مشکوٰة شر یف

گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان

گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان

لقطہ کے معنی اور اس کا مفہوم

لقطہ لام کے پیش اور قاف کے زیر کے ساتھ یعنی لقطہ بھی منقول ہے اور قاف کے جزم کے ساتھ یعنی لقطہ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ محدثین کے ہاں قاف کے زبر کے ساتھ یعنی لقطہ مشہور ہے۔

لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو کہیں (مثلاً راستہ وغیرہ میں) گری پڑی پائی جائے اور اس کے مالک کا کوئی علم نہ ہو۔ اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی گری پڑی چیز پائی جائے تو اسے (یعنی لقطہ کو) اٹھا لینا مستحب ہے بشرطیکہ اپنے نفس پر یہ اعتماد ہو کہ اس چیز کی تشہیر کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالے کر دیا جائے گا اگر اپنے نفس پر یہ اعماد نہ ہو تو پھر اسے وہیں چھوڑ دینا ہی بہتر ہے لیکن اگر یہ خوف ہو کہ اس چیز کو یوں ہی پڑا رہنے دیا گیا تو یہ ضائع ہو جائے گی تو اس صورت میں اسے اٹھا لینا واجب ہو گا اگر دیکھنے والا اسے نہ اٹھائے گا اور وہ چیز ضائع ہو جائے گی تو وہ گنہگار ہو گا یہ لقطہ کا اصولی حکم ہے اب اس کے چند تفصیلی مسائل ملاحظہ کیجئے۔

لقطہ اس شخص کے پاس بطور امانت رہتا ہے جس نے اسے اٹھایا ہے بشرطیکہ وہ اس پر کسی کو گواہ کر لے کہ میں اس چیز کو حفاظت سے رکھنے یا اس کے مالک کے پاس پہنچا دینے کے لئے اٹھاتا ہوں اس صورت میں وہ لقطہ اٹھانے والے کے پاس سے ضائع ہو جائے تو اس پر تاوان واجب نہیں ہو گا اور اگر اٹھانے والے نے کسی کو اس پر گواہ بنایا اور وہ لقطہ اس کے پاس سے تلف ہو گیا تو اس پر تاوان واجب ہو گا بشرطیکہ لقطہ کا مالک یہ انکار کر دے کہ اس نے وہ چیز مجھے دینے کے لئے نہیں اٹھائی تھی۔

لقطہ جہاں سے اٹھایا جائے اس جگہ بھی اور ان مقامات پر بھی کہ جہاں لوگوں کا اجتماع رہتا ہے اس کی تشہیر کی جائے (یعنی اٹھانے والا کہتا ہے) کہ یہ چیز کس کی ہے؟ اور یہ تشہیر اس وقت تک کی جانی چاہئے کہ جب تک کہ اٹھانے والے کو یقین نہ ہو جائے کہ اب اتنے دنوں کے بعد اس کا مالک مطالبہ نہیں کرے گا لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک مدت تشہیر ایک سال ہے یعنی ان کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ لقطہ کی ایک سال تک تشہیر کی جانی چاہئے اور جو چیز زیادہ دن تک نہ ٹھہر سکتی ہو اس کی تشہیر صرف اسی وقت تک کی جائے کہ اس کے خراب ہو جانے کا خوف نہ ہو۔

مدت تشہیر کے دوران اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے وہ چیز دے دی جائے ورنہ مدت تشہیر گزر جانے کے بعد اس چیز کو خیرات کر دیا جائے اب اگر خیرات کرنے کے بعد مالک آئے تو چاہے وہ اس خیرات کو برقرار رکھے اور اس کے ثواب کا حق دار ہو جائے اور چاہے اس اٹھانے والے سے تاوان لے یا اس شخص سے اپنی چیز واپس لے لے جس کو وہ بطور خیرات دی گئی ہے اور اگر وہ چیز اس کے پاس موجود نہ ہو تو اس سے تاوان لے لے جیسا کہ بطور لقطہ ملے ہوئے جانور کا حکم ہے۔

جانوروں میں بھی لقطہ ہونا جائز ہے یعنی اگر کسی کو کوئی گم شدہ جانور کسی شخص کو مل جائے تو اسے پکڑ لینا اور اس کی تشہیر کر کے اس کے مالک تک پہنچا دینا جائز ہے۔ اس بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر مدت تشہیر کے دوران اس جانور کے کھلانے پلانے پر کچھ خرچ ہوا ہے تو وہ احسان شمار ہو گا یعنی اس کا مطالبہ مالک سے نہیں کیا جائے گا بشرطیکہ وہ خرچ حاکم کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہو۔ اور اگر جانور پکڑنے والے نے اس شرط کے ساتھ کہ اس جانور پر جو کچھ خرچ ہو گا جانور کے مالک سے لے لوں گا۔ حاکم کی اجازت سے اس جانور پر کچھ خرچ کیا تو اس کی ادائے گی مالک پر بطور قرض واجب ہو گی کہ جب وہ مالک اپنا جانور حاصل کرے تو اس کے جانور کو پکڑنے والے نے اس پر کچھ خرچ کیا ہے وہ سب ادا کر دے اس صورت میں لقطہ رکھنے والے کو یہ حق حاصل ہو گا کہ جب تک مالک اسے سارے اخراجات ادا نہ کرے وہ لقطہ کو اپنے پاس روکے رکھے۔

اس سلسلہ میں حاکم و قاضی کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ بطور لقطہ ملنے والی چیز اگر ایسی ہے جس سے منفعت حاصل ہو سکتی ہو جیسے بھاگا ہوا غلام تو اس سے محنت و مزدوری کرائی جائے اور وہ جو کچھ کمائے اسی سے اس کے اخراجات پورے کئے جائیں اور اگر لقطہ کسی ایسی چیز کی صورت میں ہو جس سے کوئی منفعت حاصل نہیں ہو سکتی اور اسکو رکھنے میں کچھ خرچ کرنا پڑتا ہو جیسے جانور تو قاضی اس کے اخراجات پورے کرنے کی اجازت دے دے اور یہ طے کر دے کہ اس پر جو خرچ ہو گا وہ مالک سے وصول کر لیا جائے گا۔ بشرطیکہ اس میں مالک کے لئے بہتری ہو اور اگر قاضی یہ دیکھے کہ اس صورت میں مالک کو بجائے فائدہ کے نقصان ہو گا تو پھر اس چیز کو فروخت کرا دے اور اس کی قیمت کو رکھ چھوڑے تاکہ جب مالک آ جائے تو اسے دے دی جائے۔

اگر کسی شخص کے پاس کوئی لقطہ ہو اور وہ اس کی علامات بتا کر اپنی ملکیت کا دعوی کرے تو وہ لقطہ اسے دے دینا جائز ہے اس صورت میں گواہوں کا ہونا ضروری نہیں ہو گا ہاں اگر وہ علامات نہ بتا سکے تو پھر گواہوں کے بغیر وہ لقطہ اسے نہیں دینا چاہئے اگر لقطہ پانے والا کوئی مفلس ہے تو مدت تشہیر ختم ہو جانے کے بعد وہ خود اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور اگر وہ خود مالدار ہے تو پھر اسے خیرات کر دے۔ اس بارے میں اسے یہ اجازت ہو گی کہ اگر وہ چاہے تو اپنے اصول یعنی ماں باپ اور اپنے فروع یعنی بیٹا بیٹی اور بیوی کو بطور خیرات وہ لقطہ دے دے بشرطیکہ یہ لوگ مفلس و ضرورت مند ہوں۔ بھاگے ہوئے غلام کو پکڑ لینا اس شخص کے لئے مستحب ہے جو اس کو پکڑنے کی طاقت رکھتا ہو اسی طرح اس غلام کو بھی اپنے پاس رکھ لینا مستحب ہے جو راستہ بھول جانے کی وجہ سے بھٹک رہا ہو۔ اگر کسی کا کوئی غلام بھاگ جائے اور تین دن کی مسافت یا اس سے زیادہ دور سے کوئی شخص اسے پکڑ کر اس کے مالک کے پاس پہنچا دے تو وہ لانے والا اس بات کا مستحق ہو گا کہ غلام کے مالک سے اپنی مزدوری کے طور پر چالیس درہم وصول کرے گا اگرچہ وہ غلام چالیس درہم سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ لانے والے نے اس بات پر کسی کو گواہ بنا لیا ہو کہ میں اس غلام کو اس لئے پکڑتا ہوں تاکہ اسے اس کے مالک کے پاس پہنچا دوں۔ اور اگر کوئی شخص بھاگے ہوئے غلام کو اس کے مالک کے پاس تین دن کی مسافت سے کم دوری سے لایا ہو تو اسی حساب سے اجرت دی جائے گی۔ مثلاً ڈیڑھ دن کی مسافت کی دوری سے لایا ہے تو اسے بیس درہم دئیے جائیں گے اور اگر وہ غلام اس شخص سے بھی چھوٹ کر بھاگ گیا جو اسے پکڑ کر لایا تھا تو اس پر کوئی تاوان واجب نہیں ہو گا۔ بشرطیکہ اس نے کسی کو گواہ بنا لیا ہو اور اگر گواہ نہ بنایا ہو گا تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ اسے کوئی اجرت نہیں ملے گی بلکہ اس پر تاوان بھی واجب نہیں ہو گا۔

بے وارث بچے کو اٹھانے کا مسئلہ

لقیط (یعنی بے وارث بچہ) اگر کہیں پڑا ہوا ملے تو اسے اٹھا لینا مستحب ہے اور اگر اس کے ہلاک ہو جانے کا خوف ہو تو پھر اسے اٹھانا واجب ہو گا۔ ایسا بچہ جب تک مملوک غلام ہونا ثابت نہ ہو حر (یعنی آزاد ہے) لقیط کا نفقہ اور اس کا خون بہا بیت المال کے ذمہ ہو گا۔ اسی طرح اس کی میراث بھی بیت المال کی تحویل میں رہے گی۔ جس شخص نے لقیط کو اٹھا لیا ہے اس سے کسی اور کو لینے کا اختیار نہیں ہو گا اگر کسی شخص نے یہ دعوی کیا کہ یہ میرا بچہ ہے تو قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہو گا اور اس بچہ کا نسب اس سے ثابت ہو جائے گا۔ اور اگر دو آدمی ایک ساتھ اس کا دعوی کریں تو اس کو لینے کا زیادہ حقدار وہ شخص ہو گا جو اس بچہ کے بدن میں کوئی علامت بتائے اور دیکھنے میں وہ علامت موجود پائی جائے مثلاً وہ یہ بتائے کہ اس کی پیٹھ پر مسہ ہے اور پھر جب دیکھا جائے تو اس کی پیٹھ پر مسہ موجود ہو۔ اگر کوئی غلام یہ دعوی کرے کہ یہ لقیط میرا لڑکا ہے تو اس کا دعوی صحیح تسلیم کیا جائے گا لیکن وہ بچہ مسلمان رہے گا بشرطیکہ وہ مسلمانوں کی آبادی یا مسلمانوں کے محلہ میں ملا ہو اور اگر وہ ذمیوں کی بستی میں یا ان کے محلہ میں یا انکے گرجا و مندر میں ملا ہو گا تو اس صورت میں وہ ذمی رہے گا۔ اگر لقطی کے ساتھ بندھا ہوا کچھ مال یا اس کے جسم پر کوئی زیور وغیرہ ملے تو اسے قاضی کے حکم کے بعد لقیط ہی پر خرچ کیا جائے گا اگرچہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قاضی کے حکم و اجازت کے بغیر بھی اس کے مال کو اس پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ صحیح قول کے مطابق اٹھانے والے کے لئے یہ تو جائز ہے کہ وہ اس لقیط کو کوئی پیشہ سیکھنے کے لئے کسی پیشہ ور کے سپرد کر دے مگر اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کا نکاح کر دے یا اس کے مال میں تصرف کرے اور یا اس سے محنت و مزدوری کرائے۔

 

 لقطہ کے کچھ متفرق مسائل

مسئلہ: فرض کیجئے ایک شخص نے کسی جگہ اپنے جوتے اتار کر رکھے، ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی اپنے جوتے اتار کر وہیں رکھ دئیے۔ اب پہلا شخص جب وہاں سے چلا تو اپنے جوتے پہننے کی بجائے اس دوسرے شخص کے جوتے پہن لئے اور چلا گیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں وہ دوسرا شخص کیا کرے کیا اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ پہلے شخص کے جوتے لے لے؟ اس بارے میں مختار مسئلہ یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے بشرطیکہ اس پہلے شخص کے جوتے کی مانند ہوں یا اس کے جوتے سے بہتر ہوں ہاں اگر وہ جوتے اس کے جوتے سے خراب ہوں تو پھر ان کو استعمال کرنا بلاشبہ جائز ہو گا۔

 

مسئلہ

 جو شخص کسی دوسرے کی گری پڑی چیز پاتا ہے اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ چیز اتنی کمتر ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں پانے والا یہ جانتا ہے کا اس کا مالک اس کا مطالبہ نہیں کرے گا جیسے ادھر ادھر پڑی ہوئی گٹھلیاں وغیرہ یا متفرق جگہوں پر پڑے ہوئے انار کے چھلکے وغیرہ ایسی چیز کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اٹھانے والا اس کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے باوجودیکہ وہ اس کی ملکیت میں نہیں آتی اور اسے مالک کو لینے کا حق پہنچتا ہے لیکن شیخ السلام کا قول یہ ہے کہ ایسی چیز لینے والے کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔ گری پڑی ملنے والی چیز کی دوسری قسم ایسا مال ہے جس کے بارے میں پانے والا جانتا ہے کہ اس کا مالک اس کا مطالبہ کرے گا جیسے سونا چاندی وغیرہ اور دیگر تمام اشیاء ایسی چیز کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر اس قسم کی کوئی چیز گری پڑی نظر آئے تو اسے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا جائے اور اس کی تشہیر کرائی جائے یہاں تک کہ وہ چیز اس کے مالک کے پاس پہنچا دی جائے۔

 

مسئلہ

 اگر کوئی شخص ایک روٹی یا ایک روٹی کے بقدر کھانے کی کوئی چیز اور یا اس سے کم پائے تو اسے فراخی کی حالت میں بھی کھا لینا جائز ہے۔

 

مسئلہ

 اگر کسی چکی میں گیہوں پسوایا جائے اور اس کے آٹے میں وہ آٹا مل جائے جو عام طور پر چکی میں باقی رہ جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح اگر کسی کی جھاڑو میں سے کوئی تنکا دانتوں میں خلال کرنے کے لئے لیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے

 

مسئلہ

 سرائے میں مسافروں کے جو جانور لیدر وغیرہ کرتے ہیں وہ ان جانوروں کے مالک کے چلے جانے کے بعد اس شخص کی ملکیت ہو جاتے ہیں جو انہیں پہلے اٹھائے سرائے کے مالک یا منتظم کی ملکیت میں نہیں آتے۔

کوئی شخص گری پڑی چیز پائے تو وہ کیا ہے؟

حضرت زید بن خالد کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لقطہ کے بارے میں پوچھا (کہ اگر کوئی گری پڑی چیز پائی جائے تو کیا کیا جائے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پہلے تو اس کا ظرف پہچان لو یعنی اگر وہ چیز کسی کپڑے یا چمڑے کے تھیلے وغیرہ میں ہے تو اسے شناخت میں رکھو) اور اس کا سر بند بھی پہچانے رہو پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو ایک سال کی مدت میں اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ چیز اس کے حوالہ کر دو اور اگر وہ نہ آئے تو پھر اسے اپنے استعمال میں لے آؤ۔ پھر اس شخص نے گمشدہ بکری کے بارے میں پوچھا کہ اگر کسی کی گم شدہ بکری کوئی شخص پکڑ لائے تو اس کا کیا کرے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے اور یا بھیڑئیے کی ہے اس کے بعد اس شخص نے پوچھا کہ گمشدہ اونٹ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہیں اس سے کیا مطلب ہے (یعنی اسے نہ پکڑو کیونکہ وہ ضائع ہونے والی چیز نہیں ہے اس لئے اس کو پکڑ کر لانے کی ضرورت نہیں) اس کی مشک اور اس کے موزے اس کے ساتھ ہیں کہ وہ جب تک اپنے مالک کے پاس نہ پہنچے پانی تک جا سکتا ہے اور درخت کے پتے کھا سکتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ جب اس شخص نے لقطہ کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی تشہیر کرو اور اس کا سر بند اور ظرف تھیلا وغیرہ پہچانے رکھو (اس مدت تشہیر میں اگر اس کا مالک نہ آئے) تو پھر اسے اپنے استعمال میں لے آؤ اور اگر اس کے بعد اس کا مالک آ جائے تو اس کی وہ چیز بشرطیکہ تمہارے پاس جوں کی توں موجود ہو) دے دو اور نہ اس کی قیمت ادا کر دو۔

 

تشریح

 

 ابن مالک کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس چیز کا ظرف اور سربند پہچان لینے کا حکم اس لئے دیا تا کہ جو شخص اس چیز کی ملکیت کا دعوی کرے اس پہچان کی وجہ سے اس کا سچا یا جھوٹا ہونا معلوم ہو جائے۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ اگر کوئی شخص لقطہ اٹھانے والے کے پاس آئے اور اپنا ظرف اور اس کا سربند پہچان کر اس لقطہ کے مالک ہونے کا دعوی کرے تو وہ لقطہ اسے دے دینا واجب ہے یا نہیں؟ چنانچہ امام مالک اور امام احمد تو یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں وہ لقطہ اسے کسی گواہی کے بغیر ہی دے دینا واجب ہے کیونکہ ظرف اور اس کے سربند کی پہچان رکھنے کا یہی مقصد ہے لیکن امام شافعی اور حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص لقطہ کا ظرف اور اس کا سربند پہچان لے اور اس لقطہ کا وزن یا عدد بتا دے نیز لقطہ اٹھانے والے کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ شخص سچا ہے تب وہ لقطہ اس شخص کو دے دینا جائز تو ہے لیکن وہ شخص گواہوں کے بغیر لقطہ اٹھانے والے کو دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ ظرف اور سربند کی پہچان رکھنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس کی وجہ سے وہ لقطہ اٹھانے والے کے مال میں اس طرح خلط ملط نہیں ہو جائے گا کہ جب لقطہ کا مالک آئے تو وہ اپنے مال و اسباب اور اس لقطہ کے درمیان امتیاز نہ کر سکے۔

ثم عرفہا (پھر اس کی تشہیر کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ وہ لقطہ پایا گیا ہے نہ صرف وہاں بلکہ بازاروں اور مسجدوں میں اور فلاں کے پاس پہنچ کر اس چیز کی تفصیل و علامات بیان کر کے لے جائے۔ مدت تشہیر کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام محمد تو حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے لئے ایک سال کی مدت متعین ہے یعنی لقطہ کی ایک سال تک تشہیر کرانی چاہئے، لیکن صحیح تر روایت کے مطابق حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف کا قول یہ ہے کہ مدت متعین کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ حدیث میں ایک سال کا ذکر باعتبار غالب کے بر سبیل اتفاق ہے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حدیث میں ایک سال کی مدت اگر اتفاقی طور پر ذکر کی گئی ہے۔ اور متعین طور پر مذکور نہیں ہے تو پھر تشہیر کی کیا مدت متعین کی جائے؟اس کی وضاحت ہدایہ نے امام ابو حنیفہ کی ایک روایت کے مطابق یوں کی ہے کہ اگر لقطہ دس درہم سے کم قیمت کا ہو تو اس کی تشہیر چند دن تک کرنا کافی ہے اگر دس درہم کی مالیت کا ہو تو ایک مہینہ تک تشہیر کی جائے اور وہ سو درہم کی مالیت کا ہو پھر ایک سال تک تشہیر کی جائے۔

بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ مالیت کی مذکورہ بالا مقدار کی جو مختلف مدتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے لازم کوئی بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ لقطہ اٹھانے والے کی رائے پر موقوف ہے کہ کہ وہ لقطہ کیا اس وقت کی تشہیر کرے جب تک کہ اسے یہ غالب گمان نہ ہو جائے کہ اب کوئی نہیں آئگا اور اس مدت کے بعد اس لقطہ کو طلب نہیں کرے گا۔ ان علماء کی دلیل مسلم کی وہ روایت ہے کہ جس میں لفظ سنۃ ایک سال کی قید کے بغیر صرف عرفہا اس کی تشہیر کی جائے) منقول ہے۔

لقطہ اگر کسی چیز کی صورت میں ہو جو زیادہ دنوں تک نہ ٹھہر سکتی ہو اور موسمی حالات کے تغیر و تبدل سے متاثر ہوتی ہو جیسے کھانے کی کوئی چیز یا پھل وغیرہ تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس تشہیر اسی وقت تک کی جائے جب تک کہ وہ خراب نہ ہو اور اگر لقطہ کوئی بہت ہی حقیر و کمتر چیز ہو جیسے گٹھلی اور انار کا چھلکا وغیرہ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کی تشہیر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اسے بغیر تشہیر و اعلان استعمال کر لینے کی اجازت ہے مگر اس کے مالک کو یہ حق حاصل ہو گا کہ اگر وہ چاہے تو اپنی اس چیز کا مطالبہ کرے۔

(فان جاء صاحبہا والا فشانک بہا) کا مطلب یہ ہے کہ لقطہ کی تشہیر کے بعد اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے وہ لقطہ دے دیا جائے اگر اس مالک کے ساتھ گواہ بھی ہوں جو اس کے دعوی کی ملکیت کی گواہی دیں تو لقطہ اٹھانے والے پر یہ واجب ہو گا کہ وہ اسے لقطہ دے دے اور اگر گواہ نہ ہوں گے تو پھر دے دینا واجب نہیں جائز ہو گا جیسا کہ اوپر اس کی وضاحت کی گئی۔ اور اگر مدت تشہیر گزر جانے کے بعد اس لقطہ کا مالک نہ آئے تو پھر لقطہ اٹھانے والا اس لقطہ کو اپنے استعمال میں لے آئے۔ اس سے گویا یہ معلوم ہوا کہ لقطہ اٹھانے والا اصل مالک کے نہ آنے کی صورت میں اس لقطہ کا خود مالک بن جاتا ہے خواہ وہ مالدار ہو یا مفلس ہو چنانچہ اکثر صحابہ اور حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن بعض صحابہ کا قول یہ ہے کہ اگر لقطہ اٹھانے والا خود مالدار ہو تو وہ اس لقطہ کا مالک نہیں بنتا بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اس لقطہ کو فقراء و مساکین کو بطور صدقہ دے دے چنانچہ حضرت ابن عباس سفیان ثوری ابن المبارک اور حنفیہ کا یہی قول ہے نیز اس بارے میں یہ بھی حکم ہے کہ اگر صدقہ کر دینے کے بعد مالک آئے تو اسے یہ اختیار ہو گا کہ چاہے تو وہ اس صدقہ کو برقرار رکھے اور اس کے ثواب کا حصہ دار بن جائے اور چاہے تو لقطہ اٹھانے والے یا اس مفلس سے کہ جس کو وہ لقطہ بطور صدقہ دے دیا گیا تھا تاوان لے لے بشرطیکہ وہ چیز ہلاک وضائع ہو گئی ہو۔ لیکن ان دونوں میں سے جو بھی تاوان دے گا وہ دوسرے سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتا یعنی اگر لقطہ اٹھانے والے نے تاوان دیا تو اسے مفلس سے کوئی مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہو گا اور اگر مفلس سے تاوان لیا تو وہ لقطہ اٹھانے والے سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ لقطہ ہلاک و ضائع نہ ہوا ہو بلکہ جوں کا توں موجود ہو تو وہی لے لے گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ مالک کو تاوان لینے کا حق اسی صورت میں پہنچے گا جب کہ وہ لقطہ ہلاک و ضائع ہو گیا ہو اور اگر وہ ہلاک و ضائع نہ ہوا ہو تو پھر وہی لینا ہو گا۔ شرح وقایہ کے بعض حاشیوں میں نہایہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ تشہیر کے بعد لقطہ کو صدقہ کر دینا جائز ہے لیکن اسے رکھ چھوڑنا عزیمت ہے۔ ہی لک (وہ تمہاری ہے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بکری بطور لقطہ تم نے پکڑی اور پھر تم نے اس کی تشہیر کی جس کے نتیجہ میں اس کا مالک آگیا تو وہ تم سے لے لے گا لیکن اگر تشہیر کے بعد مالک نہ آیا تو پھر وہ بکری تمہاری ہو جائے گی تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اسی طرح (ولاخیک الا) الخ یا تمہارے بھائی کی ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وہ بکری پکڑی لی اور اس کا مالک آگیا تو وہ اسے لے لے گا اور اگر تم نے نہ پکڑی اور مالک کے ہاتھ لگ گئی تب بھی وہ لے لے گا یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وہ بکری نہ پکڑی تو تمہارے بجائے کوئی اور تمہارا مسلمان بھائی اسے پکڑ لے گا اور اگر ان میں سے کوئی بھی صورت نہ ہوئی تو پھر بھیڑیا اس بکری کو پکڑ لے گا گویا اس ارشاد کا مقصد اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ اگر کوئی بکری بطور لقطہ ملے تو اسے پکڑ لینا اور مالک کے نہ آنے کی صورت میں اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے تا کہ وہ بکری یوں ہی ضائع نہ ہو اور بھیڑیا وغیرہ اسے نہ کھا لے۔ یہی حکم ہر اس جانور کے بارے میں ہے جو اپنے نگہبان یعنی چرانے والے کی عدم موجودگی میں بھیڑئیے کی گرفت میں جانے سے محفوظ نہ رہ سکتا ہو۔

اونٹ کی مشک سے مراد اس کا پیٹ ہے یعنی اونٹ کا پیٹ مشک کی طرح ہوتا ہے جس میں اتنی رطوبت رہتی ہے جو اسکو بہت دنوں تک بغیر پانی کے رکھ سکتی ہے چنانچہ اونٹ کئی روز تک پیاس کو برداشت کر لیتا ہے جب کہ دوسرے جانوروں میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ اس بارے میں مشہور ہے کہ اونٹ پندرہ روز تک اپنی پیاس برداشت کر لیتا ہے۔

اونٹ کے موزے، سے مراد اس کے مضبوط و قوی تلوے ہیں کہ وہ راہ چلنے اور پانی گھاس تک پہنچنے اور درندوں سے اپنے آپ کو بچانے کی خوب طاقت رکھتا ہے۔ گویا اس ارشاد گرامی میں مشک اور موزے کے ذریعہ اونٹ کو اس مسافر سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے ساتھ سامان سفر رکھتا ہے جس کی موجودگی میں اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس معاملہ میں ہر جانور اونٹ کے حکم میں ہے جو اپنے نگہبان یعنی چروا ہے کی عدم موجودگی میں بھیڑئیے وغیرہ کے چنگل میں پھنس کر ضائع و ہلاک نہیں ہوتا جیسے گھوڑا گائے اور گدھا وغیرہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک نے اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ جنگل میں اونٹ اور گائے وغیرہ بطور لقطہ نہیں پکڑے جا سکتے کیونکہ وہاں ان کے ضائع ہو جانے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔ البتہ دیہات اور شہروں میں اگر یہ جانور ملیں تو انہیں بطور لقطہ نہیں پکڑے جا سکتے کیونکہ وہاں ان کے ضائع ہو جانے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا البتہ دیہات اور شہروں میں اگر یہ جانور ملیں تو انہیں بطور لقطہ پکڑنا جائز ہے۔ حنفیہ کے ہاں تمام جانوروں کا التقاط اور تعریف یعنی انہیں بطور لقطہ پکڑنا اور اس کی تشہیر کرنا) لوگوں کے مال کی حفاظت کے پیش نظر ہر جگہ مستحب ہے خواہ جنگل ہو یا آبادی حضرت زید کی اس روایت کے بارے میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں مذکورہ حکم کہ اونٹ کو پکڑنے کی ضرورت نہیں ہے اس زمانہ میں تھا جب کہ امانتدار اور خیر و بھلائی کے حامل لوگوں ہی غلبہ تھا جس کی وجہ سے اگر کسی کا جانور کوئی نہ پکڑتا تھا تو کسی خائن کا ہاتھ ان تک نہیں پہنچتا تھا لیکن اب اس زمانہ میں یہ بات مفقود ہے اور امانت و دیانت کے حامل لوگ بہت ہی کم ہیں اس لئے مخلوق خدا کے مال کی حفاظت کا تقاضا یہی ہے کہ جو جانور جہاں مل جائے اسے بطور لقطہ پکڑ لایا جائے اور اس مالک تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔

لقطہ کو بغیر تشہیر اپنے پاس رکھنا خیانت ہے

اور حضرت زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کی کوئی گم شدہ چیز اٹھا کر رکھ لے تو وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس کی تشہیر نہ کرے (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو شخص کس کی کوئی گم شدہ چیز بطور لقطہ اپنے پاس رکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اس چیز کی تشہیر واعلان کرتا رہے بغیر تشہیر اپنے پاس نہ رکھ چھوڑے کیونکہ یہ خیانت اور گمراہی ہے۔

حنفیہ کے ہاں زمین حل اور زمین حرم کا لقطہ برابر ہے

اور حضرت عبدالرحمن بن عثمان تیمی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع کیا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 گویا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حرم مکہ کی حدود میں پائے جانے والے لقطہ کا تشہیر و اعلان کے بعد بھی مالک ہونا جائز نہیں ہے بلکہ اٹھانے والے کے لئے واجب ہے کہ وہ اسے اپنے پاس اس وقت تک جوں کا توں رہنے دے جب تک کہ اس کا مالک لینے نہ آئے خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے چنانچہ امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن حنفیہ کے مسلک میں زمین حل اور زمین حرم کا لقطہ برابر ہے چنانچہ اس کا بیان  باب حرم  مکہ میں گزر چکا ہے

ویران و غیرآباد زمین کے لقطہ اور برآمد ہونے والے دفینہ کا حکم

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب) سے اور شعیب اپنے دادا یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے درختوں پر لٹکے ہوئے پھلوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ضرورت مند کچھ پھل توڑ کر کھا لے مگر اپنی جھولی میں بھر کر نہ لے جائے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے اور جو شخص کھائے بھی اور جھولی بھر کر لے بھی جائے تو اس پر دو گنا تاوان ہے اور سزا ہے اور جو شخص ان پھلوں میں سے کچھ چرائے جو کھلیان میں رکھے جا چکے ہوں اور وہ چرائی ہوئی مقدار ایک سیر ڈھال کی قیمت کے بقدر ہو تو اس کے لئے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے۔ راوی نے گمشدہ اونٹ اور بکری کے بارے میں اس سوال و جواب کا ذکر کیا جو دوسرے راویوں نے بیان کیا ہے اور جو پہلے گزر چکا ہے اس کے بعد راوی کہتے ہیں کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو لقطہ کسی ایسے راستے پر پایا جائے جس پر آمدورفت رہتی ہو اور گاؤں و آبادی کے قریب ہو تو اس کے بارے میں ایک سال تک تشہیر و اعلان کرو اور پھر جب مالک آ جائے تو وہ لقطہ اس کے سپرد کر دو اور اگر مالک نہ آئے تو وہ لقطہ تمہارا ہے کہ تم اسے اپنے کام میں لا سکتے ہو) اور وہ لقطہ جو ویرانہ قدیم میں پایا جائے اس کا اور زمین سے برآمد ہونے والے دفینے کا حکم یہ ہے کہ اس کا پانچواں حصہ راہ خدا میں دے دیا جائے (نسائی) اور ابو داؤد نے اس روایت کو عمرو بن شعیب سے (وسدل عن اللقطۃ) تک نقل کیا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 ضرورت مند سے مراد یا تو مطلقاً فقیر و مفلس ہے کہ اگرچہ وہ حالت اضطرار میں ہو اور یا اس سے مراد مضطر یعنی وہ شخص مراد ہے جو بھوک کی وجہ سے مرا جا رہا ہو۔ گویا اس کا حاصل یہ ہے کہ ضرورت مند درخت سے بقدر ضرورت پھل توڑ کر کھا لے مگر اپنی جھولی میں بھر کر نہ لے جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ ابن مالک کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص گنہگار تو نہیں ہوتا۔ لیکن اس پر تاوان یعنی اتنے پھل کی قیمت دینا واجب ہوتا ہے یا پھر یہ کہ اس حکم کا تعلق اسلام کے ابتدائی زمانہ سے تھا پھر منسوخ ہو گیا۔ اور اس پر دوگنا تاوان ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص پھل توڑ کر کھائے بھی اور اپنی جھولی میں بھر کر لے بھی جائے تو اس سے اس پھل کی دوگنی قیمت وصول کی جائے گی لیکن ابن مالک فرماتے ہیں کہ حکم بطریق تنبیہ ہے ورنہ مسئلہ یہ ہے کہ اس پھل کی دوگنی قیمت دینا واجب نہیں ہوتا بلکہ صرف اصل قیمت لی جا سکتی ہے۔ اگرچہ حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اسلام کے ابتدائی زمانے کا ہے پھر منسوخ ہو گیا ہے اور سزا ہے میں سزا سے مراد تقدیر  ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ہاں بطور تعزیر کوئی سزا دی جا سکتی ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اس زمانہ میں باغات محفوظ اور گھرے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ جو کھلیان میں رکھے ہوئے اناج وپھل اگر اتنی مقدار میں چرائے جو ایک سیر کی قیمت کے بقدر ہو تو شرعی قانون کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس وقت ایک سیر کی قیمت تین یا چار درہم ہوتی تھی چنانچہ حضرت امام شافعی کے نزدیک چوری کے مال کی وہ مقدار کہ جس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جاتی ہے چار درہم یا اس سے زیادہ مالیت کی ہے۔ لیکن حنفیہ کے مسلک میں ابتدائی دس درہم ہے چنانچہ شمنی نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں سیر کی قیمت دس درہم ہوتی تھی۔

 اور جو لقطہ کسی ایسے راستے پر پایا جائے جو آبادی کے قریب ہونے کی وجہ سے گزر گاہ عام و خاص ہو تو اس کی تشہیر واعلان واجب ہے کیونکہ اس بات کا غالب گمان ہو سکتا ہے کہ وہ کسی مسلمان کا ہو اور جو لقطہ کسی ویرانہ قدیم یعنی کسی ایسے ویران گاؤں یا قدیم وغیرآباد زمین پر پایا جائے جہاں مسلمانوں کی عمارات نہ ہوں اور نہ وہ کسی مسلمان کی ملکیت میں ہوں تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں سے پانچواں حصہ نکال کر اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کر دیا جائے اور بقیہ اپنے استعمال میں لے آیا جائے خواہ وہ لقطہ سونے چاندی کی صورت میں ہو یا ان کے علاوہ کسی اور سامان و زیورات کی شکل میں ہو اسی طرح کسی ویران قدیم سے اگر کوئی دفینہ وغیرہ برآمد ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔

لقطہ استعمال میں آ جانے کے بعد اس کا مالک طلب کرے تو اس کا بدل دینا چاہئے

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہ نے کسی راستہ میں بطور لقطہ ایک دینار پایا حضرت علی اسے حضرت فاطمہ کے پاس لائے اور پھر جب حضرت علی نے اس کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے علی! یہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق ہے پھر اس دینار سے خریدی ہوئی چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی کھایا اور حضرت علی و فاطمہ نے بھی کھایا اس کے بعد جب ایک عورت اپنا دینار ڈھونڈتی ہوئی آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ علی! اس عورت کو دینار دے دو (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 روایت کے مفہوم سے یہ بالکل ظاہر نہیں ہوتا کہ حضرت علی نے تشہیر و اعلان کے بغیر اس دینار کو صرف کیا بلکہ احتمال یہی ہے کہ پہلے انہوں نے اس کی تشہیر کی پھر بعد میں اسے خرچ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو اس عورت کے محض کہنے پر اس کو دینار دلوایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو اس عورت نے اس دینار کی علامت بیان کی ہو گی یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی اور ذریعہ سے علم ہو گیا ہو گا کہ وہ دینار اسی عورت کا تھا۔

لقطہ بری نیت سے نہ اٹھاؤ

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مسلمان کی گم شدہ چیز دوزخ کی آگ کا ایک شعلہ ہے (دارمی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی لقطہ کو اس بدنیتی کے ساتھ اٹھائے کہ میں اس کا مالک ہو جاؤں گا نیز وہ ان احکام کو پورا نہ کرے جو لقطہ کے سلسلہ میں از قسم تشہیر وغیرہ شریعت نے نافذ کئے ہیں تو وہ لقطہ اس شخص کو دوزخ کی آگ کے حوالہ کر دے گا۔

جب لقطہ اٹھاؤ تو کسی کو گواہ بنا لو

اور حضرت عیاض بن حمار کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی جگہ کوئی گری پڑی چیز پائے تو چاہئے کہ وہ کسی عادل شخص کو یا فرمایا کہ دو عادل شخصوں کو گواہ بنا لے اور اس کی تشہیر و اعلان نہ کر کے) اس لقطہ کو چھپائے نہیں اور نہ اسے کسی دوسری جگہ بھیج کر غائب کر دے۔ پھر اگر مالک آ جائے تو وہ لقطہ اس کے حوالے کر دے اور اگر مالک ہاتھ نہ لگے تو پھر وہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے غیب سے مال دیتا ہے (احمد ابو داؤد دارمی)

 

تشریح

 

 جب کوئی شخص لقطہ اٹھائے تو وہ اس وقت کسی کو اس بات پر گواہ بنا لے کہ مجھے یہ چیز بطور لقطہ ملی ہے تا کہ کوئی دوسرا شخص مثلاً مالک نہ تو اس پر چوری وغیرہ کی تہمت لگا سکے اور نہ کمی بیشی کا دعوی کر سکے گواہ بنا لینے میں ایک مصلحت و فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں اس کا نفس حرص و طمع میں مبتلا نہیں ہو گا کیونکہ بغیر گواہ کے یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ نفس بدنیتی میں مبتلا ہو جائے اور یہ سوچ کر کہ جب کوئی گواہ نہیں ہے تو یہ چیز مالک کو دینے کی بجائے خود کیوں نہ رکھ لوں جب کہ گواہ بنا لینے سے نہ صرف یہ کہ طمع نہیں ہوتی بلکہ وہ لقطہ مالک کے حوالہ کرنا یوں بھی ضروری ہو جاتا ہے پھر اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اٹھانے والے کی ناگہانی موت کے بعد اس کے ورثاء اس لقطہ کو اپنی میراث اور ترکہ میں داخل نہیں کر سکتے۔

بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ گواہ بنا لینے کا یہ حکم بطریق استحباب ہے جب کہ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم بطریق وجوب ہے۔ اس حدیث میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے جب کہ اوپر کی حدیث میں اسے اللہ کا دیا ہوا رزق ہے کہا گیا ہے لہذا ان دونوں سے مراد حلال ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مالک کے نہ آنے کی صورت میں وہ لقطہ ایک ایسا حلال مال ہے جس سے وہ شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جسے خدا نے غیب سے دیا ہے۔ ہاں اگر بعد میں مالک آ جائے تو پھر اس کا بدل دینا ہو گا جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

لقطہ کی وہ مقدار جس میں تشہیر و اعلان کی ضرورت نہیں

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں لاٹھی کوڑے رسی اور اسی کی مانند ان چیزوں کے بارے میں کہ جو عام طور پر کمتر سمجھی جاتی ہیں یہ اجازت دی تھی کہ جو شخص چاہے اٹھا لے اور اسے اپنے کام میں لے آئے (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 یعنی اگر لقطہ ان میں سے کسی چیز کا ہو تو اسے اٹھانے والا جب کہ وہ خود مالدار نہ ہو بغیر تشہیر و اعلان اس کو اپنے استعمال میں لے آئے۔

شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر لقطہ کسی کمتر مال کی صورت میں ہو تو اس کی تشہیر نہ کی جائے لیکن اس قول پر تنقید کی گئی ہے رہا یہ سوال کہ کمتر مال کی حد کیا ہے تو بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ یہ لقطہ دس درہم سے کم مالیت کا ہو وہ کمتر مال ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ جو لقطہ ایک دینار یا ایک دینار سے کم مالیت کا ہو وہ کمتر مال ہے جیسا کہ حضرت علی کے بارے میں منقول حدیث سے معلوم ہوا۔ اور حضرت مقدام بن معدی کرب کی روایت (الا لا یحل) الخ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں نقل کی جا چکی ہے