مشکوٰة شر یف

گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب

نماز خسوف کا بیان

مشہور اہل لغت اہل علم کا قول یہ ہے کہ  خسوف چاند گرہن کو فرماتے ہیں کہ  کسوف سورج گرہن کو۔ اس باب میں جتنی احادیث نقل کی جائیں گی سب کی سب سورج گرہن سے متعلق ہیں۔ ہاں صرف ایک حدیث جو پہلی فصل کی دوسری حدیث ہے اس کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ  چاند گرہن سے متعلق ہے لہٰذا مولف مشکوٰۃ کے لیے بہتر یہ تھا کہ وہ اس باب کا نام  الصلوٰۃ الخسوف کی بجائے  باب صلوٰۃ الکسوف رکھتے۔

بعض علماء نے لفظ کسوف دونوں جگہ استعمال کیا ہے سورج گرہن میں بھی چاند گرہن میں بھی، اسی طرح بعض حضرات نے لفظ خسوف کو بھی دونوں جگہ استعمال کیا ہے۔

سورج گرہن کی نماز بالاتفاق جمہور علماء کے نزدیک مسنون ہے۔ حنفیہ کے نزدیک سورج گرہن کی نماز دو رکعت با جماعت بغیر خطبہ کے ہے۔ چاند گرہن کی نماز میں دو رکعت ہے مگر اس میں جماعت نہیں ہے بلکہ ہر آدمی الگ الگ یہ نماز پڑھے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں جماعت اور خطبہ ہے۔

سورج گرہن کے وقت رسول اللہ کی نماز

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں (ہجرت کے بعد ایک مرتبہ) سورج گرہن ہوا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک منادی والے کو (لوگوں کے درمیان) بھیجا کہ وہ منادی کر دے کہ  الصلوٰۃ جامعۃ یعنی نماز جمع کرنے والی ہے چنانچہ (جب لوگ جمع ہو گے تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم آگے بڑھے اور دو رکعت نماز پڑھائی جن میں چار رکوع کئے اور چار سجدے کئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  (جتنے طویل رکوع اور سجدے میں نے اس دن نماز خسوف میں کئے) اس سے زیادہ طویل میں نے نہ کبھی رکوع کیا اور نہ کبھی سجدہ کیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 نماز خسوف میں لوگوں کو جمع کرنے کے لیے  الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا سنت ہے خاص طور پر جب کہ لوگ اس نماز کے لیے جمع نہ ہوئے ہوں۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ نماز جماعت کے ساتھ جامع مسجد میں یا عید گاہ میں پڑھی جائے نیز یہ نماز اوقات مکروہہ میں نہ پڑھی جائے۔

فصلی اربع رکعات الخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار رکوع اور چار سجدے کئے یعنی ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کئے لیکن امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک میں دوسری نمازوں کی طرح اس نماز میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع ہے ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن سے ایک ہی رکوع کرنا ثابت ہے بلکہ اس باب میں ایک حدیث قولی بھی منقول ہے اور یہ کلمہ ہے کہ جہاں قول اور فعل ثابت ہوتے ہیں تو فعل پر قول کو ترجیح دی جاتی ہے۔

نماز خسوف کی قرأت

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز خسوف یعنی چاند گرہن کی نماز میں قرأت بآواز بلند پڑھی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

سورج گرہن کا حقیقی سبب

اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے ساتھ (اس طرح) نماز پڑھی کہ سورہ بقرہ کی قرائت کی بقدر طویل قیام فرمایا (یعنی اتنی دیر تک قیام میں کھڑے رہے جتنی دیر تک سورہ بقرہ پڑھی جا سکتی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع کیا، رکوع بھی اتنا طویل تھا، رکوع سے سر اٹھایا اور بڑی دیر تک کھڑے رہے لیکن یہ قیام پہلے قیام سے کم تھا، پھر (دوبارہ) رکوع کیا، یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر کھڑے ہوئے اور سجدہ کیا، پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے اور بہت طویل قیام کیا مگر یہ قیام پہلی رکعت کے قیام سے کم تھا، پھر رکوع میں گئے یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر کھڑے اور دیر تک کھڑے رہے مگر یہ قیام پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع میں گئے یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم پھر کھڑے ہوئے اور سجدہ کیا اس کے بعد (یعنی التحیات اور سلام کے بعد) نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سورج اور چاند اللہ کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں! یہ نہ کسی مرنے کی وجہ سے گرہن ہوتے ہیں اور نہ کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے جب تم یہ دیکھو کہ (یہ گرہن میں آ گئے ہیں) تو اللہ کی یاد میں مشغول ہو جاؤ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! (نماز کے دوران) ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی جگہ سے کسی چیز کو لینے کا ارادہ کیا پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (جب تم نے مجھے کسی چیز کے لینے کیلئے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا تو اس وقت) میں نے جنت کو دیکھا تھا اور اس میں سے خوشہ انگور لینے کا ارادہ کیا تھا، اگر میں خوشہ انگور لے لیتا تو بلا شبہ تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور جب تم نے مجھے پیچھے ہٹے ہوئے دیکھا تھا (اس وقت) میں نے دوزخ دیکھی تھی (اس کی گرمی کے پہنچنے کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیا تھا) چنانچہ آج کے دن کی طرح کسی دن میں نے ایسی ہو لناک جگہ کبھی نہیں دیکھی اور دوزخ میں میں نے زیادہ عورتیں ہی دیکھی ہیں۔  صحابہ کرام نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! کس وجہ سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ان کے کفر کی وجہ سے  صحابہ کرام نے عرض کیا کہ  کیا عورتیں اللہ کے کفر میں مبتلا ہیں۔ ؟فرمایا  نہیں بلکہ وہ شوہروں کی نعمتوں اور احسان کا کفران کرتی ہیں (یعنی شوہروں کی ناشکر و نا فرمائی کرتی ہیں اور کسی کا احسان نہیں مانتیں) چنانچہ تم ان میں سے کسی کے ساتھ مدتوں تک بھلائی کرتے رہو مگر جب کبھی وہ کسی چیز کو اپنی مرضی کے خلاف پائے گی تو یہی کہے گئے کہ میں نے کبھی تمہارے یہاں بھلائی نہیں دیکھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 آیتان من ایت اللہ کا مطلب یہ ہے کہ  سورج و چاند اللہ کی الوہیت اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے اس بات کی دو نشانیاں ہیں کہ یہ دونوں رب قدوس کے تابعدار اور فرمانبردار پیدا کئے گئے ہیں انہیں اپنی طرف سے کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت تو کیا ہوتی ہے ان میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ اپنے اندر کسی قسم کے پیدا ہوئے نقصان اور عیب کو ختم کر سکیں۔ لہٰذا کیسے بد عقل و کند فہم اور کور بخت ہیں وہ لوگ جو اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہوئے چاند و سورج کو معبود قرار دیتے ہیں ان کے سامنے اپنی پیشانی جھکاتے ہیں؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل جاہلیت کے اس عقیدہ کو ختم فرمایا کہ کس عظیم حادثہ مثلاً کسی بڑی آدمی کے مرنے اور وباء عام یعنی قحط وغیرہ کی وجہ سے سورج و چاند گرہن میں آتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آگاہ فرمایا کہ یہ خیالات باطل اور اعتقادات فاسد ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ ان دونوں کو گرہن میں مبتلا کر کے صرف اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔

فاذکروا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ چاند و سورج گرہن کے وقت اگر نماز کے وقت مکروہ نہ ہوں تو کسوف و خسوف کی نماز پڑھو اور اگر اوقات مکروہ ہوں تو پھر نماز نہ پڑھو بلکہ پروردگار کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر نیز استغفار میں مشغول ہو جاؤ۔ لیکن یہ بات جان لو کہ یہ حکم  امر استحبابی کے طور پر ہے وجوب کے طور پر نہیں ہے کیونکہ نماز کسوف و خسوف واجب نہیں ہے۔ بلکہ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک سنت ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے (بھی) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت منقول ہے چنانچہ انہوں نے یہ (بھی) فرمایا ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ میں گئے تو بڑا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہوئے تو (آفتاب) روشن ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (لوگوں کے سامنے) خطبہ ارشاد فرمایا، چنانچہ (پہلے) آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، نہ تو کسی کی موت کی وجہ انہیں گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے چنانچہ جب تم گرہن دیکھو تو خدا سے دعا مانگو، تکبیر کہو اور نماز پڑھو نیز اللہ کی راہ میں خیرات کرو۔ پھر فرمایا کہ اے امت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ! قسم ہے پروردگار کی اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ جب کہ اس کا کوئی بندہ زنا کرتا ہے یا اس کی کوئی بندی زنا میں مبتلاء ہوتی ہے اور اے امت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ! قسم ہے خد اکی، اگر تم لوگ وہ چیز جان لو جو میں جانتا ہوں (یعنی یوم آخرت کی ہولناکی اور پروردگار کا غضب) تو اس میں کوئی شک نہیں تمہارا ہنسنا کم اور تمہارا رونا زیادہ ہو جائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس روایت میں سجدہ کی طولات، خطبہ، دعا، تکبیر، نماز اور خیرات کرنے کا ذکر و حکم اور حدیث کے آخری الفاظ مزید منقول ہیں جب کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ان کا ذکر نہیں ہے۔

 غیرت کے اصل معنی ہیں  اپنے حق میں کسی غیر کی شرکت کو برا جاننا۔ اور اللہ تعالیٰ کی غیرت کا مطلب ہے  اپنے احکام میں بندوں کی نافرمانی اور امرو نہی کے خلاف کرنے کو برا جاننا۔ ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا کوئی بندہ یا اس کی کوئی بندی جب زنا میں مبتلا ہوتی ہے تو اس معاملہ میں تمہیں جتنی غیرت محسوس ہوتی ہے اور ان دونوں سے تمہیں جتنی نفرت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی غیرت اس سے کہیں زیادہ شدید اور اس کی نفرت تمہاری نفرت سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے۔

گرہن کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کیفیت

اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (جب) سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گھبرائے ہوئے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایسا خوف طاری ہوا جیسے قیامت ہو گئی ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں تشریف لائے اور طویل قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی میں نے اس طرح کبھی آپ صلی علیہ و سلم کو (اتنا طویل قیام و رکوع اور سجود) کرے ہوئے نہیں دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ نہ تو کسی کے مرنے کے سبب سے (ظاہر ہوتی) ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے، ہاں اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب تم ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا ذکر کرنے، اس سے دعا مانگنے اور استغفار کرنے میں مصروف ہو جاؤ۔ (صحیح مسلم صحیح البخاری

 

تشریح

 

 الفاظ یخشی ان تکون الساعۃ دراصل راوی نے بطریق تمثیل استعمال کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس موقع پر اس طرح گھبرائے ہوئے اور خوف زدہ تھے جیسا کہ کوئی آدمی قیامت شروع ہو جانے پر گھبرا جائے اور خوف زدہ ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ خوف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ سمجھے ہوں کہ قیامت شروع ہو گئی ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پوری طرح جانتے تھے کہ جب تک کہ میں لوگوں میں موجود ہوں قیامت نہیں آسکتی۔

بہر حال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کی نشانیوں کے ظہور مثلاً سورج و چاند گرہن، زلزلے، آندھی و طوفان اور چمک و کڑک کے وقت جو گھبراتے اور ڈرتے تھے تو اس میں صرف زمین کے اوپر بسنے والے انسانوں کی شفقت کا جذبہ کار فرما تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذات کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا والوں کی طرف سے خوف زدہ ہو جایا کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنے دامن میں دنیا والوں کی تباہی و بربادی کا پیغام نہ لیے ہو اور اس صورت میں لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہو جائے۔

وقال ھذہ الا یات کا مطلب یہ ہے کہ چاند و سورج گرہن ہو نا، زلزلوں اور آندھی اور طوفانوں کا آنا اور بجلی کی کڑک وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور انسانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو میں تغیر حالت، قسمت کے چھین لینے اور عذاب نازل کرنے پر کیسا قادر ہوں؟

نماز کسوف میں رکوع و سجود کی تعداد

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا سورج گرہن ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو چھ رکوع اور چار سجدے کے ساتھ نماز پڑھائی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت ابراہیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صاحبزادے تھے جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ٨ھ میں پیدا ہوئے تھے اور ١٠ ھ میں حالت شیر خوارگی میں وفات پا گئے تھے، ان کی عمر صرف اٹھارہ مہینے یا اس سے کچھ زیادہ ہوئی تھی۔ جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن سورج کو گرہن لگا۔ چنانچہ لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن ان کی وفات ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تردید فرمائی جیسا کہ گذشتہ روایتوں میں معلوم ہو چکا ہے۔

 چھ رکوع اور چار سجدے کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں تین تین رکوع اور دو دو سجدے کئے۔ جیسا کہ اس باب کی احادیث میں اس نماز کے رکوع کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نے ان احادیث کو ترجیح دی ہے جن میں ہر رکعت میں صرف ایک رکوع کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اصل یہی ہے کہ ہر رکعت میں ایک رکوع ہو بلکہ اس بارے میں قولی اور فعلی دونوں طرح کی احادیث منقول ہیں۔ پھر یہ کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مستدل روایت کے علاوہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دوسرے اکثر اہل علم حضرات کے یہاں یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر گرہن دیر تک رہے تو یہ جائز ہے کہ ہر رکعت میں تین یا چار یا پانچ رکوع بھی کئے جا سکتے ہیں۔

 

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سورج گرہن کے وقت دو رکعت نماز آٹھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ اس طرح پڑھائی کہ ہر رکعت میں چار چار رکعت اور دو دو سجدے کئے) اور اسی طرح حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی منقول ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 وعن علی مثل ذلک کا مطلب یہ ہے کہ یا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح نماز ادا فرمائی یا پھر یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے بھی اس طرح نماز ادا فرمائی۔

سورج گرہن کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ

اور حضرت عبدالرحمن ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ حیات میں اپنے تیروں سے تیر اندازی کیا کرتا تھا چنانچہ ایک دن میں تیر اندازی میں مشغول تھا) کہ سورج گرہن ہوا، میں نے تیروں کو پھینک دیا اور (دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ سورج گرہن ہونے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کیا حالت ہوتی ہے (یعنی یہ دیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کیا کرتے ہیں؟) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ  (یہ سوچ کر) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا (میں نے سنا کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سبحان اللہ لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد اللہ پڑھنے اور دعا مانگنے لگے، یہاں تک سورج گرہن سے نکل آیا۔ جب سورج سے ظلمت دور ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا فرمائی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی دو رکعتیں پڑھیں جن میں دو سورتوں کی قرأت کی)۔ یہ حدیث صحیح مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں عبدالرحمن ابن سمرہ سے نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں بھی (یہ روایت) اسی طرح (عبدالرحمن ابن سمرہ سے) منقول ہے اور مصابیح کے نسخوں میں یہ روایات جابر ابن سمرہ سے نقل کی گئی ہے۔

 

تشریح

 

وھو قائم فی الصلوۃ کا مطلب یہ ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے نماز کے سے انداز قبلہ کی طرف رخ کئے ہوئے کھڑے تھے اور لوگ صف باندھے کھڑے تھے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ یہاں  صلوٰۃ یعنی نماز سے مراد  دعا  ہے۔ یہ تاویل اس لیے کی جاتی ہے کہ یہ کسی بھی مسلک سے معلوم نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورج گرہن کے وقت حالت نماز میں اذکار کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، نماز کسوف کے رکوع کی تعداد کے بارے میں مختلف احادیث مروی ہیں چنانچہ جن روایتوں سے ہر رکعت میں کئی کئی رکوع کا اثبات ہوتا ہے۔ وہ سب مضطرب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں خود راوی بھی مضطرب ہیں کہ بعض نے تین تین رکوع بیان کئے ہیں، بعض نے چار چار رکوع اور بعض نے پانچ رکوع تک کی تعداد اور روایت کی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ اضطراب موجب ضعف ہوتا ہے لہٰذا روایتوں کا ترک کرنا واجب ہوا جو تعداد رکوع کو ثابت کرتی ہیں اسی لیے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں روایات کو اپنا مستدل قرار دیا ہے۔ جن سے ہر رکعت میں ایک ایک رکوع کرنا ثابت ہے۔

سورج گرہن میں غلام آزاد کرنا چاہیے

اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری)

نماز کسوف کی قرار بآواز بلند ہو یا آہستہ آواز سے ؟

حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں سورج گرہن کے وقت (اس طرح) نماز پڑھائی (کہ) ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز نہیں سنتے تھے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد و، سنن نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 یہ حدیث اور اسی قسم کی اور احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز کسوف میں امام بآواز بلند قرأت نہ کرے چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم نیز دوسری کتابوں میں ایسی روایات بھی منقول ہیں کہ جن سے نماز کسوف کی قرأت کا بآواز بلند ہونا ثابت ہوتا ہے۔ روایات کے اس تعارض کے پیش نظر حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب

روایتوں میں تعارض پیدا ہوا تو ان روایتوں کو ترجیح دینا ضروری ہوا جن سے قراء کا بآواز آہستہ ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ دن کی نماز میں قرأت کا بآواز آہستہ ہونا اصل ہے۔

کرشمہ خداوندی کے ظہور کے وقت سجدہ

اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (جب) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے فلاں زوجہ مطہرہ (یعنی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) انتقال فرما گئیں (تو) وہ (اس عظیم حادثہ کی خبر سنتے ہی) سجدہ میں گر پڑے (یا یہ کہ انہوں نے نماز پڑھی) ان سے پوچھا گیا آپ اس وقت سجدہ (کیوں) کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ  جب تم کوئی نشانی (یعنی کرشمہ خداوندی) دیکھو تو سجدہ کرو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کی دائمی جدائی سے زیادہ بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے؟ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ اس وقت بلا سبب سجدہ کیوں کرتے ہیں جب کہ بلا وجہ سجدہ کرنا ممنوع ہے؟ اس کا جواب انہوں نے دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ  جب تم بلاؤں اور مصبیتوں کے آنے کی صورت میں اللہ کے کرشموں میں سے جن کہ ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے کوئی کرشمہ دیکھو تو بارگاہ خداوندی میں فوراً سجدہ ریز ہو جاؤ اور ظاہر ہے کہ اللہ کا کون سا کرشمہ اس سے زیادہ ڈرانے والا عظیم اور سخت تر ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات اس دنیا سے رخصت ہو جائیں، کیونکہ ان مقدس ماؤں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجیت میں ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے انتہائی ارتباط و اختلاط کی وجہ سے جو عظمت و فضیلت حاصل تھی دوسروں کو حاصل نہیں تھی۔ لہٰذا جس طرح ان کی حیات دنیا اور دنیا والوں کے لیے امن و برکت کے سبب کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو جانے کے خوف کا باعث ہے اس لیے ان کی برکت کے منقطع ہو جانے کے وقت اللہ کی یاد میں مشغول اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہو جانا ہی بہتر ہے کہ اللہ کے ذکر اور سجدہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا عذاب دفع ہو جائے۔

علماء لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد  فاسجدوا  (سجدہ کرو) کا مطلب یہ ہے کہ  نماز پڑھو جب کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد سے صرف سجدہ کرنا ہی مراد ہے۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  ارشاد نبوی میں لفظ  آیۃ مطلق ہے اس لیے اس کو اگر چاند و سورج گرہن پر محمول کیا جائے تو سجدہ سے نماز مراد ہو گی اگر اس کے علاوہ دوسری نشانیوں مثلاً طوفان آندھی یا زلزلہ وغیرہ پر اطلاق کیا جائے تو پھر سجدہ سے سجدہ ہی مراد ہو گا اگرچہ اس صورت میں بھی نماز مراد لی جا سکتی ہے کیونکہ یہ منقول ہے کہ جب ایسی کوئی صورت پیش آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے لگتے تھے۔

حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ منقول ہے کہ سخت طوفان، آندھی اور ظلمت چھا جانے کے وقت نماز پڑھنا ہی اچھا ہے۔ حضرت عبداللہ

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ انہوں نے بصرہ میں زلزلہ کے وقت نماز پڑھی تھی۔

نماز کسوف کے رکوع و سجدہ اور تلاوت

رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو (اس میں بھی) طویل سورتوں میں سے ایک سورۃ کی قرأت فرمائی اور پانچ رکوع و دو سجدے کئے پھر اسی طرح (یعنی بہت دیر تک) قبلہ رخ بیٹھے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آفتاب روشن ہو گیا۔ (ابوداؤد)

حنفیہ کی مستدل حدیث

اور حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو دو رکعت نماز پڑھنی شروع کی) یعنی دو رکعت نماز پڑھ کر دیکھتے اگر گرہن ختم نہ ہوتا تو پھر دو دو رکعت نماز پڑھتے اسی طرح گرہن تک نماز پڑھتے رہے) اور (اللہ تعالیٰ سے یہ دعا) مانگتے (کہ یا اللہ آفتاب روشن کر دے یا یہ کہ ہر دو دو رکعت کے بعد لوگوں سے گرہن کے بارے میں پوچھتے کہ گرہن ختم ہوا یا نہیں ؟ اگر لوگ کہتے کہ ابھی گرہن باقی ہے تو پھر نماز میں مشغول ہو جاتے) جہاں تک کہ آفتاب روشن ہو گیا۔ (ابوداؤد) اور سنن نسائی کی روایت ہے کہ  جب سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی جس میں رکوع و سجدہ کرتے تھے  سنن نسائی کی ایک دوسری روایت کے لفاظ یہ ہیں کہ  ایک روز جب کہ سورج کو گرہن ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عجلت کے ساتھ مسجد میں تشریف لائے اور نماز پڑھی یہاں تک کہ آفتاب روشن ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  زمانہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ زمین پر رہنے والے بڑے آدمیوں میں سے کسی بڑے آدمی کے مر جانے کی وجہ سے سورج اور چاند کو گرہن لگتا ہے، حالانکہ (حقیقت یہ ہے کہ) سورج و چاند نہ تو کسی کے مر جانے کی وجہ سے گرہن میں آتے ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے۔ یہ دونوں

محض اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے دو مخلوق ہیں، اللہ جو چاہتا ہے اپنی مخلوق میں تغیر (مثلاً گرہن، روشنی اور اندھیرا) پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا جب ان میں سے کوئی گرہن میں آئے تو تم نماز پڑھنی شروع کر دو یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ظاہر ہو جائے (یعنی عذاب آ جائے یا قیامت شروع ہو جائے)۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

 حدیث کے الفاظ  ہماری نماز کی طرح کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کسوف کی ہر رکعت میں کئی کئی رکوع نہیں کئے بلکہ جس طرح کہ ہم روز مرہ نماز پڑھتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس وقت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں ایک ایک رکوع اور دو دو سجدے کئے۔ یہ حدیث حنیفہ کے مسلک کی دلیل ہیں اس کے علاوہ اور احادیث بھی منقول ہیں جو اس مسئلہ میں حنیفہ کے مسلک کی تائید کرتی ہیں۔