حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟، قَالَ: لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟، قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا "، قَالَ يَحْيَي: أَحْسِبُ قَرَأْتُ عِفَاصَهَا.
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”بتلا اس کی تھیلی اور اس کا ڈھکن ایک سال تک۔ پھر اگر اس کا مالک آئے تو دیدے نہیں تو تجھے اختیار ہے۔“ (چاہے تو اپنے صرف میں لا)پھر اس نے پوچھا: بھولی بھٹکی بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”وہ تو تیری ہے یا تیرے بھائی کی ہے یا بھیڑیئے کی ہے۔“ پھر اس نے پوچھا: بھولے بھٹکے اونٹ کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے تجھے کیا مطلب ہے اس کے ساتھ اس کی مشک (پیٹ میں جس میں کئی دن کا پانی بھر لیتا ہے) اور اس کا جوتہ بھی اس کے پاس ہے۔ پانی پیتا ہے درخت کھاتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پا لیتا ہے۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ ابْنُ حُجْرٍ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ : " أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟، قَالَ: خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟، قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا "،
سیدنا زید بن جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کو بتلا پھر پہچان رکھ اس کا ڈھکنا اور اس کی تھیلی (یہ دوسری پہچان ہے ایک سال بعد تاکہ اگر مالک آئے تو اس کو پہچان کر تاوان دے سکے اور ایک پہچان پانے کے بعد ہے مالک کی تلاش کے لئے) پھر خرچ کر ڈال اس کو اب اگر مالک آئے تو ادا کر دے اس کو۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! بھولی بھٹکی بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پکڑ لے وہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیئے کی۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! بھولے بھٹکے اونٹ کا کیا حکم ہے؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو غصہ آیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے یا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹ سے تجھے کیا کام؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا ہے اور مشک ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے ملے۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَغَيْرُهُمْ، أَنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِحَدَّثَهُمْ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ، غَيْرَ أَنَّهُ زَادَ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، قَالَ: وَقَالَ عَمْرٌو: فِي الْحَدِيثِ " فَإِذَا لَمْ يَأْتِ لَهَا طَالِبٌ فَاسْتَنْفِقْهَا "،
یہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنِيسُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ , يَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " فَاحْمَارَّ وَجْهُهُ وَجَبِينُهُ وَغَضِبَ " وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ: " ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ لَمْ يَجِئْ صَاحِبُهَا كَانَتْ وَدِيعَةً عِنْدَكَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اور پیشانی سرخ ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے اور زیادہ کیا اس کے بعد کہ ”ایک سال تک بتلا۔ پھر اگر اس کا مالک نہ آئے تو وہ تیرے پاس امانت رہے گا۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ، فَقَالَ: " اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ لَمْ تَعْرِفْ، فَاسْتَنْفِقْهَا وَلْتَكُنْ وَدِيعَةً عِنْدَكَ، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا يَوْمًا مِنَ الدَّهْرِ فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا دَعْهَا، فَإِنَّ مَعَهَا حِذَاءَهَا وَسِقَاءَهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَجِدَهَا رَبُّهَا، وَسَأَلَهُ عَنِ الشَّاةِ، فَقَالَ: خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ "،
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جو صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا سونا یا چاندی کے لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا بندھن اور اس کی تھیلی پہچان رکھ۔ پھر سال بھر تک لوگوں سے دریافت کر اگر کوئی نہ پہچانے تو اس کو خرچ کر ڈال لیکن وہ امانت رہے گا تیرے پاس (اور صرف کرنے سے پیچھے جب مالک آئے تو تاوان دینا ہو گا) پھر جب اس کا مالک کسی دن بھی آئے تو اس کو ادا کر۔“ اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کو جو بھولا بھٹکا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے تجھے کیا کام؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا ہے، مشکیزہ ہے، پانی پیتا ہے، درخت کے پتے کھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا مالک پائے اس کو۔“ اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکری کو۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو لے لے کیونکہ وہ بکری تیری ہے یا تیرے بھائی کی ہے یا بھیڑیئے کی ہے۔“
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَرَبِيعَةُ الرَّأْيِ ابْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ : " أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ زَادَ رَبِيعَةُ " فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ "، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ وَزَادَ " فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”جب اس کا مالک آئے تو پوچھ اس سے تھیلی کو (وہ کیسی ہے؟) اور گنتی کو (کتنے روپے ہیں؟) اور بندھن کو (وہ کیسا ہے؟) پھر اگر وہ بیان کرے تو دے دے اس کو ورنہ وہ تیرا ہے۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: " عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ لَمْ تُعْتَرَفْ، فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ كُلْهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ "،
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک دریافت کر۔ پھر اگر کوئی نہ پہچانے تو اس کا تھیلہ اور بندھن یاد رکھ لے اور کھا ڈال (خرچ کر کے) جب اس کا مالک آئے تو ادا کر۔“
وحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ " فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا وَإِلَّا فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا ".
وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ”اگر کوئی پہچانے تو دے دے اس کو نہیں تو یاد رکھ اس کا بندھن اور اس کا تسمہ اور اس کا تھیلہ اور اس کا شمار۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ " قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ غَازِينَ، فَوَجَدْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُهُ، فَقَالا لِي: دَعْهُ، فَقُلْتُ: لَا وَلَكِنِّي أُعَرِّفُهُ، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهُ وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ، قَالَ: فَأَبَيْتُ عَلَيْهِمَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ غَزَاتِنَا قُضِيَ لِي أَنِّي حَجَجْتُ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِشَأْنِ السَّوْطِ وَبِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، قَالَ: فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ: احْفَظْ عَدَدَهَا وَوِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا "، فَاسْتَمْتَعْتُ بِهَا، فَلَقِيتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي بِثَلَاثَةِ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلٍ وَاحِدٍ،
سلمہ بن کہیل سے روایت ہے، میں نے سوید بن غفلہ سے سنا۔ وہ کہتے تھے: میں اور زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ جہاد کو نکلے میں نے ایک کوڑا پڑا پایا، اس کو اٹھا لیا۔ زید اور سلمان نے کہا: پھینکو۔ میں نے کہا: نہیں پھینکتا۔ بلکہ میں اس کو دریافت کروں گا۔ پھر اگر اس کا مالک آئے گا تو خیر ورنہ میں اپنے کام میں رکھوں گا۔ وہ کہتے گئے پھینک۔ پر میں نے نہ مانا ہم جہاد سے لوٹے تو اتفاق سے میں نے حج کیا اور مدینہ کو گیا۔ وہاں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا۔ ان سے میں نے کوڑے کا حال بیان کیا اور جو زید اور سلمان کہتے تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے ایک تھیلی پائی سو اشرفیوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں، میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سال بھر دریافت کر، اس کے مالک کو۔“میں نے دریافت کیا۔ کوئی پہچاننے والا نہیں ملا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال اور دریافت کر۔“ میں نے پوچھا: کوئی نہ ملا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی گنتی کر اور ایک کی تھیلی اور ڈھکن دل میں جما لے پھر اگر اس کا مالک آیا تو خیر ورنہ تو اپنے خرچ میں لا۔“ میں نے اس کو خرچ کیا۔ راوی کو شک ہے اس حدیث میں کہ تین سال دریافت کرنے کے لئے فرمایا یا ایک سال کے لیے۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، أَوْ أَخْبَرَ الْقَوْمَ وَأَنَا فِيهِمْ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَوَجَدْتُ سَوْطًا وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ إِلَى قَوْلِهِ " فَاسْتَمْتَعْتُ بِهَا "، قَالَ شُعْبَةُ: فَسَمِعْتُهُ بَعْدَ عَشْرِ سِنِينَ يَقُولُ: عَرَّفَهَا عَامًا وَاحِدًا،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ کہ شعبہ نے کہا: میں سلمہ سے ملا دس برس کے بعد تو وہ کہنے لگے: ایک سال تک بتلا۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْالْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَفِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا " ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ "، إِلَّا حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ فَإِنَّ فِي حَدِيثِهِ " عَامَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً "، وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، وَزَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، وَحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ " فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِعَدَدِهَا وَوِعَائِهَا وَوِكَائِهَا، فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ " وَزَادَ سُفْيَانُ فِي رِوَايَةِ وَكِيعٍ وَإِلَّا فَهِيَ كَسَبِيلِ مَالِكَ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ " وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ : " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُقَطَةِ الْحَاجِّ ".
سیدنا عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا حاجیوں کی پڑی ہوئی چیز لینے سے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ ، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ آوَى ضَالَّةً فَهُوَ ضَالٌّ مَا لَمْ يُعَرِّفْهَا ".
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے گری ہوئی چیز رکھ لی وہ گمراہ ہے جب تک اس کے مالک کو دریافت نہ کرے۔“ (اس سے معلوم ہوا کہ لقطہ پہنچانا اور بتلانا ضروری ہے)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ، أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى مَشْرُبَتُهُ، فَتُكْسَرَ خِزَانَتُهُ، فَيُنْتَقَلَ طَعَامُهُ إِنَّمَا تَخْزُنُ لَهُمْ ضُرُوعُ مَوَاشِيهِمْ أَطْعِمَتَهُمْ، فَلَا يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی تم میں سے دوسرے کے جانور کا دودھ نہ دوہے مگر اس کی اجازت سے، کیا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی کوٹھڑی میں کوئی آئے اور اس کا خزانہ توڑ کر اس کے کھانے کا غلہ نکال لے جائے؟ اسی طرح جانوروں کے تھن ان کے خزانے ہیں کھانے کو۔ تو کوئی نہ دوہے کسی کے جانور کا دودھ بغیر اس کی اجازت کے۔“ (مگر جو مرتا ہو مارے بھوک کے وہ بقدر ضرورت کے دوسرے کا کھانا بلا اجازت کھا سکتا ہے لیکن اس پر قیمت لازم ہو گی اور بعض سلف محدثین کے نزدیک لازم نہ ہو گی۔ اگر مردار بھی موجود ہو تو اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک مردار کھا لے اور بعض کے نزدیک غیر کا کھانا)۔
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ جَمِيعًا، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ ، وَأَبُو كَامِلٍ قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ جَمِيعًا، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ مُوسَى كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا " فَيُنْتَثَلَ " إِلَّا اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ فَإِنَّ فِي حَدِيثِهِ " فَيُنْتَقَلَ طَعَامُهُ " كَرِوَايَةِ مَالِكٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ وَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ، قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: يَوْمُهُ وَلَيْلَتُهُ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ ".
سیدنا ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص یقین رکھتا ہے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اس کو چاہیئے کہ خاطر داری کرے اپنے مہمان کی تکلف کے ساتھ۔“ لوگوں نے کہا: تکلف کب تک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکلف ایک دن رات تک ہے۔“ (یعنی ایک دن رات اپنے مقدور کے موافق عمدہ کھانا کھلائے اور مہمانی تین دن تک ہے یعنی دو دن معمولی کھانا کھلائے) پھر اس کے بعد جو مہمانی کرے صدقہ ہے اور جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اس کو چاہیے کہ نیک بات کہے یا چپ رہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يُؤْثِمُهُ؟، قَالَ: يُقِيمُ عِنْدَهُ وَلَا شَيْءَ لَهُ يَقْرِيهِ بِهِ "،
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضیافت تین دن تک ہے اور اس کا تکلف ایک دن رات تک چاہیے اور کسی مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو گناہ میں ڈالے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس طرح اس کو گناہ میں ڈالے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو کھلانے کے لیے۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي الْحَنَفِيَّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ وَبَصُرَ عَيْنِي، وَوَعَاهُ قَلْبِي حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ وَذَكَرَ فِيهِ: وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدِكُمْ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ، بِمِثْلِ مَا فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ.
وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ میرے کانوں نے سنا، آنکھ نے دیکھا، دل نے یاد رکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلَا يَقْرُونَنَا فَمَا تَرَى؟، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ہم کو بھیجتے ہیں پھر ہم اترتے ہیں کسی قوم کے پاس، وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اترو کسی قوم کے پاس پھر وہ تمہارے واسطے وہ سامان کر دیں جو مہمان کے لیے چاہیے تو تم قبول کرو اگر وہ نہ کریں تو ان سے مہمانی کا حق جیسا ان کو چاہیے لے لو۔“
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى رَاحِلَةٍ لَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ يَصْرِفُ بَصَرَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ "، قَالَ: فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اتنے میں ایک شخص اونٹنی پر سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس فاضل توشہ ہو وہ اس کو دیدے جس کے پاس توشہ نہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی قسم کے مال بیان کیے یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ ہم میں سے کسی کا حق نہیں ہے اس مال میں جو اس کی حاجت سے فاضل ہو۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيَّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَأَصَابَنَا جَهْدٌ حَتَّى هَمَمْنَا أَنْ نَنْحَرَ بَعْضَ ظَهْرِنَا، فَأَمَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَمَعْنَا مَزَاوِدَنَا، فَبَسَطْنَا لَهُ نِطَعًا فَاجْتَمَعَ زَادُ الْقَوْمِ عَلَى النِّطَعِ، قَالَ: فَتَطَاوَلْتُ لِأَحْزِرَهُ كَمْ هُوَ فَحَزَرْتُهُ كَرَبْضَةِ الْعَنْزِ وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، قَالَ: فَأَكَلْنَا حَتَّى شَبِعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ حَشَوْنَا جُرُبَنَا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلْ مِنْ وَضُوءٍ؟، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ بِإِدَاوَةٍ لَهُ فِيهَا نُطْفَةٌ، فَأَفْرَغَهَا، فِي قَدَحٍ فَتَوَضَّأْنَا كُلُّنَا نُدَغْفِقُهُ دَغْفَقَةً أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، قَالَ: ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةٌ، فَقَالُوا: هَلْ مِنْ طَهُورٍ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَرِغَ الْوَضُوءُ ".
ایاس بن سلمہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے، وہ کہتے تھے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ایک لڑائی میں، وہاں ہم کو تکلیف ہوئی (کھانے اور پینے کی) یہاں تک کہ ہم نے قصد کیا سواریوں کے کاٹنے کا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہم نے اپنے توشوں کو جمع کیا اور چمڑا بچھایا، اس پر سب لوگوں کے توشے اکھٹے ہوئے، سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں لمبا ہوا اس کے ناپنے کے لیے، تو ناپا اس کو وہ اتنا تھا جتنی جگہ میں بکری بیٹھتی ہے اور ہم لوگ (لشکر کے) چودہ سو تھے، پھر ہم سب لوگوں نے کھایا خوب پیٹ بھر کر اور اس کے بعد اپنے اپنے توشہ دان کو بھر لیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کا پانی ہے؟“ ایک شخص ڈول میں ذرا سا پانی لے کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک گھڑے میں ڈال دیا اور ہم سب لوگوں نے اسی پانی سے وضو کیا خوب بہاتے جاتے تھے، چودہ سو آدمیوں نے، بعد اس کے آٹھ آدمی اور آئے انہوں نے کہا: وضو کا پانی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو ہو چکا۔“