کتاب الاطعمہ کے تحت جو ابواب آئیں گے اور ان میں جو احادیث نقل کی جائیں گی ان سے یہ واضح ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا کیا چیزیں کھائی ہیں اور کون کون سی چیزیں نہیں کھائی ہیں، نیز کھانے پینے کے جو آداب و قواعد ہیں وہ بھی ان احادیث سے معلوم ہوں گے۔
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پرورش و تربیت میں تھا (ایک دن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا) اور میرا ہاتھ رکابی میں جلدی جلدی گھوم رہا تھا (یعنی جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے، میں اپنے سامنے سے کھانے کے بجائے ادھر ادھر ہاتھ ڈال رہا تھا) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ بسم اللہ کہو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اس جانب سے کھاؤ جو تمہارے نزدیک ہے (یعنی اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث میں کھانے کے تین بنیادی آداب کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ سب سے پہلا ادب تو یہ ہے کہ کھانے کی ابتداء بسم اللہ کہہ کر ہونی چاہئے۔ دوسرا ادب یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے اور تیسرا ادب یہ ہے کہ کھانے کے برتن میں اپنے سامنے سے کھانا چاہئے۔ جمہور علماء کا رجحان اس طرف ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ بالا تینوں باتوں کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ استحباب کے طور پر ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں کھانے کے بعد خدا کی حمد و شکر کا جو حکم دیا گیا ہے وہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر ایک دستر خوان پر کئی آدمی کھانے بیٹھیں تو سب لوگ بسم اللہ کہیں ! جب کہ بعض علماء کے نزدیک کہ جن میں حضرت امام شافعی بھی شامل ہیں یہ کہتے ہیں کہ محض ایک آدمی کا بسم اللہ کہہ لینا سب کے لئے کافی ہو جائے گا۔ پانی یا دوا وغیرہ پینے کے وقت بسم اللہ کہنے کا بھی وہی حکم ہے جو کھانے کے شروع میں بسم اللہ کہنے کا ہے۔
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کھانے پر خدا کا نام نہ لیا جائے، اس کو شیطان اپنے لئے حلال سمجھتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
حلال سمجھتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ (شیطان) اس کھانے پر قادر ہو جاتا ہے (یعنی کھانے والے کے ساتھ وہ بھی اس میں سے کھاتا ہے) یہ مطلب اس صورت میں ہے جب کہ حدیث کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے، اور بعض حضرات نے یہ تاویل بیان کی ہے کہ جو کھانا بسم اللہ پڑھ کر نہ کھایا گیا ہو وہ ایسا ہے گویا اس کو شیطان کھا گیا ہے، یا یہ مراد ہو کہ اس کھانے کو اللہ تعالیٰ کی غیر مرضی کی جگہ صرف کرنا ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب آدمی اپنے گھر (یعنی اپنی خواب گاہ) میں داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے وقت خدا کا نام لیتا ہے (یعنی بسم اللہ کہہ کر خواب گاہ میں داخل ہوتا ہے) اور پھر کھانا کھاتے وقت ہی خدا کا نام لیتا ہے تو شیطان (اپنے تابعداروں سے کہتا ہے کہ اس گھر میں تمہارے لئے نہ کوئی جگہ ہے نہ کھانا ہے۔ اور جب آدمی گھر و خواب گاہ میں داخل ہوتے وقت خدا کا نام نہیں لیتا تو شیطان اپنے تابعداروں سے) کہتا ہے کہ (اس گھر میں) تمہیں جگہ مل گئی اور جب آدمی کھانا کھاتے وقت خدا کا نام نہیں لیتا، تو شیطان (اپنے تابعداروں سے) کہتا ہے کہ (اس گھر میں تمہیں جگہ بھی مل گئی اور کھانا بھی مل گیا۔ (مسلم)
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے، تو داہنے ہاتھ سے کھائے اور جب کوئی چیز پئے، تو دائیں ہاتھ سے پئے یعنی پانی وغیرہ کا برتن داہنے ہاتھ سے پکڑے۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں جو حکم دیا گیا ہے وہ بظاہر وجوب کے لئے ہے۔ جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے اس کی تائید صحیح مسلم کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے کھاتے دیکھا تو فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اس شخص نے کہا کہ میں داہنے ہاتھ سے کھانے کی قدرت نہیں رکھتا (راوی کا بیان ہے کہ اس شخص کا داہنا ہاتھ درست تھا، اس نے محض تکبر سے یہ الفاظ کہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (خدا کرے) تجھے داہنے ہاتھ سے کھانے کی طاقت نصیب نہ ہو۔ چنانچہ اس کے بعد وہ شخص (کبھی بھی) اپنا داہنا ہاتھ اپنے منہ کی طرف نہیں اٹھا سکا اس طرح طبرانی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک دن) سلبیہ اسلمیہ کو بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے دیکھا تو اس کے لئے بد دعا فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ طاعون میں مبتلا ہو کر مر گئی ! تاہم جمہور علماء جن کے نزدیک دائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کا حکم وجوب کے طور پر نہیں ہے بطریق استحباب ہے وہ ان روایتوں کو زجر و تنبیہ اور مصالح شریعت پر محمول کرتے ہیں۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، تم میں سے کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کھانا نہ کھائے اور نہ بائیں ہاتھ سے (کوئی چیز) پئے کیوں کہ (یہ شیوہ شیطان کا ہے کہ وہ) اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
تورپشتی نے۔ بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو لوگ شیطان کے زیر اثر اور اس کے تابعدار ہوتے ہیں، وہ ان کو بائیں ہاتھ سے کھانے پینے پر ابھارتا ہے جب کہ طیبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے یعنی حقیقت میں شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے
حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بسند یہ روایت نقل کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اس کو چاہئے کہ دائیں ہاتھ سے کھائے اور دائیں ہاتھ سے پئے (اگر کسی کو کوئی چیز دے یا کسی سے کوئی چیز لے تو) دائیں ہاتھ سے لے اور دائیں ہاتھ سے دے کیوں کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔ بائیں سے پیتا ہے اور بائیں ہاتھ سے لیتا دیتا ہے۔
اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تین انگلیوں سے (یعنی انگوٹھے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کے ساتھ) کھانا کھایا کرتے اور (کھانے سے فراغت کے بعد) اپنا ہاتھ (کسی رو مال وغیرہ سے) پونچھنے (یا دھو نے) سے پہلے چاٹ لیا کرتے تھے (مسلم)
تشریح
نووی کہتے ہیں کہ انگلیوں سے کھانا سنت ہے لہذا ان تینوں کے ساتھ چوتھی اور پانچویں انگلی نہ ملائی جائے الاّ یہ کہ چوتھی اور پانچویں انگلی کو ملانا ضروری ہو۔
ہاتھ کو چاٹنے سے مراد یہ ہے کہ جن انگلیوں سے کھاتے تھے ان کو چاٹ لیا کرتے تھے چنانچہ پہلے بیچ کی انگلی کو چاٹتے پھر اس کے پاس کی انگلی کو پھر انگوٹھے کو چاٹتے تھے۔
طبرانی نے عامر بن ربیعہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تین انگلیوں سے کھاتے تھے اور ان کی مدد کے لئے چوتھی انگلی بھی ملا لیا کرتے تھے ! نیز ایک حدیث مرسل میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پانچ انگلیوں سے کھاتے تھے۔ یا تو یہ پتلی چیز کھانے پر محمول ہے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیان جواز کی خاطر کبھی کبھی اس طرح بھی کھاتے تھے، لیکن اکثر اوقات تین ہی انگلیوں سے کھانے کی عادت تھی۔
بعض روایت میں یمسحہا کے بعد بشئی کا لفظ بھی منقول ہے اور یہ الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں کہ ثم یغسلہا یعنی (ہاتھ کو چاٹتے اور) پھر اس کو دھو لیتے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انگلیوں اور رکابی کو چاٹنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ کس انگلی یا نوالے میں برکت ہے۔ (مسلم)
تشریح
والصحفحۃ میں حرف واو مطلق جمع کے لئے ہے لہٰذا پہلے رکابی و برتن وغیرہ کو صاف کیا جائے اور پھر انگلی کو چاٹا جائے۔
لفظ ایۃ تاء تانیث کے ساتھ منقول ہے اس لئے ترجمہ انگلی یا نوالہ کیا گیا ہے۔ لیکن بعض نسخوں میں یہ لفظ ہ (یعنی مذکر) ضمیر کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ (تم نہیں جانتے کہ) کس کھانے میں برکت ہے (آیا اس کھانے میں جو کھا چکے ہو یا اس کھانے میں جو چاٹو گے) اس کی تائید آگے آنے والی حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ کہ فانہ لایدری فی ای طعام تکون البرکتہ اس سے معلوم ہوا کہ اصل میں سنت انگلیوں کو چاٹنا ہے اور اس چیز کو صاف کرنا ہے جو انگلیوں کو لگی ہے نہ کہ محض انگلیوں کو بمبالغہ منہ میں داخل کرنا۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم سے کوئی شخص کھانا کھا چکے تو وہ ہاتھ کو اس وقت تک (کسی چیز سے) نہ پونچھے (اور نہ دھوئے) جب تک کہ ہاتھ کی انگلیوں کو چاٹ نہ لے یا چٹوا نہ دے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
چٹوا نہ دے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انگلیوں کو خود نہ چاٹے تو ان لوگوں میں کسی کو چٹوا دے جو اس سے گھن اور کراہت محسوس نہ کریں جیسے بیوی، بچے، لونڈی، اور خادم و غلام وغیرہ کیونکہ ان کو اپنے طبعی تعلق و محبت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اس سے کوئی گھن اور کراہت محسوس نہیں ہوتی، بلکہ ایک خاص قسم کی لذت محسوسس کرتے ہیں، انہیں کے حکم میں شاگرد اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس کو حصول سعادت سمجھتے ہوں۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ شیطان تمہارے ہر کام کے وقت تمہارے پاس موجود ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ تمہارے کھانے کے وقت بھی تمہارے پاس موجود رہتا ہے، لہٰذا تم میں سے جب کسی شخص کا کوئی نوالہ گر جائے تو چاہئے کہ (اس کو اٹھا لے اور از قسم مٹی وغیرہ) جو چیز اس کو لگ گئی ہو اس کو صاف کر کے کھا لے، اس کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے، نیز جب کھانا کھا چکے تو چاہئے کہ اپنی انگلیاں چاٹ لیں کیونکہ اس کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے کون سے کھانے میں (یعنی کھانے کے کس حصہ میں) برکت ہے۔ (مسلم)
تشریح
اس کو صاف کر کے کھا لے لیکن اگر وہ لقمہ کسی نجاست و گندگی پر گرا ہو تو اس کو دھو کر کھائے، بشرطیکہ اس کو دھونا ممکن ہو، یا طبیعت اس پر آمادہ ہو، اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو پھر اس کو کتے یا بلی وغیرہ کو کھلا دے۔
اس کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے یہ یا تو حقیقت پر محمول ہے کہ وہ واقعۃً کھاتا ہے، یا یہ کنایہ ہے اس لقمہ کو ضائع کرنے اور اس کو حقیر جاننے سے، نیز اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایسا کرنا (یعنی اس گرئے ہوئے لقمہ کو حقیر و کمتر جان کر نہ اٹھانا) دراصل متکبر لوگوں کی مشابہت اور ان کی عادت کو اختیار کرنا کیونکہ وہ (متکبر لوگ) گرے ہوئے لقمہ کو اٹھا کر کھانا عار سمجھتے ہیں اور یہ ساری چیزیں (یعنی اس لقمہ کو ضائع کرنا اور اس کو حقیر جاننا، اور اس متکبر لوگوں کی عادت اختیار کرنا) شیطانی افعال میں سے ہیں۔
نیز جب کھانا کھا چکے تو الخ یہ اگرچہ ایک علیحدہ حکم ہے۔ مگر حقیقت میں پہلے حکم سے حاصل ہونے والے مفہوم تکبر کو ترک کرنے اور تواضع و انکساری کو اختیار کرنے کو مؤکد کرنے کے لئے ہے کہ کھانا کھا چکنے کے بعد ہاتھ کو دھونے سے پہلے انگلیوں کو چاٹ لیا جائے تاکہ اللہ کے رزق کے تئیں اپنے کامل احتیاج اور تواضع و انکساری کا اظہار ہو اور تکبر و نخوت کا کوئی شائبہ نہ پایا جائے۔
اور حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔ (بخاری)
تشریح
سفر السعادت کے مصنف نے لکھا ہے کہ کھانا کھاتے وقت ٹیک لگانے کی تین صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ پہلو زمین پر رکھا جائے، دوسرے یہ کہ چار زانو بیٹھا جائے، اور تیسرا یہ کہ ایک ہاتھ ٹیک کر بیٹھا جائے، اور دوسرے ہاتھ سے کھانا کھایا جائے، یہ تینوں صورتیں مذموم ہیں اور بعض حضرات نے چوتھی صورت یہ بیان کی ہے کہ تکیہ یا دیوار اور اسی طرح کی کسی اور چیز سے ٹیک لگا کر بیٹھا جائے ! مسنون یہ ہے کہ کھاتے وقت کھانے کی طرف جھک کر اور متوجہ ہو کر بیٹھا جائے اور اکثر حضرات نے ٹیک لگانے کی وضاحت یہ کی ہے کہ دونوں پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو کی طرف جھک کر اور اس پر سہارا لے کر بیٹھا جائے۔ کھاتے وقت بیٹھنے کی یہ صورت اس لئے غیر مسنون ہے کہ ایسی حالت میں کھانا ضرر پہنچاتا ہے بایں طور کہ وہ بدن میں اپنی جگہ پر ٹھیک طرح سے نہیں پہنچتا،جو طبیعت پر گراں ہو کر سؤ ہضم کی شکایت پیدا کرتا ہے۔
سیوطی نے کتاب عمل الیوم واللیلۃ میں لکھا ہے کہ ٹیک لگا کر، منہ کے بل پڑ کر اور کھڑے ہو کر کھانا نہ کھایا جائے۔ بلکہ اس طرح بیٹھ کر کھائے کہ یا تو دو زانو ہو یا بصورت اقعاء ہو یعنی دونوں کولہے ٹیک لے اور دونوں زانو کھڑے کر لے یا دونوں پاؤں پر بیٹھے اکڑوں اور یا داہنا زانو کھڑا کر لے اور بائیں زانو پر بیٹھ جائے۔
اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی خوان پر کھانا نہیں کھایا اور نہ طشتری میں کھایا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے چپاتی پکائی گئی ! حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ وہ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ دسترخوان پر۔ (بخاری)
تشریح
خوان یا خوان کے معنی دسترخوان کے ہیں، لیکن خوان سے مراد چوکی یا میز ہے جس پر کھانا رکھ کر کھایا جائے تاکہ کھانے میں جھکنا نہ پڑے چنانچہ یہ مال دار عیش پسند متکبر اور غیر اسلامی تہذیب کے حامل لوگوں کا شیوہ ہے کہ وہ میز پر یا چوکی پر کھانا رکھ کر کھاتے ہیں اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی اس طریقہ سے کھانا پسند نہیں فرمایا۔
سکرجۃ یا جیسا کہ بعض حضرات نے سکرجۃ کو زیادہ فصیح کہا ہے کے معنی چھوٹی پیالی یا طشتری کے ہیں جس میں دستر خوان پر چٹنی اچار اور جوارش و مربہ وغیرہ رکھا جاتا ہے اس غرض سے کہ کھانے کے ساتھ اس کو کھاتے جائیں تاکہ بھوک بڑھے کھانے کی طرف رغبت زیادہ ہو اور جو کچھ کھایا جائے ہضم ہو، چنانچہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دسترخوان پر کوئی طشتری یا پیالی نہیں ہوتی تھی جیسا کہ عام طور پر مال دار، عیش پسند اور متکبر لوگوں کے دسترخوان پر ایسی تشتریاں رکھنے کا رواج ہے۔
اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے چپاتی پکائی گئی۔ کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو کبھی خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے چپاتی پکائی گئی اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چپاتی کھائی، خواہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے پکائی گئی ہو یا دوسروں کے لئے پکائی گئی ہو، جیسا کہ دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی چپاتی نہیں کھائی !حضرت شیخ عبد الحق نے کتاب میں اس موقع پر جو قول نقل کیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے چپاتی نہیں پکائی جاتی تھی لیکن کوئی شخص اپنے چپاتی پکاتا یا پکواتا اور پھر وہ چپاتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم تناول فرما لیتے تھے۔ اس کو کھانے میں سے انکار نہیں فرماتے تھے ! مگر یہ آگے آنے والی حدیث کے منافی ہے، جو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔ حدیث میں چپاتی کے علاوہ دو چیزوں کی نفی کے بیان کی گئی ہے، ایک تو خوان پر کھانے کی اور دوسری طشتری میں کھانے کی، ان دونوں میں سے طشتری میں کھانے کی نفی کے بیان کے وقت کسی سوال کا کوئی موقع نہ تھا کیوں کہ اس کی نفی مطلق ہے جب کہ خوان پر کھانے کی نفی کے بیان کے وقت سوال کا موقع تھا کہ پھر کھانا کس چیز پر رکھ کر کھاتے تھے آیا خوان کے علاوہ کوئی اور چیز تھی جس پر کھانا رکھا جاتا تھا یا کوئی بھی چیز نہیں ہوتی تھی، چنانچہ یہ سوال کیا گیا اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ دسترخوان پر۔ چنانچہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ کھانے والا جہاں بھی بیٹھے وہاں دسترخوان بچھا کر اس پر کھانا رکھ کر کھائے۔
وہ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے سے سائل کی مراد صحابہ کے بارے میں معلوم کرنا تھا کیونکہ صحابہ اصل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہی کے پیرو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ پر عامل تھے اس لئے صحابہ کے بارے میں سوال کرنا حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں سوال کرنا تھا، یا یہ بھی صحیح ہے کہ یاکلون کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ دونوں کی طرف راجع کی جائے۔
روایت کے آخری جز سے ثابت ہوا کہ دسترخوان پر کھانا رکھ کر کھانا سنت ہے اور خالص اسلامی تہذیب ہے، جب کہ خوان (یعنی میز یا چوکی وغیرہ پر) رکھ کر کھانا بدعت اور تکلفات محض میں سے ہے، ہاں اگر میز و چوکی پر کھانے کی صورت میں کسی تکبر و نخوت کی نیت کار فرما نہ ہو، تو پھر مجبوری کے تحت میز و چوکی پر کھانا رکھ کر کھانا بھی جائز ہو گا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پتلی روٹی یعنی چپاتی دیکھی ہو، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ سے ملاقات کی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی پوری زندگی میں کبھی چپاتی کی صورت بھی نہیں دیکھی چہ جائیکہ کبھی چپاتی کھائی ہو) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دم پخت بکری بھی کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ (بخاری)
تشریح
سمیط اس بکری یا بکری کے بچے کو کہتے ہیں جس کو بال صاف کرنے کے بعد چمڑے سمیت پانی کی بھاپ کے ذریعہ بھونا یا پکایا گیا ہو۔ یہ اس زمانہ میں اہل چین کا خاص کھانا تھا جو اپنے دور میں انتہائی متمول و متمدن اور عیش پرست تھے، اسی لئے خاص طور پر اس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے لفظ بعینہ محض تاکید کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کتب بیدہ (اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا) یا مشی برجلہ (وہ اپنے پیروں کے ذریعہ چلا)
اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے جب رسول بنایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت سے کبھی میدہ کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی روح قبض کی، نیز حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے جب سے رسول بنایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت سے کبھی چھلنی کو نہیں دیکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کی (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مرتبہ رسالت پر فائز ہونے کے وقت اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک میدہ کی تیار کی ہوئی کوئی چیز یا چھلنی کے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کیا کھاتے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان چیزوں کی صورت بھی نہیں دیکھی) حضرت سہیل سے پوچھا گیا پھر آپ لوگ جو (کے بغیر چھنے آٹے کی روٹی) کس طرح کھاتے تھے ؟ حضرت سہیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم جو کو پیسنے کے بعد اس میں پھونک مارتے، چنانچہ اس میں سے جو چیز اڑنے والی ہوتی (یعنی بھوسی) وہ اڑ جاتی اور جو چیز باقی رہتی (یعنی آٹا) اس کو ہم پانی میں گوندھ لیتے، (اور پھر اس کی روٹی پکا کر) کھا لیتے۔ (بخاری)
تشریح
اللہ تعالیٰ نے جب سے رسول بنایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت سے ...... الخ عسقلانی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ اس زمانہ کو ذکر کرنے سے احتراز کیا ہے،جو مرتبہ رسالت پر فائز ہونے سے پہلے گزرا تھا، اور اس احتراز کا سبب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو دو مرتبہ ملک شام کا تجارتی سفر اختیار فرمایا تھا وہ بعثت رسالت کے قبل کے زمانہ ہی کا واقعہ ہے اور اس سفر کے دوران بحیرہ راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی میزبانی کا شرف حاصل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے یہاں دعوت کھائی، اور چونکہ وہاں کے لوگ خوش حال و مالدار تھے اس لئے بظاہر یہ امکان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے یہاں چیزیں ضرور دیکھی ہوں گی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعثت رسالت کے بعد سے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جو زمانہ گزارا وہ تنگی معاش اور اقتصادی زبوں حالی کے لئے مشہور و معروف ہے ظاہر ہے کہ اس میں ایسی چیزوں کا کیا ذکر تھا۔
یہ حدیث دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سادہ طبیعت اور بے تکلف زندگی کی واضح غماز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے کھانے پینے کا اتنا اہتمام بھی عزیز نہیں تھا،جتنا مالی طور پر ایک معمولی حیثیت کے انسان کے یہاں بھی ہوتا ہے اور یہی وہ بنیادی سبق ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی طرف متوجہ رہنا محض مقصد آشنا، بے وقوف اور غافل لوگوں کا شیوہ زندگی ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رغبت ہوتی تو اس کو کھا لیتے اور اگر ناپسند فرماتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کھانے کی چیزوں کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معمول تھا جو چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پسندیدہ ہوتی، اس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم رغبت کے ساتھ کھا لیتے، اور جو چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مرغوب و پسندیدہ نہ ہوتی تھی، اس کو نہیں کھاتے تھے، یہ نہیں تھا کہ جو چیز پسندیدہ نہ ہوتی اس کو برا کہتے اس میں عیب نکالتے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص تھا،جو (پہلے تو) بہت زیادہ کھایا کرتا تھا، مگر جب مسلمان ہوا تو کم کھانے لگا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ مؤمن تو ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے (بخاری) اور مسلم نے اس روایت کو حضرت ابوموسی اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے جس میں (یہ واقعہ مذکور نہیں ہے بلکہ) محض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مذکور ہے، لیکن مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں یوں ہے کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں ایک مہمان آیا جو کافر تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے لئے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا، بکری دوہی گئی اور اس کافر نے اس دودھ کو پی لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے دوسری بکری دوہی گئی، وہ اس دودھ کو بھی پی گیا، پھر جب صبح ہوئی تو وہ مسلمان ہو گیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس وقت بھی) اس کے لئے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا۔ بکری دوہی گئی اور اس نے اس کا دودھ پی لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری بکری دوہنے کا حکم دیا (بکری دوہی گئی) لیکن (اب) وہ اس کا پورا دودھ نہ پی سکا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مؤمن ایک آنت میں میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔
تشریح
کہا جاتا ہے کہ انسان کے پیٹ میں آنتیں ہوتی ہیں لیکن اس سے قطع نظر یہاں ایک آنت اور سات آنت سے مراد قلب حرص اور کثرت حرص ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کھانے پینے میں کم حرص رکھتا ہے اور کافر زیادہ حرص رکھتا ہے اور یہ بات اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے یا اس مخصوص شخص کی حالت بیان کرنا مراد ہے،جس کا روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جب مسلمان ہوا تو کم کھانے لگا، لیکن جب کافر تھا تو زیادہ کھاتا، یا کامل الایمان مؤمن مراد ہے، کہ وہ ذکر الٰہی کی برکت اور نور و معرفت ایمان کے سبب ہمہ وقت سیر رہتا ہے کہ اس کو نہ کھانے پینے کی حرص ہوتی ہے اور نہ کھانے پینے کے اہتمام کی طرف رغبت، اس کے برعکس کافر کا حال دوسرا ہوتا ہے ! در حقیت اس حدیث میں یہ تنبیہ ہے کہ مؤمن کی شان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صبر و قناعت کو لازم جانے، زہد و ریاضت کی راہ کو اختیار کرے، خورد و نوش کی اسی حد پر اکتفا کرے جو زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہو، اور معدے کو اتنا خالی رکھے۔ جو نورانیت دل، صفائی باطن اور شب بیداری وغیرہ کے لئے ممد و معاون ہو۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک فقیر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بہت زیادہ کھا کر اٹھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس کو اتنا زیادہ کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کے آئندہ اس کو میرے پاس نہ آنے دیا جائے،علماء نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب اس فقیر نے اس قدر غیر معمولی طور پر کھایا تو گویا وہ کفار کے مشابہ ہوا اور جو شخص کافروں کی مشابہت اختیار کرے اس سے ملنا جلنا ترک کر دینا چاہئے، واضح رہے کہ کم کھانے کی عادت اختیار کرنا، عقلاء باہمت اور اہل حقیقت کے نزدیک مستحسن و محمود ہے، اور اس کے برعکس مذموم ہے، لیکن وہ بھوک جو حد افراط کو پہنچ جائے،ضعف بدن اور قوائے جسمانی کے اختلال کا باعث ہو اور جس کی وجہ سے دین و دنیا کے امور کی انجام دہی میں رکاوٹ پیدا ہو، وہ ممنوع اور طریقہ حکمت کے منافی ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کو اور تین کا کھانا چار کو کافی ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کھانا دو آدمیوں کو سیر کر دیتا ہے وہ تین آدمیوں کو بھی سیر کر دیتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس کھانے کو دو آدمی سیر ہو کر کھاتے ہیں۔ وہ تین آدمیوں کے لئے بطور قناعت کافی ہو جاتا ہے کہ وہ تینوں کی بھوک ختم کر دیتا ہے ان کو عبادت و طاعت کی طاقت و قوت عطا کر دیتا ہے اور ان کے ضعف کو دور کر دیتا ہے اس پر مابعد کی عبارت تین آدمیوں کا کھانا چار کو کافی ہوتا ہے کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، اصل میں حدیث کی غرض اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ اگر تمہیں اتنا کھانا میسر ہو جو تمہارا پیٹ پوری طرح بھر سکتا ہے تو اس کو محض اپنے پیٹ بھر نے میں صرف نہ کرو بلکہ درجہ قناعت اختیار کر کے اس میں سے اتنا ہی کھاؤ جو تمہاری غذائی ضرورت کے بقدر ہو،جو تمہاری ضرورت واقعی سے زائد ہو، اس کو کسی دوسرے محتاج کو کھلا دو۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کو دو کا کھانا چار کو اور چار کا کھانا آٹھ کو کافی ہوتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بھی وہی تاویل ہو گی جو اوپر بیان ہوئی لیکن اوپر کی حدیث میں ثلث و ربع کے حساب سے فرمایا گیا ہے۔ (کہ ایک کا کھانا دو کو اور دو کا تین آدمیوں کو کافی ہوتا ہے) اس حدیث میں بطریق تضاعف (دگنے کے حساب سے) فرمایا گیا ہے (کہ ایک کا کھانا دو کو اور دو کا چار کو کافی ہوتا ہے) یہ اختلاف اشخاص و احوال کے تفاوت کے سبب سے ہے کہ جس جذبہ قناعت اور ایثار کی صورت میں دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لئے ہوتا ہے، بعض حالات اور بعض آدمیوں کی صورت میں وہی جذبہ قناعت و ایثار کچھ اور بڑھ کر دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لئے بھی کافی قرار دے دیتا ہے۔
منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ قحط سالی کے دنوں میں فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں ہر گھر والوں کے پاس ان کی تعداد کے بقدر آدمی بھیج دوں، کیونکہ آدمی آدھا پیٹ کھانے سے ہلاک نہیں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اس قحط کے زمانہ میں بھی کچھ لوگوں کو اسباب معیشت میسر ہیں اور وہ دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں،جب کہ کتنے ہی بندگان خدا ایسے ہیں جنہیں بقاء زندگی کے بقدر بھی خوارک میسر نہیں ہے میں چاہتا ہوں کہ جن گھروں کو خدا نے پیٹ بھر کھانے کے بقدر رکھا ہے ان میں سے ہر گھر کے ذمہ اتنے محتاج نادار لوگوں کا کھانا کر دوں،جتنے خود گھر والے ہیں، مثلاً جس گھر میں پانچ آدمی ہیں، اس گھر کے ذمہ پانچ ہی ناداروں کا کھانا کر دوں کہ وہ اپنے اتنے ہی کھانے میں کہ جو وہ تیار کرتے ہیں، ان پانچوں ناداروں کو بھی شریک کر لیں، اس طرح وہ اپنا آدھا پیٹ کاٹ کر ان ناداروں کی زندگی کی بقاء کا ذریعہ بن جائیں گے جن کو کچھ بھی کھانے کے لئے میسر نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ آدھا پیٹ بھرنے سے جسم کی توانائی میں کچھ کمی بے شک آ جائے مگر اس کی وجہ سے آدمی ہلاک نہیں ہوتا۔
بہرحال ان احادیث و روایات کا اصل مقصد غرباء کی خبر گیری اور اپنی تئیں ایثار و قناعت کو اختیار کرنے کی طرف راغب کرنا ہے اور اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ نفس امارہ کا تقاضا تو ہو سکتا ہے کہ جو کچھ بھی میسر ہو وہ اپنے پیٹ میں ڈال لیا جائے لیکن انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ خدا نے تمہیں جو کچھ دیا ہے کہ اس میں ان لوگوں کو بھی شریک کرو،جنہیں کچھ بھی میسر نہیں ہو سکا ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تلبینہ بیمار کے دل کو تسکین و قوت دیتا ہے اور بعض غموں کو دور کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
تلبینہ اس حریرے کو کہتے ہیں، جو آٹے اور دو دھ سے بنایا جاتا ہے کبھی اس میں شہد بھی ملا دیتے ہیں، چونکہ اس حریرہ کا خاص جز دودھ ہوتا ہے اور دودھ کی طرح سفید بھی ہوتا ہے اس لئے اس کو تلبینہ کہتے ہیں لبن (دودھ) سے مشتق ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (ایک دن) ایک درزی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے تیار کئے ہوئے کھانے پر مدعو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ میں بھی گیا اس نے جو کی روٹی اور شوربا لا کر (دسترخوان پر) رکھا جس میں کدو اور خشک گوشت تھا، چنانچہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (کو کدو چونکہ بہت مرغوب تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیالے کے کناروں میں کدو کو تلاش کر کر کے کھاتے تھے، اسی لئے اس دن کے بعد سے میں کدو کو بہت پسند کرتا ہوں (کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پسند تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اس دعوت میں جانا یا تو اس بنا پر تھا، کہ ان کو بھی مدعو کیا گیا ہو گا یا وہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خادم خاص تھے اور کسی بھی دعوت میں خادم کے ساتھ ہونے کی اجازت راعی کی طرف سے عام طور پر ہوتی ہے، اس لئے حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ اس دعوت میں شریک ہوئے، اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اگر دسترخوان پر کسی پیالے یا برتن میں کھانے کی مختلف چیزیں ایک ساتھ ہوں تو اس پیالے یا برتن کے دوسرے کنارہ تک ہاتھ بڑھانا جائز ہے، اس صورت میں محض اپنے سامنے کے کنارے تک اپنے ہاتھ محدود رکھنا ضروری نہیں ہو گا، بشرطیکہ دسترخوان پر بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ اس کو ناپسند کریں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ غرباء اور دست کاروں کی دعوت قبول کرنا چاہئے اور وہ دسترخوان پر کھانے کی جو بھی چیز لا کر رکھیں اس کو برضا و رغبت کھانا چاہئے، تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کھانے کے وقت اپنا خادم ساتھ ہو تو اس کو اپنے ساتھ ہی کھانا کھلانا چاہئے، یہ خالص دنیا داروں کا طریقہ ہے کہ خود تو الگ بیٹھ کر کھائیں اور خادم کو دوسری جگہ بٹھا کر کھلائیں۔ اور چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کدو کو اپنی پسندیدہ غذا قرار دینا مسنون ہے، اور اس طرح ہر اس چیز کو پسند و مرغوب رکھنا مسنون ہے، جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پسندیدہ و مرغوب رکھتے تھے۔
اور حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکری کا شانہ جو آپ کے ہاتھ میں تھا چھری سے کاٹتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو (اسی دوران) نماز کے لئے بلایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم شانے کو اور اس چھری کو کہ جس سے وہ شانہ کاٹ رہے تھے وہیں چھوڑ کر کھڑے ہو گئے اور نماز ادا کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس وقت) وضو نہیں کیا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو سے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھاتے وقت گوشت یا کھانے کی کوئی چیز کاٹ کاٹ کر کھانا جائز ہے، بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو اور اگر وہ گوشت یا کوئی بھی چیز گلی ہوئی اور نرم ہو کہ اس کو چھری سے کاٹنے کی ضرورت نہ ہوتی ہو، تو پھر چھری سے کاٹ کر کھانا مکروہ ہو گا، کیونکہ اس طرح بلا ضرورت چھری کانٹے سے کھانا عجمیوں (یعنی غیر مسلموں کے) تکلفات میں شمار کیا گیا ہے،جیسا کہ دوسری فصل میں بیان ہو گا۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ داعی حق (نماز کے لئے بلانے والے یا اذان) کی آواز سن کر کھڑے ہو جانے اور نماز میں پہنچ جانا چاہئے اگرچہ کھانا سامنے رکھا ہوا ہو، لیکن یہ اس صورت کا حکم ہے جب کہ کھانے کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ نہ ہو اس کھانے کی طرف شدید احتیاج نہ ہو، یعنی اتنی بھوک نہ ہو کہ اگر وہ کھانا کھائے بغیر اٹھ کر نماز کے لئے چلا گیا تو نماز میں جی نہ لگے اور اس بات کا خوف نہ ہو کہ نماز سے واپس آنے کے بعد پھر کھانا نہیں ملے گا۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا ضروری نہیں ہوتا جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے کہ ان کے نزدیک آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میٹھی چیز اور شہد کو بہت پسند فرماتے تھے۔ (بخاری)
تشریح
عربی میں حلو آء (مد کے ساتھ) اور حلواء (قصر کے ساتھ) دونوں کا اطلاق اس میٹھی چیز پر ہوتا ہے جو مٹھاس اور چکنائی کے ذریعہ بنے،جس کو اردو میں حلوہ کہا جاتا ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مطلق یعنی ہر میٹھی چیز کو حلوہ کہتے ہیں اس صورت میں الحلواء کے بعد و العسل کا ذکر تخصیص بعد تعمیم کے طور پر ہو گا (یعنی پہلے تو حلوہ کا ذکر کیا) جو ایک عام لفظ ہے اور جس کے حکم میں شہد بھی داخل ہے، لیکن پھر بعد میں خاص طور پر شہد کو بھی ذکر کر دیا، خطابی نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا میٹھی چیز کو بہت پسند کرنا طبعی خواہش کی زیادتی کی بنا پر نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر و بیشتر میٹھی چیز کھانا پسند فرماتے ہوں بلکہ بہت پسند کرنے کا مطلب محض یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دسترخوان پر میٹھی چیز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اتنی رغبت کے ساتھ تناول فرماتے کہ معلوم ہوتا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت مرغوب ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے گھر والوں سے سالن مانگا، گھر والوں نے کہا کہ ہمارے پاس سالن نہیں ہے البتہ سرکہ ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سرکہ منگوایا اور اس کے ساتھ روٹی کھانے لگے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ سرکہ بہترین ہے سرکہ بہترین سالن ہے (مسلم)
تشریح
سرکہ بہترین سالن ہے یہ بار بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لئے فرمایا کہ سرکہ کی زیادہ سے زیادہ تعریف ہو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے پینے میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرنا اور اپنے نفس کو لذیذ چیزوں سے باز رکھنا اچھی بات ہے۔ حدیث سے یہ بھی مفہوم ہوا کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھا لے کہ میں سالن سے روٹی نہیں کھاؤں گا اور پھر سرکہ سے روٹی کھا لے تو وہ حانث (یعنی قسم کو توڑنے والا) ہو گا کیونکہ سرکہ کا سالن ہونا اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ سرکہ انبیاء کرام صلوٰۃ اللہ علیہم اجمعین کا سالن ہے اور طبی طور پر سرکہ کے جو منافع و فوائد ہیں، وہ بہت زیادہ ہیں، جن کی تصدیق طبی کتابوں اور اطباء کے ذریعہ کی جا سکتی ہے۔
اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھنبی من کی ایک قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ کھنبی اس من میں سے ہے،جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔
تشریح
کماۃ کاف کے زبر میم کے جزم اور ہمزہ کے زبر کے ساتھ۔ رحمت کے وزن پر ہے، کماۃ، کھنبی کو کہتے ہیں،جواز قسم بناتات چربی کی مانند ایک چیز ہوتی ہے اور اکثر برسات میں از خود پیدا ہو جاتی ہے، عربی میں اس کو حشم الارض (زمین کی چربی) بھی کہتے ہیں اور ہمارے یہاں اس کو عام طور پر سانپ کی چھتری کہا جاتا ہے۔ کھنبی حلال ہے اور بہت لوگ اس کو تل کر کھاتے بھی ہیں اگرچہ بعض مقامات پر اس کو کھانا طبعی طور پر مکروہ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ وہاں اس کو کھانے کی عادت نہیں ہوتی۔
کھنبی من کی ایک قسم ہے کا مطلب یہ نہیں ہے، کھنبی اصل میں وہ من ہے جو اس آیت کریمہ (وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى) 2۔ البقرۃ:57) (اور ہم نے بنی اسرائیل پر من و سلوی اتارا) کے مطابق حضرت موسیٰ علی السلام کی قوم بنی اسرائیل پر اترتا تھا، کیونکہ من تو ترنجبین کی طرح کی ایک چیز تھی جو آسمان سے اترتی تھی، اور یہ کھنبی زمین سے اگتی ہے، بلکہ کھنبی، من کی ایک قسم ہے) کہ جس طرح من اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت تھی،جو بلا محنت و مشقت آسمان سے نازل ہوتی تھی اس طرح کھنبی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو بلا محنت و مشقت زمین سے پیدا ہوتی ہیں، یا یہ مراد ہے کہ کھنبی اپنے منافع و فوائد کے لحاظ سے من کے مشابہ ہے۔
اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے بعض علماء نے کہا ہے کہ اس کا پانی آنکھ کے لئے اس صورت میں شفاء کا حکم رکھتا ہے جب کہ اس کو دوسری دواؤں (جیسے سرمہ یا طوطیا وغیرہ) میں ملا کر آنکھوں میں لگایا جائے، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ فقط کھنبی کا پانی بھی آنکھ کے لئے فائدہ ہے، اور حدیث کے مطلق مفہوم کی بناء پر یہی بات زیادہ صحیح ہے، بعض علماء نے اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کی بصارت جاتی رہی تھی اس نے کھنبی کا پانی لگایا تو اس کی بصارت درست ہو گئی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے تین یا پانچ کھنبیاں لے کر ان کو نچوڑا اور ان کا پانی ایک شیشی میں رکھا، ایک چھوکری نے اس کو آنکھوں سے لگایا تو وہ اچھی ہو گئی، بہرحال اس سلسلے میں تفصیل انشاء اللہ باب الطب والرقی میں بیان ہو گئی۔
اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے دیکھا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
ککڑی اور کھجور کو ملا کر کھانے کی صورت یا تو یہ تھی، کہ دونوں کو ملا کر ایک ساتھ منہ میں رکھتے اور کھاتے تھے، یا یہ کہ پہلے ایک کھجور منہ میں رکھ لیتے اور پھر ایک ٹکڑا ککڑی کا رکھتے اور دونوں کو ساتھ کھاتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں کو ملا کر اس لئے کھاتے کہ دونوں مل کر معتدل ہو جائیں کیوں کہ کھجور میں حرارت ہوتی ہے اور ککڑی میں برودت اور مرکبات کی سب سے بڑی اصل اعتدال ہے کہ معتدل چیز تعدیل مزاج کی باعث بھی ہوتی ہے اور بہت زیادہ نفع بھی بخشتی ہے۔
یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایک وقت میں کھانے کی دو چیزوں کو غذا بنانا، یا کھانے پینے میں وسعت و فراخی اختیار کرنا، یعنی کھانے کی ایک سے زائد چیزیں تیار کرانا اور کھانا جائز ہے، چنانچہ اس کے جواز کے بارے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ جن علماء نے اس کو مکروہ کہا ہے وہ اس صورت پر محمول ہے جب کہ کھانوں کی زیادہ مقدار و قسمیں تیار کرانا اور کھانا اور عمدہ اقسام و انواع کے کھانوں کو غذا بنانا بطور عادت اختیار کیا جائے اور کھانے کی اس تنوع و کثرت کی بنیاد کسی دینی مصلحت و فائدے کے بجائے محض لذت کام و دہن اور حصول عیش پر ہو۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر) ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مقام مرالظہران میں تھے (جو مکہ کے قریب ایک جگہ ہے) اور پیلو کے پکے پکے پھل جمع کر رہے تھے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کا جو پھل سیاہ ہو، وہ لے لو) کیونکہ وہ اچھا ہوتا ہے اور فائدہ بھی پہنچاتا ہے ہم نے عرض کیا (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بکریاں چرائی ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اور کونسا نبی ہے جس نے بکریاں نہیں چرائی ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بکریاں چرائی ہیں اس سوال کا مطلب یہ تھا کہ پیلو کے پھل چونکہ ان لوگوں کی خاص خوراک و غذا ہے جو جنگل میں بود و باش رکھتے ہیں، یا بکریاں چرایا کرتے ہیں اور اسی اعتبار سے وہی لوگ اس پھل کے اچھے برے کی تمیز رکھتے ہیں اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟
اور کون سا نبی ہے جس نے بکریاں نہیں چرائی ہیں اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے نبوت کا منصب کبھی بھی دنیا داروں، بادشاہوں اور متکبر و مغرور لوگوں کے طبقہ کو عطاء نہیں فرمایا، بلکہ دین و دنیا کے اس سب سے بڑے منصب کی ذمہ داری ہمیشہ ان لوگوں کے سپرد کی گئی جو بکر یاں چراتے تھے، مفلس و نادار ہوتے تھے، اور انتہائی تواضع و انکساری کے ساتھ دست کاری و کاریگری کا پیشہ اختیار کئے ہوتے تھے، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام خیاطی کا کام کرتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام نجاری کرتے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اجرت پر، حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرایا کرتے تھے، اور اس میں حق تعالیٰ کی مصلحت و حکمت یہ ہوتی تھی کہ طبقہ انسانی کے ان برگزیدہ ترین لوگوں کی پرورش و نمو حلال رزق کے ذریعہ ہو جو عام طور پر سخت محنت و مشقت ہی کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے عمل صالح کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں، اور وہ زیادہ زیادہ نیک کام کریں اور خاص طور پر بکریاں چرانے میں ایک بڑا فائدہ یہ تھا کہ لوگوں سے یکسوئی اور حق تعالیٰ جل شانہ کے ساتھ خلوت کا موقع حاصل ہوتا نیز رعایا پروری کے طور طریقے اور کمزور و نادار لوگوں کے ساتھ شفقت و نرمی کا برتاؤ رکھنے کا سبق ملتا تھا۔
چنانچہ ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ (ایک دن) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ موسیٰ(علیہ السلام) جانتے ہو ہم نے تمہیں نبوت کا منصب اعظم کیوں عطا کیا ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا پروردگار ! تو ہی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس دن کو یاد کرو..... جب تم ودای الایمن میں بکریاں چرا رہے تھے، اور ایک بکری بھاگ کھڑی ہوئی تھی تم اس کے پیچھے دوڑے جس کی وجہ سے تمہیں بہت زیادہ تکلیف و مشقت برداشت کرنا پڑی، پھر جب تم نے اس بکری کو جالیا تو تم نے نہ اس بکری کو مارا اور نہ اس پر غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ اس کے ساتھ شفقت نرمی کا برتاؤ کیا پھر اور اس کو مخاطب کر کے کہا کہ اوہ بچاری ! تو نے اپنے آپ کو بھی تکلیف و مصیبت میں مبتلا کیا اور مجھے بھی کلفت و تعب میں ڈالا۔ جب ہم نے اس حیوان کے تئیں تمہاری یہ شفقت و رحم پروری دیکھی تو ہم پر ہماری رحمت متوجہ ہوئی کہ تمہیں نبوت سے سرفراز کیا اور اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بہ ہیئت اقعاء بیٹھ کر کھجوریں کھاتے دیکھا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجوروں کو جلدی جلدی کھا رہے تھے۔ (مسلم)
تشریح
بہ ہیئت اقعاء سے مراد بیٹھنے کی وہ صورت ہے جس میں دونوں سرین زمین پر رکھے جائیں اور دونوں زانو کھڑے کر لئے جائیں۔
کھجوروں کو جلدی جلدی کھانے کا سبب یہ تھا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی کام درپیش ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجوروں کو جلدی جلدی کھایا تاکہ اس سے فارغ ہو کر اس کام میں مشغول ہو جائیں۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص دو کھجوروں کو جمع نہ کرے، یعنی ایک ساتھ دو دو کھجوریں کھائے الاّ یہ کہ وہ اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
سیوطی کہتے ہیں کہ اس ممانعت کا تعلق اس وقت سے تھا،جب کہ مسلمان فقر و افلاس اور تنگی معاش میں مبتلا تھے، لیکن جب انہیں خدا نے معاش میں وسعت و فراخی اور خوشحالی عطا فرمائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ ممانعت منسوخ ہو گئی کہ۔ میں تمہیں کھجوروں کو جمع کرنے سے (یعنی ایک سے زائد کھجوروں کو ایک ساتھ کھانے سے) منع کرتا تھا، مگر اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں رزق کی وسعت و فراخی عطا فرمائی ہے تو جمع کرو، یعنی اگر تم اب ایک سے زائد کھجوریں ایک ساتھ کھاؤ تو یہ حرام یا مکروہ نہیں ہو گا۔ لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر چند لوگ کسی بھی کھانے کی چیز اپنی غذائی ضرورت میں صرف کرنے کا مشترکہ طور پر یکساں حق رکھتے ہوں اور ان کی طرف سے اس چیز کو خرچ سے مقرر مقدار سے زیادہ کھانے پر پابندی) نہ ہو تو اس صورت میں بھی مروت و ادب کا تقاضا بہرحال یہی ہو گا کہ ایسا نہ کیا جائے (یعنی دوسرے ساتھیوں سے زیادہ کھانے مقررہ مقدار سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کی جائے کہ یہ کھانے کے آداب کے بھی منافی ہے اور مروت کے بھی خلاف ہے ہاں اگر تمام ساتھی ایسا کرنے کی صریح اجازت دے دیں یا کوئی ایسی چیز ہو جو ان کی طرف سے اجازت پر دلالت کرے تو کوئی مضائقہ نہیں، لہٰذا سابقہ ممانعت کا تعلق دونوں صورتوں (یعنی حالت فقر و افلاس اور شرکت) سے ہو گا اور اباحت و استثناء کا تعلق شرکت کے علاوہ دوسری صورت سے ہو گا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس گھر کے لوگ بھوکے نہیں رہتے جس گھر میں کھجور ہو۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ! جس گھر میں کھجور نہ ہو اس گھر کے رہنے والے بھوکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے۔ (مسلم)
تشریح
بعض علماء نے وضاحت کی ہے کہ اس گھر کے رہنے والوں سے مراد اہل مدینہ اور وہ لوگ ہیں جن کی غذا کھجور ہے۔ نووی نے کہا ہے کہ اس حدیث میں درحقیقت کھجوروں کی فضیلت و اہمیت کا بیان ہے، اور اس کے ذریعہ اپنے گھر والوں کی غذائی ضروریات کے لئے کھجوروں کا ذخیرہ کرنے کے جواز کا اظہار اور اس کی ترغیب دینا مقصود ہے۔
اور حضرت سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص صبح کے وقت (کوئی اور چیز کھانے سے پہلے) سات عجوہ کھجوریں کھائے گا اس کو اس دن کوئی زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
عجوہ مدینہ کی کھجوروں میں سے ایک قسم ہے جو صیحانی سے بڑی اور مائل بہ سیاہی ہوتی ہے، یہ قسم مدینہ کی کھجوروں میں سب سے عمدہ اور اعلیٰ ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کھجور کا اصل درخت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لگایا تھا۔
زہر سے مراد وہی زہر ہے جو مشہور ہے (یعنی وہ چیز جس کو کھانے سے آدمی مر جاتا ہے) یا سانپ، بچھو اور ان جیسے دوسرے زہریلے جانوروں کا زہر بھی مراد ہو سکتا ہے مذکورہ خاصیت (یعنی دافع سحر زہر ہونا) اس کھجور میں حق تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی گئی ہے جیسا کہ قدرت نے از قسم نباتات دوسری چیزوں (جڑی بوٹیوں وغیرہ) میں مختلف اقسام کی خاصیتیں رکھی ہیں، اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہو گئی کہ کھجور میں یہ خاصیت ہے، یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کی برکت سے اس کھجور میں یہ خاصیت ہے۔ جہاں تک سات کے عدد کی تخصیص کا سوال ہے تو اس کی وجہ شارع کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، بلکہ اس کا علم توفیقی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سماعت پر موقوف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات ہی کا عدد فرمایا اور سننے والوں نے اسی کو نقل کیا، نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تخصیص کی وجہ سے بیان فرمائی اور نہ سننے والوں نے دریافت کیا جیسا کہ رکعات وغیرہ کے اعداد کا مسئلہ ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عالیہ کی عجوہ (کھجوروں) میں شفا ہے اور وہ (زہر وغیرہ کے لئے) تریاق کی خاصیت رکھتی ہے۔ جب کہ اس کو دن کے ابتدائی حصے میں (یعنی نہار منہ کھایا جائے۔ (مسلم)۔
تشریح
مدینہ منورہ کے اطراف میں قبا کی جانب جو علاقہ بلندی پر واقع ہے وہ عالیہ یا عوالی کہلاتا ہے، اسی مناسبت سے ان اطراف میں جتنے گاؤں اور دیہات ہیں ان سب کو عالیہ یا عوالی کہتے ہیں، اسی سمت نجد کا علاقہ ہے اور اس کے مقابل سمت سے جو علاقہ ہے وہ نشیبی ہے اور اس کو سافلہ کہا جاتا ہے۔ اس سمت میں تہامہ کا علاقہ ہے۔ اس زمانہ میں عالیہ یا عوالی کا سب سے نزدیک والا گاؤں مدینہ سے تین یا چار میل اور سب سے دور والا گاؤں سات یا آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔
عالیہ کی عجوہ میں شفا ہے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ دوسری جگہوں کی عجوہ کھجوروں کی بہ نسبت عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں زیادہ شفا ہے، یا اس سے حدیث سابق کے مطلق مفہوم کی تقئید مراد ہے یعنی پچھلی حدیث میں مطلق عجوہ کھجور کی جو تاثیر و خاصیت بیان کی گئی ہے اس کو اس حدیث کے ذریعہ واضح فرما دیا گیا ہے کہ مذکورہ تاثیر و خاصیت عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں ہوتی ہے۔
تریاق : ت کے پیش اور زیر دونوں کے ساتھ۔ وہ مشہور دوا ہے جو دافع زہر وغیرہ ہوتی ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ بعض مہینہ ہم پر ایسا گزرتا تھا کہ ہم اس میں آگ نہ جلاتے تھے (یعنی بعض مرتبہ پورا پورا مہینہ ایسا گزرتا تھا کہ ہمارے گھر میں سامان خوراک نہ ہونے کی وجہ سے چولھے میں آگ بھی نہیں جلتی تھی) اور (اس عرصہ میں) ہماری غذا کا انحصار (صرف) کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ الاّ یہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
الاّ یہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تھا کا مطلب یہ ہے کہ تنگی معاش کے اس عرصہ میں ہم صرف کھجوریں کھا کھا کر اور پانی پی پی کر گزر کر لیا کرتے تھے، یا اگر کوئی شخص تھوڑا بہت گوشت بھیج دیا کرتا تھا تو اس کو کھا لیتے تھے۔ یا یہ مطلب ہے کہ گھر میں خوراک کا کوئی سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی، ہاں اگر کہیں سے کچھ گوشت آ جاتا تو اس کو پکانے کے لئے آگ جلالیا کرتے تھے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایسا (کبھی نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر والوں نے دو دن گیہوں کی روٹی سے اپنا پیٹ بھرا ہو، اور ان دو دنوں میں سے ایک دن کی غذا کھجور نہ ہوئی ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل و عیال کبھی بھی مسلسل دو دنوں تک گیہوں کی روٹی نہیں کھاتے تھے، جہاں تک گیہوں کی روٹی کی قید لگانے کا سوال ہے تو ہو سکتا ہے کہ جو کی روٹی میسر ہو جاتی ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ اور ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں کبھی) دو سیاہ چیزوں یعنی کھجور اور پانی سے پیٹ نہیں بھرا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل و عیال کس تنگی و سختی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے تھے اور باوجودیکہ اگر آپ چاہتے تو دنیا کی تمام لذات اور ایک خوش حال، با فراغت زندگی گزارنے کے سارے وسائل و ذرائع آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں ہوتے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ کمال ایثار و استغناء اور نفس کشی و ترک لذات پر عامل رہے۔
اسودین (دو سیاہ چیزوں) میں سے ایک سیاہ چیز کھجور ہے اور دوسری سیاہ چیز پانی ! کو سیاہ چیز سے تعبیر کرنا مجاورت و مقارنت کی وجہ سے ہے اور اس طرح کا طرز کلام اہل عرب کی یہاں مستعمل ہے،جیسا کہ ماں اور باپ کو ابوین یا چاند اور سورج کو قمرین کہتے ہیں، اس کو عربی میں تغلیب کہتے ہیں۔تاہم واضح رہے کہ اس ارشاد میں پانی کا ذکر کھجور کے ضمن و طفیل میں ہے، اصل مقصد کھجور ہی کا ذکر کرنا ہے، کیونکہ پانی نہ تو پیٹ بھرنے کے مصرف میں آتا ہے اور نہ اس کی کوئی کمی ہی تھی، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے گھر والوں کو غذا کے طور پر کھجوریں بھی اتنی مقدار میں مہیا نہیں ہوتی تھیں جو پیٹ بھرنے کے بقدر ہوں، بلکہ بس اتنی ہی مہیا ہو جاتی تھیں جس سے پیٹ کو سہارا مل جاتا تھا۔
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے (ایک موقع پر) فرمایا کیا تم لوگ اپنے کھانے پینے میں جس طرح چاہتے ہو عیش نہیں کرتے (یعنی تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں اپنی خواہش کے مطابق وسعت و افراط اختیار کر کے عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہو) جب کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ناکارہ کھجوریں۔ بھی اس قدر میسر نہیں ہوتی تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیٹ بھر دیتیں۔ (مسلم)
تشریح
کیا تم .........الخ، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے یہ بات یا تو تابعین کو مخاطب کر کے کہی، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہی۔
تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ........الخ مخاطبین کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اضافت و نسبت ان کو الزام دینے یا یوں کہا جائے کہ غیرت دلانے کے لئے کی کہ تم جس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں ہو اور جن کا نام لیوا ہونے پر فخر کرتے ہو، ان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تو یہ حال تھا کہ ان کو پیٹ بھرنے کے لئے ناکارہ کھجوریں بھی میسر نہیں آتی تھیں اور ایک تم ہو کہ انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہو، اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار کئے ہوئے ہو، اور اس طرح گویا تم نے دنیا اور دنیا کی لذتوں سے اجتناب کرنے کے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کو اختیار کرنے سے اعراض کیا ہے۔
واضح رہے کہ پہلی حدیث میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بعض ایام ایسے گزرتے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی غذا محض کھجوریں ہوتی تھیں، دوسری حدیث میں بیان کیا گیا کہ وہ کھجوریں بھی اتنی مقدار میں میسر نہیں ہوتی تھیں جس سے پیٹ ہی بھر لیا جاتا، اور یہاں یہ بیان کیا گیا کہ وہ قلیل مقدار بھی اچھی کھجوروں پر مشتمل نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ ناکارہ کھجوریں ہوتی تھیں جن کو بالکل ہی محتاج و مفلس شخص کے علاوہ کوئی دوسرا کھانا بھی پسند نہ کرے اور یہ ساری باتیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک لذات دنیا کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم معمولی درجہ کی بھی خوش حال و راحت بخش زندگی گزارنے سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنیادی طور پر فقر اور ترک لذات کو اختیار کیا تھا اور یہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول بن گیا تھا،جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر حالت میں قائم رکھا،جب اسلام اور اہل اسلام پر سخت عسرت و تنگی کا زمانہ تھا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر عامل رہے اور جب اسلام و اہل اسلام کو شوکت نصیب ہوئی اور دنیا کے خزانے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں آ گئے اس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی فقر و عسرت کی زندگی گزارنے پر قناعت کی ایسا کیوں تھا؟ محض اس لئے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واقعۃً مفلس و محتاج تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم خواہش و طلب کے باوجود ایک خوش گوار و خوش حال زندگی کے اسباب و وسائل مہیا کرنے پر قادر نہیں تھے، کیوں کہ یہ بتایا جا چکا ہے کہ بعد میں مسلمانوں کو اسباب معیشت کی بڑی وسعت و فراوانی نصیب ہوئی بلکہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عسرت و تنگی کے زمانہ میں بھی اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے تو عیش و تنعم کے وہ کون سے وسائل تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل نہیں ہو سکتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اتنی سخت و تنگ زندگی گزارنا اس سخاوت کی بناء پر تھا کہ گھر میں جو بھی آیا دوسروں پر صرف کر دیا، اس ایثار کی بناء پر تھا جو خود سخت سے سخت تکلیف میں مبتلا کر کے بھی دوسروں کی راحت چاہنا تھا، اس زہد و تقویٰ اور قناعت و توکل کی بنا پر تھا جس نے آخرت کی سر بلندی اپنے پروردگار کی رضا جوئی اور اپنی عبدیت و بے چارگی کے مکمل اظہار کے لئے دنیا کی ہر لذت، دنیا کا ہر عیش و تنعم اور دنیا کی ہر خواہش کو کلیۃً پس پشت ڈال دیا تھا، اور ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اس عملی زندگی کے ذریعہ اپنی امت کو عیش و تنعم کی زندگی سے اجتناب کرنے قناعت و توکل اور ایثار کا وصف پیدا کرنے اور اپنے حقیقی مقصد حیات کی راہ میں سختی و مشقت برداشت کرنے کی تعلیم و تربیت دیں۔
اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جب کھانا لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس میں سے کھاتے، اور باقی بچا ہوا میرے پاس بھیج دیتے۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے پاس (ایسا) پیالہ بھیجا (جس میں کھانا تھا) اور اس میں سے خود کچھ نہیں کھایا تھا اس لئے کہ اس میں لہسن تھا میں نے پوچھا کہ کیا لہسن حرام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ نہیں ! بلکہ اس کی بو کے سبب میں اس کو (کھانا) پسند نہیں کرتا۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ تو پھر (میں بھی اس کھانے کو نہیں کھاؤں گا کیونکہ) جس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناپسند کیا ہے اس کو میں بھی ناپسند کرتا ہوں۔ (مسلم)
تشریح
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر انصاری صحابی ہیں ان کو ایک امتیازی درجہ حاصل ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مکہ سے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہی کے ہاں اترے اور ان کو میزبان رسول بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اور ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے جس معمول کا ذکر کیا ہے، (کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم باقی بچا ہوا کھانا اس کے پاس بھجواتے تھے) وہ انہی دنوں کا ہو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو ایوب کے ہاں قیام فرما تھے۔
میں اس کو پسند نہیں کرتا اس ارشاد میں کھانے کو عیب لگانا مقصود نہیں ہے بلکہ اصل میں اس چیز کا اظہار مقصود ہے کہ اس کی بو مسجد میں جانے اور ملائکہ کے سامنے آنے سے روکتی ہے۔
نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ لہسن کا کھانا مباح ہے، لیکن اس شخص کے لئے مکروہ ہے جو جماعت میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی لہسن کھا کر نماز کے لئے مسجد میں جانا مکروہ ہے) اور یہی حکم ہر اس چیز کا ہے جس سے بدبو پیدا ہوتی ہو، جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی کا تعلق ہے تو چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر لمحہ وحی کے نازل ہونے کا متوقع رہتے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی بھی لہسن نہیں کھاتے اور اس سے مکمل اجتناب فرماتے تھے۔
اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، کہ پیاز، لہسن اور گندنا کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی کے لئے کیا تھا آیا یہ چیزیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے حرام تھیں یا نہیں ؟ چنانچہ بعض علماء نے یہ کہا کہ یہ چیزیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات خاص کے لئے حرام نہیں تھیں ان کے نزدیک زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی تھیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے والے اور پینے والے کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ جو چیز کھا یا پی رہا ہو اس میں سے کچھ باقی چھوڑ دے، اور پھر اس کو اپنے محتاج ہمسایوں میں تقسیم کر دے۔
جس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناپسند کیا ہے ....الخ، اس بات میں یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کامل کی طرف اشارہ ہے کہ آپ لہسن کو چونکہ ناپسند کرتے ہیں اس لئے میں بھی اس کو ہمیشہ ناپسند کروں گا، یا یہ کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا کہ جماعت میں شریک ہونے کے لئے مسجد جاتے وقت میں لہسن کا استعمال نہیں کروں گا۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص لہسن یا (کچی) پیاز کھائے ہوئے ہو، تو اس کو چاہئے کہ وہ ہم سے الگ رہے یعنی ہماری مجالس میں نہ آئے یا یہ فرمایا کہ تو اس کو چاہئے کہ وہ (کہیں جانے کے بجائے) اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔ اور (ایک دن کا واقعہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میں از قسم ترکاری سبزیاں تھیں (یعنی لہسن، پیاز اور گندنا وغیرہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس میں بو محسوس ہوئی تو اپنے صحابہ میں سے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے (کسی خادم سے) فرمایا کہ اس کو اس (فلاں شخص) کے پاس لے جاؤ اور پھر (اس شخص کو) مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کو تم کھاؤ میں نہیں کھاؤں گا کیونکہ میں جس ہستی کے ساتھ سرگوشیاں کرتا ہوں اس کے ساتھ تم سرگوشی نہیں کرتے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
ہماری مسجد میں مفرد لفظ یعنی مسجد سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ہے اور صیغہ متکلم میں مع الغیر کا استعمال (یعنی میری مسجد کہنے کے بجائے ہماری مسجد کہنا) مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و اکرام کے پیش نظر ہے لیکن چونکہ اس حکم کی علت اور اس کا سبب میں تمام ہی مساجد بلکہ مجالس خیر جیسے مجلس ذکر وغیرہ، مجلس درس و تدریس اور اولیاء اللہ و علماء دین کی مجالس بھی شامل ہیں اس لئے جو حکم مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے کہ لہسن وغیرہ کھا کر اس میں نہ جایا جائے یہی حکم دیگر مساجد و مجالس خیر کا بھی ہو گا اور اگر اس احتمال کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اس ارشاد گرامی میں مفرد لفظ مسجد سے مراد جنس ہے (کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ مسجد بول کر تمام مساجد مراد لی ہیں) تو پھر اس تاویل کی بھی ضرورت نہیں ہو گی،علاوہ ازیں بعض روایت میں مساجدنا یعنی ہماری مساجد کا لفظ منقول ہے، اس صورت میں تو تمام مساجد کے لئے یہ حکم بالکل صریح ہو گا۔
او لیقعد فی بیتہ میں حرف او (یعنی یا) اگر راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہے تو مراد یہ ہو گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو فلیعتزلنا تو اس کو چاہئے کہ وہ ہم سے الگ رہے) فرمایا تھا یا یہ فرمایا تھا کہ فلیعتزل مسجدنا (تو اس کو چاہئے کہ ہماری مسجد سے دور رہے) اور یا یہ فرمایا تھا کہ من اکل ثوما او بصلا فلیقعد فی بیتہ یعنی جو شخص لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے، کسی دوسرے کے پاس نہ جائے خواہ مسجد میں خواہ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ او لیقعد فی بیتہ میں حرف اور راوی کے شک کے اظہار کے لئے نہ ہو، بلکہ تنویع و تقسیم کے لئے ہو اور اس کا تعلق ماقبل کے فقرہ یعنی فلیعتزل مسجدنا سے ہو اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ لہسن پیاز کھا کر مسجد میں آنا مکروہ ہے کہ وہاں ملائکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ موجود رہتے ہیں اور ان چیزوں کو کھا کر عام لوگوں کے ساتھ اختلاط و مجالست مباح ہے اور یا اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور مطلق اختلاط و مجالست سے باز رہے کیونکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔
اس ہستی سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام اور ملائکہ ہیں مطلب یہ تھا کہ یہ فرشتے میرے پاس آتے رہتے ہیں اور میں ان سے بات چیت کرتا ہوں جب کہ تمہارے ساتھ یہ چیز نہیں ہے اس لئے جو چیز (یعنی لہسن پیاز وغیرہ کھانا) میرے لئے جائز نہیں وہ تمہارے لئے جائز ہے اس ارشاد گرامی میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اپنے ہم نشین و مصاحب کی طبیعت و عادات اور اس کے حل کی رعایت ملحوظ رکھے اور اس کی جائز خوشی و مرضی کو پورا کرے۔
اور حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھانے پینے کی چیزوں کو ناپ تول کرو تمہارے لئے اس میں برکت عطاء کی جائے (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو چیز پیمانہ و اوزان کے ذریعہ ناپی تولی جاتی ہے اس کو قرض لین دین بیچنے خریدنے اور پکانے کے لئے دیتے وقت ناپ تول لیا کرو تاکہ اس کا صحیح اندازہ توازن قائم رہ سکے اور کمی بیشی کا کوئی خدشہ نہ رہے چنانچہ یہ چیز (یعنی اناج و غلہ وغیرہ کا ناپنا تولنا) شارع علیہ السلام کے اس حکم کی بناء پر خیر و برکت میں اضافہ کی خاصیت و تاثیر رکھتی ہے خاص طور پر جب کہ سنت کی رعایت ملحوظ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی بجا آوری کا قصد ہو (شیخ عبدالحق محدث دہلوی) ملا علی قاری نے بھی مظہر سے اسی طرح کی بات نقل کر کے یہ لکھا ہے کہ اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اس حدیث اور اس حدیث کے درمیان مطابقت کیوں کر ہو گی جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بیان کیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا جو کوئی جاندار کھاتا علاوہ اس تھوڑے سے جو کے جو بخاری میں تھے چنانچہ اللہ تعالی نے جو کی اس تھوڑی سی مقدار میں اتنی برکت عطا فرما رکھی تھی کہ) میں ایک مدت تک اس میں سے نکال نکال کر اپنے کھانے کا انتظام کرتی رہی پھر (ایک دن) میں نے اس کو ماپ ڈالا بس جب ہی سے اس کی برکت جاتی رہی اس کا جواب یہ ہے اصل میں خرید و فروخت کے وقت ماپنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ برابری اور توازن قائم رہے اور خرچ کے وقت ناپنا درحقیقت احصار و ضبط ہے جو ایک طرح سے بخل اور تنگی قلب کا مظہر ہوتا ہے اور اس سے منع فرمایا گیا ہے چنانچہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا بلال تم بس خرچ کرو صاحب عرش (اللہ تعالی) کی طرف سے کمی کئے جانے کا خوف نہ کرو پس شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے حوالہ سے جو مطلب نقل کیا گیا ہے اس کے مطابق ناپنے تولنے کا حکم مطلق ناپ تول پر محمول ہے کہ لین دین اور خرید و فروخت کے وقت بھی ناپنا تو چاہیئے اور خرچ کے وقت بھی ناپ تول کو ملحوظ رکھنا چاہئے جب کہ ملا علی قاری سے منقول مذکورہ بالا اشکال اور اس کا جواب یہ واضح کرتا ہے کہ ناپ تول کرنے کا حکم محض لین دین اور خرید و فروخت کی صورت پر محمول ہے واللہ اعلم
اور
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے جب دستر خوان اٹھایا جاتا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھانا کھا کر فارغ ہوتے تو اللہ تعالی کی حمد و ثنا میں اس طرح فرماتے سب تعریف اللہ کے لئے ہے ایسی تعریف جو بہت ہے اور پاکیزہ (یعنی ظاہر داری اور دکھاوے سے خالی ہے جس میں برکت عطا کی گئی ہے یعنی وہ ایسی برکت حمد ہے کہ ہمیشہ جاری و قائم رہے اور کبھی منقطع نہ ہو وہ نہ کفایت کی گئی ہے اور نہ اس سے بے پروائی ہو اے رب ہمارے (بخاری)
تشریح
غیر مکفی کو علماء نے کئی طرح سے صحیح کہا ہے اور اس کے معنی بیان کئے ہیں، اگر ان کی پوری تفصیل کو یہاں نقل کیا جائے تو غیر معمولی طوالت اختیار کرنی پڑے گی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لفظ غیر اور ربنا کو مرفوع بھی قرار دیا گیا ہے اور منصوب بھی، یا ان دونوں میں سے ایک کو منصوب اور دوسرے کو مرفوع۔ اسی طرح علماء نے جو معنی و مطلب بیان کئے ہیں ان کا ما حصل یہ ہے کہ یہ الفاظ وہ نہ کفایت کی گئی ہے اور نہ متروک اور نہ اس سے بے پروائی ہو یا تو حمد و تعریف کے احوال و صفات کے اظہار کے لئے ہیں کہ انسان کو چاہئے کہ اپنے پروردگار کی اس طرح و ثنا بیان کرے کہ وہ کسی بھی درجہ پر کافی نہ سمجھی جائے نہ حمد و ثنا بیان کرنے کو ترک کیا جائے اور نہ اس سے بے نیازی برتی جائے بلکہ جس طرح حق تعالیٰ ہمہ وقت انسان پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ رہتا ہے اور ہر لمحہ تسلسل و دوام کے ساتھ اس کو اپنی عطا کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ہر لمحہ اور ہمہ وقت تسلسل و دوام کے ساتھ حق تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا رہے کہ اپنے منعم حقیقی کے حضور ادائیگی شکر بھی ہے اور اپنے پروردگار کی تعریف بھی، یا یہ کہ یہ الفاظ اصل میں کھانے کے حق میں درجہ صفت رکھتے ہیں کھانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس کو کسی بھی درجہ میں اپنے لئے کافی نہ سمجھا جائے بلکہ ہمہ وقت اپنے آپ کو رزق الٰہی کا محتاج تصور کیا جائے کہ اس کی خواہش و طلب کو ترک نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس سے بے نیازی برتی جا سکتی ہے۔ اور یا یہ کہ یہ الفاظ حق تعالیٰ شانہ کے اوصاف جلیلہ کے اظہار کے لئے ہیں کہ ایسی کوئی ذات یا ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ جو اس ذات کبریائی کا کافی ہو بلکہ وہ خود سارے جہان اور ساری چیزوں کے لئے کافی ہے، اس کی قربت کی طلب و خواہش کو ترک نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے فضل و کرم سے مستغنی و بے نیاز ہو سکتے ہیں۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے راضی و خوش ہوتا ہے کہ وہ ایک لقمہ کھائے اور اس پر خدا کی حمد ثنا کرے یا ایک مرتبہ پئے اور اس پر خدا کی حمد و ثنا کرے۔ (مسلم) اور دو روایتیں جن میں سے ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے ما شبع ال محمد صلی اللہ علیہ و سلم الخ اور دوسری روایت خرج النبی صلی اللہ علیہ و سلم الخ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔ ان دونوں روایتوں کو ہم انشاء باب فضل الفقراء میں نقل کریں گے۔ یعنی یہ دونوں روایتیں صاحب مصابیح نے کتاب الاطعمہ میں نقل کیں تھیں لیکن ہم نے ان کو باب فضل الفقراء میں نقل کیا ہے۔
تشریح
اکلہ الف کے زبر کے ساتھ کے معنی ہیں ایک بار سیر ہو کر کھانا۔ ویسے یہ لفظ الف کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے جس کے معنی لقمہ کے ہیں۔
حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا ہے یا کوئی چیز پیتا ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کی حمد و ثنا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اس عمل سے بہت خوش ہوتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے کہ کھانا سامنے لایا گیا (کھانے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ) میں نے اس کھانے میں اس وقت جو بڑی برکت دیکھی جب کہ ہم نے کھانا شروع کیا تھا ایسی برکت میں کسی اور کھانے میں نہیں دیکھی اور اس کھانے کے آخر میں میں نے جو کمتر برکت دیکھی ایسی کم برکت بھی اور کسی کھانے میں نہیں دیکھی، چنانچہ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس کا کیا سبب تھا (کہ اس کھانے میں شروع میں تو اتنی زیادہ برکت دیکھی گئی اور آخر میں اس طرح بے برکتی نظر آئی) ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا درحقیقت کھانے کے شروع میں ہم نے اللہ کا نام تھا لیکن بعد میں ایسا شخص آ کر بیٹھ گیا جس نے کھانا کھایا مگر اللہ کا نام نہیں لیا لہٰذا اس کے ساتھ شیطان نے بھی کھانا کھایا (اس سبب سے آخر میں بے برکتی ہوئی۔ (شرح السنۃ)
تشریح
ہم نے اللہ کا نام لیا تھا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بسم اللہ پڑھنے کی سنت محض بسم اللہ کہہ لینے سے حاصل ہو جاتی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پوری بسم اللہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جائے۔
کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہنا مستحب ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جنبی (حالت ناپاکی میں) ہو یا کوئی عورت ایام حیض یا حالت نفاس میں ہو تو یہ استحباب اس کے لئے بھی ہے بشرطیکہ بسم اللہ پڑھتے وقت تلاوت کی نیت نہ کرے بلکہ ذکر کی نیت سے پڑھے ورنہ حرام ہو گا (کیونکہ ناپاکی اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت حرام ہے اور بسم اللہ بھی قرآن کریم ہی کا ایک فقرہ ہے۔)
جن چیزوں کو کھانا پینا شریعت کی رو سے مکروہ یا حرام ہے ان کو کھاتے پیتے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحب نہیں ہے بلکہ اگر کوئی شخص شراب پیتے وقت بسم اللہ پڑھے گا تو وہ کافر ہو جائے گا (بعض علماء نے مطلق کسی بھی حرام چیز کو کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنے کو کفر کہا ہے۔
شیطان کا کھانے میں شریک ہونا اکثر علماء سلف و خلف کے نزدیک حقیقت پر محمول ہے کہ وہ بسم اللہ نہ پڑھ کر، کھانے والے کے ساتھ کھانے میں حقیقۃً شریک ہوتا ہے جس کی وجہ سے کھانے میں بے برکتی ہو جاتی ہے۔
پہلے جو یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی صورت میں کسی ایک شخص کا بسم اللہ پڑھ لینا اس کھانے پر موجود سب لوگوں کے لئے کافی ہے اور ہر ایک شخص کا بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں ہے تو یہ حدیث ان علماء کے مسلک کے خلاف ایک دلیل ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے بیٹھے اور (شروع میں) اپنے کھانے پر اللہ کا نام لینا بھول جائے (اور کھانے کے درمیان یاد آئے) تو اس کو چاہئے کہ وہ یہ کہے بسم اللہ اولہ و آخرہ۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
اللہ کا نام لینا بھول جائے الخ سے یہ معلوم ہوا کہ کھانا شروع کرتے وقت محض اللہ کے نام کا ذکر کافی ہے لیکن بسم اللہ کہنا افضل ہے۔
محیط میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص وضو کرتے وقت (بسم اللہ کے بجائے) لا الہ الاّ اللہ یا الحمد للہ اور یا اشہد ان لا الہ الااللہ کہے تو وہ سنت ادا کرنے والا کہلائے گا اسی طرح کھانے کی صورت میں بھی یہ مسئلہ ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص ابتداء وضو میں بسم اللہ کہنا بھول جائے اور پھر درمیان وضو (یاد آنے پر) بسم اللہ کہہ لے تو اس کو سنت پر عمل کرنے کا درجہ حاصل نہیں ہو گا بخلاف کھانے کے (کہ کھانے کے درمیان آنے پر بسم اللہ کہہ لینا ادائیگی سنت کے لئے کافی ہو جائے گا۔)
اور حضرت امیہ بن مخشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) ایک شخص کھانا کھانے بیٹھا تو اس نے اللہ کا نام نہیں لیا (یعنی بسم اللہ کہے بغیر کھانا کھانے لگا ) یہاں تک کہ جب اس کھانے میں سوائے ایک لقمہ کے کچھ باقی نہیں رہا (اور اس کو یاد آیا کہ میں کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہنا بھول گیا ہوں) تو اس نے وہ آخری لقمہ اپنے منہ میں لے جاتے وقت کہا بسم اللہ اولہ واخرہ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (یہ دیکھ کر) ہنسے اور پھر فرمایا کہ شیطان اس شخص کے ساتھ برابر کھانا کھا رہا تھا لیکن جب اس نے اللہ کا نام لیا تو اس (شیطان) نے وہ سب کچھ اگل دیا جو اس کے پیٹ میں تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
شیطان کا اپنے پیٹ کا سارا کھانا اگل دینا، حقیقت پر محمول ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ کھاتے وقت بسم اللہ نہ کہنے کی وجہ سے جو برکت جاتی رہی تھی اس نے اس کو واپس کر دیا۔گویا وہ برکت اس شیطان کے پیٹ میں امانت تھی جب اس شخص نے بسم اللہ کہی تو وہ برکت بھی کھانے میں واپس آ گئی۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کھانے سے فارغ ہوتے تو فرماتے۔ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزا وار ہے جس نے ہمیں کھانے کو دیا۔ ہمیں پہننے کو دیا اور ہمیں مسلمان بنایا۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھانا کھا کر (اللہ تعالیٰ کا) شکر ادا کرنے والا صابر روزہ دار کی طرح ہے۔ (ترمذی) ابن ماجہ اور دارمی نے اس روایت کو سنان بن سنہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
ادائیگی شکر کا ادنی درجہ یہ ہے کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہے اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور صابر روزہ دار ہونے کا ادنی درجہ یہ کہ اپنے آپ کو مفسدات صوم سے باز رکھے۔
صابر روز دار کی طرح ہے۔ یہ تشبیہ اصل ثواب میں ہے کہ دونوں ثواب میں شریک ہیں نہ یہ کہ مقدار میں تشبیہ دینا مراد ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جائے کہ کہا جاتا ہے، زید کعمر و یعنی زید،عمرو کی طرح ہے اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ زید بعض خصائل و عادات میں عمرو کے مشابہ ہے نہ کہ وہ تمام خصائل و عادات میں عمرو کے ہم مثل ہے اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ صابر فقیر،شاکر مالدار سے افضل ہے کیونکہ مشبہ بہ، مشبہ سے اقوی ہوتا ہے۔
اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کھاتے اور پیتے تو فرماتے ہر طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار ہے جس نے کھلایا پلایا اور اس کھانے پینے کی چیز کو آسانی کے ساتھ حلق سے اتارا اور اس کے نکلنے کی راہ پیدا فرمائی۔ (ابوداؤد)
اور حضرت سلمان کہتے ہیں کہ میں نے (اسلام قبول کرنے سے پہلے) تورات میں پڑھا تھا کہ کھانے میں برکت کا ذریعہ کھانے کے بعد وضو کرنا چنانچہ (قبولیت اسلام) کے بعد (ایک دن) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے (تورات کے اس مضمون کا) ذکر کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کھانے میں برکت کا ذریعہ کھانے سے پہلے وضو کرنا ہے اور کھانے کے بعد وضو کرنا ہے۔ (ترمذی ابوداؤد)
تشریح
وضو سے مراد کھانے سے پہلے ہاتھوں کو اور کھانے کے بعد دونوں ہاتھوں اور منہ کو دھونا ہے کھانے سے پہلے وضو یعنی ہاتھ دھونا اس کھانے میں برکت کا ذریعہ اس طور پر ہوتا ہے کہ اس (ہاتھ دھونے) کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کھانے میں زیادتی عطا فرماتا ہے اور کھانے کے بعد وضو کا اس کھانے میں برکت کا ذریعہ ہوتا یہ ہے کہ اس کی وجہ سے طبیعت کو سکون حاصل ہوتا ہے اور یہ (یعنی کھانے کے بعد ہاتھ منہ کا دھونا یا ہاتھ منہ دھونے سے طبیعت کو سکون حاصل ہونا) عبادات، اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ میں تقویت و دل جمعی کا سبب ہوتا ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بیت الخلاء سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھانا لایا گیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم آپ کے سامنے وضو کا پانی لائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مجھے (حدث کے بعد) وضو کرنے کا حکم (بطریق وجوب) اس صورت میں دیا گیا ہے جب کہ میں نماز کے لئے کھڑا ہونے کا ارادہ کروں (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اغلب و اکثر کے اعتبار سے فرمایا کہ بطریق وجوب وضو کرنے کا حکم صرف نماز کے لئے ہے ورنہ سجدہ تلاوت کرنے، قرآن مجید کو چھونے اور طواف کرنے کے لئے بھی وضو کرنا واجب ہے۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا یہ سمجھا کہ صحابہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ کھانے سے پہلے وضو شرعی کرنا واجب ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس اعتقاد کی نفی کو اچھی طرح واضح کرنے کے لئے اپنے ارشاد میں حصر کا اسلوب اختیار فرمایا اور یہ اس بات کے منفی نہیں ہے کہ کھانے سے پہلے وضو کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ لہٰذا یہاں وضو سے مراد وہی وضو ہے جو نماز کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ کھانے کا وضو یعنی ہاتھ اور منہ دھونا حدیث کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔تاہم اگر اس جملہ الاّ ناتیک بوضوء (کیا ہم آپ کے لئے وضو کا پانی لائیں ؟) میں وضو سے مراد لیا جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے اور چونکہ کھانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا سنن اور آداب میں سے ہے نہ کہ واجب، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر تعلیم جواز کے پیش نظر اس کو ترک کیا اور اس صورت میں حدیث کا حاصل یہ ہو گا کہ یہ وضو یعنی کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھونا کہ جس کے لئے تم مجھ سے درخواست کرتے ہو کوئی واجب اور مامور نہیں ہے اگر میں اس کو ترک کروں یعنی کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ نہ دھوؤں تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ہاں یہاں ایک اور وضو ہے اور وہ نماز کا وضو ہے جو واجب ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ (ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (مجلس میں موجود صحابہ سے) فرمایا کہ اس پیالے کے کناروں سے کھاؤ۔ اس کے درمیان میں سے نہیں کھاؤ کیونکہ برکت اس کے درمیان میں نازل ہوتی ہے (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے بیٹھے تو اس کو چاہئے کہ وہ پیالہ کے اوپر سے نہ کھائے البتہ پیالے کے نیچے سے کھائے کیونکہ برکت اوپر کے حصے میں نازل ہوتی ہے۔
تشریح
ثرید اس کھانے کو کہتے ہیں جو روٹی کو شوربے میں تیار کیا گیا ہو۔ جمع کا لفظ جمع کے صیغے کے مقابلے میں لایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے سامنے کے کنارے سے کھائے۔ درمیان کے حصے میں برکت کا نازل ہونا اس سبب سے ہے کہ کسی بھی چیز کا درمیانی حصہ اس کے اور حصوں کی بہ نسبت افضل ہوتا ہے لہٰذا کھانے کے برتن کا درمیانی حصہ ہی اس کا مستحق ہے کہ خیر و برکت کا نزول اس پر ہو اور جب کھانے کا درمیانی حصہ خیر و برکت کے اترنے کی جگہ قرار پایا تو اس سے بہتر بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ حصہ آخر کھانے تک باقی رہے تاکہ کھانے کی برکت بھی آخر تک برقرار رہے لہٰذا اپنے سامنے کے کناروں کو چھوڑ کر پہلے درمیانی حصہ پر ہاتھ ڈالنا اور اس کو ختم کر دینا مناسب نہیں ہے۔
پیالہ کے اوپر سے مراد اس کا درمیانی حصہ ہے اور اس کے نیچے سے مراد اس کے کنارے ہیں اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنے سامنے سے کھانا چاہئے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کبھی ٹیک لگا کر کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے دو آدمی بھی نہیں چلتے تھے۔ (ابو داؤد)
تشریح
ٹیک لگا کر کھانا کھانے کے سلسلے میں تفصیلی بات پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔ پیچھے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کہیں جاتے آتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے زیادہ آدمیوں کا تو ذکر ہی نہیں دو آدمی بھی نہیں چلتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انتہائی تواضع اور انکسار کے تحت اپنے صحابہ کے ساتھ اس طرح چلتے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب کے درمیان میں رہتے یا سب سے پیچھے رہتے جیسا کہ ایک اور حدیث میں الفاظ منقول ہیں کہ ویسوق اصحابہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پیچھے چلتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہمراہیوں اور صحابہ کے آگے ہو کر نہیں چلے تھے جیسے امراء و سلاطین متکبر و جاہ پرست لوگوں اور دنیا دار پیروں کا طریقہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ہمراہیوں کے آگے آگے چلنے ہی میں اپنی بڑائی سمجھتے ہیں بلکہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ہجوم ان کے پیچھے پیچھے چلے۔ دو کی قید سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار ایک آدھ آدمی جیسے حضرت انس رضی اللہ عنہ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے رہا کرتے تھے، اور یہ بھی ضرورت کے تحت اور یہ تواضع و انکسار کے منافی بھی نہیں۔
اور حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں روٹی اور گوشت (پر مشتمل کھانا) لایا گیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں تشریف فرما تھے چنانچہ (اس کھانے کو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی کھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہم نے بھی کھایا، پھر کھڑے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہم نے بھی نماز ادا کی اور اس سے زیادہ ہم نے کچھ نہیں کیا کہ (کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے ہاتھوں کو ان کنکریوں سے پونچھ ڈالا تھا جو مسجد میں تھیں ابن ماجہ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہم نے اپنے ہاتھوں کو پانی سے دھویا نہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کھانے میں چکنائی نہیں تھی یا یہ کہ نماز کے لئے ہمیں جلدی تھی اور یا اس کا سبب یہ تھا کہ ہم نے تکلف کو ترک کر کے رخصت (آسانی) پر عمل کرنا چاہا تھا کیوں کہ غیر واجب امور میں کبھی کبھی رخصت پر عمل کر لینا بھی حق تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح پسندیدہ ہے جس طرح وہ اکثر اوقات میں عزیمت پر عمل کرنے کو محبوب رکھتا ہے۔
احیاء العلوم میں بعض صحابہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا۔ کھانے کے بعد ہمارے پاؤں کی پاشنی (ایڑی) ہمارے لئے رو مال کا کام دیا کرتی تھی یعنی ہم کھانا کھا کر اپنے ہاتھوں کو اپنے پاؤں کی ایڑیوں سے پونچھ لیا کرتے تھے جیسا کہ رو مال سے پونچھا جاتا ہے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے الفاظ لم نزد اور مسحنا میں متکلم مع الغیر کا صیغہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ سب کو شامل ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور وہاں موجود سارے صحابہ نے اپنے ہاتھ کنکریوں سے پونچھے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں کھانا پینا جائز ہے اور یہ بات اکثر احادیث میں منقول ہے خاص طور پر کھجوروں اور اس طرح کی دوسری چیزوں کے بارے میں زیادہ منقولات ہیں لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ جواز اس امر کے ساتھ مقید ہے کہ اس کی وجہ سے مسجد میں گندگی وغیرہ پیدا نہ ہو ورنہ (گندگی پیدا ہونے کی صورت میں) مسجد میں کھانا پینا حرام یا مکروہ ہو گا اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے جو شخص اعتکاف کی حالت میں نہ ہو وہ مسجد میں نہ تو کھائے پئے نہ سوئے اور نہ خرید و فروخت کرے کہ یہ مکروہ ہے، ہاں اس مسافر کے لئے اجازت ہے جس کا مسجد کے علاوہ اور کوئی ٹھکانا نہ ہو۔
علماء نے لکھا ہے کہ آدمی کو چاہئے کو وہ جب مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کر لیا کرے تاکہ یہ چیزیں (مسجد میں کھانا پینا وغیرہ) اس کے لئے مباح بھی ہو جائیں اور اس کو (اعتکاف کا) ثواب بھی مل جائے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں (پکا یا بھنا ہوا) گوشت لایا گیا، اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دست کا حصہ دیا گیا کیونکہ دست کا گوشت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پسند تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دانتوں سے نوچ نوچ کے کھایا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بے تکلفی و سادگی اور تواضع کے سبب دست کی ہڈیوں سے گوشت کو دانتوں کے ذریعہ نوچ نوچ کر کھایا، چنانچہ اس طرح گوشت کھانا مستحب ہے۔ طیبی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا دست کے گوشت کو پسند کرنا اس وجہ سے تھا کہ وہ اچھی طرح گل جاتا ہے جلد ہضم ہوتا ہے اور زیادہ لذیذ ہوتا ہے یا اس پسندیدگی کی وجہ یہ تھی کہ دست کا گوشت نجاست کی جگہوں (جیسے آنت وغیرہ) سے دور ہوتا ہے۔شمائل ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت منقول ہے کہ دست کا گوشت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو زیادہ پسند نہیں تھا لیکن چونکہ آپ کو گوشت مدت کے بعد (کبھی کبھی) میسر آتا تھا اور دست کا گوشت جلدی گل جاتا ہے اس لئے آپ دست کے گوشت کو پسند فرماتے تھے۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مزیدار اور زیادہ پسند آنے والا گوشت، پشت کا گوشت ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ گوشت کو چھری سے نہ کاٹو یعنی چھری سے کاٹ کاٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے بلکہ گوشت کو دانتوں سے نوچ نوچ کر کھاؤ کیوں کہ دانتوں سے نوچ کر کھانا زیادہ لذت بخش اور زیادہ خوش گوار ہے۔
اس روایت کو ابوداؤد نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور دونوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث (باعتبار سند کے) قوی نہیں ہے۔ (بلکہ ضعیف ہے۔)
تشریح
عرب کے لوگ اپنے علاوہ دنیا کے اور سارے ہی لوگوں کو عجمی (گونگا) کہا کرتے تھے لیکن یہاں اہل فارس (ایرانی) مراد ہیں کہ وہ از راہ تکبر و غرور گوشت وغیرہ چھریوں سے کاٹ کر کھاتے تھے، مگر بعض مواقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھری سے کاٹ کر کھایا ہے لہٰذا ان دونوں روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے گی کہ اگر گوشت نرم اور گلا ہوا ہو تو اس کو چھری کے بجائے دانتوں سے کاٹ کر کھانا چاہئے اور اگر سخت ہو تو پھر چھری سے کاٹ کر کھانا جائز ہو گا واضح رہے کہ مذکورہ بالا ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔
اور حضرت ام منذر انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم میرے یہاں تشریف لائے، آپ کے ہمراہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے (اس وقت) ہمارے گھر میں کھجوروں کے خوشے لٹکے ہوئے تھے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان خوشوں میں سے کھانا شروع کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی کھانے لگے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ علی ! ان کھجوروں کو کھانے سے اجتناب کرو کیونکہ تمہیں کمزوری لاحق ہے یعنی تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو اور تم پر ضعف کا اثر غالب ہے اس لئے تمہارے لئے پرہیز ضروری ہے۔
حضرت ام منذر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے رفقاء کے لئے چقندر اور جو تیار کئے تھے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ علی ! تم اس میں سے کھاؤ اس لئے کہ یہ تمہارے لئے بہت مفید اور موافق ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیمار اور بیماری سے اٹھے ہوئے شخص کے لئے پرہیز بہت ضروری ہے بلکہ بعض اطباء نے کہا ہے کہ جو شخص بیماری سے اٹھا ہو اور اس پر ضعف و کمزوری کا غلبہ ہو اس کے لئے پرہیز بہت ہی فائدہ مند ہوتا ہے،جب کہ تندرست کے لئے پرہیز کرنا مضر ہوتا ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کھرچن یعنی تہ دیگی اچھی لگتی تھی۔ (ترمذی بیہقی)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضرورت پر مقدم رکھتے تھے چنانچہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اوپر کا کھانا اپنے اہل و عیال، مہمانوں اور محتاج و فقراء کو بانٹ دیتے تھے اور نیچے کا جو کھانا بچتا اس کو اپنے لئے رکھتے، یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جذبہ ایثار و سخاوت کا غماز بھی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصف تواضع و انکسار اور صبر و قناعت کا مظہر بھی ! نیز یہ بات ان مالداروں کے لئے ایک واضح دلیل بھی ہے جو عام طور پر از راہ تکبر و نخوت نیچے کے کھانے کو عار سمجھتے ہیں اور اس کو ضائع کر دیتے ہیں۔
اور حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی پیالے (یا تشتری) میں کھائے اور پھر اس کو انگلیوں سے) چاٹ لے تو وہ پیالہ اس کے لئے استغفار کرتا ہے (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
ظاہر بات یہ ہے کہ پیالہ حقیقت میں استغفار کرتا ہے ! علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ تشتری پیالے کو چاٹنا اصل میں تواضع کو اختیار کرنا اور تکبر سے بری ہونا ہے اور یہ چیز گناہوں سے مغفرت و بخشش کا سبب ہے اور پیالہ کی طرف استغفار کی نسبت اس اعتبار سے ہے کہ بظاہر اس مغفرت و بخشش کا سبب پیالہ ہی ہوتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص اس حالت میں رات گزارے کہ اس کے ہاتھ میں چکنائی لگی ہوئی ہو کہ (کھانے کے بعد) اس نے اس کو دھویا نہ ہو اور پھر اس کو کوئی ضرر پہنچ جائے (یعنی ایذاء پہنچانے والے جو جانور کھانے کی بو یا چکنائی پر آتے ہیں وہ اس کو ضرر پہنچائیں) تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے (کیونکہ چکنے ہاتھوں کے ساتھ سو کر وہ اس ضرر کا خود سبب بنا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک روٹی کا ثرید اور حیس کا ثرید سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
روٹی کا ثرید یعنی روٹی کے ٹکرے شوربے میں بھیگے ہوئے۔ اور حیس کا ثرید اس کھانے کو کہتے ہیں۔ جو چھوہارے گھی اور قردت (یعنی دہی کے بنے ہوئے پنیر) کو ملا کر مالیدہ کی طرح بنایا جائے۔
اور حضرت ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زیت یعنی روغن زیتون کو کھایا اور بدن پر اس کی مالش کیا کرو کیونکہ وہ ایک بابرکت درخت (زیتون) کا تیل ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی،)
تشریح
زیتون بابرکت درخت اس اعتبار سے ہے کہ اس میں بہت زیادہ خیر و برکت اور منافع ہیں چنانچہ قرآن کریم کی اس آیت (اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) 24۔ النور:35) میں جس درخت کو شجرہ مبارک کہا گیا ہے اس سے زیتون ہی کا درخت مراد ہے جس کی سب سے عمدہ قسم ملک شام میں پیدا ہوتی ہے نیز سورہ والتین والزیتون میں اللہ تعالیٰ نے اس درخت کی قسم کھائی ہے۔عرب کے لوگ خصوصاً اہل شام اس درخت کے میٹھے تیل کو کھانے کے مصرف میں لاتے ہیں اور اس کے کڑوے تیل کو چراغ وغیرہ میں جلانے کے کام میں لاتے ہیں۔ طبی طور پر یہ ثابت ہے کہ جسم پر زیتون کے تیل کی مالش کرنے سے جسم کو بہت زیادہ فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا (جو ابوطالب کی بیٹی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ تھیں) کہتی ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے پوچھا کہ (کھانے کے لئے) تمہارے پاس کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا کہ سوکھی روٹی اور سرکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ وہی لے آؤ وہ گھر سالن سے خالی نہیں جس میں سرکہ ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انتہائی بے تکلفی کے ساتھ جو مذکورہ کھانا طلب فرمایا اس کا سبب یہ تھا کہ ام ہانی کا دل بھی خوش ہو جائے اور ان پر یہ بھی واضح ہو جائے کہ گھر میں موجود جو بھی کم سے کم غذائی ضرورت کر دے اس پر قناعت کرنا چاہئے۔
اور حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر کھجور رکھ کر فرمایا کہ یہ اس روٹی کے ٹکڑے کا سالن ہے۔ (ابوداؤد)
اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں بہت سخت بیمار ہوا (تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عیادت کی غرض سے میرے پاس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس وقت) میری دونوں چھاتیوں کے درمیان (یعنی سینہ پر) اپنا دست مبارک رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے دل پر محسوس کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص ہو جو دل کے درد میں مبتلا ہے (یعنی تم قلب کے مریض ہو) لہٰذا تم حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ جو قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ وہ شخص طب (علاج معالجہ کرنا) جانتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ مدینہ کی (سب سے اعلیٰ قسم کی کھجور) عجوہ میں سے سات کھجوریں لے۔ پھر ان کو گٹھلیوں سمیت کوٹ لے اور اس کے بعد ان کو (دوا کی صورت میں تمہارے منہ میں ڈالے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اگر یہ سوال پیدا ہو کہ اس کا کیا سبب تھا کہ آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کو پہلے تو ایک معالج کے پاس جانے کا حکم دیا اور پھر خود ہی علاج بھی تجویز کیا لیکن دوا بنانے کا کام معالج کے سپرد کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو آپ نے سعد کو معالج کے پاس جانے کا مشورہ دیا تاکہ وہ ان کو دیکھ کر ان کا علاج کرے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا ایک آسان علاج یاد آ گیا جو جلد فائدہ کرنے والا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے از راہ شفقت و تعلق اس کو تجویز کیا۔گویا ان کو معالج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ مبادا ان کو دور دراز کے علاج میں ڈال دے اور چونکہ اس دوا کا بنانا اور اس کو استعمال کرانا معالج کے لئے زیادہ آسان تھا اس لئے اس کام کو اس کے سپرد فرمایا۔
علماء نے لکھا ہے یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ غیر مسلم معالج سے رجوع و مشورہ کرنا جائز ہے کیوں کہ حارث بن کلدہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مراد ہے اس کا اسلام قبول کرنا ثابت نہیں ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خرپزہ، تازہ کھجوروں کے ساتھ کھاتے تھے۔ (ترمذی) اور ابوداؤد نے اس روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور آپ یہ فرماتے تھے کہ اس (کھجور) کی گرمی اس (خرپزے) کی سردی سے توڑی جاتی ہے اور خرپزے کی سردی کھجور کی گرمی سے توڑی جاتی ہے۔ نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
مذکورہ بالا دونوں چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر کھانے میں بڑی حکمت یہ ہے کہ ایک سرد دوسری گرم ہے۔ دونوں ملا کر معتدل غذا ہو جاتی ہے ! طیبی نے کہا ہے خرپزے سے مراد شاید کچا خرپزہ ہو گا کیونکہ وہ سرد تر ہوتا ہے ورنہ پکا خرپزہ گرم ہوتا ہے لیکن کھجور کی بہ نسبت وہ بھی سرد ہوتا ہے۔ اکثر علماء نے یہ لکھا ہے کہ بطیخ سے مراد خرپزہ نہیں ہے بلکہ تربوز ہے کہ وہ سرد ہوتا ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پرانی کھجور لائی گئی (جس میں کیڑے پڑ گئے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو چیرتے اور اس میں سے کیڑا نکال (کر پھینک) دیتے۔ (ابوداؤد)
تشریح
طبرانی نے بسند حسن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع یہ نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کو چیرنے سے منع فرمایا ہے ! اس صورت میں چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل اور قول میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق نئی کھجوروں سے ہے اور اس کا مقصد وہم و وسوسہ سے بچانا ہے۔ یا یہ کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو فعل منقول ہے وہ بیان جواز پر محمول ہے اور مذکورہ بالا ممانعت نہیں تنزیہی کے طور پر ہے۔
طیبی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کھانے میں کیڑا پڑ جائے تو وہ کھانا نجس نہیں ہوتا اور مطالب المؤمنین، میں یہ لکھا ہے کہ اگر کیڑا پنیر یا سیب میں پڑ جائے (اور کھاتے وقت پیٹ میں چلا جائے) تو وہ حلال ہو گا کیونکہ اس سے احتراز ممکن نہیں، ہاں اگر ان چیزوں سے نکال دیا گیا ہو تو پھر اس کا حکم مکھی، بھڑ، پسہ اور ہر اس جانور کا سا ہو گا جو دم مسفوح (جاری خون) نہیں رکھتا کہ اس کا کھانا حرام ہو گا لیکن اگر وہ پانی یا کھانے میں پڑ جائے تو وہ ناپاک نہیں ہو گا۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دوران (ایک موقعہ پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پنیر کا ایک ٹکڑا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھری منگوائی اور بسم اللہ کہہ کر اس کو کاٹا۔ (ابوداؤد)
تشریح
یہ بسم اللہ کہنا کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے کی جگہ تھا نہ کہ وہ بسم اللہ جو ذبح کرتے وقت پڑھی جاتی ہے جیسا کہ بعض جاہل لوگ کدو کو کاٹتے وقت ذبح کی نیت سے بسم اللہ کہتے ہیں۔ مظہر نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ چستہ یعنی اونٹ یا بکری کے بچہ کا اوجھ پاک ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ ناپاک ہوتا تو پنیر کو بھی ناپاک ہونا چاہئے تھا اس لئے کہ پنیر اس کے بغیر نہیں بنتا تھا۔
اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے گھی پنیر اور پوستین یا گورخر کے بارے میں پوچھا گیا (کہ یہ چیزیں حلال ہیں یا حرام ہیں ؟) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (حلت و حرمت کے سلسلے میں یہ اصول مد نظر رکھو کہ) حلال وہی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے (یعنی جس کا حلال ہونا قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے) اور حرام وہی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس چیز سے سکوت فرمایا (یعنی جس کو نہ حلال فرمایا نہ حرام) وہ اس قسم سے ہے جس کو معاف رکھا گیا ہے (یعنی اس کے استعمال کرنے کو مباح رکھا ہے) اس روایت کو ابن ماجہ اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور (ترمذی نے) کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے لیکن زیادہ صحیح یہ بات ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے۔
تشریح
گھی کے بارے میں تو اس لئے پوچھا گیا کہ بظاہر ابتداء اسلام میں بعض لوگوں کو اس کے حلال ہونے میں شبہ ہوا ہو گا۔ پنیر کا معاملہ بذات خود محل اشتباہ و سوال تھا کیونکہ اس زمانہ میں وہ چستہ (یعنی اونٹ یا بکری کے اوجھ) کے ذریعہ بنتا تھا تیسری چیز جس کے بارے میں سوال کیا گیا فراء تھی۔ اس لفظ فراء کے بارے میں اکثر شارحین نے کہا ہے کہ یہ فرئی کی جمع ہے جس کے معنی گورخر کے ہیں۔ اور بعضوں نے اس کو فرو کی جمع کہا ہے جس کے معنی پوستین (جانور کی کھال کے کوٹ) کے ہیں۔ اسی لئے ترمذی نے اس روایت کو باب اللباس میں نقل کیا ہے، اس صورت میں کہا جائے گا کہ فراء کے بارے میں سوال کفار کے عمل سے اجتناب کرنے کے جذبہ سے کیا گیا تھا، کیونکہ وہ (کفار) مردار کی کھال کو دباغت دئیے بغیر اس کی پوستین بنایا کرتے تھے۔
اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ چیزیں حرام ہیں جن کے حرام ہونے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے یا اس آیت کریمہ آیت (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59۔ الحشر:57) کے ذریعہ بطریق اجمال بیان کیا ہے یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے تاکہ ان اکثر چیزوں کے بارے میں اشکال پیدا نہ ہو جو حرام ہیں مگر ان کی حرمت کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کا حرام ہونا احادیث نبوی کے ذریعہ ثابت ہے۔ حدیث کا آخری جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں لہٰذا جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار نہیں دیا ہے وہ مباح ہوں گی۔
یہ حدیث موقوف ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرت سلمان کا اپنا قول ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔چنانچہ فن حدیث کی اصطلاح میں صحابہ کے قول و فعل کو موقوف کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قول و فعل کو مرفوع کہتے ہیں۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (مجلس میں) فرمایا کہ میں پسند کرتا ہوں کہ میرے سامنے سفید گجر گیہوں کی روٹی ہو جس کو گھی اور دودھ میں تر کیا گیا ہو۔ (یہ سن کر) جماعت میں سے ایک شخص اٹھ کر چلا گیا اور مذکورہ روٹی تیار کر کے لایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ اس روٹی کو جو گھی لگا ہوا ہے وہ کس برتن میں تھا ؟ اس نے کہا کہ گوہ کی کھال کے کپے میں تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (میں نہیں کھاؤں گا) اس کو میرے سامنے سے اٹھا لو (ابوداؤد، ابن ماجہ،) اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس روٹی کو اپنے سامنے سے اٹھانے کا حکم اس بنا پر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گوہ سے طبعی نفرت رکھتے تھے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم کے علاقے میں نہیں پائی جاتی تھی جیسا کہ پچھلے صفحات میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے متعلق گزر چکی ہے نہ کہ اس کے اٹھانے کا حکم اس سبب سے تھا کہ گواہ کی کھال نجس ہوتی ہے کیونکہ اگر گوہ کی کھال نجس ہوتی تو اس کھال کے کپے میں رکھے ہوئے گھی سے تر کی ہوئی روٹی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پھینک دینے کا حکم دیتے اور دوسروں کو بھی اس کے کھانے سے منع فرما دیتے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ روٹی کو طلب کرنا اور خواہش نفس کے مطابق اس طرح کی تمنا کا اظہار کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج کے بالکل خلاف معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے ابوداؤد نے اس روایت کو منکر کہا ہے اور اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس صورت میں یہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی خواہش کا اظہار محض بیان جواز کی خاطر کیا۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لہسن کھانے سے منع فرمایا الاّ یہ کہ وہ پکا ہوا ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
پکے ہوئے لہسن کو کھانے سے اس لئے منع نہیں فرمایا گیا ہے کہ پکنے سے اس کی بو جاتی رہتی ہے۔ یہی حکم پیاز اور اس طرح کی دوسری چیزوں کا بھی ہے لیکن واضح رہے کہ مذکورہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔
اور حضرت ابو زیاد کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے (پکی ہوئی) پیاز کے بارے میں پوچھا گیا (کہ وہ حرام ہے یا حلال ؟) تو انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنی زندگی میں) جو سب سے آخری کھانا کھایا تھا اس میں (پکی ہوئی) پیاز تھی۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس مسئلہ میں تفصیل یہ ہے کہ روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پیاز و لہسن نہیں کھایا بلکہ بعض روایت میں یہ ہے کہ امت کو بھی اس سے منع فرمایا ہے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیاز کھائی ہے لہٰذا بعض حضرات کہتے ہیں کہ پیاز و لہسن کھانے کی جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق کچی پیاز اور لہسن سے ہے نہ کہ اس لہسن و پیاز سے جو کھانے میں پکا ہوا ہو۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کچے کے بارے میں ممانعت بھی محض نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔ بطور تحریمی کے نہیں ہے چنانچہ یہ چیزیں نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر حرام تھیں اور نہ امت پر حرام ہیں بلکہ طحاوی نے شرح آثار میں ایسی احادیث نقل کی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیاز و لہسن اور گندنا وغیرہ کھانا مباح ہے خواہ وہ کچے ہوں یا کھانے کے ساتھ پکے ہوئے ہوں، لیکن یہ اباحت اس شخص کے لئے ہے جو ان کو کھانے کے بعد گھر میں بیٹھا رہے اور ان کی بو آنے تک مسجد میں نہ جائے کیونکہ ان چیزوں کو کھا کر مسجد میں جانا مکروہ ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کا قول بھی یہی ہے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی کا تعلق ہے کہ آپ کا اپنی زندگی کے آخر میں ایسے کھانے کو کھانا جس میں پیاز تھی بیان جواز کی خاطر تھا اور یہ واضح کرنا تھا کہ ان چیزوں کے کھانے کی ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے نہ کہ بطور تحریمی۔
اور بسر کے دونوں بیٹوں (یعنی حضرت عبداللہ اور حضرت عطیہ) سے جو اسلمی (اور صحابی) ہیں روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا (ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے گھر تشریف لائے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے مسکہ (مکھن ) اور کھجوریں پیش کیں (جن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھایا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مسکہ اور کھجور کو پسند فرماتے تھے۔ (ابو داؤد)
اور حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر) ہمارے سامنے ایک بڑا پیالہ لایا گیا جس میں بہت سا ثرید (شوربے میں بھیگے ہوئے روٹی کے ٹکڑے) اور (گوشت کی) بوٹیاں تھیں، (کھانے کے دوران) میں اپنا ہاتھ پیالے کے ہر طرف دوڑانے لگا۔ (یعنی اپنے) سامنے سے لقمہ اٹھانے کے بجائے ہر طرف ہاتھ ڈالنے لگا) جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آگے سے کھا رہے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا داہنا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا کہ عکراش۔ ایک جگہ سے (یعنی اپنے آگے سے) کھاؤ کیونکہ یہ ایک (ہی طرح کا کھانا ہے۔ پھر ہمارے آگے ایک طباق لایا گیا جس میں قسم قسم کی کھجوریں تھیں، میں نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے مطابق) اپنے سامنے سے (کھجوریں اٹھا اٹھا کر) کھانا شروع کیا لیکن (اب) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ طباق میں (ہر طرف) گردش کرنے لگا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی طبعی پسند کے مطابق طباق کے ہر کنارے سے کھجوریں اٹھا اٹھا کر کھانے لگے اور اسکا مقصد لوگوں پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو کھجوریں ہر طرف سے اٹھا کر کھا سکتے ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محض اپنے اس فعل کے ذریعہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ قول کے ذریعہ بھی تعلیم دی کہ) پھر فرمایا،عکراش، ! جس طرف سے چاہو کھاؤ کیونکہ یہ کھجوریں ایک (ہی) قسم کی نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہمارے پاس پانی لایا گیا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور اپنے ہاتھوں کی تری اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھوں پر اور سر پر مل لی اور فرمایا عکراش! یہ اس کھانے کے بعد کا وضو ہے جس کو آگ نے متغیر کیا ہے (یعنی یہ ہاتھ اور منہ دھونا کہ جس کو وضو طعام کہا جاتا ہے اس کھانے کی وجہ سے ہے جس کو آگ پر پکایا گیا ہے۔ (ترمذی)
تشریح
ایک طرح کا کھانا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جب پورے پیالے میں یکساں قسم کا کھانا ہے اور اس کی ہر طرف ایک ہی طرح کی چیز ہے تو پھر پیالے کی ساری اطراف میں ہاتھ پکانا طمع و حرص کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے یعنی اگر کھانا کئی طرح کا ہوتا یا ایک ہی ہوتا لیکن پیالے کے ہر حصے میں الگ الگ رنگ ہوتا تو اپنی طبیعت کے میلان کی بناء پر ہر طرف سے کھانا مناسب معلوم ہوتا مگر جب کہ کھانا ایک ہی طرح کا ہے اور یکساں رنگ کا ہے تو پھر ہر طرف ہاتھ دوڑانا معیوب و مکروہ ہے ! جس طرف سے چاہو کھاؤ میں بظاہر درمیان کی جگہ مستثنیٰ ہے کیونکہ برکت نازل ہونے کی وہی جگہ ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ درمیان کی جگہ سے نہ کھایا جانا اس کھانے کے ساتھ مخصوص ہو جو ایک رنگ کا ہو اور چونکہ یہاں (کھجور کھانے کی صورت میں) ایک رنگت نہیں تھی اس لئے درمیان میں سے بھی کھجور اٹھا کر کھانے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا گیا ہو ! ابن ملک کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ اگر کھانے کی چیز از قسم میوہ و پھل ہو اور وہ ایک ہی طرح اور ایک ہی رنگ کی ہو تو اس صورت میں برتن کے ہر طرف ہاتھ نہ لپکانا چاہئے۔ جیسا کہ طعام کا حکم ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایک برتن میں کھانا مختلف رنگت کا ہو تو صرف اپنے سامنے سے کھانے کی قید نہیں ہو گی بلکہ جس طرف سے جی چاہے کھایا جا سکتا ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر والوں کو بخار آ جاتا تو آپ حساء تیار کرنے کا حکم دیتے چنانچہ وہ تیار کیا جاتا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مریضوں کو اس حساء کے پینے کا حکم دیتے جس کو وہ (مریض) پیتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ درحقیقت حساء غمزدہ دل کو طاقت پہنچاتا ہے اور بیمار کے دل سے رنج و کلفت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح (عورتوں) میں سے کوئی اپنے منہ کے میل کو پانی سے صاف کر ڈالتی ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح
حساء کھانے کی قسم سے ایک رقیق چیز ہوتی ہے جو آٹا، پانی اور گھی کو ملا کر پکائی جاتی ہے کبھی اس میں شکر بھی ملا دی جاتی ہے مکہ کے لوگ اس کو حریرہ بھی کہتے تھے اور تبینہ بھی،جس کا ذکر فصل اول کی ایک حدیث میں گزر چکا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس ارشاد میں حریرے کے فائدے کو ظاہر کرنے کے لئے اپنا روئے سخن عورتوں کی طرف اس لئے منعطف کیا کہ اصل میں عورتیں اپنے جسم کا میل دھونے اور اپنے چہرے کو صاف رکھنے کی زیادہ سے زیادہ سعی کرتی ہیں یا یہ کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا اس وقت عورتیں موجود تھیں اس لئے انہی کو خطاب کیا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ عجوہ (جو کھجور کی سب سے اچھی قسم ہے) جنت کی (کھجور) ہے اور اس میں زہر کی شفاء ہے اور کھنبی من (کی قسم) سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔ (ترمذی)
تشریح
عجوہ جنت کی کھجور ہے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ عجوہ کی اصل جنت سے آتی ہے یا یہ کہ جنت میں جو کھجور ہو گی وہ عجوہ ہے اور یا یہ کہ عجوہ ایسی سود مند اور راحت بخش کھجور ہے گویا وہ جنت کا میوہ ہے، زیادہ صحیح مطلب پہلا ہی ہے حدیث کے باقی حصے کی وضاحت پہلی فصل میں گزر چکی ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کسی شخص کے ہاں مہمان ہوا۔ اس شخص نے (ہمارے لئے) ایک بکری ذبح کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس (بکری) کا ایک پہلو بھوننے کا حکم دیا، جب وہ پہلو بھون دیا گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چھری لی۔ پھر اس کے ذریعہ اس پہلو میں سے میرے لئے (بوٹیاں کاٹنے لگے، اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کی اطلاع دینے کے لئے آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھری کو ڈال دیا اور (بطریق تعجب) فرمایا کہ بلال کو کیا ہوا ؟ (کہ ایسے وقت بلانے آ گیا) اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (اس وقت) اس کی لبیں (یعنی مونچھیں) بڑھی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ۔ میں تمہارے لئے (تمہاری) لبیں مسواک پر کتر دوں، یا یہ فرمایا کہ۔ لبیں مسواک پر) کتر ڈالو۔ (ترمذی)
تشریح
اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔ یہ اصل میں ذلت و خواری اور فقر و افلاس سے کنایہ ہے اور ایک طرح بد دعا کے مترادف ہے اس جملہ کا استعمال عام طور پر اہل عرب کے ہاں اس شخص کے لئے کیا جاتا ہے جس کو ملامت کرنا مقصود ہوتا ہے اور حقیقت میں اس بددعا کے واقع ہو جانے کی طلب و خواہش نہیں ہوتی بلکہ روز مرہ کے محاورے کے طور پر اس جملہ کو بولتے ہیں اس سے مراد محض سرزنش و ملامت ہوتی ہے چنانچہ اس موقعہ پر بھی گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ناگوار گزرا کہ جب نماز کا ابھی کافی وقت باقی ہے تو بلال نے کھانے کی مشغولیت کے دوران نماز کے لئے کیوں اٹھانا چاہا اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جملہ کا استعمال میزبان کی کیفیات و حالات کو دیکھتے ہوئے فرمایا ہو کہ اس وقت یقیناً میزبان کو بڑی ذہنی اذیت و کوفت ہوئی ہو گی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے یا ان کی دلجوئی کے لئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر اس جملہ کے ذریعہ اظہار ناگواری فرمایا۔
اس کی لبیں بڑھی ہوئی تھیں شارحین نے اس جملہ کی وضاحت کئی طرح کی ہے، ایک یہ کہ شاربہ کی ضمیر حدیث کے راوی حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں اگرچہ ظاہری اسلوب کا تقاضا یہ تھا کہ یوں کہا جاتا وکان شاربی (اور میری لبیں بڑھی ہوئی تھیں) یعنی ضمیر متکلم کا استعمال ہوتا لیکن اس کے بجائے و شاربہ کہہ کر غائب کی ضمیر استعمال کی اس کی وجہ محض تفنن کلام ہے جس کو اہل معانی کی اصطلاح میں تجرید و التفات کہا جاتا ہے، لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میری لبیں بڑھی ہوئی تھیں، نیز مسواک پر کترنے کا مطلب یہ تھا کہ لبوں کے نیچے مسواک رکھ کر لبوں کو چھری سے کاٹ ڈالوں۔
اور یا یہ فرمایا۔ یہ اصل میں راوی کا اپنے شک کو ظاہر کرنا ہے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلا جملہ ارشاد فرمایا کہ لبیں مسواک پر رکھ کاٹ ڈالو یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ میں تمہاری لبیں کاٹوں بلکہ انہیں (حضرت مغیرہ) کو حکم فرمایا کہ خود اپنی لبیں کاٹ ڈالیں۔ شارحین نے دوسری وضاحت یہ بیان کی ہے کہ شاربہ کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف راجع کی جائے یعنی حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی لبیں بڑھی ہوئی تھیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنی لبوں کو تمہارے لئے کتروں گا کہ وہ بال مجھ سے جدا ہو کر تمہارے پاس رہیں اور تم ان سے برکت حاصل کرو، یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم میری لبوں کے بال کتر دو۔
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کسی کھانے پر ہوتے تو ہم اس وقت تک کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم شر وع نہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتے (تو اس کے بعد ہم اپنا ہاتھ بڑھاتے) چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کھانے پر بیٹھے، اتنے میں ایک لڑکی (کھانے پر) اس طرح آئی گویا وہ ڈھکیل دی گئی ہے (یعنی وہ بھوک کی شدت سے بے اختیار ہو کر کھانے پر اس طرح ٹوٹی جیسے اس کو کسی نے پیچھے سے دستر خوان پر ڈھکیل دیا ہو) پھر اس نے (جوں ہی) یہ چاہا کہ (بسم اللہ کہے بغیر) کھانے پر ہاتھ ڈالے، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا پھر ایک دیہاتی (بھی اسی) طرح بیتابی کے ساتھ) آیا کہ گویا اس کو (کھانے پر) ڈھکیل دیا گیا ہے (اور اس نے بھی بسم اللہ کہے بغیر کھانے پر ہاتھ ڈالنا چاہا کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا ہاتھ (بھی) پکڑ لیا۔ اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ شیطان اس کھانے کو اپنے لئے حلال کرتا ہے (اور اس کے کھانے پر قادر ہوتا ہے) جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا جاتا چنانچہ شیطان اس لڑکی کو لے کر آیا تاکہ اس (کے بسم اللہ نہ پڑھنے کے) سبب اس کھانے کو اپنے لئے حلال کرے لیکن میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر شیطان اس دیہاتی کو لایا تاکہ اس کے ذریعہ کھانے کو اپنے لئے حلال کرے مگر میں نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، بلاشبہ (اس وقت) شیطان کا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔ ایک روایت میں (حذیفہ یا مسلم نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کا نام لیا (یعنی بسم اللہ پڑھی) کھانا کھایا۔ (مسلم)
تشریح
ایک روایت میں مع یدھا (اس لڑکی کے ہاتھ کے ساتھ) بجائے مع یدیھما (اس لڑکی اور اس اعرابی کے ہاتھ کے ساتھ) کے الفاظ نقل کئے گئے ہیں اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے تاہم جس روایت میں لفظ یدھا ہے وہ گویا اس لڑکی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اس اعرابی کا ہاتھ بھی آپ کے ہاتھ میں ہو کیوں کہ پہلے آپ نے یہ فرمایا تھا کہ میں نے اس اعرابی کا ہاتھ بھی پکڑ لیا البتہ چونکہ پہلے لڑکی ہی کا ہاتھ پکڑا تھا اس لئے خاص طور پر محض اس کا ذکر کیا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک غلام کو خریدنے کا ارادہ فرمایا تو (آزمائش کے طور پر) اس کے آگے کھجوریں رکھ دیں، چنانچہ وہ غلام (خوراک سے) بہت زیادہ کھجوریں کھا گیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر فرمایا کہ زیادہ کھانا بے برکتی کا سبب اور بے برکتی کی علامت ہے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلام کو واپس کر دینے کا حکم دیا۔ (بیہقی)
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تمہارے سالنوں میں بہترین سالن نمک ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
نمک کو بہترین سالن اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ وہ کم سے کم محنت اور بڑی آسانی کے ساتھ دستیاب ہو جاتا ہے اور قناعت کا سب سے قریبی ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اکثر عارفین اور اہل اللہ نمک ہی پر قناعت کرتے تھے، اس اعتبار سے یہ ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول کے منافی نہیں ہے کہ سید الادم فی الدنیا والاخرۃ اللحم (یعنی دنیا و آخرت میں سالنوں کا سردار گوشت ہے)۔
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب (تمہارے سامنے کھانا رکھا جائے (اور تم کھانے بیٹھو) تو اپنے جوتے اتار دو کیونکہ جوتے اتار دینا پیروں کے لئے بہت راحت بخش ہے۔
اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ جب ان کے سامنے ثرید لایا جاتا تو وہ اس کو ڈھانک دینے کا حکم دیتیں، چنانچہ اس کو ڈھانک کر رکھ دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس کے دھوئیں اور بھاپ کا جوش نکل جاتا ہے تھا (یعنی اس کی گرمی کی شدت ختم ہو جاتی تھی اس کے بعد وہ اس کو کھاتی تھیں) نیز وہ فرماتی تھیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کھانے میں سے گرمی کا نکل جانا برکت میں زیادتی کا موجب ہے۔ (ان دونوں روایتوں کو دارمی نے نقل کیا ہے۔
تشریح
ثرید کا ذکر محض اتفاقی ہے کہ اس وقت کا عام کھانا ثرید ہی ہوتا تھا اس لئے اس کا ذکر کیا ورنہ دوسرے کھانوں کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ جامع الصغیر میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ ابردوا بالطعام فان الحار لابرکۃ فیہ (کھانے کو ٹھنڈا کر کے کھاؤ کیوں کہ گرم میں برکت نہیں ہوتی) اسی طرح بیہقی نے بطریق ارسال یہ روایت نقل کی ہے کہ نہی عن الطعام الحار حتی یبرد (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گرم کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو جائے)۔
اور حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص پیالے (یا طشتری وغیرہ) میں کھائے اور پھر اس کو (انگلیوں سے) چاٹ لے تو وہ پیالہ (زبان حال سے یا زیادہ صحیح یہ ہے کہ زبان قال سے) اس شخص سے کہتا ہے کہ جس طرح تو نے شیطان کے (کھانے یا اس کے خوش ہونے) سے مجھ کو نجات دی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ تجھ کو دوزخ کی آگ سے نجات دے (رزین)
تشریح
ترمذی، احمد، ابن ماجہ، اور دارمی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ استغفرت لہ القصعۃ (وہ پیالہ اس شخص کے لئے بخشش و مغفرت طلب کرتا ہے اور طبرانی نے حضرت عرباض سے یہ نقل کیا ہے من لعق الصحفۃ ولعق صابعہ اشبعہ اللہ فی الدنیا والاخر ۃ (یعنی جس شخص نے رکابی اور اپنی انگلیوں کو چاٹا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں سیر کرے)
ضاف کے معنی ہیں مہمان ہونا۔ اضاف کے معنی ہیں مہمان داری کرنا، ضیف کے معنی ہیں مہمان اور مضیف کے معنی ہیں میزبان اس عنوان کے تحت جو احادیث نقل ہوں گی ان سے معلوم ہو گا کہ ضیافت اور مہمان داری کی فضیلت ہے ؟ شریعت کی نظر میں اس کے کیا طور طریقے اور آداب ہیں اور یہ کہ مہمان و میزبان کے درمیان حفظ مراتب اور ان دونوں سے متعلق تہذیب و شائستگی کی کیا حدود ہیں ؟
اکثر علماء کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ ضیافت (مہمان داری) کے حقوق و آداب کی رعایت، اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت بھی ہے اور مستحب بھی۔چنانچہ اکثر احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ایک دن کی مہمان داری کرنا تو واجب ہے اور ایک دن کے بعد مستحب ہے۔ ضیافت کی جو آٹھ قسمیں علماء نے بیان کی ہیں ان کی تفصیل باب الولیمہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے، جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ بھلی بات کہے یا چپ رہے۔ (بخاری کی) ایک روایت میں (یعنی پڑوسی کا ذکر کرنے) کے بجائے یہ ہے کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے ناتے کو باقی رکھے، یعنی اپنے ناتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ کرے۔ (بخاری، و مسلم)
تشریح
جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے الخ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایمان کا پایا جانا مذکورہ باتوں پر موقوف ہے اور یہ کہ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے مہمان کی خاطر نہیں کرتا یا اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ مؤمن نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اصل مقصد ان چیزوں کی اہمیت کو بیان کرنا اور ان پر عمل کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرنا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کو اطاعت و فرماں برداری کی راہ پر لگانے کے لئے یوں کہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو اطاعت و فرماں برداری کر ظاہر ہے کہ وہ اطاعت و فرماں برداری نہ کرے تو اس سے ثابت نہیں ہو گا کہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے۔
یا یہ مراد ہے کہ جس شخص کا ایمان درجہ کمال کا ہو گا (یعنی جو مسلمان کامل الایمان ہو گا) اس کی شان یہی ہو گی کہ وہ ان باتوں پر عمل کرے گا گویا ان چیزوں کو اختیار کرنا کمال ایمان کی علامت ہے۔
اکرام ضیف یعنی مہمان کی خاطر کرنا شرعی طور پر یہ ہے کہ جب کوئی مہمان آئے تو اس کے ساتھ کشادہ پیشانی، خوش خلقی اور ہنس مکھ چہرے کے ساتھ پیش آئے، اس کے خوش گفتاری، نرم گوئی اور ملاطفت کے ساتھ بات چیت کرے، اور اس کو تین دن تک اس طرح کھلائے پلائے کے پہلے دن تو اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق کچھ پر تکلف میزبانی کرے بشرطیکہ اس کی وجہ سے اپنے متعلقین و لواحقین کی حق تلفی نہ ہو اور پھر تین دن کے بعد (بھی اگر مہمان ٹھہرا رہے تو) اس کو کھلانا پلانا صدقہ کے حکم میں ہو گا کہ میزبان چاہے تو کھلائے اولا چاہے کھلائے پلائے اور چاہے کھلانے پلانے سے انکار کر دے۔
اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے یعنی یہ پڑوسی کا سب سے کم درجہ ہے کہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے، ورنہ تو جہاں تک حقوق ہمسائیگی کا تعلق ہے وہ بہت ہمہ گیری نوعیت کے ہیں چنانچہ بخاری و مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ فلیکرم جارہ (تو اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ تکریم کا معاملہ کرے) اور بخاری و مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ فلیحسن الی جارہ یعنی اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی اس چیز میں مدد کرے جس کا وہ اس سے حاجت مند ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرے۔ اسی طرح امام غزالی نے اربعین میں یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ۔ تم جانتے بھی ہو پڑوسی کا کیا حق ہے ؟ اگر وہ (پڑوسی) تم سے مدد چاہے تو تم اس کی مدد کرو، اور اگر وہ تم سے قرض مانگے تو تو اس کو قرض دو، اگر وہ اس کو کوئی خوشی حاصل ہو تو اس کو مبارک باد دو، اور وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اور اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اگر وہ محتاج و مفلس ہو تو اس کو کچھ دو، اگر اس کو کوئی خوشی حاصل ہو تو اس کو مبارک باد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کو تسلی دو، مثلاً اس کے ہاں کوئی موت ہو جائے تو اس کے گھر جا کر تعزیت کرو، اس کے مکان کے پاس اونچا مکان نہ بناؤ، کہ اس کی ہوا وغیرہ رک جائے، اگر تم پھل وغیرہ خریدو تو تحفہ کے طور پر اس کے یہاں بھی بھجوا دو اور یہ ممکن نہ ہو سکے تو پھر تم اس (پھل وغیرہ) کو گھر میں پوشیدہ طور پر لے آؤ اور اپنے بچوں کو بھی تاکید کر دو کہ وہ اس (پھل وغیرہ کو لے کر گھر سے باہر نہ نکلیں تاکہ تمہارے پڑوسی کے بچے (تمہارے بچوں کو پھل وغیرہ کھاتا دیکھ کر اپنی محرومی کی بنا پر) رنج و افسوس نہ کریں، اور تم اپنی ہانڈی (چولھے) کے دھوئیں سے اس کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور یہ کہ اس ہانڈی میں سے کچھ اس کے ہاں بھی بھجواؤ۔ اور کیا تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اپنے پڑوسی کا حق وہی شخص پہچانتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔
بھلی بات کہے یا چپ رہے کا مطلب یہ ہے کہ جب زبان سے کوئی بات نکالنے کا ارادہ کرے اور یہ معلوم ہو کہ وہ بات خیر و بھلائی کی ہے کہ جس پر ثواب ملتا ہے خواہ وہ واجب ہو یا مستحب، تب اس کو زبان سے نہ نکالے، حاصل یہ کہ بھلائی اس میں ہے کہ زبان کو حتی الامکان خاموش رکھا جائے، اگر بولنا ضروری ہی ہو تو زبان سے وہی بات نکالی جائے جو خیر و بھلائی کی حامل ہو، نہ صرف یہ کہ حرام و مکروہ باتوں میں زبان کو مشغول رکھنا ممنوع ہے بلکہ مباح باتوں سے بھی زبان کو بچانا دانشمندی کا تقاضا ہے کہ مبادا مباح باتیں ہی زبان کو حرام باتوں تک کھینچ کر لے جائیں۔
اپنے ناتے کو باقی رکھے میں اس طرف اشارہ ہے کہ صلہ رحمی ایمان کی علامت ہے کہ جس شخص نے ناتوں کو توڑ ڈالا وہ گویا اللہ اور دن پر ایمان رکھنے والا نہیں ہے کیونکہ ناتا توڑنے پر جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے اس کی پرواہ نہ کرنا اپنے ایمان کی خود نفی کرنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
اور حضرت شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی تعظیم و خاطر داری کرے مہمان کے ساتھ تکلف و احسان کرنے کا زمانہ ایک دن و ایک رات ہے اور مہمان داری کرنے کا زمانہ تین دن ہے، اس (تین دن کے بعد جو دیا جائے گا وہ ہدیہ و خیرات ہو گا اور مہمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد اس کی استدعا کے بغیر ٹھہرے کہ وہ تنگی میں مبتلا ہو جائے)۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
نہایہ جزری میں اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ مہمان کی تین دن اس طرح مہمان داری کی جائے کہ پہلے دن اس کے کھانے پینے کی چیزوں میں جو تکلف و اہتمام ہو سکے وہ کیا جائے، اور پھر دوسرے و تیسرے دن بلا تکلف و اہتمام جو کچھ حاضر ہو اس کو مہمان کے سامنے پیش کر دے، اس کے بعد اس کو کھانے پینے کی اتنی چیزیں دے دے جن کے سہارے وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر طے کر سکے۔
حدیث میں جائزہ کا ........جو لفظ آیا ہے اس کا مفہوم یہی ہے، ویسے لغت کے اعتبار سے جائزہ کے معنی بخشش تحفہ اور انعام کے ہیں، لیکن یہاں وہ چیز مراد ہے جو ایک دن کی غذا کی ضرورت کے بقدر ہو اس کے سہارے منزل تک پہنچ جائے مہمان کو جائزہ کے بعد جو کچھ دیا جائے گا وہ ایک زائد چیز ہو گی اور صدقہ بھلائی اور احسان کے حکم میں ہو گا۔ اس وضاحت کے مطابق جائزہ یعنی مہمان کو ایک دن کے بقدر زاد راہ دینا ضیافت یعنی مہمان داری کے بعد ہو گا (جب کہ حدیث میں اس کا ذکر ضیافت سے پہلے کیا گیا ہے) نیز یہ جائزہ، مہمان داری کرنے سے ایک زائد چیز ہو گا۔
یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جائزہ تین دن مہمان داری کرنے سے زائد کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ حدیث میں اس کا ذکر اس تکلف و اہتمام اور الطاف و عنایات کی وضاحت کے طور پر ہے جو میزبان مہمان داری کے تین دنوں میں سے پہلے اپنے مہمان کے لئے کرتا ہے، چنانچہ ابوداؤد کی عبارت سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ جائزہ مہمان کی اس خاطر داری اور تواضع و مدارات کو کہا گیا ہے جو پہلے دن کی جاتی ہے اسی طرح حضرت مولانا شاہ عبد الحق محدث دہلوی بھی یہی فرماتے تھے کہ ہمارا علم بھی یہ ہے کہ جائزہ ' کے یہی معنی ہیں۔
مہمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے ......الخ سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی کے ہاں مہمان جائے اس کے لئے یہ مطلقاً مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے میزبان کے ہاں تین دن سے زائد ٹھہرے، ہاں اگر خود میزبان کی خواہش ہو اور وہ درخواست کرے تو اس کی استدعا پر تین دن سے زائد ٹھہرنے میں مضائقہ نہیں ہو گا ! اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسافر (مہمان) کسی کے یہاں ٹھہرے اور کسی عذر مثلاً بیماری وغیرہ کے سبب اس کو تین دن سے زائد قیام کرنا پڑ جائے تو وہ تین دن کے بعد اپنے پاس سے کھائے پیئے صاحب خانہ کو تنگی و کلفت میں نہ ڈالے،
اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں (جہاد یا کسی اور کام کے لئے) کہیں بھیجتے ہیں تو (ایسا بھی ہوتا ہے کہ) ہمیں ایسے لوگوں میں (بھی) قیام کرنا پڑتا ہے جو ہماری مہمان داری نہیں کرتے (ایسی صورت میں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا حکم دیتے ہیں (آیا ہم ان سے زبردستی اپنی مہمان داری کرا سکتے ہیں یا نہیں ؟) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ اگر تم (اپنے سفر کے دوران) کسی قوم کے درمیان قیام کرو، اور وہ تمہیں وہ چیز دیں جو ایک مہمان (کو دینے) کے لائق ہے تو تم اس کو قبول کرو، اور اگر وہ ایسا نہ کریں (یعنی مہمان داری کا حق ادا نہ کریں) تو تم ان سے مہمان کا وہ حق لے سکتے ہو جو ایک مہمان کے لائق ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر میزبان مہمان داری کے حقوق ادا نہ کرے تو مہمان اس سے اپنا حق زبردستی لے سکتا ہے، اس اعتبار سے یہ حدیث ان حضرات کے مسلک کی دلیل بھی ہے جو ضیافت یعنی مہمان کو کھلانا پلانا ایک واجب حق قرار دیتے ہیں لیکن جمہور علماء کا مسلک چوں کہ یہ نہیں ہے اس لئے ان کی طرف سے اس حدیث کی کئی تاویلیں کی جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ یہ حدیث اصل میں محمصہ (خالی پیٹ ہونے) اور اضطرار بھوک کی وجہ سے بیتاب و مضطر ہونے) کی صورت پر محمول ہے اور ایسی صورت میں جب کہ مہمان سخت بھوکا اور مضطر ہو اس کی ضیافت کرنا بلا شبہ میزبان پر واجب ہو گا کہ اگر وہ (میزبان) اس حق کو ادا نہ کرے تو یہ حق اس سے زبردستی لیا جا سکتا ہے، دوسرے یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا اس وقت محتاج اور فقراء کی خبر گیری کرنی واجب تھی مگر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں عام طور پر فقر و احتیاج کی جگہ وسعت و فراخی پیدا فرما دی تو یہ حکم منسوخ قرار دیا گیا، اور تیسرے یہ کہ اس ارشاد گرامی کا تعلق اہل ذمہ وہ غیر مسلم جن کا مسلمان سے جان و مال کی مصالحت کا معاہدہ ہو چکا ہو) کے یہاں قیام کرنے سے تھا جب کہ ان کے ساتھ معاہدہ کی شرط کی بنا پر مسلمانوں کی مہمان داری کرنا ان پر واجب تھا اور جو حق واجب ہو اس کو زبر دستی بھی لیا جا سکتا ہے، اور چوتھے یہ کہ یہ حدیث معاوضہ اور بدلہ کی صورت پر محمول ہے یعنی اگر کچھ لوگ (مثلاً مسافر) کسی جگہ قیام کریں، اور وہاں کے لوگ (نہ صرف یہ کہ ان کی ضیافت نہ کریں بلکہ ان کے ساتھ ایسی چیز فروخت کرنے سے انکار کریں جو ان (مہمان مسافروں) کے پاس نہیں ہے، نیز وہ اضطرار (بیتابی) کی حالت میں ہوں تو ان کے لئے جائز ہے کہ وہ (وہاں کے لوگوں سے) اس چیز کو زبردستی خرید لیں۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم دن یا رات کے وقت (کہیں جانے کے لئے گھر سے) نکلے کہ اچانک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ تم کو کس چیز نے تمہارے گھروں سے نکال دیا ہے (یعنی اس وقت چوں کہ گھر سے نکلنے کی تم لوگوں کی عادت نہیں ہے اس لئے ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی جو تمہارے گھر سے نکلنے کا باعث ہوئی ہے) ان دونوں نے عرض کیا کہ بھوک نے ہمیں گھر سے نکلنے پر مجبور کیا ہے، یعنی ہم بھوک کی شدت سے بیتاب ہو کر گھر سے نکلے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اور مجھے بھی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اسی چیز نے (گھر سے) نکالا ہے،جس چیز نے تمہیں نکالا ہے یعنی میں بھی بھوک ہی کہ وجہ سے گھر سے نکلا ہوں، اٹھو (میرے ساتھ چلو) چنانچہ وہ دونوں (بھی) اٹھے (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہوئے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک انصاری کے گھر پہنچے (جن کا نام ابوالہیثم تھا) مگر وہ اپنے گھر میں موجود نہیں تھے، ان کی بیوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا تو کہا کہ خوش آمدید ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہی لوگوں میں آئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تشریف لانا مبارک) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فلاں شخص یعنی تمہارے شوہر کہاں ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لانے گئے ہیں۔ اتنے میں وہ انصاری (یعنی صاحب خانہ بھی) آ گئے، انہوں نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں صحابہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر میں) دیکھا تو (اپنی اس خوش بختی پر پھولے نہیں سمائے اور) کہنے لگے الحمد اللہ ! خدا کا شکر ہے) بزرگ تر مہمانوں کے اعتبار سے آج کے دن مجھ سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں ہے، یعنی آج کے دن میرے مہمان دوسرے لوگوں کے مہمانوں سے زیادہ بزرگ و معزز ہیں۔ راوی (یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ انصاری (ان حضرات کو لے کر اپنے باغ میں گئے جہاں ان کے لئے ایک بچھونا بچھا کر ان کو اس پر بٹھایا اور خود کھجوروں کے درختوں کے پاس) گئے اور ان (مہمانوں) کے لئے کھجوروں کا ایک خوشہ لے کر آئے جس میں نیم پختہ، پختہ اور تر و تازہ (ہر طرح کی) کھجوریں تھیں، پھر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ اس میں سے کھائیے اس کے بعد انہوں نے چھری لی (اور ایک بکری کو ذبح کرنا چاہا) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ دودھ والی بکری ذبح کرنے سے اجتناب کرنا آخر کار انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے لئے ایک بکری ذبح کی (اور جب اس کا گوشت پک گیا تو ) سب نے اس بکری کا گوشت کھایا، اس خوشہ میں سے کھجوریں کھائیں، اور پانی پیا، اس طرح جب کھانے پینے سے پیٹ بھر گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کی بابت پوچھا جائے گا، بھوک نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا تھا، لیکن تم اپنے گھروں کو واپس (بھی) نہ ہوئے تھے کہ (خدا کی طرف سے) تمہیں یہ نعمتیں مرحمت ہو گئیں۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے کئی مسئلے ثابت ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس میزبان پر اعتماد ہو اس کے ہاں دوسرے آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے جانا درست ہے، دوسرے یہ کہ اپنے احباب سے رنج و الم اور تکلیف و پریشانی کا اظہار کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ اظہار شکوہ و شکایت، عدم رضا اور بے صبرے و جزع فزع کے طور پر نہ ہو، خاص طور پر جب کہ گھر میں کھانے پینے کو کچھ میسر نہ ہو، اور بھوک کی شدت نہ صرف یہ کہ جسمانی طور پر اذیت پہنچائے بلکہ عبادت کے کیف و نشاط میں رکاوٹ ڈالے، طاعات کے ذریعہ حاصل ہونے والی روحانی لذت سے پوری طرح محفوظ نہ ہونے دے اور قلب کو (یاد خدا اور حضوری عبادات سے پھیر کر) ادھر ادھر مشغول کر دے، تو ایسی صورت میں گھر سے نکل کر مباح اسباب و وسائل کے ذریعہ اس (بھوک) کو مٹانے کا علاج کرنا اور اس سلسلہ میں سعی و کوشش کی راہ اختیار کرنا محض جائز ہی نہیں بلکہ لازم ہو جاتا ہے۔ نیز ایسے وقت میں اپنے احباب کے پاس جانا اور اس یقین کے ہوتے ہوئے کہ وہ انکار نہیں کریں گے ان سے بے تکلف کھانے پینے کی چیز مانگنا مباح ہی نہیں ہے بلکہ آپس کی محبت و مروت میں زیادتی کا باعث بھی ہوتا ہے۔
منقول ہے کہ جب نادار صحابہ کو کھانا پینا میسر نہ آتا اور ان کو بھوک کی شدت پریشان کرتی تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور جب روئے انور صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت اور جمال با کمال پر نظر پڑتی تو ان کی بھوک وغیرہ کی ساری کلفت جاتی رہتی اور جلوہ حق کی نورانیت انہیں کھانے پینے سے بے نیاز کر دیتی تیسرے یہ کہ ضرورت کی بنا پر اجنبی عورت سے بات کرنا اور اس کی بات کو سننا جائز ہے، اسی طرح عورت کے لئے یہ جائز ہے کہ اگر اس کا شوہر گھر میں موجود نہ ہو تو وہ اپنے ہاں آنے والے مہمان کو گھر میں آنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ بشرطیکہ اول تو اس مہمان کے گھر میں آنے سے کسی بات کا کوئی خطرہ و خدشہ نہ ہو اور دوسرے یہ کہ اپنے شوہر کی رضا مندی کا یقین ہو، یعنی اس بات کا کوئی شبہ نہ ہو کہ شوہر اس مہمان کے گھر میں آنے سے کسی ناگواری یا ناراضگی کا اظہار کرے گا۔
چوتھے یہ کہ ان انصاری کا اپنے گھر میں ان معزز بزرگ ترین مہمانوں کو دیکھ کر اپنے حق میں ایک عظیم نعمت تصور کرنا اور اس پر ان کا الحمد للہ کہنا اس بات کی علامت ہے کہ کسی نعمت کے ظاہر ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا مستحب ہے، نیز یہ بھی مستحب ہے کہ جب مہمان آئے تو اس کے سامنے جلد پیش کر دینا مستحب ہے۔
جب کھانے پینے سے پیٹ بھر گیا اس کے بارے میں نووی کہتے ہیں کہ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ پیٹ بھر کر کھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں بھی کھایا جاتا تھا، اور یہ (یعنی پیٹ بھر کر کھانا) جائز ہے، جہاں تک ان اقوال کا تعلق ہے جو پیٹ بھر کر کھانے کی کراہت کے سلسلے میں منقول ہیں تو وہ عادت و مداومت پر محمول ہیں کہ عادت و مداومت کے طور پر پیٹ بھر کر کھانا گویا محتاج اور غرباء کے حال سے فراموشی اور ان کے تئیں سنگدلی اختیار کرنے کا مظہر ہے۔
قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کی بابت پوچھا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس دنیا میں جو نعمتیں عطا فرماتا ہے ان کے بارے میں وہ قیامت کے دن سوال کرے گا اور یہ سوال بعض کے حق میں تو توبیخ و سرزنش کے طور پر ہو گا اور بعضوں سے احسان جتانے اور اظہار نعمت و کرامت کے طور پر ہو گا گویا ہر صورت میں اللہ تعالیٰ اپنی ہر نعمت پر بندوں سے سوال و پرسش کرے گا کہ ہم نے تمہیں دنیا میں یہ جو فلاں فلاں نعمت عطا کی تھی تم نے اس پر ادائیگی شکر کا حق ادا کیا یا نہیں ؟
وذکر حدیث ابی مسعود کان رجل من الانصار فی باب الولیمۃ۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کان رجل من الانصار (کتاب النکاح کے) باب الولیمہ میں ذکر کی جا چکی ہے۔
حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی قوم میں (کسی کے یہاں) مہمان ہوا اور اس نے محرومی کی حالت میں صبح کی (یعنی اس کے میزبان نے رات میں اس کی مہمان داری نہیں کی، تو اس کا ہر مسلمان پر یہ حق ہو گا کہ وہ اس کی مدد کرے، یہاں تک کہ وہ (جس شخص کے یہاں مہمان ہوا ہے) اس کے مال اور اس کی کھیتی باڑی سے مہمانداری کے بقدر (یعنی ایک مہمان کے کھانے پینے کے بقدر) وصول کرے۔ (دارمی، ابوداؤد،) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ جو شخص کسی قوم میں مہمان ہوا، اور ان لوگوں نے اس کی مہمان داری نہیں کی تو اس کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ان لوگوں کا پیچھا پکڑ لے اور ان کے مال و اسباب سے اپنی مہمان داری) کے بقدر وصول کرے۔
تشریح
اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے بھی مطلق ضیافت (مہمان داری) کرنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اس حدیث کی بھی وہی تاویل و توجیہ کی جائے گی، جو پیچھے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت میں کی گئی ہے۔
اور حضرت ابوالاحوص جشمی اپنے والد حضرت مالک بن فضلہ رضی اللہ عنہ صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، میں نے (ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اگر میں کسی شخص کے ہاں سے گزروں یعنی اس کے یہاں مہمان ہوں اور وہ میری مہمانداری نہ کرے اور نہ میری مہمان داری کا حق ادا کرے اور پھر اس کے بعد اس کا گزر میرے یہاں ہو یعنی وہ میرے یہاں آ کر مہمان ہو، تو کیا میں اس کی مہمان داری کروں یا اس سے بدلہ لوں یعنی میں بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کروں جو وہ میرے ساتھ کر چکا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (نہیں اس سے بدلہ نہ لو) بلکہ اس کی مہمان داری کرو۔ (ترمذی)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ برائی کا بدلہ یہ نہیں ہے کہ تم بھی برائی کرو بلکہ جس شخص نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا ہے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہی سب سے اچھا بدلہ ہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔
بدی رابدی سہل باشد جزا
اگر مردے احسن الیٰ من اساء
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ یا ان کے علاوہ کسی اور (صحابی) سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے (ہاں پہنچ کر ان سے) گھر میں آنے کی اجازت طلب کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (دروازہ پر کھڑے ہو کر) فرمایا کہ اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تم پر اللہ کی سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو (کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟) سعد رضی اللہ عنہ نے (گھر میں سے جواب دیا کہ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی اللہ کی سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو۔ لیکن انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ جواب نہیں سنایا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ سلام کیا اور سعد رضی اللہ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تین مرتبہ جواب دیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا نہیں، یعنی حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلام کا جواب تینوں مرتبہ قصداً بہت آہستہ آواز میں دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سن نہ سکیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (ان کا جواب نہ سن کر) واپس لوٹ پڑے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ) نے جب یہ دیکھا کہ جس چیز کو میں نے حصول سعادت میں زیادتی کا ذریعہ بنانا چاہا تھا وہ میرے لئے بالکل ہی محرومی کا باعث بنی جا رہی ہے اور ایک طرح سے سوء ادبی کی صورت بھی پیدا ہو گئی ہے تو وہ لپک کر گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے پیچھے آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر میرے ماں باپ قربان، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جتنی بار بھی سلام کیا میرے کانوں نے سنا اور حقیقت یہ ہے کہ میں (ہر بار) جواب بھی دیتا تھا البتہ میں اس جواب کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کانوں تک نہیں پہنچنے دیتا تھا، کیونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زیادہ سے زیادہ سلام و برکت کا خواہش مند تھا (یعنی میرا مقصد یہ تھا کہ میرا جواب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کانوں تک نہ پہنچے تاکہ آپ جتنا زیادہ سلام کریں گے میرے حق میں اتنا زیادہ حصول برکت و سعادت کا ذریعہ ہو گا)
چنانچہ (حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس اظہار حقیقت اور عذر خواہی کے بعد) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ مکان میں داخل ہوئے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے خشک انگور پیش کئے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کھایا،جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھانے سے فارغ ہوئے اور (حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کرتے ہوئے) فرمایا کہ اللہ کے نیک بندے تمہارے کھانا کھائیں، فرشتے تمہارے لئے استغفار کریں، اور روزے دار تمہارے ہاں افطار کریں۔ (شرح السنۃ)
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مؤمن اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو اپنی رسی میں بندھا ہوا ہوتا ہے اور ادھر ادھر چکر لگانے کے بعد پھر اپنی رسی کے پاس آ جاتا ہے، اور (اسی طرح مؤمن غفلت و کوتاہی کرتا ہے لیکن پھر ایمان کی طرف لوٹ آتا ہے لہٰذا تم اپنا کھانا متقی و پرہیز گار لوگوں کو کھلاؤ، اور اپنے عطایا سے سب مسلمانوں کو نوازو۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابونعیم نے حلیہ میں نقل کیا ہے۔
تشریح
اخیۃاصل میں اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کے دونوں سروں کو کنڈے کی طرح دیوار میں مضبوطی سے گاڑ دیتے ہیں اور پھر اس لکڑی میں رسی سے گھوڑے وغیرہ کو باندھ دیتے ہیں اور اس کے پاس گھاس وغیرہ ڈال دیتے ہیں، لہٰذا فرمایا گیا کہ جس طرح کوئی گھوڑا اپنے اخیہ یعنی کنڈے سے بندھا ہوا ادھر ادھر چکر لگاتا ہے اور پھر اپنے اخیہ کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے نیز یہ تو ہوتا ہے کہ وہ اپنے کنڈے سے کبھی نزدیک ہو جاتا ہے کبھی دور، مگر اس سے بالکل جدا نہیں ہو سکتا ٹھیک یہی حال ایمان اور مؤمن کے درمیان تعلق کا ہوتا ہے کہ کبھی تو اعمال صالحہ کے ذریعہ اس کو قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے اور کبھی گناہوں کی وجہ سے بعد ہو جاتا ہے مگر اصل میں ایمان سے جدا نہیں ہوتا، چنانچہ اگر وہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے تو آخر کار اس گناہ پر نادم ہو کر استغفار کرتا ہے اور اپنی فوت شدہ عبادات کا تدارک کر کے کمال ایمان کا درجہ حاصل کر لیتا ہے،
لہٰذا تم اپنا کھانا پرہیز گار لوگوں کو کھلاؤ یہ جملہ اصل میں جزا ہے شرط مخدوف کی، اس اعتبار سے پورا مفہوم یوں ہو گا کہ اس مثال کے مطابق جب ایمان کی وہی حیثیت ہوئی جو اخیہ یعنی کنڈے کی ہے تو ان چیزوں کو مضبوط و قوی کرنے کے طریقے اختیار کرو جو تمہارے اور ایمان کے درمیان وسائل کا درجہ رکھتے ہیں اور اس کا ایک بہترین و سہل طریقہ ضیافت کرنا (کھانا کھلانا) ہے رہی یہ بات کہ کھانا کھلانے کے سلسلے میں پرہیز گاری کی تخصیص کیوں ہے تو اس کا سبب یہ ظاہر کرنا ہے کہ اگرچہ ہر بھوکے کو کھانا کھلانا جائز اور ایک نیک عمل ہے خواہ وہ پرہیز گار ہو یا غیر پرہیز گا، لیکن اول تو اولی یہ ہے کہ اگر کسی بھوکے کو کھانا کھلانا جائز منظور ہے تو ایسے بھوکے کو کھلاؤ جو پرہیز گار اور خدا ترس ہو دوسرے یہ کہ جب تم پرہیز گاروں کو کھانا کھلاؤ گے تو نہ صرف یہ کہ تمہیں اس نیک عمل پر ثواب ملے گا بلکہ وہ تمہارا کھانا کھا کر جو عبادت کریں گے اس کا ثواب تمہیں بھی ملے گا اور وہ تمہارے حق میں جو دعا کریں گے وہ بھی قبول ہو گی لہٰذا پرہیز گاروں کی تخصیص مذکورہ سبب سے ہے ورنہ جہاں تک مطلق احسان و اعانت کا تعلق ہے وہ سب مسلمانوں کے ساتھ کرنی چاہئے،جیسا کہ فرمایا گیا اور عطایا سے سب مسلمانوں کو نوازو۔
اور حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں ایک کٹھڑا (چوبی ناند) تھا جس کو چار آدمی اٹھاتے تھے (یعنی جب اس میں کھانا رکھا جاتا تو وہ اتنا بھاری ہو جاتا تھا کہ اس کو چار آدمی اٹھاتے تھے یا وہ خالی ہی اتنا بڑا بھاری تھا کہ چار آدمیوں کے بغیر نہیں اٹھتا تھا) اس (کٹھڑے) کو غرا کہا جاتا تھا چنانچہ جب چاشت کا وقت ہو جاتا اور لوگ چاشت کی نماز پڑھ لیتے تو وہ کٹھڑا لایا جاتا اور اس میں ثرید تیار کیا جاتا، پھر لوگ جمع ہو کر اس کے گرد بیٹھ جاتے، یہاں تک کہ جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی تھی (اور بیٹھنے کی جگہ تنگ ہو جاتی) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھٹنوں پر بیٹھتے (ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر) ایک دیہاتی نے کہا کہ یہ نشست کیسی ہے؟ یعنی اس طرح بیٹھنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شایان شان نہیں ہے۔ (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو تواضع و انکسار کرنے والا بنایا ہے سرکش و ضدی نہیں بنایا ہے۔ (اور طرح بیٹھنا تواضع و انکسار اختیار کرنے کا قریبی راستہ ہے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (سب کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ اس کے کناروں (یعنی اپنے سامنے) سے کھاؤ اس کی بلندی کو چھوڑ دو یعنی درمیانی حصے کے کھانے پر پہلے ہاتھ نہ ڈالو تمہارے لئے اس میں برکت عطا کی جائے گی۔ (ابوداؤد)
تشریح
غرا کے لغوی معنی ہیں روشن و چمکدار۔ اس بڑے برتن (کٹھڑا یا ناند) کو غرا اس مناسبت سے کہا جاتا تھا کہ وہ بڑا ہونے کی وجہ سے کھلا ہوا اور کشادہ تھا۔
اس میں برکت عطا کی جائے گی کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم اس طرح کھاؤ گے تو یہ اس کٹھڑے کے کھانے میں برکت کا باعث ہو گا اس کے برخلاف جب درمیان کے حصہ سے کھایا جاتا ہے تو نیچے کے حصے سے برکت منقطع ہو جاتی ہے۔
اور حضرت وحشی ابن حرب اپنے والد سے اور وہ (اپنے والد اور) وحشی کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے (کچھ) صحابہ نے (ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ! ہم (اگرچہ خاصی تعداد میں کھانا) کھاتے ہیں لیکن ہمارا پیٹ نہیں بھرتا (جب کہ ہم چاہتے ہیں کہ یا تو ہمارا پیٹ بھر جایا کرے کہ ہم عبادت و طاعت کی طاقت حاصل کر سکیں، یا پھر ہمیں قناعت کی دولت میسر ہو جائے)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (خاصی مقدار میں کھانا کھانے کے باوجود پیٹ نہ بھرنے کی ظاہری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ) تم لوگ شاید الگ الگ کھانا کھاتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تو پھر تم لوگ اپنے کھانے پر اکٹھے بیٹھا کرو اور اس پر (یعنی کھاتے وقت) اللہ کا نام لیا کرو تمہارے لئے اس (کھانے) میں برکت عطا کی جائے گی۔ (ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے راوی وحشی ابن حرب، کے دادا کا نام بھی وحشی ابن حرب ہی تھا، یہ (وحشی ابن حرب جو حدیث کے راوی وحشی کے دادا ہیں) وہی وحشی ہیں جہنوں نے غزوہ احد کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو قتل کیا تھا اس وقت وحشی کافر تھے اور کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما تھے! لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت بخشی اور وہ مشرف باسلام ہو گئے، اسلام لانے کے بعد ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ کہ انہوں نے مشہور مدعی نبوت، مسیلمہ کذاب کو قتل کر کے جہنم رسید کیا تھا ! اس حدیث سے معلوم ہوا کہ الگ الگ کھانا، کھانا بے برکتی کا باعث ہے جب کہ اکٹھے ہو کر کھانے پر بیٹھنا اس کھانے میں برکت کا ذریعہ ہے، نیز کھانے پر اکٹھے ہو کر بیٹھنا اور کھاتے وقت اللہ کا نام لینا یعنی بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرنا ان دونوں میں سے ہر ایک برکت کا باعث ہے اور اگر دونوں جمع ہوں کر کھانے پر اکھٹے بیٹھا بھی جائے اور کھاتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا جائے تو یہ برکت میں زیادتی کا باعث بھی ہو گا اور ذکر اللہ کی کثرت کا ذریعہ بھی، رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو یہ فرمایا ہے کہ آیت (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعاً اَوْ اَشْتَاتاً) 24۔ النور:61) (یعنی اس بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم الگ الگ کھانا کھاؤ یا اکٹھے ہو کر) تو اصل میں یہ آیت یا تو رخصت) آسانی) پر محمول ہے یا اس کا تعلق ان لوگوں کو تنگی سے بچانے سے ہے جو اکیلے ہی رہتے ہیں۔
حضرت ابوعسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ) رات کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے باہر نکلے اور میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے بلایا میں (اپنے گھر سے) نکل کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہو لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کو بلایا وہ بھی (اپنے گھر سے) نکل کر ساتھ ہو لئے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کو بلایا وہ بھی (اپنے گھر سے) نکل کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہو لیے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (ہم سب کو لے کر) روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک باغ میں پہنچے جو ایک انصاری (صحابی) کا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ ہمیں کھجوریں کھلاؤ۔ باغ کے مالک نے کھجوروں کا ایک خوشہ لا کر (ہمارے سامنے) رکھ دیا اس میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (بھی) کھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ (یعنی ہم لوگوں) نے (بھی) کھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹھنڈا پانی منگوایا جس کو (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور ہم نے) پیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یقیناً قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھجوروں کا خوشہ لیا اور اس کو زمین پر دے مارا یہاں تک کہ اس کی کچی کھجوریں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بکھر گئیں، پھر انہوں نے عرض کیا کہ، یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ و سلم) کیا قیامت کے دن ہم سے اس کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! (ہر نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ البتہ تین چیزوں کے بارے میں سوال نہیں ہو گا ایک تو کپڑا کہ جس سے آدمی اپنا ستر ڈھانکے اور دوسری روٹی کا ٹکرا کہ جس کے ذریعہ اپنی بھوک کو دور کرے اور تیسرے بل کہ جس میں گرمی اور سردی سے (بچنے کے لئے) گھس جائے (احمد بیہقی)
تشریح
ایک انصاری کے بارے میں احتمال ہے کہ وہی ابوالہیثم ہوں جن کے باغ میں جانے کا واقعہ تو وہ ہے جس کا ذکر پہلی فصل کی حدیث میں بھی گزر چکا ہے، اور یہ واقعہ (جو یہاں حدیث میں بیان کیا گیا ہے دوسری مرتبہ کا ہے گویا ایک واقعہ تو وہ ہے جس کا ذکر پہلی فصل کی حدیث (نمبر ٣) میں گزرا اور دوسرا واقعہ یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان کیا گیا ہے، اور یہ احتمال بھی ہے کہ انصاری سے مراد ابوالہیثم نہ ہوں بلکہ کوئی دوسرے انصاری صحابی مراد ہوں۔
اور اس کو زمین پر دے مارا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل گویا ان حالت جذب کا مظہر تھا قیامت کے دن ہر چھوٹی بڑی چیز اور ہر طرح کے جزئی و کلی امور کے سوال و پرسش کے سلسلہ میں خوف خدا اور مواخذہ آخرت کی ہیبت کی وجہ سے ان پر طاری ہو گئی تھی۔
حجر کا لفظ حاء کے پیش اور جیم کے سکون کے ساتھ بھی صحیح ہے،جس کے معنی حجرہ (کمرہ) کے ہیں لیکن مشکوٰۃ کے ایک صحیح نسخہ میں یہ لفظ حجر یعنی جیم کے پیش اور حاء کے سکون کے ساتھ منقول ہے جس کے معنی سوراخ اور بل کے آتے ہیں، اس صورت میں یہ مراد ہو گا کہ ایک ایسا چھوٹا سا مکان جس کو اس کے انتہائی، چھوٹا اور حقیر ہونے کی وجہ سے چوہے کے بل سے تعبیر کیا جا سکتا ہو اور جس میں سردی و گرمی سے بچاؤ کے لئے مشکل اور تنگی کے ساتھ رہا جا سکتا ہو۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب دسترخوان بچھا دیا جائے (اور لوگ اس پر کھانے کے لئے بیٹھیں) تو کوئی شخص اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ دسترخوان نہ اٹھا دیا جائے، اور (کھانے سے) اس وقت تک اپنا ہاتھ نہ کھینچے جب تک کہ سب لوگ کھانے سے فارغ نہ ہو جائیں اگرچہ اس کا پیٹ بھر گیا اور اگر کسی عذر کی بنا پر دسترخوان سے پہلے اٹھنا ضروری ہو، یا دوسرے لوگوں کے کھانے سے فارغ ہونے سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچنا ہو تو) چاہئے کہ اس عذر کو بیان کر دے (یعنی معذرت طلب کر کے دسترخوان پر سے اٹھے یا اپنا ہاتھ کھینچے) کیوں کہ یہ (یعنی اس صورت میں کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لینا جب کہ دوسرے لوگ ابھی کھانے میں مشغول ہوں) اپنے ہم نشین کو شرمندہ کر دینا ہے، چنانچہ (جب ایک شخص یہ دیکھے گا کہ اس کے ساتھی نے کھانا چھوڑ دیا ہے تو شرما حضوری میں) وہ (بھی) اپنا ہاتھ کھینچ لے گا جب کہ بہت ممکن ہے کہ ابھی اور کھانے کی خواہش رکھتا ہو (یعنی اس کا پیٹ نہ بھرا ہو۔ (ابن ماجہ،یبہقی)
تشریح
اس حدیث سے علماء نے مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر دسترخوان پر ایک سے زائد آدمی ہوں تو ان میں سے کسی شخص کو دوسرے ساتھیوں سے پہلے اپنا ہاتھ کھانے سے نہ کھینچنا چاہئے بشرطیکہ اس کے ہاتھ کھینچنے کے بعد وہ (ساتھی) بھی شرما شرمی میں کھانا چھوڑ دیں۔ اور اگر کوئی شخص کم خوراک ہو (کہ کم خور ہونے کی وجہ سے دسترخوان کے دوسرے ساتھیوں کا آخر تک ساتھ دینا اس کے لئے مشکل ہو) تو اس صورت میں اس کے لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا کھائے تاکہ آخر تک دوسرے لوگوں کا ساتھ دے سکے۔
اور حضرت امام جعفر صادق، ابن محمد اپنے والد یعنی امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے آخر تک کھانے والے شخص ہوتے تھے۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔
تشریح
حضرت امام محمد باقر اصل میں تابعی ہیں، اور ان کو اپنے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین اور حضرت جابر بن عبداللہ سے سماعت حدیث کا شرف حاصل ہے اس اعتبار سے یہ حدیث مرسل ہے ! حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دسترخوان پر موجود دوسرے لوگوں سے پہلے اپنا ہاتھ کھانے سے نہیں کھینچتے تھے آخر تک کھاتے رہتے تھے، اور یا تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابتداء میں نہیں کھاتے تھے یا بہت آہستہ آہستہ اور کم کم کھاتے تھے اور اس طرح کھانے کے آخر تک سب کا ساتھ دیتے تھے تاکہ دوسرے لوگ بھی شرم و لحاظ میں کھانا نہ چھوڑ دیں۔
اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کھانا لایا گیا اور پھر وہ کھانا ہمارے سامنے رکھا گیا (ہم اگرچہ بھوکے تھے اور کھانے کی خواہش رکھتے تھے مگر جیسا کہ عادت ہوتی ہے محض تکلفاً) ہم نے کہا کہ ہم کو کھانے کی خواہش نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کرو۔ (ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک اور کھانے کی خواہش کے باوجود بطور تکلف کھانے سے انکار کرے اور یہ کہے کہ مجھے کھانے کی خواہش نہیں ہے جو حقیقت میں جھوٹ بولنا ہے تو اس سے بڑا نادان کون ہو گا کہ دو نقصان برداشت کرنے پر تیار ہو جائے ایک تو دنیا کا نقصان کہ بھوک کی کلفت اٹھائے اور دوسرا دین کا نقصان کہ جھوٹ بولے۔
اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (کھانا) مل کر کھاؤ، الگ الگ مت کھاؤ کیوں کہ برکت،جماعت کے ساتھ ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ یہ سنت ہے کہ آدمی اپنے مہمان (کا استقبال کرنے یا اس کو رخصت کرنے) کے لئے گھر کے دروازے تک نکل کر آئے۔ (ابن ماجہ) بیہقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے نیز بیہقی نے کہا ہے کہ اس کے سلسلہ سند میں ضعف ہے۔
تشریح
یہ بھی مہمان کی خاطر داری اور اس کا اکرام ہے کہ جب وہ آئے تو گھر کے دروازے پر اس کا استقبال کیا جائے اور جب وہ جانے لگے تو دروازے تک نکل کر اس کو رخصت کیا جائے، اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ گھر میں ایک اجنبی کے آنے سے کسی وہم و وسوسہ کا شکار نہیں ہوں گے۔
یہ سنت ہے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ یہ عمل (یعنی مہمان کے استقبال و وداع کے لئے گھر کے دروازے تک جانا) ایک قدیم عادت ہے جس کو ہمیشہ سے تہذیب و شائستگی کا مظہر بھی سمجھا گیا ہے اور انسان کی فطرت سلیم کا غماز بھی یا یہ مطلب ہے کہ یہ عمل میری سنت اور میرے طریقے کے مطابق ہے۔
اس سلسلہ سند میں ضعف ہے اس سے نفس حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ یہ روایت متعدد اسناد سے منقول ہے اور اگر کوئی روایت متعدد اسناد سے منقول ہو اور اس میں سے کسی سلسلہ میں ضعف بھی ہو تو تعدد اسناد کی وجہ سے اس کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے، ویسے بھی یہ بات ملحوظ رہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف روایت بھی قابل قبول ہوتی ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس گھر میں (مہمانوں کو) کھانا کھلایا جاتا ہے، وہاں خیر یعنی رزق، برکت اور بھلائی اتنی تیزی سے پہنچتی ہے جتنی تیزی سے چھری بھی اونٹ کے کوہان کی طرف نہیں پہنچتی۔ (ابن ماجہ)
تشریح
جب اونٹ کا گوشت کاٹا جاتا ہے تو اس کے سب اعضاء سے پہلے اس کے کوہان کو کاٹتے ہیں اور چونکہ کوہان کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے اس لئے وہ شوق کے ساتھ کھایا بھی جاتا ہے، پس فرمایا کہ جس طرح کوہان پر چھری جلدی پہنچتی ہے اس سے بھی زیادہ جلد اس گھر میں خیر و بھلائی پہنچتی ہے جس میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔
یہاں باب کو کسی عنوان کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے باب میں جو موضوع چل رہا تھا اس باب میں بھی اسی سے متعلق احادیث نقل ہوں گی، تاہم مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں یہاں یہ عنوان قائم کیا گیا ہے باب فی اکل المضطر یعنی مضطر کے ۔
وھذاالباب خال عن الفضل الاول
اور اس باب میں پہلی فصل نہیں ہے
یعنی اب باب میں صاحب مصابیح نے بخاری و مسلم کی کوئی روایت نقل نہیں کی ہے اس لئے کہ اس باب کو فصل اول سے خالی رکھا ہے ! واضح رہے کہ بعض نسخوں میں لفظ الاول کے بعد الثالث کا لفظ بھی ہے کیوں کہ اس باب میں تیسری فصل بھی نہیں ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے الثالث کا لفظ نہ ہونا چاہئے، کیوں کہ منصف مشکوٰۃ کا اصل مقصد صاحب مصابیح کے بارے میں بیان کرنا ہے کہ انہوں نے اس باب کو پہلی فصل سے خالی رکھا ہے جب کہ تیسری فصل کو شامل کرنے یا شامل نہ کرنے کا تعلق خود مصنف مشکوٰۃ کی ذات سے ہے اگر وہ کسی باب کو تیسری فصل سے خالی رکھیں تو اس کو بیان کرنا غیر ضروری سی بات ہو گی اور یہ بات ہے بھی کہ مصنف مشکوٰۃ نے اس کو بیان کرنے کا معمول نہیں رکھا ہے،جیسا کہ آگے آنے والے ایک باب باب تغطیۃ الاونی سے واضح ہو گا کہ اس باب میں منصف مشکوٰۃ نے تیسری فصل کو شامل نہیں کیا ہے اور یہ بیان نہیں کیا کہ اس باب میں تیسری فصل نہیں ہے۔
حضرت فجیع عامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ (حضرت ! یہ بتائیں کہ) ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (پہلے یہ بتاؤ کہ) تم لوگوں کو کھانا کس مقدار میں ملتا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم کو ایک پیالہ دودھ کا شام کو اور ایک پیالہ دودھ کا صبح کو ملتا ہے۔ (حدیث کے راوی ابونعیم کہتے ہیں کہ (میرے استاد و شیخ حضرت عقبہ نے نغتبق اور نصطبح کی) یہی وضاحت کی ہے کہ ایک پیالہ دودھ کا صبح کو اور ایک پیالہ دودھ شام کو۔ (بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (فجیع کا جواب کر) فرمایا کہ کھانے کی یہ مقدار، اپنے باپ کی قسم، بھوک کو واجب کرتی ہے یعنی صبح و شام محض ایک ایک پیالہ دودھ کا ملنا بھوک کو ختم کر کے انسانی زندگی کی بقا کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صورت میں ان کے لئے مردار کو حلال قرار دیا۔ (ابوداؤد)
تشریح
غذا، انسان کی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے ایک ضروری چیز ہے انسان کو غذا کا ملنا یا اتنی مقدار میں ملنا جس سے نہ صرف یہ کہ بھوک کو ختم نہ کیا جا سکتا ہو بلکہ زندگی کا وجود بھی خطرہ میں پڑ جائے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دیتا ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں حالت اضطرار سے تعبیر کیا جاتا ہے، حالت اضطرار میں شریعت یہ اجازت دیتی ہے کہ انسان اگر کسی حرام چیز کو کھا کر اپنی زندگی بچا سکتا ہے تو وہ کھا لینی چاہئے، چنانچہ سائل نے یہ سوال کر کے ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ اصل میں یہی معلوم کرنا چاہا تھا کہ وہ کون سی صورت حلال ہے جس پر حالت اضطرار کا اطلاق کیا جائے کہ اس صورت میں مردار یا کسی بھی حرام چیز کو کھایا جا سکتا ہے، یعنی اضطرار کی حد کیا ہے اور بھوک کی نوعیت کس درجہ کی ہو کہ جس کی وجہ سے حرام چیز کا کھانا مباح ہو سکتا ہے؟ اگرچہ سائل نے سوال کے لئے جو اسلوب و الفاظ اختیار کئے ہیں ان کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے گویا مردار کے کھانے کے بارے میں دریافت کیا تھا کہ مردار چیزوں میں سے کونسی چیز یا یہ کہ اس کی کونسی مقدار ایسی ہے جس کو کھانا ہمارے لئے حلال ہے لیکن حقیقت میں نہ تو سائل کا مقصد یہ تھا اور نہ جواب اس کا دیا گیا ہے بلکہ مقصود یہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا یعنی حالت اضطرار کے بارے میں سوال کرنا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب بھی اسی کے بارے میں دیا۔علاوہ ازیں یہ عبارت ما یحل لنا المیتۃ کہ جس سے مردار کے بارے میں سوال کرنا معلوم ہوتا ہے، ابوداؤد کی ہے، لیکن طبرانی وغیرہ نے اس روایت کو جس طرح نقل کیا ہے اس میں یہ عبارت (یحل میں یاء کے پیش کے ساتھ) یوں ہے ما یحل لنا المیتۃ یعنی وہ کون سی حالت ہو جو ہمارے لئے مردار کے کھانے کو حلال قرار دیتی ہے ! یہ عبارت سائل کے اصل مقصود کو زیادہ صاف اسلوب میں واضح کرتی ہے۔
تم لوگوں کو کھانا کس مقدار میں ملتا ہے ؟ اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ تمہیں غذا کے نام پر کوئی چیز بھی کسی بھی مقدار میں میسر نہ ہو، اس صورت میں کوئی الجھاؤ ہی نہیں ہے،جب پیٹ میں ڈالنے کے لئے کوئی بھی چیز کسی بھی مقدار میں میسر نہ ہو تو حالت اضطرار بالکل طور پر متحقق ہو جاتی ہے،دوسری صورت یہ ہے کہ غذا کے نام پر کوئی نہ کوئی چیز کسی نہ کسی مقدار میں تمہیں میسر ہو اس صورت میں دیکھنا ہو گا کہ اس مقدار کی نوعیت کیا ہے کہ اس کے مطابق حالت اضطرار کے بارے میں فیصلہ ہو گا لہٰذا تم بتاؤ کہ اگر تمہیں کھانے کی قسم سے کوئی چیز دستیاب ہوتی ہے اس کی مقدار کیا ہے، تاکہ اس مقدار کو معلوم کر کے یہ اندازہ کیا جا سکے کہ اس کے ذریعہ تمہارے پیٹ کو کتنا سہارا مل سکتا ہے اور تمہاری بھوک، اضطرار کی حد کو پہنچی ہے یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سوال کرتے وقت مخاطب کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کر کے گویا جماعت کو مخاطب کیا جب کہ سوال کرنے والے وہی ایک شخص (یعنی فجیع عامری) تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جو حکم بیان کرنا چاہتے تھے وہ اگرچہ ایک شخص کے سوال کے پیش نظر تھا مگر حقیقت میں اس کا تعلق سب ہی لوگوں سے تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح اس حکم کی عمومی حیثیت کو واضح فرمایا یہی وجہ ہے کہ فجیع بھی اپنے جواب میں جمع کا صیغہ لائے یعنی یوں کہا کہ ہم نے عرض کیا ......الخ
نصطبح کا مادہ اشتقاق صبوح ہے صبح کے معنی صبح کے کھانے پینے کے ہیں اسی طرح نغتبق کا مادہ اشتقاق غبوق ہے جس کے معنی شام کے کھانے پینے کے ہیں یہاں روایت میں ان دونوں الفاظ سے مراد صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پینا لیا گیا ہے جیسا کہ حدیث کے ایک راوی ابونعیم نے حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے یہ وضاحت نقل کی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ ابونعیم کی نقل کردہ وضاحت حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ ہی سے سماعت پر مبنی ہو یا دوسری روایتوں میں بھی یہ وضاحت منقول ہو، بہر صورت راوی کی یہ وضاحت مستند بھی ہے اور لائق اعتبار بھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے باپ کی قسم کھانا بظاہر ایک تعجب خیز امر ہے جس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قسم کھانا اصل میں اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت نازل نہیں ہوئی تھی، یا یہ کہ پہلے اہل عرب عام طور پر چونکہ اسی قسم کی قسمیں کھایا کرتے تھے اور ایسی قسموں کے الفاظ ان کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے اس لئے اس عادت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے بھی یہ قسم اضطراراً (یعنی بلا قصد و ارادہ) نکل گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صورت میں ان کے لئے مردار کو حلال قرار دیا۔ اس صورت سے مراد صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پینے کی صورت ہے یعنی گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ غذا کی اتنی تھوڑی سی مقدار تم لوگوں کو یقیناً کافی نہیں ہو گی اور تم سب بھوکے رہے ہو گئے اس لئے یہ صورت حالت اضطرار کی ہے جس میں مردار کھانا حلال ہے لہٰذا تم مجبوراً مردار بھی کھا کر اپنی جان بچا سکتے ہو۔
اور حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) ہم (کبھی ایسی زمین میں (یعنی ایسی جگہ پہنچ جاتے) ہیں کہ (یہاں ہمیں کھانا کو کچھ نہیں ملتا جس کی وجہ سے) ہم وہاں مخمصہ (بھوک) کی حالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس صورت میں مردار کھانا ہمارے لئے کب حلال ہو جاتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کہ تم صبح تک یا شام تک (کھانے پینے کی کوئی چیز) نہ پاؤ یا اس زمین (یعنی اس جگہ کہ جہاں تم ہو) تو تمہاری حالت مردار سے متعلق ہو گی یعنی ایسی صورت پیش آنے پر مردار کھانا تمہارے لئے حلال ہو گا (اب اس کے بعد راوی حدیث کا ما حصل بیان کرتے ہیں کہ) اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دن بھر میں اور رات بھر میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پاؤ اسی طرح تمہیں ترکاری کی قسم سے بھی کوئی چیز (یہاں تک کہ گھاس اور درخت کے پتے بھی) میسر نہ ہوں جس کو تم کھا سکو (اور اپنی جان بچا سکو) تو اس صورت میں تمہارے لئے مردار حلال ہو گا۔ (دارمی)
تشریح
دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے کیوں کہ پہلی حدیث میں تو صبح و شام کو دودھ ملنے کی صورت کو بھی بھوک اور مخمصہ یعنی اضطرار کی حالت پر محمول کیا اور مردار کھانے کو مباح قرار دیا جب کہ اس دوسری حدیث میں حالت اضطرار کے پائے جانے کو اس امر کے ساتھ مشروط کیا کہ صبح و شام تک کھانے پینے کی کوئی بھی چیز میسر نہ ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اس دائرے کو اتنا تنگ کیا کہ اگر ترکاری و سبزی اور اس کی مانند چیزیں جیسے گھاس اور درخت کے پتے وغیرہ ہی مہیا ہو جائیں اور ان کو پیٹ میں ڈالا جا سکے تو اس صورت میں حالت اضطرار متحقق نہیں ہو گی اور مردار کھانا مباح نہیں ہو گا۔ ان احادیث کے باہمی تعارض و اختلاف ہی کی بنا پر علماء کے مسلک و اقوال میں بھی اختلاف پیدا ہوا ہے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک تو یہ ہے کہ سدرمق یعنی جان بچانے کی خاطر از قسم مردار کوئی چیز کھانا اس صورت میں حلال ہو گا جب کہ بھوک کی وجہ سے جان کی ہلاکت کا خوف پیدا ہو جائے، اور اسی قدر کھانا حلال ہو گا جس سے بس جان بچ جائے۔ حضرت امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، یہ مسلک و قول بظاہر سختی و تنگی پر محمول ہے، لیکن حقیقت میں احتیاط و تقویٰ اسی میں ہے۔
اس کے برخلاف حضرت امام مالک، حضرت امام احمد، اور ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی، کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اتنی مقدار میں کھانا نہ پائے جس سے وہ سیر ہو جائے اور اس کی طبعی خواہش حاجت مند و متقاضی ہو تو اس کے لئے مردار کھانا حلال ہو گا، تاآنکہ وہ اپنی حاجت طبع پوری کرے، یعنی وہ سیر ہو جائے، اور اس مسلک میں زیادہ نرمی و آسانی ہے۔ حاصل یہ کہ حالت، اضطرار میں از قسم مردار کوئی چیز کھانے کے سلسلے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تو سدرمق کا اعتبار ہے، کہ مضطر بس اتنا مردار کھا سکتا ہے جس سے جان بچی رہے جب کہ دوسرے ائمہ کے نزدیک حصول قوت یعنی شکم سیر ہو کر کھانے کا اعتبار ہے ان ائمہ کی دلیل پہلی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حالت میں مردار کھانے کو حلال قرار دیا، جب کہ سائل کو ایک پیالہ دودھ دن میں، اور ایک پیالہ دودھ رات میں میسر ہوتا تھا اور دن و رات میں ملنے والا ایک ایک پیالہ دودھ بلا شک و شبہ سدرمق یعنی جان بچانے کی حد تک کافی ہو سکتا ہے، اگرچہ اس کے ذریعہ شکم سیری نہ ہو سکتی ہو، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اضطرار کی حد کی وجہ سے مردار کھانا مباح ہو جاتا ہے اصل میں شکم سیری کا حاصل نہ ہونا ہے اور بقدر حصول قوت مردار کھانا حلال ہے۔
ان ائمہ کے برخلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ) کے نزدیک جہاں تک پہلی حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے دوسرے ائمہ استدلال کرتے ہیں اس کے بارے میں ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پوری قوم کو ملتا تھا، نہ کہ ایک ایک شخص ایک ایک پیالہ دودھ پاتا تھا، چنانچہ لفظ طعامکم میں جمع کا صیغہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔
اسی طرح حضرت فجیع عامری کا سوال کرنا محض اپنی ذات کی طرف سے نہیں تھا، بلکہ درحقیقت انہوں نے اپنی پوری قوم کی طرف سے سوال کیا تھا اسی لئے انہوں نے یہ الفاظ کہے ما یحل لنا (ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے) انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ میرے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک کثیر جماعت کے لئے محض ایک پیالہ دودھ سدرمق یعنی جان بچانے کے لئے بھی ہرگز کافی نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ کسی ایک کی بھی بھوک کو ذرا برابر بھی ختم کرنے میں مدد گار بن سکتا ہے، ہاں اگر ہر ایک کو ایک ایک پیالہ دودھ ملے تو وہ بے شک جان بچانے کے بقدر غذا بن سکتا ہے۔