جزیرۃ اصل میں زمین و خشکی کے اس قطعہ کو کہتے ہیں جس کو چاروں طرف سے پانی نے گھیر رکھا ہو اور جزیرۃ العرب اس علا قے کو کہتے ہیں جس کو بحر ہند، بحر شام اور دجلہ و فرات نے گھیر رکھا ہے، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جزیرۃ العرب کا اطلاق عرب دنیا کے اس خطہ ارض پر ہوتا ہے جو لمبائی میں عدن سے شام کی سرحد تک اور چوڑائی میں جدہ سے ریف عراق تک پر مشتمل ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) جب کہ ہم لوگ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے حجرہ مبارکہ سے) برآمد ہوئے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ چنانچہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ یہودیوں کے مدرسہ میں پہنچے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا اے جماعت یہود ! تم لوگ مسلمان ہو جاؤ تاکہ (دنیا کی پریشانیوں اور آخرت کے عذاب سے سلامتی پاؤ ! تمہیں جان لینا چاہئے کہ زمین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہے (یعنی اس زمین کا خالق و مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا رسول اس کا نائب و خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اس زمین پر متصرف و حکمران ہے) لہٰذا (اگر تم مسلمان ہونے سے انکار کرتے ہو تو پھر) سن لو کہ (میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ تم کو اس زمین (یعنی جزیرۃ العرب) سے جلا وطن کر دوں، پس تم میں سے کوئی شخص اپنے مال و اسباب میں سے (کوئی ایسی) چیز رکھتا ہو (جس کو اپنے ساتھ لے جانا ممکن نہیں ہے جیسے جائداد غیر منقولہ وغیرہ) تو اس کو چاہئے کہ وہ اسے فروخت کر دے۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) امیر المؤمنیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور (اس خطبہ میں) فرمایا کہ (تم سب جانتے ہو گے کہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے مال و جائداد سے متعلّق ایک معاملہ طے فرمایا تھا (اور وہ یہ کہ ان یہودیوں کو خیبر ہی میں رہنے دیا جائے گا نیز ان کے کھجوروں کے باغات اور کھیت کھلیان کو بھی انہی کی تحویل و ملکیت میں باقی رکھا جائے گا البتہ ان کی پیداوار اور آمدنی میں سے آدھا حصہ لیا جایا کرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر اسی طرح جزیہ بھی مقرر کیا تھا) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اسی وقت) ان یہودیوں سے فرما دیا تھا کہ ہم تمہیں (خیبر میں) اس وقت تک رہنے دیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں رہنے دے گا (یعنی تم لوگ اس وقت تک خیبر میں مقیم رہنے کے حق دار ہو گے جب تک کہ ہمیں اللہ تعالیٰ تم کو جلا وطن کر دینے کا حکم نہ دے دے) لہٰذا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ) اب میں ان کو جلا وطن کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کا فیصلہ کر لیا (کہ ان کو جلا وطن کر دیا جائے) تو (ان یہودیوں کے) قبیلہ بنی ابی الحقیق کا ایک شخص (جو اپنی قوم کا بڑا بوڑھا سردار تھا) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ امیر المؤمنین ! کیا آپ ہمیں جلا وطن کر رہے ہیں حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ہمیں (خیبر میں) رہنے دیا تھا، اور ہمارے مال و اسباب سے متعلّق ہم سے ایک معاملہ بھی طے کیا تھا !؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی (یہ) بات بھول گیا ہوں (جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم کو مخاطب کر کے کہی تھی) کہ اس وقت تیرا کیا حال ہو گا اور تو کیا کرے گا جب تجھ کو خیبر سے جلا وطن کر دیا جائے گا اور رات کے بعد رات میں تیری اونٹنی تیرے پیچھے دوڑ رہی ہو گی (گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تجھ کو اس آنے والے وقت سے ڈرایا تھا جب تجھ کو راتوں رات خیبر سے نکل جانا پڑے گا) اس شخص نے (یہ سن کر) کہا کہ یہ بات تو ابو القاسم صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور مذاق کہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے خدا کے دشمن، تم جھوٹ بکتے ہو (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات مذاق کے طور پر نہیں کہی تھی بلکہ از راہ معجزہ تمہیں ایک غیبی بات کی خبر دی تھی) اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا اور ان کے پاس از قسم میوہ جو کچھ تھا جیسے کھجوریں وغیرہ ان کی قیمت میں ان کو مال، اونٹ اور اسباب جیسے رسیاں اور پالان وغیرہ دے دیئے۔ (بخاری)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (وفات کے وقت) تین باتوں کی وصیت کی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب (یعنی مکہ اور مدینہ سے باہر نکال دینا اور قاصدوں اور ایلچیوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا جو میں کیا کرتا تھا (یعنی وہ جب تک تمہارے پاس رہیں ان کی دیکھ بھال کرنا اور انہیں انکی ضروریات زندگی مہیّا کرنا) ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے تیسری بات سے خاموشی اختیار کی، یا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تیسری بات کو میں بھول گیا ہوں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ وہ تیسری بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہو کہ لاتتخذوا قبری وثنا یعبد یعنی میری قبر کو بت (کی طرح) نہ قرار دینا جس کی پوجا کی جائے۔ اس ارشاد کو امام مالک نے اپنی کتاب مؤطا میں نقل کیا ہے۔
اور حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے ضرور باہر نکال دوں گا یہاں تک کہ مسلمانوں کے سوا (جزیرہ عرب میں) کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ (مسلم)
اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا کہ اگر میری زندگی رہی تو میں انشاء اللہ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے ضرور باہر نکال دوں گا۔
لیس فیہ الاّ حدیث ابن عباس لایکون قبلتان وقد مرفی باب الجزیۃ
( مصابیح کی) دوسری فصل میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صرف یہ ایک حدیث لایکون قبلتان الخ تھی اور وہ جزیہ کے بیان میں نقل کی جا چکی ہے
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سر زمین حجاز یعنی جزیرۃالعرب سے یہود و نصاریٰ کی جلا وطنی کا کام حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں انجام پایا۔ (اس سے پہلے) جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اہل خیبر پر غلبہ حاصل ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کو خیبر سے نکال دینے کا ارادہ کیا تھا کیونکہ (جس بھی) زمین پر (دین حق کو) غلبہ حاصل ہوتا ہے وہ زمین اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کی ہو جاتی ہے (کہ وہاں صرف اللہ ہی کا دین غالب اور مسلمانوں ہی کو حق تصرف و حکمرانی حاصل ہوتی ہے) لیکن یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان (یہودیوں کو) اس شرط پر (خیبر کی زمینوں پر قابض و متصرف) رہنے دیں کہ وہ محنت کریں (یعنی باغات کی دیکھ بھال اور ان کی سیرابی وغیرہ کا سارا کام کریں گے) اور (ان سے پیدا ہونے والے) پھلوں کا آدھا حصہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہو گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان کی یہ درخواست منظور کر لی لیکن یہ) فرمایا کہ ہم تمہیں اس شرط پر (خیبر میں) اسی وقت رہنے دیں گے جب تک کہ ہم چاہیں گے اس کے بعد ان کو خیبر میں رہنے دیا گیا یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ان سب کو تیماء اور اریحاء کی طرف جلا وطن کر دیا۔ (بخاری و مسلم)