مشکوٰة شر یف

کنگھی کرنے کا بیان

کنگھی کرنے کا بیان

ترجل  عربی زبان میں کنگھی کرنے کو کہتے ہیں، خواہ اس کا تعلق سر میں کنگھی کرنے کا ہو یا داڑھی میں لیکن عام طور پر  ترجل  کا استعمال سر میں کنگھی کرنے کے معنی میں ہوتا ہے اور داڑھی میں کنگھی کرنے کو  تسریح کے لفظ سے بیان کرتے ہیں۔

حائضہ کا بدن ناپاک نہیں ہوتا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے ایام حیض میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ کا بدن ناپاک نہیں ہوتا، اور یہ کہ اس (حائضہ) کے ساتھ اختلاط جائز ہے۔

وہ چیزیں جو فطرت ہیں

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت میں (داخل) ہیں ایک تو ختنہ کرانا دوسرے (زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے لئے لوہے) یعنی استرے وغیرہ کا استعمال کرنا، تیسرے لبوں کے بال ترشوانا چوتھے ناخن کٹوانا اور پانچویں بغل کے بال صاف کرانا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  فطرت  کا مطلب یہ ہے کہ پانچ چیزیں تمام انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین کی شریعت میں مسنون رہی ہیں۔ واضح رہے کہ فطرت سے متعلق حدیث کتاب کے ابتدائی حصے میں باب السواک میں بھی گزر چکی ہے، وہاں دس چیزوں کو فطرت میں شمار کرایا گیا تھا اور یہاں پانچ چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو وہاں حصر مقصود تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ جو چیزیں تمام انبیاء کرام کی سنت ہونے کی وجہ سے فطرت کا درجہ رکھتی ہیں ان میں سے دس چیزیں یہ ہیں (جن کو باب السواک میں بیان کیا گیا ہے) اور پھر ان دس چیزوں میں سے پانچ چیزیں علیحدہ کر کے بیان کی گئی ہیں۔

اپنے کو اہل شرک سے ممتاز رکھو

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اہل شرک کے خلاف کرو یعنی وہ چونکہ داڑھیاں پست کراتے ہیں اور مونچھیں بڑھاتے ہیں اس لئے ہم بایں طور ان سے اپنے آپ کو ممتاز رکھو کہ تم داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں ہلکی کراؤ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ تم مونچھیں نہایت ہلکی کراؤ اور داڑھیاں چھوڑ دو۔ (بخاری و مسلم)

زائد بالوں کو صاف کرنے کی مدت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مونچھیں ترشوانے، ناخن کٹوانے، بغل کے بال صاف کرانے اور زیر ناف مونڈنے کے بارے میں ہمارے لئے جو مدت متعین کی گئی ہے وہ یہ کہ ہم ان کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ابن مالک کہتے ہیں کہ حضرت ابوعمر رضی اللہ عنہ سے منقول ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ناخن اور لبوں کے بال، ہر جمعہ کو ترشواتے تھے، زیر ناف بال بیس دن میں صاف کرتے تھے، اور بغل کے بال چالیس دن میں صاف کراتے تھے۔قنیہ میں لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بار ناخن ترشوا کر، لبوں کے بال ہلکے کرا کر اور جسم کے زائد بال صاف کر کے غسل کے ذریعہ اپنے بدن کو صاف ستھرا کیا جائے اگر ہر ہفتہ یہ ممکن نہ ہو تو ہر پندرھویں دن اس پر عمل کیا جائے، یہاں تک کہ چالیس دن سے زائد کا عرصہ گزر جائے تو یہ  بلا عذر ترک  کہلائے گا گویا ان چیزوں کے لئے ایک ہفتہ تو افضل مدت ہے پندرہ روزہ مدت اوسط درجہ پر مشتمل ہے اور آخری مدت چالیس دن ہے چالیس سے زیادہ گزارنے والا بلا عذر ترک کرنے والا شمار ہو گا جس پر حنفیہ کے نزدیک وہ وعید کا مستحق ہو گا۔

مظہر کہتے ہیں کہ ابوعمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ الاغر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کو جانے سے پہلے لبوں کے بال اور ناخن کترتے تھے، اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغل کے بال اور ناف کے نیچے کے بال چالیس دن میں اور بعض حضرات کی روایت کے مطابق ایک مہینہ میں صاف کرتے تھے، ایک مہینہ والی روایت ایک معتدل قول ہے۔

خضاب کرنے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 'یہودی اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ تم لوگ خضاب لگا کر یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کو ظاہر کرو۔ واضح رہے کہ  خضاب  سے مراد وہ خضاب ہے جو سیاہ نہ ہو کیونکہ سیاہ خضاب لگانا ممنوع ہے، اس کی تفصیلی بحث آگے آئے گی،جہاں تک صحابہ وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ مہندی کا سرخ خضاب کرتے اور کبھی کبھی زرد خضاب بھی کر لیا کرتے تھے چنانچہ مہندی کا خضاب لگانے کے بارے میں متعدد احادیث منقول ہیں اور علماء نے لکھا ہے کہ مہندی کا خضاب مؤمن ہونے کی ایک علامت ہے، تمام علماء کے نزدیک مہندی کا خضاب لگانا جائز ہے، بلکہ بعض فقہاء نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اس کو مستحب بھی کہا ہے اور اس کے فضائل میں وہ احادیث بھی نقل کرتے ہیں اگرچہ ان احادیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں خضاب کرنے کا حکم ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جن کے بال کھچڑی یعنی کچھ سیاہ اور کچھ سفید ہوں، بلکہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کے بال بالکل سفید ہو گئے ہوں اور سیاہ بالوں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا ہو، جیسا کہ حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے بال تھے، جن کے متعلق اگلی حدیث میں ذکر آ رہا ہے، اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ خضاب کے مسئلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں اور اس اختلاف کی بنیاد احوال کے مختلف ہونے پر ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس حکم کا تعلق اس مسلم شہر و علاقہ کے لوگوں سے ہے جہاں خضاب لگانے کا عام دستور ہو کہ اگر کوئی شخص اپنے شہر کے لوگوں کے تعامل و عادت سے اپنے آپ کو الگ رکھے گا تو غیر مناسب شہرت کا حامل ہو گا جو مکروہ ہے اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے با وقار و پاکیزہ بڑھاپے کی علامت اس کے چہرے مہرے کی نورانیت اور خوشنمائی کا سبب ہو بلکہ، خضاب کرنے سے اس کی شخصیت کا وقار پھیکا پڑ جاتا ہو تو اس کے حق میں خضاب نہ کرنا ہی زیادہ بہتر اور زیادہ مناسب ہے اس کے برخلاف جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے بدنما اور بے وقت بڑھاپے کی غماز ہو جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کی دل کشی مجروح ہوتی ہو تو اس کو اپنا یہ عیب چھپانا اور خضاب لگانا زیادہ بہتر و مناسب ہے۔

 

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد) ابوقحافہ کو فتح مکہ کے دن لایا گیا اور اسی دن انہوں نے اسلام قبول کیا ان کے سر اور داڑھی کے بال گویا ثغامہ تھے یعنی بالکل سفید تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ ان بالوں کی سفیدی کو کسی چیز کے ذریعہ بدل ڈالو لیکن سیاہ رنگ سے اجتناب کرنا یعنی سیاہ خضاب استعمال نہ کرنا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  ثغامہ  ایک قسم کی گھاس کو کہتے ہیں جس کے شگوفے اور پھل سفید ہوتے ہیں اس گھاس کو فارسی میں ورمغہ کہا جاتا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیاہ خضاب مکروہ حرام ہے اور مطالب المؤمنین میں علماء کا یہ قول لکھا ہے کہ اگر کوئی غازی و مجاہد و دشمنان دین کی نظر میں اپنی ہیبت قائم کرنے کے لئے سیاہ خضاب کرے تو جائز ہے اور جو شخص اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے زینت و آرائش کی خاطر اور عورت کی نظر میں دل کش بننے کے لئے سیاہ خضاب کرے تو یہ اکثر علماء کے نزدیک ناجائز ہے۔ اس سلسلے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ منقول ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مہندی اور وسمہ (نیل کے پتے) کا خضاب کرتے تھے اور اسی خضاب کی وجہ سے ان کے بالوں کا رنگ سیاہ نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ سرخ مائل بہ سیاہی ہوتا تھا، اسی طرح اس سلسلے میں بعض دوسرے صحابہ کے متعلق جو روایات نقل کی جاتی ہیں وہ بھی اسی پر محمول ہیں۔

حاصل یہ کہ مہندی کا خضاب بالاتفاق جائز ہے اور سیاہ خضاب میں حرمت و کراہت ہے بلکہ اس کے بارے میں بڑی سخت وعید بیان کی گئی ہے،جیسا کہ دوسری فصل میں بیان ہو گا۔

سر کے بالوں میں فرق و سدل دونوں جائز ہیں

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جس معاملہ میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی حکم نہیں ملتا تھا اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے چنانچہ اہل کتاب اپنے (سر کے) بالوں کو یونہی چھوڑے رکھتے تھے (یعنی وہ مانگ نہیں نکالتے تھے بلکہ اپنے بالوں کو یونہی پڑے رہنے دینے تھے) جب کہ مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اہل کتاب کے طریقے کے مطابق) اپنی پیشانی کے بال یوں ہی چھوڑے رکھتے تھے لیکن بعد میں مانگ نکالنے لگے تھے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 سدل کے معنی ہیں سر کے بالوں کو چاروں طرف یونہی چھوڑے اور لٹکائے رکھنا اور مانگ نکالنے کے لئے دونوں طرف کے بالوں کو اکٹھا نہ کرنا اور فرق کا مطلب ہے سر کے آدھے بالوں کو ایک طرف اور آدھے بالوں کو دوسری طرف اکٹھا کر لینا نیز قاموس میں لکھا ہے کہ فرق بالوں کے درمیان پیدا کی جانے والی راہ یعنی مانگ کو کہتے ہیں۔

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو ابتداء میں اہل کتاب کی موافقت میں پیشانی کے بالوں کو سدل کرتے تھے، یعنی یوں ہی بے ترتیب چھوڑے رکھتے کیونکہ اہل کتاب کا طریقہ سدل ہی کا تھا واضح رہے کہ  سدل  کا مطلب اگر بالوں کے سر کے چاروں طرف یونہی رکھنا ہے اور اس میں پیشانی کے بالوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، لیکن سدل اور فرق کے درمیان امتیاز چونکہ پیشانی کے اوپر کے بالوں ہی سے ظاہر ہوتا ہے اس سبب سے خاص طور سے پیشانی کے بالوں کو ذکر کیا گیا ہے اگرچہ طیبی نے کہا ہے کہ یہاں  سدل  سے مراد محض پیشانی کے بالوں کو چھوڑے رکھنا ہے۔

حدیث سے معلوم ہوا کہ شروع میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول سدل ہی کا تھا لیکن بعد میں فرق یعنی مانگ نکالنا آخری عمل پایا، لہٰذا اس بنا پر بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ سدل یعنی بالوں کو یوں ہی چھوڑے رکھنا منسوخ ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑ کر فرق کو اختیار کرنا حکم الٰہی (وحی) کے سبب تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اجازت تھی کہ جس معاملہ میں ابھی کوئی شرعی حکم نازل نہیں ہوا ہے اس اہل کتاب کے دستور کے مطابق عمل کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جب بالوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی فرق یعنی مانگ نکالنے کا حکم دیا گیا تو یہ اس بات کی علامت قرار پایا کہ بالوں کے سلسلے میں عارضی طور پر اہل کتاب کے دستور کے مطابق عمل کرنے کی جو اجازت تھی وہ منسوخ ہوئی اس سے خود بخود یہ واضح ہو گیا کہ فرق کا حکم آخری و حتمی ہے اس لئے اس بارے میں اہل کتاب کی مخالفت یعنی سدل کو ترک کرنا بھی حتمی ہی طور پر ہونا چاہئے۔

اس حدیث سے بعض حضرات نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی شریعت ہمارے لئے قابل اتباع ہے جب تک کہ ہمیں اس کے برخلاف عمل کرنے کا حکم نہ دیا جائے، لیکن یہ اتباع انہیں چیزوں میں ہو گا جن کے بارے میں ہو کہ ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ جوں کے توں وہی احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے پچھلی شریعت میں نازل کئے تھے۔

روایت کے ان الفاظ  یحب موافقتہم  (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے) سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان معاملات میں بھی اہل کتاب کی موافقت کرنے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے محض اختیار پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پسند کریں تو اہل کتاب کے مطابق عمل کریں اور اگر پسند نہ کریں تو عمل نہ کریں اگر یہ (یعنی موافقت کرنے کا حکم) اسی درجہ کا ہوتا، جس درجہ کا کوئی شرعی حکم ہوتا ہے تو اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا کوئی سوال نہیں ہوتا بلکہ ایک واجب اور لازم امر ہوتا۔

بعض احادیث میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معمول تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بال بے ترتیب اور بکھرے ہوئے ہوتے تو ان کو اکٹھا کر کے مانگ نکال لیتے تھے ورنہ ان کی حالت پر چھوڑے رکھتے تھے، گویا عام حالات میں (جب کہ بال بکھرے ہوئے نہ ہوتے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سدل یا دونوں میں سے کسی کا بھی اہتمام و تکلف نہیں فرماتے تھے بلکہ ان بالوں کو ان کی حالت پر رہنے دیتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ سدل اور فرق دونوں جائز ہیں لیکن فرق افضل ہے۔

قزع کی ممانعت

اور حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو  قزع  سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے، اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی نے بیان فرمائے۔

 

تشریح

 

 نووی کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیوں کہ حدیث کے راوی نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے ! جہاں تک  لڑکے  کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لئے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثناء کے بغیر بیان کیا جاتا ہے، اور قزع میں کراہت اس اہل کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لئے ہے۔

راوی نے  قزع  کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں) (زلف اور بالوں کی) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو۔

 

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسے لڑکے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ مونڈا گیا تھا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لڑکے کی پرورش کرنے والوں کو اس سے منع فرمایا اور فرمایا کہ پورے سر کو مونڈو یا پورے سر کو چھوڑ دو!۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ حج و عمرہ کے علاوہ بھی سر منڈانا جائز ہے۔ ویسے مسئلہ یہ ہے کہ مرد کو اختیار ہے کہ وہ چاہے سر منڈائے اور چاہے سر پر بال رکھے لیکن افضل یہ کہ سوائے حج اور عمرہ کے سر نہ منڈائے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کا معمول تھا اور کتاب کے ابتدائی حصہ میں باب الجنایت کے دوران اس کا ذکر گزر چکا ہے۔

مخنث پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مخنث مردوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  مخنثوں کو اپنے کو اپنے گھروں سے نکال باہر کرو۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مُخَنَث یا مُخَنث (زیادہ صحیح مخنث ہی ہے) کی اصل  خنث  ہے جس کے لغوی معنی نرمی اور شکستگی کے ہیں۔ مخنث اس مرد کو کہتے ہیں جو عورتوں کا سا لباس پہنے، عورتوں کی طرح ہاتھ پیروں کو مہندی کے ذریعہ رنگین کرے، اور بات چیت میں عورتوں کا لب و لہجہ اختیار کرے اور اسی طرح جملہ حرکات و سکنات میں عورتوں کا انداز اپنائے، ایسے مرد کو ہماری بول چال میں ہجڑہ یا زنانہ بھی کہا جاتا ہے۔ مخنث دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو خلقی کہ ان کے اعضاء جسم اور انداز میں خلقی اور جبلی طور پر عورتوں کی سی نرمی و لچک ہوتی ہے، گویا ان میں قدرتی طور پر عورتوں کے اوصاف و عادات ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ بعض مرد اگرچہ اپنے اعضاء جسم اور خلقت و جبلت کے اعتبار سے مکمل مرد ہوتے ہیں مگر جان بوجھ کر اپنے کو عورت بنانا چاہتے ہیں چنانچہ وہ بات چیت کے انداز اور رہن سہن کے طور طریقوں میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنے فوطے اور عضو تناسل کٹوا کر نامرد بھی بن جاتے ہیں، مخنثوں کی اسی قسم کے حق میں لعنت و مذمت فرمائی گئی ہے، اس کے برخلاف پہلی قسم اس لعنت سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ تو معذوری کی شکل ہے اس میں اپنے قصد و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے۔

اسی طرح عورتوں پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے جو اپنے آپ کو وضع قطع، رہن سہن اور لباس وغیرہ میں مردوں کے مشابہ بناتی ہیں۔

شرعۃ الاسلام کی شرح میں لکھا ہے کہ مہندی لگانا عورتوں کے لئے مسنون ہے اور مردوں کے لئے بلا عذر لگانا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے۔ اس قول سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے مہندی سے بالکل عاری رہنا مکروہ ہے کیونکہ اس صورت میں اس کی مردوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔

 

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور جو عورتیں مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ (بخاری)

انسانی بال سے نفع اٹھانا حرام ہے

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو عورت اپنے بالوں میں کسی دوسری عورت کے بالوں کا جوڑا لگائے (خواہ خود لگائے اور خواہ کسی دوسرے سے لگوائے) اور جو عورت کسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جو عورت گودے اور جو عورت گدوائے ان سب پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (بخاری، و مسلم)

 

تشریح

 

 بالوں کا جوڑ لگائے یا لگوائے  سے مراد یہ ہے کہ بالوں کے حسن و درازی کے لئے کوئی عورت کسی دوسری عورت کے بالوں کا چوٹا لے کر اپنی چوٹی میں شامل کرے یا اپنے بالوں کا چوٹا لے کر کسی دوسری عورت کی چوٹی میں شامل کر دے۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ  احادیث سے یہ بات صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ بلاکسی استثناء و قید کے بالوں کا جوڑ لگانا حرام ہے  چنانچہ ظاہر و مختار مسئلہ بھی یہی ہے لیکن ہمارے (شافعی) علماء نے اس مسئلہ میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ انسان کے بالوں کا جوڑ لگانا تو بلا اختلاف حرام ہے کیونکہ انسان کو جو بزرگی و شرف حاصل ہے، اس کی بناء پر اس کے بالوں اور اس کے دیگر اجزاء جسم سے فائدہ اٹھانا حرام ہے اور اگر انسان کے علاوہ کسی جانور کے پاک بال ہوں تو ان کی چوٹی میں شامل کرنے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کا خاوند یا مالک نہ ہو (یعنی جو عورت آزاد ہو اور مطلقہ یا بیوہ یا کنواری ہو) تو اس کے لئے اپنی چوٹی میں ان بالوں کو شامل کرنا بھی حرام ہے اور اگر عورت خاوند یا مالک والی ہو تو اس کے حق میں تین صورتیں ہیں جن میں سے سب سے زیادہ صحیح صورت یہ ہے کہ وہ خاوند یا مالک کی اجازت کے بعد ان بالوں کو اپنی چوٹی میں شامل کرے تو جائز ہے۔

مالک، طبری، اور اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ عورت کے لئے اپنی چوٹی میں کوئی بھی چیز شامل کرنا ممنوع ہے خواہ وہ بال ہوں، خواہ کالے صوف (اون) ہوں، خواہ دھجیاں ہوں اور خواہ ان کے علاوہ کوئی اور شے ہو، ان حضرات نے اس مسئلہ میں احادیث سے استدلال کیا ہے، جبکہ فقیہ لیث کا قول یہ ہے کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق صرف بالوں سے ہے، لہٰذا چوٹی میں بالوں کے علاوہ دوسری چیزیں جیسے صوف وغیرہ شامل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز بالوں کو ایسی ڈوری وغیرہ سے باندھنا کہ جو بالوں کی مشابہت نہ رکھے بلا کراہت جائز ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں یہ لکھا ہے کہ سر کے بالوں میں (یعنی چوٹی میں) انسان کے بال شامل کرنا حرام ہے لیکن صوف یعنی اون کو شامل کرنا جائز ہے۔

 گودنے  کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے کسی حصہ کی جلد پر سوئیاں یا اسی طرح کی کوئی چیز چبھوئی جائے یہاں تک کہ خون بہنے لگے پھر اس میں سرمہ یا نیل بھر دیا جائے۔ یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم ہے اور آج کل بعض غیر مسلم قوموں میں اس کا رواج ہے، شریعت اسلامی نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے، نووی فرماتے ہیں کہ یہ چیز گودنے والے اور گدوانے والے دونوں کے لئے حرام ہے اور جسم کے جس حصہ پر گودا جاتا ہے وہ حصہ نجس ہو جاتا ہے، لہٰذا اگر کسی مسلمان نے نا سمجھی سے گدوا لیا ہے اور کسی علاج و معالجہ کے ذریعہ اس کا ازالہ ممکن ہو تو اس کا نشان مٹوا دینا واجب ہے اور اگر کسی حرج و تنگی کے بغیر اس کا ازالہ ممکن نہ ہو، نیز اس بات کا خوف ہو کہ اس کو زائل کرنے کی صورت میں جسم کا وہ حصہ تلف یا بیکار ہو جائے گا یا پوری طرح کام نہیں کرے گا یا اس ظاہری عضو میں بہت بڑا عیب پیدا ہو جائے گا تو اس صورت میں اس کا ازالہ واجب نہیں، تاہم خدا سے معافی مانگنا اور توبہ و استغفار کرنا چاہئے تاکہ اس پر سے گناہ کا بار ہٹ جائے اور اگر مذکورہ چیزوں میں سے کسی چیز کا خوف نہ ہو تو پھر اس کا ازالہ ہی لازم ہو گا اور اس میں تاخیر کرنے سے گنہگار ہو گا۔

اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنے والا اللہ کی لعنت کا مورد ہے

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گودنے والی اور گدوانے والی عورتیں منہ پر سے بال نچوانے والی عورتیں، افزائش حسن کے لئے دانتوں کو سوہان (ریتی) سے رتوانے والی عورتیں ان سب پر کہ جو اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں تغیر کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ (جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت عورتوں تک پہنچی) تو ایک عورت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اس طرح (کی عورتوں پر) لعنت بھیجتے ہیں؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے لئے کیا رکاوٹ ہے کہ میں اس پر لعنت نہ بھیجوں جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے، اور جس کو کتاب اللہ میں ملعون قرار دیا گیا ہے عورت نے کہا کہ میں نے بھی اس چیز کو پڑھا ہے جو دو دفتیوں کے درمیان ہے (یعنی میں نے بھی پورا قرآن کریم پڑھا ہے) لیکن اس میں مجھے یہ بات جو آپ کہتے ہیں (صریح الفاظ میں) کہیں نہیں ملی ہے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اگر تم قرآن کریم کو غور و فکر کے ساتھ اور سمجھ کر پڑھتیں تو اس میں تمہیں یقیناً اس کا حکم ملتا، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ    ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59۔ الحشر:7) (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں جو کچھ دیں اس کو قبول کرو اور اس پر عمل کرو، اور جس چیز سے تمہیں منع کریں اس سے باز رہو) اس عورت نے کہا کہ ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ  پس یہ وہ چیز ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

عورتوں کو اپنے چہرے کے بال چنوانا مکروہ ہے لیکن اگر کسی عورت کو چہرے پر داڑھی یا مونچھ نکل آئے تو اس کو صاف کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں صرف چنوانے والی کا ذکر ہے۔چننے والی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ جس کو نامصہ کہتے ہیں جب کہ اس مسئلہ سے متعلق جو روایت دوسری فصل میں آئے گی اس میں نامصہ کا ذکر ہے۔

اہل عرب کے نزدیک عورتوں کے دانتوں میں ایک دوسرے دانت کے درمیان کشادگی و فرق کا ہونا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور عام طور پر چھوٹی عمر کی عورتوں کے دانت اسی طرح کے ہوتے ہیں، چنانچہ عرب میں یہ دستور تھا کہ عورتیں جب بوڑھی ہو جاتی تھیں اور ان کے دانت بڑھ جاتے تھے جس کی وجہ سے ان کے دانتوں کے درمیان یہ کشادگی باقی نہیں رہتی تھی، تو وہ باقاعدہ اپنے دانتوں پر سوہان اور ریتی وغیرہ چلا کر کے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرتی تھیں اور اس کی بنیاد ان کا یہ جذبہ ہوتا تھا کہ جوان و کمسن نظر آئیں اور حسن و دلکشی ظاہر ہو، چنانچہ اسلامی شریعت نے اس طریقہ کو بھی ممنوع قرار دیا۔

لفظ المغیرات تمام مذکورہ عورتوں کی صفت ہے جس کو ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یعنی جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب اس طرح کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز جیسی بنا دی ہے اس میں وہ اپنی خواہش کے مطابق ترمیم کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مصلحت و مرضی کے خلاف ہے۔ اسی طرح لفظ  خلق اللہ  مغیرات کا مفعول ہے اور یہ پورا جملہ تعلیل کے درجہ میں ہے جو وجوب لعنت کی علت و وجہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مثلہ اور داڑھی منڈانا وغیرہ میں جو حرمت (ممانعت) ہے اس کی علت و وجہ بھی یہی چیز یعنی اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنا ہے، لیکن اس سے یہ ضروری قرار نہیں پاتا کہ ہر تغیر حرام ہو کیونکہ یہ علت کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ حرمت کی اصل علت تو شرع کی طرف سے منع کیا جانا ہے اور اس ممانعت میں جو حکمت پوشیدہ ہے وہ یہ چیز ہے جس کو ظاہری علت کا درجہ دیا جاتا ہے لہذا حاصل یہ نکلا کہ شارع (علیہ السلام) نے جن تغیرات کو مباح قرار دیا ہے ان میں اباحت رہے گی اور جن تغیرات کو حرام قرار دیا ہے ان میں حرمت جاری ہو گی

مذکورہ عورت نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ ان عورتوں کو اپنی طرف سے ملعون قرار دیتے ہیں یا اس بات کی اطلاع دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں ان عورتوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے حالانکہ قرآن کریم میں ان عورتوں پر لعنت کا کوئی صریح ذکر نہیں ہے اور یہ مسئلہ ہے کہ جس کو اللہ تعالی نے ملعون قرار دیا ہے اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے؟ چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو بڑے اچھے انداز میں بات سمجھائی اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے مسئلہ کو ثابت کیا تو اس کو اطمینان ہو گیا کیونکہ اس کو حدیث کے بارے میں کوئی شبہ تھا ہی نہیں محض اس حکم قرآن میں بالفاظ صریح نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ذہن میں اشکال پیدا ہوا تھا اور وہ بھی رفع ہو گیا روایت کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب بندوں کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جن امور کی ممانعت بیان فرمائیں ان سے باز رہا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں بھی اور دوسری احادیث کے ذریعہ بھی مذکورہ بالا چیزوں سے منع فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چیزوں کی ممانعت گویا قرآن میں مذکور ہے۔طیبی کہتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ عورتوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا لعنت فرمانا ایسا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کو ملعون قرار دیا ہو لہٰذا اس پر عمل کیا جانا واجب ہے۔

نظر بد ایک حقیقت ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نظر لگنا برحق ہے  نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گودنے سے منع فرمایا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ نظر بد ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اثر ظاہر ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ سحر کی طرح یہ (نظر بد) بھی انسان وغیرہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔

سر کے بالوں کو گوند وغیرہ سے جمانے کا ذکر

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ملبد دیکھا ہے !(بخاری)

 

تشریح

 

 ملبد کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر کے بالوں کو گوند سے جما دیا تھا کہ جویں نہ پڑیں اور گرد و غبار سے حفاظت رہے۔ ایسا عام طور پر مذکورہ مقصد کے لئے احرام کی حالت میں کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح یا تو احرام کی حالت میں دیکھا ہو گا یا کسی دوسرے سفر کے دوران دیکھا ہو گا۔

مردانہ کپڑے اور جسم کو زعفران سے رنگنے کی ممانعت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی مرد اپنے بدن یا کپڑوں پر زعفران ملے ! (بخاری، و مسلم)

 

تشریح

 

 یہ ممانعت اس لئے ہے کہ کپڑے یا بدن پر زعفران ملنا عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ رہی یہ بات کہ بعض صحابہ کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ انہوں نے خلوق کا استعمال کیا جو زعفران سے بنائی جانے والی ایک خوشبو ہے تو وہ اس ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے۔

رنگ دار خوشبو کا مسئلہ

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے جو بہترین خوشبو میسر آتی وہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لگاتی، یہاں تک کہ اس خوشبو کی چمک مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر اور داڑھی میں نظر آتی !۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے بارے میں اس حدیث کے پیش نظر اشکال واقع ہوتا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مرد کے لئے خوشبو (عطر وغیرہ) کا استعمال جائز ہے جس کا رنگ ظاہر نہ ہوتا ہو جب کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جو خوشبو لگائی جاتی تھی اس کا رنگ ظاہر ہوتا تھا کیونکہ اگر اس کی خوشبو کا رنگ ظاہر نہ ہوتا تو اس کی چمک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سر اور داڑھی میں کیسے نظر آتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس حدیث میں مرد کو رنگ دار خوشبو استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ رنگ ہے جس کے ظاہر ہونے سے زینت و زیبائش کا انداز نمایاں ہوتا ہو، جسے سرخ اور زرد رنگ اور جو رنگ ایسا نہ ہو جیسے مشک و غنبر وغیرہ کا رنگ تو وہ جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صندل اور اس طرح کی دوسری چیزوں کا بھی رنگ جائز ہے۔

خوشبو کی دھونی لینے کا ذکر

اور حضرت نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب خوشبو کی دھونی لیتے تو (کبھی تو صرف) اگر کی دھونی لیتے جس میں مشک وغیرہ مخلوط نہ ہوتا اور (کبھی) کافور کی دھونی لیتے کہ اس اگر ساتھ یعنی دونوں کو ملا کر آگ میں ڈالتے، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی طرح دھونی لیتے تھے کہ کبھی تو صرف اگر کی دھونی لیتے اور کبھی کافور اور اگر دونوں مخلوط کر کے اس کی دھونی لیتے۔'(مسلم

لبیں ترشوانی قدیم سنت ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی لبوں کو کترتے لیتے تھے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جو خدا کے دوست تھے وہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے یعنی وہ بھی اپنی لبیں ترشواتے تھے !۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مونچھیں بالکل ہلکی کرانا ایک ایسی قدیم سنت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی معمول تھا اور دوسرے انبیاء کرام علیہ السلام کا بھی، چنانچہ پیچھے لفظ  فطرۃ کی وضاحت میں اس کا ذکر گزر چکا ہے، رہی یہ بات کہ جب یہ (یعنی مونچھیں ہلکی کرانا) دوسرے انبیاء کرام کی بھی سنت ہے تو اس موقعہ پر صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیوں کیا گیا ؟ تو اس تخصیص کی وجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مخصوص عظمت و جلالت کا اظہار ہے، یا یہ کہ اس سنت کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی سے ہوئی ہے، جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے جو تیسری فصل میں نقل ہو گی۔

مونچھیں ہلکی نہ کرانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص لبوں کو نہ کتروائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔  (احمد، ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

 وہ ہم میں سے نہیں ہے  کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری سنت اور ہمارے طریقے پر عمل پیرا نہیں ہے۔ اور ملا علی قاری، کے مطابق اس جملہ کے زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ ایسا شخص ہماری سنت اور ہمارے طریق کو ماننے والوں میں کامل ترین نہیں ہے، یا اس جملہ کے ذریعہ اس سنت کو ترک کرنے والے کی تہدید مقصود ہے، یا ایسے شخص کو اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ اس سنت کا تارک ہوتے ہوئے مرنا گویا امت مسلمہ کے خلاف طریقے پر مرنا ہے۔

داڑھی کو برابر کرنے کا ذکر

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ریش مبارک کو عرض و طول میں یعنی نیچے سے بھی اور دائیں بائیں جانب سے بھی کترتے تھے، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی داڑھی کو ادھر ادھر سے بڑھے ہوئے بال کتروا کر برابر درست کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل داڑھی کو  چھوڑنے اور بڑھانے  کے منافی نہیں ہے جس کا حکم دوسری احادیث میں منقول ہے کیونکہ اصل ممانعت کا تعلق منڈانے یا اتنی چھوٹی کرانے سے ہے جو غیر مسلم لوگوں کا شعار ہے ورنہ تو داڑھی کو برابر اور درست رکھنے کے لئے ادھر ادھر سے بڑھے ہوئے بالوں کو کترنا ممنوع نہیں ہے، جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم داڑھی کے طول و عرض میں سے ان بالوں کو ترشتے تھے جو ادھر ادھر بڑھے ہوتے تھے اسی لئے ابن ملک نے کہا ہے کہ داڑھی کے بالوں کو برابر کرنا سنت ہے۔ اور احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ زیادہ بڑھانے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، چنانچہ کچھ حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر داڑھی کے اس حصے کو کتروائے جو مٹھی سے نیچے ہو تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، یہ قول حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور تابعین کی ایک جماعت کا ہے، اور شعبی اور ابن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا ہے، جب کہ حسن قتادہ اور ان کے متبعین نے اس چیز کو (یعنی داڑھی کے اس حصے کے کترنے کو جو مٹھی سے نکلی ہوئی ہو) اچھا نہیں سمجھا ہے ان حضرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد اعفوا للحی (داڑھیوں کو چھوڑ دو) کے پیش نظر اسی چیز کو بہتر جانا ہے کہ مٹھی سے بڑھی ہوئی داڑھی کو بھی چھوڑے رکھا جائے۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

مرد کو خلوق کے استعمال کی ممانعت

اور حضرت یعلی ابن مرہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان (یعلی) کے کپڑوں پر (زعفران سے مرکب خوشبو) خلوق لگی ہوئی دیکھی تو فرمایا کہ کیا تم بیوی والے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر اس کو دھو ڈالو پھر دھوؤ اور پھر آئندہ کبھی اس کو استعمال نہ کرنا۔ (ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

کیا تم بیوی والے ہو  آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس سوال کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ اگر بیوی ہے اور اس نے خلوق استعمال کی ہے اور پھر اس کے بدن یا کپڑے سے اس کا اثر تمہارے بدن یا کپڑے پر پہنچا ہے تو اس صورت میں تم معذور ہو، اور اگر خود تم نے خلوق کا استعمال کیا ہے تو پھر معذور نہیں سمجھے جاؤ گے کیونکہ مرد کو خلوق کا استعمال جائز نہیں ہے، اس صورت میں تمہارے لیے یہ ضروری ہے کہ تم اپنے بدن یا کپڑے کو دھو کر اس کا اثر زائل کرو۔ اس سے واضح ہوا کہ اس سوال کا مقصد یہ ظاہر کرنا نہیں تھا کہ اگر تمہاری بیوی ہے اور تم نے بیوی کی خاطر استعمال کیا ہے تو تم  معذور کے حکم میں ہو، جیسا کہ حدیث کے ظاہر مفہوم سے گمان ہوتا ہے۔

 اس کو دھو ڈالو اس جملہ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار دھونے کا حکم دیا، اور تین بار دھونے کا حکم دینا مبالغہ و تاکید کے طور پر تھا لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار دھونے کا حکم اس لئے فرمایا کہ اس کا رنگ کم از کم تین مرتبہ دھوئے بغیر نہیں چھوٹتا۔

 

 

 اور حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے بدن پر تھوڑی سی بھی خلوق لگی ہوئی ہو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 سید کہتے ہیں کہ  نماز قبول نہ کرنے  سے مراد عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اس ثواب کا نہ ملنا ہے جو نماز کامل پر ملتا ہے۔ اور ابن مالک نے کہا ہے کہ یہ ارشاد گرامی خلوق استعمال کرنے کے خلاف زجر و تہدید کے طور پر ہے۔

 

 

اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سفر سے واپسی میں اپنے گھر والوں کے پاس اس حال میں پہنچا کہ میرے دونوں ہاتھ پھٹے ہوئے تھا، چنانچہ میرے گھر والوں نے (علاج کے طور پر) میرے ہاتھوں پر اس خوشبو کا لیپ کیا جس میں زعفران مخلوط تھی، پھر جب میں صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ جاؤ اور اس خوشبو کو اپنے بدن پر سے دھو ڈالو۔ (ابوداؤد

 

تشریح

 

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں وہ عذر نہیں آیا ہو گا جس کی بناء پر حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اس خوشبو کا استعمال کیا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سلام کا جواب نہ دے کر اپنی خفگی کا اظہار فرمایا یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو عمار کا اپنے ہاتھوں پر خوشبو لگائے ہوئے باہر نکلنا پسند نہیں آیا۔

 

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مردانہ خوشبو وہ ہے جس کی بو تو ظاہر ہو لیکن اس کا رنگ ظاہر نہ ہو (جیسے مشک و عنبر اور عطر وغیرہ) اور زنانہ خوشبو وہ ہے جس کا رنگ تو ظاہر ہو لیکن اس کی بو نہ پھیلے جیسے مہندی اور زعفران وغیرہ۔ (ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

 جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا  رنگ  سے مراد وہ رنگ ہے جو زینت و رعنائی کا غماز ہو، جیسے سرخ و زرد رنگ علماء نے لکھا ہے کہ  زنانہ خوشبو  کی جو وضاحت کی گئی ہے وہ اس عورت کے حق میں ہے جو گھر سے باہر نکلے، جو عورت گھر کے اندر ہو، یا اپنے خاوند کے پاس ہو تو اس کے لئے ہر طرح کی خوشبو استعمال کرنا جائز ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے استعمال کی خوشبو

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سکہ تھی (ایک مرکب خوشبو کا نام) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس میں سے خوشبو لگاتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کثرت سے سر میں تیل لگاتے تھے

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سر مبارک پر کثرت سے تیل استعمال کرتے تھے، کثرت سے داڑھی میں کنگھی کرتے تھے اور اکثر سر مبارک پر ایک کپڑا رکھتے تھے جو ایسا نظر آتا جیسے تیلی کا کپڑا ہو۔ (شرح السنۃ)۔

 

تشریح

 

  کثرت سے کنگھی کرتے تھے  یہ بات اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے روزانہ کنگھی سے منع فرمایا ہے، کیوں کہ اول تو یہ ممانعت، نہی تحریمی کے طور پر نہیں ہے بلکہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے دوسرے  کثرت سے کنگھی کرنے  سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزانہ کنگھی کرتے تھے کہ  کثرت  کا اطلاق اس چیز پر بھی ہوتا ہے کہ کسی کام کو اس ضرورت کے وقت انجام دیا جائے، گویا جس عمل کی جس وقت ضرورت ہو اس وقت اس کو کرنا بھی  کثرت  کے حکم میں شامل ہوتا ہے، جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے لیکن جو لوگ ہر وضو کے بعد کنگھی کرتے ہیں اس کی سنت صحیحہ میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

 قناع  سے مراد وہ کپڑا ہے جو آپ بالوں کو تیل لگانے کے بعد سر پر اس مقصد سے ڈال لیا کرتے تھے کہ عمامہ میلا اور چکنا نہ ہو، چنانچہ وہ کپڑا تیل لگنے کی وجہ سے چونکہ بہت تیل آلود ہو جاتا تھا اس لئے اس کو تیلی کے کپڑے سے تشبیہ دی گئی ہے ورنہ یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑا بہت گندہ رہتا تھا یا آپ کے سارے کپڑے تیلی کے کپڑوں کی طرح رہتے تھے، کیونکہ یہ مراد اس نظافت و پاکیزگی اور صفائی و ستھرائی سے بہت بعید ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج کا جز تھی، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سفید کپڑے کو بہت پسند فرماتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے گیسوئے مبارک

اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ (فتح مکہ کے دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چار گیسو گندھے ہوئے تھے (یعنی دو دائیں طرف تھے اور دو بائیں طرف۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پورے سر کے بالوں کو چار حصوں میں بٹ لیا تھا۔گویا  گیسو سے بالوں کی وہ مخصوص وضع مراد نہیں ہے جس کو ہماری زبان میں  زلف  کہا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مانگ کا ذکر

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک کے بالوں میں مانگ نکالتی تو تالو پر سے بالوں کے دو حصے کر کے مانگ چیرتی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی کے بل دونوں آنکھوں کے درمیان چھوڑتی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  یافوخ  سر کے درمیانی حصے کو کہتے ہیں جہاں تالو ہوتا ہے، یہ دماغ کے عین اوپر کی سطح ہوتی ہے اور بچپن میں اس جگہ پھڑکن رہتی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مانگ کی صورت بیان کی ہے کہ اس کا ایک سرا تو تالو کے نزدیک ہوتا ہے، اور دوسرا سرا دونوں آنکھوں کے درمیان کی جگہ کے بالمقابل پیشانی کے نزدیک ہوتا تھا۔

روایت کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میں مانگ کا رخ پیشانی کے اس کنارے پر رکھتی جو دونوں آنکھوں کی عین درمیانی سمت میں ہے اس طرح کی پیشانی کے آدھے بال مانگ کی دائیں طرف ہوتے اور آدھے بال مانگ کی بائیں طرف۔طیبی نے حدیث کے یہی معنی بیان کئے ہیں۔

روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا الاّ یہ کہ ایک روز ناغہ دے کر کنگھی کی جائے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی،)

 

تشریح

 

 قاضی کہتے ہیں، کہ  غب  کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام ایک دن کیا جائے اور ایک دن ترک کیا جائے، لہٰذا حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ کنگھی ہر روز نہ کی جائے بلکہ ایک دن کا ناغہ کر کے کی جائے، لیکن یہ ممانعت محض نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور اس سے ضرورت و بے ضرورت ہر روز کنگھی کرنے کا اہتمام کرنے اور اس کو بطور عادت اختیار کر لینے کی ممانعت مراد ہے کیونکہ یہ زینت و آرائش میں مبالغہ اور بے جا تکلف و اہتمام کرنے کی صورت ہے۔

واضح رہے کہ لفظ  غب جب ملاقات کے سیاق میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے زرغبا تزدد حبا تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ ملاقات کی جائے اور جب یہ لفظ بخار کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس سے ایک دن کا ناغہ دے ہوتا ہے۔

ہر روز کنگھی کرنے کی ممانعت میں سر کے بالوں اور داڑھی دونوں میں کنگھی کرنا شامل ہے، لہٰذا جو لوگ ہر وضو کے بعد کنگھی کرتے ہیں اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح احیاء العلوم میں امام غزالی کے علاوہ اور کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے، بلکہ شیخ ولی الدین العرقی کے قول کے مطابق امام غزالی نے احیاء العلوم میں اس حدیث کے علاوہ بھی بعض ایسی احادیث نقل کی ہیں جن کی کوئی اصل ثابت نہیں ہے۔

رہی یہ بات کہ روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت صرف مرد کے لئے ہے یا مرد عورت دونوں کے لئے؟ تو بظاہر یہ بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ ممانعت صرف مردوں کے حق میں ہے کیونکہ عورتوں کے لئے زینت و آرائش کرنا مکروہ نہیں ہے تاہم بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس ممانعت کا تعلق مرد و عورت دونوں سے ہے لیکن وہ حضرات بھی یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے حق میں یہ ممانعت ہلکے درجے کی ہے کیونکہ ان کے لئے زینت و آرائش کا دائرہ مردوں کی بہ نسبت بہت وسیع ہے۔

زیادہ عیش و آرام کی زندگی اختیار کرنا میانہ روی کے خلاف ہے

حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت فضالہ بن عبیدہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ میں آپ کو پراگندہ بال (یعنی آپ کے بال بغیر کنگھی کئے ہوئے) دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم عیش و آرام کی زیادہ چیزیں اختیار کرنے سے ہمیں منع فرمایا کرتے تھے (اور کنگھی و تیل کا زیادہ استعمال بھی اسی میں شامل ہے) اس شخص نے پھر یہ پوچھا کہ کیا بات ہے کہ میں آپ کے پیروں میں جوتیاں نہیں دیکھ رہا ہوں ! انہوں نے جواب دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں یہ حکم دیتے تھے کہ ہم کبھی کبھی ننگے پیر بھی پھیرا کریں۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 عیش و آرام کی زیادہ چیزیں اختیار کرنے سے اجتناب کرنے اور کبھی کبھی ننگے پیر پھرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح سے ایک تو مزاج و طبیعت میں تواضع و انکسار پیدا ہوتا ہے دوسری طرف اس ریاضت و مشقت کے ذریعہ نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور اس کا ایک تو بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حالات و معیشت کی سختی و تنگی کے وقت وہ ریاضت و مشقت کام آتی ہے اور سختی و تنگی کو انگیز کرنے کی ہمت و توانائی عطا کرتی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بالوں میں تیل بھی لگاتے تھے اور کنگھی بھی کرتے تھے بلکہ اس کو اچھا سمجھتے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی حکم و ترغیب کے ذریعہ اس پر عمل کراتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بعض حاملین زہد و ریاضت کو اس کے خلاف بھی رکھتے تھے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ان چیزوں کو ترک کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو ٹوکتے نہیں تھے بلکہ ان چیزوں کو ترک کرنے کا حکم بھی فرماتے تھے ! اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سلسلے میں اصل کراہت جس بات میں ہے وہ یہ ہے کہ عیش و راحت اور خوشحالی و آسودگی میں حد اعتدال سے تجاوز کیا جائے یہاں تک کہ نفس تن آسانی کا خوگر ہو جائے اور تیل لگانے و کنگھی کرنے اور زینت و آرائش میں ایسا انہماک ظاہر کرے جو دین بیزار اور عیش و عشرت کے دلدادگان کا شیوہ ہے لہٰذا جب یہ حکم دیا جاتا ہے کہ زیب و زینت کے ذرائع اختیار نہ کرو اور اپنے رہن سہن میں سادگی و انکساری اور بے تکلفی بلکہ زہد و ریاضت کو اختیار کرو تو اس سے یہ مراد مطلق نہیں ہوتی کہ میلے کچیلے رہ کر پاکیزگی و نظافت کو ترک کر دو، اور اپنے کو اول جلول بنا کر تہذیب و شائستگی اور خوش ہیتی کا مذاق اڑاؤ۔ بلکہ اس حکم کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بہر صورت اعتدال اور میانہ روی کو ملحوظ رکھو! کسی بھی شرعی حکم کا یہ منشا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ رہن سہن کا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو تہذیب و شائستگی کے خلاف اور نفاست و پاکیزگی کے منافی ہو کیونکہ انسان کو مہذب و شائستہ بنانا اسلام کا ایک مقصد اور تہذیب و پاکیزگی، دین کا ایک جزو ہے جیسا آگے آنے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔

بالوں کو اچھی طرح رکھنے کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص سر پر بال رکھے ہوئے ہو اس کو چاہئے کہ اپنے بالوں کو اچھی طرح رکھے یعنی اس کو دھویا کرے ان میں تیل لگایا کرے، کنگھا کیا کرے اور اول جلول شخص کی طرح ان کو بکھرا ہوا نہ رہنے دے کیونکہ نفاست و صفائی اور خوش ہئیتی ایک پسندیدہ محبوب چیز ہے۔ (ابوداؤد)

 

 

اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جن چیزوں کے ذریعہ بڑھاپے یعنی بالوں کی سفیدی کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ان میں سب سے بہتر مہندی اور وسمہ ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

  کتم  اور بعض حضرات کے قول کے مطابق کتم ایک گھاس کا نام ہے جو وسمہ کے ساتھ ملا کر بالوں پر خضاب کرنے کے کام میں لائی جاتی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کتم اصل میں وسمہ ہی کو کہتے ہیں

بہرحال حدیث کے مفہوم کے بارے میں یہ سوال ہوتا ہے کہ آیا یہ مراد ہے کہ مہندی اور وسمہ دونوں کو ملا کر خضاب کیا جائے یا مراد ہے کہ صرف مہندی یا صرف وسمہ کا خضاب کیا جائے؟ چنانچہ نہایہ کے قول کے مطابق بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں صرف کتم، یا صرف مہندی کا خضاب کرنا مراد ہے کیونکہ اگر کتم کو مہندی کے ساتھ ملایا جائے تو اس سے خضاب، سیاہ ہو جاتا ہے اور صحیح روایات میں سیاہ خضاب کی ممانعت مذکور ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہ اصل میں۔ بالحناء والکتم  ہے (یعنی حرف واؤ کے بجائے او ہے) جس کا مطلب ہے کہ خضاب کرنے والے کو اختیار ہے کہ چاہئے مہندی کا خضاب کرے اور چاہئے کتم کا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متعدد طریق و اسانید سے منقول ہے اور سب نے بالحناء والکتم ہی نقل کیا ہے اگرچہ اس سے مذکورہ مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ حرف  و مفہوم کے اعتبار سے حرف او کے معنی میں ہو سکتا ہے۔ بعض حواشی میں یہ لکھا ہے کہ صرف مہندی کا خضاب سرخ رنگ کا ہوتا ہے اور صرف کتم کا خضاب سبز رنگ کا ہوتا ہے۔

بعض حضرات کے قول سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خالص کتم کا خضاب سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور اگر کتم کو مہندی کے ساتھ ملا کر خضاب کیا جائے تو سرخ مائل بہ سیاہی رنگت پیدا ہو جاتی ہے اس صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ حدیث میں کتم اور مہندی دونوں کا مرکب خضاب مراد ہے تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہو گا، چنانچہ آگے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت آ رہی ہے (نمبر ٣٦) اس سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے ملاعلیٰ قاری نے یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کتم اور مہندی کے مرکب خضاب کی مختلف نوعیت ہوتی ہے اگر کتم کا جزء غالب ہو یا کتم اور مہندی دونوں برابر ہوں تو خضاب سیاہ ہوتا ہے اور اگر مہندی کا حصہ غالب ہو تو خضاب سرخ ہوتا ہے۔

سیاہ خضاب کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو کبوتر کے پوٹے کی مانند اس سیاہی کے ذریعہ خضاب کریں گے، یعنی جو خضاب استعمال کریں گے وہ ایسا ہو گا جیسے بعض کبوتروں کے پوٹے سیاہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جنت کی بو بھی نہیں پائیں گے۔ (ابو داؤد، و نسائی)

 

تشریح

 

 اس سیاہی  سے مراد خالص سیاہی ہے اس صورت میں وہ سیاہی مستثنیٰ ہو گی جو مائل بہ سرخی ہو جیسے کتم اور مہندی کے خضاب کا رنگ ہوتا ہے۔ جنت کی بو نہیں پائیں گے۔ یہ دراصل میں سیاہ خضاب کرنے والے کے حق میں زجر و تہدید کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنا ہے یا یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم اس شخص پر محمول ہے جو سیاہ خضاب کا نہ صرف استعمال کرے بلکہ اس کو جائز بھی سمجھے !بعض خواشی میں یہ لکھا ہے کہ ایسے لوگ اگرچہ جنت میں داخل ہوں گے لیکن اس کی بو یعنی اس کے کیف و سرور سے محفوظ و بہرہ مند نہیں ہوں گے۔

اور بعض حضرات کے قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ موقف میں جنت سے جو فرحت بخش مہک آئے گی اور جس سے مسلمان محفوظ و مسرور ہوں گے اس سے مذکورہ لوگ محروم رہیں گے۔ بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ سیاہ خضاب حرام ہے۔

زرد خضاب کرنا جائز ہے

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کی پاپوش پہنتے تھے اور اپنی ریش مبارک پر روس (ایک گھاس جو یمن کے علاقہ میں ہوتی تھی اور زعفران کے ذریعہ زرد رنگ چڑھاتے تھے نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے تھے (یعنی مذکورہ پاپوش پہنتے اور مذکورہ خضاب استعمال کرتے)۔ (نسائی)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ریش مبارک پر خضاب کرتے تھے جب کہ کتاب اللباس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی خضاب کا استعمال کیا چنانچہ ان روایتوں کے درمیان مطابقت کی جو صورت ہے وہ اسی جگہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے ضمن میں) بیان کی جا چکی ہے۔

 

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے ایک شخص گزرا جس نے مہندی کا خضاب لگا رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  یہ خضاب کتنا اچھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص گزرا جس نے مہندی اور وسمہ کا خضاب لگا رکھا تھا جو خالص سیاہ نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ خضاب پہلے سے بھی بہت اچھا ہے اس کے بعد ایک اور شخص گزرا جس نے زرد خضاب لگایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ ان سب سے زیادہ اچھا ہے۔ (ابوداؤد)

خضاب کرنے کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بڑھاپے (یعنی بالوں کی سفیدی) کو خضاب کے ذریعہ بدل ڈالو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو جو خضاب نہیں کرتے (ترمذی) اور نسائی نے اس روایت کو ابن عمر رضی اللہ عنہ اور زبیر (بعض نسخوں میں ابن زبیر ہے) سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 احتمال ہے کہ حدیث مذکورہ حکم خاص طور پر ان لوگوں کے لئے ہو جو برسر جہاد ہوں تاکہ اس کے ذریعہ دشمنوں پر مسلمانوں کی طاقت کا اظہار ہو اور وہ (دشمن) خوف میں مبتلا ہوں۔

بالوں کی سفیدی نورانیت کی غماز ہوتی ہے

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سفید بالوں کو نہ چنو کیونکہ بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا ) مسلمانوں کے لئے نورانیت کا سبب ہے، جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے یعنی جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کی ایک خطا کو محو کر دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 بڑھاپے کی نورانیت کا سبب اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ بڑھاپا اصل میں وقار کا مظہر ہے، جیسا کہ تیسری فصل میں آنے والی ایک روایت سے واضح ہو گا کہ بنی آدم میں سب سے پہلے شخص پر سفید بالوں کی صورت بڑھاپا آیا وہ حضرت ابراہیم علیہ والسلام تھے چنانچہ جب انہوں نے پہلے پہل اپنی داڑھی میں سفید بال کی صورت میں بڑھاپا دیکھا تو بار گاہ کبریائی میں عرض کیا کہ میرے پروردگار ! یہ کیا ہے ؟ جواب آیا کہ یہ وقار ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ خداوند ا! میرے وقار کو زیادہ کر۔

وقار،دراصل ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو گناہ فسق اور بے حیائی کی باتوں سے روکتا ہے اور توبہ و طاعات کی طرف مائل کرتا ہے، اس اعتبار سے یہ وصف انسان میں اس نور کو پیدا کرتا ہے جو میدان حشر میں ظلمت و تاریکیوں کو چیرتا ہوا آگے آگے چلے گا، جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ آیت (يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ) 57۔ الحدید:12)  لہٰذا اس توجیہ کی روشنی میں بڑھاپے کے نور سے قیامت کے دن کا نور مراد ہے چنانچہ ایک روایت میں اس کی تفریح بھی ہے اور اگر نورانیت سے شکل و صورت کی خوشنمائی و دل کشی اور باطن کی صفائی نیک سیرتی مراد ہو جو اس دنیا میں بوڑھوں کو حاصل ہوتی ہے تو یہ بھی بعید از حقیقت نہیں ہو گا۔

اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ سفید بالوں کو چننا مکروہ ہے۔

 

 

اور حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوتا ہے اس کا بڑھاپا قیامت کے دن نور کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ (ترمذی، نسائی

 

تشریح

 

اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا) دنیا و آخرت دونوں جگہ نورانیت کا سبب ہے تو خضاب کے ذریعہ اس کو ظاہر نہ ہونے دینا اور اس کو تبدیل کرنا شریعت نے جائز کیوں قرار دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خضاب کی مشروعیت بھی دراصل ایک دینی مصلحت کے سبب سے ہے اور وہ یہ کہ اس کے ذریعہ دشمنوں کے سامنے قوت و ہیبت کا اظہار ہوتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو ضعیف و ناتواں جان کر دلیر نہ ہوں اس صورت میں پھر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ مصلحت کی خاطر خضاب کرنا مشروع ہے تو اسی مصلحت کے لئے بالوں کو جڑ سے اکھاڑنا پڑتا ہے جو اول تو تکلیف کا باعث ہے دوسرے بد ہیئتی اور بد نمائی کا سبب بھی بنتا ہے جب کہ خضاب کا لگانا خوش ہئیتی میں اضافہ کرتا ہے لہذا خضاب کرنے اور بالوں کو چننے میں بڑا فرق ہے

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک کے بال

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے یعنی پانی سے بھرا ہوا ایک ہی برتن ہم دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سر کے بال جمہ کے اوپر اور وفرہ کے نیچے ہوتے تھے (نسائی)

 

تشریح

 

سر کے بالوں کو عربی میں تین ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے ایک تو جمہ دوسرے وفرہ اور تیسرے لمہ۔چنانچہ اگر کسی شخص کے سر پر اتنے لمبے بال ہوں جو کانوں تک پہنچ جائیں تو ان بالوں کو جمہ کہتے ہیں اور اگر کان کے لوؤں تک بال ہوں تو ان کو وفرہ کہتے ہیں اور جو بال کان کی لو اور کاندھے کے بین بین ہوتے ہیں یعنی کان کی لو سے نیچے تھے جن کو لمہ کہتے ہیں ویسے بعض مواقع پر جمہ مطلق بالوں کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ شمائل ترمذی میں یہ منقول ہے کہ وکانت جمۃ تضرب شحمۃ اذنیہ۔

مردوں کے بالوں کی زیادہ لمبائی ناپسندیدہ

اور حضرت ابن حنظلہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے ایک شخص ہیں، روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ خریم اسدی اچھا آدمی ہے اگر اس کے بال لمبے نہ ہوں اور اس کا تہ بند لٹکتا ہوا نہ ہو۔ جب خریم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا علم ہوا تو انہوں نے ایک استرا لے کر اپنے بالوں کو کانوں کی لوؤں تک کاٹ ڈالا اور اپنے تہبند کو آدھی پنڈلیوں تک کر لیا !۔ (ابوداؤد

 

 

 حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے سر پر لمبے بال تھے میری والدہ کاٹنے سے منع کرتی تھیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان بالوں کو پکڑتے تھے (لہٰذا میں برکت حاصل کرنے کے لئے ان بالوں کو یونہی چھوڑوں گی۔ (ابوداؤد

اگر بالوں کی صفائی ستھرائی میں کوئی امر مانع ہو تو سر کو منڈا دینا چاہئے

اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جعفر کی اولاد کو تین دن کی مہلت دی یعنی جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے گھر والوں کو تین دن تک رونے دھونے اور سوگ کرنے کی اجازت دی اور اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ہاں تشریف نہیں لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (ان لوگوں کو تسلی دلاسہ دینے کے لئے) ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ  بس آج کے بعد میرے بھائی (جعفر) پر مت رونا۔ پھر فرمایا کہ میرے بھتیجوں (یعنی عبداللہ، عون اور محمد) کو (جو جعفر کے لڑکے ہیں) میرے پاس لے کر آؤ۔ (چنانچہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر لائے گئے اور اس وقت ہم چوزوں کی طرح یعنی بہت کمسن تھے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نائی کو بلا کر میرے پاس لاؤ۔ (جب نائی آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو (ہمارے بال) مونڈنے کا حکم دیا اور اس نے ہمارے سروں کو مونڈا ! (ابوداؤد

 

تشریح

 

 حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ابوطالب کے بیٹے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے حقیقی بھائی تھے۔ اس اعتبار سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہوئے۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نوحہ اور جزع فزع کے بغیر میت پر رونا، غمگین و افسردہ ہونا اور رنج و الم کا اظہار کرنا تین دن تک جائز ہے، تین دن کے بعد نہ تو رونا دھونا اور سوگ کرنا جائز ہے اور نہ تعزیت کرنا رواہ ہے۔

حج و عمرہ سے فراغت کے بعد تو سر کو منڈانا افضل ہے لیکن اس کے علاوہ بال رکھنا ہی افضل ہے لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کے سر مونڈنے کا حکم اس لئے دیا کہ ان کی ماں یعنی اسماء بنت عمیس شوہر کی دائمی جدائی کے سخت ترین صدمہ سے دوچار تھیں، ان کو اپنی اس مصیبت سے اتنی فرصت کہاں ملتی کہ وہ بچوں کے سر کے بالوں کی صفائی ستھرائی اور تیل کنگھے کا خیال رکھتیں اس صورت میں ان کے سروں میں جوئیں وغیرہ پڑ جانے کا خدشہ تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بالوں کو منڈوا دینا ہی بہتر سمجھا۔

عورت کی ختنہ کا ذکر

اور حضرت ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت تھی جو (عورتوں کی) ختنہ کیا کرتی تھی (جیسا کہ اس زمانہ میں عورتوں کی ختنہ کا بھی رواج تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک دن) اس عورت سے فرمایا کہ  ٹنہ کو  زیادہ مت کاٹا کرو (بلکہ تھوڑا سا اوپر سے کاٹ دیا کرو) کیونکہ یہ (یعنی زیادہ نہ کاٹنا) عورت کے لئے بھی بہت لذت بخش ہوتا ہے اور مرد کو بھی بہت پسندیدہ ہوتا ہے (یعنی اگر اس کو زیادہ کاٹ دیا جائے تو جماع میں نہ عورت کو لذت ملتی ہے اور نہ مرد کو) ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے راوی مجہول ہیں۔

 

تشریح

 

 وراویہ مجہول (اور اس کے راوی مجہول ہیں) میں جس طرح یہ احتمال ہے کہ یہاں جنس راوی مراد ہے یعنی اس حدیث کے سب راوی مجہول ہیں، اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ اس جملہ سے اصل میں یہ مراد ہے کہ کوئی ایک راوی مجہول ہے جیسا کہ ایک دوسرے صحیح نسخے میں منقول ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے وفی روایۃ مجہول بہرحال اس روایت کو طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ضحاک ابن قیس سے نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں احفضنی ولاتنہکی فانہ انضر للزوجۃ واحظی عند الزوج۔

عورتوں کا سر کے بالوں پر مہندی کا خضاب کرنا پسندیدہ

اور حضرت کریمہ بنت ہمام سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے (سر کے بالوں پر) مہندی کا خضاب کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اگرچہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن میں اس کو اچھا نہیں سمجھتی کیونکہ میرے محبوب (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) اس کی بو کو پسند نہیں فرماتے تھے ! (ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کے سر کے بالوں پر مہندی کا خضاب کرنے کو ناپسند فرماتے تھے کیونکہ اگر آپ کے نزدیک عورتوں کے لئے مطلق مہندی کا استعمال ناپسندیدہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہندہ کو محض اس لئے بیعت کرنے سے انکار کیوں فرماتے کہ ان کے ہاتھ مہندی سے عاری تھے جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہو گا۔

عورتوں کو ہاتھوں پر مہندی لگانا مستحب ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عتبہ کی بیٹی ہندہ نے (جب) یہ کہا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) مجھ کو بیعت کر لیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  جب تک کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو (مہندی لگا کر ان کی رنگت کو) متغیر نہ کر لو گی میں تم سے (زبانی) بیعت نہیں لوں گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 ہندہ عتبہ کی بیٹی، ابوسفیان کی بیوی اور معاویہ کی ماں تھیں، انہوں نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا تھا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث بالا میں جس بیعت کا ذکر کیا گیا ہے وہ فتح مکہ کے دن کے علاوہ کسی اور دن کا واقعہ ہے۔ حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عورتوں کو اپنے ہاتھوں پر مہندی لگانا مستحب ہے اور اس کو ترک کرنا مکروہ ہے اور یہ کراہت مردوں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔

 

 

 اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے اپنے ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کیا جس میں ایک پرچہ تھا جو کسی شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا تھا (یعنی اس عورت نے پردہ کے پیچھے سے اپنا ہاتھ نکال کر وہ پرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دینا چاہا) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ کھینچ لیا یعنی وہ پرچہ نہیں لیا) اور فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ ہاتھ مرد کا ہے یا عورت کا ؟ اس عورت نے عرض کیا کہ  یہ ہاتھ عورت کا ہے  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم عورت ہوتیں (یعنی تمہیں عورتوں کا طور طریقہ ملحوظ رکھنا آتا) تو اپنے ناخن کی رنگت کو مہندی کے ذریعہ ضرور تبدیل کرتیں۔ (ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 یہ حدیث عورتوں کے ہاتھوں پر مہندی لگانے کے استحباب کو اور رہن سہن کے طور طریقوں نیز آداب معاشرت کی تلقین کو پر زور انداز میں واضح کرتی ہے۔

کسی مرض و عذر کی وجہ سے گودنا اور گدوانا جائز ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ  ملانے والی یعنی اپنے بالوں میں انسانی بالوں کا جوڑا لگانے اور لگوانے والی اور بالوں کو چننے والی اور چنوانے والی، نیز بغیر کسی مرض کے گودنے اور گدوانے والی، یہ سب عورتیں ملعون قرار دی گئی ہیں !(ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حدیث میں مذکورہ الفاظ کی وضاحت پہلی فصل میں گزر چکی ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر گودنے کی کوئی ضرورت اور حاجت ہو تو اس صورت میں گودنا اور گدوانا جائز ہے اگرچہ اس کے نشان باقی رہیں۔

مردانہ لباس پہننے والی عورت اور زمانہ لباس پہننے والے مرد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنے، اسی طرح اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردانہ لباس پہنے۔ (ابوداؤد)

 

 

 اور حضرت ابوملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ ایک عورت مردانہ جوتے پہنتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 وہ مشابہت مذموم ہے جو لباس، وضع قطع، بول چال اور رہن سہن میں اختیار کی جائے، اور جو عورت علم و عقل، اور حکمت و دانائی میں مردوں کی مشابہت اختیار کرے تو وہ مذموم نہیں ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کانت عائشہ رجلۃ الرای (یعنی عائشہ کی عقل مردوں کی عقل کی طرح تھی)

اپنے اہل بیت کا راحت و آرام کی زندگی اختیار کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک ناپسندیدہ

اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر پر روانہ ہوتے تو اپنے اہل و عیال کے لوگوں میں سب سے آخری وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کرتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جاتے یعنی سفر کے لئے روانگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے دیگر اہل بیت سے الوداعی ملاقات فرماتے پھر ان سب سے فارغ ہو کر اور سب کو رخصت کر کے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے ان سے جو کچھ کہنا سننا ہوتا کہتے اور جو کوئی وصیت و نصیحت کرنی ہوتی وہ کرتے اور ان کو خدا حافظ کہہ کر کے روانہ ہو جاتے اور پھر جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے اور سب سے پہلے ان سے ملاقات کرتے چنانچہ (ایک مرتبہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک جہاد کے سفر سے واپس آئے تو اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مکان کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لٹکا رکھا تھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے وہ پردہ آرائش کی خاطر لٹکایا تھا) کیونکہ اگر پردہ کی ضرورت کی خاطر لٹکایا ہوا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی ناگواری نہیں ہوتی) نیز انہوں نے (اپنے دونوں صاحبزادوں) حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو چاندی کے دو کڑے پہنا رکھے تھے (یعنی ان میں سب سے ہر ایک کو ایک ایک کڑا یا دو دو کڑے پہنا رکھے تھے) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے معمول کے مطابق سفر سے واپسی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لئے ان کے گھر، تشریف لائے اور یہ چیزیں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے گھر میں داخل نہیں ہوئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ جس چیز نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو میرے گھر میں داخل ہونے سے روکا وہ یہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا ہے (یعنی دروازہ پر پردہ لٹکنا اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں میں کڑے کا ہونا چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (فوراً) پردہ کو پھاڑ ڈالا اور دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ سے دونوں کڑوں کو اتار لیا اور ان کو توڑ ڈالا پھر دونوں صاحبزادے ان ٹوٹے ہوئے کڑوں کو لے کر) روتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپنے رشتہ داروں میں کسی شخص کا نام لے کر فرمایا کہ اس کے گھر والوں کو دے آؤ کیونکہ وہ محتاج و ضرورت مند تھے، چونکہ یہ دونوں بچے میرے اہل بیت میں سے ہیں اس لئے میں اس کو اچھا نہیں سمجھتا کہ یہ دنیاوی زندگی میں بہترین غذا کھائیں (یعنی میرے نزدیک یہ پسندیدہ) نہیں ہے کہ میرے یہ بچے بہترین غذاؤں اور نفیس پوشاک و اسباب سے لذت و فائدہ اٹھائیں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  بہترین غذا  سے عیش و آرام کی زندگی اختیار کرنا اور دنیا کی لذتیں حاصل کرنا مراد لیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا یہ واضح فرمایا کہ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں کہ وہ اس دنیا میں فقر و زہد اور سختی و مشقت کی زندگی اپنائیں تاکہ آخرت میں ان کے درجات بلند ہوں اور ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آیت (اذہبتم طیباتکم فی حیوتکم الدنیا) لیکن اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چشم تصور سے اپنی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شکستہ دلی کو بھی دیکھ رہے تھے اس لئے ان کے تئیں شفقت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ثوبان ! فاطمہ کے لئے عصب کا ایک ہار اور دونوں بچوں کے لئے ہاتھی دانت کے دو کڑے خرید لینا تاکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بھی دلجوائی ہو جائے اور بچوں کی اشک شوئی ہو جائے۔ (احمد، ابوداؤد

سرمہ لگانے کا حکم

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اصفہانی سرمہ (برابر) لگایا کرو، کیونکہ وہ سرمہ بینائی کو روشن کرتا ہے اور بالوں یعنی پلکوں کو اگاتا ہے جو آنکھوں کی زیبائی و حفاظت کی ضامن ہوتی ہیں) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک لمبی سرمہ دانی تھی،جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزانہ رات میں تین بار اس آنکھ میں اور تین بار اس آنکھ میں سرمہ لگاتے تھے (یعنی مسلسل تین سلائی دائیں آنکھ میں اور تین سلائی بائیں آنکھ میں لگاتے تھے)۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ  اثمد  مطلق سرمہ کو کہا جاتا ہے لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ  اثمد ایک مخصوص قسم کے سرمہ کو کہا جاتا ہے، اور بعض حضرات کے قول کے مطابق وہ مخصوص قسم اصفہانی سرمہ ہے جو آنکھ سے بہنے والے پانی کو روکتا ہے، آنکھ کے اندر اگر زخم پیدا ہو جاتے ہیں اور یا سوزش ہوتی ہے تو اس کو دفع کرتا ہے اور آنکھ کی رگوں کو جو روشنی کا ذریعہ ہیں طاقت دیتا ہے خاص طور پر بڑی عمر والوں اور بچوں کے حق میں زیادہ فائدہ مند رہتا ہے۔

ایک روایت میں بالاثمد کے بجائے بالاثمد المروح کے الفاظ ہیں یعنی وہ سرمہ جس میں خالص مشک مخلوط ہو۔

 روزانہ رات میں سے ہر روز رات میں سونے سے پہلے  مراد  ہے جیسا کہ ایک روایت میں وعند النوم کے الفاظ منقول بھی ہیں، رات میں سونے سے پہلے سرمہ لگانے میں حکمت و مصلحت یہ ہے کہ سرمہ کے اجراء آنکھوں میں زیادہ عرصہ تک رہتے ہیں اور اس کے اثرات آنکھ کے اندرونی پردوں اور جھیلوں تک اچھی طرح سرایت کرتے ہیں۔

بہترین دوائیں کون سی ہیں

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (رات میں) سونے سے پہلے ہر آنکھ میں اصفہانی سرمہ کی تین تین سلائیاں لگایا کرتے تھے ! نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم علاج کے لئے جن چیزوں کو اختیار کرتے ہو ان میں بہترین چیزیں چار ہیں ایک تو لدود، دوسرے سعوط تیسرے حجامۃ اور چوتھے مشی ! آنکھوں کے لگانے کی چیزوں میں بہترین چیز اصفہانی سرمہ ہے جو بینائی کو روشن کرتا ہے اور پلکوں کے بالوں کو جماتا ہے، نیز بھری ہوئی سینگی کھنچوانے کے لئے (چاند کی) سترھویں، انیسویں اور اکیسویں (تاریح) بہترین دن ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب معراج میں تشریف لے گئے تو فرشتوں کی کوئی بھی ایسی جماعت نہیں تھی جس کے پاس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم گزرے ہوں اور اس نے یہ نہ کہا ہو کہ بھری ہوئی سینگی کھنچوانا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ضروری ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

  لدود اس کو کہتے ہیں جو مریض کے منہ میں باچھ کی طرف سے ٹپکائی جائے ! سعوط اس دوا کو کہتے ہیں جو ناک میں ٹپکائی جائے ! حجامہ بھری سینگی کھنچوانے کو کہتے ہیں ! اور مشی اسہال کی دواء کو کہتے ہیں، یہ لفظ مشی بمعنی چلنے سے مشتق ہے چونکہ دست آور دوا کے استعمال سے بیت الخلاء جانے کے لئے بار بار چلنا پڑتا ہے اس مناسبت سے اس دوا کو مشی کہا جاتا ہے۔

چوں کہ مہینہ کی ابتداء سے وسط مہینہ تک خون، بلکہ تمام رطوبات میں بڑھوتری، غلبہ اور جوش رہتا ہے، ادھر مہینہ کی آخری تاریخوں میں ان چیزوں کا عمل سست کمزور اور سرد ہو جاتا ہے اس اعتبار سے گویا مہینہ کے وسط ایام اور خاص طور پر مذکورہ تاریخیں انسانی جسم کے لئے معتدل ہوتی ہیں، لہٰذا ان دنوں میں سینگی کھنچوانا زیادہ سود مند ہوتا ہے حجامۃ کے بارے میں تفصیلی باتیں انشاء اللہ کتاب الطب والرقی میں نقل کی جائیں گی۔

حمام میں جانے کا ذکر

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں اور عورتوں کو حمام میں جانے سے منع فرما دیا تھا، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں کو اس صورت میں جانے کی اجازت دے دی تھی جب کہ ان کے جسم پر تہبند ہو ! (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

  حمام  سے مراد وہ غسل خانے ہیں جو عوامی ضرورت کے لئے بازاروں میں بنائے جاتے ہیں اور جہاں ہر کس و ناکس نہانے کی غرض سے آتا جاتا ہے بلکہ پہلے زمانوں میں تو اس قسم کے حمام ہوتے تھے، جہاں علیحدہ علیحدہ نہانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا بلکہ کئی کئی آدمی ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ غسل کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس صورت میں ستر پوشی ممکن نہیں ہو سکتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو حمام میں جانے سے منع کر دیا البتہ بعد میں مردوں کو اس شرط کے ساتھ جانے کی اجازت دی کہ وہ بغیر تہبند کے جو گھٹنوں تک ہونا ضروری ہے وہاں غسل نہ کریں۔

مظہر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (تہبند کی شرط کے ساتھ بھی) عورتوں کو حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ ان کے اعضاء ستر کے حکم میں داخل ہیں کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی کھولنا جائز نہیں ہے تاہم واقعی ضرورت و مجبوری کی صورت میں عورتوں کے لئے بھی اجازت ہے مثلاً شدید سردی کے موسم میں حیض و نفاس سے فراغت کے بعد، یا ناپاک ہونے کی صورت میں نہانے کی ضرورت ہو یا کسی علاج کے سلسلے میں گرم پانی سے نہانا ضروری ہو اور گرم پانی کا حمام کے علاوہ اور کہیں انتظام نہ ہو نیز ٹھنڈے پانی سے نہانا ضرر و نقصان کا باعث ہو تو اس صورت میں عورت کو بھی حمام جانے کی مخصوص اجازت ہو گی۔

یہاں یہ خلجان پیدا ہو سکتا ہے کہ اس وضاحت سے وہ وجہ ظاہر نہیں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا کہ اس ممانعت میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیوں کیا گیا ہے کیونکہ عورت کی موجودگی میں عورت کے لئے فرق وہی حکم ہے جو مرد کی موجودگی میں مرد کے لئے ہے جس طرح مرد کو کسی مرد کے سامنے اپنے جسم کو کھولنا جائز ہے۔علاوہ اس حصہ جسم کے جو شرعی طور پر عورت کے لئے ستر کے حکم میں ہے اس اعتبار سے قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی یہ اجازت ہونی چاہئے کہ وہ زنانہ حمام میں جا سکتی ہیں بشرطیکہ وہ اپنے جسم کے اس حصے کو ضرور چھپائے رہیں جن کو عورت کے سامنے بھی کھولنا جائز نہیں ہے؟ اس خلجان کو اس توجیہ کے ذریعہ رفع کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو مذکورہ شرط کے ساتھ حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی ہو گی کہ عام طور پر عورتیں اپنی ہم جنسوں کے سامنے اپنی ستر پوشی کا کوئی خاص لحاظ نہیں رکھتیں، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو عورتوں کے سامنے حتی کہ اجنبی عورتوں تک کے سامنے اپنے ستر کی عریانیت کو معیوب نہیں سمجھتیں، چہ جائیکہ اپنی اقارب جیسے ماں یا بیٹی یا بہن وغیرہ کے سامنے ستر کھولنے کو کوئی برائی سمجھیں یہاں تک کہ گھر میں بھی غسل وغیرہ کے مواقع پر عورتیں ایک دوسرے کے سامنے اپنے ستر کو چھپانے کا خیال نہیں رکھتیں چہ جائیکہ حمام میں کہ جہاں ویسے بھی ایک دوسرے کے سامنے ستر پوشی بڑی مشکل سے قائم رکھنی پڑتی ہے بلکہ اکثر عورتیں تو کوئی کپڑا وغیرہ لپٹنیے تک روادار نہیں ہوتیں، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نور نبوت کے ذریعہ عورتوں کی اس حالت کا ادراک کر لیا اور ان کے لئے راستہ ہی کو بند کر دیا۔

 

 

اور حضرت ابوملیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں (ملک شام کے شہر) حمص کی کچھ عورتیں آئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے پوچھا تم کہاں کی رہنے والی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ملک شام کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ شاید تم اس علاقہ کی رہنے والی ہو جہاں کی عورتیں حمام میں جاتی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! تب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو بھی عورت اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کہیں اور کپڑے اتارتی ہے تو (گویا) وہ اس پردہ کو چاک کر دیتی ہے جو اس کے اور اللہ عزوجل کے درمیان ہے، یعنی اس روایت میں فی بیت غیر زوجھا کی بجائے فی بیتھا کے الفاظ ہیں۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گویا مذکورہ حدیث عورتوں کے حمام جانے کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کی،جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ پردہ میں رہے اور اس بات سے اپنے آپ کو بچائے کہ کوئی اجنبی اس کو دیکھے، یہاں تک کہ اس کے لئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی کے علاوہ خلوت (تنہائی) میں بھی اپنا ستر کھولے، لہٰذا جب وہ ضرورت شرعی حمام میں گئی اور وہاں اس نے اجنبی نظروں کا لحاظ کئے بغیر اعضاء و جسم کو عریاں کر دیا تو اس نے گویا اس پردہ کو چاک کر دیا جس میں اپنے جسم کو چھپانے کا حکم اس کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔

یحییٰ کہتے ہیں کہ مذکورہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس کو اس لئے نازل کیا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے ستر کو چھپایا جائے گویا وہ لباس اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کا ذریعہ ہے، لہٰذا جس عورت نے اللہ تعالیٰ کے اس منشاء و حکم کو پورا نہیں کیا اور اپنے ستر کو عریاں کیا تو گویا اس نے اس پردہ کو پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے۔

 

 

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔عنقریب تمہیں عجم کی سرزمین پر فتح حاصل ہو گی جہاں تمہیں ایسے گھر ملیں گے جن کو حمام کہا جائے گا، لہٰذا (خبردار) ان میں داخل ہونے سے بالکل منع کر دینا الاّ یہ کہ کوئی عورت بیمار ہو یا نفاس کی حالت میں ہو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مردوں کو تو حمام میں جانے کی اس شرط کے ساتھ اجازت بھی ہے کہ وہ تہبند باندھے رکھیں، لیکن عورتوں کو مطلق اجازت نہیں ہے خواہ وہ تہبند باندھے ہوئے ہوں یا بغیر تہبند کے ہوں، کیونکہ عورت کا پورا جسم سر سے پاؤں تک ستر ہے جب کہ مرد کا پورا جسم ستر نہیں ہے بلکہ صرف ناف سے زانوں تک کا حصہ چھپانا اس کے لئے ضروری ہے اس لئے تہبند باندھنے سے ان کی ستر پوشی ہو جاتی ہے تاہم اگر کوئی عورت بیمار ہو اور کسی علاج کے سلسلے میں اس کے لئے گرم پانی سے نہانا ضروری ہو، یا کوئی عورت ولادت سے فارغ ہوئی ہو تو غسل کے لئے یا اسی طرح کے کسی اور شرعی عذر کی بنا پر اس کے زنانہ حمام میں داخل ہونا جائز ہو گا خواہ وہ وہاں تہبند جیسی کوئی چیز لپیٹ کر غسل کرے یا بالکل عریاں حالت میں، بغیر عذر حمام میں داخل ہونا عورتوں کے لئے جائز نہیں ہے۔

 

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے  اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔ (ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

  اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے  کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کو حمام میں جانے کی اجازت نہ دے اس حکم میں ماں، بیٹی اور بہن وغیرہ ایسی عورتیں بھی شامل ہیں جو اس (مرد) کے قابو و اختیار میں ہوں، نیز مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ حمام میں جانے کی اجرت دینے کے لئے اپنی بیوی وغیرہ کو روپیہ پیسہ دے کیونکہ اس صورت میں وہ ایک مکروہ عمل کا مدد گار بنے گا۔

فقہ کی بعض کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا حمام میں جانا نقل کیا گیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے اور اس کے بارے میں حدیث منقول ہے اس کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ بات درجہ صحت پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کبھی بھی حمام میں نہیں گئے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حمام کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ! رہی اس حمام کی بات جو مکہ معظمہ میں حمام النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے مشہور ہے تو ہو سکتا ہے کہ جس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی غسل کیا ہو گا اس کو حمام کی صورت دے دی گئی ہو اور پھر اس کو حمام النبی صلی اللہ علیہ و سلم کہا جانے لگا ہو، نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ وہ جگہ  حمام النبی صلی اللہ علیہ و سلم  اس مناسبت سے زبان زد خاص و عام ہو گئی ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش مبارک کی جگہ اسی مقام کے اطراف و جوانب میں واقع ہے تاہم احادیث میں  حمام  کا ذکر ضرور موجود ہے جیسا کہ مذکورہ روایات سے ظاہر ہوا۔

 اس دسترخوان پر نہ بیٹھے  کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ ہرگز نہ جائے جہاں شراب کا دور چلتا ہو اور شرابی لوگ وہاں مے نوشی کرتے ہوں۔ لہٰذا وہاں جانے والا مسلمان اگر شراب نوشی میں شامل نہ بھی ہو تو اس صورت میں اس پر یہ تو واجب ہو ہی گا کہ وہ وہاں شراب پینے والوں کو اس برے فعل سے روکے لیکن وہاں پہنچ جانے کے باوجود اگر اس نے نہ تو ان لوگوں کو شراب پینے سے روکا، نہ ان سے بے اعتنائی کا برتاؤ کیا اور نہ ان کے خلاف اپنی نفرت و غصہ کا اظہار کیا تو یقیناً اس کا شمار کامل مؤمنین میں نہیں ہو گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سر مبارک پر کبھی خضاب نہیں کیا

حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خضاب کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک میں سفید بالوں کی تعد اد شمار کرناچاہتا تو یقیناً کر لیتا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک میں چند ہی بال سفید تھے) اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خضاب کرنے کی کیا ضرورت تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی خضاب نہیں کیا۔ ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ عبارت مزید نقل کی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مہندی اور وسمہ کا خضاب استعمال کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف مہندی کا خضاب استعمال کیا۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی خضاب نہیں کیا۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر مبارک میں کبھی خضاب کا استعمال نہیں کیا اس صورت میں یہ روایت پیچھے نقل کی گئی اس روایت کے منافی نہیں ہو گی جس میں ریش مبارک پر خضاب کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ آگے بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت آ رہی ہے۔ نیز مہندی اور وسمہ دونوں کے مخلوط اور صرف مہندی کے خضاب کے سلسلے میں جو بحث کی جاتی ہے وہ بھی پیچھے گزر چکی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خضاب کرنے کا ذکر

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنی داڑھی پر زرد خضاب کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے کپڑے بھی زرد آلود ہو جاتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم زرد خضاب کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو (اپنی ریش مبارک پر) زرد خضاب کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک داڑھی پر خضاب کرنے کے لئے زرد رنگ سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز نہیں تھی، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو بھی رنگ دیتے تھے۔  (ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 زرد خضاب  سے مراد ورس کے ذریعہ خضاب کرنا ہے جو ایک گھاس ہوتی ہے اور زعفران کے مشابہ ہوتی ہے۔ بسا اوقات ورس کے ساتھ زعفران کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے یصبغ بہا سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ریش مبارک پر زرد خضاب کرتے تھے جیسا کہ ترجمہ کے دوران قوسین میں اس کو واضح کیا گیا، بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ بالوں کو رنگنا مراد ہے، اور بعض حضرات کے قول کے مطابق کپڑوں کو رنگنا مراد ہے، نیز سیوطی نے کہا ہے کہ یہی قول اشبہ یعنی صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بالوں کا رنگنا منقول نہیں ہے لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ جب یہ بات درجہ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسم کے رنگے ہوئے اور زعفرانی کپڑے پہننے سے منع کیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مذکورہ جملہ کو کپڑوں کے زرد رنگنے پر محمول کیا جائے لہٰذا زیادہ صحیح بات وہی ہے جو صاحب نہایہ نے نقل کی ہے کہ مختار قول یہ ہے کہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بالوں کو رنگا اور اکثر نہیں رنگا لہٰذا راویوں میں سے ہر ایک نے اسی چیز کو بیان کیا جس کو اس نے دیکھا ہے اس اعتبار سے ہر راوی اپنے بیان میں سچا ہے۔

 تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو زرد رنگ دیتے تھے  اس سے یہ قطعاً مراد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاص طور کپڑوں کو زرد رنگتے تھے اور پھر اس کو پہنتے تھے، کیونکہ زرد رنگ کے کپڑے پہننے کی ممانعت منقول ہے بلکہ عبارت کا مقصد، محض یہ واضح کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جو زرد خضاب لگاتے تھے اس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے بھی زرد ہو جاتے تھے۔

 

 

اور حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ ایک دن میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک موئے مبارک نکال کر دکھایا جو رنگین تھا ! (بخاری)

 

تشریح

 

 میرک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن ماجہ اور احمد نے اپنی روایت میں  رنگین کے ساتھ مہندی اور وسمہ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں یعنی وہ موئے مبارک مہندی اور وسمہ کے مخلوط رنگ سے رنگین تھا۔ بخاری کی جو روایت نقل کی گئی ہے اسی طرح کی ایک روایت ترمذی نے بھی شمائل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ انہوں نے (یعنی انس نے) بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایسا موئے مبارک دیکھا جو رنگین تھا، لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی یہ روایت بھی گزر چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خضاب نہیں کرتے تھے تو ہو سکتا ہے کہ جس روایت میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خضاب کرنے کی نفی کی ہے اس سے ان کی مراد یہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر خضاب نہیں کرتے تھے اور جس روایت سے خضاب کا اثبات ہوتا ہو وہ اقل احوال پر محمول ہو یعنی کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خضاب کیا ہو گا نیز یہ کہنا بھی صحیح ہو سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک روایت تو حقیقت پر مبنی ہے اور دوسری مجاز پر محمول ہے یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی خضاب نہیں کیا، لیکن کسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درد سر کے دفعیہ کے لئے اپنے سر مبارک پر مہندی لگائی ہو گی اس کے رنگ کا اثر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بالوں پر بھی آ گیا ہو گا یا یہ کہ وہ موئے مبارک جو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا خوشبوؤں میں بسا کر رکھا جاتا ہو گا اور ان خوشبوؤں کے اثر سے وہ ایسا نظر آیا ہو گا جیسے خضاب کیا ہو اس اعتبار سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس موئے مبارک کو رنگین کہا۔ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ میرے نزدیک زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ خضاب کی نفی کو اس پر محمول کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سفید بالوں کو چھپانے کے لئے اپنے سر مبارک پر کبھی خضاب نہیں کیا اور جس روایت سے خضاب کا اثبات ہوتا ہے اس کو اس پر محمول کیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ریش مبارک کے ان چند بالوں پر خضاب کیا تھا جو سفید ہو گئے تھے، اور بخاری کی جس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ریش مبارک کا ایک بال تھا جس پر مہندی اور وسمہ کے خضاب کا اثر تھا تو اس پر شمائل میں منقول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس مطلق روایت کو محمول کیا جائے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خضاب کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ایک مخنث کو شہر بدر کرنے کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک مخنث کو لایا گیا جس نے (عورتوں کی طرح) اپنے ہاتھ پر مہندی لگا رکھی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ اس کو کیا ہوا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ شخص (اپنے رہن سہن، بول چال اور طور طریقوں میں) عورتوں کی مشابہت کرتا ہے۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو شہر سے باہر نکال دینے کا حکم دیا اور اس کو (مدینہ کی ایک جگہ) نقیع میں بھیج دیا گیا، پھر صحابہ نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! کیا ہم اس کو موت کے گھاٹ نہ اتار دیں یعنی چونکہ یہ فسق و فساد اور برائی کی گند پھیلا رہا ہے اس لئے اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حکم دیں تو اس کو قتل کر دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مجھ کو نماز پڑھنے والوں کو قتل سے منع کیا گیا ہے۔ (ابوداؤد)۔

 

تشریح

 

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  نماز  کے ذریعہ بطور کنایہ اس کے اسلام کو ذکر کیا گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح کیا کہ چونکہ وہ شخص بہرحال مسلمان ہے اس لئے اس کے قتل کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے ! نماز بول کر اسلام مراد لینے کی بنیاد یہ بھی ہے کہ حقیقت میں نماز ایک ایسا عمل ہے جو اسلام کے اظہار کا ذریعہ ہے اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو گویا وہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا اسلام سے تعلق نہیں ہے اسی لئے اس قول  اگر کوئی مسلمان نماز نہ پڑھے تو اس کو قتل کر دیا جائے  کو بعض علماء نے اس کے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کیا ہے،

مرد کے لئے رنگدار خوشبو کا استعمال ممنوع ہے

اور حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ پر فتح حاصل ہوئی (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ شہر میں رونق افروز ہوئے ) تو مکہ والوں نے اپنے بچوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لانا شروع کیا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان بچوں کے لئے برکت کی دعا کرتے اور (پیار و شفقت سے) ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے اس موقع پر مجھے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا لیکن چونکہ میرے بدن پر (زعفران وغیرہ کی بنی ہوئی خوشبو) خلوق لگی ہوئی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو خلوق آلودہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگایا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 خلوق چونکہ عورتوں کی مخصوص خوشبو ہے اس لئے اگر کوئی مرد اس خوشبو کو لگائے تو عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے لہٰذا مرد کے لئے خلوق کا استعمال ممنوع ہے۔

بالوں کی دیکھ بھال کرنے کا ذکر

اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میرے (سر کے بال) منڈھوں تک ہیں، کیا ان میں کنگھا کیا کروں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اور ان کی تکریم بھی کیا کرو یعنی ان میں تیل وغیرہ لگا کر ان کی دیکھ بھال کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد  ہاں اور ان کی تکریم کیا کرو  کی تعمیل میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اکثر دن بھر میں دو مرتبہ اپنے بالوں میں تیل لگایا کرتے تھے۔ (مالک)

 

تشریح

 

 بالوں میں تیل لگانے اور کنگھی کرنے کو کثرت کے ساتھ اختیار کرنا اس صورت میں غیر پسندیدہ اور نامحمود ہے جب کہ اس کا مقصد محض زینت و آرائش ہو اور اس میں بے جا انہماک و اہتمام سے کام لیا جائے، لیکن حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو نقل کیا گیا ہے اس کی نوعیت بالکل جدا گانہ تھی کہ ان کا یہ عمل یعنی بالوں میں اکثر تیل لگانا اور کنگھی کرنا محض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی بجا آوری اور منشاء نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعمیل کی خاطر تھا جو یقیناً پسندیدہ و محمود کہلائے گا جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ کے بارے میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے انس کے گیسو محض اس لئے نہیں کاٹے کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کھینچا اور پکڑا کرتے تھے۔

غیر مسلم قوموں کی وضع قطع کے بال رکھنے ممنوع ہیں

اور حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ یعنی میں اور میرے گھر کے کچھ افراد حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس دن کے واقعہ کو مجھ سے میری بہن نے بیان کیا جن کا نام مغیرہ ہے یعنی اس وقت میں بچہ تھا اور مجھے اس دن حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونا تو یاد ہے لیکن اس حاضری کی کیفیت اور وہاں جو احوال پیش آئے ان کی تفصیل مجھے یاد نہیں ہے چنانچہ میری بہن نے (مجھے بتایا کہ) تم ان دونوں میں بھی تھے اور تمہارے سر پر دو گندھے ہوئے گیسو۔ یا دو گچھے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور تمہارے حق میں برکت کی دعا کی نیز فرمایا کہ ان دونوں کو منڈوا ڈالو یا کاٹ ڈالو کیونکہ یہ یہودیوں کی وضع ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  یا وہ گچھے تھے  یہاں راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ حضرت حجاج نے اس موقع پر لفظ  قربان  کہا تھا یا  قصتان  قصتان اصل میں قصہ کا تثنیہ ہے جس کے معنی سر کے بالوں کے ہیں جو آگے کی جانب (پیشانی) پر پڑے رہتے ہیں۔

عورت کو اپنا سر منڈانا حرام ہے

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی عورت اپنا سر منڈائے !۔' (نسائی)

 

تشریح

 

 عورت کے حق میں سر کے بالوں کی وہی اہمیت ہے جو مرد کے حق میں داڑھی کی ہے لہٰذا جس طرح مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے اسی طرح عورت کو سر منڈانا حرام ہے۔

سر اور داڑھی کے بالوں کا بکھرا ہوا ہونا غیر مہذب ہونے کی علامت ہے

اور حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں تشریف فرما تھے کہ ایک ایسا شخص آیا جس کے سر کے اور داڑھی کے بال پرگندہ (یعنی بکھرے اور الجھے ہوئے) تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر) اس (کے سر اور داڑھی) کی طرف (اپنے دست مبارک سے اس انداز میں) اشارہ کیا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو یہ حکم دے رہے ہوں کہ وہ اپنے سر کے بالوں اور داڑھی کو سنوارے، چنانچہ اس شخص نے اپنے سر اور داڑھی کے بالوں کو سنوارا اور پھر واپس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس حالت میں آئے کہ اس کے سر کے بال پراگندہ ہوں اور وہ ایسا دکھائی دے جیسے کوئی شیطان (جن) ہو (یعنی اس نے اپنی شکل و صورت ایسی بنا رکھی ہو جیسے کوئی جن اپنے بال بکھیرے ہوئے اور بد ہئیت شکل و صورت میں ہوتا ہے)۔ (مالک

گھر کے صحن کو صاف ستھرا رکھو

اور حضرت ابن مسیب (تابعی) سے روایت ہے کہ ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا گیا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ نہایت ستھرا ہے ستھرائی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ کرم کرنے والا ہے کرم کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت سخی اور عطا کرنے والا ہے، سخاوت و عطا کو پسند کرتا ہے لہٰذا تم صاف ستھرا رکھو (حضرت ابن مسیب سے روایت کرنے والے) راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ ابن مسیب نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنے صحنوں کو (یعنی فنظفوا کے بعد افنیتکم کا لفظ بھی کہا تھا گویا اس جگہ پورا جملہ یہ ہے کہ تم اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو) اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو (جو اپنے گھروں کے صحن و آنگن کو کوڑے کرکٹ سے ناپاک و گندہ رکھتے ہیں)۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسیب کا یہ قول حضرت مہاجر بن مسمار تابعی کے سامنے ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عامر بن سعد (تابعی) نے اور انھوں نے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ (صحابی) سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔ لیکن مہاجر نے جو حدیث نقل کی اس میں انھوں نے یہ نقل کیا کہ تم اپنے گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھو۔ یعنی ان کی روایت میں افنیتکم کا لفظ صریحاً مذکور ہے جب کہ ابن مسیب کی روایت میں یہ لفظ گمان کے درجہ میں نقل کیا گیا ہے۔

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ پاک ہے  یعنی وہ ہر عیب، ہر نقصان، ہر برائی اور ہر اس چیز سے پاک و منزہ ہے جو شان الوہیت اور شان ربوبیت کے منافی ہو۔ یحب الطیب  میں لفظ طیب طاء کے زیر کے ساتھ ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوش کرداری و خوش کلامی محبوب و پسندیدہ ہے، یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوشبو ایک پسندیدہ چیز ہے اور چونکہ اس ساری چیزوں کی بنیاد پاکی و پاکیزگی ہے لہذا جو بندہ ان چیزوں کو اختیار و استعمال کر کے اپنے اندر پاکی و پاکیزگی پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے اور اس کے عمل سے خوش ہوتا ہے، ایک نسخہ میں یہ لفظ طاء کے زبر اور یاء مشددہ کے زیر کے ساتھ یعنی طیب لکھا ہوا ہے اس صورت میں اس سے مراد وہ شخص ہو گا جو طیبات یعنی عقائد و خیالات کی اچھائی، اقوال اور زبان و بیان کی پاکیزگی، اور اعمال و اخلاق کی بلندی و نیک خوئی کے اوصاف کا حامل ہو، نظافۃ جس کا ترجمہ  ستھرائی  کیا گیا ہے کے معنی ظاہر و باطن کی صفائی و پاکی کے ہیں۔

طیبی کہتے ہیں کہ  گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھنے  کا حکم اصل میں کرم اور جود اختیار کرنے کا کنایہ ہے، یعنی اس حکم سے اصل مقصد یہ تلقین کرنا ہے کہ اپنے اندر عطاء و بخشش اور سخاوت و مہمان نوازی کے اوصاف پیدا کرو، اور ظاہر ہے کہ گھر کی صفائی ستھرائی اس وصف کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ جس گھر کا صحن و آنگن صاف ستھرا رہتا ہے اور مکان کے در و دیوار سے صفائی و سلیقہ شعاری ہویدا ہوتی ہے اس گھر میں لوگوں کو اور مہمانوں کے آنے اور ٹھہرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

مونچھیں ترشوانے کی سنت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جاری ہوئی

اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت سعید بن مسیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو رحمن (اللہ) کے دوست تھے سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے مہمان کی مہمانداری کی یعنی مہمان کی پذیرائی و مہمانداری کی ابتداء انھوں نے ہی کی وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے ختنہ کیا، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے اپنی مونچھیں کتریں، اور وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے بڑھاپا یعنی سفید بال دیکھا، چنانچہ انھوں نے (جب سب سے پہلے اپنے بالوں میں سفیدی کو دیکھا تو) عرض کیا کہ  میرے پروردگار  ! یہ کیا ہے ؟ پروردگار کا جواب آیا کہ  ابراہیم (علیہ السلام)  یہ وقار ہے یعنی یہ اس بڑھاپے کی علامت ہے جو علم و دانش میں اضافہ کا باعث اور عز و وقار کا ذریعہ ہے اور اس کی وجہ سے لہو و لعب کی مشغولیت اور گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ! یہ تو تیری بڑی نعمت ہے لہٰذا  میرے وقار میں اضافہ فرما۔ (مالک)

 

تشریح

 

سیوطی نے موطا کے حاشیہ میں ایسی اور چیزوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ہے،جو یہ ہیں ناخن کاٹنا، مانگ نکالنی، استرا استعمال کرنا، پائجامہ پہننا، مہندی اور وسمہ کا خضاب لگانا، منبر پر خطبہ پڑھنا، خدا کی راہ میں جہاد کرنا، میدان جنگ میں لشکر کو میمنہ، میسرہ، مقدمہ اور قلب کی ترتیب کے ساتھ صف آراء کرنا، لوگوں کے ساتھ معانقہ کرنا اور ثرید تیار کرنا۔

تصاویر کا بیان

تصاویر  تصویر کی جمع ہے،جس کے معنی صورت بنانے کے ہیں، یہاں تصاویر سے مراد جاندار کی تصویریں ہیں جو پردوں وغیرہ پر کڑھی یا بنی ہوئی ہوں۔

تصویر بنانے اور رکھنے کا مسئلہ

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو اور نہ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں جس میں کتا ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 علماء نے لکھا ہے کہ یہاں وہ تصویر اور کتا مراد ہے جن کا گھر میں رکھنا حرام نہیں ہے جیسے وہ کتا جو شکار یا کھیت کھلیان اور مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے پالا گیا ہو یا ایسی تصویریں جو بچھونوں وغیرہ پر ہوں اور ان کی تحقیر و پامالی کی جاتی ہو چنانچہ گھر میں ایسے کتے یا ایسی تصویروں کی موجودگی فرشتوں کے داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنتی لیکن یہ مسئلہ محض ان تصویروں کے رکھنے یا استعمال کا ہے کیونکہ تصویر بنانا تو ہر صورت میں حرام ہے خواہ بچھونے پر ہو خواہ درہم سکوں اور نوٹوں پر ہوں اور خواہ کسی اور چیز پر بنائی جائے جاندار کی تصویر و مورت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ حکم عمومی نوعیت کا ہے یعنی کسی گھر میں مطلق تصویر اور کتے کی موجودگی ملائکہ کے داخل ہونے میں رکاوٹ بنتی ہے اگرچہ کتا اور تصویریں اسی نوعیت کی کیوں نہ ہوں جن کا گھر میں رکھنا نہیں ہے۔

 فرشتوں  سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بندوں کے اعمال لکھنے اور ان کی حفاظت پر مامور نہیں ہوتے کیونکہ جو فرشتے اعمال لکھنے اور حفاظت کرنے پر معمور ہوتے ہیں وہ کسی بھی حال میں انسان سے جدا نہیں ہوتے۔

غیر ضروری کتوں کو مار ڈالا جائے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بہت اداس و غمگین نظر آئے اور اس اداسی و غمگینی کا سبب بیان کرتے ہوئے میمونہ رضی اللہ عنہا سے یا کسی اور زوجہ مطہرہ سے یا اپنے دل میں اور یا اظہار تعجب و حیرت کے طور پر خود اپنے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  حضرت جبرائیل نے آج کی رات میرے پاس آنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ میرے پاس نہیں آئے، خدا کی قسم ! (اس سے پہلے) ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے وعدہ خلافی کی ہو  پھر (اچانک) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذہن میں کتے کے اس پلہ کا خیال آیا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خیمے (یعنی کسی تخت یا ٹاٹ وغیرہ) کے نیچے پڑا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سمجھ گئے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اسی پلہ کی وجہ سے میرے پاس نہیں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پلے کو نکال دینے کا حکم دیا، جب وہ پلہ وہاں سے نکال دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھوں میں پانی لے کر اس جگہ چھڑکا جہاں وہ پلہ بیٹھا ہوا تھا، پھر جب شام ہوئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ  آپ (علیہ السلام) نے تو گزشتہ شب میں مجھ سے ملنے کا وعدہ کیا تھا ؟ 'حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں !لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ اس کے بعد دوسرے دن صبح کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ چھوٹے باغات کے کتوں کو بھی مار ڈالنے کا حکم دے دیا اور بڑے بڑے باغات کے کتوں کو چھوڑنے کا حکم دیا، (کیونکہ ان باغات کی حفاظت کے لئے کتوں کا رکھنا ضروری تھا)۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تصویر دار چیزوں کو ضائع کر دیتے تھے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں ایسی کوئی چیز نہ چھوڑتے تھے جس پر تصویر ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو توڑ نہ ڈالتے ہوں !(بخاری)

 

تشریح

 

  تصالیب  اصل میں تو تصلیب کی جمع ہے جس کی معنی صلیب (سولی) کی تصویر بنانا ہیں اور جن کو عیسائی برکت کے لئے اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کی پرستش تک کرتے ہیں ان کے خیال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر چڑھا دیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کر کے اٹھا لیا، چنانچہ اس سولی کی تصویر ان کے نزدیک ایک مقدس مذہبی علامت ہوتی ہے۔ لیکن یہاں حدیث میں  تصالیب  سے مطلق جاندار کی تصاویر مراد ہیں۔

تصویر بنانے والوں کو آخرت میں عذاب بھگتنا پڑے گا

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ ایسا تکیہ خرید لیا جس پر تصویریں تھیں، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل ہوتے وقت اس تکیہ کو دیکھا تو دروازے پر رک گئے اور حجرہ میں داخل نہیں ہوئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس تصویر دار تکیہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے اثرات کو بھانپ گئیں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نافرمانی چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کی طرف متوجہ ہوتی ہوں، میں نے ایسا کونسا گناہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے حجرے میں داخل نہیں ہو رہے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ تکیہ کیا ہے اور تم اس کو کہاں سے لائی ہو؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے جواب دیا۔ میں نے اس تکیہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے خریدا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت چاہیں اس کا سہارا لے کر بیٹھیں اور جس وقت چاہیں اس کو سوتے وقت سر کے نیچے رکھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ یاد رکھو تصویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تصویریں تم نے بنائی ہیں ان میں جان ڈالو اور ان کو زندہ کرو۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس گھر میں تصویر ہوتی ہے اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے اسی طرح انبیاء علیہ السلام واو لیا کے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ تصویر والے گھر میں داخل ہوں ؟ (بخاری و مسلم)

آرائشی پردے لٹکانا ناپسندیدہ

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے شہ نشین پر ایک ایسا پردہ ڈال دیا جس پر تصویریں تھیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پردہ کو دیکھا تو اس کو پھاڑ دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اس پھٹے ہوئے پردہ کا یہ مصرف نکالا کہ) اس کے دو تکئے بنا دیئے چنانچہ وہ دونوں تکئے گھر میں رکھے رہتے تھے اور ان پر تکیہ لگا کر بیٹھتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 بظاہر یہ حدیث اس حدیث کے منافی ہے جو اس سے پہلے گزری ہے کیونکہ پہلی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تکیہ پر بنی ہوئی تصویریں گھر میں ملائکہ کو داخل ہونے سے روکتی ہیں، اگرچہ ایسی تصویروں کا گھر میں رہنے دینا حرام نہ ہو، اس صورت میں وہ دونوں تکیے جن پر تصویریں تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کیسے رکھے ہوئے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان تکیوں پر جو تصویریں تھیں وہ کسی جاندار کی نہیں تھیں جن کا بنانا اور رکھنا حرام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو اس پردہ کو پھاڑ ڈالا تھا تو اس کی وجہ بھی اس پردے پر تصویروں کی موجودگی نہیں تھی بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ در و دیوار پر بلا ضرورت پردے لٹکانا منشاء خداوندی کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ پتھر اور مٹی کو کپڑے پہنائے جائیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے معلوم ہو گا اور اگر بالفرض وہ تصویریں کسی جاندار ہی کی تھیں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ جب تکیہ بنانے کے لئے پردہ کی کانٹ چھانٹ ہوئی تو اس پر جو تصویریں تھیں ان کے سر کٹ گئے تھے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ  ہتک  (کہ جس کا ترجمہ پھاڑ ڈالنا کیا گیا ہے) کے معنی ان تصویروں کا کاٹنا اور مٹا دینا ہیں جو اس پردہ پر تھیں۔

 

 

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کے لئے سفر پر تشریف لے گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جانے کے بعد ایک کپڑا حاصل کیا اور اس کا پردہ دروازہ پر لٹکایا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سفر جہاد سے واپس تشریف لائے اور وہ پردہ پڑا ہوا دیکھا تو اس کو کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم نہیں دیا ہے کہ ہم مٹی اور پتھر کو کپڑے پہنائیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  نمط ایک عمدہ قسم کے فرش یا بچھونے کو کہتے ہیں جس کے کنارے باریک اور ملائم تانے کے ہوتے ہیں اس کو ہودج پر بھی ڈالتے ہیں اور اس کا پردہ بھی بناتے ہیں، احتمال ہے کہ یہ لفظ نمد کا معرب ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے غالباً اس کپڑے کو دروازے پر آرائش کی خاطر لٹکایا ہو گا ورنہ اگر پردے کے مقصد سے دروازے پر ڈالتیں تو اس پر عتاب ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس کپڑے پر گھوڑے کی تصویریں تھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ضائع کر دیا، اور گویا ان تصویروں کو مٹا ڈالا، لیکن یہ قول حدیث کے سیاق کے خلاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ حدیث کا ربط مضمون یہ واضح کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اس کپڑے کو پھاڑنا اور گویا اس کو دروازے پر لٹکانے سے منع کرنا تصویر کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ در و دیوار کو کپڑے سے ڈھانپنے کی کراہت کی بنا پر تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے بھی ثابت ہوتا ہے۔

یحییٰ کہتے ہیں کہ در و دیوار کو کپڑے سے ڈھانپنے کی ممانعت نہی تنزیہی طور پر ہے کیونکہ اس چیز کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ ہونا ممانعت پر دلالت نہیں کرتا رہی یہ بات کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پردے پر اس قدر ناگواری کا اظہار کیوں کیا کہ اس کو پھاڑ بھی ڈالا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک اہل بیت کی شان اور ان کے ورع و تقویٰ کے خلاف تھی، تاہم یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گھر کی دیواروں وغیرہ کو کپڑے سے ڈھانپنے سے منع کیا جائے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اگر کوئی بری چیز دیکھی جائے تو اس کو اپنے ہاتھ سے خراب و برباد کر دیا جائے اور اس کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا جائے۔

تصویر بنانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ؟ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مشابہت اختیار کرتے ہیں  یعنی صورت بنانا اللہ کا کام ہے لہٰذا جو شخص تصویر بناتا ہے وہ گویا اپنے فعل کو اللہ تعالیٰ کے فعل کے ساتھ مشابہ کرتا ہے۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تصویر بنانے والا گویا اس چیز (تصویر) کو بناتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے مشابہ ہوتی ہے۔

ابن ملک کہتے ہیں کہ اگر مصور کا فعل تصویر سازی اسی نظرئے (عقیدے) کے تحت ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فعل صورت گری کی مماثلت کرنے والا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کو اس کے اس قبیح کفر کی بنا پر دوسرے کافروں کی بہ نسبت زیادہ سخت عذاب بھگتنا ہو گا اور اگر وہ ایسا عقیدہ نہ رکھتا ہو تو پھر اس کے حق میں یہ حدیث تہدید پر محمول ہو گی۔

 

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو میرے پیدا کرنے کی طرح پیدا کرے یعنی جس طرح میں صورت بناتا ہوں اسی طرح وہ بھی صورت بناتا ہے اگرچہ حقیقت میں وہ اس مادہ سے صورت نہیں بناتا جس مادہ سے خدا کی بنائی ہوئی صورتیں ہیں تاہم وہ کوئی صورت بناتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہ صورت میری بنائی ہوئی ہے اگر تصویر و مورت بنانے والے واقعہ تخلیق کا دعوی کرتے ہیں تو ذرا وہ ایک چیونٹی تو بنائیں یا ایک دانہ تو پیدا کریں یا ایک جو تو پیدا کر کے دکھائیں ؟ (بخاری و مسلم)

 

 

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خدا کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور ہے ! (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے گا ان میں مصور بھی ہو گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو بتوں کی مورتیاں اس لئے بناتا ہے کہ ان کی پوجا کی جائے اور چونکہ ایسا شخص یقیناً کافر ہو گا اس لئے اگر اس کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا تو کچھ بعید نہیں، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مشابہت کی نیت سے تصویر بنائے وہ بھی کافر ہے اور سخت ترین عذاب کا مستوجب۔ اور جو شخص اس نیت کے بغیر تصویر سازی کرے وہ کافر نہیں ہو گا بلکہ فاسق کہلائے گا اور اس کا وہی حکم ہو گا جو مرتکب معاصی کا ہے اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ حدیث میں جس مصور کے بارے میں وعید بیان کی گئی ہے اس سے جاندار کی تصویر بنانے جاندار کی تصویر بنانے والا مراد ہے نہ کہ درختوں اور عمارات وغیرہ کی تصویر بنانے والا اسی لئے عام طور پر مصور کا اطلاق جاندار کی تصویر بنانے والے پر ہوتا ہے اور جمادات و نباتات وغیرہ کی تصویر بنانے والے نقاش کہتے ہیں ! مجاہد نے پھل دار درختوں کی تصویر بنانے کو بھی مکروہ کہا ہے دوسرے محققین کے نزدیک غیر جاندار کی تصویر بنانا کراہت سے خالی نہیں اور لہو و لعب نیز بے مقصد والا یعنی چیزوں میں داخل ہے۔

 

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  ہر مصور دوزخ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے ایک شخص پیدا کیا جائے گا جو تصویر بنانے والے کو دوزخ میں عذاب دیتا رہے گا  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تمہیں تصویر بنانے کی ضرورت ہی ہو تو درختوں یا کسی غیر ذی روح کی تصویر بنا لو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یوں تو ہر طرح کی تصویر اور مورت بنانا ناجائز ہے تاہم اکثر علماء نے لڑکیوں کے لئے گڑیوں کو مستثنیٰ رکھا ہے یعنی ان کے نزدیک لڑکیوں کے حق میں گڑیاں بنانا مباح ہے لیکن امام مالک نے مردوں کو ان کا خریدنا مکروہ قرار دیا ہے اور بعض علماء نے مذکورہ اباحت کو منسوخ قرار دیا ہے۔

 

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ایسا خواب دیکھنے کا دعوی کرے جو کہ اس نے نہیں دیکھا ہے یعنی جھوٹا خواب بیان کرے تو اس کو قیامت کے دن دو جو میں گرہ لگانے پر مجبور کیا جائے گا،جس کو وہ ہر گز نہیں کر سکے گا، اور جو شخص کچھ لوگوں کی بات چیت کی طرف اپنا کان لگائے جب کہ وہ لوگ اس شخص کے سننے کو پسند نہ کریں اور اس سے فرار اختیار کریں تو قیامت کے دن اس شخص کے کان میں سیسہ ڈالا جائے گا اور جو شخص تصویر بنائے گا اس کو آخرت میں عذاب دیا جائے گا اور اس کو اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس تصویر میں روح پھونکے حالانکہ وہ ہر گز روح نہیں پھونک سکے گا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

  جس کو وہ ہرگز نہیں کر سکے گا  کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ وہ جو کے دو دانوں کو آپس میں جوڑ کر ایک کر دے اور جب وہ ایسا نہیں کر سکے گا تو اس کو پھر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اسی طرح اس کو عذاب دیا جاتا رہے گا۔ جھوٹا خواب بیان کرنے اور جو کے دو دانوں کو آپس میں جوڑنے کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ جس طرح اس شخص نے خواب کی بے بنیاد اور جھوٹی باتوں کو جوڑا اسی طرح اس سے کہا جائے گا کہ اب ذرا جو کے دو دانوں کو جوڑ کر دکھلا۔؟ واضح رہے کہ جھوٹا خواب بیان کرنا بھی اگرچہ جھوٹ کی ایک قسم ہے لیکن اس جھوٹا خواب بیان کرنے پر مطلق جھوٹ بولنے کی بہ نسبت زیادہ سخت عذاب اس لئے دیا جائے گا کہ اصل میں خواب کا تعلق عالم غیب سے ہے اور سچا خواب اجزاء نبوت میں سے ایک جزو ہے اور ایک طرح سے وحی کے درجہ کا حکم رکھتا ہے لہٰذا جس شخص نے جھوٹا خواب بیان کیا اس نے گویا حق تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا جھوٹ کی سب سے سخت قسم ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو جھوٹے خواب کے ذریعہ نبوت یا ولایت کا دعوے کرے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو نبی بنایا ہے یا ولی بنایا ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ فلاں شخص کی مغفرت ہو گئی ہے یا فلاں شخص ملعون ہے وغیرہ وغیرہ، یا یوں بیان کرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو خواب میں فلاں حکم دیا ہے حالانکہ حقیقت میں اس نے خواب کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔

 اس شخص کے کان میں سیسہ ڈالا جائے گا  یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو ان لوگوں کی باتیں چغل خوری اور فتنہ و فساد پھیلانے کی غرض سے سنے، اس کے برخلاف اگر وہ ان لوگوں کی باتیں اس غرض سے سنے کہ اگر وہ اپنی اس بات چیت کے ذریعہ کسی فتنہ و فساد پھیلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو ان کو اس سے روکے یا ان کی شر انگیزیوں سے اپنے آپ کو یا دوسرے کو محفوظ رکھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

نرد شیر کھیلنے کی مذمت

اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے نرد شیر کے ذریعہ کھیلا اس نے گویا سور کے گوشت اور خون میں اپنا ہاتھ ڈبویا۔ (رواہ مسلم)

 

تشریح

 

 نرد شیر  چوسر کی قسم سے ایک کھیل ہے جس کو فارس (ایران) کے ایک بادشاہ شاپور ابن بابک نے ایجاد کیا تھا چونکہ سور کا گوشت اور لہو نہ صرف یہ کہ نجس ہوتا ہے بلکہ اس سے زیادہ نفرت بھی ہوتی ہے اس لئے خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا تاکہ لوگ اس کھیل سے نہایت بیزاری برتیں۔ واضح رہے کہ مطلق نرد کے ذریعہ کھیلنا تمام علماء کے نزدیک حرام ہے خواہ وہ چوسر کی صورت میں ہو تختہ نرد کی صورت میں اور یا کسی اور طرح کا۔

بچھونے پر تصویروں کا ہونا مکروہ نہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں گزشتہ شب آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس آیا تو تھا لیکن مجھ کو گھر میں آنے سے جس چیز نے روکا وہ یہ تھی کہ دروازے کے پردے پر تصویریں تھیں بایں طور کہ گھر میں جو رنگین منقش کپڑا تھا اس کا پردہ بنایا گیا تھا اور اس پر وہ تصویریں بنی ہوئی تھیں نیز گھر میں کتا بھی موجود تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان تصویروں کے سر کاٹے جانے کا حکم دیجئے جو دروازے (کے پردے) پر ہیں اور ان تصویروں کے سر اس طرح کاٹ دیئے جائیں کہ ان کی ہیئت و شکل بدل جائے اور وہ درخت کی شکل کے ہو جائیں اور پھر اس پردہ کو کاٹ کر ان کے دو تکئے بنانے کا حکم دیجئے جو سہارا لے کر بیٹھنے اور تکیہ لگا کر سونے کے کام میں آنے کے لئے گھر میں فرش پر پڑے رہیں اور روندے جاتے رہیں۔ نیز کتے کو بھی گھر سے نکال باہر کرنے کا حکم دیجئے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی کیا (جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا تھا)۔ (ترمذی، ابوداؤد

 

تشریح

 

 فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کہ مصلے کے آگے یا سر کے اوپر یا دائیں طرف یا بائیں طرف کوئی تصویر موجود ہو یا نمازی کے کپڑے پر تصویر بنی ہو، البتہ بچھونے پر تصویر کے ہونے کے بارے میں دو قول ہیں ان میں سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ بچھونے یا فرش پر تصویر کا ہونا مکروہ نہیں ہے بشرطیکہ اگر اس بچھونے یا فرش پر نماز پڑھی جائے تو اس جگہ سجدہ نہ کیا جائے جہاں کوئی تصویر ہو۔ واضح رہے کہ یہ مسئلہ اس صورت کا ہے جب کہ تصویریں بڑی ہوں اور دیکھنے والوں کو بغیر کسی تکلف کے نظر آئیں اور اگر تصویریں چھوٹی ہوں یا ان کے سر کٹے اور مٹے ہوں تو ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

قیامت کے دن مصور وغیرہ پر مسلط کیا جانے والا خاص عذاب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن دوزخ میں سے ایک گردن نکلے گی یعنی آگ کا ایک شرارہ لمبی گردن کی صورت میں نکلے گا اس گردن میں دیکھنے والی دو آنکھیں ہوں گی، سننے والے دو کان ہوں گے اور بولنے والی زبان ہو گی۔ وہ گردن کہے گی کہ میں تین طرح کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات پر متعین کیا ہے کہ میں ان تین طرح کے لوگوں کو دو زخ میں کھینچ کر لے جاؤں اور لوگوں کے سامنے ان کو ذلیل و رسوا کر کے عذاب میں مبتلا کروں ان میں سے ایک طرح کے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کے ساتھ تکبر و عناد کا برتاؤ کیا (یعنی دنیا میں ان پر حق ظاہر ہوا مگر انہوں نے حق کو قبول نہیں کیا) دوسری طرح کے لوگوں میں ہر وہ شخص شامل ہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارا ہے، اور تیسری طرح کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تصویر سازی کی ہے۔ (ترمذی

شراب جوا اور کوبہ حرام ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا اور کوبہ بجانے کو لسان نبوت کے ذریعہ حرام قرار دیا ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اور بیان کیا گیا ہے کہ  کوبہ  طبل کو کہتے ہیں۔ (احمد ابوداؤد)

 

تشریح

 

  کوبہ  کے معنی میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو نرد، دوسرے بربط اور تیسرے طبل جیسا کہ مصنف نے حدیث کے کسی راوی سے نقل کیا ہے، ڈھولکی اور ڈھولک وغیرہ کی طرح طبل بھی ایک خاص قسم کا دور خابا جا ہوتا ہے، حدیث میں وہ طبل مراد ہے جو محض لہو و لعب کے لئے ہو نہ کہ غازیان اسلام کا طبل۔

 

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب، جوئے، کوبہ اور غبیراء سے منع کیا ہے اور غبیراء ایک قسم کی شراب ہوتی ہے جس کو حبشہ کے لوگ جوار سے بناتے ہیں اور اس کو سکرک کہتے ہیں !۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 غبیراء کی جو تعریف بیان کی گئی ہے وہ یا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے یا کسی دوسرے راوی کی بیان کی ہوئی ہے

نرد سے کھیلنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کرنا ہے

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے نرد سے کھیلا درحقیقت اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح


  نرد سے کھیلنا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کے مترادف اس لئے ہے کہ یہ کھیل اگر بازی لگا کر کھیلا جائے تو حقیقۃً جوا ہے اور بغیر بازی لگائے کھیلا جائے تب بھی صورۃ جوا ہی ہو گا اور یہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ مطلق نرد سے کھیلنا حرام ہے۔

کبوتر بازی حرام ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا جو کبوتروں کے پیچھے پڑا ہوا تھا یعنی ان کے ساتھ لہو و لعب کرنے اور ان کو اڑانے میں مشغول تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے اور شیطان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔  (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، بیہقی،)

 

تشریح

 

اس شخص کو شیطان اس لئے فرمایا کہ وہ حق سے بعد اختیار کئے ہوئے تھا اور لایعنی و بے مقصد کام میں مشغول تھا اور ان کبوتروں کو اس بنا پر شیطان فرمایا کہ انہوں نے اس شخص کو بازی اور لہو و لعب میں مشغول کر کے ذکر الٰہی اور دین و دنیا کے دوسرے کاموں سے باز رکھا، اس سے معلوم ہوا کہ کبوتر بازی حرام ہے اور نووی نے لکھا ہے کہ انڈے سے بچے حاصل کرنے کے لئے دل کو بہلانے کی خاطر اور نامہ بری کے مقصد سے کبوتروں کو پالنا بلا کراہت جائز ہے لیکن ان کو اڑانا مکروہ ہے۔

تصویر کشی کا پیشہ ناجائز ہے

اور حضرت سعید بن الحسن تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ناگہاں ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا ابن عباس رضی اللہ عنہ میری معاشی زندگی کا انحصار میرے ہاتھوں کی محنت مزدوری پر ہے جن کے ذریعہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں (اب سوال یہ ہے کہ میں کیا کروں کیونکہ شریعت نے اس پیشہ کو حرام قرار دیا ہے اور کوئی دوسرا پیشہ مجھے آتا نہیں کہ جس کے ذریعہ اپنی روزی کا انتظام کروں تو کیا اس مجبوری کے تحت میرے لئے یہ پیشہ جائز ہے یا نہیں؟) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ تصویر کشی کے کام سے اس شخص کا تعلق سخت نوعیت کا ہے اور شاید میرے منع کرنے سے باز نہ آئے تو انہوں نے اس کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کی، چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے اس بات کے علاوہ اور کوئی بات بیان نہیں کروں گا جس کو میں نے رسول کریم سے سنا ہے (تو تم توجہ سے سنو کہ) میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص تصویر سازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو عذاب میں مبتلا رکھے گا یہاں تک کہ وہ اس تصویر میں روح پھونک دے درآنحالیکہ وہ اس تصویر میں ہرگز روح نہیں پھونک سکے گا۔ اس شخص نے (یہ وعید سن کر) بڑا گہرا سانس لیا اور اس کا چہرہ خوف کی وجہ سے پیلا پڑ گیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے (اس کی یہ حالت دیکھی تو) فرمایا کہ تم پر افسوس ہے اگر تم اس تصویر کشی کے پیشہ کے علاوہ دوسرے پیشوں (کو قبول کرنے سے) انکار کرتے ہو (کیونکہ تم کوئی اور پیشہ جانتے ہی نہیں) تو ایسا کرو کہ ان درختوں کی اور ان چیزوں کی تصویریں بنانے لگو جو بے جان ہیں۔ (بخاری

کنیسہ کا ذکر

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج میں سے بعض نے ایک کنیسہ کا ذکر کیا جس کو ماریہ کہا جاتا تھا (کنیسہ یہود و نصاری کی عبادت گاہ کہتے ہیں، جو کنشیت کا معرب ہے اسی کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی ہوئی ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دلبستگی کے لئے باتوں میں مشغول تھیں کہ بعض ازواج مطہرات یعنی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کنیسہ کا ذکر کیا جس کو انہوں نے ملک حبشہ میں دیکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ ازواج مطہرات یعنی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حبشہ جا چکی تھیں جہاں کے لوگ عیسائیت کے پیروکار تھے) چنانچہ ان دونوں نے کنیسہ کی خوبصورتی اور اس میں بنی ہوئی تصویروں کا ذکر کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تذکرہ سن کر اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا کہ وہ لوگ (یعنی حبشہ والے یا انصاری ایسا کرتے ہیں کہ) جب ان میں سے کوئی نیک و صالح آدمی مر جاتا ہے تو وہ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا لیتے ہیں (جس کو کنیسہ کہا جاتا ہے) اور اس کنیسہ میں (اپنے نیک و صالح لوگوں کی) یہ تصاویر بناتے ہیں وہ لوگ (حقیقت میں) خدا کی بدترین مخلوق ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ قبروں پر عبادت گاہ بنانے اور ان قبروں کی طرف منہ کر کے عبادت کرنے کی وجہ سے وہ خدا کی بدترین مخلوق میں شمار کئے جاتے ہیں۔

سب سے سخت عذاب کن لوگوں پر ہو گا

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  قیامت کے دن سخت ترین عذاب اس شخص پر ہو گا جو نبی کو قتل کرے  یا جہاد میں اس کو نبی قتل کرے یا جو والدین میں سے کسی ایک کو قتل کرے اور جو شخص تصویر بنائے، یا جو عالم اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھائے یعنی اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے ان پر بھی سخت ترین عذاب ہو گا۔

 

تشریح

 

 جس شخص کو میدان جہاد میں کسی نبی نے قتل کیا ہو گا اس کا سخت ترین عذاب میں مبتلا ہونا ایک اور روایت سے بھی ثابت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اشتد غضب اللہ علی رجل تقتلہ رسول اللہ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کا سخت ترین غضب (عذاب) اس شخص پر ہو گا جس کو اللہ کے رسول نے خدا کی راہ میں یعنی جہاد میں قتل کیا ہو گا ! کیونکہ اللہ کے رسول کا مقتول اصل میں وہی شخص ہو گا جو اللہ کے رسول کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو گا، جہاد کی قید کے ذریعہ گویا اس قتل کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جو حد اور قصاص کے طور پر ہو۔

شطرنج کی مذمت

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے۔ شطرنج عجمی لوگوں یعنی غیر مسلم قوموں کا جوا ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم قوموں کے لوگ شطرنج کے ذریعہ حقیقۃً جوا کھیلتے ہیں یا شطرنج کھیلنا صورۃً ان کے جوئے کی مشابہت رکھتا ہے اور ان کی ہر طرح کی مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے۔

 

 

اور حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔شطرنج صرف وہ شخص کھیلتا ہے جو خطا کار ہو۔

 

 

اور حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے شطرنج کھیلنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کھیل ایک باطل شئے ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو پسند کرتا۔ مذکورہ بالا چاروں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ 

 

تشریح

 

 ہدایہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی  جس شخص نے شطرنج یا نرد شیر کھیلا اس نے گویا سور کے خون میں اپنا ہاتھ ڈبویا  کی بنیاد پر نرد شیر اور شطرنج کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔ جامع ضغیر میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ شطرنج کھیلنے والا ملعون ہے اور جس شخص نے دل چسپی و رغبت کے ساتھ شطرنج کی طرف دیکھا گویا اس نے سور کا گوشت کھایا۔ اور بعض کتابوں میں جو یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام شافعی نے شطرنج کے کھیل کو کچھ شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے تو نصاب الاحتساب میں امام غزالی سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک بھی یہ کھیل مکروہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ شافعی پہلے اس کے جواز کے قائل رہے ہوں گے لیکن پھر انہوں نے اس قول سے رجوع کر لیا،درمختار وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس طرح سب کھیل مکروہ ہیں۔

کتے اور بلی کا فرق

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم انصار میں سے بعض لوگوں کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے، حالانکہ ان کے پڑوس میں اور لوگوں کے بھی گھر تھے (لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے یہاں نہیں جاتے تھے) ان لوگوں پر یہ بات بڑی گراں گزرتی تھی (کہ ہمارے پڑوس میں دوسرے لوگوں کے گھر تشریف لاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں نہیں آتے چنانچہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) فلاں کے گھر تو تشریف لاتے ہیں لیکن ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے (ہم نے کیا قصور کیا ہے، کہ ہمارا گھر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی تشریف آوری کی سعادت سے محروم ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں تمہارے گھر اس لئے نہیں آتا تمہارے گھروں میں کتے پلے ہوئے ہیں انہوں نے عرض کیا کہ ان کے گھروں میں بلی پلی ہوئی ہے (اور جس طرح کتا درندہ ہے اسی طرح بلی بھی درندہ ہے پھر دونوں میں کے درمیان یہ فرق کیسا ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلی درندہ ہے۔ (دارقطنی)