تعالی بھی تمہارا خیال رکھے بایں طور کہ تمہیں دنیا میں بھی ہر طرح کی آفات اور مصیبتوں سے بچائے گا اور آخرت میں بھی ہر عذاب و سختی سے محفوظ رکے گا، جیسا کہ فرمایا گیا ہے (ومن کان للہ کان اللہ لہ) یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے حق کا خیال رکھو گے تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ پاؤ گے یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کو ہر لمحہ یاد رکھو گے، اس کے نظام قدرت میں غور و فکر کرو گے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو گے تو تم اس کی بے پایاں رحمتوں اور اس کے انعامات کو اپنے سامنے پاؤ گے) جب تم سوال کا ارادہ کرو تو صرف اللہ تعالیٰ کے آگے دس سوال دراز کرو، جب تم (دنیا و آخرت کے کسی بھی معاملہ) میں مدد چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ اور یہ جان لو کہ۔ اگر تمام مخلوق کہ خواہ عوام ہوں یا خواص، انبیا ہوں یا اولیا اور ائمہ دین ہوں یا سلاطین دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہیں (یعنی اگر بفرض محال یہ ساری مخلوق اس بات پر اتفاق کر لے کہ وہ سب مل کر تمہیں کسی دنیاوی یا اخروی معاملہ میں کوئی فائدہ پہنچا دے تو ہرگز تمہیں نفع نہیں پہنچا سکے گی، علاوہ صرف اس چیز کے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر دنیا کے تمام لوگ مل کر بھی تمہیں کسی طرح کا کوئی نقصان و ضرر پہنچانا چاہیں تو وہ ہرگز تمہیں کوئی نقصان وضرر نہیں پہنچا سکیں گے علاوہ صرف اس چیز کے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے، قلم اٹھا کر رکھ دئیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔ (احمد، ترمذی)

 

تشریح

 

 تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے پاؤ گے کے معنی ایک یہ کہ جس کی طرف ترجمہ میں بھی بین القوسین اشارہ کیا گیا ہے، بعض حضرت کے مطابق یہ ہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی یعنی اس کی عبادت و طاعت اور اس کے احکام کی فرمانبرداری پر پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہو گے تو تمہیں اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے گا اور تمہارے ساتھ معاملات میں مدد اور مشکل کشائی کرے گا اور تمہارے مقاصد عزائم میں کامیابی عطا فرمائے گا (یا یہ کہ اس صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی کو اپنے سامنے پاؤ گے کہ وہ تمہارے تمام معاملات میں تمہاری رعایت کرتے گا اور طرح طرح سے تمہاری مدد و اعانت کرے گا۔

 ایک مطلب، جو بہت اونچے مقام کا ضامن ہے، یہ ہے کہ جب تم حق تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی، اس کی اطاعت عبادت کی پابندی اور اس کی رضا و خوشنودی کی طلب میں مشغول و مستغرق رہو گے تو اس وقت تمہاری نگاہ معرفت اس کو اپنے سامنے اس طرح پا لے گی کہ گویا وہ تمہارے سامنے موجود ہے اور تم مقام احسان اور کمال ایمان کے درمیان اس کا مشاہدہ کر رہے ہو اور بالکل ایسا محسوس کرو گے، جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو بایں حیثیت کہ اللہ کے سوا ہر چیز تمہاری نظر کے سامنے سے بالکل معدوم اور فنا ہو جائے گی، پس اس طرح تمہیں مراقبہ کی کیفیت بھی حاصل ہو گی اور مقام مشاہدہ بھی نصیب ہو گا۔

  صرف اللہ کے آگے سوا دست دراز کرو کیونکہ عطا و بخشش کے تمام خزانے اسی کے پاس اور اسی کے دست قدرت میں ہیں اور دنیا و آخرت کی ہر وہ نعمت و راحت جو بندہ کو پہنچتی ہے اور ہر وہ بلا و سزا جس سے بندہ محفوظ رہتا ہے محض اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پہنچتی ہے یا دفع ہوتی ہے، پھر اس کی رحمت، صرف رحمت ہے نہ کہ اس میں کسی غرض کی آمیزش ہے اور نہ کسی علت و سبب کا دخل، نیز وہ جواد مطلق اور ایسا غنی ہے کہ نہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی ہے اور نہ وہ کبھی محتاج ہوتا ہے لہٰذا صرف وہی ذات اس لائق ہے کہ اپنی ہر امید اس سے وابستہ کی جائے اس کے عذاب کے علاوہ اور کسی سے خوف نہ کھایا جائے، اپنی ہر مشکل میں اور ہر مہم میں صرف اسی کے حضور مدد کی التجا کی جائے اور تمام معاملات میں صرف اسی پر اعتماد کیا جائے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ جو کچھ بھی مانگنا ہو صرف خدا سے مانگو، اس کے علاوہ کسی اور کے آگے دست سوال دراز نہ کرو، کیونکہ کوئی اور دینے یا نہ دینے اور نفع پہنچانے یا نقصان دور کرنے پر قادر ہی نہیں ہے، جو ذات خود اپنے کو نفع پہنچانے، یا اپنے نقصان کو دور کرنے اور اپنی موت و حیات کی مالک نہیں ہے وہ کسی دوسرے کو کیا نفع پہنچا سکتی ہے اور کیا نقصان سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسی طرح مذکورہ حکم میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اپنی کسی بھی حالت میں اور کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کے آگے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں رہنا چاہئے کیونکہ ایک حدیث میں وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس پر اللہ تعالیٰ غضب ناک ہوتا ہے، علاوہ ازیں اپنے خالق کے آگے پھیلانا درحقیقت اس کے حضور اپنی عاجزی و بے کسی اور محتاجگی کا اظہار کرنا ہے جو عبودیت کی شان ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے

اللہ یغضب ان ترکت سؤالہ

وابنا آدم حینی یسال یغضب

 اللہ تعالیٰ تو اس وقت خفا ہوتا ہے جب تم اس سے سوال نہ کرو، اور آدم کے بیٹے اس وقت خفا ہوتے ہیں جب کہ کوئی ان سے سوال کرے۔

  اور اگر تمام مخلوق مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ ہر نفع نقصان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانو اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہی نفع پہنچانے والا بھی ہے اور نقصان پہنچانے والا بھی ہے اور نقصان پہنچانے والا بھی، اور وہی دینے والا ہے اور وہی نہ دینے والا بھی کسی ایک فرد بشر کا تو سوال ہی کیا ہے، اگر تمام روئے زمین کی ساری مخلوق مل کر بھی خدا کی مرضی و حکم کے خلاف کسی شخص کو کوئی نفع یا کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ اس شخص کو وہ نفع یا نقصان پہنچ جائے۔ الہیات کی بعض کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ۔ قسم ہے اپنی عزت و جلال کی یقیناً میں اس شخص سے انقطاع کر لیتا ہوں جو میرے علاوہ کسی اور سے اپنی امید وابستہ کرتا ہے اور لوگوں کی نظر میں اس ذلت کی پوشاک پہنا دیتا ہوں یعنی لوگوں کے سامنے اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہوں، اس کو اپنے قرب سے محروم کر دیتا ہوں اور اپنے وصل سے دور کر دیتا ہوں پس یقین بات یہ ہے کہ میں اس کو حیرانی و پریشانی اور تفکرات کے اندھیروں میں پھینک دیتا ہوں کیا وہ شخص اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے وقت میرے علاوہ کسی اور سے امید رکھتا ہے جب کہ پریشانیاں اور مشکلات میرے ہاتھ میں ہیں؟ میں الحئی القیوم ہوں وہ شخص فکر و پریشانی کے عالم میں دوسروں کے دروازوں کو کھٹکھٹاتا پھرتا ہے، جب کہ تمام دروازوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہیں اور دروازے بند ہیں؟ میرا دروازہ ہر اس شخص کے لئے کھلا ہوا ہے جو میری طرف آئے اور مجھ سے دعا مانگے۔

  قلم اٹھا کر رکھ دئیے ہیں سے مراد یہ ہے کہ جو احکام صادر ہوتے تھے سب لکھے جا چکے ہیں۔ اسی طرح  ' اور صحیفے خشک ہو گئے‘ سے مراد یہ ہے کہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اور جس کے حق میں جو کچھ پیش آنا ہے وہ سب تقدیر کی کتاب میں لکھا جا چکا ہے اور وہ کتاب خشک ہو چکی ہے کہ اب اس پر قلم نہیں چلے گی اور جو کچھ لکھ دیا گیا ہے اس کے بعد اب کچھ نہیں لکھا جائے گا۔ حاصل یہ کہ اس دنیا میں جو بھی آتا ہے اور قیامت تک جو بھی آئے گا اس کی تقدیر و قسمت کے فیصلے لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں، اور اس کام سے فراغت بھی ہو چکی ہے کہ اب کسی کے حق میں کچھ نہیں لکھا جائے گا۔ پس ہر شخص کی تقدیر و قسمت کے بہت پہلے لکھے جانے  قلم اٹھا کر رکھ دینے، اور صحیفوں کے خشک ہو جانے سے تعبیر کیا ہے اور اس میں مشابہت کا پہلو یہ ہے کہ جس طرح کوئی کاتب جب کتاب کو مکمل لکھ کر فارغ ہو جاتا ہے تو قلم اٹھا کر رکھ دیتا ہے اور کتاب کو بند کر دیتا ہے اسی طرح کاتب تقدیر بہت پہلے ہی مخلوق کی تقدیریں لکھ کر فارغ ہو چکا ہے اور وہ صحیفہ کہ جس میں تقدیریں لکھی ہوئی ہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لپیٹ دیا گیا ہے، اس میں کوئی تغیر و تبدل اور کوئی کمی پیشی ممکن نہ رہے اس کتاب کی ابتدا میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم تھا پھر اس سے فرمایا کہ لکھو قلم نے کہا کہ کیا لکھوں؟ فرمایا تقدیر لکھو۔ چنانچہ قلم نے وہ سب کچھ لکھا جو اب تک وقوع پذیر ہو چکا ہے اور جو قیامت تک وقوع پذیر ہو گا۔ اگر یہاں یہ اشکال پیدا ہو کہ یہ روایت (کہ قلم اٹھا کر رکھ دئیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے) قرآن کریم کی اس آیت (يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ) 13۔ الرعد:39) کے منافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محو و اثبات بھی دراصل انہی چیزوں میں سے ہے جو مقدر ہو چکی ہیں اور جن کو لکھنے کے بعد قلم رکھ دئیے گئے اور یہ صحیفے خشک ہو گئے کیونکہ قضا (یعنی وہ کلی احکام و فیصلے جو ازل سے اللہ تعالیٰ نے صادر فرما دئیے تھے) کی دو قسمیں ہیں ایک تو قضائے مبرم (کہ جو اٹل ہے اور جس میں کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں) اور دوسرے قضائے معلق (کہ جو اٹل نہیں ہے اور جس میں تغیر و تبدل ممکن ہے) علاوہ ازیں اس محو و اثبات کا تعلق لوح محفوظ، اور اللہ تعالیٰ کے علم سے ہے، یعنی یہ پہلے ہی سے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی کہ فلاں چیز کو اس طرح مٹایا یا باقی رکھا جائے گا اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے پس اسی مفہوم کو اللہ تعالیٰ کی محو و اثبات کی نسبت کر کے بیان کیا گیا ہے جو درحقیقت مقدر امور میں نہ تغیر کہلائے گا نہ تبدل۔

 بہرحال اس ارشاد گرامی میں یہ ترغیب ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل و اعتماد کرے رضائے مولی پر راضی رہے اور اپنی تدبیر و سعی اور ذاتی قوت و طاقت کو حقیقی موثر ہرگز نہ جانے کیونکہ پیش آنے والی کوئی بھی چیز کہ خواہ وہ سعادت و مسرت ہو یا شقاوت و کلفت، تنگی و سختی ہو یا فراخی و وسعت، خوشحالی ہو یا بدحالی، نفع ہو یا نقصان، اور موت ہو یا حیات، ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ سے باہر اور اس قضا و قدر الٰہی کے مطابق نہ ہو جس کو کاتب تقدیر نے زمین و آسمان کی پیدائش سے بھی پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا ہے اور جس چیز کا وقوع پذیر ہونا لکھا جا چکا ہے وہ ہر حالت میں اور ہر صورت میں وقوع پذیر ہو کر رہے گی اس کو نہ انسانی حرکت و سکون کا نظام روک سکتا ہے اور نہ تدبیر و سعی، پس خواہ خوشی کی حالت پیش آئے یا ضرر و تکلیف کی، بہر صورت شکر ادا کرنا لازم ہے نیز اس بات کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ بندہ اپنے دشمن و مخالف، اپنی تکلیف و مصیبت اور ضرر و نقصان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کا اسی صورت میں مستحق ہوتا ہے جب کہ وہ ان چیزوں کی وجہ سے پیش آنے والے رنج و الم پر صبر کرے اور کسی بھی حالت میں اپنی تقدیر و حالت کا شکوہ نہ کرے۔

 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں بڑی اچھی بات لکھی ہے ہر مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ اس حدیث کو اپنے دل کا آئینہ قرار دے اور اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس کے مطابق عمل کرے، تاکہ دنیا و آخرت میں سالم و محفوظ رہے اور دونوں جہان میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب عزت و سرفرازی سے نوازا جائے بعض روایات میں ان الفاظ تجدہ تجاہک کے بعد یہ عبارت بھی نقل کی گئی ہے۔

 تعرف الی اللہ فی الرخا یعرفک فی الشدائد فان استطعت ان تعمل للہ بالرضا فی الیقین فافعل فان لم تستطع فان فی الصبر علی ماتکرہ خیراکثیرا واعلم ان النصر مع الصبر والفرج مع الکرب وان مع العسر یسرا ولن یغلب عسر یسرین

 یعنی خوشحالی و شادمانی کی حالت میں نعمت شناسی اور طاعت حق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پہچانو یعنی اس کی یاد سے غافل نہ ہو اور اس کی شکر گزاری کرتے رہو۔ اگر ایسا کرو گے تو اس کے بدلہ میں یقیناً اللہ تعالیٰ بھی تمہیں تنگی و سختی کی حالت میں پہنچائے گا، یعنی وہ تمہیں اس تنگی و سختی سے نمٹنے کی طاقت و قوت، اس سے گلو خلاصی کا راستہ اور حاجت براری کی نعمت عطا فرمائے گا (پس اگر تم یقین کے مرتبہ پر رضا و خوشی کے ساتھ خدا کی خاطر کوئی کام کر سکتے ہو تو اس کام کو یقیناً کرو کیونکہ بلاشبہ بہت بڑا کام ہے اور اگر تم کوئی ایسا کام نہ کر سکو اور نعمت کی شکر گزاری کا حق پوری طرح ادا نہ کر سکو تو جانو کہ آفات و مصائب میں خواہ تنگی و سختی ہو یا وسعت و خوشحالی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی چیز پیش آتی ہے وہ یقیناً نعمت ہی ہوتی ہے اور خواہ ظاہر خواہ باطن کے اعتبار سے اس کے لطف کرم ہی کی ضامن ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص شکر گزاری کا حق پوری طرح ادا نہ کر سکے تو پیش آنے والی تنگی و سختی پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی ایک بڑی فضیلت رکھتا ہے اور جان لو کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے جب کہ وہ اطاعت حق اور ترک معصیت پر صابر اور ثابت قدم رہے اور وسعت و کشادگی دراصل رنج و الم کے ساتھ ہے یعنی ہر تنگی و سختی کے بعد وسعت و کشادگی آتی ہے اور رنج و غم کے بعد راحت و شادمانی کا دروازہ کھلتا ہے اور بے شک عسرت و سختی کے ساتھ خوش حالی و آسانی بھی ہے یعنی جب کسی آدمی پر سختی و تنگی آتی ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ خوش حالی و آسانی بھی عطا فرماتا ہے اور ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں ہو سکتی یعنی اگر انسان کسی تنگی و سختی میں مبتلا ہو تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ اس کے عوض دو آسانیاں پائے گا ایک تو اسی دنیا میں کہ اللہ تعالیٰ ہر سختی کے بعد آسانی پیدا کرتا ہے اور دوسری آسانی آخرت میں بصورت اجر و ثواب حاصل ہو گی جیسا کہ مسلمانوں کی تاریخ سے ثابت ہے جب کہ وہ دنیا میں تنگی و سختی اور مصائب و آلام میں مبتلا ہوئے اور انہوں نے صبر و عزیمت کے ساتھ ان سخت حالات کو برداشت کیا تو اس کے بعد ان کو پہلے تو اس دنیا میں قدرتی مدد و نصرت کے ذریعہ فتح و کامرانی اور عزت و حشمت اور ترفہ و خوشحالی کی نعمت ملی اور پھر انہیں آخرت میں وہاں جنت کی قیمتی راحتیں، بلند مراتب و درجات اور دیدار مولیٰ کی نعمت عظمی حاصل ہو گی۔

انسان کی نیک بختی اور بدبختی

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ابن آدم(انسان) کی یک بختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہے وہ اس پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی کو مانگنا چھوڑ دے، نیز ابن آدم کی بدبختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس سے ناخوش و ناراض ہو۔ اس روایت کو احمد و ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شقاوت و بھلائی اور اس کی نیک بختی کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی مانگے اس کے آگے دس سوال دراز کرے اور اس کی بارگاہ کبریائی میں اپنی عرض و مناجات پیش کرے اور پھر اپنی تقدیر و قسمت پر بہر صورت راضی رہے اور یہ یقین رکھے کہ میرے ساتھ جو کچھ بھی پیش آیا ہے، یا جو کچھ بھی پیش آنے والا ہے وہ سب خدا کے حکم و فیصلہ کے مطابق ہے جو اس نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے اور جو ہر اعتبار سے میرے لئے بہتر ہے۔ اگرچہ خدا سے خیر و بھلائی مانگنے کی بات انسان کی نیک بختی کے ضمن میں نقل نہیں کی گئی ہے۔ لیکن بعد کی عبارت کو کہ جس میں انسان کی بد بختی کا ذکر کیا گیا ہے مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مراد یہی ہے۔

 اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی مانگنے سے اجتناب کرنے سے انسان کی بدبختی قرر دینا اس امر کو واضح کرتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اپنی بھلائی اور اپنی بہتری کے لئے خدا کی طرف متوجہ اور اس سے ہمیشہ خیر کا طلبگار رہے۔

 نیز جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ ابن آدم کو چاہئے کہ وہ ہر صورت میں قضا و قدر الٰہی پر راضی رہے۔ تو اس سے یہ وہم پیدا ہو سکتا ہے کہ گناہ کے علاوہ اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب ہو جانے کی صورت میں بھی اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر اس پر راضی و مطمئن ہو جانا چاہئے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح فرمایا کہ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی ہی کا طالب رہے تاکہ وہ پاک ذات اس کو صرف خیر بھلائی کی راہ پر لے جائے اور اس کو صرف پسندیدہ امور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے، اور برائی کی رہ اور خلاف شریعت امور سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔

 واضح رہے کہ ہر صورت میں اور ہر حالت میں قضا و قدر الٰہی پر راضی ہونا بہت بڑی بات ہے اور اس مقام کا نام   یعنی مرتبہ عظمی ہے۔

 یہ بات بتا دینا بھی ضروری ہے کہ قضا و قدر الٰہی پر راضی ہونے کو، کہ وہ اپنی تقدیر و قسمت کے خلاف ناراضگی و غضب ناکی کو ترک کرتا ہے، انسان کی سعادت و نیک بختی قرار دینا دو چیزوں کی وجہ سے ہے، ایک تو یہ کہ جو شخص قضائے الٰہی پر راضی رہتا ہے، اس کو سکون قلب، ذہنی فراغت و اطمینان اور خاطر جمعی کی دولت نصیب ہو جاتی ہے اور یہ چیز ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اپنے معاملات و کاروبار اور خاص طور پر حق تعالی کی اطاعت و عبادت میں نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ مشغول رہتا ہے، چنانچہ جو شخص تقدیر پر اعتقاد نہیں رکھتا یا قسمت کے لکھے پر رضی نہیں ہوتا وہ ذرا ذرا سی مصیبت اور حادثات پر متفکر اور پراگندہ خاطر رہتا ہے اور یہ ادھیڑ بن اس کو اپنے مقاصد و معاملات اور طاعات و عبادات میں دل و دماغ کے سکون و اطمینان سے محروم رکھتی ہے کہ یہ مصیبت کیوں آ گئی، فلاں حادثہ کیسے رونما ہو گیا اور یہ بات اس طرح کیوں نہ ہو گئی؟

 دوسرے یہ کہ یہ چیز بندہ کو اس سبب سے اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ سے بچاتی ہے کہ وہ خدا کی لکھی تقدیر کے خلاف اپنی ناراضگی اور اپنے غصہ کا اظہار نہیں کرتا۔ اور تقدیر کے خلاف انسان کی ناراضگی و غصہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا ذکر کرے اور اس چیز کو اپنے حق میں بہتر قرار دے دے، جس کو اللہ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز خدا نے اس کے مقدر میں لکھ دی ہے وہ یقینی طور پر اس چیز سے بہتر اور اولیٰ ہے جس کا اچھا اور برا ہونا سرے یقینی ہی نہیں ہے۔

 استخارہ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے بہتری اور اچھائی طلب کی جائے بلکہ یہ یقین و اعتقاد رکھے کہ یہ انسان یہ جانتا ہی نہیں کہ اس کے حق میں کونسی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بری، یہ صرف خدا ہے جو اپنے بندوں کے حق میں اچھی اور بری چیز کو جانتا ہے، چنانچہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کو اپنے حق میں بہتر جانتا ہے مگر حقیقت میں وہ چیز اس کے حق میں بری ہوتی ہے، یا کسی کی چیز کو اپنے لئے برا سمجھتا ہے مگر حقیقت میں وہ چیز اس کے حق میں اچھی ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے

آیت( عسی ان تکرہوا شیا وہو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیاا وہو شرلکم واللہ یعلم وانتم لا تعلمون)

 یہ بالکل بعید نہیں ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے حق میں بری سمجھو مگر حقیقت میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو اور یہ بھی بعید نہیں ہے کہ کسی چیز کو تم اپنے حق میں اچھی سمجھو مگر حقیقت میں وہ تمہارے لئے بری ہو، یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے کہ تمہارے حق میں کونسی چیز اچھی ہے اور کونسی بری؟

 جب یہ یقین و اعتقاد پختہ ہو جائے تو پھر اس یقین و اعتقاد کے ذریعہ آگے کا درجہ اختیار کرے کہ اس دنیا میں اور ہماری زندگی میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے اور اس کے حکم و فیصلہ کے مطابق ہے اور جو بھی چیز اللہ کے حکم و فیصلہ کے مطابق ہوتی ہے وہ حقیقت اور انجام کے اعتبار سے خیر و بھلائی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی اس لئے وارد ہوا ہے کہ۔ الخیر بیدیک والشر لیس الیک، اے رب خیر و بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اور برائی تیری طرف سے منسوب نہیں کی جا سکتی

 اور پھر یہ مستحب ہے کہ اگر کوئی اہم دینی یا دنیوی معاملہ درپیش ہو تو اس کے متعلق ذی علم اصحاب رائے اور مخلصین سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد استخارہ کیا جائے یعنی کارساز حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر خیر و بھلائی کی دعا مانگی جائے، استخارہ میں کم سے کم یہ چیز ہے کہ یوں دعا مانگی جائے۔ اللہم خر لی واختر لی فلاتکلنی الی اختیاری۔ اے اللہ میرے حق میں بہتر فرما، اور جو چیز میرے لئے بہتر ہو رہی ہے اختیار فرما، پس مجھے میرے اختیار کے سپرد نہ فرما۔

 اور استخارہ کا کامل طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نماز پڑھے اور پھر استخارہ کی دعا پڑھے جو بطور  مسنون دعا  مشہور ہے اور اسی کتاب کے گزشتہ صفحات میں نقل بھی کی جا چکی ہے۔

طبرانی نے اوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ ماخاب من استخار ولا ندم من استشار ولا عال من اقتصد۔ یعنی وہ شخص نامراد نہیں ہو سکتا جس نے استخارہ کیا، وہ شخص نادم و شرمندہ نہیں ہو سکتا جس نے مشورہ کیا اور وہ شخص محتاج نہیں ہو سکتا جس نے میانہ روی اختیار کی۔

 بعض حکما نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ چار چیزیں حاصل ہو گئیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہو سکتا، جس شخص کو شکر گزاری کا مرتبہ حاصل ہو وہ نعمتوں میں اضافہ و زیادتی سے محروم نہیں رہے گا، جس شخص کو توبہ کی توفیق نصیب ہو گی وہ قبولیت سے محروم نہیں رہے گا جس شخص نے استخارہ کا راستہ اختیار کیا وہ بہتری و بھلائی سے محروم نہیں رہے گا، جس شخص نے مشورہ حاصل کیا وہ صحیح بات تک پہنچنے سے محروم نہیں رہے گا۔

خدا پر کامل اعتماد کا اثر

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اس جہاد میں شریک تھے جو نجد کی اطراف میں ہوا تھا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جہاد سے فارغ ہوئے اور واپس ہوئے تو جابر رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہی واپس ہوئے اسی سفر کے دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم دوپہر کے وقت ایک ایسے جنگل میں پہنچے جس میں کیکر کے درخت زیادہ تھے، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کے ساتھ وہیں اتر پڑے اور تمام لوگ درختوں کے سایہ کی تلاش میں ادھر ادھر پھیل گئے (یعنی ہر شخص ایک درخت کے نیچے چلا گیا اور اس کے سایہ میں کچھ دیر استراحت کی خاطر لیٹ گیا) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی کیکر کے ایک بڑے درخت کے نیچے فروکش ہو گئے اور اپنی تلوار کو اس درخت کی ٹہنی میں لٹکا دیا (حضرت جابر کہتے ہیں) کہ ہم لوگ تھوڑی سی نیند لینے کی خاطر سو چکے تھے کہ اچانک ہم نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں آواز دے رہے ہیں چنانچہ ہم لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹے ہوئے ہیں اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک دیہاتی کافر موجود ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارے جمع ہونے پر فرمایا کہ یہ دیہاتی اس وقت جب کہ میں سو رہا تھا مجھ پر میری تلوار سونت کر کھڑا ہو گیا، اور جب میری آنکھ کھل گئی تو میں نے دیکھا کہ میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں ہے، اس نے مجھ سے کہا کہ اب تمہیں کون مجھ سے بچائے گا؟ میں نے فوراً جواب دیا کہ میرا خدا مجھے بچائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات تین مرتبہ کہی اور اس دیہاتی کو کوئی سزا نہیں دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ (بخاری و مسلم) اور اس روایت میں کہ جس کو ابو بکر اسماعیلی نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے یہ الفاظ ہیں کہ اس دیہاتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تلوار سونت کر کہا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ بچائے گا۔ یہ سنتے ہی دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تلوار کو اٹھا لیا اور فرمایا کہ اگر میں تمہیں قتل کرنا چاہوں تو بتاؤ کہ اب تمہیں کون مجھ سے بچائے گا؟ دیہاتی نے جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو بھلائی کے ساتھ گرفت کرنے والے ہیں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان سے تو مجھے یہ امید ہے کہ میرے لئے انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی اور آپ از راہ لطف و کرم مجھے معاف کر دیں گے) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اچھا اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے یہ فرمایا کہ اگر تمہیں میرے اوپر اتنا زیادہ اعتماد ہے تو پھر یقیناً یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتے ہو گے کہ میری دعوت اسلام بالکل برحق اور مبنی بر صدق ہے، اس صورت میں تو تمہیں چاہئے کہ کلمہ پڑھ لو اور مسلمان ہو جاؤ(دیہاتی نے کہا کہ مسلمان تو نہیں ہو سکتا البتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ عہد ضرور کرتا ہوں کہ نہ میں خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کا ساتھ دوں گا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لڑیں گے۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دیہاتی کو چھوڑ دیا اور جب وہ دیہاتی اپنی قوم میں آیا تو کہنے لگا کہ میں تمہارے درمیان ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو سب سے بہتر انسان ہے۔ بخاروی و مسلم کی مذکورہ بالا روایت انہی الفاظ کے اضافہ کے ساتھ کتاب حمیدی اور امام محی الدین ہوری کی تصنیف ریاض الصالحین میں بھی منقول ہے۔

 

تشریح

 

 نجد لغت میں تو زمین کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو عام سطح سے بلند ہو، اور ویسے یہ جزیرۃ العرب کے ایک خاص علاقے کا نام ہے اور چونکہ یہ علاقہ ایک سطح مرتفع ہے اس لئے اس کو نجد کا نام دیا گیا ہے زمانہ قدیم میں نجد ایک بہت مختصر علاقہ پر مشتمل تھا مگر موجودہ جغرافیہ میں جزیرۃ العرب کے سارے وسطی علاقہ کو نجد کہا جاتا ہے، جس کا انتہائی طول تقریباً آٹھ سو میل اور انتہائی عرض تقریباً سو دو سو میل ہے، یہ شمال میں بادیۃ الشام کے جنوبی سرے سے شروع ہو کر جنت میں وادی الدوارس یا الربع انحالی تک اور عرضا  احسا سے حجاز تک پھیلا ہوا ہے۔

  عضاہ اصل میں  عضہ کی جعم ہے اور جس کا اطلاق ہر اس درخت پر ہوتا ہے جو کانٹے دار ہو، اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ  عضاہ کیکر کے درخت کو کہتے ہیں اور جو درخت عضاہ سے بڑا ہو اس کو سمرہ کہا جاتا ہے۔

تقویٰ و پرہیز گاری اور رزق

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بلاشبہ میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ محض اسی آیت پر عمل کریں تو ان کے حق میں وہی ایک آیت کافی ہو جائے اور ان کو دیگر وظائف و اوراد کی ضرورت نہ رہے وہ آیت یہ ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب الایۃ۔ یعنی جو شخص خدا سے ڈرے تو خدا اس کے لئے دنیا اور آخرت کے غموں سے نجات کا راستہ پیدا کر دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے تعب و مشقت اور فکر و تردد کیے بغیر روزی دیتا ہے جہان وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

 پوری آیت کہ جس کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ فرمایا، یوں ہے۔ آیت(وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجاً     ۙ  وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۭ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ    ۭ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً    ) 65۔ الطلاق:3-2)۔ اور جو شخص خدا سے ڈرے تو خدا اس کے لئے نجات کا راستہ پیدا کر دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اپنے امور و معاملات میں خدا پر توکل و اعتماد کرے تو وہ دونوں جہاں میں اس کے لئے کافی ہے بے شک اللہ تعالیٰ اپنی مرد کو پہنچنے والا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے اندازہ مقرر کیا ہے۔

 پس آیت(ومن یتق اللہ سے حیث لایحتسب تک میں تو اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے دنیا و آخرت کے اس کے ان تمام امور و معاملات میں کافی ہو جاتا ہے جن سے وہ ڈرتا ہے اور جو اس کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتے ہیں بایں طور کہ اس کو ایسی تمام چیزوں سے محفوظ و مامون رکھا جاتا ہے۔

 اور ومن یتوکل علی اللہ سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ شخص اگر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ و اعتماد کر کے دنیا و آخرت کی نعمتوں کا طلبگار و متلاشی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے بایں طور کہ اس کو وہ نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ ان اللہ بالغ امرہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنی مراد کو پہنچنے والا ہے سے مراد یہ ہے کہ وہ قادر مطلق اپنے احکام اور فیصلوں کو جاری اور نافذ کرنے والا ہے، یعنی اس کو ہر طرح کا حکم و فیصلہ جاری کرنے کے کلی اختیار بھی حاصل ہے اور وہ اپنے ہر حکم و فیصلہ کو نافذ کرنے کی پوری طاقت و قدرت بھی رکھتا ہے، کیونکہ جب یہ جان لیا گیا کہ از قسم رزق اور اس کے مانند ہر چیز تقدیر الٰہی اور توفیق خداوندی ہی سے تعلق رکھتی ہے کہ انسان جس چیز کی بھی خواہش و طلب رکھتا ہے وہ اس کے حکم و فیصلہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی، تو اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ انسان قضا و قدر کے آگے سر تسلیم خم رکھے اور اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پر توکل و اعتماد کرے۔

رزق دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو یہ آیت سکھائی۔(اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ) 51۔ الذاریات:58)۔ یعنی اے انسان جان لے کہ بلاشبہ میں ہی روزی دینے والا ہوں اور غالب طاقت رکھنے والا ہوں۔ (ابو داؤد، ترمذی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 انی انالرزاق قرأت شاذہ ہے، قرأت مشہور کے مطابق اس آیت کے الفاظ اصل میں یوں ہیں آیت (اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ) 51۔ الذاریات:58) بلاشبہ خدا ہی رزق دینے والا اور غالب طاقت والا ہے حاصل یہ ہے کہ جب رزق دینے والا اور غالب طاقت رکھنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کی ذات کے علاوہ اور کسی پر قطعاً بھروسہ نہ کیا جائے اور اپنے امور کا بہتر کارساز و وکیل اس کے علاوہ اور کسی کو ہرگز نہ سمجھا جائے۔

کسب و کمائی کو اصل رازق نہ سمجھو

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں دو بھائی تھے جن میں سے ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں رہا کرتا تھا کیونکہ اس کے اہل و عیال نہیں تھے، اور وہ حصول معاش کی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو کر طاعت و عبادت اور دینی خدمات میں مشغول رہا کرتا تھا، اس وجہ سے اس کے اوقات کا اکثر حصہ بارگاہ رسالت میں حاضر باشی کے ذریعہ حصول علم و معرفت میں صرف ہوتا تھا اور دوسرا بھائی کوئی کام کرتا تھا یعنی حصول معاش کے لئے کسی ہنر و پیشہ کے ذریعہ کماتا تھا اور دونوں بھائی ایک ساتھ کھاتے پیتے تھے چنانچہ کمانے والے بھائی نے اپنے دوسرے بھائی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی یعنی میرا بھائی نہ تو میرے کام کاج میں ہاتھ بٹاتا ہے اور نہ خود الگ سے کوئی کام کر کے کماتا ہے اور اس طرح اس کے کھانے پینے کا خرچ مجھے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی یہ شکایت سن کر فرمایا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

 

تشریح

 

 حضور کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ تم یہی کیوں سمجھتے ہو کہ تمہیں جو رزق ملتا ہے وہ حقیقت میں تمہارے کمانے کی وجہ سے ملتا ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ تم اپنے اس بھائی کے ساتھ جو ایثار کا معاملہ کرتے ہو اور اس کی معاشی ضروریات کا بوجھ برداشت کر کے جس طرح اس کو فکر و غم سے دور رکھتے ہو اسی کی برکت کی وجہ سے تمہیں بھی رزق دیا جاتا ہو، پس اس صورت میں شکوہ و شکایت کرنے اور اس پر احسان رکھنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علم و عمل اور دینی خدمات کی طرف متوجہ رہنے اور زاد عقبی کی تیار کے لئے دنیاوی مشغولیات کو ترک کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ فقرا اور خاص طور پر اپنے ضرورت مند اور غریب اعزا و اقربا کی خبر گیری کرنا اور ان کی معاشی ضروریات کی کفالت کرنا، رزق میں وسعت و برکت کا باعث ہے۔

توکل کی ہدایت

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بلاشبہ انسان کے دل کے لئے ہر جنگل میں ایک شاخ اور ایک گوشہ ہے (یعنی انسان کے دل اور اس کی جبلت میں رزق کے اسباب و ذرائع اور اس کے حصول کے تعلق سے طرح طرح کی فکریں اور غم ہیں پس جس شخص نے اپنے دل کو ان شاخوں اور گوشوں کی طرف متوجہ رکھا یعنی اس نے اپنے دل کو ان تفکران اور غموں میں مشغول و منہمک رکھا اور پراگندہ خاطری کا شکار ہوا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ اس کو کسی جنگ میں ہلاک کرے (یعنی جب وہ شخص خدا پر توکل و اعتماد سے بے پرواہ ہو کر ساری توجہ اپنی ذاتی تدبیر و سعی اور تگ و دو میں مشغول رکھتا ہے تو پھر خدا کو کیا پرواہ کہ وہ کس طرح ہلاکت وتباہی میں مبتلا ہوتا ہے اس دنیا سے کس مشغولیت میں رخصت ہوتا ہے اور کس حالت میں موت اس کو آ دبوچتی ہے اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد کیا اور اپنے تمام امور اس کے سپرد کر دئیے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کی درستی کے لئے کافی ہو جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد و رحمت اس کو دل و دماغ کی پراگندگی و پریشانی، ضروریات کی تکمیل کے لئے ادھر ادھر بھٹکنے اور گوناگوں جسمانی محنت و مشقت کے تعب و غم سے نجات دیتی ہے۔ (ابن ماجہ)

خدا پر بھروسہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بزرگ و برتر تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ اگر میرے بندے میری فرمانبرداری کریں (یعنی میرے بتائے ہوئے راستہ پر چلیں، اور میری رضا و خوشنودی کے خلاف کوئی کام نہ کریں تو یقیناً میں ان پر رات میں تو بارش برساؤ تاکہ وہ راحت و چین کی نیند سائیں اور دن کو ان پر دھوپ کی چادر پھیلاؤں تاکہ وہ اپنے کام و کاج میں مشغول رہ سکیں اور خواہ دن ہو یا رات ان کو بادل گرجنے کی آواز نہ سناؤں تاکہ تو ان کی نیند اور آرام میں خلل پڑے اور نہ وہ ڈرنے اور گھبرانے کی وجہ سے اپنے کام کاج میں کسی رخنہ اور نقصان سے دوچار ہوں۔ (احمد)

صبر و توکل سے متعلق ایک حیرت انگیز واقعہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا واقعہ کہ وہ ایک دن، اپنے گھر والوں کے پاس آیا یعنی کہیں باہر سے آ کر گھر میں داخل ہوا تو اس نے گھر والوں پر محتاجگی اور فاقہ و فقر کے آثار دیکھے، وہ یہ دیکھ کر اپنے خدا کے حضور اپنی حاجات پیش کرنے اور یکسوئی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں عرض و مناجات کرنے کے لئے جنگل کی طرف چلا گیا، ادھر جب اس کی بیوی نے یہ دیکھا کہ شوہر کے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ شرم کی وجہ سے گھر سے باہر چلا گیا ہے تو وہ اٹھی اور چکی کے پاس گئی، چکی کو اس نے اپنے آگے رکھا یا اس نے چکی کے اوپر کا پاٹ نیچے کے پاٹ پر رکھا، اور یا یہ معنی ہیں کہ اس نے اس امید میں چکی کو صاف کیا اور تیار کر کے رکھ دیا کہ شوہر باہر سے آئے گا تو کچھ لے کر آئے گا اس کو پیس کر روٹی پکا لوں گی پھر وہ تنور کے پاس گئی اور اس کو گرم کیا، اس کے بعد خدا سے یہ دعا کی۔ الٰہی! ہم تیرے محتاج ہیں، تیرے غیر سے ہم نے اپنی امید منقطع کر لی ہے، تو خیرالرازقین ہے، اپنے پاس سے ہمیں رزق عطا فرما۔ پھر جو اس نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتی ہے کہ چکی کا گرانڈ آٹے سے بھرا ہوا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ آٹا گوندھ کر تنور کے پاس گئی تاکہ اس میں روٹیاں لگائے تو تنور کو روٹیوں سے بھرا ہوا پایا یعنی خدا کی قدرت نے یہ کرشمہ دکھایا کہ خود بخود اس آٹے کی روٹیاں بن کر تنور میں جا لگیں یا یہ کہ آٹا تو اپنی جگہ چکی کے گرانڈ میں پڑا رہا، اور تنور میں غیب سے روٹیاں نمودار ہو گئیں راوی کہتے ہیں کہ کچھ دیر بعد جب خاوند بارگاہ رب العزت میں عرض و مناجات اور دعا سے فارغ ہو کر گھر آیا تو بیوی سے پوچھا کہ کیا میرے جانے کے بعد تمہیں کہیں سے کچھ غلہ وغیرہ مل گیا تھا کہ تم نے یہ روٹیاں تیار کر رکھی ہیں ؟ بیوی نے کہا ہاں یہ ہمیں خدا کی طرف سے ملا ہے (یعنی یہ عام طریقہ کے مطابق کسی انسان نے ہمیں نہیں دیا ہے بلکہ یہ رزق محض غیب سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے) خاوند نے یہ سنا تو اس کو بہت تعجب ہوا اور وہ اٹھ کر چکی کے پاس گیا اور چکی کو اٹھایا تاکہ اس کا کرشمہ دیکھے) پھر جب اس واقعہ کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پورا قصہ سن کر فرمایا  جان لو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر وہ شخص اس چکی کو اٹھا نہ لیتا تو وہ چکی مسلسل قیامت کے دن تک گردش میں رہتی اور اس سے آٹا نکلتا رہتا۔ (احمد)

 

تشریح

 

 مذکورہ واقعہ کی صورت میں خدا کی قدرت کا جو کرشمہ ظاہر ہوا وہ درحقیقت، فقر و فاقہ پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد و توکل کرنے کا نتیجہ تھا۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ کسی پچھلی امت کے کسی شخص کا نہیں ہے بلکہ امت محمدی کے ایک فرد کا ہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔

رزق انسان کی تلاش میں رہتا ہے

حضرت ابو دردا کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رزق بندے کی اس طرح تلاش کرتا ہے جس طرح انسان کو اس کی موت ڈھونڈتی ہے۔ اس روایت کو ابو نعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ رزق اور موت دونوں کا پہنچنا ضروری ہے کہ جس طرح کہ اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہوتی کہ کوئی اپنی موت کو ڈھونڈے اور اس کو پائے بلکہ خود موت اس کے پاس ہر صورت میں اور یقینی طور پر آتی ہے، اسی طرح رزق کا معاملہ ہے کہ اس کو تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو کچھ مقدر میں ہوتا ہے وہ ہر صورت میں لازمی طور پر پہنچتا ہے، خواہ اس کو ڈھونڈا جائے یا نہ ڈھونڈا جائے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ڈھونڈنے کی صورت میں رزق نہیں ملتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حصول رزق کے لئے سعی تلاش بھی تقدیر الٰہی اور نظام قدرت کے مطابق ہے البتہ جہاں تک قلبی اعتماد و بھروسہ کا تعلق ہے اور وہ صرف خدا کی ذات پر ہونا چاہئے نہ کہ سعی و تلاش پر۔ لہٰذا اس سلسلے میں صحیح راہ یہ ہے کہ اول انسان کو خدا پر توکل اعتماد کرنا چاہئے اور یہ پختہ یقین رکھنا چاہئے کہ رزق کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے۔ نیز اگر رزق ملنے میں کوئی رکاوٹ اور تاخیر ہو جائے تو اضطراب و بے چینی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے پھر اس اعتقاد کے ساتھ اپنی ضرورت و حاجت اور ہمت و طاقت کے بقدر معتدل و مناسب طریقہ پر حصول معاش کی سعی و تلاش میں لگنا چاہئے کہ اصل رازق تو اللہ تعالیٰ ہے، لیکن یہ بھی طریقہ عبودیت ہے کہ اپنا رزق حاصل کرنے کے لئے مناسب جد و جہد اور تلاش و سعی کی جائے۔

 ملا علی قاری نے حدیث کے خاتمہ پر لکھا ہے کہ یہی نہیں کہ جس طرح انسان کو اس کی موت کا پہنچنا یقینی ہے اسی طرح اس کے رزق کا بھی اس تک پہنچنا یقینی ہے بلکہ انسان کو اس کا رزق اس کی موت سے بھی پہلے اور موت سے بھی جلدی پہنچتا ہے، کیونکہ جب کسی کی موت آتی ہے تو وہ اپنا رزق اس سے پہلے پا چکا ہوتا ہے جس کو وہ اپنے مقدر میں لے کر اس دنیا میں آیا تھا، چنانچہ اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت(اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم ثم یحییکم) سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے نیز میرک نے منذری سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی صحیح میں اور بزار نے بھی روایت کیا ہے اور طبرانی نے بھی بہتر سند کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ان الرزق لیطلب العبد اکثر ممایطلبہ اجلہ اس سے بھی مذکورہ بالا بات کی تائید ہوتی ہے۔

 ملا علی قاری نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیہ میں بطریقہ مرفوع یہ بات بھی نقل کی ہے لون ابن ادم ہرب من رزقہ کما یہرب من الموت لادرکہ رزقہ کما یدرکہ الموت اگر انسان اپنے رزق سے بھی اس طرح بھاگے جس طرح وہ اپنی موت سے بھاگتا ہے تو یقیناً اس کا رزق بھی اس کو اسی طرح پا لے جس طرح کہ اس کی موت اس کو پا لیتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا لا مثال صبر

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ گویا میں اس وقت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک ایسے نبی کا قصہ بیان فرما رہے ہیں اور اس کی صورت ہمیں بتا رہے ہیں جن کو ان کی قوم نے مارا وہ لہولہان کر دیا لیکن وہ نبی بجائے اس کے کہ اپنی قوم کے تئیں بغض و نفرت میں مبتلا ہوتے، اور ان کے حق میں بد دعا کرتے، بلکہ صبر و تحمل کا دامن پکڑے ہوئے اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے اے اللہ میری قوم کو بخش دے یہ لوگ میری حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 گویا یا میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کے ذریعہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ واضح فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مذکورہ قصہ بیان فرمانا مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس وقت بھی اس وقت کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔

  میری قوم کو بخش دے یعنی ان لوگوں سے اس معنی میں درگزر فرمایا کہ انہوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور جو تکلیف پہنچائی ہے اس کی وجہ سے ان کو اس دنیا میں کسی عذاب میں مبتلا نہ کرنا اور ان کا نام و نشان نہ مٹا۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ کفار کی بخشش و مغفرت کی دعا اس معنی میں ہرگز جائز نہیں ہے کہ ان کا شرک و کفر معاف ہو جائے اور اگر وہ اپنے کفر و شرک کے ساتھ مر جائیں تو عذاب آخرت میں مبتلا نہ ہوں۔

  یہ لوگ میری حقیقت سے واقف نہیں ہیں یہ الفاظ گویا ان نبی علیہ السلام کے کمال صبر و حلم اور حسن اخلاق کردار کا مظہر ہیں کہ جو لوگ، ان کو سخت ترین تکلیف پہنچا رہے ہیں، جنہوں نے ان کو لہولہان کر رکھا ہے، اور جو لوگ اپنے نبی کو اذیت پہنچا کر سب سے بڑا گناہ کر رہے ہیں، انہی لوگوں کی طرف سے وہ نبی خدا کی بارگاہ میں یہ عذر بیان فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں نے جو کچھ بھی کیا ہے محض اس وجہ سے کیا ہے کہ اللہ و رسول کے بارے میں ان کے دل و دماغ پر جہل کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔

 اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جہل و نادانی کی وجہ سے کیا جانے والا گناہ اس گناہ کی بہ نسبت ہلکا ہوتا ہے جو علم و دانائی کے باوجود صادر ہو، اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ویل للجاہل مرۃ وویل للعالم سبع مرات جاہل کے لئے ایک رسوائی و خرابی ہے اور عالم کے لئے سات رسوائیاں و خرابیاں ہیں۔

 شیخ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ حدیث میں جن نبی علیہ السلام کا ذکر ہے وہ کون سے نبی تھے اور ان کے ساتھ کیا قصہ پیش آیا تھا۔ لیکن بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم کا یہ سلوک تھا کہ جب وہ ان لوگوں کو راہ ہدایت کی طرف بلاتے اور خدا کے حکم کی اتباع کی تلقین کرتے تو بدنصیب ان کو مارنے لگتے اور اس قدر مارتے کہ ان کا جسم لہولہان ہو جاتا، زخموں سے چور ہو کر زمین پر گر پڑتے اور اسی حالت میں عرصہ تک زمین پر پڑے رہتے، پھر جب کچھ توانائی آتی تو اٹھ کھڑے ہوتے اور فریضہ دعوت کی انجام دہی میں مشغول ہو جاتے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان نبی سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد خود اپنی ذات مبارک تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے واقعہ کو اجمال و ابہام کے طور پر بیان فرمایا۔ یہ قول زیادہ صحیح ہے اور جنگ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مخالفین کے حق میں جو دعا فرمائی اس کے یہی الفاظ منقول ہیں۔