مشکوٰة شر یف

یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب

یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب

یمن  ان شہروں اور بستیوں کو کہتے تھے جن کا محل وقوع خانہ کعبہ کے دائیں سمت پڑتا تھا ، اب ایک مشہور تاریخی ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جو جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغربی گوشہ پر واقع ہے۔گوموجود عہد میں یمن ان تمام خطوی پر مشتمل نہیں ہے ،جن پر عہد سابق میں مشتمل تھا ، تاہم اس وقت کے مرکزی اور بڑے حصے اب بھی یمن ہی میں شامل ہیں۔ جو چیز یا جو شخص یمن کی طرف منسوب ہو اس کو  یمنی  بھی کہتے ہیں ،  یمان  بھی کہتے ہیں اور  یمانی  بھی بعض حضرات اس لفظ (یمانی) کوی کی تشدید کے ساتھ  یمانی  بھی بیان کرتے ہیں۔

 شام  ان شہروں اور بستیوں کو کہا جاتا تھا جن کو محل وقوع خانہ کعبہ کے بائیں سمت پڑتا تھا کیونکہ عربی میں شام بائیں جانب کو کہتے ہیں جیسا کہ دائیں طرف یمین یا ایمن کہا جاتا ہے ،شام اور مشام کا لفظ ہمزہ کے ساتھ بھی آتا ہے اور ہمزہ کے بغیر بھی ، شام اب بھی ایک مشہور ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے

 قرن  (ق اور رکے زبر کے ساتھ) ایک بستی کا نام ہم جو یمن میں واقع ہے ، یہ ایک شخص قرن بن رومان بن نامیہ بن مراد کے نام منسوب تھی ،جو حضرت اویس قرنی کے اجداد میں سے تھا۔ ایک قرن اور ہے (جس کو اب قرن المنازل کہا جاتا ہے) لیکن یہ  قرن  ر کے جزم کے ساتھ  قرن  ہے ، یہ دراصل ایک پہاڑی کا نام ہے جو مکہ سے تقریباً بیس میل کے فاصلے پر مشرقی جانب نجد جانے والے راستہ پر واقع ہے ، اہل نجد کی میقات یہی قرن ہے ،جوہری نے جو اس  قرن کو ر کے زبر کے ساتھ لکھا ہے اور حضرت اویس قرنی کو اسی طرف منسوب کیا ہے وہ ان کی غلط فہمی ہے۔

حضرت اویس قرنی کی فضیلت

حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، ایک شخص یمن سے تمہارے پاس آئے گا جس کا نام اویس ہو گا ، وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑے گا ، اس کے بدن میں سفیدی (یعنی برص کی بیماری) تھی۔ اس نے اللہ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بدن سے سفیدی کو ختم کر دیا ہاں صرف ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر سفیدی باقی رہ گئی ہے۔ پس تم میں سے جو شخص اس (اویس) سے ملے اس کو چاہئے کہ اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرائے ، ایک اور روایت میں یوں ہے کہ (حضرت عمر نے بیان کیا کہ) میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ، تابعین میں بہتر شخص وہ ہم جس کا نام اویس ہے اس کی ایک ماں ہو گی اور اس کے بدن پر برص کا نشان ہے ، پس تم اس سے اپنے لئے دعا مغفرت کرانا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا  ان الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ تھا کہ اہل و عیال میں سے صرف ایک ماں کے علاوہ اور کوئی یمن میں اس کا نہیں ہے اور اسی ماں کی خدمت وخبر گیری نے اس کو یمن سے چل کر یہاں میری زیارت و ملاقات کے لئے آنے سے باز رکھا ہے۔ اگر اس کو اپنی ماں کی تنہائی اور بے کسی کا فکر نہ ہوتا تو وہ ضرور میری خدمت میں حاضر ہوتا اور میری زیارت و صحبت کا شرف حاصل کرتا۔

 ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر  یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک درہم کے بقدر فرمایا تھا یا ایک دینار کے بقدر کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے ، بہرحال دعا کے نتیجہ میں برص کا ختم ہو جانا اور ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر معمولی سا نشان باقی رہ جانا شاید قدرت کی اس مصلحت کے تحت ہو گا کہ اس مرض کی کچھ نہ کچھ علامت باقی رہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا بہشتی لباس سفیدی اور چمک میں ناخن کی طرح تھا جو کبھی میلا نہیں ہوتا تھا پھر دنیا میں آنے کے بعد ان میں بھی اور ان کی نسل میں بھی اسی لباس کا ذرا سا نشان ناخن کی صورت میں باقی رہ گیا اور یا اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم پر برص کا وہ تھوڑا سا نشان اس مصلحت سے باقی رہنے دیا کہ وہ شرم کے مارے لوگوں میں خلط ملط رکھنے سے باز رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اویس قرنی گوشہ نشینی اور گمنامی کو اختیار کئے ہوئے تھے ، لوگوں کے درمیان خلط ملط رکھنے اور شہرت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اور ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ خود انہوں نے دعا کی تھی کہ پروردگار !میرے جسم پر اس مرض کا تھوڑا سا نشان باقی رکھئے تاکہ کر میں تیری نعمت کو یاد رکھوں اور اس کا شکر ادا کرتا رہوں کہ تو نے مجھے اس برے مرض سے نجات عطا فرمائی  تابعین میں سے بہترین شخص  حضرت اویس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بہترین تابعی اس اعتبار سے فرمایا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود تھے اور عذر شرعی نے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے باز رکھا تھا ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں حضرت اویس کی مدح و تعریف ہے نیز اس ارشاد رسالت سے معلوم ہوا کہ اہل خیر و صلاح سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنی چاہئے اگرچہ درخواست کرنے والا ان اہل خیر و صلاح سے افضل ہو۔

اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تعریفی الفاظ حضرت اویس قرنی کا دل خوش کرنے کے لئے ارشاد فرمائے تھے اور اس کا مقصد ان لوگوں کے واہمہ کا دفعیہ جو شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ اویس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے اور شرف زیارت و صحبت حاصل کرنے سے قصداً اعراض کر رہا ہے۔ حالانکہ خدمت رسالت میں ان کے حاضر نہ ہونے کی وجہ ماں کی دل داری اور ماں کی خدمت و خبر گیری کا عذر شرعی تھا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تابعین میں سب سے بہتر حضرت اویس قرنی ہیں جب کہ حضرت امام احمد بن حنبل سے منقول ہم کہ تابعین میں سب سے بہتر اور افضل سعید بن مسیب ہیں ، لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حضرت سعید بن مسیب تو علوم دین اور احکام شرائع کی معرفت سب سے زیادہ رکھنے کے سبب تابعین میں افضل ہیں اور اللہ کے نزدیک ثواب کی کثرت کے اعتبار سے حضرت اویس قرنی تابعین میں افضل ہیں اور قاموس میں جو یہ لکھا ہے کہ اویس قرنی سادات تابعین میں سے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی پر محمول ہیں۔

حضرت اویس قرنی کی شان میں جو اور آثار و اخبار منقول ہیں اور جن کو سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے جمع الجوامع میں ذکر کیا ہم ، ان کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

سیوطی کہتے ہیں کہ اسیر بن جابر نے بیان کیا ہے ،جب تک حضرت اویس ، حضرت عمر فاروق کے پاس نہیں پہنچے تھے ، وہ (عمر فاروق) یمن سے آنے والے ہر اسلامی لشکر اور قافلے سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تمہارے ہاں کوئی شخص اویس بن عامر ہے ، اور جب حضرت اویس دربار فاروقی میں پہنچے تو حضرت عمر نے ان سے پو چھا ! کیا تم اویس بن عامر ہو؟ وہ بولے : ہاں میں اویس بن عامر ہوں ! پھر حضرت عمر نے پوچھا : کیا تم قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے ہو اور قرنی ہو؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں حضرت عمر نے پوچھا کیا تم کو برص کا مرض لاحق تھا اور پھر تم اچھے ہو گئے سوائے ایک درہم کے بقدر نشان کے؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں حضرت عمر نے پوچھا کیا تمہاری ایک ماں ہے؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں ! تب حضرت فاروق اعظم نے فرمایا ! میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہارے پاس ایک شخص اویس بن عامر اہل یمن کے اسلامی لشکر اور قافلے کے ساتھ آئے گا جو قبیلہ مراد سے تعلق رکھتا ہو گا اور قرن کا ہو گا ، اس کو برص کا مرض لاحق تھا جواب جاتا رہا ہے مگر ایک درہم کے بقدر نشان باقی رہ گیا ہے ، اس کی ایک ماں ہے جن کی خدمت و خبر گیری میں مصروف ہے۔ (ان کی شان یہ ہے کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم سچی کرتا ہے ، اگر تم سے ہو سکے اس سے درخواست کرنا۔ پس اے اویس میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے لئے دعاء مغفرت کرو ، (یہ سن کر) حضرت اویس بولے : امیر المؤمنین ! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں مجھ جیسا آدمی آپ کے لئے دعا مغفرت کرے؟ حضرت عمر نے فرمایا : یقیناً تمہیں میرے لئے دعا مغفرت کرنی ہے۔تب حضرت اویس قرنی نے فاروق اعظم کے لئے دعاء مغفرت کی۔ پھر فاروق اعظم نے پوچھا کہ : اویس ! اب بتاؤ کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں کوفہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حضرت عمر نے پوچھا : کیا تمہارے بارے میں کوفہ کے حاکم کو کچھ لکھ دوں؟ حضرت اویس بولے بس مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیجئے ، میں لوگوں سے دور اور درماندہ رہنا ہی اپنے لئے زیادہ اچھا سمجھتا ہوں اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دئیے۔ اگلے (کوفہ سے) ایک یمنی معزز شخص حج کے لئے آیا اور حضرت عمر کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضرت عمر نے اس سے حضرت اویس کے بارے میں پوچھا کہ کس حال میں ہیں؟ اس شخص نے بتایا کہ میں نے ان کو بہت پھٹے پرانے کپڑوں اور بے سر و سامانی کی حالت میں چھوڑا ہے ، حضرت عمر نے اس کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مذکورہ حدیث پڑھی۔چنانچہ وہ شخص جب واپس حضرت اویس کے پاس پہنچا تو ان سے دعائے مغفرت کی درخواست کی حضرت اویس نے اس سے کہا کہ تم بھی میرے لئے دعاء مغفرت کرو کیونکہ تم نیک سفر سے واپس آئے ہو، اس شخص نے پھر کہا کہ آپ میرے لئے دعا مغفرت کیجئے اور اس کے ساتھ اس نے حضرت عمر کی روایت کردہ حدیث ان کے سامنے پڑھی ، تب حضرت اویس نے اس کے لئے دعائے مغفرت کی ، اس کے بعد جب لوگوں کو حضرت اویس کا مقام معلوم ہوا اور ان کی حقیقت حال کا چرچا ہوا تو وہاں سے چلے گئے۔

ایک اور روایت میں یوں ہے : اسیر بن جابر نے بیان کیا کہ کوفہ میں ایک محدث تھے جو ہمارے سامنے احادیث بیان کرتے تھے ، جب وہ حدیثیں بیان کر کے فارغ ہوتے تو لوگ منتشر ہو جاتے تھے مگر چند آدمی اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے اور ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو بڑی عجیب و غریب باتیں کرتا تھا ویسی باتیں مجھ کو کسی زبان سے سننے کا موقع نہیں ملا تھا ، چنانچہ میں اس کے پاس بھی جا کر بیٹھ جایا کرتا تھا ، ایک دن میں نے اس شخص کو اس کی جگہ پر نہیں پایا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص اس آدمی کو بھی جانتا ہے جو یہاں ہمارے پاس بیٹھا کرتا تھا اور بڑی عجیب و غریب باتیں کرتا تھا ، ایک شخص بولا کہ ہاں میں اس آدمی کو جانتا ہوں ، وہ اویس قرنی ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم ان کی قیام گاہ کو جانتے ہو!وہ بولا کہ ہاں جانتا ہوں چنانچہ میں اس شخص کے ساتھ ہولیا اور اویس قرنی کے حجرہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ باہر نکلے تو میں نے پوچھا کہ میرے بھائی !ہمارے درمیان موجود رہنے سے کس چیز نے تمہیں باز رکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا عریانیت نے ، یعنی میرے پاس اتنے کپڑے نہیں ہیں جس سے اپنے جسم اور ستر کو پوری طرح چھپائے رکھوں اور اسی وجہ سے تم لوگوں کے درمیان آنے سے بچ رہا ہوں ، یہ حقیقت ہے کہ ان کے ہم وطن اور ان کے اردگرد کے لوگ ان کی خستہ حالی کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان کو ستانے سے بھی باز نہیں رہتے تھے۔ بہرحال میں نے اپنی چادر ان کو پیش کی اور کہا کہ لیجئے یہ چادر اوڑھ لیجئے ، انہوں نے کہا کہ نہیں تم یہ چادر مجھ کو مت دو اور جب لوگ میرے جسم پر اس چادر کو دیکھیں گے تو میرا مذاق اڑائیں گے اور مجھ کو ستائیں گے تاہم میں نے جب بہت زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے وہ چادر لے کر اوڑھ لی اور پھر اپنے حجرہ سے نکل کر لوگوں کے درمیان باہر آئے ، لوگوں نے ان کو چادر میں دیکھا تو کہنا شروع کیا کہ میاں کس کو دھوکہ دے دیا ، کس سے یہ چادر ہتھیا لی ہے۔ حضرت اویس نے یہ سن کر مجھ سے کہا کہ تم دیکھ رہے ہو ، لوگ کیا کہہ رہے ہیں اسی خوف سے میں چادر نہیں لے رہا تھا ، میں نے ان لوگوں کو ڈانٹا کہ آخر تم اس درویش سے کیا چاہتے ہو ، کا ہے کو اس کو ستا رہے ہو یہ بھی ایک انسان ہے جو کبھی بے لباس رہنے پر مجبور ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو لباس میں نظر آنے لگتا ہے ، غرضیکہ میں نے ان لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر ہٹا دیا ، پھر ایسا اتفاق ہوا کہ کچھ دنوں بعد کوفہ سے چند لوگ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں ایک وہ شخص بھی تھا جو حضرت اویس قرنی کا مذاق اڑایا کرتا تھا ، حضرت عمر نے دوران گفتگو ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کا تعلق قرن سے ہو ان لوگوں نے اس شخص کو آگے کر دیا جو حضرت اویس قرنی کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ حضرت عمر نے پہلے تو اس کے سامنے وہ حدیث پڑھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اویس کی شان میں فرمائی تھی اور پھر اس شخص سے بولے کہ میں نے سنا ہے کہ وہ یمنی شخص (یعنی حضرت اویس قرنی) کوفہ میں تم لوگوں کے ہاں پہنچا ہوا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ہمارے توایسا شخص کوئی نہیں ہے اور نہ ہم کو کسی ایسے شخص کو پہچانتے ہیں ، حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں ہو گا لیکن وہ شخص تمہارے ہی ہاں ہے اور پھر اس کی علامت بتلائی کہ وہ اس طرح خراب و خستہ حال ہے تب اس شخص نے کہا کہ ہاں ایک شخص ہمارے ہاں ہے ، اس کا نام اویس ہے اور ہم اس کا مذاق بھی اڑایا کرتے ہیں حضرت عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب تو کوفہ جاؤ تو اس شخص سے ضرور ملنا (اور اپنی گستاخیوں و بے ادبیوں کی معافی چاہ کر اس سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا) اگرچہ مجھ کو شبہ ہے کہ اب تم اس کو نہیں پاؤ گے یا نہیں ، بہرحال وہ شخص کوفہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اپنے گھر والوں کے پاس بعد میں گیا ، پہلے حضرت اویس قرنی کی خدمت میں پہنچا۔ حضرت اویس نے اس شخص کو دیکھا تو بولے میرے تئیں تمہارے رویہ میں یہ تبدیلی کیسی؟ اس شخص نے کہا میں نے آپ کی تعریف امیر المؤمنین سے سنی ہے آپ کے بارے میں انہوں نے مجھ کو سب کچھ بتا دیا ہے للہ ! آپ مجھے معاف فرما دیجئے ، مذاق اڑانے گستاخی کرنے والے اور بے ادبی کے ساتھ پیش آنے کی صورت میں میں نے آپ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے اس سے درگزر فرمائے ، اور میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے۔ حضرت اویس قرنی نے اس سے کہا کہ میں تمہارے لئے دعائے مغفرت کئے دیتا ہوں ، لیکن شرط یہ ہے کہ تم نے میرے بارے میں امیر المؤمنین حضرت عمر سے جو کچھ سنا ہے اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گے ، اس کے بعد انہوں نے دعائے مغفرت کی۔

اسیر ابن جابر جو اس کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت اویس کا مقام کوفہ والوں کو معلوم ہوا۔

ایک اور روایت میں حضرت یحییٰ بن سعید المسیب سے اور حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے بیان کیا : ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو آواز دی کہ اے عمر ! میں بولا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوں ،جو حکم ہو بجا لانے کو تیار ہوں ، حضرت عمر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مجھ کو آواز دی تو میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی کام سے مجھ کو کہیں بھیجیں گے ، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے یوں فرمایا : اے عمر ! میری امت میں ایک شخص جس کو اویس کہا جائے گا ، اس کے بدن کو ایک بلا یعنی برص کی بیماری لاحق ہو گی ، وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی اس بیماری کو دور کر دے گا مگر اس کا کچھ داغ اس کے پہلو پر باقی رہ جائے گا تم اس کو دیکھو گے تو تمہیں عزوجل یاد آ جائے گا۔ جب تم اس سے ملنا تو اس کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا کیونکہ وہ اپنے پروردگار کے ہاں ایسا معزز اور ایسا بزرگ ہے کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم سچی کرے وہ اللہ تعالیٰ سے اتنے زیادہ لوگوں کی شفاعت کرے گا جتنے ربیعہ اور مضر جیسے کثیر القوم قبیلوں میں بھی افراد نہیں ہیں حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ یہ ارشاد رسالت سننے کے بعد میں نے اس شخص کی تلاش آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں بھی کی مگر اس شخص کو نہیں پا سکا ، پھر میں نے حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں بھی اس شخص کی ٹوہ میں رہا ، مگر اس تک نہیں پہنچ سکا اور پھر جب میرا عہد امارت و خلافت آیا تو میں اور زیادہ تلاش و جستجو میں لگ گیا یہاں تک کہ مختلف شہروں اور علاقوں سے جو بھی قافلے آتے تو میں ہر ایک سے یہی سوال کرتا کہ کیا تم میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا نام اویس ہو ، قبیلہ مراد سے تعلق رکھتا ہو اور قرن کا ہو، اسی تلاش و جستجو کے دوران قرن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ امیر المؤمنین آپ جس شخص کو پوچھتے ہیں وہ میرے چچا کا بیٹا ہے لیکن وہ تو نہایت خستہ حال کم رتبہ اور بے حیثیت شخص ہے ، بھلا وہ اس درجہ کا کب ہے کہ آپ جیسی ہستی عظیم اس کا حال دریافت کرے۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ مجھ کو ایسا لگ رہا ہے کہ تو اس آدمی کی شان میں ایسے حقارت آمیز الفاظ استعمال کر کے ان لوگوں میں سے ہے جو اس کے تئیں گستاخانہ رویہ اختیار کرنے کے سبب ہلاکت میں پڑنے والے ہیں۔ میں اس شخص سے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک اونٹ آتا دکھائی دیا جس پر ایک بوسیدہ پالان بندھا ہوا تھا اور اس پالان میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہوا تھا جس نے پھٹے پرانے کپڑوں سے اپنے جسم کا کچھ حصہ ڈھک رکھا تھا ، اس کو دیکھتے ہی میرے دل میں آیا کہ یہی شخص اویس ہے ، پھر میں اس کی طرف لپکا اور اس سے پوچھا بندۂ  خدا! کیا تم ہی اویس قرنی ہو؟ اس شخص نے جواب دیا ہاں! میں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہیں سلام کہا ہے تھا : وہ شخص بولا : علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم السلام و علیک یا امیر المؤمنین ، اس کے بعد میں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم ہے کہ تم میرے لئے دعائے مغفرت کرو۔ اس کے بعد میرا معمول ہو گیا کہ ہر سال حج کے موقع پر اویس سے ملاقات کرتا ، اپنے احوال و اسرار ان سے بیان کرتا اور وہ اپنے حال و اسرار مجھ سے بیان کرتے۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت حسن بصری نے بیان کیا : جب حج کے دنوں میں قرن کے لوگ آئے تو امیر المؤمنین عمر نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں کوئی شخص اویس نامی ہے ، ان میں سے ایک شخص بولا کہ امیر المؤمنین ، بھلا اس شخص سے آپ کو کیا واسطہ؟ وہ تو ایک ایسا شخص ہے جو کھنڈرات میں پڑا رہتا ہے اور لوگوں کے درمیان آنے جانے سے اجتناب کرتا ہے ، حضرت عمر نے فرمایا : جب تو واپس جاؤ تو اس کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے کہنا کہ مجھ سے ملاقات کرے ، اس شخص نے واپس جا کر حضرت عمر کا پیغام پہنچا دیا اور حضرت اویس امیر المؤمنین !حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے ، حضرت عمر نے ان سے پوچھا اویس تم ہی ہو؟ وہ بولے : ہاں : اے امیر المؤمنین !حضرت عمر نے پوچھا : کیا تمہارے بدن پر سفیدی تھی اور تم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سفیدی کو تمہارے بدن سے دور کر دیا تھا اور پھر تم نے یہ دعا کی تھی کہ اس سفیدی کا کچھ نشان باقی رہے؟ اویس بولے ہاں: لیکن اے امیر المؤمنین یہ سب کچھ آپ کو کس نے بتایا؟ حضرت عمر نے کہا : مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا تھا اور مجھ کو حکم دیا تھا کہ میں تم سے اپنے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کروں ، چنانچہ حضرت اویس نے حضرت عمر کے لئے مغفرت کی دعا کی اور پھر بولے کہ اے امیر المؤمنین ! آپ سے بس اتنا چاہتا ہوں کہ آپ میری شخصیت اور میرے احوال کو پوشیدہ رکھیں ، اور مجھ کو یہاں سے واپس جانے کی اجازت عطافرمائیں ، چنانچہ حضرت اویس نے ہمیشہ اپنے آپ کو چھپائے رکھا تاآنکہ جنگ نہاوند میں شہید ہوئے۔

ایک روایت میں سعید بن مسیب نے اس طرح بیان کیا کہ (ایک سال حج کے موقع پر) امیر المؤمنین حضرت عمر نے منیٰ میں منبر پر کھڑے ہوئے آواز دی : اے اہل قرن !معمر قرنی لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے : ہم حاضر ہیں اے امیر المؤمنین ! کیا حکم ہے امیر المؤمنین عمر نے پوچھا ، کیا قرن میں کوئی ایسا شخص ہے جس کا نام اویس ہے؟ ان میں سے ایک معمر شخص نے جواب دیا ، ہم لوگوں کے درمیان رہنے والا کوئی شخص اس نام کا نہیں ہے ، ہاں ایک دیوانہ صفت کا نام اویس ضرور ہے جو جنگلوں میں رہتا ہے نہ کوئی اس کے ساتھ الفت و موانست رکھتا ہے اور نہ خود وہ کسی کے ساتھ صحبت و اختلاط کا روادار ہے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا ، بس وہی شخص میرا مطلوب ہے ،جب تم قرن واپس جاؤ تو اس شخص کو تلاش کر کے میرا سلام اس کو پہنچا دینا اور کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو تمہارے تئیں خوشخبری دی ہے اور مجھ کو حکم دیا تھا کہ میں تم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سلام پہنچاؤں ، چنانچہ جب وہ لوگ قرن پہنچے تو اویس کو تلاش کیا وہ ریگستانوں میں پڑے ہوئے پائے گئے ، ان لوگوں نے ان کو حضرت عمر کا سلام اور ان کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سلام پہنچا دیا ، حضرت اویس بولے ، امیر المؤمنین نے تو میرا چرچا کر دیا اور میرا نام کو شہرت دے دی۔ اسلام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و علی آلہ اور یہ کہہ کر لق و دق جنگل میں جا گھسے اور مدتوں کسی نے ان کا نام و نشان نہیں پایا یہاں تک کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے عہد خلافت میں پھر نمودار ہوئے اور ان کی طرف سے لڑتے ہوئے جنگ صفین میں شہید ہو گئے۔

صعصہ بن معویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں اس طرح ہے کہ انہوں نے بیان کیا اہل کوفہ کا کوئی بھی قافلہ جب حضرت عمر فاروق کے پاس آتا تو وہ اس سے پوچھتے کہ کیا لوگ اویس بن عامر قرنی کو جانتے ہو ، اہل قافلہ جواب دیتے !ہم میں سے کوئی اس نام کے شخص کو نہیں جانتا اور حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت اویس کوفہ کی ایک مسجد میں پڑے رہتے تھے وہاں سے نہ باہر نکلتے تھے اور نہ کسی سے کچھ تعارف رکھتے تھے ، ان کا ایک چچا زاد بھائی تھا جوان کو ستایا کرتا تھا۔ اتفاق کی بات کہ کوفہ کے ایک قافلہ میں وہ بھی شریک ہو کر ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے ہاں پہنچا تو حضرت عمر فاروق نے حسب معمول اہل قافلہ سے سوال کیا ! کیا تم لوگ حضرت اویس بن عامر قرنی کو جانتے ہو؟ یہ سوال سن کر حضرت اویس کا وہی چچا زاد بھائی اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا کہ یا امیر المؤمنین ! اویس اس درجہ کا آدمی نہیں ہے کہ آپ اس کے بارے میں پوچھیں اور اس کا تعارف حاصل کریں ، وہ تو نہایت کمتر اور بے حیثیت انسان ہے اگرچہ وہ میرا چچازاد بھائی ہے حضرت عمر نے اس شخص کی زبان سے یہ تحقیری کلمات سنے تو فرمایا ، تجھ پر افسوس ، تو نے اویس کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کر کے اپنی ہلاکت مول لے لی ہے پھر حضرت عمر نے وہ حدیث پڑھی جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت اویس کی شان میں سنی تھی ، اس کے بعد حضرت عمر نے اس شخص سے فرمایا کہ جب تم واپس پہنچو تو اویس کو میرا سلام کہنا ، اس واقعہ کے بعد حضرت اویس کی شخصیت مشہور ہو گئی لیکن وہ عام نظروں سے پوشیدہ ہو گئے۔

اس سلسلہ میں ایک روایت حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ پہلے تو دس سال تک حضرت عمر فاروق نے اویس قرنی کے بارے میں کوئی تلاش و جستجو نہیں کی ، پھر انہوں نے ایک سال حج کے دوران اہل یمن کو آواز دے کر کہا کہ تم میں جو لوگ قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں چنانچہ قبیلہ مراد کے لوگ کھڑے ہو گئے اور باقی لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے ، حضرت عمر نے ان (قبیلہ مراد کے لوگوں) سے پوچھا ! کیا تم میں کوئی شخص اویس نام کا ہے؟ یہ سن کر ایک شخص بولا کہ اے امیر المؤمنین !ہمیں نہیں معلوم آپ کس اویس کو پوچھ رہے ہیں ، ہاں میرا ایک بھتیجا ہے جس کو لوگ اویس اویس کہہ کر پکارتے ہیں اور وہ اس درجہ کا پست و بے حیثیت انسان ہے کہ آپ جیسی ہستی کو اس سے کیا سروکار ہو گا۔ حضرت عمر نے پوچھا کیا وہ حدود حرم میں موجود ہے؟ اس نے کہا ہاں ، میدان عرفات سے متصل اراک جھاڑیوں میں لوگوں کے اونٹ چرا رہا ہے (گویا حضرت اویس اپنی شخصیت چھپانے کے لئے لوگوں کے اونٹ چرا رہے تھے تاکہ ایک چروا ہے سے زیادہ کوئی اہمیت ان کو نہ دی جائے) حضرت عمر نے یہ سنا تو حضرت علی کو اپنے ساتھ لیا اور دونوں ایک گدھے پر سوار ہو کر اراک کی طرف روانہ ہو گئے ، وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اویس کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں اور اپنی نظریں سجدہ گاہ پر گاڑے ہوئے ہیں ان کو اس حالت میں دیکھ کر حضرت عمر اور حضرت علی نے آپس میں کہا کہ جس شخص کی تلاش میں ہم لوگ ہیں ہو نہ ہو یہ وہی شخص ہے ، حضرت اویس کے کانوں میں جب ان دونوں کی آہٹ پڑی تو انہوں نے نماز کو مختصر کر دیا اور فارغ ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوئے ان دونوں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے دونوں کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا : علیکم السلام و رحمۃ اللہ۔ پھر حضرت عمر اور حضرت علی مرتضیٰ نے پوچھا : برادرم ! تمہارا نام کیا ہے اللہ کی رحمت و سلامتی نازل ہو تم پر ! اویس بولے میں عبداللہ ہوں سیدنا علی المرتضیٰ نے کہا ، ہمیں معلوم ہے ، آسمانوں میں اور زمین پر جو بھی متنفس ہے ، وہ عبداللہ ہے۔ میں تم کو پروردگار کعبہ اور پروردگار حرم کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، تمہارا وہ نام کیا ہے جو تمہاری ماں نے رکھا ہے۔ حضرت اویس نے کہا تم لوگ مجھ سے آخر چاہتے کیا ہو ، میر انام اویس بن مراد ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی نے کہا : ذرا اپنا بایاں پہلو کھول کر دکھاؤ ، حضرت اویس نے اپنا بایاں پہلو کھول دیا ، ان دونوں نے دیکھا کہ اس جگہ ایک درہم کے بقدر سفیدی کا نشان موجود ہے۔ دونوں تیزی کے ساتھ اویس کی طرف لپکے تاکہ اس نشان کو بوسہ دیں اور بولے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سلام تمہیں پہنچائیں اور یہ کہ تم سے اپنے لئے دعاء مغفرت کی درخواست کریں۔ حضرت اویس نے کہا : میں تو مشرق و مغرب کے ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے دعا گو ہوں۔ ان دونوں نے فرمایا : ہم خاص طور پر اپنے لئے دعائے مغفرت کے طلب گار ہیں۔چنانچہ حضرت اویس نے بالخصوص ان دونوں کے لئے اور بالعموم تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کی ، اس کے بعد حضرت عمر نے فرمایا ، میں اپنی جیب خاص سے یا (بیت المال کے) اپنے عطیہ سے تمہیں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں حضرت اویس بولے یہ پھٹے پرانے کپڑے میرے پاس ہیں میری دونوں پاپوشیں گانٹھ دی گئی ہیں ، چار درہم بھی میرے پاس ہیں جب یہ اثاثہ ختم ہو جائے گا تو آپ کا عطیہ قبول کر لوں گا اور انسان کی بات تو یہ ہے کہ جو کوئی ہفتہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو مہینہ بھر تک کے لئے دراز ہو جاتی ہے اور جو کوئی مہینہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو سال سال بھر تک کے لئے دراز ہو جاتی ہے (یعنی انسان اگر قناعت کا دامن چھوڑ دے تو پھر اس کی آرزوئیں اور حرصیں بڑھتی چلی جاتی ہیں) اس کے بعد حضرت اویس نے اونٹوں کو ان کے مالکوں کے حوالے کیا اور خود وہاں سے ایسے روپوش ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دیکھے گئے۔

اہل یمن کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ (جب یمن سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی قوم کے لوگ خدمت رسالت پناہ میں حاضر ہوئے تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں جو (تمہارے پاس آنے والے اور لوگوں کی بہ نسبت) زیادہ رقیق القلب اور زیادہ نرم دل ہیں ایمان یمن کا ہے اور حکمت بھی یمنی ہے اور فخر (یعنی اپنے مال و منصب وغیرہ کے ذریعہ اپنی بڑائی مارنا) اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے ہے ،جب کہ اطمینان و تحمل اور وقار بکری والوں میں ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

ارق افئدۃ میں ارق کا لفظ رقۃ سے ہے جس کے معنی نرمی اور رحم و شفقت کے ہیں اور جو قساوت یعنی سنگ دلی و بے رحمی اور غلاظت یعنی سختی و کثافت کی ضد ہے۔ افئدۃ جمع ہے فؤاد کی جس کے معنی  دل  کے ہیں بعض حضرات کا تو یہ کہنا ہے کہ فؤاد دل کے باطن کو کہتے ہیں جب کہ بعض حضرات کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق ظاہر طور پر ہوتا ہے۔ بہرحال ارق افئدۃ کا مطلب یہ ہے کہ اہل یمن باطن کی حیثیت سے نرمی و شفقت اور رحم و مروت کا مادہ بہت زیادہ رکھتے ہیں اور الین قلوبا (نرم دل ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہل یمن بحسب ظاہر کے نصیحت و موعظت کا اثر اور لوگوں کی بہ نسبت جلد قبول کر لیتے ہیں قبول حق کی استعداد اور لوگوں کی بہ نسبت ان کے دل میں زیادہ ہے۔

 اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ افئدۃ جمع ہے فؤاد کی جس کے معنی  دل  کے ہیں اور قلوب جمع قلب کی ،جو تقلب سے ہے اور جس کے معنی ہیں ، پلٹنا یعنی ایک حالت چھوڑ کر دوسری حالت کی طرف آنا ، چونکہ اکثر اہل لغت نے فواد اور قلب کا ذکر ایک ہی معنی میں کیا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ حدیث میں ان دونوں کا ذکر تاکید کے لئے ہے۔ واضح ہو کر یہ حدیث باب وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم  کی تیسری فصل میں بھی نقل ہوئی ہے لیکن وہاں صرف ارق افئدۃ کے الفاظ ہیں لین قلوبا کے الفاظ نہیں ہیں اور اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ معنی کے اعتبار سے یہ دونوں جملے یکساں ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ فواد اصل میں دل کے پردہ کو کہتے ہیں جب یہ پردہ باریک ہوتا ہے تو حق بات اس میں داخل ہوتی ہے اور دل تک پہنچ جاتی ہے اور پھر جب دل نرم ہوتا ہے تو وہ حق بات اس کے اندر بھی داخل ہو جاتی ہے پس رقت غلظت کی ہے اور  لین  صلابت کی۔ اور یہ دونوں اسلامی دل کی ایک خاص کیفیت و حالت کا نام ہیں جب انسان کا دل اللہ کی اتاری ہوئی آیتوں اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے پند و نصائح سے متاثر نہیں ہوتا تو اس کو غلظت و صلابت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ، اور جب انسان کا دل ان سے متاثر ہوتا ہے اس کو رقت اور لین کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے یہاں علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ حدیث میں  رقت  سے مراد جودت فہم ہو اور لین سے مراد حق بات کا قبول کرنا ہو ،

 ایمان یمن کا ہے اور ............ یہاں یمانیۃ کا لفظ بعض روایتوں میں ی کی تشدید کے ساتھ یمانیۃ بھی منقول ہے ، بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایمان و حکمت کو یمن کے ساتھ اس اعتبار سے منسوب فرمایا کہ اس وقت کے دوسرے اہل مشرق کے مقابلے میں یمن کے لوگ سب سے زیادہ کمال ایمان کے ساتھ متصف تھے اور جیسا کہ باب بدء الخلق کی روایت میں گزرا یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ہی تھے ،جنہوں نے قبول اسلام کے لئے بمعنی لوگوں کی سربراہی کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضری کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے آفرنیش عالم ، ابتدائے کائنات اور اس سلسلے کے حکم و اسرار کے بارے میں سوال کر کے حکمت و دانائی سے یمنی لوگوں کی فطری وابستگی کا اظہار فرمایا اور یہ پھر حکمت و دانائی کا کمال انہی کا طفیل اور انہی کی وراثت تھی جس کا ظہور حضرت ابو الحسن اشعری کی ذات میں ہوا جو اہل سنت والجماعت ائمہ میں سے ہیں اور حضرت موسیٰ اشعری کی اولاد میں سے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہاں  حکمت  سے مراد  رفقہ فی الدین  ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ  حکمت  سے مراد منہ سے صرف ایسی نیک بات نکلنا ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید ہو اور ہلاکت و تباہی سے بچانے والی ہو۔

 اور فخر اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے ..... اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ حیوانات اور جانوروں کی مخالطت انسان کی طبیعت و سرشت پر اثر انداز ہوتی ہے جو انسان جس جانور کے ساتھ اپنا وقت زیادہ گزارتا ہے اس کے اندر وہ خصلت خود سرایت کر جاتی ہے جو اس جانور کی طبیعت و طینت کا خاصہ ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص اونٹوں کے درمیان رہتا ہے اور اونٹ چرانے کا کام کرتا ہے تو اونٹ کی سرشت میں قساوت و غلظت ہے اس لئے اس شخص کی خو اور اس کی عادات و اطوار میں بھی قساوت اور غلظت آ جاتی ہے ، اسی طرح بکری ایسا جانور ہے جس کی طبیعت میں تحمل نرمی اور مسکینی ہوتی ہے ، پس جو شخص بکریاں پالتا ہے ، بکر یاں کے درمیان رہتا ہے اور بکریاں چراتا ہے تو اس کی خو اور اس کے عادات و اطوار میں تحمل نرمی اور مسکین آ جاتی ہے ، اسی پر دوسرے جانوروں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے اور بعض حضرات نے یوں لکھا ہے کہ بکریاں پالنے والے اور بکریاں چرانے والے آبادی کے قریب رہتے ہیں اور بستی والوں سے خلط ملط رکھتے ہیں کیونکہ بکریاں پانی کے بغیرصبر نہیں کر سکتیں اور جاڑے وغیرہ کے سخت موسم کو برداشت کرنے کی تاب ان میں نہیں ہوتی۔ اور اس بناء پر وہ آبادی سے دور ویرانوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں نہیں جاتیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کی سرشت میں نرمی اور مسکینی اور کمزوری شامل ہوتی ہے اور یہ بعض آبادیوں میں اور لوگوں کے درمیان رہنا ایسی چیز ہے جو طبیعت میں نرمی و مروت پیدا کرتی ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف لے جاتی ہے اور اپنے حاکم کی سرکشی سے باز رکھتی ہے ، اس کے برخلاف اونٹ ایک ایسا سخت طبیعت جانور ہوتا ہے جو آبادیوں اور بستیوں سے دور میدانوں اور صحراؤں میں زیادہ رہتا ہے اور اسی سبب سے اونٹ والوں کو بھی آبادی سے دور رہنا پڑتا ہے اور لوگوں سے ان کا ملنا جلنا کم ہی ہوتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جو طبیعت میں سختی و درشتی ، طغیانی و سرکشی اور حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری سے انحراف کا مادہ پیدا کر دیتی ہے ، اس جملہ کی وضاحت میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اونٹ مالیت کے اعتبار سے بڑا اور قیمتی اثاثہ ہوتا ہے اس کے برخلاف بکری کم قیمت اثاثہ ہوتی ہے ظاہر جس شخص کے پاس اونٹ ہوں گے وہ اپنے کو زیادہ مالدار سمجھے گا اور یہ چیز اس میں غرور و تکبر پیدا کرنے والی ہو گی اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں گی وہ اپنے کو زیادہ مالدار نہیں سمجھے گا اور یہ چیز اس کے اندر نرمی و قناعت اور مسکینی پیدا ہونے کا باعث بنے گی۔

کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کفر کا سرا مشرق کی طرف ہے۔فخر و تکبر گھوڑے والوں، اور اونٹ والوں اور چلانے والوں میں ہے جو اونٹ کے بالوں کے خیموں میں رہتے ہیں (یعنی وہ لوگ جو آبادیوں میں سے دور جنگلات اور صحراؤں میں رہتے ہیں اور اس طرح کے لوگ اس زمانہ میں زیادہ تر اونٹ کے بالوں سے بنے خیموں میں رہتے تھے) اور نرمی و مسکینی بکری والوں میں ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

کفر کی چوٹی سے مراد  بڑا  کفر ہے جیسا کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے۔ اور یہ مفہوم مراد لینا زیادہ صحیح ہے کہ : کفر پیدا ہونے اور ظاہر ہونے کی جگہ مشرق ہے ، چنانچہ علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے رأس الامر الاسلام (دین کی چوٹی اسلام ہے) گویا  کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے کا مطلب یہ ہوا کہ کفر کا زیادہ ظہور مشرق کی سمت ہے اور ابن ملک نے یہی معنی لکھے ہیں کہ کفر اور دجال اور یاجوج و ماجوج جیسے بڑے فتنے مشرق کی طرف ظاہر ہوں گے اور علامہ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : کفر کو مشرق کے ساتھ مختص کرنے کا مطلب اہل مشرق پر شیطان کے زیادہ تسلط کو ظاہر کرنا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے اعتبار سے ہے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں مشرقی اقوم کفر و شرک میں بہت زیادہ مبتلا تھیں جیسا کہ تاتار ہندوستان چین اور جاپان وغیرہ کے لوگ اور یہ ممالک عرب سے مشرق کی جانب واقع ہیں) نیز اس کا اطلاق بایں اعتبار زمانہ آئندہ پر بھی ہو سکتا ہے کہ دجال کا خروج ظہور اس علاقہ سے ہو گا جو عرب کے مشرق میں ہے پس آخر زمانہ میں بھی عرب کا مشرق سب سے بڑے فتنہ کے ظاہر ہونے کی جگہ ہو گا ، اور سیوطی نے باجی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہاں  مشرق سے مراد فارس (ایران) ہے یا نجد ، اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس میں ابلیس کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ روایتوں میں آتا ہے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے (یعنی جب مشرق میں سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت شیطان اپنا سر سورج کے قریب کر دیتا ہے تاکہ سورج پرستوں کا سجدہ اسی کے لئے ہو جائے۔

فتنوں کی جگہ مشرق ہے

اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مشرق کی سمت ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ فتنے اس جگہ سے آئے ہیں اور بد زبانی و سنگدلی چلانے والوں اور خیمہ نشینوں میں ہے جو (اپنے مویشیوں کو چرانے کے لئے) اونٹوں اور گایوں کی دموں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، یہ لوگ ربیعہ اور مضر قبائل میں ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

فتنے اس جگہ سے آئے ہیں  یعنی وہ فتنہ جو دین کے استحکام و ترقی میں خلل ڈالے گا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا اور لوگوں کو دینی زندگی کے لئے امتحان و آزمائش کا موجب بنے گا ، ان علاقوں اور ملکوں سے اٹھے گا جو عرب کی مشرقی سمت میں واقع ہیں۔

 چلانے والوں اور خیمہ نشینوں  سے مراد یا تو اعراب ہیں یا دوسرے غیر مہذب قبائلی اور جنگلی لوگ ، ان کی مذمت اس اعتبار سے فرمائی گئی کہ اس طرح کے لوگ مہذب و متمدن دنیا سے دور ،شہروں اور آبادیوں سے بیگانہ پہاڑوں اور جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں جس کے سبب نہ ان کو علم کی روشنی میسر آتی ہے اور نہ تہذیب و تمدن کی خوشبو ان میں ہوتی ہے جبکہ شہروں اور آبادیوں میں رہنے سے اہل علم اور نیک بندوں کی صحبت نصیب ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ دین و شریعت کے علوم و احکام حاصل ہوتے ہیں بلکہ اخلاق و کردار اور مہذب اور نیک پاکیزہ بنتے ہیں، ایسے ہی غیر مہذب قبائلی اور جنگلی لوگوں کے بارے میں حق تعالیٰ نے فرمایا

الاعراب اشد کفرا ونفاقا واجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ

 جو اعراب (یعنی غیر مہذب دیہاتی اور جنگلی لوگ) ہیں وہ کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں ان کا حال ایسا ہونا ہی چاہیے کہ ان کو ان احکام کا علم نہیں ہے جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں۔

سنگدلی وبد زبانی مشرق والوں میں ہے

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سنگدلی اور سخت گوئی مشرق میں ہے (کیونکہ کفر اور فتنوں کا مصدر و مرکز اسی طرف کے علاقے ہیں) اور ایمان حجاز والوں میں سے۔ (مسلم)۔

 

تشریح

 

 حجاز  سے مراد مکہ مدینہ طائف اور ان سے متعلق شہر و آبادیاں ہیں جب کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہاں حجاز والوں سے مراد انصار ہیں۔ حجاز ملک عرب (جزیرۃ العرب) کے اس خطہ کو کہتے ہیں جو نجد اور تہامہ کے درمیان ہے اور اس خطہ کا نام حجاز اس اعتبار سے پڑا کہ یہ خطہ نجد اور تہامہ کے درمیان حاجز یعنی حائل ہے ، نجد جزیرۃ العرب کے شمالی اور جنوبی ریگستانوں یعنی النفوذ اور الرابع الخالی کے درمیان تقریباً آٹھ سو میل طویل اور سوا دوسو میل عریض اس خطہ کو کہتے ہیں جو سطح مرتفع پر مشتمل ہے نجد کے معنی بلند زمین کے ہیں اس کے مقابلہ پر اس ملک کا جو حصہ نشیب میں ہے اس کو  تہامہ کہا جاتا ہے تہامہ کے معنی پست زمین کے ہیں۔

شام اور یمن کی فضیلت

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں دعا فرمائی : خدایا !ہمیں ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما اور خدایا !ہمیں ہمارے (ملک) یمن میں برکت عطا فرما۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے نجد کے بارے میں بھی (دعا فرمائیے تاکہ ہمیں اس علاقہ کی طرف سے بھی برکت حاصل ہو) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر یہی دعا فرمائی : خدایا! ہمیں ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور خدایا ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (دوبارہ) عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم !ہمارے نجد کے بارے میں بھی (یہی دعا فرمائیے) راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ تیسری بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (پھر انہی الفاظ میں دعا کی اور نجد کے بارے میں) فرمایا وہاں زلزلے ہوں گے فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوتا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 دعا میں شام کے ذکر کو یمن کے ذکر پر مقدم رکھنا شاید اس بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد الذی بارکنا حولہ کے بموجب شام کی سر زمین جہاں فلسطین واقع ہے اپنی اصل کے اعتبار سے بابرکت ہے اور چونکہ یہی سر زمین بہت زیادہ انبیاء کرام کی آخری آرام گاہ ہے اس نسبت سے اس کا ذکر پہلے ہونا ضروری تھا ، واضح ہو کہ  شام میں برکت  سے مراد یا تو وہاں کی برکتوں میں اضافہ ہے یا ایسی برکت کہ جو اہل مدینہ اور تمام مؤمنین کو بالخصوص حاصل ہو ، اسی طرح  یمن میں برکت  سے ظاہری اور معنوی دونوں طرح کی برکتیں مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو ظاہر میں بھی خوشحال، پرامن اور فائدہ مند بنائے اور دینی و روحانی طور پر بھی وہاں کے لوگ دیندار اور صالح رہیں، چنانچہ یمن کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ مادی طور پر خوشحال اور زرخیز ملک بنایا بلکہ وہاں کی سرزمین نے بہت زیادہ اولیاء اور علماء بھی پیدا کئے۔

ایک قول کے مطابق ان دونوں ملکوں کے لئے برکت کی دعا کا ظاہری داعیہ یہ بھی ہے کہ اہل مدینہ کے لئے غلہ اور دوسری غذائی اشیاء انہی دونوں ملکوں سے آتی تھیں اور ایک شارح نے یوں لکھا ہے : آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یمن اور شام کے لئے برکت کی دعا اس بناء پر فرمائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت اور ظہور رسالت کی جگہ مکہ مکرمہ ہے اور مکہ مکرمہ یمن سے قرابت رکھتا ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مسکن اور مدفن مدینہ منورہ ہے اور مدینہ منورہ شام سے قرابت رکھتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی چیز یعنی یمن کی قربت مکہ سے اور شام کی قربت مدینہ سے ان دونوں کی فضیلت کے لئے کافی ہے ، اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں ملکوں کی اضافت اپنی طرف کر کے  ہمارا شام  اور  ہمارا یمن  فرمایا اور ان کی شان بڑھانے کے لئے ضمیر جمع استعمال فرمائی ، نیز ان کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار برکت کی دعا فرمائی۔

 وہاں زلزلے ہوں گے ….. میں وہاں کا مطلب نجد کی سمت ہے اور نجد کی سمت سے مراد وہی حجاز کی مشرقی سمت ہے جس کا ذکر پیچھے حدیث میں نحوالمشرق کے الفاظ میں آیا ہے  زلزلے سے مراد ظاہری زلزلہ بھی ہے اور معنوی زلزلہ بھی ، معنوی زلزلہ کا مطلب ہے وہاں کے لوگوں کے دلوں کا اتھل پتھل ہونا ، بے قرار ہونا اور روحانی چین و سکون کا ختم ہو جانا  فتنوں  سے مراد وہ آفات اور مصائب ہیں جن سے دین میں ضعف و کمزوری اور نیکی و دیانت میں کمی ہو جائے۔

 اور وہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوتا ہے  کا مطلب یہ تھا کہ نجد ہماری اس سمت میں واقع ہے جدھر کفر اور فتنوں کا زور ہے اور گویا نجد اس علاقہ میں ہے جہاں شیطان کی جماعت اور اس کے مدد گاروں کا ظہور زیادہ ہے ، لہذا ایسے علاقہ کے بارے میں برکت کی دعا کرنا موزوں نہیں ہے۔

اہل یمن کے بارے میں دعا

حضرت انس حضرت زید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یمن کی سمت نظر اٹھائی اور پھر یوں دعا فرمائی : خدایا اہل یمن کے دلوں کو متوجہ فرما اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں ہمارے لئے برکت عطا فرما۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 اہل یمن کے دلوں کو متوجہ فرما  یعنی ان کے دلوں میں ہماری محبت اور ہمارے پاس آنے کا خیال ڈال دے تاکہ وہ یہاں مدینہ آنے پر آمادہ و تیار ہو جائیں۔ واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا اس پس منظر میں فرمائی کہ اس وقت مدینہ کی غذائی ضروریات کے لئے غلہ یمن ہی سے آیا کرتا تھا اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعد میں غلہ کے لئے صاع اور مد میں برکت کی دعا فرمائی ، تاکہ زیادہ سے زیادہ غلہ یمن سے آئے۔

 صاع  اور  مد اس وقت کے دو پیمانوں کے نام ہیں جن کے ذریعہ غلہ کا لین دین ہوتا تھا صاع میں تقریباً ساڑھے تین سیر غلہ آتا تھا اور مد میں اس کا چوتھائی ، اور یہاں  صاع اور مد میں برکت  سے مراد غلہ میں برکت ہے گویا ظرف بول کر مظروف مراد لیا گیا ہے۔

تورپشتی نے اس دعا کی وضاحت میں یہ لکھا ہے کہ دعا کے دونوں حصوں ہی سے تنگ حال اور تنگ معاش چلے آ رہے تھے ، اب جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل یمن کے حق میں دعا فرمائی کہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر دار الہجرت مدینہ چلے آئیں تو چونکہ ان کی تعداد زیادہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اتنے زیادہ لوگوں کے آ جانے سے مدینہ کی معاشی حالت اور زیادہ تنگ و خستہ ہو سکتی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مدینہ کی غذائی ضرورت یعنی غلہ میں برکت کی دعا فرمائی تاکہ اہل مدینہ کو بھی معاش کی فراخی حاصل ہو اور ان لوگوں کو بھی جو اپنے وطن سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے ہوں ، اور اس طرح نہ تو مدینہ میں رہنے والے نئے آنے والوں کی وجہ سے تنگ و پریشان ہوں اور نہ ان لوگوں کے لئے مدینہ کا قیام دشواری و پریشانی کا سبب بنے جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔

اہل شام کی خوش بختی

اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ خوش بختی ہو اہل شام سے ہم نے پوچھا کہ وہ کس وجہ سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس وجہ سے کہ رحمن کے فرشتے شام کی سر زمین اور اس کے رہنے والوں پر بازو پھیلائے ہوئے ہیں (تاکہ وہ سرزمین اور اس کے لوگ کفر سے محفوظ رہیں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 رحمن کے فرشتے  کی لفظی ترکیب اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہاں فرشتوں  سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں اور حضرت شیخ عبدالحق نے یہ لکھا ہے کہ یہ جملہ  فرشتے اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہیں  اس بات سے کنایہ ہے کہ مخصوص اہل شام یعنی اس ملک میں رہنے والے ابدال پر یا تمام اہل شام پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و راحت چھائی ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ  فرشتوں کے بازو سے مراد صفات و قوائے ملکیہ ہیں ان کے بازوؤں کو اس دنیا کے پرندوں کے بازوؤں پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی پرندے کے تین چار سے زائد بازو نہیں ہوتے چہ جائیکہ چھ سو بازو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شب معراج میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے دیکھے تھے حاصل یہ ہے کہ یہ تو ماننا اور ثابت کرنا چاہئے کہ فرشتوں کے بازو ہوتے ہیں لیکن ان بازوؤں کی ماہیت و حقیقت اور کیفیت کی بحث اور بیان میں نہ پڑنا چاہئے۔

حضر موت کا ذکر

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عنقریب حضر موت کی سمت سے یا یہ فرمایا کہ حضر موت سے ایک آگ نمودار ہو گی اور وہ آگ لوگوں کو جمع کرے گی اور ہانک کر لے جائے گی۔ (یہ سن کر) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! پھر ہمارے بارے میں کیا حکم ہے یعنی اس وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کہاں چلے جانا چاہئے۔ آپ نے فرمایا تمہیں شام میں چلے جانا چاہئے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

  یا یہ فرمایا  یہ راوی کا شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  من نحو حضر موت  کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا  من حضر موت  فرمایا تھا تاہم اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نحو کا لفظ ظاہر میں استعمال نہیں فرمایا تو بھی من نحوہا یا من جانبہا کا ہی مفہوم مراد تھا ،  آگ  سے یا تو حقیقت میں یہی ظاہر آگ مراد ہے ، یا اس سے فتنے اور شرور مراد ہیں ، حضرموت اس وقت ایک شہر کا نام تھا جو یمن میں شامل تھا لیکن اب یہ ایک پورے علاقے کا نام ہے جس کی سرحدیں یمن کے قریب سے شروع ہو کر عمان کے قریب تک چلی گئی ہیں۔

 تمہیں شام میں چلے جانا چاہئے  کیونکہ شام کی سرزمین کو رحمت کے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں اس لئے وہاں کے رہنے والوں کو اس آگ سے خواہ وہ حسی یعنی ظاہری آگ ہویا معنوی و حکمی آگ یعنی فتنے اور شرور ، کوئی ضرر نہیں پہنچے گا واضح ہو کہ پیچھے قیامت سے متعلق ایک باب کی حدیث میں آگ کا ذکر آیا تھا جو لوگوں کو جمع کر کے محشر کی طرف لے جائے گی۔ اس میں  محشر سے مراد شام کی سر زمین ہے اور اس حدیث سے بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت لوگ براہ راست آگ کے اثر کے تحت ہوں گے شام کی طرف جانے میں ان کو اپنا اختیار نہیں ہو گا جب کہ یہاں تمہیں شام چلے جانا چاہئے کے الفاظ یہ مفہوم واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ شام کی طرف جانے میں ان کے اختیار کو دخل ہو گا۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدیث میں حضر موت کی طرف سے نمودار ہونے والی آگ مراد نہیں ہے بلکہ وہ فتنے اور شرور مراد ہیں جو آخر زمانہ میں رونما ہوں گے جن کو آگ  سے تعبیر کیا گیا ہے۔

شام کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی، پس بہترین شخص وہ ہو گا جو اس جگہ ہجرت کر کے جائے گا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہجرت کر کے گئے تھے۔ (یعنی شام میں اور یہاں وہ اس وقت ہجرت کر کے آئے تھے ، جب انہوں نے اپنے آبائی ملک عراق سے ترک وطن کیا تھا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ روئے زمین کے بہترین لوگ وہ ہوں گے جو اس جگہ ہجرت کر کے جانے کو خوب لازم پکڑیں گے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہجرت کر کے گئے تھے (یعنی ملک شام) اور (اس وقت) روئے زمین پر اس کے بدترین لوگ یعنی کفار و فجار رہ جائیں گے جن کو ان کے ملک سے نکال پھینکیں گے ، اللہ کی ذات ان کو پلید سمجھے گی اور آگ ان کو سوروں اور بندروں کے ساتھ اکٹھا کر کے ہانک لے جائے گی اور وہ آگ انہیں کے ساتھ رات گزارے گی جہاں ان کی رات آئے گی اور ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی  یعنی ایک ہجرت تو یہ ہے کہ لوگ اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ آ گئے ہیں اور پھر آخر زمانہ میں ایک ہجرت اس وقت ہو گی جب لوگ اپنے اپنے دین کی حفاظت اور اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے ملک شام کو ہجرت کریں گے اور بعض حضرات نے یہ مطلب لکھا ہے کہ مدینہ کی یہ ہجرت کوئی آخری ہجرت نہیں ہے ، ہجرتیں بار بار ہوں گی اور بہت ہوں گی، حدیث کے الفاظ و سیاق کی روشنی میں یہ مطلب زیادہ موزوں اور نہایت صحیح معلوم ہوتا ہے گویا اس زمانہ کی طرف اشارہ مقصود ہے جب قیامت بالکل قریب ہو گی، ہر سو فتنوں اور شرور کا دور دورہ ہو گا،شہروں اور آبادیوں میں اہل کفر و فسق کا غلبہ ہو جائے گا ، اسلامی ممالک میں بھی دین کے حامی نیکی کے حامل اور خدائی احکام و ہدایات پر قائم رہنے والے بہت کم رہ جائیں گے ، یہاں تک کہ شام کے شہر و قریہ ایک محفوظ و مامون قلعہ کی مانند باقی بچیں گے جن کی حفاظت پر اسلام کے لشکر مامون ہوں گے۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرے گا اور حق کو مدد پہنچائے گا اور آخر کار اسی لشکر کے لوگ دجال کا مقابلہ کر کے اس کو نیست و نابود کر دیں گے پس اس زمانہ میں جو شخص اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھنا چا ہے گا وہ ملک شام کو ہجرت کر کے اس کے کسی شہر یا قریہ میں جا بسے گا۔

 پس بہترین شخص وہ ہو گا ....... یہ گویا ما سبق جملہ میں جو اجمال تھا اس کی تفصیل ہے ، مطلب یہ کہ دین و ایمان کی حفاظت کے لئے ملک شام کو ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گا تو جن علاقوں اور شہروں میں اہل کفر و فسق کا غلبہ و تسلط ہو چکا ہو گا، وہاں کے خدا ترس دین پسند اور اپنے ایمان کو ہر حالت میں محفوظ رکھنے والے بہترین لوگ اپنا اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کر جائیں گے ، ہاں جن لوگوں کے ایمان میں ضعف ہو گا اور جو دین کے اعتبار سے ناکارہ و کمزور ہوں گے وہ اپنے گھر بار اپنی جائداد و دولت وغیرہ کی محبت و طمع میں اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف لڑائی سے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے وطن ہی میں پڑے رہیں گے اور ہجرت کر کے چلے جانے والوں کے وارث و جانشین بن جائیں گے پس وہ اپنی طبیعتوں اور نفسوں کی خست اور اپنے دین کی کمزوری کے سبب نہ صرف پاکیزہ نفسوں کے نزدیک ایک گھناؤنی و ذلیل چیز کی مانند ہوں گے ، بلکہ ان کی زمینیں ان کا ملک اور ان کا وطن تک ان سے بیزار ہو جائے گا کہ انہیں کسی جگہ سکون و قرار نہیں ملے گا ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر مارے مارے پھریں گے ، ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہو گی کہ خود حق تعالیٰ تو ان کو نہایت ناپسند رکھے گا ان کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا ، اپنے محل کرامت سے ان کا تعلق منقطع کر دے گا اور ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو کوئی شخص کسی ایسی چیز کے ساتھ کرتا ہے جس سے وہ گھن کھاتا ہے اور جس سے اس کی طبیعت نفرت کرتی ہو اور یہ اسی کا نتیجہ ہو گا کہ ان لوگوں کو ہجرت کی توفیق نصیب نہیں ہو گی اور خدا ان کو انہی کے ملکوں اور شہروں میں دشمنان دین (کفار) کے ساتھ پڑا رہنے دے گا گویا حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہو گا جو قرآن کریم کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔

ولکن کرہ اللہ انبعاثہم فثبطہم وقیل اقعدوا مع القعدین

لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے جانے کو پسند نہیں کیا اس لئے ان کو توفیق نہیں دی اور (بحکم تکوینی) یوں کہہ دیا گیا کہ اپاہج لوگوں کے ساتھ تم بھی یہاں ہی دھرے رہو۔

 اللہ تعالیٰ کی ذات ان کو پلید سمجھے گی اور آگ .... ان کے معنی ملا علی قاری نے تو یہ لکھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ان کو سخت ناپسند رکھے گی اور آگ کو ان پر مسلط کر دے گی جو دن رات ان کے ساتھ رہے گی اور ان کو کافروں کے ساتھ کہ اپنے  بڑھاپے کے اعتبار سے سوروں اور بندروں کی مانند ہوں گے جمع کرے گی اور ہانک کر چلے گی اور حضرت شیخ نے یہ لکھا ہے : ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند رکھے گا اور فتنے کی آگ کہ جو ان کے اعمال بد کا نتیجہ ہو گی یا آگ کہ جو اس وقت بندروں اور سوروں کے ساتھ پیدا  ہو گی ان سب کو ناپسند کرے گی اور ہانک کر لے چلے گی، نیز  سوروں اور بندروں  سے یا تو ان کی حقیقت اور صورت مراد ہے یا ان کی سیرت و خصلت اور ان کے عادات و اطوار کا اختیار کرنا مراد ہے اور زیادہ بد خو و بد کردار اور کفار مراد ہیں جو بندر اور سور کی مانند ہیں ،

 اور ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی ...... قیلولہ  دوپہر کے سونے کو کہتے ہیں ، حاصل یہ ہے کہ وہ آگ شب و روز ان کے ساتھ رہے گی اور کسی بھی وقت ان سے جدا نہیں ہو گی خواہ وہ کسی حالت میں ہوں۔

شام ، یمن اور عراق کا ذکر

اور حضرت ابن حولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے جب دین اور ملت کا یہ نظام ہو گا کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہو جائیں گے ایک لشکر شام میں ہو گا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، (یہ سن کر) ابن حولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سر زمین خدا کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی خدا نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سر زمین ہی کو پسند فرمایا ہے  پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم(جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی، اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون و محفوظ رکھے گا۔ (احمد ، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 جنودا مجندۃ (جدا جدا کئی لشکر) کے الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے وہ تمام لشکر کلمہ اسلام کی بنیاد پر تو باہم متحد د و متفق ہوں گے لیکن دینی اور ملی احکام و مسائل کی ترجمانی اور ان کے اختیار کرنے میں جدا جدا نقطہ نظر کے حامل ہوں گے۔

 عراق  سے مراد یا تو اس کا وہ عرب علاقہ ہے جس میں بصرہ اور کوفہ وغیرہ شامل ہیں یا اس کا وہ غیر عرب علاقہ مراد ہے جس میں خراسان اور ماورالنہر کو چھوڑ کر باقی دوسرے عجمی حصے شامل تھے۔

 تو اپنے یمن کو اختیار کرنا  اس میں یمن کی اضافت ان (حضرت ابن حولہ کے واسطہ سے عرب سامعین کی طرف اس بنا پر کی کہ اس وقت اس ارشاد رسالت کے براہ راست مخاطب عرب تھے اور یمن کا جغرافیائی اور علاقائی تعلق ملک عرب ہی سے تھا، واضح ہو کہ فاما ان ابیتم (پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا) کے الفاظ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں جو اس ارشاد رسالت کے ایک ہی سلسلہ کے دو حکم یعنی علیک بالشامتو (شام کو اختیار کرنا) اور واسقو ا من غدرکم (اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا) کے درمیان واقع ہوا ہے ، گویا اصل عبارتی تسلسل یوں تھا کہ : تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سر زمین خدا کی زمینوں میں سے برگزیدہ سرزمین ہے اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو) اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، اس عبارت کے درمیان آپ نے جملہ معترضہ کے طور پر یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی وجہ سے شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو پھر اپنے یمن ہی کو اختیار کرنا ،

اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا  غدر (اصل میں غدیر کی جمع ہے جس کے معنی حوض کے ہیں اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ شام میں پہنچ کر اس بات کا دھیان رکھنا کہ وہاں کے ملکی و ملی امن و انتظام میں تمہاری وجہ سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو، لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد سے اجتناب کرنا ، مثلاً پانی کی فراہمی کے سلسلہ میں جو ذریعہ تمہارے لئے مخصوص ہو اسی سے اپنے لئے پانی حاصل کرنا کسی دوسرے کے حصہ میں سے پانی لے کر دوسروں سے مزاحمت اور معارضہ کی صورت ہرگز پیدا نہ ہو  خصوصاً ان لوگوں سے جو دشمنان دین سے اسلامی مملکت کو محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی سرحد پر مامور و متعین ہوں تاکہ تم آپس میں نزع و اختلاف اور فتنہ انگیزی کا سبب نہ بن جاؤ۔

اہل شام پر لعنت کرنے سے حضرت علی کا انکار

حضرت شریح بن عبید تابعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ روایت کرتے ہیں کہ (ایک موقعہ پر) سیدنا علی کرم اللہ وجہ کے سامنے اہل شام کا ذکر کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اے امیر المؤمنین !شام والوں پر لعنت کیجئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے کہا : نہیں (میں اہل شام پر لعنت نہیں کر سکتا) حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے ابدال شام میں ہوتے ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں ،جب ان میں سے کوئی شخص مر جاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرے شخص کو مقرر کر دیتا ہے ان (ابدال) کے وجود و برکت سے بارش ہوتی ہے ، ان کی مدد سے دشمنان دین سے بدلہ لیا جاتا ہے ، اور انہیں کی برکت سے اہل شام سے (سخت) عذاب کو دفع کیا جاتا ہے۔

 

 

تشریح

 

 اہل شام کا ذکر کیا گیا ہے ، میں  اہل شام  سے مراد حضرت علی کرم اللہ وجہ کے مخالفین یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شام والوں میں سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حامی و مدد گار ہیں ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ملک شام کے حاکم (گورنر) مقرر ہوئے تھے ، اور آخر تک وہ شام پر حکومت کرتے رہے ، انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا اور شام میں خود مختار حکومت کے مالک ہو گئے تھے ، انہی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے شامی حامیوں کا ذکر برائی کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سامنے کیا ہو گا اور کہا کہ آپ اپنے ان مخالفین اہل شام پر لعنت کیجئے۔

 ابدال شام میں ہوتے ہیں  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بھلا میں اہل شام پر لعنت کیسے کر سکتا ہوں شام تو وہ سرزمین ہے جہاں ابدال ہوتے ہیں، اگر میں نے اہل شام پر لعنت کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان اہل شام کے ضمن میں ابدال بھی آ جائیں علماء اہل سنت کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا درحقیقت محاذ آرائی سے بچنے کے لئے اس وقت اہل شام پر لعنت کرنے سے گریز کرنا تھا تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ابدال کو مستثنیٰ کر کے باقی اہل شام پر لعنت کرنے کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جائز سمجھتے تھے جیسا کہ ان کے مذکورہ الفاظ سے ابتداء مفہوم ہوتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تو ایسا تصور بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خود انہی امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ارشاد ہے کہ: یہ (اہل شام) تو ہمارے بھائی ہیں جو ہم سے منحرف ہو گئے ہیں، اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر والے اپنے مخالفین یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر والوں میں سے ایک شخص کو پکڑ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لائے تو اس کو دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص بولا کتنی عجیب بات ہے (کہ یہ شخص مخالفین علی کے لشکر میں شامل ہے) میں تو اس آدمی کو اچھا مسلمان سمجھتا تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اس کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو فرمایا یہ تم کیا کہہ رہے ہو، اب بھی تو یہ شخص مسلمان ہی ہے ، ان کے علاوہ اور بھی ایسے آثار و اخبار منقول ہیں جن سے سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی نظر میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے حامی اہل شام کا مسلمان ہونا ثابت ہے۔

 اور انہی کی برکت سے اہل شام سے عذاب کو دفع کیا جاتا ہے  یہاں اہل شام کی تخصیص اس بناء پر ہے کہ ان ابدال کا جسمانی وجود اہل شام کے درمیان ہوتا ہے اور اس سبب سے اہل شام ان کی قربت اور ان کے ارتباط میں سب سے زیادہ رہتے ہیں ورنہ عمومی طور پر تو ان ابدال کی برکت و نصرت تمام عالم کو ہوتی ہے۔

واضح ہو کہ ابدال کے وجود کا ذکر اس حدیث میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہ کے حوالہ سے مذکور ہے شیخ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان حدیثوں کو نقل کیا ہے اور پھر ایک حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے نقل کی ہے جس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : خیار امۃ یعنی امت کے نیک ترین لوگ جو اس امت میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں ان کی تعداد پانچ سو ہے اور ابدال چالیس کی تعداد میں رہتے ہیں ، نہ پانچ سو کی تعداد کم ہوتی ہے اور نہ چالیس کی ، جب کوئی ابدال مر جاتا ہے تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ان پانچ سو خیار امت میں سے کسی ایک کو مقرر کر دیتا ہے (یہ سن کر) صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں بھی بتا دیجئے (کہ آخر وہ کیا عمل کرتے ہیں جس کے سبب ان کو یہ مرتبہ و مقام ملتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : وہ اس شخص کو معاف کر دیتے ہیں جو ان پر ظلم کرتا ہے ، اس شخص کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے ہیں جو ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو جو کچھ بھی دیتا ہے اس کے ذریعہ وہ فقراء و مساکین کی خبر گیری کرتے ہیں اور اس کی تصدیق قرآن کریم کی اس آیت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

الکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسین۔

(اعلیٰ درجہ کے اہل ایمان لوگ تو وہ ہیں) جو غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں (کی تقصیرات) سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو محبوب رکھتا ہے۔

اور روایت ابن عساکر نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے اس میں عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ کی طرف سے چالیس ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت آدم علیہ السلام کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے سات ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر ہیں ، اور اس کی طرف سے پانچ ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت جبرائیل علیہ السلام کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے تین ایسے لوگ مقرر ہوتے ہیں جن کے قلب میکائیل کے قلب پر ہیں ، اور اس کی طرف سے ایک ایسا آدمی مقرر ہوتا ہے جس کا قلب اسرافیل کے قلب پر ہے پس جب وہ آدمی مر جاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان پانچ آدمیوں سے کسی کو مقرر کر دیتا ہے ، اور جب ان پانچ آدمیوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان سات آدمیوں سے کسی ایک کو مقرر کر دیتا ہے اور جب ان سات آدمیوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان چالیس آدمیوں سے کسی ایک کو مقرر کر دیتا ہے اور جب ان چالیس آدمیوں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس جگہ پر اللہ تعالیٰ ان تین سو آدمیوں میں سے کسی ایک کو مقرر کر دیتا ہے ، اور جب ان تین سو آدمیوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ عوام میں سے کسی ایک آدمی کو مقرر کر دیتا ہے اور ان سب آدمیوں کے وجود کے سبب سے ہر بلا و آفت دفع کی جاتی ہے۔ اس حدیث کے ضمن میں بعض عارفین نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ذکر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا آدمی بھی مقرر ہوتا ہے جس کا قلب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک پر ہو اس کی وجہ سے زیادہ عزیز ، زیادہ با شرف اور زیادہ لطیف و پاکیزہ ہو، لہٰذا اللہ کے برگزیدہ ترین بندوں میں سے کسی کا قلب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک کے برابر و مقابل نہیں ہے ، خواہ وہ ابدال ہوں یا اقطاب۔

دمشق کا ذکر

صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے جب ملک شام کے شہر اور علاقہ (اسلامی لشکر کے ذریعہ) فتح کئے جائیں گے پس جب تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں مکانات بنانے اور رہائش پذیر ہونے کا اختیار دیا جائے تو تم اس شہر کو اختیار کرنا لازم جاننا جس کو  دمشق شہر) مسلمانوں کے لئے لڑائیوں سے پناہ کی جگہ ہے اور دمشق ایک جامع شہر ہے اور دمشق کی زمینوں (یعنی علاقوں) میں سے ایک زمین (یا علاقہ) ہے جس کو  غوطہ  کہا جاتا ہے (ان دونوں روایتوں کو امام احمد نے نقل کیا ہے)

 

تشریح

 

 صحابہ میں سے ایک شخص  اس حدیث کو جن صحابی نے روایت کیا ہے ان کا نام معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ تمام ہی صحابہ عدول ہیں اور کسی صحابی راوی کے نام کا معلوم نہ ہونا مطلق نقصان دہ نہیں ہے۔

 دمشق  اکثر قول کے مطابق د کے زیر اور میم کے زبر ساتھ ہی فصیح تر ہے۔ یہ شام کا مرکزی شہر اور پایہ تخت ہے۔

 لڑائیوں سے پناہ کی جگہ لفظ  معقل  کے معنی پناہ گاہ اور قلعہ کے ہیں، یہ لفظ عقل سے بنا ہے جس کے معنی ہیں روک رکھنا ، باندھنا ، اور ملاحم جمع ہے ملحمۃ کی ،جس کے معنی جنگ و جدل اور قتل و قتال کے ہیں، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ دمشق کے مسلمانوں کے لئے ایک مضبوط قلعہ اور پناہ گاہ ہے ،جو مسلمان اس شہر میں داخل ہو جاتے ہیں وہ دشمنان دین کے غلبہ وتسلط اور ان کے قتل و قتال سے اپنے آپ کو مامون بنا لیتے ہیں ،جس طرح کوئی بکری خود کو اپنے دشمن سے محفوظ رکھنے کے لئے پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے اور کسی پہاڑی چوٹی کو اپنی پناہ گاہ بنا لیتی ہے۔

 دمشق ایک جامع شہر ہے  فسطاط(بعض روایتوں کے مطابق فسطاط) جامع شہر کو کہتے ہیں یعنی ایسا شہر جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے اندر جمع کرے ، اسی لئے مصر کو بھی فسطاط کہتے ہیں ویسے فسطاط خیمہ اور ڈیرے کے معنی میں بھی آتا ہے۔

 جس کو غوطہ کہا جاتا ہے غوط ان باغات اور پانی کے چشموں کا نام ہے جو شہر دمشق کے گردا گرد ہیں اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ دمشق شہر کے قریب ایک بستی کا نام  غوطہ  ہے۔

خلافت مدینہ میں اور ملوکیت شام میں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  خلافت مدینہ میں ہے اور ملوکیت یعنی بادشاہت شام میں

 

تشریح

 

  خلافت مدینہ میں ہے کا مطلب یہ ہے کہ خلافت کا پایۂ تخت غالب عرصہ تک مدینہ میں رہے گا  غالب عرصہ  کی قید اس لئے ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنا پایۂ  تخت کوفہ کو بنا رکھا تھا ، یا پھر اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ خلافت مستقرہ مدینہ میں ہے۔

 ملوکیت یعنی بادشاہت شام میں ہے اس جملہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام حسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب خلافت سے دست کشی اختیار کر لی اور امور مملکت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر آئے تو بھی امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ نہیں ہوئے۔ اس کی تائید میں اس روایت کو پیش کیا جا سکتا ہے جو احمد ، ترمذی ، ابو لیلی ، اور ابن حبان نے نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا : میرے بعد میری امت میں خلافت کا زمانہ بس تیس سال تک رہے گا اس کے بعد پھر ملوکیت و بادشاہت آ جائے گی ،

بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلافت اور حضرت امیر معاویہ کی ملوکیت و  بادشاہت کی طرف اشارہ ہے واضح ہو کہ ایک اور حدیث میں  ملک  یعنی ملوکیت و بادشاہت کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص و اوصاف میں ہوا ہے اس میں یوں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مولد یعنی جائے پیدائش تو مکہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مہاجر یعنی جائے ہجرت مدینہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ملک یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بادشاہت شام میں ہے ، تو اس حدیث میں  ملک سے مراد نبوت و دین ہے ، مطلب یہ کہ یوں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اور آپ کا دین تمام عالم پر ظاہر ہو گا ، لیکن آپ کی نبوت کا فیضان اور آپ کا دین آخر میں جس جگہ سب سے غالب صورت میں ظاہر ہو گا وہ ملک شام ہے ، اور بعض حضرات نے  آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ملک یعنی بادشاہت شام میں ہے  کی مراد یہ بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کی سربلندی کے لئے جہاد و قتال کی سب سے بڑی جگہ ملک شام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل شام دشمنان دین کے خلاف برسر پیکار اور مصروف جہاد ہوں گے اور اس طرح اس جملہ میں مسلمانوں کے لئے ترغیب ہے کہ وہ آخر زمانہ میں جہاد اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی فضیلت و سعادت کے جویا ہوں تو شام کی راہ پکڑیں ،