حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: انْطَلَقَ بِهِ أَبُوهُ يَحْمِلُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اشْهَدْ أَنِّي قَدْ نَحَلْتُ النُّعْمَانَ مِنْ مَالِي كَذَا وَكَذَا، قَالَ: "فَكُلَّ بَنِيكَ نَحَلْتَ مِثْلَ الَّذِي نَحَلْتَ النُّعْمَانَ"، قَالَ: لَا، قَالَ: "فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي"، قَالَ: "أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ سَوَاءً"، قَالَ: بَلَى، قَالَ: "فَلَا إِذًا".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، اور عرض کیا: میں آپ کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے مال میں سے فلاں فلاں چیز نعمان کو دے دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسی ہی چیزیں دی ہیں جو نعمان کو دی ہیں"؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تب میرے علاوہ کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو، کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ تمہارے سارے بیٹے تم سے نیک سلوک کرنے میں برابر ہوں"؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تب ایسا مت کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الھبة ۱۲ (۲۵۸۷)، صحیح مسلم/الھبات ۳ (۱۶۲۳)، سنن ابی داود/البیوع ۸۵ (۳۵۴۲)، سنن النسائی/النحل (۳۷۰۹)،(تحفة الأشراف:۱۱۶۲۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ۳۳ (۳۹)، مسند احمد (۴/۲۶۸،۲۶۹،۲۷۰،۲۷۳،۲۷۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اولاد کو عطیہ دینے میں سب کا حصہ برابر کا ہو گا، کم زیادہ ہو تو ہبہ باطل ہے مگر جمہور نے اس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ سب کو برابر دینا مندوب ہے، عطیہ وہبہ میں کسی کو زیادہ دینے سے ہبہ باطل نہیں ہوتا لیکن ایک روایت میں آپ ﷺ نے اسے ظلم کہا ہے اور نعمان کے والد بشیر سے آپ کا یہ فرمانا «فاردده» " اسے واپس لے لو " اس بات کی تائید کر رہا ہے کہ اولاد کے ساتھ عطیہ میں برابر کا سلوک واجب ہے، یہی احمد، سفیان ثوری اور اسحاق ابن راہویہ وغیرہ کا مذہب ہے۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَخْبَرَاهُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ أَبَاهُ نَحَلَهُ غُلَامًا وَأَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْهِدُهُ، فَقَالَ: "أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ"، قَالَ: لَا، قَالَ: "فَارْدُدْهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ایک غلام دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسے ہی دیا ہے"؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تب اس کو واپس لے لو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۱۲ (۲۵۸۶)، صحیح مسلم/الہبات (۱۶۲۳)، سنن الترمذی/الأحکام ۳۰ (۱۳۶۷)، سنن النسائی/النحل (۳۷۰۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۶۱۷،۱۱۶۳۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، يرفعان الحديث إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ".
عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کسی کو عطیہ دے کر واپس لے سوائے باپ کے جو اپنی اولاد کو دے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۸۳ (۳۵۳۹)، سنن الترمذی/البیوع ۶۲ (۱۲۹۹)، الولاء البراء ۷ (۲۱۳۲،۲۱۳۱)، سنن النسائی/الھبة ۲ (۳۷۲۰)،(تحفة الأشراف:۵۷۴۳،۷۰۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۷،۷۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَرْجِعْ أَحَدُكُمْ فِي هِبَتِهِ إِلَّا الْوَالِدَ مِنْ وَلَدِهِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہبہ کر کے کوئی واپس نہ لے سوائے باپ کے جو وہ اپنی اولاد کو کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الھبة ۲ (۳۷۱۹)،(تحفة الأشراف:۸۷۲۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع ۸۳ (۳۵۴۰)، مسند احمد (۴/۱۸۲)،(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا عُمْرَى فَمَنْ أُعْمِرَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمریٰ کوئی چیز نہیں ہے، جس کو عمریٰ کے طور پر کوئی چیز دی گئی تو وہ اسی کی ملک ہو جائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۱۰۷)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الرقبي ۴ (۳۵۵۵)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمریٰ والوں کے لئے، عمریٰ میراث ہو گی ایک روایت میں ہے کہ عمریٰ جائز ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ أَعْمَرَ رَجُلًا عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ فَقَدْ قَطَعَ قَوْلُهُ حَقَّهُ فِيهَا فَهِيَ لِمَنْ أُعْمِرَ وَلِعَقِبِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس نے کسی کو بطور عمریٰ کوئی چیز دی، تو وہ جس کو دیا ہے اس کی اور اس کے بعد اس کے اولاد کی ہو جائے گی، اس نے عمریٰ کہہ کر اپنا حق ختم کر لیا، اب وہ چیز جس کو عمریٰ دیا گیا اس کی اور اس کے بعد اس کے وارثوں کی ہو گئی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الھبة ۳۲ (۲۶۲۵)، صحیح مسلم/الھبات ۴ (۱۶۲۵)، سنن ابی داود/البیوع ۸۷ (۳۵۵۰،۳۵۵۲)، سنن الترمذی/الأحکام ۱۵ (۱۳۵۰)، سنن النسائی/االعمريٰ (۳۷۷۲)،(تحفة الأشراف:۳۱۴۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ۳۷ (۴۳)، مسند احمد (۳/۳۰۲،۳۰۴،۳۶۰،۳۹۳،۳۹۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: عمریٰ کرنے والے کو اب واپس لینے کا کوئی حق نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کا کوئی عذر مقبول ہو گا۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ حُجْرٍ الْمَدَرِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "جَعَلَ الْعُمْرَى لِلْوَارِثِ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمریٰ وارث کو دلا دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۸۹ (۳۵۵۹)، سنن النسائی/الرقبي (۳۷۴۶)،(تحفة الأشراف:۳۷۰۰)(صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عمریٰ دینے سے وہ چیز ہمیشہ کے لئے دینے والے کی ملکیت سے نکل جائے گی اور اس کی ہو جائے گی جس کو عمریٰ دیا گیا، اس کے بعد اس کے وارثوں کو ملے گی، اہل حدیث اور جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا رُقْبَى فَمَنْ أُرْقِبَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ حَيَاتَهُ وَمَمَاتَهُ"، قَالَ: وَالرُّقْبَى أَنْ يَقُولَ هُوَ لِلْآخَرِ مِنِّي وَمِنْكَ مَوْتًا.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رقبیٰ کوئی چیز نہیں ہے جس کو بطور رقبیٰ کوئی چیز دی گئی تو وہ اسی کی ہو گی اس کی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں" راوی کہتے ہیں: رقبیٰ یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو کوئی چیز دے کر یہ کہے کہ ہم اور تم میں سے جو آخر میں مرے گا یہ اس کی ہو گی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/العمریٰ ۱ (۳۷۶۳،۳۷۶۴،۳۷۶۵)،(تحفة الأشراف:۶۶۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۴،۷۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِمَنْ أُعْمِرَهَا، وَالرُّقْبَى جَائِزَةٌ لِمَنْ أُرْقِبَهَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمریٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو عمریٰ دیا گیا، اور رقبیٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو رقبیٰ دیا گیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۸۹ (۳۵۵۸)، سنن الترمذی/الأحکام ۱۶ (۱۳۵۱)، سنن النسائی/العمريٰ (۳۷۶۹)،(تحفة الأشراف:۲۷۰۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی دونوں صورتوں میں وہ شئے دینے والے کے ملک سے نکل جا ئے گی، اور جس کو عمریٰ یا رقبیٰ کے طور پر دی گئی ہے اس کی ہو جائے گی، اور اس کے بعد اس کے وارثوں کو ملے گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مَثَلَ الَّذِي يَعُودُ فِي عَطِيَّتِهِ كَمَثَلِ الْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ فَأَكَلَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص کی مثال جو ہبہ کر کے واپس لے اس کتے جیسی ہے جو خوب آسودہ ہو کر کھا لے، پھر قے کر کے اسے چاٹے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۳۰۵، ومصباح الزجاجة:۸۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۵۹،۴۳۰،۴۹۲)(صحیح) (خلاس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لئے کہ خلاس نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء:۶ ۶۴ و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۶۹۹)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہبہ کر کے واپس لینے والا قے کر کے چاٹنے والے کے مانند ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الھبة ۱۴ (۲۵۸۸)، صحیح مسلم/الھبات ۲ (۱۶۲۲)، سنن ابی داود/البیوع ۸۳ (۳۵۳۸)، سنن الترمذی/البیوع ۶۲ (۱۲۹۹)، سنن النسائی/الھبة ۲ (۳۷۲۳)،(تحفة الأشراف:۵۶۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۵۰،۲۸۰،۲۸۹،۲۹۱،۳۳۹،۳۴۲،۳۴۵،۳۴۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُوسُفَ الْعَرْعَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہبہ کر کے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۷۳۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ کر کے واپس لے لینا کمینہ پنی، اور خست کا کام ہے اور خلاف مروت ہے، اکثر علماء ہبہ واپس لینے کو حرام کہتے ہیں مگر باپ ہبہ کو واپس لے لے تو جائز ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الرَّجُلُ أَحَقُّ بِهِبَتِهِ مَا لَمْ يُثَبْ مِنْهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہبہ کرنے والا اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کا زیادہ حقدار ہے جب تک اس کا عوض نہ پائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۲۷۰، ومصباح الزجاجة:۸۳۶)(ضعیف) (سند میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ الرَّقِّيُّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الصَّيْدَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَةٍ خَطَبَهَا: "لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ فِي مَالِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا إِذَا هُوَ مَلَكَ عِصْمَتَهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: "کسی عورت کا اپنے مال میں بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے تصرف کرنا جائز نہیں، اس لیے کہ وہ اس کی عصمت (ناموس) کا مالک ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۷۹)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع ۸۶ (۳۵۴۶)، سنن النسائی/الزکاة ۵۸ (۲۵۴۱)، العمریٰ (۳۷۸۷)، مسند احمد (۲/۲۲۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَحْيَى رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ جَدَّتَهُ خَيْرَةَ امْرَأَةَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُلِيٍّ لَهَا فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ بِهَذَا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَجُوزُ لِلْمَرْأَةِ فِي مَالِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا فَهَلِ اسْتَأْذَنْتِ كَعْبًا". قَالَتْ: نَعَمْ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ زَوْجِهَا فَقَالَ: "هَلْ أَذِنْتَ لِخَيْرَةَ أَنْ تَتَصَدَّقَ بِحُلِيِّهَا"، فَقَال: نَعَمْ، فَقَبِلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا.
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی اہلیہ خیرۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا زیور لے کر آئیں، اور عرض کیا: میں نے اسے صدقہ کر دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں، کیا تم نے کعب سے اجازت لے لی ہے"؟ وہ بولیں: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیج کر پچھوایا، کیا تم نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے"، وہ بولے: جی ہاں، تب جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کیا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۸۳۱، ومصباح الزجاجة:۸۳۷)(صحیح) (سند میں عبد اللہ بن یحییٰ مجہول ہیں، لیکن دوسرے شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۷۷۵)