مشکوٰة شر یف

ہدی کا بیان

ہدی کا بیان

ہدی ہا کے زبر اور دال کے سکون کے ساتھ، ان چوپایوں کو کہتے ہیں جو حرم میں طلب ثواب کی خاطر ذبح کئے جاتے ہیں، وہ بکری دنبہ، بھیڑ ہوں خواہ گائے، بھینس بیل اور خواہ اونٹ ہوں، اور عمر وغیرہ کی جو شرائط قربانی کے جانوروں میں ہوتی ہیں وہی ہدی میں بھی ہوتی ہیں۔ بکری اور اس کی مانند دوسرے جانور جیسے دنبہ اور بھیڑکی قربانی یوں تو ہر موقع پر جائز ہے لیکن اگر کوئی شخص حالت جنابت یا حیض میں طواف الزیارۃ کرے یا کوئی شخص وقوف عرفات کے بعد سر منڈانے سے پہلے ہی جماع کرے تو اس صورت میں بطور کفارہ و جزاء قربانی کے لئے بکری کا ذبح کرنا کافی ہو گا بلکہ بدنہ یعنی اونٹ یا گائے کی قربانی کرنی ہو گی۔

 ہدی کی دو قسمیں ہیں: (١) واجب (٢) تطوع یعنی نفل، پھر ہدی واجب کی کئی قسمیں ہیں۔ ہدی قران، ہدی تمتع، ہدی جنایات، ہدی نذر اور ہدی احصار۔

  ہدی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ بارگاہ حق جل مجدہ میں اس جانور کی قربانی کا ہدیہ بھیجتا ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرتا ہے اس مناسبت سے اس جانور کو ہدی کہتے ہیں۔

اشعار اور تقلید کا مسئلہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (سفر حج میں) ذوالحلیفہ پہنچ کر ظہر کی نماز پڑھی اور پھر اپنی اونٹنی کو (جو قربانی کے لئے تھی) طلب فرمایا اور اس کی کوہان کے داہنے پہلو کو زخمی کیا اور اس کے خون کو پونچھ کر اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈال دیا اور اس کے بعد اپنی (سواری کی) اونٹنی پر (کہ جس کا نام قصواء تھا) سوار ہوئے اور جب مقام بیداء میں اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لبیک کہی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ اشعار اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ حج میں ہدی کا جو جانور ساتھ لے جایا جاتا ہے اس کے پہلو کو زخم آلود کر دیتے ہیں جسے اشعار کہا جاتا ہے نیز اس جانور کے گلے میں جوتے یا ہڈی وغیرہ کا ہار ڈال دیتے ہیں جسے تقلید کہا جاتا ہے اور ان دونوں کا مقصد اس امر کی علامت کر دینا ہوتا ہے کہ یہ ہدی کا جانور ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب حج کے لئے چلے اور ذوالحلیفہ کو جو اہل مدینہ کا میقات ہے پہنچے تو نماز پڑھنے کے بعد اس اونٹنی کو طلب فرمایا جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بطور ہدی اپنے ساتھ لے چلے تھے، پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی کوہان کے داہنے پہلو میں نیزہ مارا جب اس سے خون بہنے لگا تو اسے پونچھ دیا اور پھر اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈال دیا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ علامت مقرر فرما دی کہ یہ ہدی کا جانور ہے تاکہ لوگ جب اس نشانی و علامت کے ذریعہ یہ جانیں کہ یہ ہدی ہے تو اس سے کوئی تعارض نہ کریں اور قزاق وغیرہ اسے غائب نہ کریں اور اگر یہ جانور راستہ بھٹک جائے تو لوگ اسے اس کی جگہ پہنچا دیں۔ ایام جاہلیت میں لوگوں کا یہ شیوہ تھا کہ جس جانور پر ایسی کوئی علامت نہ دیکھتے اسے ہڑپ کر جاتے تھے اور جس جانور پر یہ علامت ہوتی تھی اسے چھوڑ دیتے تھے، چنانچہ شارع اسلام نے بھی اس طریقہ کو مذکورہ بالا مقصد کے تحت جائز رکھا۔

 اب اس فقہی مسئلہ کی طرف آئیے، جمہور ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ اشعار یعنی جانور کو اس طرح زخمی کرنا سنت ہے لیکن جثم یعنی بکری، دنبہ اور بھیڑ میں اشعار کو ترک کر دینا چاہئے کیونکہ یہ جانور بہت کمزور ہوتے ہیں ان جانوروں کے لئے صرف تقلید یعنی گلے میں ہار ڈال دینا کافی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک تقلید تو مستحب ہے لیکن اشعار مطلقاً مکروہ ہے خواہ بکری و چھترہ ہو یا اونٹ وغیرہ علماء حضرت امام اعظم کی اس بات کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ حضرت امام اعظم مطلق طور پر اشعار کی کراہت کے قائل نہیں تھے بلکہ انہوں نے صرف اپنے زمانے کے لئے اشعار کو مکروہ قرار دیا تھا کیونکہ اس وقت لوگ اس مقصد کے لئے ہدی کو بہت زیادہ زخمی کر دیتے تھے جس سے زخم کے سرایت کر جانے کا خوف ہوتا تھا۔

 اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ کی مسجد میں پڑھی جب کہ باب صلوٰۃ السفر کی پہلی حدیث میں جو بخاری و مسلم نے روایت کی ہے یہ بات واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز تو مدینہ ہی میں پڑھ لی تھی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں کے تضاد کو یوں دور کیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز تو مدینہ ہی میں پڑھی تھی مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے چونکہ مدینہ میں ظہر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نہیں پڑھی ہو گی اس لئے جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ذوالحلیفہ میں نماز پڑھتے دیکھا تو یہ گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں ظہر کی نماز پڑھ رہے ہیں اسی لئے انہوں نے یہاں یہ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی۔

 اھل بالحج (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کے لئے لبیک کہی) سے یہ نہ سمجھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واقعۃً صرف حج ہی کے لئے لبیک کہی بلکہ یہ مفہوم مراد لیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اور عمرہ دونوں کے لئے لبیک کہی کیونکہ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول اس روایت نے اس بات کو بالکل واضح کر دیا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حج اور عمرہ کے لئے لبیک کہتے سنا ہے۔ چنانچہ اس موقع پر راوی نے یا تو عمرہ کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ اصل چونکہ حج ہی ہے اس لئے صرف اسی کے ذکر پر اکتفاء کیا یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب دونوں کے لئے لبیک کہی تو راوی نے صرف حج کو سنا عمرہ کا ذکر نہیں سنا۔

 

 

٭٭ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ بکریوں کو بطور ہدی خانہ کعبہ کو بھیجا اور ان کے گلے میں ہار ڈالا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 علامہ طیبی کہتے ہیں کہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ بکریوں میں اشعار یعنی ان کو زخمی کرنا مشروع نہیں ہے البتہ ان میں تقلید یعنی ان کے گلے میں ہار ڈالنا سنت ہے لیکن اس بارے میں حضرت امام مالک کا اختلافی قول ہے۔

دوسرے کی طرف سے قربانی

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح فرمائی۔ (مسلم)

 

 

٭٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی کی یہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے ذبح کی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 علماء لکھتے ہیں کہ دونوں حدیثیں اس بات پر محمول ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج کی اجازت سے قربانی کی ہو گی کیونکہ دوسرے کی طرف سے قربانی اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔

ائمہ کے یہاں مشہور مسئلہ تو یہی ہے کہ ایک گائے میں سات ادمیوں تک کی طرف سے قربانی جائز ہوتی ہے لیکن حضرت امام مالک کا قول یہ ہے کہ ایک گائے یا ایک بکری وغیرہ کی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ حدیث حضرت امام مالک کے اس قول کی دلیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات سے زائد کی طرف سے ایک قربانی کی ہو جب کہ دوسرے ائمہ کے نزدیک یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک گائے کی قربانی صرف سات ہی کی طرف سے کی ہو گی۔

خود حج کو نہ جانے اور ہدی بھیجنے کا مسئلہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹوں کے لئے اپنے ہاتھوں سے پٹے بنائے اور پھر انہیں اونٹوں کے گلے میں ڈالا اور ان (کے کوہان) کو زخمی کیا اور پھر ان کو بطور ہدی خانہ کعبہ روانہ کر دیا (یعنی جب ٩ھ میں حج فرض ہوا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حاجیوں کا امیر مقرر کر کے مکہ مکرمہ بھیجا گیا تو ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے بطور ہدی اونٹ بھیجے گئے اور اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایسی کوئی چیز حرام نہیں ہوئی جو ان کے لئے حلال تھی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جملہ کا مطب یہ ہے کہ ان جانوروں کو بطور ہدی بھیجنے کی وجہ سے آنحضرت پر احرام کے احکام جاری نہیں ہوئے کہ احرام کی حالت میں جو چیزیں حرام ہو جاتی ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر حرام ہو گئی ہوں، یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس لئے کہی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں سنا تھا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جو شخص خود حج کو نہ جائے اور اپنی طرف سے ہدی مکہ بھیجے تو اس پر وہ تمام چیزیں کہ جو محرم پر حرام ہوتی ہیں اس وقت تک کے لئے حرام ہو جاتی ہیں جب کہ اس کی ہدی حرم میں نہ پہنچ جائے اور ذبح نہ ہو جائے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کی تردید کی۔

خود حج کو نہ جانے اور ہدی بھیجنے کا مسئلہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اس صوف کے جو میرے پاس تھا پٹے بنائے اور پھر (یہ پٹے اونٹوں کے گلے میں ڈال کر) ان کو بطور ہدی اپنے والد ماجد (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ہمراہ خانہ کعبہ روانہ کیا۔ (بخاری و مسلم)

ہدی پر سوار ہونے کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ ہانکتا ہوا جا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس اونٹ پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے کہا کہ یہ تو ہدی ہے (میں اس پر کیسے سوار ہو جاؤں؟وہ یہ سمجھتا تھا کہ ہدی پر سوار ہونا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر فرمایا کہ اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے پھر کہا کہ یہ ہدی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ افسوس ہے تم پر کہ میں تمہیں سوار ہونے کے لئے کہتا ہوں اور تم اپنی طرف سے عذر بیان کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات دوسری یا تیسری مرتبہ میں فرمائی۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭ حضرت ابوزبیر (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ہدی پر سوار ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تک کہ تمہیں کوئی اور سواری نہ ملے اور تم سوار ہونے پر مجبور ہو تو اس ہدی پر (اس) احتیاط کے ساتھ سوار ہو (کہ اسے کوئی ضرر و تکلیف نہ پہنچے) (مسلم)

 

تشریح

 

 اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں آیا ہدی پر سوار ہونا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر سوار ہونے کی صورت میں ہدی کو کوئی ضرر نہ پہنچے تو اس پر سوار ہونا جائز ہے۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک یہ مسئلہ ہے کہ اگر ضرورت و مجبوری ہو تو ہدی پر سوار ہوا جا سکتا ہے ورنہ نہیں، لہٰذا جن روایتوں میں ہدی پر سوار ہونے کا مطلق طور پر جواز ملتا ہے وہ روایتیں ضرورت و مجبوری پر محمول ہیں۔

راستہ میں قریب المرگ ہو جانے والی ہدی کا مسئلہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص (جس کا نام ناجیہ اسلمی رضی اللہ عنہ تھا) کے ہمراہ سولہ اونٹ مکہ روانہ کئے اور اس شخص کو ان اونٹوں کا محافظ بنایا (کہ نہ صرف ان اونٹوں کو حفاظت کے ساتھ لے جائے بلکہ مکہ پہنچ کر انہیں ذبح بھی کر دے) اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان میں سے جو (تھک جانے کی وجہ سے) نہ چل سکے (یا کمزوری وغیرہ کی بناء پر قریب المرگ ہو جائے) تو اس کو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسے ذبح کر دینا اور پھر وہ دونوں جوتیاں (جو بطریق ہار اس کے گلے میں پڑی ہوں) اس کے خون میں رنگ کر ان کے نشان اس کے کوہان کے کنارہ پر لگا دینا اور اس کا گوشت نہ تم کھانا اور نہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو کھانے دینا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 جوتیوں کو خون میں رنگ کر اونٹ کے کوہان پر نشان لگا دینے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس لئے فرمایا تاکہ راستہ چلنے والے یہ جان لیں کہ یہ ہدی ہے اس طرح اس کا گوشت جو فقراء و مساکین ہوں وہ تو کھا لیں اور اغنیاء اس سے اجتناب کریں کیونکہ اس کا گوشت کھانا اغنیاء پر حرام ہے۔

 آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی ہدایت فرما دی کہ اس اونٹ کو ذبح کر کے وہیں چھوڑ دینا، اس کا گوشت نہ تم خود کھانا اور نہ اپنے رفقاء سفر کو کھانے دینا خواہ فقراء و مساکین ہوں یا اغنیاء ان کو ہر حال میں ان کا گوشت کھانے سے منع اس لئے کیا کہ کہیں یہ لوگ اپنی ماندگی کا کوئی بہانہ کر کے اپنے کھانے کے لئے کوئی اونٹ ذبح نہ کر ڈالیں۔

 اب یہ بات محل اشکال بن سکتی ہے کہ ایسی صورت میں کہ گوشت کھانے سے خود محافظ کو بھی منع کیا جا رہا ہے اور اس کے رفقاء قافلہ کو بھی، تو پھر اس گوشت کا مصرف کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ اس طرح وہ گوشت یوں ہی ضائع ہو گا۔

 اس کا جواب یہ ہے کہ وہ گوشت ضائع نہیں ہو گا بلکہ جہاں وہ اونٹ ذبح ہو گا وہاں آس پاس کے رہنے والے اسے اپنے استعمال میں لے آئیں گے، یا قافلے تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں ان کے بعد جو قافلہ وہاں سے گزرے گا وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا۔

 بہرکیف راستے میں جو ہدی قریب المرگ ہو جائے اور اس کو ذبح کر دیا جائے تو اس کا حکم یہ ہے جو حدیث میں ذکر کیا گیا کہ اس کو گوشت اغنیاء اور اہل قافلہ کے لئے کھانا درست نہیں ہے لیکن اس بارے میں فقہی تفصیل ہے جس کو ملتقی الابحر اور درمختار میں یوں نقل کیا گیا ہے کہ (١) اگر ہدی واجب ہو اور وہ راستہ میں قریب المرگ ہو جائے یا ایسی عیب دار ہو کہ اس کی قربانی جائز نہ ہوتی ہو تو اس کے بجائے دوسری ہدی روانہ کرے، اس پہلی ہدی کو چاہے تو ذبح کر کے خود کھا لے یا دوسروں کو کھلا دے یا اور جو چاہے کرے۔ (٢) اگر ہدی نفل ہو اور مرنے کے قریب ہو تو اس کو ذبح کر لے اور جوتیاں (جو بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہوں) اس کے خون میں رنگ کر اس کی گردن پر نشان کر دے اور اس کے گوشت میں سے نہ مالک کھائے اور نہ اغنیاء کھائیں۔ (٣) جو ہدی منزل مقصود پر پہنچ کر ذبح ہو اس کے بارے میں اسی فصل کی آخری حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے کہ نفل تمتع اور قران کی ہدی اور قربانی کے گوشت میں سے مالک کو کھانا مستحب ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے قسم کی ہدی کے گوشت میں سے مالک کو کھانا درست نہیں ہے۔

 آخر میں ایک بات اور جان لیجئے کہ مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں بعض شارحین سے کچھ چوک ہو گئی ہے کیوں کہ انہوں نے لکھا ہے کہ حدیث میں گوشت نہ کھانے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس ہدی سے متعلق ہے جسے اپنے اوپر واجب کیا گیا ہو جیسے نذر کی ہدی اور اگر ہدی نفل ہو تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے، لہٰذا ان شارحین سے راستہ کی اس ہدی کو منزل مقصود پر پہنچ کر ذبح ہونے والی ہدی پر قیاس کر کے یہ بات لکھ دی ہے حالانکہ یہ بات حدیث کے منشاء و حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔

ہدی اور قربانی کے حصے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ کے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ ذبح کیا اور سات آدمیوں کی طرف سے گائے ذبح کی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ہم نے شرکت میں جانور ذبح کئے اس طرح کہ اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک تھے۔ چنانچہ یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور اکثر علماء کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ اونٹ اور گائے میں سات آدمیوں کا شریک ہونا جائز ہے جب کہ ان ساتوں کو قربت یعنی ثواب مقصود ہو، قربت خواہ ایک طرح کی ہو۔ جیسے کہ اگر ایک شخص ہدی کی نیت رکھتا ہے تو دوسرے بھی ہدی ہی کی نیت رکھیں یا قربت مختلف ہو جیسے کہ بعض تو ہدی کے ارادہ و نیت سے شریک ہوں اور بعض قربانی کی نیت سے، اور حضرت امام شافعی کے نزدیک اس صورت میں بھی ایک اونٹ یا گائے میں سات آدمیوں کی شکست جائز ہے جب کہ بعض تو مثلاً ہدی یا قربانی کی نیت سے شریک ہوں اور بعض محض گوشت کے لئے! حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ واجب قربانی یا ہدی میں کسی بھی جانور میں مطلق طور پر شرکت درست نہیں ہے۔ بکر و بھیڑ میں شرکت متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک جائز نہیں ہے۔

اونٹ کے نحر کا طریقہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر نحر کر رہا تھا، انہوں نے اس سے فرمایا کہ اس اونٹ کو کھڑا کر دو اور اس کا بایاں پاؤں باندھو اور اس طرح اونٹ کو نحر کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ کو اختیار کرو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اونٹ کے سینہ میں برچھی مارنے کو  نحر کہتے ہیں اور گائے وغیرہ کا گلا چھری سے کاٹنا  ذبح  کہلاتا ہے لہٰذا اونٹ کو تو نحر کرنا افضل ہے اور گائے بیل، بھینس، بھیڑ اور بکری کو ذبح کرنا افضل ہے۔

 نحر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے نحر کرنا افضل ہے اور اگر کھڑا نہ کیا جا سکے تو پھر بٹھا کر نحر کرنا لٹا کر نحر کرنے سے افضل ہے۔ جو جانور ذبح کئے جاتے ہیں ان کو بائیں پہلو پر لٹا کر ذبح کرنا چاہئے۔

 قرآن کریم سے بھی یہی ثابت ہے کہ اونٹ کو نحر کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے۔ آیت (فصل لربک وانحر) الکوثر)۔ اللہ تعالیٰ کے واسطے نماز پڑھو اور نحر کرو۔ اس آیت کی تفسیر میں اونٹ کو نحر کرنا لکھا گیا ہے۔ ذبح کرنے کے بارے میں یہ آیت کریمہ ہے۔ (اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً) 2۔ البقرۃ:67)۔ یہ کہ گائے کو ذبح کرو۔

ہدی کے بارے میں کچھ ہدایات

حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ہدایت فرمائی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹوں کی خبر گیری کروں، ان کے گوشت کو خیرات کر دوں اور ان کی کھالیں اور جھولیں بھی صدقہ کر دوں، اور یہ کہ قصائی کو ان میں سے کوئی چیز (بطور مزدوری) نہ دوں، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ (مزدوری) ہم اپنے پاس سے دیں گے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  اونٹوں سے مراد وہ اونٹ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع میں بطور ہدی مکہ مکرمہ لے گئے تھے اور جن کی تعداد سو تھی، اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

 ہدی کے جانور کی کھال، جھول اور مہار وغیرہ بھی خیرات کر دینی چاہئے، ان چیزوں کو قصائی کو مزدوری میں نہ دینا چاہئے ہاں اگر قصائی کو احساناً دیا جائے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔

 چاہے تو کھال ہی کسی کو صدقہ و خیرات کر دی جائے اور اگر اس کو فروخت کر کے جو قیمت ملے وہ صدقہ کر دی جائے تو یہ بھی جائز ہے۔

 ہدی کا دودھ نہ نکالنا چاہئے بلکہ اس کے تھنوں پر ٹھنڈا پانی چھڑک دیا جائے تاکہ اس کا دودھ اترنا موقوف ہو جائے اور اگر دودھ نہ نکالنے سے جانور کو تکلیف ہو تو پھر دودھ نکال لیا جائے اور اسے خیرات کر دیا جائے۔

کس ہدی کا گوشت مالک کو کھانا جائز ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پہلے ہم اپنی قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے، پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں اجازت دی اور فرمایا کہ کھاؤ اور اسے توشہ بناؤ، (یعنی تین دن کے بعد بھی) چنانچہ ہم نے کھایا اور توشہ بنایا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ابتداء اسلام میں لوگوں کو گوشت کی زیادہ ضرورت تھی اور ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی جو خود قربانی نہیں کر سکتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین دن کے بعد جمع کر کے نہ رکھ بلکہ دوسرے لوگوں کو کھانے کے لئے صدقہ کر دیا کرو، پھر بعد میں جب گوشت کی زیادہ ضرورت نہ رہی اور سب ہی لوگوں کو قربانی کی کی استطاعت حاصل ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت دے دی کہ قربانی کا گوشت تین دن کے بعد بھی جمع کر کے رکھا جا سکتا ہے۔

شمنی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ مالک کو نفل تمتع اور قران کی ہدی اور قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے، ان کے علاوہ دوسرے قسم کی ہدی کا گوشت درست نہیں کیونکہ وہ کفارہ اور جنایت کی ہو گی۔

دشمنان خدا کو رنج پہنچانا مستحب ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ کے سال اپنے ہدی کے جانوروں میں ابوجہل کا اونٹ بھی لے گئے تھے جس کی ناک میں چاندی کی نتھنی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ سونے کی تھی اور اس سے مقصد مشرکین کو غیظ دلانا تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چھ ہجری میں عمرے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے مگر مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رفقاء کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور مکہ نہیں جانے دیا، یہ بہت مشہور واقعہ ہے، اسی سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو اونٹ بطور ہدی ذبح کرنے کے لئے لے گئے تھے ان میں ایک اونٹ ابوجہل کا بھی تھا جو غزوہ بدر میں بطور غنیمت ہاتھ لگا تھا۔ اس اونٹ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ہمراہ اس لئے لے گئے تھے تاکہ مشرکین مکہ اس اونٹ کو دیکھ کر کڑھیں اور جلیں کہ یہ اونٹ مسلمانوں کے ہاتھ پڑا اور ذبح کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ دشمنان خدا کو رنج پہنچانا اور انہیں جلانا مستحب ہے۔

قریب المرگ ہدی کا حکم

حضرت ناجیہ خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہدی کے جانوروں میں سے جو جانور کسی بھی وجہ سے قریب المرگ ہوں تو میں اس کا کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس جانور کو ذبح کر ڈالو پھر اس کی جوتی کو اس کے گلے میں بطور ہار پڑی ہو اس کے خون میں رنگ دو اور اس کے ذریعہ اس کی گردن پر نشان لگا دوں اس کے بعد اس جانور کو لوگوں کے درمیان چھوڑ دو (یعنی اس کا گوشت کھانے سے فقراء کو منع نہ کرو) تاکہ وہ اسے کھائیں۔ (مالک، ترمذی، ابن ماجہ) ابوداؤد، اور دارمی نے اس روایت کو حضرت ناجیہ اسلمی سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

  تاکہ وہ اسے کھائیں کا مطلب یہ ہے کہ رفقاء قافلہ کے علاوہ خواہ وہ اغنیاء ہوں یا فقراء، دوسرے فقراء اس جانور کے گوشت کو اپنے استعمال میں لائیں۔ اس بارے میں پوری تفصیل پہلی فصل میں گزر چکی ہے۔

 مذکورہ بالا حدیث کو مالک، ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ناجیہ خزاعی سے نقل کیا ہے اور ابوداؤد اور دارمی نے حضرت ناجیہ اسلمی سے۔ اس طرح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کے دو راوی ہیں ایک ناجیہ خزاعی اور دوسرے ناجیہ اسلمی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ صحابہ میں ناجیہ نام کے صرف ایک ہی صحابی ہیں لہٰذا محدثین اس بارے میں لکھتے ہیں یہاں اختلاف صرف نسب کا ہے ذات ایک ہی ہے یعنی ناجیہ خزاعی اور ناجیہ اسلمی ایک ہی صحابی کا نام ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ بعض نے تو انہیں ناجیہ خزاعی کے نام سے ذکر کیا ہے اور بعض نے ناجیہ اسلمی کہا ہے کیونکہ خزاعی اور اسلمی یہ دونوں ان کے قبیلہ کے نام ہیں۔

قربانی کے دن کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ کہتے ہی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنوں میں بہت بڑا دن از روئے فضیلت قربانی کا دن (یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ) ہے اور پھر قر کا دن۔ حدیث کے راوی حضرت ثور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ (قر کا دن) دوسرا دن(یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ ہے) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (جب قربانی کے دن) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب وہ اونٹ لائے گئے جو پانچ یا چھ کی تعداد میں تھے تو اونٹوں نے (ایک دوسرے پر سبقت کر کے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک آنا شروع کیا تاکہ جسے چاہیں پہلے اسی کو ذبح کریں

 راوی کہتے ہیں کہ جب یہ جانور پہلو پر گر گئے (یعنی وہ ذبح کر دئیے گئے) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آہستہ سے کچھ فرمایا جسے میں نہ سمجھ سکا، چنانچہ میں نے (اس شخص سے جو میرے پاس تھا) پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ جو شخص (ہدی کے) ان جانوروں میں سے (گوشت) کاٹ کر لے جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ  دنوں میں بہت بڑا دن قربانی کا دن ہے  سے مراد یہ ہے کہ قربانی کا دن ان دنوں میں ایک دن ہے جو افضل اور بزرگ ترین دن ہیں۔ یہ مراد اس لئے لی گئی ہے کہ دوسری احادیث میں (ذی الحجہ کے) عشرہ کو تمام دنوں کے مقابلہ میں افضل کہا گیا ہے لہٰذا اس اعتبار سے کہ عشرہ ذی الحجہ افضل ہے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ (جو قربانی کا دن ہے) بھی افضل ہے کیونکہ یہ دن بھی عشرہ ذی الحجہ میں شامل ہے۔

 اب رہی یہ بات کہ جس طرح احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام دنوں میں افضل ترین عشرہ ذی الحجہ ہے اسی طرح یہ بات بھی احادیث ہی سے ثابت ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ افضل ترین ہے تو اس تضاد کو یوں رفع کیا جائے کہ ان احادیث کو کہ جن سے عشرہ ذی الحجہ کا افضل ہونا ثابت ہوتا ہے اشہر حرم کے ساتھ مقید کیا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ اشہر حرم کے دنوں میں افضل ترین عشرہ ذی الحجہ ہے لہٰذا حاصل یہ نکلے گا کہ عشرہ ذی الحجہ حرام مہینوں سے افضل ہے اور عشرہ رمضان مطلق طور پر تمام دنوں میں افضل ہے۔

 مذکورہ بالا تضاد کو دور کر نے کے لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ افضلیت باعتبار حیثیت کے مختلف ہے یعنی چونکہ رمضان میں روزے رکھے جاتے ہیں، اس ماہ مقدس میں عبادت کا ثواب بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے آخر عشرہ میں اعتکاف ہوتا ہے اس اعتبار سے تو رمضان کا آخری عشرہ افضل ہے اور چونکہ ذی الحجہ میں حج کے افعال ادا ہوتے ہیں اور قربانی کی جاتی ہے اس اعتبار سے یہ افضل ہے۔

  قر کا دن سے بقر عید کے بعد کا دن یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ مراد ہے، اس دن کو قر کا دن اس لئے کہتے ہیں کہ ادائے مناسک کی محنت و مشقت برداشت کر نے کے بعد منیٰ میں اسی دن حاجیوں کو سکون و قرار ملتا ہے۔

 اس موقع پر بھی یہ خلجان پیدا ہو سکتا ہے کہ حدیث صحیح میں تو عرفہ کے دن کو افضل کہا گیا ہے؟ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ قر کا دن ان دنوں میں سے ایک دن ہے جو افضل ہیں۔

  اونٹوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک آنا شروع کیا الخ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب ان اونٹوں کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا اور وہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لائے گئے تو ہر اونٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک کی برکت حاصل کرنے کے لئے اس بات کا منتظر تھا کہ پہلے مجھے ذبح کریں، اس مقصد کے لئے اونٹ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معجزہ تھا کہ جانوروں میں بھی حصول برکت و سعادت کا وہ جذبہ لطیف پیدا ہو گیا جو انسانوں ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔ وذکر حدیث ابن عباس وجابر فی باب الاضحیۃ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیثیں باب الاضحیۃ میں ذکر کی جا چکی ہیں۔

قربانی کا گوشت

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد اس حال میں صبح نہ ہو کہ اس کے گھر میں قربانی کا گوشت موجود ہو یعنی قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ رکھے پھر جب دوسرا سال آیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی ایسا ہی کریں جیسا کہ پچھلے سال کیا تھا؟ (یعنی گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی قربانی کا گوشت تین دن کے بعد نہ رہنے دیں) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کر کے رکھو، دراصل پچھلے سال لوگ محنت و مشقت اور محتاجگی میں مبتلا تھے اس لئے میں نے جمع کرنے سے منع کر کے یہ چاہا تھا کہ تم لوگ ان ضرورت مندوں کی مدد کرو (اور اب چونکہ ایسی ضرورت و حاجت نہیں رہی ہے اس لئے اگر تم قربانی کا گوشت جمع رکھنا چاہتے ہو تو تمہیں اس کی اجازت ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 ایک سال مدینہ اور آس پاس کے علاقوں میں شدید قحط پڑا تھا، اس موقع پر باہر کے رہنے والے بڑی کثرت کے ساتھ مدینہ آ گئے تھے جن سے سارا مدینہ بھر گیا تھا، اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ لوگوں کے پاس جتنا گوشت ہو تقسیم کر دیں، جمع کر کے نہ رکھیں۔ پھر آئندہ سال جب تقسیم کی حاجت و ضرورت نہ رہی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمع رکھنے کی اجازت دے دی۔

 

 

٭٭ حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہم تمہیں قربانی یا ہدی کے گوشت کے بارے میں اس بات سے منع کرتے تھے کہ تم اسے تین دن سے زیادہ کھاؤ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وسعت ہو (یعنی تاکہ اس طرح تمہارے فقراء بھی اس گوشت سے فائدہ اٹھائیں) اب اللہ تعالیٰ نے وسعت بخش دی ہے اس لئے تم (جب تک جی چاہے) کھاؤ اور جمع رکھو نیز (اس گوشت کے صدقہ و خیرات کے ذریعہ) ثواب حاصل کرو اور یاد رکھو! یہ (چار) دن جو منیٰ میں گزارے جاتے ہیں کھانے پینے کے دن ہیں کہ ان ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے دن ہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ارشاد کے مطابق یہ ایام ذکر اللہ میں بہت زیادہ مشغول رہنے کے ہیں۔ آیت (فاذا قضیتم مناسککم فاذکروا اللہ کذکرکم آباءکم او اشد ذکرا)۔ یعنی جب تم اپنے حج کے افعال کی ادائیگی سے فارغ ہو چکو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو یعنی بہت زیادہ یاد کرنا۔